پندرہواں جلسہ
اسلامی حکومت اور ثقافتی حربے
۱۔گذشتہ مطالب پر ایک نظر
جیسا کہ آپ حضرات کو معلوم ہے کہ ہماری بحث اسلام کے سیاسی نظریہ کے بارے میں ہے اور گذشتہ جلسوں میں اس سلسلہ میں بہت سی چیزیں بیان ہوئیں کہ جس میں مہم چیز سیاست کا دین سے جدا نہ ہونا تھا،اور ہم نے عرض کیا کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے وہ قانون معاشرے میں معتبر ہے جو یا خدا کی طرف سے براہ راست قرآن کریم میں بیان ہوا ہو، یا پیغمبراکرم اور ائمہ معصومین علیہم السلام یا اس شخص کی طرف سے بیان ہوا ہو جس کو امام معصوم نے اجازت دی ہو بہر حال قوانین خدا کی مرضی کے مطابق اور اسلامی نظریہ کے مطابق ہو،اس سلسلہ میں گفتگو بہت زیادہ ہے، اور ہم نے یہ بھی عرض کیا کہ بعض لوگ اس کے مخالف ہیں کہ معاشرہ میں احکام دینی کی حکومت ہو، ان مخالف لوگوں کی تین قسمیں ہیں :
۱۔ جو لوگ دین کو بالکل نہیں مانتے، ظاہر ہے کہ یہ لوگ بالکل بھی پسند نہیں کریں گے کہ کسی ملک میں دینی احکام جاری ہوں ، لیکن الحمد للہ ایسے افراد ہمارے معاشرے میں بہت کم ہیں ۔
۲۔ جو لوگ دین کو قبول کرتے ہیں لیکن مغربی کلچر کے تحت تاثیر واقع ہیں ان کا اعتقاد یہ ہے کہ دین کا دائرہ سیاست و معاشرے سے جدا ہے اور دین کو فقط انفرادی اور خدا سے رابطہ میں منحصر کرتے ہیں اور کھتے ہیں : اجتماعی زندگی کے مسائل کا دین سے کوئی ربط نہیں ہے اسی نظریہ کو عمومی طورپر سیکولیزم یا دین کا مسائل زندگی سے جدا کرنا کھا جاتا ہے۔
۳۔جو حضرات واقعاً معتقد ہیں کہ اسلام میں اجتماعی اور اسلامی مسائل موجود ہیں ، لیکن ناخواستہ طور پر مغربی کلچر سے متاثر ہیں اور کبھی کبھی ایسی باتیں کرتے ہیں کہ اسلام سے ہم آھنگ نہیں ہیں ۔
۲۔علماء اور ان کی خطرناک ذمہ داری
بہر حال ہم خداوند عالم کے معین کردہ وظیفہ اور ذمہ داری کے تحت موظف ہیں کہ حتی المقدور اسلامی عظمت کو بیان کر یں اورفکری دینی انحرافات سے لوگوں کو روکیں ، اور اس چیز کی طرف بھی اشارہ کریں کہ بعض احباب اور خیر خواہ حضرات فکر کرتے ہیں کہ اس سیاسی و اجتماعی زمانے میں ان بحثوں کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں ہے! یھاں تک کہ بعض حضرات کا تصور یہ ہے کہ ان باتوں کو چھیڑنا نقصان دہ ہے،کیونکہ ان سے افکار وعقائد متاثر ہوتے ہیں ، ان حضرات کا تصور یہ ہے کہ ہم جس قدر سعی و کوشش کرسکتے ہیں کریں کہ فکری و اعتقادی وحدت ایجاد ہوجائے، لھٰذا ان چیزوں سے پرہیز کریں کہ جن کی وجہ سے اختلاف و افتراق ہوتاہے تو یہ معاشرے کیلئے زیادہ سود مند ہے۔
بعض حضرات خیر خواہی کی وجہ سے کھتے ہیں آپ ان بحثوں کو چھوڑ کر دوسری ضروری اور بہت ر بحثوں کو معاشرے میں یھاں کریں اور بلند مقامات کو حاصل کریں اور ایسے کام کریں جو آپ کے لئے بھی سودمند ہوں اور معاشرے کیلئے بھی مفید ہوں ۔
ان حضرات (کہ جن میں بعض خیر خواہ بھی ہیں ) کی خدمت میں عرض کریں کہ ہم بھی اس راستہ کو اچھا سمجھتے ہیں کہ جس میں عافیت و بھلائی ہو، اور ان لوگوں کے مزاج کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو واہ واہ کرتے ہیں ،لیکن ہماری یہ شرعی ذمہ داری ہے کہ جس کو خداوند عالم نے ہم پرواجب کیا ہے البتہ یہ ذمہ داری سب سے پہلے انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کی ہے اور اسکے بعد علمائے کرام کی ذمہ داری ہوتی ہے اور واقعاً یہ راستہ بہت مشکل اور خطرناک ہے اور واہ واہ ، سبحان اللہ سبحان اللہ کی جگہ تھمت ، بہت ان، بدگوئی اور کبھی کبھی جلاوطنی، زنداں اور قتل وغیرہ کو قبول کرتے ہیں ، بہر حال اس راہ میں بہت سی مشکلات ہیں جیساکہ ہمیں تاریخ میں انبیاء ،ائمہ معصومین علیہم السلام نے ان کو برداشت کیا ہے لھٰذا ہم بھی اس راستہ پر قائم ہیں اگرچہ ہمارے دوست و احبا بھی ہم پر ملامت کریں ، کیونکہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے:
(
اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَا اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالهُدیٰ مِنْ بَعْدِ مَا بَیَّنَاه لِلنَّاسِ فِی الْکِتَابِ ا وْلٰئِکَ یَلْعَنُهُمُ اللَّه وَیَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ..
)
.
