اکیسواں جلسہ
اسلام اورجمہوریت (۱)
۱۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر
ہم نے گذشتہ بحث کے دوران اسلام کے سیاسی نظریہ کو دوحصوں میں تقسیم کیاتھا:ایک قوہ مقنقنھ(قانون گذاری) دوسراقوہ مجریھ(قانون کو جاری کرنے والی طاقت)،اور اس سلسلہ میں ہو نے والے اعتراضات کے جوابات بھی دئے، نظریہ کی بنیاد یہ تھی کہ سیاسی حکومت منجملہ اسلامی حکومت کے دو حصے ہوتے ہےں ، (البتہ ممکن ہے کہ دوسرے نظریات کے تحت تین یا چار حصے بھی ہوسکتے ہیں ) پہلا حصہ قانون گذاری کا ہے اور دوسرا حصہ قوانین کا جاری کرنا ہے ،قانون گذاری کے سلسلہ میں اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ معاشرہ میں وہ قوانین حاکم ہوں جن کے ذریعہ معاشرہ کے مادّی ومعنوی مصلحتوں کو پورا کیا جاسکے، اسی بناپر وہ شخص معاشرہ کے لئے مکمل قانون بنا سکتا ہے جو انسان کے مادی ومعنوی تمام پہلووں اور اجتماعی زندگی کے مختلف شرائط سے باخبر ہو ، اور یہ قوانین اس طرح بنائے جائیں کہ جن سے عالم آخرت میں انسانی سعادت فراہم ہوسکے، اور ظاہر ہے کہ خداوندعالم یا خدا وندعالم کا منتخب بندہ ہی ایسے علم ودانش کا مالک ہوسکتاہے۔
اس کے علاوہ خداوندعالم کی تشریعی ربوبیت میں توحید کا تقاضا یہ ہے کہ خداکے بندے خدا کے احکامات کی اطاعت کریں اور خداوندعالم کے تشریعی ارادہ کو اپنی زندگی میں حاکم قرار دیں ، اور اس کے مرضی کے خلاف قدم نہ اٹھائیں ، لھٰذا قانون گذاری میں خداوندعالم کی تشریعی ربوبیت کی رعایت کی جائے. چونکہ اسلامی قوانین مخصوص حقیقت کے حامل ہیں لھٰذا انسان کے بنائے ہوئے قوانین سے امتیاز رکھتے ہیں ۔
مختصر الفاظ میں یوں عرض کیا جائے کہ اسلامی قوانین خدا یا جس کو خدا اجازت دے کر بھیجے،اس کی طرف سے ہونا چاہئے. اسی طرح قوانین کو جاری کرنے والوں کے لئے بھی ہے، کیونکہ قانون کا مجری گویا معاشرہ کے لوگوں میں تصرفات کرتا ہے،اور ان کو قوانین الہی پر عمل کرنے پر آمادہ کرتا ہے، کبھی کبھی حدود وتعزیرات کو جاری کرتا ہے او رکبھی جرم کے مقابلہ میں خاص پابندیا ں لگاتا ہے۔
بہر حال یہ کچھ تصرفات ہیں جو خدا کے بندوں میں ہوتے ہیں ، او ریہ تصرفات صرف وہ حضرات کرسکتے ہیں جو خداوندعالم کی طرف سے اذن یافتہ ہےں ، ان کے علاوہ یہ تصرفات جائز نہیں ہیں ۔
۲۔قانون کے جاری کرنے والوں کے لئے بھی اذن خدا ضرور ی
ممکن ہے کہ بعض لوگ یہ سوال کریں کہ جب ہم نے قانون کو قبول کرلیا اور ان کے جاری ہونے والے راستوں کواچھی طرح پہچان لیا اور یقین کرلیا کہ فلاں خاص موقع پر فلاں قانون جاری ہونا چاہئے، تو اس میں کوئی فرق ن نہیں ہے کہ قانون کا جاری کرنے والا زید ہو یا عمرو؟ جب خدا کا صحیح قانون جاری ہو جائے تو پھر خدا کی اجازت کی کیا ضرورت؟ ہم نے قبول کرلیا کہ معاشرہ میں قوانین الہی جاری ہوں ، لیکن پھر جاری کرنے والے کے بارے میں اجازت کی کیا ضروت؟
گذشتہ اعتراض کو اگر فقھی فضاء میں بیان کیا جائے تو جواب بھی فقھی روش کے لحاظ سے دیاجائے گا، اگر کوئی اس اعتراض کو فقھی تحقیق اور آزاد طریقہ سے بیان کرے، او رہم سے جواب لینا چاہے اور یہ چاہے کہ عمومی طور پر قابل فہم ہوتو پھر ہم اجتماعی مثالوں کے ذریعہ عام فہم زبان میں عرض کریں گے، مثلاً آپ کی گھریلو زندگی میں کچھ قوانین ہوتے ہیں جن کو آپ کی بیوی اور بچوں کو رعایت کرنا ہوتا ہے، مثلاً یہ کھیں کہ کوئی دوسرا کسی کی چیزکو ھاتہ نہ لگائے، یھاں تک کہ چھوٹے چھوٹے بچے اپنے کھلونے او رکاپی پینسل وغیرہ میں اس قانون کی رعایت کرتے ہیں ، اور ان میں سے کوئی دوسرا بغیر اجازت کے کسی دوسرے کی چیز کو اٹھاتا ہے، تو اس پر اعتراض ہوتا ہے، یا اگر آپ کا کوئی پڑوسی آپ کی اجازت کے بغیر آپ کے گھر میں داخل ہوکر آپ کے سامان کو لے جائے ،اگرچہ وہ سامان آپ کے نزدیک بے کار ہی کیوں نہ ہو، تو آپ فوراً اعتراض کردیتے ہیں کہ میری اجازت کے بغیر کس طرح میرے گھر میں داخل ہوئے ،یا کیوں ہمارے سامان کو اٹھاکر لے گئے، یھاں تک کہ اگر ا س نے آپ کے ساتھ کچھ احسان بھی کررکھا ہو، پھر بھی آپ کو حق ہے کہ اس پر اعتراض کریں ۔
ایک دوسری مثال کو فرض کیجئے کہ کسی ادارہ میں کچھ قوانین نافذ ہونا چاہتے ہیں لیکن ابھی تک اس ادارہ کے رئیس کا حکم نامہ نہیں آیا ہے، اگر کوئی آکر کھے کہ میں ایک بااطمینان اور باامن انسان ہوں ، اور قوانین کو بھی اچھی طرح جانتا ہوں اور اب رئیس کی کرسی پر بیٹھتا ہوں اور ان قوانین کو یکے بعد دیگرے جاری کرتا ہوں ، تو کوئی بھی اس کو اس کا م کی اجازت نہیں دیگا؛ یھاں تک کہ اگر وہ شخص بعد کا ہونے والا رئیس ہی کیوں نہ ہوں ، جب تک اس کا حکم نامہ نہ آجائے اس کو حق نہیں ہے کہ کرسی پر آکر بیٹھے او رلوگوں کو حکم دے۔
اور اگر کوئی ایسا کام کرے بھی تو وہ مجرم مانا جائے گا، اور ہوسکتا ہے کہ اس کو عدالت میں بھی بھیج دیا جائے اور اس کو سزا بھی ہو، جب اس نے خدمت انجام دی ہے او راس نے وہی کام انجام دیا ہے کہ جو ابھی کچھ دنوں کے بعد ہونے والا ہے، کیوں اس اصل کو تمام عقلمند حضرات قبول کرتے ہیں ؟ اس لئے جب تک اس کے اوپر والا رئیس اس کو اس کام کی اجازت نہ دے تو اس کو ایسے کاموں کی اجازت نہیں ہے خلاف قانون کی تو دور کی بات ہے۔
معاشرہ میں اجتماعی زندگی کے اندر اس قبول شدہ اصل کے پیش نظر ہم آسانی سے اس بات کو سمجھ سکتے ہیں ، کہ وہ معاشرہ جو خدا سے متعلق ہے اور لوگوں نے خدا کو ربّ مانا ہے، اگر کوئی اپنے ربّ کی اجازت کے بغیر حکومت کرنا چاہے اس کی مثال اس شخص کی ہے کہ جو کسی ادارہ میں ریاست کرنا چاہے، یا مثلاً کوئی رئیس مملکت بننا چاہے، اور اس کے کاموں میں مشغول ہو؛ بغیر اس کے اس بلند رتبہ والا اس کو اجازت دے، یھاں تک کہ اگر اس کا کام بھی صحیح اور بجا ہو،تو اس سے باز پرس کی جاتی ہے، اور ممکن ہے کہ اس کو سزا بھی ہو، اسی وجہ سے ہم کھتے ہیں کہ اسلامی قوانین کا اجراء کرنے والا بھی خدا کی طرف سے ہو، جو لوگوں کا مالک حقیقی ہے، ورنہ اس سے باز پرس ضرور ہوگی، جیسا کہ ہم نے گذشتہ مثال میں عرض کیا ، اور اگر یہ فرض کریں کہ اس سے باز پرس بھی نہ ہو ، تو لوگوں پر اس کی اطاعت واجب نہیں ہے، یھاں تک کہ اسی قانون کے بارے میں لوگ کھیں گے کہ جب تک آپ کا حکم نامہ نہ آجائے تب تک آپ کیسے رئیس بن بیٹھے؟ اور جب تک لوگ یہ یقین نہ کرلیں کہ اس کو بلند مرتبہ رئیس نے اس رتبہ پر فائز کیا ہے اس کی اطاعت بھی نہیں کرتے۔
اسلامی نظریہ کے لحاظ سے ،معاشرہ کے تمام ہی افرادخدا کی مخلوق ہیں ،اور خدا ان کا مالک اور خالق ہے، لھٰذا مالک کی اجازت کے بغیر کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ اس کے امور میں دخالت کرے جب تک کہ ان کا مالک (خدا) اس کام کی اجازت نہ دے، یھاں تک کہ قانون الہی کووہی معین شخص جس کو خدا کی طرف سے اجازت ہے، جاری کرسکتا ہے، اسی وجہ سے اسلامی انقلاب کے بانی حضرت امام خمینی نے اسلامی نظریہ کے مطابق اپنے کو اسلامی حاکم صدر مملکت کے لئے جو حکم نافذ کیا اس میں یہ تحریر کیا کہ میں تم کو نصب کرتا ہوں یعنی آپ نے کسی بھی موقع پر لوگوں کے ووٹ کوکافی نہ جانا، یھاں تک بعض موقعوں پر فرمایا: میں اُس ولایت کی رو سے جو تم پر رکھتا ہوں تم کو منصوب کرتا ہوں ، ایک موقع پر آپ نے فرمایا:
”ان لوگوں کی باتوں کو نہ سنو کہ جو اسلامی نظریات کے خلاف ہیں ، اور خود کو روشن فکر تصور کرتے ہیں اور ولایت فقیہ کو قبول نہیں کرتے، اگر ولی فقیہ اس کو منصوب نہ کرے تو اس کی حکومت غیرمشروع ہے اور جب غیر مشروع ہوئی تو وہ طاغوت ہے، اور اس کی اطاعت طاغوت کی اطاعت ہوگی“(صحیفہ نور ج۹ص۲۵۱) یہ کوئی امام خمینی کا ذاتی نظریہ نہیں ہے بلکہ یہ نظریہ قرآن وحدیث سے اخذ کیا گیا ہے، بہر حال یہ اس شخص کا نظریہ ہے جس نے اسلامی حکومت کی بنیاد رکھی ہے۔
لھٰذا قانون کو جاری کرنے والا، اولاً اسلامی نظریہ کے مطابق تمام قوانین کو جاری کرنا، ثانیاً وہ خدا کی طرف سے اذن یافتہ ہو. اور یہ اذن کبھی خاص ہوتاہے جیساکہ حضرت رسول خدا او رائمہ معصومین علیہم السلام کے بارے میں ہے یا ان لوگوں کے بارے میں ہے جن کو خود آنحضرت نے منصوب فرمایا ہے، یا جس طرح حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی طرف سے بعض اسلامی ریاستوں کے والی وحاکم معین ہوئے ہیں ، یا جس طرح امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے زمانہ میں نواب اربعہ خاص طور پر منصوب ہوئے۔
ان تمام مقامات میں یہ افراد اس شخص کی اجازت سے منصوب ہوئے جو اپنی حکومت میں الہی قوانین کو بیان اور کو جاری کرتے تھے. کبھی یہ منصوب کرنا عام ہوتا ہے؛ جیسے امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں ، یا ان ائمہ علیہم السلام کے زمانہ میں کہ جو مبسوط الید (آزاد) نہ تھے اور حکومت ان کے ھاتھوں میں نہ تھی، ایسے موقعوں پر باصلاحیت افراد اذن عام کی بناپر منصوب اور احکام الہی کے جاری کرنے کے لئے معین ہوتے تھے، مثلاً حضرت امام صادق علیہ السلام نے اپنے شیعہ فقھاء کو اجازت دی ہے کہ جن علاقوں میں لوگوں کی امام (ع) تک رسائی ممکن نہ ہو،وہاں علماء احکامات الہی کو جاری کریں اور حکومتی کاموں میں مشغول رہیں ،زمانہ غیبت میں یہ مسئلہ بدرجہ اولیٰ ثابت ہے۔
کیونکہ جب امام حاضر اور مبسوط الید نہیں ہے یا امام تقیہ کی عالم میں ہے، تووہ بطور عام ان افراد کو منصوب کرتا ہے جو اس کی طرف سے حکومتی مسائل میں دخالت رکھتے ہیں ، کیا یہ کام امام علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں کہ جس میں امام علیہ السلام تک رسائی ممکن نہیں اولیٰ اور مناسب نہیں ہے؟
اس وقت ہم فقھی مبانی اور شرعی دلیلوں کو ثابت کرنا نہیں چاہتے ، صرف اس مسئلہ کی وضاحت کردینا چاہتے ہیں کہ اسلام میں حتیٰ اسلامی قانون کو جاری کرنے والے کے لئے بھی خدا کی اجازت کی ضروت ہے، اور کس طرح خداوندعالم قانون کو جاری کرنے والوں کو اجازت دیتا ہے، جیسا کہ ہم نے عر ض کیا کہ یہ اجازت یا کسی خاص شخص کے لئے بصورت خاص ہوتی ہے، یا بصورت عام جیسا کہ جامع الشرائط فقھاء کرام کے لئے ہے۔
اس نظریہ پر چاہے وہ قانون گذاری پہلو ہو یا قانون کو جاری کرنے والا پہلوبعض اعتراض ہوتے تھے، جن میں سے سب سے مہم یہ تھا کہ یہ نظریہ انسانوں کی آزادی کے مخالف ہے، البتہ ہم نے اس اعتراض کا گذشتہ گفتگو میں مفصل جواب عرض کردیا ہے. ان اعتراضات کا دوسرا حصہ قانون کو جاری کرنے کے بارے میں تھا، کہ یہ ولی فقیہ والا نظام ، جمہوریت کے ساتھ ہم اہنگ نہیں ہے. جمہوریت ایک ایسی حکومت ہے جس کو تمام ہی عقلاء عالم نے قبول کیا ہے ، یھاں تک وہ ممالک کہ جن میں سوسیالسٹی( Socialisty ) حکومت تھی عملی میدان میں جمہوریت کے مقابلہ میں ٹھر نہ سکیں ، اور مجبوراً ڈیموکراسک نظام کو قبول کرلیا. لھٰذا آج کا انسان ڈیموکراسک نظام کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رکھتا، اوریہ اسلامی حکومت جو ولایت فقیہ کی حکومت کے نام سے معروف ہے ، ڈیموکراسک سے ہم اہنگ نہیں ہے۔
۳۔ جمہوریت کے معنی اور اس کے استعمال میں ایک بحران
پھلے ضروی سمجھتے ہیں کہ لفظ ”جمہوریت“ (ڈیموکراٹک) " Democratique " کے بارے میں کچھ وضاحت کریں ، کیونکہ ہوسکتا ہے بعض لوگ اس لفظ کے بارے میں کافی معلومات نہ رکھتے ہوں ، جمہوریت کے لفظی معنی؛ لوگوں کی حکومت ، مراد یہ ہے کہ معاشرہ کے افراد بھی قانون گذاری اور اجرائے قانون میں اہم کردار رکھتے ہیں اور کوئی دوسرا قانون گذاری اور اجرائے قانون میں حق دخالت نہیں رکھتا، یہ ہیں لفظ ڈیموکراسک کے معنی۔
تاریخ کے اوراق پر جمہوریت کو مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے: جیسا کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کی ولادت سے پانچ صدی پہلے یونان کے پائے تخت ”آٹن“ میں یہ نظریہ وجود میں آیا اور کچھ مدت کے لئے یہ نظریہ اجراء کیا گیا اس طرح کہ تمام لوگ سوائے غلاموں اور ۲ ۰ سال سے کم عمر والوں کے سبھی لوگ سیاسی او راجتماعی مسائل میں براہ راست دخالت کرتے تھے. جس وقت کوئی ۲ ۰ سال کا ہوجاتا تھا تو اپنے شہر کے سیاسی کاموں میں دخالت کرسکتا تھا. البتہ کسی پر ضروری نہیں تھا بلکہ یہ لوگ آزاد تھے. اس زمانہ میں لوگ کسی بڑے میدان میں جمع ہوتے تھے اور اپنے شہر کے بارے میں نظریات پیش کرتے تھے، بحث وگفتگو ہوتی تھی اور اسی کے نتیجہ میں تصیم گیری ہوتی تھی اور انہیں پر عمل ہوتا تھا،ایسا نہیں ہوتا تھا کہ کوئی خاص شخص یا خاص گروہ حکومت کے لئے معین ہوتا تھا، بلکہ خود افراد براہ راست اجتماعی وسیاسی مسائل میں دخالت کرتے تھے۔
اس طرز فکر کو جمہوریت یا لوگوں کی حکومت کا نام دیا جاتا تھا، حکومت کا یہ انداز ایک مدت تک یونان کے پائے تخت آٹن میں چلتا رہا، لیکن بڑے بڑے دانشمند اور فلاسفہ حضرات نے اس نظریہ کی بھر پور مخالفتکی، اور ا س کو برے نام سے یاد کیا کرتے ،یعنی اس کو جہال(جمع جاہل) کی حکومت کھتے تھے، ادھر عملی طور پر بھی اس جمہوری حکومت کے برے نتائج سامنے آئے ، اسی وجہ سے حکومت کا یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔
طبیعی ہے کہ بڑے بڑ ے ممالک اور کثیر آبادی والے شہروں میں یہ طریقہ کار مشکل تھا کیونکہ ممکن نہ تھاکہ ہمیشہ اجتماعی مسائل میں تمام لوگ براہ راست دخالت رکھیں چھوٹے شہروں میں یہ انداز کچھ مدت کے لئے ممکن ہے، لیکن لاکھوں والے شہروں میں کس طرح ممکن ہے کہ روز مرّہ کے کاموں میں سب مل کر کوئی فیصلہ لیں ؟!
بہرحال یہ انداز ختم ہوگیا ، یھاں تک کہ ”رنسانس“ کے زمانہ میں ڈیموکراٹک کی ایک دوسری تصویر پیش کی گئی، وہ اس طرح کہ لوگوں کے کچھ نمائندے حکومت کے کاموں کے لئے منتخب ہوں ، اور وہ سبھی لوگوں کی نمائندگی میں حکومت کریں ؛ کیونکہ لوگوں کی براہ راست دخالت ممکن نہ تھی. اس کے بعد سے اس نظریہ کے بہت زیادہ حامی پائے جانے لگے اور اہستہ اہستہ بعض ممالک میں اس طرح کی حکومت رائج ہوگئی،یھاں تک کہ انیسویں صدی میں تقریباً یورپ اور دوسرے ممالک میں اس طرح کی حکومت لوگوں میں مقبول ہوگئی اور اسی طرز پر حکومتیں بننے لگیں ۔
ہمارے ملک میں بھی ڈیموکراٹک کا یھی طریقہ ہے، تمام لوگ حکومتی شعبوں کے مختلف ووٹنگ میں شرکت کرتے ہیں مثلاً صدر مملکت اور اسلامی پارلیمنٹ کے نمائندگان کو ووٹوں کے ذریعہ انتخاب کرتے ہیں کہ جو لوگوں کی نمائندگی میں قوانین بناتے اور ان کو جاری کرتے ہیں
اسی طرح شوریٰ اور دوسرے انتخابات جن کا ذکر قانون اساسی میں آیا ہے شرکت کرتے ہیں پس ڈیموکراسک کی دوسری تصویر جس میں سیاسی واجتماعی مسائل میں لوگ خود اپنی رائے او راپنے ووٹوں کے ذریعہ نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں ۔
۴۔دور حاضر میں جمہوریت کا مفہوم
آج کے زمانے میں ڈیموکراسک کچھ اور ہی خاص معنی پیدا کرتی جارہی ہے اس حکومت کو ڈیموکراسی حکومت کھتے ہیں جس میں دین کا کوئی نقش نہ ہولھٰذا جس وقت یہ کھا جاتا ہے: ”فلاں حکومت جمہوری ہے او رفلاں ملک ڈیموکراسک طریقہ پر حکومت کرتا ہے“ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس معاشرہ میں دین کا کوئی کرادر نہیں ہے، یعنی قانون کے بنانے والے اور قانون کو جاری کرنے والے کسی بھی موقع پر دین کی دخالت کو نہیں مانتے
البتہ ڈیموکراٹک کا یہ انداز دین کی نفی نہیں کرتا، لیکن سیاسی واجتماعی مسائل میں دین کی دخالت کو قبول نہیں کرتے، اور اس چیز کی اجازت نہیں ہے کہ قانون کے جاری کرنے والے قوانین کو جاری کرتے وقت دین کی کوئی بات کریں ، اور کوئی بھی طریقہ کار دینی احکام کی بناپر نہ ہو. درحقیقت ڈیموکریسی کا یہ طریقہ ”لائک“ اور ”سیکولر“ نظام کی بنیاد پر ہے جن کا نظریہ یہ ہے کہ سیاسی واجتماعی مسائل سے دین کو بالکل جدا اور الگ ہونا چاہئے. البتہ ہوسکتا ہے کہ خود قانون گذار یا قوانین کے جاری کرنے والے افراد متدین اور دیندار ہوسکتے ہیں کہ ہر ھفتہ کلیسا(گرجاگھر) میں جائیں اور وہاں نذر ونیاز کریں ممکن ہے یہ لوگ دینی انجمنوں کے ممبر بھی ہوں اور حکومتی کاموں کے علاوہ ایک معمولی انسان کے طرح دینی کاموں میں بھی مشغول رہیں لیکن حکومت کے کاموں میں چاہے قانون گذاری شعبہ ہو یا شعبہ اجراء قوانین دین کی کوئی بات نہ کریں ۔
اگر آپ سنےں کہ مثلاً ”فرانس “میں (جو آزادی او ر جمہوریت کا گھوارہ مانا جاتا ہے) ایک باحجاب لڑکی کو کالج اور یونیورسٹی میں جانے سے روکا جاتا ہے ، تو اس کی وجہ یھی ڈیموکراٹک ہے جس میں دینی کاموں سے روکنا اس کا ایک وظیفہ ہے، اور کھتے ہیں کہ ہماری حکومت ایک لائک حکومت ہے ، لھٰذا دین کی کوئی علامت ہمارے کسی بھی سرکاری شعبوں میں نہیں ہونا چاہئے،روسری اورنقاب کا لگانا دینی طرفداری کی ایک نشانی ہے، اور سرکاری شعبوں مثلاً مدرسہ میں اس کا پہنناممنوع ہے ؛ ھاں اگر کوئی مدرسہ کلیسا سے مربوط ہوتا یا کوئی پبلک اسکول ہوتا تو اگر تمام لڑکیاں روسری پہنتی تو کوئی پریشانی والی بات نہ تھی، لیکن سرکاری کالج یا یونیورسٹی میں جہاں سرکاری سند دی جاتی ہے وہا ں یہ سب کچھ نہیں ہونا چاہئے، اسی طرح دوسرے وزارتخانوں میں دین کا کوئی اثر نہیں ہونا چاہئے. یہ تھی جمہوریت کی ایک نئی تفسیر جس کی بناپر دینی اثرات جمہوریت کے خلاف ہیں ۔
ڈیموکراٹک کی اصلی اور نئی تصویر کے مطابق جس میں ڈیموکراسی کے معنی لوگوں کی حکومت ہے، اگر کچھ لوگ دیندار ہوں اور چاہیں کہ ادارہ جات میں دینی آداب ورسوم پر عمل کریں ، تو پھر مخالفت نہیں ہونا چاہئے؛ کیونکہ یہ کام لوگوں کی مرضی کے مطابق اور ان کے بنائے قوانین کے اعتبار سے ہے، ڈیموکراسک کا تقاضا یہ ہے کہ لوگ ہر جگہ حتی مدارس اور وزارتخانوں او ردوسرے ادارجات میں لباس پہننے میں آزاد ہو، اور اگر لوگوں کی اکثریت دیندار ہے او راسی دین کی وجہ سے کوئی خاص قسم کا لباس پہننا چاہیں یا دینی پروگرام کرنا چاہیں ، تو پھر کسی کو حق نہیں ہے کہ ان کو روکے. جس وقت لوگوں کی مرضی سے یہ قانون بنایا گیا کہ وزارتخانوں ، یونیورسٹیوں اور دوسرے اداروں میں نماز جماعت کا ہونا ضروری ہے یہ ڈیموکراسک (جس معنی میں ہم مانتے ہیں )کے خلاف نہیں ہے، کیونکہ خود لوگوں نے اس قانون کو بنایا ہے اور خود ہی جاری کرتے ہیں ، لیکن ڈیموکراسک کی دوحاضر کیتصویر کے مطابق اجماعی وسیاسی مسائل میں دینی رجحان نہیں ہونا چاہئے۔
۵۔ جمہوریت کی نئی تصویر سے استعمار کا بے جا فائدہ اٹھانا
جیساکہ ہم نے عرض کیا کہ ڈیموکراٹک کی نئی تصویر جسے استعمار ی حکومتیں پیش کرتی ہیں اور اپنے مقاصد کے تحت اس کو جاری کرتی ہے ، لائک اور سیکولرحکومتوں کے برابر ہے جو ذرہ برابر بھی یہ نہیں چاہتیں کہ سیاسی واجتماعی امور میں دین کی دخالت ہو. یھاں تک کہ اگر خود لوگ یہ کھیں کہ ہم اس دین کو قبول کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سرکاری دفاتر میں دینی رسم ورواج پر عمل کریں ، پھر بھی لوگوں کی مرضی کو ڈیموکراسک کے مخالف سمجھا جائے گا۔
اسی وجہ سے جب ”الجزائر“ میں انتخابات ہوئے اور وہاں ایک اسلامی پارٹی کامیاب ہوئی اور ڈیموکراٹک اصولوں اور اس ملک کے قوانین کے مطابق حکومت بنانا چاہی اور اسلامی قوانین کو جار ی کرنا چاہا ، مخالفوں نے احساس کیا کہ یہ پارٹی تو مضبوط ہوتی جارہی ہے اور مستقبل میں اسلامی حکومت بنانا چاہتی ہے تو بغاوت کردی او رانتخاب کو رد کرکے اس پارٹی کے لیڈروں کو پکڑپکڑ کرجیل میں ڈال دیا، اور اس پارٹی کو ختم کرکے اس کو غیر قانون قرار دے دیا. اور چند سال گذرنے کے بعد بھی اس پارٹی کو سراٹھانے کی اجازت نہیں ہے، جب کہ اس اسلامی ملک نے لاکھوں قربانی دے کر اس آزادی اور استقلال کو حاصل کیا تھا، اور قربان ہونے والے وہی مسلمان تھے کہ جھنوں نے اسلام کی خاطر اس وقت کی استعماری حکومت سے جنگ لڑی تھی یھاں تک کہ الجزائز کے لوگوں کو آزادی نصیب ہوئی، آج وہاں کی حالت بہت زیادہ خراب ہے جیسا کہ اخباروں میں پڑھتے رہتے ہیں کہ ہر روز دسیوں لوگ کو خطرناک طریقے سے قتل کیا جاتا ہے۔
وہاں رونما ہونے والے ان تمام حادثوں کے پیش نظر وہاں کی وہ حکومت جو بغاوت کرکے بنائی گئی ہے اس قتل وغارت گری کے ذریعہ اپنی حکومت کو مضبوط کرتی جارہی ہے، اور استعماری حکومتوں کے نزدیک وہاں کی یہ حکومت مقبول تر ہے، اس حکومت کے مقابلہ میں جو ووٹنگ او رلوگوں کی رائے سے بنی تھی جو دین اور اس کے احکامات کو جاری کرنا چاہتی تھی. اس خوف سے کہ کھیں دنیا میں ایک نئی اسلامی حکومت نہ بن جائے”اس طرح کی حکومت کو جمہوری نام رکھا، لیکن اگر خود لوگ اپنی رائے اور اپنی مرضی سے اسلام اور اسلامی حکومت کو چاہیں اس کو غیر ڈیموکراٹک کھتے ہیں کیونکہ لوگ اسلام کی طرف رجحان رکھتے ہیں “ لھٰذا جمہوریت کی نئی تفسیر کی بناپر دین کو اجتماعی وسیاسی مسائل میں بالکل دخالت نہیں کرنا چاہئے، یھاں تک کہ کوئی لڑکی چادر یا مقنعہ پہن کر کالج نہیں جاسکتی؛ جیسا کہ ترکی میں بھی اسی طرح ہوتا ہے۔
استعماری پٹھو ، اسلامی ممالک میں بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ اسلامی ممالک میں بھی اسی طرح کی جمہوریت ہونا چاہئے حکومتی مسائل میں دین کے لئے کوئی جگہ نہ ہو چاہے قانون گذاری والا شعبہ ہو یا قانون کے جاری کرنے والا شعبھ، وہ ممالک جو اسلامی حکومت بنانے کے لئے بہت زیادہ راغب ہیں ان میں ثقافتی حملہ اور یونیورسٹیوں میں نفوذ کے ذریعہ اسلامی رجحان کو ضعیف وکمزور کرنا چاہتے ہیں ، اور جمہوریت کی اس تصویر کو رائج کرنا چاہتے ہیں ، اپنے خیال ناقص میں یہ گمان کرتے ہیں کہ چند سال بعد جب یہ نسل بدل جائے گی تو انقلابی نسل ختم ہوجائے گی اور اس کی جگہ وہ نسل آجائے گی کہ جو انقلاب کے اصولوں سے واقف نہیں ہے، وہ نسل ڈیموکراٹک کی اس نئی تصویر وتفسیر کو بروئے کار لائے گی۔
نتیجہ یہ نکلا کہ جمہوریت کے تین معنی اور تفسیر ہیں :
۱۔ لوگوں کا حکومتی مسائل میں براہ راست دخالت دینا جیسا کہ کچھ مدت کے لئے یونان میں رہی اور پھر ختم ہوگئی۔
۲۔ اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعہ حکومت میں دخالت، جیسا کہ آج کل کے بعض ممالک میں رائج ہے او رخود ہمارے ملک میں بھی موجود ہے۔
۳۔ حکومت کے تمام کام (قانون گذاری ہو یا اجرائے قانون) دین سے جدا ہوں ، یعنی ڈیموکراٹک کاسیکولر اور لائک ہونا شرط ہے۔
۶۔ اسلامی نظریہ کے مطابق جمہوریت کی مناسب تصویر
ہم نے اس سوال کے جواب میں کہ اسلام حکومت کے کس انداز کو قبول کرتا ہے ؟ ہم نے قانون گذاری کے بحث میں عرض کیا کہ اگر قانون گذاری میں جمہوریت کے یھی معنی ہوں کہ اگر لوگوں کی اکثریت(۵۱ فی صد) جس قانون کی حمایت کریں وہ قانون معتبر اور واجب الاتباع ہے چاہے قرآن کی صریح آیات کے خلاف کیوں نہ ہو،تو اسلام ایسی ڈیموکراٹک کو نہیں مانتا، وہ اسلام جو خود حکومت کے مختلف پہلوں پر منجملہ عدالت (کورٹ) معاشی مسائل ، وغیرہ وغیرہ تمام مسائل میں قوانین رکھتا ہے وہ اس بات کی اجازت نہیں دےتا کہ اس کے صریح قوانین کے مخالف قوانین رواج پیدا کریں ، اور اگر ہم اس طرح کے قوانین کو رسمی مانے تو گویا ہم نے اسلام کو نادیدہ قرار دیا ہے۔
ایسی جمہوریت کا اسلامی قانون گذاری سے مخالف ہونا ایک بدیھی اور ظاہری بات ہے اور کسی استدلال کی ضرورت نہیں ہے. اگر کوئی یہ کھے کہ جمہوریت قانون گذاری یعنی قانون کے معتبر ہونے میں اسلام کے ساتھ ہم اہنگ نہیں ہے ، ظاہر ہے کہ اسلام بھی اس کے ساتھ ہم اہنگ نہیں ہوسکتا، اور جب کسی مجموعہ میں اسلام کی مخالفت پائی جاتی ہوتو اس کی بارے میں دلیل بھی پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے،اور جب کسی مجموعہ میں اصل اسلام سے ایسی مخالفت موجود ہو تو پھر یہ سوال نہیں ہونا چاہئے کہ اسلام کے ساتھ ہم اہنگ ہے یہ نھیں ؟ کیونکہ خود مجموعہ اس کی مخالفت میں بنایا گیا ہے ، پس اگر جمہوریت یعنی وہ قوانین جو اسلام سے متفق نہ ہوں ان کو معتبر ماننا تو پھر ہم یہ کھیں گے کہ اسلام اس جمہوری قانون کو معتبر جانتا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو چیز اسلام سے سازگار نہیں ہے وہ سازگار ہوجائے، یہ ایک تناقض اور واضح البطلان نظریہ ہے استدلال کی ضرورت نہیں ۔
بہرحال جس چیز کی وضاحت کی ضرورت ہے جس کا ہم نے وعدہ بھی کیا ہے،وہ یہ ہے کہ جمہوریت کااجرائی سلسلہ ہے؛ یعنی قانون کو جاری کرنے والوں کے یقین میں لوگوں کا کیا کردار ہے؟،اسی طرح ان لوگوں کے انتخاب میں جو قوانین کو اسلامی نظریات کے تحت بنانا چاہتے ہیں (مثلاً اسلامی پارلیمینٹ کے ممبران )ان کے سلسلہ میں لوگوں کی کیا ذمہ داری ہے؟. اور جہاں پر اسلام کے ثابت اور دائمی قوانین نہیں ہیں ، اور آج کی ترقی یافتہ دنیا میں انسانی حالات کے پیش نظر نئے قوانین کی ضرورت ہوتی ہے، اسلام نے ان موارد میں حکومت کو اجازت دی ہے کہ اسلامی دائرہ میں ضروری قوانین کو بنائے ، مثلاً گاڑی چلانے سے متعلق قوانین وہ داہنی طرف چلیں یا بائیں طرف، یا ان کی رفتار کتنی ہو، ظاہر ہے کہ قرآن واحادیث میں اس سلسلہ میں کوئی واضح حکم تو ہے نھیں ، اور ایسے متغیر قوانین زمان ومکان کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں ، یہ کام اسلامی حکومت کا ہے کہ وہ اسلام کے کلی نظریات کے مطابق مناسب قوانین بنائے۔
مذکورہ بحث کی رو سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جمہوریت اور لوگوں کی اہمیت کا اندازہ قانون گذار اور قانون کے جاری کرنے والے جواسلامی بنیادوں کی رعایت کرتے ہوئے موقت اور متغیر قوانین بناتے ہیں ان کی تعین میں لگتا ہے. دوسرے الفاظ میں یوں عرض کیا جائے کہ جمہوریت یعنی لوگوں کا جدیت کے ساتھ اسلامی حدود وقیود کی رعایت کرتے ہوئے نمائندگان کے انتخاب کی معین شدہ خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے چننے کے لئے انتخابات میں شرکت کرنا،اور اس پرشروع انقلاب اور امام خمینی کے زمانہ سے عمل ہوتاآیا ہے. مثلاً اسلامی پارلیمنٹ کا انتخاب، صدر مملکت کا انتخاب، خبرگان رہبری کا انتخاب اور شوریٰ کا انتخاب. لھٰذا لوگوں کے منتخب شدہ افراد میں خاص شرائط کا ہونا ضروری ہے۔
یعنی مسلمان اور اسلامی احکامات کا دلسوز ہو اور قانون بناتے وقت اسلامی قوانین کی رعایت ضروری ہے. اقلیت کے نمائندوں کے علاوہ تمام نمائندوں میں ان صفات کے علاوہ مسلمان اور احکامات اسلامی کا دلسوز ہونا ضروری ہے ، اور اس کے ساتھ شورای نگھبان ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ پارلیمینٹ کے نمائندوں نے غفلت یا غلطی سے ایسے قوانین بنا ڈالے ہوں جو اسلام کے مخالف ہوں ، شورای نگھبان کا وظیفہ یہ ہے کہ پارلیمینٹ کے بنائے ہوئے قوانین کو دیکھے کہ آیا اسلام سے مطابقت کرتے ہیں یا نھیں ، اور اگر اسلام کے مطابق ہیں تو ان کی تائید کرتی ہے او راگر اسلامی نظریات کے موافق نہیں ہیں تو پارلیمینٹ کو واپس بھیچ دیتے ہیں تاکہ ان پر تجدید نظر کرے، ہمارے ملک میں اس طرح کے قوانین سسٹامیٹک ہیں جن کو سب قبول کرتے ہیں او رکوئی بھی ان کی مخالفت نہیں کرتا۔
اسی طر ح قانون کو جاری کرنے والے جن میں سب سے اوپر صدر مملکت ہوتا ہے یھاں بھی اسلامی قوانین کی رعایت ضروری ہے. سب سے پہلے صدر مملکت میں ایسے صفات ہوں جو قانون اساسی میں ذکر ہوئے ہیں جو کہ اسلام سے ماخوذ ہیں ذکر ہوا ہے، اور اپنی حکومت کو چلانے میں خدا کی طرف سے اذن رکھتا ہو، اس طرح کہ لوگوں کی اکثریت کی حمایت کے بعد ولی فقیہ کے ذریعہ منصوب ہو، لھٰذااس صورت میں اس کی حکومت مشروع اور جائز ہوگی ، یہ وہ چیزیں ہیں کہ جو ہمارے ملک میں انجام پاتی ہیں ۔
لوگوں کے نقش اور اسلامی نظام میں ان کے دخالت کو بہت ر طور پر سمجھنے کے لئے ایک مثال پیش کرتے ہیں ؛ فرض کریں کہ ہم لوگ حضرت علی علیہ السلام کی حکومت کے زمانہ میں ہوتے او راپنے شہر میں کسی شائستہ ،مناسب اور صالح شخص کو ولایت کے لئے مناسب سمجھتے اور امام علیہ السلام کی خدمت میں جاکر عرض کرتے کہ فلاں شخص ہمارے شہر میں والی ہونے کی صلاحیت رکھتاہے، ممکن تھا امام علیہ السلام ہمارے اس مشورے پر اس شخص کو والی کے عنوان سے منصوب فرماتے۔
اب اگر لوگوں کی اکثریت امام علیہ السلام کی خدمت میں یہ مشورہ پیش کرےں تو بطریق اولیٰ امام علیہ السلام اس مشورہ کو قبول فرماتے، اور اس شخص کو اپنی حکومت کے اس علاقہ کی ولایت کے لئے منصوب فرماتے.پس معلوم یہ ہوا کہ لوگوں کے کردارکی اہمیت حکومت اور حکومتی کاموں میں تھیوری کے لحاظ سے ہے اسی طرح کہ افراد تحقیق وبررسی کریں کہ قانون گذاری اور ان کے اجراء کے لئے کون افراد مناسب ہیں ان کو ووٹ دیں او رلوگوں کا ووٹ دینا گویا رہبری کو مشورہ دینا ہے اور درحقیقت ولی فقیہ سے ایک عھدوپیمان ہے کہ اگر اس کو ہماراحاکم معین کریں تو اس کی اطاعت کریں گے، اسی وجہ سے جب امام خمینی کے زمانے میں لوگوں کی اکثریت کسی کو صدر مملکت کے عنوان سے منتخب کرتی تھی، تو حضرت امام خمینی فرماتے تھے:
میں ان کو جنھیں لوگوں کی تائید بھی حاصل ہے صدر کے عنوان سے منصوب کرتا ہوں ، یعنی لوگوں کے ووٹ ایک مشورہ کی طرح ہےں کہ ہم اس کو قبول کریں گے۔
یہ اسلامی حکومت کی تھیوری اور نظریہ ہے جو جمہوریت کے دوسرے معنی کے لحاظ سے کوئی مخالفت نہیں رکھتا، اور ۲ ۰ سال سے ہمارے ملک میں نافذ ہے او رکوئی بھی مشکل نہیں آئی. لیکن اگر جمہوریت کے معنی یہ ہوں کہ معاشرہ میں دین کی دخالت نہ ہوسرکاری اداروں میں کوئی بھی دینی پروگرام نہ ہوں تو کیا ایسی چیز اسلام سے ہم اہنگ ہے یا نھیں ؟ بے شک تیسرے معنی کی جمہوریت جو آج کا استعمار اس کی تفسیر کرتا ہے اور دوسروں پر اس کو تحمیل کرنا چاہتا ہے، سو فی صد اسلام ایسی جمہوریت کا مخالف ہے، کیونکہ یہ اسلام کے منافی ہے۔
لیکن جمہوریت دوسرے معنی یعنی اسلام کے ان شرائط کا لحاظ رکھنا جن کو اسلام نے قانون گذار اور قانون کے جاری کرنے والوں کے لئے معین کئے ہیں ،گویا لوگ صالح او رباصلاحیت افراد کو قانون گذاری اور اجرائے قانون کے لئے انتخاب کریں اور اپنی شرکت سے اسلامی حکومت سے ہمدردی اور ہمکاری کو ثابت کریں اور خود کو ملک کے مسائل میں شریک جانیں جمہوریت کی یہ تصویر اسلام کی نظر میں مقبول ہے اور ہمارے ملک میں اس پر عمل ہوتا ہے، اور اگر کسی مقام پر اس خلاف ورزی ہوتی ہے دیگر خلاف ورزیوں کی طرح جو گاہے گاہے وجود میں آتی رہتی ہیں تو ہم کو اس کی پیگیری کرنا چاہئے تاکہ دوبارہ اس قسم کی خلاف ورزی کی تکرار نہ ہو۔