آٹھواں جلسہ
حکومت کے ڈھانچے کی وضاحت
۱- عنصری اور مصداقی تعریف کی اہمیت
ہم اس جلسہ میں اسلامی حکومت کے ڈھانچے اور شکل وصورت کے بارے میں بحث کریں گے، یھاں پر ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ حضرت امام خمینی کا ایک مختصر سا واقعہ بیان کریں :
انقلاب کے ابتدائی دور میں ایک بیرونی رپوٹر نے حضرت امام خمینی سے سوال کیا کہ آپ شاہ کی حکومت کوسرنگوں کرنے کے بعد کون سی حکومت تشکیل دیں گے؟ تو آپ نے فرمایا: ہم حضرت علی علیہ السلام کی طرح حکومت بنائےں گے، ظاہر ہے کہ اس خارجی خبر نگار کے لئے اسلامی حکومت کو سمجھنا مشکل تھا کیونکہ وہ اسلامی ثقافت کو سمجھنے سے قاصر تھا، اس کو سمجہانے میں گھنٹوں درکار تھے؛لیکن حضرت امام خمینی نے اس کو ایک جملہ میں قانع کنندہ جواب دیدیا، کیونکہ حضرت علی علیہ السلام کی حکومت کو دشمن او ردوست سبھی جانتے ہیں اور اس کے لئے زیادہ مطالعہ اور تحقیق کی ضرورت نہیں تھی،اور ساتھ ساتھ ہماری حکومت کی بھی شناخت ہوگئی-
اس قسم کی تعریف ووضاحت ؛ یعنی اس طرح کی سادہ اور مصداقی تعریف عوام الناس کو سمجہانے کے لئے بہت بہت رہے، کیونکہ انتزاعی اور فلسفی چیزیں عوام الناس کو سمجہانے کے لئے مشکل ودشوار ہوتی ہے، کہ جس میں خارجی مصداق سے سروکار ہوتا ہے، لھٰذا خارجی نمونہ پیش کرکے کسی کو سمجہانے میں آسانی ہوتی ہے، مثال کے طور پر اگر کوئی یہ سوال کرے کہ بجلی یعنی کیا؟ تو روشن بلب کی طرف اشارہ کرکے یا دوسرے الیکٹرینک سامان کی طرف اشارہ کرکے اس کو سمجہایا جاسکتا ہے، کہ یہ سامان بجلی سے چلتے ہیں تو اس کی سمجہ میں بجلی کا مفہوم آجائے گا-
ظاہر ہے کہ اس طرح کسی چیز کی تعریف کرنا جس میں اس کی ذاتیات اور عوراض اور اس کی اصلی خصوصیت سے اجتناب کیا جاتا ہے، لیکن عملی اور اکیڈمیک اصطلاح میں اگر کسی چیز کی تعریف کی جاتی ہے تو اس کی ذاتی یا عرضی خصوصیات کو بیان کیا جاتا ہے کہ جن میں سے منطق کی مشہور تعریف ہے کہ جس میں جنس وفصل ذکر کی جاتی ہے، اس طرح کی تعریف میں پہلے ایک عام او روسیع مفہوم کو تصور کیا جاتا ہے اور اس کے بعد ایک خاص مفہوم کو ذکر کیا جاتا ہے تاکہ دوسری چیزیں اس میں شامل نہ ہو-
کسی چیز کی پہچان او رتعریف کا ایک اور طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کے عناصر کو شمار کیا جاتا ہے؛ یعنی کسی ایک ماہیت کے لوازم اور خصوصیات کی تحقیق کی جاتی ہے اور ان سب کو ملاکر اس چیز کی تعریف قرار دیدی جاتی ہے، اور کوئی بھی شخص اس کی خصوصیات کو دیکہ کر فیصلہ کرلیتا ہے کہ جو چیز بھی وہ خاص خصوصیات رکھتی ہوگی وہی فلاں چیز ہوگی-
۲-اسلام اور تینوں قوتوں کے جداجدا ہونے کا نظریہ
حکومت کے وسیع پیمانے پر تعریف کرنا اور اس کی ان خصوصیات کو بیان کرنا جن کو اسلام نے بیان کیا ہے ، یا سیاست کے بارے میں اسلام کے نظریہ کو ایک جملہ میں اس طرح کھا جاسکتا ہے:کہ سیاست کے بارے میں اسلام کا نظر یہ ہے کہ سیاست اور حکومت کے تمام امور الہی اور وحی سے الھام گرفتہ ہیں ، اوریھی چیز یں حکومت اور نظام اسلامی بن جانے کی ضمانت ہوتی ہےں -
مزید وضاحت اور اسلامی حکومت کو ایک جامع شکل پیش کرنے کے لئے ضروری ہے کہ (حکومتی) قوتوں کے جداجدا ہونے کے نظریہ کو بیان کیا جائے کہ جو ”حقوقی فلسفہ" میں بیان ہوتی ہیں ، ان آخری چند صدیوں میں مغربی حقوق داں فلسفی حضرات کے درمیان کافی کشمشک ہوتی آئی ہے کہ (حکومتی) قوتوں کو ایک جگہ ہونا چاہئے یا الگ الگ کہ ہر شخص یا ہر گروہ صرف ایک طاقت کا مالک ہو، اور آخر کار ”رنسانس“کے زمانے کے بعد بالخصوص ”منٹسکیو“ کے زمانے کے بعد(منٹسکیو نے اس سلسلہ میں ایک زخیم کتاب بنام ”روح القوانین“ لکھی کہ جس میں طاقتوں کے جدا ہونے پر بہت زیادہ تاکید او راصرار کیا ہے)، حقوقی فلاسفہ نے اس بات پر اجماع واتفاق کرلیا کہ حکومتی طاقتوں کو جدا جدا ہونا چاہئے اور یہ نظریہ پیش کیا کہ حکومت کی تینوں طاقتیں :
۱-”قوہ مقننہ"(قانون گذار طاقت یعنی پارلیمینٹ)
۲-”قوہ مجریہ “ (یعنی صدر مملکت یا وزیر اعظم اور”قوہ قضائیہ"(عدالتی طاقت) ڈیموکراٹک اور جمہوریت حکومتوں کی اصلی
ستون سمجھے جاتے ہیں ، اور ان تینوں طاقتوں کے لئے الگ الگ دائرہ اور مستقل میدان تصور کیا جاتا ہے، اس طرح کہ ایک طاقت کو دوسری طاقت میں دخالت کرنے کا کوئی حق نھیں ،اور ہر ایک ان میں سے مستقل ہوتی ہیں ، اس نظریہ میں ہر قوت کو الگ الگ کرنے کے بعد اس کی تعریف بھی کی گئی ہے، کہ جن کو ہم یھاں پر مختصر طور پر بیان کرتے ہیں :
الف- قوہ مقننہ:
حکومت کا ایک اہم رکن قوہ مقننہ ہے کیونکہ انسان کی اجتماعی زندگی میں ہر وقت تغیر وتبدیلیاں پائی جاتی ہیں اور ہر زمانہ کے شرائط مختلف ہوتے ہیں لھٰذا ضروری ہے کچھ لوگ ان پر تبادلہ خیال اور غور وفکر کرکے مناسب قانون وضع کرتے ہیں ، اور قوہ مقننہ کی اہمیت کے پیش نظر اس کے بنائے گئے قوانین معتبر اور واجب الاجراء ہیں -
ب- قوہ قضائیہ:
قوانین کو معتبر اور رسمی ہونے کے بعد اس بات کی ضرورت ہے کہ ان کلی قوانین کو خاص موقع ومحل پر مطابقت اور لوگوں کے حقوق اور ذمہ داریوں کو روشن کیا جائے-
عام اصطلاح میں کبھی کبھی ”حکومت“ تینوں طاقتوں پر استعمال ہوتا ہے ، اور کبھی کبھی حکومت صرف” قوة مجریہ" پر اطلاق ہوتا ہے ، البتہ یہ معنی خاص مواقع پر استعمال ہوتے ہیں اور اکثر اقات حکومت سے مراد وہی عام معنی ہیں جو تینوں طاقتوں پر استعمال ہوتا ہے-
نیز اختلافات اور جھگڑوں کو حل کرنے کے لئے قوہ قضائیہ کا ہونا ضروری ہے، یعنی قانون کے بننے کے بعد شہریوں کے اختلاف کی صورت میں یا گروہوں کے درمیان اختلاف یا عوام الناس اور حکومت کے درمیان اختلاف کو حل کرنے اور لوگوں کے حقوق کو پامال ہونے سے بچانے کے لئے اور قوانین کو مذکورہ موقع ومحل پر مطابقت، قضاوت او رفیصلہ کرنے کے لئے قوہ قضائیہ کا ہونا ضروری ہے، کیونکہ صرف پارلمینٹ میں قوانین پاس ہونے سے مشکل حل نہیں ہوتی، کیونکہ اختلافی صورت میں ہر ایک شخص اپنے کو حق سمجھتا ہے اور اپنے حق میں قانون کی تفسیر کرتا ہے-
ج-قوہ مجریہ:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ معاشرہ اپنے اہداف ومقاصد تک پہونے کے لئے قانون کا محتاج ہے، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ تمام عوام الناس تمام قوانین کی رعایت کریں ؛ کیونکہ مختلف وجھوں سے قانون کی مخالفت ہوسکتی ہے،قانون کے لئے ضرورت ہے کہ اس کے جاری ہونے کی ضمانت بھی ہو،اور یہ ضمانت اجرائی قوہ مجریہ کے ذریعہ ممکن ہے ،(کہ جس کے پاس قوانین کو جاری کرنے کے لئے باندازہ کافی وسائل ہوتے ہیں )، لھٰذا قوہ مجریہ کی ذمہ داری یہ ہے کہ بنائے ہوئے قوانین پر عمل کرائے اور خلاف ورزی سے روکے، اور اسی طرح قوہ قضائیہ کے احکامات (سزا وکیفر) کو بھی جاری کرے، اور اس سلسلہ میں قوانین کو جاری کرنے اور خلاف ورزی کرنے والوں اور مجرموں کو سزا دینے کے لئے پولیس وغیرہ کا بھی سھارا لیا جاسکتا ہے-
ہم نے مختصر طور پرجمہوریتی نظام میں تینوں طاقتوں کے جدا ہونے کے نظریہ کو بیان کیا،اگرچہ ہم اس سلسلہ میں اسلام کے نظریہ کو بیان کرنے کے درپے نہیں ہیں ، لیکن اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلامی جمہوری ایران کے اساسی اور بنیادی قانون میں ان طاقتوں کو جدا ہونے کے نظریہ کو قبول کیا گیاہے،لیکن یہ تینوں طاقتیں ولایت فقیہ کی زیر نظرہوتی ہیں جس کی وجہ سے نظام اسلامی ہوجاتا ہے، چاہے اسلامی نظام میں تینوں طاقتوں کی مشروعیت اس چیز کی وجہ سے ہے کہ یہ سب کے سب الہی اور اسلامی ڈھانچہ رکھتے ہوں اور ان کا رابطہ خداوندعالم سے ہوں اور ولایت فقیہ کی وجہ سے ہی نظام الہی ہوجاتا ہے اور نظام کی مشروعیت کا ملاک ومعیاربھی یھی ولایت فقیہ ہے-
جس وقت ہم اسلام کے قوانین کی وضع اور ان کو جاری کرنے کی باتیں کرتے ہیں اور ہم یہ دعوی کرتے ہیں کہ تمام قوانین اور مقررات الہی اور اسلامی ہونا چاہئے، تو ہم اس بات کو مسلم اور طے شدہ مان لیتے ہیں کہ اسلام کا خلاصہ نماز وروزہ او ردوسری عبادتوں میں نہیں ہوتا؛ بلکہ اسلام ایک کامل مجموعہ کا نام ہے کہ جس میں اجتماعی قوانین بھی شامل ہوتے ہیں -
یعنی اجتماعی قوانین کے تمام شعبے اسلام میں شامل ہوتے ہیں ، جیسے مالی مسائل، حقوق مدنی، تجارتی حقوق اور بین الاقوامی حقوق وغیرہ کہ جن کی معاشرہ کو ضرورت ہوتی ہے، لھٰذاہم یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ اسلام کے قوانین اجتماعی قوانین ہیں اوراسلام حکومت کو بھی ذمہ دار بناتا ہے کہ اس کے قوانین کو معتبر جانے اور ان کو عملی جامہ پہنائے، اور اگر کوئی حکومت اسلام کے قوانین کو معتبر نہ جانے اور ان کو جاری کرانے کی فکر میں نہ رہے ، تو اسلام کی نظر میں اس حکومت کا کوئی اعتبار ا ور مشروعیت نہیں ہے-
۳- اسلام معاشرہ کو ادارہ نہیں کرسکتا (ایک شبہ)
یھاں پر ایک شبہ یہ ہوتا ہے کہ آج کل انسان کی زندگی ترقی یافتہ دور میں بڑے پیمانے پرنئے نئے قوانین کا نیاز مند ہے اور ان سب کا جواب قرآن کریم یا سنت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم او رکلام ائمہ معصومین علیہم السلام میں نہیں پایا جاتا، آج انسان کو اس طرح کے قوانین کی ضرورت ہے کہ جو صدر اسلام میں بالکل بھی موجود نہیں تھے تو ان کا حکم ہی کھاں سے بیان ہوا ہوگا،مثال کے طور پر فضائی اور ہوائی لائن کے مسائل کو پیش نظر رکھیں کہ کیا کوئی ہوائی جہاز کسی دوسرے ملک کی فضا میں بغیر اس ملک کی اجازت کے گذرسکتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ اس طرح کے قوانین قرآن یا حدیث رسول یا کلام ائمہ معصومین علیہم السلام میں نہیں ہیں کیونکہ اس زمانے میں ہوائی جہاز کا تصور ہی نہیں تھا تاکہ یہ مسئلہ پیش آتا کہ ہوائی جہاز دوسرے ملک کی فضا سے گذر سکتا ہے یا نھیں -
اسی طرح ٹرافک اور ڈرائیورنگ کے مسائل ، اس وقت میں بس یاگاڑی کا وجود ہی نہیں تھا کہ اس کے قوانین بیان ہوتے ، اسی طرح دوسرے قوانین کہ جن کی انسان کو اس وقت ضرورت ہے مثلاً دریا اور سواحل کے قوانین، اور اس طرح کے دوسرے قوانین کہ جن کے بارے میں ابھی تک خاص قوانین نہیں بنائے گئے اورضرورت ہے اس بات کی کہ حقوق داں اور قانون گذار حضرات اس سلسلہ میں بڑے غور وفکر سے ان کے لئے قوانین بنائیں -
لھٰذا ان چیزوں کے پیش نظر قرآن اور حدیث میں ذکرکئے گئے قوانین انسان کی ضرورتوں کو پورا نھیں کرسکتے،تو پھر کس طرح یہ کھا جاسکتا ہے کہ معاشرہ میں اسلامی قوانین نافذ ہونا چاہئے جبکہ بعض چیزوں کے بارے میں اسلام کوئی قانون ہی نہیں رکھتا،!
لھٰذا انسان کے لئے ایسے قوانین کی واضح ضرورت ایک طرف،اور اسلام میں ایسے قوانین موجود نہ ہونا دوسری طرف، تو اس موقع پر کیا کیا جائے؟ او رایسے موقع پر ہم کس طرح اسلامی قوانین پر پابند ہوں ؟اب تک جو ذکر ہوا یہ ان لوگوں کا نظریہ تھا جو اسلام کو نہیں مانتے اور یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلامی قوانین معاشرہ کو چلانے کےلئے کافی نہیں ہیں ؛ اور ان کی جگہ بشریت کے بنائے ہوئے قوانین کی طرف رجوع کیا جائے، اعتراض کرنے والوں نے موضوع مشکل اور پیچیدہ کرنے کے لئے اس اعتراض کو مختلف طریقوں سے پیش کیا ہے او رلوگوں نے اپنے مختلف خواہشات کی بنا پر اس سلسلہ میں مختلف بیان دیا ہے-
لیکن ان سب کا ہدف او رمقصد اسلامی حکومت کو کمزور اور متزلزل کرنے کے لئے ہے کہ اسلام معاشر ہ کو ادارہ نہیں کرسکتا، لھٰذا اسلامی انقلاب اور اسلامی حکومت کی باتیں کرنا اور ان پر اصرار اور تاکید کرنا بے فائدہ ہے، لھٰذا حکومت کو اسلامی ہونے کے نظریہ کو اپنے ذہن سے نکال دینا چاہئے کیونکہ یہ کام ہونے والا نہیں ہے،افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بعض اسلامی انقلاب کے طرفدار اور اسلام کے معتقد افراد بھی اس شبہ کے تحت تاثیر واقع ہوتے جارہے ہیں ، لھٰذا ضروری ہے کہ اس اعتراض کا مناسب اور محکم جواب دیا جائے تاکہ اسلام کے قوانین پر پابند رہیں اور جن مسائل میں معاشرہ کی ضرورت کے تحت اسلام میں قوانین کو نہ پائےں تو اس کے راہ حل کو پہچان لیں -
۴-قوانین کی مختلف اقسام اور متغیر قوانین ہونے کی ضرورت
مذکورہ اعتراض کے جواب میں اس نکتہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ ”قانون“کے ایک وسیع اور عام معنی ہیں اور ”تکوینی“ قوانین بھی اس میں شامل ہوتے ہیں ؛ مثلاً فیزیک اور شیمی کے قوانین اور قانون لاوازہ ، جاذبہ نیوٹن اور نسبیت انیشٹین، اس طرح کے قوانین (کہ جو تکویناً موجود ہیں اور واقعیت بھی رکھتے ہیں ) دانشمندوں کے ذریعہ کشف ہوتے ہیں اور بنائے جانے والے نہیں ہیں ، اور یہ قوانین ثابت اور طبیعی و واقعی چیزوں سے مربوط ہیں ، اور حقوقی اور سیاسی مسائل سے ان کا کوئی ربط نہیں ہے، اسی طرح عقلی قوانین؛ مثلاً منطقی اور فلسفی قوانین اور میتہ میٹھک کے مسائل سے ہماری بحث نہیں ہے، بلکہ ہماری بحث ان قوانین سے ہے کہ جو قابل وضع ہیں جن کو اصطلاح میں ”اعتباری قوانین“ کھا جاتا ہے، ان قوانین کا اعتبار اور ان کا جاری کرنا اس صورت میں صحیح ہے کہ کوئی معتبر مرکز ان کو وضع کرے، اور قوانین کی تین قسمیں ہیں :
الف- قانون اساسی
قانون اساسی (بنیادی قوانین) ان قوانین کو کھتے ہیں کہ معمولاً ثابت اور ہر ملک کی ثقافت کے اعتبار سے بنائے جاتے ہیں ، یہ قوانین نسبتاً ثابت (غیر قابل تبدیل) ہوتے ہیں اور ایک طولانی مدت تک جاری رہتے ہیں ، یہ روز مرہ والے قوانین نہیں ہوتے او رانہیں کو معاشرہ کو ادارہ کرنے کی اصل سمجہا جاتا ہے،یہ قوانین ثابت ہونے اورپیہم تبدیلی نہ ہونے کی وجہ سے کلّی اور محدود ہوتے ہیں ؛ اسی وجہ سے ہر ملک کے اساسی اور بنیادی قوانین چند اہم اور بنیادی اصولوں کو شامل ہوتے ہیں -
لھٰذا جزئی اور وہ وقتی قوانین کہ جن کی ضرورت بھی زیادہ ہے لیکن زمان ومکان کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں ، ان کو قانون اساسی میں رکھا جائے،اور قانون اساسی میں کلّی قوانین او رثابت قوانین پر ہی اکتفاء کی جائے اور اس میں جزئی قوانین کو بیان کرنے سے پرہیز کیا جائے، مگر وہ جزئی اور محدود قوانین کہ جو اہم ہیں او ران کا ذکر ہونا ضروری ہو-
ب- پارلیمینٹ کے بنائے گئے قوانین
قوانین کی دوسری قسم وہ ہے کہ جن کو پارلیمینٹ میں بنایا جاتا ہے ، اگرچہ بعض مملکوں میں پارلیمینٹ کے علاوہ ”مجلس سنا“بھی بنائی جاتی ہے یا اس کو کوئی دوسرا عنوان دیدیا جاتا ہے، اور اس کے قوانین بھی پارلیمینٹ کے قوانین کی طرح معتبر مانے جاتے ہیں ،ہمارے ملک میں بھی پارلیمینٹ کے علاوہ ایک ”مجلس شورای نگھبان“ ہوتی ہے کہ جو دوسرے ممالک میں مجلس سنا یا قانون اساسی کورٹ کی طرح ہے جس میں کچھ فقھاء اور حقوق داں حضرات شامل ہیں ، مجلس شورای نگھبان اسلامی پارلیمینٹ کے بنائے گئےقوانین کو قانون اساسی اور قوانین شرعی سے تطبیق کرتے ہیں ، اور اگر وہ قوانین قانون اساسی اور قانون شرعی سے موافق نہ ہوں تو ان کو لوٹا دیتے ہیں تاکہ ان پر نظرثانی کی جاسکے-
ج- انجمنِ حکومت کے بنائے گئے قوانین
ھر ملک میں پارلیمینٹ کے بنائے گئے قوانین کے علاوہ دوسرے مرکزوں کے ذریعہ بھی قوانین بنائے جاتے ہیں اور وہ بھی لازم الاجراء ہوتے ہیں ،جس کا نمونہ انجمن حکومت (ھیئت دولت) کے بناکے ہوئے قوانین ہیں ،قانون اساسی نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ حکومتی انجمن خاص موقعوں پر قانون بنائے، اسی طرح صدر مملکت بھی خاص موقعوں پر اپنے مرضی کے مطابق تصمیم گیری کرے، اور یہ حکومتی انجمن اور صدر مملکت کے بنائے ہوئے قوانین پارلیمینٹ میں نہیں جاتے بلکہ خود ہی قانونی اور لازم الاجراء ہوتے ہیں ،اور اسی طرح وہ قانون دستاویز اور بخش نامے جو کسی وزیر کے ذریعہ بعض اداروں اور دوسرے مرکزوں کو دئے جاتے ہیں ،اور ان کو بھی ایک طرح کا قانون کھا جاتا ہے اور حکومت ان کو بھی جاری کرنے کی ضامن ہوتی ہے،لھٰذا ہمارے ملک اور اسی طرح دوسرے بعض ملکوں میں تین طریقہ کے قانون ہوتے ہیں :
۱-قانون اساسی-
۲-پارلیمینٹ کے بنائے ہوئے قوانین-
۳-حکومتی انجمن یا صدر مملکت کے بنائے ہوئے قانون او راسی طرح ان مرکزوں کے قوانین جن کو قانون نے ہی اجازت دی ہو-
اور ظاہر ہے کہ دنیا کے کسی بھی گوشہ میں کسی بھی زمانہ میں ممکن نہیں ہے کہ تمام قوانین ومقررات کو ایک جگہ اور ایک ہی زمانہ میں بنالیا جائے، چونکہ وضع شدہ قوانین اور اجرائی آئین نامے زمان ومکان کے بدلنے کے لحاظ سے ضرورت ہے کہ قانون تبدیل ہوں یا ان پر تجدید نظر ہو، مثلا پارلیمینٹ آج کوئی قانون بناتا ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ کل حالات بدل جائیں اور اس قانون کو بدلنے اور ان میں تجدید نظر کرنے کی ضرورت پیش آجائے، اسی طرح اجرائی مقررات اور قوانین بھی حالات کے لحاظ سے قابل تبدیل ہیں اوران پر نظر ثانی ہوتی رہتی ہے-
اسی طرح جب کوئی حکومت بدلتی ہے تو ایک محدود دائرے میں رہ کر کچھ قوانین کو بدل سکتی ہے، البتہ وہ لوگ جو معاشرہ کی بھبودی چاہتے ہیں ان کی ہمیشہ کوشش یھی ہوتی ہے کہ قوانین کو اس طرح دقت اور غور وفکر کرنے کے بعد بنایا جائے کہ معاشرہ کے لئے بہت مناسب ہوں او راس میں کم سے کم خامیاں ہوں ، ظاہر ہے کہ جب ہم یہ کھتے ہیں کہ قوانین کو اسلامی ہونا چاہئے تو اس سے ہماری مراد یہ نہیں ہوتی کہ تمام قوانین چاہے قانون اساسی ہوں یا پارلیمینٹ کے بنائے ہوئے قوانین، سب کا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے-
۵-قوانین کا اسلامی ہونے کا مطلب
قوانین اور مقررات کے اسلامی ہونے اور ان کے معنی کی وضاحت کے بارے میں ، عمومی قوانین کے اوپر نظر کرنا مفید ہے ،نمونہ کے طور پر قوہ مجریہ یا ہیئت حکومت اسی دائرے میں رہ کر قوانین کو بناسکتی ہے کہ جن میں پارلیمینٹ نے اجازت دی ہو، یعنی ان کے دائرہ وسیع نہیں ہے، دوسرے الفاظ یوں عرض کیا جائے کہ ان کے اختیارات کی حد، قانون اساسی اور قانون پارلیمینٹ معین ومحدود کرتے ہیں ، او راجرائی قوانین بھی اسی کے تحت ہونا چاہئے، یعنی یہ قانون ان کلّی احکامات کے مصادیق ہیں کہ جو قانون اساسی اور پارلیمینٹ کے قانون میں پاس ہوچکے ہیں ، لھٰذا یہ قانون پہلے قانون اساسی اور قانون پارلیمینٹ میں بیان ہوتے ہیں ،اس کے بعد ہیئت حکومت یا دوسرے صاحب منصب حضرات خاص موارد میں ان کلیات کے مصادیق کو قانون کی شکل میں تنظیم کرتے ہیں -
خلاصہ یہ کہ یہ قانون صرف ان کے دل خواہ نہیں ہوتے بلکہ قانون اساسی اور قانون پارلیمینٹ کے موافق ہوتے ہیں ،اور پارلیمینٹ کے قانون بھی شورای نگھبان کے تائید شدہ ہونے چاہئے اور اسی صورت میں یہ قانون معتبر ہوتے ہیں اور ان کے جاری ہونے کی ضمانت ہوتی ہے، لھٰذا ان قوانین کا معتبر ہونا اور لازم الاجراء ہونا اس چیز پر موقوف ہے کہ وہ پارلیمینٹ کے قوانین کے موافق ہوں ، اور پارلیمینٹ کے قوانین کے معتبر ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ قانون اساسی کے موافق ہوں ،اور قانون اساسی کے معتبر ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ خداوندعالم کے تشریعی ارادہ کے تابع ہوں ، اس ترتیب کے لحاظ سے یہ قوانین ایک دوسرے کے تابع ہوتے ہیں او ران کے معتبر ہونے میں اس طرح کا لحاظ ضروری ہے کہ یہ تمام قوانین، اسلام اور خداوندعالم کے تشریعی ارادہ پر ختم ہوتے ہوں ؛ نہ یہ کہ تمام قوانین اور مقررات اور آئین نامے اور پارلیمینٹ کے قوانین سب کے سب قرآن مجید اور احادیث شریف میں موجود ہوں -
اگر خدا وندعالم نے پیغمبر اکرم (ص) کو اتنا اختیار عنایت کیا کہ خاص موارد میں خاص قانون بناسکتے ہیں ، اور چونکہ اس قانون میں خداوندعالم کی اجازت اور اس کا ارادہ شامل ہے ،معتبر اور لازم الاجراء ہے، رسول اکرم (ص)کی اطاعت او ران کی پیروی خدا وندعالم کے حکم سے واجب ہے اور اسی حکم خدا کے زیر سایہ پیغمبر اکرم کا بنایا ہوا قانون بھی معتبر ہے، اور ہم مسلمانوں پر ان کی اطاعت او رپیروی واجب ہے؛ ورنہ اگر ہم خدا کے حکم سے صرف نظر کرلیں تو پیغمبر کے دستورات خودبخود واجب نہیں رہ جاتے-
لھٰذا وہ قوانین جو براہ راست خداوندعالم کی طرف سے ہوں اور قرآن مجید میں صاف صاف بیان ہوے ہوں پہلا درجہ رکھتے ہیں اور خود بخود معتبر ہیں ، اس کے بعد خدا کے حکم سے رسول اکرم کے بنائے ہوئے قوانین دوسرے درجہ میں قرار پاتے ہیں ، او رآپ کے بنائے ہوئے قوانین خدا کے حکم کی وجہ سے معتبر ہیں ، اسی طرح ائمہ معصومین علیہم السلام کے بنائے ہوئے قوانین او راحکامات خدا کے حکم کی وجہ سے معتبر ہیں ؛کیونکہ خدا او رپیغمبر نے ائمہ (ء) کی اطاعت کو واجب کیا ہے -
اب اگر ہم اپنے کو حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے زمانہ میں کسی اسلامی منطقہ میں فرض کریں بے شک آپ کی اطاعت کو اپنے اوپر واجب جانتے،مثلاً آپ مالک اشتر کو اس شہر کا والی بناکر بھیجتے او ریہ فرماتے کہ ان کے احکامات اور دستورات کے اوپر عمل کریں اور ان کی نافرمانی نہ کریں اور جس نے ان کی اطاعت کی میری اطاعت کی ؛ اگرچہ مالک اشتر کے احکامات کا بذات خود کوئی اعتبار نہیں ہے اور وہ بھی دوسروں کی طرح ہوتے، لیکن چونکہ امام کا حکم ہواہے لھٰذا اس صورت میں ان کی طاعت واجب اور ان کے احکامات لازم الاجراء ہیں ، کیونکہ یہ امام معصوم کی طرف سے مقام ولایت پر فائزھیں اور خدا اور پیغمبر کی طرف سے منصوب ہوئے ہیں لھٰذا ان کی اطاعت واجب مانی جاتی ہے، جب کہ امام معصوم کی طرف سے منصوب شدہ والی اور حاکم کے دستور او رفرمان تیسرے درجہ میں حساب ہوتے ہیں ، مثال کے طور پر اگر اسلامی پارلیمینٹ نے کسی صاحب منصب کو یہ اختیار دیدے کہ وہ کسی چیز کے بارے میں کوئی دستور العمل بنائے ،اورچونکہ اس کے اس کام کا اختیار دیا گیا ہے لھٰذا اس کے بنائے ہوئے قوانین لازم الاجراء ہیں ،اسی طرح قوانین پارلیمینٹ بھی قانون اساسی کی وجہ سے معتبر ہے اور اس کے بنائے ہوئے قوانین قانون اساسی کی وجہ سے معتبر ہوتے ہیں -
لیکن دوسرے ممالک میں قانون اساسی کا اعتبار لوگوں کے ووٹ اور رائے گیری پر ہوتا ہے، لیکن ہم قانون اساسی کا مقام اس سے بڑہ کر بلند مانتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قانون اساسی کا اعتبار خدا کی اجازت پرمنحصر ہوتا ہو کہ پیغمبر یا امام معصوم یا کوئی شخص مالک اشتر کی طرح اس قانون اساسی کی تائید کرے، اس وجہ سے قانون کا اعتبار خدا ، رسول اور ائمہ علیہم السلام کے کلام کی وجہ سے ہے اور اس کے بعد اس شخص کی وجہ سے ہوتا ہے کہ جو امام معصوم کی طرف سے معین ہو،اور یھی اسلام کا فلسفہ اور تھیوری ہے، امام معصوم (ء) کی غیبت کے زمانہ میں چونکہ ولی فقیہ عمومی اعتبار سے امام علیہ السلام کی طرف سے منصوب ہے تو اس کی ولایت امام معصوم (ء) کی طرف سے تائید شدہ اور معتبر ہے، اور ولی فقیہ کی تائید سے قانون اساسی معتبر ہوتا ہے، اور اس کے علاوہ قانون اساسی بذات خود معتبر نہ ہوگا، اور اس پر سوالیہ نشان باقی ہے کہ اس کا اعتبار کھاں سے ہے اور کس حد تک یہ معتبر ہے، اور کن لوگوں کو حق ہے کہ وہ قانون اساسی کو بدل سکیں ،وہ قومیں جو اقلیت میں ہےں اور انھوں نے قانون اساسی کے بارے میں ووٹ نہیں دیا ہے کس وجہ سے یہ لوگ اس قانون اساسی کی پیروی کریں اور اسی طرح کے دوسرے بہت سے سوالات، لیکن اگرہمارا نظریہ یہ ہو کہ قانون اس صورت میں معتبر ہوگا جب امام معصوم کی طرف سے معین شدہ شخص اس کی تائید کردے ، تو پھر کسی سوال کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی-
۶-اسلامی حکومت میں قانون گذاری کا مسئلہ
اب تک یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ قانون گذاری کے سلسلہ میں اسلامی حکومت کی تھیوری ، یہ ہے کہ قانون کا اعتبار خداوندعالم کی طرف سے ہے اور اس کے بعد جس کو خداوندعالم یہ اجازت دیدے، مثلاً پیغمبر اسلام تو پھر ان کا کلام بھی معتبر ہے اور اسی طرح پیغمبر جس کو منصوب کردیں ہمارے لئے معتبر ہیں جیسے حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کو منصوب فرمایا لھٰذا ان کا کلام ہمارے لئے معتبر ہوا، اور اسی طرح اگر امام معصوم کسی کو عمومی یا خصوصی طور پر منصوب کردیں تو اس کا کلام بھی ہمارے لئے معتبر ہے،وہ فرمان اور احکامات کہ جودرجات عالیہ سے صادر ہوتے ہیں الہی اور اسلامی ہیں کیونکہ خداوندعالم کی طرف سے تائید شدہ ہیں ، البتہ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا کہ اسلامی حکومت میں کبھی کبھی یہ تائید چندواسطوں کے ذریعہ انجام پاتی ہے ، ولی فقیہ کے لئے امام معصوم کی تائید ہوتی ہے اور امام معصوم علیہ السلام کے وارادہ واختیار کی تائید پیغمبر اکرم کی تائید سے ہوتی ہے اور آخر میں پیغمبر اکرم ہیں کہ جن کا اعتبار قرآن کریم کے صاف صاف بیان سے ہوتا ہے، جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے:
(
یَا ا یُّها الَّذِیْنَ ا طِیْعُوا اللّٰه وَا طِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَ ا وْلِی الا مْرِ مِنْکُمْ
)
”اے ایماندارو خدا کی اطاعت کرواور رسول کی اور جو تم میں سے اولی الامر ہو ان کی اطاعت کرو“
اسی طرح یہ آیت بھی:
(
اَلنَّبِیُّ ا وْلیٰ بِالْمُومِنِیْنَ مِنْ ا نْفُسِهمْ
)
”نبی تو مومنین سے خود ان کی جانوں سے بھی بڑہ کر حق رکھتے ہیں “
بے شک مذکورہ رابطہ اسلام کے وضع شدہ اصول کے اعتبار سے ان لوگوں کے لئے مکمل طورپر قابل قبول ہے کہ جو خدا، پیغمبر اور امام معصوم کا اعتقاد رکھتے ہوں ، اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہم اس مسئلہ کو سادہ زبان میں ان لوگوں کے لئے بیان کریں کہ جو نہ خدا کو مانتے ہیں اور نہ ہی رسول خدا کو،اور امام معصوم کی حقانیت میں شک کرتے ہوں ، ان کے لئے ایک دوسرے طریقہ سے بحث ہونا چاہئے: سب سے پہلے اسلام کے بنیادی اصول کو بیان کریں اور اس کے بعد دوسرے مسائل کے بارے میں بحث کریں جیسے حکومت وسیاست کے مسائل، البتہ ممکن ہے کہ اس بحث کو آزاد طریقہ سے بھی بیان کیا جاسکتا ہے کہ اس طرح کی قانون گذاری بہت ر اور معاشرہ کے لئے مفید تر ہوسکتی ہے یا قانون گذاری کے دوسرے طریقے کہ جو رائج ہیں -
۷-اسلامی حکومت میں قانون کے جاری کرنے والوں کو منصوب کرنا
اسلام کی سیاسی تھیوری میں قانون کو خدا کی طرف سے ہونے کے ساتھ ساتھ ، ولایت کے زیر نظر قوانین اور مقررات اگر خدا، رسول خدا، امام معصوم اور ن کے خاص یا عام جانشینوں کی تائید حاصل ہو تو وہ قوانین معتبر ہوجاتے ہیں ،اس کے ساتھ ساتھ قوانین کا اجراء کرنے والا بھی خدا وندعالم کی طرف سے معین ہو، (البتہ قوہ قضائی بھی قوہ مجریہ سے مربوط ہوتی ہے ، لیکن اس کی خاص اہمیت کی خاطراور اس وجہ سے کہ اختلاف وغیرہ کو حل کرنے کا ایک بہت رین مرکز شمار ہو ،اور قوانین کو جاری کرنے سے پہلے ان کے مصادیق پر منطبق کرے، اس کے لئے مستقل مقام اور خاص شرائط معین کئے گئے ہیں )
جس وقت پیغمبر یا امام معصوم حاضر ہوں تو وہ خود قانون کے جاری کرنے کے ذمہ دار ہیں یا یہ حضرات کسی کو اپنی طرف سے منصوب کریں کہ قانون کو جاری کرنے کا ذمہ دار ہو؛ جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے جناب مالک اشتر کومصر کا والی وحاکم منصوب کیاتاکہ وہاں جاکر قوانین کا نفاذ کرے، لیکن امام علیہ السلام کی غیبت میں کہ جب عوام الناس امام تک نہیں پہونچ سکتی،قانون کے نفاذ کی ذمہ داری اس شخص کی ہے کہ جس کو امام نے بطور عام منصوب کیا ہو، اور یہ وہی ولایت فقیہ ہے کہ ہم جس کے بارے میں بعد میں گفتگو کریں گے ،(انشاء اللہ)
یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اسلام کی سیاسی تھیوری اور اسلام کے حکومتی ڈھانچے میں جس طرح قانون کو خدا کی طرف سے ہونا چاہئے(یعنی قانون یا قرآن مجید میں موجود ہو یا احادیث پیغمبر میں موجود ہو کہ جس کا اعتبار بھی خدا کی طرف سے ہے یا امام معصوم کی طرف سے کہ جن کا اعتبار پیغمبر اکرم کی وجہ سے ہے، یا اس شخص کی طرف سے ہو کہ جس کو خدا یارسول یا امام نے قانون گذاری کی اجازت دی ہو، ) یعنی اسی طرح قانون کا نافذ کرنے والا بھی خدا وندعالم کی طرف منسوب ہو ، اور وہ خداوندعالم کی طرف سے خاص یا عام طور پر معین کیا گیا ہو-
اسی طرح قوہ قضائیہ بھی خداوند عالم کی طرف منسوب ہو یعنی قاضی یا تو براہ راست خدا وندعالم کی طرف سے معین ہو یا غیر مستقیم طور پر معین ہو ،اور اگر قاضی کسی بھی طرح خداوندعالم سے نسبت نہ رکھتا ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے -
قرآن مجید میں حضرت داؤد علیہ السلام کو براہ راست قضاوت کے لئے منسوب کرنے کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے :
(
یَا دَاوُدُ إنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَةً فِیْ الا رْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحِقِّ،
)
”(ہم نے فرمایا) اے داؤد ہم نے تم کو زمین پر (اپنا)نائب قرار دیا تو تم لوگوں کے درمیان بالکل ٹھیک فیصلہ کیا کرو“
پیغمبر اکرم کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
(
لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا ا رَاکَ اللّٰه،
)
”جس طرح خدا نے تمھاری ہدایت کی ہے اسی طرح لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو“
اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:
(
فلََا وَرَبِّکَ لَایُومِنُونَ حَتیّٰ یُحَکِّمُوکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهمْ
)
”پس (اے رسول) تمھارے پروردگار کی قسم اس وقت تک یہ لوگ سچے مومن نہیں ہوں گے جب تک اپنے باہمی جھگڑوں میں تم کو اپنا حاکم (نہ) بنائیں “
نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کی سیاسی تھیوری ،حکومت ،سیاست اور معاشرہ کی مدیریت اورتمام کے تمام امور خداوند عالم کے تشریعی ارادہ پر ختم ہوتے ہوں -
حوالہ