”بے شک جو لوگ (ہماری) ان روشن دلیلوں اور ہدایتوں کو جنھیں ہم نے نازل کیا ہے اس کے بعد چھپاتے ہیں جب کہ ہم کتاب (تورات) میں لوگوں کے سامنے صاف صاف بیان کرچکے ہیں تو یھی لوگ ہیں جن پر خدا (بھی) لعنت کرتا ہے (اور) لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں “
جو حضرات اپنے حقائق سے آگاہ ہیں لیکن اپنے ذاتی یا کسی خاص گروہ کے نفع کی خاطر ان حقائق کو مخفی رکھتے ہیں ان پر خدا، ملائکہ اور اولیا خدا کی لعنت ہوتی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں بیان ہوا ہے:
”اِذَا ظَهرَتِ البِدَعُ فِی اُمَّتِی فَلْیُظْهِرِ العَالِمُ عِلْمَه وَاِلَّا فَعَلَیْه لَعْنَةُ الله.“
”جس وقت دین میں بدعت ہونے لگیں تو علماء پر واجب ہے کہ اپنے علم کو بیان کرےں ، اور لوگوں کو انحرافات سے روکیں ، ورنہ اس پر خدا کی لعنت ہوگی“
لھٰذا ہمارے سامنے دو راستے ہیں یا تو ہم اپنے دوستوں کی ملامت اور دشمنوں کی تھمتوں کو برداشت کریں ، اور خدا کی رضایت حاصل کریں ، یا لوگوں کی داد و تحسین کو پسند کریں اور خدا کی لعنت کے مستحق ہوں ، لھٰذا ہم ترجیح دیتے ہیں کہ لوگوں کی تھمتوں اور بدگوئیوں کو برداشت کریں ، لیکن ہم خدا کی لعنت کے مستحق نہ بنےں ، لھٰذا ہم پر یہ اہم ذمہ داری ہے اور ہمارے لئے نیز دوسرے علما کیلئے ان مسائل پر بحث و گفتگو کرنا دوسری چیزوں سے زیادہ واجب ہے۔
ٹھیک ہے آج کل سرحدی علاقوں میں ہمارے لئے بہت سی مشکلات ہیں اور ہو سکتا ہے کہ آئندہ ہمارے لئے فوجی مشکلات کا سامنا ہو، ٹھیک ہے افغانستان میں طالبان کے ذریعہ کہ ہمارے سفارتخانہ کے ذمہ دار افراد اور ۳۵ ڈرائیور گرفتار ہوں کہ جس کی وجہ سے ہماری ملت اور حکومت کو دکہ پہونچا، مظاہرے ہوئے اور بین الاقوامی سطح پر اس مسئلہ کو پیش کیا گیا، لیکن ان ۴۰ یا ۵۰ لوگوں کا دشمن کے ذریعہ گرفتار ہونے کا خطرہ ہماری یونیورسٹیوں میں ھزاروں جوان مسلمانوں کا امریکائی عناصر کے ذریعہ ان کے جال میں پہنسا زیادہ خطرناک نہیں ہے۔
یعنی مغربی ثقافتی عناصر کے ذریعہ گرفتار ہونے کا خطرہ، چند ایرانیوں کا دشمن کے ھاتھوں گرفتار ہونے سے کھیں زیادہ خطرناک ہے، اگرچہ وہ لوگ مشکلات میں ہیں لیکن ان کا اجر خداوند عالم کے نزدیک محفوظ ہے، لیکن اگر ہمارے جوان و نوجوان خصوصاً شھداء واسیروں کے کی اولاد یونیورسٹیوں میں دین سے منحرف ہوجائیں تو پھر کیا کیا جا سکتا ہے؟ کیا فکری گرفتاری مزید خطرناک نہیں ہے؟ کیا اس سلسلے میں کسی کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟
(ممکن ہے کوئی ہم کو مقصر ٹھھرائے اور کھے کہ آپ غلط سوچتے ہیں اگرانسان آزاد ہے تو پھر اس کو اپنی رائے کا اظھار کرنا چاہیے، تو پھر ہمیں بھی حق ہونا چاہیے کہ ہم بھی اپنی رائے کا اظھار کریں چونکہ ہم بھی تقریباً ۵۰ سال سے دینی علوم کی تعلیم و تعلم میں مشغول ہیں اور ہم بھی اپنی رائے کا اظھار کرسکتے ہیں )
ہماری بحث یہ تھی کہ ہماری اس بات(کہ معاشرے میں اسلامی و الہی قوانین کو حاکم ہونا چاہیے) کے مقابلے میں بعض لوگوں شبھات و اعتراض کئے تھے اور ہم بھی اس چیز کی طرف اشارہ کیا تھا، بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ معاشرے میں اسلامی احکام کا جاری ہونا انسان کے مسلّم حقوق سے ہم آھنگ نہیں ہے، انسان کے مسلّم حقوق میں سے ایک آزادی ہے تو پھر فکر، دین، سیاست اور بیان میں آزادی ہونا چاہیے، طبیعی طور پر ہر انسان یہ حق رکھتا ہے کہ کسی بھی دین کو منتخب کرے، اور اس کو یہ اختیار ہے کہ اپنے دین کو بدل دے، اور اس کو یہ بھی حق ہے کہ اپنے نظریات و عقائد کی ترویج و تبلیغ کرے، اگر آپ یہ کھیں کہ اس ملک میں اسلامی قوانین کا حاکم ہونا ضروری ہے، تو بعض حضرات ایسے بھی ہیں جوان قوانین کو نہیں چاہتے، کیا ان کو حق ہے کہ اپنی رائے کا اظھار کریں اور کھیں کہ ہم ان قوانین کو نہیں چاہتے، ظاہر ہے کہ جو لوگ دیں کے منکر ہیں ان کی طرف سے اس طرح کے سوالات پر کوئی تعجب نہیں ہے لیکن افسوس تو ان لوگوں پر ہوتا ہے کہ جو دیندار ہونے کا دم بھرتے ہیں اور اس طرح کے سوالات پیش کرتے ہیں یھاں تک کہ اپنے ساتھ اسلامی القاب بھی شامل کرتے ہیں یا خود کو امام خمینی کا پیرو کھلاتے ہیں !!
