تیسرا جلسہ
دین میں سیاست کی اہمیت
۱۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر
”اسلام کے سیاسی نظرہ'' کی توضیح کے ضمن میں اسلامی منابع ومآخذ ؛یعنی قرآن ، سنت اورعقل کے تحت ہم نے بیان کیا کہ اسلام نے انسانی زندگی کے اجتماعی وانفرادی مختلف مسائل میں نظریات بیان کئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام دنیاوی زندگی میں دخالت رکھتا ہے، اور ہم نے پہلے بھی عرض کیا کہ مختلف نظریات رکھنے والوں سے بحث کا طور وطریقہ بھی مختلف ہونا چاہئے ،جو لوگ ہمارے ساتھ بعض عقیدوں میں شریک ہیں ان سے بحث کا طریقہ الگ ہے لیکن جو لوگ ہمارے اعتقادات کے مخالف ہیں ان سے بحث کا طریقہ الگ ہے اور ہم نے یہ بھی عرض کیا کہ مدمقابل کو قانع کرنے کے لئے کبھی برہانی اصولوں کوبنیاد بنایا جاتا ہے او رکبھی جَدَلی طریقہ اپنانا پڑتا ہے اور ہم اس کتاب میں دونوں طریقوں سے استفادہ کریں گے، او رہم نے یہ بھی عرض کیا کہ اسلام سیاست کے بارے میں ایک خاص نظریہ رکھتا ہے اور ہمارے لئے ضروری ہے کہ اس نظریہ کو پہچانیں اور اس کو عملی جامہ پہنائیں ، انقلاب اسلامی کے ارکان میں سے ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ اسلام سیاسی مسائل میں دخالت رکھتاہے، اسی وجہ سے ہمارا یہ انقلاب ”اسلامی انقلاب“ کے نام سے مشہور ہوا۔
اسی طرح ہم نے گذشتہ بحث میں بیان کیا کہ اسلام کے سیاسی نظریہ اور اس کے سیاسی پہلو سے دفاع کرنے میں ہمارے مقابل دوگروہ ہیں :
پھلا گروہ: ان لوگوں کا ہے کہ جو اسلام کو نہیں مانتے یا یہ کہ کسی بھی دین کو نہیں مانتے ، ان لوگوں کے جواب کے لئے آیات و روایات سے دلیل پیش کرنا بے فائدہ ہے بلکہ ان سے مناظرہ کرنے کے لئے عقلی طریقہ اپنا نا پڑے گا، اور سب سے پہلے اسلام کو ثابت کرنا پڑے گاتاکہ ثابت ہوسکے کہ خدا، دین، پیغمبر اور قیامت ہے، اور یہ مسلم ہے کہ اس گروہ سے(جو دین سے بےگانہ ہے) بحث کرنا صرف اعتقادی بحث ہوگی۔
دوسرا گروہ: ان لوگوں کا ہے کہ جو مسلمان ہیں اور دین کو قبول کرتے ہیں یا اگر اسلام پر اعتقاد نہیں ہے ،مگر مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور یہ کھتے ہیں کہ مسلمانوں کا اسلام، سیاست سے بےگانہ ہے او راسلام کا سیاست سے کوئی ربط نہیں ہے، اس گروہ کے مقابلہ میں ہم کو چاہئے کہ اس اسلام کی تحقیق وبررسی کریں جس کے مسلمان معتقد ہیں او ردیکھیں کہ یہ اسلام سیاسی نظریہ رکھتا ہے یا نھیں ؟ اس گروہ کے مقابلے میں ہمیں صرف عقلی روش سے استفادہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اسلام کے سیاسی نظریہ کی شناخت کے لئے اسلامی اصولوں پر توجہ کریں جن پر اسلام کی بنیاد قائم ہے او راس کے بعد اسلامی منابع؛ یعنی قرآن، سنت او رعقلی دلائل کے ذریعہ ثابت کریں کہ قرآن،سنت اور سیرت رسول اور ائمہ کی سیرت او ران کے فرمان کے مطابق اسلام کا سیاسی نظریہ کیا ہے یہ کہ اسلام کی سیاسی دخالت پر بزرگان دین کی سییرت موجود ہے یا نھیں ؟
۲۔ سیاست کی تعریف اور اسلام میں تین طاقتوں کی اہمیت
ہم پہلے سیاست کی واضح وروشن تعریف کرتے ہیں تاکہ واضح وروشن ہوجائے کہ قرآن مجید میں سیاست کے بارے میں گفتگو موجود ہے یا نھیں ؟
سیاست یعنی قوم وملت کو ادارہ کرنے کا طور وطریقھ، یامعاشرہ کو اس طرح تنظیم کیا جائے کہ اس کی ترقی اور پیشرفت ہوسکے،اور اس کے تمام مصالح اور ضروریات کو پورا کرسکے، یابہ الفاظ دیگر : سیاست یعنی ملکی نظام چلانے کا قانون۔
البتھسیاست سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ جس کے اثرات منفی ہوں یعنی جس میں فریب کاری، حیلہ بازی اور دوسروں کو دھوکہ دینا پایا جائے۔
سیاست او رملکی نظام کے سلسلے میں ”مانٹسکیو“ کے زمانے سے حاکم گروپ کو تین طاقتوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
۱۔”قوة مقننہ، قانون گذار پاور(پارلیمینٹ)
۲۔ ”قوہ مجریہ“،قانون کو جاری کرنے والی طاقت (صدر یا وزیر اعظم)
۳۔”قوہ قضائیہ “، (عدالت یا کورٹ پاور)
قانون گذر پاور کی ذمہ داری یہ ہے کہ ملت کو ادارہ کرنے، او ران کی مناسب وبہت ر زندگی کے لئے قانون بنائے تاکہ عدل وانصاف برقرار رہے اور معاشرے پر نظام حکومت کرسکے، اور کوئی ایک دوسرے کے حقوق کو پامال نہ کرسکے، پوری قوم ترقی او رکامیابی کی طرف قدم بڑھاتی ہوئی نظرآئے،اور قوہ مجریہ کا وظیفہ یہ ہے کہ پارلیمینٹ میں بنائے گئے قوانین کو نافذ کرے اور یھی گروہ حکومت کی شکل پاتا ہے، قوہ قضائیہ کا کام یہ ہے کہ کلی قوانین کے تحت لوگوں کے درمیان موجودہ اختلافات اور جھگڑوں کا فیصلہ کرے۔
مذکورہ تقسیم بندی کے تحت جو وظائف تینوں طاقتوں کے لئے شمار کئے گئے ہیں ان کے بارے میں قرآن کے نظریات کیا ہیں او رشرعی لحاظ سے ان کی اہمیت کس قدر ہے اور کیااس سلسلے میں قرآن ا ور اسلام نے کچھ خاص قوانین ودستورات بیان کئے ہیں ؟ البتہ توجہ رہے کہ قوانین سے ہماری مراد اجتماعی قوانین ہیں نہ کہ انفرادی احکام وقوانین کہ جو دین میں مسلم ہیں ۔
اجتماعی قوانین میں مدنی (شہری) قوانین، عدالتی قوانین، تجارتی قوانین اور حکومت کا لوگوں سے روابط کے ضوابط نیز بین الاقوامی قوانین شامل ہیں ، اگر ہم صحیح معنوں میں قرآن پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں مذکورہ تمام قوانین مل جائیں گے قرآن مجید میں شہر ی قوانین، نکاح وطلاق کے احکام، تجارت ومعاملات کے قوانین، قرض ورہن او رعدالت کے مسائل (یہ تمام چیزیں اس چیز کی حکایت کرتی ہیں کہ اسلام نے معاشرہ کو ادارہ کرنے کے لئے یہ احکامات پیش کئے ہیں ) کے علاوہ قرآن مجید میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے خاص حقوق بیان کئے ہیں تاکہ خاص مواقع پر زمان ومکان کے پیش نظر کچھ احکام وضع کریں او رمومنین کو بھی حکم ہوا ہے تاکہ آنحضرت کی اطاعت وپیروی کریں ، ارشاد ہوتا ہے:
(
وَمَا کَانَ لِمُومِنٍ وَلاٰمُومِنَةٍ إِذَا قَضٰی اللّٰه وَرَسُوْلُه ا مْراً ا نْ یَکُونَ لَهمُ الْخِیْرَةُ مِنْ ا مْرِهمْ
)
” اور نہ کسی ایماندار مرد کو یہ مناسب ہے او رنہ کسی ایماندار عورت کو کہ جب خدا اور اس کے رسول کسی کام کا حکم دیں تو ان کو اپنے اس کام(کے کرنے یا نہ کرنے )کا اختیار ہو“
اس آیہ کریمہ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مومنین کو یہ حق نہیں ہے کہ خدا اور اس کے رسول کی تصمیم وارادہ پر اعتراض کریں ، پس معلوم یہ ہوا کہ خدا کے مسلم قوانین کے علاوہ اسلامی حکومت میں زندگی بسر کرنے والوں کے لئے پیغمبر اسلام کے بنائے ہوئے قوانین بھی لازم الاجراء ہیں ،یعنی رسول اکرم کے بنائے ہوئے قوانین پر عمل کرنا ضروری ہے اور کسی کو بھی یہ حق نہیں کہ آنحضرت کی نافرمانی کرے، کیونکہ جو شخص آنحضرت کے قوانین کی مخالفت کرے وہ دوحالتوں سے خالی نہیں ہے :
۱۔ یا تو وہ پیغمبر کو خدا کا رسول نہیں مانتا، ایسے شخص سے ہمارا کو ئی مطلب نہیں ہے ، ہم تو اس سے گفتگو کرتے ہیں جو آنحضرت کو خدا کا رسول مانتا ہو اور اس چیز کا بھی قائل ہو کہ آنحضرت کو خدا کی طرف سے قانون بنانے کا حق دیا گیا ہے، اسی وجہ سے خدا نے یہ نہیں فرمایا(
وَمَاکَانَ لِکٰافِرٍ وَلاٰ کَافِرَةٍ
)
بلکہ خدا وندعالم کا ارشاد تو یہ ہے(
وَمَاکَانَ لِمُومِنٍ وَلاٰمُومِنَةٍ
)
۲۔یا یہ کہ آنحضرت کی نبوت کا اعتقاد رکھتا ہے لیکن رسول اسلام کو اس طرح کا حق ملنے کے بارے میں بحث کرتا ہے؛ ایسے شخص کے لئے ہم قرآن مجید سے دلائل پیش کرتے ہیں کہ جس طرح اسلامی حکومت میں رہنے والے ہر مومن اور رسول اکرم کی نبوت کا معتقد انسان خدا کے احکامات کو لازم الاطاعة جانتا ہے بالکل اسی طرح سے رسول اسلام کے بنائے ہوئے قوانین کو بھی لازم الاطاعة ماننا ضروری ہے اور تمام مومنین پر آنحضرت کی اطاعت وولایت ثابت شدہ ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
(
اَلنَّبِیُّ ا وْلیٰ بِالْمُومِنِیْنَ مِنْ ا نْفُسِهمْ
)
”نبی تو مومنین سے خود ان کی جانوں سے بھی بڑہ کر حق رکھتے ہیں “
پس قرآن کی نظر سے رسول اسلام کے لئے قانون کا بنانا اور اس کو اجراء کرنے کا حق مسلم الثبوت ہے،، لیکن یھاں پر یہ سوال ہوتا ہے کہ کیا یھی مرتبہ رسول اسلام کے بعد کسی دوسرے کے لئے بھی ثابت ہے یا نہیں ؟ البتہ اس بحث کو کسی دوسر ی جگہ پر کیا جائے گا اس وقت ہماری بحث اسلام کے بارے میں ہے کہ اسلام سیاسی نظریہ رکھتا ہے یا نھیں ؟
۳۔عدالتی احکام قرآن کی نگاہ میں
قضاوت اور عدالتی احکام یعنی خدا کے کلی احکام کو اختلافی اور جھگڑے وغیرہ جیسے مسائل پر منطبق کرنا، اس سلسلے میں خدا وند عالم ارشاد فرمایتا ہے:
(
فَلاَ وَرَبُّکَ لاَ یُومِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهمْ لاَیَجِدُوْا فِیْ ا نْفُسِهمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوا تَسْلِیْماً
)
” پس (اے رسول) تمھارے پروردگار کی قسم یہ لوگ سچے مومن نہ ہوں گے تاوقتیکہ اپنے باہمی جھگڑوں میں تم کو اپنا حاکم (نہ) بنائیں پھر (یھی نہیں بلکہ ) جو کچھ تم فیصلہ کرو اس سے کسی طرح دل تنگ بھی نہ ہوں بلکہ خوش خوش ان کو مان لیں “
آیہ مذکورہ میں نہ صرف یہ کہ حضرت رسول اکرم کے لئے قضاوت ثابت ہے بلکہ آنحضرت کی قضاوت وداوری کو قبول کرنا شرط ایمان ہے، چونکہ آیت کے شروع میں قسم کھائی گئی ہے لھٰذا اس مطلب کی مزید تاکید ہوجاتی ہے کہ مومنین کو چاہئے کہ اختلافی مسائل میں آپ کے فیصلے اور حکم کو دل وجان سے قبول کریں ، اور آپ کے دئے ہوئے فیصلہ پر ناراض نہ ہوں ، اور اگر آنحضرت کے فیصلہ پر اعتراض کیا اور ا س کو دل وجان سے قبول نہ کیا تو پھر وہ حقیقی مومن نہیں ہے۔
جی ھاں حقیقی مومن وہ ہے کہ اگر اسلامی حکومت اس کے برخلاف کوئی فیصلہ دے تو اس کو دل وجان سے قبول کرے اگرچہ یہ احتمال بھی ہو کہ اس کا حق ضایع ہوا ہے کیونکہ قاضی گواہوں او ردوسرے شواہد کی وجہ سے ظاہری حکم کرتا ہے جیسا کہ رسول اکرم نے بھی فرمایا:
”انما اقضی بینکم بالبینات والایمان“
میں تمھارے درمیان قسم اور دوسرے شواہد کی بناپر قضاوت اور فیصلہ کرتا ہوں ، ممکن ہے کہ کوئی گواہ ظاہراً عادل اور معتبر ہو اور اس کی گواہی قبول ہو؛ اگر اس کی گواہی جھوٹ پر مشتمل ہو یا گواہ سے کوئی بھول چوک یا غلطی واقع ہوئی ہو لیکن اگریہ طے قرارپائے کہ قاضی کے فیصلہ کو قبول نہ کیا جائے اگرچہ خلاف واقع بھی ہو تو پھر بہت سی مشکلات پیدا ہوجائیں گی او راسلامی حکومت نہیں چل پائے گی۔
قرآ ن سے جو نتائج نکلتے ہیں اور قرآن مجید کا جزائی امورجیسے دیت، قصاص اورتعزیرات (سزا دینا) وغیرہ کا بیان اس بات پر گواہ ہے کہ اسلام سیاست و حکومت میں سب سے بڑی دخالت رکھتا ہے اور حدتو یہ ہے کہ اسلام نے مجرم اور مفسد کے لئے ”حد“ (اسلامی سزا) معین کی ہے اور قاضی کو اس حدتک اجازت دی ہے کہ مفسد اور مجرم پر حد جاری کرے اگرچہ کوئی مخصوص شکایت کرنے والا نہ ہو ، چونکہ ایسی صورت میں گویا حقوق الہی کو پامال کیا گیا ہے (لھٰذا اس کو سزا دی گئی ہے)
بعض مقامات پر تو اسلام نے بہت سنگین اور سخت سزا معین کی ہیں کہ جس کی بناپر بعض لوگوں کے لئے ان کا قبول کرنا مشکل ہوجاتاہے، مثلاً قرآن مجید میں حکم ہوا کہ اگر اسلامی معاشرے میں کسی نے زنا کیا او ر قاضی کے نزدیک چار عادل گواہوں نے گواہی دی اور وہ جرم قاضی کے نزدیک ثابت ہوچکا ہے تو زانی اور زانیہ میں سے ہر ایک سوسو تازیانے لگائے جائیں ، اور قرآن نے اس سلسلہ میں خصوصی طور پر تاکید کی ہے تاکہ قاضی عواطف ومحبت سے متا ثر نہ ہو، او ران کے ساتھ مھربانی ومحبت سے پیش نہ آئے، ارشاد ہوتا ہے:
(
اَلزَّانِیَةُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کَلَّ وَاحِدٍ مِنْهما مِا ئَةَ جَلْدَةٍ وَلاَتاَخُذُکُمْ بِهما رَافَةٌ فِیْدِیْنِ اللّٰه
)
”زنا کرنے والی عورت او رزنا کرنے والے مرد ان دونوں میں سے ہر ایک کو سو(سو) کوڑے مارو او راگرتم خدا او ر روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو حکم خدا کے نافذ کرنے میں تم کو ان کے بارے میں کسی طرح کا رحم کا لحاظ نہ ہونے پائے “
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر کسی پر ایسی ”حد“ جاری ہوگئی تو اس کی عزت وآبرو ختم ہوجاتی ہے لیکن معاشرہ اور سماج ان تمام برائیوں سے پاک ہوجاتا ہے۔
چوری کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
(
اَلسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا ا یْدِیْهما جَزَاءً بِمَا کَسَبَا نِکَالاً مِنَ اللّٰه وَاللّٰه عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ
)
”چور خواہ مرد ہو یا عورت تم ا ن کے کرتوت کی سزا میں ان کا (داہنا )ھاتہ کاٹ ڈالو،یہ (ان کی سزا) خدا کی طرف سے ہے اور خدا تو بڑا زبردست حکمت والاہے“
پس نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن مجید نے رسول خدا کے لئے مقام قضاوت ، قوم ومعاشرے کی فلاح و بھبودی کے لئے حق قانون گذاری اور حد وسزا دینے کا حق معین فرمایا ہے ، اگر کوئی شخص واقعاًَ انصاف رکھتا ہو اور قرآ ن او رمعصومین (ع) کی معتبر روایت پر ایمان رکھتا ہو اس پر یہ بات واضح وروشن ہوجاتی ہے کہ اسلام سیاسی واجتماعی مسائل میں دخالت رکھتا ہے، لیکن اگر کوئی بغض وعناد کی وجہ سے ان حقائق سے چشم پوشی اور ان کا انکار کرے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی چمکتے ہوئے سورج کا منکر ہو۔
۴۔ سلام کا ہمہ گیر ہونا اور اسلامی حاکم کی اہمیت
قرآن مجید نے وسیع سیاسی مسائل ، حکومتی قوانین، قانون گذاری اور اس کو خاص موارد پر منطبق کرنا اور قوانین کے اجراء کرنے کے علاوہ فرعی اور جزئی قوانین کے بارے میں
بھی وضاحت کی ہے مثلاً سال کے مھینوں کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
(
إِنَّ عِدَّةَ الشَّهوْرِ عِنْدَ اللّٰه إِثْنَا عَشَرَ شَهراً فِیْ کِتَابِ اللّٰه یَومَ خَلَقَ السَّمٰواتِ وَالا رْضَ مِنْها ا رْبَعَةٌ حُرُمٌ ذٰالِکَ الدِّیْنُالقَّیِّمُ
)
”اس میں تو شک ہی نہیں کہ خدا نے جس دن آسمان وزمین کو پیدا کیا(اسی دن سے) خدا کے نزدیک خدا کی کتاب (لوح مخفوظ) میں مھینوں کی گنتی بارہ مھینے ہے ان میں سے چار مھینے (ادب و) حرمت کے ہیں یھی دین سیدھی راہ ہے“
مذکورہ آیت میں سال کے بارہ مھینوں کی تقسیم تکوینی لحاظ سے اور خلقت کے نظام پر منطبق ہیں ، اور اس طرح کے مطالب دین میں ذکر ہونا، دین کے صحیح اور مستحکم ہونے کی نشانی ہے، اسی طرح قرآن مجید میں چاند کو دیکھنے کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
(
یَسْئَلُونَکَ عَنِ الا هلَّةِ قُلْ هیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ
)
”(اے رسول ) تم سے لوگ چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں (کہ کیوں گھٹتا بڑھتا ہے) تم کھہ دو کہ اس سے لوگوں کے (دینوی امور اور حج کے اوقات معلوم ہوتے ہیں “
اس وجہ سے اجتماعی وعبادی احکام تکوینی نظام پر منطبق ہوتے ہیں اس کے علاوہ بہت سے حقوقی احکام ماہ رمضان کا آغاز، حج کا زمانہ اور دوسری عبادی احکام چاند دیکھنے پر متوقف ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید دین کو فطرت اور نظام خلقت سے ہم اہنگ اور منطبق بتاتا ہے:
(
فَا قِمْ وَجْهکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً فِطَرَةَ اللّٰه الَّتِی فَطَرَ النّٰاسَ عَلَیْها لاَتَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰه
)
”تو(اے رسول) تم باطل سے کترا کے اپنا رخ دین کی طرف کئے رہو، یھی خدا کی بناوٹ ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے خدا کی (درست کی ہوئی )بناوٹ میں (تغیر)تبدل نہیں ہوسکتا“
اور چونکہ الہی قوانین فطرت الہی کی بنیاد پر بنائے گئے ہیں لھٰذا یہ قوانین مسلم ہیں او ران میں تبدیلی نہیں آسکتی، البتہ یھاں توجہ رکھنی چاہئے کہ اسلام کے بعض احکام وقوانین ایسے ہیں جو کسی خاص زمان ومکان کے لحاظ سے تبدیل ہوسکتے ہیں لیکن ان مسائل کو طے کرنا یا ان کو معین کرنا حاکم شرع کی ذمہ داری ہے، وہ حاکم شرع کہ جس کی مشروعیت اور طاقت خدا کی طرف سے ہے، قرآن مجید نے اس باعظمت منصب کو رسول اکرم کے لئے مقرر فرمایا ہے اور شیعہ عقائد کے لحاظط سے ائمہ معصومین علیہم السلام کے لئے بھی یہ منصب ہے (جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ) او ران کے بعد یہ مقام ولی فقیہ کے لئے معین ہوا ہے (ولی فقیہ کے بارے میں دوسرے موقع پر تفصیل سے بحث کریں گے،انشاء اللہ)
لھٰذا یہ اعتراض کہ دین کا اجتماعی مسائل سے کوئی مطلب نھیں ، اور یہ کہ دین صرف آخرت سے مربوط ہے ،یعنیانسان کے خداسے رابطہ کا نام ہے یہ اعتراض بالکل ختم ہوجاتا ہے، اور نہ یہ اعتراض دین سے مربوط ہے، البتہ اس دنیا میں کوئی ایسابھی دین ہوسکتا ہے کہ جس پر مذکورہ اعتراض وارد ہوسکتا ہو، لیکن ہماری بحث اس دین سے نہیں ہے ،بلکہ ہماری گفتگو اس دین کے بارے میں ہے جس میں سال کے مھینوں تک کو بیان کردیا گیا ہو جس میں معاملات اور مالی روابط کے بارے میں اس طرح تاکید کی گئی ہو کہ اگر کوئی شخص ایک دوسرے کو قرض دے تو اس کو لکہ لیا جائے یا دو گواہوں کے سامنے قرض دیا جائے،اور اگر لکھنا یا گواہ لینا ممکن نہ ہو تو کوئی چیز گروی رکہ لی جائے، (قرآن مجید میں رہن کے جواز کے بارے میں جو بیان ہوا ہے وہ ایسے ہی مقامات کے لئے کہ اگر کوئی شخص کسی کو قرض دے اور اس سے کوئی نوشتہ یا سند نہ لے سکے تو اس سے کوئی قیمتی چیز بعنوان گروی لے کر اس کو قرض دے دیا جائے)
لھٰذا ہم معتقد ہیں کہ دین اسلام سیاست، حکومت اور لوگوں کی مادی اور معنوی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پروگرام رکھتا ہے۔
ہم نے گذشتہ جلسہ میں دین کی اس تعریف کو جس میں دین کو فقط انسان کے خدا سے رابطہ میں منحصر کیا گیا تھا اس کی ردّ کرتے ہوئے حقیقی دین کی تعریف کی تھی اور ہم نے عرض کیا تھا کہ دین کے صحیح معنی یہ ہیں کہ انسانی زندگی پر الہی جلوہ ہو جو انسان کے تکامل کا راستہ بیان کرے اور اس کو مبدا ومعاد کی طرف متوجہ رکھے پس دین انہیں راستوں کے اختیار کرنے کانام ہے او ربغیر کسی شک وشبہ کے ایسا دین زندگی کے کسی ایک حصہ مثلاً عبادت اور دوسرے عبادی کامو ں میں منحصر نہیں ہوسکتا، بلکہ انسانی زندگی کے تمام پہلووں پرنظر رکھتا ہے کیونکہ انسان کی تخلیق کی وجہ یہ ہے کہ انسان ابدی اور ہمیشگی سعادت کو حاصل کرسکے اسی بناپر اپنی زندگی کے تمام پہلووں کو الہی احکامات سے ہم اہنگ کرے، لھٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ خدا کی براہ راست عبادت اور اصطلاحی عبادت دین کا بعض حصہ ہے اور ہماری زندگی کے دوسرے فکری وعملی پہلو خدا کی مرضی کے مطابق ہونا چاہئے، اور جب ہمارے سارے کام مرضی معبود کے مطابق ہوجائیں گے تو یہ تمام کام بھی عبادت بن جائیں گے اور انسان اس طرح زندگی کے بلند ترین مرتبہ پر پہونچ جائے گا:
