چالیسواں جلسہ
دینی معارف افسانہ ہیں یا حقیقت نما آئینہ
۱ ۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر
”اسلامی سیاسی نظریات کی وضاحت“ کے سلسلہ میں ہماری بحث یہاں تک پہنچی تھی کہ اگر اسلامی منابع کے لحاظ سے قوانین اور ضوابط بنانا چاہیں اور ان کو اسلامی اقدار کے مطابق نافذ کرنا چاہیں ، تو اس کے لئے ہمارے پاس قرآن وسنت( جو ہمارے اصلی منابع ہیں )؛ کی گھری شناخت اور قابل اعتماد پہنچان ہونا ضروری ہے، تاکہ قانون گذاری کے وقت اسلامی نظریہ کو مدّ نظر رکھیں ، اور وہ قوانین وضوابط اسلام کے کلی قوانین کے تحت قرار پائیں ، اور اسی طرح قرآن وسنت سے الھام لیتے ہوئے ان کو نافذ کرنے کا طریقہ اپنائیں اس سلسلہ میں کبھی کبھی آیات و روایات سے ہونے والا نتیجہ مختلف ہوجاتا ہے اور بعض آیات و روایات کی مختلف تفسیر و معنی کئے جاتے ہیں نیز بعض روایات سے مختلف استنباط ہوتے ہیں لیکن اس سلسلہ میں بعض لوگ اس قدر آگے بڑہ گئے ہیں کہ انہیں اختلاف کے پیش نظر یہ کھتے ہیں کہ تمام دینی مسائل میں اختلاف جائز ہے، اور کھتے ہیں کہ ہر شخص اسلام سے مخصوص قرائت اور مخصوص نتیجہ حاصل کرسکتا ہے، اور کسی شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے نظریہ کو دوسروں پر تحمیل کرے جیسا کہ اخباروں اور جرائد میں مکرر یہ شعار دیا جاتا ہے کہ کسی کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ دین سے اپنے حاصل کردہ نتیجہ کو مطلق گردانے، بلکہ توجہ رہے کہ دوسرے افراد بھی آراء اور نظریات رکھتے ہیں ، اور یہ کہ اسلام کی صرف ایک قرائت نہیں ہے، نیز اسلام کے بارے میں مختلف قرائت کو احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے اور یہ یقین رکھا جائے کہ دین کی ہر ایک قرائت معتبر اور محترم ہے۔
۲ ۔ واقع نما اور غیر واقع نما زبانوں کی اہمیت
قارئین کرام ! ہم نے گذشتہ جلسہ میں دینی سلسلہ میں مختلف نظریات کے مطلق نہ ہونے نیز دین کی مختلف قرائت نہ ہونے کے بارے میں بحث کی، اور نظریات کے نسبی ہونے نیز مختلف قرائت کا سر چشمہ تلاش کرتے ہوئے ”نسبیت معرفت“ کے مسئلہ کو بیان کیا اور عرض کیا کہ ”نسبیت معرفت“ کے سلسلہ میں تین نظریات پائے جاتے ہیں اس جلسہ میں دینی نظریات کے مطلق نہ ہونے کے شعار اور دین کی مختلف ہونے کے بارے میں دوسرے دو نظریات کی طرف اشارہ کرتے ہیں ، اور وہ دو نظریہ یہ ہیں : ”دین کی زبان“ اور ”ھرمنوٹیک“ " Hermeneutics " کی بحث اور علم تفسیر متون (تحریر کی شرح وتفسیر کرنا) جو کہ عصرِ حاضر میں معرفت کا ایک مہم باب کھلاتا ہے، اور دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں مخصوص ڈیپارٹمینٹ اور مخصوص علمی گروہ اس میں مشغول ہیں لھٰذا ہم اس جلسہ میں انہیں دو چیزوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں ۔
دین کی زبان کے سلسلہ میں بحث، اور دینی معرفت مطلق نہ ہونے والے مسئلہ کا سرچشمہ یہ ہے کہ ان آخری چند صدیوں کے دوران یورپی ممالک میں ”فلسفہ دین اور کلام جدید“ کے سلسلہ میں ایک نئی بحث یہ کی گئی ہے کہ کیا دین کی زبان واقع نما ہے یا دین کی زبان سمبلیک " Symbilec " (رمزی)اور قصہ کھانی اورافسانہ کی زبان ہے اس سلسلہ وضاحت کے طور پر یوں عرض کیا جائے کہ انسان اپنی بات کو سمجھانے کے لئے زبانی اور عرفی محاورات یا علمی اور فلسفی اصطلاحات ، نیز الفاظ اور ان کی ترکیبات کا استعمال کرتا ہے تاکہ دوسروں کو خارجی یا عینی چیزوں کی واقعیت کی طرف متوجہ کرسکے اور کبھی انسان ان الفاظ کے ذریعہ خارجی اور عینی واقعیات کے طرف متوجہ کرتا ہے اور کبھی ان الفاظ کے ذریعہ منطق اور فلسفہ جیسے علم میں ذھنی اور تصوری حقائق کی طرف متوجہ کرتا ہے، مثال کے طور پر کوئی شخص یہ کھے کہ ”فضا روشن ہے“ اس جملہ سے کہنے والے کی مراد یہ ہوتی ہے کہ سننے والے کو اس بات کی خبر دے کہ فضا روشن ہے، اورچراغ کے ذریعہ روشنی کرنے کی ضرورت نہیں ہے بے شک یہ زبان واقع نما ہے اور ایک بیرونی حقیقت کی عکاسی کرتی ہے اور اسی طرح کی زبان ریاضیات ، منطق اور فلسفہ میں بھی استعمال کی جاتی ہے، البتہ یہ زبان علوم دقیقہ (منطق وفلسفھ) اور تجربی علوم میں تھوڑے دخل وتصرف کے ساتھ استعمال کی جاتی ہے اسی وجہ سے کھا جاتا ہے کہ زبان علم اور زبان فلسفہ واقع نما ہوتے ہیں اور بیرونی حقیقت یا ذھنی حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔
لیکن کبھی کبھی کسی بھی زبان کے الفاظ بیرونی یا ذھنی حقیقت کو بیان کرنے کے لئے استعمال نہیں کئے جاتے اگرچہ الفاظ کی ترتیب وہی ہوتی ہے جس کو علوم میں حقیقت نما طریقہ پر استعمال کیا جاتا ہے ، لیکن کہنے والے یا لکہنے والے کا مقصد حقیقت سے باخبر کرنا نہیں ہوتا، مثال کے طور پر افسانہ اور قصہ کی زبان، جس میں کسی بھی طرح کی کوئی واقعیت کا پتہ نہیں دیا جاتا ، لھٰذا اس طرح کی زبان واقع نما نہیں ہے جس وقت قصہ اور کھانیوں کی کتابوں میں ”کلیلہ ودمنھ“ کی داستان بیان کی جاتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان قصوں میں استعمال ہونے والے الفاظ کسی طرح کی حقیقت کی حکایت نہیں کرتے اگر ان میں جنگلی حیوانات مثلاً شیر، بھیڑیا اور لومڑی وغیرہ کا کے بارے میں باتیں بتائی جاتی ہیں تو مولف کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ جنگلی حیوانات میں اس طرح کی گفتگو ہوتی ہے؛ بلکہ مولف اس داستان کے ذریعہ حیوانات کی زبان میں غیر مستقیم طور پر بعض مہم باتوں کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے لھٰذا افسانہ اور قصہ کی زبان غیر واقع نما زبانوں کا ایک حصہ ہے۔
انھی غیر واقع نما زبانوں میں سے: زبان سمبلیک " Symbilec " (رمزی) ہے جو بھت سے علوم میں استعمال کی جاتی ہے ، اسی طرح انسانی معارف کی بھت سی قسموں میں حکایت اور حقائق کے بیان کرنے کے لئے اس زبان سے استفادہ کیا جاتا ہے، جس کا واضح نمونھ؛ علم ھندسہ اور ریاضی کی مثالیں اور فارمولے نیز اختصار کی علامتیں ہوتی ہیں جیسے " y" , "x " ،کیونکہ یہ مثالیں اور فارمولے کسی حقیقت کی حکایت نہیں کرتے، بلکہ بعض علمی حقائق کے لئے صرف ایک علامت ہوتی ہیں ، اسی طرح شاعروں کی زبان بھی غیر واقع نما ہوتی ہیں جب شاعر؛ مئے، ساغر اور ساقی جیسے الفاظ کو اپنے شعر میں استعمال کرتا ہے توحقیقت میں اس کی مراد واقعی ساقی اورشراب نہیں ہوتی بلکہ ان الفاظ کو کنایةً استعمال کرتا ہے جب کہ اس کے ذھن میں حقیقی مطلب کچھ اور ہوتا ہے۔
۳ ۔ دین کی زبان کو غیر واقع نما قرار دینے کا سبب
چنانچہ بعض لوگ کھتے ہیں کہ دین بھی اپنی خاص زبان رکھتا ہے، اور دین کی زبان غیر واقع نما زبانوں میں سے ہے پہلے تو دین کی زبان کا مسئلہ یورپ میں یھودیت اور عیسائیت کے عقائد کے بارے میں بیان ہوا، اسی وجہ سے دانشوروں اور متفکروں نے اپنے نظریہ کی تائید میں یھودیوں اور عیسائیوں کی کتاب مقدس سے مثالیں پیش کیں ، اور یہ کھا کہ جب ہم کتاب مقدس کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس کے اندر بعض چیزوں کے بارے میں دیکھتے ہیں ، تو ہمارا تصور یہ نہیں ہونا چاہئے کہ یہ مقدس کتاب ہم کو علمی (اور سائنسی) کتابوں کی طرح بیرونی حقائق سے آشنا کر رہی ہے، بلکہ دین نے جو زبان استعمال کی ہے وہ ایک افسانہ کی زبان اور سمبلیک " Symbilec " زبان ہے، (واقع نما نہیں ۔)