۳۔ملکی اخباروں میں مغربی غلط آزادی کی تبلیغ
حد تو یہ ہے کہ بعض اخباروں میں (کبھی مزاحاً اور کبھی حقیقتاً کبھی کسی کے قول کو نقل کرتے ہیں کبھی کسی لڑکے یا لڑکی کی طرف سے)لکھتے ہیں کہ کیوں صرف مرد کیلئے چند بیویوں کا رکھنا جائز ہے لیکن عورتوں کیلئے چند شوہروں کا رکھنا جائز نہیں ہے، یا یہ کہ کبھی کبھی مشورہ، پیش کیا جاتاہے کہ چند مرد مل کر کسی ایک عورت سے شادی کر سکتے ہیں ! توجہ رہے کہ یہ باتیں کسی کیمونسٹ ملک کے اخباروں کی نہیں ہے بلکہ جمہوری اسلامی ایران کے اخباروں میں ایسی باتیں لکھی جاتی ہیں ! یا کسی ایک اسلامی یونیورسٹی میں اس طرح کی تقریر ہوتی ہے اور خود کو کسی اسلامی ادارہ سے منسلک ہونے کے اعتبار سے تقریر ہوتی ہے، اور کھا جاتا ہے کہ آج کل رہبری (ولی فقیھ) کی مخالفت، پیغمبر کی مخالفت میں کوئی حرج ہی نہیں بلکہ اگر چاہیں خدا کے خلاف بھی مظاہر کریں تو کوئی ایسا قانون نہیں کہ ان کو روک سکے! یہ باتیں اگر کسی غیر اسلامی یا کسی کافر و مشرک سے سنی جائیں تو کوئی جائے تعجب نہیں لیکن اگریھی باتیں جمہوری اسلامی ایران، حاکمیت اسلامی اور حاکمیت ولایت فقیہ میں یونیورسٹیوں کے درمیان کی جائیں اور کوئی بھی ان کے مقابلہ کیلئے کھڑا نہ ہو تو واقعاً شرم آور ہے، اور اگر کوئی طالب علم اعتراض کرے تو اس کو اہمیت نہیں دی جاتی۔
اس وجہ سے ہم نے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا، اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ واقعاً یہ چیزیں بدعت اور خطرناک ہیں اور اسلام کے مخالف ہیں اور اگر کوئی شخص اپنی تقریروں میں ایسی باتیں کرناچاہتا ہے تو کم از کم اسلام کے نام سے ایسی باتیں نہ کرے،تاکہ معلوم ہوجائے کہ اسلام کیا ہے اور کفر کیا ہے اور ہر انسان اپنی مرضی کے مطابق اس کا انتخاب کرے، یہ آزادی دین اور آزادی بیان مغربی ثقافت کا ثمرہ ہے یہ ایسا انپورٹ پہل ہے کہ جو ظاہر میں بہت عمدہ اور میٹھا ہے لیکن اندر سے زھریلا ہے، یہ پہل مغربی ثقافت کے درخت کے مناسب ہے لیکن ہمارے اسلامی ثقافت سے اس صورت اور اس وسعت میں بالکل بے تکا ہے۔
مغربی ماحول اور کلچر کی عکاسی کرنے کے لئے ہمیں مجبوراً کہنا پررہا ہے کہ آج کل مغربی ممالک میں مذہب کو صرف ایک پارٹی کے نظریہ کی طرح دیکھا جاتا ہے مثلاً کسی ملک میں چند پارٹیاں ہوں اور وہاں کوئی نئی پارٹی وجود میں آئے، یا کوئی کسی دوسری پارٹی میں چلا جائے تو یہ کام ہمارے لئے باعث تعجب نہیں ہے، مذہب کے سلسلے میں بالکل اسی طرح کا ماحول مغربی ممالک خصوصاً امریکہ میں موجود ہے جہاں ہر روز ایک نیا مذہب اور نیا فرقہ پیدا ہوتا ہے یہ مسئلہ واقعاً ہمارے لئے باعث تعجب ہے، تقریباً سو سال پہلے ایک شخص پیدا ہوا جس کا نام ”باب“ تھا اس نے دعویٰ کیا کہ ”میں ایک نیا اسلام لے کر آیا ہوں ، اور میں شیعوں کا امام زمانہ ہوں جس نے ظھور کر لیا ہے“ اس بات پر سب کو تعجب ہوا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی ایک نیا مذہب لے کر آئے (البتہ ایران سے باہر خصوصاً امریکہ میں اس باطل و بے بنیاد مطلب کو جدید اسلام کے نام سے ترویج کیا جاتا ہے، اور وہاں کوئی جائے تعجب نہیں ہے) لیکن امریکھ، کناڈا اور یورپی ممالک میں ہر سال چند جدید مذہب اور فرقے پیدا ہوتے ہیں ، مثال کے طور پرعیسائیت کہ اصل مذہب ارنوڈوکس، کاٹولیک اور پروٹسٹان ہیں لیکن صرف پروٹسٹاں کے پانچ سو سے زائد فرقے مغربی مالک میں موجود ہیں ۔
جس وقت ہم نے سال گذشتہ امریکہ لاتین کا سفر کیا تو ہم نے دیکھا کہ امریکہ میں کئی نئے مذہب وجود میں آچکے ہیں اور ان کے مبلّغ تبلیغ کرنے میں مشغول ہیں ، وہاں اس طرح کے مسائل ہوتے رہتے ہیں جب کسی اخبار میں اعلان ہوتا ہے کہ ایک نیا فرقہ پیدا ہوچکا ہے اور اس جدید فرقہ کا کشنیس (اس مذہب کا عالم) پیدا ہو چکا ہے اور اس کی کلیسا بن چکی ہے تو وہاں کوئی تعجب نہیں ہوتا، اور لوگ بھی بہت آسانی سے اس فرقہ میں شامل ہو جاتے ہیں ، اسی کو ”مذہب کی آزادی“کھا جاتا ہے۔
۴۔اسلامی پروٹسٹانیزم، اسلام پر ایک حملہ
بعض لوگوں کی توقع اور امید یہ ہے کہ اسلامی جمہوری ایران میں بھی مذہب جیسی آزادی ہونا چاہیے اس بنا پر بہت سے لوگوں نے مشورہ پیش کیا کہ اسلام میں بھی ایک مذہب پروٹسٹانیزم ہونا چاہیے ہماری اصطلاح کے مطابق اس مشورہ کو سب سے پہلے فتح علی آخوند زادہ (آخوند اف) نے پیش کیا، اس کے بعد دوسرے دانشمند نے بھی اپنی اپنی تقریروں میں اس مسئلہ کو بیان کیا، بعض مورخوں ، رائیٹروں نے اپنی کتابوں میں لکھا اور مشورہ پیش کیا کہ اسلام میں بھی ایک پروٹسٹانیزم ہونا چاہیے، اور آج کل امریکہ میں اس طرح کی تبلیغات ہوتی رہتی ہیں کہ ایران میں بھی ایک دوسرا ”مارٹن لوئر“ پیدا ہو جو ایک نیا پروٹسٹاں اور جدید اسلام کو تشکیل دے ، تاکہ آج کی اس ماڈرن زندگی کے مناسب ہواور یہ ۱۴۰۰ سال پرانا اسلام آج کی زندگی کیلئے مناسب نہیں ہے اگر امریکہ ایسا مشورہ پیش کرے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
کیونکہ ان کا مقصد اسلام کو ختم کرنا ہے خود ان کے کھنے کے مطابق انھوں نے اس سلسلے میں پروگرام بنا رکھے ہیں اور اس کے لئے مخصوص کوٹہ بھی معین کر رکھا ہے اور بارہا اس چیز کا اقرار بھی کیا ہے کہ اس زمانے میں ان کا اصلی دشمن اسلام ہے لیکن تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ان کی تبلیغات کا اثر آھستہ آھستہ ہمارے ملک میں بھی ہوتا جارہا ہے، اور بعض لوگ ایسے ملتے ہیں جو اخباروں اور ماہانہ رسالوں میں اسلام کے ضروری مسائل پر اعتراض کر ڈالتے ہیں مثال کے طور پر کیوں ارث میں مرد و عورت کا حصہ برابر نہیں ہے یا یہ کہ عورت چند شوہر کیوں نہیں رکہ سکتی وغیرہ وغیرہ اور کبھی کبھی تو اسلام کے ضروری احکام کا مذاق بناتے ہیں ۔
آپ حضرات کو یا د ہوگا کہ انقلاب کے شروع میں جب قصاص کے بارے میں بحث ہوئی تو بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ قصاص کی بحث انسانیت سے دور ہے ،اس وقت امام خمینی نے فرمایا تھا کہ اگر کوئی جانتے ہوئے ایسی باتیں کرتا ہے تو ان کی مسلمان بیویاں ان پر حرام ہےں ،اور انکا مال مسلمان ورثاء میں تقسیم ہوگا ،لیکن ان کی جان قابل احترام نہیں ہے، البتہ ارتدادکے احکام صرف قصاص کے منکرمیں منحصر نہیں ہیں ،لیکن اگر کوئی اسلام کے کسی بھی ضروری حکم کا انکار کرے تو وہ مرتد ہوجاتاہے،لیکن پھربھی دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض لوگ بغیر کسی شرم وحیاء کے اخباروں ، رسالوں یھاں تک کہ کبھی ان اخباروں کے ذریعہ کہ جو بیت المال سے نکلتے ہیں ،ایسی باتوں کو کھتے ہین اور اسلام کے ضرور ی احکام کا انکار کرتے ہیں ۔
واقعاً کوئی ہونا چاہیے جو ان لوگوں کو یاددھانی کرے کہ امام خمینی کا نظریہ صرف قصاص کے منکروں سے مخصوص نہیں ہے (بلکہ ہر اس شخص کو شامل ہے جو اسلام کے کسی بھی ضروری احکام کا منکر ہو) اور کبھی کبھی تو یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ مسائل جو شیعہ و سنی دونوں فرقوں میں متفق علیہ ہیں اور سنیوں نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی، ان پر بھی اعتراض کرتے ہیں یا ان کا مذاق بناتے ہیں !