(
مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالاِنْسَ إِلاّٰلِیَعْبُدُوْنَ
)
”او رمیں نے جنوں او رانسانوں کو اسی غرض سے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں “
اس آیت کا مطلب یہ کہ انسان خدا کی عبادت وپرستش کی بناپر کمال کی منزل تک پہونچ سکتا ہے۔
لھٰذا نسان کے تمام اعمال وافعال اسی قاعدے او رقانون کے تحت ہونا چاہئے، یھاں تک کہ اس کا سانس لینا بھی اسی قاعدہ کے تحت ہونا چاہئے اور اگر انسانی زندگی نے الہی رنگ کو اپنا لیا ہے اور اسی سانچہ میں ڈھل گیا، تو وہ انسان واقعاً دیندار ہے او راگر خدا کی عبادت او راس کی پرستش کے دائرے سے خارج ہوگیا تو وہ شخص بے دین او رمرتد ہوجائے گا، وہ لوگ جن کی زندگی کا بعض حصہ خدا کی مرضی کے خلاف ہو اور خدا کی عبادت سے بے خبر رہتے ہیں ، وہ لوگ واقعی دیندار نہیں ہیں بلکہ وہ لوگ ارتداد کی سرحد پر رہتے ہیں ان لوگوں کا دین ناقص ہے ،کیونکہ دین کے ناقص ہونے کے بھی درجات ہیں لھٰذا ہم کو یہ یقین رکھنا چاہئے کہ جو حضرات واقعاً دیندار ہیں اور زندگی کے تمام پہلووں میں احکامات الہی کی رعایت کرتے ہیں ،پس وہ لوگ جو زندگی کے بعض حصوں میں احکام الہی کی رعایت کرتے ہیں وہ ان کے مرتبہ کے برابر نہیں ہیں ، اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ ایمان اور دینداری کے بھی بہت سے مراتب اور درجات ہیں او رانسان ان میں ترقی کرسکتا ہے جیسا کہ خدا وندعالم ارشاد فرماتاہے:
(
وَالَّذِیْنَ اهتَدُوْا زَادَهمْ هدیً وَآتَاهمْ تَقْوَاهمْ
)
”اور جو لوگ ہدایت یافتہ ہیں ا ن کو خدا (قرآن کے ذریعہ) مزید ہدایت کرتا ہے او ران کو پرہیزگاری عطا کرتا ہے“
جو لوگ ہدایت پاچکے ہیں خداوندعالم ان کی ہدایت اور تقوے میں اضافہ کرتا ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:
(
إِنَّمَا المُومِنُوْنَ الَّذِیْنَ إذَا ذُکِرَ اللّٰه وَجَلَتْ قُلُوبُهمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهمْ آیَاتُه زَادَتْهمْ إِیْمَاناً
)
”سچے ایماندار تو بس وہی لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے) خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو انکے دل ھل جاتے ہیں او رجب ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو ان کے ایمان کو اور بھی زیادہ کردیتی ہیں “
جی ھاں ایسے بعض حضرات موجود ہیں جن کے ایمان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور تکامل کی طرف بڑھتے رہتے ہیں تاکہ ایمان کی بلند منزلوں تک پہونچ سکیں او راولیاء الہی میں شمار ہونے لگیں ، ان کے مقابلہ میں وہ لوگ ہیں جو پستی کی طرف جاتے رہتے ہیں اور دینداری میں پیچھے ھٹتے چلے جاتے ہیں او رکبھی کبھی اغیار وبے گانوں کے اعتراضات واشکالات کو سن کر نامناسب ماحول کی طرف بڑہ جاتے ہیں اور جس دین کو ماں باپ یا کسی استاد سے سیکھا تھا اس کو کھوبیٹھتے ہیں ، کیونکہ جن لوگوں میں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ مسائل کو اچھے طریقہ سے سمجھ سکیں اگر وہ اعتراضات واشکالات میں وارد ہوتے ہیں تو منحرف ہوجاتے ہیں ، قرآن مجید اس سلسلے میں فرماتا ہے:
