اسلام اور سیاست جلد ۱

اسلام اور سیاست 0%

اسلام اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اسلام اور سیاست

مؤلف: آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی دام ظلہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 36926
ڈاؤنلوڈ: 3840


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 39 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 36926 / ڈاؤنلوڈ: 3840
سائز سائز سائز
اسلام اور سیاست

اسلام اور سیاست جلد 1

مؤلف:
اردو

بائیسواں جلسہ

اسلام اورجمہوریت (۲)

۱۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر

ہم نے گذشتہ بحث کے دوران اسلام کے سیاسی نظریہ پر ہوئے بعض اعتراضات کے بارے میں گفتگو کی تھی ، جن میں سے ایک اعتراض یہ تھا کہ اگر قوانین خداوندعالم کی طرف سے معین ہوں اور ان کو جاری کرنے والے بھی خداکی طرف سے معین ہوں تو یہ جمہوریت سے ہم اہنگ نہیں ہے، ہم نے اس اعتراض کے جواب میں عرض کیا تھاکہ جمہوریت کے کوئی خاص واضح وروشن معنی بیان نہیں ہوئے ہیں ”آٹن“ میں جمہوریت کا آغاز اس طرح ہواکہ شہر کے تمام لوگ شہری مسائل میں براہ راست دخالت کیا کرتے تھے. اور اس طریقہ کے عملی نہ ہونے اور دوسرے دلائل کی وجہ سے دانشمندوں اور فیلسوف حضرات کو اس پراعتراض ہوا. یھاں تک کہ ”رنسانس“ کے زمانہ سے خود پسند اور ظالم حکومتوں کے مقابلہ میں جمہوریت کی دوسری تصویر پیش کی گئی،اور مغرب زمین کے بڑے بڑے فیلسوف حضرات اس پر تنقید کرنے لگے ،یھاں تک کہ اس کی ایک قابل قبول شکل نکالی گئی اور اس کے بعد دوسرے ملکوں میں جانے لگی. اس کی موجودہ صورت یہ ہے کہ لوگ فقط پارلیمینٹ کے ممبران کے انتخابات میں شرکت کرتے ہیں ، اور قوة مجری (صدر یا وزیراعظم) یا مسئول قوة قضائیہ (رئیس قضاة) کے انتخاب میں لوگوں کا کوئی کردار نہیں ہوتا. اس نظریہ میں حکومت کی کوئی خاص شکل وصورت معین نہیں ہوتی اسی وجہ سے مختلف حکومتیں بادشاہی، پارلیمینٹی، یا ریاست جمہوری حکومتیں اپنے کو جمہوری حکومت تصور کرتی ہیں ، کیونکہ اس حکومت میں کسی نہ کسی طریقہ سے لوگوں کا کردار ہوتا ہے۔

۲۔سیکولر جمہوری اور اس کے فلسفہ کی وضاحت

جیسا کہ ہم نے عرض کیا،مغربی ممالک کے سیاست داں حضرات نے جمہوریت کی ایک نئی شکل پیش کی ہے کہ جس جمہوریت میں ”لائیزم“ کے معنی پائے جاتے ہیں یعنی ایک طرف تو لوگ بھی حکومت میں دخالت رکھتے ہوں او ردوسری طرف یہ کہ کسی بھی سرکاری دفتر میں دین کی کوئی نشانی نہ پائی جائے.

دین نہ توقانون گذاری میں کوئی دخالت ہو او رنہ ہی قانون کے جاری کرنے والے دین کے نام پر حکومت کریں ،یھاں تک کہ جو شعبہ جات حکومت سے وابستہ ہیں ان میں بھی دین کی کوئی نشانی نہ ہو،دینی اعتقاد یا اس کی طرف داری کا کوئی وجود نہ ہو. اسی وجہ سے بعض حکومتوں میں لڑکیوں کوکالج میں باپردہ جانے سے روکا جاتا ہے، کیونکہ دینی نشانی کے ساتھ کالج میں جانے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اس کی حمایت کرتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت کے یہ جدید معنی سوفی صد دین کے مخالف ہےں ، او ر ایسی حکومتوں کو جمہوریت کا نام دینے کے بجائے ”بے دینوں کی ڈکٹیٹری“ کہنا مناسب ہے، کیونکہ یہ لوگ جمہوریت کے نام پر معاشرہ میں دینی اعتقادات اور مذہبی امور کو انجام دینے کی اجازت نہیں دیتے، اورسرکاری دفاتر میں دینی امور پر عمل کرنے کووممنوع قرار دیتے ہیں ۔

