اسلام اور سیاست جلد ۲

اسلام اور سیاست 0%

اسلام اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اسلام اور سیاست

مؤلف: آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی دام ظلہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 22330
ڈاؤنلوڈ: 3507


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 31 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22330 / ڈاؤنلوڈ: 3507
سائز سائز سائز
اسلام اور سیاست

اسلام اور سیاست جلد 2

مؤلف:
اردو

سیتیسواں جلسہ

تشدد کے سلسلہ میں ایک تحقیق

۱۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر

ہم نے عرض کیا کہ اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ معاشرہ میں اسلامی قوانین نافذ کرے اور امن وامان برقرار رکھے نیز ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ رکھے ظاہر سی بات ہے کہ اس سلسلہ میں پولیس ، طاقت اور تشدد سے کام لیا جائے گا اور جو لوگ اسلامی ملک سے دشمنی اور عناد کی بنا پر جنگ وجدال کرتے ہیں ؛ ان سے پیار ومحبت اور نرمی کے ساتھ مقابلہ نہیں کیا جاسکتا، یا وہ لوگ جو اندرون ملک شیطانی حرکتوں کے تحت فساد کرتے ہیں ؛ ان سے پیار ومحبت کے ذریعہ ان سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔

ہم نے یہ بھی عرض کیا کہ جس طرح سے اسلامی قوانین رحمت ومحبت اور مھربانی پر مبنی ہوتے ہیں اور اسلام پیام دوستی ومحبت دیتا ہے؛ اسی طرح خاص مواقع پر طاقت، سخت رویّےاور خشونت (شدت پسندی)سے بھی کام لیا جاتا ہے، اور اسلام مجرموں اورفساد کرنے والوں کے ساتھ مقابلہ کرنے اور سزا دینے کا بھی حکم دیتا ہے لیکن چونکہ یہ بحث ایک فرعی تھی اور اس بحث کا شمار ہماری اصلی بحث میں نہیں ہوتا، لھٰذا مختصر طور پر اس سلسلہ میں گفتگو ہوئی لیکن حق مطلب ادا نہیں ہوسکا لیکن اس سلسلہ میں اخباروں اور جرائد میں ہونے والے عکس العمل (ری ایکشن) سے اندازہ ہوتا ہے کہ محبت اور تشدد کے سلسلہ میں مزید تفصیلی بحث کی ضرورت ہے، لھٰذا اس جلسہ کے لحاظ سے اس موضوع پربعض چیزیں بیان کرتے ہیں ۔

۲۔ دشمنوں کی طرف اسلام کے خلاف پروپیگنڈا اور کارکردگی

ایک زمانہ سے اسلام کے دشمنوں نے دین اسلام کو تشدد اور شدت پسندی کا دین قرار دے رکھا ہے اور کھتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے، کیونکہ اسلام نے دشمنوں سے جھاد اور مقابلہ کو قابل ستائش قرار دیا ہے، چنانچہ قرآنی بھت سی آیات جھاد کے بارے میں موجود ہیں ، اور جھاد کو فروع دین قرار دیا گیا ہے۔

چنانچہ بعض لوگ اس مسئلہ سے نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے کھتے ہیں کہ اسلام، تشدد اور شدت پسندی کا دین ہے ، اور اسلام پھیلانے کے لئے طاقت اور تلوار کا استعمال کیا گیا ہے، یعنی لوگوں نے ڈر کر اسلام کوقبول کیا ہے ان کے مقابلہ میں بعض لوگوں نے اس نظریہ سے متاثر ہوتے ہوئے دفاعی لھجہ اختیار رکرتے ہوئے کھا کہ اسلام میں تشدد نہیں ہے، اسلام ہمیشہ پیار ومحبت کی دعوت دیتا ہے، اور جھاد یا شدت پسندی کے مسائل ایک خاص زمانہ اور خاص مقام سے مخصوص تھے ، عصر حاضر میں ان مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے، اور ان کو (آج کل) بیان بھی نہیں کرنا چاہئے، آج کل صرف پیار محبت اور جھک کر باتیں کرنا چاہئے!

ہماری ملت جانتی ہے کہ دشمن کن اغراض ومقاصد کے تحت اسلام کے خلاف پروپیگنڈاکررہا ہے لھٰذا ہماری ملت دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہوتی لیکن توجہ رہے کہ مسئلہ یہی پر ختم نہیں ہوتا بلکہ اس سے آگے قدم رکھا جاتا ہے ، اور جیسا کہ آپ حضرات جانتے ہیں کہ آج اسلامی دشمن طاقتیں نئے نئے طریقوں سے اسلام کے خلاف پروپیگنڈاکررہی ہیں اور ہر روز مختلف طریقوں ؛ جیسے ادبی، ھنری اور دیگر طریقوں سے اسلامی معارف میں شبھات و اعتراضات وارد کررہی ہیں ، تاکہ ہماری ثقافت میں خطرناک برے آثار پھیلادیں تاکہ عوام الناس دینی سلسلہ میں کمزور ہوجائیں یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں نفسیاتی اور ذاتی تجربات شھادت دیتے ہیں ۔

ہم نے اپنی آنکھوں سے اپنے اسلامی معاشرہ اور دوسرے اسلامی ملکوں کو دیکھا ہے کہ جس وقت اسلام دشمن طاقتیں اپنے مختلف طریقوں سے مسلسل پروپیگنڈاکرتی ہیں اور کسی ایک معاشرہ کو تحت تاثیر قرار دیتی ہیں ، یہاں تک کہ آنے والی نسل (جودشمن کے مد نظر ہوتی ہے) دشمن کی تبلیغ سے متاثر ہوجاتی ہے، اور جوان طبقہ دشمن کے پروپیگنڈے کی زد میں آکر اپنی دینی اور قومی حیثیت بھول جاتا ہے اور جیسا کہ دشمن چاہتا ہے اپنی اصلی حیثیت کو بھول کر دشمن کی پیش کردہ صورت اپنالیتا ہے۔

اگر ہم عصرِ حاضر کی ثقافت خصوصاً روشن خیال رکہنے والوں کے یہاں رائج ثقافت کو دیکھیں تو دشمن کے پروپیگنڈے کے آثار واضح طور پر دکھائی دیں گے، اور ان چیزوں کا بھی مشاہدہ کرلیں گے جو دشمن نے ہماری یہاں رائج کی ہیں ہماری ثقافت میں دشمن کی رائج کردہ چیزوں میں سے آزادی اور ڈیموکریسی ہیں جس کو مطلق اقدار کی صورت میں ہمارے معاشرہ میں رائج کردیا گیا ہے، اور ان چیزوں کے بارے میں اس قدر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ گویا ایک بت ہے کہ کوئی اس ڈیموکریسی کے خلاف بولنے کی جرائت نہیں کرتا اور نہ ہی اس کے نقائص کو بیان کرسکتا ہے حالانکہ خود مغربی دانشور وں نے ڈیموکریسی کے سلسلہ بھت زیادہ اور سخت تنقید کی ہے، اور آج بھی بھت سے سیاسی فلاسفہ اور سماج ماہرین مختلف مواقع پر ڈیموکریسی کے برخلاف گفتگو کیا کرتے ہیں نیز اس سلسلہ میں کتابیں بھی لکھی جاتی رہی ہیں ، اور یہی نہیں بلکہ ان میں سے بعض (بھترین) کتابوں کا دنیا کی مختلف مشھور زبانوں میں ترجمہ ہوتا ہے منجملہ فارسی (و اردو) ، ان کو عوام الناس پڑھتے ہیں ؛ لیکن اس زمانہ میں دشمنوں کی طرف سے ڈیموکریسی کے اس طرح مقدس جلوہ دکھائے جاتے ہیں کہ جھان سوم میں کوئی اس کے خلاف بولنے کی جرائت نہیں کرتا اور اس سلسلہ میں تنقید نہیں کرسکتا، اگر کوئی مغربی ممالک میں رائج ڈیموکریسی اور آزادی کے بارے میں زبان کھولے تو اس کو بیک ورڈ اور ظلم واستبداد جیسی تھمتوں سے نوازا جاتا ہے۔

۳۔ مغربی ممالک میں حقوق بشر کا جھوٹا دعویٰ

بے شک مغربی باشندے اپنے پروپیگنڈوں کے پیچھے ایک خاص مقصد چھپائے ہوئے ہیں ، اور اپنے منافع کے خاطر نیز انقلابی ممالک کو اپنے تحت لانے کے لئے ہمیشہ ڈیموکریسی، آزادی اور حقوق بشر کا دم بھرتے ہیں ، اور اگر کوئی ان کی مخالفت کرتا ہے تو اس پر ڈیموکریسی کی مخالفت اور حقوق بشر کی پامالی کی تھمت لگاتے ہیں حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ظالم ترین اور ڈکٹیٹر" Dictaor " حکومتوں کے ظلم وستم کے مقابلہ میں کوئی عکس العمل ( ری ایکشن) نہیں دکھایا جاتا، کیونکہ اس حکومت کے ذریعہ ان کے مقاصد پورے ہوتے ہیں بلکہ خود وہ حکومتیں انہیں کی پٹھو ہوتی ہیں ۔

قارئین کرام ! ان کے جھوٹے دعوں کا پول تو اس وقت کھلتا ہے جب کسی ملک میں ڈیموکریسی اصول وضوابط کے تحت انتخابات ہوتے ہیں لیکن اسلام پسند پارٹی اکثریت میں آجاتی ہے اور وہ پارٹی کامیاب ہوجاتی ہے تو اس وقت ان انتخابات کو باطل قرار دیدیا جاتا ہے؛ اور فوجی بغاوت کے ذریعہ فوجی حکومت قائم کردی جاتی ہے اور ہر روز ھزاروں بے گناہ لوگوں کا خون بھایا جاتا ہے، اور آزادی خواہ مسلمانوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے اور حقوق بشر کے یہ جھوٹے نعرے لگانے والے نہ صرف یہ کہ اس حکومت کو حقوق بشر پامال کرنے اور آزادی کی رعایت نہ کرنے کا الزام نہیں لگاتے بلکہ جلد ہی اس حکومت کو تسلیم بھی کرلیتے ہیں اور ان کے کارناموں کی تائید کرتے ہیں اور بھت ہی وسیع پیمانے پر ان کی حمایت کرتے ہیں ۔

یا جس وقت صھیونیزم ”سر زمین فلسطین“ پر قبضہ کرتے ہیں اور لوگوں کو اپنے گھروں سے باہر نکال دیتے ہیں اور ھزاروں بے گناہ لوگوں کا خون بھاتے ہیں اور لاکھوں لوگوں کو اپنے ملک سے باہر نکال دیتے ہیں ،اس وقت کوئی نہیں کھتا کہ ان کا یہ کام حقوق بشر کے خلاف ہے بلکہ طاقتور ممالک اور سوپر پاور ممالک اس غاصب اور قابض حکومت کو تسلیم کرلیتے ہیں ، جبکہ یہ ظالم اور غاصب حکومت اس سر زمین کے اصلی مالکوں کا قتل عام کرتی ہے اور ان کے گھروں کو مسمار کر رہی ہے، لیکن ان سب کو دیکہ حقوق بشر کا نعرہ لگانے والے کوئی اعتراض نہیں کرتے صرف کبھی کبھار اقوام متحدہ اپنی سیاست کے تحت کوئی بے معنی اور غیر موثر حکم صادر کرتی ہے اور عملی طور پر اس غاصب وظالم حکومت کو گرین لائٹ دکھاتی ہے کہ اگر اس حکم نامہ پر عمل نہ بھی کیا تو کوئی بات نہیں کوئی مشکل پیش آنے والی نہیں ہے اور کسی طرح کا کوئی ایکشن نہیں لیا جائے گا۔

جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ دسیوں حکم نامہ اسرائیل غاصب کے خلاف دئے جاچکے ہیں لیکن اس نے کسی پر بھی عمل نہیں کیا ہے اورہمیشہ ان کی مخالفت کرتا رہا ہے ، لیکن نہ یہ کہ کبھی اس کو سزا دی گئی بلکہ انعام کے طور پر اس کو کروڑوں ڈالر کی (بلا عوض) امداد کی جاتی ہے اور بڑے بڑے اسلحے، مھلک ھتھیار (آئیٹم بم) بنانے کی ٹکنالوجی دی جاتی ہے توکیا کوئی حکومت اور حقوق بشر کا دفاع کرنے والوں نے اس غاصب اسرائیل کے بارے میں جو انسانوں کے روز مرہ کے حقوق بھی پامال کر رہا ہے اور اقوام متحدہ کے حکم ناموں کو بھی نہیں مانتا او رہمیشہ ان کی مخالفت کرتا ہے، کیا اس کو کبھی کسی نے ڈیموکریسی اور حقوق بشر کا مخالف قرار دیا؟!!

۴۔ اسلامی نظام پر تشدد طلب ہونے کا الزام اور اس کے خلاف سازشیں

ہمارے ملک میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد (اسلام دشمن طاقتوں نے) تشدد کے سلسلہ میں بھت زیادہ پروپیگنڈا کیا ہے، سب سے پہلے یہ کھا کہ شاہ پہلوی کی قانونی حکومت کے سامنے قیام کرنا تشدد ہے اور انقلاب کی کامیابی کے بعد، جب منافقین گروھوں نے عوام الناس کو اپنے غیر اسلامی اہداف سے ہم اہنگ نہ پایا تو انھوں نے انقلاب اور عوام الناس سے مقابلہ شروع کردیا اور دینی اور سیاسی مہم شخصیتوں کو قتل کرنے لگے یہاں تک کہ بے گناہ لوگوں پر بھی رحم نہ کیا، جس کے بعد عوام الناس نے بھی ان سے مقابلہ شروع کردیا اور ان کو ملک سے بھگادیا؛ اس روز سے آج سے مغربی ممالک ہمارے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں اور کھتے ہیں کہ منافقین سے ایسا برتاؤ کرنا تشدد ہے! کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ ان منافقین کے گروھوں نے کس قدر ہمارے ملک کو نقصانات پھونچائے ہیں کوئی مہم شخصیتوں کے قتل کی مذمت نہیں کرتا ہے، لیکن جس وقت ایک ملت اپنے دین اور ملک سے دفاع کرنے کے لئے قیام کرتی ہے اور ٹرورسٹوں " Terroristes "کو پسپاکرتی ہے اور ان میں سے بعض لوگوں کو سزائے اعمال تک پہنچاتی ہے اور بعض کو ملک بدر کرتی ہے تو اس وقت شور و غل مچاتے ہیں کہ یہ سب کچھ حقوق بشر کے خلاف ہے!!

اسی طرح جب ۱۸ تیر ماہ ۱۳۷۸ئہ شمسی کے بعد بعض فتہ وفساد برپا کرنے والے بیت المال، عوامی مال دولت، بینک، ذاتی اور سرکاری گاڑیوں یہاں تک کہ مسجدوں میں بھی آگ لگادیتے ہیں اور عورتوں کو بے آبرو کرتے ہیں عورتوں کے سروں سے چادر چھین لیتے ہیں ؛ اس وقت کوئی نہیں کھتا کہ یہ کام حقوق بشر کے خلاف ہے ، بلکہ ان لوگوں کو اصلاح طلب اورڈیموکریسی و آزادی کا طرف دار کھا جاتا ہے! لیکن اگر اسلامی جمھوری ایران اور فدا کار بسیجی ( عوامی رضاکار فوج) بے خوف وخطر ان سے مقابلہ کرتی ہے اور دین و شرف اور اپنے محبوب نظام سے دفاع کے لئے اٹہ کھڑی ہوتی ہے اور فتنہ وفساد پھیلانے والوں کا قلع وقمع کرتی ہے تو اس موقع پر یہ لوگ فلک شگاف نعرے لگاتے ہیں کہ ایران میں آزادی نہیں ہے، اور ایرانی نظام حکومت ڈکٹیٹر شب" Dictaorship " ہے!!

مغربی ممالک اپنے دعوی کے باطل ہونے کو جانتے ہیں لھٰذا انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد سے اسلامی نظام کو درہم و برہم کرنے کے لئے اس طرح کے پروپیگنڈے کیا کرتے ہیں اگرچہ ہم ان کے نحس مقاصد اور ارادوں سے بے خبر نہیں ہیں ، لیکن وہ اپنے تجربات کی بنا پر اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس طرح ایک نظام کو سرنگوں کیا جاتا ہے چاہے پچاس سال کے بعد ہی کیوں نہ ہو، (اگرچہ ان کا یہ خیال باطل اور بے ہودہ ہے) لھٰذا وہ ابھی سے اس سلسلہ میں مختلف طریقوں سے بھت زیادہ کارکردگی کر رہے ہیں ان کا مقصد یہ ہے کہ انقلاب کی ایک دو نسل گذرنے کے بعد جنھوں نے انقلاب کو نہیں سمجھا ہے اور انقلاب سے پہلے مفاسد اور شاہ پہلوی کے ظلم و جور کو نہیں دیکھا ہے اور اسلامی نتائج سے آگاہی نہیں رکھتے نیز حضرت امام خمینی (رہ) اور ان کے ساتھیوں کے تربیت یافتہ نہیں ہے، یہ سبب ان کے پروپیگنڈوں سے متاثر ہوجائیں گے؛ تاکہ اسلامی حکومت کو سرنگون کرکے اپنی مرضی کی حکومت تشکیل دیں جس کو آج کی اصطلاح میں ڈیموکراٹک " Democratic "کھا جاتا ہے۔

۵۔ لوگوں میں انتخابات سے بائیکاٹ کا راستہ ہموار کرنا

یہ لوگ اپنے نحس مقاصد تک پہنچنے کے لئے حساب شدہ منصوبہ بندی کرتے ہیں اور ثقافتی بنیادی فعالیت انجام دیتے ہیں اور موثر و کارگر وسائل کو بروئے کار لاتے ہیں انقلاب کی کامیابی کے بعد سے (خصوصاً آخری چند سالوں سے) جن الفاظ سے استفادہ کرتے ہیں ، ان میں سے تساہل (سستی) تسامح (لاپرواہی) اور مدارا(تال میل) ہیں جن کو مطلق اقدار کے عنوان سے پیش کرتے ہیں ، اور اس کے مقابلہ میں قاطعیت اور تشدد کی مطلق طور پر مذمت کرتے ہیں ۔

اس نظریہ کی دلیل یہ ہے کہ انھوں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ جو چیز نظام اسلامی کے بقاء کی ضامن ہے وہ ہے عوام الناس خصوصاً جوانوں اور بسیجیوں کا اسلام اور رہبری سے لگاؤ اور محبت ہے ؛ یہاں تک کہ ان اقدار کی حفاظت (جو کہ لاکھوں شھیدوں کے خون کی برکت سے حاصل ہوا ہے) ؛ کے لئے اپنی جان سے کھیلنے کے لئے حاضر ہیں یہ لوگ علم و ادب اور ثقافتی پروپیگنڈوں سے عوام الناس کی شجاعت، ایثار، بھادری، معنوی طاقت اور دینی غیرت کو چھین لینا چاہتے ہیں اسی وجہ سے منفی ، غیر انسانی اور ظالمانہ تشدد جو دنیا بھر میں ہوتی رہتی ہے، اور جس کے تباہ کن نتائج ہر روز دیکہنے میں آتے رہتے ہیں ؛ اس کو ہمارے سامنے بیان کرتے ہیں تاکہ یہ سمجھائیں کہ تشدد کے یہ برے نتائج ہوتے ہیں ؛ لھٰذا کسی بھی طرح کی کوئی تشدد صحیح نہیں ہے بلکہ مذموم ہے یہاں تک کہ اگر کوئی غیظ وغضب میں کچھ کھے، یا” امریکہ مردہ باد“ کے نعرہ لگائے یا فساد پھیلانے والوں سے مقابلہ کرے اوران کو کچل دے ، تو ان کا یہ کام تشدد ، شدت پسندی اور محکوم و مذموم ہے۔

ان لوگوں مقصد یہ ہے کہ اس طرح انقلابی اقدار کا دفاع کرنے والوں کو شدت پسندی کانام دے کر عوام الناس کو سست کردیں تاکہ کوئی ان کی خطرناک سازشوں سے مقابلہ کے لئے کھڑا نہ ہو ، اور اپنے خیال ناقص میں ۲۸ مرداد ۱۳۳۲ھجری شمسی کی بغاوت کی طرح ایک دوسری بغاوت کرادیں اور جیسا کہ ان لوگوں کا کام ہے ۲۸ مرداد میں مٹھی بھربد معاش، لچّے لفنگے لوگوں کے ذریعہ بغاوت کرادی اور انھوں نے لوگوں کی جان ومال اور ناموس پر حملہ کیا اور دشمن کے نقشہ کو عملی جامہ پھنادیا؛ اسی طرح ۱۸ تیر ماہ ۱۳۷۸ئہ شمسی کو بھی اپنے ناپاک منصوبہ کے لئے مناسب پایا اور ملک میں بغاوت پھیلادی چنانچہ ان لوگوں نے اس سلسلہ میں بھت زیادہ مطالعہ اور تحقیق ، بھت زیادہ خرچ کرکے سادہ لوح افراد کو فریب دینے کے لئے اس کام کے مقدمات پہلے سے تیار کررکھے تھے جیسا کہ اس حادثہ میں ملوث افراد نے خود اپنے انٹر یو میں اس بات کا اقرار کیا کہ انھوں نے امریکہ سے پیسہ اور فکری امداد حاصل کی تھی ، یہ سب اسی حقیقت کی عکاسی ہے تاکہ جب موقع پائیں تو بد معاش اور لچّے لفنگے لوگوں کو میدان میں اتار دیں تاکہ یہ لوگ اندرونی اور بیرونی میڈیا کی امداد اور مختلف طریقوں سے کمک کے ذریعہ بدامنی پھیلائیں اور دکانوں ، گھروں اور دفتروں کو آگ لگائیں خلاصہ بغاوت کے نقشہ کو عملی جامہ پھنادیں ۔

جی ھاں ، یہ لوگ شدت پسندی کو برا اور مذموم کھہ کھہ کر عوام الناس میں مقابلہ کے حوصلوں کمزور کرنا چاہتے تھے نیز انقلاب سے دفاع کے سلسلہ میں ان کے حوصلے پست کرنا مقصود ہے،تاکہ جب ضد انسانی اور ضد انقلابی کارناموں کا نظارہ کریں اور عوام الناس کے مال و دولت کو غارت ہوتے دیکھیں نیز سرکاری ملکیت کو نابود ہوتا ملاحظہ کریں اور خود فروش لوگوں کے ذریعہ بلوا ہوتے دیکھیں تو سب کے سب خاموش بیٹھے تماشا دیکھتے رہیں اور فتنہ و فساد پھیلانے والوں کو کچلنے کی فکر نہ کریں بلکہ صرف تباہی پھیلانے والوں سے آرام کے ساتھ گفتگو کرنے کی دعوت دیں اور ان کے مطالبات کو سنیں اور ان سے کھیں کہ ھاں تمھیں اعتراض کرنے کا حق ہے، تم واقعاً پریشان ہو، لھٰذا تم اپنی طرف سے کسی کو نمائندہ بنا کر بھیجو تاکہ آپس میں بیٹہ کر آرام کے ساتھ گفتگو کریں ، تمھارے مطالبات کو پورا کیا جائے گا، آؤ اور آپس میں سمجھوتہ کرلیں کچھ تم لوگ اپنے مطالبات کم کرو اور کچھ ہم اپنی سیاست سے پیچھے ہٹیں ۔

جب کہ یہ بات ظاہر ہے کہ ان کے مطالبات قوانین اسلامی کو ختم کرنے، اسلامی شعارکو حذف کرنے ، اور اسلام کا دفاع نہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوں گے، اور ان سب مطالبات کو مان لینے کے بعدملکی پیمانہ پر ایک بھت بڑی بغاوت رونما ہوجائے گا جس کے نتیجہ میں اسلامی اقدار کا خاتمہ ہوجائے گا، اور اگر دوسرے ممالک کی امداد کی ضرورت ہوگی (جیسا کہ پہلے سے طے ہوچکا تھا) مشرقی اور مغربی سرحدپار سے ملک پر حملہ کرکے اس نظام کا خاتمہ کر دیا جائے گا اور پھر اپنی مرضی کے مطابق کسی کو حاکم بنادیا جائے گا۔

۶۔ اسلامی مقدسات کی توہی ‎ ن کرنے والوں اور ثقافتی سازشوں سے مقابلہ کی ضرورت

المختصر : ان آخری چند سال سے تشدد اور شدت پسندی کے مسئلہ کو مطلق طور پر اقدار کے مخالف قرار دیتے ہیں اور اس کے مقابلہ میں سستی، لاپرواہی اور تال میل کو مطلق اقدر کے عنوان سے بیان کرتے ہیں ،اور مختلف میڈیا کے ذریعہ یہ پروپیگنڈے اس قدر وسیع پیمانے پر حساب شدہ ہوتے ہیں کہ بعض اوقات تو بعض خواص (خاص الخاص افراد) بھی دھوکہ کھاجاتے ہیں ، اور دشمن کے جال میں پھنس جاتے ہیں جب کہ ان لوگوں کا ہدف مسلمانوں سے دینی غیرت کو چھین لینے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، تاکہ ضرورت کے وقت اسلام کے دفاع کے لئے کھڑے نہ ہونے پائیں اس بات پر گواہ ابھی کے تازہ ہونے والے واقعات ہیں اور بھت سی سازشیں تو ابھی تک فاش نہیں ہوئی ہیں اور(انشاء اللہ) اہستہ اہستہ معلوم ہوجائیں گی۔

اسی وجہ سے حقیر نے اپنی تشخیص کے مطابق یہ احساس کیا کہ نظام اسلامی کو درہم وبرہم کرنے کے لئے ایک بھت بڑی سازش ثقافتی خطرہ در پیش ہے،لھٰذا یہ طے کیا کہ دشمنوں کی طرف سے ہوئے اعتراضات اور شبھات کا جواب دے اور ان کی ثقافتی سازشوں کو فاش کیا جائے، اور اپنے برادران کو ہوشیار کروں نیز جو لوگ دشمن کے پروپیگنڈوں کی زد میں آکر خواب غفلت میں سوئے ہوئے ہیں ان کو بیدار کروں ، اور کم سے کم دشمن کی طرف سے ہوئے پروپیگنڈوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے جھوٹے عقائد اور نظریات میں شک وتردید پیدا کریں ، اوردینی اور ثقافتی عھدہ داروں کو در پیش عظیم خطرات سے آگاہ کروں اور اپنے سوالات کو پیش کرکے معاشرہ کو متوجہ کروں تاکہ دشمن کے غلط پروپیگنڈوں کا اثر کم سے کم ہو۔

حقیر نے اپنا وظیفہ سمجھتے ہوئے یہ طے کیا کہ ”مطلق تشدد کے نفی“ کے بت کو توڑ ڈالوں ، اور ہر تشدد کو برا نیز ہر نرمی اور پیار محبت کو اچھا کہنے والے تصور کی نفی کروں اسی وجہ سے ہم نے اس سے پہلے بھی جلسہ میں عرض کیا تھا کہ ہر مطلق تشدد او رشدت پسندی محکوم او رمذموم نہیں ہے اور ہر نرمی اور پیار و محبت اچھا نہیں ہے، بلکہ ہر ایک کے لئے مخصوص موقع و محل ہوتا ہے جیسا کہ یہی گفتگو آزادی کے سلسلہ میں بھی کی اور عرض کیا کہ مطلق آزادی اچھی نہیں ہے بلکہ مطلق آزادی باطل اور مردود ہے ، ہم اس آزادی کی قدر کرتے ہیں جو قوانین اسلامی اور دینی اقدار کے تحت ہو حالانکہ ہماری یہ باتیں سن کر بعض لوگ غضب ناک ہوگئے کہ فلاں صاحب آزادی کے خلاف گفتگو کررہے ہیں لیکن جب ان کو آزادی کے نعرے لگانے والوں کی سازشوں کا پتہ چل گیا تو ان پر یہ بات واضح ہوگئی کہ بعض لوگ اس آزادی کا پرچم بلند کرکے دین اور اسلامی اقدار اور مقدسات کی نابودی چاہتے ہیں ؛ یہاں تک ہماری حکومت کے ایک بڑے عھدہ دار جو کہ ایک سیاسی شخصیت مانی جاتی ہے اپنی ایک تقریر میں کھتے ہیں :

”ہماری عوام الناس آزاد ہے یہاں تک خدا کے خلاف بھی مظاہرہ کرسکتے ہیں “ !!

چنانچہ (بعض) دوستوں نے واضح طور پر کھا کہ وہ آزادی مطلوب اور مقصود ہے جو اسلامی قوانین اور دینی اقدار کے تحت ہو اور اگر اس طرح کی باتیں بیان نہ کی جاتی تو معاشرہ کو وہ جھٹکا نہ لگتااور شایدحکومتی عھداران بھی یہ احساس نہ کرتے کہ ہم ”اسلامی قوانین اور دینی اقدار کے تحت آزادی“ کی طرف داری کریں نہ کہ مطلق آزادی کی۔

اور آج اگر ہم یہ کھتے ہیں کہ تشدد مطلقاً مذموم نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض لوگ مطلق تشدد کے نفی کے پرچم کے نیچے اسلام اور اسلامی اقدار کے دفاع میں ہر اٹھنے والے قدم کو تشدد کا نام دےتے ہوئے اس کی مذمت کرتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے نہ صرف یہ کہ ہمارے ذھن کی ایک پیداوار ، تاکہ بعض لوگ یہ کھیں کہ فلاں کی باتیں تو خیال خام اور ہوائی گولیاں ہوتی ہیں اتفاق سے ہمارے پاس اس بات پر بھت سے شواہد بھی ہیں ، اگرچہ سب کو بیان کرنے کی فرصت نہیں ہے، صرف ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں : ایک موقع پر بعض لوگوں نے جھاد کے سلسلہ میں اعتراض کیا اور اس کو تشدد اور شدت پسندی کا نام دیدیا ، جن میں سے ایک صاحب نے تھران یونیورسٹی میں محرم کے پہلے عشرہ میں اپنے تقریر کے دوران کھا: حضرت امام حسین علیہ السلام کا میدان کربلا میں قتل ہونا ؛جنگ بدر میں رسول اکرم (ص) کی تشدد کا ایک عکس العمل تھا!

یعنی یہ شخص حضرت رسول اکرم (ص) کی اسلامی جنگوں اور غزوات کو بھی محکوم کرتا ہے اور کھتا ہے کہ جب پیغمبراکرم (ص) نے مشرکین کو قتل کیا تو ان کی آل و اولاد پیغمبر کی آل و اولاد کو قتل کرتی، اور اگر پیغمبر ان کو قتل نہ کرتے تو ان کی اولاد بھی قتل نہ کی جاتی!! درحقیقت وہ یزیدوں کو بری الذمہ اور اسلام وپیامبر اسلام (ص) کو محکوم کرتا ہے اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان باتوں کو سن کرجو کہ پیغمبر اکرم (ص) کی توہی ‎ ن ہے اور امام حسین علیہ السلام کی شخصیت نیز واقعہ کربلا میں تحریف ہے اور ضروریات دین کا انکار ہے، نہ صرف یہ کہ کوئی کچھ نہیں کھتا بلکہ بعض اخباروں اور جرائد میں اس شخص کی پوری تقریر چھپتی ہے اور وہ بھی صفحہ اول پر!! افسوس کہ ہمارے حکومتی عھدہ داران اس سلسلہ میں کوئی حساسیت نہیں دکھاتے حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام پر انقلاب برپا ہونے والے اور امام حسین (ع) کے نام سے باقی رہنے والے اسی ملک میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام کو تحریف کرکے پیش کیا جاتا ہے اور یہ نتیجہ لیا جاتا ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات دوبارہ پیش نہ آئیں اور ہمارے زمانہ کے حسین قتل نہ ہوں تو ہمیں بھی تشدد آمیز برتاؤ اور شدت پسندی کو ترک کرنا ہوگا!!

اور اب ہم اس مقالہ نگار سے مخاطب ہے جس کا مقالہ ایک کثیر الانتشار اخبار میں چھپ چکا ہے ، چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ فلاں صاحب موضوع سے الگ اورہوا میں باتیں کرتے ہیں اور ہم سے خطاب کیا ہے کہ اپنی گفتگو پر تجدید نظر کریں کیا ہم ہوا میں باتیں کرتے ہیں یا عصرِ حاضر کے اپنے معاشرہ وسماج کی؟ کیا ہماری باتیں اسی موضوع سے متعلق نہیں ہیں جو ہمارے ملک میں رائج ہے، اور کیا ہماری باتیں اسی حقیقت سے متعلق نہیں ہے جو ہر روز ہمارے ملک میں رونما ہوتی جارہی ہے؟ آیا ہم اپنی باتوں میں تجدید نظر کریں یا آپ کہ ایک وقت آپ ”بین الاقوامی اسلامی“ پارٹی کے عضو تھے اور فدائیان اسلام کی حمایت کو ایک افتخار سمجھتے تھے؟

قارئین کرام! یہاں پر ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ حضرت امام خمینی علیہ الرحمةکا نورانی اور مشکل کشا کلام کی طرف اشارہ کریں جس میں موصوف نے آزادی کے پرچم کے نیچے پوشید ہ کن کن ثقافتی خطرات کو بیان کیا ہے:

” اب میری وصیت ہے حال حاضر اور آئندہ کی مجلس شورای اسلامی (پارلیمنٹ) اور اس وقت کے رئیس جمھور(صدر مملکت) اور ان کے بعد والے صدر، شورای نگھبان، شورای قضائی اور ہر زمانہ کی حکومت؛ سب کو چاہئے کہ میڈیا، جرائد اور مجلات کو اسلام اور ملکی مصالح سے منحرف نہ ہونے دیں ، اور سب کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ مغربی ممالک کی طرح کی آزادی جوانوں ، لڑکوں اور لڑکیوں کو تباہ و برباد کردے گی اسلام ، ملکی مصالح اور عمومی عفت کے بر خلاف تبلیغات، مقالات، تقاریر، کتابیں اور جرائد کا وجودحرام ہے ہم سب پر اور تمام مسلمانوں پر ان کی روک تھام کرنا واجب ہے اور فساد برپا کرنے والی آزادی کی روک تھام کرنا ضروری ہے، اور جو چیزیں شرعی طور پر حرام ہیں یا وہ چیزیں جو ملت و اسلامی ملک کے برخلاف ہیں ، یا جمھوری اسلامی کی حیثیت کے مخالف ہے، لھٰذا اگر ان کے خلاف سخت کاروائی نہ کی جائے تو تمام کے تمام لوگ ذمہ دار ہیں اور ہمارے عوام الناس اور حزب اللٰھی جوان اگر ان چیزوں کو دیکھیں تو متعلق اداروں کو مطلع کردیں ، اور اگر وہ اس سلسلہ میں کوتاہی کریں تو وہ خود روک تھام کی ذمہ داری پر عمل کریں ۔“(۱)

۷۔ خداوندعالم کی رحمت اور غضب کے بارے میں اسلامی تصویر کشی

اسلام اور قرآن کے سلسلہ میں مغربی افراد کے شبھات اور اعتراض میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کا خدا جیسا کہ قرآن میں بیان ہوا ہے ،بد خُلق، غصہ والا، اہل غضب اور انتقام لینے والا ہے، جبکہ خدائے انجیل بخشنے والا، مھربان، سعہ صدر(کشادہ دل) والا، تحمل کرنے والا اور بھت زیادہ مھربان اورلوگوں سے اس قدر دلسوزی کرنے والا ہے کہ نغوذ باللہ اس نے اپنے بیٹے (عیسیٰ) کو قربانی کے لئے بھیج دیا تاکہ تمام لوگوں کی بخشش ہوسکے اور اس کا خون تمام لوگوں کے گناہوں کا کفارہ بن جائے!! تو کیا قرآن مجید میں بیان شدہ خدا غصہ ور اور بد خلق ہے یا رحیم اور رؤف ہے؟

قارئین کرام! گذشتہ اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ہمارا خدا صفت رحمت بھی رکھتا ہے اور صفت غضب بھی، وہ ”ارحم الراحمین“ (بھت زیادہ رحم کرنے والا) بھی ہے اور ”اشد المعاقبین (سخت عذاب دینے والا)بھی، قرآن مجید کے ۱۱۴ سوروں میں سے ۱۱۳ سورے( بِسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) سے شروع ہوتے ہیں جس میں خداوندعالم کی دو صفات یعنی ”رحمن“ اور ”رحیم“ کا ذکر ہوتا ہے اور صرف ایک سورہ کی شروعات ”بسم اللہ “ سے نہیں ہوئی ہے، جبکہ سورہ نمل میں شروع کے علاوہ خود سورہ کے اندر بھی( بِسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) تکرار ہوئی ہے؛ جب ملکہ سبا (بلقیس) حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط کو اپنی قوم کے سامنے پڑھتی ہے تو اس کا آغاز( بِسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) سے ہوتا ہے، بھر حال پورے قرآن مجید میں ۱۱۴ بار( بِسْمِ اللّٰه الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ) کی تکرار ہوئی ہے جس میں خداوندعالم کی دو رحمتی صفات کا ذکر ہے لیکن قرآن مجید میں خداوندعالم کی اسی رحمت واسعہ کے ذکر کے ساتھ ساتھ خدا کے خشم (غصھ) اور غضب بھی ذکر ہوا ہے؛ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَاللهُ عَزِیزٌ ذُو انْتِقَامٍ ) (۲)

” اور خدا سخت انتقام لینے والا ہے “

( إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِینَ مُنتَقِمُونَ ) (۳)

”ہم یقینا مجرمین سے انتقام لینے والے ہیں “

( فَبَاءُ وْا بِغَضَبٍ عَلَی غَضَبٍ وَلِلْکَافِرِینَ عَذَابٌ مُهینٌ ) (۴)

” ا ب یہ غضب بالائے غضب کے حقدار ہیں اور ان کے لئے رسوا کن عذاب بھی ہے “

اگر یورپی لوگ (اپنے الفاظ میں ) اپنے خدا کو صرف مھربان اور رحیم بتاتے ہیں اور کھتے ہیں کہ ہمارا خدا غصہ وغضب والانہیں ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس طرح قرآن نے خدا کی توصیف کی ہے ، ان لوگوں نے اس کو صحیح طریقہ سے بیان نہیں کیا ہے؛ کیونکہ جس خدا پر ہم اعتقاد رکھتے ہیں وہ صرف اہل غضب ہی نہیں ہے بلکہ صاحب رحمت اور مھربان بھی ہے اور صاحب قھر و غضب بھی، لیکن اس کی رحمت اس کے غضب پر چھائی ہوئی ہے، اسی وجہ سے ارشاد ہوتا ہے:

"کَتَبَ عَلَی نَفْسِه الرَّحْمَةَ " (۵)

” اس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم قرار دے لیا ہے “

اور یہ معنی سنی شیعہ متواتر روایات میں بیان ہوئے ہیں ، جیسا کہ ہماری دعاؤں میں وارد ہوا ہےیا مَنْ سَبَقَتْ رَحْمَتُہ غَضَبَہ اے وہ جس کی رحمت اس کے غضب پر مقدم ہے۔

یعنی خدا کی رحمت اس کے غضب کی نفی نہیں کرتی بلکہ اس کی رحمت اس کے غضب پر مقدم ہے اور جھاں تک اس کا لطف وکرم اور اس کی حکمت تقاضا کرے وھاں تک بندوں پر اپنے لطف وکرم اور رحمت کی بارش کرتا ہے اور اپنے غضب کا مظاہرہ نہیں کرتا؛ مگر یہ کہ اس کی ضرورت ہو اور خداوندعالم کچھ لوگوں کو قھر وغضب میں گرفتار کرے اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں خداوندعالم نے بعض گذشتہ اقوام جیسے قوم نوح، قوم عاد اور قوم ثمود پر اپنا غضب نازل کیا ہے اور اپنا عذاب بھیج کر ان کو نیست و نابود کردیا ہے (جیسا کہ ان اقوام کے مفصل واقعات قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں ) لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی قوم میں بھیجے گئے انبیاء (ع) ہمیشہ ان کو راہ ہدایت کی دعوت دیتے تھے اور راہ ہدایت کو واضح اور روشن کرنے کے لئے معجزات اور الہی نشانیاں دکھاتے رہتے تھے ؛ لیکن ان لوگوں نے ان تمام چیزوں کے باوجود بھی کفر وضلالت کا راستہ اختیار کیا اور ان کی رفتار و گفتار میں ذرا بھی تبدیلی واقع نہ ہوئی، اور یہی نہیں بلکہ پہلے سے زیادہ فتنہ و فساد، گناہ عصیان اور احکام الہی کی مخالفت میں جری ہوتے چلے گئے تو اس موقع پر خداوندعالم کی حکمت او راس کی مشیت کا تقاضا تھا کہ ان کو اپنے غیظ و غضب اور عذاب میں گرفتار کرے تاکہ فتنہ و فساد پھیلانے والوں ، لجاجت کرنے والوں ، خدا سے دشمنی کرنے والوں ، اور متکبرین کے لئے بہتر ین عبرت حاصل ہوجائے۔

لھٰذا معلوم یہ ہوا کہ قرآن کریم میں ذکر شدہ خدا غیظ وغضب والا نہیں ہے بلکہ خدائے رحمت و لطف وکرم ہے، اور صرف بعض مقامات پر جب اس کی حکمت اور مشیت کا تقاضا ہوتا ہے،اپنے غیظ وغضب کا اظھار کرتا ہے۔

لھٰذااس سوال( کہ کیا اسلام میں رحمت ومھربانی پائی جاتی ہے یا غیظ وغضب اور شدت پسندی؟)؛ کے جواب میں ہم عرض کرتے ہیں : اسلام میں رحمت اصل چیز ہے اوراس کی بنا یہی ہے کہ معاشرہ میں رحمت ومحبت کا رواج ہو، لیکن خاص موارد میں (جیسا کہ قرآن مجید نے بھی اشارہ کیا ہے) پیار محبت اور مھربانی سے کام نہیں لینا چاہئے بلکہ وھاں پر غیظ وغضب ، تشدد اور شدت پسندی کا مظاہرہ ہونا چاہئے خداوندعالم صفت رحمت بھی رکھتا ہے، اور صفت غیظ وغضب اور انتقام بھی۔

۸۔ ہدایت کے موانع کو بر طرف کرنے ،دشمنوں اور منافقین سے مقابلہ کی ضرورت

اسلام ، اس کی نشر واشاعت اور اس کے دفاع سے متعلق عرض کرتے ہیں کہ اسلام پہلے مرحلہ میں انسانوں کو ہدایت کی دعوت دیتا ہے، لیکن اگر کوئی دعوت انبیاء (ع) کی نشر واشاعت میں رخنہ ڈالنا چاہے تو پھر قرآن حکم دیتا ہے کہ ان سے جنگ کی جائے، اور ہدایت کے راستے میں بچھے کانٹوں کو ہٹا پھینک دیا جائے اسی وجہ سے خود پیغمبر اکرم (ص) اور معصومین علیہم السلام کے زمانہ میں ”جھاد ابتدائی“ (یعنی اپنی طرف سے جھاد کی شروعات کرنا)واجب تھا، تاکہ لوگوں کی ہدایت کے موانع بر طرف کئے جاسکیں اسی بنیاد پر جب پیغمبر اکرم (ص) مبعوث برسالت ہوئے ، بات یہ نہیں کہ آنحضرت (ص) روم اور ایران جیسے ملکوں کے داخلی امور میں دخالت کر نے کا حق رکھتے ہیں یا نہیں ؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) روئے زمین کے تمام انسانوں کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے ہیں ، لھٰذا اگر کوئی یہاں تک کہ بادشاہ ایران اور قیصر روم بھی پیغمبر اکرم (ص) کی دعوت اسلام کی مخالفت کریں تو اس صورت میں پیغمبر اکرم (ص) کا وظیفہ بنتا ہے کہ وہ ان سے جنگ کریں اسی وجہ سے آنحضرت (ع) نے (مختلف) ملکوں کے بادشاہوں کو خطوط لکھے اور ان کو اسلام کی دعوت دی اور ان سے یہ چاہا کہ اپنے اپنے ملکوں کی عوام الناس کے لئے رسول خدا اور ان کے نمائندوں کے ذریعہ ہدایت کا راستہ ہموار کریں ؛ ورنہ جنگ کے لئے تیار ہوجائیں ۔

اور چونکہ جھاد ؛ اسلام کے مسلم اصول میں سے ہے اور تمام شیعہ سنی فرقے اس سلسلہ میں متفق ہیں اور کسی نے کوئی مخالفت نہیں کی ہے، (اور کفر وشرک کے سرداروں سے جھاد اس وجہ سے واجب تھا کہ وہ اپنے تحت لوگوں کی ہدایت وارشاد اور پیغمبروں کی دعوت کی تبلیغ میں مانع ہوتے تھے، اسی وجہ سے رسول خدا (ص) کا یہ وظیفہ تھا کہ ان لوگوں کو ہدایت کے راستہ سے ہٹانے اور عوام الناس کی ہدایت کے راستہ صاف کرنے کے لئے ان سے جنگ کریں ) ان تمام چیزوں کے پیش نظر یہ بات کیسے کھی جاسکتی ہے کہ اسلام مطلقاً جھاد اور جنگ کو لازم اور جائز نہیں جانتا ہے؟ کیا ہم ان آیات قرآن جو کفار ومشرکین اور منافقین نیز دشمنان اسلام سے جھاد کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ان کو نظر انداز کردیں اور ان کو چھپادیں ؟

قارئین کرام ! ہم (یہ بات علی الاعلان) کھتے ہیں کہ دشمنان خدا سے مقابلہ کرنا اسلامی اصول کے تحت ہے او ر اسلام نے احکام جھاد کے سلسلہ میں انسانی بہتر ین اصول کو مد نظر رکھا ہے، اور ان کی رعایت کرنے پر زور دیا ہے، لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی زور دیا ہے کہ جب دشمنان (اسلام) اور وہ لوگ جو دانستہ طور پر حق و حقیقت کے خلاف کھڑے ہوجائے اور دین خدا سے مقابلہ کرنے لگے اور اپنے عھد و پیمان کو توڑ ڈالیں ؛ تو ان سے جنگ کرو:

( وَإِنْ نَکَثُوا ایْمَانَهمْ مِنْ بَعْدِ عَهدِهمْ وَطَعَنُوا فِی دِینِکُمْ فَقَاتِلُوا ائِمَّةَ الْکُفْرِ إِنَّهمْ لاَایْمَانَ لَهمْ لَعَلَّهمْ یَنتَهونَ ) (۶)

” اگر یہ عھد کے بعد بھی اپنی قسموں کو توڑدیں اور دین میں طعنہ زنی کریں ، تو کفر کے سربراہوں سے کُھل کو جھاد کرو کہ ان کی قسموں کا کوئی اعتبار نہیں ہے شاید اسی طرح اپنی حرکتوں سے باز آجائیں ۔“

اسی طرح خداوند عالم سورہ تحریم اور سورہ توبہ میں فرمان دیتا ہے کہ پیغمبر اور مسلمان؛ کفار ومنافقین سے جنگ کریں اور ان کے ساتھ غیظ و غضب اور شدت پسندی کا برتاؤ کرو:

( یَاایُّها النَّبِیُّ جَاهدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ وَاغْلُظْ عَلَیْهمْ وَمَاوَاهمْ جَهنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ ) (۷)

” اے پیغمبر ! کفار اور منافقین سے جھاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے کہ ان کا انجام جھنم ہے جو بد ترین ٹھکانہ ہے۔“

( وہ مذکورہ مقالہ نگار جس نے لکھا تھا کہ جھاد سے متعلق قرآنی آیات کفار سے مخصوص ہیں ، اس نے اس آیت پر غور فکر نہیں کیا کہ اس آیہ مبارکہ میں خداوندعالم نے کفار سے جھاد کے علاوہ داخلی منافقوں سے بھی جھاد او رمقابلہ کا حکم دیا ہے۔)

اسی طرح سورہ توبہ میں ایک دوسری جگہ ارشاد رب العزت ہوتا ہے:

( یَاایُّها الَّذِینَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِینَ یَلُونَکُمْ مِنْ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوا فِیکُمْ غِلْظَةً وَاعْلَمُوا انَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِینَ ) (۸)

” اے ایمان لانے والو ! اپنے آس پاس کفار سے جھاد کرو تاکہ وہ تم میں سختی اور طاقت کا احساس کریں اور یاد رکھو کہ اللہ صرف پرہیز گار افراد کے ساتھ ہے۔

مذکورہ آیت میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ کفار جو تمھارے نزدیک زندگی گذار تے ہیں ؛ ان سے جنگ کرو اور ان سے غافل نہ ہو جانا اور اپنے غیظ وغضب کا مزہ اپنے پڑوسی کفار کو چکھا دو تاکہ وہ (مسلمانوں سے) ڈریں اور ان کے خلاف کوئی خیانت اور سازش نہ کریں ۔

اسی طرح خداوندعالم فرماتا ہے:

( وَاعِدُّوا لَهمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهبُونَ بِه عَدُوَّ اللهِ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِینَ مِنْ دُونِهمْ لاَتَعْلَمُونَهمْ اللهُ یَعْلَمُهمْ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ شَیْءٍ فِی سَبِیلِ اللهِ یُوَفَّ إِلَیْکُمْ وَانْتُمْ لاَتُظْلَمُونَ ) (۹)

” اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو جس سے اللہ کے دشمن، اپنے دشمن اور ان کے علاوہ جن کو تم نہیں جانتے ہو اور اللہ جانتا ہے سب کو خوفزدہ کردو ، اور جو کچھ بھی راہ خدا میں خرچ کرو گے سب پورا پورا ملے گا اور تم پر کسی طرح کا ظلم نہیں کیا جائے گا۔“

(وہ حضرات جو عربی ادبیات (زبان) جانتے ہیں ؛ ہم ان کو اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ وہ لفظ ”ارہاب“ کے ہم معنی لفظ دوسری زبانوں میں تلاش کریں ؛ اور اگر ہم عرض کردیں تو کل ہی اخباروں کی سرخی بن جائے گی کہ فلاں صاحب تو ٹروریزم " Terrorisme "کے طرفدار ہیں ۔)

بھر حال قرآن مجید نے حکم دیا ہے کہ جن لوگوں سے منطق اور اصول کے ساتھ گفتگو نہیں کی جاسکتی اور انھوں نے جرات او ردلیری کے ساتھ راہ ہدایت کو بند کردیا ہے اور بغض و عناد اور دشمنی کی بنا پر اسلام اورمسلمانوں کے ساتھ جنگ کرتے ہیں ، ان کے ساتھ تو تشدد اور غیظ وغضب سے مقابلہ کرنا چاہئے اور مسلمانوں کو چاہئے کہ ان کے درمیان رعب و دھشت ایجاد کردیں تاکہ ان کے اندر مسلمانوں کے ساتھ خیانت کرنے اور اسلام کو نقصان پھونچانے کا تصور بھی پیدا نہ ہو ان سے یہ نہیں کھا جاسکتا کہ : ”تم اپنے دین پر ہم اپنے دین پر، آؤ مل جل کر ایک ساتھ اطمینان کی زندگی بسر کریں ۔“

۹۔ اسلامی سزا کے احکام کی مخالفت

بعض مقالہ نگاروں نے اپنے مقالات میں ہم پر یہ اعتراض کیا کہ اسلام نے کفار و مشرکین کے سلسلہ میں تشدد اور شدت پسندی کے برتاؤ کا حکم دیا ہے ، اور ان کواپنا ہمشھری ماننے سے انکار کیا ہے، حالانکہ یہ لوگ اس بات سے غافل ہیں کہ اسلام نے بعض جرائم پر خود مسلمانوں کے لئے سخت سے سخت سزا معین کی ہے، اور اپنے قوانین میں ایسے لوگوں کے لئے کڑی سزا مقرر کی ہے مثال کے طور پر چوری کے مسئلہ میں اسلام کا حکم ہے کہ چور کے ھاتہ کاٹ دئے جائیں یا زنا، عفت اور عزت کے دوسرے مسائل میں مجرموں کے لئے حد اور سزا معین کی ہے مثلاً زنا کرنے والے کو سو تازیانے لگانے کی سزا معین کی گئی ہے، اور بعض عفت کے منافی جرائم کے سلسلہ میں سزائے موت بھی رکھی گئی ہے در حقیقت اس طرح کے مجرموں کے لئے اسلامی سزا بھت سخت اور ناقابل برداشت ہیں لیکن اس چیز پر توجہ رکھی جائے کہ اسلام نے بعض عفت کے منافی جرائم جیسے زنا؛کوثابت کرنے کے لئے سخت شرائط معین کئے ہیں جس کی بنا پر بھت ہی کم یہ جرم ثابت ہوپاتے ہیں تاکہ ان پر حد جاری ہوسکے۔

بعض شرعی اور اسلامی حدود اور سزا کی بنا پر اسلام دشمن افراد کو اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا ایک بھانہ مل گیا ہے جس کی بنا پر یہ لوگ کھہ دیتے ہیں کہ اسلام میں حقوق بشر کی رعایت نہیں کی جاتی، اور اسلام کی سزا میں تشدد پائی جاتی ہے نیز انسانی شرافت کو نظر انداز کیا جاتا ہے جی ھاں ! دشمن اور حقوق بشر کے جھوٹے مدعی کھتے ہیں : ”ایک مسلمان چور کے ھاتھوں کو کاٹنا غیر انسانی عمل اور تشدد آمیز ہے اور انسانی شرافت کے مخالف ہے؛ کیونکہ جس شخص کے ھاتہ کاٹے جاتے ہیں تو وہ انسان پوری زندگی کے لئے اس مفید عضو سے محروم ہوجاتا ہے اور ہمیشہ معاشرہ میں ایک چور کے عنوان سے پہنچانا جاتا ہے“ ۔

جبکہ اس کے مقابلہ میں بعض اسلام کا دعویٰ کرنے والوں نے اسلام کا دفاع کرتے ہوئے اس طرح کا نظریہ پیش کرتے ہیں : اسلام کے یہ سزا کے احکام گذشتہ زمانہ سے متعلق تھے اور ایک خاص زمانہ سے مخصوص تھے ، آج کل تو امنیت کے تحفظ اور چوری سے روک تھام کے لئے نئے نئے طریقے موجود ہیں لھٰذا کسی چور کے ھاتہ کاٹنے کی ضرورت نہیں ہے اگر امنیت کے تحفظ اور دوسرے جرائم سے روک تھام کے لئے بہتر طریقے موجود ہوں تو پھر امریکہ ؛ جس میں جرائم سے روک تھام کے لئے نئے نئے طریقے نافذ کئے جاتے ہیں ، لیکن پھر بھی روزانہ ھزاروں جرائم ہوتے ہیں ، اور وھاں کے کالجوں میں مسلح پولیس کا رہنا ضروری ہے۔

جولوگ جو نھایت بے شرمی کے ساتھ کھتے ہیں کہ یہ اسلامی سزائیں نا قابل قبول ہیں اور ان کو تشدد اور شدت پسندی کا عنوان دیتے ہوئے یہ کھتے ہیں کہ یہ سزائیں چودہ سو سال پہلے سے متعلق تھیں عصر حاضر میں کوئی ان کو قبول نہیں کرسکتا، کیا وہ لوگ یہ بھول گئے کہ جن لوگوں نے قصاص (بدلا) کے قوانین کو غیر انسانی کھہ کر اس کے خلاف مظاہرے شروع کردئے تھے، اس موقع پر حضرت امام خمینی (رہ) نے ان کو مرتد قرار دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ ان کا خون مباح اور ان کی بیویاں ان لوگوں پر حرام ہیں اور ان کا مال ان کے مسلمان ورثہ میں تقسیم کر دیا جائے۔

جی ھاں امریکن حقوق بشر کے طرفداروں نے اسلامی سزاؤں کو غیر انسانی اور تشدد آمیز کا عنوان دے کر ان کو محکوم و مذموم قرار دیا ہے لیکن ہم ان سے یہ کھتے ہیں کہ اگر اسلامی سزائیں تشدد آمیز ہیں ، مان لیتے ہیں کہ بعض مواقع پر اسلامی حدود اور سزائیں تشدد آمیز ہیں ، لیکن ہم اسلامی قوانین کا دفاع کرنے والے ہیں اور اس کے خلاف ہر طرح کی سازش کا مقابلہ کرنے کے لئے دل و جان سے آمادہ ہیں ، ہم یہ نہیں مانتے کہ احکام منسوخ ہوگئے ہیں ، بلکہ ہمارا تو عقیدہ یہ ہے کہ:

”حَلاٰلُ مُحَمَّدٍ حَلاٰلٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ وَحَرَامُ مُحَمَّدٍ حَرَامٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ “

( آنحضرت (ص) کی حلال کردہ چیزیں قیامت تک حلال اور آپ کی حرام کردہ چیزیں قیامت تک حرام ہیں ۔)

ہم نے انقلاب اسی وجہ سے برپا کیا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں اسلامی احکام نافذ ہوں ، ورنہ تو شاہ پہلوی بھی کھتا تھا: ”جو کچھ میں کھتا ہوں وہ اسلام کے مطابق ہے،اور علماء غلطی پر ہیں ، اور یہ لوگ بیک ورڈ ہیں “!

ہمارے معاشرہ میں قرآن مجید کے اندر بیان شدہ اسلامی مسائل اور احکام کو نافذ ہونا چاہئیں یہ وہی ‎ اسلام ہے جس کی سرفرازی اور بلندی نیزاسلامی حکومت کے لئے ہم نے اپنے رشتہ داروں کی قربانی پیش کی ہے اور اب بھی جانفشانی کرنے کے لئے تیار ہیں ، اسی اسلام کی پہنچان مقام معظم رہبری (حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مد ظلہ العالی)نے فرماتے ہوئے کھا ہے : ” اسلام ناب وہی ‎ اسلام ہے جو قرآن اور سنت میں بیان ہوا ہے ، جس کے احکام اور قوانین مناسب اور اجتھادی طریقہ سے انہیں دو عظیم الہی منبع و مرکز (قرآن و سنت) سے استنباط (حاصل) کئے جاتے ہیں اور جو لوگ اس اسلام کو نہیں مانتے، انھوں نے گویابنیادی طور پر اسلام کو قبول ہی نہیں کیا ہے، کیونکہ اسلام (صرف ایک ہی ہے) دو نہیں ہیں ۔“

۱۰۔ تشدد ، اسلامی سزائی قوانین میں محدود نہیں ہے

ایک مقالہ نگار نے اپنے مقالہ میں یہ بیان کیا کہ ” اسلام نے جن قوانین میں تشدد کو جائز قرار دیاہے وہ جزائی اور سزائی قوانین ہیں اور ہم بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ اسلام نے فتنہ گروں اور تباہ کارو ں کے لئے جو سزائیں معین کی ہیں ان میں کم و بیش تشدد پائی جاتی ہے لیکن جس تشدد کے بارے میں ہماری بحث ہے اور ہم جس کو محکوم کرتے ہیں ، وہ اسلام کے سزائی قوانین سے متعلق نہیں ہے اور اصولی طور پر سزائی قوانین ہماری تشدد کی بحث سے متعلق نہیں ہیں ۔“

اور یہ لکھا کہ میں موضوع سے ہٹ کر گفتگو کرتا ہوں اور اسی بات کو کئی اخباروں نے سرخی بنایا کہ کیوں فلاں صاحب موضوع سے ہٹ کر گفتگو کرتے ہیں ! لھٰذا ہم عرض کرتے ہیں کہ ہمارا موضوع معاشرہ میں ہونے والے ثقافتی کج روی ہے ، جیسا کہ اخباروں نے لکھا تھا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کا قتل ہونا ؛ آپ کے جد (رسول اللہ (ص)) کی جنگ بدر میں تشدد کا عکس العمل تھا!!

ہم اس مقالہ نگار کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اے قاضی اور حقوقدان آپ ہمارے بارے میں لکھتے ہیں کہ فلاں صاحب موضوع سے ہٹ کر گفتگو کرتے ہیں ، لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ جو بات حضرت امام حسین علیہ السلام کی شھادت کے بارے میں کھی گئی ہے اس میں کس تشدد کی بات ہے اور کس طرح کی تشدد کی نفی کی گئی ہے؟ ہم تو معاشرہ میں پیدا ہونے والی انہیں چیزوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں ہم تشدد، آزادی اور میل جول جیسے الفاظ سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں ، یہاں تک یہ بھی کھہ دیا گیا کہ ”جنگ بدر ایک تشدد تھی“ لھٰذا اسلام تشدد کادین ہے! لھٰذا ہم اپنے موضوع سے خارج نہیں ہوئے ہیں ۔

ھوسکتا ہے کوئی شخص یہ کھے: ”ہم اس طرح کے ناجائز فائدہ اٹھانے والی فکر کو ردّ کرتے ہیں اور اسلام کو تشدد کا دین نہیں مانتے۔“ ہمارا اس سے کہنا یہ ہے کہ حکومتی قوانین ، سزائی قوانین اور وہ عدالت جس میں سزائی احکام بنائے جاتے ہیں ان تمام چیزوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ؛کیا عوام الناس بھی تشدد کا برتاؤ کرسکتے ہیں ، اور وارد میدان ہوسکتے ہیں اور کیا حکومتی اداروں سے ہٹ کر خود عوام الناس تشدد سے کام لے سکتی ہے؟ ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ تم لوگ اسلامی انقلاب کو تشدد سمجھتے ہو یا نہیں ؟ جن لوگوں کو ۱۷/ شھریور ۱۳۵۷ئہ شمسی اور اس کے بعد کے حادثات یاد ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہمارے غیرت مند جوانوں اور بھارد قوم نے شاہ پہلوی کے خلاف کیا کیا اقدامات کئے تو کیا شاہ پہلوی کے خلاف مظاہرے اور اقدامات تشدد تھا، یا نہیں ؟ کیا یہ کام صحیح تھے یا نہیں ؟ اور کیا اسلام اس طرح کے اقدامات پر راضی ہے یا نہیں ؟ اگر اسلام نے اس طرح کے اقدامات کو جائز قرار نہیں دیا ہے تو آپ کا یہ انقلاب غیر قانونی ہے، کیونکہ (آپ کے نظریہ کے مطابق تو) اسلام میں تشدد نہیں پائی جاتی اور اسلام تشدد آمیز اقدامات کو جائز ہی نہیں مانتا! اسی طرح وہ مقدس کارنامے جو مرحوم نواب صفوی اور فدائیان اسلام نے شاہ کی حکومت کے خلاف کئے ،( جن کے مہم کارناموں کی بنا پر ان کا نام ہمیشہ ہمارے ملک میں زندہ رہے گا، اور ہم ان کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، اور آج کل تھران اور دوسرے شھروں کی بھت سی سڑکوں کا نام انہیں حضرات کے ناموں پر ہے)تو کیا ان کے یہ اقدامات صحیح تھے یا نہیں ؟ اسی طرح ”ھیئت موتلفہ اسلامی“ کے اعضاء ؛ یعنی شھید محمد بخارایی اور ان کے ساتھی جنھوں نے شاہ پہلوی کے جلاّد وزیر اعظم کو واصل جھنم کیا۔

ھوسکتا ہے کہ کوئی شخص یہ کھے کہ واقعاً اس طرح کے تشدد والے اقدامات نہیں کرنا چاہئے تھے ، بلکہ قانونی طور پر صلح و صفائی کی ایک پارٹی بنانا چاہئے تھی جس کے ذریعہ شاہ پہلوی کے سامنے اپنے مطالبات کو رکھا جاتا اور اس سے گفتگو کی جاتی“ لیکن کیا ان کی باتوں کو سنا جاتا اور وہ حساب شدہ باتوں کو سنتے تویہ لوگ اس طرح کے غیظ وغضب کے ساتھ قدم نہ اٹھاتے، جب انھوں نے دیکہ لیا کہ ان کی جائز باتیں اس طرح گفتگو کے ذریعہ نہیں سنی جاتی تب جاکے انھوں نے اس طرح کے اقدامات شروع کئے۔

ممکن ہے وہ قاضی صاحب فرمائیں : ہماری نظر میں وہ اقدامات محکوم او رمذموم ہیں ، ان کو چاہئے تھا کہ آرام و سکون اور مکمل حوصلہ کے ساتھ برتاؤ کرتے، اور اپنی مشکلات کو حل کرنے نیز اپنے مطالبات کوپورا کرانے کے سلسلہ میں کوشش کرتے!

ہم ان کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ :

جب ۱۸ تیر ماہ ۱۳۷۸ئہ شمسی اور اس کے بعد بعض فسادی اور بد معاش لوگوں نے بیت المال، عمومی اموال ، بینک، ذاتی اور سرکاری گاڑیوں یہاں تک کہ مسجدوں میں بھی آگ لگادی اور عورتوں کو بے آبرو کےا عورتوں کے سروں سے چادر چھین لیں اور اسلام کے خلاف نعرہ لگائے، تو کیا آپ نے ان لوگوں کے ساتھ پیار ومحبت اور ھنسی خوشی سے اپنی آغوش میں بٹھاکر ان کو خاموش کردیا ، یا یہ کام ہمارے ان بسیجیوں نے انجام دیا جو اپنے جان کو ھتھیلی پر رکہ کر آگے بڑھے اور تمام تر خطرات سے نپٹنے کے لئے میدان عمل میں وارد ہوئے اور ان کو کچل دیا،( بھت افسوس کے ساتھ یہ عرض کرتے ہیں کہ ان مظلوم بسیجیوں کے حق کو آج تک نہیں پہنچانا گیا اور اس کا شکریہ ادا نہیں کیا جاتا؛ جبکہ یہ جوان انقلاب اور اسلام کے دفاع کے لئے قربة الی اللہ حاضر ہوئے تھے اور خدا ہی ان کو بہتر ین اجر و ثواب عنایت کرے گا۔)

ممکن ہے وہ جناب کھیں : کہ ہم فتنہ وفساد پھیلانے والوں کے سلسلہ میں بسیجیوں کے اقدامات کو محکوم کرتے ہیں ، اور ان کو اس طرح کا اقدام نہیں کرنا چاہئے تھا، کیونکہ ان کو لوگوں کو بھی یہ حق تھا کہ وہ اپنی بات کھیں اور اعتراض کریں وہ بھی آزاد ہیں جیسا کہ امریکائیوں کا کہنا ہے: جن لوگوں نے قیام کیا اور مظاہرے کئے اور مساجد میں آگ لگائی یہ آزادی خواہ تھے لھٰذا ان لوگوں کو یہ کہنے کاحق تھا کہ ہم آزادی چاہتے ہیں ، اور دین نہیں چاہتے! (جیسا کہ ایک صاحب اپنی تقریر میں کھتے ہیں کہ لوگوں کو خدا کے خلاف مظاہرے کرنے کا بھی حق ہے۔ (

لیکن اگر وہ یہ کھیں : جب ان لوگوں نے دیکہ لیا کہ اگر خوش رفتاری سے اپنی بات کو علی الاعلان کھتے ہیں کہ ہمیں دین و اسلام نہیں چاہئے تو حکومت ان کی بات کو نہ مانتی؛ اسی وجہ سے یہ لوگ مجبور ہوگئے کہ ذاتی اور سرکاری عمارتوں اور مساجد میں آگ لگادیں اور اسلام کے خلاف نعرے لگائیں ، تاکہ وہ کسی نتیجہ پر پہنچ پائیں ؛ اوریہ لوگ ایسا کرنے میں حق بجانب تھے، نہ کہ ان لوگوں کو کچلنے والے ۔

ہم اس کے جواب میں صرف اتنا عرض کرتے ہیں : آخر کار تم لوگ بھی تشدد اور شدت پسند ی کو مانتے ہو کیونکہ اس حادثہ کے سلسلہ میں دو باتوں میں سے کسی ایک کو تو ضرور قبول کروگے، یا فتنہ فساد برپا کرنے والوں اور مساجد میں آگ لگانے والوں کا اقدام صحیح تھا ؛ اس صورت میں تم خود تشدد کی تائید کر رہے ہو، چونکہ ان کا اقدام تشدد پر مبنی تھا، یا تم یہ کھوکہ بسیجی، عوام الناس اور پولیس کا رویہ صحیح تھا؛ تو اس صورت میں بھی تم نے تشدد کی تائید کی ، لھٰذا آپ بتائیں کہ کس تشدد کو جائز قرار دیتے ہو؟

ہم اس طرح کے لوگوں کی باتوں کو نہیں مانتے بلکہ ہمارے لئے معیار بانی انقلاب حضرت امام خمینی رحمة اللہ علیہ کا کلام ہے ہم انہیں کے تابع ہیں ہم نے حکومتی اور ولایتی احکام انہیں سے سیکھے ہیں چنانچہ موصوف نے فرمایا:

” اگر ہمارے جوان اور حزب اللٰھی عوام الناس نے اس چیز کا مشاہدہ کیا کہ بعض تبلیغات، مقالات ، تقاریر، کتابوں اور جرائد میں اسلام اور حکومتی مصالح کے خلاف قدم اٹھایا جارہا ہے، تو ان کا وظیفہ ہے کہ وہ اس سلسلہ میں متعلقہ اداروں کو رپورٹ دیں اور ان اداروں کی ذمہ داری ہے کہ اس سلسلہ میں قدم اٹھائیں لیکن اگر متعلقہ اداروں نے کوتاہی کی اور قانونی طریقہ سے اس طرح کے انحرافات اور فاسد تبلیغات کا سد باب نہ کیا تو اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہمارے دیندار جوان میدان عمل میں گود پڑیں اور ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اس سلسلہ میں اپنا قدم آگے بڑھائے۔“(۱۰)

تمام لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ جس مرتد سلمان رشدی نے ”شیطانی آیات“ نامی کتاب لکھی جس میں قرآن کریم اور پیغمبر اکرم (ص) کی توہی ‎ ن کی گئی، توحضرت امام خمینی (رہ) نے اس کے قتل کا فتویٰ صادر کردیا،” اور ہر مسلمان پر واجب قرار دیدیا کہ اگر کوئی سلمان رشدی کو قتل کرسکتا ہے تو اس پر قتل کرنا واجب ہے“ اور یہ فتویٰ صرف امام خمینی (رہ) ہی کا نہیں تھا بلکہ تمام اسلامی فقھاء نے اسی طرح کا فتویٰ دیا اور تمام اسلامی ملکوں نے اس فتویٰ کی تائید کی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امام خمینی (رہ) کا یہ فتویٰ تشدد پر مبنی نہیں تھا؟ (کیوں نہیں ) لھٰذا معلوم یہ ہوا کہ حضرت امام خمینی (رہ) نے بھی اس شخص کے بارے میں تشدد کا رویہ اختیار کیا جس نے ضروریات دین اور اسلامی مسلم اصول کی توہی ‎ ن کی اور اسلامی مقدسات کو حرمت کو پامال کرنا چاہا ، امام خمینی (رہ) نے اس طرح کی تشدد کو جائز قرار دیا بلکہ ضروری سمجھا اور ایسے شخص کو مرتد اور واجب القتل قرار دیا۔

۱۱۔ ہر موقع پر علمی شبھات اور اعتراضات کا جواب دیا جائے (اسلامی نظر یہ)

لیکن اگر کوئی شخص سازش یا کسی نقصان پہنچانے کا قصد نہ رکھتا ہو اور دین، ضروریات دین اوراحکام اسلام کے بارے میں کوئی شبہ یا اعتراض اس کے ذھن میں ہو تو وہ اس کو بیان کرسکتا ہے، بھر پور ادب و احترام کے ساتھ اس کی باتوں کو سنا جائے گا اور منطق و استدلال کے ساتھ اس کو جواب دیا جائے گا، کیونکہ دین اسلام دین منطق ہے ، اس کی بنیاد استدلال اور برہان پر قائم ہے، اور جب مسلمانوں اور علماء اسلام سے جب بھی کسی نے کسی اعتراض کا جواب طلب کیا ہے تو انھوں صبر و بردباری اورکشادہ دلی کے ساتھ بہتر ین دلائل پر مبنی عقلی اور شرعی جوابات پیش کئے ہیں اور اسلام کی حقانیت کو ثابت کیا ہے اسی وجہ سے قرآن مجید کا حکم ہے کہ اگر کوئی شخص اگرچہ میدان جنگ میں دشمن کا سپاہی کیوں نہ ہو؛ سفید پرچم کو اٹھائے ہوئے اسلام کی حقانیت کے بارے میں تحقیق وجستحو کرنے کے لئےمسلمانوں کے پاس آئے اور اپنے سوالات کا جواب تلاش کرے، تواس وقت مسلمانوں کو چاہئے کی اس کو تحفظ دیں حفاظت کریں اور اس کو کسی طرح کا کوئی نقصان نہ پہنچائیں ، آرام وسکون اور پیار محبت سے اس کی باتوں کو سنیں ،اور اسلام کی حقانیت اور بر حق ہونے کو دلیل اور برہان کے ذریعہ ثابت کریں ؛ اس کے بعد اس کو تمام تر حفاظت کے ساتھ دشمن کے لشکر میں واپس کردیں ۔

خداوندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَإِنْ احَدٌ مِنْ الْمُشْرِکِینَ اسْتَجَارَکَ فَاجِرْه حَتَّی یَسْمَعَ کَلَامَ اللهِ ثُمَّ ابْلِغْه مَامَنَه ذَلِکَ بِانَّهمْ قَوْمٌ لاَیَعْلَمُونَ ) (۱۱)

” اور اگر مشرکین میں کوئی تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دو تاکہ وہ کتاب خدا سنے اس کے بعد اسے آزاد کرکے جھاں اس کی پناہ گاہ ہو وھاں تک پھونچا دو اور یہ مراعات اس لئے ہے کہ یہ جاہل قوم حقائق سے آشنا نہیں ہے۔ “

قرآن کا حکم ہے کہ اگر کوئی شخص اسلام کی حقانیت کے بارے میں سوال اور تحقیق کے لئے آتا ہے، لیکن تحقیق کے بعد بھی مسلمان نہ ہو تو اس کو مکمل حفاظت کے ساتھ اس امن کی جگہ پھونچادو اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اس کو کسی طرح کا کوئی گزند پھونچائے؛ کیونکہ وہ اپنے سوالات کا جواب لینے کے لئے آیا تھا لھٰذا اس کی حفاظت ضروری ہے، اس کے سوالات کا جواب دیدیا گیا ہے۔

قارئین کرام! اب ہم سوال کرتے ہیں کہ دنیا کے کس گوشہ اور کس مذہب میں اسلام کی طرح اس بلندترین برتاؤ پر زور دیا گیا ہے؟

لیکن اگر کوئی شخص عناد و دشمنی اور سازش کے تحت ، نظام اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے کوئی شبہ یا اعتراض کرتا ہے اور مسلمانوں کے عقائد، اصول اور اسلامی اقدار میں شک و تردید ایجاد کرنا چاہتا ہے تو پھر اس کا مقابلہ کرنا ضروری ہے ، اور اس شخص کا مسئلہ اس مسئلہ سے الگ ہے جو اپنے سوالات کا جواب چاہتاہو اور اس کے دل میں اسلام کو نقصان پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں ہو۔

۱۲۔ دشمن کی سازشوں سے مقابلہ کی ضرورت

ھمیں ثقافتی امور میں وسیع پیمانے پراسلامی اصول اور عقائد کے خلاف سازشیں کرنے والوں کے مقابلہ میں خاموش نہیں رہنا چاہئے ، اوراسیی طرح ان لوگوں کے سامنے جو اندرون ملک زر خرید قلم کے ذریعہ اسلام کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں ؛ خاموش بیٹھے تماشا نہیں دیکہنا چاہئے واقعاً ان لوگوں نے سازش کا پروگرام بنا رکھا ہے جبکہ بعض لوگ اس کو ثقافتی ردّ وبدل کا عنوان دیتے ہیں ،اور اخباروں میں لکھتے ہیں کہ کسی طرح کی کوئی سازش نہیں ہے ، اور سازشوں کے دعویٰ کو خیال خام قرار دیتے ہیں ، لیکن کچھ مدت پہلے ہوئے حادثہ نے ان سازشوں سے پردہ اٹھادیا ۔

وہ سب اسلامی نظام کے خلاف مظاہرے اور عمومی اور سرکاری اموال پر حملہ اور فتنہ وفساد؛ یہ سب اسی بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ واقعاً اسلامی نظام کے خلاف ایک بھت بڑی سازش تھی، جیسا کہ مقام معظم رہبری (حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مد ظلہ العالی)نے بھی بیان فرمایا کہ اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے اسلامی نظام کے خلاف سازش تھی اور اسی حقیقت کے پیش نظر جب فتنہ گروں کو اپنے جگہ بٹھادیا گیا اور فتنہ کی لگائی ہوئی اس آگ کو فدا کار بسیجیوں نے بجھادیا تو اس وقت ان کی حمایت اور اسلامی نظام کی محکومیت میں دنیا میں شور ہونے لگا یہاں تک کہ خود امریکہ کے ممبر آف پارلیمنٹ نے یہ نعرہ لگایا کہ اسلامی جمھوری ایران کو محکوم ہونا چاہئے اور اس کے خلاف قوانین بنائیں جائیں ؛ کیونکہ اسلامی حکومت نے بیرونی زر خرید نوکروں کو فتنہ وفساد پھیلانے کی اجازت نہیں دی!!

دنیا بھر میں ہر روز ھڑتال ، مظاہرے اور توڑ پھوڑ ہوتی رہتی ہے اور بھت سے لوگ قتل اور زخمی ہوتے رہتے ہیں ہم ہر روز یہ دیکھتے ہیں کہ صھیونیزم بے گناہ فلسطینی مسلمانوں کا خون بھاتے ہیں جو صرف اپنے پامال شدہ حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں ، یہاں تک کہ امریکہ سے وابستہ حکومتوں کے ذریعہ سینکڑوں لوگوں کا قتل ہوتا ہے لیکن کوئی کچھ نہیں کھتا ، کھیں سے یہ آواز نہیں اٹھتی کہ یہ حقوق بشر کی پامالی ہے، یا ان لوگوں کا کچلنا آزادی کے خلاف ہے بلکہ اس حکومت کی حمایت کی جاتی ہے اور کھتے ہیں کہ یہ قانونی حکومت کے خلاف قیام تھا اور حکومت کو بھی اپنے دفاع کا حق ہے لیکن جب ایران کی کسی یونیورسٹی میں مشکوک طریقہ سے کسی کا قتل ہوجاتا ہے جس کا قاتل بھی ابھی تک پتہ نہ چل سکا (اگر چہ یہ بھی دشمن کے زر خرید نوکروں اور فساد پھیلانے والوں کا کام ہے) یا کسی شخص کی کسی حادثہ میں موت ہوجاتی ہے ، اسی طرح جب فتنہ وفساد پھیلانے والوں کے ذریعہ مساجد میں آگ لگائی جاتی ہے، ناموس پر حملہ کیا جاتا ہے ، اور بسیجی ان کا مقابلہ کرتے ہیں ؛ تو اس وقت مغربی ممالک خصوصاً امریکہ میں ہمارے ملک کے خلاف ھنگامہ ہوتا ہے، اور ہماری حکومت کو محکوم کیا جاتا ہے، اور ہمارے ملک کو آزادی اور ڈیموکریسی کا مخالف قرار دیا جاتا ہے دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ مظاہرہ کرنے والے اپنے حقوق اور آزادی کے خواہاں تھے، لیکن ایرانی حکومت نے ان کو کچل دیا ، جس کے نتیجے میں ایرانی حکومت کو محکوم کرنے کے علاوہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ اسلامی جمھوری ایران سے مقابلہ کے لئے قوانین بنائے جائیں !

۱۳۔ دشمنان اسلام سے مقابلہ اور اعلان برائت ضروری ہے (قرآن کریم)

قارئین کرام ! نتیجہ یہ ہوا کہ جس خدا کی پہنچان قرآن کریم نے فرمائی ہے وہ خدا صاحب رحمت بھی ہے اور صاحب غضب بھی، اگرچہ اس کی رحمت اس کے غضب سے کھیں زیادہ ہے، اور اس کے غضب سے آگے آگے رہتی ہے ، اور یہ کہ خدا کی رحمت اس کے غضب کی نفی نہیں کرتی، جیسا کہ خداوندعالم نے گناہوں پر اصرار کرنے والی بعض گذشتہ اقوام پر اپنا غیظ وغضب کا مظاہر ہ کیا، اور ان پر اپنا عذاب نازل کیا ہے۔

دوسرے یہ کہ اسلام نے ؛ اپنے سے دشمنی اور عداوت رکہنے والوں کے لئے سخت سے سخت قوانین مرتب کئے ہیں اور مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اسلام دشمن افراد سے واضح طور پر برائت اور نفرت کا اعلان کریں ۔

اس سلسلہ میں آپ حضرات سورہ ممتحنہ کی تلاوت کریں جس میں کفار اور مشرکین سے مسلمانوں کے طور طریقہ کو بیان کیا گیا ہے اور جو لوگ دشمنان خدا سے دوستی کا نقشہ پیش کرتے ہیں ان کی سخت مذمت کی گئی ہے ، نیز خداوندعالم دشمنان اسلام سے مخفی طور پر دوستی کرنے سے ڈراتا ہے۔ اس سورہ مبارکہ میں خداوندعالم مسلمانوں کو حکم دیتاہے کہ ابراہیم علیہ السلام اور ان کے اصحاب سے پند حاصل کریں اور دشمنان خدا کے مقابلہ میں ان کے رویہ کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں ، نہ یہ کہ جو لوگ اسلام اور مسلمین کی نابودی کے لئے ظاہری اور مخفی طریقہ سے فعالیت کرتے ہیں ؛ ان کے سامنے بیٹھے مسکراتے رہیں !

چنانچہ ارشاد رب العزت ہوتا ہے:

( یَاایُّها الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَتَّخِذُوا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ اوْلِیَاءَ تُلْقُونَ إِلَیْهمْ بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ کَفَرُوا بِمَا جَائَکُمْ مِنَ الْحَقِّ یُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِیَّاکُمْ انْ تُؤْمِنُوا بِاللهِ رَبِّکُمْ إِنْ کُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهادًا فِی سَبِیلِی وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِی تُسِرُّونَ إِلَیْهمْ بِالْمَوَدَّةِ وَانَا اعْلَمُ بِمَا اخْفَیْتُمْ وَمَا اعْلَنْتُمْ وَمَنْ یَفْعَلْه مِنْکُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِیل ) (۱۲)

” ایمان والوں خبر دار ! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بنانا کہ تم ان کی طرف دوستی کی پیش کش کرو جب کہ انھوں نے اس حق کا انکار کردیا ہے جو تمھارے پاس آچکا ہے اور وہ رسول کو او رتم کو صرف اس بات پر نکال رہے ہیں کہ تم اپنے پروردگار (اللہ ) پر ایمان رکھتے ہو، اگر واقعاً ہماری راہ میں جھاد اور ہماری مرضی کی تلاش میں گھر سے نکلے ہو تو ان سے خفیہ دوستی کس طرح کر رہے ہو؟ جب کہ میں تمھارے ظاہر و باطن سب کو جانتا ہوں ، اور جو بھی تم میں سے ایسا اقدام کرے گا وہ یقینا سیدھے راستہ سے بھک گیا ہے۔“

( قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِی إِبْرَاهیمَ وَالَّذِینَ مَعَه إِذْ قَالُوا لِقَوْمِهمْ إِنَّا بُرَآءُ مِنْکُمْ وَمِمَّا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِکَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ الْعَدَاوَةُ وَالْبَغْضَاءُ ابَدًا حَتَّی تُؤْمِنُوا بِاللهِ وَحْدَه ) (۱۳)

” تمھارے لئے بہتر ین نمونہ عمل ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھی ہے جب انھوں نے اپنے قوم سے کھہ دیا کہ ہم تم سے اور تمھارے معبودوں سے بےزار ہیں ہم نے تمھارا انکار کردیا ہے اور ہمارے تمھارے درمیان بغض اور عداوت بالکل واضح ہے یہاں تک کہ تم خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لے آؤ “

ہم سے کھا جاتا ہے کہ زندگی کی باتیں کیجئے اور ”امریکہ مردہ باد“ کے نعروں کو چھوڑئیے، جی نہیں ، ”امریکہ مردہ باد“ کے نعرے پورے زور وشور سے لگائے جائیں گے ، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح ان سے یہ بات واضح طور پر کھہ دی جائے کہ جب تک حق کے سامنے سر تسلیم نہ کروگے، خدا کے سامنے اپنا سر نہ جھکائیں اور دوسروں پر اپنی حکومت جتانا نہیں چھوڑتے اور استکبارکی حالت سے اپنے کو نہیں نکالتے اور اپنے اپنائے ہوئے راستہ کو نہیں بدلتے،دنیا بھر کے لوگوں کے منافع کو پامال کرنا نہیں چھوڑتے اور آزاد ملتوں پر ستم کرنا ترک نہیں کرتے، ہم تمھارے دشمن ہیں ۔

حالانکہ ان لوگوں نے ہمارے اور دوسرے اسلامی ملکوں کے منافع کو غارت کیا اور بھت زیادہ نقصانات پہنچائے، ہماری عزت و آبرو کو پامال کیااور ہمارے بھت سے رشتہ داروں کا خون بھایا، ہم بھلا کس طرح ان سے دوستی اور محبت کا مظاہرہ کریں ؟ کیا دنیا بھر میں سیکڑوں بار کا تجربہ ہمارے لئے کافی نہیں ہے کہ ہم یہ سمجھ لیں کہ ان کے اندر مفاد پرستی اور استکبار کے علاوہ کچھ نہیں ہے، ہم پھر ان کے مکر وفریب کے جال میں پھنس جائیں ؟!

قارئین کرام! قرآن مجید نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ خدا ورسول اور اسلام کے دشمنوں کے سامنے واضح طور پر برائت اور دشمنی کا اظھار کریں اور اگر ہم اسی اسلام اور قرآن کے ماننے والے ہیں جو کروڑوں کی تعداد میں ہر مسلمان کے پاس موجود ہے اور دشمنان خدا سے برائت پر زور دیتا ہے، اور یہ برائت اور دشمنی کا اعلان صرف جزائی (سزائی) قوانین کے تحت نہیں ہے بلکہ اس سے بھی آگے ہے؛ تو پھر یہ کس طرح کھا جاسکتا ہے کہ سب کے سامنے بیٹھے مسکراتے رہیں اور سب کے ساتھ مھربان رہیں ؟

حوالے

(۱)وصیت نامہ سیاسی الہی امام خمینی (رہ) ، بند دوم

(۲)سورہ آل عمران آیت۴

(۳)سورہ سجدہ آیت۲۲

(۴) سورہ بقرہ آیت۹۰

(۵) سورہ انعام آیت ۱۲

(۶) سورہ توبہ آیت۱۲

(۷)سورہ توبہ آیت۷۳،سورہ تحریم آیت نمبر ۹

(۸)سورہ توبہ آیت۱۲۳

(۹ ) سورہ انفال آیت۶۰

(۱۰) وصیت نامہ حضرت امام خمینی (رہ)، بند دوم

(۱۱)سورہ توبہ آیت۶

(۱۲) سورہ ممتحنہ آیت نمبر ۱

(۱۳) سورہ ممتحنہ آیت نمبر ۴