اسلام اور سیاست جلد ۲

اسلام اور سیاست 0%

اسلام اور سیاست مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اسلام اور سیاست

مؤلف: آیت اللہ محمد تقی مصباح یزدی دام ظلہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 22322
ڈاؤنلوڈ: 3507


تبصرے:

جلد 1 جلد 2
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 31 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 22322 / ڈاؤنلوڈ: 3507
سائز سائز سائز
اسلام اور سیاست

اسلام اور سیاست جلد 2

مؤلف:
اردو

ستّائیسواں جلسہ

اسلامی حکومت کی خاص پہنچان

۱۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر

قارئین کرام ! جیسا کہ ہم نے گذشتہ جلسوں میں عرض کیا کہ ہماری بحث ” اسلام کے سیاسی نظریات“ کا یہ حصہ مخصوص ہے حکومت کی ذمہ داریاں اور اس کے اختیارات کی تحقیق وبررسی سے اورجو مباحث اس موضوع سے مربوط ہیں بے شک حکومت کی ذمہ داریوں کی صحیح شناخت تب ہی ہوسکتی ہے جب ہم حکومت کے فلسفہ کو سمجھ لیں ، اور کوئی بھی مجموعہ، کوئی بھی عضو یا کوئی بھی حصہ ایک خاص ضرورت اور ایک خاص ہدف کے لئے بنایا جاتا ہے؛ کیونکہ اگر وہ اس کے ما تحت نہ ہوں تو اس میں نقص اور خلل واقع ہوجائے گا، اور پھر معاشرہ کی ضرورتیں اور مصالح مکمل طور پر محقق نہیں ہوپائیں گی پس ہر عضو یا ہر مجموعہ کے وظائف او رذمہ داریاں ان کی ضرورت کے تحت؛ ان کے وجود کا تقاضا کرتی ہے۔

حکومت کے سلسلہ میں قانون گذار طاقت کی ضرورت واضح ہوگئی، کیونکہ کوئی ایسی ہی ئت یا کمیٹی ہو جو معاشرہ کے لئے ضروری قوانین بنائے لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قوہ مجریہ (حکومت) کی کیا ضرورت ہے؟ وجود حکومت کا فلسفہ کیا ہے ،اور اگر حکومت نہ ہوتی تو پھر کیا حالات پیدا ہوتے؟ اور اگر عوام الناس کی اس طرح سے اخلاقی اور معنوی تربیت ہوجاتی کہ وہ کسی بھی حال میں قانون کی خلاف ورزی نہ کرتے تو کیا پھر حکومت کی ضرورت نہ تھی؟ اس صورت میں حکومت کی اصلی علت معاشرہ میں قوانین کو جاری کرنے کی ضمانت ہوگی ، اس بنیاد پر بعض لوگوں کا یہ تصور ہے کہ لوگوں کی اس طرح تربیت کی جاسکتی ہے کہ خود اپنی مرضی سے اپنی ذمہ داریوں پر عمل کریں اور پھر کسی ضامن یعنی حکومت کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن مسلم طور پر یہ نظریہ حقیقت سے کوسوں دور ہے ، اور جیسا کہ ہم نے حکومت کی ضرورت پر دلائل کے سلسلہ میں پہلے بھی عرض کیا کہ حکومت کی ضرورت پر ضمانت اجرائی کے علاوہ دوسرے دلائل بھی موجود ہیں ؛ منجملہ معاشرہ کی عظیم اور اہم ضرورتوں کا ہونا جومعاشرہ کے تمام افراد سے متعلق ہوتی ہیں ، اور کوئی خاص شخص یا کوئی خاص گروہ ان کا عھدہ دار نہیں ہوسکتا، اور ان میں اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی ایک ایسی ہم اہنگ کمیٹی ہو جو اپنی منصوبہ بندی کے تحت معاشرہ کی ان ضرورتوں کوپورا کرسکے ہم نے یہ (بھی) عرض کیا کہ معاشرہ کی عام ضرورتوں میں سے ملک پر حملہ کرنے والوں کے مقابلہ میں جنگ اور دفاع کا مسئلہ بھی ہے بے شک جب جنگ زوروں پر ہوتی ہے تو کوئی خاص فرد یا خاص گروہ دشمن کے حملہ کو روکنے پر قادر نہیں ہوسکتا اور تنھا جنگ کو ادارہ نہیں کرسکتا، بلکہ معاشرہ میں ایک ہمہ گیراور سسٹامیٹک قدرت کا ہونا ضروری ہے تاکہ جنگ میں کامیابی مل سکے اور اپنی منصوبہ بندی کے ذریعہ عوام الناس کو جنگ میں شرکت کی دعوت دے اور ان کو ٹرینڈ کرکے جنگی فنون میں ماہر بنا کر آمادہ جنگ کرے۔

ان کے علاوہ معاشرہ کی دوسری ضروریات بھی ہوتی ہیں کہ جن کو پورا کرنا حکومت کے زیر سایہ ہی ممکن ہے؛ مثلاً معاشرہ میں حفظ الصحت، تعلیم وتربیت اور ضروری دانش کو پورا کرنا؛ اسی طرح دوسری ضروریات بھی ہوتی ہیں جن کے لئے مخصوص وزارت خانے ہونے ضروری ہوتے ہیں اور ظاہر سی بات ہے کہ معاشرہ کے حالات بدلنے اور نئی نئی قسم کی ضرورتوں کا ایجاد ہونا؛ جن کے لئے الگ الگ وزارت خانے ہونے ضروری ہیں : مثلاً معاشرہ کی ضرورت کے لئے بعض حالات میں اگر صرف پانچ وزارت خانے کافی ہوں لیکن نئی نئی ضرورتوں کے پیش نظر ان وزارت خانوں میں اضافہ کیا جاسکتا ہے، اور یہ مناسب نہیں ہے کہ قانون میں مخصوص تعداد میں وزارت خانے معین کئے جائیں بلکہ ان کی تعداد زمان و مکان کے شرائط کے لحاظ سے ہونا چاہئے لھٰذا اسلامی سیاسی نظریہ کے لحاظ سے بھی یہ معین نہیں ہے کہ اسلامی ملک کا صدر کتنے وزیر رکہ سکتا ہے، بلکہ اس مسئلہ کو آزاد رکھا گیا ہے تاکہ زمانہ کے پیش نظر اور مختلف ضرورتوں کے لحاظ سے وزارت خانے تعین کئے جائیں ۔

۲۔ نظام اسلامی اور لائیک نظام میں حکو مت کے سلسلہ میں بنیادی فرق

قارئین کرام ! یہ بات طے ہوچکی ہے کہ حکومت کی ضرورت کا فلسفہ معاشرہ کی مختلف ضرورتیں ہیں جن کو صرف حکومت ہی انجام دے سکتی ہے خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ حکومت کی مخصوص ذمہ داری؛ معاشرہ کی مختلف ضرورتوں کو پورا کرنا اور قوانین کا نافذ کرنا ہے۔

ہم نے قانون گذاری کی بحث میں یہ عرض کیا کہ وسعت کے لحاظ سے اسلامی معاشرہ کے قوانین لائیک حکومتوں سے مختلف ہیں : کیونکہ لائیک حکومتوں میں قوانین کو صرف عوام الناس کی مادی ضرورتوں کوپورا کرنے کے لئے بنایا جاتا ہے،اور ان کی حکومت کی بنیاد ہی عوام الناس کی صرف مادّی اور دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنا ہوتا ہے یہاں تک کہ بعض حکومتوں میں اس بات کی شرط کی جاتی ہے کہ دین کے بارے میں کوئی حمایت نہ ہو، اور کسی بھی حکومتی ادارہ میں دین کی کوئی طرفداری یا اس کی حمایت دکھائی نہ دے۔

لیکن اسلامی حکومت میں قوانین کو صرف مادی ضرورتوں کے لحاظ سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ معنوی ضرورتوں کو بھی مدّ نظر رکھا جاتاہے ، بلکہ معنوی مصالح کو مقدم رکھا جاتا ہے یہ مسئلہ بالکل قوہ مجریہ (حکومت) میں بھی بیان ہوتا ہے کہ اسلامی نظام میں حکومت ان قوانین کو جاری کرنے کی ضامن ہے جو دنیاوی زندگی سے متعلق ہوتے ہیں اور معنوی ( اور اخروی) زندگی سے بھی متعلق ہوتے ہیں جس دلیل کے تحت ہم نے قانون گذاری کے سلسلہ میں عرض کیا کہ قوانین کو ایسا ہونا ضروری ہیں جن سے معنوی ضروریات بھی پوری ہوں بلکہ ان کو مقدم رکھا جائے، اسی دلیل کے تحت اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ معنوی مصالح، حقوق الہی اور اسلامی شعار ( رسومات) سے متعلق قوانین کو بھی نافذ کرے ، اور اس سلسلہ میں ہونے والی خلاف ورزیوں کا سدّ باب کرے اور اگر کوئی اسلامی مقدسات کی اہانت کرنا چاہے تو اس کو بھی روکے؛ بےشک یہ مسئلہ حکومت کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔

۳۔ مغربی کلچر کے عاشق افراد کی طرف سے سیکولر حکومت کی پیش کش

بعض اخباروں اور تقریروں میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حکومت کی ذمہ داری، عوام الناس کی مادی ضرورتوں کا پوری کرنے، ملک میں امن وامان کو برقرار رکہنے اور ہر ج ومرج (افرا تفری) سے روک تھام کے علاوہ کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور معنوی اور دینی مصالح کو پورا کرنا علماء اور دینی مدارس کی ذمہ داری ہے ! یہ نظریہ مغربی کلچر اور سیکولر طرز تفکر سے متاثر ہونے کانتیجہ ہے، جیسا کھہم نے اس سے قبل بھی عرض کیا کہ مغربی ممالک کے کلچر کا سب سے واضح امتیاز ”سیکولرازم“ ہے یعنی دین کو سیاست سے جدا کرنا لائیک اور بے دین حکومتوں میں دنیاوی امور حکومت سے متعلق ہوتے ہیں لیکن معنوی امور حکومت سے متعلق نہیں ہوتے اگر کچھ لوگ دین اور معنوی امور میں مشغول ہونا چاہتے ہیں تو اپنے اس ہدف کے تحت ذاتی امکانات کو خرچ کریں اور اس سلسلہ میں سرکاری امکانات سے استفادہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ دین کے سلسلہ میں حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ، اسلامی ثقافت کے بالکل برعکس جس کے اہم ترین وظائف میں سے : اسلام کو حفظ کرنا، معاشرہ میں اسلامی شعارکو رائج کرنا اور ان کو بھلادئے جانے سے روک تھام کرنا نیز بے توجھی اور خدا نخواستہ اسلامی شعار اور مقدسات کی توہی ‎ ن کرنا؛ وغیرہ ہے۔

جو لوگ اسلامی ثقافت کو قبول نہیں کرتے بلکہ مغربی کلچر کے تابع ہیں ؛ ان کی طرف سے اس نظریہ کا پیش ہونا کہ ”حکومت کو دینی امور میں دخالت نہیں کرنا چاہئے۔“ بعید نہیں ہے اور ہمارا ان سے یہ اختلاف مبنائی ہے اور ہماری ان سے یہ بحث ہے کہ اسلام حق ہے یا نہیں ؟ لیکن یہ نظریہ ان لوگوں کی طرف سے جو خود کو مسلمان اور اسلامی اصول کا معتقد سمجھتے ہیں ان کے لئے مناسب نہیں ہے، اور اس طرح کی گفتگو کرنا اس بات کی نشانی ہے کہ انھوں نے اسلامی ثقافت کو نہیں سمجھا ہے۔

۴۔ اسلامی شعار کا حفظ اور رائج کرنا ، حکومت کی ایک ذمہ داری

پس جو ذمہ داری مشترک طور پر لائیک اور دینی حکومت کی ہوتی ہے؛ اس کے علاوہ اسلامی حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اسلامی شعار کو قائم کرے البتہ عوام الناس اپنی مرضی سے بعض اسلامی رسومات کو انجام دے سکتے ہیں ؛ مثلاً نماز جماعت کا برقرار کرنا، محفل اور عزاداری کرنا، دینی مدارس قائم کرنا، اسلامی پروگراموں کے منعقد کرنے کے لئے ملّی اور مذہبی مرکز قائم کرنا ان میں سے حوزات علمیہ دینی اہم مرکزوں میں شمار ہوتے ہیں جو عوام الناس کی دی ہوئی رقوم شرعی سےچلتے ہیں اور اسلامی شعار کے حفظ ، ان کی ترویج اور اسلامی ثقافت کی تبلیغ میں مشغول رہتے ہیں ، ان کے لئے حکومت کوئی فنڈ معین نہیں کرتی لیکن عوام الناس کا ان شعار کو انجام دینا حکومت کی ذمہ داری کوسلب کرنے کے معنی میں نہیں ہے، اور ایسا نہیں ہے کہ پھر ان امور میں حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں رہ جاتی کیونکہ اگر عوام الناس کا رضا کارانہ طور پر کام کرنا کافی نہ ہوا تو پھران امور کو انجام دینا حکومت کی ذمہ داری ہے مثال کے طور پر: حج ایک عبادی وظیفہ ہے اور جو شخص مستطیع ہوجائے تو اس کے لئے حج کرنا واجب ہوجاتاہے ، مجتھدین کرام؛ فقھی کتابوں اور روایات سے استفادہ کرتے ہوئے اس مسئلہ کو بیان کرتے ہیں کہ اگر ایک ایسا موقع آجائے کہ اسلامی ملک کے پورے معاشرہ میں کسی پر حج واجب نہ ہو یا اگر کسی پر واجب تو ہوگیا ہے لیکن وہ حج پر جانے کے لئے تیار نہ ہو ، بلکہ نافرمانی کرے اور اپنی مرضی سے کوئی حج پر نہ جائے اور خانہ کعبہ کے خالی رہ جانے کا اندیشہ ہو، تو اس موقع پراسلامی حکومتوں پر مسلمانوں کے بیت المال سے ایک گروہ کو حج کے لئے بھیجنا واجب ہے ؛ کیونکہ وہ اسلامی شعار جو تمام ہی مسلمانوں کے لئے حفظ مصالح کے باعث ہیں وہ تعطیل نہیں ہونے چاہئیں ۔

پس جبکہ حج ایک عبادی مسئلہ ہے اور دنیاوی اور سیاسی امور میں شمار نہیں ہوتا اور خود عوام الناس انجام دیتے ہیں اور اپنے پاس سے خرچ کرتے ہیں ، لیکن اگر عوام الناس نے نافرمانی کی یا حج بجالانے کی قدرت نہ رکھتے ہوں تو پھر اسلامی حکومت پر اسلامی شعار کو قائم کرنے اور قوانین کو جاری کرنے کے ضامن کے عنوان سے ؛ یہ ذمہ داری ہے کہ حج کو انجام دینے کے مقدمات فراہم کرے۔

اس بنا پر اسلامی اور لائیک حکومت کا بنیادی فرق یہ ہے کہ اسلامی حکومت ہر چیز سے پہلے اسلامی شعار اور اسلام کے اجتماعی احکام وقوانین کو جاری کرنے کی فکر میں رہے اور ان کو مقدم رکھے البتہ عملی میدان میں معنوی اور مادّی امور میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہوتا لیکن بالفرض اگر ان میں ٹکراؤ ہو بھی جائے تو پھر معنوی امور کو مقدم کرے۔

لھٰذا اسلامی حکومت کی ذمہ داریوں کی سر فھرست درج ذیل چیزیں ہونا چاہئے: اسلامی شعار کو قائم کرنا، قوانین اور اسلامی ثقافت کی حفاظت کرنا اور ایسی چیزوں کی روک تھام کرنا جومعاشرہ میں اسلامی ثقافت کے کمزور ہونے کا باعث بنے نیز کفر کے رسومات سے روک تھام کرنا۔

۵۔ حکومت اور اس کے کردار ی پہلو

قارئین کرام ! ہم نے اس سے پہلے بھی عرض کیا کہ حکومت پر لازم ہے کہ وہ معاشرہ کی بعض ضرورتوں کوپورا کرنے کی خود ذمہ داری قبول کرے، مثلاً دفاع اور جنگ کا مسئلہ ، جس میں منصوبہ بندی، سیاست گذاری اور اس کے اجرائی امور تمام مسائل حکومت کے ذمہ ہوتے ہیں لیکن حکومت کے مخصوص کاموں کے علاوہ یہ بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اسلامی معاشرہ کی بعض ضرورتوں کو پورا کرنے میں اپنا کردار ادا کرے جس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں :

۱۔ حکومت صرف منصوبہ بندی، سیاست گذاری اور ان کے اجراء پر نظارت رکھے اور براہ راست ان امور میں دخالت نہ کرے۔

۲۔ منصوبہ بندی ، سیاست گذاری اور نظارت کے علاوہ ان امور کو خود اپنے ذریعہ انجام دے۔

مزید وضاحت کے لئے عرض کرتے ہیں کہ معاشرہ کے کسی ایک پروجکٹ کو کامیاب بنانے کے لئے پہلے اس کے مقاصد کا روشن ہونا ضرروی ہے تاکہ اسی بنا پر منصوبہ بندی کی جاسکے، اس کے بعداس کو آگے بڑھانے کے لئے اس کے چھوٹے چھوٹے مسائل کو منظم کیا جاتا ہے کیونکہ کسی ایک پروجکٹ کے لئے مدت معلوم ہونی چاہئے شروع اور ختم ہونے کی مدت معلوم ہو اور اس کا خرچ بھی موجود ہو اس مرحلہ کے بعد جو کمپنی اس کام کو کرنا چاہے اس کو طے کیا جاتا ہے؛ یعنی یہ معین کیا جاتا ہے کہ کون لوگ اور کس شکل میں اس پروجکٹ کو انجام دیں گے ، اس کا مدیر ، اس میں کام کرنے والے اور ان کے وظائف معین کئے جاتے ہیں مثلاً امام خمینی انٹر نیشنل ایر پورٹ پروجکٹ کو لے لیجئے : پہلے یہ طے ہوتا ہے کہ کیا اس ایرپورٹ کی ضرورت ہے یا نہیں (اگرچہ یہ بات ملک کی اہم سیاست گذاری سے متعلق ہے) جس کی بنا پر یہ طے ہوتا ہے کہ اس پروجکٹ پر کام ہونا چاہئے یا نھ؟ اور جب پروجکٹ کو قبول کرلیا جاتا ہے تو پھر اس سلسلہ میں منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور یہ طے کیا جاتا ہے کہ یہ پروجکٹ کتنی زمین میں اور کس طرح کے امکانات کے ساتھ انجام دیا جائے اور کس نقشہ کے تحت ہو اس کے بعد اس کا مدیر اور اس کے شروع ہونے کی تاریخ معین کی جاتی ہے، آخر میں اس پروجکٹ کی بولی لگائی جاتی ہے تاکہ جو کمپنی کم خرچ میں اس پروجکٹ کو مکمل کرنے پر آمادہ ہو تو اس کام کو اس کے حوالے کردیا جائے اس صورت میں ایک وقت حکومت سیاست گذاری اور منصوبہ بندی کے بعد اس پروجکٹ کو بھی اپنے ھاتھوں میں لے لیتی ہے اور کوئی سرکاری شعبہ یا کوئی وزارتخانہ اس پروجکٹ پر کام کرتا ہے اور اس پروجکٹ کا خرچ سرکاری خزانہ سے اور سرکاری افراد کے ذریعہ تکمیل ہوتا ہے یا کسی پروجکٹ کو معین کرنے کے بعد کسی کمپنی کے حوالے کیا جاتا ہے تاکہ اس پروجکٹ کو عملی جامہ پھنائے، بھر حال دونوں صورتوں میں حکومت اس پروجکٹ کو عملی بنانے کا وعدہ کرتی ہے لیکن ممکن ہے کہ حکومت کسی پروجکٹ کے لئے ؛سیاست گذاری اور منصوبہ بندی کے بعد اس کام کو خود اپنے ذمہ نہ لے ، اور اس کے خرچ اور اس پر کام کرنے کے لئے دوسروں کے حوالہ کردے اور خود صرف نظارت کرتی رہے ؛ یعنی حکومت اپنی طرف سے کچھ معائنہ کار افراد کو معین کرتی ہے تاکہ قوانین اور مقررات کی خلاف ورزی کی روک تھام کی جاسکے اور نقشہ کے مطابق عمل نہ کرنے سے روکا جاسکے نیز عوام الناس کے مال کو تلف اور برباد ہونے سے روک تھام کی جاسکے اور کوشش یہ کی جاتی ہے کہ پروجکٹ اسی اصل نقشہ کے تحت عمومی مصالح کے قوانین کے مطابق عملی جامہ پھنایا جاسکے۔

۶۔ ”ٹوٹالیٹر“(۱) ( Totalitair ) اور ”لیبرل“حکومت کا مڈل

ان پروجکٹ کے مقابلہ میں معاشرہ کی ضرورتیں مثلاً جنگ اور دفاع، تعلیم وتربیت، علاج معالجہ اور شھر کی صفائی وغیرہ کا انتظام قاعدتاً حکومت کے ذمہ ہوتا ہے، لیکن یہاں پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کی ذمہ داری صرف ان ضرورتوں میں منصوبہ بندی اور حد اکثر نظارت ہوتی ہے؟ یا منصوبہ بندی اور نظارت کے علاوہ ان کو جاری کرنے کی بھی ذمہ داری اسی کی ہوتی ہے، اور بنیادی طور پر اسلام کی نظر میں کونسا طریقہ صحیح ہے؟ کیا اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے بنانے کا خرچ حکومت کے ذمہ ہے؟ یا اس کا کچھ حصہ حکومت کے ذمہ ہوتا ہے اور کچھ حصہ عوام الناس کے ذمہ ہوتا ہے؛ جیسا کہ اکثر ممالک میں منجملہ ہمارے ملک میں ایسا ہوتا ہے کہ ابتدائی تعلیم سب کے لئے ضروری ہے اور اس کا خرچ بھی حکومت کے ذمہ ہے، لیکن یونیورسٹی کی تعلیم کا خرچ حکومت کے ذمہ نہیں ہے بلکہ حکومت یونیورسٹی میں فیس لے کراعلیٰ تعلیم دیتی ہے، اگرچہ بعض ملکوں میں یونیورسٹی کی تعلیم بھی مفت ہوتی ہے۔

بعض حکومتوں میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ معاشرہ کے زیادہ سے زیادہ امور حکومت کے ذریعہ انجام پائیں ، اور یہ طریقہ کار بڑے بڑے مالداروں کی ظالمانہ رفتاراور اپنے ذاتی مفاد کے لئے معاشرہ کے فوائد کو خطرہ میں ڈالنے والے افراد کے مقابلہ میں ایک عکس العمل ہے کیونکہ یہ جامعہ گرا )معاشرہ کی فکر رکہنے والا ) نظریہ اور سوسیالیسٹ " Socialiste "، کمیونسٹ " communiste " ملکوں کا وجود میں آنا؛ مالدار ملکوں میں عوام الناس پر ہونے والے ظلم وستم کا نتیجہ تھا کیونکہ مغربی ممالک میں غریبوں کے حق میں مالداروں نے اس قدر ظلم کیا جس کے نتیجہ میں یہ شدت پسند نظریہ وجود میں آیا کہ تمام کام حکومت کے ذمہ ہو،اور حکومت کو ہونے والے عام فائدوں کو تمام لوگوں کے درمیان برابر سے تقسیم کیا جائے تاکہ تمام لوگ اجتماعی زندگی کے امکانات سے بھرہ مند ہو سکیں ، در حقیقت عام زندگی کے امکانات سے تمام لوگوں کا برابر ہونا اور عوام الناس سے ظلم کو دور کرنا؛ معاشرتی ، سیاسی اور معاشی مسائل میں یہ نظریہ سوسیالیسٹ کا ہے جو دس بیس سال پہلے سے کافی رنگ لایا ہے اور میٹریالیزم(۲) " Materialism " نظریہ کے ساتھ نیز فقر وغربت کو دور کرنے اور تمام لوگوں میں مساوات ایجاد کرنے جیسے نعروں کے ذریعہ بڑے بڑے ملکوں میں (قدیم) روس اور چین وغیرہ میں حکومت کرنے لگا اور اس کے بعد سے مالدار ممالک بلوک " Bloc"(۳) کا سخت رقیب مانا جانے لگا۔

چنانچہ اس نظریہ کی جذابیت اور اس کے نعرے ہمارے ملک میں بھی بعض لوگوں کوبھت اچھے لگے اور ایک مدت تک اس نظریہ کی حمایت ہونی لگی، نیز بھت سے افراد اس کے طرفدار بن گئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گذشتہ زمانہ میں (انقلاب اسلامی سے پہلے) ہمارے ملک میں بھی سوسیالیسٹی اور کمیونسٹی پارٹیاں تشکیل پائیں لیکن انقلاب اسلامی کی وجہ سے اس کی جڑیں ھل گئیں ، اور اس کا بوریا بستر لپٹ گیا، تاریخی تجربہ نے یہ ثابت کیا کہ وہ حکومت (جو مالداروں اور صاحب قدرت لوگوں کو سوء استفادہ کرنے سے روک تھام کے نعرہ سے برسر پیکار آتی ہے ) اس کا سیاسی، اجتماعی اور معاشی معاملات میں تمام کاموں میں ذمہ داری لینا صحیح اور کار آمد نہیں ہے، اور جلد ہی ان کے خاتمہ کا باعث اور کمیونسٹی بلوک کے ممالک کا شیرازہ بکھرنے کا سبب ہے مخصوصاً ہمارے شمالی پڑوسی ملک کا حال سب نے دیکھاکہ کمیونسٹی نظریہ کی اجتماعی اور سیاسی بنیادیں کس طرح ھلیں اور روس جیسی عظیم طاقت کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا اور اس ملک کی شھنشاہیت کا جنازہ نکل گیا۔

قارئین کرام ! مذکورہ نظریہ بھی فلسفہ سیاست میں ایک نظریہ ہے جس کی بنا پر حکومت معاشرہ کے مختلف امور میں زیادہ سے زیادہ دخالت رکھتی ہے ، تاکہ مالداروں اور صاحب قدرت لوگوں کو ناجائز فائدہ اٹھانے سے روکا جاسکے (لیکن ہم اس وقت مذکورہ نظریہ کی کمزرویاں نہیں بیان کرنا چاہتے ) اس کے مقابلہ میں کمیونسٹ " communiste "، سوسیالیسٹ " Socialiste " اورلیبرل نظریات ہیں جن کی بنا پر معاشرہ کے تمام امور خود عوام الناس کے ذمہ ہوتے ہیں ، اور اپنے کام میں آزاد ہوتے ہیں کہ جس طرح چاہیں عمل کریں اس نظریہ میں حکومت معاشرہ کے کاموں میں کم سے کم دخالت کرتی ہے نیز اس کی دخالت ضروری حد تک اور معاشرہ میں بد نظمی کو روکنے کے لئے ہوتی ہے۔

ظاہر سی بات ہے کہ لیبرل نظریہ میں چونکہ عوام الناس اقتصادی، سیاسی اور اجتماعی امور سے مکمل طور پر آزاد ہوتے ہیں اور جو افراد زیادہ امکانات اور قابلیت رکھتے ہیں تو وہ لوگ تمام ہی چیزوں سے خصوصاً معاشی امور میں بھت زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسروں سے مقابلہ جیت جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں اقتصادی کاروبار ان کو بھت زیادہ فائدہ پہنچاتا ہے، جبکہ ان کے مقابلہ میں کمزور اور غریب لوگ جن کے پاس کم امکانات ہوتے ہیں وہ مزید غریب اورکمزور ہوتے چلے جاتے ہیں ۔

لوگوں کے درمیان یہ اختلاف اورمعاشرہ کے بھت کم مالدارافراد کا عمومی اور ملی سرمایہ کا مالک بن جانا، نیز معاشرہ کے دوسرے طبقات میں فقر وغربت کا بڑھنا ؛ یہ سب سبب بنتے ہیں کہ عوام الناس اعتراض کرے اور حکومت کے خلاف مظاہرے کرنے لگیں اور پھر ان کو سیاست میں آنے نہیں دیا جاتا، اس کے بعد کیمونسٹ نظام کا تشکیل پانا جس میں معاشرہ کے غریب لوگوں کا زیادہ دھیان رکھا جاتا ہے لیکن لیبرل ملکوں میں بھی حکومت کے خلاف مظاہروں اور انقلاب سے روکنے کے لئے کم در آمد لوگوں کو کچھ سھولتیں دی جاتی ہیں ۔

اس وقت یورپی ممالک جن کے بھت سے ملکوں میں لیبرل نظام کی حکومت ہوتی ہے ان میں بھی سوسیالیسٹ " Socialiste " پارٹیاں اپنی کارکردگی دکھاتی ہیں ، یہاں تک کہ بعض حکومتوں میں سوسیالیسٹ یاسوسیال ڈیموکریٹک پارٹیاں کامیاب ہوتی ہیں مثلاً انگلینڈ کے پارلیمنٹ کے انتخابات میں ”کارگر پارٹی“کبھی کبھی اکثریت سے کامیاب ہوجاتی ہے صرف اسی وجہ سے کہ اس کا نظریہ سوسیالیسٹ ہے اور اس نظریہ میں غریب اور کم درآمد لوگوں کو خیال رکھا جاتا ہے اور یہ بھی اس وجہ سے ہوتا ہے کہ کھیں معاشرہ کا غریب اور کم در آمد طبقہ حکومت کے خلاف انقلاب برپا نہ کردے؛ کیونکہ جب معاشرہ کے تقریباً سبھی طبقات کے لئے عام سھولتیں مھیا ہوں گی تو پھر غریب عوام الناس حکومت کے خلاف قدم نہیں اٹھائیں گے عوام الناس کی سھولیات میں جن چیزوں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے ان میں سے کچھ در ج ذیل ہیں :

۱۔ اپاہج اور بے کار لوگوں کے لئے بیمھ۔

۲۔میڈیکل بیمہ۔

۳۔ سرکار کی طرف سے کم در آمد لوگوں کے لئے مکان بنوانا اور ان کو کم سے کم کرایہ پر دینا۔

حکومتی سیاسی فلسفہ میں ایک دوسرے کے مخالف نظریات پائے جاتے ہیں :

پھلا نظریہ سوسیالیسٹی ہے جس میں معاشرہ کو اصل مانا جاتا ہے اور معاشرہ کے مفاد کو ذاتی مفادپر مقدم کیا جاتا ہے، کیونکہ اس نظریہ میں معاشرہ پر توجہ کی جاتی ہے چنانچہ اس نظریہ کو عملی بنانے کے لئے حکومت کی ذمہ داریوں اور دخالت میں اضافہ ہوجاتا ہے ،اور معاشرہ کے اجتماعی امور میں حکومت کی ذمہ درایوں کا دائرہ وسیع ہوجاتا ہے تاکہ عمومی سرمایہ کو غارت ہونے اور غریب و مستضعف لوگوں پر ظلم وستم ہونے سے روک تھام کرسکے۔

دوسرا نظریہ لیبرل ہے جس میں خاص دلیلوں کے تحت اس چیز پر اعتقاد رکھا جاتا ہے کہ حکومت کو معاشرہ کے امور میں کم سے کم دخالت کرنی چاہئے۔

قارئین کرام ! آج کل تقریروں ، اخباروں ، مقالوں اور کتابوں میں جو لکھا جاتا ہے کہ حکومت کو کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ دخالت کرنی چاہئے انہیں دو نظریات کی بنا پر ہے اور جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ یورپی اور مغربی ممالک میں اکثر لیبرل نظریہ پایا جاتا ہے اور ایسی حکومتوں میں (وہ ادارے بھی جو ہمارے ملک میں سرکاری ہوتے ہیں ) اکثر ادارے پرائیویٹ ہوتے ہیں ، مثلاً مذکورہ ممالک میں محکمہ ڈاک یا محکمہ ٹیلی فون سرکاری نہیں ہوتے بلکہ پرائیویٹ ہوتے ہیں ، اور ڈاک کا سارا کام، نیز مختلف شھروں میں فون وغیرہ کی خدمات پیش کرنا پرائیویٹ کمپنیاں کرتی ہیں ، وھاں پر حکومت صرف منصوبہ بندی اور نظارت کرتی ہے اسی طرح بجلی،پانی اور معاشرہ کے دیگر ضروریات کو پرائیویٹ کمپنیاں کرتی ہیں لیکن ہمارے ملک میں یہ چیزیں حکومت کے ذمہ ہوتی ہیں ۔

۷۔ اسلامی نظریہ کے تحت حکومت کیسی ہونا چاہئے

قارئین کرام ! یہاں پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ نظریات میں سے اسلام کس نظریہ کو مناسب سمجھتا ہے؟ کیا حکومت کی وسیع پیمانے پر دخالت کو پسند کرتا ہے یا حکومت کی کم سے کم دخالت اور معاشرہ کے امور کو عوام لناس کے سپرد کرنے کو پسند کرتا ہے؟ جیسا کہ ہم نے پہلے جلسے میں عرض کیا کہ عوام الناس کا وسیع پیمانے پر مختلف میدان میں شرکت کرنا حقیقت میں ”جامعہ مدنی“ کے ایک معنی میں سے ہے، اور اس معنی کے لحاظ سے اجتماعی کاموں کو خود عوام الناس پر چھوڑ دیا جانا چاہئے کیونکہ جب ہم اسلامی اصول کی بنیاد پر حکومت کے سلسلہ میں اسلامی نظریہ کو دریافت کرنا چاہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلہ میں اسلام کا رویہ درمیانی ہے؛جو آرزوں اور حقیقت دونوں میں شامل ہوتا ہے۔

وضاحت:

بھت سی وہ تھیوری جو یونیورسٹیوں ، حوزات علمیہ یا دیگر جلسوں میں بیان ہوتی ہیں ؛بھت اچھی اور دلربا ہوتی ہیں ، لیکن ایک لحاظ سے یہ فقط خیالی اور آرمانی ہوتی ہیں جن کا عملی

میدان میں کوئی وجود نہیں ہوتا مثلاً یہ مفروضہ کہ عوام الناس کا کرداراتنا بلندکرنے کے لئے کوشش کی جائے تاکہ پھر وہ قانون کی خلاف ورزی نہ کرے اور پھر ان کو کسی روکنے والے قانون یا حکومت کی ضرورت نہیں ہے اس فرضیہ کا تصوربھت اچھا ہے؛ لیکن عملی میدان میں کیا کبھی ایسا ہوسکتا ہے اور وہ بھی اس حد تک کہ اس کو مجری قانون (حکومت) کی کوئی ضرورت نہ ہو دوسری طرف اس وجہ سے کہ معاشرہ میں ہمیشہ قانون کی خلاف ورزی ہوتی رہی ہے یہ بات بھی قابل قبول نہیں ہے کہ حکومت کی طرف سے اتنی سختی کی جائے کہ پھر کوئی قانون شکنی کی ہمت نہ کرسکے جیسا کہ بعض مارکسسٹ " Marxist " ، فاشیسٹ(۴) " Fasciste " اور پولیس کی حکومتوں میں ہوتا ہے کہ سرکاری قوانین پر شدت کے ساتھ عمل کیا جاتا ہے، اور پولیس اور فوج اس طرح سے مجرموں کے ساتھ برتاؤ کرتی ہے کہ (اس کو دیکہ کر) پھر کوئی قانون شکنی کی ہمت نہیں کرتا جس کا نمونہ ہمارا پڑوسی ملک عراق ہے جس نے ہم کو ۸ سال تک جنگ کرنے پر مجبور کیا کیونکہ اس ملک میں فوجی حکومت ہے جو ہر قسم کی مخالفت اور اعتراض کا گلا گھونٹ دیتی ہے یہاں تک کہ اگر کسی سے کوئی چھوٹی سی بھی حرکت خلاف قانون دیکھی گئی تو اس کو عدالت کے فیصلہ کے بغیر ہی گولی ماردی جاتی ہے یا کسی دوسرے طریقہ سے اس کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔

معاشرہ کے غریب اور کم در آمد لوگ جس وقت رشوت اورمھنگائی کا بازار گرم دیکھتے ہیں اور ان کے سامنے مشکلیں آتی ہیں تو یہ آرزو کرتے ہیں کہ اے کاش ان رشوت خور اور گران فروش لوگوں سے شدت کے ساتھ برتاؤ کیا جائے اور ان میں سے چند لوگوں کو سزائے موت دیدی جائے تاکہ پھر کوئی رشوت خوری اور گرا نفروشی کی جرات نہ کرے!! اس طرح کے واقعیات سوسیالسٹی ممالک میں آئے دن ہوتے رہتے ہیں ۔

لیکن ہمیں اس سلسلہ میں اسلامی نظریہ دیکہنا چاہئے کہ اسلام مجرموں اور خلاف ورزی کرنے والوں سے شدت کے ساتھ برتاؤ کو کیسا سمجھتا ہے؟ کیا اسلامی نظریہ کے تحت مجرموں سے اس قدر شدت کے ساتھ پیش آنا صحیح ہے کہ اس کے بعد کوئی بھی خلاف ورزی کی جرات نہ کرے؟ یا مجرموں کے ساتھ اس قدر شدت نہ کی جائے بلکہ ان کو حتی الامکان آزادی دی جائے حکومت کی دخالت اور قوانین کا لاگو کرنا صرف معاشرہ میں آشوب اور ظلم وستم سے روک تھام کے لئے ہو۔

قارئین کرام ! قرآن کریم اور احادیث شریف سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلام کی نظر میں اسلامی حکومت ایک درمیانی اور معتدل راستہ اختیار کرے۔

اسلام کے فوجداری قوانین؛ بعض جرائم ، اور بعض عفت کے منافی اعمال پر بھت سخت سزا ئیں معین ہیں ، لیکن اسلام ان جرائم کو ثابت کرنے کے لئے خاص شرائط اور بعض محدویت کا قائل ہے جن کی وجہ سے صرف کم ہی جرائم عملی میدان میں ثابت ہوسکیں ، اور ان قوانین کے نتیجہ میں سخت سزائیں بھت کم ہی موارد (مثلاً سال میں ایک یا دو مورد) میں دی جاتی ہیں ۔

مثلاً قرآن مجید میں چور کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا ایْدِیَهمَا جَزَاءً بِمَا کَسَبَا ) (۵)

”چور مرد اور چور عورت دونوں کے ھاتہ کاٹ دو کہ یہ ان کے لئے بدلہ ہے “

( الزَّانِیَةُ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْهمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلاَتَاخُذْکُمْ بِهمَا رَافَةٌ فِی دِینِ اللهِ إِنْ کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلْیَشْهدْ عَذَابَهمَا طَائِفَةٌ مِنْ الْمُؤْمِنِینَ ) (۶)

” زنا کار عورت او رزنا کار مرد دونوں کو سو سو کوڑے لگائیں اور خبردار ! دین خدا کے معاملہ میں کسی مروت کا شکار نہ ہوجانا اگر تمھارا ایمان اللہ اور روز آخرت پر ہے اور اس سزا کے وقت مومنین کی ایک جماعت کو حاضر رہنا چاہئے۔“

لیکن اس طرف سے اسلام نے زنا کے ثابت ہونے کے شرائط بھت سخت قرار دئے ہیں کیونکہ اسلام کا حکم یہ ہے کہ زنا کرنے والے کو یہ سزا اس وقت دی جاسکتی ہے جبکہ چارشاہد (گواہ) عادل اپنی آنکھوں سے زنا ہوتے دیکھیں اور گواہی دیں ،اور سب کے سب گواہی دینے کے لئے عدالت میں حاضر ہوں ، اور اگر چاروں عادل گواہی دینے کے لئے عدالت میں حاضر نہ ہوئے تو نہ صرف جرم ثابت نہیں ہوگا بلکہ ان پر ”حدّقذف “(۷) جاری ہوگی، کیونکہ ان کی گواہی قابل قبول نہیں ہے اور خود ان کو ایک مومن پر تھمت لگانے کے جرم میں کوڑے لگائے جائیں گے۔

اسی طرح اسلام اجتماعی مسائل میں ، حکومت کو معاشرہ کی تمام ہی ضرورتوں کو پورا کرنے یہاں تک کہ غیر ضروری ضرورتوں کو پورا کرنے کا ذمہ دار نہیں ٹھھراتا اور نہ ہی حکومت کو مکمل طریقہ پر دخالت سے روکتا ہے؛ بلکہ حکومت کی دخالت زمان ومکان کے لحاظ سے ہوتی ہے اور معاشرہ کی بعض ضرورتوں کو پورا کرنے کا ذمہ دار ٹھھراتا ہے۔

کبھی کبھی اس طرح کے حالات پیدا ہوتے ہیں کہ ”جامعہ مدنی“ کی شکل ”مدینة النبی“ کی شکل پر ہو جس کی بنیاد یہ ہے کہ جو کام عوام الناس خود انجام دے سکتے ہوں ، تو اس میں خود اپنی مرضی سے شرکت کریں مثلاً تعلیم وتربیت، بجلی، پانی وغیرہ جیسی ضرورتوں کا خود انتظام کریں ؛ مگر بعض خود غرض اور فرصت طلب افراد ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے ہوں اور ان کا لالچ اوردوسروں کے حقوق کو غصب کرنے کی وجہ سے معاشرہ کے غریب طبقہ کو ان کے حقوق سے محرومی کا سبب ہوتا ہو تو اس صورت میں حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ خود غرض اور مالدار لوگوں سے مقابلہ کرنے کے لئے اجتماعی میدان میں اترے، اور کمزور لوگوں کے حقوق کا دفاع کرے، یا دوسرے طریقوں سے اپنا کردار نبھائے:

مثلاً اگر پرائیویٹ کمپنی ٹیلیفون خدمات بھت مھنگی کردے تو پھر حکومت کواپنی طرف سے جو سستے داموں میں ٹیلیفون خدمات پیش کرے یا خدمات کرنے والے محکموں کو کلی طور پر اپنے ذمہ لے لے۔

۸۔ متحد حکومتوں کے نقائص

قارئین کرام ! مذکورہ نظریہ کی بنا پر اسلامی نظریہ کی اصل یہ ہے کہ معاشرہ کی ضرورتیں خود عوام الناس کے ذریعہ پوری ہوں ، لیکن اگر خود غرض، فائدہ پرست اور مال ودولت کے لالچی افراد یا اس طرح کے گروہ کی وجہ سے دوسروں کے حقوق ضائع ہورہے ہوں تو پھر حکومت کو عملی میدان میں اترنا چاہئے، اور مناسب طریقہ کار، زمان ومکان کے لحاظ سے مصلحتوں کی رعایت کرتے ہوئے؛ خلاف ورزیوں سے روک تھام کے لئے ضروری قدم اٹھائے کیونکہ یہی راستہ درمیانی اور معتدل ہے، کیونکہ عملی طریقہ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ معاشرہ کی تمام فعالیتوں کو حکومت کے ذمہ قرار دینا؛ بھت سی دلیلوں کی بنا پر صحیح اور مفید نہیں ہے مثلاً اگر حکومت ؛معاشرہ کی تمام ہی ضرورتوں کو پورا کرنا چاہے تو پھر اس کو بھت بڑے سسٹم کی ضرورت ہے اور تقریبا (بیس فی صد ) لوگوں کو سرکاری نوکریاں دینی پڑینگی اور اس طرح کے طریقہ کار پر تین اشکال ہوتے ہیں :

پھلا اشکال:

اگر تمام ہی کام سرکاری طریقہ سے انجام دئے جائیں تو پھر حکومت کو ایک بھت بڑے خرچ کی ضرورت ہے نیز معاشرہ کے لئے بھی بھت سی مشکلات پیش آسکتی ہیں ۔

دوسرا اشکال:

(یہ اہم اشکال ہے) جس وقت اس طرح کا بھت بڑا سسٹم بنے تو اس کے درمیان خلاف ورزی بھی زیادہ ہوگی، جس وقت کم، محدود اور بہتر ین افراد پر یہ سسٹم مشتمل ہو تو اس میں خلاف ورزی بھی کم اور بھت معمولی ہوگی، لیکن اگر ایک عظیم سسٹم بنایا گیا اور تمام امور میں دخالت کرنے کا حق اس کو ہوگیا تو پھر اس میں خلاف ورزی اور ناجائز فائدہ اٹھانے کے امکانات بھی زیادہ ہوجائیں گے مثال کے طور پر اگر حکومت مھنگائی روکنے کے لئے کوئی ادارہ بنائے جو دکانوں پر جاکر اس سلسلہ میں رپورٹ تیار کرکے حکومت تک پہنچائے لیکن اگر ہر دکان کے لئے ایک معائنہ کرنے والا معین کرے تو پھر آپ اندازہ لگائیں کہ کتنے لوگوں کو نوکری دینی ہوگی، اس کے علاوہ ان کے درمیان بھی خلاف ورزی زیادہ ہوں گی، اور ان میں سے بھت سے لوگ دکانداروں سے رشوت لیں گے تاکہ ان کے خلاف رپورٹ نہ بھیجیں جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ حکومت کو ان معائنہ کاروں پر ایک اور ادارہ بنانے کی ضرورت ہوگی۔

جبکہ تجربہ سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اس طرح کی منصوبہ بندی کامیاب نہیں ہوئی ہے اور اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوا ہے بلکہ خلاف ورزیوں اور رشوت خوری میں اضافہ ہوا ہے۔

تیسرا اشکال:

یہ اشکال(بھی) اسلام کی نظر سے اہم ہے ، کیونکہ اسلام اس لئے آیا ہے کہ عوام الناس اپنی مرضی اور اختیار سے خود سازی اور نیک کام میں رغبت حاصل کریں ، طاقت کے بل بوتے پر نہیں کیونکہ انسان کا کام اس وقت با اہمیت ہوتا ہے جب وہ اپنی مرضی اور اختیار سے انجام دے، لیکن اگر کسی کام کو مجبوری میں انجام دیا ہے تو پھر اس کام پر وہ معنوی اثر نہیں ہوگا جو اسلام چاہتا ہے اور اصلی مقصد پورا نہیں ہوگا۔

حوالے

(۱)ٹوٹالیٹر اس حکومت کو کھتے ہیں جو ایک گروہ کے نفع می ں قوانین بنائے اور اپنے مخالفین کو مخفی پولیس وغیرہ کے ذریعہ نابود کرنے کی درپے ہو، (مترجم)

(۲) وہ مادی فلسفہ جو معنویات کا منکر ہے اور صرف مادہ کو پہنچانتے ہیں نیز خلقت کائنات کو مادہ کے اجزاء کی حرکت سے جانتے ہیں ،(مترجم)

(۳ ) وہ چند متحد ملک جن کی سیاسی روش ایک ہو ( مترجم)

(۴)(ظالمانہ طریقہ حکومت، جو پہلی عالمی جنگ کے بعد اٹلی می ں رائج تھا لیکن آج کل ڈکٹیٹر شب " Dictaorship " کے معنی می ں استعمال ہوتا ہے، (مترجم )

(۵)سورہ مائدہ آیت ۳۸

(۶)یسورہ نور آیت ۲

(۷) ” حدّ قذف “ زنا کی تھمت لگانے والے پر ۸۰ کوڑے لگائے جاتے ہیں ،جس کی صراحت سورہ نور کی آیت نمبر ۴ می ں وارد ہوئی ہے (مترجم)