بیسواں جلسہ
قانون وحکومت کی ایک نئی تصویر
۱۔معاشر ہ پر ایک طبقاتی اور احزابی نظر
گذشتہ جلسات میں ہماری بحث اسلامی حکومت اور سیاست میں قانون گذاری کے بارے میں تھی، اس وقت ہم مذہب اسلام کی روشنی میں سیاسی اور حکومتی احزاب کی معاشرہ میں کیا اہمیت ہے اس پر بحث کریں گے، اس کی وضاحت کے لئے ہم ایک مثال اور تشبیہ عرض کریں گے تاکہ اصل موضوع کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔
قدیم زمانہ میں دانشور حضرات معاشرہ کو انسانی پیکر سے تشبیہ د ے کر کھا کرتے ہیں : جس طرح انسان کا بدن مختلف اعضاء وجوارح سے مل کر بنتا ہے ،اسی طرح معاشرہ بھی مختلف ذات پات، طبقات اور احزاب سے مل کر بنتا ہے او ران میں سے ہر ایک بذات خود چند اقسام پر مشتمل ہوتا ہے اور ہر ایک طبقہ اور حزب چند افراد پر مشتمل ہوتا ہے جو انسان کے اعضاء کی طرح حکم رکھتا ہے. البتہ بعض اوقات اس تشبیہ میں افراط وتفریط ہوئی ہے، جس سے درست استفادہ نہیں ہوپایاہے۔
معمولاً علمی وعملی سرگرمیوں میں افراط وتفریط ہوتی ہی رہتی ہے، چنانچہ صحیح راستہ کی معرفت حاصل کرنا ایک مشکل کام ہوتا ہے، ایسا ہی بعض افراد نے مذکورہ تشبیہ کے بارے میں کیاہے: چنانچہ وہ کھتے ہیں کہ جس طرح انسان کا بدن مختلف اعضاء سے مل کربنتا ہے،اور یہ اعضاء طبیعی طور پر آپس میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ،اور ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ ایک خاص ذمہ داری رکھتا ہے، اسی طرح معاشرہ کے اعضاء بھی مختلف ہوتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک خاص کام کے لئے ہوتا ہے او راس کو وہی کام کرنا ہوتا ہے،اور اس کو اپنے کام سے آگے قدم نہیں بڑھانا چاہئے۔
مثال کے طور پر ،ہم جانتے ہیں کہ انسان کے تمام اعضاء صرف ایک” سلول Cellule “ (عنصر) سے بنتے ہیں ، او رپھر اسی سلول سے ہمارے بدن کے تمام اعضاء بنتے ہیں ،بعض سلول بہت لطیف وظریف ہوتے ہیں کہ جن سے آنکہ یا مغز ودماغ تشکیل پاتے ہیں ،اور بعض سلول مضبوط ومحکم ہوتے ہیں جن سے ہڈی بنتی ہے ، اور یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ آنکہ کا سلول ہڈی کی جگہ یا ہڈی کا سلول آنکہ کے سلول کی جگہ استعمال کیا جائے، یعنی آنکہ سے کان کا کام لیا جائے اور اور ہڈی سے آنکہ کا کام لیا جائے، جبکہ یہ تمام سلول ایک ہی سلول سے بنے ہوئے ہیں ،لیکن آپس میں اتنا اختلاف رکھتے ہیں کہ صرف اپنے معین شدہ کام ہی کو انجام دے سکتے ہیں ، لھٰذا ان کو ایک دوسرے کی جگہ نہیں رکھا جاسکتا۔
یہ لوگ کھتے ہیں کہ معاشرہ کے افراد بھی طبیعی طور پر اسی طرح مختلف طبایع کے اوپر خلق ہوئے ہیں ان کے مختلف طبقات ہیں ، ہر ایک کے خاص کام معین ہیں اور صرف اپنا ہی کام انجام دے سکتے ہیں ، قدیم زمانہ میں فلاسفہ حضرات معتقد تھے کہ معاشرہ کی مختلف قومیں اور طبقات اپنے لئے ایک معین حد رکھتی ہیں ، اور ہر ایک کا کام میں الگ الگ ہوتا ہے (مثلاًحبشی(سیاہ فام قوم)کی ذات سخت اورمحنتی کام کے لئے پیدا کی گئی ہے او رسرخ یا زرد رنگ والی قوم فکری کاموں کے لئے پیدا ہوئی ہےں )یہ لوگ اسی تشبیہ سے اس چیز کا استفادہ کرتے تھے. ان لوگوں کا ماننا یہ تھا کہ رنگ کا اختلاف، قوموں کا اختلاف اورانسان کے خون کے اختلاف ہونے کا سبب بنتا ہے جس کی وجہ سے انسان کی ہر قوم الگ الگ کاموں کے لئے مخصوص ہے،لیکن معلوم ہونا چاہئے کہ یہ نظریہ افراط (زیادہ روی) ہے ،علم وفلسفہ اور دین اس نظریہ سے متفق نہیں ہیں ۔
۲۔ معاشر ہ کے طبقاتی اور احزابی نظام کے بارے میں اسلام کا نظریہ
اسلامی نظریہ کے مطابق ،تمام انسان اپنے بدن اور روح کے اعتبار سے معاشرہ میں مختلف کام انجام دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں البتہ انسانوں کی قابلیت وصلاحیت مختلف ہوتی ہے او ربرابر نہیں ہوتی، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ کالے اورگوروں کے درمیان ایک ایسا فرق ہو جو ایک دوسرے کے کاموں کوانجام نہ دے سکیں ، کالے گوروں کا کام نہ کرسکیں یا گورے کالوں کا کام نہ کرسکیں ، اسلامی نظریہ کے مطابق ، اگرچہ انسانی بدن اور معاشرہ میں شباہت پائی جاتی ہے، جس سے گروہوں اور افراد کی وضعیت کو معین کرنے کے لئے دو نتیجہ نکالے جاسکتے ہیں ،لیکن معاشرہ کی ان اعضاء بدن سے تشبیہ دینا جو طبیعی طور پر ہر ایک عضو سے متفاوت او رمختلف ہے،او راس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ معاشرہ کے افراد بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں یہ صحیح نہیں ہے، اس زمانے کے بعض جامعہ شناس افرادبھی بالکل اسی طرح کھتے ہیں کہ معاشرہ بھی ایک طرح کا ”ارگانیزم“ ( Organisme ) ہے اور معاشرہ کے مختلف گروہ قوم ذات وپات انسان کے جسم کے اعضاء وجوارح کی مانند ہیں او ران کا رابطہ اعضاء بدن کے رابطہ کی طرح ہے.یھی رابطہ ایک دوسرے کو آپس میں متصل کرتا ہے، ہماری نظر میں یہ نظریہ بھی افراطی ہے.لیکن کیا معاشرہ کے افراد کا آپسی رابطہ بالکل انسانی بدن کے اعضاء کے رابطہ کی طرح ہے؟،نھیں اس طرح کا کوئی حقیقی رابطہ اعضاء بدن کے سلول اور معاشرہ کے افراد کے درمیان نہیں ہے؟
معاشرہ کے افراد اس طرح کا ارتباط رکھتے ہیں اس چیز کو ثابت کرنا بہت مشکل ہے؛ ایسا رابطہ مثلاً آنکہ کے سلول کا ایسا باہمی رابطہ جو ایک عضو کو تشکیل دیتے ہیں یہ ایک مخصوص رابطہ ہے لیکن یھی دیگر اعضاء وجوارح کی مدد سے ایک انسان کے جسم کو تشکیل دیتے ہیں ،. لیکن جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ انسان کے بدن اور معاشرہ میں ایسی شباہت پائی جاتی ہےجس سے انسان کی اجتماعی موقعیت کی پہچان ہوسکتی ہے، مرحوم سعدی نے اپنے مشہور معروف اشعار میں اس چیز کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
بنی آدم اعضاء یکدیگر اند
کہ در آفرینش زیک گوہر اند
چو عضوی بہ درد آورد روزگار
دگر عضوہا را نماند قرار” تمام انسان ایک بدن کی اعضاء کی طرح ہیں کیونکہ ان کی خلقت ایک ہی جوہر سے ہوئی ہے“
”مثلاً اگر بدن کے کسی ایک حصہ کو تکلیف ہوتی ہے تو دوسرے اعضاء بھی بے قرار ہوجاتے ہیں “
بے شک یہ تشبیہ معاشرہ کے افراد کے درمیان ایک محبت وہمکاری کو ثابت کرتی ہے، انسان میں محبت وعطوفت کا احساس ہوتا ہے تاکہ وہ کوشش کرے کہ ایک دوسرے سے اس کا رابطہ ہمدردی والا ہو، اس طرح ممکن ہے کہ وہ ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانے سے محروم نہ رہیں ، یہ ایک معقول تشبیہ ہے کہ جس سے بہت سے استفادہ کئے جاسکتے ہیں ،او ریہ تشبیہ حضرت رسول خدا او رامام جعفر صادق علیہ السلام کی احادیث سے کسب کی گئی ہے، حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
”اَلْمُومنُونَ فِی تَبَارهمْ وَتَزَاحُمهم وَتَعٰاطُفِهم کَمِثْلِ الْجَسَدِ اِذَا اشْتَکیٰ تَدٰاعیٰ لَه سٰایِرُه بِالسَهرِ وَالْحُمّٰی
“
”مومنین ایک دوسرے کے ساتھ محبت وپیار اور ہمدردی سے اس بدن کی طرح پیش آئیں کہ جب ان میں سے کسی عضو کو تکلیف پہونچے تو دوسرے اعضاء بھی بے خوابی اور بخار وغیرہ میں اس کی ہمراہی کرتے ہیں “
البتہ جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ امام علیہ السلام نے اسلامی معاشرہ کو ایک پیکر کی طرح تعارف کرایا، اور سعدی نے اس کو وسعت دی، اور انسانی معاشرہ کو ایک پیکر کی طرح نقشہ کشی کی ہے.