کیا باصلاحیت مراجع اس طرح کے مسائل کی تحقیق وبررسی کرنے کے ذمہ دار نہیں ہیں ؟ یا کم از کم یہ ضروری نہیں کہ کوئی یاددھانی کرائے کہ ایسا خطرہ آئندہ کی نسل کیلئے موجود ہے؟ جن لوگوں نے امام خمینی کے بیان کو نہیں سنا ہے، اور ان کے درس میں شرکت نہیں کی ہے کیا ان کیلئے خطرہ نہیں ہے کہ وہ جمہوری اسلامی ایران کے اخباروں میں لکھے گئے ان مطالب کے تحت تاثیر قرار پائیں اور سوچیں کہ ان نظریات سے ہماری اسلامی حکومت بھی متفق ہے اور یہ اسلامی نظریات ہیں ؟ کم از کم کوئی توہو جو اُن کو بتائے کہ ان نظریات کا اسلام سے کوئی ربط نہیں ہے۔
بہر حال یہ نظریہ واقعاً خطرناک ہے کہ دین ایک طرح کا سلیقہ ہے اور انسان جس دین کو چاہے انتخاب کرے، اور اس کو عوض کرنا چاہے تو عوض کرلے،مغربی ممالک میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک جوان اپنے دوست کے ساتھ کسی ایک کلیسا میں جاتا ہے اور اس کا دوست کھتا ہے کہ میں فلاں کلیسا کو بہت دوست رکھتا ہوں جس کے نتیجہ میں وہ اپنے مذہب کو بدل دیتا ہے اس کا دوست بھی تحت تاثیر قرار پاتا ہے اور اپنے دوست کی پیروی کرتے ہوئے وہ بھی اپنا مذہب بدل لیتا ہے کیا مذہب ایک لباس کی طرح ہے،کہ جب چاہا پہن لیا اور جب چاہا بدل لیا یا اس کا ماڈل عوض کر لیا، اسلام کی بنیاد اس چیز پر نہیں ہے کہ انسان کی سعادت و شقاوت دلخواہ اور مختلف طریقوں سے حاصل ہو سکے، تاکہ یہ نتیجہ نکل سکے کہ دین ایک طرح کا سلیقہ ہے کبھی یہ دین کبھی دوسرا دین، کبھی وہ مذہب جس کو بھی چاہو انتخاب کرلو، اور حکومت بھی لوگوں کو اس طرح کی آزادی دے، اسلام دین کو زندگی کا اہم مسئلہ مانتا ہے اور دنیا و آخرت کی سعادت و شقاوت کو صحیح دین کے انتخاب کرنے میں جانتا ہے۔
لھٰذا اس طرح کی گفتگو کرنے میں یہ خطرہ موجود ہے کہ جس کو احساس کرتے ہیں اور کبھی کبھی اپنی آنکھوں سے بھی دیکھتے ہیں افسوس کہ بعض لوگ غفلت کرتے ہیں یا خود کو غافل بنا لیتے ہیں ، اب ان بحثوں کوبیان کرنے کی وجہ ہمارا ان انحرافات سے مقابلہ کرنا اور اپنی اس ذمہ داری کو پورا کر نا ہے۔
۵۔حق مسلّم کا مفہوم حقیقی
یھاں پراس مسئلہ کی وضاحت کرنا بہت ضروری ہے کہ طبیعی اور حق مسلم سے کیا مراد ہے؟ اور آزادی کس معنی میں انساں کا حق مسلم ہے؟ جن ضروریات کا انسان کی طبیعت تقاضا کرتی ہے اس کو حق طبیعی کھا جاتا ہے لھٰذا گفتگو کرنا ،اپنی رائے کا اظھار کرنا یہ انسان کی طبیعت کا تقاضا ہے اور کسی کو بھی اس کو منع کرنے کا حق نہیں ہے۔
ہم نے عرض کیا کہ کھانا پینا انسان کی طبیعت کا تقاضا ہے بلکہ انسان کا سب زیادہ طبیعی ترین حق کھانا پینا ہے لیکن صرف اس وجہ سے کہ کھانا پینا انسان کا حق طبیعی ہے تو کیا وہ دوسروں کے مال کو کھاسکتا ہے؟ اور کیا کسی بھی قانون کو یہ معین کرنے کا حق نہیں ہے کہ کونسی چیز کھانا حلال ہے اور کون سی چیز کا کھانا حرام ہے؟ کس کے مال کو کھا سکتا ہے اور کس کے مال کو نہیں کھاسکتا، کیا کوئی عقلمند انسان اس بات کو قبول کر سکتا ہے کہ انسان آزاد ہے اور اپنی مرضی سے جو بھی چاہے کھائے کسی کا بھی مال ہو اس کو تناول کرے؟ اس طرح گفتگو کرنا بھی ہر انسان کا مسلم حق ہے لیکن اس کو یہ حق نہیں کہ جو بھی منہ میں آجائے وہ بکتا پھرے، جس طرح قانون کو یہ اجازت ہے کہ وہ یہ کھے کہ کیا کھائے اور کیانہ کھائے؟ جس طرح دین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ یہ کھے کہ خنزیر کا گوشت یا الکحل والی چیزوں کو نہ کھائے، جبکہ کھانا پینا انسان کا طبیعی حق ہے، گفتگو کے بارے میں بھی اس طرح ہے گفتگو کی قسم ،زمانہ اور جگہ سب قانون معین کرتا ہے جس کو تقریبا ً تمام دنیا نے قبول کیا ہے لیکن مغربی حضرات دین کے سلسلے میں کھتے ہیں کہ جو چاہیں کھیں کیونکہ دین ایک ذاتی امر اور ایک سلیقہ ہے انسان کی حقیقی زندگی سے اس کا کوئی ربط نہیں ہے بلکہ انسان کے خدا سے رابطہ کا نام دین ہے، اور خدا سے یہ رابطہ مختلف طریقوں سے ہو سکتا ہے، انسان کوئی بھی طریقہ اپنا سکتا ہے۔
یہ دین بھی صراط مستقیم ہے اور وہ دین بھی صراط مستقیم ہے، بت پرستی بھی صراط مستقیم ہے اور اسلام بھی صراط مستقیم ہے!! لیکن اسلام کا یہ نظریہ نہیں ہے ،کس اسلام کا، اس اسلام کا جس کو حضرت محمد مصطفیٰ ۱۴۰۰ سال پہلے لے کر آئے تھے نہ کہ ”باب“ اور ”مارٹن لوٹر“ جیسے کذاب لوگوں کا اسلام ، پھر ہم تو اس اسلام کی بات کرتے ہیں جس کوحضرت محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لے کر آئے ہیں ۔
۶۔اسلام کی حقیقی قرائت اور اس کا صحیح مطلب
بعض لوگ کھتے ہیں کہ ہم بھی اس اسلام کو مانتے ہیں ، لیکن اس اسلام کی مختلف قرائتیں ہیں آپ ایک قرائت کو بیان کرتے ہیں ،تو کچھ لوگ دوسری قرائت بھی بیان کرتے ہیں ، یہ نظریہ بھی مغربی ثقافت کا ایک ثمرہ ہے کہ اسلام کیلئے مختلف قرائت کے معنی کرتے ہیں ، جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا کہ کینیڈا میں چند سال پہلے عیسائیت کا ایک فرقہ بنا، اور اس فرقے کے پاپ سے سوال کیا گیا کہ ہم جنس بازی کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟ تو اس نے جواب دیا تھا کہ اس وقت تومیں اپنی رائے کا اظھار نہیں کر سکتا لیکن میرا یہ مشورہ ہے کہ انجیل کو دوبارہ پڑھا جائے! کیونکہ تورات و انجیل میں اس کا کام کی سخت مذمت کی گئی ہے جس طرح اسلام نے بھی اس کی مذمت کی ہے،جب اس سے سوال ہو اکہ تو اس مقدس کتاب کا احترام کرتے ہیں آپ اس بارے میں اپنی نظر بیان کریں ؟ وہ اگرچہ ہم جنس بازی کا حامی تھا لیکن صاف صاف بیان نہیں کر سکتا تھا تو اس نے جواب دیا انجیل کا پھر سے مطالعہ کرنا چاہئے!!
اس طرح یہ لوگ بھی کھتے ہیں کہ اسلام اور قرآن کی دوبارہ قرائت کی جائے،ان کے جواب میں ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ ہم لوگ شیعہ و سنی علما کی ۱۴۰۰ سال پرانی قرائت کو معتبر جانتے ہیں ہم جس اسلام کا دم بھرتے ہیں یہ وہی اسلام ہے کہ جس کی آئمہ معصومین علیہم السلام نے قرائت کی ہے اور ان ہی کی اتباع میں ۱۴ صدی کے علماء نے اسلام کی قرائت کی ہے، یھی قرائت ہمارا معیار وملاک ہے، اور اگر اسی اسلام میں جدید قرائت پیدا ہوجائیں اور ان کی بنا پر اسلامی احکامات بدل دئےے جائیں تو ہم اس اسلام کو نہیں مانتے، اور نہ ہی ایسے اسلام کو پسند کرتے ہیں اور ہماری نظر یہ کے مطابق کوئی بھی عقلمند مسلمان ”باب“ اور ”مارٹن لوٹر“ جیسے افراد کا اختراع کئے ہوئے اسلام کو پسند نہیں کرے گا۔
ہم جس اسلام کو مانتے ہیں اور اس کی بھر پور حمایت کرتے ہیں اس کے منابع قرآن، سنت پیغمبر و آئمہ معصومین علیہم السلام ہیں ، جنھیں شیعہ اور اہل سنت فقھاء چودہ سو سال سے بیان کرتے آرہے ہیں ،خصوصاً وہ احکام کہ جن میں شیعہ سنی میں کوئی اختلاف نہیں ہے، یہ اسلام ہم سے کھتا ہے کہ جس طرح کھانے پینے میں قوانین کی رعایت ضروری ہے اسی طرح گفتگو کرنے میں بھی قوانین کی رعایت ضروری ہے اسلام کوئی لباس تو ہے نہیں کہ جس کو آج پہنا اور دوسرے دن اتار پھینکا، دین کے سلسلے میں تحقیق و جستجو کرناضروری ہے اور دین حق کو قبول کرنا چاہیے۔
اسلام کے دامن میں اپنی حقانیت کو ثابت کرنے کیلئے اتنی دلیلیں موجود ہیں کہ کوئی یہ نہیں کھہ سکتا کہ میں نہیں سمجہ سکا کہ کون سا دین حق ہے؟ مگر یہ کہ کوئی صحیح طریقہ سے تحقیق و مطالعہ نہ کرے، اگر کوئی ”میکرونیزی جزائر“ کا رہنے والا یہ کھے کہ مجہ پر اسلام کی حقانیت واضح نہیں ہوسکی ہے، تو شاید اس کی یہ بات قبول کر لی جائے لیکن اگر کوئی ۱۴۰۰ سالہ اسلامی تاریخ کے بڑے بڑے علماء اسلام کی مہم ترین کتابوں کے ہونے کے باوجود بھی یہ کھے کہ میں اسلام کو نہیں پہچان سکا تو کوئی بھی اس کی باتوں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوگا۔
بہرحال جس اسلام کو ہم مانتے ہیں وہ یہ کھتا ہے کہ جس طرح آپ نے کھانے پینے کی چیزوں کی حد بندی کررکھی ہے اسی طرح گفتگو کرنے میں بھی قوانین کی رعایت کرنا ضروری ہے،یعنی کسی کو یہ حق بالکل نہیں ہے کہ جو چاہیں کھہ ڈالیں ، بلکہ اسلامی قوانین کے تابع ہونا ضروری ہے، اگر اسلامی قوانین کے برخلاف عمل کیا تو آپ کا یہ کام اسلامی معاشرے کیلئے نقصان دہ ہے، جس طرح آپ حضرات بھی جانتے ہیں کہ گمراہ کنندہ اور کتب ضالّہ کی خرید وفروخت حرام ہے، اسلام اس چیز کی اجازت نہیں دیتا کہ جن لوگوں میں حق و باطل کے شناخت کی صلاحیت نہیں ہے وہ کسی بھی کتاب کو خریدیں اور پڑھنا شروع کردیں ، ہر کس و ناکس کی تقریروں کو سنیں ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں صاف صاف ارشاد ہوتا ہے:
(
وَاِذَا رَا یْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِی اٰیَاتِنَا فَا عْرَضَ عَنْهُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِی حَدِیْثٍ غَیْرِه..
