اسلام اور سیاست جلد ۱

اسلام اور سیاست 0%

اسلام اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اسلام اور سیاست

مؤلف: آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی دام ظلہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 36778
ڈاؤنلوڈ: 3738


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 39 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36778 / ڈاؤنلوڈ: 3738
سائز سائز سائز
اسلام اور سیاست

اسلام اور سیاست جلد 1

مؤلف:
اردو

انیسواں جلسہ

حکومت اور سیاست کے سلسلہ میں اسلام کی خصوصیت

۱۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر

گذشتہ گفتگو میں ہم نے بیان کیا کہ بعض لوگ اسلامی حکومت پر اعتراض کرتے ہیں کہ اسلامی حکومت سے انسان کی انفرادی آزادی محدود ہوجاتی ہے، اور چونکہ یہ آزادی انسان کا طبیعی حق ہے، لھٰذا اسلامی حکومت کو یہ حق نہیں ہے کہ ان آزادیوں کو محدود کرے ، چنانچہ ایسی حکومت کو قبول نہیں کیا جاسکتا اس اعتراض کے جواب میں ہم نے عرض کیا کہ قانون کی حقیقت یہ ہے کہ قانون آزادی کو محدود کرتا ہے. اور چونکہ انسان اپنے آزاد ارادہ سے اپنی مختلف خوہشات کی تحقیق وبررسی کرکے وہ اپنے لئے بہت ر چیز کا انتخاب اور تعین کرنے کا حق رکھتاہے، اس بات کا امکان ہے کہ کبھی یہ انتخاب، معاشرہ یا خود اس کے ضررونقصان میں تمام ہو؛ لھٰذا اس کی ان آزادیوں کو کسی ایک قانون کے ذریعہ محدود ہونا چاہئے. لھٰذا یہ اعتقاد رکھنا کہ انسان کو مطلق آزادی ہونا چاہئےے اور وہ اپنے تمام معاملات میں خود مختار ہو یہ سراسر نامناسب اور باطل ہے، اور نہ ہم کسی ایسے آدمی کوجانتے اور پہچانتے ہیں جو آزادی کو مطلق اور بے قید وبند مانے،بلکہ تمام دانشورں کا ماننا یہ ہے کہ آزادی کو مشروع اور قانونی دائرے میں ہونا چاہئے، کیونکہ اگر آزدای کو بے لگام مان لیا جائے تو پھر عسروحرج لازم آتا ہے اور اس کا نقصان انسانیت پر پڑتا ہے۔

ہمارے ملک کے قانون اساسی میں مشروع آزادی کو قبول کیا گیا ہے، اور شرعی اصطلاح کے مطابق ،مشروع آزادیاں یعنی وہ آزادیاں جن کو شریعت مقدس نے جائز قرار دیا ہے، اور عرفی اصطلاح کے مطابق یعنی قانونی آزادی، اور چونکہ ہمارے ملک میں وہ قوانین معتبر ہیں جو اسلامی اصول کے مطابق ہوں ، اسی طرح وہ آزدای معتبر ہے جو اسلام کی نگاہ میں مُجاز اور جائزھیں ،البتہ یہ جواب ان لوگوں کی نظر میں قابلِ قبول ہے کہ جو اسلامی نظام او رجمہوری اسلامی کے قانون اساسی کو قبول کرتے ہوں ،لیکن اگر کوئی اسلامی نظام اور قانون اساسی کو قبول نہ کرتا ہو ، او راسلام اورقانون اساسی سے صرف نظر کرتے ہوئے اس سوال کو اچھالے اور کھے کہ کیا دلیل ہے کہ آزادی کو محدود اور اسلامی ہونا چاہئے؟ اسلام کی تجویز کردہ آزادی کی حد سے کیوں آگے نہیں بڑھا جاسکتا؟

اس سوال کے جواب کے لئے کچھ مقدمات کو بیان کرنا ضروری ہے جن میں سے بعض کو اصول موضوعہ کے لحاظ سے آپ حضرات کو قبول کرنا پڑے گا، کیونکہ یہ مقدمات علم کلام، فلسفہ اور الھٰیات سے مربوط ہیں جن کو سبھی لوگ تسلیم کرتے ہیں ، کیونکہ اگر ہم ان مقدمات کی توضیح اور تفسیر میں وارد ہوتے ہیں تو اصل گفتگو سے دور ہوجائیں گے، البتہ ان میں سے بعض مقدمات ،مقدمات قریبی ہیں کہ جن پر یھاں بحث کی جاسکتی ہے۔

۲۔حکومت سے مخصوص کاموں کے بارے میں تین نظریے

جس وقت ہم یہ کھتے ہیں کہ معاشرہ میں قانون کو جاری کرنے کےلئے حکومت کا ہونا ضروری ہے، یا حکومت کے دواہم اور بنیادی رکن قانون گذاری اور قانون کا جاری کرنا، لھٰذا ن قوانین کے لئے ایسے معیار وضوابط ہونا چاہئے جن کی روشنی میں یہ قوانین بنائے جائیں اور وہ معیار وضوابط جن کو پیش نظر رکھا جاتا ہے ان میں سے کچھ اس چیز سے مربوط ہیں کہ حکومت کی تشکیل اور قوانین بنانے کاہدف او رمقصد کیا ہونا چاہئے؟ اسی وجہ سے بحث فلسفہ سیاست میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت تشکیل دینے کی وجہ کیا ہے البتہ اس سلسلہ میں ہم نے گذشتہ بحث میں مخصر طور پر عرض کیا ہے ، لیکن اس جگہ تفصیلی طور پر اس مطلب پر بحث کی تحقیق کرتے ہیں (لیکن ابتداء میں ہم حکومت کے فلسفہ کے بارے میں فہرست وار تین نظریوں بیان کرتے ہیں تاکہ ان مطالب کی ارتباط کو بہت ر طور پر پہچان لیا جائے او رپھر تفصیلی طور پر بحث میں وارد ہونگے):

۱۔”رنسانس“ کے زمانہ کے بعد بعض سیاسی فلاسفہ حضرات مثل ”ھابز“ کا ماننا یہ ہے کہ حکومت بنانے کا ہدف او راس کی ذمہ داری فقط معاشرہ میں نظم وامنیت کو برقرار کرنا ہے؛ دوسرے رسا الفاظ میں یوں کھا جائے : حکومت کی ذمہ داری داخلی وخارجی امنیت کو برقرار کرنا ہے، یعنی حکومت کی اصلی ذمہ داری یہ ہے کہ ایسے قوانین کو جاری کرے ، جس سے معاشرہ میں بدنظمی اور عسروحرج نہ پھیلے،اور اس سلسلے میں اندرونی وخارجی خطرات سے نپٹنے کے لئے دفاعی قوت (پولیس او رفوج) تشکیل دے ، تاکہ وہ ملک اوراس کے تمام باشندوں کی حفاظت کرسکے۔

۲۔بعض لوگوں کا کہنا یہ ہے: حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ معاشرہ میں نظم و امنیت کے ساتھ ساتھ عدالت کو بھی برقرار رکھا جائے.

یھاں سے قانون،عدالت اورآزادی کے بارے میں ایک عمیق بحث(خصوصاً سیاسی اورجامعہ شناس حضرات کے درمیان) شروع ہوجاتی ہے اور اس سلسلہ میں بہت سی کتابیں بھی لکھی گئیں کہ آزادی ،قانون اور عدالت میں کیا ہیں اور ان میں آپس میں کیارابطہ ہے؟

اگر ہم قبول کریں کہ حکومت کی ذمہ داری معاشرہ میں امنیت برقرار کرنے کے ساتھ ساتھ عدالت کا برقرار کرنا بھی ضروری ہے، تو یہ سوال پیدا ہوگاکہ عدالت کے کیا معنی ہیں ؟ عدالت کی حقیقت اور اس کے اصول کے بارے میں ، مسلم وغیرمسلم دانشمندوں کے بارے میں مختلف تفسیریں بیان کی گئی ہیں ، اور جس بات کو سبھی قبول کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ”ھر انسان کو اس کا حق دیا جانا چاہئے“ اور عدالت کے اس معنی کو تقربیاً سبھی دانشمندوں نے قبول کیا ہے؛ لیکن حق کیا ہے اور اس کے حدود کیا ہیں اس سلسلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے. اور چونکہ عدالت کے معنی میں ”حق“ کا لحاظ کیا گیا ہے، مجبوراً ہم کو ایک دوسری بحث کرنا ہوگی اور وہ یہ کہ آزادی، حق،قانون اور عدالت میں کیا او رحق وعدالت میں کیا رابطہ ہے. بالآخر بحث یھاں پہونچتی ہے کہ ہر انسان کا یہ حق ہے کہ اس کے منافع اور طبیعی مصالح پورے ہوں اور یہ صرف عادلانہ قوانین کے ذریعہ ہی ممکن ہوسکتا ہے، جس میں لوگوں کی اجتماعی زندگی کے تمام حقوق(یعنی وہ چیزیں کہ جن کو انسان کی طبیعی ضرورتیں اقتضاء کرتی ہوں ) پورے ہوتے ہیں ۔

اب چونکہ حقوق کی بات آگئی ہے لھٰذا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اجتماعی زندگی میں کون لوگ صاحب حق ہیں ؟ کیا اجتماعی زندگی میں تمام لوگ صاحب حق ہیں یااجتماعی زندگی میں صرف بعض لوگوں کو حق حاصل ہے کہ اجتماعی کاموں میں دخیل ہوں ؟ واضح طور پر عرض کریں کہ وہ انسان جو معلول(اپاہج) ہیں اور معاشرہ کی کوئی بھی خدمت انجام نہیں دے سکتے اور ھاسپٹل یا آسایشگاہ(۱) میں رہتے ہیں اور اجتماعی زندگی میں ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا،کیا وہ بھی معاشرہ میں حق رکھتے ہیں یا نھیں ؟ اگر حق اس وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ معاشرہ میں کچھ خدمت انجام دیں ، تو ایسے افراد کو کوئی حق نہیں ہے؛ کیونکہ یہ لوگ تو صرف معاشرہ کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کے علاوہ معاشرہ کو کوئی فائدہ نہیں پہونچارہے ہیں ۔

البتہ ممکن ہے کہ بعض معلول افراد ذہنی طور پر معاشرہ کی خدمت کریں ، لیکن ہماری گفتگو ان اپاہج لوگوں کے سلسلہ میں ہے جو جسمی اور ذہنی طور پر محروم پیدا ہوتے ہیں اورمعاشرہ کو جسمانی اور ذہنی خدمات نہیں پہونچاسکتے، کیا ایسے لوگ معاشرہ میں حق رکھتے ہیں ؟ یا ایسا شخص جس نے صحت وسلامتی کے وقت معاشرہ کی خدمت کی ہے، لیکن اس وقت اپاہج ہوگیا ہے اور معاشرہ کی کوئی بھی خدمت نہیں کرسکتا کیا ایسا شخص معاشرہ میں حق رکھتا ہے یا نھیں ؟

بعض جامعہ شناس حضرات کے مطابق ایسے لوگوں کے لئے معاشرہ میں کوئی حق نہیں ہے، اور حکومت پر بھی ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، قدیم روس کی مارکسسٹی حکومت میں ایسے افراد کو معاشرہ میں کوئی حق نہیں تھا، اور کسی نہ کسی بھانہ سے ان کو ختم کردیا جاتا تھا۔

____________________

(۱) وہ جگہ جہاں بوڑھوں اور بے وارث بچوں کو رکھا جاتا ہے.

دوسرے ممالک میں بھی اس طرح کا نظریہ موجود ہے. کیا معاشرہ میں حق پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے بدلے معاشرہ کی خدمت کی جائے؟ کیا وہ اپاہج کہ جو معاشرہ میں کچھ خدمت نہیں کرسکتا، صرف اس وجہ سے کہ وہ انسان ہے اور انسانوں میں پیدا ہوا ہے اور انسانوں میں زندگی گذارتا ہے، معاشرہ پر حق نہیں رکھتا؟ افسوس کہ وہ بعض افراد جو کھتے ہیں کہ حق معاشرہ کی خدمت کرنے سے حاصل ہوتا ہے ،لھٰذا ان لوگوں کو کوئی حق نہیں ہے کھتے ہیں کہ اگر کچھ لوگ رحم و محبت کی وجہ سے ان لوگوں کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور ان کی حفاظت کے لئے آسایشگاہ بنواتے ہیں ، ٹھیک ہے بنوائےں ، ورنہ کوئی بھی ان کی موت کا ذمہ دار نہیں ہے!

۲۔ حکومت کی تشکیل کے ہدف کے بارے میں تیسرا نظریہ اسلامی ہے جس کے اندر حکومت کی ذمہ داری عدالت وامنیت کو برقرار رکھنے کے علاوہ معنوی اور روحانی ضرورتوں کو بھی پورا کرنا ہے۔

۳۔ اسلامی اور غیر اسلامی حکومتوں کے کاموں میں ایک امتیازی فرق

اسلامی نظریہ کے مطابق ، امنیت اور خارجی دشمن کے مقابلہ میں اپنا دفاع ، اور عدالت کو برقرار کرنا نیز معاشرہ کی خدمت کرنے والے کے حق کو ادا کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری میں شمار کیا جاتا ہے، احسان، یعنی ضعیف وکمزوراور معاشرہ کے وہ لوگ کہ جو کچھ بھی خدمت انجام نہیں دے سکتے ان تمام لوگوں کی خدمت کرنا بھی حکومتوں کا وظیفہ ہے؛ جس طرح کہ خداوندعالم قرآن مجیدمیں فرماتا ہے:

( إِنَّ اللّٰه یَا مُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ ) (۱)

”بے شک خدا انصاف اور (لوگوں کے ساتھ) نیکی کرنے کا حکم کرتا ہے“

مسلمانوں کی ذمہ داری صرف عدل نہیں ہے بلکہ اس سے بڑھکر بعض موارد میں احسان بھی کریں ، وہ فقیر لوگ جو کچھ نھیں کر سکتے یا وہ اپاہج کہ جو معاشرہ میں کوئی خدمت نہیں کرسکتے، یھاں تک کہ وہ مادرزاد اپاہج چونکہ انسان ہیں انسانی معاشرہ میں حق رکھتے ہیں اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان کی روز مرہ ضرورتوں کو پورا کرے۔

مذہب اسلام اور دوسرے مذاہب میں ایک دوسرا فرق یہ بھی ہے کہ اسلام انسان کی ضرورتوں کو صرف مادّی اور بدنی ضرورتوں میں منحصر نہیں سمجھتا بلکہ معنوی اور اخروی ضرورتوں کو بھی پیش نظر رکھتا ہے؛ اسی وجہ سے اسلامی حکومت کی ذمہ داری ،لیبرل حکومتوں سے کھیں زیادہ ہیں : لیبرال حکومت صرف ان لوگوں جو معاشرہ میں کچھ خدمات کرتے ہیں ضرورتوں کو پورا کرنے کی ذمہ داری کے علاوہ کوئی ذمہ داری نہیں مانتی،لیکن اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ معاشرہ کی خدمت کرنے والوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے علاوہ اپاہج اورناتواں لوگوں کی بھی مدد کرے، اور اس کے علاوہ انسانوں کی معنوی وروحانی احتیاجات کو پورا کرے، اسی وجہ سے اسلامی حکومت کی ذمہ داری بہت زیادہ ہوجاتی ہے ، اس بناپراسلامی حکومت میں ایسے قوانین بنائے اور جاری کئے جائیں جن سے انسان کی انفرادی،اجتماعی، مادی او رمعنوی ، دنیاوی اور اخروی مصلحتوں کو پورا کیا جاسکے، نہ کہ صرف معاشرہ کے سرگرم افراد کی مادی منافعوں کی فکر میں رہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی نظریہ کی صحت پر کیا دلیل ہے؟ اور کیوں دوسرے نظریات صحیح نھیں ہیں ؟ (توجہ رہے کہ ہماری یہ بحث صرف دینی نہیں ہے کہ ہم آیات وروایات کے ذریعہ دلیل قائم کردیں ،اگرچہ جہاں آیات وروایات کا موقع ہوتا ہے وہاں آیات وروایات سے بھی بحث کی ہے) کیا واقعاً انسانی معاشروں میں تمام مادی ومعنوی منفعتوں کا پورا ہونا ضرور ی ہے یا صرف مادی منفعتوں کا پورا ہونا کافی ہے؟ دوسرے الفاظ میں یوں عرض کیا جائے کہ جس طرح حکومت کی تشکیل کے ہدف کے تحت یہ سوال ہوا تھا کیا حکومت اور قانون کا ہونا صرف امنیت کا برقرار ہونا اور عسروحرج سے روکنا ہے یا حکومت کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ انسان کی معنوی مصلحتوں پر بھی توجہ ضروری ہے؟ اس مسئلہ کوحل کرنے اور گذشتہ سوال کے جواب کےلئے ضروری ہے کہ ایک قدم پیچھے ھٹیں اور یہ سوال کریں کہ انسانی معاشرہ کی تشکیل کا کیا ہدف ہے؟

۴۔ انسانی معاشرہ کی حقیقت اسلام کی نگاہ میں

قبل اس کے کہ انسانی معاشرہ کی تشکیل کے ہدف کو پہچانےں ،ضروری ہے کہ پہلے یہ بحث کی جائے کہ انسان ذاتی طور پر ایک اجتماعی موجود ہے جس طرح شھد کی مکھی اور چیونٹی جو اجتماعی زندگی کا حق انتخاب نہیں رکھتے ؟ یا یہ کہ اجتماعی زندگی وہ چیز ہے جس کا انسان نے خود انتخاب کیا ہے؟ اس سلسلہ میں بھی بہت زیادہ بحث ہوئی ہیں ہم ان میں جانا نہیں چاہتے، صرف اس سلسلہ میں دو اہم نظریات کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

پھلا نظریہ یہ ہے کہ اجتماعی زندگی کے لئے کوئی خاص مقصد مانا جائے.

دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اجتماعی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے.

جیسا کہ یہ نہیں کھا جاتا کہ کیوں شھد کی مکھیا ں اجتماعی زندگی گذارتی ہیں ، اور اس اجتماعی زندگی سے ان کا کیا مقصد ہے؟ ظاہر ہے کہ شھد کی مکھیاں ایک طبیعی ہدف رکھتی ہیں اور وہ یہ کہ شھد بناتی رہیں اور اپنی عمر اسی میں گذار تی رہیں ،اس کے علاوہ ان کا کوئی ہدف نہیں ہے، البتہ خداوندعالم کی نظر میں ان شھد کی مکھیوں کے پیدا کرنے کے بھی بہت سے اہداف ومقاصد ہیں جن میں سے انسانوں کی خدمت ہے، الہی ہدف کے علاوہ شھد کی مکھیاں اپنی اجتماعی زندگی کا کوئی مقصد نہیں رکھتیں ، تو کیا انسان کی اجتماعی زندگی بھی اسی طرح خود بخود پیدا ہوگئی ہے اور ان کا کوئی ہدف نہیں ہے؟ یا یہ کہ انسان کی اجتماعی زندگی ایک خاص ہدف کے تحت ہے جس کا لازمہ ایک دوسرے سے رابطہ ہے اور یہ رابطہ خاص قوانین کا تقاضا کرتا ہے؟

اسلامی اورالہی نظریہ کے مطابق،انسان کی اجتماعی زندگی کا ایک ہدف اور مقصد ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان اجتماعی زندگی کے سایہ میں رشد وترقی کرے اور انسانی کمال تک پہونچے. اس وقت سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کی خلقت کا ہدف کیا ہے؟ الہی نظریہ کے مطابق خصوصاً حضرت امام خمینی اور دوسرے علماء کرام نے انقلاب اور اس کے بعد میں لوگوں کے سامنے جو بیانات پیش کئے ہیں ہم کو اسلامی معارف سے مزید آشنا کرتے ہیں ، اوریہ بات ہمارے معاشرہ کے لئے روشن ہے کہ انسان کا نھائی اور آخری ہدف قرب خدا ہے اور یہ انسانی کمال کی حد ہے۔

البتہ اس مسئلہ میں ایک مقدار ابھام پایا جاتا ہے او راس کی وضاحت کی ضرورت ہے ،لیکن ہم اس وقت اس کوتفصیل سے بیان نہیں کرسکتے، بہرحال جو ہم نے عرض کیا کہ انسان کی خلقت ایک مقصد رکھتی ہے، لھٰذا انسان اپنی اس اجتماعی زندگی سے قرب پرروردگار حاصل کرے یھی اس کاآخری اور نھائی مقصد ہونا چاہئے، اور یہ نظریہ اجمالی طور پر سبھی لوگ تسلیم رکتے ہیں لھٰذا اگر ہم اس بات کو قبول کرلیں کہ انسان کی خلقت کا ہدف وہ کمال ہے جو خدا کی قربت میں حاصل ہوسکتا ہے،اور اجتماعی زندگی اس تک پہونچنے کےلئے ایک وسیلہ ہے تاکہ انسان کے لئے زمینہ ہموار ہوسکے کہ وہ اس کمال تک پہونچ سکے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر اجتماعی زندگی نہ ہو تو انسان ضروری معرفت حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی ضروری عبادت انجام دے سکتا ۔

نتیجتاً وہ کمال تک نہیں پہونچ سکتا.پس اجتماعی زندگی ہی وہ وسیلہ ہے جس میں انسان تعلیم وتعلم حاصل کرتا ہے اور انسان بہت ر زندگی کے راستہ کو پہچان سکتا ہے، او راس کو طے کرنے کے لئے موقع فراہم ہوتاہے اور اس کے نتیجہ میں کمال تک زیادہ نزدیک ہوسکتا ہے، اگر ان برہانی مقدمات (جو اپنے مقام پر ثابت ہوچکے ہیں او ران پر دلائل بھی موجود ہیں ) کو قبول کریں تو نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ اجتماعی زندگی کا ہدف انسانی کمال تک پہونچنا ہے نہ کہ صرف مادی چیزوں کو حاصل کرلینا،بلکہ انسان کے تمام پہلووں کوکامل ہونا چاہئے۔

پس اجتماعی زندگی کا ہدف تمام انسانوں کے دنیوی اور مادّی منافع اور معنوی واخروی منافع کو فراہم کرے، اور چونکہ تمام انسانوں کا یہ ہدف ہے لھٰذا تمام انسان اس زندگی میں حق رکھتے ہیں

اب جبکہ یہ ثابت ہوچکا کہ انسان کی اجتماعی زندگی کا ہدف صرف مادی منفعتوں کا پورا ہونا نہیں ہے ،اور قانون کا ہدف بھی صرف امنیت کا برقرار ہونا نہیں ہے بلکہ امنیت کے علاوہ دوسرے اہداف بھی ہےں ، جن کو پورا ہونا چاہئے ،لھٰذا امنیت وآسائش اور مادی احتیاجات کا پورا ہونا اس نھائی کمال اور تقرب الٰھی تک پہونچنے کے لئے ایک مقدمہ ہے۔

بہرحال ، اسلامی نظریہ کے اعتبار سے انسان کی خلقت کا ہدف یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تمام اطراف وجوانب میں تکامل وتقرب الی اللہ کے وسائل فراہم کرے اور اپنی زندگی کے تمام پہلوں کو الہی اور اسلامی سانچے میں ڈھالے، چونکہ انسان کے مختلف پہلو ہیں ،اس بناپر تمام ہی پہلوں کی پیشرفت ،انسان کی حقیقی پیشرفت وترقی ہے، نہ کہ صرف مادی ، اجتماعی اور ٹیکنیکی ترقیاں ، لھٰذا مادی پہلوں کے ساتھ معنوی پہلو مل کر انسان کی حقیقت سنوارتے ہیں ، پس اجتماعی زندگی کا ہدف انسان کی تمام پہلوں کی پیشرفت وترقی ہے ،اور وہ قانون سب سے بہت ر ہے کہ جس میں انسان کے تمام پہلوں کی ترقی کے لئے راہ ہموار ہو اور ان چیزوں کو مقدم کرے کہ جن کے ذریعہ سے نھائی ہدف یعنی قرب الہی تک پہونچاجاسکے۔

۵۔ قانون گذار کی ضروری صفات

اسلامی حکومت یہ نہیں کھہ سکتی کہ ہماری ذمہ داری فقط معاشرہ کی امنیت کو پورا کرنا ہے،کیونکہ یہ تو ”ھابز“ کا نظریہ ہے کہ جو کھتا ہے کہ انسان بھیڑئے کہ طرح ہیں ، جو ایک دوسرے کی جان کے پیچھے پڑے ہیں کسی ایک طاقت کا ہونا ضروری ہے تاکہ ان کو کنٹرول کرسکے. انسان کو چاہئے کہ اپنا اختیار کسی ایسے انسان یا گروہ کے ھاتہ میں دیدے جو ان کو کنٹرول کرسکے اور ان کے ظلم وستم سے بچاسکے، پس یہ کہنا کہ حکومت کی ذمہ داری صرف لوگوں کی امنیت پورا کرنا اور عسر وحرج سے روکنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ،بے شک یہ نظریہ باطل ہے اور جانوروں کی اجتماعی زندگی کے لئے مناسب ہے، نہ کہ انسانی معاشرے کے افراد کے لئے جو اشرف المخلوقات اور بہت سی قابلیتوں کے مالک ہےں ،بلکہ ان کا ہدف بہت بلندوبالا ہے۔

لھٰذااسلامی حکومت کو وہ قوانین جاری کرنا چاہئے جن سے انسان کے تمام پہلورشد وترقی کرسکیں اور انسان کے تمام مصالح کو تمام پہلووں میں پورا کرسکےں ،اور یہ سب اسلامی پرچم کے زیر سایہ عملی ہوسکتے ہیں ؛ اور چونکہ ایسے قوانین کے لئے ضروری ہے کہ انسان کے تمام پہلوں کا علم ہونا چاہئے.ہم ایسے افراد کو جانتے ہیں جو انسان کے بعض پہلو میں مھارت رکھتے ہیں لیکن عام لوگوں میں کوئی ایسا نہیں ہے کہ جسے انسان کے تمام پہلوں کا علم ہو. اگر قدیم زمانہ میں ایسے فلاسفہ ہوا کرتے تھے جو اس طرح کا دعویٰ کرتے تھے۔