البتہ توجہ رہے کہ اس تشبیہ کاکام یہ ہے کہ وہ جھت جو دو موجود میں مشترک اور ایک میں زیادہ او رمشہور اور دوسرے میں کچھ کم ہوتی ہے، اس کواپنی توجہ کا مرکز قراردیتی ہے، اور چونکہ یہ خاص جھت دوسرے موجود میں کافی مقدار میں شناختہ شدہ نہیں ہے، لھٰذا تشبیہ کی وجہ سے اس میں بھی پہچان لی جائے، اسی بناپر ”مشبہ بہ" کے تمام خصوصیات اور صفات ”مشبہ" میں نہیں لئے جاسکتے، مثلاً اگر کسی بھادر انسان کو شیر کھا جائے، تو اس سے اس کی بھادری کو بیان کرنا مقصود ہوتا ہے ،ایسا نہیں ہے کہ اگر شیر کی گردن پر مخصوص بال ہوتے ہیں تو یہ بھی بال رکھتا ہو، یا یہ کہ اگر شیر ھاتہ پیر سے چلتا ہے تو یہ بھی اسی طرح چلتا ہو!
۳۔معاشرہ اور پیکر انسانی میں دیگر شباہتیں
معاشرہ او رانسانی بدن میں گذشتہ تشبیہ کے علاوہ اور بھی تشبیھیں دی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ چونکہ انسان کے بدن میں مختلف اقسام کے سسٹم ہیں ،جو ایک دوسرے سے ہم فکری اور ہمکاری رکھتے ہیں ،جو انسانی سسٹم کی حیات او راس کے رشد میں موثر ہوتے ہیں ، اسی طرح معاشرہ بھی مختلف شعبے اور مختلف مرکز رکھتا ہے جس کے نتیجہ میں معاشرہ میں زندگی کرنا آسان ہوجاتا ہے، مثال کے طور پر انسان کے بدن میں ایک سسٹم ہوتاہے جس کا کام خون کو تمام جگھوں پر پہونچاناہے اور اس کا مرکز دل میں ہوتا ہے. دل اس خون کو جو معدہ ،جگر اور گوارشی مشین کی ہم اہنگی سے بنتا ہے چھوٹی بڑی رگوں کے ذریعہ تمام سلولوں تک پہونچاتا ہے، جس کے نتیجہ میں انسان کی حیات رواں دواں رہتی ہے۔
خون کو تمام سلول میں پہونچانے والی مشین خود کئی چیزوں سے مل کر بنتی ہے مثلاً دل کا کا م خون کو پمپ کرنا ہوتا ہے اور د وسری رگیں خون کو سارے بدن میں میں پہونچاتی ہےں ،اسی طرح دوسری مشین خون پھیلانے والی مشین سے وابستہ ہیں جیسے خون کے لئے اکسیجن بنانا کیونکہ خون میں اکسیجن ہونا چاہئے تاکہ بدن کے سلول زندہ رہیں ، او راس وجہ سے پھیپھڑے اور سانس لینے والی مشین بدن کے لئے اکسیجن بناتی ہےں ، اور یہ اکیسجن خون کے ساتھ تمام بدن میں پھیل جاتا ہے، اسی طرح غذا خون کے ساتھ تمام بدن میں پھیلتی ہے اور یہ غذائیت گوارشی مشین سے بنتی ہے ، پس یہ تین مشین گردش خون، دستگاہ تنفس اور دستگاہ گوارش آپس میں مل کر کام کرتی ہیں جن کی وجہ سے انسان کی حیات ممکن ہوتی ہے ، ان کے علاوہ بدن میں اور دوسری مشینیں بھی ہوتی ہیں جن کا کام مختلف مشینوں پر نظارت او ران کی ہدایت کرنا ہوتا ہے، مثلاً بدن کے مختلف غدے اپنی اپنی مصروفیات میں لگے ہوتے ہیں اور اعصاب(رگیں ) دماغ کے حکم کے مطابق کام کرتے ہیں ، جن کی وجہ سے دوسرے اعضاء اپنا اپنا کام کرتے ہیں منجملہ ان کے معدہ او ردوسرے اعضاء، اعصابی مشین کے ذریعہ فعالیت کرتے ہیں ۔
جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ انسان کی زندگی کے لئے بدن کے مختلف سسٹم ایک ساتھ مل کر اپنا اپنا کام کرتے ہیں ،اور ایک دوسرے سے ہم اہنگ ہوکر عمل کرتے ہیں اسی طرح معاشرہ کے مختلف مرکز اور شعبہ جات کو انسان کے مختلف سسٹم سے تشبیہ کریں اور ان میں سے ہر ایک کے لئے ایک مشابہ نمونہ کی عکاّسی کریں :
