اسلام اور سیاست جلد ۲

اسلام اور سیاست 0%

اسلام اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اسلام اور سیاست

مؤلف: آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی دام ظلہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 22332
ڈاؤنلوڈ: 3507


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 31 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22332 / ڈاؤنلوڈ: 3507
سائز سائز سائز
اسلام اور سیاست

اسلام اور سیاست جلد 2

مؤلف:
اردو

اڑتیسواں جلسہ

اسلامی قوانین کے ساتھ مغربی نظریات کا ٹکراؤ

۱ ۔ تحریک مشروطیت اور مغربی کلچر کا رواج

قارئین کرام! ہم نے ”اسلامی سیاسی نظریات“ کی بحث کے دوران بعض ان مشکلات کی طرف اشارہ کیا جو مغربی ثقافت کے نفوذ کی وجہ سے ہمارے ملک میں پیدا ہوگئی ہیں ، اور ہم نے ان اسباب کی طرف بھی اشارہ کیا جن کی وجہ سے یہ مشکلات پیدا ہوئی ہیں تاکہ ہمارے برادران خصوصاً جوانانِ عزیز اور آئندہ انقلاب کے وارث ان مشکلات میں گرفتار نہ ہوں منجملہ ان مشکلات کے جس کو گذشتہ بحث میں بیان کیا آزادی اور ڈیموکریسی کی بحث تھی۔

”تحریک مشروطیت“(۱) کے آغاز سے اس وقت تک ہمارے رابطہ مغربی کلچر سے زیادہ ہوتا گیا ہے، فرامانسون " Francmaconne "(۲) اور مغرب پرست (مغربی کلچر سے متاثر افراد) نے مغربی ممالک میں رائج مختلف کلچر کو اپناتے ہوئے ان کو اسلامی معاشرہ میں رائج کرنا شروع کردیا اگرچہ مختلف وجوھات کی بنا پر بعض چیزوں (جیسے آزادی اور ڈیموکریسی) کے رائج ہونے کا راستہ فراہم تھا، کیونکہ شاہ کے ظلم وستم سے ہمارا معاشرہ پریشان ہوچکا تھا، لھٰذا آزادی کی آواز پر فوراً لبیک کھا اور جب بھی کسی نے آزادی کا نعرہ لگایا اس کا بھت زیادہ استقبال ہوا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس طرح کے نعرے سب کی زبان پر آنے لگے، اور آزادی اور آزادی خواہی کے بھت زیادہ طرفدار بن گئے البتہ اسلامی اقدار کے مخالف ان قید و بند اور ظلم و ستم سے عوام الناس آزادی چاہتے تھے لیکن مغربی تمدن سے متاثر حضرات نے آزدای کا دوسرا رخ پیش کیا یعنی اسلام سے آزادی در حقیقت وہ اس نعرے کے ذریعہ عوام الناس کو اسلام سے دور کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ اسلامی قوانین اور اسلامی اقدار کی پابندی نہ کرپائیں ۔

اسی طرح وہ عوام الناس جو خان، راجہ اور فئوڈل( اشرافی حکومت، یا جاگیر داری )کی ظالم حکومت سے پریشان تھے، لھٰذا ان کو ڈیموکریسی کا نعرہ اچھا لگا اور ڈیموکریسی حکومت بنانے کی کوشش کرنے لگے، نہ یہ کہ اس طرح کے ظالم و جابر افراد ان کی سر نوشت اور زندگی کے بارے میں منصوبہ بندی بنائیں اسی وجہ سے یہ نظریہ عوام الناس میں قابل قبول تھا لیکن جن لوگوں نے اس معنی کو عام طور پر رواج دیا اور اس مغربی تحفہ کی عبادت وپرستش کرتے ہوئے دوسروں کو بھی اس کی پرستش کی دعوت دی، تو ان کا مقصد ڈیموکریسی کے اس نعرہ سے اسلامی اقدار کو بالائے طاق رکہ دینا تھااور دین کو معاشرہ کی سیاسی زندگی سے ہٹانا تھا، نیز عوام الناس کے نظریات اور ان کی مرضی کو اسلامی اور مذہبی اقدار کی جگہ قرار دینا ان کا مقصد تھا لیکن جو لوگ مغرب پرستوں کے ان ناجائز اہداف سے واقف نہ تھے وہ اس طرح کے مطلق شعار کو قبول کرلیتے تھے؛ لیکن جو لوگ دور اندیش اور ہوشیار تھے انھوں نے اس کے خلاف عکس العمل دکھایا، اور عوام الناس پر اس حقیقت کو واضح کرنے اور دشمن کی سازش کو برملا کرنے کے لئے انھوں نے اپنی جان تک کی بازی لگادی، اور اپنے تمام تر وجود کے ساتھ یہ اعلان کردیا کیا کہ وہ مطلق آزادی اور ڈیموکریسی جو اسلام اور اسلامی قوانین کے مخالف ہو؛ وہ اسلامی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہے۔

