تیرہواں جلسہ
قانون کے سلسلے میں اسلام اور یورپ کے درمیان بنیادی فرق
۱۔گذشتہ مطالب پرایک نظر
جیسا کہ گذشتہ جلسوں میں بیان کیا جا چکا ہے کہ ہماری بحث کا موضوع اسلام کے سیاسی نظریہ کو بیان کرنا ہے، اور اس نظریہ کو بیان کرنا کچھ وضع شدہ اصول اور کچھ مقدموں پر مبنی ہے کہ جن کی بنیادپر ہماری بحث قائم ہوئی ہے اور ہم سب سے اہم مقدموں کو مدنظر رکھتے ھنئے اپنی بحث کو آگے بڑھائیں گے اور وہ تین مقدمہ درج کئے جارہے ہیں :
۱۔ انسان کی اجتماعی زندگی بغیر قانون کے مکمل نہیں ہوسکتی، یعنی انسان کی اجتماعی زندگی کے لئے قانون کی سخت ضرورت ہے۔
۲۔قانون کو قانون گذاری کی ضرورت ہوتی ہے کہ جس کی وجہ سے مناسب قوانین کو وضع کر کے قانون کے اغراض و مقاصد کو مکمل کیا جاسکے۔
۳۔قانون کو بنائے جانے کے بعد اس پر عمل درآمد کرانے کے لئے ایک طاقت کا ہونا ضروری ہے کہ اگر کوئی قانون کی مخالفت کر نا چاہے تو اس کو قانون کا پابند بنانے کےلئے اس طاقت کا استعمال کیا جائے۔
ھر ایک معاشرہ کیلئے قانون کا ہونا ضروری ہے اس موضوع کے بارے میں ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ ہر زمانہ میں تقریباً تمام انسانوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے اور شاید بہت کم ہی ایسے اسلامی محقق ہوں گے جو معاشرہ کیلئے قانون کے قائل نہ ہوئے ہوں ، البتہ کچھ گنے چنے افراد کا یہ عقیدہ ہے کہ اخلاقی قدر وقیمت کا ہونا ہی معاشرہ کو قوانین حقوقی سے بے نیاز کردیتا ہے۔
لیکن یہ ایک نمونہ آئیڈیل اور آرزو ہی ہے اور ہر گز تاریخ میں کوئی ایسا اتفاق پیش نہیں آیا کہ تمام افراد اخلاقیات پر ہی گامزن ہوگئے ہوں اور مستقبل میں بھی کسی ایسے وقت کا امیدوار نہیں رہا جاسکتاکہ تمام افراد ااخلاقی اصولوں کی اس طرح رعایت کریں کہ پھر ان کو حقوقی قوانین کی ضرورت نہ رہے، لھٰذا ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ وہ تمام محققین جو اسلام کے سیاسی نظریہ کو بیان کرنے کا قصد رکھتے ہیں ان سب نے قانون کی اصل ضرورت کو تسلیم کیا ہے اور ہم اس بارے میں جس مسئلہ پر بحث کرکے ایک دوسرے کی موافقت چاہتے ہیں وہ مسئلہ یہ ہے کہ جس قانون کو ہم معاشرہ میں رائج کرنا چاہتے ہیں اس قانون کی کیا خصوصیات ہیں ؟یعنی ہم یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ اصل قانون کی ضرورت ہے لیکن کیا معاشرہ میں بیان ہونے والے ہر قانون کا ہونا کافی ہے اور وہ معاشرہ کو فلاح و بھبود تک پہونچاسکتا ہے یا ایسا نہیں ہے، بلکہ بہت ر قانون کو خاص خصوصیات کا متحمل ہونا چاہیے؟ ہم اس بارے میں مختلف نظریات کو بیان کر چکے ہیں :
کچھ افراد کا کہنا ہے کہ قانون کو عادلانہ ہونا چاہئیے اس صورت میں قانون کی خاصیت اس کا اصول عدالت پر مبنی ہونا چاہئیے، کچھ دوسرے افراد کھتے ہیں کہ قانون کو مصالح اجتماعی کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہونا چاہئیے، اور آخر میں تیسرے گروہ کا کہنا ہے کھ: قانون صرف معاشرہ کے نظم و امنیت کی ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے ہوتا ہے، یورپ میں ان تین نظریوں کو سب سے مشہور و معروف نظریے ماناجاتا ہے۔
اس کے برخلاف خدا پرستوں کے نظریہ مخصوصاً ا سلام کے ماننے والوں کے نظریے، جو کھتے ہیں کہ قانون کو انسانوں کی دنیوی اور اخروی مصالح کا حامل ہونا چاہئیے، صرف لوگوں کی خواہش، نظم اور امنیت کا خواہاں نہیں ہونا چاہئیے بلکہ قانون کو ایسا ہونا چاہئیے جو دنیا اور آخرت میں انسانوں کی مصلحتوں کو مدّ نظر قرار رکھتا ہو، قانون ایسا نہ ہو کہ جس سے معاشرہ کی تمام مصلحتیں چاہے و ہ مادی اعتبار سے ہوں یا معنوی اعتبار سے چاہے دنیوی اعتبار سے ہوں یا اخروی اعتبار سے یہ سب خطرہ میں پڑ جائیں ، یعنی اگر قانون ان مصلحتوں میں سے کسی ایک مصلحت کے لئے خلل بن رہا ہو ، تو وہ قانون بے کار ہے، اور وہ انسان اور معاشرہ کی ضروتوں کو پورا نہیں کرسکتا، اس بارے میں بہت زیادہ بحث کی جا چکی ہےں ، لیکن اب بھی کچھ تحصیل کرنے والے گروہ اور صاحب نظر افراد کے اذہان عالیہ میں شبھات باقی رہ گئے ہیں لھٰذا اس مسئلہ کوخصوصی توضیح دینا ضروری و لازم ہے۔
۲: فردی آزادی اور قانون کے درمیان رابطہ
آجکل ریڈیو، ٹیلیویژن، اخباروں اور تقریروں میں اس نکتہ پر بہت زیادہ تاکید کی جارہی ہے کہ فردی آزادی اتنی اہم ہے کہ جس کو کوئی قانون محدود نہیں کر سکتا، اور ان آزادیوں میں کسی شخص کو رخنہ ڈالنے کا کوئی حق نہیں ہوتا یعنی فردی آزادیوں کی حفاظت کرنا یہ قانون سے بالاتر ہے اور جو قانون فردی آزادیوں میں مانع ہوتو ایسے قانون کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اب ہمارے لئے اس نظریہ کی تحقیق و جستجو کرنا لازمی ہوگیا ہے تاکہ ہم اس کی تحقیق و جستجو کے بعد اس سے منطقی اور علمی نتیجہ حاصل کر سکیں درحقیقت یہ طرز فکر یورپی ثقافت کی پیداوار ہے جسکو ہم بالکل پسند نہیں کرتے، اور اس سے اجتناب کرتے ہیں اور ہمارے حکومتی ذمہ دار حضرات نے معاشرہ میں اس طرح کی ثقافت کے رائج ہونے سے خبر دار کیا ہے، ہم اصلی بحث کو بیان کرنے سے پہلے مقدمہ کے طور پر کچھ موضوعات کو بیان کر رہے ہیں تاکہ ان کے ذریعہ اسلام کے نظریات آسانی سے مل جائیں گے۔
یورپی ثقافت کی بنیادکچھ عناصر پر ہے اور انسان مداری یا انسان محوری کی طرف جھکاؤ کو اس ثقافت کا سب سے پہلا،اور اصلی وبنیادی عنصر مانا جاتا ہے، یورپ میں ”ھیومانیزم“( Humanism ) درمیانی صدیوں کے آخری زمانہ کے مشہور و معروف رائیٹر اور ادباء جیسے اٹلی کے ”ڈانٹا“ کے ذریعہ ایجاد ہوئی، درحقیقت یہ نظریہ مسیحیت سے پہلے موجود تھا۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ عیسائیت مشرقی ممالک اور فلسطین میں پھیلی ، قبل اس کے کہ عیسائیت یورپ میں پہونچے ، یورپی معاشرہ بت پرست تھا، اور اس زمانہ کے سب سے اہم امپراطور (روم کے پادشاہوں کے القاب) رومی تھے جس میں شرقی روم (موجودہ ترکی) اور غربی روم (اٹلی) شامل تھے،ان ممالک میں یھودیوں کو چھوڑ کر بقیہ سب کے سب افراد بت پرست تھے ان کے معاشرہ میں مسیحیت کے داخل ہوجانے اور اس کے حاکم ہونے کی وجہ سے مسیحیت میں تحریفات ہونا شروع ہوگئیں اور بت پرستی کی کچھ چیزیں اس میں داخل ہوگئیں ، اور یورپی معاشرہ نے اس طرح کی مسیحیت کے سامنے سر تسلیم خم کردیا، ان تحریفات کے نمونے مسئلہ تثلیث اور اس کے بعد کلیساؤں میں حضرت مریم اور فرشتوں کے مجسموں کو نصب کرنا ہے، لھٰذا یہ کلیسا بھی پہلے بت خانوں کی طرح ہوگئے۔
جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ میں تحریف شدہ عیسائیت رائج ہوگئی، اور اس نے شرک کی جگہ لے لی، در حقیقت وہ شرک کی بنیاد پر قائم ہونے والی دنیاوی حکومت تھی جس میں معنویت نہیں پائی جاتی تھی جو یورپ پر عیسائی حکومت یا الہی حکومت اور آسمان و ملکوت کی طرف دعوت دینے والی حکومت کے نام سے حاکم ہوئی اوران حکومتوں کے نام سے لوگوں پر ظلم وستم کیا۔
یھاں تک کہ لوگ آھستہ آھستہ ان ظلم وستم سے تنگ آگئے اور مسیحیت سے پہلے والی زندگی کی طرف پلٹ گئے ، درحقیقت اومانیزم نظریہ کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا کی جگہ انسان اور آسمان کی جگہ زمین اور آخرت کی زندگی کی جگہ دنیاوی زندگی کو ترجیح دی جائے۔
یہ اومانسٹی نظریہ کا ماحصل ہے جو انسان کو خدا کی جگہ قرار دیتا ہے ،اور یہ نظریہ آھستہ آھستہ اس زمانہ کے محنتی محققین جیسے اٹلی کے مشہور ومعروف شاعر و محقق ”ڈانٹا“کے ذریعہ یورپ کے تمام ممالک میں اس کا رواج پیدا ہو گیا، اور اس طرح سے بیان کیا گیا ہے جس کے اندر ہر طرح کی چیز موجود ہو، اس بنا پر اوما نیزم تمام نظریات کی ماں سمجھی جانے لگی کہ جن کی بنیاد پر یورپی ثقافت وجودیائی ہے، اور جب ہم یورپی ثقافت کا تذکرہ کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد نہ تو یورپی جغرافیائی ثقافت ہے اور نہ وہ لوگ مراد ہیں جو مغرب (یورپ) میں زندگی بسر کرتے ہیں چونکہ وہاں پر دوسرے مذہبوں کو ماننے والے افراد بھی رہتے ہیں ، کچھ اچھے عقائد والے اور دوسرے مذاہب کے افراد بھی زندگی بسر کرتے ہیں اور ہم جس ثقافت کو یورپی ثقافت کھتے ہیں وہ ایک جامع ثقافت ہے جو انسانوں کو غیر الٰھی راستہ بلکہ کفر کی طرف لے جاتی ہے، لھٰذا بہت سے مشرقی ممالک جیسے جاپان وغیرہ میں بھی ممکن ہے یھی ثقافت موجود ہو،لھٰذا ہم یورپی ثقافت کو جغرافیائی لحاظ یے نہیں مانتے۔
۳۔اومانیرم اور لیبرالیزم کا قانون میں داخل ہونا
قارئین کرام ہماری بحث اور گفتگوکا نتیجہ یہ نکلا کہ یورپی ثقافت کفر و الحاد کی ثقافت ہے جس میں کوشش یہ کی گئی ہے کہ انسان کے تصور سے خدا کو غائب کردیا گیا ہے اور خود انسان کو خدا کی جگہ رکہ دیا گیاہے ،یعنی انسان ہی تمام اقتدار اور قدرت کا محور ہے. اس نظریہ کے تحت انسان ہی تمام ارزش اور اہمیت کو پیدا کرتا ہے، اور انسانوں کی تفکر سے زیادہ ان کی کوئی واقعیت نہیں ہوتی، انسان قانون وضع کرتا ہے اور انسان کے علاوہ کسی اور کو قانون بنانے کا کوئی حق نہیں ہوتا، انسان انسانوں کی سرنوشت کو خود معین و مشخص کرتے ہیں خدا نھیں ، یہ تمام تفکراومانیستی کے اصلی عناصر ہیں کہ جن کے پیچھے پیچھے دوسرے مذاہب بھی وجود میں آگئے اور وہ طول زمان میں آھستہ آھستہ اسی ریشہ سے اُگے اور اسکے دو بہت اہم مذاہب (جو آجکل یورپی ثقافت میں اسلامی ثقافت کے مقابل بیان کیے گئے ہیں ) سیکولریزم اور لیبرالیزم ہیں ۔
اور ظاہر ہے کہ اگر انسان کی زندگی سے خدا کاتصور ختم کردیا جائے تو انسانی زندگی کے اہم مسائل کی دین کی کوئی اہمیت باقی نہ رہے گی، اور اس لحاظ سے دین کو اجتماعی ، سیاسی اور حقوقی مسائل سے الگ رکھنا ہوگا، اس نظریہ کی بنیادپر اگر کچھ افراد دین کے نام پر کچھ ارزشیں اور اہمتیں ایجاد کرنا چاہیں تو وہ ان ارزشوں کو صرف معابد اور اپنی فردی زندگی کے لحاظ سے تصور کریں ،یعنی در حقیقت دین اقدار کی قرار گاہ خاص طور سے افراد کی فردی زندگی ہے اجتماعی زندگی نہیں ہے یہ وہی تفکر ہے جو دین کو سیاست اور اجتماعی زندگی کے جدّی مسائل سے جدا کرتا ہے جسکو سکولاریزم کھا جاتا ہے، اور آخر کار یورپی ثقافت کا دوسرا ثمرہ لیبرالیزم ہے۔
جب تمام اقدار کا محور انسان ہو اور اس کے علاوہ دوسری کوئی اور چیز اسکی سرنوشت پر حاکم نہ ہو، تو یہ کہنا چاہیے کہ ہر وہ کام جسکو انسان کا دل چاہے اسکو انجام دے اور یہ وہی مطلق آزادی یا لیبرالیزم ہے لیکن اگر ہر انسان مطلق طور پر آزاد رہنا چاہتا ہو تو عسر وحرج لازم آئیگااور قانون کا کوئی مقام باقی نہ رہے گا اور ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح کی شرطوں کو برداشت نہیں کیا جاسکتا اور واضح طور پر معاشرہ میں قانون کی ضرورت کا احساس ہوگا، کہ ایسا قانون ہونا چاہیے جو عسر وحرج کو روک دے اور جب نظم برقرار ہوجائے اورعسرو ہر ج ختم ہوجائے تو پھر قانون کی ضرورت بھی ختم ہوجائے گی، تو پھر ہر فرد کا دل جو چاہے گا وہ آزادانہ طورپر اس کو انجام دے گا۔
۴۔یورپی ثقافت کے اصول اور اسلامی ثقافت سے ان کا موازنہ
قارئین کرام آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اومانیزم نظریہ کا خلاصہ سیکولریزم اور لیبرالیزم پر ہوتا ہے۔
اور انہیں دو عناصر سے اصلی یورپی ثقافت وجود پاتی ہے اورر بار بار یہ جو یاد آوری کی جاتی ہے کہ تم اپنی حفاظت کرتے رہنا کہ کھیں تم پر یورپی ثقافت حملہ کرکے تمھاری ثقافت کا جنازہ نہ نکال دے ان سے ہماری مراد یھی ثقافت ہے جسکا لازمہ لیبرالیزم اور سیکولریزم ہے، یہ ثقافت یورپ میں رائج ہوئی اور اس نے صنعت اور ٹیکنالوجی کی پیشرفت کے ساتھ ساتھ معاشرہ بشری میں مختلف پرکشش چیزوں کو ایجاد کیا اور دوسرے ممالک بھی کم و بیش اس ثقافت سے متاثر ہوئے اس لئے کہ معاشرہ کی معرفت رکھنے والے محققین کا یہ عقیدہ ہے کہ یورپی ٹیکنالوجی کے صادر ہونے کے ساتھ ساتھ یورپی ثقافت بھی صاد رہونے لگی، یہ وہ واقعیت ہے جس پر موجودہ دور میں ترقی کرنے والے ممالک کو غور و فکر کرنا لازمی ہے۔
اس مقام پر یہ سوال پیش آتا ہے کہ کیا یورپی ثقافت کو قبول کئے بغیر ٹیکنالوجی کو تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ البتہ اسی موضوع کے بارے میں دوسرے مقام پر بحث کی جائیگی لیکن ہم یھاں پر مختصر طور پر یہ بتا دیں کہ اب تک تو یورپی ٹیکنالوجی کے صادر ہونے کے ساتھ ساتھ یورپی ثقافت بھی تمام ممالک میں صادر کی گئی ہے، اور تمام انسان کم و بیش اس ثقافت سے متاثرہوئے ہیں یھاں تک کہ ہمارے اسلامی معاشرہ اور اسلامی ممالک بھی اس ثقافت سے استفادہ کئے بغیر نہ رہ سکے (البتہ یہ سب اس لئے ہوا کہ اسلامی اقدار کی حفاظت کرنے میں لاپرواہی سے کام لیا گیا، یہ نہیں کہ ان دونوں ثقافتوں کو جدا کرنا ممکن نہ تھا)۔
افسوس کہ آج یہ مشاہد ہ کرتے ہیں کہ بہت رین فکر رکھنے والے افراد کے مختلف طبقوں میں التقاط و اختلاط(مختلف نظریوں کا آپس میں مل جانا) پیدا ہوگیا ہے کہ اسلامی ثقافت کے التقاطی تفکر کو یورپی الحادی ثقافت سے ملا دیا ہے،البتہ مختلف سطح (طبقہ) کے اعتبار سے یہ اختلاط فرق کرتا ہے :
بعض موارد میں یورپی ثقافت کا بول بالا ہے جبکہ ان موارد میں اسلام کا اتنا بول بالا نہیں ہے اور دوسرے موارد میں اسلام نے جلوہ دکھلایا ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ یورپی ثقافت نے غبار آلود اور اور تاریک فضا ایجاد کردی ہے اور اسلام ناب محمدی کی صاف وشفاف فضا دنیا کے کسی کونے میں بھی واضح طور پر دکھائی نہیں دیتی ہے، ہمارے اعتقاد کے مطابق جو سب سے اہم فضا اسلامی ثقافت کو صاف وشفاف کر سکتی ہے اور اس سے دوسری ثقافتوں کے غبار کو صاف کیا جاسکتاہے وہ جمہوری اسلامی ایران کی فضا ہے اور جب اس نظام میں اس طرح کی طاقت و قدرت موجود ہے اور عوام الناس اسلام اور اسلامی ثقافت کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہیں اس بنا پر انقلاب اسلامی یورپی ثقافت کے لئے سب سے بڑے خطرہ کے عنوان سے بن کر ابھرا ہے۔
جیسا کہ کچھ دن پہلے واشنگٹن کے نزدیک ایک یورپی سیاست کی تحقیق کرنے والے ادارہ کے ایک رئیس نے کھا تھا کہ جمہوری اسلامی ایران دنیا کے لئے سب بڑا خطرہ ہے، ظاہر ہے کہ جس چیز سے وہ ڈرتے ہیں اور اپنے لئے ایک اہم خطرہ سمجھتے ہیں وہ اقتصادی خطرہ نہیں ہے اس لئے کہ ان کا اقتصاد ہم سے کھیں بہت زیادہ اچھا ہے، اسی طرح ان کو نظامی خطرہ بھی نہیں ہے اس لئے کہ ان کے پاس ایسے خطرناک اسلحے موجود ہیں کہ دوسرے ممالک میں ان جیسے نمونے نہیں ملتے ،ان کے پاس ایسی فوج موجود ہے کہ دنیا کے تمام ممالک میں نہ کمیت کے اعتبار سے اور نہ کیفیت کے اعتبار سے ایسی فوج موجود نہیں ہے، بلکہ وہ تو جمہوری اسلامی ایران کی فکری، عقیدتی اور ثقافتی توانائی سے خوف کھائے ہوئے ہیں اور صاف لفظوں میں کھتے ہیں :
جمہوری اسلامی ایران ایسا خطرہ ہے جو زمین کے اعتبار سے نامحدود اور منحصر بہ فرد ہے ، یھی چیز ان کے یورپی معاشرہ کے لئے سب سے بڑے خطرہ کا باعث ہوئی ہے، اسی وجہ سے وہ اس نظام کو ضعیف کرنے کی مسلسل جستجو میں لگے ہوئے ہیں اور صاف لفظوں میں کھتے ہیں کہ نظام ولایت فقیہ ایسا نظام ہے اور جب تک محور نظام ولایت کو سرنگوں نہ کر دیا جائے اس میں نفوذ نہیں کیا جاسکتا۔
۵۔علماء اور اسلامی تالیفات کی ذمہ داریاں
جو چیز اسلامی ثقافت کے جوہر کو مجسم کرتی ہے انسان محوری کے مقابل میں خدا محوری ہے اس اساس و بنیاد پر یھاں پر ایک سوال پیش آتا ہے کیا اقدار و ارزش و اہمیت کا ملاک و معیار خدا کوقرار دیا جائے یا انسانی خواہشات کو؟ کیا واقعی حاکمیت خدا سے مخصوص ہے یا انسانوں سے؟ کیا ہماری اصلی فکر اندیشھ، حقوق اور زندگی کے تمام دوسرے لوازمات خدا سے مربوط ہیں یا انسانی خواہشات سے ؟
اگرچہ ہم یہ جانتے ہیں کہ ان مطالب کا بیان کرنا ہمارے لئے ناگوار واقعات کا سبب ہیں لیکن عصر حاضر میں علماء کا سب سے بڑی ذمہ داری موجودہ غبارآلود فضا کو اسلام کے صاف وشفاف مطالب بیان کر کے دھو ڈالنا ہے، تاکہ لوگ کتابوں اور رسالوں کا مطالعہ کر کے مختلف نظریوں کی تحقیق و جستجو کریں اسلام اور منابع اسلامی کے نظریہ دوسروں کے نظریوں سے جدا کریں تاکہ اسکے ذریعہ اسلام اور کفر وشرک کی حد واضح ہو اجائے اور کفر و الحاد و التقاط کا نظریہ رکھنے والوں کو اسلامی محققین سے الگ کیاجاسکے، علماء کی بنیادی اور اصلی ذمہ داری یھی ہے اور قرآن بھی خاص طور سے اس بارے میں فرماتا ہے کھ: اگرعلماء اور اہل علم بدعتوں کو پھیلائیں اور حقائق کو واضح نہ کریں تو ان پر خدا، فرشتے اور تمام مخلوق لعنت کرتی ہے ، ارشاد ہوتا ہے:
(
اُوْلٰئِکَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰه وَیَلْعَنُهُمُ الْلّٰاعِنُونَ
)
”یھی لوگ ہیں جن پر خدا (بھی) لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں ۔“
ہمارا اصلی فریضہ یہ ہے کہ ہم فضا کی وضاحت کریں تاکہ مفاہیم اور اسلام و کفر کے مابین کی حدود معین و واضح ہو جائیں اور یہ بھی معین و مشخص ہوجائے کہ کن افکار میں اختلاط و التقاط پایا جاتا ہے؟ چونکہ انہیں التقاط و اختلاط کی وجہ سے حق و باطل کے مابین عاشورا جیسا واقعہ رونما ہوا اور واقعہ عاشورا سے پہلے مسلمانوں اور حضرت امیرالمومنین علھیم السلام کی نسل پاک سے ایک شخص نے قیام کیا اور بہت سے اسلامی حقائق کی وضاحت فرمائی، لوگوں نے بھی اسلامی حقائق کو درک کیا اور سمجھداری سے کام لیا اور امام کی آواز پر لبیک کھا اور ایران میں ایک عظیم اسلامی انقلاب برپا ہوگیا۔
یہ بدیھی ہے کہ جب تک دین اسلام کے لئے اپنی تمام چیزوں کو قربان کرنے والے غیرتمند جوان موجود رہیں گے اس وقت تک دین اسلام پر ذرہ برابر بھی آنچ نہیں آنے دیں گے، اور الحمد اللہ ہمارے برادران سیاسی اور اجتماعی کافی معلومات رکھتے ہیں ، اور اپنے فرائض سے بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ان پر کیسے عمل کرنا چاہئے، ہم ان کے عملی فریضہ کو معین و مشخص کرنا نہیں چاہتے ہیں بلکہ ہمارا کام تو صرف فکری اور عقیدتی مسائل کو بیان کرنا ہے، ہم تو صرف اسلام کے عملی اور نظری اصولوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ کیا ہیں ؟
ہم تو یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اسلامی ثقافت کیا ہے اور یورپی اور کفر و الحادی ثقافت کیا ہے، ہم تو لوگوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کفر والحاد ثقافت کے اصلی عناصر اومانیزم وسیکولریزم اور لیبرلیزم ہیں اور ان کے مقابل میں اسلامی نظریہ کے اصلی عناصر خدا محوری، اصالت دین و ولایت فقیہ اور خدا کی اطاعت کے دائر ہ میں محدود رہ کر انسان کا فعالیت کرنا ہیں ، یہ دونوں ثقافتیں ایک دوسرے کے مقابلہ میں ہیں : پہلی ثقافت انسان کی مطلق آزادی یھانتک کہ خدا کی اطاعت سے بھی آزاد رہنے کی دعوت دیتی ہے اور دوسری ثقافت ہم کو صرف اور صرف خداوندعالم کی اطاعت کی دعوت دیتی ہے پہلی ثقافت انسان کے تفکر اور اسکی زندگی سے خدا کو حذف کرنے اور انسان کو خود ہمت باندھنے کی دعوت دیتی ہے، اور دوسری ثقافت پرچم توحید کو بلند کرنے اور انسانی زندگی میں یکتا پرستی کی فکر کو محفوظ کرنے کی کوشش کرتی ہے اور یھی ہمارا نظریہ اور انقلاب کا محور ہے۔
۶۔قانون کی حقیقت اور اسلام اور لیبرالیزم میں اس کی اہمیت
جس طرح ہم نے پہلی تقریروں میں بیان کیا ہے کہ اسلام کے نقطہ نظر سے قانون ایسا ہونا چاہیے جو انسان کو اسکے مصالح او رمعنوی مقصود تک پہونچائے اور صرف نظم و ضبط اور اجتماعی امنیت کو پورا کرنا ہی قانون کا خاص کام نہیں ہے لیبرالی نقطہ نظر سے انسان کا صرف اور صرف دنیا سے لذت حاصل کرنا ہے، جبکہ قانون کا کام صرف اسباب لذت فراہم کرنا نہیں ہے جو چیز انسانوں کی زندگی میں ان کو لذت حاصل کرنے اور ان کا اپنی قدرت سے استفادہ کرنے میں مخل ہوتی ہے وہ دوسروں کیلئے مزاحمت ایجاد کرنا ہے، اگرقدرت اور لذتوں سے اس طرح استفادہ کیا جائے کہ اس سے دوسروں کی آزادی میں کوئی مزاحمت نہ ہو تو قانون اس سے کوئی سروکار نہیں رکھتاتو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قانون کا کام صرف دوسروں کی آزادی کی حفاظت کرنا اور ان کی خواہشات نفسانی کو مکمل کرنا ہے، قانون کا یہ ہدف یورپ کی اومانیرم اور لیبرلیزم کے نظریہ کا نتیجہ ہے،اور اس بنیاد پر قانون کا دائرہ بہت محدود ہوجائے گا۔
اور لوگوں کی زندگی سے حکومت کو بہت کم سروکار رکھنا ہوگا چونکہ اصل یہ ہے کہ لوگ آزاد رہیں اور جس کام کو ان کا دل چاہے اس کو انجام دیں اور اس اساس و بنیاد پر تو اس جملہ کا یہ مطلب ہوگا کہ قانون سے بالاتر آزادی کی حفاظت کرنا ہے، لیکن اسلام کی نظر میں قانون اس کو کھا جاتا ہے جو انسانوں کو صحیح زندگی بسر کرنے کے صحیح راستہ کی ہدایت کرے اور معاشرہ کی مادی اور معنوی مصالح کی طرف ہدایت کرے، اسلامی حاکم بھی وہی شخص ہو سکتا ہے جو ان مصالح کو معاشرہ میں جامہ عمل پہنائے اور ان مصالح میں رخنہ ڈالنے والوں کو روکے، لھٰذا اسلامی حاکم اور ڈیموکریٹک اور لیبرل حاکم کے درمیان بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے اس لئے کہ اس کو اجازت دیں تاکہ وہ موقع آئے اور لوگ اپنی خواہشات اور ہوئی و ہوس کے مطابق عمل کریں اور وہ صرف بے نظمی اور ہر ج ومرج سے روکیں اور ان کو اسکے علاوہ کسی مانع کے ایجاد کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، جو لوگ یہ کھتے ہیں کہ آزادی قانون سے بھی بلند وبالا ہے وہ خاص طور سے اہل علم و تحصیل اور محققین ہیں اور وہ جو لوگ اپنے کو صاحب نظر سمجھتے ہیں ان کو زیادہ دقت اور مطالب کی دقیق تحقیق وبررسی کرنا چاہیے۔
اصولی طور پر ماہیت قانون کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کیلئے کوئی حق اور دوسروں کیلئے کسی تکلیف کو معین کرنا، قانون آزادی کو روکنے والا ابزار ہے، اگر یہ بنا قرار دیدی جائے کہ شخص جو اس کا دل چاہے وہ کام انجام دے تو پھر قانون کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہوگی، قانون اس مقام پر بنایا جاتا ہے جہاں پر افراد اپنی بعض خواہشوں سے صرف نظر کریں ورنہ قانون کا کوئی فائدہ نہ ہوگا، اگر یہ بنا قرار دیدی جائے کہ ہر شخص جو کچھ چاہے وہ انجام دے تو پھر ہم کو قانون کی کیا ضرورت ہے؟ نتیجہ کے طور پر ماہیت قانون کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کے لئے حق اور دوسروں کیلئے کچھ وظایف معین کئے جائیں ، اگر ہمارے پاس کوئی ایسا قانون ہو جو کسی حق کو تمام انسانوں کیلئے ثابت کرے تو پھر بھی وہ کسی وظیفہ فریضہ کا متضمن ہوگا، مثال کے طور پر اگر ایک بین الاقوامی یہ قانون ہو اور وہ قانون یہ حکم صادر کرے کہ ہر انسان آزاد ہے اور اس کو یہ حق ہے کہ وہ دنیا کے کسی گوشے میں اپنے رہنے کے لئے جگہ کا انتخاب ہے تو اس قانون کا مفاد تمام انسانوں کیلئے حق کا اثبات کرنا ہے۔
لیکن وظیفہ معین کئے بغیر دوسروں کیلئے حق ثابت کرنا نہیں ہے ورنہ ایسے قانون کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر شخص کسی بھی جگہ رہنے کا حق رکھتا ہے اور دوسروں کو اس حق کا احترام کرنا چاہیے اور اسکی مزاحمت نہیں کرنا چاہیے، نتیجہ کے طور پر قانون یا تو تصریحی طور پر اور یا اشارہ کے طور پر کن امور کو انجام دینا چاہیے اور کن امور کو انجام نہیں دینا چاہیے کا متضمن ہے، یھاں تک کہ اگر ہر فرد کیلئے بھی حق کو ثابت کرتا ہے تو اس کا مفاد یہ ہے کہ دوسرے اس حق کی رعایت کریں اور اس کا احترام کریں ۔
جو قانون یہ کھتا ہے کہ ہم کو ایسا کرنا چاہیے یعنی اسکے علاوہ عمل نہیں کرنا چاہیے اور اس سے مراد یہ ہے کہ آزادی محدودھے یعنی کن افعال کو انجام دینا چاہیے اور کن افعال کو انجام نہیں دینا چاہئےے کی معرفت ہے ،نتیجتاً جو قانون آزادی کے محدود ہونے کو ناپسند کرتا ہو وہ قانون تناقض رکھتا ہے، اور قانون یعنی وہ چیز جو آزادی کو محدود کردے تو اس بنا پر قانون سے اوپر کوئی آزادی نہیں ہے مگر کچھ مقامات پر کچھ خاص آزادیاں ہیں اور ہم یہ کھتے ہیں کہ ان آزادیوں کی رعایت ہونا چاہیے، تو یہ بھی کچھ دوسرے قوانین کے اوپر ایک قانون ہو جائیگا۔ لیکن اگر کوئی قانون آزادی کیلئے کسی طرح کی محدودیت کا قائل نہ ہو تو وہ بھی لغو اور تناقض کا متضمن ہوگا۔