مثلاً جس وقت ہم انسان کے معدہ او رتمام بدن تک غذائیت پہنچانے والی مشین کو دیکھتے ہیں ؛یعنی بدن میں غذا کو ھضم کرنے اور اس کو مختلف اعضاء تک پہونچانے والی مشین کو دیکھتے ہیں اور اس کے بعد معاشرہ پر نظر ڈالتے ہیں ،تو معاشی معاملات میں ان جیسے کام کا مشاہدہ کرتے ہیں ،معاشی شعبہ جات کا خصوصی کام کھانے پینے کی چیزوں کو پیدا کرے، اور دوسرے شعبوں کے ذریعہ ان کو لوگوں تک پہونچانا ہوتا ہے. جس طرح خون بدن میں بنتا ہے او ردل اور رگوں کے ذریعہ دوسرے اعضاء تک پہونچتا ہے۔
اگر خونی مشین میں کچھ خرابی ہوجائے مثلاً کسی رگ کے بند ہونے سے خون کی حرکت بند ہوجائے، تو اس صورت میں انسان بیمار ہوجاتا ہے، اور جس عضو تک غذائیت نہیں پہونچتی ، وہ بے کار ہوجاتا ہے، او رممکن ہے بعض اوقات اس حصہ کو بدن سے کاٹنابھی پڑے، اور ممکن ہے کسی سسٹم کی خرابی کی وجہ سے انسان مرجائے. لھٰذا انسان کی تندرستی اور زندگی کیلئے ضروری ہے کہ خون آسانی کے ساتھ تمام رگوں میں حرکت کرتا رہے،اسی طرح معاشرہ میں بھی تمام ضروری سامان پہونچتا رہے، اور اگر یہ ضروری سامان کسی ایک جگہ جمع کرلیا جائے اور لوگوں تک نہ پہونچایا جائے ،اگر معاشی نظام (کہ جو کاشتکار او ردوسرے اداروں پر مشتمل ہوتاہے) میں کچھ خرابی ہوجائے اور لوگوں تک کھانے پینے کا ضروری سامان نہ پہونچ پائے تو پھر یہ معاشرہ خواہ ناخواہ بیمار ہوجائے گا، لھٰذایہ تشبیہ صحیح اور بجا ہے کہ جس میں معاشی شعبہ کی مثال دستگاہ گوارشی خون سے دی جاتی ہے۔
اسی طرح حکومت کی اعصابی مشین سے تشبیہ کی جاسکتی ہے کہ جس کا کام بدن کو حکم دینا ہے ، اور یہ اعصاب کے دوحصوں (حسّی اور حرکتی) سے تشکیل ہوتی ہے. لھٰذا حکومت کو اعصابی سسٹم کے مثل قرار دیا گیا ہے ، معاشرہ بھی بدن کی طرح دماغ کی ضرورت رکھتا ہے تاکہ اس کو حکم دے سکے اور اسی طرح اس کے حکم کو معاشرہ کے اعضاء میں جاری کرنے کے لئے کچھ مزدوروں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ حرکت کرتے رہیں اسی بنیاد پر حکومت کے بھی دوبنیادی حصے ہوتے ہیں :
۱۔ قانون گذاری حصہ جو معاشرہ کی منفعتوں کی تشخیص اور ان کی فراہمی کے راستوں کو معین کرتا ہے۔
۲۔ ان قوانین کو جاری کرنے والا حصہ جوان احکامات کو معاشرہ میں اجراء کرتا ہے۔
ہمارے حسی اعضاء شناخت کی راہ فراہم کرتے ہیں او رحرکتی اعضاء بدن میں احکام جاری کرنے کی راہ فراہم کرتے ہیں ، حس کے مقدمات کو حسی اعضاء فراہم کرتے ہیں اور دماغ سے فکر وسوچ کا کام لیا جاتا ہے، اگرچہ انسان کی روح دماغ کے وسیلہ سے سوچتی ہے ، ہمارا ذہن فکروسوچ کا کام کرتا ہے اور اس کے بعد دوسرے اعضاء ان کاموں کو انجام دیتے ہیں نفس انسانی میں ایک قدرت علم ہے جس کا کام علم ومعرفت کی تحصیل ہے اور دوسری قوت کا کام حرکت کرنا ہے، اور یہ دونوں دماغ کے تحت کام کرتے ہیں یہ سسٹم بدن کے اعضاء پر نظر رکھتا ہے اور ضروری علم کو حاصل کرتا ہے اور ضروری احکامات کا حکم دیتا ہے اور دوسرے اعضاء کے ذریعہ وہ کام ہوتے ہیں ، اس سسٹم کو دماغی اور اعصابی سسٹم کا نام دیا جاتا ہے، اور اس سسٹم کی وجہ سے معاشرہ میں حکومت کی اہمیت کو پہچانا جاسکتا ہے۔
۴۔معاشرہ میں طبقاتی نظام کی روشنی میں حکومت کی اہمیت