شھید بزرگوار شیخ فضل اللہ نوری رحمة اللہ علیہ کا جرم یہ تھا کہ انھوں نے ڈیموکریسی اور مشروطہ غربی کی مخالفت کی جو کہ اسلامی اور الہی اقدار کے مخالف تھی، اور موصوف نے ”مشروطہ مطلقھ“ کے مقابلہ میں ”مشروطہ مشروعہ“(۱) پیش کی چنانچہ موصوف فرماتے تھے: ہم مشروطہ کو مطلق طور پر قبول نہیں کرتے، بلکہ ہم اس مشروطہ کو قبول کریں گے جو اسلام اور قوانین اسلامی کے موافق ہو ، لیکن دوسرے لوگ مشروطہ مطلقہ کا نعرہ لگاتے تھے، کیونکہ ان کی نظر میں اس کا موافق شریعت ہونا یا نہ ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا؛ لھٰذا اپنے ناپاک اہداف کے تحت اس عالی قدر عالم روحانی کو ظلم و استبداد کی طرف داری اور مشروطہ مطلقہ کی مخالفت کے جرم میں پھانسی پر لٹکا دیا اور ان کو شھید کردیا اگرچہ ایک طرف سے ”اصول گرایان“ اور ”اسلام خواہان“کے درمیان اور دوسری طرف دگر اندیشان اور مغرب پرستوں میں یہ جنگ و جدال اور کشمش ابھی تک جاری و ساری ہے۔

۲ ۔ اسلام میں مطلوب اور مقصود آزادی کے نقشہ پر بعض مولفین کی نا رضا مندی

قارئین کرام ! ہم نے گذشتہ سال آزادی اور ڈیموکریسی کے سلسلہ میں بحث وگفتگو کی جس میں ہم نے بیان کیا کہ ہمارے معاشرہ میں مطلق آزادی قابل قبول نہیں ہے، اور جیسا کہ اسلامی تمدن اور بنیادی قوانین میں مشروط آزادی مقبول ہے بنیادی قوانین کی اصل نمبر ۴ کی بنا پر : بنیادی قوانین کے اصول، قوانین موضوعہ، پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین،یا دوسرے اداروں کے ذریعہ بنائے جانے والے قوانین اس وقت معتبر ہیں جب وہ دلیل شرعی کے عموم اور اطلاق سے کسی طرح کی کوئی مخالفت اور مغایرت نہ رکھتے ہوں لھٰذا اگر بنیادی قوانین کی ایک اصل بھی آیات و روایات کے عموم اور اطلاق سے مخالفت رکھتے ہوں تو وہ غیر معتبر ہے! ہماری ملت نے اسی بنیادی قوانین کو ووٹ دیا ہے جو اس قدر اسلامی مضبوط پشت پناہی رکھتا ہے لھٰذا اسلام کے احیاء اور زندگی کے لئے انقلاب برپا کرنے والے ہماری ملتبنیادی قوانین میں اسلامی احکام اور اسلامی منزلت کے تحفظ کے طلب گار ہیں ، تو پھر وہ غیر اسلامی تمدن کو کیسے قبول کرسکتی ہے؛ لھٰذا ہماری ملت کے نزدیک (جو اسلامی

____________________

(۱)یعنی وہ مشروطیت جس میں شرعی قوانین کے تحت کام کیا جائے (مترجم)

نظریہ ہے)؛وہ آزادی قابل قبول ہے جو اسلامی احکام اور اقدار کے تحت ہو۔

لیکن ہماری اس بحث کے بعد بھت سے اخبار وں کے مالکان نے ہماری مخالفت شروع کردی، اور بھت سے مقالات ہماری مخالفت میں چھپنے لگے، اور ہم کو آزادی اور ڈیموکریسی کا مخالف اور ظلم وستم کا طرف دار بتایا جانے لگا، یہاں تک کہ بعض لوگوں نے تو یہ بھی کھہ ڈالا کہ فلاں صاحب تو ایران کو پیچھے کی طرف لے جارہے ہیں ! اور آخر کار ایک مسلمان اور انصاف پسند مقالہ نگار نے ہماری باتوں کا اعتراف کیا اور کھا: ہمارا معاشرہ اس آزادی کا دفاع کرسکتا ہے جو اسلامی احکام اور قوانین شریعت کے دائرہ میں ہو؛ جبکہ ہمارے حکومتی عھدہ داران نے بھی بارہا اسی مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے اور کرتے رہتے ہیں ۔

۳ ۔ مفسد فی الارض کے بارے میں اسلامی حکم

ہم نے گذشتہ بحث میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ عدلیہ کو طاقتور ہونا ضروری ہے تاکہ خلاف ورزی کرنے والوں کو ان کی سزائے اعمال تک پہنچایا جاسکے، اور مجرموں کو سزا مل سکے، اور اس کام کے لئے پولیس اور قدرت کا استعمال کرنا ضروری ہے اور اگر اس طرح کی طاقت اسلامی حکومت میں نہ ہو تو پھر وہ معاشرہ میں اسلامی قوانین کو نافذ کرنے کی ضامن نہیں ہوسکتی اس چیز کو دنیا بھر کی حکومتوں میں قبول کیا جاتا ہے سوائے ”آنارشیسٹوں “" Anarchistes " ( فساد طلب ) اور حکومت کا انکار کرنے والوں کے، اور سبھی افراد حکومتوں کے لئے طاقت اور پولیس کو لازمی اور ضروری جانتے ہیں لھٰذا اسلامی حکومت کے لئے امن وامان قائم کرنے، معاشرہ میں نظم وضبط برقرار رکہنے،الہی احکام اور حدود نیز اسلام کے سزائی قوانین کو نافذ کرنے کے لئے قدرت اور طاقت کا استعمال ضروری ہے اسی طرح اگر کچھ لوگ اسلامی نظام کے خلاف مظاہرہ کرنے لگیں اور معاشرہ میں بد امنی پھیلانے لگیں تو اس وقت اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی قدرت اور پولیس کے ذریعہ ان کو اپنی جگہ بٹھادے۔