عام طور پر زبان کی دو قسم بیان کی جاتی ہے: ایک واقع نما زبان اور دوسری غیر واقع نمازبان،اور بعض لوگ دین کی زبان کو غیر واقع نما زبانوں میں قرار دیتے ہیں ، یعنی دین کی زبان حقائق اور واقعیت پر مشتمل نہیں ہوتی بلکہ افسانہ ، قصہ وکھانیوں کی طرح ہوتی ہے لیکن یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دین کی زبان کو زبان افسانہ قرار دینے کی علت اور وجہ کیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب یورپ میں سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی کے پیش نظر ہر روز نئی نئی چیزیں کشف ہوئی، اور زمین ، سورج اور دیگر ستاروں کے بارے میں مغربی دانشوروں جیسے ”کلپر“، ”کپرنیک“، ”گالیلہ“ ؛ نے نئے نئے فرضیہ قائم کئے جو یھودیوں اور عیسائیوں کی مقدس کتاب (توریت اور انجیل) سے ہم اہنگ نہ تھے، جس کی وجہ سے انھوں نے یہ اندازہ لگالیا کہ عصرِ حاضر میں سائنس کی نئی تھیوری اور نظریات؛ کتاب مقدس میں بیان شدہ بعض عقائد کو جھوٹاثابت کرتے ہیں ، جس کی بنا پر یھودیت اور عیسائیت کا چراغ گُل ہوجائے گا،کیونکہ جب توریت اور انجیل میں بیان شدہ چیزیں نادرست، بے بنیاد اور جھوٹی ثابت ہوجائیں گی تو پھر یہ دین کیسے باقی رہ سکتا ہے خصوصاً عیسائیت جس کے پیروکاروں کی تعداد بھت زیادہ ہے۔
خصوصاً ”رنسانس“ کے زمانہ کے بعد سے ؛ کتاب مقدس کی اہمیت کو بچانے اور یھودیت و عیسائیت کی دیواریں ھلنے سے روکنے کے لئے راہ حل تلاش کرنے کی فکر ہوئی ، (اور کافی مدت کے بعد اس نتیجہ پر پھونچے کھ) توریت اور انجیل میں بیان شدہ عقائد اور دوسری چیزیں ؛ سائنس کے جدید نظریات اور ٹکنالوجی سے اس وقت ہم اہنگ نہ ہوں گی جب ہم دین کی زبان کو واقع نما اور حقائق کی عکاسی کرنے والی زبان کھیں لیکن اگر دین کی زبان کو غیر واقع نما زبان قرار دیدیں اور یہ کھیں کہ دین کی زبان؛ شعراور افسانہ کی زبان ہے جو حقائق اور واقعیت کی عکاسی نہیں کرتی اور توریت و انجیل میں بیان شدہ چیزیں گویا افسانہ اور قصہ کھانیوں کی طرح ہیں اور خاص اغراض ومقاصد کے تحت تنظیم ہوئی ہیں ، تو اس صورت میں سائنس اور دینی باتوں میں کسی طرح کا کوئی اختلاف پیش نہیں آئے گا؛ کیونکہ بنیادی طور پر دونوں زبانوں کا مقصد مختلف ہے اس نظریہ کا خلاصہ یہ ہے کہ توریت اور انجیل میں خدا، وحی، قیامت اور جنت وجھنم کے بارے میں ذکر شدہ مطالب صرف عوام الناس کو اچھائیوں اور برائیوں کے سمجھنے کے لئے بیان ہوئے ہیں ، تاکہ دیندار افراد نیک کام کرنے اور برے کاموں سے پرہیز کرنے کی کوشش کریں جھوٹ نہ بولیں ، غیبت نہ کریں اور دوسرے پر ظلم وستم کو جائز نہ مانیں مثلاً اگر ان میں کھا جاتا ہے کہ جو شخص کسی پر ظلم کرے گا تو آخرت میں اس پر عذاب ہوگا ، تو در حقیقت اس قول سے ظلم کی بُرائی کو مزید مجسم کیا گیاہے ، ایسا نہیں ہے کہ واقعاً آخرت میں کوئی جنت و جھنم موجود ہے، لھٰذا ہمیں دینی مسائل سے اس طرح کا کوئی تصور اور نتیجہ حاصل نہیں کرنا چاہئے۔
کتاب مقدس (توریت اور انجیل) سے عام فہم عوام الناس یہی نتیجہ حاصل کرتے ہیں کہ ان کتابوں میں ذکر شدہ دینی مسائل حقائق پر مبنی ہیں اور بیرونی حقائق کی عکاسی کرتی ہیں ، لیکن روشن خیال رکہنے والوں اور دانشوروں کے نزدیک توریت و انجیل میں بیان شدہ مطالب صرف عوام الناس کے لئے تربیتی پہلو رکھتے ہیں یعنی ان کے پیش نظر عوام الناس میں نیک کام کرنے اور بُرے کاموں سے پرہیز کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، اس کے علاوہ ان مقدس کتابوں میں بیان شدہ مطالب میں کوئی پیغام نہیں ہے یہاں تک کہ دین کی افسانوی زبان میں خدا کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، چنانچہ اگر توریت اور انجیل میں خدا کا ذکر ہے یا انبیاء (علیہم السلام) اور وحی کے بارے میں بیان ہوا ہے، تو اس افسانوی زبان میں یہ صرف خدا کا ایک عکس ہے ورنہ (نعوذ باللہ ) نہ تو خدا ہے اور نہ جنت وجھنم اور وحی اور اس عکس کو اس افسانوی زبان میں اس قدر بہتر ین سلیقہ سے بیان کیا گیا ہے تاکہ عوام الناس میں نیک کام کرنے اور بُرے کام سے پرہیز کرنے کا شوق پیدا ہو،اور انسانی اقدار کا پاس و لحاظ رکھا جائے ان کی یہ کوشش رہے کہ اسی دنیا میں بہتر ین زندگی گذاریں اور دوسرے کو آزار و اذیت نہ دیں ؛ ورنہ تو توریت و انجیل کی ”کلیلہ ودمنھ“ داستان سے زیادہ اہمیت نہیں ہے جس طرح سے یونانی قدیم تمدن اور دوسرے قدیمی معاشروں میں افسانوی خدا ہوتے تھے، یہاں تک کہ ان کی بعض داستانوں میں یہاں تک بیان ہوا ہے کہ وہ خدا ایک دوسرے سے شادی کیا کرتے ہیں ، اور کبھی تال میل کرتے ہیں اور کبھی ایک دوسرے سے ناراض ہوجاتے ہیں ، اسی طرح دوسرے ادیان کی کتابوں منجملہ توریت اور انجیل میں بھی صرف خیالی اور افسانوی عکس ہوتا ہے جس میں کسی بھی طرح کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔
قارئین کرام! جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ یھودیت اور عیسائیت کو نابودی سے بچانے کے لئے توریت اور انجیل میں بیان شدہ دینی مسائل کے بارے میں یہ تھیوری اور نظریہ پیش کیا گیا ہے اور یہ نظریہ اہستہ اہستہ مغربی ممالک کے دیندار لوگوں میں بھی رائج ہوتا چلا گیا، اورکتاب مقدس کی توجیہ (اور دلیل) کے عنوان سے اس نظریہ کو بہتر ین راہ حل مانا جانے لگا لیکن ”رنسانس“ کے زمانہ سے پہلے یھودی اور عیسائی متدین لوگ دینی عقائد اور مسائل کو صادق، حق اور واقع کے مطابق مانتے تھے،اور انھوں نے جب نئی نئی کشفیات اور سائنس کے نظریات کو اپنی کتاب مقدس کے بر خلاف پایا تو کتاب مقدس کے دفاع کرتے ہوئے بعض دانشورں کی سخت مخالفت کی یہاں تک کہ بعض دینی مسائل کے مخالف دانشوروں کو پھانسی دے دی گئی اور بعض کو زندہ آگ میں جلادیا گیا اسی طرح بعض بھت سے دانشوروں کو منجملہ ”گلیلھ“ کو توبہ پر مجبور کیا جس کی بنا پر اس نے اپنے نظریات واپس لے لئے۔
۴ ۔مغربی نسبی گرائی نظریہ کی ترویج (وتبلیغ)کرنے والے مغرب پرست روشن خیال
قارئین کرام ! مغربی ممالک میں پہلے یہ نظریہ پیش کیا کہ دین کی زبان؛ سائنس کی زبان سے مختلف ہے اور دین کی زبان کسی بھی طرح کے حقائق پر مبنی نہیں ہے، بلکہ دین کی زبان قصہ کھانی اور افسانہ کی زبان ہے، لیکن مشرقی ممالک سے مغربی ممالک کے تعلقات اور علمی تبادلہ خیالات اور مغربی ممالک میں اسٹوڈینٹ کا تعلیم حاصل کرنے وغیرہ جیسے امور کی وجہ سے یہ نظریہ مشرقی ممالک میں بھی آگیا مغرب پرست اور مغربی کلچر کے عاشق اور دلدادہ نیز مغربی ممالک میں تعلیم یافتہ اسٹوڈینٹ وغیرہ مغربی تمدن کے شیدائی بن گئے ، اور وھاں کی تعلیم اور وھاں کی زبان سے آشنائی کو اپنے مہم افتخارات میں شمار کرنے لگے، اور اس الحادی تھیوری اور نظریہ کے حصول کو اپنے لئے باعث سرفرازی سمجھنے لگے، نیز اس نظریہ کو کار گر اور بہتر ین تحفہ کے عنوان سے عالم اسلام میں داخل کردیا، اور کھا کہ جس طرح مغربی ممالک میں توریت اور انجیل کے ماننے والے اپنے دین کی زبان کو غیر واقع نما زبان قرار دیتے ہیں اور اس کو صرف قصہ کھانی کی زبان مانتے ہیں جو کسی بھی طرح کے حقائق کو بیان نہیں کرتی، اسی طرح قرآن کریم کی زبان بھی قصہ کھانی اور افسانہ کی زبان ہے جس میں حقائق سے کوئی سرو کار نہیں ہے۔!!
