پانچواں جلسہ
اسلام میں آزادی
۱۔گذشتہ مطالب پر ایک نظر
ہم نے اسلام میں سیاست کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے عرض کیا کہ حکومتی اور سیاسی مسائل، معرف اسلامی کا ایک حصہ ہیں اس سے قبل ہم نے اشارہ کیا کہ بعض لوگوں نے جامعہ میں انحراف اور کج روی پیدا کرنے کے لئے نیز لوگوں کے ذہنوں کو پراکندہ کرنے کے لئے اسلامی حکومت کے سلسلہ میں بہت سے اعتراضات کئیے ہیں جن میں سے ایک شبہ یہ تھا کہ دین کا دائرہ دنیا کے دائیرہ سے جدا ہے اور دین دنیاوی مسائل میں کوئی مداخلت نہیں کرتا اور یہ کہ دنیاوی امور میں دخالت کرنا دین کے شایان شان نہیں ہے دین کا کام صرف ان امور سے وابستہ ہے جو آخرت اور منویات سے مربوط ہیں اور انسان کا خدا سے رابطہ کا نام دین ہے ،خلاصہ یہ کہ دین سے کم سے کم امید رکھیں اس سے پہلے جلسہ میں ہم نے اس اعتراض کاجواب عرض کیا اور ہم نے ”دین سے ہماری امیدیں “کی بحث کے سلسلہ میں اس مغالطہ (کہ دین سے ہماری امیدیں زیادہ ہوں یاکم سے کم )کا جواب مفصل طور پر عرض کیا تھا۔
جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی زندگی اور اس سے متعلق دوسری واقفیتوں کے دو رخ ہیں :پھلا رخ یہ ہے کہ سببی اور مسببی علت اور معلول رابط موجود ہے جیسا کہ یہ رابطہ تمام چیزوں میں بھی پایاجاتا ہے ،مثلا کون کون سی چیزیں آپس میں مرکب ہوں تاکہ فلاں شیمیائی چیز وجود میں آسکے ،اور ایک زندہ چیز کن شرائط کے ساتھ رشد و نمو کرتی ہے، یہ انسان جو ایک زندہ چیز ہے کس طرح زندگی کرتا ہے اور کس طرح اپنی صحت و سلامتی کو محفوظ کرتا ہے، اور جب مریض ہوجائے تو کس طرح اپنا علاج کرائے ۔دوسرا رخ یہ ہے کہ اس دنیا کی تمام حقیقوں کا انسان کی روح اور معنوی کمالات سے رابطہ ہے ۔
۲۔علم اور دین کے مخصوص دائرے
الکحل کو کس طرح اور کن چیزوں کے ذریعہ بنایا جاتا ہے اورالکحل کتنے طریقوں کا ہوتا ہے یہ ایک علم ہے اور ایسی چیزوں کی تحقیق اور بررسی کرنا دین کی ذمہ داری نہیں ہے دین کی ذمہ داری یہ ہے کہ بیان کرے کہ الکحل کو پیا جائے یا نھیں ؟ اور اس کا انسان کی روح اور معنوی پہلو کے لئے نقصان دہ ہے یا نہیں دوسرے الفاظ میں یوں کھا جائے کہ دین کی ذمہ داری یہ ہے کہ بیان کرنا ہے کہ الکحل کا استعمال کرنا حلال ہے یا حرام؟ اس طرح دین دوسری چیزوں کے احکام کو بیان کرتا ہے، نہ کہ اس علمی اور تحقیقی پہلو کو بیان کرتا ہے دین ان چیزوں کی ترکیبات سے بحث نہیں کرتا بلکہ وہ توان چیزوں اور انسانی روح اور اس کی صلاح و اچھائی کے رابطہ کو بیان کرتا ہے اور ان کی تحقیق و بررسی کرتا ہے ،کس کارخانہ یا تجارتی گروپ کا منیجر کس طرح صحیح طور پر کام کرسکتا ہے اور کس طرح کے پروگرام بنائے جائیں تاکہ اچھے نتائج برآمد ہوسکیں ان سوالوں کا جواب علم دے سکتا ہے لیکن ان کارخانوں میں کیا چیز بنائی جائے اور کون سی چیز بنانا جائز ہے اور کون سی چیز حرام ہے اور کون سی چیز انسانی روح سے مربوط ہے یہ دین کاکام ہے ۔
۳۔دینی حاکمیت کا آزادی سے ٹکراؤ،ایک شبہ
لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے ایک شبہ جو مختلف طریقوں سے بیان کیا جاتا ہے البتہ یہ شبہ صرف ایک مغالطہ ہے،وہ شبہ یہ ہے کہ اگر دین انسان کے سیاسی اور اجتماعی کاموں میں مداخلت کرے اور لوگوں کو کسی خاص طریقہ کو اپنانے پر زور دے یا کسی کی اطاعت کا حکم دے تو یہ انسان کی آزادی کے خلاف ہے اور انسان چونکہ آزاد اور صاحب اختیار ہے کہ جو چاہے کرے جو چاہے نہ کرے،اور اس کو کسی کام پر مجبور کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے، اور چونکہ دین انسان کے لئے تکلیف معین کرتا ہے، اور اس کو کسی کی اطاعت کا حکم کرتا ہے اطاعت بھی اطاعت مطلق (یعنی چون و چرا)یہ سب کچھ آزادی سے میل نہیں کھاتا۔
۴۔مذکورہ شبہ دینی انداز میں
مذکورہ شبہ کو مختلف شکلوں میں بیان کیا جاتا ہے ان میں ایک یہ ہے کہ شبہ کرنے والا اپنی دینداری کا ڈنکا بجاتا ہے اور خود کو قرآن کا ماننے والا کھتاہے اور اپنے شبہ کو مومنین اور متدین افراد پر کارگر کرنے کے لئے اس کو قرآنی اور دینی محمل سے سجاتا ہے اور کھتا ہے کہ اسلام، انسان کی آزادی کا خاطر خواہ احترام کرتا ہے اور قرآن کریم دوسروں کے تسلط اور حکومت کی نفی کرتا ہے یھاں تک کہ خود پیغمبر اسلام کسی پر تسلط (حق حکومت) نہیں رکھتے تھے، اور کسی کو مجبور نہیں کیا گیا لھٰذا قرآن کے نظریہ کے مطابق انسان آزاد ہے اور کسی کی اطاعت پر مجبور نہیں ہے ۔
ان تمام شبھات اور مغالطوں کا مقصد، ولایت فقیہ کے اصولوں کو ضعیف اور کمزور کرنا ہے، اسی مقصد کے لئے یہ شبہ ایجاد کیا گیا ہے تاکہ ولایت فقیہ کی اطاعت کو انسانی آزادی کے خلاف قرار دیا جاسکے،اور یہ اسلامی نظریہ کے سراسر مخالف ہے کیونکہ انسان اشرف المخلوقات اور زمین پر خدا کاخلیفہ ہے،ذیل میں ان آیات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کو شبہ کرنے والوں نے اپنا مدرک بنایا ہے
(۱) خدا وند عالم پیغمبر اکرم سے خطاب فرما رہا ہے :
(
فَذَکِّرْإنَّمَاا نْتَ مُذَکِّرٌ لَسْتَ عَلَیْهمْ بِمُصَیْطِرْ
)
”تم تو بس نصیحت کرنے والے ہو، تم کچھ ان پر داروغہ تو ہو نھیں “
اس آیت کے پیش نظر، پیغمبر اسلام سب سے بلند و بالا مقام رکھتے ہیں جب وہ تسلط نہیں رکھتے اور مسلمان آزاد ہیں ان پر پیغمبر کی اطاعت کرنا لازم نہیں ہے اور پیغمبر اکرم کو لوگوں کی زندگی کے بارے میں اظھار خیال کرنے کا حق بالکل نہیں ہے۔
۲۔(
وَمَا جَعَلْنَاکَ عَلَیْهمْ حَفِیْظاً وَمَا ا نْتَ عَلَیْهمْ بِوَکِیْلٍ
)
”اور ہم نے تم کو لوگوں کا نگھبان تو بنایا نہیں ہے اور نہ تم ان کے ذمہ دار ہو“
۳۔(وَمَا عَلَیالرَّسُولِ إلاَّ الْبَلاَغُ
)
”(ہمارے )رسول پر پیغام پہونچادینے کے سوا (اور)کچھ(فرض) نھیں “
۴۔(
إِنَّا هدَیْنَا ه السَّبِیْلَ إمَّا شَاکِراً وَإِمَّا کَفُوْراً
)
”اور ہم نے (انسان) کو راستہ بھی دکھادیا (اب وہ) خواہ شکر گذار ہو خواہ ناشکرا“
۵۔(
وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْیُومِنُ وَ مَنْ شَاْءَ فَلْیَکْفُرْ
)
”(اے رسول) تم کھہ دو کہ سچی بات (کلمہ توحید) تمھارے پروردگار کی طرف سے (نازل ہوچکی ہے) بس جو چاہے مانے اور جو چاہے نہ مانے“
مذکورہ اعتراض کا جواب
اس اعتراض کے جواب میں ہم یہ کھتے ہیں کہ معترض نے جن آیات کے ذریعہ رسول خدا کے تسلط نہ ہونے اور آنحضرت کی اطاعت کو واجت نہ ہونے پر تمسک کیا ہے، ان کے مقابلے میں دوسری ایسی آیات موبھی جود ہیں جو خود معترض کی غلط اور غیر صحیح برداشت کے منافی ہیں ذیل میں ہم ان آیات کو بیان کرتے ہیں :
۱-(
ومَا کَانَ لِمُومِنٍ وَلَا مُومِنَةٍ ِاذَا قَضَی اللّٰه وَرَسُولُه اَمْراً اَنْ یَکُوْنَ لَهمُ الخِیَرَةُ مَنْ ا مرِ هِمْ
)
”اور نہ کسی ایماندار مرد کو یہ مناسب ہے اور نہ کسی ایماندار عورت کو کہ جب خدا اور اس کے رسول کسی کام کا حکم دیں تو ان کے اپنے اس کام (کے کرنے نہ کرنے) کا اختیار ہو “
مذکورہ آیت واضح طور پر خدا و رسول کی اطاعت کو لازم اور ضروری ہونے کو بیان کررہی ہے کہ مومنین کو رسول خدا کی اطاعت سے سر پیچی کرنے کا کوئی حق نھیں ھے۔
۲(
انَّمَا وَلِیُکُمُ اللَّه وَ رَسُولُه وَلَّذِینَ یُقِیمونَ الصَّلاه وَ یُوتُونَ الزَّکاةَ وَهمْ رَاکِعُونَ
)
”(اے ایماندارو) تمھارے مالک سرپرست تو بس یھی ہیں خدا اور اس کا رسول اور وہ مومنین جو پابندی سے نماز ادا کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں “
۳ )۔(
النَِّبیُ ا وْلیٰ بِا لْمَومِنِینَ مِنْ ا نْفُسِهمْ
)
”نبی تو مومنین سے خود ان کی جانوں سے بھی بڑہ کر حق رکھتے ہیں “
دونوں صورتوں میں لوگوں کے بارے میں پیغمبر اکرم کی رائے خود اپنے بارے میں ان کی رائے پر مقدم ہے اس آیت کے سلسلہ میں تمام مفسرین قرآن اس بات پر متفق ہیں ، لھٰذا مسلمانوں کو چاہیئے کہ پیغمبر کی رائے کو اپنی رائے پر مقدم رکھیں اور پیغمبر کی رائے کی مخالفت کرنے کا حق نہیں رکھتے ، البتہ مذکورہ آیت رسول خدا کی اصل ولایت کو بیان کررہی
ھے، اور یہ بیان نہیں کررہی ہے کہ آنحضرت کی ولایت کھاں تک محدود ہے ،اور آنحضرت کی ولایت اور آپ کی رائے کا مقدم ہونا صرف احتمالی امور میں ہے یا اجتماعی امور کے علاوہ مشخص امور کو بھی شامل ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شبہ کرنے والے نے جن آیات سے تمسک کیا کہ رسول اور ان کے جانشینوں کی اطاعت کی نفی کی گئی ہے ان دو طرح کی آیات کے تناقض (ٹکراؤ) کا جواب بھی دے ہوسکتا ہے کہ معترض ان آیات سے بالکل غافل ہو، یا ان آیات کے مطلب کو قبول ہی نہ کرتا ہو لیکن چونکہ ہم قرآن کریم کی آیات میں تناقض اور تعارض کے منکر ہیں لھٰذا ہمیں چاہیے کہ ان آیات کے ظاہری تناقض کو حل کریں اس اہم امر کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان دو طرح کی آیات کو پہلی اور بعد کی آیتوں نیز آیات کے لحن (طرز) اور ان کے مخاطبین کو ملاحظہ کریں تاکہ آیات کے حقیقی مطلب کو سمجھ سکیں ۔
۵۔قرآن پر مختلف توجہ کی دلیل
جس وقت ہم آیات کے پہلے اور دوسرے گروہ پر دقت کرتے ہیں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آیات کا لحن ایک دوسرے سے مختلف ہے:آیات کا پہلا گروہ ان لوگوں کے بارے میں ھے کہ جھنوں نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا ہے اسی وجہ سے خدا وند عالم ان لوگوں کو حقیقت اسلام کی رہنمائی کرتا ہے اور اپنی اطاعت کے فوائد کو بیان کرتا ہے اور جب اپنے پیغمبر جو خدا کی رحمت و مھربانی کے مظھر ہیں مگر بعض لوگوں کے اسلام کو قبول نہ کرنے اور خدا کی اطاعت سے روگردانی کرنے کی وجہ سے پریشان دیکھتا ہے کہ جس کے نتیجہ میں یہ لوگ دو زخ کے راستہ کو اپنے لئے ہموار کرتے ہیں ایسے موقع پر خدا وندعالم اپنے رسول کو نگران و پریشان دیکہ کر ان کی دلجوئی کرتا ہے کہ اے میرے حبیب ان لوگوں کے ایمان نہ لانے سے کیوں غمگین ہوتے ہیں اور اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں ہم نے اسلام کو اس لئے نازل کیا تاکہ لوگ اپنی مرضی اور اپنے اختیار سے اسے قبول کریں وگرنہ اگر ہم چاہتے تو تمام لوگوں کی ہدایت کردیتے اور اس کی قدرت بھی ہم میں ہے:
(
وَلَوْشَاءَ رَبُّکَ لَآ مَنَ فِیْ الا رْضِ کُلُّهمْ جَمِیْعاً ا فَا نْتَ تُکْرِه النَّاْسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُومِنِیْنَ
)
۔
”(اے پیغمبر) اگر آپ کا پروردگار چاہتا ہے تو جتنے لوگ روئے زمین پر ہیں سب کے سب ایمان لے آتے تو کیا تم لوگوں پر زبردستی کرنا چاہتے ہو تاکہ سب کے سب ایماندار ہوجائیں “
خدا وند عالم کا انبیاء کو بھیجنے کا ہدف یہ ہے کہ لوگ حق کو پہچانتے ہوے اپنے لئے سعادت کا راستہ اپنائیں اور اپنے اختیارسے دین حق کو قبول کریں نہ یہ کہ خدا وند عالم ان کو ایمان لانے پر مجبور کرے وہ ایمان جو اکراہ اور اجبار سے حاصل ہو اس کی کوئی قیمت نہیں ہے اور ہمارے پیغام کو پہونچانا تھا لھٰذا آپ ان مشرکین کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے پریشان نہ ہوں ، کیا آپ سوچتے ہیں کہ آپ نے اپنی رسالت کی ذمہ داری پر عمل نہیں کیا، آپ کی رسالت یہ نہیں ہے کہ لوگوں کو خوف اور اکراہ کے ذریعہ مسلمان کریں ، کیونکہ ہم نے آپ کو کفار پر مسلط نہیں کیا ہے تاکہ طاقت کے زور پر ان کو مسلمان کرسکیں آیات کے پہلے گروہ کے مقابلے میں آیات کا دوسرا گروہ ان لوگوں کے بارے میں ہیں کہ جنھوں نے معرفت و شناخت کے ساتھ اپنے اختیار سے اسلام کو قبول کیا ہے ان آیات میں ان افراد کو پیغام دیا جارہاہے کہ اسلامی احکامات پر عمل کریں اور اس پیغمبر کی اطاعت کریں کہ جس کے بارے میں اعتماد رکھتے ہیں کہ یہ پیغمبر اور اس کے تمام احکامات خدا کی طرف سے ہیں اور اس پیغمبر کی رائے کے سامنے سرتسلیم خم کریں اور آنحضرت کے فرمان پر حق انتخاب بھی نہیں رکھتے۔
اسلام قبول کرنے سے پہلے انسان کو حق انتخاب ہے لیکن اسلام کو قبول کرنے کے بعد تمام شرعی احکامات کو تسلیم کرنا ہوگا اس بنا پر وہ لوگ جو خدا کے بعض احکام پر ایمان رکھتے ہیں خدا وند عالم ان کی سخت مذمت کرتا ہے :
(
اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُونَ باِللَّه وَرُسلِه وَیُرِیدُوْنَ اَنْْ یُفَرِّ قُُُوْا بَیْنَ اللّٰه وَرَسُلِه وَیَقُوْلُوْنَ نُومِنُ بِبَعْضٍ وَ نَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَ یُرِیْدُوْنَ ا نْ یَتَّخِذُوْا بَیْنَ ذَلِکَ سَبِیْلاً ا وْلٰئِکَ همُ الْکَافِرُوْنَ حَقّاً
)
”بے شک جو لوگ خدا اور اس کے رسولوں سے انکار کرتے ہیں اورخدا اور اس کے رسولوں میں تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں او رکھتے ہیں کہ ہم بعض (پیغمبروں ) پر ایمان لائے ہیں اور بعض کا نکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس (کفر و ایمان) کے درمیان ایک دوسری راہ نکالیں یھی لوگ حقیقتاً کافر ہیں “
بعض احکام کو قبول کرنا اور دوسرے احکام قبول نہ کرنا اسی طرح بعض قوانین کو قبول کرنا اور دوسرے قوانین سے سرپیچی کرنا گویا اص دین کا انکار کرناہے، کیونکہ اگر دین کو قبول کرنے کا ملاک و معیار خدا وند عالم کے احکامات ہوں تو احکامات الھی کے حساب سے عمل کیا جائے اور خدا کے احکامات تمام احکام و قوانین کو قبول کرنے کے لئے ہیں یھاں تک کہ اگر دین قبول کرنے کا معیار مصالح اور مفاسد ہوں کہ جن کو خدا جانتا ہے، اور اپنے احکامات میں ان کو ملاحظہ کیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا وند عالم تمام مصالح و مفاسد کو جانتا ہے، لھٰذا پھر کیوں بعض احکام کو قبول کیا جائے نتیجہ یہ نکلا کہ وہ شخص خدا پر ایمان رکھتا ہے جو پیغمبر کا بھی معتقد ہو اور آنحضرت کی قضاوت اور ان کے فرمان کو قبول کرے اور دل سے بھی اس پر راضی رہے حتی ناراحتی کا احساس بھی نہ کرے ۔
(
فلَاَ وَ رَبِّکَ لَایُومِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْ کَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا ِفیْ ا نْفُسِهمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْ تَسْلِیْماً
)
”پس (اے رسول) تمھارے پروردگار کی قسم یہ لوگ سچے مومن نہ ہوں گے تاوقتیکہ اپنے باہمی جھگڑوں میں تم کو اپنا حاکم (نہ) بنائیں پھر (یھی نہیں بلکہ) جو کچھ تم فیصلہ کرو اس سے کسی طرح دل تنگ بھی نہ ہوں بلکہ خوش خوش اس کو مان لیں “
حقیقی مومن، رسول خدا کی قضاوت اور فیصلہ کو دل سے قبول کرتاہے اور ناراحتی کا احساس نہیں کرتا اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو پورا یقین ہے کہ یہ رسول خدا کا بھیجا ہوا ہے ان کا حکم خدا کا حکم ہے یہ رسول اپنی طرف سے کچھ نہیں کھتا
(
إِنَّا ا نْزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاْسِ بِمَا ا رَاکَ اللّٰه
)
(اے رسول) ہم نے تم پر برحق کتاب اس لئے نازل کی ہے کہ جس طرح خدا نے تمھاری ہدایت کی ہے اسی طرح لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو “
اگر کوئی اسلام کو قبول کرنے کے بعد کھے، میں اسلامی احکام میں عمل کرنے سے آزاد ہوں اگر چاہوں عمل کروں اگر چاہوں عمل نہ کروں یہ اس حکومت کی طرح ہے کہ جو ڈیموکراسک اور آزاد ہے وہ لوگ اپنی مرضی سے اس حکومت کے انتخاب میں شرکت کرتے ہیں اور اپنے ووٹوں کے ذریعہ وزیر اعظم، رئیس جمہور اور ممبر آف پارلیمینٹ کو منتخب کرتے ہیں لیکن جب یھی حکومت کوئی قانون بناتی ہے تو اس پر عمل کرنے سے ؟
اور جب یہ حکومت ٹیکس لگاتی ہے تو کیا کوئی کھہ سکتا ہے کہ میں نہیں دونگا اصل حکومت اور اس کے ووٹ دینے میں آزاد تھے لھٰذا اب بھی آزاد ہیں کہ اس کے قانون پر عمل کریں یا عمل نہ کریں ان باتوں کو کوئی بھی عقلمند قبول نہیں کرسکتا۔
جی ھاں : اسلام کو قبول کرنے میں کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام دلی اعتقاد کا نام ہے اور طاقت کے زور پر کسی نے اسلام قبول کرلیا تو اس وقت اس سے کھا جائےگا نماز پڑھو اور اگر کوئی کھے کہ میں نماز نہیں پڑھوں گا یا اگر اس سے کھا جائے کہ زکاة دو لیکن زکاة دینے سے انکار کرے، اےک تو کوئی بھی انسان اس کو قبول نہیں کرسکتا کیونکہ اگر کسی نے اسلام قبول کرلیا تو اس کے تمام احکام کو بھی قبول کرنا پڑے گا یہ نہیں ہوسکتا کہ اسلام تو قبول کرلے لیکن اس کے احکامات کو قبول نہ کرے، اور اپنی مرضی کے مطابق اعمال انجام دے کوئی بھی حکومت اس بات کو قبول نہیں کرسکتی کہ انسان اس کو ووٹ دے لیکن عملی میدان میں اس حکومت کے قوانین کو قبول نہ کرے، اجتماعی زندگی میں بنیادی ترین اصل وظائف اور تعھد و پیمان اور وعدہ پر وفا دار نہ ہو تو اجتماعی زندگی بالکل ہی وجود نہیں پاسکتی۔
لھٰذا اگر کوئی یہ کھے کہ میں اسلام کو قبول کرتا ہوں اور پیغمبر پر ایمان رکھتا ہوں لیکن اسلام مے احکامات پر عمل نہیں کرتا اور اس کی حاکمیت اور ولایت کو قبول نہیں کرتا تو ایسے اسلام کا کوئی فائدہ نہیں ہے، کیونکہ اسلام اور پیغمبر کو قبول کرنا اور اطاعت و پیروی نہ کرنے میں ظاہری تناقض پوشیدہ ہے۔
ہماری گفتگو سے یہ واضح و روشن ہوچکا ہے کہ اگر کوئی انصاف کی آنکہ سے آیات کو ملاحظہ کرے اور ان کی دلالت، لحن اور ما قبل و مابعد کو غور سے دیکھے تو قرآن کریم میں کوئی تناقض نہیں ملے گا اور مذکورہ شبہ کی اطاعت اور آزادی میں جو تناقض ہے وہ بالکل ختم ہوجائے گا جیسا کہ قرآن مجید نے بھی اسی کو صحیح کھا ہے )
لیکن جن کے دل مریض ہیں وہ قرآن کریم کو صداقت اور انصاف سے نہیں دیکھتے اگریہ لوگ قرآن کا مطالعہ کرتے تو اس وجہ سے کہ اپنی کج فکری اور منحرف نظریات کی دلائل تلاش کریں ، اور اس وجہ سے کہ قرآن کی آیات کے بعض حصوں کو انتحاب کرتے ہیں اور سیاق و سباق (پہلی اور بعد والی آیتوں کو ) نہیں دیکھتے اور قرآن کے مطابق محکمات قرآن کو چھوڑدیتے ہیں اور متشابھات کی پیروی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں :
(
فَا مَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا َتشَابَه مِنْه ابْتَغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتَغَاءَ تَاوِیْلِه وَمَا یَعْلَمُ تَا وِیْلَه إلاّٰ اللّٰه وَالرَّاسِخُوْنَ فِیْ الْعِلْمِ
)
”پس جن لوگوں کے دل میں کجی ہے وہ انہیں آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جو متشابہ ہیں تاکہ فساد برپا کریں اور اس خیال سے کہ انہیں اپنے مطلب پر ڈھال لیں حالانکہ خدا او ران لوگوں کے سوا جو علم میں بڑے پایہ پر فائز ہیں ان کا اصلی مطلب کوئی نہیں جانتا“
متشابھات کی پیروی کے علاوہ آیات کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہیں اور آیت کے ایکجملہ کو اخذ کرتے ہیں اور ماقبل و مابعد کو چھوڑ دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں ان کو قرآن مجید میں تناقض نظر آتا ہے جیسا کہ مذکورہ شبہ میں ان لوگوں نے آیات کے ما قبل و ما بعد کو چھوڑ تے ہوے اعتراض کیا کہ پیغمبروں کی ولایت آزادی کے مخالف ہے ۔
وہ آیات کہ جن میں رسول اسلام کے تسلط کا انکار کیا گیا ہے وہ کفار کے اسلام قبول کرنے سے پہلے نازل ہوئی تھیں جن میں کھا گیا ہے کہ رسول ان کو طاقت کے زور ں پر اسلام قبول نہ کروائیں یعنی آنحضرت کفار پر تسلط نہیں رکھتے، در حقیقت ان آیات کے مطابق احکام الھی میں عمل کی آزادی اسلام لانے سے پہلے ہے ورنہ تو اسلام قبول کرنے والے ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ پیغمبر اور دوسرے اسلامی احکام کی پیروی کریں اور اس کا وظیفہ ہے کہ تمام اسلامی احکامات کی رعایت کریں ،اسلامی اور الھی قوانین کی توہین نیز دین کی توہین یا تجاہر بہ فسق (کھلے عام گناہوں کا مرتکب ہونا ) کرنے والوں کا شدت سے مقابلہ کرتی ہے یہ در حقیقت جامعہ پر اسلامی حکام کی ولایت ہی تو ہے کہ جو ان کو موظف کرتی ہے کہ ایمان اور اسلام کے تمام لوازمات پر موید ہیں وہ اسلام ہے جو خود انھوں نے اپنی مرضی سے قبول کیا ہے ۔
۶۔مذکورہ شبہ غیر مذہبی طریقہ سے
اب تک اس شبہ کے جواب میں بحث کی گئی ہے جو قرآنی اور دینی لھجہ میں تھا، اور یہ شبہ اس شخص کی زبان سے تھا جو خود مسلمان اور دیندار کھلاتا ہے، اور آیات قران کو دلیل بناتا ہوا یہ نتیجہ اخذ کرتا تھا کہ اسلام کو الزام آور فرمان نہیں دینا چاہیے، یعنی اسلام کو لوگوں کی زندگی میں دخالت نہیں کرنا چاہیے کیو نکہ یہ دخالت خود اسلام کی قبول کردہ آزادی کے خلاف ہے۔
اس وقت اس اعتراض کے بارے میں بحث کرتے ہیں کہ جو غیر مذہبی طور پر کیا جاتا ہے، اس اعتراض میں شبہ کرنے والے کی یہ فکر ہے کہ اسلام کے الزام آوراحکام اور اس کی اطاعت و پیروی کو جوہر انسانیت سے نا سازگار اور منافی قرار دے، اگرچہ یہ شبہ چند طریقوں سے کیا گیا ہے، ہم یھاں پر بعض طریقوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔
منطق کی اصطلاح میں ”اختیار“ انسان کی فصل اور مقوم ہے اور اسی سے جوہر انسانیت کی وجود پاتا ہے، لھٰذا اگر ہم انسان سے اختیار اور اس کی آزادی کو سلب کرلیں اور اس کو مجبور کریں تو گویا ہم اس سے انسانیت کو سلب کررہے ہیں اور گویا اس کو ایک حیوان کی مانند قرار دے رہے ہیں ،اور اس کی گردن میں لگام ڈال کر ادھر اُدھر کھینچ رہے ہیں ، لھٰذا انسان کی اہمیت اس چیز کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کو ”حق انتخاب“ دیں ، اور اسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ دین اس کے لئے الزام آور احکام بیان نہ کرے، اور اگر اس کو پیغمبر، ائمہ اور نائبین ائمہ کی اطاعت کے لئے مجبور کرے، تو اس صورت میں انسانیت کااحترام او راس کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے اور گویا ہم اس کو حیوان کی طرح قرار دیکر ادھر اُدھر لے جارہے ہیں ۔
۷۔”ھیوم “کا اعتراضات اور ان کے جوابات
اول: ہم مذکورہ اعتراض کے دو جواب پیش کریں گے اور چونکہ معترض کا اعتراض ہیوم کے اعتراض کی طرح ہے ، ہیوم کا اعتراض یہ ہے کہ عقل نظری ”است ھا“(ھے) کو درک کرتی ہے اور عقل عملی ”باید ھا ونباید ھا“(فلاں چیز ہونی چاہئے اور فلاں چیز نہیں ہونی چاہئے) کو درک کرتی ہے اور چونکہ عقل نظری کا ،عقل عملی سے کوئی ربط نہیں ہے لھٰذا عقل عملی کی درک شدہ چیزووں (بایدھا ونباید ھا) کو عقل نظری کی بنیاد قرار نہیں دی جاسکتی۔
ھیوم کا اعتراض مغربی فلاسفہ کی قابل توجہ قرار پایا اور انھوں نے اس کو بہت سی علمی چیزوں کی بنیاد قرار دیا، جمہوری اسلامی ایران کے انقلاب کے بعد بہت سے مغربی دانشمندوں نے یہ اعتراض کیا کہ ہم ”است ھا“ سے ”باید ھا“کا نتیجہ نہیں نکال سکتے مثلاً اگر کوئی شخص ایک خاص صفت رکھتا ہے تواسکا نتیجہ یہ نہیں لیا جاسکتا ہے کہ اس طرح ہونا چاہئے یا نہ ہونا چاہئے، کیونکہ ”است ھا“ کی درک کرنے والی عقل نظری ہے اور ”باید ھا“ کو درک کرنے والی عقل عملی ہے، جبکہ ان دونوں میں کوئی ربط نہیں ہے۔
ھیوم کے اس اعتراض کو ماننے والے یہ کھتے ہیں : لوگوں کو کسی کام پر مجبور کرنا ان کی انسانیت کے خلاف ہے، لھٰذا دین کو الزام آور احکامات پیش نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ انسان مختار اور آزاد ہے ، پہلے یہ کھتے ہیں کہ انسان مختار ہے لھٰذا اس کو آزاد رہنا چاہئے ، اور اس کو مجبور نہیں کیا جانا چاہئے اس بناپر انسان کے مختار ہونے سے کہ جو ”است ھا“ میں سے ہے اور جس کو عقل نظری درک کرتی ہے ”باید ونباید“ کہ جس کو عقل عملی درک کرتی ہے کا نتیجہ لیتے ہیں اور ان کی بنیاد یھی تناقض ہے کہ جس کو وہ خود قبول کرتے ہیں کہ ”است ھا“ کے ذریع ”باید ھا“کا نتیجہ نکلے۔
البتہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اگر است ھا کسی چیز کی علت تامہ ہو تو اس وقت اس کا نتیجہ باید ھا لیا جاسکتا ہے لیکن یہ نتیجہ ہماری بحث میں نہیں لیا جاسکتا، کیونکہ انسان کا مختار ہونا ، اس کے مکلف ہونے کی علت تامہ نہیں ہے، بلکہ اختیار تکلیف کے لئے راہ ہموار کرتا ہے، اور کسی کام پر تکلیف اور اس پر مجبور کرنا یا کسی کام سے روکنا کسی خاص مصلحت یا مفسدہ کی وجہ سے ہوتا ہے جس کے ضمن میں کام ہوتا ہی ہے، لھٰذا کسی کام پر مجبور کرنے میں اس کی مصلحت چھپی ہوتی ہے اور کسی کام سے روکنے میں اس کا ضرر اور نقصان پوشیدہ ھتا ہے۔
۸۔دوسرا جواب: آزادی مطلق اور لامحدود نہیں ہے
اگر ہم اس شبہ کو مان بھی لیں اور کھیں کہ چونکہ انسان مختار ہے لھٰذا اس کو کسی کام پر مجبور نہیں کیا جاسکتا اور کوئی بھی حکومت انسان کے لئے الزامی احکام نافذ نہیں کرسکتی کیوں کہ انسان آزاد ہے جس طرح چاہے عمل کرے اور آزادی کا سلب کرنا ہے اور آزادی کا سلب کرنا یا انسانیت کا سلب کرنا لھٰذا کوئی بھی قانون قابل اعتبار نہیں ہے اور جنگلی راج اور عسر و حرج کو قبول کرلیں ۔
لیکن ہم یہ عرض کریں گے کہ کس چیز کے الزام اجبار ہی کے ذریعہ قانون قانون ہوسکتا ہے قانون اس وقت قانون ہوگا کہ جب اپنے ہمراہ الزام و اجبار لیے ہو کوئی بھی محکمہ ہو جب اس کے قوانین اور دستورالعمل کو قبول کرلیا جائے تو اس کو ہر حال میں عمل کرنا ہی ہوگا یہ نہیں ہوسکتا کہ قانون تو قبول کرلے لیکن اگر وہ قانون اس کے نقصان کا باعث ہو تو اس پر عمل نہ کرے اور اپنے نفع نقصان کے بارے میں سوچے اس طرح تو وہ نظام محکمہ چل ہی نہیں پائے گا اور اس محکمہ کا دیوالیہ نکل جائے گا جب تک قانون قانون بنانے والے کی نظر میں مقید ہے سب لوگ اس کی اطاعت کریں یھاں تک کہ اگر اس قانون میں کوئی خامی ہو تو اس کی تلافی کرنا قانون گذار کی ذمہ داری ہے ، اور دوسروں کو قانون میں خامی کا بھانہ بناکراور اس پر عمل کرنے سے فرار کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
۹۔حاکمیت اور انسان کے خلیفة اللّٰھی عظمت کے درمیان تعارض ایک شبہ
ایک دوسرا شبہ یہ کھا جاتا ہے کہ انسان قرآن کے مطابق خلیفہ اللہ ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان روئے زمین پر خدا کا جانشین ہے اور خدا کی طرح عمل کرتا ہے جس طرح خدا نے اس دنیا کو خلق فرمایا ہے اس طرح انسان بھی بہت سی چیزوں کو پیدا کرے اور جس طرح خدا وند عالم اپنی مرضی کے مطابق عمل کرتا ہے تو انسان بھی جس کے اختیار میں زمین ہے وہ بھی اپنی مرضی کے مطابق عمل کرے۔
اعتراض کا جواب
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ پہلے خلافت الہی کے معنی صحیح طرح سے سمجھ لیے جائیں اور توجہ رہے کہ جس معنی میں حضرت آدم علیہ السلام کو خلیفہ اللہ کھا گیا ہے
خدا وند عالم اس سلسلہ میں ارشاد فرماتا ہے:(
وَاِذْقَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ اِنِّیْ جَاْعِلٌ فِی الا رْضِ خَلِیْفَةً قَالُوا ا تَجْعُلُ فِیْهامَنْ یُفْسِدُ فِیْها وَیُفْسِکُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحََمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ اِنِّی ا عْلَمُ مَالَاتَعْلَمُوْنَ
)
”یاد کیجئے اس وقت کو جب آپ کے پروردگار نے ملائکہ سے کھا میں روئے زمین پر جانشین (نمائندہ )بنانے والا ہوں تو اس وقت فرشتوں نے کھا کیا تو ایسے کو خلیفہ اور جانشین بنائے گا جو زمین پر خونریزی و فساد برپا کرے ہم تیری تسبیح و تحلیل کرتے ہیں تب اس وقت خدا وند عالم نے فرمایا جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے “
یہ مقام تمام اولاد آدم کے لئے نہیں ہے کیوں کہ قرآن بعض اولاد آدم کو شیطان کھتا ہے ارشاد ہوتا ہے :
(
وَکَذَالِکَ جَعَلْنَالِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوّاً شَیَاطِیْنَ الإنْسِ وَالْجِنِّ
)
”اور(اے رسول) جس طرح یہ کفار تمھارے دشمن ہیں اسی طرح (گویا) ہم نے (خود آزمائش کے لئے) شریر آدمیوں اور جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا“اس میں کوئی شک نہیں کہ شیطان ان افراد میں نہیں ہے کہ جس کو ملائکہ سجدہ کرتے اس موقعہ پر خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :
(
وَإذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَائِکَةِ اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَراً مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَاءٍ مَسْنُوْنَ فَإِذَا سَوَّیْتَه وَنَفَخْتُ فِیْه مِنْ رُوْحِی فَقَعُوْا لَه سَاجِدِیْنَ
)
”اور (اے رسول وہ وقت یاد کرو) جب تمھارے پروردگار نے فرشتوں سے کھا کہ میں ایک آدمی کو خمیر دی ہوئی مٹی سے جو سوکہ کر کھن کھن لولنے لگے پیدا کرنے والا ہوں تو جس وقت میں اس کو ہر طرح سے درست کرچکوں او راس میں اپنی (طرف سے ) روح پہونک دوں تو سب کے سب اس کے سامنے سجدہ میں گرپڑنا“
خلیفة اللہ ہونا بہت سے اہم شرائط رکھتا ہے جن میں سے کچھ شرائط مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔اسماء کا علم
(
وَعَلَّمَ آدَمَ الا سْمَاءَ کُلَّها
)
”اور (آدم کی حقیقت ظاہر کرنے کی غرض سے) آدم کو سب چیزوں کے نام سکھادئے“
۲۔اللہ کا خلیفہ روئے زمین پر عدالت و انصاف کو جاری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو
لھٰذا وہ انسان جس کی عادت قتل و غارت اور خونریزی ہو اور کوئی بھی ظلم کرنے سے نہ گھبراتا ہو وہ خلیفہ اللہ نہیں ہوسکتا (معاذاللہ ) کیا خدا وند عالم ظالم ہے کہ اس کا خلیفہ اور جانشین بھی ظالم ہو ؟اللہ کا خلیفہ وہ ہے جو اپنی فردی اور اجتماعی زندگی میں خدائی حفاظت کا اظھار کرے نہ یہ کہ جو دو پیروں سے انسانی شکل میں چلتا ہو وہ خلیفتہ اللہ ہے لھٰذا وہ افراد جو لوگوں کو گمراہ کرنے اور حکومت اسلامی کو درہم و برہم کرنے میں لگا ہو وہ افراد نہ یہ کہ اشرف المخلوقات نہیں ہیں بلکہ انسانی شکل میں شیطان ہیں جن کو خدا وند عالم حیوانوں سے بھی بدتر کھتاہے ان لوگوں کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
(
إِنَّ شَرَّ الدَّوَابُّ عِنْدَ اللّٰه الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ
)
(۱۸ (
”اس میں شک نہیں کہ زمین پر چلنے والے تمام حیوانات سے بدتر خدا کے نزدیک وہ بھر ے گونگے (کفار) ہیں جو کچھ نہیں سمجھتے“
معترض کھتا ہے کہ انسان کی عظمت و بزرگی اس کے کردارسے ہے اور جو چیز یں انسان کی آزادی میں مانع ہوں وہ قابل قبول نہیں ہے یہ ایک دھوکہ والانعرہ ہے جو مغرب زمین میں لگایا جاتا ہے اور دوسرے ملکوں میں بھی اسے قبول کیا جاتا ہے جبکہ اس کے لوازمات اور اثرات پر توجہ نہیں کی جاتی اور نعرہ پر پا فشاری کی جاتی ہے بے شک اس نعرہ کے جوابمیں کہ جس میں بہت سے اغراض و مقاصد پوشیدہ ہیں ایک تفصیلی بحث کی ضرورت ہے اور انشاء اللہ بعد میں اس سلسلہ میں بحث کی جائے گی لیکن اس وقت ااجمالی طور پر یہ سوال کرتے ہیں کہ انسان کے مطلق طور پر آزاد ہونے کا مقصد کیا ہے اور کسی محدود یت کے قائل نہ ہونے سے آپ کی مراد کیا ہے ؟ کیا آپ کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے لئے کوئی بھی قانون ضروری نہیں ہے ؟
اس کو تو کوئی بھی عاقل انسان قبول نہیں کرسکتا کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہر کام میں آزاد ہے اور جوآزاد ہے وہ کسی کو قتل بھی کرسکتا ہے کسی کی عزت بھی لوٹ سکتا ہے لوگوں میں نا امنی بھی پھیلا سکتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ سب سے نقصان یا ضرر خود اس نظریہ رکھنے والے کو پہونچ سکتا ہے اور کیا ایسی آزادی رکھنے والوں کے درمیان زندگی بسر کی جاسکتی ہے ؟ لھٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان کی آزادی نا محدود نہیں ہے اور اور انسان ایسا آزاد نہیں ہے کہ جو بھی چاہے اسے انجام دے اب جبکہ روشن ہوچکا ہے کہ آزادی محدود اور مشروط ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آزادی کے حدود کو کون معین کرے ؟ اور آزادی کی حد کھاں تک ہے ؟
اور اگر طے یہ ہو کہ ہر انسان آزادی کی حد کو معین کرے تو اس کا نتیجہ بھی آپ کے سامنے ہے کہ ہر انسان اپنی مرضی سے عمل کرے اور یھاں پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جو مطلق آزادی پر ہوتا ہے لھٰذا ضروری ہے کہ آزادی کی حد کو معین کرنے کے لئے ایک قانونی مرجع ہونا چاہئے اس صورت میں اگر کوئی قبول کرتا ہے کہ خدا ہے اور انسان کے لئے نفع و نقصان کو خود اس سے بہت ر جانتاہے اور انسان کی زندگی سے خدا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے اور وہ تو صرف اپنے بندوں کی بھلائی چاہتا ہے تو ایسے شخص کے لئے آزادی کی حد کو بیان کرنے کے لئے خدا کے علاوہ دوسرا کون ہوسکتا ہے ؟ نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کے اعتقادی اور فکری مسائل میں کوئی تناقض نہیں ہے کیونکہ مسلمان اس خدا کو مانتے ہیں کہ جو انسان کے لئیے نفع ونقصان کو خود اس سے بہت ر جانتا ہے اور بہت ر طور پر جانتا ہے کہ انسان کی بھلائی کس چیز میں ہے لھٰذا وہ اس آزادی کی حد کو بیان کرے لیکن اگر کوئی خدا پر ایمان نہ رکھتا ہو یا اگر خدا پر ایمان تو ہو لیکن اس کو آزادی کی حد معین کرنے والا نہ مانے اور یہ کھے کہ انسان خود آزادی کی حد کو معین کرسکتا ہے تو ایسی صورت میں ھزاروں مصیبتوں میں مبتلا ہوجائے گا کیونکہ تمام انسان ایک نظریہ پر متفق نہیں ہوپائیں گے اور اگر اکثریت نے آزادی کی حد کو معین کیا اور اقلیت نے اس کو قبول نہ کیا وہ کس طرح اپنے حقوق تک پہونچ سکتے ہیں لھٰذا یہ ماننا پڑے گا کہ اگرچہ آزادی ایک خوبصورت اور دل پذیر لفظ ہے لیکن مطلق اور لا محدود نہیں ہے اور کوئی بھی مطلق آزادی کو قبول نہیں کرسکتا۔
حوالے