قارئین کرام ! ہم نے عرض کیا کہ بغیر کسی حد اور قید کے مطلق آزادی کو ایک ناقابل انکار ارزش اور اقدار کے عنوان سے بیان کرنے والے اور اس کے مقابلہ میں تشدد اور شدت پسندی کو مطلق طور پر ضدِّ اقدار قلمبند کرنے والے افراد کھتے ہیں : ”یھاں تک کہ نظام اسلامی کے مقابلہ میں قیام کرنے والوں اور تشدد اور شدت پسندوں کے مقابلہ میں ؛ تشدد اور شدت پسندی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے، بلکہ پیار و محبت اور الہی و اسلامی رحمت کے ساتھ برتاؤ کیا جانا چاہئے۔“

بے شک ان لوگوں کا یہ نظریہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ اگر مجرموں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے مقابلہ میں سخت رویہ نہ اپنایا جائے اور ضروری مواقع پر تشدد اور پولیس کا سھارا نہ لیا جائے تو اس طرح کے فتنہ وفساد دوبارہ بھی ہوسکتا ہے یہاں تک کہ ممکن ہے اس طرح کے برتاؤ سے دوسرے بھی ناجائز فائدہ اٹھائیں ، کیونکہ اگر اس طرح کا فتنہ وفساد بپا کرنے والوں ، مساجد میں آگ لگانے والوں ، عورتوں کے سروں سے چادر چھینے والوں اور مختلف مقامات پر آگ لگانے والوں نیزدھشت گردی پہلانے والوں کے مقابلہ میں اگر بیٹھے مسکراتے رہیں اور نرمی کے ساتھ برتاؤ کرتے رہیں تو گویا یہ فتنہ وفساد پہلانے والوں کے لئے ایک سبز چراغ ہوگا اور وہ یہ سوچ سکتے ہیں کہ اس طرح کا کام دوبارہ بھی کیا جاسکتا ہے!! لھٰذا یہ نظریہ بالکل نا درست اور اسلام کے مخالف ہے کیونکہ اسلام کا حکم یہ ہے کہ محارب (لڑائی جھگڑا کرنے والا) اور مفسدفی الارض کے لئے سخت سے سخت سزائیں دی جائیں ۔

عام طور پر حکومتی قوانین کی خلاف ورزی کرنا اور تشدد کا استعمال کرنا دو طریقہ پر ہوسکتا ہے: کبھی تو انفرادی طور پر ہوتا ہے اور کبھی اجتماعی طور پر اجتماعی طور پر اس طرح سے کہ ایک گروہ منصوبہ بندی کے ساتھ حکومت کے خلاف مسلحانہ حملہ کرتا ہے اسلامی فقہ میں اس گروہ کو ”بُغاة“ اور ”اہل بَغی“ (بغاوت کرنے والا) کھا جاتا ہے اسلامی جھاد کی ایک قسم اسی طرح کے لوگوں سے جھاد کرنا ہے اگر کچھ لوگ کسی گروہ کے تحت اسلامی حکومت کے خلاف مسلحانہ قیام کریں توان سے جنگ کرنا ضروری ہے، یہاں تک کہ اسلامی حکومت کے سامنے تسلیم ہوجائیں اور ان سے کسی طرح کی کوئی سازش نہیں کرنا چاہئے لیکن کبھی حکومت کے خلاف اس طرح کا قیام کسی خاص گروہ کے تحت نہیں ہوتا بلکہ ایک یا دو آدمی مسلحانہ حملوں کے ذریعہ معاشرہ میں بد امنی پھیلاتے ہیں اور عوام الناس کی جان ومال او رناموس پر حملہ ور ہوتے ہیں اور دھشت گردی پھیلاتے ہیں شریعت اسلام میں ایسے افراد کو ”محارب“ کھا گیا ہے ایسے افراد کے مقابلہ میں لشکر کشی کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ ان لوگوں کو اسلامی عدالت کے حوالہ کیا جاتا ہے تاکہ قاضی شرع ان کے بارے میں فیصلہ کرے۔

اور قاضی شرع بھی محارب اور مفسد فی الارض کے سلسلہ میں چار احکام میں سے کوئی ایک حکم لگا سکتا ہے، اور وہ چار حکم درج ذیل ہیں :

۱ ۔ پھانسی دینا۔

۲ ۔ تلوار یا بندوق کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتار دینا۔

۳ ۔ مختلف سمت سے ھاتہ پیر کاٹ دینا ،(یعنی داہنا ھاتہ اور بایاں پیر ،یا بایاں ھاتہ اور داہنا پیر)۔

۴ ۔ اسلامی ملک سے نکال دینا۔

چنانچہ اس سلسلہ میں قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

( إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِینَ یُحَارِبُونَ اللهَ وَرَسُولَه وَیَسْعَوْنَ فِی الْارْضِ فَسَادًا انْ یُقَتَّلُوا اوْ یُصَلَّبُوا اوْ تُقَطَّعَ ایْدِیهمْ وَارْجُلُهمْ مِنْ خِلاَفٍ اوْ یُنفَوْا مِنْ الْارْضِ ذَلِکَ لَهمْ خِزْیٌ فِی الدُّنیَا وَلَهمْ فِی الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیمٌ ) (۳)

”بس خدا و رسول سے جنگ کرنے والے اور زمین میں فساد کرنے والوں کی سزا یہی ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے یا سولی پر چڑھا دیا جائے یا ان کے ھاتہ پیر مختلف سمت سے قطع کردئے جائیں یا انہیں ارض وطن سے نکال باہر کیا جائے، یہ ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں عذاب عظیم ہے۔ “

لھٰذا معلوم یہ ہوا کہ جو لوگ اسلامی حکومت اور نظام اسلام کے خلاف فتنہ وفساد برپا کریں وہ محارب اور مفسد فی الارض ہیں اور ان کو اسلام کے مطابق سزا دی جائے، کسی بھی صورت میں اسلامی سزا اٹھائی نہیں گئی ہیں اسلامی تمدن کے مخالف افراد کھا کرتے ہیں کہ اسلامی سزائیں اور اسلام کے احکام تشدد آمیز ہیں اور عام طور پر کسی بھی طرح کی تشدد مذموم ہے اور جیسا کہ ہم نے تشدد کی بحث میں بیان کیا کہ جس طرح مطلق آزادی صحیح نہیں ہے اسی طرح مطلق تشدد بھی محکوم اور مذموم نہیں ہے بلکہ بعض موقع پر تشدد اور غیظ وغضب کا مظاہرہ کرنا جائز اور لازم ہے، اور جو لوگ تشدد اور غیظ وغضب کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں ان کے ساتھ میں ویسے ہی تشدد اور قھر و غضب کے ساتھ جواب دیا جائے، ورنہ اگر ان کے ساتھ پیار و محبت کا برتاؤ کیا جائے تو واقعاً یہ ان کے لئے ایک سبز چراغ دکھانے کی طرح ہوگا اور وہ پھر دوبارہ بھی اس طرح کا آشوب برپا کرسکتے ہیں ، اور اس طرح دوبارہ فساد پھیلانے کا راستہ ہموار ہوجائے گا۔

۴ ۔ سخت رویہ نہ اپنانے کا نتیجہ

گذشتہ سال ملک کے بعض مقامات پر مختصر طور پر بدامنی پھیلی ، اور بعض دلائل کی بنا پر حکومتی عھدہ داروں نے یہ مصلحت دیکھی کہ بد امنی پھیلانے والوں کے ساتھ تھوڑی نرمی کے ساتھ برتاؤ کیا جائے، اور سخت رویہ نہ اپنایا جائے؛ چنانچہ آپ حضرات نے دیکھا کہ اسی نرم رویہ اپنانے کا نتیجہ تھا کہ ایک بار پھر بد امنی پھیل گئی، جس کے درد ناک نتائج ناقابل برداشت تھے لھٰذا اگر بد امنی پھیلانے والوں اور مفسد فی الارض کے ساتھ سخت برتاؤ نہ کیا جائے اور اسلامی سزائیں ان کے حق میں جاری نہ کی جائیں تو پھر دوبارہ بدامنی نہ پھیلنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے اور یہ بھی ضمانت نہیں ہے کہ ایک بار پھر یونیورسٹی کے ماحول سے ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے گا بے شک ہمارے یونیورسٹی کے طلباء مسلمان، ہوشیار اور موقع شناس ہیں اور بدامنی اور آشوب پھیلانے سے بری ہیں لیکن بعض افراد ایسے بھی موجود ہیں جو انہیں طلباء کے پاکیزہ احساسات سے ناجائز فائدہ اٹھاکر پھر دوبارہ بد امنی پھیلانا چاہتے ہیں ۔

لھٰذا گر بد امنی پھیلانے والوں کے ساتھ سخت رویہ نہ اپنایا جائے اور بعض لوگوں کے مطابق؛ ان کے ساتھ تشدد اور شدت پسندی کا برتاؤ نہ کیا جائے تو پھر دوبارہ اس طرح کی بد امنی نہ پھیلانے کی کیا ضمانت ہے؟ لھٰذا توجہ رہے کہ اگر اسلامی سزائیں سخت ہیں جیسا کہ چور کے ھاتہ کاٹنے کا حکم ہے یا دوسرے جرائم؛ خصوصاً محارب اور مفسد فی الارض کے لئے سخت سے سخت سزائیں معین کی ہیں ، تو وہ اس وجہ سے ہیں تاکہ پھر کوئی بد امنی پھیلانے کی جرائت نہ کرسکے ، اور اس طرح کے مجرم سخت سزا سے خوف زدہ رہیں کیونکہ دشمن اور مجرم کو ڈرانے کا مسئلہ اسلام کی ایک بھت بڑی حکمت ہے جس کی طرف قرآن مجید نے اشارہ کیا ہے، مسلمانوں اور سیاسی مسلمانوں کو اس آیت پر توجہ کرنا چاہئے، ارشاد رب العزت ہوتا ہے:

( وَاعِدُّوا لَهمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهبُونَ بِه عَدُوَّ اللهِ وَعَدُوَّکُمْ وَآخَرِینَ مِنْ دُونِهمْ لاَتَعْلَمُونَهمْ اللهُ یَعْلَمُهمْ وَمَا تُنفِقُوا مِنْ شَیْءٍ فِی سَبِیلِ اللهِ یُوَفَّ إِلَیْکُمْ وَانْتُمْ لاَتُظْلَمُونَ ) (۴)

” اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو جس سے اللہ کے دشمن، اپنے دشمن اور ان کے علاوہ جن کو تم نہیں جانتے ہو اور اللہ جانتا ہے سب کو خوفزدہ کردو، اور جو کچھ بھی راہ خدا میں خرچ کرو گے سب پورا پورا ملے گا اور تم پر کسی طرح کا ظلم نہیں کیا جائے گا۔“

جن مواقع پر عوام الناس کی طرف سے تشدد جائز ہے وہ اس وقت ہے جب عوام الناس کو یہ احساس ہوجائے کہ اسلامی عھدہ داران خطرہ میں ہیں ، اور اسلامی نظام کے خلاف سازش ہورہی ہے ، اور صرف اسلامی حکومت اسلامی نظام کا دفاع کرنے پر قادر نہیں ہے کیونکہ جب اسلامی حکومت کو نظام کے سلسلہ میں کسی سازش کا پتہ چل جاتا ہے تو وہ خود اپنی ذمہ داری پر عمل کرتی ہے، لیکن اگر اسلامی حکومت تنھا کافی نہ ہو تو عوام الناس کا وظیفہ بنتا ہے کہ اسلامی حکومت کی مدد کریں اور اسلامی حکومت کے عھدہ داروں کا دفاع کریں جیسا کہ آپ حضرات نے دیکھا کہ اس سال (تیر ماہ ۱۳۷۸ ئہ شمسی ) کے درد ناک حادثہ میں کس طرح کا ماحول پیدا ہوگیا، اس وقت واقعاً اسلامی نظام خطرہ میں تھا، اس وقت حکومتی قدرت اس فساد کی آگ کو بجھانے کے لئے کافی نہ تھی، لھٰذا عوام الناس اور بسیجی ( عوامی رضاکار فوج) اس آگ کو بجھانے کے لئے آگے بڑھے اور اس کو خاموش کردیا؛ جیسا کہ بعض حکومتی بڑے عھدہ داروں نے بھی اس بات کی وضاحت کی کہ اس شعلہ ور آگ کو ہمارے بسیجیوں نے بجھایا ہے۔

لھٰذا اگر اسلامی نظام کے خلاف کوئی سازش ہو (جبکہ بعض لوگ اس سازش سے بے خبر رہتے ہیں ) اور ہم واضح اور قطعی طور پر اس سازش کا احساس کرلیں اور اس سازش کو ختم کرنے کے لئے تشدد کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ ہو،تو اس صورت میں تشدد او رشدت پسندی کا اظھار کرنا واجب اور ضروری ہے جیسا کہ حضرت امام خمینی (رہ) نے فرمایا کہ ”اس موقع پر تقیہ کرنا حرام ہے، اور قیام کرنا چاہئے، ہرچہ بادا باد “(چاہے کچھ بھی ہو) جس وقت خود اسلام خطرہ میں ہو اس موقع پر کسی طرح کا کوئی تقیہ جائز نہیں ہے، اور اسلام کے دفاع کے لئے اٹہ کھڑا ہونا چاہئے، یہاں تک کہ اگر ھزاروں لوگ بھی قتل ہوجائیں ، اگرچہ دوسرے افراد کسی وجہ سے اس خطرہ کی طرف متوجہ نہ ہوں یا وہ اس کام میں مصلحت نہ سمجھتے ہوں ، لیکن جب یقینی دلائل کے ساتھ واضح ہوجائے کہ واقعاً اسلامی نظام اور اسلامی عھدہ داروں کے لئے خطرہ ہے تو پھر عوام الناس کو ان کا دفاع کرنا واجب ہے؛ لھٰذا یہاں پر تشدد اور غیظ وغضب کا ظاہر کرنا واجب ہے۔

ہماری باتوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر موقع پر تشدد سے کام لیا جائے ، ہم تشدد کے طرفدار نہیں ہیں بلکہ ہمارا اعتقاد تو یہ ہے کہ پیار و محبت اور مھربانی اصل ہے ، اور صرف ضروری مواقع پر تشدد سے کام لیا جائے ہماری عرض تو اتنی ہے کہ جب اسلامی حکومت موجود ہو تو پھر حکومتی متعلق اداروں اور عدلیہ کے فیصلہ کے مطابق کام ہو؛ لیکن اگر کوئی مسئلہ حکومت کے ھاتھوں سے نکل جائے اور اسلام اور اسلامی نظام کی حفاظت کے لئے تشدد کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ بچے تو اس وقت تشدد کا مظاہرہ کرنا واجب ہے۔

۵ ۔ تشدد کی بحث کے مقابلہ میں غیر ذمہ دارانہ رویہ

گذشتہ جلسہ میں تشدد کے سلسلہ میں مطالب بیان کرنے کے بعد بعض مغرب پرست اخباروں نے ہمارے اوپر اعتراضات کئے اور بھت سے مقالات اخباروں میں چھپے حقیر اس سلسلہ میں ان تمام افراد کا شکر گذار ہے جنھوں نے ہماری موافقت یا مخالفت میں گفتگو کی یا مقالہ لکھا کیونکہ ہمارا تو یہ نظریہ ہے کہ اخباروں میں اس طرح کی باتوں پر نقد وتنقید کوئی نقصان دہ نہیں ہوتی؛ بلکہ اس طرح سے بات بالکل صاف ہوجاتی ہے تاکہ عوام الناس اپنے عقائد کو راسخ تر کرلیں ، اور اپنے وظیفہ کو بہتر طور پر سمجھ لیں لیکن شرط یہ ہے کہ ایک طرف کی بات سن کر فیصلہ نہ کیا جائے اور دونوں طرف کی مکمل باتوں کو پیش کیا جائے لیکن افسوس کے ساتھ عرض کیا جاتا ہے کہ بعض لوگوں نے ہماری باتوں کو کاٹ چھانٹ کر بعض عھدہ داروں تک پہنچائی جن کی وجہ سے وہ پریشان ہوگئے اور جلد بازی میں ہمارے خلاف فیصلہ کرنے لگے۔

ھمیں ددسروں سے یہ امید نہیں ہے کہ وہ ہماری باتوں کی تائید کریں اسی طرح ان سے کسی طرح کا کوئی خوف بھی نہیں ہے ہم اپنی شرعی اور الہی ذمہ داری پر عمل کرتے ہیں ، اگر کسی کو اچھا لگے تو بہتر ، ورنہ ہم نے اپنی ذمہ داری پر عمل کردیا ہے اور خدا پر بھروسہ کیا ہے، ہمیں کسی کی توہی ‎ ن یا دھمکی کا کوئی خوف نہیں ہے لیکن جو لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ سب کی باتوں کوکشادہ دلی کے ساتھ سننا چاہئے؛ ان سے یہ امید تھی کہ ہماری باتوں کو سنتے اور شاید ہماری پوری بات کو سننے کے بعد ان کو مان بھی لیتے اور اگر ہماری بات کو قبول بھی نہ کرتے تو اس کا جواب دلیل و منطق اور اصول کے تحت دیتے، نہ یہ کہ نامناسب الفاظ سے ہمیں نوازا جاتا۔

افسوس کہ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ ہم ان تمام لوگوں کو تحریری جواب دیں جنھوں نے تقریروں ، اخباروں اور مقالوں میں اظھار محبت کی اور ہمارے نفع یا ہمارے نقصان میں کچھ بیان کیا اوران دو ھفتوں میں سیکڑوں مقالے لکھے، اسی طرح ان سب کو الگ الگ زبانی جواب دینے کی بھی فرصت نہیں ہے لھٰذا ان کو جواب نہیں دیتے ، ہمیں امید ہے کہ ان سب کا یہ کام خوشنودی خدا کے لئے ہوگا۔

ہم اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ اسلامی معاشرہ کے لئے ضروری چیزوں کو دلائل اور برہان کے ساتھ بیان کریں ، لیکن اگر کسی کو اچھا نہ لگے تووہ منطق اور دلیل کے ساتھ اس کا جواب دے۔

۶ ۔ قرآن مجید میں لفظ ” تشدد“ کے ہم معنی لفظ کی تحقیق

قارئین کرام ! ہم یہاں پر ضروری سمجھتے ہیں کہ تشدد کے سلسلہ بیان شدہ باتوں کا خلاصہ کریں : ”تشدد“ عربی لفظ ہے اور فارسی زبان میں بھی استعمال ہوتا ہے، جس کے معنی سختی سے پیش آنے کے ہیں ، اس کے مقابلہ میں لفظ ”لیّن“ ہے جس کے معنی ”نرمی “ کے ہیں قرآن مجید میں لفظ ”لیّن“کے مقابلہ میں لفظ ”تشدد“ کا استعمال نہیں ہوا ہے، بلکہ لفظ ”غلظت“ استعمال ہوا ہے؛ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں (تشدد اور غلظت) مترادف (ہم معنی) الفاظ ہیں جیسا کہ فارسی (یا کسی دوسری زبان ) میں مترادف الفاظ ہوتے ہیں ، اسی طرح عربی زبان میں بھی بھت سے مترادف الفاظ ہوتے ہیں ، قرآن مجید میں کبھی ان دو مترادف الفاظ میں سے ایک لفظ استعمال ہوا ہے اور کبھی کبھی دونوں الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، اور کبھی دو الفاظ میں سے ایک خاص معنی میں استعمال ہوا ہے، مثال کے طور پر لفظ ”قلب“ سے ایک معنی مراد ہوتے ہیں اور لفظ ”فواد“ سے دوسرے معنی، (جبکہ دونوں کے معنی ”دل“ کے ہیں ) اور کبھی کبھی ایک لفظ کی جگہ دوسرا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن مجید میں لفظ ”لیّن“ (نرمی) کے مقابلہ میں لفظ ”غلظت“ استعمال ہوا ہے، جیسا کہ خداوندعالم نے پیغمبر اکرم سے خطاب فرماتا ہے:

( فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللهِ لِنْتَ لَهمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ ) (۵)

” پیغمبر یہ اللہ کی مھربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم رہو ورنہ اگر تم بد مزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ تمھارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے “

فارسی میں لفظ” غلظت “ سختی کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا، بلکہ ہماری زبان میں اس لفظ کو ”بھنے والی “ چیزوں میں استعمال کیا جاتا ہے، مثلاً کھا جاتا ہے کہ خرمے کا رس ”غلیظ“ ہے ، یعنی سخت ہے، اور لفظ ”غلظت“ جس کے مقابلہ میں لفظ ” لیّن“ ہے؛ اس کے ہم معنی لفظ ”تشدد“ ہے جس کے سلسلہ میں ہم نے بحث کی ہے،اور کھاکہ تشدد مطلق طور پر مذموم نہیں ہے، بلکہ بعض مواقع پر نہ صرف یہ کہ مذموم نہیں ہے بلکہ ضروری اور واجب بھی ہے۔