لیکن آج انسان کا جھل اور لاعلمی پہلے سے کھیں زیادہ واضح ہے انسان کے پہلو اس حدتک مخفی ہیں کہ کوئی دانشمند یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ میں انسان کے تمام زاویوں پر احاطہ رکھتا ہوں اور انسان کی تمام ضرورتوں کو بتاسکتا ہوں ، اس کے علاوہ ایک مسئلہ یہ ہے کہ کبھی کبھی انسان کی ضرورتیں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں ، ممکن ہے کہ بعض مقامات پر معاشی ترقیاں ،الہی ومعنوی امور سے ٹکرائیں ، البتہ ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ الہی احسن نظام نے انسانی تمام مصالح کوپورا کیا ہے، لیکن ممکن ہے کہ کسی معاشرہ میں کسی مقام پر انسانی مصلحتوں کے درمیان ٹکراؤ دکھائی دے۔

لھٰذا ضروری ہے کہ ان مصالح کی طبقہ بندی کی جائے اور بعض چیزوں کو مقدم کرنے کے قائل ہوں ، تاکہ اگر دو مصلحتوں میں ٹکراؤ ہو تو ذمہ دار افراد کو معلوم ہو کہ کس کو مقدم کیا جائے؟ قانون گذار کا یہ بھی ایک وظیفہ ہے کہ ان امور کو مشخص کرے جو اولیت رکھتے ہیں یعنی قانون گذار کے اندر یہ صلاحیت ہونا چاہئے کہ وہ اولویات کو مشخص اور معین کرسکے یھاں آنے کے بعد انسان کی ناتوانی او رکمزوری مزید ظاہر ہوجاتی ہے،کیونکہ انسان کی اولویات کو پہچاننا انسان کے بس مں ی نہیں ہے۔

بہر حال انسان کے تمام پہلووں پر احاطہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ،قانون گذار کے لئے ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اپنے کو ذاتی او رگروہی خواہشات سے خالی کرے، اورمعاشرہ کے مصالح ومنافع کو اپنے یا اپنے گروہ کے مصالح پر مقدم کرے اور یہ کام ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے. صرف انسان متقی وپرہیزگار ہی اپنے ومعاشرہ کے منافعوں کے ٹکراؤ کی صورت میں معاشرہ کے منافعوں کو مقدم کرے او راپنے یا اپنے گروہ کی منافعوں سے چشم پوشی کرسکتا ہے او رآزادانہ طور پر معاشرہ کے منافعوں کو اپنے منافع پر ترجیح دے سکتا ہے، لیکن معاشرہ میں ایسے افراد کا ملنا مشکل ہے او رشاید تقریباً محال کی منزل میں ہو. پس نتیجہ یہ نکلا کہ قانون گذار کو تمام مصلحتوں سے آگاہی کے ساتھ ساتھ اس میں ایسی صلاحیت ہونا چاہئے اپنے منافع پر معاشرہ کے منافع کو مقدم کرے ۔

یھی سے الہی قانون کی افضلیت بشری قانون پر مکمل طور پر واضح وروشن ہوجاتی ہے، کیونکہ خداوندعالم تمام لوگوں سے انسانی مصلحتوں کو بہت ر جانتا ہے اور صرف انسان کی مصلحتوں کی رعایت کرتا ہے اور اس کو انسانی کردار کی کوئی ضرورت نہیں ہے،تاکہ انسان کے اعمال سے خدا کی کوئی مصلحت او راس کے لئے فائدہ ہو، جس کے نتیجہ میں مزاحمت پیدا ہو: خدا انسان کے کاموں سے کوئی نفع نہیں حاصل کرتا ہے تاکہ اس کا نفع دوسروں کے نفع سے ٹکرائے.

یہ تمام چیزیں اس وقت ہیں کہ جب ہم اپنے منافع کو خدا کے حق ربوبیت کے علاوہ سمجھیں ، لیکن اسلامی نظریہ کے مطابق ان تمام چیزوں سے بلند تر وہ بلند کمال ہے جس تک انسان کو پہونچنا ہے، ہم اسی بنیاد پر کھتے ہیں : بالفرض اگر انسانی زندگی کے مادی مصالح اور اجتماعی روابط یھاں تک کہ روحی ومعنوی مصالح پورے ہوجائیں ، پھر بھی ایسا معاشرہ نمونہ نہیں بن سکتا. ایسا انسان او رمعاشرہ نھائی ہدف تک نہیں پہونچ سکتا،کیونکہ نھائی کمال خدا کی قربت میں ہے، اور یہ قربت خدا کی عبادت واطاعت اوربندگی سے حاصل ہوسکتی ہے۔

اگر انسان صحت وسلامتی کے ساتھ ساتھ معاشرہ کا چین وسکون، اوردشمن کے مقابلہ میں دفاع اور عدالت سے ہمکنار ہو یعنی انسان تمام اجتماعی حقوق سے مالامال ہو، لیکن اس زندگی میں خدا کی عبادت نہ کی جائے، تو ایسا انسان نھائی کمال تک نہیں پہونچا ہے او رخدا کی رضا وخوشنودی کا مستحق نہیں ہوا ہے. اسلامی نظریہ کے مطابق ، یہ تمام چیزیں انسان کے خدا سے رابطہ کا مقدمہ ہےں ، انسان کا حقیقی کمال اسی خدا سے رابطہ میں ہے. چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ انسان کا حقیقی کمال خدا کے قرب میں ہے. خدا کا قرب ایک نعرہ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت اور ایسا معنوی ارتباط ہے جو خدا اور انسان کے درمیان برقرار ہوتا ہے،اورانسان اپنی زندگی کے مراحل کو طے کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے یھاں تک اس بلند مقام تک پہونچتا ہے. اس بلند مقام کی پہچان ہر عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے، اور اس کو نہیں معلوم کہ انسان کے لئے کتنا عظیم مرتبہ ہے ،تاکہ مادی ودنیوی خواہشات کے ساتھ ساتھ اس روحانی ومعنوی کمال تک پہونچ جائے۔

اور یہ بات بھی یھاں سے واضح ہوجاتی ہے کہ خداوندعالم کو ہماری عبادت کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،لیکن پھر انسان کو عبادت کے لئے کیوں پیدا کیا جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے :

( مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالاِنْسَ إلاَّ لِیَعْبُدُونِ ) (۲)

”اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اسی غرض سے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں “

جواب یہ ہے کہ انسان کا نھائی کمال عبادت کے علاوہ حاصل نہیں ہوسکتا، لھٰذا خدا کی پہچان اور اس کی اطاعت کرنا ضروری ہے تاکہ انسان اپنے حقیقی کمال تک پہونچ سکے. ان مقدمات کے پیش نظراب ہم یہ کھہ سکتے ہیں کہ وہ قانون مناسب ومطلوب ہے جو معاشرہ کے سرگرم افراد کی مادی ومعنوی احتیاجات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ، ناتوان وکمزور اپاہج لوگوں کی بھی احتیاجات پورا کرے جو کہ معاشرہ میں کچھ بھی خدمات انجام نہیں دے سکتے ، کیونکہ یہ بھی حقوق رکھتے ہیں ۔