)
.
”او رجب تم ان لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں میں بے ہودہ بحث کررہے ہیں تو ان (کے پاس) سے ٹل جاؤ یھاں تک کہ وہ لوگ اس کے سوا کسی اور بات میں بحث کرنے لگیں “
یا مومنین کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے جو لوگ دین پر اعتراض کرتے ہیں ان کی صحبت میں نہ بیٹھو:
(
وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتَابِ ا نْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیَاتِ اللَّه یُکْفَرُ بِهَا وَ یُسْتَهْزَءُ بِهَا فَلا تَقْعُدُوْا مَعَهُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِی حَدِیْثٍ غَیْرِه اِنَّکُمْ اِذاً مِثْلُهُمْ اِنَّ اللَّه جَامِعُ الْمُنَافِقِیْنَ وَالْکَافِرِیْنَ فِی جَهنَّمَ جَمِیْعاً...
)
”(مسلمانو) حالانکہ خدا تم پر اپنی کتاب قرآن میں یہ حکم نازل کرچکا ہے کہ جب تم سن لو کہ خدا کی آیتوں کا انکار کیا جاتا ہے اور اس سے مسخرا پن کیا جاتا ہے تو تم ان (کفار) کے ساتھ مت بیٹھو یھاں تک کہ وہ کسی دوسری بات میں غور کرنے لگیں ورنہ تم بھی اس وقت ان کے برابر ہوجاؤ گے اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا تمام منافقوں اور کافروں کو (ایک نہ ایک دن) جھنم میں جمع ہی کرے گا“
بس وہ لوگ جو اسلام کا دم بھرتے ہیں لیکن اسلام کے دشمنوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں ، اور اسلام کے دشمنوں کی باتوں کو رائج کرتے ہیں یہ وہی منافقین ہیں جن کا ٹھکانہ بھی کافروں کی طرح جھنم ہے، ایک بار پھر تاکید کرتا ہوں کہ اسلام فرماتا ہے:
جاؤ اور حقیقت کو تلاش کرو اس کے بعد دشمنوں سے بحث کرو اور اسلام کے تعلیم شدہ حقائق کے ذریعہ ان کو مغلوب کرو، لیکن جب تک تم میں اتنی صلاحیت نہ ہو کہ اسلامی عقائد سے اچھی طرح دفاع کر سکو، تو پھر تم گمراہ اور انسانی شیاطین کی ہم صحبت نہ ہو، اس کشتی گیر کی طرح کہ جس کو پہلے تمرین اور پریکٹس کرنا ہوتی ہے تب وہ کشتی کے میدان میں اترتا ہے اور کشتی لڑتا ہے اور وہ جوان کہ جس نے ابھی تک تمرین نہیں کی ہے وہ کس پہلوان سے کشتی نہیں لڑسکتا، چونکہ پہلوان اس کو ذرا سی دیر میں زمین پر دے مارے گا، اور اس کی ہڈیاں ٹوٹ جائیں گی، یہ آزادی کی مخالفت نھیں ھے بلکہ اپنے جوانوں کو ایک نصیحت ہے کہ پہلے اسلامی علوم اور اسلامی معارف کو حاصل کریں ، اس کے بعد دشمن سے بحث کریں ۔
بہرحال جس اسلام کو ہم پہچانتے ہیں اس کی آزادی محدود ہے، اور اس نظریہ کا مخالف ہے کہ جب گفتگو کرنے کو انسان کی طبیعت تقاضا کرتی ہے لھٰذا گفتگو کرنا آزاد ہو ورنہ تو انسان کی دوسری خواہشات بھی ہیں اور وہ بھی انسان کے طبیعی حق میں شمار ہوتی ہیں مثلاً جنسی خواہشات کھانا پینا ان میں بھی کوئی محدودیت نہیں ہونا چاہیے، جس طرح کھانے پینے میں محدودیت کا قائل ہونا کسی بھی عقلمند انسان کو قابل قبول نہیں ہے گفتگو کرنے میں بھی اس طرح ہے، لھٰذا چونکہ گفتگو انسان کی فطرت کا تقاضا ہے اس کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا کہ کوئی حد و قانون نہ ہو لھٰذا عقل اور دین ان حدود کو بیان کرنے میں اور اس کی حدیں معاشرے کی مادی اور معنوی مصالح ہیں کہ جن کو دین نے بیان کر دیاہے۔
۷۔ شرعی آزادی
شاید آپ حضرات نے اخباروں میں پڑھا ہو کہ بعض لوگوں نے ہماری باتوں پر اعتراضات کرتے ہوئے کھا ہے کہ فلاں صاحب مغالطہ کرتے ہیں ہم آزادی کو مطلق نہیں کھتے ہم تو یہ کھتے ہیں کہ کچھ جائز آزادی ہونا چاہیے۔
ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ جائز آزادی سے آپ کی مراد کیا ہے؟ کیا آپ کی مراد وہ چیز ہے کہ جس کو شرع پسند کرتی ہے، لغت میں مشروع کے دو معنی بیان کئے گئے ہیں :
۱۔مشروع یعنی جس کو شریعت نے جائز کیا ہے (البتہ آپ کی مرادیہ ہونا مشکل ہے کیونکہ جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں وہ شریعت کے زیادہ پابند نہیں ہوتے) بہر حال اگر مشروع کا مطلب یہ ہے کہ جس کو شرع پسند کرتی ہو تو اسی کو تو ہم بھی کھتے ہیں کہ آزادی شرعی قوانین کے تحت ہونا چاہئے۔
۲۔ مشروع کے دوسرے معنی از لحاظ قانون جائز ہو اس معنی کے لحاظ سے بھی جیسا کہ ایران کے قانون اساسی میں بیان ہواہے قانون کو اسلام کے موافق ہونا چاہیے، ہمارے قانون اساسی اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ تمام قوانین واحکام اسلام کے موافق ہونا چاہیں ، اور قانون اساسی میں فقھائے شوارئے نگھبان کا فلسفہ ہی یھی ہے کہ وہ قوانین جو پارلیمنٹ میں بنائے جاچکے ہیں ان کی تحقیق کریں کہ یہ قوانین اسلام کے موافق ہیں یا نھیں ؟ کیونکہ پارلیمنٹ کے تمام ممبران (اقلیت کے نمایندوں کے علاوہ کہ ان کے حقوق بھی محفوظ ہیں ) مسلمان، مومن اور متقی ہیں ، لیکن ممکن ہے کہ یہ ممبران کبھی کبھی غفلت کر بیٹھیں اور اس قانون کو اپنی رائے دیں کہ جو اسلام کے مخالف ہو، یعنی پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین شورای نگھبان میں جانچے جائیں کہ یہ قانون ،قانونِ اساسی اور اسلامی نقطہ نظر سے موافق ہیں یا نھیں ؟ اور شورائے نگھبان پارلیمنٹ کے بنائے قانون کی تائید کرتے ہیں اور شورای نگھبان کے حقوق داناں مشورت قانون اساسی سے موافق ہونے کی تائید کرتے ہیں ۔
اگر ہمارا قانون اساسی قانون کے اسلامی ہونے کو ضروری نہ سمجھے تو پھر شورائے نگھبان کا کیا مطلب؟ اور یہ سب تاکید حاکمیت اسلام اور ولایت فقیہ کا قانون اساسی میں ہونے کا کیا مطلب ؟اس وقت کوئی جائے تعجب نہیں کہ کوئی حقوق دان کے عنوان سے کھے چونکہ قانون اساسی کھتا ہے آزادی کی رعایت کی جائے تو پھر کوئی بھی اس آزادی کو محدود نہیں کرسکتا، قانون اساسی کھتا ہے کہ آزادی مشروع ہو یا نا مشروع ؟ اور آپ کھتے ہیں مشروع آزادی؟مشروع آزادی یعنی کیا ؟اگر مشروع شرع سے بنا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آزادی جس کو شرع اجازت دیتی ہو اور اگر مشروع قانون ہو تو پھر بھی قانون اساسی کے مطابق وہ آزادی کہ جن کو شرع اور قانون نے تائید کیا ہو مشروع اور جائز آزادی ہیں ۔
۸۔دین اور قانون آزادی کو محدود کرتے ہیں ۔
آزادی قانون کے مافوق نہیں ہو سکتی،لیکن جو لوگ کھتے ہیں کہ آزادی دین اور قانون سے بالا تر ہے ، تو پھران سے ہمارا یہ سوال ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر دین اور قانون کس لئے ہیں ؟ حقیقت قانون کیا ہے ؟ کیا قانون اس کے علاوہ ہے کہ کھے فلاں پروگرام خاص قوانین کے تحت ہو،فلاں کاانجام دیں اور فلاں کام انجام نہ دیں ۔
مجبوراًگذشتہ مطالب کی یاددھانی کرنا ضروری ہے کہ ہر قانون صاف صاف یا اشارہ کے طور پر یہ کھتا ہے کہ انسانی کردار کو محدود ہونا چاہیے اور خاص دائرے میں انجام پائیں ، لھٰذا قانون کا کام ہی آزادی کو محدود کرنا ہے، اگر دین اور قانون آزادی کو محدود کرنے کا حق نہ رکھتے ہوں تو پھر دین اور قانون کا ہونا بے کار ہے، چونکہ دین اجتماعی و سیاسی مسائل پر مشتمل ہوتاہے اور انسان کے اجتماعی و سیاسی امور کو محدود کرتا ہے اور دین کا حکم ہوتا ہے کہ یہ امور خاص قوانین کے تحت انجام پائیں اور اگر دین کے معنی اس کے علاوہ ہوں تو پھر دین کی کیا ضرورت ہے؟
اگر دین اس وجہ سے آیا ہو کہ ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق کام کرے تو پھر دین کا کیا فائدھ؟ دین کی جایگاہ و مقام کھاں ہے؟ دین کا وجود بالفاظ دیگر قانون انسان کی آزادی کو محدود کرتے ہیں ، لھٰذا آزادی کو دین اور قانون سے اوپر کہنا باطل ہے۔
جی ھاں ممکن ہے کہ بعض حضرات دین کی وجہ سے مشروع آزادی سے بھی روکیں اور جس چیز کو خدا نے حلال کیا ہے خرافات و قومی رسم و رواج کی وجہ سے حرام قرار دیں ، جیسا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج بھی ہمارے ملک کے مختلف مقامات پر بعض قومیں اور عشائری قوموں میں کہ جس نے خدا کی حلال کردہ چیزوں کو حرام کر رکھا ہے ،اور اسی طرح ہمارے معاشرے میں اب بھی خدا کی حلا ل کردہ چیزوں کو برا سمجہا جاتا ہے، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو بہت سی جنسی برائیاں ختم ہو جاتیں ، حضرت امیرالمومنین علیہم السلام نے فرمایا:
”لولا ما سبق من ابن الخطّاب فی المتعة ما زنا الّا شقی..“
.
”اگر عمر متعہ کو حرام نہ کرتا تو کوئی بھی زنا نہ کرتا مگر یہ کہ شقی ہو“ افسوس کہ ابھی بھی اس حلال خدا کو برا سمجہا جاتا ہے جو بہت سی مشکلات کو ختم کرنے والا ہے ھاں اگر کوئی شخص دین کے نام پر خدا کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کرنا چاہے،تو یہ کام بھی برا ہے نہ صرف یہ کہ برا ہے بلکہ حرام اوربدعت ہے، جس طرح اس کے بر عکس خدا کی حلال کردہ چیزوں کو حرام کرنا بھی بدعت ہے:
” انّ اللّه یحبّ ان یوخذ برخصه کما یحبّ ان یوخذ بعزائمه..“
خداوند عالم جس طرح دوست رکھتا ہے کہ لوگ مباح اور حلال کردہ چیزوں سے فیض اٹھائیں اسی طرح دوست رکھتا ہے کہ واجبات کو انجام دیں اور محرمات کو ترک کریں ۔
تو معلوم یہ ہوا کہ دین یا قوم کے نام پر خدا کی حلال کردہ چیزوں کو حرام کرنے کا کسی کو کوئی حق نھیں ھے، اور آزادی کو اس طرح محدود کرنا حرام و بدعت ہے،اور کوئی بھی اس کا موافق نہیں ہے لیکن اگر اس آزادی سے مراد نا مشروع آزادیاں ہیں تو کسی کو یہ توقع نہیں ہونی چاہیے کہ دین نا مشروع آزادی کی بھی مخالفت نہ کرے!
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ آزادی دو حال سے خا لی نھیں : یا مشروع ہیں ، یا نا مشروع، اگر مشروع ہیں تو دین نے ان کو جائز قرار دیا ہے، اور اس کی کوئی مخالفت نہیں کی ہے،اور پھر یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہے کہ دین اور قانون کو یہ حق نہیں ہے کہ معاشرے سے مشروع آزادی کو بھی چھین لے، اور اگر کوئی دین اس کی اجازت دے تو پھر کس طرح کھا جا سکتا ہے کہ جس چیز میں ہم نے اجازت دی ہے اس کو انجام نہ دیں ؟ یہ تو خود ایک تناقض ہے لیکن اگر آزادی نا مشروع ہو، اور دین نے اس کو منع کیا ہو تو پھر یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ اس کو منع کرنے کا حق نہ رکھتا ہو اور یہ بھی ایک طرح کا تناقض ہے۔
۹ ۔آزادی کو محدود کرنے کی ضرورت
ہماری مذکورہ بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ ہم آزادی کو شریف چیز، خدائی عطا اور انسان کی معنوی و مادی ترقی کیلئے ایک شرط جانتے ہیں ، ہمارا عقیدہ ہے کہ اگر انسان آزادی نہ رکھتا ہو اپنے اعتبار سے دین کا انتخاب اور اس پر عمل نہ کرے، تو پھر اس کے اعتقاد کی کوئی قیمت نہیں ہوگی، انسان کی ترقی اور کمال اسی میں ہے کہ دین کو اپنے علم کے ذریعہ انتخاب کرے، جیسا کہ قرآن مجید میں بھی اشارہ ہوتا ہے:
(
لَا اِکْرَاه فِی الدِّیْنِ
)
”دین میں کسی طرح کی زبردستی نہیں ہے“
اجبار کا مطلب ہی یھی ہے، ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ آزادی خداوند عالم کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے لیکن ہر نعمت سے استفادہ کیلئے بھی حد معین ہے:
(
وَمَنْ یَتَعَدَّ حُدُوْدَ الله فَا ولٰئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ..
)
”اور جو خدا کی مقرر کی ہوئی حدوں سے آگے بڑھتے ہیں وہ ہی لوگ تو ظالم ہیں “
اپنی حدود سے تجاوز کرنا شقاوت اور الہی نعمت کے چھن جانے کا سبب ہے،جو چیز انسان کی سعادت وکامیابی کا سبب ہے، اگراس سے تجاوز کیا جائے تو پھر یھی چیز اس کیلئے شقاوت و بدبختی کا سبب بن جاتی ہے، جب انسان کھانے پینے میں حد سے بڑہ جائے تو وہ بیمار ہو جاتا ہے اور کبھی کبھی مرنے کی نوبت بھی آجاتی ہے، جنسی شھوت کا ہونا بھی ایک خداداد نعمت ہے، وہ جب اپنی حد سے بڑہ جاتی ہے تو پھر معاشرے میں برائیاں پھیل جاتی ہیں اور کبھی کبھی معاشرے کی ھلاکت اور خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہونے کی باعث ہوتی ہیں لکھنا، گفتگو کرنا بھی اس طرح ہے،ہمیں اس چیز کا حق نہیں ہے کہ صرف اس وجہ سے کہ انسان کی طبیعت گفتگو کا تقاضا کرتی ہے لھٰذا جو چاہے کھیں ، جبکہ ان تمام چیزوں میں حدود کی رعایت کرنا ضروری ہے، ٹھیک ہے کہ اسلامی حکومت کو لوگوں کو مشروع آزادی دینا ضروری ہے لیکن اسلامی حکومت کو بھی نا مشروع آزادی کو روکنے کا حق ہے۔
اخباروں کے بیان کردہ شبھات میں سے ایک شبہ یہ بھی ہے کہ ہم اور آپ (مولف) اس طرح گفتگو کرکے قانون اساسی اورقومی حاکمیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں ،ان کا کہنا یہ ہے کہ قانون اساسی کے مطابق ہر انسان اپنی زندگی کے مالک ہیں اور اگر ان کو مجبور کیا جائے کہ فقط دین کی رعایت کریں تو پھر انسان اپنی زندگی کا مالک نھیں ! واقعاً یہ شبہ بڑا ہی فریب دینے والا ہے۔
ہم ان کے جواب میں یہ عرض کرتے ہیں کہ کیا قانون اساسی میں صرف اس چیز کو بیان کیا گیا ہے؟ کیا اس قانون اساسی میں یہ نہیں ہے کہ حاکمیت و حکومت کا مالک خدا ہے؟ کیا اس قانون میں یہ نہیں ہے کہ معاشرے میں وہ قانون جاری ہوں جو اسلام کے موافق ہوں ؟ کیا یہ چیزیں قانون اساسی میں نہیں ہیں کیا صرف قانون اساسی میں یھی ہے کہ لوگ اپنی زندگی پر خود حاکم ر ہیں ؟
ممکن ہے کوئی یہ کھے کہ یہ قانون اساسی کی یہ دو باتیں آپس میں ٹکراتی ہیں لھٰذا ان کے لئے تفسیر اور کسی راہ حل کی ضروت ہے، لیکن اگر واقعاً غور کیا جائے تو یہ ان دو باتوں کو سمجھنا آسان ہے جب پہلی اصل میں یہ کھا جاتا ہے کہ حاکمیت اور حکومت کا خدا مالک ہے اور دوسری اصل میں یہ کھا جاتا ہے کہ انسان اپنی زندگی پر خود حاکم ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ خدا کی حاکمیت کے زیر سایہ دین زندگی پر حاکم ہیں ، لھٰذا اسلامی معاشرے کے علاوہ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنا مذہب اور اپنا قانون ہم پر تھونپے،یعنی امریکہ کو اپنا قانون ہم پر نافذ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، ہمارے افراد خود اپنے لئے مفید قانون کو ووٹ دیں ، اور ہمارے افراد نے ہی اسلامی قانون کو اپنا ووٹ دیا ہے۔
ایک شخص” اہواز یونیورسٹی“ میں اپنی تقریر کے دوران کھتا ہے: اگر لوگ خدا کے خلاف مظاہرہ کرنا چاہیں تو قانون کو ان کو روکنے کا کوی حق نہیں ہے؟! کیا انسانوں کی حکومت کا یھی مطلب ہے؟ کیا قانون اساسی اس چیز کو کھتا ہے؟ اگر کوئی قانون اساسی کو نہ جانتے ہوئے اس طرح کی باتیں کرے تو کوئی تعجب کی بات نھیں ، تعجب تو ان لوگوں پر ہوتا ہے جو خود کو قانون داں کھلاتے ہیں ، لیکن پھر بھی اس طرح کی باتیں کرتے ہیں !
ممکن ہے کوئی یہ کھے ہم نہیں مانتے کہ جو آپ کھتے ہیں وہی قانون اساسی ہے، تو اس کے جواب میں ہم عرض کرتے ہیں کہ اگر قانون میں کسی طرح کی پیچیدگی ہے تو اس کی مفسّر شورائے نگھبان ہے اگر آپ اس قانون اساسی کو قبول کرتے ہیں تو بھی یہ قانون آپ کو تفسیر کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اور پیچیدگی اور تعارض کے حل کو بھی خود ہی معین کرتا ہے اگر آپ اسی قانون اساسی کو مانتے ہیں تو اس کی تفسیر شورائے نگھبان سے پوچھئے، وہ شورائے نگھبان جو اسلام و قانون اساسی کی محافظ ہے، اور یہ شورائے نگھبان احکام اسلامی کی محافظت کیلئے نہیں ہے، اس وقت اگر آپ کی تائید ہوتی ہے تو پھر آپ اسلام پر اعتراض کرنے میں حق بجانب ہیں ۔
بہرحال جو کچھ ہم نے بیان کیا اسلام کے دشمنوں کے بعض شبھات تھے جو مکڑی کے جالے سے بھی ضعیف و کمزور ہیں ، اور اسلام کے دشمنوں کے پاس ان سست اور کمزور باتوں کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔
حوالے