عالم اسلام میں بعض عربی ممالک جو اہل بیت علیہم السلام کی تعلیم سے آشنائی نہیں رکھتے تھے لھٰذا انھوں نے اس تھیوری اور نظریہ کو قبول کرلیا اور بعض عربی اہل قلم نے اس سلسلہ میں کتابیں بھی لکہ ڈالیں اور اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے شواہد یا ”مستندات قرآن“ کا بھی ذکر کیا اور جب انھوں نے قرآن مجید کی متشابہ آیات کو دیکھا جن کو سمجھنے سے قاصر رہے اور ان کے حقیقی معنی کو درک نہ کرسکے، اور ان کے ظاہری معنی کو علم اور سائنس سے ہم اہنگ نہ پایا تو توریت و انجیل کے ماننے والوں کی طرح اپنے دینی عقائد کی افسانوی تفسیر و توضیح کرنے لگے، اور قرآن مجید کی بھی افسانوی اور سمبلیک " Symbilec " (رمزی) تفسیر کرنا شروع کردی تاکہ اپنے خیال ناقص میں سائنس کے نظریات کے، دینی عقائد اور دینی مسائل سے ٹکراؤ کا راہ حل پیش کرسکیں تقریباً تیس سال سے خصوصاً ان آخری چند سالوں میں یورپ اور امریکہ میں تعلیم یافتہ لوگوں نے اس سلسلہ میں بھت زیادہ فعالیت اور کار کردگی کی تاکہ مغربی تمدن کے اس نظریہ کو ہمارے معاشرہ میں رواج دیں اور قرآن کی زبان کو قصہ کھانی اور افسانوی زبان کھہ ڈالا، اور اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے لئے قرآن مجید کی بعض رمزی اور سمبلیک تفسیر کے چند نمونہ پیش کئے:
۵ ۔ ھابیل اور قابیل کے واقعہ سے انحرافی نتیجہ
تیس سال پہلے انحرافی اور مارکسسٹ " Marxist " نظریہ رکہنے والے ایک صاحب نے اپنی ایک تقریر میں ھابیل و قابیل کے واقعہ سے سمبلیک " Symbilec " تفسیر کی۔
جب کہ قرآن مجید میں اصل واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے:
(
وَاتْلُ عَلَیْهمْ نَبَا ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ احَدِهمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنْ الْآخَرِ قَالَ لَاقْتُلَنَّکَ قَالَ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللهُ مِنْ الْمُتَّقِینَ
)
” اور اے پیغمبر ! آپ ان کو آدم کے دونوں فرزندوں کا سچا قصہ پڑہ کر سنائیے کہ جب دونوں نے قربانی دی اور ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی نہ ہوئی تو اس نے کھا کہ میں تجھے قتل کردوں گا تو دوسرے نے جواب دیا کہ میرا کیا قصور ہے خدا صرف صاحبان تقویٰ کے اعمال قبول کرتا ہے “
اسلامی کتب میں واردہ شدہ روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ جناب آدم علیہ السلام کے دو بیٹے ھابیل و قابیل کو خدا کی بارگاہ میں قربانی کرنا تھی چنانچہ قابیل نے ایک گوسفند کی قربانی کی، اور جناب ھابیل نے ایک مقدار گیھوں راہ خدا میں ہدیہ دئے، جناب ھابیل کی قربانی بارگاہ رب العزت میں قبول ہوگئی لیکن قابیل کی قربانی قبول نہ ہوئی، جس کے بنا پر قابیل کو جناب ھابیل سے حسد ہونے لگا یہاں تک کہ جناب ھابیل کو قتل کردیا؛ لیکن اپنے کئے پر پشیمان ہوا اس کے بعد اپنے بھائی کے جنازہ کے بارے میں فکر ہوئی کہ اس کو کیا کرے تو خداوندعالم نے ایک کوّے کو بھیجا جس نے قابیل کو دفن کرنے کا طریقہ سکھادیا۔
(
فَبَعَثَ اللهُ غُرَابًا یَبْحَثُ فِی الْارْضِ لِیُرِیَه کَیْفَ یُوَارِی سَوْاةَ اخِیه قَالَ یَاوَیْلَتَا اعَجَزْتُ انْ اکُونَ مِثْلَ هذَا الْغُرَابِ فَاوَارِیَ سَوْاةَ اخِی فَاصْبَحَ مِنْ النَّادِمِینَ
)
” پھر خدا نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کو کھود رہا تھا کہ اسے دکھلائے کہ بھائی کی لاش کو کس طرح چھپائے گا تو اس نے کھا کہ افسوس میں اس کوّے کے جیسا بھی نہ ہوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش کو زمین میں چھپا دیتا اور اس طرح وہ نادمین اور پشیمان لوگوں میں شامل ہوگیا ۔“
کوّے نے اپنی غذا کو چھپانے کے لئے زمین میں ایک گڑھا گھودا اور اپنی غذا وھاں چھپادی؛ جب خداوندعالم کے حکم سے کوّے نے زمین میں اپنی غذا کو دفن کیا تو کیونکہ قابیل کو نہیں معلوم تھا کہ زمین میں مردہ کس طرح دفن کیا جاتا ہے، لیکن کوّے کے کام سے اپنے مردہ بھائی کے دفن کا طریقہ سیکہ لیا۔
وہ مقرر اور مولف اس واقعہ کے بارے میں اپنی سمبلک تفسیر میں کھتا ہے:
اس واقعہ میں جناب ھابیل زحمت کش اورکاشتکاری کا ایک نمونہ ہے جو بھت زیادہ زحمت کے بعد بھت کم نتیجہ حاصل کرتا ہے اور چونکہ خداوندعالم اس طبقہ کا طرفدار ہے لھٰذا خداوندعالم نے اس کا نا چیز ہدیہ قبول کرلیا اور قابیل مالداری کا نمونہ ہے اور جب ایک مالدار نے گوسفند کی قربانی کی تو خدا نے اس کو قبول نہیں کیا ؛ کیونکہ خداوندعالم مالداری کا دشمن ہے چنانچہ اس مقرر نے اس واقعہ سے یہ نتیجہ نکالا کہ ھابیل وقابیل اور گندم اور گوسفند کی قربانی کوئی حقیقت نہیں رکھتااور صرف سمبلیک " Symbilec " (رمزی) پہلو رکھتا ہے، اور یہ واقعہ مزدور اور مالدار طبقوں کے درمیان اختلاف اور جنگ و کشمکش کی حکایت کرتا ہے (لیکن یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں جناب آدم و حوا اور ان کے دونوں فرزند ھابیل و قابیل کے علاوہ کوئی تھا ہی نہیں کس طرح غریب، مزدور اور مالدار طبقہ کا تصور کیا جاسکتا ہے، اور اس طرح کی طبقاتی تقسیم اس زمانہ کے لئے معنی نہیں رکھتی بھر حال مارکسسٹ " Marxist " نظریہ کے رواج اور اس الحادی نظریہ کے طرفداروں کی وجہ سے یہ سمبلیک تفسیر قابل قبول قرار پائی )
قارئین کرام ! مذکورہ مقرر نے ھابیل وقابیل کے بارے میں تو یہ سمبلیک تفسیر بیان کردی لیکن یہ نہیں بتایا کہ کوّا کس چیز کا نمونہ تھا؛ یہاں تک کہ اس کے ایک شاگرد نے اس کے بارے میں ایک نظریہ پیش کیا کہ وہ کالا کوّا مولویوں کا نمونہ تھا جو مجلس پڑھتے ہیں اور عزاداری کرتے ہیں جو منبر پر جاکر روزی کے سیاہ وسفید کے بارے میں بیان کرتے ہیں اور مالداروں اور سرمایہ داروں کی حمایت کرتے ہیں اور مزہ کی بات یہ ہے کہ اس سلسلہ میں خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے :(
وَاتْلُ عَلَیْهم نَبَا ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا
)
یعنی(اے رسول) اس واقعہ کی حقیت لوگوں کے لئے بیان کریں ، گویا خداوندعالم یہ خبر دے رہاہے کہ ایک روز ایسا بھی آئے گا جب اس واقعہ کے سلسلہ میں غلط بیانی سے کام لیا جائے گا، لھٰذا آپ پہلے ہی اس واقعہ کی حقیقت کو بیان فرمادیں ۔
جی ھاں ، ان چند سالوں میں بعض مغربی ممالک کے کلچر سے متاثر افراد قرآن مجید سے اس طرح کی تفسیر بیان کرتے ہیں اور آج کل دین اور قرآن کے بارے میں اس طرح کی باتیں اپنے زوروں پر ہے اور ان کی تبلیغ و ترویج ہو رہی ہے، یہاں تک کہ بعض علماء بھی اس نظریہ سے متاثر ہوچکے ہیں اور یہ کھتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ (نعوذ باللہ ) قرآن کی زبان واقع نما نہیں ہے اور ایسا نہیں کہ قرآن مجید کی آیات کے ذریعہ ہمیں کسی حقیقت کے بارے میں پتہ چلتا ہو ، ہمارے پاس قرآنی آیات کی تفسیر کے سلسلہ میں قطعی، برہانی اور مسلم معیار نہیں ہیں تاکہ ان کی بنا پر ہم یہ دعویٰ کریں کہ قرآن مجید کی فلاں آیت سے یہ نتیجہ ہے اور دوسری تفسیریں باطل اور نادرست ہیں بلکہ ہر شخص اپنے ذھن اور علم کی بنا پر قرآن کے بارے میں سمبلیک تفسیر بیان کرسکتا ہے، چاہے اس کی تفسیر دوسری تفاسیر سے بالکل مخالف اور متضاد ہو۔!!
۶ ۔ دین کی زبان واقع نما نہ ہونا یا دین کی ایک مبہم تصویر
دینی مسائل اور قرآن کریم کی زبان کو غیر واقع نما قرار دینے کے سلسلہ میں وضاحت کے لئے عرض کرتے ہیں کہ ماڈرن ھنری میوزیم " Museum " میں بھت سی مختلف ھندسی اور مبہم چیزوں کی تصویر ہوتی ہیں جس کو دیکہ کر واضح طور پر معلوم نہیں ہوپاتا کہ یہ کس چیز کی تصویر ہے جس کی بنا پر مختلف احتمالات دئے جاتے ہیں اور ہر شخص اپنے ذوق کے لحاظ سے ان کی توضیح و تفسیر کرتا ہے اور ان کو کسی خاص چیز کا سمبل (اشارہ) بتایا جاتا ہے شاید ان کا مصور دوسروں کے مختلف نظریات کی طرف متوجہ بھی نہ ہو اسی طرح بعض نفسیاتی لیباریٹری" Laboratory "میں ایک کاغذ پر تھوڑی روشنائی ڈال دی جاتی ہے اور اس کو پھیلاکر بعض لوگوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ یہ کس چیز کی شکل ہے؟ تو وہ تھوڑی دیر غور وفکر کے بعداپنے ذھن کے لحاظ سے کوئی شکل کھہ دیتے ہیں ، مثلاً کھتے ہیں کہ یہ ایک عورت کے بال ہیں اور یہ اس کا ھاتہ ہے اور اپنے ذھنی خیالات کی بنا پر اس کو ایک عورت کی تصویر کھہ ڈالتے ہیں جبکہ اس کام کے کرنے والے نے کسی خاص تصویر کے لئے یہ کام نہیں کیا ہوتا اور ناہی اس کام کو منظم طریقہ سے کیا جاتا ہے بلکہ یونھی روشنائی ڈال دی جاتی ہے کہ ہر شخص اپنے ذھن کے لحاظ سے اس کے بارے میں فیصلہ کرے۔
چنانچہ یہ لوگ کھتے ہیں کہ قرآن کی زبان واقع نما نہیں ہے، بلکہ قرآن مجید میں بیان شدہ مسائل کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہر شخص اپنے لحاظ سے اس کو سمجھے، اور کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ قرآن مجید سے اپنے حاصل کردہ نظریہ کو مطلق قرار دے، اور یہ کھے کہ میری بیان کردہ ہی تفسیر قرآن ہی درست اور صحیح ہے اور دوسروں کی بیان کردہ تفسیریں غلط ہیں جس طرح ایک مبہم تصویر کودیکہ کر کوئی یہ فیصلہ کرے کہ صرف میرا ہی نظریہ صحیح ہے اور دوسروں کا نظریہ غلط ہے؛ یہ کہنا اس کے لئے صحیح نہیں ہے، کیونکہ جس طرح وہ اپنے ذاتی خیالات اور تصورات کے ذریعہ کوئی خاص تفسیر کرنے کا حق رکھتا ہے اسی طرح دوسرے بھی اپنے ذھن اور موقع محل کے لحاظ سے تفسیر کرسکتے ہیں ، جن میں سے کسی ایک کو صحیح اور دوسری کو غلط قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ اس طرح کی چیزوں میں صحیح اور غلط ہونا ثابت نہیں ہے، یہ نہیں کھا جاسکتا کہ فلاں صاحب کا حاصل کردہ نتیجہ صحیح ہے اور فلاں صاحب کا نتیجہ غلط ہے!