جس وقت ہم اپنے بدن کے اعضاء اور ان کی ہم اہنگ اور منظم کارکردگی کو ملاحظہ کرتے ہیں تو یہ بات مکمل طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ ہم ان اعضاء کے بنانے او ران کی منظم کارکردگی میں بالکل دخالت نہیں رکھتے،علمی اصطلاحی کے مطابق ، طبیعت کاکام ان کو منظم طور پر چلانا ہے. لیکن دینی اصطلاح کے مطابق ہم کھیں گے کہ یہ خدا وندعالم کی ذات کا کرشمہ ہے کہ ان میں اتنی صلاحیت واستعداد اور قدرت عطا کی ہے،یہ اسی کا کمال ہے کہ جس سے انسانی اعضاء میں اتنی عظمت و پیچیدگی اور ظرافت پائی جاتی ہے، اس کے علاوہ ہماری روح اس سے کھیں زیادہ باعظمت او رپیچیدہ تر ہے۔
جس خداوندعالم نے ہم کو بدن اور اعضاء عنایت کئے ہیں تو پھر ہم کو ان سے صحیح طریقہ سے استفادہ کرنے کی معرفت ہونا چاہئے اور ہم کو اپنے اعضاء سے اس طرح فائدہ اٹھانا چاہئے کہ ہماری عمر طولانی اور صحت وسلامتی اور خوشی کے ساتھ ساتھ بسر ہو؛ ایسا نہ ہو کہ ہم جس طرح چاہیں ان سے کام لینا شروع کردیں ، اگر ہم جو ہمارے ھاتہ لگا کھالیا، جو ملا پی لیا، جس کام کی ہوس کی اس میں مشغول ہوگئے ،نامناسب غذا کھائی یا خدا نخواستہ نشیلی چیزوں سے پرہیز نہ کیا،تو کیا ہم یہ امیدکرسکتے ہیں کہ ہمارا بدن صحیح وسالم رہ پائے گا، اور ہماری عمر طولانی اور صحت وسلامتی کے ساتھ گذر پائے گی؟
ھرگز ایسا نہیں ہے. بے شک صفائی کی رعایت کے بغیر ہماری عمر طولانی اور صحت وسلامتی کے ساتھ نہیں ہوپائے گی. یعنی ہمیں چاہئے کہ دلخواہ آزادی کو محدود کریں اور اپنی مرضی کے مطابق ہر چیز نہ کھائیں ، غذا کی کیفیت اور اس کی مقدار پر بھی توجہ رکھیں ، اسی طرح غذا کی قسم اور اس کے اوقات کی بھی رعایت کریں ، کیونکہ اگر ان چیزوں کی رعایت نہیں کریں گے، مثلاً خراب شدہ کھانے کو کھائےں گے تو بیمار ضرور ہوجائیں گے،اور ہوسکتا ہے کہ ہماری جان بھی چلی جائے۔
صفائی اور ڈاکٹری کے قوانین واقعاً طبیعی ہیں جن کی ہمارے بدن کو ضرورت پڑتی ہے اور یہ قوانین دانشمندوں کی مسلسل کوششوں کے نتائج میں بنائے جاتے ہیں اور انسان کی زندگی صحیح وسالم طریقہ سے گذرنے کیلئے دوسروں کو تعلیم دی جاتی ہے۔
بدن کے لئے ان قوانین کی رعایت کے سلسلہ میں ہم نے جو کچھ عرض کیا اس کے پیش نظر اگر کوئی ڈاکٹر کھے کہ فلاں غذا کو نہ کھاؤ،نشیلی چیزوں کا استعمال نہ کرو، کیونکہ تمھارا ذہنی توازن ختم ہوجائے گا،اور تمھارے معدہ یا جگر یا کے لئے نقصان دہ ہے تو ہمارا کیا فرض ہے؟! کیا اس کا شکریہ نہیں کرنا چاہتے، کیونکہ اس نے ہماری راہنمائی کی اور ہمارے لئے سلامتی کی راہ بتائی ، یا اس پر اعتراض کریں کہ آپ سے کیا مطلب ہم کچھ بھی کھائیں ؟! جس نے ہماری سلامتی کا راستہ بتایا گویا اس نے بہت بڑی خدمت کی ،لھٰذا ہمیں اس کے ھاتھوں کے بوسہ لیناچاہئے۔
جس وقت ہم بیمار ہوجاتے ہیں ، بڑے بڑے ڈاکٹروں کے پاس جانے کے لئے کئی کئی دن پہلے وقت لےتے ہیں اور بڑی منت وسماجت سے کھتے ہیں کہ ہمارا معائنہ کرلیجئے، اور اس کے بعد ڈاکٹر کے تجویز کردہ نسخہ کی دوائی کی تلاش میں شہر کے چکر لگاتے ہیں تاکہ اس کو کھائیں ،اور ٹھیک ہوجائیں ، ہم ان تمام زحمتوں کو صحت وسلامتی اور تندرستی کے لئے برداشت کرتے ہیں ، کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری عمر صحت وسلامتی کے ساتھ بسر ہو، لھٰذا اس مقصد کے تحت ڈاکٹری قوانین کی رعایت کرنا ضروری ہے، اوراس طرح ہماری آزادی محدودھوجاتی ہے اور جو بھی مرضی ہوتی ہے اس پر عمل نہیں