تئیسواں جلسہ
انسانیت میں اصل وحدت کی تحقیق اور شہریوں کی اتباع
۱۔ اسلامی نقطہ نظر کسی کا صاحب حق ہونا
فلسفہ سیاست کی بحثوں میں فلسفہ حقوق بہت قریب ہے اور دونوں میں مشترک یا مشابہ مسائل بیان کئے جاتے ہیں مثال کے طور پر سیاست کی بحث میں حقوقی مسائل کی تحقیق کی جاتی ہے اسی بنیاد پر ہم نے فلسفہ حقوق(یعنی انسانوں کا انسانیت کے اعتبار سے اہم ہونا) کی بحث میں اس سے پہلے والے جلسہ میں اشارہ کیا تھا اور یہ بھی بیان کیا تھا کہ اگرچہ تمام انسان انسانیت میں مشترک ہیں اور اسلام کی نظر میں انسانوں کے ما بین پہلے طبقہ اور دوسرے طبقہ کے انسان نہیں ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اجتماعی مسائل میں تمام انسان حقوق اور تکالیف کے اعتبار سے مساوی ہیں ، اس بارے میں جو افراد مکمل طور پر ان مسائل سے آگاہ نہیں ہیں یا ان کے ذریعہ سوء استفادہ کرتے ہیں تاکہ اسلام اور انقلاب کے مخالف نظریات رکھتے ہوئے بھی اپنے کو مسلمان او رانقلابیوں کی فہرست میں کھڑا کرسکیں اور اس کی وجہ سے انقلاب سے فائدہ اٹھاسکیو،اور صرف یھی نہیں بلکہ انقلاب کے خلاف مطالب تلاش کرسکیں انھوں نے اس بارے میں مغالطہ کیا ہے کیونکہ معاشرہ میں پہلے طبقہ اور دوسرے طبقہ کے انسان نہیں ہیں لھٰذا تمام افراد کے حقوق برابر ہونا چاہیئے جیسے گروہ بنانے کے لئے اقدام کرنا اور ملک ملت میں کسی بلند عھدے کا پانا ان کے نظریہ کے مطابق ہر شخص چاہے وہ کسی بھی عقیدہ کا تابع ہی کیوں نہ ہو وہ صدر مملکت یا وزیر اعظم ہوسکتا ہے اور کوئی بھی پارٹی بنا سکتا ہے۔
چونکہ ان کا استدلال یہ ہے کہ جب انسانوں کے مابین پہلا طبقہ اور دوسرا طبقہ نہیں ہے اور تمام انسان برابر ہیں اور ہم جو انقلاب اسلامی اور قانون اساسی کو تسلیم نہیں کرتے ہیں تو ہم کو یہ حق ہے کہ تمام حقوق میں برابر حصہ ملے اس مغالطہ کے بارے میں یہ عرض کردیا گیا ہے کہ صحیح ہے کہ انسانوں میں پہلا طبقہ اور دوسرا طبقہ نہیں ہے، یہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے لیکن تمام حقوق و وظائف اصل انسانیت میں سب کے درمیان مشترک نہیں ہیں بلکہ بعض حقوق و وظائف میں اصل انسان کے علاوہ دوسری خاصیتں ہوتی ہیں ، بہر حال کچھ افراد نے اس مطلب کو درست نہیں سمجہا یا اپنی کسی غرض کی وجہ سے اس مطلب کی غلط تفسیر کی ،اور کھا کہ فلاں صاحب کھتے ہےں کہ ہم شہریوں کے مابین پہلا طبقہ اور دوسرا طبقہ موجود ہے اور شہریوں کے پہلے طبقہ سے مراد روحانیت ہے اور بقیہ دوسرے شہری دوسرے طبقہ میں شمار کئے جاتے ہیں ۔
حقیر اس شبہ کے لئے اس وقت کے جلسہ کو مخصوص کرتا ہے،قارئین کرام اس موضوع کے واضح ہونے کے لئے جو بحث حقوق عالم کے فلسفیوں کے مابین بیان ہوتی ہے اور اس کے مختلف جواب دیئے گئے ہیں اس کی طرف توجہ دیجئے وہ بحث یہ ہے کھ. اصولی طور پر ریشہ حق کیا ہے ؟ یعنی کس طرح کوئی صاحب حق بنتا ہے، یہ جو کھا جاتا ہے کہ فلاں شخص حق رکھتا ہے یا نہیں رکھتا یہ حق کھاں سے پیدا ہوتا ہے ؟ ہم کس بنیاد پر کھتے ہیں کہ کوئی شخص فلاں کام کو انجام دینے کا حق رکھتا ہے یا نہیں رکھتا ؟ فلسفہ حقوق کے مختلف، جیسے مکاتب حقوق تاریخی، پوزیتویزم حقوق طبعی اور دوسرے حقوقی مکاتب ہر ایک نے اس کے مختلف جوابات دئے ہیں
اسلام کا اس بارے میں خاص نظریہ ہے یعنی اسلام کی نگاہ میں تمام حقوق در اصل خدا وند عالم کی طرف بازگشت ہوتی ہے. چونکہ ھستی اسی کے کرم سے ہے اور ہر شخص کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور تکوینی میں ہمارا وجود اور کچھ ہمارے پاس ہے وہ خدا کے لئے ہے (انَّا لِلّٰہ )اور تمام چیزیں (مِنَ اللّٰہ ) ہیں اسی طرح تشریعی امور بھی خدا کی طرف سے مستند ہونے چاہئیں حقوق کے پیدا ہونے کے بارے میں یہ ہمارا کلی نظریہ تھا جس کو ہم نے مختصر طور پر بیان کیا ہے کھ. خدا وندہ عالم تمام انسانوں کو مساوی حقوق عطا کرتا ہے ؟ یا بعض بندوں کو خاص حق عطا کرتا ہے کہ دوسروں کو وہ حق نہیں دیتا ؟ مختصر طور پر ہم یہ جانتے ہیں کہ خدا وند عالم نے انبیاء کو جو حقوق عطا کیئے ہیں وہ دوسروں کو عطا نہیں کیئے ہیں اس نے ماں باپ کو کچھ حقوق عطا کیئے ہیں اور اولاد کو دوسرے حقوق دیئے ہیں ۔
لیکن کیا (معاذاللہ ) خدا وند عالم کا قانون بغیر حساب وکتاب کے ہے یعنی خداوند عالم بغیر کسی معیار و ملاک کے کسی کو کوئی حق دیتا ہے اور دوسرے کو وہ حق عطا نہیں کرتا ہے یا اس کی نظر میں کوئی خاص ملاک و معیار پایا جاتا ہے ؟ اور اگر کوئی ملاک و معیار ہے تو کونسا ملاک ہے ؟ تو جن حقوق کو خداوندعالم اپنے بندوں کو عطا کرتا ہے وہ ان خاص وظائف کی وجہ سے ہے جن کو وہ انجام دیتے ہیں .ہم کو خداوند عالم نے اس لئے پیدا کیاہے تاکہ ہم اپنے ارادہ و اختیار سے کمال حقیقی اور سعادت ابدی کی طرف حرکت کریں ، لھٰذا ہم پر ایک کلی فریضہ عائد کیا گیاہے جسکو اسلامی ثقافت میں خدا کی عبادت سے کھاجاتاہے اور خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتاہے:
(
ا لَمْ عَهدَ إِلَیْکُمْ یَا بَنِیْ آدَمَ ا نْ لَا تَعْبُدُوْا الشَّیْطَانَ إِنَّه لَکُمْ عَدُوٌّ مُبِیْنٌ وَا نِ اعْبُدُوْنِی هذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِیْمٌ.
)
”اے آدم کی اولاد کیا میں نے تمھارے پاس یہ حکم نہیں بھیجا تھا کہ (خبردار) شیطان کی پرستش نہ کرنا وہ تمھارا کھلم کھلا دشمن ہے. اور یہ کہ دیکھو صرف میری عبادت کرنا یھی (نجات کی) سیدھی راہ ہے “
اور دوسری آیت میں ارشاد فرماتاہے :
(
فَا رْسَلْنَا فِیْهمْ رَسُوْلاً مِنْهمْ ا نِ اعْبُدُوْا اللّٰه
)
.
”اور ہم نے انہیں میں سے (ایک صالح کو) رسول بنا کر ان لوگوں میں بھیجا (اور انھوں نے اپنی قوم سے کھا ) کہ خدا کی عبادت کرو “
نتیجہ کے طور پر تمام انبیاء کی دین کی طرف دعوت پرستش خدا سے شروع ہوتی ہے اور تمام انسانوں کے لئے یہ کلی وظیفہ اقتضاء حقوق رکھتا ہے یعنی جب انسان اللہ سے قریب ہونا چاہتا ہے تو لازم چیزیں اس کے اختیار میں ہونی چاہئے اسی طرح معاشرہ میں کچھ راستے اور قونین ایسے ہونا چاہئیں جو ان کی راہنمائی کرسکےں جب انسان خدا وند عالم کی طرف بڑھنا چاہتاہے تو اس میں حیات ہونا چاہئے تو معلوم ہوا کہ حق حیات پہلا حق ہے دوسرا حق راستہ چلنے کے لئے آزادی ہونا چاہئے اس کے لئے کہ یہ راستہ اجباری نہیں ہے بس انسان کو کسی راستہ کو انتخاب کرنے کے لئے آزاد ہونا چاہئے ،تیسرا حق اس مادی دنیا کی نعمتوں کو استعمال کرنا ہے اس لئے اگر انسان اس دنیا کی نعمتوں سے استقادہ نہیں کرے گا تو زندگی نہیں گذارسکے گا اور اپنی حیات کو باقی نہیں رکہ پائے گا، وہ اپنی حیات کو باقی رکھنے اور کمال حقیقی وابدی اور خدائے ھستی تک مکمل سیر کے لإئے اس دنیا کی کھانے اور پینے کی چیزوں سے استفادہ کرنے کا حق رکھتا ہے، خداوندعالم نے جن خواہشات کو انسان میں رکھا ہے ان میں سے جنسی شھوت بھی ہے او رانسان کو اس سے استفادہ کرنے کا حق ہے، اس لئے اس کو اپنے لئے ہمسر کی تلاش کرنا ہوگی، چونکہ انسان خود مشاہدہ کررہا ہے کہ حقوق اور وظیفہ آپس میں مربوط ہیں ۔
گذشتہ بحثوں میں ہم نے حق اور وظیفہ کے سلسلہ میں یہ اشارہ کیا تھا ا کہ ہم پر خداوندعالم کی طرف سے یہ حکم ہے کہ ہم خدا کی طرف چلیں اوراس کی اطاعت کریں ، اور اس کے مقابلہ میں ہمارے کچھ حقوق ہیں جن سے ہم استفادہ کرتے ہوئے اس راہ کو ہموار رکھیں ۔
اس بنیاد پر معاشرہ میں جو کچھ لوگوں کی عمومی زندگی میں ان کے خدا تک پہونچنے میں رکاوٹ بن رہا ہو تو اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس کی روک تھام کرے اور حکومت کو چاہئے کہ وہ اسلامی معاشرہ سے ان چیزوں کو دور کرے جو خدا کی خوشنودی میں حائل ہورہی ہیں ، اسی طرح انسان اپنی شخصی اور فردی زندگی میں بھی انسان مکلف ہے کہ وہ اپنی زندگی کو کامل بنانے میں آنے والی ہر چیز کو مھیا کرے او ران کو مظبوط بنائے، او راس راہ میں جو رکاوٹیں ہیں ان کو دور کرے، اس بنا پر حقوق پانے کا معیار او رملاک افراد کی قابلیت اور ان میں شرائط کا پایا جانا ضروری ہے تاکہ ان کے ذمہ کچھ وظائف اور ذمہ داریاں دی جاسکیں اور انہیں کی وجہ سے ان کو حقوق دئے جائیں ۔
۲ ۔تکالیف ا ور حقوق کے مابین طبیعی اور کسبی اختلاف کا اثر
اب تک بیان کیئے گئے مطالب کی روشنی میں صرف اس وجہ سے کہ تمام انسان ایک ہیں اور اصل انسانیت میں مشترک ہیں تو کیا سب کے حقوق ووظائف میں برابر ہونے چاہئیں ؟ یہ درست ہے ہم تمام انسان اصل انسانیت میں شریک ہیں لیکن خود انسانوں کے اندر بہت زیادہ اختلافات پائے جاتے ہیں جن کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتاہے .۔
(الف)۔اختلافات طبیعی اور جبری
میں فرق انسانوں کے مابین سب سے زیادہ اختلافات طبعی اختلافات ہیں جیسے جنسی فرق مفہوم زیست شناسی کے عنوان سے (منطقی مفہوم کے اعتبار سے نھیں ) جو مرد اور عورت کے مابین پایا جاتا ہے ان دونوں کے مابین فیزیولوجی(علم اعضا ) اور بائی لوجی (علم حیات) روانی اور عاطفی مسائل میں اختلافات پائے جاتے ہیں انہیں اختلافات کی وجہ سے ان کے مابین وظائف اور حقوق کے لحاظ سے فرق رکھا جاتا ہے یعنی یہ صحیح ہے کہ عورت بھی انسان ہے اور مرد بھی انسان ہے اور دونوں ایک ہی درجہ میں ہیں اور انسانیت میں دو درجہ نہیں ہوتے ہیں لیکن عورت کے جسم میں خاص بناوٹ کے ساتھ ساتھ روحانی بناوٹوں کی وجہ سے اس کے ذمہ خاص وظائف عائد کیے گئے ہیں ، عورت جو کردار بچے کی ولادت اور اس کو دودہ پلانے میں ادا کرتی ہے مرد کبھی اس ذمہ داری کو وفا نہیں کرسکتا. اور اس بارے میں ان دونوں کو ایک نظر سے نہیں دیکھا جاسکتا .چونکہ یہ مسئلہ عورت اور مرد کے طبعی (فطری ) اختلاف سے مربوط ہے اور اسی وجہ سے خاص وظائف اس کے ذمہ عائد کئے گئے ہیں اب جب عورت اپنی ذاتی اور طبیعی خصوصیات کی وجہ سے اس چیز کی پابندھے جیسے بچے کو نو مھینے تک اپنے پیٹ میں رکھے، اور اس کے بعد دوسال تک بچہ کو دودہ پلانے کی ذمہ داری اور پرورش اس کے ذمہ ہے انہیں سب امور کی وجہ سے اس کے لئے خاص حقوق نظر میں رکھے گئے ہیں
اگر یہ طے ہو کہ عورت اپنی طبیعی اور ذاتی خاصیتوں کی وجہ سے بچہ دار ہواس کے بعد میں بچہ کو دودہ پلاکر اس کو بڑا کرے اور اسی حالت میں بالکل مردوں کی طرح کام کرے اور ا پنی زندگی کے خرچ فراہم کرے، تو یہ اس کی اصلی ذمہ داری نہ ہوگی بلکہ اس پر ظلم ہوگا بچہ دار ہونے اور بچہ کو غذا دینے جیسی مشکل ذمہ داریوں کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے خاص حقوق ہونے چاہئیں یعنی مرد کا وظیفہ ہے کہ وہ عورت کا خرچ پورا کرے، اگر یہ طے ہو کہ عورت خود کام کرے تو بہت سے کام ایسے ہونگے جن سے بچہ ساقط ہوجائگا یا بہت سے کام ایسے ہوں گے کہ وہ بچہ کو وقت پر دودہ نہیں پلاسکے گی عاطفی نقطہ نظر سے بھی اگر عورت چین وسکون نہ رکھتی ہو اور اپنی زندگی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی فکر میں ہے تو یہ اضطراب و بے چینی بھی بچہ میں اثر انداز ہوتی ہے ۔
علمی اعتبار سے یہ ثابت ہوا ہے کہ عورت کو جتنا بھی روحی آرام ہوگا وہ اسی لحاظ سے بچہ کی تربیت کرے گی. اسی وجہ سے اسلام میں عورت کے لئے خاص حقوق رکھے گئے ہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ بیوی کا خرچ شوہر کے ذمہ ہے، یھاں تک کہ عورت بچہ کو دودہ پلانے کی اجرت اپنے شوہر سے لے سکتی ہے یعنی یہ اجرت ان زحمتوں کی ہوتی ہے جو بچہ کو دودہ پلانے میں اٹھاتی ہے، اسی وجہ سے گھر میں اس کوخاص اہمیت ہونی چاہئےے۔
لھٰذا مرد وعورت کے مابین حقوق اور وظائف کے اعتبار سے یہ تصور کرنا دونوں انسان ہیں ، لھٰذا ان کے حقوق اور ذمہ داریاں بھی ایک ہی طرح کی ہوں ، یہ غلط ہے. ھاں دونوں انسانیت میں شریک ہیں لیکن عورت اور مرد ہونے میں شریک نہیں ہیں مرد اپنی خاص خصوصیات کا حامل ہے اور عورت اپنی خصوصیات کی متحمل ہے یھی خاص خصوصیات وظائف اور حق میں اختلاف کا سبب ہیں
اس وجہ سے انسانو ں کے درمیان کچھ اختلافات طبعی اور جبری طور پر پیدا ہوتے ہیں یعنی کوئی شخص بھی اپنے لئے عورت ہونے کو منتخب نہیں کرتا اور اسی طرح کوئی عورت اپنے کو مرد ہونا منتخب نہیں کرتی ہے یہ مسئلہ تو ارادہ الٰھی سے مربوط ہے ،خدا فرماتا ہے:
(
یَهَبُ لِمَنْ یَشَاءُ إِنَاثاً وَ یَهَبُ لِمَنْ یَشَاءُ الذُّکُوْرَ.
)
”اور جسے چاہتاہے (فقط) بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتاہے (محض) بیٹے عطا کرتاہے “ نتیجہ یہ نکلا کہ افراد کا ارادہ واختیار اپنی اور اپنی اولاد کی نسیت معین کرنے میں دخالت نہیں رکھتا لیکن جب کسی کو جنسیت کے لحاظ سے مرد یا عورت بنادیا گیا تواس کے ذمہ خاص تکلیفیں قرار دیدی گئیں جن کا انجام دینا اختیاری ہے اور اس کے کچھ حقوق بھی ہوں گے جن کو وہ وفا کرسکتا ہو لھٰذا اس طرح کے اختلافات کو اختلافات طبیعی کھا جاتا ہے۔
(ب)انسانوں کے مابین دوسرا اختلاف اختیاری ہے
جو افراد زندگی بسر کرنے کی خاطر خاص شرطوں کو حاصل کرتے ہیں فرض کرلیئجے جو شخص علم دین حاصل کرتا ہے وہ اپنے اندار اتنی صلاحیت پیدا کرلیتا ہے، معاشرہ میں کسی عھدہ کو سنبھال سکے لیکن جاہل شخص اس عھدہ کو نہیں سنبھال سکتا. یا وہ افراد جو کسی فن میں مھارت حاصل کرلیتے ہیں وہ لوگ اس لحاظ سے کہ انسان کے حقوق مساوی ہیں ان کا زحمت نہ اٹھانے والے افراد اور جنھوں نے کسی فن میں کوئی مھارت حاصل نہیں کی ان سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ہے.
اگر کوئی درس پڑہ کر اور زحمت اٹھاکر پائیلیٹ بن جائے تو اس کے مقابل میں اگر کوئی درس نہ پڑھنے والا. زحمت نہ اٹھانے والا اور اس فن میں مھارت نہ رکھنے والا یہ ادعا کرے کہ میں بھی پائیلیٹ بننا چاہتا ہوں تو اس کا یہ دعوی قابل قبول نہیں ہوگا بیشک تمام افراد اس کو یھی کھیں گے کہ اگر تم پائیلیٹ بننا چاہتے ہو تو پہلے علم حاصل کرو.
اسی طرح اگر جاہل اور مسائل سیا سی سے نا واقف شحص یہ کھے کہ میں بھی وزیر اعظم ہونے کا حق رکھتا ہوں تو اس سے یھی کھیں گے کھ:وزیر اعظم بننے کی کچھ شرطیں ہوتی ہیں تم ان شرطوں کو حاصل کرلیتے اور تمھارے اندر ذاتی توانائی ہوتی تو تم بھی کنڈیڈیٹ ہوسکتے تھے اور لوگووں کے ووٹ حاصل کرکے منتخب ہوسکتے تھے لھٰذا وہ یہ نہیں کھہ سکتا کہ چونکہ انسانوں کے مابین پہلا اور دوسرا درجہ نہیں ہے لھٰذا میں بھی وزیر اعظم ہونے کا حق رکھتا ہوں ایسا نہیں ہے کہ ہر انسان خواہ وہ ملت کی راہ کے خلاف ہی کیوں نہ چل رہا ہو ، اورملک کے اساسی و بنیادی قانون کو قبول نہ کرتا ہو یہ کھے :
چونکہ میں بھی انسان ہوں لھٰذا وزیر اعظم ہونا چاہتا ہوں ؟ لھٰذا صرف اس وجہ سے کہ تم انسان ہو، تم کو ملک کی کوئی پوسٹ دے دی جائے کیونکہ ہر پوسٹ کے لئے کچھ نہ کچھ شرطیں ہوتی ہیں مثال کے طور پر اسلامی ملک میں وزیر اعظم مسلمان ہونا چاہئے، ایک غیر مسلمان شخص (درحالیکہ ہم اس کے احترام کے قائل ہیں اور قانون اساسی بھی اس کے لئے حق کا قائل ہوا ہے ) وزیر اعظم نہیں بن سکتا.
۳۔ افراد کے لئے شہریت کے قوانین میں مختلف درجات کا معین ہونا
پوری دنیا میں خاص منصب کے لئے خاص شرطیں رکھی گئی ہیں منجملہ جن امور میں خاص شرطیں رکھی گئیں ہیں ان میں سے ایک نیشنلٹی کا مسئلہ ہے اور عالمی حقوق میں یہ بات مسلم ہے کہ نیشنلٹی یکساں او ربرابر نہیں ہے اور خصوصی حقوق بین الملل سے مختصر سی آشنائی رکھنے والا انسان بھی اس مطلب کو درک کرتا ہے. فرض کرلیجئے اگر ایک ایرانی شخص کسی یورپی ملک یا امریکا کے کسی ملک میں رہنا چاہتاہے پہلے تو اس کے وہاں پر رہنے کے لئے اس میں کچھ شرطوں کا ہونا ضروری ہے اگر اتفاقاً اس کو نیشنلٹی دے بھی دی جائے تو اس کووزیر اعظم ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی. کیوں کہ وہ درجہ دوم کا شہری ہے ممکن ہے وہ ایک طولانی مدت تک اپنے تمام امتحانوں میں کامیاب رہا ہو، اور درجہ دوم کی نیشنلٹی سے درجہ اول کی شہریت میں آجاے۔
بہر حال اگر کوئی شخص جس ملک کی شہریت رکھتا ہو ایسا نہیں ہے کہ وہ تمام حقوق جو اس ملک کے باشندے رکھتے ہیں اس شخص کو بھی وہی حقوق دیدے جائیں چونکہ شہریت میں فرق ہے اور کئی درجہ رکھتی ہے ، اگر ہم مان لیں کہ انسانیت کے درجات نہیں ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شہریت بھی درجے نہیں رکھتی، ہر ملک اپنے باشندوں کے لئے خاص شرطوں کا قائل ہے اسلام میں بھی خاص شرطیں ہیں صرف یہ کہ تمام انسان انسانیت میں شریک ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شہریت میں بھی سب برابر ہیں
لھٰذا نتیجہ یہ نکلاکہ ہر ملک کے افراد اس ملک کے باشندے شمار کئے جاتے ہیں وہ بھی منصب اور مقام کے لحاظ سے ایک نہیں ہیں اور ان کے حقوق بھی جدا جدا ہیں لیکن کونسا معیار و ملاک ان کے حقوق معین کرتا ہے اس کے مختلف جواب دیئے گئے ہیں ،حقیر کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ تمام اذن الٰھی کی طرف پلٹتے ہیں جو لوگ لیبرال (آزادی خواہ) ممالک یا ڈیمو کریٹ (جمہوری) ممالک میں زندگی بسر کرتے ہیں وہ قوانین کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے ہیں اور یہ کھتے ہیں کہ ہم کو لوگوں کی رائے کا تابع ہونا چاہئے. لیکن ہم یہ کھتے ہیں کھ: لوگوں کی رائے کے علاوہ خدا کی اجازت بھی ہونا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ ہماری رائے اورخواہش خدا کے قانون کے خلاف نہیں ہوں
بہرحال کوئی بھی ملک تمام افراد کے لئے مساوی شہریت کا قائل نہیں ہے اور چونکہ انسانیت میں درجہ نہیں ہے لھٰذا شہریت بھی درجات نہیں رکھتی اس کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا، ہمارے اساسی اور بنیادی قوانین میں بھی اس مسئلہ کو بیان کیا گیا ہے، اور ہمیں تعجب ہوتا ہے ان لوگوں پر جو قانون اساسی کے اس بند پر توجہ نہیں کرتے ،قانون اساسی کا بند یہ کھتا ہے:
”جو اشخاص بھی ایرانی نیشنلٹی حاصل کرنا چاہتے ہیں یا حاصل کریں گے وہ تمام حقوق جو ایرانیوں کے لئے مقرر ہیں وہی حقوق ان کے لئے بھی ہیں سوائے وزیر اعظم، وزرات، یا ہر طرح کی خارجی سیاست کے عھدہ “
یعنی جو شخص بھی ایران کی شہریت میں آجائے اس کو سیاسی عھدہ دار یا سفیر بننے کا حق نہیں وہ کونسلیٹ اور وزیر نہیں بن سکتا ہے حالانکہ اس نے ایرانی شہریت قبول کرلی اور ایرانی حکومت نے بھی اس کو اپنی نیشنٹی دے دی لیکن اس کو اس طرح کے حقوق مانگنے کا کوئی حق نہیں یہ ہمارے (ایران) کے قانون۔
۴۔اسلام کی نگاہ میں پہلے اور دوسرے طبقہ کی شہریت
ہم اب شہریت کے متحقق ہونے اور اس کے بارے میں اسلام کے نقطہ نظر کو تفصیلی طور پر بیان نہیں کرسکتے، اس لئے کہ یہ بحث فلسفہ حقوق سے مربوط ہے اور ہماری بحث کا موضوع فلسفہ سیاست ہے. لیکن مختصر طور پر ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ ممالک کی حد بندی میں اسلام کا حقوقی نظریھکی رو سے اعتقادات اصل ہےں ، اور جغرافیائی اعتبارسے حد بندی کی کوئی اصل نہیں ہے۔
اسلام کا سب سے پہلا ہدف یہ ہے کہ دنیا میں اسلامی حکومت قائم ہو (انشاء اللہ امام زمانہ عجل اللہ تعلی فرجہ الشریف کے ظھور کے بعد قائم ہوگی)اس میں جغرافیائی حد بندی اٹھالی جائے گی اور تمام افراد امت اسلام اور ایک حکومت کے شہری ہونگے اور ان کی شہریت کا ملک اسلام ہے اس حکومت میں غیر مسلمان افراد کے حقوق اور وظائف مسلمانوں سے متفاوت ہونگے، غیر مسلمان کو ایک مسلمان کے تمام وظائف اور عھدہ نہیں ملے گا،اور نہ ہی اس کو مسلمان کے تمام حقوق اس کو دیئے جائنگے یہ اسلام کا پہلا ہدف ہے۔
لیکن خاص شرائط کے اعتبار سے ولی فقیہ اور اسلامی حکومت عنوان ثانوی کے ما تحت جغرافیائی حد بندی کو معتبر سمجھ سکتے ہیں اس بنا پر اگر ہم جغرافیائی حد بندی کو معتبر سمجھ سکتے ہیں تو اسلام کی طرح حکم اولی کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ ثانوی طریقہ اور مصلحتوں کی وجہ سے ہے جو منطقہ اور بین الاقوامی قوانین کے ماتحت ہے اور وہ قوانین ولی فقیہ کے دستخط کے ذریعہ ہمارے لئے معتبر ہوتے ہیں اور حقیقت میں وہ تمام حد بندی ولی فقیہ کے ذریعہ متعین کی جاتی ہے
نتیجتاً پہلے طریقہ اور آئیڈیل اسلام میں شہریت کے دوسرے درجہ میں شمار ہونگے لیگن خاص شرطوں کی وجہ سے جغرافیائی حد بندی معتبر مانی گئی ہے اور قانون کی بنیاد پر شہریت کے لئے خاص شرطوں کو نظرمیں رکھا گیا ہے، ولایت فقیہ کے نظریہ پر کی بنیاد پر جب ان شرائط وقوانین پر ولی فقیہ دستخط فرمادیں تو تمام احکامِ اسلامی کی طرح وہ بھی واجب الاطاعت ہوں گے، جبکہ حضرت امام خمینی نے فرمایا ہے کہ ”اسلامی حکومت کے قوانین کی اطاعت کرنا واجب ہے“
۵۔نظام ولایت فقیہ کا دوسرے نظاموں سے فرق
جو افراد ہمیشہ جمہوریت کا دم بھرتے ہیں او راپنی حکومت کو ولایت فقیہ کی بنیاد پر اچھا نہیں سمجھتے انھوں نے اس ملک کے لئے ولایت فقیہ کی خدمات کی طرف توجہ نہیں دی ہے، اوروہ یہ بھی توجہ نہیں کرتے کہ ولایت فقیہ کے نظریہ کی بنیاد پر اسلامی حکومت کے احکام وقوانین اور اسلامی پارلیمینٹ کے وضع کئے ہوئے قوانین کی شورای نگھبان کی تائید کے بعد اطاعت کرنا واجب ہے، چونکہ وہ ولی فقیہ کی اجازت سے اس مرحلہ تک پہونچے ہیں ، اور ان کا اذن خدا کا اذن ہے، اس نظام کا ایک بڑا امتیازیھی ہے، لیکن اگر ہم ولایت فقیہ کو تسلیم نہ کریں توکم از کم وجوب عرفی کی بناپر قوانین کی اتباع کرنا ہوگی، جو لوگ اپنی خواہش کے قانون کو رائے دے چکے ہیں ،ورنہ خود اپنے ہی عھد پر وفادار نہیں ہوں گے،اور اگر دل چاہے تو اس عھد سے لوٹ جائیں اور اپنی درخواست پر تجدید نظر کریں اور اپنی خواہش کے مطابق قانون میں تغیر وتبدیلی کرسکتے ہیں ، جمہوری حکومت میں لوگوں پر قوانین کی اطاعت کرنا کوئی واجب نہیں ہے۔
اسلامی حکومت میں ولی فقیہ کی اجازت اور دستخط سے قانون معتبر جانے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ لوگوں کے خود لازم کردہ اور وجوب عرفی کی بناپر ان کے لئے لازم ہوتے ہیں اور وجوب شرعی بھی رکھتے ہیں اور ان کی مخالفت کرنا گناہ اور سزا کا باعث بھی ہوتا ہے۔
اسلامی حکومت کے قوانین کی اتباع کرنے اور جو قوانین اکثر لوگوں کی رائے کا نتیجہ ہوتے ہیں ان کی اتباع کرنے میں کتنا فرق ہے اورچونکہ نمائندہ مجلس کو اکثر لوگوں نے اپنے ووٹ دے کر منتخب کیا اور خود اس کی اتباع کرنے کو لازم قرار دیا ہے اب جن افراد نے اس قانون کی ووٹ نہیں دئے یا وہ اقلیت جنھوں نے اس نمائندہ مجلس کو ووٹ نہیں دئے ان افراد کو اس قانون کی کسی حدتک اتباع کرنا چاہئے؟ جو قانون اکثر افراد کی رائے سے بنایا گیاہو تو کیا نفسیاتی، عاطفی اور قلبی اعتبار سے اس قانون کے مخالف افراد پر بھی اس قانون کی اتباع کرنا لازم ہے؟ اور کس طرح قلبی طور پر بھی وہ اکثر لوگوں کی خواہش کی مطابق ملتزم ہوں ؟
جو قوانین اسلامی حکومت کے ذریعہ نمائندگان مجلس کے توسط سے بنائے جاتے ہیں ، اور ولی فقیہ نے بھی ان کی تائید فرمادی وہ خداوندعالم کی طرف سے واجب ہوگئے اور ان کی اطاعت کرنا واجب ہے، او رجن افراد نے ان قوانین کو اپنی رائے نہیں دی ہے ان پر بھی شرعی طور پر ان کی اتباع کرنا لازم ہے، البتہ تمام افراد اس بات سے واقف ہیں اور اسلامی حکومت کے قوانین کو تھہ دل سے تسلیم کرتے ہیں ان کو شرعی قوانین کی حیثیت دیتے ہیں اور ان کی مخالفت نہیں کرتے ۔
چونکہ وہ الہی اور اسلامی حکومت کے قوانین وضوابط سے آشنا ہیں اس طرح سے قوانین کے ضوابط کو قبول کرنا اور اس کی اتباع کرنا یہ نظام الہی کی خصوصیات میں سے ہے جو ہمارے ملک میں نظام ولایت فقیہ کے ماتحت وجود میں آئی ہے، اسلامی انقلاب سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ تمام لوگوں پر رہبر اور ولی فقیہ کی اطاعت کرنا ضروری ہے اور ان کے اوامر اور راہنمائی کی طرف خالصانہ قدم اٹھانے ہی سے ہم کامیاب ہوئے ہیں ،چاہے وہ دوران انقلاب ہو یا انقلاب کے بعد کا زمانھ، اور فی الواقع جنگ میں کامیابی اور سرفرازی کا رازبھی یھی ہیں ۔
دنیا میں کون سا ایسا شخص ہے جو یہ نہ جانتا ہو کہ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی میں ایک اہم چیز لوگوں کا اپنی مذہبی رہبر پر اعتقاد رکھنا اور ان کی اطاعت کرنا تھا، اس وقت یہ کہنا بہت ہی بے انصافی ہوگی کہ جس ملک میں شھیدوں نے اپنی جانفشانی اور فداکاریوں سے امام خمینی اور مرجع تقلید کے امر سے جہاد کیا اور اسی راہ میں شیھد ہوگئے اورجس کی برکت سے اسلامی نظام وجود میں آیا اور یھی آزاد فضا جو شیھدوں کے خون اوران کی فداکاریوں کا نتیجہ ہے اس میں کچھ لوگ یہ کھیں کہ : امام خمینی نے ایک دفعہ ہوا طوفان مچایا اور لوگوں کی تحریک کو نھضت انقلاب اسلامی کا نام دیدیا،کیا اس دعوے کی کوئی حقیقت ہے؟ اگر ایران کی عوام انقلاب کے موقع پر اپنے دینی اور شرعی وظیفہ کو انجام دینے کے لئے قیام نہ کرتے اور گولیوں کی بوچھار میں اپنے سینوں کو سِپر نہ بناتے تو کیا انقلاب کامیاب ہوجاتا؟ اور اگر امام خمینی کا حکم نہ ہوتا تو کیا وہ اس کام کو کرتے؟ حقیقت کو بھُلانا اور اس کا انکار کرنا بے انصافی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ دین اور امام خمینی کے رہبریت نے ہمیشہ انقلاب کے کامیاب ہونے، اس کے دوام پانے اس کے بعد جنگ میں کامیابی پانے اور تمام مشکلوں اور سختیوں میں ثابت قدم رہ کراہم کردارادا کیا ہے، اور انشاء اللہ حضرت امام خمینی قدس سرہ کے لائق وشائستہ جانشین (حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی) اور ان کی حکیمانہ تدبیروں کے زیر سایہ یہ کامیابی وموفقیت ایران کے فدارکار لوگوں کی یکتائی اور ہمدلی کے ذریعہ اسی طرح باقی رہے گی، اور لوگ ولی فقیہ کے سایہ میں کمال اور ترقی کے مزید مراحل کو طے کریں گے۔
خلاصہ کلام یہ ہواکہ شہریت کی درجہ بندی کرنا ایک ایسی چیز ہے جس کو پوری دنیا کی تمام حکومتوں میں تسلیم کیا گیا ہے البتہ اسلام کے نقطہ نظر اور دوسروں کے نقطہ نظر سے شہریت کے ملاک اور اس کی شرطوں میں فرق ہے، لیکن شہریت کے درجہ میں اختلاف ایسی چیز نہیں ہے کہ ہم اس کو ایجاد کیا ہو، اور شہریت کے درجہ میں یہ فرق انسانیت میں لوگوں کے مشترک ہونے سے کوئی ربط نہیں رکھتا ہے ، تمام انسان انسانیت کے درجہ میں ایک ہیں ، لیکن یاتو ان میں طبیعی طور پر وہ شرطیں موجود ہوتی ہیں جو وظائف اور حقوق کے اختلاف کا سبب ہوتی ہیں یا وہ جو خصوصیات، طاقت اور قابلیت کو حاصل کرتے ہیں ان کی وجہ سے ان کو کچھ منصب دئے جاتے ہیں او ران کے عوض میں ان کو حقوق دئے جاتے ہیں ، تو اب حقوق اور وظائف کے مابین فرق یا تو طبیعی ہے یا افراد کے انتخاب اور اختیار میں ہے، مثال کے طور پر وہ خاص دین کو تسلیم کرلیں یا کسی فن میں مھارت حاصل کرکے کسی منصب کوحاصل کرلیں ، اور اس میں کوئی شک وشبہ ہی نہیں ہے کہ یہ اختلاف اور کسب شدہ خصوصیات اور منجملہ اصول مبانی کو تسلیم کرنا وہ انسان کی شہریت میں موثر ہوسکتا ہے۔
والسلام
حوالے