اسلامی حکومت کا یہ وظیفہ ہے کہ ان لوگوں کے حقوق کو بھی تامین کرے، اور فقراء ومساکین اور اپاہج لوگوں کی ضرورتوں کو بھی پورا کیا جائے کیونکہ یہ بھی خدا کے بندے ہیں اور اس انسانی معاشرہ میں پیدا ہوئے ہیں اور جب تک زندہ ہیں ان کے حقوق کو دئے جائیں لھٰذا معاشرہ میں وہ قوانین جاری ہوں ان لوگوں کے حقوق کو مدّ نظر رکھا جائے ، اسی وجہ سے قرآن نے عدالت کے علاوہ احسان پر بھی توجہ دلائی ہے ، ارشاد ہوتا ہے:

( إِنَّ اللّٰه یَا مُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ ) (۳)

”بے شک خدا انصاف اور (لوگوں کے ساتھ) نیکی کرنے کا حکم کرتا ہے“

خدا وندعالم کے احکامات صرف اخلاقی احکامات نہیں ہیں ،بلکہ واجب احکام ہیں جن کی رعایت کرنا ضروری ہے، اور اگر صرف عدالت کی رعایت کرنا ضروری ہوتا تو پھر احسان کا اضافہ کرنا کیا ضروری تھا؛ پس جس طرح معاشرہ میں عدالت کا اجرا کرنا ضروری ہے، اسی طرح احسان کی رعایت بھی واجب ہے، یعنی صرف خدمات انجام دینے والے افراد ہی صاحب حقوق نھیں ، بلکہ کچھ ایسے حقوق ہیں جن کو خداوندعالم نے ہر انسان کے لئے مقرر فرمائے ہیں ، یھاں تک خداوندعالم نے ان افراد کے لئے بھی حقوق معین فرمائیں ہیں جواس دنیا میں بدترین حالات میں زندگی گذار رہے ہیں مثلاً ھاتہ پیر آنکہ اور کان سے محروم ہیں لیکن جب تک وہ سانس لے رہے ہیں اور زندہ ہیں تو اسلامی حکومت کو یہ حق ہے کہ وہ ان کے حقوق کی رعایت کریں لھٰذا اس طرح کے قوانین پر حکومت اسلامی کو توجہ قرار دینا چاہئے، اور یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہماری ذمہ داری فقط اتنی ہی ہے جس کو مغربی دانشوروں جیسے ”ھابز“ یا ”روسو“ وغیرہ نے کھا ہے، کیونکہ یا تو ان لوگوں کی نظر میں انسانی بلند مراتب نہیں تھے یا انسان کو بھیڑیا صفت یا شھد کی مکھیوں کی طرح مانتے ہیں ،لیکن اسلام کی نظر میں انسان کی عظمت (اگرچہ اجتماعی زندگی بھی رکھتے ہیں )حیوانوں سے کھیں زیادہ بلند ہے۔

پس قانون ایسا ہونا چاہئے جو انسان کی مادی اور معنوی ضروتوں پورا کرے جو نھائی کمال تک پہونچنے کا مقدمہ ہوں ،اب اگر یہ مان لیا جائے کہ قانون کو انسان کی تمام مادّی ومعنوی مصلحتوں کی رعایت کرنا ضروری ہے تو پھر کیا انسان کو ہر طرح کی آزادی دی جاسکتی ہے؟ انسان کو اگر اس بلند مقصد تک پہونچنا ہے تو پھر اس کے ارادہ کو محدود اور سسٹمیٹک ہونا چاہئے، انسان کو ایک خاص راستہ پر چلنا ہوگا تاکہ اس بلند مقصد تک پہونچ سکے. کیا انسان کسی بھی راستہ پر چل کر اس بلند ہدف تک پہونچ سکتا ہے؟

کیا وہ لوگ جنھوں نے خدا کو نہیں پہچانا یا خدا کا انکار کیا یا اس سے اور اس کے ماننے والوں سے مقابلہ کیا اس انسانی کمال تک پہونچ سکتے ہیں ؟ کیا انسان کے کمال تک پہونچنے کا راستہ عبادت نہیں ہے ؟ تو پھر کس طرح وہ انسان جو خدا او رخدا پرستی سے مقابلہ کرتا آیا ہے انسانی حقیقی کمال تک پہونچ سکتاہے؟ اگر اسلامی حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ انسانی پیشرفت کے لئے تمام پہلوں خصوصاً معنوی پہلو کے لئے راستہ ہموار کرے تو پھر انسانی ارادوں کو محدود ہونا چاہئے اور اس طرح کے قوانین بنائے جائیں جو انسان کے لئے ان کمالات عالیہ تک پہونچنے میں کوئی رکاوٹ نہ بنیں ۔

۶۔ اسلامی اور لیبرالیزم قوانین میں اختلاف

ہمارے گذشتہ مطالب کے پیش نظرکہ اسلامی قوانین اور انسان کے بنائے قوانین(خصوصاً لیبرالیزم قوانین، جن کا ماننا یہ ہے کہ انسان کو حق معاشرہ کی خدمت کے عوض میں ملتا ہے) میں اختلاف پایا جاتا ہے ، چنانچہ ہم اس بات کو چند نکات میں بیان کرتے ہیں ۔

الف :لیبرال معاشرہ میں اپنی نظر کے مطابق ، جو لوگ اپنی مشکلات کی وجہ سے معاشرہ کی کوئی خدمت نہیں کرسکتے ان کے لئے کسی بھی طرح کے حق کے قائل نہیں ہیں ،لیکن اسلام ان کے لئے بھی حق کا قائل ہے، اور ظاہر ہے کہ ان کے حق کی رعایت کے لئے اس کے منابع ہونا ضروری ہیں کیونکہ لوگوں کی ضروتوں کو پورا کرنے کے لئے کوئی ادارہ ہونا ضروری ہے ، اور اس ادارہ کی تامین کے لئے لازم ہوتا ہے کہ ہم دوسرے لوگوں کے ارادوں کو محدود کریں ،یعنی معاشرہ کے مال کا کچھ حصہ ان لوگوں سے مخصوص کیا جائے، جبکہ دوسرے لوگ اس کو نہیں چاہےں گے،لھٰذا ان کی خواہشات کو لامحالا محدود کیاجانا پڑے گا۔

ب :اجتماعی زندگی میں معاشرہ کے اندر ایسے حقوق کو پیش نظر رکھا جائے کہ اگر کسی موقع پر بعض افراد کے حقوق معاشرے کے حقوق سے ٹکرائیں تو معاشرے کے حقوق کو مقدم کی جائے، اور معاشرے کے حقوق اور افراد کے حقوق میں ٹکراؤ پیدا ہونے کی صورت میں ، معاشرے کے حقوق کو مقدم ہونا چاہئے ، اور یہ کہنا کہ اگر معاشرہ کے حقوق اور فردی حقوق میں تعارض پیدا ہوجائے تو معاشرہ کے حقوق کو مقدم کیا جائے گا یا فردی حقوق کو، ہمیں اس بات کو مختلف نظریوں سے دیکھنا ہوگا کیونکہ اس بارے میں دو مختلف نظریہ پائے جاتے ہیں بعض لوگ انفرادی حقوق کو مقدم کرتے ہیں چنانچہ اس وقت مغربی دنیا میں جامعہ گرائی کے مقابلہ میں فرد گرائی زیادہ رائج ہے اگر جامعہ گرائی سوسیالسٹی( Socialisti ) نظریہ بھی قدرے پایا جاتا ہے جس کی طرف سے گاہے گاہے فرد گرائی (صرف اپنے فکر کرنا) والوں پر اعتراضات ہوتے رہتے ہیں ۔

بہرحال لیبرال( Liberal ) نظریہ کے مقابلے میں اسلام معاشرہ کے حقوق کو لوگوں کے حقوق سے زیادہ مانتا ہے یعنی اگر معاشرہ اور افراد کے حقوق میں ٹکراؤ پیدا ہوجائے خصوصاً اگر کو اہم ٹکراؤ ہو تو معاشرہ کے حقوق کو مقدم کیا جاتا ہے. لیکن لیبرال حکومتیں اس وجہ سے کہ مارکیٹ کا ریٹ نہ ٹوٹے اور مالداروں کا نقصان نہ ہو لاکھوں ٹن کھانے پینے کے سامان کو جلادیتے ہیں یا دریامیں ڈال دیتے ہیں ، لاکھوں لوگوں کا بھوک سے مرنا ان کو منظور ہے لیکن ان کا مادی نقصان نہ ہو، لیکن اسلام ہر گز اس طرح کی اجازت نہیں دیتایعنی اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ ایسے افراد کو روکا جائے او ران کو محدود کیا جائے. لھٰذا نتیجہ یہ نکلاکہ معاشی آزادی بھی اس طرح بے لگام نہیں ہے بلکہ یہ آزادی بھی محدود ہونا چاہئے. پس جس طرح معاشرہ کے معذور ومحروم افراد کی وجہ سے معاشرہ کا منافع محدود ہونا ضروری ہے اسی طرح معاشرہ کے کلی مصلحتوں کی خاطر افراد کے ارادوں کو محدود ہونا چاہئے تاکہ تمام معاشرے کے مصالح تا مین ہوسکیں ۔

ج : اسلامی معاشرہ میں کچھ ایسے بھی مسائل ہیں جو خود اپنی ذات سے متعلق ہیں لیکن چونکہ ان کا اثر معاشرہ پر پڑتا ہے لھٰذا اجتماعی مسائل حساب ہوتے ہیں .مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اپنے گھر میں تنھائی کے عالم میں جبکہ اس کو کوئی نہ دیکہ رہا ہو کسی گناہ کا مرتکب ہو تو بے شک اس کا یہ گناہ فردی ہے اور جو قوانین اس طرح کی چیزوں کو محدود کر تے ہیں ان کو ”اخلاقی قوانین“ کھتے ہیں (قطع نظر اس چیز سے کہ یھاں پر ”اخلاقی “ کہنا صحیح ہے یا نھیں )

مطلب یہ ہے کہ اگر کو ئی شخص تنھائی میں کسی گناہ کا مرتکب ہو تو دوسروں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے او رحکومت کو بھی مداخلت کا کوئی حق نہیں ہے اس بات کو تقریباً تمام ہی سیاستداں حضرات قبول کرتے ہیں کیونکہ حکومت کا دائرہ معاشرہ تک محدود ہے نہ کہ شخص سے، لیکن یھاں اس بات پر اختلاف ہے کہ اگر کوئی شخص اس طرح کا کارنامہ انجام دے جس کاتھوڑا بہت اثر دوسروں پر پہونچتا ہویا کم سے کم یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کو اسے دیکہ کر گناہ کرنے کا شوق ہوتا ہے تو کیا یہ کام اجتماعی شکل پیدا کرے گا یا نھیں ؟

اگر کوئی شخص سڑک پریا کوئی ایسی جگہ کہ دوسرے لوگ اس کو دیکہ رہے ہوں کوئی گناہ کرے ،اور اس کو دیکہ کر گناہ کرنے پر جرئت پیدا کرتے ہیں او راس گناہ کے کرنے کا رجحان پیدا ہو ، تو اب اس کا یہ کام فردی حالت سے نکل کر اجتماعی شکل پیدا کرلیتا ہے ؛ کیا ہمیں حق نہیں ہے کہ اس کام میں دخالت کریں اس وجہ سے کہ اس گناہ کا ضررونقصان خود اسی کو پہونچے گا؟!

اسلام تو اس چیز کی اجازت نہیں دیتا، اسی وجہ سے تظاہر بہ فسق (کھلے عام گناہ کرنا) ایک اجتماعی مسئلہ حساب ہوتا ہے. اگر کوئی شخص دوسروں کے سامنے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو یہ گناہ حقوقی جرم (اخلاقی خلاف ورزی کے مقابلہ میں ) ہے اور حکومت اس میں دخالت کرسکتی ہے. وہ قانون جو اس طرح کے گناہوں سے منع کرتا حکومتی قانون کھا جاتا ہے جس کے جاری کرنے کی حکومت ذمہ دار ہوتی ہے۔

لھٰذا اگر تنھائی میں گناہ انجام پائے او رکسی کو پتہ بھی نہ لگے تو اس سے حکومت کا کوئی سروکار نہیں ہے اور کوئی عدالت ایسی نہیں کہ جو اس کو محکوم کرے، لیکن اگر گناہ اجتماعی صورت پیدا کرلے جس سے دوسروں میں بھی گناہ کا رجحان پیدا ہو تو اس وقت حقوقی او راجتماعی پہلو پیدا ہوجاتا ہے او رحکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے گناہوں سے روکے۔

د : گناہ اور معاشرے کو ضرر پہونچانا صرف مادّی چیزوں میں منحصر نہیں ہے بلکہ حیثیت اور آبرو کو ضرر پہونچانا بھی گناہ وجرم حساب ہوتا ہے. کسی بھی معاشرہ کو لے لیجئے کسی کی بے حرمتی او رتوہین کرنا چاہے فیزیکی اور ظاہری طور پر نہ ہو(مثلاً کسی کو توہین آمیز اور مذاق بنانے والی باتیں کھنا) گناہ سمجہا جاتا ہے، او رچونکہ دوسرے سے متعلق ہوتا ہے تو حکومت کو اس سلسلہ میں سزا دینے کا حق حاصل ہے،اسلامی معاشرہ میں دینی مقدسات کی توہین کرنا مسلمانوں کے نزدیک سب سے بڑی خلاف ورزی ہے، او راگر کوئی دین کی توہین کرے تو اس کی سزا بھی زیادہ ہونا چاہئے، کیونکہ اسلامی معاشرہ میں دینی مقدسات سے بڑہ کرکوئی چیز نہیں ہے، لھٰذا دینی مقدسات کی توہین سب سے بڑا جرم ہے۔

چنانچہ اس کے لئے سزا بھی سب سے بڑی ہونا چاہئے، اسی بناپر اگر کوئی مرتد ہوجائے یا اسلامی مقدسات کی توہین کرے تو اس سے کوئی معاملہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اگر کوئی پیغمبر اکرم یا دوسری مقدسات کی توہین کرے تو اسلام کی نظر میں اس کی سزا پھانسی ہے؟ کیونکہ اس نے سب سے بڑا جرم کیا ہے کیونکہ مسلمانوں کے نزدیک اس سے مقدس ترین کوئی چیز نہیں ہے اور ان مقدسات کی توہین سب سے بڑا جرم ہے لھٰذا اس کی سزا بھی سب سے بڑی یعنی پھانسی ہے اور یہ ایک بنیادی اختلاف ہے کہ جو اسلام اور لیبرال نظریہ میں پایا جاتا ہے۔

یہ لوگ کھتے ہیں کہ اگر کسی نے آپ کو گالی دی ہے تو آپ بھی گالی دیدیں ، یہ کوئی جرم نہیں ہے؛ کیونکہ زبان چلانا آزاد ہے! مثلاً اگر کسی نے آپ کے پیغمبر کو برا کھا ہے تو آپ ان کے پیغمبر کو برا کھہ دیں لیکن اسلام کا نظریہ یہ نہیں ہے ، اسلام میں اسلامی مقدسات کی توہین کرنا سب سے بڑا جرم ہے اور صرف حقوقی پہلو نہیں ہے بلکہ جزائی او رسزائی پہلو رکھتا ہے، لھٰذا اس کے لئے سزا بھی اتنی ہی سخت رکھی گئی ہے اس طرح کی توہین کسی ایک فرد کی توہین نہیں ہے بلکہ پورے اسلامی معاشرہ کی توہین ہے. حقوقی مسائل ایک کے رابطہ سے مربوط ہے: اگر کسی نے کسی کو طمانچہ مارا ہے تو اسے بھی بدلے کا حق ہے ، وہ اس کی شکایت بھی کرسکتا ہے او رممکن ہے اس کو جیل بھیج دیا جائے یا اس کومالی جرمانہ دینا پڑے؛ لیکن اگر وہ شخص اس کو معاف کردے تو پھر قضیہ تمام ہوجاتا ہے اور عدالت بھی اس کو کچھ نہیں کھے گی، لیکن سزائی احکام میں اس طرح نہیں ہے،یھاں تک کہ اگر شکایت کرنے والا بھی اس کو معاف کردے تو بھی مدعی العموم (جو لوگ معاشرہ کے حقوق کے دفاع کرنے والے ہیں ) حق رکھتے ہیں کہ اس کی پیروی کرے، کیونکہ یہ بے احترامی پورے معاشرے کی بے احترامی ہے، لھٰذا مدعی العموم اس کی شکایت کرسکتے ہیں ۔

اسلامی مقدسات کی توہین کسی ایک فرد کی توہین نہیں ہے کہ کوئی خاص فرد اس کی شکایت کرے اور اگر شکایت کرنے والے نے معاف کردیا تو مسئلہ تمام ہوجائے گا، پھر عدالت بھی اس کی تعقیب نہیں کرے گی. لیکن اگر کوئی اخبار یا تقریر میں اسلامی مقدسات کی توہین کرے تو ایسا شخص اسلام کی نظر میں محکوم ہے اور اسلامی قاضی کو اس کی تعقیب کرنا ہوگی؛ کیونکہ اس نے اسلامی معاشرہ اور مسلمانوں کے حقوق کو پامال کیا ہے اورشخصی وفردی مسئلہ نہیں ہے بلکہ کیفری وسزائی مسئلہ ہے کوئی اس جرم کو معاف نہیں کرسکتا، کیونکہ یہ ایک ایسا حق ہے کہ جو تمام مسلمانوں سے متعلق ہے بلکہ اس سے بڑہ کر یہ کہ یہ خدا سے مربوط ہے،یہ ایسے مسائل ہیں جن کے بارے میں مسلمان دانشور طبقہ خصوصاً ہمارے یونیورسٹی کے طالب علم توجہ رکھیں او رخیال نہ کریں کہ اسلام کے سیاسی وحقوقی مسائل مغربی نظریہ کی طرح ہیں اور صرف اس دنیا کے مادی ودنیوی مسائل سے مربوط ہیں اسلامی نظریہ کے مطابق معاشرہ کے حقوق فردی حقوق پر مقدم ہیں ، اور صرف خدمت کے عوض کسی کو حق نہیں ملتا۔

بلکہ ہر وہ شخص جو اسلامی معاشرہ میں زندگی گذارتا ہے حق رکھتا ہے اور یہ حق کسی خاص گروہ سے مربوط نہیں ہے؛ اور جیسا کہ ہم نے عر ض کیا کہ معاشرہ بھی کچھ حقوق رکھتا ہے اوراس کے حقوق دوسرے افراد کے حقوق پر مقدم ہیں اور یہ حقوق صرف مادی نہیں ہیں بلکہ ان میں معنوی حقوق بھی شامل ہیں ، اور صرف دنیاوی منافع سے مربوط نہیں ہیں بلکہ اخروی ومعنوی مصالح سے بھی مربوط ہیں ۔

اب تک جو کچھ ہم نے عر ض کیا اس سے اسلامی قوانین کا دوسرے قوانین سے امتیاز واضح ہوجاتا ہے ،اور سمجھ میں آتا ہے کہ کیوں اسلامی معاشرہ میں انسانوں کے فردی ارادوں کو محدود کرنا ضروری ہے اور سیکولر،لائک او رلیبرال نظریات کی طرح نہیں ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ جو چیز ارادوں کو محدود کرسکتی ہے وہ مادی او رفردی منافع ہیں لیکن اسلام میں معنوی واخروی منافع بھی ہیں ، اور ان مصلحتوں میں سے ہر ایک خاص محدودیت چاہتی ہے جس کا لازمہ یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ میں فردی آزادی ،لائک ولیبرال معاشروں سے کمتر پائی جاتی ہے، اور اسی چیز کا اسلامی حکومت مذہبی اعتقاد کی بناپر تقاضا کرتی ہے اور ہم کمال وضاحت اور شجاعت کے ساتھ اس کا دفاع کرتے ہیں ۔

حوالے

سورہ نحل آیت۹۰

سورہ ذاریات آیت ۵۶

سورہ نحل آیت ۹۰