اسلام اور سیاست جلد ۲

اسلام اور سیاست 0%

اسلام اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اسلام اور سیاست

مؤلف: آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی دام ظلہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 22320
ڈاؤنلوڈ: 3507


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 31 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22320 / ڈاؤنلوڈ: 3507
سائز سائز سائز
اسلام اور سیاست

اسلام اور سیاست جلد 2

مؤلف:
اردو

پچیسواں جلسہ

حکومت کی عظیم منصوبہ بندی ۲

۱۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر

ہم نے اس سے قبل بھی یہ بات عرض کی تھی کہ مغربی ممالک کے منحرف اور الحادی نظریات کا ذھن اور اسلامی اعتقادات پر اثر انداز ہونا، اسی طرح مغربی ممالک کے پٹھووں ، غلاموں وغیرہ کی اسلامی معاشرہ اور دینی اعتقادات میں شک وتردید ایجاد کرنے کے لئے بھر پور اور حساب شدہ کوششیں کرنا، نیز اسلام کی اصل ثقافت اور کلچر میں سیاسی اور ثقافتی مشکلات کا ایجاد کرنا، یہ تمام چیزیں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ اسلام کے مفکرین اور اسلام کے محافظ افراد جو کہ اسلام کی گھری معلومات اور وسیع ثقافت سے واقف بھی ہوں ان کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہو اور اس سلسلہ میں اساسی ، بنیادی اور مفید گفتگو کا آغاز کریں منجملھ” اسلامی سیاسی نظریھ“ وغیرہ کو سادہ اور روان الفاظ میں اسلامی معاشرہ کے سامنے پیش کریں ، جو علی القاعدہ تخصصی، فنی اور اکیڈمیک طریقہ پر یونیورسٹیوں میں بیان ہوتی ہے۔

اس وقت ہمارے معاشرہ کو اسلام کی ہمیشگی ثقافت ، کلچراور عظیم میراث کا پاس ولحاظ رکہنا ضروری ہے تاکہ دشمنان اسلام کےثقافتی حملوں کا مقابلہ کیا جاسکے، اور ان چیزوں کو اپنی آئندہ نسل میں صحیح وسالم چھوڑ کر جائے، جواسلامی اور انقلابی اہداف کے لئے بھت ہی زیادہ ضرورت مند ہیں لھٰذا اس ہدف تک پہنچنے کے لئے علمی اور باریک مسائل کو آسان زبان میں پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اکثر عوام الناس اس کو سمجھ کر ھضم بھی کرسکے، اور ان کو علمی اور مشکل اصطلاحات میں پھنسنے سے نجات بھی مل جائے۔

چنانچہ ہم نے مذکورہ ہدف کے پیش نظر یہ طے کیا کہ اس طرح کے مسائل ”اسلامی سیاسی نظریھ“ کے تحت دو حصوں میں بحث کریں جس کا پہلا حصہ مکمل ہو چکا ہے ، جس میں یہ بیان کیا گیا کہ انسانی معاشرہ کے لئے قانون کی ضرورت ہے اور یہ بھی بیان کیا گیا کہ اسلامی نقطہ نظر سے قانون کا بنانے والا صرف خدا یا وہ افراد جو خداوندعالم کی طرف سے اذن یافتہ اور قانون گذاری کی کافی ووافی صلاحیت رکھتے ہوں چنانچہ اس سلسلہ میں بحث ہوچکی ہے ، ضمناً اس سلسلہ میں ہوئے اعتراضات کے بھی جلسوں کے لحاظ سے جوابات دئے گئے۔

اور ہماری بحث کا دوسرا حصہ حکومت بمعنی خاص کے سلسلہ میں ہے ، در حقیقت پہلے حصے میں حکومت بمعنی عام (جس میں قوہ مقننہ (پارلیمنٹ ) بھی شامل تھی) کے بارے میں گفتگو ہوئی جس کے تحت قانون اور قانون گذاری کے سلسلہ میں بحث ہوئی لیکن اس وقت ہماری بحث حکومت بمعنی خاص؛ یعنی قوہ مجریہ کے بارے میں ہے۔

۲۔ حکومت، انسانی معاشرہ کی دائمی اور ہمیشگی ضرورت ہے۔

حکومت کی مختلف شکل وصورت اور ڈھانچوں کو چھوڑتے ہوئے (کیونکہ اس کی بحث اپنی جگہ ہوگی) جیسا کہ ہم نے پہلے جلسہ میں بھی اشارہ کیا ؛ تمام سیاسی صاحب نظر افراد، معاشرہ کے لئے حکومت پر اتفاق رائے رکھتے ہوئے اس کو ضروری مانتے ہیں صرف ”آنارشیسٹ“ " Anarchiste " (مفسدہ جویان) معاشرہ کے لئے حکومت کے قائل نہیں ہیں ، یونانی قدیم فلسفہ کے زمانہ میں اس گروہ کے طرفدار پائے جاتے تھے، جن کا عقیدہ یہ تھا کہ اگر عوام الناس قوانین کو پہنچانے اور اخلاقی عھد پر عمل کریں تو پھر ان کوحکومت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تھیوری کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ عملی نہیں ہوئی جبکہ اس کے مقابلہ میں عملی طور پر تمام معاشروں میں حکومت کی ضرورت کا احساس ہوا ، اور یہ احساس اسی طرح سے آج تک باقی ہے۔

ہم اپنے بھائیوں کے لئے حکومت کی ضرورت کے نظریہ کو مزید روشن کرنے اور ان کو بعض مغالطوں کے جال میں پھنسنے سے بچانے کے لئے عرض کرتے ہیں کہ مذکورہ نظریہ پر سب کا اتفاق ہے اور انسانی معاشرہ کی واقعیات کی شناخت پر مبنی ہے، اس کی وضاحت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مخلوقات ، روحیات، معاشرہ کے نشیب وفراز اور واقعیت سے آنکھیں بند کرکے ایک بند کمرہ میں اس چیز پر تجزیہ وتحلیل کرے اور انسانوں کو بالکل فرشتوں جیسا تصور کرے جو خیر خواہی اور فضائل کے حصول میں لگے ہوئے ہیں اور پاک وپاکیزہ خصلت وعادت کے مالک ہیں اس کی نظر میں اگر تعلیم کا نظام اور صحیح تربیت عام ہوجائے اور عوام الناس تربیتی لحاظ سے مودب ہوجائیں کہ اپنے اخلاقی خواہشکے تحت قانون کے سلسلے میں عھد کریں اور اس پر عمل کریں اور( کبھی بھی ) مخالفت نہ کریں ، اسی طرح اگر صحیح قوانین اور معاشرہ یا شخص کے فوائد ، نیز قانون شکنی کے مفاسد ونقصانات عوام الناس کے لئے بیان ہوجائیں ، اور پھر صحیح راستہ کا انتخاب ان کے اوپر چھوڑدیا جائے تو پھر کوئی بھی شخص قانون کی مخالفت نہیں کرے گا بلکہ قوانین کے مطابق عمل کرے گا بالکل اسی شخص کی طرح جس کو یہ معلوم ہو کہ اس کھانے میں زھر ملا ہوا ہے تو وہ اس کھانے کو نہیں کھائے گا، اسی طرح عوام الناس بھی ایسے کام کریں گے جو ان کے مفاد میں ہوں اور وہ کام جو ان کے یا معاشرہ کے لئے نقصان دہ ہوں گے ان کو انجام نہیں دیں گے لھٰذا حکومت اور قوانین کو تحمیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔!!