۷ ۔مغربی اور اسلامی نظر میں تحمل اور ٹولرانس کے معنی

قارئین کرام ! ہم نے آزادی کے سلسلہ میں عرض کیا کہ ہمارے سیاسی اور ادبی معاشرہ میں کئے جانے والے آزدای کے معنی لفظ لبرلیزم " Liberalism " کا ترجمہ ہے جس کا رواج مغربی ممالک میں بھت زیادہ ہے اسی طرح لفظ ”تحمل“ (کسی کی بات کو برداشت کرنا) جو لفظ ”تشدد“ کے مقابلہ میں استعمال کیا جاتا ہے یہ انگلش لفظ ٹولرانس " Toleranec " کے ہم معنی ہیں جس کے معنی تحمل اور برادشت کرنا ہیں بھر حال چونکہ یہ دونوں الفاظ مغربی ممالک میں بھت زیادہ رائج ہیں البتہ اس چیز میں کوئی ممانعت بھی نہیں ہے کہ اگر کسی دوسری زبان کا لفظ واضح اور شفاف معنی رکھتا ہو تو اس کو ”ھو بھو“ یا اس کے ہم معنی کوئی دوسرا لفظ اپنی ادبیات میں شامل کرلیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں البتہ اس نکتہ پر توجہ رہے کہ کبھی کبھی دوسری زبان کے یہ الفاظ بھت سی حد و قید رکھتے ہیں اور خاص الخاص معنی رکھتے ہیں نیز اسی زبان کے ماحول سے اس کے معنی کئے جاتے ہیں یعنی جب کسی زبان میں کوئی لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس کے مثبت یا منفی معنی ہوتے ہیں لیکن اگر اسی کو کسی دوسری زبان میں لے جاکر معنی کئے جائیں تو اس کے معنی بدل جاتے ہیں یا اس کے معنی بالکل برعکس ہوجاتے ہیں ، مثال کے طور پر:

یھی لفظ ” آزادی“جو مغربی تمدن سے ہماری زبان میں وارد ہوا ہے ؛ مغربی ممالک میں اس کے بھت زیادہ وسیع معنی ہیں اور جنسی مسئلہ میں کسی قسم کی روک ٹوک نہ ہونے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جب کہ ہمارے معاشرہ میں ایسا نہیں ہے، ا ور یہ معنی ہمارے معاشرہ بلکہ دوسرے اسلامی معاشرہ میں بھی قابل قبول نہیں ہیں ، لھٰذا ہم اسلامی اور قومی اقدار کی بنا پر مجبور تھے کہ اس آزادی میں کچھ قید وشرط کا اضافہ کریں اور جائز آزادی نیز اسلامی قوانین کے مطابق آزادی کو قبول کرلیں ، لھٰذا واضح طور پر یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم ”مطلق آزادی“ کو نہیں مانتے اسی طرح ”تشدد“ کے وہ معنی جو ہماری زبان میں وارد ہوگئے ہیں اور مغربی ممالک میں اس کو مطلقاً قابل مذمت گردانتے ہیں ؛ جب کہ ہم اس کو بطور مطلق ضدّ اقدار نہیں سمجھتے، جس طرح سے مطلق آزادی کو نہیں مانتے بلکہ ہم منطق اور اصول سے خالی تشدد جوانسانی اخلاق کے مخالف ہو؛اس کو مذموم مانتے ہیں ، اور ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ بعض مواقع پر تشدد ؛ عقل کا تقاضا اور معاشرہ کے منافع کو پورا کرنے والی ہے، لھٰذا اس وقت اس میں کوئی نقصان بھی نہیں ہے۔

لھٰذا جب لفظ ٹولرانس " Toleranec " انگلش سے نکل کر ہماری زبان میں داخل ہوا ، تواس کو مطلق طور پر قبول کرنے سے پہلے اس کے صحیح معنی پر توجہ کریں اور یہ دیکھیں کہ مغربی ممالک میں اس کے کیا کیا مثبت یا منفی پہلو ہیں ، اور اس کے پشت پردہ کیا راز پوشیدہ ہے اور کس مقصد کے تحت ہماری سیاسی ادبیات میں داخل ہوا ہے؟ نیز یہ دیکھیں کہ اس کے منتقل ہونے کے بعد اس کے معنی میں کیا کچھ تبدیلی پیدا ہوئی ہے یا نہیں ؟

لفظ ٹولرانس کا مفھوم مغربی ماڈرن تمدن کا ایک تحفہ ہے جو ” رنسانس“کے زمانہ بعد سے اہستہ اہستہ رائج ہوتا چلا گیا ہے اور آج کل مغربی ممالک میں بے دینی تمدن کی ایک واضح پہنچان ہے (توجہ رہے کہ ہم نے اس سے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ جب ہم مغربی تمدن کا نام لیتے ہیں تو اس سے مراد ان ممالک میں رہنے والے تمام لوگوں کا تمدن نہیں ہے؛ کیونکہ وھاں پر بھت سے دیندار مسلمان بھی موجود ہیں ، بلکہ ہماری مراد مغربی ممالک میں حکمراں تمدن ہے جس کے مخالف بھی خودانہیں ممالک میں بھت زیادہ پائے جاتے ہیں ۔)

اس لفظ ٹولرانس " Toleranec " کی تحقیق کے سلسلہ میں مزید عرض کرتے ہیں :

اولاً: مغربی ممالک میں حکمراں تمدن میں تمام اقدار (چاہے وہ اخلاقی اقدار ہوں یا اجتماعی اقدار یا حقوقی اور سیاسی) اعتباری امور ہیں اور ان کی کوئی عقلائی اور واقعی حققت نہیں ہے دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ اقدار کا تعلق عوام الناس کی مرضی اور ان کے سلیقہ پر ہوتا ہے کیونکہ کسی چیز پر اعتقاد رکہنا سب کے لئے اور سب جگہ پر اقدار نہیں کھلاتا بلکہ مغربی ممالک کی نظر میں اقدار اس وقت اقدار ہے جب معاشرہ اس کو قبول کرے، لیکن اگر ایک زمانہ میں عوام الناس کا سلیقہ بدل جائے تو یہی اقدار ضد اقدار میں بدل جائے گا۔

ثانیاً : یہ لوگ اسلامی اعتقاد کو اسی اعتباری اقدار کے ہم پلہ قرار دیتے ہیں ، اورانسان کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ چاہے وہ ان کو قبول کرے یا ترک کردے، گویا دینی عقائد کو بھی ایک سلیقہ کی طرح قرار دیتے ہیں :