(
وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الکِتَابِ ا نْ إذَا سَمِعْتُمْ آیَاتِ اللّٰه یُکْفَرُبِها وَیُسْتَهزَا بِها فَلاَ تَقْعُدُوا مَعَهمْ حَتّٰی یَخُوضُوا فِی حَدِیْثٍ غَیْرِه إِنَّکُمْ إِذاً مِثْلُهمْ
)
”(مسلمانو!) حالانکہ خدا تم پر اپنی کتاب قرآن میں حکم نازل کرچکاہے کہ جب تم سن لو کہ خدا کی آیتوں کا انکا رکیا جاتا ہے او راس سے مسخرا پن کیا جاتا ہے تو تم ان (کفار) کے ساتھ مت بیٹھو یھاں تک کہ وہ کسی دوسری بات میں غور کرنے لگیں ا ورتم بھی اس وقت ان کے برابر ہوجاؤ گے“
انسان کو چاہیئے کہ پہلے اپنے علم او رعقلی وفکری بنیادوں میں اضافہ کرے اوراعتراضوں کے جوابات او ران کا تجزیہ وتحقیق کرنے کی صلاحیت اپنے اندرپیدا کرے، اس کے بعد کسی کے اعتراضات وشبھات پر کان دھرے، او ردوسرے کے اعتراض کو سن کر خود کو انحرافات کے خطرے میں نہ ڈالے، اسلام یہ نہیں کھتا کہ کسی سے کشتی نہ لڑو، بلکہ اسلام کی نظر تو یہ ہے کہ پہلے کشتی کے فن سے واقف ہوجاؤ بعد میں کشتی لڑو، اور اگر چاہو کہ کسی بھاری پہلوان سے کشتی لڑو تو پہلے اپنے وزن اور پرکٹس میں اضافہ کرو اسی طرح اسلام یہ نہیں کھتا کہ دوسروں کے اعتراضات کو نہ سنو بلکہ اسلام کا کہنا یہ ہے کہ جس قدر اشکالات واعتراضات کی تجزیہ وتحقیق او رتشخیص کرنے کی صلاحیت رکھتے ہو، وہاں تک اشکالات کو سنو، یعنی پہلے معارف الہی حاصل کرو پھر شبھات کے جوابات دینے کا طریقہ سیکھو اس کے بعددوسروں سے بحث ومناظرہ کرو تاکہ دشمن تم کو شکست نہ دے سکے او راپنے عقائد کو تم پر تحمیل نہ کرسکے۔
۵۔مذکورہ بحث کا خلاصہ
ہماری بحث وگفتگو کا خلاصہ یہ ہوا کہ اسلام، تمام سیاسی پہلووں پر شامل ہوتا ہے لھٰذا ہماری تمام زندگی دین کے مطابق ہونا چاہئے، زندگی کاکوئی بھی گوشہ دین سے خارج نہ ہو؛ چاہے وہ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی، خاندانی زندگی ہو یا ازدواجی مشترکہ زندگی، ماں باپ سے اولاد کے روابط ہوں یا امت او رامام کا رابطہ، یھاں تک کہ دوسرے مذاہب سے رابطہ کیسا ہونا چاہئے کن افراد سے رابطہ رکھنا صحیح ہے او رکن لوگوں سے رابطہ رکھنا صحیح نہیں ہے، او راگر ہم قرآنِ مجید کی آیات پر ایک نظر ڈالیں (درحالیکہ روایات کی طرف رجوع بھی نہ کریں )
توجو شخص تھوڑا بھی انصاف رکھتا ہو اس کے لئے واضح وروشن ہوجائے گا کہ سیاست اسلام کا متن (اصلی رکن) ہے او رہم بغیر سیاست کے اسلام نہیں رکھتے ، اور کچھ لوگ اسلام کو سیاست سے جدا تصور کریں تو گویا ان کا دین دوسرا ہے اور اس کو اسلام کا نام دے دیا ہے وہ اسلام کہ جس کی اصل قرآن وسنت ہے اس کا سیاست سے جدا ہونا ممکن نہیں ہے۔
حوالے: