اسلام اور سیاست جلد ۲

اسلام اور سیاست 0%

اسلام اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اسلام اور سیاست

مؤلف: آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی دام ظلہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 22334
ڈاؤنلوڈ: 3507


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 31 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22334 / ڈاؤنلوڈ: 3507
سائز سائز سائز
اسلام اور سیاست

اسلام اور سیاست جلد 2

مؤلف:
اردو

چھتّیسواں جلسہ

اسلامی قوانین قطعی طور پر جاری ہونے چاہئیں

۱۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر

قارئین کرام! اس سے پہلے جلسہ میں ہم نے عرض کیا کہ انسانی عقل و وجدان ”باید ھا اور نباید ھا“ (کرنا چاہئے اور نہ کرنا چاہئے) انسان کے لئے معین کرتی ہے اور بھت کاموں کے بارے میں یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا کام نہیں کرنا چاہئے اور کیا کام نہ کرنا چاہئے جس کے نتیجہ میں انسان کی آزادی محدود ہوکر رہ جاتی ہے؛ لیکن چونکہ آزادی کی محدویت انسان کی اندرونی طاقت کے ذریعہ ہوتی ہے لھٰذا اس کی آزادی سلب ہونے کا سبب نہیں بنتا اور کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ انسانی عقل کی نصیحتوں سے اس کی آزادی سلب ہوجاتی ہے انسانی عقل اور وجدان کی اندرونی نصیحتوں کی طرح مسلمانوں کے لئے خداوندعالم کے اوامر اور احکام ہوتے ہیں جو خدا اور رسول کے ذریعہ صادر ہوتے ہیں جس طرح ہماری عقل کسی کام کو انجام دینے کا حکم کرتی ہے اسی طرح خداوندعالم نے بھی ہمارے لئے کچھ وظائف قرار دئے ہیں وہ وظائف جو واقعی مصالح (و فوائد)کی بنا پر صادر ہوتے ہیں چونکہ خداوندعالم ان کے بارے میں لامحدود علم رکھتا ہے اور ان کا سمجھنا ہماری عقل سے بالاتر ہے۔

گویا یہاں پر اندرونی عقل متصل کے علاوہ خداوندعالم عقل منفصل اور بے نھایت ؛ انسان کے کامل مصالح اور اس کے خطرات سے مکمل طور سے معین کرتا ہے اسی وجہ سے ہم سے یہ چاہتا ہے کہ فلاں کام کو انجام دیں کیونکہ یہ کام ہمارے حق میں ہے اور فلاں کام کو انجام نہ دیں چونکہ ہمارے لئے باعث ضرر ہے۔

انسانی آزادی کی یہ محدودیت جو خدا اور بندے کے درمیان موجود رابطہ کی بنا پر پیدا ہوتا ہے سیاسی یا حقوقی فلسفہ سے متعلق نہیں ہے اور سیاسی لحاظ سے بھی مشکل ساز نہیں ہے کیونکہ خدا پر ایمان رکہنے والے افراد اپنے عقیدہ کی بنا پر اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ کچھ کاموں کو انجام دیا جائے اور کچھ کاموں سے پرہیز کیا جائے، اور یہ لازمی عقیدہ اور کار کردگی معاشرہ سے متعلق نہیں ہے بلکہ انسان کے خدا سے رابطہ کی بنا پر ہے جیسا کہ انسان اپنی عقل سے رابطہ رکھتا ہے۔

۲۔ حکومت کی ضرورت اور انسان کی اجتماعی زندگی کا عکس العمل

قارئین کرام ! یہاں پر بحث یہ ہے کہ بھت سے کام خود انسان کے ذات اور اس کی دنیا و آخرت سے متعلق نہیں ہوتے بلکہ دوسروں کے لئے بھی موثر ہوتے ہیں اور ان کا فائدہ یا نقصان عوام الناس اور معاشرہ تک بھی پھونچتا ہے چنانچہ اس موقع پر دنیا بھر کے دانشور حضرات معتقد ہوجاتے ہیں کہ ایک ایسے نظام کا ہونا ضروری ہے جو معاشرہ کے لئے نقصان دہ چیزوں کی روک تھام کرسکے اور جو لوگ خلاف ورزی کریں ان کو سزائے اعمال تک پھونچائے۔

لھٰذا حکومت کی ضرورت اور یہ کہ ہمیں ایک طاقت کی ضرورت ہے جو معاشرہ کے نقصان کو روک سکے ، سماج کا نقصان نہ ہو اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا مل سکے، اسی وجہ سے حکومت کی ضرورت ہوتی ہے اسی بنا پر ”انارشیسٹ“ " Anarchiste " (فساد طلب) کے علاوہ دنیا بھر کے تمام صاحب علم سیاست اور حقوق کے رکھوالے حکومت کو ضروری سمجھتے ہیں ؛ لیکن اخلاقی اقدار اور وہ اچھائیاں اور برائیاں جن کو خود انسانی عقل اپنی ذاتی زندگی میں معین کرتی ہے ان کا سیاست اور حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یھاں پر ایک دوسری بحث یہ ہوتی ہے کہ عقل انسانی انفرادی ، ذاتی اور معنوی مسائل کے علاوہ آزادی کے ایک حصے کو محدود کرتی ہے توکیا حکومت بھی انسان کی آزادی کو محدود کرسکتی ہے؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ اجتماعی زندگی کے لحاظ سے حکومت کی خصوصیت اور اس کا تقاضا ہی آزادی کو محدود کرنا ہے، کیونکہ اگر کوئی حکومت کی ضرورت کو مانتا ہو لیکن آزادی کو محدود کرنے کو قبول نہ کرتا ہو تو اس کی بات تناقض گوئی پر مشتمل ہے حکومت قوانین اور مقررات مرتب کرتی ہے اور بعض کاموں کو جائز اور بعض کاموں کو ممنوع قرار دیتی ہے اور اگر کوئی ان کی خلاف ورزی کرے تو بعض کو مالی جرمانہ بعض کو زندان اور بعض کو دوسرے طریقوں سے سزائیں دیتی ہے۔

یھاں تک کہ بعض حکومتوں میں مثلاً اسلامی حکومت میں جسمانی سزائیں جیسے سزائے موت بھی قرار دی گئی ہے لھٰذا اس مقدمہ کو قبول کرنا ضروری ہے کہ بنیادی طور پر حکومت کا وجود اجتماعی آزادی کو محدود کرنے کے لئے ہی ہوتا ہے اور آزادی کے محدود نہ ہونے کا مطلب حکومت کا نہ ہونا ہے ہمیں یہ قبول کرنا چاہئے کہ اجتماعی زندگی کے لئے حکومت کی ضرورت ہے یعنی یہ قبول کریں کہ انسان کی سیاسی اور اجتماعی آزادی محدود ہو، یا یہ قبول کریں کہ انسانی اجتماعی زندگی کے لئے حکومت کی ضرورت نہیں ہے اور کسی کو دوسروں پر مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالنے کا بھی حق نہیں ہے؛ جس کے نتیجہ میں عوام الناس سیاسی اور اجتماعی مسائل میں مطلق آزادی سے بھرہ مند ہوسکیں ۔

قارئین کرام ! ہماری گذشتہ گفتگو کے پیش نظر یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ جو لوگ یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ ”آزادی حکومت اور قانون سے بالاتر ہے“ صرف ایک مغالطہ ہے حکومت کو چاہئے کہ آزادی کو محدود کرے اور اگر کوئی اس بات کاقائل ہوجائے کہ کوئی بھی حکومت انسانوں کی سیاسی اور اجتماعی آزادی کو محدود نہیں کرسکتی۔؛ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، اور حکومت بے کار، نامشروع اور غیر قانونی اور طاقت کے بل بوتے پر ہے۔

۳۔ حکومت کی مشروعیت کے منشاء کی طرف ایک اشارہاور ڈیموکریسی پر اشکالات

قارئین کرام ! اب جبکہ ہم نے یہ قبول کرلیا ہے کہ معاشرہ میں ایک قانونی اور مشروع حکومت کا وجود ضروری ہے جس سے سیاسی اور اجتماعی آزادی محدود ہوجائے، اس کے بعد ایک اساسی اور بنیادی مسئلہ ہمارے سامنے ہے: اول یہ کہ حکومت کس وجہ سے قانونی اور مشروعیت پیدا کرتی ہے اور حکومت کس حق کی بنا پر آزادی کو محدود کرتی ہے؟ دوسرے یہ کہ حکومت کس حد تک آزادی کو محدود کرسکتی ہے؟

گذشتہ بحث میں یہ بات واضح اور روشن ہوچکی ہے کہ ہمارے عقیدہ کی بنا پر اسلامی سیاسی نظریہ کے علاوہ حکومت کے لئے کوئی قابل قبول اور عقل پسند دلیل نہیں ہے کیونکہ اگر ہم یہ کھیں کہ حکومت کے زیر سایہ عوام الناس خود اپنی آزادی کو محدود کرتے ہیں البتہ اس چیز سے قطع نظر کہ اگر کوئی چاہے تو اپنی آزادی پر کنٹرول کرسکتا ہے اور پھر اس صورت میں حکومت کی کوئی ضرورت نہیں ہے تاکہ اس کی آزادی کنٹرول کی جاسکے،یہ نظریہ تناقض گوئی پر مشتمل ہے؛ کیونکہ جو شخص آزاد رہنا چاہتا ہے وہ کبھی بھی اپنی آزادی کو محدود کرنا نہیں چاہتا۔

سب سے آخری اور بہتر ین نظریہ جو دنیا بھر میں حکومت کی مشروعیت اور قانونی ہونے کے بارے میں بیان کیا جاتاہے اور دنیا بھر کے لوگ اس نظریہ کو قبول (بھی) کرتے ہیں یہ ہے کہ عوام الناس اپنے بعض حقوق حکومت کے حوالے کردیتے ہیں یعنی یہ انسان جو اپنی زندگی کا حاکم ہے اور اپنی زندگی کے لئے (مخصوص) قوانین بنا سکتا ہے اور اپنی آزادی کو محدود کرسکتا ہے، لیکن اپنے اس حق کو حکومت کے حوالے کردیتا ہے تاکہ اس کی اجتماعی زندگی کے لئے (بھترین) قوانین بنائے اور ان کو نافذ کرے یہ حکومت کو حاکمیت کا حق حوالے کرنا آج کل کی دنیا میں ڈیموکریسی کے نام سے مشھور و معروف ہے۔

قارئین کرام ! آج کل کی ڈیموکریسی تھیوری پر بھت سے اشکالات وارد ہوتے ہیں ، ہم ان میں سے صرف تین اشکالات پر اکتفاء کرتے ہیں :

پھلا اشکال:

کیا انسان کو اپنے اندر ہر طرح کا تصرف کرنے، اپنی آزادی کو محدود کرنے اور اپنے پر دباؤ ڈالنے کا حق ہے؟ یعنی کیا انسان کو حق ہے کہ خود اپنے کو سزا دے؟ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا بھر میں آج کل کی تمام حکومتیں خلاف ورزی کرنے والوں کی سزا معین کرتی ہیں اور بعض جرائم کے لئے قید با مشقت قرار دیتی ہے اور بعض جرائم کے لئے جسمانی سزا، شکنجہ اور سزائے موت قرار دیتی ہے تو کیا انسان کو خود کُشی کا حق ہے کہ جس کے نتیجہ میں اپنے لئے سولی کا حکم حکومت کے حوالے کردے؟ اگر انسان خود کُشی کا حق رکھتا ہو تو وہ دوسرے کو اس طرح کے قانون بنانے کا حق دے سکتا ہے کہ اگراس نے بعض ایسے جرائم کو انجام دیا جن کی سزا سولی ہو اور حکومت اس کے حق میں جاری کرسکے بے شک انسان خود کُشی کا حق نہیں رکھتا کیونکہ انسان کو اپنی جان کا اختیار نہیں ہے تاکہ جب بھی چاہے ختم کردے، انسان کی جان خداوندعالم کی طرف سے ہے، اور کسی کو اپنی جان کو نقصان پھونچانے کا حق حاصل نہیں ہے حد تو یہ ہے کہ اسلامی نظریہ کے مطابق انسان اپنے بدن کو نقصان بھی نہیں پھونچا سکتا کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنے بدن کو زخمی کرلے مثلاً اپنے ھاتہ یا انگلی کو کاٹ لے کیونکہ انسان کا بدن خداسے متعلق ہے اور انسان اس کا مالک اور صاحب اختیار نہیں ہے اس صورت میں کس طرح انسان حکومت کو سزائی اور فوجداری قوانین بنانے کا حق دے سکتا ہے اور حکومت کو مجرموں کو سزا دینے کی اجازت دے اور چور کے ھاتہ کاٹ دئے جائیں اور بعض مجرموں کو سزائے موت دیدی جائے؟

دوسرا اشکال:

فرض کرلیں کہ انسان اپنی جان اور بدن میں ہر طرح کا تصرف کرسکتا ہے اور اپنے بدن کو نقصان اور ضرر پھونچاسکتا ہے اور اپنی زندگی کو ختم کرسکتا ہے اور اس صورت میں اپنا یہ حق حکومت کے حوالے کردیتا ہے در حقیقت جو شخص پارلیمنٹ کو ووٹ دیتا ہے گویا قانون گذاری کے سلسلہ میں پارلیمنٹ کو اپنا وکیل بنادیتا ہے کہ اس کی اجتماعی زندگی کے لئے قوانین اور مقررات بنائے جن میں سے حقوقی اور سزائے قوانین (بھی) ہیں ؛ اسی طرح حکومت کو بھی اپنا وکیل بناتا ہے کہ اس پر قوانین نافذ کرے لیکن اس صورت میں صرف حکومت کو اپنے اوپر تصرف کا حق دیتا ہے، لیکن یہ حق نہیں دیتا کہ حکومت دوسروں پر بھی تصرف کرے اور ان کے حقوق اور ان کی آزادی کو سلب کرے بالفرض اگر انسان اپنے کو سزا دینے کاحق رکھتا ہو اور یہ حق حکومت کو دیدے کہ اگر اس نے خلاف ورزی کی تو اس کو سزا دے، تو اس صورت میں (بھی) صرف اپنا وکیل بنا سکتا ہے کہ اس کی طرف سے تصمیم گیری کرے اور اس پر عمل کرے لیکن دوسرووں کو سزا دینے کا حق (اسے نہیں ہے تاکہ یہ حق) حکومت کے حوالے کردے۔

ڈیموکریسی نظریہ کی رائج اصطلاح کا مطلب یہ ہے کہ عوام الناس حکومت کو وکالت دیتے ہیں اور اس کو اپنا وکیل اور نمائندہ قرار دیتی ہیں تاکہ وہ مختلف قوانین بنائے اور ان کو جاری کرے آج دنیا بھر میں رائج ڈیموکریسی حکومت اگر اکثریت سے جیت جائے یعنی ۵۱% یا اس سے زیادہ ووٹ حاصل کرلے تو پھر اسے حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ پورے معاشرہ کے لئے منجملہ ان لوگوں کے لئے (بھی) جنھوں نے حکومت کو ووٹ نہیں دیا ہے؛ قوانین بنائے اور ان کو لاگو کرے در حقیقت جب آدھے لوگوں نے نہ کہ سب نے حکومت کو ووٹ دئے ہیں صرف وہی ‎ لوگ حکومتی قوانین کو قانونی مانیں گے اور معاشرہ کے وہی ‎ لوگ ان قوانین کے سامنے اپنا سر تسلیم کریں گے لیکن یہاں پر ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تقریباً آدھے لوگوں نے حکومت کو ووٹ ہی نہیں دیا اور حکومت کو اپنا وکیل ہی قرار نہیں دیا کہ ان کی طرف سے قوانین بنائے اور ان کو جاری کرے، تو پھر اس صورت میں حکومت کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ ان کی اجتماعی زندگی کے لئے قوانین بنائے ، اور کس وجہ سے وہ ان پر حکم چلائے؟ اور اگر انھوں نے خلاف ورزی کی ہو تو ان کو سزائے اعمالتک پھونچائے؟ لھٰذا طے یہ ہوا کہ حکومت کے لئے اپنے مخالفین اور جن لوگوں نے اس کو ووٹ نہیں دیا ہے ؛ ان پر حکومت کرنے، اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنی اطاعت پر مجبور کرنے کے لئے کوئی (بھی) عقل پسند راستہ موجود نہیں ہے۔

تیسرا اشکال:

قارئین کرام ! موکل کو اپنے وکیل کو معزول کرنے کا حق ہوتا ہے، یا اس کے بنائے ہوئے منصوبوں کو لغو اور بے اثر کرنے کا حق ہوتا ہے لھٰذا اگر کوئی شخص ممبر آف پارلیمنٹ کو ووٹ دے کر انتخاب کرلے لیکن اس کے بعد اپنی رائے سے پلٹ جائے تو وہ اپنے نمائندہ کو اس مقام سے معزول کرسکتا ہے اس کے علاوہ وکیل کو صرف موکل کی مرضی کے مطابق ووٹ دینے کا حق ہوتا ہے اور یہ حق نہیں ہوتا کہ اپنے موکلوں کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھائے اب اگر تمام عوام الناس یا ان میں آدھے افراد کسی قانون کے مخالف ہوں ، تو حکومت اس قانون کو کس حق کے تحت جاری کر سکتی ہے؟

خلاصہ یہ ہے کہ ڈیموکریسی حکومت کی مشروعیت اور قانونی ہونے کے لئے کوئی عقل پسند راستہ موجود نہیں ہے! اور اس سلسلہ میں ڈیموکریسی نظریہ کے طرفدار لوگ یہ کھتے ہیں کہ ملک اور معاشرہ کوچلانے کے لئے ڈیموکریسی نظریہ سب سے بہتر ین نظریہ ہے کیونکہ اگر اقلیت کی مرضی کے مطابق حکومت بنے اور ان کی مرضی کے مطابق عمل کرے تو پھر اکثر عوام الناس کا حق ضایع ہوجائے گا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عوام الناس کی اکثریت مظاہرہ کرنے لگیں گے اور اس صورت میں ان کی شورش اور انقلاب کو روکنا مشکل ہوجائے گا یہی وجہ ہے کہ حکومت عوام الناس کی اکثریت سے انتخاب ہو اور ان کی مرضی کے مطابق عمل کرے؛ نہ یہ کہ حکومت عقل پسند مشروعیت رکھتی ہے۔

۴۔ اسلام میں حکومت کی مشروعیت اور اس کا قانونی ہونا

اسلامی نظریہ کے مطابق، وہ عقل جو انسان سے کھتی ہے کہ فلاں کام اچھا ہے اور فلاں کام بُرا ہے، وہی ‎ عقل جو انسان سے کھتی ہے کہ ماں باپ، استاد اور عوام الناس تم پر حق رکھتے ہیں لھٰذا ان کے حقوق کو ادا کرنا چاہئے، وہی ‎ عقل انسان سے کھتی ہے کہ وہ خدا جس نے تمام دنیا، تجھے او ر تمام مخلوقات کو پیدا کیا ہے اس کے حقوق دوسروں سے بھت زیادہ اور عظیم ہیں اور انسان کو چاہئے کہ ان کو ادا کرنا چاہتے اب چونکہ خداوندعالم نے ہمیں پیدا کیا ہے اور ہمارے وجود بلکہ تمام کائنات کا مالک ہے اور تمام چیزیں اس کے ارادہ سے وجود میں آتی ہیں ، اور اگر وہ ارادہ کرلے تو تمام چیزیں نابود ہوجائیں گی، اس نے اگر کسی کو قوانین نافذ کرنے کے لئے معین کیا ہے تو اس کا حکومت کرنا قانونی اور مشروعیت رکھتا ہے اور پھر عوام الناس کے قبول کرنے یا نہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے جس وقت وہ خدا جو ہم پر سب سے زیادہ حقوق رکھتا ہے(بلکہ تمام ہی حقوق اسی کی طرف سے ہیں ) اس نے حکومت اور ولایت کا حق پیغمبر، ائمہ معصومین علیہم السلام یا امام معصوم (ع) کے جانشین کو دیا ہے ، اس کو حق ہے کہ معاشرہ میں خدائی احکام نافذ کرے، کیونکہ یہ شخص اس ذات کی طرف سے منصوب ہوا ہے کہ کل ھستی، تمام اچھائیاں اور تمام حقوق وخوبصورتی اسی کی طرف سے ہے۔

اس بنا پر اسلامی حکومتی نظریہ میں جس میں حاکم اسلامی خداوندعالم کی طرف سے قوانین اور احکام الہی جاری کرنے کاحق حاصل ہوتا ہے،لھٰذا وہی ‎ مجرموں اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزائے اعمال تک پھونچا سکتا ہے، اور اس میں کسی بھی طرح کا کوئی تعارض نہیں ہے اور یہ نظریہ عقلی اصول پر (بھی) منطبق ہے البتہ یہ نظریہ ان لوگوں کے نزدیک قابل قبول ہے جو خداوندعالم پر ایمان رکھتے ہیں ورنہ اگر کوئی شخص خدا کو قبول نہ رکھتا ہو تو پھر وہ شخص اس نظریہ کو بھی قبول نہیں کرے گا، اور ہم پہلے اس کے لئے خداوندعالم کے وجودکا اثبات کریں اور اگر وہ خدا پر ایمان لے آتا ہے تو پھر اس موقع پر اس سے بیٹہ کر حکومت کے سلسلے میں اسلامی سیاسی نظریہ کے بارے میں بحث کریں لھٰذا جو افراد جو خدا ، رسول اور دین کو مانتے ہیں ان کے لئے بہتر ین راہ حکومت کی مشروعیت اور قانونی ہونے کے لئے یہی ہے کہ کل کائنات کا مالک خدا؛ معاشرہ کے مصالح کی رعایت کے لئے حق حکومت اپنے کسی (خاص) بندے کو عنایت کرتا ہے (تاکہ ا نسان معاشرہ کی خیر وبھلائی کے ساتھ آخرت کی سعادت بھی حاصل ہوجائے )

اسلامی معرفت کے پیش نظر اسی طرح اسلامی سیاسی نظریہ کی شناخت کی بنا پر معلوم یہ ہوتا ہے کہ انسانوں کے ایک دوسرے پر حقوق سے بالاتر خدا وند عالم حق ہے خداوندعالم کا، اس بنا پر اگر خداوندعالم اپنے کسی بندے کو کوئی کام کرنے کا حکم دے چاہے اس کے نقصان میں ہی کیوں نہ ہو تو اس کو انجام دینا چاہئے؛ البتہ خداوندعالم اپنے بے انتھا لطف وکرم اور مھربانی کی وجہ سے اپنی مخلوقات کے ضرر اور نقصان میں امر ونھی صادر نہیں کرتا، وہ کسی کا نقصان نہیں چاہتااور اس کے اوامر ونواہی انسان کی دنیا وآخرت کی مصلحت اور اس کی بھلائی میں ہوتے ہیں اور اگر خداوندعالم کے احکام کی تعمیل کی بنا پر انسان کو اس دینا میں کچھ نقصان بھی ہوتا ہے مثال کے طور پر اگر چند روزہ دنیا میں بعض لذتوں اور نعمتوں سے محروم رہتا ہے تو خداوندعالم اس کو آخرت میں جبران کردے گا اوردنیا میں ہوئے اس کے نقصان کے ھزاروں برابر اس کو ثواب اور اجر عنایت فرمائے گا۔

۵۔ انبیاء علیہم السلام اور عوام الناس کی ہدایت کا طریقه

خدا وندعالم نے اپنی طرف سے انبیاء علیہم السلام کو بھیجا تاکہ عوام الناس کو دین اور دنیا کے خیر وبھلائی کی ہدایت کریں خدا کی طرف سے بھیجا ہوا نبی پہلے تو حق (خدا) کی طرف دعوت دیتا ہے اور خدا کی آیات کو لوگوں کے سامنے تلاوت کرتا ہے اور جب ان کو خدا کی شناخت اور معرفت ہوجاتی ہے اور وظائف اور تکالیف قبول کرنے کا زمینہ فراہم کرتا ہے در حقیقت اس مرحلہ میں نبی یا پیغمبر عقل منفصل کا کردار ادا کرتا ہے ، اور اس سلسلہ میں کسی بھی طرح کا کوئی زور اور دباؤ نہیں دیا جاتا اور ان کی آزادی سلب کئے بغیر ان کی عقل وفہم کو بلند کرتا ہے تاکہ ان میں آزادانہ طور پر انتخاب کا زمینہ فراہم ہوجائے اور آزادانہ طور پر اسلام اور اس کے عظیم احکام کو قبول کرنے کا مادہ پیدا ہوجائے۔

پیغمبر اس لئے مبعوث ہوتا ہے تاکہ لوگوں کو حق و باطل کی شناخت کرائے اور ان کو حق و باطل کے راستہ پر لاکر کھڑا کردے تاکہ اپنی مرضی اور آزادی سے یا راہ حق وحقیقت کا انتخاب کرلے یا باطل کا راستہ اپنالے اس کے لئے وہ اپنی طاقت کے ذریعہ رسالت کو قبول نہیں کراتا یا دباؤ ڈال کر اپنے نظریات لوگوں سے قبول نہیں کراتا،(کیونکھ) یہ ارادہ الہی کے برخلاف ہے، خداوندعالم کا ارادہ یہ ہے کہ عوام الناس حق وباطل کے راستہ کو پہنچان کر آزادانہ طور پر کسی ایک کا انتخاب کریں لھٰذا معلوم یہ ہوا کہ خدا کا بھیجا نبی پہلے مرحلہ میں عوام الناس سے رابطہ برقرار کرتا ہے اور ان کو اپنے سے مانوس کرتا ہے ان سے گفتگو کرتا ہے نیز عقل دلائل ، معجزات اور آیات الہی کے ذریعہ اپنا پیغام ان تک پھونچاتا ہے، اور حق (وحقیقت) کی پہنچان کراتا ہے۔

انبیاء علیہم السلام خداوندعالم ، اس کی آیات اور الہی نظام کو مستقر ہونے کے سلسلہ میں عوام الناس پر کسی طرح کا کوئی سختی اور دباؤ نہیں ڈالتے تھے، ان کے اہداف میں لوگوں کی آزادی اور آگاہانہ انتخاب پر خاص توجہ رکھی جاتی تھی ، در حقیقت عوام الناس کی آزادی کا خیال دوسرے نظاموں سے زیادہ رکھا جاتا تھا، ان کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ عوام الناس دعوت خدا اور نظام کو قبول کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہوں اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ انسان کو خلق کرنے سے خداوندعالم کا ہدف اور مقصد یہ ہے کہ انسان آزاد اور خود انتخاب کرنے والا ہو اور اپنے مکمل اختیار اور آزادانہ طریقہ سے راہ حق کا انتخاب کرے اور اسی کی ہدایت حاصل کرے، انبیاء علیہم السلام کا دعوت خدا اور نظام الہی کا قیام کے لئے اپنی طاقت اور زور کا استعمال کرنا؛ خداوندعالم کے ہدف اور مقصد سے ہم اہنگ نہیں ہے اگر طے یہ ہو کہ انسان کسی راستہ کو مجبوری کی حالت میں یا طاقت کے زور پر قبول کرے تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس راستہ کی حقانیت کو نہ پہنچانے، یہاں تک کہ شاید اس راستہ کے صحیح (بھی) نہ مانتا ہو؛ کسی بھی راستہ کی حقانیت اور اس کے صحیح ہونے کومعین کرنے کے لئے پہلے اس کے بارے میں شناخت اور معرفت ضروری ہے اور آزاد طور پر اس راستہ کو انتخاب کرنے کا زمینہ ہموار کیا جائے اور پھر خداوند عالم کے اس ہدف کے تحت کہ انسان علم و آگاہی کے ساتھ آزادانہ طور پر حق و حقیقت کا راستہ انتخاب کرے، خداوندعالم نے معجزہ کے ذریعہ راہ حق کو عوام الناس پر نہیں تھونپا ہے اور اس کی مرضی بھی یہ نہیں ہے کہ معجزہ کے ذریعہ لوگوں کو آزادنہ انتخاب سے روک دے اور ان کی مرضی میں تصرف کرے تاکہ غیر اختیاری طور پر راہ حق کوقبول کرلیں ، اوراس کے مقابلہ میں سست پڑجائے، اسی وجہ سے خداوندعالم نے ارشاد فرمایا ہے:

( لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ الاَّ یَکُونُوا مُؤْمِنِینَ إِنْ نَشَا نُنَزِّلْ عَلَیْهمْ مِنَ السَّمَاءِ آیَةً فَظَلَّتْ اعْنَاقُهمْ لَها خَاضِعِینَ ) (۱)

”(اے رسول)شاید تم (اس فکرمیں ) اپنی جان ھلاک کر ڈالوگے کہ یہ (کفار)مو من کیوں نہیں ہو جاتے اگر ہم چاہیں تو ان لوگوں پر آسمان سے کوئی ایسا معجزہ نازل کر یں کہ ان لوگوں کی گر دنیں اس کے سامنے جھک جائیں “

۶۔ عوام الناس کی ہدایت میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت

قارئین کرام ! اس بات پر توجہ رہے کہ خداوندعالم نے عوام الناس کی ہدایت کے لئے اپنی طرف سے انبیاء بھیجے تاکہ راہ حق و باطل میں شناخت کرائیں ، تاکہ وہ صحیح راہ کی شناخت اور معرفت کے بعد آزادانہ طور پر اس صحیح راستہ کا انتخاب کریں ؛ بعض مستکبر اور منفعت طلب لوگ جو لوگوں کی جھل و نادانی سے ناجائز فائدہ اٹھاکر بھت زیادہ مال و دولت اکھٹا کرلیتے ہیں وہ لوگ انبیاء علیہم السلام کی دعوت حق اورلوگوں کی ہدایت میں اپنے شیطانی اہداف کی بنا پر مانع ہوتے ہیں ، اور انبیاء علیہم السلام سے مقابلہ کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں ، اور انبیاء علیہم السلام کو عوام الناس سے گفتگو بھی نہیں کرنے دیتے یا ان کو آیات الہی بھی نہیں سنانے دیتے تاکہ کھیں ایسا نہ ہوں کہ یہ لوگ ہدایت پاجائیں یہ لوگ اپنی طاقت کے بل بوتے پر عوام الناس کو بھت زیادہ آزار واذیت پھونچاتے ہیں اور ان کے لئے بھت سی مشکلیں پیدا کردیتے ہیں تاکہ عوام الناس ہدایت سے فیضیاب نہ ہوسکیں یہ لوگ جو عوام الناس کی ہدایت میں مانع ہوتے ہیں خداوندعالم نے ان کوقرآن مجید میں ”ائمہ کفر“ اور فتنہ وفساد کی جڑ کھا ہے ، اور حکم دیا کہ پیغمبر اور ان کے ساتھی ان سے مقابلہ کریں اور ان کو اپنے راستہ سے ہٹا دیں ؛ کیونکہ ان کا وجود اور ان کی شیطانی اور باطل حرکتیں خدائی اہداف میں مانع ہوتی ہیں کیونکہ خداوندعالم تو یہ چاہتا ہے کہ تمام انسان ہدایت سے سرفراز ہوجائیں اور راہ حق و باطل کو پہنچان لیں ، لیکن یہ لوگ مانع ہوتے ہیں :

ارشاد رب العزت ہوتا ہے :

( فَقَاتِلُوا ائِمَّةَ الْکُفْرِ إِنَّهمْ لاٰ ایْمَانَ لَهمْ لَعَلَّهمْ یَنتَهونَ ) (۲)

”تو تم کفر کے سربر آ وردہ لوگوں سے خوب لڑائی کرو ان کی چار قسموں کا ہرگز کوئی اعتبار نہیں ہے تاکہ یہ لوگ اپنی شرارت سے باز آجائیں “

مثال کے طور پر اگر کوئی شخص سڑک پر گاڑی چلارہا ہے اور اس کے راستہ میں ایک بڑا سا پتھر موجود ہو تو اس کو اپنا راستہ طے کرنے کے لئے اس پتھر کو سڑک سے اٹھاکر دور پھیکنا پڑے گا، اور اس سلسلہ میں اپنی تمام تر کوششوں کو اس میں لگادے گا تاکہ اس پتھر کو اپنے راستہ سے ہٹا دے اصولی طور پر ہر صاحب عقل انسان اپنے راستہ میں آنے والی رکاوٹ کو دور کرتا ہے خداوندعالم بھی اپنے اس ہدف کے تحت کہ انسان ہدایت یافتہ ہوجائے؛ حکم دیا ہے کہ پیغمبر اور ان کے اصحاب ، بلکہ دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ ہدایت کے سلسلہ میں موجود دنیا بھر کے استکبار ، بادشاہ، ستمگر، دولت پرست اور تمام شیطانی قدرتوں کے ساتھ جنگ کریں اور ان کو نابود کردیں ۔

خلاصہ یہ کہ : خداوندعالم کا فرمان یہ ہے کہ انسانوں کی ہدایت میں جو لوگ مانع ہوں (اہل کفر وباطل)ان کے ساتھ طاقت کے ذریعہ مقابلہ کیا جائے اور شدت پسندی کو ان کے حق جائز قرار دیا گیا ہے خداوندعالم نہیں فرماتا کہ ان کے ساتھ بیٹہ کر مسکرائیں اور خوش لھجہ، تبسم ، التماس اور التجا کریں کہ آپ حضرات اجازت دیں تاکہ ہم عوام الناس کی ہدایت کریں ! اگر وہ اس درخواست کو قبول کرنے والے ہوتے اور اپنی خوش لھجہ زبان سے اپنی برے چال چلن سے رکنے والے ہوتے تو پھر وہ مستکبر ہی کیوں ہوتے ان میں بنیادی طور پر استکبار ، حیوانیت اور سرکشی ان کے اندر شامل ہے، وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے انسانوں کو اپناغلام بنا نا چاہتے ہیں اور ان کاخون پی لینا چاہتے ہیں ، وہ اس چیز کی اجازت نہیں دیتے کہ ان کے منافع خطرہ میں پڑجائیں ،اسی وجہ سے یہ لوگ نہیں چاہتے کہ عوام الناس ہدایت یافتہ ہوجائیں اور انبیاء (علیہم السلام) کے فرمانبردار بن جائیں مومنین اور ہدایت کے طلبگاروں کے لئے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ باقی نہیں ہے کہ ان لوگوں سے شدت اور تشدد کے ساتھ برتاؤ کیا جائے، اسی وجہ سے خداوندعالم اپنے پیغمبر اکرم (ص) کو قرآن مجید میں حکم دیتا ہے کہ ان لوگوں سے جنگ کریں اور تشدد اور غصہ کے ساتھ ان کا مقابلہ کریں وہی ‎ پیغمبرجس کی صفت خداوندعالم یوں بیان فرماتا ہے:

( فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنْ اللهِ لِنْتَ لَهمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ ) (۳)

”(تو اے رسولیہ بھی)خدا کی ایک مھربانی ہے کہ تم (سا) نرم دل )سردار) ان کو ملا اور تم اگر بد مزاج اور سخت دل ہوتے تب تو یہ لوگ(خدا جانے کب کے )تمھارے گروہ سے تتر بتر ہو گئے ہوتے “

دوسری جگہ پیغمبر اکرم (ص) کو حکم ہوتا ہے کہ کفار (مشرکین اور منافقین) سے شدت کے ساتھ مقابلہ کریں اور ان سے جنگ کریں ، اور شدت پسندی کو ان کے حق میں جائز جانتا ہے، ارشاد ہوتا ہے:

( یَاایُّها النَّبِیُّ جَاهدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ وَاغْلُظْ عَلَیْهمْ وَمَاوَاهمْ جَهنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ ) (۴)

”اے رسول کفار کے ساتھ (تلوار سے)اور منافقوں کے ساتھ (زبان سے) جھاد کرواور ان پر سختی کرو اور ان کا ٹھکا نا تو جھنم ہی ہے اور وھ( کیا)جگہ ہے “

ایک دوسری جگہ خداوندعالم اپنے پیغمبر (ص) کوحکم دیتا ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کی جان اور مال کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں ان کے سات شدت پسندی سے برتاؤ کریں ، اور جیسے وہ کریں ان کو ویسا ہی جواب دیں ، اور بھت زیادہ شدت کے ساتھ جنگ کریں ، ارشاد ہوتا ہے:

( وَقَاتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ الَّذِینَ یُقَاتِلُونَکُمْ وَاقْتُلُوهمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوهمْ وَاخْرِجُوهمْ مِنْ حَیْثُ اخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَةُ اشَدُّ مِنْ الْقَتْلِ وَلاَتُقَاتِلُوهمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّی یُقَاتِلُوکُمْ فِیه فَإِنْ قَاتَلُوکُمْ فَاقْتُلُوهمْ کَذَلِکَ جَزَاءُ الْکَافِرِینَ ) (۵)

”اور جو لوگ تم سے لڑیں تم (بھی) خدا کی راہ میں ان سے لڑو اور زیادتی نہ کرو (کیونکہ ) خدا زیادتی کرنے والوں کو ہرگز دوست نہیں رکھتا ۔اور تم ان مشرکوں ) کو جھاں پاو مار ہی ڈالو اور ان لوگوں نے جھاں (مکہ سے)سے تمھیں شھر بدر کیا ہے تم بھی انہیں باہر نکال دو۔اور فتنہ پر دازی (شرک) خونریزی سے بھی بڑہ کے ہے اور جب تک وہ لوگ (کفار) مسجد حرام (کعبھ) کے پاس تم سے نہ لڑیں تم بھی ان سے اس جگہ نہ لڑو پس اگر وہ تم سے لڑیں تو (بے کھٹک) تم بھی ان کو قتل کرو۔کافروں کی یہی سزا ہے۔“

۷۔ الہی اقدار کی حفاظت اور مغربی کلچر سے روک تھام ضروری ہے

دشمنوں سے مقابلہ اور جھاد، شجاعت، غیرت، حمیت، دینی تعصب، دین سے رغبت، فداکاری اور ایثار وغیرہ بہتر ین اور عظیم ترین اسلامی اقدار ہیں جن کی وجہ سے مسلمانوں میں دینی پہنچان، حیات، استقلال اور آزادی وجود میں آتے ہیں لیکن اس کے مقابلہ میں مغربی کلچر (والے) یہ چاہتے ہیں کہ کچھ جھوٹے اور خود ساختہ اقدار جیسے مطلق طور پر شدت پسندی کو منع کرنا (وغیرہ) کے ذریعہ ہماری سلامی اقدار کو ہم سے چھینا چاہتے ہیں ؛ اسی وجہ یہ کھتے ہیں کہ شدت پسندی مطلق طورپر مذموم اور محکوم ہے!!

جی ھاں ہم بھی مانتے ہیں کہ ابتداء میں کسی کے ساتھ شدت پسندی مذموم اور محکوم ہے ، لیکن کیا شدت پسندی کے مقابلہ میں شدت پسندی یا ظلم وستم، قتل وغارت، جان و مال اورناموس پر تجاوز ، اور ان سب سے مہم اسلام (جس کے لئے مسلمانوں کی جان بھی قربان ہے) ؛ سے خیانت کرنے والوں کے مقابلہ میں بھی شدت پسندی بری اور محکوم ہے؟ مسلّم طور پر اس طرح کی شدت پسندی نہ صرف یہ کہ مذموم اور محکوم نہیں ہے بلکہ ضروری اور ہر مسلمان کی خواہش ہے۔

تو پھر کیوں ہم سے یہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنے دینی اقدار کو پامال ہوتے ہوئے دیکھیں جو کہ ہمیں جان سے بھی زیادہ عزیز ہے ان کو تمھارے ھاتھوں برباد ہوتا ہوا دیکھیں اور اپنے منہ پر ھاتہ رکہ لیں اور کچھ نہ کریں اور ان کے ساتھ بیٹہ کر مسکرائیں ؛ پس خداوندعالم نے انسان میں غضب کو کس لئے پیدا کیا ہے؟ کس لئے ہمارے اندر قھر وغضب کے احساس کو پیدا کیا؟ آیا کچھ شدت پسند، خائن اور زر خرید غلاموں کے مقابلہ میں کچھ بھی اقدام نہ کریں یہاں تک کہ اگر ہمارا دین بھی خطرہ میں پڑ جائے کچھ بھی نہ بولیں اور شدت پسندی کو نہ اپنائیں ؛ بلکہ آرام سے بیٹھے ہوئے مسکراتے رہیں ، پس یہ آیت کریمہ کس کے لئے ہے:

( وَاقْتُلُوهمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوهمْ )

کس لئے خداوندعالم نے یہ ارشاد فرمایا ہے:

( مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ وَالَّذِینَ مَعَه اشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَهمْ ) (۶)

”محمد (ص) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ انکے ساتھ ہیں وہ کفار کے لئےسخت ترین اور آپس میں انتھائی رحم دِل ہیں “

کھتے ہیں کہ اسلام تشدد اور شدت پسندی کا مخالف ہے، توآپ حضرات کھیں کہ اسلام کس شدت پسندی کا مخالف ہے؟ بعض مبہم چیزوں کو مطلق اقدار کے عنوان سے پیش کرتے ہیں تاکہ حقیقت کو چھپاسکیں ، تاکہ شھادت طلبی، ایثار اور شجاعت وغیرہ کو لوگوں سے چھین لیں ، اور ان کی جگہ بے توجھی، دین سے لاابالی اور دینی اور ملّی غیرت وغیرہ جیسے چیزوں کو عوام الناس میں رائج کریں ۔

ھمیشہ تساہل(سستی) اور تسامح (ذو معنیٰ باتیں کرنا)کی باتیں کرتے ہیں ، کیا جو شخص ہماری جان کے لئے خطرہ ہو اس کے مقابلہ میں تساہل اور تسامح سے کام لیا جاسکتا ہے؟! کیا وہ شخص جو انسانی ناموس میں خیانت کرے اس کے ساتھ تساہل اور تسامح سے کام لیا جاسکتا ہے؟ کیا وہ شخص جو ہمارے دین کو جو ہماری جان سے بھی زیادہ عزیز ہے ؛ ہم سے چھین لینا چاہتا ہو اس کے مقابلہ میں تساہل اور تسامح سے کام لیا جاسکتا ہے؟!

اس بنا پر ، اسلامی حکومت کی تشکیل سے پہلے عوام الناس کی ہدایت کرنا ضروری ہے ، اور اس مرحلہ میں عوام الناس سے سخت لھجہ میں گفتگو نہیں ہونا چاہئے، اور سختی اور طاقت کے بل بوتے پر اسلامی حکومت کے تحقق کے لئے قدم نہ اٹھایا جائے اسی طرح اس مرحلہ میں لوگوں سے جھوٹے وعدے، فریب کاری اور گمراہ کنندہ وسائل کے ذریعہ عوام الناس کی صحیح ہدایت میں مانع ہونا صحیح نہیں ہے اس مرحلہ میں بھر پور سنجیدگی، بردباری، حوصلہ، صبر اور بھرپور وضاحت ، صداقت اور منطق اور عقل کی بنیاد پر عوام الناس سے گفتگو کی جائے تاکہ وہ حقیقت تک پھونچ جائیں اور غفلت وجھالت سے نجات پیدا کرلیں البتہ اس سلسلہ میں پیش آنے والی تمام تر رکاوٹوں کو راستہ سے ہٹایا جائے، اور جو لوگ عوام الناس کی ہدایت میں مانع ہوتے ہوں ان سے مقابلہ کیا جائے تاکہ عوام الناس کے لئے حق وحقیقت کے راستے کو انتخاب کرنے کا راستہ فراہم ہوجائے۔

جس وقت عوام الناس کا ایک گروہ حق کی طرف ہدایت پاجائے تو پھر اس حق کے پیروکاروں میں اضافہ کرنے کے لئے اور ااسلامی اور الہی معاشرہ کی وسعت کے لئے عوام الناس میں ثقافتی کارکردگی اور راہنمائی صبر وتحمل کے ساتھ ہوتی رہیں ؛ جیسا کہ خداوندعالم بھی اپنے پیغمبر کو قرآن کریم میں اپنی رسالت کے پھونچانے میں صبر وتحمل کی طرف دعوت دیتا ہے اور آپ سے یہ چاہتا ہے کہ سختیوں ، بری بھلی باتوں ، گالیوں ، سخت برتاؤ اور اذیتوں کے مقابلہ میں صبر وتحمل سے کام لیں تاکہ عوام الناس ہدایت یافتہ ہوجائیں :

( فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اوْلُوا الْعَزْمِ مِنْ الرُّسُلِ ) (۷)

” اے رسول )پیغمبروں میں سے جس طرح اولوالعزم (عالی ہمت)صبر کرتے رہے تم بھی صبر کر۔

۸۔ قوانین کو جاری کرنے اور دشمن نظام سے بھر پور مقابله

قارئین کرام ! جس وقت خداوندعالم کی مرضی کے مطابق اسلامی حکومت تشکیل پائے، تو معاشرہ میں اسلامی احکام اور قوانین جاری ہوں اور دوسری حکومتوں کی طرح اس میں قوہ قھریہ (پولیس یا فوج) سے استفادہ کیا جائے، نیز حکومت کے پاس خلاف ورزی کرنے والوں سے مقابلہ کے لئے کافی اسباب و وسائل موجود ہوں ، اور مجرموں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے زندان، جرمانہ اور دوسری سزائیں معین کی جائیں ، اور بیرونی دشمنوں نیز اندرونی فتنہ وفساد سے روک تھا م کے لئے پولیس اور فوج کا انتظام کیا جائے؛ کیونکہ حکومت صرف اخلاقی طور پر وعظ ونصیحت سے اپنا کام نہیں چلا سکتی وہ حاکم جس کے پاس طاقت اور قدرت نہ ہو اور فقط وعظ ونصیحت اور تذکر پر اکتفاء کرے وہ اخلاقی معلم تو ہوسکتا ہے حاکم نہیں ہو سکتا!!

پس جس قوت اسلامی حکومت اور قانونی حکومت تشکیل ہوجائے اور عوام الناس اس حکومت کو قبول کرلیں اور اس کی بیعت کرلیں ، نیزحکومت بھی اسلامی قوانین اور احکام کو جاری کرنے اورملکی مسائل میں رسیدگی کرنے میں مشغول ہوجائے، تو اگر کوئی گروہ فتنہ وفساد اور آشوب برپا کرے تو اس سے مقابلہ ضروری ہے جیسا کہ ہماری اسلامی فقھی کتابوں میں وارد ہواہے کہ فتنہ وفساد اور آشوب برپا کرنے والوں (جن کو اصطلاحاً ”اہل بغی“ (بغاوت کرنے والے) کھا جاتا ہے) سے جھاد واجب ہے جس طرح حضرت علی علیہ السلام نے فتنہ وفساد پھیلانے والوں سے مقابلہ کیا ہے اور ان کو اپنی جگہ بٹھا دیا ہے۔

حضرت رسول اکرم (ص) کی وفات غم ناک کے بعد عوام الناس حضرت علی علیہ السلام کی بیعت پر آمادہ نہیں ہوئی جس کے نتیجہ میں حکومت دوسروں کے ھاتھوں میں چلی گئی، (اس وقت بھی) حضرت علی علیہ السلام نے لوگوں کی ہدایت فرمائی اور ان کی راہنمائی کی ہے ، اور حضرت نے ۲۵/ سال سے اپنے اس وظیفہ کو انجام دیا اور حکومت (وقت) سے کنارہ کشی اختیار کرلی لیکن جس وقت اسلامی ممالک مثل مصر، عراق اور مدینہ منورہ کے ایک بڑے مجمع نے آپ کی خدمت میں حاضری دی اور آپ کی بیعت کی ، اور آپ کو اپنا امام اور مقتدا تسلیم کرلیا، اس وقت حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اوپر حجت تمام دیکھی اور عوام الناس پر حکومت کرنے کا اپنا فریضہ سمجھا کیونکہ اس عظیم مجمع کی بیعت کے پیش نظر جس کا وجود تاریخ میں بے نظیر ہے ؛ حکومت سے دور رہنے کی کوئی دلیل باقی نہیں رہی ، لھٰذا آپ حکومت قبول کرنے پر مجبور ہوگئے؛ حالانکہ آپ کو حکومت سے ذرا بھی دلچسپی نہ تھی ، اور صرف عوا م الناس کی بیعت کے ذریعہ الہی وظیفہ کا احساس کرتے ہوئے حکومت کی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں سنبھالی، جیسا کہ آپ نھج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں :

”اَمَا وَ الَّذِی فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَا الْنَسَمَةِ لَولٰا حُضُورُ الْحَاضِرِ وَ قَیَامُ الْحُجَّةِ بِوُجُوْدِ النَّاصِرِ، وَمَا اَخَذَ اللّٰه عَلَی الْعُلَمَاءُ اَنْ لٰا یُقَارُّوْا عَلٰی کَظَّةِ ظَالِمٍ وَلاٰ سَغَبِ مَظْلُوْمٍ لَاَلْقَیْتُ حَبْلَها عَلَی غَارِبِها وَلَسَقِیْتُ آخِرَها بِکَاْسِ اَوَّلِها وَلَاَلْفَیْتُمْ دُنْیَاکُمْ هٰذِه اَزْهدَ عِنْدِیْ مِنْ عَفَطَةِ عَنْز “ (۸)

دیکھو! اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں ،اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہو گئی ہوتی ، اور خدا وندعالم نے علماء سے یہ عھد و پیمان نہ لیتا کہ وہ ظالم کی شکم پری اورمظلوم کی گرسنگی پر سکون وقرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو پہلے والے کے کاسہ سے سیراب کرتا اور میری نظر میں تمھاری دنیا کی قیمت بکری کی ناک سے بھتے پانی کی طرح ہے۔

لیکن ابھی حضرت علی علیہ السلام کی حکومت کو صرف چند ہی دن گذرے تھے کہ دنیا پرست اور تبعیض اور بے عدالتی چاہنے والوں نیز اپنے کو دوسروں سے بہتر جاننے والے حضرت علی علیہ السلام کی عدالت کو برداشت نہ کرسکے اسی طرح وہ لوگ جو حضرت علی علیہ السلام کی حکومت میں اپنی شیطانی تمناؤں اور غاصب اور غیر قانونی حکومت کو خطرہ میں دیکہ رہے تھے ، اسی طرح وہ سادہ لوح مسلمان جو صحیح اسلامی نظریہ کو سمجھنے سے قاصر تھے نیز ان کی فکر پست اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام کی عظیم حکمت عملی کو نہیں سمجھ رہے تھے، یہ تمام لوگ ایک کے بعد ایک فتنہ وفساد اور آشوب برپا کرنے لگے ، چنانچہ جنگ جمل، جنگ صفین اور آخر کار جنگ نھروان رونما ہوئیں اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام ایک اسلامی حاکم کے عنوان سے ؛ جب آپ نے الہی اور اسلامی قوانین و احکام کو خطرہ میں دیکھا تو آپ کا کیا وظیفہ تھا؟ کیا آپ ھاتہ پر ھاتہ رکھے تماشا دیکھتے رہتے!! اور فتنہ وفساد اور آشوب کی روک تھام نہ کرتے؟! کیونکہ تشدد اور شدت پسندی محکوم اور مذموم ہے؟!!

لیکن حضرت علی علیہ السلام نے اس وقت اسلامی حکومت اور اس کے ارکان کی حفاظت کے خاطر تلوار اٹھالی اور باغی اور سرکش لوگوں کے ساتھ جنگ کی ، جنگ جمل میں بھت سے صحابی رسول یہاں تک کہ طلحہ و زبیر جو مدتوں تک رسول اکرم (ص) کے ساتھ مل جھاد کرتے تھے؛ کو قتل کیا حالانکہ زبیر آپ کا پھوپھی زاد بھائی تھا اور اس کی جانفشانی اور آنحضرت (ص) کے بزم میں اپنے صلاحیت کی وجہ سے آنحضرت (ص) نے اس کے لئے دعا فرمائی ہے، لیکن حضرت علی علیہ السلام نے نہیں فرمایا: کہ اے زبیر ! تو میرا پھوپھی زاد بھائی ہے اور دونوں دوستی کرلیں ، اور میں تجھ سے نرم رویہ اختیار کروں گا اور تیری چاہتوں کو پورا کردو ں گا بلکہ آپ نے اس عقیدہ کے ساتھ کہ چونکہ میری حکومت حق ہے لھٰذا جو لوگ اس کے مقابلہ میں سرکشی کریں گے ان کو پسپا کردیا جائے لھٰذا آپ نے پہلے ان کو وعظ اور نصیحت فرمائی لیکن جب انھوں نے نہ مانا تو پھر تلوار کا سھارا لیا اور ان کو پسپا کردیا اور بھت سے لوگوں کو قتل کر ڈالا کیونکہ آپ کی نظر میں خدا اور مسلمانوں کا حق ذاتی مفاد سے کھیں بالاتر تھا اور اسلامی نظام کو باقی رکہنے کے لئے تشدد اور شدت پسندی کو ضروری سمجھا؛ کیونکہ اسلامی نظام کی حفاظت کے لئے تشدد اور شدت عمل کو واجب سمجھتے تھے۔

۹۔ سازش کرنے والوں اور زر خرید غلاموں کے مقابلہ میں عوام الناس کی ہوشیاری

قارئین کرام ! اسلامی انقلاب سے پہلے جب اسلامی حکومت تشکیل نہیں ہوئی تھی حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ اپنی تقاریر اور مکاتبات کے ذریعہ عوام الناس کی ہدایت اورراہنمائی کرتے تھے اور حکومت کو نصیحت فرمایا کرتے تھے؛ لیکن جس وقت لوگوں نے امام خمینی (رہ) کی بیعت کی اور اسلام پر اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہوگئے اور اسلام دشمن طاقتوں کو ملک سے باہر نکالنا چاہتے تھے اور اس ملک میں اسلامی و الہی حکومت کے خوھاں تھے، اس وقت حضرت امام خمینی (رہ) نے حکومت کی ذمہ داری قبول کی اور فرمایا:

”میں اس ولایت کی مشروعیت کی بنا پر جس کو خداوندعالم نے مجھے عطا فرمائی ہے نیز آپ حضرات کی مدد اور کمک کے ذریعہ اس حکومت کا جنازہ نکال دونگا اور خود حکومت بناؤں گا۔“

یعنی امام خمینی (رہ)ولی فقیہ کے عنوان سے عوام الناس پر حکومت کا حق رکھتے تھے اور آپ کی ولایت الہی مشروعیت اور قانونیت رکھتی تھی، لیکن جب تک عوام الناس میدان میں نہ آئی اور آپ کی بیعت نہ کی ، اس وقت تک اس ولایت نے عینی تحقق پیدا نہ کیا؛ لیکن عوام الناس کے میدان میں آنے اور انقلابی صحنوں کم نظیر حاضر ہونے اور راہ اسلام و رہبری کی اتباع کرنے میں وفاداری اور جانفشانی کے اعلان کے بعد ، وہ الہی ولایت عینی تحقق موجود ہوگئی اور اسلامی حکومت تشکیل ہوگئی۔

بے شک کہ اس اسلامی حکومت کو لاکھوں شھیدوں کا خون دینا پڑا ہے جس کی وجہ سے آج بھی باقی ہے اور بھت عظیم فدارکار اور انقلاب کے فداکاروں کے ذریعہ اس ملک کی سر حد اور انقلابی اقدار کی حفاظت میں مشغول ہیں لھٰذا چند زر خرید غلاموں کے ذریعہ اس کو کوئی نقصان نہیں پھونچنا چاہئے ہمارے عوام الناس اس چیز کی کبھی اجازت نہیں دیں گے کہ چند خود فروش مزدوروں کے ذریعہ ؛ اسلامی مصالح، لوگوں کی جان ومال اور ناموس خطرہ میں پڑ جائیں جو لوگ اس مرحلہ میں (۱۸ تیر ماہ ۱۳۷۸ھجری شمسی کے بعد سے(۹) کچھ آشوب بپا کرنے والے مزدوروں اور دوسروں کی روٹیوں پر پلنے والے سڑکوں پر نکل کر آشوب بپا کرنے لگے اور لوگوں کے گھروں ، دکانوں وغیرہ کو آگ لگائیں اور بھت زیادہ لوٹ مار کریں ، لوگوں کی ناموس اور عزت کو پامال کریں ، تو کیا ان تمام لوگوں کا سختی کے ساتھ مقابلہ نہ کیا جائے؟!! اور کیا اسلام تشدد کی اجازت نہیں دیتا؟! یا یہ کہ ان لوگوں نے اسلام کو نہیں پہنچانا ، یا پھر وہ مسلمانوں کے ساتھ خیانت کرنا چاہتے ہیں !!

ھنسی اور لوریاں دے کر تو آشوب گری سے روک تھام نہیں کی جاسکتی، ان کے مقابلہ میں پولیس، تشدد اور شدت عمل کے ذریعہ برتاؤ کیا جائے اور طاقت کے بل بوتے پر ان کی روک تھام ہوسکتی ہے، جس کے بعد پھر کبھی ملک میں اس طرح کے درد ناک حوادث رونما نہ ہونے پائیں کیونکہ ہمارے برادران ان لوگوں کے فریب میں نہیں آئیں گے جو کھتے ہیں کہ تشدد اور شدت پسندی ہمیشہ اور مطلقاً ممنوع ہے، ان کی باتوں کو نہیں مانیں گے اور اگر آج تک صبر کیا اور خون جگر پیا ہے تو وہ مقام معظم رہبری حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای مد ظلہ کی طاعت اور فرمانبر داری کی وجہ سے ہے، ورنہ تو جب ہمارے فداکار لوگوں کو یہ احساس ہوجائے کہ مقام معظم رہبری فلاں کام پر دل سے راضی نہیں ہیں تو پھر ان کی مرضی کے لئے اپنی جان کی بازی بھی لگاسکتے ہیں چنانچہ پوری دنیا نے دیکھا کہ جب مقام معظم رہبری نے ساکت رہنے اور آرام سے رہنے کے لئے کھا تو سبھی لوگ آپ کی اطاعت اور عمومی مصالح کی بنا پر سب بیٹھے دیکھتے رہے اور خون جگر پیتے رہے اور جب تک آپ کا اشارہ نہ ہوا سڑکوں پر نہ آئے اور مظاہرے نہ کئے، لیکن جیسے ہی انقلاب سے وفاداری کے اعلان کا وقت آپہنچا تو دشمنوں کو دکھادیا کہ ہم ہمیشہ اسلام اور انقلاب سے دفاع کرنے کے لئے حاضر ہیں ، پورے ملک میں وہ عظیم مظاہرے ہوئے جن پردنیا بھر کے لوگوں اور خود دشمنوں نے تعجب کیا۔

حوالے

(۱)سورہ شعراء آیت ۳ تا ۴

(۲) سورہ توبہ آیت ۱۲

(۳)سورہ آل عمران آیت ۱۵۹

(۴) سورہ توبہ آیت ۷۳

(۵) سورہ بقرہ آیت ۱۹۵۰ تا ۱۹۱

(۶) سورہ فتح آیت ۲۹

(۷)سورہ احقاف آیت ۳۵

(۸)نھج البلاغہ خطبہ نمبر ۳

(۹)یہ تھران یونیورسٹی میں ہونے والے حادثہ کی طرف اشارہ ہے جس کی آگ وھاں سے شروع ہوکر شھر کے مختلف مقامات تک پہنچی اور جس میں امریکہ غلاموں نے قتل وغارت اور بربریت کا وہ کھیل کھیلا جس سے انسانیت لرز اٹھی یہاں تک کہ عبادت گاہوں اور مساجد میں آگ لگادی گئی (مترجم)