کرتے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان قوانین پر عمل کرنا ہماری صحت وسلامتی کا باعث ہے، نہ کہ ہماری خوشی میں رکاوٹ، ہمیں چاہئے کہ ان لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہئےے، جنھوں نے ہمیں صحت وسلامتی کا راستہ بتایا، کیا دنیا کا کوئی عقلمند انسان ڈاکٹری قوانین کو فردی زندگی میں دخالت کرنا کھتا ہے ، یا اس کو معاشرہ کی بہت رین خدمت کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے؟
ہم نے اب تک جو کچھ بیان کیاوہ انسان کی ذاتی اور فردی زندگی سے متعلق تھا ، معاشرہ کے سلسلہ میں بھی بالکل اسی طرح ہے ، اگر کوئی یہ کھے کہ میں زندگی کے معنی کو نہیں سمجھ سکا او رنھیں چاہتا کہ زندہ رہوں ، اور میرے زندہ رہنے اور مرجانے میں کوئی فرق نہیں ہے !تو ظاہر ہے ایسے شخص کو کوئی عقلمند نہیں کھہ سکتا. اور اگر وہ ان قوانین کی رعایت کرنا پسند نہ کرے تو کوئی بھی حادثہ ہوسکتا ہے کیونکہ ہر چیز کے اسباب ہوتے ہیں اور انسان طبیعی کاموں میں کوئی اثر نہیں رکھتا، اور اس کا نتیجہ یا بیماری ہوگا یا موت. اگر کوئی انسان اپنی زندگی میں ہدف نہ رکھتا ہو ، اور جو چاہے کھائے تو اس کو اپنی زندگی کو حوادث کی نذر کرنا ہوگا، کیونکہ خود اس کے کاموں کی وجہ سے بیماری میں مبتلا ہوگااور آخر کار موت کی آغوش میں چلا جائے گا۔
لیکن اگر کوئی اپنی زندگی کا ہدف رکھتا ہو او رطولانی عمر اور سلامتی چاہتا ہواور اس سلامتی سے ترقی خصوصاً معنوی ترقی چاہتا ہو تو وہ ڈاکٹری قوانین سے بے توجھی نہیں کرسکتا،یعنی ڈاکٹروں او رماہر افراد کے بتائے ہوئے قوانین کو لفظ بلفظ عمل کرکے اپنی آزادی کو محدود کرلے۔
اگر معاشرہ کو بھی بے ہدف افراد کی طرح فرض کرلیا جائے کہ جن کے نزدیک زندگی وموت برابرہوتی ہے، نہ اپنا بقا چاہتے ہیں اور نہ ہی اپنے لئے شرف چاہتے ہیں ، نہ ہی عزت چاہتے ہیں اور نہ ہی اپنا استقلال اور نہ ہی اپنی شخصیت اور عزت چاہتے ہیں اور نہ ہی اپنے لئے آخرت ومعنویت چاہتے ہیں ، مسلماً ایسا معاشرہ جو چاہے کرے بالکل آزاد ہے اس کے لئے کسی بھی قانون کی رعایت کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ لیکن ایسے شخص کے لئے زندگی وموت برابر ہے۔
انسان کو صرف اس وقت کسی قانون ومقررات کی ضرورت نہیں ہوتی جب موت وزندگی اس کی نظر میں مساوی ہو، یھاں تک کہ اگر موت کو بھی نہیں چاہتا اور زندہ یا مرنا اس کے لئے کوئی فرق نہیں رکھتا،تو اس کو کسی بھی قانون کی ضرورت نہیں ہے ورنہ اگر موت بھی چاہے تو اس کے لئے بھی خاص قوانین کی رعایت کرنا ضروری ہے،اور اس کو معلوم ہونا چاہئے کہ کن کاموں سے موت آسکتی ہے، لھٰذا کوئی بھی بامقصد کام بغیر کسی قانون کے ممکن نہیں ہے اورمطلق آزادی کے ساتھ کسی بھی مقصد تک پہونچنا ممکن نہیں ہے، اگر کوئی ہدف ہے تو اس کے لئے محدودیت کا قائل ہونا پڑےگا، اور ہر کام کے مقدمات اس کے قوانین وضوابط کے تحت ہونا چاہئے ، چاہے اس کا ہدف موت ہی کیوں نہ ہو۔
اگر معاشرہ کچھ ہدف رکھتا ہے تو اس کے لئے قانون کی رعایت کرنا ضروری ہے، یعنی اپنی آزادی کو کم کرکے اپنی بعض خواہشات سے صرف نظر کرے. اور جو چاہے کرے تو پھر ہدف تک نہیں پہونچ سکتا،ھاں اگر اس کا کوئی ہدف نہ ہو، تو پھر اسے کسی قانون کی ضرورت نہیں ہے،ایسے معاشرہ کی مثال اسی شخص کہ جس کا کوئی ہدف نہیں ہے اور کچھ ہی دنوں میں موت کے گھاٹ اتر جاتا ہے، اس بناپر ، اگر معاشرہ کو دوام اور ترقی وپیشرفت کرنا ہو او رہمیشگی سعادت وعزت درکار ہو تو پھر اس کودقیق قوانین کی ضرورت ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشرہ کے لئے کس طرح قوانین بنائے جائیں ؟ کون بنائے؟ کیا یہ قوانین ایک طرح کے واقعی امور ہیں جن کو کشف ہونا چاہئے، یا صرف اعتباری امور ہیں کہ جن کو بنایا جائے؟ یہ مسئلہ فلسفہ حکومت میں بہت اہم ہے۔
ہم انسان کی فردی زندگی میں دانشمند حضرات کے کشف کئے ہوئے کچھ قوانین کا مشاہدہ کرتے ہیں ، یعنی فلاں مِکروب فلاں بیماری کا سبب بنتا ہے یہ اس واقعی رابطہ کی وجہ کہ جو حقیقی علت ومعلول کے درمیان پایا جاتا ہے اور دانشمند حضرات اس کو اپنے تجربوں سے کشف کرتے ہیں اور اس کو ڈاکٹری قانون کے عنوان سے لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں کھ: فلاں بیماری سے بچنے کے لئے فلاں مکروب سے پرہیز کرنا ضروری ہے،یا اگر فلاں بیماری پھیل گئی تو اس بیماری سے محفوظ رہنے کے لکے فلاں ٹیکا لگوانا ضروری ہے. معاشرہ کو بھی اگر صحیح وسالم زندگی گذارنا ہے تواس کے لئے بھی قوانین کی رعایت کرنا ضروری ہے تو کیا یہ قوانین واقعاً طبیعت میں موجود ہیں کہ کچھ لوگ ان کو کشف کریں ؟ یا نھ،یا قوانین اعتباری اور فرضی ہیں ، اور لوگوں کی رضایت کی خاطر ان کو کبھی کبھی بدلا بھی جاسکتا ہے، کیونکہ یہ قوانین اکثر لوگوں کی مرضی کے مطابق ہوتے ہیں واقعاً یہ مسئلہ بہت اہم اور بنیادی ہے اور اس کا ایک پہلو فلسفہ سے متعلق ہے اور ایک پہلو انسانی علوم سے وابستہ ہے اور اس کا ایک پہلو معرفت شناسی سے تعلق رکھتا ہے اور ان کے بہت سے پیچیدہ مسائل ہیں جن کی بحث یونیورسٹیوں یا علمی مرکزوں میں ہونی چاہئے، اور ان تمام مطالب کو بیان کرنا اس وقت ہمارے لئے ممکن نہیں ہے، لیکن سب کے استفادہ کے لئے ہم ان میں سے کچھ منتخب مسائل کو بیان کرتے ہیں ۔
۵۔واقعی مصالح ومفاسد قانون کے پشت پناہ
کیا واقعاً امنیت اور چوری سے روکنے کے درمیان کوئی رابطہ ہے؟ یعنی اگر امنیت چاہتے ہیں تو چوری نہیں ہونا چاہئے؟ یا نہ ، ان کے درمیان صرف ایک قراردادی رابطہ ہے، اور امنیت اور چوری دونوں ہی ممکن ہیں کیا قتل اور ناامنی میں کوئی رابطہ ہے؟یعنی اگر کوئی ہر کسی کو قتل کرنا چاہے قتل کردے تو کیا واقعاً اس سے ناامنی پیدا ہوتی ہے یا یہ صرف قراردادی رابطہ ہے؟ کیا جنسی آزادی گھر کے اجڑنے کا سبب بنتی ہے یا نھیں ؟ مثلاً اگر کسی زمانہ میں لوگوں کی پسند ہونے کی وجہ سے جنسی رابطہ کوآزاد قرار دیدیا جائے تو ایک روز کہنا بھی محدودھے کیونکہ اکثر لوگ اس کو پسند نہیں کرتے ہیں ، تو کیاا یسا قانونن بنانا جس میں جنسی آزادی موجود ہو یا موجود نہ ہو، صرف ایک قراردادی مسئلہ ہے؟ یعنی کیا یہ کام کا ایک سلیقہ ہے کہ لوگ اس سے خوش ہوتے ہیں یا ناراض ہوتے ہیں ، اور ان کی مرضی کے مطابق قانون ہونا چاہئے؟ یا نہ ،بلکہ ایک واقعی رابطہ پر موقوف ہے،اور وہ یہ کہ اگر جنسی آزادی ہو تو پھر معاشرہ میں جسمی اور روحی بیماریاں جیسے ایڈز وغیرہ پھیل جائیں گی، اور لوگوں کے گھر اجڑ جائیں گے، عورت مرد میں روحانی بیماریاں پھیل جائیں گی، بچے بے تربیت اوردوسری تباہی پھیل جائیں گی۔
بعض لوگوں کا اعتقاد یہ ہے کہ اجتماعی قوانین ،واقعی مصالح ومفاسد کے تابع ہیں ، اور ایسا نہیں ہے کہ یہ قوانین لوگوں کی مرضی اور ان کے سلیقہ پر ہوں جس طرح اگر شراب رائج ہوجائے تو روحی ، قلبی اور تنفسی بیماریاں پھیل جائیں گی یا اگر بیڑی سگریٹ کا رواج ہوا تو بہت سی بیماریاں پیدا ہوجائیں گی، اجتماعی مسائل بھی اسی طرح ہیں : اگر عورت مرد میں آزادانہ روابط ہوجائیں تو پھر معاشرے میں اس کے اثرات خطرناک ثابت ہونگے جس کے نمونے مغربی ممالک(کہ جہاں نامشروع روابط کافی حد تک رائج ہیں ) میں ملاحظہ کرتے آئے ہیں ، لھٰذا قانون بناتے وقت ان کے واقعی آثار بھی مدّ نظر رہیں ، نہ یہ کہ صرف لوگوں کی مرضی کے مطابق ہی عمل کیا جائے اور یہ بھی دیکھا جائے کہ لوگوں کی اکثریت جنسی آزادی کو پسند کرتی ہے یا پسند نہیں کرتی. یا لوگوں کی اکثریت افیم وچرس کی آزادی کی خواہاں ہے یا نھیں ؟ کیا قانون کو اسی طریقہ پر ہونا چاہئے یا یہ کشف کریں کہ نشیلی چیزوں سے کیا کیا نقصانات ہیں اگرچہ اکثریت اس کے موافق بھی ہو؟ آپ کی نگاہ میں کون سا راستہ صحیح ہے؟ اجتماعی قوانین لوگوں کی اکثریت کی بنا پر ہوں یا واقعی (نفع ونقصان کی) بناپر ؟ یعنی اجتماعی مصالح ومفاسد حقیقی اور واقعی امور ہیں یا صرف اعتباری یا سلیقہ ای امور ہیں ؟
”ھیوم“ کے زمانہ کے بعد سے ، مغربی ممالک میں معرفت شناسی میں یہ بحث بیان ہوئی ہے کہ ”باید ھا ونباید ھا“(کیا ہونا چاہئے کیا نہیں ہونا چاہئے) خارجی واقعیت نہیں رکھتے اور ان پر عقلانی امور اور استدلال کی کوئی ضرورت نہیں ہے. ”خوب وبد“ انہیں سلیقوں کی طرح ہے جو لوگوں کے درمیان پائے جاتے ہیں ، مثلاً اگر کسی کو” گلابی رنگ“ پسندھے تو اس سے یہ سوال نہیں ہوگا کہ کیوں آپ کو یہ رنگ کیوں پسند ہے، کیونکہ کسی کو یہ رنگ پسند ہے دوسرے کو کوئی دوسرا رنگ پسند ہے، تو کیا اجتماعی مسائل بھی رنگوں کی طرح ہےں ؟ یا نہیں ،بلکہ اجتماعی مسائل،واقعی مصالح ومفاسد کے تابع ہیں ؟ انسانی کردار کا اثر جو انسان کی فردی اور اجتماعی ، مادی ومعنوی زندگی پر ہوتا ہے ایک حقیقی رابطہ ہے ، یعنی درحقیقت ان میں علّت ومعلول کا رابطہ ہے،اور اجتماعی اورفردی زندگی میں انسانی کردار سعادت یا شقاوت کا سبب ہوتا ہے، لھٰذا یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کون سے کام سعادت کے باعث ہیں تاکہ وہ کام جائز ہوں ، اور کون سے کام شقاوت وبدبختی کے باعث ہیں تاکہ ممنوع اور حرام ہوں اب جبکہ یہ ثابت ہوچکا کہ انسانی کردار کا سعادت وشقاوت سے واقعی اور حقیقی رابطہ ہے تو ضروری ہے کہ ان روابط کو پہنچانا جائے اور انہیں کی بنیادپر قوانین بنائے جائیں اس وقت سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون انسان کے مصالح ومفاسد کو بہت ر طور پر جانتا ہے؟ ہم مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ خدا ان کو بہت ر جانتا ہے۔لھٰذا قانون گذاری میں اسلام کا نظریہ ہے کہ انسان کی فردی اور اجتماعی زندگی کے اعمال اور سعادت وشقاوت میں علّی اور معلولی رابطہ ہے جن کو مصلحت ومفسدہ کھا جاتا ہے ، لھٰذا ان مصلحتوں اور مفسدوں کو پہچاننا ضروری ہے اور انہیں کی بنیاد پر قوانین بنائے جائیں ، اور اکثر لوگوں کی مرضی کے مطابق قوانین نہیں بنانے چاہئے۔
حوالے