قارئین کرام ! مذکورہ نظریہ ایک خیالی پلاؤ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے کیونکہ جو لوگ انسانی زندگی اور معاشرتی زندگی کی واقعیات سے با خبر ہیں یا وہ افراد جو تاریخ بشریت اور گذشتہ معاشروں کی تاریخ سے مطلع ہیں ، ہر گز یہ احتمال نہیں دے سکتے کہ کم سے کم آئندہ نزدیک میں اس طرح کا ماحول پیدا ہوجائے گا کہ لوگوں کے درمیان اخلاقی اقدار کے رائج اورپھیلنے کے بعد تمام لوگ آٹومیٹک طریقہ پر نیک کام کرتے ہوئے نظر آنے لگیں ، اور ان کو برے کاموں کی ہوا تک نہ لگے، کوئی بھی جھوٹ نہ بولے، خیانت نہ کرے، لوگوں کے مال اور ناموس (عورتوں ) کی طرف بری نظر نہ اٹھائے، لوگوں کے حقوق پر تجاوز اور ظلم نہ کرے اسی طرح بین الاقوامی مسائل کے سلسلہ میں کوئی ملک اپنے پڑوسی ملک پر ظلم نہ کرے!!

۳۔ حکومت کی ضرورت پر اسلام اور قرآن کا نظریہ

اسلام نے بھی بغیر حکومت کے معاشرہ کو( کہ اس کی صحیح تربیت ہوجائے نیز مصالح ومفاسد اور قوانین کے آشنائی ہونا کافی ہے) ایک خیال خام اور حقیقت سے دور بیان کیا ہے، اسی وجہ سے حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت سے متعلق آیات میں ، خلقت انسان کو اس طرح بیان کیا ہے کہ انسان کے نقاط ضعف اور اس میں خطا ولغزش کا امکان ظاہر ہوتا ہے:

( وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ إِنِّی جَاعِلٌ فِی الْارْضِ خَلِیفَةً قَالُوا اتَجْعَلُ فِیها مَنْ یُفْسِدُ فِیها وَیَسْفِکُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ إِنِّی اعْلَمُ مَا لاَتَعْلَمُونَ ) (۱)

”اے رسول! اس وقت کو یاد کروجب تمھارے پروردگار نے ملائکہ سے کھا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں اور انھوں نے کھا کہ کیا اسے بنائے گا جو زمین پر فساد برپا کرے اور خونریزی کرے جب کہ ہم تیری تسبیح اور تقدیس کرتے ہیں تو ارشاد ہوا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ہو۔“ جس وقت فرشتوں نے انسان کے بارے میں اجتماعی فساد اور خونریزی کے بارے میں خبر دی تو خداوندعالم نے اس کا انکار نہیں کیا بلکہ ان کے جواب میں انسانی خلقت کی حکمت کی طرف اشارہ کیا جس سے فرشتہ باخبر نہیں تھے۔

اسی طرح دوسری آیات میں انسان کی بعض کمزوری کی طرف اشارہ کیا ہے، منجملہ یہ آیات:

۱۔( إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ هلُوعًا إِذَا مَسَّه الشَّرُّ جَزُوعًا وَإِذَا مَسَّه الْخَیْرُ مَنُوعًا ) (۲)

”بیشک انسان بڑ ا لالچی پیدا ہواہے جب اسے تکلیف چھو بھی گئی تو گھبراگیا اور جب اسے ذرا فراخی حاصل ہوئی تو بخیل بن بیٹھا“

۲۔( اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّارٌ ) (۳)

”بے شک انسان بڑا ظالم اور انکار کرنے والا ہے۔ “

واقعاً یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ مذکورہ آیت میں خداوندعالم نے انسان کو ”ظلوم“ کے نام سے پہنچنوایا ہے جو مبالغہ کا صیغہ ہے اور بھت ظلم کرنے والے کے معنی میں ہے اور انسان کو اس نام سے یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر ظلم، سرکشی اور ناشکری اس قدر ہے کہ اس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا اور ہمیشہ انسانی معاشرہ ظلم اور ناشکری سے بھرا ہوا ملے گا، تو پھر یہ نظریہ قابل قبول نہیں ہے کہ تعلیم وتربیت اور لوگوں کو وعظ ونصیحت کے ذریعہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے جس میں تمام افراد کا اچھا اور پسندیدہ کردارہو، اور کوئی ایک انسان بھی قوانین اور اخلاقی اقدار سے سرپیچی نہیں کرے گا، اور اس صورت میں حکومت اور طاقت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید بھی اس نظریہ کا مخالف ہے، جبکہ موجودہ حقائق نے بھی یہ بات واضح کردی کہ انسانی معاشرہ میں مختلف وجوھات کی بنا پر ہمیشہ جرائم اور مخالفت رہی ہے البتہ بعض افراد نے جرائم کے اسباب اور جرائم کی وجوھات کے بارے میں پتہ لگایا ہے اور جھل ونادانی اور وراثتی عوامل وغیرہ کی طرف اشارہ کیا ہے ، لیکن اس وقت ہم اس کو بیان نہیں کرنا چاہتے ، ہم تو یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ انسانوں کے درمیان قانون کی مخالفت اور جرائم اور گناہ کا ارتکاب ہمیشہ رہا ہے جس کے پیش نظر آسانی کے ساتھ یہ پیشن گوئی بھی کی جاسکتی ہے کہ آئندہ بھی ایسا ہی رہے گا۔

ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ خداوندعالم کے لطف وکرم سے ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جب حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ھاتھوں ایک اسلامی نمونہ معاشرہ تشکیل پائے گا لیکن پھر بھی اس بات پر توجہ رہے کہ اس زمانہ میں بھی قوانین کی مخالفت اور گناہ انجام دئے جائیں گے، اس کے علاوہ وہ معاشرہ بھی ہمیشہ نہیں رہے گا یہاں تک کہ بعض روایات میں یہ بھی ملتا ہے کہ حضرت ولی عصر امام زمانہ (ع) کی مخالفت میں قیام کیا جائے گا اور آپ (ع) کو شھید کردیا جائے گا۔

پس ہمیں اس چیز کی توقع نہیں رکہنا چاہئے کہ حضرت امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے زمانہ حکومت میں ایک نمونہ اور مطلوب معاشرہ تشکیل پائے گا جو گناہ اور نافرمانی سے بالکل پاک وپاکیزہ ہوگا البتہ امام علیہ السلام کی حکومت اور طاقت کا استعمال اس طریقہ سے ہوگا کہ اس میں کسی طرح کے ظلم و جور کو بغیر جواب دئے نہیں چھوڑا جائے گا نیز اس زمانہ میں عدالت عام ہوجائے گی، اسی بنا پر معاشرہ میں جرائم وگناہ کم ہوجائیں گے، لیکن بالکل ہی ان کا خاتمہ نہیں ہوگا؛ کیونکہ انسان فرشتوں کی طرح نہیں بن سکتا، اور اس کی فطرت انسانی رہے گی، اس میں گناہ و عصیان اور جرائم کے امکانات پائے جائیں گے۔

لھٰذا طے یہ ہوگیا کہ ان تمام حقائق کے پیش نظر حکومت کا ہونا ضروری ہے لیکن اگر کوئی شخص گھر کے ایک کونے میں بیٹہ کر اپنے محدود ذھن میں اس طرح کے معاشرہ کا تصور کرے کہ اخلاقی اور تربیتی ترقی کے بعد ایک ایسا معاشرہ پیدا ہوجائے جس میں کسی بھی طرح کا کوئی ظلم وفساد نہ ہو تو یہ بات حقیقت جامعہ سے بھت دور ہے واقعاً عوام الناس کے درمیان جائے اور ان کے کاموں کا مشاہدہ کرے کہ کس طریقہ سے نیکیوں اور اچھائیوں کے ہوتے ہوئے بھی گناہ وانحراف کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ جو لوگ اخلاقی مسائل کو اہمیت نہیں دیتے ان کی بات تو الگ ہے جو افراد نیک اور اچھے ہوتے ہیں ان سے بھی کبھی کبھی گناہ اور مخالفت ہوجاتی ہے تو پھر یہ بات ظاہر ہے کہ جرائم اور تخلفات کی روک تھام کے لئے معاشرہ میں مناسب اور شائستہ قوانین(۴) کا نفوذ ضروری ہے، کیونکہ جب معاشرہ میں قوانین نافذ ہونے کے لئے بنائے گئے ہیں تو پھر ان کو نافذ کرنے والے ضامن کی ضرورت ہے حکومت کے وجود کے لئے سب سے عمدہ اور بہتر ین دلیل ؛ معاشرہ میں مختلف طریقوں سے قوانین کو نفوذ کرنے کی ضمانت ہے، اور اسی چیز کو ہم بیان کرنا چاہتے ہیں ، انشاء اللہ ہم اپنی آئندہ بحث میں حکومت یا حکومتی شعبہ جات وغیرہ کی ذمہ داریوں اور اس کے اختیارات کی بحث کریں گے

۴طاقت و قدرت کی ضرورت

قارئین کرام ! قانون بغیر متولی کے نہ رہے اور ان کی تعطیل نہ ہوجائے اور جرائم وخلاف کاریوں کی روک تھام کی جاسکے ، اسی طرح معاشرہ کے امن وامان کو خطرہ میں ڈالنے کی سازشوں کا سد باب کیا جاسکے اور اسی طرح ملک اور اسلامی معاشرہ پرخارجی دشمنوں کے ھجوم کوروکا جاسکے تو ان تمام چیزوں کے لئے ایک طاقتور حکومت کا ہونا ضروری ہے ، تاکہ قوانین کو جاری کرنے ، دیگر امور کی تشریح، عقائد اوراقدارکی حفاظت کرنے اسی طرح معاشرہ کی اندورنی اور بیرونی امنیت کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری کو نبھا سکے اسی وجہ سے سیاسی فلسفہ میں ”مفھومِ قدرت“ کو ایک بنیادی مفھوم قرار دیا گیا ہے یہاں تک ان لوگوں کے نزدیک بھی جنھوں نے ”سیاست“ کو ”علم قدرت“ سے تعبیر کیا ہے۔ اب جبکہ حکومت اور قوہ مجریہ کا وجود ثابت ہوگیا اور یہ بھی بیان ہوگیا کہ حکومت کا صاحب اقتدار اور صاحب طاقت ہونا ضروری ہے، یہ سوال پیش آتا ہے کہ قدرت کا سرچشمہ کیا ہے؟ اور کس بنیاد پر حکومت کے عھدہ دار قدرت اور اقتدار رکھتے ہوں تاکہ جرائم سے روک تھام اور قوانین کو نافذ کرنے کے ذمہ داری کو پورا کرسکیں ؟ چنانچہ فلسفہ سیاست کے بارے میں بھت زیادہ فنّی اور خاص بحثیں ہوئی ہیں لیکن ہم اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کو روان اور سادہ زبان میں عرض کرتے ہیں ۔

انسانی معاشرہ میں ہمیشہ سے بعض افراد بعض وجوھات کی بنا پر مثل کم عقلی،(ادواری) جنون، بری تربیت یا اسی طرح کی دوسری چیزوں کی بنا پر جرائم کے مرتکب ہوتے رہے ہیں ،مثلاً کسی جگہ آگ لگادےتے ہیں ، چاقو یا روالور کے ذریعہ کسی بے گناہ انسان پر حملہ آور ہوجاتے ہیں اسی طرح دوسرے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں کہ الحمد للہ ہمارے ملک میں جرائم کی تعداد کم ہے لیکن آج کے ترقی یافتہ ممالک (یورپ اور امریکہ وغیرہ) میں جرائم کی تعداد کھیں زیادہ ہے؛ جیسا کہ بعض معتبر اخباروں کے ذریعہ یہ خبر ملی تھی کہ کسی ایک ملک کے پائے تخت میں ہر ایک منٹ میں کئی قتل ہوتے ہیں یا ایک دوسرے ملک کی پائے تخت میں ہر آدھے منٹ میں ایک قتل ہوتا ہے(۵) اور یہ رپورٹ ان ملکوں کے سرکاری اخباروں کے ذریعہ نشر ہوتی ہے، در اگر ہمارے ۶۰/ ملین افراد والے ملک میں کبھی کوئی قتل ہوجاتا ہے تو ہمیں تعجب ہوتا ہے کہ کیوں ہمارے اسلامی ملک میں ایک ایسا حادثہ پیش آیا!!

خلاصہ یہ کہ اس طرح کے جرائم اور خلاف ورزیوں سے مقابلہ کرنے کے لئے حکومت ظاہری اور مادی طاقت رکھتی ہو جس وقت کسی بے گناہ انسان پر ظلم وستم ہو، یا کسی پرشدت سے تجاوز ہوتا ہے یا کسی جگہ پر چوری ہوتی ہے یا ڈاکاپڑتا ہے، تو ایسے مقامات پر حکومت کے بعض افراد (پولیس) اپنی بھر پور طاقت کے ذریعہ ان جرائم کا مقابلہ کریں تاکہ قوانین کے نفاذ کی ضمانت ہوسکے۔

قارئین کرام ! قوانین کو جاری کرنے اور ان کی ضمانت کے امکان کے لئے نیز مجرموں سے مقابلہ کرنے کے لئے پہلی شرط ظاہری ، مادّی اور جسمانی طاقت کا ہونا ضروری ہے اگرچہ ٹکنالوجی کی ترقی کے ساتھ اسلحہ وغیرہ میں بھی ترقی ہوئی ہے جن کی وجہ سے مجرموں کے ھاتھوں میں نئے نئے قسم کے اسلحے ہوتے ہیں ، اسی طرح ادھر حکومت نے بھی مجرموں کو سزا دینے کے لئے الکٹرانک مشینیں ایجاد کرلی ہیں ، لیکن پھربھی ان قوانین کو جاری کرنے والے کے لئے جسمانی طاقت سے بھرہ مند ہونا ضروری ہے چنانچہ اسی ضرورت کے تحت تمام حکومتوں کے پاس چاہے چھوٹی ہوں یا بڑی، ترقی یافتہ ہوں یا غیر ترقی یافتھ؛ تمام کی تمام ان جرائم اور ظلم وستم سے مقابلہ نیز اندرونی امنیت کی برقراری کے لئے پولیس کا انتظام کرتی ہے اور ان کو اپنے حساب وکتاب سے اسلحہ وغیرہ دیتی ہے اور حکومت جتنی چھوٹی ہوگی اس کے پاس اسلحہ وغیرہ سادہ اور کمتر ہوگا اور اگر حکومت بڑی، ترقی یافتہ اور پیچیدہ تر ہوگی اسی حساب سے اس کی پولیس بھی جدید طریقہ اور ترقی یافتہ اسلحوں سے لیس ہوگی۔

اس بنا پر ہر ملک کی پولیس کا مختلف قسم کے تمام تر اسلحوں سے لیس ہونا ضروری ہے، اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حکومت بغیر قدرت کے عملی طور پر قوانین کو نافذ نہیں کرسکتی لھٰذا طے یہ ہوا کہ ہر معاشرہ میں قوہ قھریہ ( پولیس ) کا ہونا ضروری ہے تاکہ جرائم پیشہ لوگ اس سے ڈریں اور جرائم کے قریب نہ جائیں اور اگر جرائم کے مرتکب ہوگئے ہیں تو ان کو سزا مل سکے۔

۵۔ مدیروں میں تقویٰ اور اخلاقی صلاحیت ہونا ضروری ہے

قارئین کرام ! اب تک کی باتوں سے یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ قوانین کو نافذ کرنے، امن وامان کو باقی رکہنے،جرائم اور دوسروں کے حقوق پر تجاوز سے روک تھام کے لئے حکومت کے پاس سبھی طرح کی طاقت کا ہونا ضروری ہے لیکن یہ بھی توجہ رکہنا ضروری ہے کہ اس عھدہ کی حفاظت اور قوانین کو نافذ کرنے اور اس کی ضمانت کے لئے صرف جسمانی اور اسلحہ کی طاقت اور مادّی مھارتیں کافی نہیں ہیں بلکہ وہ شخص جو قوانین جاری کرنے کے لئے منتخب ہو اوراس ہدف کی خاطر ضروری امکانات اور اسلحہ جات اس کے اختیار میں دئے جائیں تو اس کو صاحب تقویٰ اور اخلاقی صلاحیت کا مالک ہونا چاہئے، کیونکہ اگر کوئی صاحب تقویٰ نہ ہو تو جو طاقت اس کے اختیار میں دی گئی ہے نہ صرف یہ کہ فائدہ نہیں دے گی بلکہ اس سے معاشرہ کا نقصان ہوگااور معاشرہ کے لئے بھت سی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں ، کیونکہ وہ اس طاقت اور قدرت سے سوء استفادہ کرے گا اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے اور ملت ایران کے شاہ سے مقابلہ کے دوران حضرت امام خمینی ( رحمةاللہ علیھ) نے ایک بیان میں فرمایاجس کا مضمون یہ ہے کہ اسلحہ نیک اور شائستہ افراد کے ھاتھوں میں دیا جائے، تاکہ شاہ سے مقابلہ کے دوران ، ان کا ہدف عوام الناس کے حقوق دلانا اور اسلام کی حاکمیت کو برقرار رکہنا ہو، نہ یہ کہ وہ صرف قدرت پر قبضہ کرنا چاہیں ؛ لیکن اگر اسلحہ غیر شائستہ لوگوں کے ھاتھوں میں چلا گیا، تو در حقیقت یہ قدرت ؛ طاقتور شیطان کے ھاتھوں میں چلی گئی ہے کہ جس کا نتیجہ معاشرہ میں فتنہ وفساد اور تباہی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا۔

خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ صرف ظاہری قدرت معاشرہ کے منافع ومصالح کی ضامن نہیں ہوسکتی ، بلکہ جو شخص قوانین کو جاری کرے اور قدرت کو اپنے ھاتھوں میں لے تو اس میں مادّی اور ظاہری مھارت کے علاوہ تقویٰ اور اخلاقی شائستگی کا ہونا ضروری ہے پس اس صورت میں حکومت اپنے تمام تر امکانات اور طاقت وقدرت کے ساتھ ، نیز ان امکانات سے صحیح طریقہ سے استفادہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوئے معاشرہ کی اصلاح کے لئے صحیح رجحان کے تحت اپنی پوری طاقت صرف کردے، اور میدان عمل میں ہویٰ وھوس اور ذاتی مفاد کا شکار نہ ہو لیکن اگر کوئی شخص تقویٰ اور اخلاقی صلاحیت سے بھرہ مند نہ ہو ،اور اس کے ھاتہ طاقت اور مادّی امکانات آجائیں تو اس کو غرور ہوجاتا ہے اور ہویٰ وھوس، شیطانی خواہشات اور جاہ طلبی وغیرہ کے لئے اس قدرت کو استعمال کرنے لگتا ہے ، جس کے نتیجہ میں صحیح راستے سے منحرف ہوجاتا ہے اور معاشرہ میں تباہی وبربادی کے علاوہ کچھ اور نہیں کرپاتا اس صورت میں معاشرہ میں اس کا نقصان اور ضرر عام تباہ کار سے زیادہ ہوتا ہے؛ جیسا کہ فاسد بادشاہ جس ظلم وبربریت کے مرتکب ہوتے ہیں اس کا دوسرے جرائم سے مقائسہ اور مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔

البتہ قانون کا جاری کرنے والا ، قانون اور اس کے مختلف پہلووں کی بحد کافی شناخت رکھتا ہو؛ کیونکہ حکومت قانون کو جاری کرنے کے لئے ہوتی ہے اور حکومتی افراد جس عھدہ پر بھی ہوں ؛ قانون کے مجری ہونے کے ناطے قانون سے بحد کافی آگاہی رکھتے ہوں ورنہ تو اگر کوئی شخص اپنی مرضی سے قانون کی خلاف ورزی نہ کرنا چاہے اور قانون پر عمل کرنے کا مصمم ارادہ رکھتا ہو، لیکن چونکہ قانون سے صحیح طریقہ سے آشنا نہیں ہے مقام عمل میں غلطی کا امکان پایا جاتا ہے، اسی طرح قانون کو اس کے مصداق پر تطبیق کرنے پر بھی قادر نہیں ہوسکتا، درحالیکہ ایسا شخص بری نیت بھی نہیں رکھتا اور اخلاقی صلاحیت سے بھی بھرہ مند ہوتا ہے لیکن چونکہ قانون کے بارے میں علم نہیں رکھتا اور قانون سے صحیح نتیجہ بھی نہیں نکال سکتا جس کے نتیجہ میں منحرف ہوجائے گااور غلط راستہ پر چل پڑے گا اور عملی میدان میں معاشرہ کے منافع کو پامال کردے گا۔

بنا برین مجری قانون کو قانون سے آشنا ہونا چاہئے ،وہ قانون جاری کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہو اور تقویٰ و اخلاقی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔البتہ متون دینی میں فقیہ کے لئے یہ تین شرطیں قانون جاری کرنے کی قدرت اور مدیریت بیان کی گئی ہیں ،لیکن ان تینوں کلی شرطوں کے بھت سے اجزاء ہیں کہ ہم اس وقت ان کوبیان نہیں کر رہے ہیں چونکہ ہم کلیات بیان کر رہے ہیں جزئیات نہیں ۔

۶۔ فلسفہ سیاست میں حکومت کی مشروعیت

قارئین کرام ! اس سلسلہ میں ایک بحث کا بیان کرنا مقصود ہے جیسا کہ گذشتہ جلسہ میں بھی اس چیز کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ حکومت کی مشروعیت (حق حکومت)اور اس کے قانونی ہونے کا معیار وملاک کیا ہے؟ لھٰذا اس چیز کی تحقیق اورجائزہ لینا ضروری ہے کہ کن معیار کے تحت ایک ملت کی حکومت کو کسی شخص یا کسی پارٹی کے سپرد کی جاسکتی ہے تاکہ وہ قدرت سے استفادہ کرسکے واقعاً یہ بحث فلسفہ سیاست کی ایک اصل اور بنیادی بحث ہے اور اس کو مختلف نظریات کی بنا پر مختلف طریقہ سے مورد بررسی وتحقیق قرار دیا گیا ہے اور اس کو بیان کرنے کے لئے بھی مختلف تعبیریں پیش کی گئی ہیں ان میں سے ایک تعبیر ”قدرت اجتماعی“ کے نام سے موجود ہے جسے عوام الناس تسلیم نہیں کرتی،یعنی حکومتی افراد کے اندر مادّی وجسمانی اور مدیریت کی قدرت کے علاوہ ایک دوسری قدرت بھی ہو جس کو ”قدرت اجتماعی“ کھا جاتا ہے اب سوال یہ ہوتا ہے کہ حکومت قدرت اجتماعی کی مشروعیت اور قانون کو جاری کرنے کا حق کھاں سے حاصل کرتی ہے؟ ایک چہ کروڑافراد کی آبادی میں بھت اہم شخصیات ، ماہر افراد اور شائستہ افراد ہوتے ہیں ، ان میں سے کس طرح ایک شخص حکومت کی لگام کو ھاتہ میں لے سکتا ہے؟ کون اس قدرت کو اس کے حوالہ کرتا ہے؟ بنیادی طور پر حکومت اور اس کے ذمہ دار افراد کی مشروعیت(اور جواز حکومت) کھاں سے آتی ہے؟

اس سلسلہ میں مختلف صاحب نظروں نے مختلف جوابات دئے ہیں ، لیکن آج کی دنیا میں رائج اور متفق علیہ جواب یہ ہے کہ حکومت یا رئیس حکومت کو یہ طاقت عوام الناس دیتی ہے گویا یہ قدرت عوام الناس کے ارادہ ومرضی سے کسی کو دی جاتی ہے، اور اگر کوئی شخص اس قدرت پر کسی دوسرے راستہ سے قابض ہوجاتا ہے وہ قدرت مشروعیت نہیں رکھتی اس قدرت کو کسی شخص کے لئے اپنے آباء واجداد سے ارث میں لینا ممکن نہیں ہے؛ جیسا کھ(انقلاب سے پہلے) شاہ کی حکومت کا یہ نظریہ تھا کہ قدرت اور حکومت میراثی ہے مثلاً جب کوئی سلطان اس دنیا سے جائے تو اس کا بیٹا میراث کے عنوان سے اس پر قابض ہوجائے اور اس میں عوام الناس کا کوئی کردار نہ ہو اگرچہ حکومت کا یہ طریقہ آج بھی بعض ملکوں میں رائج ہے، لیکن آج کی دنیا میں موجود کلچر اس سسٹم کو قبول نہیں کرتااور یہ تھیوری عام لوگوں کی نظر میں قابل قبول نہیں ہے، اور ایسا نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص عوام الناس پر حکومت کی بہتر ین صلاحیت رکھتا ہے تو اس کا بیٹا بھی وہی ‎ صلاحیت اور شائستگی رکھتا ہو اس کے علاوہ عوام الناس اس طریقہ کار کو اچھا نہیں سمجھتی، بلکہ اس کے خلاف دیکہنے میں آیا ہے اور بھت سے ایسے مورد دیکھے گئے ہیں جن میں میراثی حاکم سے بہتر اور مناسب افراد موجود ہو جاتے ہیں ۔

قارئین کرام !

چونکہ بادشاہت اور سلطنت کا سسٹم آج کے زمانہ میں قابل قبول نہیں ہے اور اس کی مخالفت بھی ہوتی رہی ہے، کیونکہ بعض بادشاہی نظام میں اس طرح کی کوشش کی گئی ہے کہ بادشاہت برائے نام باقی رہ گئی، اور بادشاہ سے قدرت چھن گئی ہے اور جو شخص عوام الناس کا منتخب شدہ ہوتا ہے مثلاً وزیر اعظم ؛ یہ طاقت اس کے حوالہ ہوجاتی ہے در حقیقت ان ممالک میں صرف بادشاہت کا نام باقی ہے جب کہ واقعی قدرت اس سے چھن چکی ہے۔

پس عام عقیدہ اور آج کل کے زمانہ میں رائج ڈیموکریٹک" Democratic " نظام کے تحت جو شخص حکومت کرنے کی صلاحیت اور قوانین کو نافذ کرنے کی طاقت اپنے ھاتہ میں لیتا ہے وہ عوام الناس کا منتخب شدہ ہو ،اور صرف عوام الناس کے ارادہ ومرضی کے ذریعہ حکومت مشروعیت پیدا کرتی ہے البتہ عوام الناس کا طریقہ انتخاب اور ان کے نظریات مختلف ہوتے ہیں ، اور اس سلسلہ میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں ، مثلاً بعض ممالک میں صدر حکومت کو عوام الناس اپنی اکثریت سے براہ راست انتخاب کرتی ہے ، جبکہ بعض ملکوں میں حکومت کے رئیس کو پارٹیاں اور پارلیمنٹ کے ممبران انتخاب کرتے ہیں ، در حقیقت ممبر آف پارلیمنٹ عوام الناس اور رئیس حکومت کے درمیان واسطہ کے کام کرتے ہیں بھر حال جو شخص براہ راست یا بالواسطہ عوام الناس کی اکثریت سے انتخاب ہوتا ہے اس کو حکومت اور قدرت مل جاتی ہے اور اس کے بعد وہ اجرائے قانون کی سب اہم شخصیت اور معاشرہ کی رہبری اور ہدایت کی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں لے لیتا ہے۔

البتہ عوام الناس کی طرف حاکم کو حکومت دینا ایک ظاہری اور فیزیکی چیزوں میں سے نہیں ہے کہ مثلاً عوام الناس اپنے پاس سے کوئی چیز نکال کر اس حاکم کو دیں یا اس کے جسم میں کوئی خارق العادہ طاقت ایجاد کریں بلکہ یہ حکومت غیر مادّی ہے جو عوام الناس کی موافقت سے حاکم کے لئے وجود میں آتی ہے لھٰذا اسی قرار داد کے تحت یہ عھد کیا جاتا ہے کہ مثلاً دو سال، چار سال، سات سال یہاں تک کہ زندگی بھر کے لئے (ان قوانین کے تحت جو آج کے زمانہ میں مختلف ممالک میں رائج ہیں ) ان کا حاکم مقرر ہو ، اور عوام الناس اپنے منتخب شدہ حاکم کے فرمان کے تحت باقی رہیں ۔

اس فرضیہ کے مطابق حکومت اور قوانین کا مجری، عوام الناس سے اپنی قدرت حاصل کرتا ہے ،اور اگر عوام الناس کے موافق نہ ہو تو پھر وہ (صحیح ) کام نہیں کرسکتا اس نظریہ اور تھیوری کے لئے مختلف دلائل پائے جاتے ہیں جن میں سے بعض فلسفی ہیں ، بعض انسانی معرفت کے پہلو رکھتے ہیں اور بعض صرف اعتباری ہوتے ہیں یا عینی اور خارجی تجربوں کی بنا پر قائم ہوتے ہیں ؛ یعنی تجربہ اور مختلف حکومتوں کی شکلوں کے مشاہدہ کے بعد اس قسم کی حکومت کو بہتر ین اور مفید ترین طریقہ قرار دیا گیا ہے۔

قارئین کرام ! یہ بات قابل توجہ ہے کہ عوام الناس کی طرف منتخب شدہ شخص کو قدرت دینے کے طریقہ کار اور اس کی تحقیق وبررسی کے لئے ایک طولانی گفتگو درکار ہے کہ اگر خداوندعالم نے توفیق دی تو اس سلسلہ میں بعد میں بیان کریں گے (انشاء اللہ ) لیکن یہاں پر صرف مختصر طور پر عرض کرتے ہیں کہ مشروع حکومت تشکیل ہونے کے بعد عوام الناس کا حکومت کے قوانین کو قبول کرنا ضروری ہے اور اس کی فرمانبرداری اور اطاعت پر موافقت کریں اس مطلب پر قبل اس کے دوسرے مکاتب اور مذاہب بیان کریں اسلام نے بیان کرتے ہوئے قبول کیا ہے عوام الناس کی شرکت اوران کی طرف سے عھدہ داران کا انتخاب کرنا اور اس موضوع پر عام موافقت ،قدیم زمانہ سے اسلامی معاشرہ میں یہ تھیوری نہ صرف بیان ہوئی ہے بلکہ اس پر عمل بھی ہوا ہے کیونکہ اگر کوئی میراثی یا طاقت کے بل بوتے پر دوسروں پر حاکم بن جائے تو نہ صرف یہ کہ عملی میدان میں اس کی شکست ہے بلکہ اسلام کی نظر میں بھی یہ طریقہ کار محکوم(غیر مقبول) ہے لھٰذا دین اور اسلام نے اس پر صحیح کا نشان لگایا ہے کہ تمام لوگوں کی موافقت اور عام مقبولیت ہونے ضروری ہے اس میں کوئی بحث نہیں ہے ، لیکن یہاں پر یہ سوال پیش آتا ہے کہ کیا اسلام کی نظر صرف عوام الناس کا اس حکومت کو مشروعیت دینے میں قبول کرلینا کافی ہے ، اور قانونی نقطہ نظر سے اسلامی حکومت میں جیسا کچھ ہوا ہے یا ہوگا صرف عوام الناس کی موافقت کا نتیجہ ہے؟

بعض اخباروں ، کتابوں اور مقالات میں لکھا جاتا ہے کہ آج کی دنیا میں ”مقبولیت“ اور ”مشروعیت“ ایک ساتھ ہوتی ہیں ، یعنی کسی حکومت کی مشروعیت کے لئے عوام الناس کی اکثریت کا ووٹ کافی ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہ مشروعیت ؛ مقبولیت کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے جب عوام الناس نے کسی کو قبول کرلیا اور اس کو ووٹ دیدیا تو اب منتخب شدہ شخص کی حکومت مشروع اور قانونی ہوجاتی ہے۔

قارئین کرام ! یہ وہی ‎ ڈیموکریٹک" Democratic " نظریہ ہے جو آج کل کی دنیا میں عام مقبولیت رکھتا ہے تو اب یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام بھی بالکل اسی نظریہ کو قبول کرتا ہے۔؟

۷۔ حکومت کی مشروعیت کے سلسلہ میں اسلامی نظریہ کا لیبرل معاشرہ سے فرق

اب جبکہ ہم نے یہ قبول کرلیا ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے حاکم کے لئے ضروری ہے کہ عوام الناس اس کو قبول کرتی ہو اور عوام الناس کی شرکت اور تعاون کے بغیر اسلامی حکومت قوانین کو جاری کرنے پر قادر نہیں ہوسکتی، اور اسلامی احکام کو بھی جاری نہیں کرسکتی، تو سوال یہ ہے کہ اسلامی نظریہ کے مطابق حکومت کے مشروع ہونے میں صرف عوام الناس کا ووٹ کافی ہے، اور قانون کے جاری کرنے والے افراد کی مشروعیت عوام الناس کے ووٹوں کے ذریعہ مشروع ہوجاتی ہے، یا کوئی دوسری چیز بھی اس میں ضمیمہ ہونی چاہئے؟ دوسرے الفاظ میں یوں کھا جائے کہ عوام الناس کا قبول کرنا حکومت کے قانونی اور مشر وع ہونے کے لئے شرط لازم وکافی ہے ،یا اس کے عینی طور پر محقق ہونے کے لئے یہ شرط لازمی ہے۔

جواب میں ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ جو کچھ ”ولایت فقیہ “ کے سلسلہ میں بیان ہوا ہے اور اسی وجہ سے یہ حکومت، دوسری مختلف ڈیموکریٹک حکومت سے صاحب امتیاز بناتی ہے وہ یہ ہے کہ کسی حکومت کی مشروعیت اور اس کا قانونی ہونا اسلام کی نظر میں صرف عوام الناس کی رائے نہیں ہے بلکہ عوام الناس کی رائے گویا ایک بدن کی طرح ہے اور اس مشروعیت کی روح ”اذن الٰھی“ ہے ، اور یہ مطلب ایک مسلمان کے عقیدہ میں راسخ ہے۔

وضاحت :

ایک مسلمان شخص عالم ھستی کو خدا کی ملکیت جانتا ہے اور یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ تمام افراد؛ خداوندعالم کے بندہ اور غلام ہیں ، نیز اس سلسلہ میں افراد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ، خدا کی بندگی میں سب برابر ہیں ؛ جیسا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:

اَلْمُومِنُوْنَ کَاسْنَانِ الْمَشْطِ یَتَسَاوُوْنَ فِی الْحُقُوْقِ بَیْنَهمْ(۶)

(مومنین آپس میں گنگھے کے دانتوں کی طرح ہیں اور سب کے حقوق مساوی اور برابر ہیں ۔)

پس معلوم یہ ہوا کہ سب انسان خدا کے بندے ہیں اور سب برابر ہیں نیز اس سلسلہ میں کوئی صاحب امتیاز نہیں ہے ، اسی طرح سب انسانیت میں مساوی ہیں اور کسی ایک کو دوسرے پر کوئی امتیاز نہیں ہے عورت مرد ، کالے سفید اصل انسانیت میں مساوی ہیں توپھر کس معیار اور کس بنیاد کی بنا پر ایک شخص دوسروں پر حکومت کرنے کا حق رکھتا ہے؟ ہم نے یہ بھی قبول کیا کہ قانون کو جاری کرنے والا ایک عظیم طاقت کامالک ہو جس کو ضرورت کے موقع پر استعمال کیا جاسکے، اور ہم نے یہ عرض کیا کہ حکومت بغیر قوہ قھریہ (پولیس یا فوج) کے بغیر اپنے اہداف تک نہیں پھونچ سکتی اور حکومت کا فلسفہ وجودی وہی ‎ قوہ قھریہ ہے جو عوام الناس کو قانون کی پیروی کرنے پر مجبور کرتا ہے اب اگر قوہ قھریہ نہ ہو اور حکومت فقط وعظ ونصیحت کے ذریعہ عوام الناس کو قانون پر عمل کرانے پر قادر ہوتی تو پھر قوہ قھریہ کی کوئی ضرورت نہ ہوتی، اور اس کام کے لئے علماء اور اخلاقی معلمین کافی ہوتے پس ثابت یہ ہوا کہ قوہ مجریہ کا فلسفہ وجودی یہ ہے کہ وقت ضرورت اپنی طاقت سے فائدہ اٹھائے اور بڑھتے ہوئے جرائم کی روک تھام کرے مثلاً اگر کوئی شخص لوگوں کے مال وناموس پر دست درازی کرے تو حکومت اس کو پکڑ کر زندان میں ڈال دے یا اس کوکسی دوسرے طریقہ سے سزا دے۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج کل دنیا بھر میں سزا دینے کے مختلف طریقے پائے جاتے ہیں ، اسی طرح اسلام نے مجرموں کو سزا دینے کے لئے طریقہ معین کئے ہیں جن میں سے سب سے زیادہ رائج مجرم کوجیل میں ڈال دینا ہے جس سے اس کی آزادی کا ایک حصہ سلب ہوجاتا ہے جس وقت کسی شخص کوئی طاقت ایک بند کمرہ میں مقید کردیتی ہے اور اس پر دروازہ بند کردیا جاتا ہے، اور اس کی معمولی اور ابتدائی آزادی سلب کردی جاتی ہے تو سوال یہ ہوتا ہے کہ کسی مجرم کی آزادی کو سلب کرنے کا کسی کو کیا حق ہے؟ بے شک مجریان قانون کی طرف سے کسی شخص کی آزادی کا سلب کرنا یا مجرموں کے حقوق کو سلب کرنا جائز اور حق ہو، یہ ٹھیک ہے کہ مجرم کو سزا ملنی چاہئے ، لیکن کوئی خاص شخص ہی سزا دینے کا حق رکھتا ہے ، دوسرا نہیں ؟ (یہ کھاں سے؟) ایسے افراد کو معین کرنے کے لئے کوئی قاعدہ قانون اور خاص ملاک اور دلیل ہونی چاہئے کیونکہ ان کا کام گویا اس شخص میں مالک جیسا تصرف کرنا ہے،جو شخص کسی مجرم کو جیل میں ڈالتا ہے گویا وہ اس کے وجود میں تصرف کررہا ہے نیز اس سے اختیار اور آزادی کو سلب کررہا ہے، اور اس کو ایک بند کمرے میں مقید کررہا ہے ، اس کو اجازت نہیں دیتا کہ جھاں چاہے چلا جائے، جیسے ایک مالک اپنے غلام کی تنبیہ وتادیب کررہا ہے۔

پس چونکہ مجرموں اور خطاکاروں سے اس طرح کا برتاؤ ان کی آزادی اور حقوق کا سلب کرنا ہے اور انسان میں مالک جیسا تصرف حساب ہوتا ہے اسلامی نقطہ نظر سے حکومت کی مشروعیت کا معیار وملاک اکثریت کی رائے کے علاوہ خداوندعالم کی اجازت ہے، کیونکہ تمام انسان خدا کے بندے ہیں لھٰذا خدا اپنے بندوں پراگرچہ مجرم بندے ہی کیوں نہ ہوں ؛ تصرف کا حق عنایت فرمائے؟ ہر ایک شخص (یھاں تک کہ مجرم بھی) آزادی رکھتے ہیں اور یہ آزادی خدا داد نعمت ہے جو اس نے تمام انسانوں کو عطا کی ہے اور کسی کو اس کے بندوں کی آزادی سلب کرے کا حق نہیں ہے کیونکہ وہی ‎ انسان کی آزادی یہاں تک کے مجرم انسان کی آزادی کا حق رکھتا ہے جو ان کا مالک ہے اور تمام انسانوں کا مالک خداوندقدوس ہے ۔

اس لحاظ سے اسلامی نقطہ نظر سے ان تمام چیزوں کے علاوہ جو دوسری حکومتوں میں حکومت کی تشکیل کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہے ، ایک دوسرا معیار اور ملاک بھی ضروری ہے اور وہ اعتقادات اور معارف اسلامی میں سر چشمہ رکھتا ہے ہمارے عقیدہ کی بنیاد پر خداوندعالم، انسان اور تمام مخلوقات کا ربّ ہے اور ہمارا یہ عقیدہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ خدا کی مخلوقات میں ذرا سا بھی دخل وتصرف؛ خدا کی اجازت اور مرضی سے ہونا چاہئے دوسری طرف وہ قوانین جوشھریوں کی رفتار، چال چلن اور کردارکو معین کرتا ہے اور ان کی آزادی کو محدود کرتا ہے، نیز وہ قوانین خود بخود جاری نہیں ہوتے بلکہ ان کو جاری کرنے کے لئے ایک سسٹم کی ضرورت ہے جو ان کو جاری کرسکے،اسی وجہ سے حکومت کے پاس ایک طاقت (پولیس) کی ضرورت ہے، اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حکومت اور قوہ مجریہ،خدا کی مخلوقات میں تصرف کرنے کے بغیر اور ان کی آزادی کو محدود کئے بغیر آگے نہیں بڑہ سکتی، اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ خدا کی مخلوقات میں تصرف کرنا یہاں تک مجرموں اورغنڈوں سے آزادی کا سلب کرنا، صرف اسی شخص کے لئے جائز ہے جس کو خداوندعالم نے اختیار دیا ہے، اور یہ اختیار صرف خداوندعالم کی طرف سے دوسروں کو عطا ہوتا ہے؛ کیونکہ وہی ‎ تمام انسانوں کا مالک اور ربّ ہے، اور حکومت کو اپنی مخلوقات میں تصرف کرنے کی اجازت دے سکتا ہے۔

حکومت کے سلسلہ میں فلسفہ سیاست میں نظریہ ”ولایت فقیھ“ کا دوسرے نظریات پر یہ امتیاز ہے کہ یہ نظریہ توحید اور اسلامی عقیدہ میں سرچشمہ رکھتا ہے اس نظریہ حکومت اور انسانوں میں تصرف کرنے کی نسبت خداوندعالم کی اجازت کی طرف ہوتی ہے اس کے مقابلہ میں دوسرا نظریہ جو کہ قوانین کو جاری کرنے اور انسانوں کی آزادی میں تصرف کرنے میں خدا کی اجازت کو ضروری نہیں سمجھتا، یہ نظریہ ایک قسم کا”ربوبیت میں شرک“ ہے یعنی اگر قوانین کو جاری کرنے والا فرد یہ عقیدہ رکھے کہ وہ خدا کے بندوں میں اس کی اجازت بغیرکے دخل وتصرف کا حق رکھتا ہے، حقیقت میں ایسا عقیدہ رکہنا اس ادّعا کے برابر ہے کہ جس طرح خداوندعالم اپنے بندوں میں تصرف کا حق رکھتا ہے میں بھی اسی طرح مستقل طور پر انسانوں میں دخل وتصرف کا حق رکھتا ہوں ، اور یہ ایک قسم کا شرک ہے اگرچہ ایسا شرک نہیں جو مرتد ہونے کا سبب بنتا ہو بلکہ کمتر درجہ کا شرک ہے جو غلط فکر اور کج فکری کی وجہ سے وجود میں آتا ہے، جس کے نتیجہ میں عصیان اور لغزش وجود میں آتے ہیں اور یہ کوئی کم گناہ نہیں ہے کیسے کوئی شخص اپنے کو خدا کا ہم پلہ قرار دیتا ہے اور یہ دعوی کرتا ہے کہ جس طرح خدا اپنے بندوں میں تصرف کا حق رکھتا ہے میں بھی ان کی رائے اور انتخاب پر تکیہ کرتے ہوئے؛ ان پر تصرف کا حق رکھتا ہوں ؟!! کیا عوام الناس اپنا اختیار رکھتی ہے جو دوسروں کے حوالہ کرسکتی ہے؟ تمام انسان خدا کے بندے ہیں ان کا اختیار بھی خدا کے ھاتہ میں ہے۔

قارئین کرام ! ہمیں یہ معلوم ہوچکا ہے کہ اگر ہم اسلامی نقطہ نظر سے حکومت کی تحقیق وبررسی کریں تو اس نتیجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ اس نظریہ میں دوسرے ممالک کے حکومتی معیار کے علاوہ ایک دوسری چیز کا بھی لحاظ کرنا ضروری ہے ، اور وہ ہے خدا کے بندوں میں تصرف کرنے کے لئے خدا کی اجازت لھٰذا اسی نظریہ کی بنیاد پر حکومت کی مشروعیت خداوندعالم کی طرف سے ہے اور عوام الناس کی رائے اور ووٹس نیز عوام الناس میں اس کی مقبولیت؛ حکومت کے تحقق کے لئے ایک شرط ہے۔

حوالے:

(۱) سورہ بقرہ آیت ۳۰

(۲)سورہ معارج آیات ۱۹ تا ۲۱

)۳(سورہ ابراہیم آیت ۳۴

(۴) جیسا کہ ہم پہلے قوانین کی ضرورت پر گفتگو کر چکے ہیں

)۵(اگرہر آدھے منٹ میں ایک قتل ہوتا ہے تو تقریباً ایک دن میں ۲۸۸۰/(۶۰ * ۲ = ۱۲۰ * ۲۴ =۲۸۸۰) قتل ہوتے ہیں (مترجم(

(۶) بحار الانوار ج۹ ص ۴۹