اور کوئی بھی عاقل اس طرح کی باتیں نہیں کر سکتا ، اس لئے کہ اصل میں قانون کی شان ہی آزادی کو محدود کرنا ہے لیکن اگر اس شعار سے کہ قانون کو آزادی کے محدود کرنے کا کوئی حق نہیں ہے بلکہ مطلق آزادی ہونا چاہیے یہ مراد ہو تو یہ تناقض ہے اور اگر ان کی مراد شرعی آزادیاں ہیں تو ہم ان سے یہ عرض کرتے ہیں کہ شرعی آزادی کونسی ہے؟ اور کون شخص یہ معین کرے گا کہ مشروع آزادیاں کونسی ہیں اور نامشروع آزادیاں کونسی ہیں ؟
۷۔مشروع آزادی کا نسبی ہونا
ھر نظام اپنی خاص ثقافت کی بنیاد پر کچھ امور کو جائز اور معقول سمجھتا ہے اگرچہ دوسرے افراد ان کو کتنے ہی نامشروع کیوں نہ سمجھتے ہوں ، تو پھرمطلق آزادی کا کیا مطلب؟ یعنی کوئی بھی قانون مطلق آزادی کی ضمانت نہیں لے سکتا، جب کسی قانون میں یہ لکھا جائے کہ قانون کو مشروع آزادیوں کو پورا کرنے کا ذمہ دارہے، تو ایک ایسی میزان ہو جویہ بتائے کہ مشروع آزادیاں کونسی ہیں ؟ یعنی مشروع، معقول اور مفید آزادیوں کوکس معیار کے ذریعہ معین کیا جائے؟ اس مقام پر یہ کھا جاتا ہے کہ مشروع آزادیوں کومعین کرنے کا ذمہ دار قانون ہوتا ہے۔
بہرحال ہم پھر اپنے اصلی مطلب کی طرف پلٹتے ہیں کہ اگر کوئی شخص یہ کھے کہ معاشرہ میں ہر طرح کی آزادی جائز ہے تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ معاشرہ کیلئے کسی قانون کا ہونا لازمی نہیں ہے،!! لیکن کوئی عاقل انسان اس طرح کی باتیں نہیں کرتا مگر وہ انسان جو اپنی باتوں کی طرف متوجہ ہی نہ ہو اور پس جو شخص بھی آزادی کا دم بھرتا ہے یقینا اس کی مراد محدود آزادی ہے، اب یھاں پر یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ آزادی کی حدود کو کون شخص اور کس معیار سے معین کرے گا؟ اگر افراد اپنی دلخواہ مرضی کے مطابق آزادی کی حدوں کو معین کریں گے تو بھی ہر ج ومرج لازم آتا ہے، اس لئے کہ اس صورت میں ہر انسان اپنے منافع کو پورا کرنے کی کوشش کریگا۔
لھٰذا آزادی کی حدوں کو معین کرنے والا کوئی شخص ہونا چاہئےے، اب قانون کو کس قانونگذار کے ذریعہ مشخص ومعین ہونا چاہیے، بدیھی ہے اگر قانون گذار کا ارادہ لوگوں کی خواہشات کے مطابق ہو اور قانون کا معیار و ملاک لوگوں کی خواہشات ہوں تو عملی طور پر ہوسباز افراد غالب ہوں گے یعنی وہی چیز جو اومانیرم اور لیبرالیزم نظریہ کا بنیادی پہلو ہے، اس نظریہ میں قانون کا کردار عسر وحرج کو روکنا ہے اور لوگوں کی مرضی کے مطابق ان کی ضرورتوں کو پورا کرنا ہے، لیکن اسلامی نقطہ نظر سے یہ موضوع قابل قبول نہیں ہے ، کیونکہ بنیادی اشکال رکھتا ہے۔
۸۔اسلام کا لیبرالیزم سے ٹکراؤ
یہ طے ہے کہ ہم اسلام کو تسلیم کر لینے کے بعد لیبرالیزم کو قبول نہیں کر سکتے ہیں اگر ہم یہ تسلیم کر لیں کہ قانون یعنی جو انسانوں کے مصالح کو پورا کرے تو پھر ہم یہ نہیں کھہ سکتے کہ ہر انسان جو اس کا دل چاہے وہ فعل انجام دے چونکہ یہ دونوں آپس میں سازگار نہیں ہیں ، یا محور خدا ہو یا انسان، دوسرے لفظوں میں ! یا ہم اللہ کو مانیں یا اومانیزم کو مانیں ، اب یہ نہیں ہو سکتا کہ انسان کو بھی ملاک قرار دیں اور خدا کو بھی ، اس طرح کی دو اصل کو قبول کرنا تعارض اور تضا د کے ساتھ ساتھ ایک قسم کا شرک بھی ہے، اور اگر خدا کو نہ مانے تو یہ کفر و الحاد ہے، اس لئے کہ اسلام اور کفر و الحاد آپس میں ایک دوسرے کے متناقض ہیں ، اور یہ آپس میں ایک بنیادی جنگ رکھتے ہیں اور اسی دلیل کی وجہ سے امریکا کے بڑے بڑے سیاست دانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ جب تک ایران میں اسلامی نظام حاکم رہےگا، ہم ایران سے سازش نہیں کرسکتے چونکہ یہ دونوں متناقض نظریے ہیں اور ان کے نظام بھی ایک دوسرے کے سازگار نہیں ہےں ۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ مختلف نظریات میں بہت ر قانون کی کیا کیاخصوصیتیں ہیں ؟کیا قانون کو معاشرہ میں صرف نظم برقرار کرنا چاہیے فردی خواہشات اور آزادیوں کو اگر وہ ایک دوسرے کی مزاحمت نہ کریں تو ان کو پورا کرنا چاہیے،یا قانون کو انسان کے واقعی مصالح کو پورا کرنا چاہیے چاہے اکثر افراد اس کو چاہتے ہوں یا نہ چاہتے ہوں ، البتہ اگر لوگوں نے اسکو تسلیم کرلیاتو اسکو عملی جامہ پہنا دیا جائیگا اور اگر تسلیم نہ کیا تو اسی طرح عالم انشا میں باقی رہیگا۔
پس اصل افراد ہیں لیکن یہ دیکھنا چاہیے کہ مشروعیت قانون کیا ہے؟ کیا مطلوب قانون صرف وہ قانون ہے جو لوگوں کے دل خواہ ہو اور ان کی خواہشوں کو پورا کرتا ہو یا قانون مطلوب وہ قانون ہے جو لوگوں کی مصلحت کو پورا کرتا ہو؟ یہ دونظریے آپس میں ایک دوسرے سے صلح نہیں کر سکتے ہیں اور ان کو ایک دوسرے سے ملادینا ایک تاریک فضا کو ایجاد کرنا ہے تاکہ جو افراد غلط طریقہ سے استفادہ کرنے کے چکر میں ہیں وہ گندے پانی سے مچھلی کا شکار کرلیں ، ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ فضا کوصاف و شفاف کریں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اسلام کیا ہے اور کفر کیاہے او ر پھر انسان جس کو چاہے انتخاب کرے،جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے :
(
فَمَنْ شَاءَ فَلْیُومِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ
)
شاعر کھتا ہے:
متاع کفر و دین بی مشتری نیست
گروہی این گروہی آن پسندند
”دین او رکفر ایسی دو چیزیں ہیں کہ جس خریدار بہت ہیں ، کچھ لوگ اسلام کے اور کچھ لوگ کفر کے خریدار بن گئے“
ھر حال میں لوگوں کو یہ جاننا چاہیے کہ کونسا متاع (مال) متاع دین ہے اور کونسا متاع متاعِ کفر ہے، تاکہ دونوں میں سے ایک کو منتخب کرلے، ہمار وظیفہ دینی مفاہیم کو صاف وشفاف کرنا ہے اور اس سے ہر طرح کے غبار کو دور کرنا ہے تاکہ لوگ آگاہ طور پر انتخاب کریں ، اور کچھ لوگوں نے ایسی فضا بنائی ہے اور چاہتے ہیں کہ دین کی جگہ ڈیموکریسی اور آزادی کو حاکم کردیں ،، لیکن ہمیں ہر حال میں ان لوگوں سے ہوشیار ہونا چاہئے اور توجہ رکھنا چاہئے کہ کیا کھیں او رکیا کریں ۔
۹۔اسلام اور ڈیموکراسی میں قانون گذاری
ہم اس سے پہلے اس بات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ اسلام اور ڈیموکراسی کے درمیان کبھی صلح نہیں ہوسکتی ہے، ڈیموکراسی یعنی مردم سالاری یا لوگوں کی حکومت، دوسرے الفاظ میں لوگوں کی رائے اور نظریہ کو معتبر سمجھنا، اب اس اعتبار کو محدود ہونا چاہیے یا لا محدود؟ کیا جب ہم یہ کھتے ہیں کہ اصالت و میزان لوگوں کی رائے کے ساتھ ہے یعنی چاہے وہ کتنا ہی خدا کی مرضی کے خلاف کیوں نہ ہو یا لوگوں کی رائے اس حد تک معتبر ہے کہ حکم خدا اور ارادہ خدا کے متضاد نہ ہو؟ یورپ میں اس چیز کا یہ مطلب لیا جاتا ہے کہ اصلی ملاک لوگوں کا نظریہ ہے اور آسمان و زمین میں کسی دوسری طاقت کو لوگوں کی سرنوشت اور قانون گذاری میں لوگوں کے مابین دخالت کرنے کا کوئی حق نہیں قانون وہی ہے جسکو لوگ چاہتے ہیں ۔
یھاں پر ایک یہ سوال پیش آتا ہے کہ قانون کے معتبر ہونے کا ملاک و معیار تمام افراد کا ایک نظریہ پر متفق ہونا ہے یا اکثر افراد کا متفق ہوجانا ہی کافی ہے؟ عملی میدان میں تو تمام افراد متفق نہیں ہو سکتے ہیں ، اور اگر اکثر افراد کا متفق ہونا کافی ہے تو تمام افراد کا وظیفہ کیا ہوگا اور اکثر افراد کی رائے ان کیلئے کتنی معتبر ہوگی؟ درحقیقت آجکل کی ڈیموکراسی، ڈیموکراسی اور نخبہ گرائی (منتخب کی ہوئی چیز ) سے بنتی ہے۔
یعنی لوگ قانون بنانے کے لئے نمائندوں کو انتخاب کرتے ہیں ، اب اگر اکثر افراد کی نظر چنیدہ افراد کے نظریہ سے مختلف ہو، تو دونوں میں سے کس کا نظریہ معتبر ہوگا؟ البتہ عام طور سے چنیدہ افراد لوگوں کی خواہش کے مطابق قانون بناتے ہیں اس لئے اگر وہ ایسا نہ کریں تو اگلے الیکشن میں کوئی ان کو ووٹ نہیں دے گا اور وہ منتخب نہیں ہو سکیں گے۔ اس لئے لوگوں کی خواہش کو پورا کرتے ہیں اور انہیں کی مرضی کے مطابق قانون بناتے ہیں ، لیکن بعض موقعوں پر لوگوں کے نظریہ اور اکثر چنیدہ افراد کے نظریہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
کچھ لوگوں کا ہدف یہ ہے کہ ایران میں حکومت علماء، ولایت فقیہ اور حکومت اسلامی کے مقام پر ڈیموکریٹک حکومت قائم ہونی چاہیے، ڈیموکریٹک کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کی خواہش کے علاوہ کوئی دوسری چیز قانون کو معین کرنے میں دخالت نہیں رکھتی ہے کیا مسلمان اس کو تسلیم کر سکتے ہیں یا نھیں ؟
اسلام ڈیموکراسی کے ساتھ سازگار ہونے کا دعوی کرنے والے افرادکے بارے میں یہ سوال پیش آتا ہے کہ لوگوں کی رائے اگر وہ خدا کے قطعی حکم کے بر خلاف ہو تو کیا وہ پھر بھی معتبر ہے یا نھیں ؟ اگر معتبر نہ ہو تو ڈیموکراسی ایجاد نہیں ہوئی ہے اور اگر ملاک اعتبار لوگوں کی رائے ہے اور خدا کے قطعی حکم کے خلاف ہو تو اس صورت میں ڈیموکراسی اسلام کے ساتھ سازگار نہ ہوگی، کیا اسلام خدا ورسول کی اطاعت کے علاوہ کوئی اور چیز ہے؟
کیا اس کے علاوہ بھی کوئی دوسرا اسلام ہے؟ آجکل یہ کھا جاتا ہے کہ اسلام میں متعدد قرائت ہیں لیکن جس قرائت کی بناپر انقلاب برپا ہوا وہ یہ ہے کہ احکام خدا اور الٰھی اقدار کو معاشرہ میں حاکم ہونا چاہئے، اورجن افراد نے اس انقلاب کو برپا کیا اور اپنے خون کے آخری قطرہ تک اس کی حمایت کی اور آیندہ بھی حمایت کرتے رہیں گے ان کا ہدف اسکے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔
اب اگر قانون گذاری کے مسئلہ میں ڈیموکریٹک کا مطلب انسانوں کی رائے کو اصل قرار دینا ہے یھاں تک کہ اگرچہ ان کی رائے حکم خداوندی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو تو اسلام کے نقطہ نظر سے ایسی ڈیموکریٹک مردود ہے، لیکن اگر ڈیموکریٹک کا مطلب دوسرا ہو اور لوگ مبانی اور اصول اور اسلامی اقدار کی محافظت کرتے ہوئے اپنے اجتماعی معاشرہ اور قانونی مسائل میں اپنے چنے ہوئے افراد کے ساتھ حق دخالت رکھتے ہوں اور اپنے منتخب کئے ہوئے افراد کے ساتھ زمان و مکان کی خاص شرطوں کا خیال رکھتے ہوئے قوانین بنائیں تو یھی چیز ہمارے اسلامی ملک ایران میں پائی جاتی ہے، اور پارلیمنٹ کے ممبران بھی اس لائحہ کے بارے میں بحث اور مشورہ کر کے اسکو تصویب کر سکتے ہیں ، لیکن پارلیمنٹ کے تصویب کئے ہوئے قوانین اس وقت معتبر ہوں گے جب وہ اسلامی احکام کے مخالف نہ ہوں ۔
بہرحال یہ جو لوگوں کو زمان و مکان کی خاص شرائط کے ساتھ متغیر مقررات (قوانین) کو معین کرنے کی خاطر افراد کو منتخب کرنا پڑتا ہے، یھی چیز ہمارے ملک میں رائج ہے اور امام خمینی(رہ) نے بھی اسی روش کی تائید فرمائی ہے، اور ہمارے اساسی (بنیادی) قوانین نے بھی اس کی تائید کی ہے اگر قانون گذاری میں ڈیموکریٹک کایھی مطلب ہے تو ایسی ڈیموکریٹک کاکوئی مخالف نہیں ہے۔
۱۰۔اسلامی حکومت میں معتبر قانون
جامع مسئلہ کی یہ اہمیت ہوتی ہے کہ جب لوگوں کے نمائندے اسلامی پارلیمنٹ میں کسی قانون کو تصویب کرتے ہیں تو کیا یہ قانون اس لئے معتبر ہے کہ لوگوں کے نمائندوں نے اس کو ووٹ دے کر منتخب کیاہے اور اصل میں لوگوں کے نمائندوں کو اسی کام کیلئے منتخب کیا ہے یا اس لئے معتبر ہے کہ ولی فقیہ نے اسکی تائید فرمائی ہے؟ ہمارے نقطہ نظر سے انسان کو اپنی زندگی میں سب سے پہلے جس حق کی رعایت کرنا چاہیے وہ حق خدا ہے، اور اگر یہ بنا ہے کہ ہم حقوق کی رعایت کریں تو خداوندعالم کا حق سب سے پہلے مقدم ہے اور انسانوں پر خداوندعالم کا سب سے بلند وبالا حق، حق ربوبیت ہے اور یہ ربوبیت دوشعبہ رکھتی ہے:
۱۔ ربوبیت تکوینی ۔
۲۔ربوبیت تشریعی
ربوبیت تشریعی کا مطلب یہ ہے کہ خداوندعالم جو دستور دے وہ انسانوں کیلئے واجب الاجرا ہے، اب اگر خداوندعالم کسی چیز کی نھی فرمائے تو اس کو انجام نہیں دینا چاہیے اور خداوندعالم کے قوانین واحکام سے سرپیچی کرنا ربوبیت الٰھی کے حق کو ضائع کرنا ہے اور اس قانون کا انکار کرنا اور اسکو معتبر نہ جاننا ایک قسم کا شرک ہے، اس بنیاد پر اسلامی معاشرہ میں وہ قانون معتبر ہوگا جو خداوندعالم کی رضا کے مطابق ہوگا اگر خدا کسی قانون کی نھی فرمائے تو وہ قانون معتبر نہیں ہوگا، چونکہ حق خدا ضائع ہوا ہے اور جب حق خدا ضائع ہوگیا تو اسی کے زیر اثر انسانوں کا حق بھی ضائع ہو جائے گا، لیکن قانون گذاری کے مسئلہ میں خدا نفع کو اپنے سے مخصوص کرتا ہے؟ مگر خداوندعالم تشریعی احکام اور ہم کو امر و نھی کرنے میں انسان کی مصلحت کے علاوہ اور کیا چاہتا ہے؟ اب اگر کسی مقام پرہم سے خدا کی مرضی کے خلاف رفتار ہوئی ہے توگویا وہ انسانوں کی مصلحت کے خلاف رفتا ر ہوئی ہے۔
نتیجہ کے طور پر انسانوں کے مصالح کی حفاظت جو قانون کے معتبر ہونے کا اصلی رکن ہے وہ خطرہ میں پڑ جائےگا، تو پھر ایسا قانون معتبر نہ ہوگا، اسی وجہ سے نمائندوں کے ذریعہ کسی قانون کے تصویب ہوجانے کے بعد ایک اور چیز یہ معین کی گئی ہے کہ کچھ قانون اور دین کی معرفت رکھنے والے افراد اس قانون کی شرع سے مطابقت کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ یہ قانون خداوندعالم کے حکم کے خلاف ہے یا نھیں ؟ اس کو شورائے نگھبان کھا جاتا ہے۔
اگر صرف قانون کے معتبر ہونے میں لوگوں کی رائے کا ہی کافی ہوتی توفقھاء شورائے نگھبان کس لئے؟چنانچہ لوگ اپنے نمائندوں کو رائے (ووٹ) دیتے ہیں اور ان کے نمائندے بھی لوگوں کی درخواست پر ایک قانون تصویب کرکے وضع کردیتے ہیں اور وہی قانون معتبر ہوتا ہے!
لھٰذا جمہوری اسلامی نظام میں شورائے نگھبان کا پہلا اور بالذات مقام یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے وضع کئے ہوئے قوانین یعنی جس کو لوگوں نے نمائندوں کے ذریعہ ووٹ دیا ہے اسکی احکام شرع سے مطابقت کریں کہ کھیں وہ قانون حکم خداوندی کے خلاف تو نہیں ہیں ؟ یورپی ثقافت سے متاثر افراد اور جو لوگ دشمن کی مدد کرتے ہیں شوارئے نگھبان کو حذف کرنے کا دم بھرتے ہیں اسکی وجہ یھی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا فلٹر نہ ہو جو قوانین اسلام کو غیر اسلامی قوانین سے الگ کرے۔
حقیر صرف آپ حضرات کی اطلاع کے لئے یہ عرض کررہاہے (شاید آپ کو یقین نہ آئے اور انشاء اللہ وہ دن نہ آئے کہ اسکا حقیقی مصداق وجود میں آجائے) کہ یورپی ثقافت اور لیبرال کے سارے افراد اسلام اور ولایت فقیہ کو اساسی قانون سے حذف کرنے کے چکر میں ہیں ، خدا دشمنان اسلام اور نظام اسلامی کے دشمنوں کو کبھی ایسا موقع نہیں دے گا۔ انشاء اللہ۔
حوالہ