جس طرح انسان اپنے سلیقہ کی بنا پر اپنے لباس کا رنگ اختیار کرتا ہے مثلاً کوئی نیلا رنگ پھننا چاہتا ہے اور کوئی کالا رنگ ، جبکہ کسی کو یہ نہیں کھا جاسکتا کہ تم اس رنگ کو کیوں انتخاب کرتے ہو؟! اور نہ ہی اس کے اس کام پر مذمت کی جاسکتی ہے کیونکہ ہر شخص اپنے سلیقہ میں مختار اور آزاد ہے، اسی طرح یہ لوگ دین کوبھی اپنے سلیقہ کی بنا پر اختیار کرتے ہیں ، اس کے بارے میں یہ نہیں کھا جاسکتا کہ تو نے اس دین کو کیوں انتخاب کیا اور اس دین کو کیوں انتخاب نہیں کیا، اور کیوں فلاں دینی عقیدہ کی توہی ‎ ن کرتے ہواور اس کو نفی کرنے کی کوشش کرتے ہو اور اس سے بھی بالاتر اگر کسی نے اپنے دینی اعتقادات کوبالائے طاق رکہ دیا اور کسی دوسرے مذہب میں داخل ہوگیا تو اس کی بھی مذمت نہیں کی جاسکتی ، کیونکہ عقیدہ بدلنا بھی ایک سلیقہ کی طرح ہے جو کسی بھی وقت بدلا جاسکتا ہے!

لیکن اسلامی نقطہ نظر سے دینی مقدسات اور اسلامی اقدار ؛جان ومال اور ناموس سے بھی زیادہ مہم ہے وہ اسلام جو ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ مال کی حفاظت کے لئے جان کی حد تک دفاع کرسکتے ہیں ( یعنی جب تک جان جانے کا خطرہ نہ ہو اس وقت تک اس کی حفاظت ضروری ہے، لیکن اگر مال کی خاطر جان جانے کا خطرہ ہو تو اس وقت اس مال کو جان پر قربان کردیا جائے) کیا وہ اسلام دینی مقدسات کے دفاع کی اجازت نہ دے گا؟ (اگر چہ شورایٰ شھر تھران کے ایک نمائندہ نے اس بات کی بھی اجازت دیدی ہے کہ خدا کے خلاف بھی مظاہرہ کیا جاسکتا ہے) لیکن تمام مراجع تقلید کے فتوایٰ کی بنا پر اور شیعہ و سنی اجماع کی بنا پرتمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کوئی شخص ایک جنگل اور بیابان میں کہ جھاں پر کوئی موجود نہ ہو ؛خدا، رسول ، مقدسات اسلامی اور دین اسلام کی ضروریات کی توہی ‎ ن کرے ، اوراس کو پولیس یا عدلیہ کے حوالہ کرنے کا کوئی امکان نہ ہو تو ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اس کو اسلامی مقدسات کی توہی ‎ ن کی بنا پر قتل کردے اور اسی اسلامی نظریہ کی بنا پر حضرت امام خمینی (رہ) نے مرتد سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ صادر فرمایاجس کی تمام شیعہ سنی علماء نے تائید کی مغربی تمدن سے ہمارا نقطہ اختلاف یہی ہے جس کو اسلام قبول کرتا ہے لیکن مغربی کلچر نہیں مانتا۔

ہمارا دینی وظیفہ اور دینی غیرت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ہم اسلامی مقدسات کی توہی ‎ ن ہوتے ہوئے خاموش بیٹھے دیکھتے رہیں ، اسلام نے دینی مقدسات کی توہی ‎ ن کے مقابلہ کے لئے تشدد کو جائز قرار دیا ہے جب اسلام ہمارے نزدیک اپنی جان و مال اور اولاد سے بھی زیادہ عزیز ہے تو ہم اس کی حفاظت اور دفاع کے لئے اپنی جان کو بھی خطرہ میں ڈال سکتے ہیں لھٰذا اگر کوئی اسلامی مقدسات کی توہی ‎ ن کرے تو ہر انسان اس کو سزا دے سکتا ہے یہاں تک کہ اگر اس کو یہ بھی احتمال ہو کہ کل اسے (اسی قتل کی بنا پر) گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے اور اس کے خلاف کاروائی کی جاسکتی ہے کہ تجھے اس قتل کا کوئی حق نہیں تھا ، اور وہ مقتول کے ”مھدور الدم“ ( یعنی قتل جائز )ھونے کو ثابت نہ کرسکتا ہو جس کے نتیجہ میں اس پر قصاص یا سزائے موت کا فیصلہ دیا جائے، تو اس صورت میں بھی وہ اپنے دینی وظیفہ پر عمل کرسکتا ہے اور اسلام کی توہی ‎ ن کرنے والے کو سزائے اعمال تک پہنچا سکتا ہے ، مگر یہ کہ اس کے قتل کرنے سے مزید فساد پھیلنے کا خطرہ ہو۔

حوالے:

(۱) مشروطیت اس شاہی حکومت کو کھتے ہیں جس میں قوانین کے تحت کام کیا جائے (مترجم)

(۲) طرفداران انسانیت، تھذیب ، اخلاق اور انسانی فکری رشداور مذہبی اختلافات کو دور کرنے والوں کو فرامانسون کھا جاتا ہے (مترجم)

(۳)سورہ مائدہ آیت۳۳

(۴ ) سورہ انفال آیت۶۰

(۵)سورہ آل عمران آیت ۱۵۹