چھٹا جلسہ
اسلام میں آزادی
۱-تاریخ انسان میں تحویل و تحول کی بنا پر ایک شبہ
یہ شبہ انسانی تاریخ، تمدن اور کلچر کے تحول و تبدل نیز اجتماعی نظام میں تغییر و تبدیلی کی بنا پر ہوتا ہے، اور یہ طے شدہ بات ہے کہ انسانی اجتماعی زندگی مختلف مرحلوں سے گذری ہے، اور ایک زمانہ میں ”غلامی“ کا مسئلہ رائج تھا، اور انسانی کی ترقی اسی میں سمجھی جاتی تھی کہ کمزور اور ناتوان لوگ دوسروں کی غلامی کریں ، اور ان کی ہر ممکن خدمتگذاری کرتے رہیں ، ظاہر سی بات ہے کہ اس زمانے میں انسان و خدا جیسا غلام اور آقاکے درمیان ہوتا تھا، کیونکہ اس زمانے میں یہ رائج تھا کہ بعض طاقتور لوگ مولا اور آقا اور بعض کمزور لوگ ان کے بندے اور غلام بن کر رہیں ، اور انسانوں کے درمیاں رابطہ بھی عبد اور آقا کے لحاظ سے سمجہا جاتا تھا، اس بنا پر جس طرح ضعیف اور کمزور لوگ عبد اور بندے اور ذلیل و پست سمجھے جاتے تھے، اس طرح لوگ خدا کے عبد اور بندے سمجھے جاتے تھے، اور خداوند ان کا مولا و آقا، آج جب بندگی اور غلامی کا دور ختم ہو چکا ہے، لھٰذا اس وقت کا قیاس اور معیار اس زمانے میں نہیں لانا چاہئیے-
آج انسان کسی بھی زبردستی کو قبول نہیں کرتا، اور اپنے کو آقا سمجھتا ہے نہ کہ بندھ، لھٰذا ہمیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ ہم بندہ ہیں اور خدا مولا، آج ہم خود کو اللہ کا خلیفہ مانیں ، اور جو خداکا جانشین ہو اس کو بندگی کا احساس کیسا، گویا خداوند عالم سے خدائی ختم ہو چکی ہے اور یہ حضرت اس کی مسند پر بیٹھے ہوئے ہیں ، اور جو چاہیں کریں جس طرح کوئی حاکم کسی کو اپنا قائم مقام بنائے تو وہ اس کے تمام اختیارات کا مالک بن جاتا ہے، اور اس کے کام کے کام ہوتے ہیں اور ان کے درمیان حاکم و فرمانبردار کا رابطہ نہیں ہے، اور قائم مقام کے کاموں کی کوئی باز پرس نہیں ہونا چاہیے-
اس زمانہ میں جبکہ ماڈرن اور جدید تمدن کا دور دورا ہے، اور ہماری زندگی ایک بلند مرتبہ پر پہونچ چکی ہے تو ہم بندگی اور غلامی کی زندگی کے احکام (اطاعت و فرمانبرداری) کو قبول نہیں کر سکتے، اور آقا و مولیٰ کے پیچھے پیچھے گھومتے رہیں ، تکلیف اور اطاعت کا زمانہ پیچھے رہ گیا ہے، اور اگر قرآن میں تکالیف اور دوسرے فرمان موجود ہیں تو وہ غلامی کے زمانے کے ہیں ، کیونکہ جس وقت رسول اکرم مبعوث ہو ئے، غلامی کا زمانہ تھا، اور اسلام کا پہلا دور، خدا ورسول اور لوگوں کے درمیان رابطہ کیلئے مناسب تھا-
کبھی یہ کھا جاتا ہے کہ انسان تکلیف کا طالب نہیں ہے، لیکن حقوق کا طالب ہے اور اس کے ذہن میں کبھی یہ نہیں آتا کہ اس پر کوئی فریضہ اور ذمہ داری ہے، تاکہ ان کو انجام دے سکے، انسان کو چاہئیے کہ وہ خدااور دوسروں سے اپنے حقوق کو حاصل کرے-
خلاصہ یہ کہ جو لوگ پیغمبر، آئمہ اور ان کے جانشینوں کی اطاعت کا دم بھرتے ہیں یہ چودہ صدی پہلے کسی اجتماعی زندگی کا تھا، جبکہ آج کی اجتماعی زندگی بالکل بدل چکی ہے، اور فرائض اور ذمہ داری کی کوئی بات نہیں کرتا بلکہ انسانی حقوق کی باتیں ہوتی ہیں ، انسان کو یہ سمجہانا ضروری ہے کہ تجھے یہ حق ہے کہ جس طرح بھی چاہے زندگی کرے، تجھے اپنی مرضی کے مطابق کپڑے پہننے کا حق ہے، اور جس طرح بھی چاہے اجتماعی زندگی کو بسر کرےْ-
۲-ہمارا جواب
ہم مذکورہ اعتراض کا جواب ”تکوینی“ اور ”تشریعی“ لحاظ سے پیش کرتے ہیں ، کیونکہ ہمارے سامنے دو مقام ہیں : تکوینی مقام، تشریعی مقام، بعبارت دیگر مقام واقعیت اور ”ھست ھا“(ھے) اور دوسرے مقام تکلیف ”بایدھا“ (ھونا چاہیے) یعنی عالم واقعیات ، اور عالم ارزشھا (قیمت اور اہمیت) (اگرچہ مذکورہ الفاظ کے ایک ہی معنی ہیں ، البتہ مختلف لوگوں کو سمجہانے کیلئے مختلف الفاظ ہیں ) اب ہمیں یھاں دیکھنا ہے کہ تکوینی لحاظ سے ہماری خدا سے کیا نسبت ہے، کیونکہ اگر کوئی خدا کو مانتا ہی نہ ہو، تو اس کی نظر میں خدا سے کوئی نسبت بے فائدہ ہے-
لیکن اگر کوئی شخص خدا پر اعتقاد رکھتا ہو یا کم سے کم یہ قبول کرتا ہو کہ اس کا پیدا کیا ہوا ہے، اور خدا کی خالقیت کو قبول کرتا ہے (خدا کو ماننے کا یہ سب سے کم درجہ ہے) اور اپنے کو خدا کی مخلوق جانتا ہو، البتہ خدا کی خالقیت پر اعتقاد رکھنے سے انسان موحد (خدا کو ایک مانے والا) نہیں بنتا، لھٰذا خدا کی تکوینی اور تشریعی ربوبیت کا قائل ہونا ضروری ہے، توحید در خالقیت کی بنا پر کسی کا یہ کہنا کہ وہ خدا کا بندہ اور اس کا مملوک نہیں ہے خود اس کے خداوند عالم کی خالقیت کے اعتقاد سے ٹکراتا ہے، توحید کا پہلا قدم اپنے کو خدا کی مخلوق تسلیم کرنا ہے، اور ہمارا وجود خدا کا عطا کردہ ہے، اور یہ وہی عبودیت ہے، عبد یعنی مملوک، دوسری کی ملکیت ہونا، لھٰذا اگر کوئی اپنے کو مسلمان اور خدا کا معتقد کھلاتا ہے ، لیکن اپنے کو خدا کی عبودیت اور مملوکیت نہیں مانتا، گویا اس کی گفتگو میں واضح تناقض ہے، کیونکہ خدا پر اعتقاد ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ ہم خود کو اس کی مخلوق، عبد اور مملوک سمجھیں ، اس وجہ سے تمام مسلمان اپنی بہت رین عبادت نماز میں کھتے ہیں ”اشھد انّ محمدًا عبد ہ و رسولہ" اور یہ بات مسلّم ہے کہ انسان کیلئے سب بہت رین عظمت اور مقام خدا کا بندہ ہونا ہے، اس وجہ سے خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے:
(
سُبْحَانَ الَّذِی ا سْریٰ بِعَبْدِه مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْا قْصا-
)
”وہ خدا (ھر عیب سے) پاک وپاکیزہ ہے جس نے اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام (خانہ کعبھ) سے مسجد اقصیٰ(آسمانی مسجد) تک کی سیر کرائی“
جی ھاں ! خدا کی بندگی اور اس کی عبودیت کی اہمیت کے پیش نظر قرآن میں اس خوبصورت لفظ ”عبد“ اور اس کے دوسرے مشتقات کو استعمال کیا گیا ہے، اور انسان کیلئے بہت رین اور بلند درجہ کو ”عبودیت“ شمار کیا گیا ہے:
(
یَا ا یَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ اِرْجِعِی اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَرْضِیَّةً فَادْخُلِی فِی عِبَادِی
)
”اور کچھ لوگوں سے کھے گا) اے اطمنان پانی والی جان اپنے پر وردگار کی طرف پلٹ آتو اس سے خوش ہے وہ تجہ سے راضی ہے تو میرے (خاص بندوں میں شامل ہوجا“
تشریعی لحاظ سے دوسرا جواب
دوسرا جواب تشریعی لحاظ سے یہ ہے کہ انسان کا آزاد ہونا اور قانون ذمہ داری قبول کرنا آپس میں سازگار نہیں ہے کہ جس کا نتیجہ وحشت ، ظلم و بربریت اور عسرد حرج ہے، اور یہ نتیجہ نکالنا کہ انسان آزاد ہے جس طرح چاہے عمل کر سکتا ہے، اگرچہ اس نے اس قانون کو ووٹ دیا ہو لیکن اس پر عمل کرنے سے انکار کرے،ایسا تو جنگل میں بھی نہیں ہوتا کیونکہ وہاں پر بھی حیوانوں کے عمل کرنے کے لئے خاص قوانین ہوتے ہیں -
لھٰذا جب ہم تمدن اور مدنیت کا دم بھرتے ہیں تو ہمیں قبول کرنا پڑے گا کہ مدنیت کا سب سے پہلا رکن یہ ہے کہ انسان قوانین پر عمل کرنے کا ذمہ دار ہے، اور ذمہ داری اور مسئولیت کو قبول نہ کرنے سے نہ صرف یہ کہ تمدن جدید کا ادعا نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اپنے کو وحشی گری کی سب سے نیچی کھائی میں غلطاں پائیں گے-
دوسرے الفاظ میں یوں بیان کیا جائے کہ انسان کی فصل مقوم عقل ہے، اور عقل کا حکم یہ ہے کہ انسان ذمہ داری کو قبول کرے، اور خدا امور کو انجام دینے کا مکلف سمجھے اور بعض چیزوں سے پرہیز کرے، لھٰذا اگر کوئی محلہ اور سڑک پر اپنی مرضی کے مطابق کپڑے پہنے یا لوگوں کے سامنے برہنہ آئے اور جو بھی منہ میں آئے وہ کھتا پھرے، تو اس صورت میں کیا کوئی اس کو عاقل تصور کر سکتا ہے؟ یا اس کو وحشی اور دیوانہ کھا جائے گا؟ اور اگر کوئی اس سے سوال کرے کہ تم ایسے کام کیوں کرتے ہو؟ اب اگر اس کے جواب میں کھے کہ میں چونکہ آزاد ہوں اور آزادی مقوم انسان ہے،لھٰذا میں اپنی مرضی کے مطابق جو چاہوں کروں ، توکیا کوئی انسان اس کی ان باتوں کو قبول کر سکتا ہے؟
لھٰذا چونکہ انسان کی فصل مقوم عقل ہے، اور اس کا عقلی لازمہ یہ ہے کہ انسانی ذمہ داری اور قانون کو قبول کرے، کیونکہ اگر قانون نہ ہو تو مدنیت نہیں ہو سکتی، اور اگر مسئولیت اور ذمہ داری نہ ہو تو انسانیت بھی نہیں آسکتی، انسان کے آزاد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان تکویناً انتخاب کی قدرت رکھتا ہے، نہ کہ تشریعاً قانون اور الزام آور اور امکانات کو قبول نہ کرے، اور اپنی اجتماعی زندگی میں کسی حد وحدود کا قائل نہ ہو، پس نتیجہ یہ نکلا کہ انسان کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ دین کی ولایت آزادی کے مخالف ہے کیونکہ انسان کی فصل مقوم آزادی ہے جس سے انسان کا خدا کا جانشین ہونا لازم آتا ہے-!
۳-گذشتہ اعتراض، ایک دوسرے لحاظ سے
بعض لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ انسان کی زندگی میں مختلف طریقوں سے ترقی اور پیشرفت ہوتی ہے، اور جیسا کہ انسانی جدید تمدن میں نئے طریقہ کی نظریات اور تفکرات پیدا ہوئے ہیں ،ایسی صورت میں دین کو انسانی حقوق بیان کرنے چاہییں ، نہ یہ کہ دین تکالیف اور الزام آور احکامات بیان کرے،گذشتہ زمانے میں چونکہ غلامی ، بردگی اور ظلم و جور کا زمانہ تھا اور جو بھی ذمہ داری اور مسئولیت ان کو دی جاتی تھی وہ اس کو قبول کرتے تھے، لیکن آج وہ زمانہ نہیں ہے آج ہر انسان اپنے کوآقا سمجھتا ہے، آج انسان ذمہ داری کو قبول نہیں کرتا بلکہ اپنے حقوق لینا چاہتا ہے-
در حقیقت آج کا ماڈرن زمانہ ہمارے اور گذشتہ (غلامی اور بردگی کو قبول کرنے والے) لوگوں میں ایک بہت بڑی دیوار ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ آج ماڈرن انسان نے گذشتہ زمانے کی طرح ذمہ داری کو قبول کرنے کو بند کر دیا ہے، اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا ہے، آج تکالیف اور ذمہ داری کو قبول کرنے کی باتیں کرنا ماضی کی طرف پلٹتا ہے، آج کے اس زمانے نے جس میں حقوق بشر کا نعرہ لگایا جاتا ہے، ڈیموکراسی کی برکت سے انسان کو استشار اور غلامی کی قید و بند سے آزاد کر دیا ہے، آج کا دور وہ دور ہے کہ جس میں جو ادایان تکالیف اور ذمہ داری کی باتیں کرتے ہیں ان کو بالائے طاق رکہ دیا جائے، اور حقوق بشر کا نعرہ لگانے والے دین کو تلاش کیا جاتا ہے-
اعتراض کرنے والے اپنے ہدف اور مقصد تک پہونچنے کیلئے نیز سماج بالخصوص جوانوں کو اپنے طرف جذب کرنے کیلئے ایسی باتیں کرتے ہیں اور مختلف طریقوں کا سھارا لیتے ہیں اور اپنی باتوں کو خوبصورت و دلنشیں انداز اور مختلف طریقوں سے جاشنی لگا کر پیش کرتے ہیں ، لیکن ہم ان بے ڈھنگے سوالوں کا صحیح انداز میں جواب پیش کرتے ہیں -
۴-ہمارا جواب
معترض کا مطلق طور پر یہ کہنا کہ آج کا انسان اپنے حقوق کا مطالبہ کرتا ہے، تکالیف و ذمہ داری کا مطالبہ نہیں کرتا، یہ بات بیھودہ اور باطل ہے جیسا کہ فلاسفۂ حقوق بھی کھتے ہین! انسان اس وقت کسی چیز کا مستحق نہیں ہوتا جب تک وہ دوسروں کیلئے کوئی کام انجام نہ دےے، مثال کے طورپر اگر شہری حضرات کو صاف و سالم ہوا میں رہنے کا حق ہے تو دوسرے لوگوں پر ذمہ داری ہے کہ وہ ہوا کو آلودہ اور خراب نہ کریں ، پر دوشن نہ پھیلائیں ، اس طرح اگر کسی کو اپنے مال میں تصرف کا حق ہے تو دوسروں پر ذمہ داری ہے کہ اس کے مال میں دست درازی نہ کریں ، ورنہ اپنے مال سے کوئی بھی بھرہ مند نہیں ہوسکتا، لھٰذا اگر اس کےلئے کوئی حق ثابت ہوتا ہے تو وہ اس کے بدلہ کوئی کام انجام دے، اگر کسی کو یہ حق ہے کہ وہ سماج کی تیار کردہ چیزوں کو استعمال کرے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی کسی طریقہ سے سماج کی خدمت کرے، اور مسئولیت و ذمہ داری کو قبول کرے، اور دوسروں پر بار نہ بنے،لھٰذا حق اور تکلیف ایک دوسرے کے لازم وملزوم ہیں ، لھٰذا یہ کہنا کہ انسان صرف حقوق کا طالب ہو، اور تکالیف کو قبول نہ کرتا ہو،یہ بات قابل قبول نہیں ہے-
توجہ رکھنا چاہیے کہ الٰھی اور غیر الٰھی تمام دانشمندان اور فلاسفۂ حقوق نے کلی طور پر ذمہ داری اور مسئولیت کی نفی نہیں کی ہے، بلکہ تکالیف اور ذمہ داری پر یقین رکھتے ہیں ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ معترض کی تکلیف سے مراد الٰھی تکلیف ہے، جس کا نچوڑ یہ ہے کہ خداوند عالم کو ہم پر تکلیف و ذمہ داری نہیں کرنا چاہیے، ورنہ تو ان کی نظر میں حق کے مقابلہ میں تکلیف ہونے سے گریز نا ممکن ہے کیونکہ تکالیف کو تمام عقلا ء اور دانشمندوں نے قبول کیا ہے ہماری بات کی تائید یہ ہے کہ خود انھوں نے صاف صاف کھا ہے کہ عبد اور مولیٰ کے درمیان رابطہ اور مولیٰ کی طرف سے حکم صادر ہونا اور اس کی اطاعت کا ضروری ہونا غلامی اور بردگی کلچر کے مناسب ہے-
۵- خدا کی نافرمانی تاریخ کی نظر میں
صرف آج کا ماڈرن انسان ہی خدا کی اطاعت اور تکالیف سے فرار اختیار نہیں کرتا بلکہ تاریخ میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جنھوں نے شیطانی وسوسوں کی خاطر خدا کی نافرمانی اور قانون شکنی کی ہے، یہ کہنا کھ:
انسان حقوق کا طالب ہے تکالیف کا نھیں ، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ شروع ہی میں حضرت آدم (ء)کے فرزند قابیل نے خدا کی معصیت کی اور کھلے عام تکالیف اور الٰھی قوانین سے سرپیچی کی، اور قانون شکنی کرتے ہوئے اپنے بھائی ھابیل کو قتل کرڈالا-
(
وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَا ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِّ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَاناً فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِهما وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْا خَرِ قَالَ لَا قْتُلَنَّکَ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰه مِنَ الْمُتَّقِیْنَ - - - -
)
"(اے رسول) تم ان لوگوں سے آدم کے دو بیٹوں (ھابیل وقابیل) کا سچا واقعہ بیان کردوکہ جب ان ددنوں نے خدا کی بارگاہ میں نذر پیش کی تو ان میں سے ایک (ھابیل) کی (نذر تو) قبول ہوآئی اور دوسرے (قابیل) کی (نذر) نہ قبول ہوئی تو (مارے حسد کے ھابیل سے) کھنے لگا میں تجھے ضرورمار ڈالوں گا، اس نے جو اب دیا کہ (بھائی اس میں اپنا کیا بس ہے) خدا تو صرف پرہیزگاروں کی (نذر) قبول کرتا ہے “
قرآن مجید میں پیغمبروں کے واقعات اس بات کی حکایت کرتے ہیں کہ اکثر لوگوں نے اپنے زمانے کے بنی کو جھٹلایا، اور نہ صرف یہ کہ ان کی بات پر لبیک نہیں کھا بلکہ ان پر تھمت و بہت ان لگاتے تھے اور ان کا مسخرہ کرتے تھے، یھاں تک کہ ان کو قتل بھی کردیتے تھے، یا ان کو شہر بدر کر دیتے تھے اگر کوئی بنی ان کیلئے مفید باتیں بیان کرتا تھا، مثلاً قرآن کے مطابق لوگوں کو کم فروشی سے روکتا تھا،جیسے قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
(
لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ ا شْیَائَهمْ - -
)
”اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو“ ان کے جواب میں کھتے تھے:
(
قَالُوا یَا شُعَیْبُ ا صَلَاتُکَ تَا مُرُکَ اَنْ نَتْرُکَ مَا یَعْبُدُ ءَ ابَائُنَا اَوْ اَنْ نَفْعَلَ فِیْ ا مْوَالِنَا مانَشَاءُ - - - -
)
”وہ لوگ کھنے لگے اے شعیب کیا تمھاری نماز (جسے تم پڑھا کرتے ہو) تمھیں یہ سکھاتی ہے کہ جن (بتوں ) کی پرستش ہمارے دادا کرتے آئے ہیں انہیں ہم چھوڑ بیٹھیں ،یا ہم اپنے مالوں میں جو کچھ چاہیں کر بیٹھیں “
ممکن ہے اس موقع پر کوئی کھے کہ تاریخ میں انبیا و اولیا الھی کے مقابلے کی وجہ بت پرستی، شرک اور شیطان کی پیروی تھی اور ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ انسان کسی بھی معبود کی اطاعت کی طوق اپنی گردن سے نکال دے، اور بتوں اور شیطان کی پیروی بھی نہ کرے، لیکن یہ کہنا بھی اولیا الٰھی کی نظر میں باطل اور مردود ہے،کیونکہ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وحی الٰھی کے مطابق انسان ایسے راستہ پر پہونچ جاتا ہے کہ یا خدا کی اطاعت کرے یا طاغوت (شیطان) کی اطاعت کرے، اور وہ کسی کی بھی اطاعت نہ کرے اس کے لئے محال، اور اگرکوئی یہ نعرہ لگائے کہ میں کسی کا بندہ اور غلام نہیں ہوں ، در حقیقت ایسا شخص طاغوت اور اپنی ہوائے نفس کا غلام ہوتاہے اس وجہ سے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
(
اَللَّه وَلِیُّ الَّذِیْنَ ءَ امَنُوا یُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلٰی النُّورِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا ا وْلِیَاوهُمُ الطَّاغُوتَ یُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ اِلٰی الظُّلُمَاتِ—
)
”خدا ان لوگوں کا سرپرست ہے جو ایمان لاچکے کہ انہیں (گمراہی کی) تاریکیوں سے نکال کر (ھدایت کی) روشنی میں لاتا ہے اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے سرپرست شیطان ہیں کہ ان کو (ایمان کی) روشنی سے نکال کر (کفر کی) تارکیوں میں ڈال دیتے ہیں “
دوسری جگہ خداوند عالم ارشاد فرماتاہے:
(
ا لَمْ ا عْهدْ اِلَیْکُمْ یَا بَنِی آدَمَ اَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّیْطَانَ اِنَّه لَکُمْ عَدُوٌّ مُبِیْنٌ ، وَاَنِ اعْبُدُونِی هٰذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِیمٌ--
)
-
”اے آدم کی اولاد کیا میں نے تمھارے پاس یہ حکم نہیں بھیجا کتھا کہ (خبردار)شیطان کی پرستش نہ کرنا وہ یقینی طور پر تمھارا کھلم کھلا دشمن ہے اور یہ کہ (دیکھو) صرف میری عبادت کرنا یھی (نجات کی) سیدھی راہ ہے “
اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر شیطان کی عبادت چھوڑ ی جائے تو پھر کسی دوسرے کی عبادت اور اطاعت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کو چاہیے کہ خدا کی عبادت کرے، جس طرح کہ کلمہ میں ”لاالٰہ" کے بعد ”الااللہ" ہے-
اس بنا پر جن لوگوں نے وحی پر توجہ کی اور خواب غفلت سے بیدار ہوئے وہ اس نتیجہ پر پہونچے کہ اس خدا کی عبادت کریں جو ان کا خالق اور حقیقی مالک ہے، اور جس کے ھاتہ میں ان کی زندگی، موت، جوانی، پیری،اور صحت و سلامتی ہے،اس کی بندگی باعث افتخار ہے، اس کی تکالیف حکمت و رحمت کے سرچشمہ سے صادر ہوتی ہےں ،اور ان پر عمل کرنا انسان کیلئے کمال اور سعادت کا باعث ہے-
نتیجہ یہ نکلا کہ تکالیف اور مسئولیت کو قبول نہ کرنا حیوانی درندگی صفت اور شیطانی پیروری کی وجہ سے ہے، کہ جو ہمیشہ تاریخ میں موجود ہے اور آج کے ماڈرن زمانے سے ہی مخصوص نہیں ہے، درحقیقت یہ ماڈرن انسان ہے کہ جس نے مدنیت سے کنارہ کشی اختیارکر لی ہے، اور جاہلیت و وحشیگری کے زمانے کی طرف پلٹ گیا ہے، اور گزشتہ زمانہ کی طرف پلٹ رہا ہے، وگرنہ انبیاء کی تربیت شدہ افراد نے حیوانیت اور وحشیگری سے کنارہ کشی کر لی ہے اور لا قانونیت سے نکل کر قانون، تکالیف اور مسئولیت کو قبول کر کے صحیح معنوں میں مدنیت کو قبول کرچکاہے-
لھٰذا بعض لوگ کس طرح یہ کھہ سکتے ہیں کہ ماڈرن زمانہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ انسان کسی بھی ذمہ داری کو قبول نہ کرے! یہ تمدن ہے یا وحشیگری؟ تمدن و محدویت، قانون اور مسئولیت قبول کرنے میں ہے ورنہ وحشیگری سے کوئی فرق نہ ہوگا-
لھٰذا جو لوگ قانون، تکالیف اور مسئولیت کا انکار کرتے ہیں وہ لوگ مدیریت اور وحشیگری کے قدیم زمانے کی طرف پلٹنا چاہتے ہیں اور یہ طے ہے کہ کوئی شخص اس نظریہ کے تحت، مقدس اور خلیفہ اللہ نہیں ہوسکتا، جس سے وہ ہمارے لئے نمونہ عمل قرار پاسکے، (اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ مدنیت اور قانون کی طرف مائل ہونا جیسا کہ ہمارے سماج میں رواج پیدا کر چکا ہے، اس کا مطلب مدنیت اور قانون مندی کے کمال پر پہونچتاہے تاکہ کسی بھی جگہ قانون کی خلاف ورزی نہ کی جائے،اور نہ ہی یہ کوئی نیا حادثہ ہوا ہے اورنہ ہی ہمارا سماج انقلاب کے بعد ۱۹ سال تک وحشیگری کا شکار تھا اور آج مدنیت کی طرف مائل ہواہے، بلکہ ہمارا یہ انقلاب مدنیت اور اسلامی تمدن پر استوار ہے، اور انقلاب کے اصل اہداف میں سے ہے کہ تمام مقامات پر الٰھی قوانین کی رعایت کی جائے-)
۶-خدا کی اطاعت اور آزادی
انبیاء علیہم السلام لوگوں کو خداپرستی کی دعوت دیتے تھے اور طاغوت کی پیروی سے روکتے تھے اس سلسلے میں خداوند عالم فرماتا ہے:
(
وَلَقَدْ بَعَثْنَافِی کُلِّ اُمَّةٍ رَسُولًا ا نِ اعْبُدُوا اللَّه وَاجْتَنِبُو الطَّاغُوتَ
)
”اور ہم نے تو ہر امت میں ایک (نہ ایک) رسول اس بات کے لئے ضرور بھیجا کہ لوگو خدا کی عبادت کرواور بتوں (کی عبادت) سے بچے رہو“
اس چیز کے پیش نظر یہ بات قبول نہیں کی ہے کہ اسلام نے انسان کو اپنے علاوہ یھاں تک کہ خدا کی اطاعت سے بھی منع کردیاہے، اور یہ طے ہے کہ جو مذہب ہم کو خدا کی اطاعت کی دعوت نہ دے وہ باطل ہے اور جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا کہ انبیا علیہم السلام کا مقصد خدا کی مطلق طورپر اطاعت کرنے کی دعوت دیتا ہے، ہماری موت و حیات اسی سے وابستہ ہے
(
اِنَّا لِلَّه وَ اِنَّا اِلَیْه رَاجِعُوْنَ-
)
”ہم تو خدا ہی کے ہیں او رہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں “
ہم خدا کی طرف سے ہیں اور خدا کی طرف پلٹ کر جانا ہے- اب جبکہ ہم نے خداوند عالم کو اپنا مالک حقیقی مان لیاتو پھر کس طرح یہ بات قبول کی جا سکتی ہے کہ خدا کو ہمیں حکم دینے اور فرمان صادر کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، کیا مالکیت اس کے علاوہ ہے کہ مالک جس طرح بھی چاہے اپنی چیز میں تعریف کرے؟ لھٰذا یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ کوئی یہ کھے کہ ہم نے اسلام تو قبول کر لیا ہے لیکن ہم خدا کی بندگی کے قید و بند سے آزاد ہیں ، کیونکہ اس طرح کی مطلق آزادی نہ صرف یہ کہ اسلام قبول نہیں کرتا، بلکہ اس کو تو عقل بھی قبول نہیں کرتی-
اسلام آزادی کا نعرہ لگاتا ہے لیکن غیر خدا اور طاغوت کی عبادت و اطاعت سے آزادی و رہائی کا نعرہ لگاتا ہے، خداوند عالم کی اطاعت سے آزادی کا نعرہ نہیں لگاتا، اگرچہ انسان آزاد و مختار پیدا کیا گیا ہے، لیکن تشریعاً و قانوناً خدا کی اطاعت پر مکلف ہے یعنی ہم اپنے ارادہ و اختیار سے خدا کی اطاعت کریں ، اور یہ طے ہے کہ خلقت کے اعتبار سے میں ہر مخلوق پر بندگی اور عبودیت کی مھر لگی ہوئی ہے، تکوینی طور پر کوئی بھی مخلوق خدا کی بندگی کے لیبل سے خالی نہیں ہے اور ہر موجود کی پستی اس کی عین بندگی ہے:
(
تُسَبِّحُ لَه السَّمَاوَاتِ السَّبْعُ وَالْا رْضُ وَ مَنْ فِیْهِنَّ وَاِنْ مِنْ شَیْ ءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِه وَلٰ-کِنْ لَا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ
)
”ساتوں آسمان اور زمین اور جو لوگ ان میں (سب ) اس کی تسبیح کرتے ہیں اور (سارے جہان) میں کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کے (حمد وثنا) کی تسبیح نہ کرتی ہو مگر تم لوگ ان کی تسبیح نہیں سمجھتے“
اس طرح خداوند عالم دوسرے موجودات کی عبادت اور بندگی کے بارے میں فرماتاہے:
(
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللَّه یُسَبِّحُ لَه مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْا رْضَ وَالطَّیْرُ صَافَّاتٍ کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَه وَ تَسْبِیْحَه--
)
-
”(اے شخص ) کیا تو نے اتنابھی نہیں دیکھا کہ جتنی مخلوقات سارے آسمان اور زمین میں ہیں اور پرندے پر پھیلائے (غرض سب ) اسی کی طرح تسبیح کیا کرتے ہیں ، سب کے سب اپنی نماز اور اپنی تسبیح کا طریقہ خوب جانتے ہیں “
لیکن چونکہ انسان صاحبِ عقل و خرد ہے، مختار و آزاد خلق کیا گیا ہے، اگرچہ خداوند عالم نے ہدایت و گمراہی کے راستے دکھا دئیے ہیں لیکن اپنے لئے راستہ کے انتخاب میں آزاد ہے جیسا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے:
(
اِنَّا هَدَیْنَاه السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِراً وَ اِمَّا کَفُوراً--
)
-
”خواہ شکر گذار ہو خواہ ناشکر ا “
لھٰذا انسان کو اپنے ہدفِ خلقت کو مدنظر رکہ کر اور اس کو سوچ سمجہ کر خدا کی اطاعت و بندگی میں مشغول رہنا چاہئے، اور خداوند عالم کا تشریعی قانون بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ شیطان اور غیر خدا کی اطاعت میں قدم بڑھائے، بلکہ انسان کو خدا کی اطاعت اور الٰھی تکالیف کو انجام دےنا چاہئے ، کیونکہ خداوند عالم نے اسی مقصد کے تحت اس کو پیدا کیا ہے:
(
وَمَا خَلَقْتُ الجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ--
)
”اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اسی غرض سے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں “
اور چونکہ خداوند عالم کی عبادت نظام خلقت و ھستی کے ہمنوا ہے اور خداوند عالم کی تکالیف کو انجام دینا اور الٰھی وظیفہ و مسئولیت پر عمل کرنا نیز اس خالق کا شکر ادا کرنا خود ایک مھربانی ہے کہ جو ہم کو حیات و زندگی عطا کرتا ہے اور اس کی عنایت اور لطف و کرم سے ہم کو صحت و سلامتی اور دوسری بہت سی نعمتیں عطا کی گئی ہیں جیسا کہ خداوند عالم حضرت ابراہیم علیہم السلام کی زبانی فرماتا ہے:
(
اَلَّذِی خَلَقَنِی فَهُوَ یَهْدِیْنِ، وَالَّذِی هُوَ یُطْعِمُنِی وَیُسْقِیْن، وَاِذَا مَرَضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ، وَالَّذِی یُمِیْتُنِی ثُمَّ یُحْیِیْنِ-
)
-
”جس نے مجھے پیدا کیا (وہی میرا دوست ہے) پھر وہی میری ہدایت کرتا اور وہ شخص جو مجھے (کھانا) کھلاتا ہے او رمجھے (پانی) پلاتا ہے اور جب بیمار پڑتا ہوں تو وہی مجھے شفا عنایت فرماتا ہے اور وہ شخص جو مجھے ما ڈالے گا اس کے بعد(پھر) مجھے زندہ کرے گا“
کس طرح خدا کی اطاعت سے انکار کیا جا سکتا ہے، اور کیا واقعاً یہ حق وانصاف سے بعید نہیں ہے کہ ہم یہ کھیں کہ اب ماڈرن انسان تکالیف و اطاعت کا تابع نہیں ہے، اور اپنے حقوق کا طالب ہے؟
کیا اسلام اس فلسفہ کو قبول کر سکتا ہے؟ واقعا ً ایسے نظریہ کااسلامی ہونا تو دور کی بات،یہ تو عقل اور انسانیت سے بھی خالی ہے-
حوالہ