یہ طریقہ کار کہ جس کی کوئی فلسفی بنیاد نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی فلسفی نظریہ ہے، لیکن دشمنان دین کا مقصد یہ ہے کہ مغربی اور یورپین ممالک میں دین، خصوصاًاسلام کو پھیلنے سے روکا جائے، اور اپنی تمام تر کوشش کرتے ہیں کہ اپنے ممالک یھاں تک کہ اسلامی ممالک میں جمہوریت کے نام پر اسی جمہوری انداز کو اپنائیں کہ جس کا نمونہ الجرائر اور ترکی میں دیکھنے میں آتاہے۔

ڈکٹیٹری کی سخت شکل سے نکالنے کے لئے اور اس کی جگہ جمہوریت کی نرم وملائم شکل پیش کرنے کے لئے ایک فلسفہ تراشی شروع کی ،تاکہ دینداروں کے اعتراضات کا مقابلہ نہ کرنا پڑے، اور ان کے غصہ کو کم کرسکیں ،اسی وجہ سے حکومتی دفاتر میں دینی نشانیاں نہ ہونے کی توجیہ اور وضاحت کرتے ہیں اور فلسفہ کا راہ حل پیش کرتے ہیں کہ (جیسا کہ حقوق بشر کے نشریہ میں بھی موجود ہے) تمام انسان انسانیت میں برابر ہیں اور ان میں کوئی درجہ بندی نہیں ہے اور ہمارے پاس درجہ اول یا درجہ دوم کے انسان نہیں ہےں ، اسی بناپر اگر کسی دین کے لئے کسی امتیاز کے قائل ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اس دین کو دوسرے دیگر ادیان پر ترجیح دی اور اس کا سب سے بڑا درجہ مانا. پس کسی دین کا احترام کرنا یاسرکاری دفاتر میں اس کے دینی رسم ورواج کی اجازت دینا ، گویا اس دین کو ایک خاص امتیاز دینا ہے جبکہ ہم تمام انسان برابر ہیں اور کسی ایک کے دوسرے پر امتیاز کے قائل نہیں ہیں !

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ حکومتیں کس طرح اجازت دیتی ہیں کہ جس طرح چاہیں عمل کرےں جس طرح کا کپڑا پہننا چاہیں پہنےں ،لیکن دیندار لڑکیوں کے باحجاب ہونے پر پابندی ہے ، درحقیت یہ بعض شہریوں کی آزادی کی نفی اور ان کے حقوق کی پامالی ہے۔

۳۔سیکولر نظام کی فلسفی بنیاد میں مغالطہ

بہر حال ،وہ اپنی کارگردگی کے لئے مذکورہ توجیہ وضاحت پیش کرتے ہیں ،لیکن اس میں ایک بہت بڑامغالطہ اور غلطی یہ پائی جاتی ہے کہ تمام انسانوں کا انسانیت میں برابر ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام شہری ،شہری ہونے میں برابر ہوں کیونکہ تمام انسانوں کا انسانیت میں برابر ہونے کی بحث کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اسلام نے تاکید کی ہے، جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے:

( یاَا یُّها النَّاسُ إِناَّ خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَا نْثیٰ وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا إِنَّ ا کْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰه ا تْقَاکُمْ ) (۱)

”لوگوں ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم ہی نے تمھارے قبیلے اور برادریاں بنائیں تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرلے، اس میں شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تم سب میں بڑا عزت دار وہی ہے جو بڑا پرہیزگار ہو“

قرآن کریم واضح طور پر انسانوں کے درمیان فرق اور امتیاز کی نفی کرتا ہے اور ان کو ایک آدم کی اولاد کھتا ہے کہ جو آپس میں بھن بھائی ہیں ، اور ان میں کوئی فاصلہ وامتیاز نہیں ہے. یہ مطلب کسی بھی آسمانی کتاب میں اس کیفیت کے ساتھ بیان نہیں ہوا ہے. اور ہم بھی ایک مسلمان کی حیثیت سے معتقد ہیں کہ تمام انسان برابر ہیں اور انسانیت درجہ اول اورودم نہیں رکھتی، مشہور ومعروف شاعر سعدی کا یہ شعر بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہیں

بنی آدم اعضای یکدیگر اند

کہ درآفرنیش زیک گوہرند

لھٰذا جوہر انسانیت تمام انسانوں میں برابر ہے اور انسانوں میں درجہ اول اور ودم نہیں ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام انسان تمام چیزوں میں برابر ہیں یھاں تک کہ ایک ملک کے تمام شہری تمام سھولتوں میں برابر ہوں اور تمام دنیا میں اس کو ایک اصل کے عنوان سے بین الاقوامی حقوق میں قبول کیا گیاہے کہ کسی ملک کی تابیعت (نیشنلٹی) خاص شرائط اور خاص سھولتیں رکھتی ہے. ممکن ہے کوئی شخص اپنے ملک سے مھاجرت کرے اور چند سال کسی دوسرے ملک میں زندگی بسرکرے ،اِس ملک کو فیض پہونچائے اور وہاں کے لوگوں کیلئے کافی خدمات انجام دے؛ لیکن پھر بھی اس کو وہاں کی نیشنلٹی اس کو نہیں ملے گی.

چونکہ مھاجر افراد کو نیشنلٹی ملنے کے لئے خاص شرائط وقوانین درکار ہوتے ہیں اور جس وقت اس کو نیشنلٹی دیں بھی تو ممکن ہے اس کو دوسرے درجہ کا شہری قرار دیں ، اوراس کو اول درجہ کی شہریت والی سھولتیں اس کو نہ دیں یہ مسئلہ تمام دنیا میں پایا جاتا ہے درحالیکہ تمام انسانوں کو انسانیت میں برابر مانا جاتا ہے، لیکن شہریوں کے حقوق اور سھولتیں نیشنلٹی کے لحاظ سے برابر نہیں ہیں ، اور نیشنلٹی کا اول درجہ اور دوسرا درجہ ہے ،لھٰذا یہ کہنا محض ایک مغالطہ ہے کہ تمام انسان چونکہ انسانیت میں شریک ہیں لھٰذا انسانیت کا درجہ اول ودوم نہیں ، لیکن شہریت میں دو درجہ ہوسکتے ہیں اور اس کو اسلام نے بھی قبول کیا ہے۔

ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے اور توجہ رکھنا چاہئے کہ مغربی ڈکٹیٹری حکومتیں اپنے کو جمہوری حکومتیں کھلاتی ہیں ، تاکہ اپنے نامشروع مقاصد میں کامیاب ہوجائیں ، ہمیں ان کی فریب کار شکل سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے، حقیقت میں جمہوریت کی جدید شکل ایک ڈکٹیٹری ہے جس کی وجہ سے مسلمان عورتیں حجاب اور دوسرے مذہبی مراسم سے محروم ہیں جبکہ ”حقوق بشر نشریہ“ میں موجود ہے کہ دین آزاد ہے اور سبھی لوگ دینی وظائف پر عمل کرنے میں آزاد ہیں ، اس میں یہ کوئی قید وشرط نہیں ہے کہ سرکاری دفاتر میں کوئی مذہبی کام ہو یا نہ ہو، لیکن اپنی مرضی کے مطابق اس کی تفسیر ومعنی کرتے رہیں اور جنگ کو صلح کے نام سے اور دوسروں پر ظلم کو حقوق بشر کی حمایت کے نام سے جائز جانتے ہیں ، اور ہم آپ ہر روزان کے ظلم وجور اور دھوکہ دہڑی کو دیکھتے رہتے ہیں ۔

۴ ۔مدیریت کے میدان میں جمہوریت کا دوسرا رخ

جیسا کہ ہم نے عرض کیاکہ جمہوریت کے تین معنی ذکر کئے گئے ہیں کہ ان سب کا تعلق فلسفہ سیاست سے ہے، لیکن بعض مولفین جو خود کو دینی روشن فکر کہلاتے ہیں وہ یہ کھتے ہیں کہ جمہوریت کا فلسفہ سیاست سے کوئی ربط نہیں ہے، بلکہ جمہوریت مدیریت سے مربوط ہے ،اور اس کو حکومت یا حکومتی ادارہ سے کوئی ربط نہیں ہے،اور اس بحث کی جگہ سیاسی فلسفہ میں نھیں ھے. ہم ان لوگوں کے جواب میں مختصر طور پر اتنا عرض کرتے ہیں : کہ فلسفی کتابوں کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سیاسی فلسفہ کے بارے میں ایسی کوئی کتاب نہیں ہے کہ جس میں جمہوریت سے بحث نہ کی گئی ہو، اب اگر جمہوریت کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر سیاسی فلسفوں کی کتابوں میں اتنی زیادہ بحث کے کیامعنی؟ ان کے دعویٰ کا راز یہ ہے کہ جمہوریت کی جو نئی تصویر مغربی ممالک کے لیبرل دانشمندوں اور مولفوں نے پیش کی ہے تاکہ اس کو سیاسی مفہوم سے خارج کردیا جاسکے، اور اس کو دوسرے اجتماعی میدانوں میں داخل کردیں ان کا کہنا یہ ہے کہ جمہوریت صرف کسی حاکم کی قدرت کو محدود کرنے یا چندمخالف گروہوں کے درمیان سازش (خلاف قانون تال میل) کرانے یا صرف حکومتی اداروں سے مربوط نہیں ہے بلکہ کسی بھی مدیریتی شعبہ میں ہوسکتی ہے: فرض کیجئے اگر کسی کارخانہ کے مختلف شعبوں کے مدیروں کے درمیان اختلاف ہوجائے، تو ان میں اتفاق کرانا ضروری ہے کیونکہ اگریہ اختلاف بڑھتا چلاجائے تو اس کارخانہ کی دیوالیہ نکل جائے گا، لھٰذا اس کارخانہ کے منافع کو فراہم کرنے کے لئے سبھی کو ایک دوسرے سے مشورہ کریں اور ان میں اتفاق ہو یا یہ کہ اکثر لوگوں کی رائے کو مانا جائے، اس طریقہ کار کو جمہوریت کھا جاتا ہے۔

پس معلوم یہ ہوا کہ جمہوریت کسی سازمان کے اندر ہوئے اختلافات کو ختم کرنے کے لئے ہے،اور جمہوریت کے یہ معنی سیاسی فلسفہ سے خارج ہے اور مدیریت کے دائرے میں شامل ہے. اگرچہ حکومت بھی چونکہ معاشرہ کی کثیر تعداد کو ادارہ کرنا بھی ایک مدیریتی کام ہے ، لیکن بہرحال اس کے خاص حدود ہیں ،یہ لوگ جمہوریت کے معنی میں وسعت دینے کے لئے کھتے ہیں کہ اگر دوگروہوں میں اختلاف ہوجائے اور مذکورہ طریقہ سے آپس میں سازش کرلیں تو اسی کا نام جمہوریت ہے. اس بارے میں مزید وضاحت اس طرح ہے کہ دوگروہوں کے درمیان اختلاف کی صورت میں ممکن ہے کہ ایک گروہ زیادہ مضبوط ہو او ر دوسرے پر مسلط ہوجائے او راپنے نظریہ کو اس پر زبردستی تحمیل کردے، تو ظاہر ہے کہ یہ طریقہ جمہوری نہیں ہے؛ لیکن اگر آپس میں اتفاق ہوجائے اور آخرکار اکثریت کے نظریہ کو تسلیم کرلیں تو گویا انھوں نے جمہوریت کو تسلیم کرلیا ہے۔

البتہ ہم کسی اصطلاح کو بنانے یا کسی علمی اصطلاح میں وسعت دینے کے مخالف نہیں ہیں ، لیکن یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ درحقیقت یہ معنی سیاسی میدان سے مربوط ہیں جس کو دوسرے مسائل میں بھی وسعت دی گئی ہے. اور اجتماعی علوم میں ایسے بہت سے معنی موجود ہیں جن کو شروع میں کسی خاص میدان میں استعمال کیا جاتا تھالیکن ان میں وسعت دینے کے بعد ان کو دوسرے میدانوں میں میں بھی استعمال کیا جانا لگا،مثال کے طورپر آپ ”اسٹراٹیجی“( Strategie ) (یعنی لشکر کشی) کے لفظ سے آگاہ ہیں جو تمام ہی محافل میں مشہور ہے.کہ دراصل اس کے معنی”سوق الجیشی“ (لشکر کشی) کے ہیں اور اس کو فوجی سطح پر بولا جاتا ہے اور اسٹراجسٹ اس کو کھا جاتا ہے جو جنگ کا نقشہ اور اس کو کمانڈ کرنے کی ذمہ داری لیتا ہے، مثلاً کسی حملہ کا پلان بناتا ہے، اور اس حملہ کی راہنمائی کرتا ہے، یہ لفظ جنگی فوج کی ہدایت یا اس کے طریقہ حرکت یا جہاں سے حرکت ہوتی تھی یا جہاں پر پڑاؤ ڈالا جاتا تھایا جہاں سے حملہ شروع ہوتا تھااس علاقہ کو سوق الجیشی یا اسٹراٹیجک علاقہ کھا جاتا تھا۔

اس کے بعد اس لفظ میں وسعت دی گئی اور دوسرے علوم میں بھی اس کو استعمال کیا جانے لگا، مثلاً خود ہماری سیاسی بحث میں بھی ”اسٹراٹیجک سیاست“ ایک اصطلاح ہے. یھاں تک کہ تعلیمی شعبہ کی بعض مدیریتوں میں اسٹراٹیجک مسائل بیان ہوتے ہیں ، اور ہمارے قانون اساسی میں میں بھی ایسے بہت سے اصول ہیں جو اسٹراٹیجک پہلو رکھتے ہیں ، اس اصل کے مانند جو یہ کھتی ہے کہ ملک کے قوانین کو اسلامی قوانین کے مطابق ہونا چاہئے. لیکن بعض ان لوگوں پر تعجب ہے کہ جو قانون اساسی کا دم بھرتے ہیں اور اسی کو سند بناتے ہیں کہ گویا قانون اساسی قرآن سے بالاتر کوئی چیز ہے لیکن کبھی ایسی مخالفت کرتے ہیں کہ گویا قانون اساسی کی ان کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے. جہاں پر قانون اساسی میں لوگوں کی رائے کے احترام کے بارے میں ملتا ہے تو گویا قرآن مجید کو بھی ان کے برخلاف بولنے کی اجازت نہیں ہے. پیغمبر اور ائمہ معصومین اور امام زمانہ علیہم السلام کو بھی لوگوں کی رائے کی مخالفت کا حق نہیں ہے.؟!

لیکن جب قانون اساسی یہ کھتا ہے کہ ملک کے قوانین اسلامی قوانین کے مطابق ہونے چاہئےں ،تو وہ اس کو بھول جاتے ہیں اور اس کی مخالفت شروع کردیتے ہیں اور کھتے ہیں کہ معیار لوگوں کی رائے ہے!!

کیا اسی قانون اساسی میں نہیں ہے کہ اس ملک کے قوانین کو اسلامی قوانین کے مطابق ہونا چاہئے؟ لھٰذا اگر کوئی چیز اسلامی نظر سے حرام ہو تو پھر آپ قانون اساسی کو سند بناکرکس طرح اس کو جائز کرسکتے ہیں ؟ اس قانون اساسی کے پیش نظر کہ جو قوانین اسلام کی رعایت پر اتنی تاکید کرتا ہے یہ کھہ کر کہ اخبارات آزاد ہےں ، کس طرح اسلامی مقدسات اور اسلام کے ضروری احکامات کی توہین کی جائے؟

اخبارات خاص قوانین کے تحت آزاد ہیں نہ یہ کہ قانون سے بڑہ کر آزاد ہوجائیں جب قانون اساسی اسلامی مقدسات کے احترام کو واجب کرتا ہے اور ضروریات دین کا انکار اور اسلامی قوانین کا مسخرہ کرنا ، نیز خدا وپیغمبر کا مذاق بنانا جو مرتد ہونے کا سبب ہے تو پھر اخبارات کے قوانین اس کو کس طرح جائز کرسکتے ہیں قانون اساسی اس وجہ سے لکھا گیا تاکہ اسلامی جمہوری کے مفہوم کو واضح وروشن کرسکے۔

۵۔جمہوری اسلامی میں اسلام وولایت فقیہ کا سب سے اہم مقام

انقلاب کی کامیابی کے پہلے سال یعنی ۱۳۵۸ء ہ شمسی میں جمہوری اسلامی کا” رفرنڈم“ '' Referendum '' (ھمہ پرسی) ہونے والا تھا جس میں حکومت کی شکل وصورت کے لئے خاص نشانات پیش کئے گئے تاکہ سبھی لوگ اس کے حساب سے ووٹ ڈالیں ان میں سے بعض جمہوری، جمہوری ڈیموکراٹک، جمہوری ڈیموکراٹک اسلامی، جمہوری اسلامی تھے. لیکن امام خمینی نے فرمایا: ”جمہوری اسلامی“ نہ ایک لفظ کم نہ زیادھ، اور اس میں ۹ ۸فی صد لوگوں نے ”جمہوری اسلامی“ کو ووٹ دئے، یعنی اسلامی حکومت کی قید وشرط کو نہیں ھٹایا جاسکتااور اس کی جگہ ”ڈیموکراٹک“ لفظ کو نہیں رکھا جاسکتا. اور اگر ڈیموکراٹک کا لفظ اسلام سے بالاتر کوئی چیز تھی تو کیوں امام خمینی نے اجازت نہ دی کہ اس لفظ کو اسلامی حکومت کے ساتھ اضافہ کیا جائے؟

اور اگر جمہوریت اور ڈیموکریسی میں کوئی فرق نہیں ہے تو جب جمہوریت ہے تو ڈیموکریسی بھی ہے، لھٰذا ڈیموکریسی لفظ کے لانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے. پس جب بعض لوگ ”جمہوری ڈیموکراٹک“ پر تاکید واصرار کررہے تھے، تو امام خمینی نے ان کی مخالفت کی؛ معلوم یہ ہوا کہ ڈیموکراسی کے مختلف معنی ہوسکتے تھے اور جمہوریت میں بعض چیزوں کا اضافہ ہوسکتا تھا کہ جن کی نفی کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام سے بڑہ کر لوگوں کے ووٹوں اور ان کے نظریات پر تکیہ نہیں کیا جاسکتا۔

بہرحال ہماری حکومت ،جمہوری اسلامی ہے کہ جن کے ستون لوگوں کے شانوں پر ہیں اور انہیں لوگوں نے انقلاب کیا ہے اور اپنے انقلاب کی اسلامی قوانین کے تحت حفاظت کرتے ہیں مرحوم شھید استاد مطھری اس سلسلہ میں ہماری بحث کو وضاحت کرتے ہوئے بیان دیتے ہیں کہ :

”جمہوریت حکومتی شکل کو بیان کرتی ہے اور اسلامیت حکومت کے محتویٰ کو بیان کرنے والا ہے“ حکومت کا محتویٰ یہ ہے کہ اسلامی قوانین کونافذ کیا جائے لیکن حکومت کی شکل وصورت بادشاہت کے مدمقابل ہے. لھٰذا ہماری حکومتی بادشاہی نہ ہوگی، بلکہ اس کی شکل جمہوری اور اس کے قوانین اسلامی ہونگے. اصل احکام اسلامی ہوں گے اور اسلام سے پہلے یا اسلام کے بعد کوئی چیز نہ ہوگی۔

حضرت امام خمینی مکرر فرمایا کرتے تھے :

جمہوری اسلامی میں ہر حکومت یا کسی بھی حکومتی پوسٹ کی مشروعیت ولی فقیہ کی اجازت پر موقوف ہے، اور یہ وہ چیز ہے جس پر ولایت فقیہ کی تھیوری قائم ہے، اور ہم نے اس مسئلہ کو فقھاء کرام اور سب سے زیادہ امام خمینی سے حاصل کیا ہے، جس پر عقلی ونقلی دلیلیں بھی قائم ہیں کیونکہ ولی فقیہ امام معصوم (ع) کا جانشین ہوتا ہے اور تمام چیزوں کو الہی ارادے کے تحت ہونا چاہئے اور چونکہ ولی فقیہ امام معصوم (ع) اور خدا وندعالم کی طرف سے اجازت رکھتا ہے، لھٰذا کسی بھی نظام کی مشروعیت ولی فقیہ کی اجازت پر موقوف ہے.

البتہ یہ طریقہ ان لوگوں کے نظریات سے موافق نہیں ہے جومغربی تمدن سے متاثر ہیں اور ہماری اس نظریہ کی وجہ یہ ہے کہ یہ نظریہ توحید کے نظریہ سے لیا گیا ہے اور اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ہے؛ نہ یہ کہ علماء کرام کی صنف سے اخذ شدہ ہے. اور جیسا کہ ہم نے پہلے وضاحت کی تھی کہ خداوند عالم کی تشریعی ربوبیت تقاضا کرتی ہے کہ قانون گذاری اور نفاذ قانون دونوں خدا کی اجازت سے ہونے چاہئےں ، اوراگر اس کے علاوہ ہے تویہ ایک قسم کا شرک ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس معاشرہ میں لوگ کوئی کردار نہیں رکھتے،اس حکومت میں لوگوں کا کردار (اسلام کے معین کردہ پہلو سے) سوفی صد ہے اور اس سلسلہ میں کوئی دوسری چیز اس کے بدلہ نہیں رکھی جاسکتی، لیکن مشروعیت اورمقبولیت میں ایک فرق کا قائل ہونا ضروری ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ”رنسانس“ کے بعد سے مغربی نظریہ کے لحاظ سے حقوقی و فلسفی اور اجتماعی گفتگو میں خدا یا دین کی کوئی بات نہیں ہونی چاہئے، البتہ مغربی نظریہ سے ہماری مراد صرف وہ لوگ نہیں ہیں کہ جو مغربی ممالک میں زندگی بسر کرتے ہیں ، بلکہ ہماری مراد وہ نظریہ ہے، جو مغرب میں مو جودہ نظام کے نزدیک قبول شدہ ہے. مثلاً جس وقت حقوق بشر کے نشریہ میں انسانوں کے حقوق کی بات آتی ہے تو اس میں تو خدا سے انسانی رابطہ کا بیان ہے ہی نھیں اور اگر کسی مذہب کی بات ہوتی ہے تو اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ ہر انسان مذہب کو اختیار کرنے میں آزاد ہے، وہاں یہ کوئی گفتگو نہیں ہوتی کہ کون سی چیز حق ہے یا کون سی چیز باطل ہے، خدا ہے یا نھیں ، ایسی چیزیں بالکل بیان نہیں ہوئی ہیں

اور جس وقت اجتماعی حقوق منجملہ حقوق اساسی، حقوق شہری یا کیفری حقوق کی بات ہوتی ہے تو اگر کسی جگہ یہ حقوق خدا سے مربوط ہوتے ہیں تو ان کی کوئی گفتگو نہیں ہے، وہاں بالکل یہ بات بیان نہیں ہے کہ خدابھی لوگوں پر حق رکھتا ہے یا نھیں ؟ یا خدا کی طرف سے انسانوں پر کوئی تکلیف ہے یا نھیں ؟ انھوں نے حقوقی گفتگو میں خدا کے حقوق کی بالکل کوئی بات نہیں کی، لیکن اگر ہم چاہیں اپنے اعتقادات کی بناپر اسلامی تعلیمات اور حقوق الہی پر مبنی اپنے ملک کے حقوق کومعین کریں تو ان کوہمیں روکنے کا کوئی حق نہیں ہے. ہم مسلمان اورموحد ہونے کے لحاظ سے معتقد ہیں کہ تمام حقوقی مسائل ، اجتماعی ،شہری اور سیاسی حقوق میں تمام جگھوں پر خدا کا لحاظ رکھیں اور تمام حقوق سے بالاتر خدا کے حق کو مانےں ،اور اس کے حق کے بدلے میں ہم پر کچھ تکالیف عائد ہوتی ہیں جن کو ہمیں انجام دینا چاہئے۔

دوسری طرف یہ کہ صرف انسانوں کے حقوق کی ہی بات نہیں ہونا چاہئے بلکہ حق وتکلیف ساتھ ساتھ بیان ہونے چاہئےں اور سب سے اہم خدا کے معین کردہ تکلیف ہے. خداوند عالم کی تشریعی ربوبیت کا حق یہ ہے کہ تمام انسان سیاسی واجتماعی مسائل میں خدا کے احکام کو قبول کریں اور ہم چونکہ مسلمان ہونے کے ناطے یہ حق رکھتے ہیں کہ اپنے اعتقادات کی بناپر اپنے ملک میں قوانین بنائیں اور ان پر عمل کریں اور ہمارے قانون اساسی میں یہ کام ہوا ہے اسی وجہ سے ہمارے نزدیک یہ اہم اور اول درجہ رکھتا ہے اور قانون اساسی کا احترام ، اسلام کے احترام کے مانند ہے۔

۶۔اسلام کی مورد قبول جمہوریت

جمہوریت کے ایک معنی اسلام کے موافق ہے اور ایک معنی(یعنی تیسرے معنی) اسلام کے سوفی صد مخالف ہے. جمہوریت کے دوسرے معنی خاص شرائط کے ساتھ قابل قبول ہے لیکن بغیر کسی قید وشرط کے قبول نہیں ہے. اور چونکہ اسلامی قوانین کی رعایت ضروری ہے لھٰذا قانون گذاری میں کسی بھی مرکز کو یہ حق نہیں ہے کہ اسلام کے ضروری احکام کی مخالفت کرے اور یہ ایک ایسی اصل ہے جو دینی لحاظ سے مقبول ہے، لھٰذا اس اصل کو قبول کرتے ہوئے ہم جمہوریت کو قبول کرتے ہیں ؛ لیکن اگر اس اصل کو نہ مانا جائے اور جمہوریت کا یہ مطلب ہو کہ الہی حدود اور احکامات اسلامی کی مخالفت کو بھی جائز کرلیا جائے تو پھر ہم اس جمہوریت کو سوفی صد ردّ کرتے ہیں او رجمہوریت کے اختلاف کو حل کرنے کے طریقہ کی حد تک لیا جائے تو ہم کھیں گے کہ جہاں تک اختلافات کو حل کرنے کے لئے اسلامی احکامات کافی ہیں تو یہ مقدم ہیں لیکن اگر کوئی ایسی جگہ ہو کہ اسلام نے اس کے راہ حل کے لئے کوئی معین راستہ پیش نہ کیا ہو اور کوئی باصلاحیت مرجع نہ ہو تو پھر اکثریت کی رائے کو مانا جائے گا، یعنی اگر کسی مقام پر کوئی دلیل شرعی یا تحقیقی نظریہ موجود نہ ہو یا اس اختلاف کو حل کیا جاسکے۔

مثلاً کچھ لوگ قانون کے تحت کسی مہم کام کے لئے کو ئی شورایٰ بنائیں اور تمام لوگ اسلام کا اعتقاد رکھتے ہوں اور اسلامی قوانین کی رعایت کریں لیکن کسی مسئلہ میں اختلاف ہوجائے اور اکثرلوگوں کی کچھ نظر ہو اور اقلیت کی کچھ نظر ، اوران دو نظریات کو ترجیح دینے کے لئے بھی کوئی راستہ نہ ہو تو یھاں پر اکثریت کی نظر مقدم ہے اور اکثریت کی نظر کی مخالفت کرنا ترجیح مرجوح ہوگی (جوقبیح ہے)۔

خلاصہ یہ ہوا کہ اگر کسی مقام پر کوئی مرجح نہ ہواور اکثریت کی نظر سے ہمیں ظن(گمان) حاصل ہوجائے تو یہ ظن ہمارے نزدیک معتبر اور مرجح ہے،اور اگر اکثریت کی وجہ سے ظن حاصل نہ ہوتو اس کو ترجیح دینا بغیر کسی مرجح کے ہوگا جو عقلا مذموم اور نادرست ہے. یہ طریقہ بس اسی حد تک معتبر ہے،لیکن اس طریقہ سے ناجائز فائدہ اٹھاناصحیح نہیں ہے کہ لوگوں کی اکثریت کو اقلیت کے مقابلہ میں کیا جائے، مثلاً فرض کیجئے ایک فوجی نقشہ بنانے کے لئے دہ افسر معین ہوئے اور دوسری طرف ایک ھزار عام آدمی ہوں کہ جن کو فوجی مسائل سے بالکل بھی کوئی آشنائی نہ ہو، اگر عام لوگوں کی رائے پر توجہ کی جائے او ران کو مانا جائے او ران ماہر افسروں کی رائے پر عمل نہ کیا جائے تو یہ کام عقل سے دور ہے. لھٰذا جمہوریت اختلافات کو حل کرنے کے لئے خاص شرائط کے ساتھ معتبر ہے؛ لیکن ہر اکثریت کو ہر اقلیت پر ترجیح دی جائے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔

حوالے

۱۔سورہ حجرات آیت ۱۳.