قارئین کرام! کیا قرآن مجید بھی (نعوذ باللہ ) ایک ماڈرن میوزیم کی تصویروں کی طرح ہے کہ ہر شخص کو اس کی تفسیر کرنے کا حق ہے؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ آسمانی کتابوں کے بارے میں اس طرح کا نظریہ رکھتے ہیں غالباً وہ لوگ خدا اور وحی پر عقیدہ نہیں رکھتے، اور اگر زبان سے مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں ، تو ان کا یہ مسلمان ہونے کا دعویٰ صرف دکھاوے کے لئے ہوتا ہے اس وقت اختلاف قرائت کا نظریہ رکہنے والے کتاب مقدس کی تفسیر کے بارے میں کھتے ہیں : بالفرض اگر خدا بھی ہو، وحی بھی نازل ہوئی ہو اور انبیاء نے وحی کو صحیح سمجھا ہو (اگرچہ ان باتوں میں بھی شک ہے)، تو چونکہ انبیاء بھی انسان ہیں اور انسانی درک و فہم رکھتے ہیں اور انسانی درک وفھم؛ غلطی سے خالی نہیں ہے،لھٰذا بھت ممکن ہے کہ نبی نے خدا کی باتوں کو صحیح نہ سمجھا ہو اور اگر یہ بھی مان لیں کہ پیغمبر نے وحی کو حاصل کرنے میں غلطی نہیں کی ہے، تو بھی قرآن مجید کی یقینی تفسیر بیان کرنے کے لئے کوئی راستہ نہیں ہے، تاکہ اسی معیار کی بنا پر کسی ایک تفسیر کو یقینی قرار دیں ا ور دوسری تفاسیر کو غلط سمجھیں لھٰذا قرآن مجید سے کوئی بھی شخص اپنے لحاظ سے نتیجہ نکال سکتا ہے اور اپنے نظریہ اور نتیجہ کو صحیح و معتبر قرار دے سکتا ہے اور کسی دوسرے کو یہ حق نہیں ہے کہ اس کے حاصل کردہ نظریہ کو ردّ کرے ہم کتاب مقدس کی تفسیر کے بارے میں بالکل انہیں افراد کی طرح ہیں جن کے سامنے نفسیاتی لیباریٹری " Laboratory " میں ایک مبہم تصویر پیش کی جاتی ہے جس کے بارے میں ہر شخص کو اپنا اپنا نظریہ دینا پڑتا ہے مثلاً کوئی شخص کھتا ہے کہ یہ شکل تو میری معشوقہ کے بالوں کی طرح ہے اور کوئی کھتا ہے کہ یہ رستم کی شکل ہے، اور اس سلسلہ میں ہر ایک شخص کی نظر محترم ہے اور کسی دوسرے کو اعتراض کا حق نہیں ہے، اگرچہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس مبہم تصویر کو سمجھنے میں سب نے غلطی کی ہو اور کسی نے بھی صحیح نہ بتایا ہو بلکہ اس طرح سے کاغذ پر روشنائی ڈالنے والے کا ہدف بھی صرف یہی ہو کہ ہر شخص اپنے لحاظ سے اس کے بارے میں اپنا تصور بیان کرے!
۷ ۔ قرآن مجید کا شعراء کی زبان سے مقابلہ کرنا؛ بھت سے نتائج ہونے پر دلیل ہے!!
دین کی زبان کے سلسلہ میں معرفت کو نسبی قرار دینے والوں کے نظریہ کو بیان کرنے کے لئے ایک دوسری مثال یہ بھی پیش کی جاسکتی ہے: جیسا کہ عرفانی اور عشقی اشعار سے مختلف نتائج نکالے جاسکتے ہیں خصوصاً حافظ کی غزلیات، جیسا کہ اکثر ایرانیوں کے گھر میں ”دیوان حافظ“ ہوتا ہے اور ایک قدیم زمانہ سے دیوان حافظ سے فال بھی نکالی جاتی ہے مثلاً جب کسی شخص کا رشتہ دار سفر میں ہوتا ہے اور وہ اس کے بارے میں باخبر ہونا چاہتا ہے تو وہ دیوان حافظ کے ذریعہ فال نکالتا ہے اور سامنے نکلنے والے صفحہ پر موجود غزل کو پڑہ کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس کا رشتہ دار خیریت سے ہے اور جلد ہی پلٹنے والا ہے اور اگر کوئی شخص مریض ہو اور دیوان حافظ سے فال نکالتا ہے تو وہ بھی اسی غزل سے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ جلد ہی اس کو بیماری سے شفا ملنے والی ہے؛ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اسی غزل سے ایک شخص پریشان کن نتیجہ نکالے جبکہ حافظ کی عارفانہ اور عاشقانہ غزلیں اس طرح فال نکالنے کے لئے نہیں ہیں ، اور حافظ کا ان غزلیات سے بالکل یہ مقصد نہیں ہے کہ فلاں مریض شفایاب ہوجائے گا یا فلاں مسافر سفر سے جلد لوٹ آئے گا، یا فلاں شخص کی یہ آرزو پوری ہوجائے گی یا فلاں صاحب کی یہ حاجت پوری نہیں ہوگی کیونکہ حافظ نے عرفانی اور شاعری ماحول میں شعر کھیں ہیں جبکہ فال نکالنے والا اپنے ذھن کے لحاظ سے مختلف نتیجے نکال رہا ہے جب کہ شاعر اور دوسروں کے نتیجہ سے میلوں فاصلہ موجود ہے مولانا (شاعر) نے کیا خوب کھا:
ھر کس از ظن خود شد یار من
از درون من نجست اسرار من
(اپنے خیال میں ہر شخص ہمارا دوست بن گیا ہے لیکن کسی نے ہمارے اندر کے اسرار کا پتہ نہ لگایا)
کھتے ہیں کہ قرآن کریم بھی حافظ کی غزلوں کی طرح ہے جس سے ہر شخص مختلف نتیجہ نکال سکتا ہے بلکہ ایک دوسرے کے بالکل مخالف بھی، اور ہر کوئی شخص اپنے ذھن اور سابقہ علم کی بنا پر قرآن کریم کی آیات سے نتیجہ نکال سکتا ہے، اور کسی شخص کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے حاصل کردہ نتیجہ اور قرائت کو مطلق قرار دے۔
یھاں پر پھونچنے کے بعد یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے یا کم سے کم یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ اس نعرہ (کہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ دین سے حاصل کردہ اپنے نظریہ کو مطلق قرار دے)؛ کی اصلی بنیاد یہی دین کی زبان کا مسئلہ ہے کیونکہ اس نظریہ کی بنا پر دین کی زبان قصہ کھانی اور افسانہ کی زبان ہے، اور یہ زبان سمبلیک " Symbilec " (رمزی) اور غیر واقع نما ہے، لھٰذا ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ذھنیت کے لحاظ سے دینی مسائل کے معنی و تفسیر کرے، نیز کسی شخص کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ صرف اپنی قرائت اور تفسیر کو صحیح قرار دے اور دوسروں کے حاصل کردہ نتائج کو باطل و بے بنیاد!
تو کیا واقعاً اس بے بنیاد اور الحادی نظریہ کی نشر و اشاعت کے بعد جس میں قرآن کریم کو دیوان حافظ کی طرح قرار دیا جاتا ہے اور جس سے ہر کس وناکس اپنے ذھن کے لحاظ سے معنی وتفسیر کرنے کا حق رکھتا ہے تو کیا اس صورت میں یہ قرآن کریم ؛ کتاب ہدایت باقی رہے گی؟ ! اور کیا قرآن کریم سے اس طرح کے پیش کردہ نتائج کے بعد وہی کتاب باقی رہے گی جس کے لئے پیغمبر اکرم (ص)، ائمہ معصومین علیہم السلام نے اپنی جان خطرات میں ڈالی اوراس راہ میں کس قدر شھید فدا ہوگئے؟ اگر ہر کس و ناکس قرآن مجید کی تفسیر کرسکتا ہو اور اپنے حاصل کردہ نتیجہ کو حجت قرار دے سکتا ہو تو پھر آیات قرآن کی صحیح تفسیر پر قرآن مجید کیوں زور دیتا ہے اور تفسیر بالرائے کرنے سے کیوں ڈراتا ہے، نیز دین میں بدعت گذاری کی کس قدر مذمت کی گئی ہے؟ اگر قرآن مجید کی تفسیر من پسند ہونے لگے اور دو بول پڑھنے والا ہر شخص قرآن مجید سے نتیجہ حاصل کرنے لگے، تو پھر ہمارے انقلاب کا کیا فائدہ ؟کیوں ہم نے شاہ کی حکومت کو سرنگون کیا؟ کیونکہ شاہ بھی اپنے کاموں اور اپنی سمجھ کو قرآن اور دین کے مطابق سمجھتا تھا، یہاں تک کہ وہ تو یہ بھی کھتا تھا کہ جو کچھ میں کھتا ہوں وہ ملاؤں کی بیان کردہ باتوں سے زیادہ مناسب ہے!! اور یہ دعویٰ کرتا تھاکہ میں ملاؤں سے زیادہ قرآن کو سمجھتا ہوں ، میرے خلاف بے وجہ تقریریں کی جاتی ہیں بلا وجہ عوام الناس کو میرے غلاف ورغلایا جاتا ہے!! دین کے سلسلہ میں شاہ کی بھی ایک قرائت تھی کیوں اس کی قرائت کو باطل قرار دیا گیا!
اگر کوئی شخص اسی نظریہ کی بنا پر یہ دعویٰ کرے کہ دین سے حاصل کردہ میرا نتیجہ یہ ہے کہ خداوندعالم وجود عینی اور واقعی نہیں رکھتا اور مسلمان ہونا خدا کو ماننے میں منحصر نہیں ہے، تو کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے؛ چونکہ اس نے اپنے درک و فہم کو بیان کیا ہے اور دین سے اس طرح کا نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ حافظ کے اشعار میں بھی مختلف معنی اور تفسیر کرنے کی گنجائش پائی جاتی ہے مثلاً حافظ کھتے ہیں :
اگر غم لشکر انگیزد کہ خون عاشقان ریزد
من و ساقی بہ ہم سازیم وبنیادش بر اندازیم
(اگر لشکر میں طلاطم پیدا ہوجائے تو عاشقوں کا خون بھی بھادیا جاتا ہے، ہم اور ساقی آپس میں پیار و محبت سے رہیں تو پھر اس کی بنیاد کو گراسکتے ہیں ۔ )
چنانچہ اس شعر کو پڑہ کر ہر شخص اپنی ذھنیت کے لحاظ سے نتیجہ نکال سکتا ہے کہ اس کی بیماری کو شفا ہوجائے گی، یا اس کی حاجت پوری ہوجائے گی، اور اپنے حاصل شدہ نتیجہ کے لئے مثال کے طور پر یہ کھا جاتا ہے کہ ” مئے اور ساقی“ سے مراد ؛ مریض اور ڈاکٹر ہے، اور ”بنیادش بر اندازیم“ سے مراد یہ ہے کہ یعنی مرض کو جڑ سے ختم کردیا جائے گا لیکن کوئی دوسرا شخص اسی دیوان حافظ سے فال نکالے اور یہی شعر نکلے تو وہ اس سے بالکل مخالف نتیجہ نکال سکتا ہے۔
اگر قرآن مجید میں ایسے نتائج کی گنجائش پائی جاتی ہو کہ مثلاً خدا کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، اور خداوندعالم کے اثبات کرنے کے لئے کوئی دلیل بھی نہ ہو، تو پھر اسلام میں کیا باقی بچے گا؟ اگر ہر کس و ناکس قرآن مجید سے مستقل طور پر ایک نتیجہ نکالنے کا حقدار ہو اور تمام لوگوں کے حاصل کئے ہوئے نتائج کا احترام کیا جائے تو پھر دین اسلام سے دفاع، اور دین کے سلسلہ میں غیرت مندی کامظاہرہ اور اسلامی اقدار کے مقابلہ میں حساسیت دکھانا؛ بے معنی اور بے ہودہ ہوگا سب کو ٹولرانس " Toleranec "کی رعایت کرتے ہوئے دوسروں کی باتوں کو برداشت کرنا چاہئے اور دوسروں کے نظریات پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے ہر شخص اپنے لحاظ سے دینی مسائل پر عمل کرے ، اور اگر اس کا یہ نظریہ ہے کہ واقعاً خداوندعالم واحد او ریکتا ہے تو اس کو اپنے وظیفہ کے مطابق عمل کرنا چاہئے، لیکن اگر کسی نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ھزاروں خدا موجود ہیں تو اس کا وظیفہ اسی لحاظ سے ہوگا؛ اور جب ہر شخص کی اپنی سمجھ حجت ہے تو کسی طرح کا کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہئے اور سب پیار ومحبت کے ساتھ بہتر ین زندگی بسر کریں ، اور کوئی بھی ایک دوسرے کے نظریات کے مقابلہ منفی اعتراض نہ کرے۔
بھر حال، یہ نظریہ جس میں دین کی زبان کو سمبلیک " Symbilec " زبان قرار دیا گیا ہے، جس میں ہر شخص کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنے ذھن کے لحاظ سے دینی راز اور مخفی باتوں کے من پسند معنی کرے ، اسی بنیاد پر کہنے والے کھتے ہیں کہ دینی معرفت اور شناخت نسبی اور سیال (رواں دواں ) ہے اور کسی کو اپنے نظریہ کو مطلق قرار دینے کا حق نہیں ہے بے شک اس طرح کا فاسد نظریہ دین اور قرآن کی نظر میں باطل اور بے بنیاد ہے اور اس طرح کا نظریہ دین سے کسی بھی ہم اہنگ نہیں ہے ہم عقلی دلائل سے یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ خداوندعالم کی حکمت اور اس کا لطف اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ایک مقصد اور ایک راہ حق و مطلق کی طرف ہدایت کرے، جس کے لئے خداوندعالم نے قرآن مجید نازل کیا جس میں ہر انسان کے لئے حجت اور موعظہ ہے اور جو نوع بشریت کی روحی و نفسیاتی بیماریوں کا علاج کرتا ہے جب کہ پیامبر اکرم (ص) اور ائمہ علیہم السلام کے مکتب سے تعلیم حاصل کرنے والوں کے نزدیک قرآن مجید کی ایک ہی قرائت اور تفسیر ہے اور وہ بھی پیغمبر اور اہل بیت علیہم السلام کی تفسیر ہے اور صرف انہیں حضرات کی رائے اور نظریہ صحیح اور بر حق ہے جو معرفت کے آب زلال کا سر چشمہ ہیں ، دین کی یہ قرائت دوسری مختلف قرائتوں سے سازگار نہیں ہے، اور ان کو باطل قرار دیتی ہے اگر چہ عالم اسلام میں ”مارٹن“ اور ”لوٹری“ پیدا ہوجائیں اور ایک نیا دین ایجاد کرلیں جس کی بنا پر مختلف اور مخالف قرائتیں پیدا ہونے لگیں اور معرفت کے نسبی قرار دینے کی وجہ سے تمام قرائتوں کو صحیح قرار دیا جانے لگے، لیکن ائمہ علیہم السلام سے نقل شدہ بے شمار روایات کے ذریعہ قرآن مجید کی صحیح قرائت ہم تک پھونچی ہے اور لوگوں کو تفسیر بالرائے سے سخت منع کیا گیا ہے۔
اولیاء اللہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ عوام الناس کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے طرف سے دین میں کچھ چیزوں کو شامل کردیں اور اگر کسی مقام پر غیر واضح متشابہ بیان ہو ،تو اس موقع پر توقف کیا جائے اور اہل بیت علیہم السلام کی موجیں مارتے ہوئے دریائے معرفت سے اس کی تفسیر حاصل کریں ، اور خدا اور اسلام کی طرف اسی چیز کی نسبت دیں جو خود خداوندعالم، قرآنی آیات اور پیغمبر اکرم و ائمہ معصومین علیہم السلام کے فرمان میں موجود ہو۔
۸ ۔ ہر منو ٹک فلسفہ میں قرائت کی کثرت اور معرفت کا سیلاب
تعدد قرائت اور اپنی نظریہ کو مطلق قرار نہ دینے کے نعرہ کی ایک دلیل ؛ علم ہر منوٹیک " Hermeneutics " (تحریر کے معنی اور تفسیر کرنا) ہے؛یہ علم آج کل معرفت اور شناخت کے بارے میں ایک عظیم شعبہ ہے جس کی تحقیق کے سلسلہ میں دنیا بھر میں بھت سے افراد مشغول ہیں اس علم کی پیدائش بھی مغربی ممالک میں ہوئی ہے، پہلے یہ ہر منوٹیک" Hermeneutics " عیسائیت کے علم کلام اور حکمت (فلسفھ) کے کام میں آتا تھا جس کا موضوع کتاب مقدس (عھد عتیق اور عھد جدید)کی حقائق کی معنی وتفسیر کرنا تھا لیکن اس کے بعد اس میں وسعت دیدی گئی اور اس کوانسانی کردار، رفتار و گفتار و آثارکی اہمیت کے معنی و تفسیر کے سلسلہ میں ایک فن اورمھارت سمجھا جانے لگا اور اس آخری معنی کی وجہ سے علم ہرمنوٹیک کو خدا شناسی (الھیات) سے نکال کر فلسفہ سے مخصوص کردیا گیا، اور یہ انسانی علوم کے مطالعات یا علوم انسانی کے لئے خاص روشوں میں استعمال ہونے لگا۔
اس علم میں بیان ہونے والی تھیوری اور نظریات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمارے استعمال کردہ الفاظ دوسروں تک مافی الضمیر منتقل کرنے سے قاصر ہیں ، ہمارے یہ الفاظ کسی بھی صورت میں اس معنی اور حقائق کی طرف منتقل نہیں کرتے جن کو مولف نے بیان کئے ہیں پس جس وقت کوئی شخص دوسروں سے گفتگو کرتے وقت الفاظ کا استعمال کرتا ہے تو سننے والا؛ کہنے والے کے اصلی مقصد تک نہیں پہنچ سکتا مثال کے طور پر ہر انسان کی باطنی احساسات ہوتے ہیں جیسے محبت، عشق، غصہ، نفرت اور تعجب تو اگر کوئی شخص کوئی تعجب آور چیز دیکھتا ہے اگر وہ اپنے تعجب کے احساس کو دوسرے سے بیان کرنا چاہے، تو سننے والا صرف یہ بات سمجھتا ہے کہ اس کو تعجب ہوا ہے ، لیکن کسی بھی صورت میں استعمال ہونے والے الفاظ کے اندر حقیقت تعجب کاپتہ نہیں چلتا، در حقیقت الفاظ کے ذریعہ صرف ایک احساس کی خبر دی جاتی ہے لیکن اس احساس کی ماہیت اور کیفیت منتقل نہیں ہوتی مثال کے طور پر اگر آپ کسی سے کھیں کہ میں فلاں چیز کا عاشق ہو، تو آپ کا مخاطب آپ کے اندر احساس کو نہیں سمجھ سکتا وہ آپ کے بعض حالات سے ایک طرح کا اندازہ لگاسکتا ہے لیکن تفصیلی طور پر اس کی شناخت اور اندرونی احساس کو نہیں سمجھ پاتا۔
۹ ۔ الفاظ کے ذریعہ مختلف حقائق کو سمجھا جاسکتا ہے
جیسا کہ اس بات کی طرف اشارہ ہوچکا ہے کہ ان لوگوں کے دعووں میں ایک دعویٰ یہ ہے کہ کسی مولف یا مقرر کے الفاظ مقصد کو بیان کرنے اور ما فی الضمیر کو منتقل کرنے سے قاصر ہیں ، اور الفاظ کامافی الضمیر کے منتقل کرنے میں نا کافی ہونا ہرمنوٹیک کی بحث کا ایک حصہ ہے نیز دینی تحریروں میں بھی اس سے کام لیا جاتا ہے گذشتہ اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اگر ہم گذشتہ چند ھزار سال پہلے کی مختلف اقوام و مذاہب کا تاریخی مطالعہ کریں اور ہر دین و مذہب اور مسلک کے ماننے والوں کی ادبیات پر سرسری نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ تمام ہی اقوام اور مذاہب کی رونق بخش تعلیمات ”عشق“ کی بنیاد پر ہے اور اس نکتہ سے پتہ یہ چلتا ہے کہ عشق ایک ایسی حالت ہے جس کا احساس تمام انسانوں کے یہاں پایا جاتا ہے، جو سب کے لئے قابل فہم ہے اب اگر کوئی جاپانی، چینی، ایرانی یا عرب باشندہ اپنے عشق کے بارے میں خبر دے تو پھر یہ دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے کہ ہم اس کے احساس کو درک نہیں کرسکتے؟ کیونکر یہ دعویٰ کیا جاسکتاہے کہ لیلا مجنون یا شیرین اور فرہاد کی داستانِ عشق ہمارے لئے قابل فہم نہیں ہے اور ہم ان داستانوں میں عشق کو صحیح طریقہ سے سمجھ نہیں سکتے؛ اور یہ بھانہ کریں کہ الفاظ کے ذریعہ احساسات منتقل نہیں ہوتے ہیں ، اگر عشق جیسی حالت اور احساس تمام کہنے والوں یا سننے والوں کے لئے قابل فہم نہ ہو تو پھر ہر قوم و ملت میں عشق کے سلسلے میں اس قدر نظم ونثر کیوں موجود ہے، اور عشق کے بارے میں اس زبان کی ادبیات کیوں بھری ہوئی ہے؟
ہم بھی اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ انسان اپنی اندرونی احساسات کو کما حقہ (ھو بھو) دوسروں کی طرف منتقل نہیں کرسکتا، لیکن قرائن و شواہد اور دوسری چیز کو دیکہ کر دوسروں کے احساسات کو سمجھا جاسکتا ہے (مثلاً) ہم اپنے اندر موجود احساس خوف کو دوسرے کی طرف منتقل نہیں کرسکتے جس سے ہمارے احساس کو سمجھ سکے؛ لیکن چونکہ خوف اور ڈر کا احساس ایک ایسی چیز ہے جو تقریباً کم و بیش سبھی کے اندر پایا جاتا ہے، لھٰذا دوسرے افراد بھی ہمارے اندر موجود خوف کا احساس کرسکتے ہیں لیکن اگر کسی کے یہاں ہماری طرح کا احساس نہ پایا جاتا ہو تو وہ قرائن اور شواہد کے ذریعہ بھی ہمارے احساس کا پتہ نہیں چلا سکتا مثال کے طور پر اگر کسی کے اندر عشق و محبت کا احساس نہ پایا جاتا ہو ، تو پھر وہ عشقی داستان سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا، لیکن یہ بات بھی ماننا پڑے گی کہ ایسے شخص کو انسان بھی مشکل سے کھا جائے گا کیونکہ ہر شخص میں تھوڑا بھت محبت کا احساس پایا جانا ضروری ہے، اب اگر کوئی شخص اپنے اس اندرونی احساس کے بارے میں خبر دے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس حالت میں شدت اور زیادتی کا امکان پایا جاتا ہے، تو اس کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ جب یہ حالت اپنی سر حدّ کمال اور بھت زیادہ شدت تک پہنچتی ہے تو اسی کو ”عشق“ کھا جاتا ہے پس ایسا نہیں ہے کہ ہم اپنے اندرونی احساسات کو دوسروں تک منتقل نہیں کرسکتے، جس کے نتیجہ میں ہمارے استعمال کردہ الفاظ اپنی دلی حالت کی ترجمانی کرنے کے ناکافی اور قاصر ہوں ۔
۱۰ ۔ قرآن کریم سے مطلق اور واقعی معرفت کا حاصل کرنا ممکن ہے
جی ھاں ، ہم بھی یہ بات مانتے ہیں کہ عام طریقوں اور معمولی شناخت کے ذریعہ کُنہ حقائق (جوھر حقائق) اور ماورای طبیعت مثلاً فرشتہ کے ماہیت اور حقیقت کے بارے میں آگاہی حاصل نہیں کی جاسکتی، اور ان کے بارے میں مکمل طور پر شناخت حاصل نہیں ہوسکتی، ان کے بارے میں ہونے والی گفتگو متشابہ اور ذو معنی ہیں ، اسی وجہ سے بعض آیات قرآن میں اس طرح کی موجودات کے بارے میں بیان شدہ مطالب متشابہ ہیں ان حقائق کی پہنچان کے لئے مخصوص راستے موجود ہیں جو عام انسان کو معلوم نہیں ہیں اور صرف وہی حضرات ان طریقوں کو جانتے ہیں جنھوں نے مدتوں تھذیب نفس اور اخلاقی و عرفانی سیر و سلوک کا راستہ طے کیا ہے،جس کی بنا پر ان بعض موجودات کو درک کیا ہے لیکن قرآن مجید کی بعض باتوں کو نہ سمجھنا دلیل نہیں ہے کہ ہم یہ کھہ دیں کہ جو کچھ بھی قرآن مجید میں بیان ہوا ہے وہ سب اسی طرح ہے، ہم اس کو نہیں سمجھ سکتے، اور ہمارے لئے قابل فہم نہیں ہے، نیز الفاظ کے ذریعہ ہمیں حقائق کا پتہ نہیں چلتا، اور ہر انسان اپنے ذھن کے لحاظ سے ان الفاظ کے معنی و تفسیر کرسکتا ہے اگرچہ یہی ماوراء طبیعت حقائق( جیسے ملک و فرشتہ )؛ کے بارے میں مکمل معرفت حاصل نہیں ہوسکتی، اور ایک عام انسان ان کی شناخت اور اور حقیقت سے باخبر نہیں ہوسکتا، لیکن ان کے بارے میں جن صفات اور خصوصیات کا ذکر قرآن مجید میں ہوا ہے ہم ان کے ذریعہ کافی حد تک ان کی معرفت حاصل کرسکتے ہیں ۔
دین اور قرآن کی زبان کو افسانوی زبان قرار دینے والوں کی ایک دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید اور دیگر آسمانی کتابوں میں استعارات، کنایات، تشبیھات اور تمثیلات ذکر ہوئی ہے، منجملہ یہ مثال قرآن مجید میں ذکر ہوئی ہے:
(
وَلاَتَکُونُوا کَالَّتِی نَقَضَتْ غَزْلَها مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ انکَاثًا
)
” اور خبر دار ! اس عورت کے مانند نہ ہوجاؤ جس نے اپنے دھاگہ کو مضبوط کاتنے کے بعد بعد اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا “
اگرچہ قرآن مجید میں یہ مثال بیان ہوئی ہے اور شاید اس طرح کی کوئی بُڑھیا کا وجود ہی نہ ہو۔
اسی طرح گدھے کے بارے میں ایک مثال قرآن مجید میں یہ ذکر ہوئی ہے:
(
مَثَلُ الَّذِینَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوها کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اسْفَارًا
)
” ان لوگوں کی مثال جن پر توریت کا بار رکھا گیا اور وہ اسے اٹھا نہ سکے اس گدھے کی مثال ہے جو کتابوں کا بوجہ اٹھائے ہوئے ہو “
کہنے والے کھتے ہیں کہ جب اس طرح کی افسانوی مثالیں قرآن مجید میں بیان ہوئی ہیں تو پھر قرآن مجید میں بیان شدہ دوسری باتیں منجملہ خدا، قیامت، وحی اور جنت و دوزخ کس طرح افسانوی نہ ہوں گی!
قارئین کرام ! اس طرح بے بنیاد اور بے ہودہ نیز الحادی باتیں مقالات کی صورت میں پورے ملک کی یونیورسٹیوں کے اسٹوڈینٹس تک پہنچائی جارہی ہیں ، تاکہ ان کو یہ بات تلقین کی جائے کہ پورے کا پورا قرآن افسانہ اور کھانی ہے یہاں تک یہ گستاخی اس قدر بڑھتی جارہی ہے کہ ایک اسٹوڈینٹ نے اپنے مقالہ میں قرآن مجید میں بیان شدہ حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ سے رومانٹیک " Romantique " نتیجہ حاصل کیا اور ایک خیالی داستان کے عنوان سے لکھا، اور اس کے بعد اس پر ادبی تنقید کی اور اس پر بھت سے اعتراض و اشکال کئے، اور جب حضرت یوسف کی اس رومانٹیک داستان کو استاد کی موجودگی میں سب کے سامنے پڑھا، تو اس داستان کو سننے کے بعد استاد نے بھی بھت سے اعتراضات کئے، جس کے بعد یہ نتیجہ نکالا گیا کہ داستان یوسف کا لکہنے والا کوئی ماہر ادیب نہیں تھا جس کی بنا پر یہ داستان صحیح طریقہ پر نہیں لکھی گئی ہے!!
۱۱ ۔ قرآن کی زبان کو واقع نما نہ ہونے پر نسبی نظریہ رکہنے والوں کی بے بنیاد دلیل
افسوس کہ جرائد کی ”آزادی بیان“ کے زیر سایہ اور یونیورسٹیوں و دیگر مراکز میں آزاد سیاسی ماحول، اسی طرح ہمارے ملک کے سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی نظام کی کمزوری، نیز انقلاب کے بعد سے تعلیم و تربیت کے عھدہ داروں کی بے توجھی خصوصاً یونیورسٹی کا موجودہ ماحول میں ؛ اسلامی اقدار کے خلاف وسیع پیمانہ پر زھریلی تبلیغات اور پروپیگنڈے ہورہے ہیں ، اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ عصرِ حاضر میں بعض یونیورسٹی طلباء کا سوال یہ ہے کہ جب قرآن مجید میں داستان، افسانہ اور استعارات و کنایات بیان ہوئے ہیں اور ان کے حقیقی معنی مراد نہیں ہیں اور ان کی جگہ مجازی معنی مراد لئے جاتے ہیں ، تو پھر قرآن مجید کے دوسرے مطالب بھی اسی طرح کے ہونے چاہئیں ؟ شاید خدا، وحی اور قیامت جیسے الفاظ سے بھی مجازی اور غیر حقیقی معنی مراد ہوں ؟
جی ھاں ، یہ سب معرفت کے نسبی ہونے، زبان دین کے سمبلک ہونے اور ہر منوٹیک " Hermeneutics " کے ذریعہ دینی تحریر کے معنی و تفسیر کرنے کا نتیجہ ہے جس کے ذریعہ ہمارے عظیم الشان اعتقادت اور اصول کو نقصان پہنچایاجارہاہے جو ہمیشہ ہماری ثقافت اور معاشرہ کے لئے باعث عزت ہے اور ہمارے گذشتہ اور حال کے افتخارات انہیں اسلامی اعتقادات کی وجہ سے ہیں اور تمام انبیاء اور اولیاء اللہ کی امانت کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
یہ نسبیت گرائی اور شکاکیت کا نتیجہ ہے کہ کہنے والے کھتے ہیں کہ کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے نظریہ کو مطلق قرار دے، اور دین سے حاصل شدہ مختلف نتائج کو قابل احترام سمجھا جائے کیونکہ قرآن کی زبان واقع نما اور حقیقی نہیں ہے بلکہ سمبلک ہے، ہر شخص قرآنی آیات سے مستقل طور پر نتیجہ نکال سکتا ہے ہمارا کہنا تو یہ ہے کہ یہ لوگ قرآن مجید میں مثالوں ، استعاروں اور داستانوں کو بھانہ بنا کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن کریم اصولی طور پر حقائق اور واقعیت کو بیان کرنا نہیں چاہتا بلکہ صرف داستانوں ، افسانوں اور کنایات و استعارات کی گفتگو کو بیان کرنا چاہتا ہے ہم یہاں پر یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر کسی کتاب یا مقالہ یا نظم میں کوئی مثال ذکر ہوئی ہو تو کیا اس کو شعر اور مَثَل کی کتاب کا نام دیا جائے گا؟ اگر کوئی مقرر اپنی تقریر کے دوران کوئی لطیفہ یا کوئی طنز بیان کرے تو کیا اس کی تمام باتوں کو مسخرہ اور طنز آمیز کھا جاسکتا ہے ؟ اگر کوئی شخص کسی موقع پر اپنی گفتگو میں مثال، شعر، استعارہ، تشبیہ، کنایہ اور مجاز جیسی چیزوں کا استعمال کرتا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہے کہ اس کی تمام گفتگو شعر اور افسانہ ہے جس میں کچھ استعارات، کنایات ، تشبیھات اور مثالیں بیان ہوئی ہیں اس صورت میں پھر کسی بھی قلمکار کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی کتابوں میں مثال ، شعر یا طنز کا استعمال کرے، ورنہ تو اس کی کتاب شعر اور طنز کی کتاب کھلائے گی اگر خداوندعالم نے قرآن مجید میں مَثَل ذکر کی ہے تو کیا خداوندعالم کے اس قول(
وَاتْلُ عَلَیْهمْ نَبَا ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقّ
)
کو ایک افسانہ اور مَثَل قرار دیا جاسکتا ہے؟ اورکیا خداوندعالم کے اس فرمان(
وَبِالْحَقِّ انزَلْنَاه وَبِالْحَقِّ نَزَلَ
)
کو شعر اور افسانہ قرار دیں سکتے ہیں ؟!۔
یہ لوگ ہر منوٹیک " Hermeneutics " نظریہ اور عبارت و تحریر کی تفسیر کے اعتبار پر ایک دلیل یہ ذکر کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے یہاں ہمیشہ تفسیر اور تاویلات ہوتی رہی ہیں اور علماء و عرفاء نے تاویل اور تفسیر کے بارے میں بھت سی کتابیں بھی لکھی ہیں ؛ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی مختلف تفاسیر اور مختلف تاویلات ہوسکتی ہیں جس طرح عرفاء اور علماء نے قرآن مجید کی تاویلات اور تفاسیر ذکر کی ہیں اسی طرح ہمیں بھی قرآن مجید کی جدید تفسیر کرنے کا حق حاصل ہے، اگرچہ ہماری بیان کردہ تفسیر علماء کی تفسیر سے بالکل مخالف ہو جیسا کہ بعض روایات میں قرآن مجید کی تفسیر؛ قرآن کے ظاہری الفاظ سے بالکل مختلف ہے، لھٰذا قرآن مجید میں مختلف تفاسیر کا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن مجید کی مختلف تفاسیر اور تاویلات کی جاسکتی ہیں ؛ لھٰذا ہم بھی یہ کام کرسکتے ہیں اور چونکہ ان کے درمیان فرق نہیں کیا جاسکتا کہ ان میں سے کون سے تفسیر صحیح ہے اور کون سی غلط؛ لھٰذا ان سب کو معتبر ماننا چاہئے!
قارئین کرام ! یہ بات صحیح ہے کہ قرآن مجید میں متشابہ آیات پائی جاتی ہیں جس کی تفسیر آیات محکمات کے لحاظ سے ہونا چاہئے، اور روایات میں بھی بیان ہوا ہے کہ قرآن مجید میں بھت سارے باطن اور مختلف پردہ ہیں ، لیکن قرآن مجید کی کسی بھی آیت میں یہ بیان نہیں ہوا کہ ظاہر آیات اور کلمات و الفاظ حجیت نہیں ہیں ، اور ہم پر حقائق کو آشکار نہیں ہوتے۔
قارئین کرام ! آیات کے ظاہری اعتبار کے علاوہ قرآن مجید میں اور بھی مزید دقیق اور گھرے مطالب موجود ہیں جن کو بطون اور تاویل آیات کھا جاتا ہے، اور اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ اصلاً قرآنی ظواہر معتبر نہیں ہیں ، اور صرف ان سے حاصل کردہ ہمارا نتیجہ معتبر ہے اور وہ بھی وہ تاویلات جو تاویل کرنے والے کے ذھن کے مطابق اور اس کے ذھن کی پیداوار ہوں اس طرح دینی سلسلہ میں مختلف اور متضاد قرائت پیش کی ہو رہی ہیں اور ہم سے یہ کھا جاتا ہے کہ ان سب کو قابل احترام مانیں !!
۱۲ ۔ تحریف دین کے سلسلہ میں حضرت علی علیہ السلام کا اظھار افسوس
قارئین کرام ! ہم اپنی گفتگو کے آخر میں لازم اور ضروری سمجھتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے ان نورانی کلمات کی طرف اشارہ کریں جس میں آپ نے رسول اکرم (ص) کی وفات کے بعد پیدا ہونے والے دینی انحرافات اور شبھات کو بیان کیا ہے اورجن کی بنا پر افسوس ناک اور بُرے نتائج بر آمد ہوئے ہیں جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی حکومت رسول اکرم (ص) کی وفات کے ۲۵/ سال کے بعد قائم ہوئی ہے، اس وقت تک وہ اصحاب رسول موجود تھے جنھوں نے خود رسول اکرم (ص) کی زبان مبارک سے آیات قرآن کی تفسیر اور شان نزول کو سنا تھا اور پیغمبر اکرم (ص) پر نازل ہونے والی آیات کے موقع کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا؛ کیونکہ اس وقت قرآن کے نزول کو زیادہ وقت نہیں گذرا تھا لیکن وہ منافقین اور دشمنان اسلام موجود تھے جو اہل بیت علیہم السلام کے بے انتھا دریائے معرفت سے بے بھرہ تھے، اور جاہ وحشم کے دلدادہ اور ہوا پرست دین میں شبھات اور تحریفات ایجاد کررہے تھے جس کی وجہ سے اسلام میں انحرافات پیدا ہوگئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے درمیان برادر کُشی ہونے لگی چنانچہ اس موقع پر حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :
” وَ لٰکِنَّا إِنَّمَا اصْبَحْنَا نُقَاتِلُ إِخْوَانَنَا فِی الإِسْلاٰمِ عَلٰی مَا دَخَلَ فِیْه مِنَ الزَّیْغِ وَ الْإِعْوِجَاجِ وَالشُّبْهةِ وَالتَّاوِیْلِ “
( مگر اب ہم کو ان لوگوں سے جو اسلام کی رُو سے ہمارے بھائی کھلاتے ہیں ان سے جنگ کرناپڑ گئی ہے، چونکہ (ان کی وجہ سے) اس میں گمراہی، کجی، شبھات اور غلط سلط تاویلات داخل ہوگئے ہیں )
یھی وہ شبھات اور اعتراضات ہیں جو عصر حاضر میں علمی طریقہ سے بیان کئے جاتے ہیں اور منظم طور پر بیان ہوتے ہیں ، حضرت علی علیہ السلام کے زمانہ میں انہیں اعتراضات کی وجہ سے مسلمانوں میں مقابلہ بازی شروع ہوگئی ، اور اسی طرح کے شبھات اور اعتراضات کو قبول کرتے ہوئے جنگ جمل اور جنگ نھروان میں حقیقی مفسر قرآن حضرت علی علیہ السلام کے مقابلہ میں آگئے جس کی بنا پر بھت سے لوگ قتل کردئے گئے۔
حضرت علی علیہ السلام خداوندعالم کی بارگاہ میں عوام الناس کی جھالت کی شکایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
” إِلَی اللّٰه اَشکُوا ِمنْ مَعْشَرٍ یُعِیْشُوْنَ جُهالًا وَ یَمُوْتُوْنَ ضَلاٰلًا، لَیْسَ فِیْهمْ سِلْعَةٌ ابْوَرُ مِنِ الْکِتَابِ إِذَا تُلِیَ حَقَّ تِلاٰوَتِه، وَلاٰ سُلْعَةٌ انْفَقُ بَیْعاً وَلاٰ اغْلیٰ ثَمَناً مِنَ الْکِتَابِ إِذَا حُرِّفَ عَنْ مَوَاضِعِه وَ لٰا عِنْدَهمْ انْکَرُ مِنَ الْمَعْرُوْفِ وَلاٰ اعْرَفُ مِنَ الْمُنْکَرِ “
( اللہ ہی سے شکوہ ہے ان لوگوں کا جو جھالت میں جیتے ہیں اور گمراہی میں مرجاتے ہیں ، ان میں قرآن سے زیادہ کو ئی بے قیمت چیز نہیں ہے، جب کہ اسے اس طرح پیش کیا جائے جیسا پیش کرنے کا حق ہے، اور اس قرآن سے زیادہ کوئی مقبول اور قیمتی چیز نہیں ، اس وقت جب کہ اس کی آیتوں کا بے محل استعمال کیا جائے، ان کے نزدیک نیکی سے بڑہ کر کوئی برائی نہیں اور بُرائی سے زیادہ کوئی نیکی نہیں ۔)
قارئین کرام ! توجہ فرمائیں حضرت امیر علیہ السلام کا یہ شکوہ و شکایت اس وقت کا ہے جب رحلت پیغمبر اکرم (ص) کو ۲۵/ سال کا عرصہ بھی نہ گذرا تھا، لیکن انحرفات ، شبھات اور بدعت دین کے لئے اس قدر نقصان دہ ثابت ہورہے تھے کہ حضرت نے تنھائی کے عالم میں لوگوں کی ہدایت کے مسئلہ کو ان کے حال پر چھوڑتے ہوئے بارگاہ رب العزت میں اپنے ھاتہ آسمان کی طرف بلند کردئے اور اپنے درد و غم کو بیان کرنا شروع کردیا۔
مذکورہ بالا کلام کی طرح خطبہ نمبر ۱۴۵/ میں بھی حضرت فرماتے ہیں :
” وَ إِنَّه سَیَاتِی عَلَیْکُمْ مِنْ بَعْدِیْ زَمَانٌ لَیْسَ فِیْه شَیْءٌ اَخْفٰی مِنَ الْحَقِّ، وَ لٰا اظْهرُ مِنَ الْبَاطِلِ، وَ لاٰ اکْثَرُمِنَ الْکِذْبِ عَلَی اللهِ وَ رَسُوْلِه، وَ لَیْسَ عِنْدَ اهلِ ذٰلِکَ الزَّمَانُ سِلْعَةٌ ابْوَرَ مِنِ الْکِتَابِ إِذَا تُلِیَ حَقَّ تِلاٰوَتِه، وَلاٰ انْفَق إِذَاحُرِّفَ عَنْ مَوَاضِعِه وَ لٰا فِی الْبِلاٰدِ شَیْءٌ انْکَرَ مِنَ الْمَعْرُوْفِ وَلاٰ اعْرَفَ مِنَ الْمُنْکَرِ “
(میرے بعد تم پر ایک ایسا دور آنے والا ہے جس میں حق بھت پوشیدہ اور باطل بھت نمایاں ہوگا، اور اللہ اور اس کے رسول پر افتراء پردازی کا زور ہوگا، اس زمانہ والوں کے نزدیک قرآن سے زیادہ کوئی بے قیمت چیز نہ ہوگی جبکہ اسے اس طرح پیش کیا جائے جیسے پیش کرنے کاحق ہے، اور اس قرآن سے زیادہ ان میں کوئی مقبول اور قیمتی چیز نہیں ہوگی جب کہ اس کی آیتوں کا بے محل استعمال کیا جائے، اور (ان کے) شھروں میں نیکی سے زیادہ کوئی برائی اور برائی سے زیادہ کوئی نیکی نہ ہوگی۔ )
اس کے بعد مزید فرماتے ہیں :
”چنانچہ حاملان قرآن کو چھوڑ دیا جائے گا اور حافظین قرآن کو بھلادیا جائے گا، قرآن اور قرآن والے (اہل بیت ) بے گھر اور بے در ہوں گے، اور ایک ہی راہ میں ایک دوسرے ساتھی ہوں گے، انہیں کوئی پناہ دینے والا نہ ہوگا وہ (بظاہر) لوگوں میں ہوں گے مگر ان سے الگ تھلگ ، ان کے ساتھ ہوں گے مگر بے تعلق، اس لئے کہ گمراہی ہدایت سے سازگار نہیں ہوسکتی، اگرچہ وہ یک جا ہوں لوگوں نے تفرقہ پردازی پر تو اتفاق کرلیا ہے اور جماعت سے کٹ گئے ہیں گویا کہ وہ کتاب کے پیشوا ہیں کتاب ان کی پیشوا نہیں ، ان کے پاس تو صرف قرآن کا نام رہ گیا ہے اور صرف اس کے خطوط او رنقوش کو پہنچان سکتے ہیں ، اس آنے والے دور سے پہلے وہ نیک بندوں کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچا چکے ہوں گے، اور اللہ کے متعلق ان کی سچی باتوں کا نام بھی بھتان رکہ دیا ہوگا اور نیکیوں کے بدلہ میں انہیں بُری سزائیں دی ہوں گی۔“
نیز فرماتے ہیں :
” وَ اْعَلَمُوْا انَّکُمْ لَنْ تَعْرِفُوْا الرُّشْدَ حَتّٰی تَعْرِفُوْا الَّذِیْ تَرَکَه وَ لَنْ تَاخُذُوْا بِمِیْثَاقِ الْکِتَابِ حَتّٰی تَعْرِفُوْا الَّذِیْ نَقَضَه وَ لَنْ تَمَسَّکُوْا بِه حَتّٰی تَعْرِفُوْا الَّذِیْ نَبَذَه “
( جان لو کہ تم ہدایت کو اس وقت تک نہ پہنچان سکو گے جب تک اس کے چھوڑنے والوں کو نہ پہنچان لو اور قرآن کے عھد و پیمان کے پابند نہ رہ سکو گے جب تک کہ اس کے توڑنے والے کو نہ جان لو اور اس سے وابستہ نہیں رہ سکتے جب تک کہ اسے دور پھینکنے والوں کی شناخت نہ کرلو )
اور خطبہ کے آخر میں ارشاد فرماتے ہیں :
” پس انہیں سے ہدایت حاصل کرو، وہی علم کی زندگی اور جھالت کی موت ہیں وہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کا (دیا ہوا) ہر حکم ان کے علم اوران کی خاموشی ان کی گویائی کا پتہ دے گی، اور ان کا ظاہر ان کے باطن کا آئینہ دار ہے، وہ نہ دین کی مخالفت کرتے ہیں نہ اس کے بارے میں باہم اختلاف رکھتے ہیں ، دین ان کے سامنے ایک سچا گواہ ہے اور ایک ایسا بے زبان ہے جو بول رہا ہے۔“
قارئین کرام ! آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام لوگوں کو متوجہ کرنے کے بعد ان سے چاہتے یہ ہیں کہ دین کو صرف اہل بیت (علیہم السلام) کے ذریعہ حاصل کریں کیونکہ دین اور قرآن سے انہیں کا حاصل کردہ نتیجہ صحیح اور بر حق ہے، اور دین سے دوسرے حاصل کردہ نتائج باطل اور بے بنیاد اور راہ خدا کو حاصل کرنے والوں اور حق و حقیقت کے تلاش کرنے والوں کے چور ہیں ، جس کا نتیجہ گمراہی اور ذلت کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔
توجہ فرمائیں کہ حضرت علی علیہ السلام کے نظریہ کے مطابق یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ ہر کس و ناکس دین سے ایک الگ نتیجہ حاصل کرلے اور اس طرح کے تمام حاصل شدہ نتائج صحیح اور درست ہوں ، کیونکہ یہ اپنے سلیقہ اور ذوق کے مطابق ہے کیا دین کے سلسلہ میں ذوق کا بھی کوئی دخل ہے؟ کیا دینی مسائل میں بھی ذوق دکھایا جاسکتا ہے؟ (ھرگز نہیں )
تو پھر دین کی صحیح تفسیر اہل بیت علیہم السلام سے حاصل کرنا چاہئے ، نہ یہ کہ اپنے سلیقہ اور ذوق کی بنا پر خود بھی گمراہ ہورہے ہوں اور دوسروں کو دین سے گمراہ کردیں ۔
۱۳ ۔ دینی سلسلہ میں ذاتی سلیقہ کو ردّ کیا جائے
بعض لوگ ہم سے کھتے ہیں کہ اپنے سلیقہ اور ذوق کو دوسروں پر نہ تھونپئے، تو کیا دین ذوق اور سلیقہ کا نام ہے، اور اس کی حد و حدود اور اس کے معنی و تفسیر انسان کے سلیقہ سے معین ہوتے ہیں ؟ سلیقہ اور ذوق انسان کی عام زندگی سے متعلق ہوتا ہے؛ مثال کے طور پر کوئی شخص کوئی کپڑا یا دوسری چیز خریدنا چاہتا ہے تو اس موقع پر کسی دوسرے شخص پر اپنا سلیقہ تحمیل کرنا صحیح نہیں ہے لیکن اعتقادات میں سلیقہ اور ذوق کا کوئی سرو کار نہیں ہے، مثلاً کوئی شخص یہ کھے کہ میرا سلیقہ یہ کھتا ہے کہ خدا ایک ہے، اور( نعوذ باللہ ) دوسرا شخص کھے کہ میرا سلیقہ یہ ہے کہ کئی خدا ہیں ، کیونکہ شریعت اور احکام الہی عوام الناس کے ذوق کے تحت نہیں ہیں تاکہ کہنے والے کھیں کہ دوسروں کے سلیقوں کو بھی برداشت کریں ، نیز دوسروں کے سلیقوں کو ردّ نہ کریں پس اعتقادی مسائل، ضروریات اسلام، احکام اسلام، عقائد اور الہی اقدار کسی کے سلیقہ کے تحت نہیں ہیں ، او ران کے سامنے ذوق و سلیقہ کو بالائے طاق رکہ دیا جائے۔
خلاصہ یہ ہے اپنے نظریہ کو مطلق نہ قرار دینے کے شعار فقط دین کے فرعی اور ظنی مسائل میں صحیح ہے اور ان میں بھی ان حضرات کا نظریہ قابل قبول ہے جو دینی و فقھی مسائل میں اپنے عظیم الشان علم اور صحیح طریقہ سے مکمل طور پر اجتھاد کریں اور قرآن و سنت کے ذریعہ اپنے نظریہ کو استنباط کریں اور اسی کے مطابق فتویٰ دیں اور جو شخص اس طرح کی صلاحیت کا مالک ہوتا ہے اس کو اصطلاحاً ”فقیھ“ کھا جاتا ہے ، چنانچہ اسی موقع پر کھا جاتا ہے کہ ایک فقیہ اپنی رائے کو دوسرے فقیہ پر تحمیل کرنے کا حق نہیں رکھتا یہ مسلم ہے کہ دو فقھاء کے درمیان فتووں میں اختلاف ہوتا ہے لیکن ان میں سے کوئی بھی فقیہ یہ نہیں چاہتا کہ اپنے نظریہ کو دوسرے فقیہ پر تحمیل کرے لیکن عقائد، اصول اور اسلام کے قطعیات میں انسان کا کوئی سلیقہ اور ذوق قابل قبول نہیں ہے کیونکہ دینی عقائد میں صرف وہی چیز صحیح ہے جس کو چودہ سو سال پہلے پیغمبر اکرم (ص) اور آپ کے بعد ائمہ معصومین علیہم السلام نے بیان فرمایا ہے، اور تمام علماء اور فقھاء کا اس بات پر اتفاق ہے، کیونکہ اسلامی مسلمات کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی قرائت کے علاوہ دوسری تمام قرائت باطل اور بے بنیاد ہیں ، اور کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے کہ کوئی آگے بڑہ کر یہ کھے میں بھی دین سے ایک نئی قرائت پیش کرتا ہو ں ، در حقیقت اس طرح کا نظریہ دین میں بدعت گذاری کا واضح مصداق ہے جس سے مقابلہ کرنا حقیقی علماء اسلام کا فریضہ ہے، تاکہ وہ خداوندعالم ، اس کے فرشتوں اور نیک بندوں کی لعنت و نفرین کے مستحق قرار نہ پائیں ۔
والسلام علیکم و رحمة الله و برکاته
۔
والحمد للہ رب العالمین
تمت بالخیر
۱۲۰۰۱۵
حوالے: