تیسواں جلسہ
اسلامی حکومت سے ولایت مطلقہ فقیہ کی نسبت
۱۔ گذشتہ مطالب پر ایک نظر
قارئین کرام ! ہماری یہ بحث ”اسلامی سیاسی نظریھ“ کے تحت ہے اور ہم نے اس بحث کو دو عام حصوں میں تقسیم کیا، جس کا پہلا حصہ قانون اور قانون گذاری کے سلسلے میں تھا اور دوسرا حصہ قانون جاری کرنے کا طریقہ کار اور معاشرہ کا نظام یا بالفاظ دیگر حکومت اور قوہ مجریہ کی اہمیت ہے دوسرے حصہ میں فلسفہ سیاست کے بارے میں لکھی گئی کتابوں میں مختلف نظریات اور مختلف طریقہ کار بیان کئے گئے ہیں ، لیکن ہم نے اپنے لحاظ سے اس طریقہ کو اپنایا ہے کہ پہلے حکومت کی ضرورت کے بارے میں بحث کریں ، تاکہ اس ضرروت کے تحت اس کے وظائف کی بھی پہنچان ہوجائے اس کے بعد حکومت کی ذمہ داریوں کے پیش نظر اس کے اختیارات کے بارے میں بھی معلومات ہوجائے۔
آخری چند جلسوں میں ہماری بحث یہ تھی کہ حکومت کی مخصوص ذمہ داریوں میں سے معاشرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنا بھی ہے وہ ضرورتیں جن کو انفرادی یا گروہی صورت میں انجام نہیں دیا جاسکتا یا ان کو انجام دینے والا کوئی نہیں ہوتا، اور اگر حکومت اپنا قدم نہ بڑھائے تو پھر وہ ضرورتیں پوری نہیں ہوپاتیں انہیں ضرورتوں میں سے کچھ اس طرح ہیں : دفاعی طاقت کو بڑھانا، بیرونی دشمن کے مقابلہ میں دفاع کرنے کے لئے مکمل طور پر تیاریاں کرنا، اور جنگ کو صحیح اور بہتر طریقہ سے ادارہ کرنا،اندرونی ناخوشگوار حالت سے مقابلہ کرنا، اندورن ملک میں امن وامان قائم کرنا، اسلامی قوانین اور مقرارت (وہ قوانین جو اصل ہیں یا جن کو پارلیمنٹ طے کرتا ہے) کو نافذ کرنا، عمومی مال پر نظارت کرنا اور ان سے صحیح طریقہ سے فائدہ اٹھانامثلاً انفال (جیسے معادن (کان) دریا اور جنگل وغیرہ) اور ان چیزوں کو استعمال کرنا جن کا کوئی خاص مالک نہیں ہے،اسی طرح معاشرہ کے ان لوگوں کی سرپرستی کرنا کم سن ہونے یا معلول (اپاہج) یا کم عقلی کی بنا پر سرپرستی کے نیاز مند ہوتے ہیں جن کا کوئی سرپرست نہیں ہوتا؛ نیز اسلامی حکومت کے سب سے مہم وظیفہ یعنی اسلامی شعار قائم کرنا ، احکام اسلامی اور حدود اسلامی کو جاری کرنا نیز اسلامی قوانین کی خلاف ورزی سے روک تھام کرنا ہے، اس آخری وظیفہ کے علاوہ دیگر تمام ذمہ داریاں دنیا بھر کی حکومتوں کے بھی ہوتے ہیں ،اور جو چیز اسلامی حکومت کو دوسری حکومتوں سے ممتاز بنادیتی ہے یہی اہم اور عظیم وظیفہ ہے ، در حقیقت اس کو اسلامی حکومت کے وظیفوں کی سر فھرست قرار دینا چاہئے۔
۲۔ اسلامی حکومت کے وظائف اور اختیارات کا برابر کا توسعہ
اسلامی حکومت کے وجودی فلسفہ اور اس کی ذمہ داریوں کی وضاحت کے بعد ،حکومت کے وہ اختیارات جن کی بنا پر وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتی ہے، روشن ہوجاتی ہیں ؛ کیونکہ اگر حکومت کے ذمہ کچھ وظائف معین کئے جائیں ، لیکن ان وظائف پر عمل کرنے کے لئے ضروری اختیارات نہ دئے جائیں تو وہ وظائف فائدہ مند نہیں ہوسکتے؛ چنانچہ روز مرہ کے مسائل میں یہ بات بالکل واضح وروشن دکھائی دیتی ہے مثال کے طور پر اگر کوئی شخص گھر میں کوئی کام اپنے بیٹے کے سپرد کرے لیکن اس کو انجام دینے کے لئے ضروری وسائل اس کو نہ دے یا کسی مزدور کو کسی کام کے لئے معین کیا جائے لیکن کام میں آنے والے وسائل فراہم نہ کرے یا اس کو وسائل کو ھاتہ لگانے کی اجازت نہ دے؛ تو بیشک کے ایسا کام بے ہودہ اور لغو ہے اور ہر صاحب عقل ایسے شخص کی مذمت کرے گا۔
جس وقت کسی کو کوئی ذمہ داری دی جاتی ہے تو اس کام کے لئے ضروری اختیارات بھی دئے جاتے ہیں تاکہ ان کے استعمال سے اپنے وظائف کو پورا کرے، اسی بنا پرہم جس وقت دوسری حکومتوں کے مقابلہ میں اسلامی حکومت کی مہم ذمہ داریوں کو ملاحظہ کرتے ہیں تو پھر اس حکومت کے اختیارات او رامکانات بھی دوسری حکومتوں سے زیادہ ہونے چاہئیں تاکہ بہتر ین طریقہ سے ان وظائف پر عمل پیرا ہوسکے اسلامی حکومت معاشرہ کی جائز ضرورتوں کو پورا کرنے قانونی اور جائز وسائل اور امکانات کو اختیار کرے ؛ ورنہ وہ اپنے وظائف پر عمل ہی نہیں کرسکتی اس بات کو مزید روشن کرنے کے لئے ایک مثال عرض کرتے ہیں :
جب ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل ٹکنالوجی کی ہر روز ترقی ہورہی ہے اور قدیم زمانے کے حالات بدل رہے ہیں اور انسانی معاشرہ کے لئے نئے نئے حالات پیدا ہورہے ہیں تو پھر انسانی زندگی کے معاملات بھی مختلف طریقوں کے ہوجائیں گے، یہاں تک کہ اب انسان نے آسمان اور ہوا پر قبضہ کرلیا ہے جب تک انسان نے گاڑی نہیں بنائی تھی تو اس وقت گلی گوچے اور سڑک وغیرہ باریک ہوتی تھی جھاں سے صرف گدھا اور خچر وغیرہ ہی گذر سکتے تھے ، پرانے شھروں کے بعض محلوں میں اب بھی اس طرح کی گلیاں موجود ہیں ، لیکن اب جب کہ گاڑیوں کا زمانہ آگیا ہے اور اکثر لوگ گاڑیوں اور کاروں سے شھر میں آتے جاتے ہیں ، تو اس بات کی ضرورت ہے کہ ان گلی گوچوں کو چوڑا کیا جائے اور ان کی جگہ بڑی سڑک بنائی جائے تاکہ گاڑیاں آسانی سے رفت وآمد کرسکیں ، نیز احتمالی خطروں کی بھی روک تھام کی جاسکے۔
جس وقت حکومت یا حکومت کے کاگزار گلی کوچوں اور سڑکوں کو چوڑا کرنا چاہیں تو ان کو عوام الناس کے مکانوں کو توڑنا پڑے گا، تو اگر حکومت کی ذمہ داری ہو تو سڑکوں کو وسیع بنائے تاکہ رفت وآمد میں کوئی مشکل نہ ہو، لیکن اس کو لوگوں کے مکانوں کو توڑنے کا حق نہ ہو، تو حکومت سے ایسے کام کی درخواست لغو وبے ہودہ اور نہ ہونے والا ہے پس معلوم یہ ہوا کہ حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے اس طرح کے اختیارات کا ہونا ضروری ہے اور اور اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے ضروری وسائل فراہم ہونا ضرروی ہے؛ البتہ حکومت کو چاہئے کہ لوگوں کے ہوئے نقصان کا جرمانہ ادا کرے اور ان کے لئے مزید سھولیات کا انتظام کرے تاکہ وہ لوگ دوبارہ اپنے مکان بنا کر زندگی بسر کریں ۔
۳۔ حکومتی اختیارات سے ولایت مطلقہ فقیہ کی نسبت
قارئین کرام ! حکومت اسلامی کے وظائف پر عمل کرنے کے لئے ضروری اور کافی اختیارات منجملہ عوام الناس کی ملکیت میں ضرورت کے موقع پر تصرف کرنے کا حق ہونے کو مطلق ولایت فقیہ کھا جاتا ہے۔
قرآن کریم، احادیث معصومین علیہم السلام اور فقھا ء کرام کے بیانات میں لفظ ”حکومت“ کی جگہ لفظ ”ولایت“ کا استعمال ہوا ہے، اور ان چیزوں میں اس کلمہ کے استعمال کی دلیل سے صرف نظر کرتے ہوئے لفظ ”ولایت“ لفظ ”حکومت“سے زیادہ مناسب ہے (جیسا کہ مقام معظم رہبری حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای دامت برکاتہ نے فرمایا ہے کہ لفظ ”ولایت“ کا بار لفظ ”حکومت“سے زیادہ ہے کہ لفظ ”حکومت“میں ایک طرح کی زور گوئی اور تحکم پایا جاتا ہے) کیونکہ لفظ ”ولایت“ میں محبت اور عاطفہ شامل ہے؛ شاید اسی وجہ سے لفظ ”ولایت“، لفظ ”حکومت“ کی جگہ استعمال ہوا ہے بھر حال لفظ ”ولایت“ بالکل لفظ ”حکومت“ کی جگہ استعمال ہوا ہے اور جو شخص معاشرہ پر حکومت کو ضروری سمجھتا ہے شرعی لحاظ سے معاشرہ کے لئے ولایت کو ضروری سمجھتا ہے۔
چنانچہ اس مقدمہ کی بنا پر عرض کرتے ہیں کہ اگر یہ ولایت ان تمام اختیارات رکھتی ہو جن کے ذریعہ اپنے وظائف پر عمل کرسکے اور معاشرہ کی مختلف ضرورتوں کو جائز اور شرعی نقطہ نظر سے پوری کرے ، تو اس ولایت کو ”ولایت مطلقھ“ کھا جاتا ہے لیکن اگر ”ولی امر“ کے لئے ضرورت کے وقت ولایت ہو یعنی صرف لوگوں کی جان و مال کے خطرہ کے وقت اس کو تصرف کرنے کا حق ہو اور اس کو گلی اور سڑکوں کی وسعت یا مختلف مقامات پر پارک بنانے یا شھر کو خوبصورت بنانے کی اجازت نہ ہو تو اس ولایت کو محدود اور غیر مطلق کھا جاتا ہے۔
۴۔ مخالفین کی طرف سے ولایت مطلقہ کے بارے میں شک وشبھات
قارئین کرام ! جو کچھ ہم نے بیان کیا وہ چیزیں مخالفین بد نیتی رکہنے والے عوام الناس (اوربالخصوص) جوانوں کے ذھنوں کو مخدوش کرنے کے لئے بیان کرتے ہیں اور ”ولایت فقیھ“ کی تھیوری کو برعکس پیش کرکے درج ذیل مغالطہ انجام دیا:
پھلے تو انھوں نے لفظ ”ولایت“ کے بارے میں شبہ ایجاد کیا کہ لفظ ”ولایت“ بچوں اور دیوانوں کے لئے استعمال ہوتا ہے”ولی“ یعنی ”سرپرست“ اور جو بچے یا پاگل لوگ اپنی زندگی کو چلانے کے لئے کافی عقل وتدبیر نہیں رکھتے تو ان کو سرپرست کی ضرورت ہوتی ہے قارئین کرام! یہ مغالطہ بالکل واضح اور ورشن ہے، اور جیسا کہ اہل بیت علیم السلام کی ولایت بھی سرپرستی کے معنی میں نہیں ہے، لھٰذا یہاں پر بھی لفظ ”ولایت“ بالکل حکومت کے معنی میں ہے اور اس کے معنی اجتماعی امور کی تدبیر اور معاشرہ کے عظیم مدیریت کے ہیں ”ولایت فقیہ “ کے معنی یہ ہیں کہ جو حضرات خداوندعالم کی طرف سے معاشرہ کے عظیم امور کو چلانے کی اجازت رکھتے ہیں ،نہ یہ کہ ”ولایت فقیہ “ کی حاکمیت اور حکومت کے تحت صرف بچے، دیوانے او رکم عقل لوگ ہیں ۔
اس کے بعد لفظ ”مطلق“ میں شبہ ایجاد کیا اور اپنے بعض مقالوں میں یہاں تک کھہ دیا کہ ”ولایت مطلق“ کا اعتقاد رکہنا موجب شرک ہے، لھٰذا جو لوگ ”ولایت مطلق“ کے قائل ہیں در واقع وہ مشرک ہیں اور انھوں نے خداوندعالم کی ذات کے ساتھ شریک قرار دیا؛ کیونکہ خدا وند عالم کے علاوہ کوئی مطلق نہیں ہے،اور انھوں نے ”ولی امر“ کو بھی مطلق قرار دیا ہے!!
قارئین کرام! واقعاً انسان اس طرح کی بچکانہ باتوں کاکیا جواب دے لیکن مختصر طور پر عرض کرتے ہیں کہ اولاً قرآن وروایات اور دوسری اسلامی تحریر وں میں خد ا کو ”مطلق“ نہیں کھا گیا ہے، اور عربی قواعد کے تحت بھی خداوندعالم کے لئے لفظ مطلق کہنا صحیح نہیں ہے لیکن اگر مسامحہ اور مطلق کے معنی میں دخل وتصرف کرتے ہوئے خدا کے لئے لفظ مطلق کو استعمال بھی کریں تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ خدوندعالم نامحدود ہے اور کسی طرح کا کوئی نقص وعیب نہیں رکھتا؛ لیکن کوئی بھی شخص کسی کے بارے میں اس طرح کا عقیدہ نہیں رکھتا ہمارا عقیدہ ہے کہ صرف خدائے واحد کمالِ مطلق رکھتا ہے اور ذرہ برابر بھی نقص وعیب نہیں رکھتا، اور اس کی ذات میں تمام صفات وجودی غیر متناہی طورپر پائے جاتے ہیں اور یہ بات مسلم ہے کہ اس طرح کے عقیدہ کا ملازمہ یہ نہیں ہے کہ اسلامی حکومت اپنے وظائف پر عمل کرنے کے لئے ضروری اختیارات بھی نہ رکھے، اور بنیادی طور پر ان دونوں (باتوں ) میں کوئی ربط نہیں ہے۔ ”ولایت مطلق“ یعنی امت اسلامی کا حاکم اور رہبر،اسلامی معاشرہ کے مصالح کو جاری کرنے کے لئے ضروری اختیارات کا مالک ہوتا ہے، ولی فقیہ اسلامی معاشرہ کی بھلائی اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ضروری دخل وتصرف کرسکتا ہے اس مطلب کو مزید واضح کرنے کے لئے ایک مقدار ”اسلامی حکومت کی تھیوری“ پر روشنی ڈالیں گویا اس سے پہلے بھی اس مطلب پر اشارہ کیا جا چکا ہے۔
۵۔ اسلامی حکومت کا ڈھانچہ
جس وقت اسلامی حکومت کے ڈھانچہ کی بات ہوتی ہے تو بعض لوگ فلسفہ سیاست کے بارے میں لکھی گئی کتابوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس میں لکھی گئی قدیم زمانے سے آج تک کی حکومتوں کی قسمیں ملاحظہ کرتے ہیں مثلاً حکومت الیگارکی " Oligachy "
، اریسٹو کریسی، " Aristocracy "
شاہی، ڈیموکریسی وغیرہ، اور آج کل ڈیموکریسی بھی جمھوری اور مشروطہ سلطنت پر تقسیم ہوتی ہے اور جمھوری بھی یا پارلیمنٹی ہوتی ہے یا ریاستی،اس وقت یہ سوال کرتے ہیں کہ اسلامی حکومت مذکورہ اقسام میں سے کونسی قسم ہے؟یا ان کے مقابلہ میں اس حکومت کی کوئی خاص شکل ہے؟ اگر اسلامی حکومت وہی جمھوری حکومت ہے تو یہ تو وہی ڈیموکریسی اور عوام الناس پر عوام الناس کی حکومت ہے اور اس بنا پر اسلام کی نظر میں حکومت کی کوئی خصوصیت اور امتیاز نہیں ہے اور اگر اسلامی حکومت کو بادشاہی حکومت کھا جائے تو پھر ایران کی اسلامی حکومت کو ”جمھوری اسلامی“ کیوں کھا جاتا ہے؟ بھر حال حکومت کی شکل کے سلسلہ میں کوئی نظریہ نہیں ہے اور اس سلسلہ میں عوام الناس کو اختیار دیا ہے تاکہ وہ جس طرح بھی چاہیں حکومت تشکیل دیں ؛ یاحکومت کے سلسلہ میں اسلام نے کوئی نیا طریقہ ایجاد کیا ہے؟
اسلامی لحاظ سے حکومت کی شکل کے سلسلہ میں مختلف طریقوں سے بھت زیادہ بحثیں ہوئی ہیں اوراسلامی حکومت کی شکل کے لحاظ سے بھت سے سوالات کے جواب میں کہنے والوں نے کھا کہ اسلام نے حکومت کے سلسلہ میں کوئی خاص شکل بیان نہیں کی ہے اگرچہ یہ جواب کافی حدّ تک صحیح ہے لیکن اشکالات اور ابھام سے خالی نہیں ہے جس کی وضاحت کے لئے دو نکات کا بیان کرنا ضروری ہے:
الف۔ اسلامی قوانین کی وسعت اوران کا نسخ نہ ہونا
پھلا نکتہ اسلام اور اسلامی قوانین کسی خاص زمانے اور کسی خاص جگہ سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ تمام زمانوں اور تمام معاشروں کے لئے نازل ہوئے ہیں اسلام کے ثابت اور غیر قابل تبدیل احکام اس طرح وضع کئے گئے ہیں جو تمام ہی معاشروں میں قابل اجراء ہیں دوسری طرف، ممکن ہے حکومت کسی چھوٹے معاشرہ کی ہو یا کروڑوں یا اربوں والی آبادی کی ہو جیسے چین اور ھندوستان کی حکومتیں جن کی آبادی ایک ارب سے بھی زیادہ ہے، بھر حال حکومت کی مختلف قسمیں ہوسکتی ہیں : مثلاً ایک سو گھر والے معاشرہ میں بھی حکومت ہوسکتی ہے اور ایک ارب والے معاشرہ میں بھی حکومت ہوسکتی ہے یہاں تک کہ پوری دنیا پر بھی ایک عالمی حکومت ہوسکتی ہے، اور انہیں حکومتوں کی اقسام کی بنا پر ان کے لئے ایک ایسا نمونہ پیش کیا جائے تو تمام قسموں کو شامل؟ یا حکومت کی کوئی خاص شکل معین نہیں کرنا چاہئے، یا اگر کوئی خاص شکل معین کی گئی تو پھر مسلم طور پر آج کل کی بعض حکومتوں سے ہم اہنگ ہوگی، اور دوسرے معاشروں کے لحاظ سے نہیں ہوگی؟ مثال کے طور پر اگر کھیں کہ ظھور اسلام کے وقت اسلامی پیغام صرف بعض مقامات تک محدود تھا اور اس کے احکام صرف مدینہ منورہ کے چھوٹے معاشرہ کے لئے تھے، اور وہ حکومت جو رسول اسلام (ص) کے ذریعہ تشکیل پائی وہ اس زمانہ کے لئے مناسب تھی جس کی آبادی شاید ایک لاکہ سے زیادہ نہ ہو آیا اسلام کی پیش کردہ ”اسلامی حکومت“ کی شکل وصورت اسی طریقہ کی ہے جو صدر اسلام میں رسول اکرم (ص) کے زمانہ میں تھی، انہیں خصوصیات اور امتیازات کے ساتھ جو اس محدود آبادی میں مخصوص اخلاق اور ثقافت کے ساتھ ہے؟ یا نہ صرف یہ کہ اسلام نے حکومت کی کوئی خاص شکل بیان نہیں کی ہے بلکہ حکومت کے سلسلہ میں کسی طرح کی کوئی قید وشرط پیش نہیں کی ہے؟
قارئین کرام ! حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام نہ پہلے گزینہ کو پسند کرتا ہے اور نہ دوسرے کو، بلکہ اسلام نے حکومت کی خاص شکل وصورت بیان کرنے سے بھی بالاتر غیر قابل تبدیل احکام کی بنا پر حکومت کی عام اور وسیع پیمانہ پر معرفی کی ہے، جن کے تحت تغیر اور تبدیلی کی بنا پر مختلف بھت سی شکلیں بن سکتی ہیں اسلام نے نہ عوام الناس کو بالکل ہی آزاد چھوڑا ہے کہ جو چاہیں کریں اور نا ہی حکومت کی کوئی خاص اور محدود شکل بیان کی ہے جس کو صرف کسی خاص زمان ومکان میں ہی نافذ کیا جاسکتا ہے اسلام کے پیش کردہ قوانین اس طرح کے ہیں جن کے تحت حکومت کی صحیح اور عقلائی شکلیں آسکتیں ہیں البتہ حکومت کی وہ شکلیں اسلام کے عام اصول سے خارج نہ ہونے پا ئیں ہم اسلام کے معین کردہ قوانین اور حدود کو اسلامی حکومت کھتے ہیں ہوسکتا ہے ان قوانین کے تحت ایک وقت حکومت کی کوئی خاص شکل ہو اور کسی دوسرے زمانہ میں اس کی شکل وصورت دوسری ہو، لیکن یہ دونوں شکلیں حکومت اسلامی ہونے کے لحاظ سے ایک دوسرے کے مخالف نہیں ہوتیں ۔
دوسرے الفاظ میں یوں عرض کیا جائے کہ اسلام نے حکومت کی کوئی خاص شکل وصورت بیان نہیں کی ہے لیکن اس حکومت کو اسلامی قوانین اور حدود سے باہر نہ ہونا چاہئے بلکہ اسلامی اصول کے ہم اہنگ اور مطابق ہو کیونکہ یہ مسئلہ علمی اور عقلی لحاظ سے دقیق اور ظریف ہے کہ اسلام کے ثابت اور غیر قابل تبدیل احکام روز قیامت تک کے لئے بنائے گئے ہیں جن میں کلّی اور عظیم ڈھانچہ موجود ہے، اور ان کے مقابلہ میں جزئی اور قابل تبدیل احکام زمان ومکان کے لحاظ سے وضع ہوئے ہیں ، انہیں قابل تبدیل احکام میں سے حکومتی احکام ہیں جو ہر زمانہ میں ولی فقیہ کے ذریعہ یا اس کے دستخط کے ذریعہ وضع ہوتے ہیں جن کی اطاعت او رپیروی کرنا واجب ہے۔
ب۔اسلام کی طرف سے حکومت کے درجہ وار نمونے
دوسرا نکتہ : جیسا کہ ہم نے پہلے جلسے میں بھی عرض کیا تھا کہ کبھی کوئی شخص کسی مقصد کو سامنے رکھتا ہے، اور اس مقصد تک پہنچنے کے لئے کچھ نمونے شرائط مدّ نظر رکھے جاتے ہیں لیکن وہ شرائط فراہم نہیں ہوتے تو پھر اس کے بدلے میں دوسرے (اور کمتر) شرائط رکھے جاتے ہیں ، یعنی اگر وہ اول درجہ کے نمونہ شرائط حاصل نہ ہوں تو پھر اس کی جگہ دوسرے درجہ کے شرائط کو ہی انتخاب کیا جاتا ہے، اور اگر دوسرے درجے کے شرائط بھی نہ ہوں تو پھر بات تیسرے درجہ پر پہنچتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اقدار اور ارزشی نظام تمامیت (مکمل) خواہ نہیں ہے اور ارزش کو فقط اعلیٰ درجہ میں منحصر نہیں کرتا، کہ اگر اس اعلیٰ درجہ کے شرائط میں ذرا بھی نقص وارد ہوگیا تو پھر اس کی کوئی ارزش اور اہمیت نہیں رہے گی بلکہ اسلام کے ارزشی نظام میں ارزشوں اور اقدار کے مختلف درجات ہیں ، جس میں تمام شرائط پائے جائیں گے وہ بالاتر اور نمونہ اقدار کا مالک ہے اس کے بعد کم درجے والے شرائط کی بھی ایک اہمیت ہوتی ہے ایسا نہیں ہے کہ اگر اعلیٰ درجہ کا مقصد حاصل نہ ہو تو بالکل ہی اس کو چھوڑ دیا جائے اور اس کے لئے کم درجہ والی حالت کو قائم مقام نہ بنایا جائے۔
مقصد یہ ہے کہ اسلام نے حکومت کی ایک نمونہ اور آئیڈیل شکل پیش کی ہے اور وہ نمونہ شکل اس صورت میں رونما ہوگی جب امام معصوم حاضر ہو اور حکومت کی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں سنبھالیں ، جیسا کہ قرآن مجید میں اسی نمونہ کا انتخاب کرکے بیان کیا گیا ہے ، ارشاد ربّ العزت ہوتا ہے:
(
یَاایُّها الَّذِینَ آمَنُوا اطِیعُوا اللهَ وَاطِیعُوا الرَّسُولَ وَاوْلِی الْامْرِ مِنْکُمْ
)
”اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تمھیں میں سے ہیں ۔“
اور دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
(
وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوه وَمَا نَهاکُمْ عَنْه فَانْتَهوا
)
” اور جو کچھ بھی رسول تمھیں دیدے اسے لے لو اور جس چیز سے منع کرے اس سے رک جاؤ “
اگرچہ اسلام کایہ نظریہ ہے کہ اول درجہ میں حکومت کی ریاست امام معصوم (ع)فرمائیں چونکہ معصوم صاحب عصمت ہوتا ہے لھٰذا وہ بہتر ین طریقہ پر حکومت کو چلا سکتا ہے لیکن نہ تو ہمیشہ معصوم (ع) حاضرہیں تاکہ براہ راست حکومت کو اپنے ھاتھوں میں لیں اور نہ ہمیشہ امام معصوم (ع) مبسوط الید (آزاد) ہیں تاکہ حکومت تشکیل دیں اور اپنی قدرت کا مظاہرہ کریں ؛ جیسا کہ ہمارے ائمہ علیہم السلام میں صرف حضرت علی علیہ السلام اور امام حسن علیہ السلام نے حکومت تشکیل دی وہ بھی کم مدت کے لئے، اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے بعد سے اس طرح کے حالات نہ تھے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام حکومت تشکیل دیں ، یا عوام الناس یا عوام الناس کی اکثریت نے ائمہ علیہم السلام سے نہیں چاہا کہ حکومت تشکیل دیں یا معاشرہ کے اہم افراد ائمہ (ع) کی تشکیل حکومت میں مانع تھے، جن کی وجہ سے ائمہ علیہم السلام کو ہمیشہ حکومت سے کنارہ کشی کرنا پڑی۔
۶۔ اسلامی نقطہ نظر سے ”حکومت میں حکومت“ کے نقشہ کی تاریخ
اگر حکومت کی باگ ڈور امام معصوم علیہ السلام یا عادل مومنین کے ھاتھوں میں نہ ہو بلکہ ظالم اور طاغوت کی حکومت ہوجائے، تو کیا اس صورت میں کوئی بھی حکومتی کام صحیح طریقہ پر انجام نہ دیا جائے اور تمام امور غاصب اور ظالم حاکم کے ھاتھوں میں چلے جائیں اور عوام الناس حکومت کے تمام امور کو چھوڑ دے؟ کیا نیک ، صالح اور شائستہ افراد کسی بھی طرح کے حکومتی امور میں رسیدگی نہ کریں اور حتی الامکان معاشرہ کی رہبری نہ کریں ؟ بےشک اسلام کا جواب نفی میں ہوگا، اور اس طرح کے حالات میں اضطراری اور مجبوری کا بدل رکھا ہے اور فرمایا ہے کھ: اگر امام معصوم علیہ السلام حاضر ہوں لیکن حکومت تشکیل دینے میں آزاد نہ ہوں یا امام معصوم (ع) حاضر نہ ہوں اور حکومت ان کے نیک اور صالح جانشینوں کے ھاتھوں میں نہ ہو، تو کیا اس صورت میں عوام الناس محدود موارد میں حکومتی امور کے سلسلہ میں کسی ایسے شخص کی طرف رجوع کریں جو معصوم سے زیادہ شباہت رکھتا ہو۔
بےشک معاشرہ میں ہمیشہ ذاتی ، گھریلو اور اجتماعی مسائل میں اختلاف اور جھگڑا رہا ہے اور مال وثروت، معاملات اور خرید وفروخت نیز شرکتوں میں جھگڑے ہوتے رہے ہیں مثلاً دو شریک اپنے حصے کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں یا ورثا میراث کے سلسلہ میں اختلاف کرتے ہیں یا میاں بیوی کے درمیان اختلاف ہوتے ہیں ، لامحالہ ان تمام اختلافات اور جھگڑوں کو حل کرنے کے لئے ایک حکومت کا ہونا ضروری ہے تاکہ ان مواقع پر اس کی طرف رجوع کریں اور اپنے اختلافات کو حل کریں اور وہ ان کے اختلافات اور جھگڑوں کو حال کرے ظالم اور طاغوت کی حکومت کے ہوتے ہوئے عوام الناس کو یہ بھانہ نہیں کرنا چاہئے کہ چونکہ حق وانصاف کی حکومت نہیں ہے اور امام معصوم (ع) یا حاکم عادل کی ریاست نہیں ہے لھٰذا ظالم اور طاغوت کی حکومت پر راضی ہوجائیں اور حکومت کی مرضی پر راضی ہوجائیں اور اس سلسلہ میں کوئی تدبیر نہ کریں ؛ بلکہ اگر خاص موارد میں کسی ایسے شخص کی طرف رجوع کرنا ممکن ہے جو اسلامی احکام کو صحیح طریقہ سے بیان کرے اور ان کو جاری کرے،تو اگر ایسا کوئی شخص ہے تو اس کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے، اسی وجہ سے ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام نے اس طرح کے حالات کے لئے ایک نقشہ پیش کیا ہے جس کو آج کل کی اصطلاح میں ” حکومت میں حکومت کی تشکیل“ کھا جاتا ہے۔
جس وقت حکومت ظالموں اور نااہلوں کے ھاتھوں میں ہو اور وہ معاشرہ پر حکومت کررہے ہوں اور عوام الناس اس حکومت کے خلاف قیام کرنے اور اس حکومت کا تختہ پلٹنے کے کافی امکانات نہ رکھتے ہوں تو جن حکومتی مسائل میں سرکاری اور قانونی دفاتر کی طرف رجوع کرنا ہوتا ہے؛ تو اس موقع پر ضروری ہے کہ فقھاء ، علماء اور ایسے لوگوں کی طرف رجوع کریں جو معصوم تو نہ ہوں لیکن اہل بیت علیہم السلام کے مکتب کے تربیت شدہ ہوں اور علم و تقویٰ کے بلند ترین درجہ پر فائز ہوں اور ان کا علمی اور اخلاقی مقام دوسروں کی نسبت معصوم سے زیادہ نزدیک ہو حتی الامکان اپنے حکومتی مسائل میں ایسے فقیہ کی طرف رجوع کریں جو علمی لحاظ سے اتنی صلاحیت رکھتا ہو تاکہ اسلام کے احکام کا صحیح طریقہ سے استنباط کرے، اور قضاوت و فیصلوں کے لئے کافی مھارت رکھتا ہو؛ نیز تقویٰ کے بلند ترین درجات رکھتا ہو اور مورد اعتماد اور اطمینان ہو۔
”حکومت میں حکومت“ کے نظریہ کا مطلب یہ ہے کہ ظالم و جابر حکومتوں میں چھوٹی چھوٹی اور محدود حکومتیں تشکیل دی جائیں تاکہ عوام الناس اپنے حکومتی مسائل میں مشکلات کے وقت ان کی طرف رجوع کرسکیں ، جس کو ہماری اسلامی ثقافت میں ”ولایت مقیدھ“ (محدود ولایت) کھا جاتا ہے جو معصومین علیہم السلام کے زمانہ میں بھی فقھاء کرام رکھتے تھے اور امام معصوم علیہ السلام کی اجازت سے خاص موارد میں قضاوت اور امر ونھی کیا کرتے تھے، اور غیبت کے زمانہ میں بھی اگرچہ فقھا مکمل طور پر آزاد نہیں ہوتے تھے اور حکومت نہیں بنا سکتے تھے لیکن محدود مسائل میں اختلافات اور جھگڑوں نیز معاشرہ کے ضروری ترک شدہ امور جن کو ہماری فقہ میں ”امور حسبیھ“ کھا جاتا ہے؛ میں حکومت کیا کرتے تھے، اگرچہ ”ولایت مقیدھ“ ظاہری اور معنوی لحاظ سے ”ولایت مطلقہ فقیھ“ سے فرق رکھتی ہے۔
شیعہ تاریخ میں ہمیشہ فقھاء کی طرف سے ” ولایت مقیدھ“ جاری ہوتی رہی ہے، اور شیعہ افراد اطمینان اور مکمل رضایت کے ساتھ اجتماعی امور، اختلافات اور جھگڑوں میں فقھاء کی طرف رجوع کرتے تھے اور ان سے ان کا حل طلب کرتے تھے اور شاید اس سلسلہ میں تاریخی پہلو اور ہمیشہ تاریخ میں اس کے موجود رہنے اور اس کی ضرورت کی وجہ سے کسی نے اس سلسلہ میں زیادہ اعتراضات اور شبھات وارد نہیں کئے ہیں ، لیکن ”ولایت مطلقہ فقیہ “ کے سلسلہ میں چونکہ تاریخ کاحوالہ نہیں ملتا اور اس کی وجہ سے دشمنان اسلام کی زندگی خطرہ میں پڑگئی نیز اس نے ناجائز منافع میں رکاوٹ پیدا ہوگئی جس کی بنا پر انھوں نے اس سلسلہ میں بھت سے اعتراضات اور شبھات پیدا کردیتے ۔
۷۔ حضرت امام خمینی (رہ)کی طرف سے ”ولایت مطلقہ فقیہ“ کا نقشہ
حضرت امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کی غیبت کے وقت سے انقلاب اسلامی ایران سے پہلے تک یہ احتمال دینا کہ ایک زمانہ میں جامع الشرائط فقیہ کے ذریعہ حق وحقیقت کی حکومت کاقائم ہونا صرف ایک خواب تھا، یہاں تک کہ اگر انقلاب سے تیس چالیس سال پہلے خود اسی ملک کی عوام الناس سے کھا جاتا کہ ایک روز وہ آنے والا ہے جب ایک روحانی فقیہ کے ذریعہ اس شھنشاہی حکومت کا تختہ پلٹ جائے اور وہ خود حکومت کی باگ ڈور سنبھالے گا تو کسی کو یقین نہ آتا، اور اس طرح کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھاجو فقط خواب کی طرح تھا یہ بالکل اس بات کی طرح تھا کہ اگر ہم کھیں کہ ایک زمانہ وہ آنے والا ہے جب انسان کسی چیز کا سھارا لئے بغیر آسمان میں پرواز کرنے لگے گا، کیونکہ اس طرح کا تصور فقط خواب میں کیا جاسکتا ہے اور ایسا کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔
اُس زمانہ میں یہ بات واقعاً ایک مذاق تھی کہ اگر کوئی کھے کہ ایک عالم دین اس طاغوت بادشاہ کی جگہ خود حکومت بنائے گا کیونکہ اس وقت لوگ یہی کھتے کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے؟!! کیا ایسا شخص جو اپنی زندگی کو مشکل سے چلاتا ہو اور اپنے گھر میں بھی امنیت نہ رکھتا ہو اور کسی بھی وقت (مخفی) پولیس ان کے گھر میں آکر گرفتار کرسکتی تھی، یا ان کو جلاوطن کردے یا جیل میں ڈال دے اور ان کو شکنجہ کرے تو کیا ایسا شخص حکومت تشکیل دینے کی قدرت حاصل کرسکتا ہے!!
اگرچہ گذشتہ زمانہ میں ”ولایت فقیھ“ کاظاہری وجود نہیں تھا یہاں تک کہ عقلی طور پر اس کا احتمال بھی نہیں دیا جاتا تھا؛ لیکن اس کو علمی طور پر تصور کیا جاسکتا تھا جس میں کوئی اشکال بھی نہیں تھا، بھت سے فقھاء ومجتھدین نے ”ولایت فقیھ“ کی تھیوری کو بیان کیا ہے، اور اس سلسلہ میں تحقیق وبررسی کی ہے کہ اگر ایک زمانہ فقیہ کی حکومت کے لئے آجائے اور وہ فقیہ مسند حکومت پر تشریف فرما ہو، تو اس کی ولایت مطلق ہوگی یا مقید (اور محدود)؟۔
ائمہ معصومین علیہم السلام کے زمانہ کے برخلاف کہ جب ائمہ (ع) تقیہ میں ہوتے تھے اور مکمل طور پر آزادی نہیں ہوتی تھی، اور نہ ہی حکومتی مسائل میں کوئی دخالت کرسکتے تھے ،مومنین صرف مخفی طور پر امام علیہ السلام سے ملاقات کرتے تھے اور اپنی بعض مشکلات منجملہ اختلافات وغیرہ کو بیان کرتے تھے تاکہ گواہ اور ثبوت کے بعد ائمہ (علیہم السلام) دونوں فریقوں کے درمیان فیصلہ فرماتے تھے، اسی طرح اس زمانہ کے برخلاف جس میں فقھاء حکومت سے دور رکھے جاتے تھے ،اور حکومتی مسائل میں دخالت کا حق نہیں رکھتے تھے، تواگر کسی زمانہ میں فقیہ ومجتھد کی حکومت بنانے کی راہ ہموار ہوجائے اور وہ حکومت تشکیل دینے کی قدرت رکھتا ہو، تو کیا اس کی ولایت صرف ضروری کاموں تک محدود رہے گی؟ جس کو اصطلاحاً ”امور حسبیھ“ کھا جاتا ہے،یا ظالم وستمگر کی حکومت کی تمام تر قید وبند اور محدودیت ختم ہوجائے گی؟ جبکہ اسلامی سیاست کے لحاظ سے ولی فقیہ کی قدرت کے بارے میں کوئی محدویت نہیں ہے، وہ امام معصوم (ع) کی طرح مبسوط الید ہے جو حکومت تشکیل دے اور معاشرہ کے نظام کو چلانے میں امام معصوم (ع) کی طرح ہے لھٰذا دوسری قسم ”ولایت مطلقہ فقیہ کی تھیوری“ کے عنوان سے پیش ہوئی ہے۔
ہمارے بزرگوں میں ”ولایت مطلقہ فقیہ کی تھیوری“ کی وضاحت کے علاوہ اس کو عملی طور پر بھی محقق کرکے دکھانے والوں میں حضرت امام خمینی (رہ) تھے، جنھوں نے تقریباً چالیس سال پہلے اپنے درس میں اس سلسلہ میں بیان کیا کہ ایک فقیہ کسی خاص علاقہ میں حکومت تشکیل دے سکتا ہے اور وہ اس صورت میں تمام حاکم شرعی کے اختیارات رکھتا ہوگا، اور صرف ضروری اور امور حسبیہ میں منحصر نہیں ہوگا، وہ اسلامی معاشرہ کے تقاضوں کے تحت اسلامی قوانین کے تحت ولایت کو جاری کرسکتا ہے۔
جس وقت امام خمینی (رہ)نے اس نظریہ کو بیان کیا تو آپ کے شاگردوں نے حسن نیت اور آپ سے لگاؤ کی وجہ سے اس نظریہ کو قبول تو کرلیا لیکن ان کو دل سے یقین نہیں تھا کہ ایسا بھی زمانہ آئے گا یہاں تک کہ اس تحریک کا آغاز ہوا اور اہستہ اہستہ انقلاب آگیا، اور اسلامی حکومت کی تشکیل سے مذکورہ نظریہ عملی طور پر ظاہر ہوگیا۔
پس ”ولایت مطلقہ فقیھ“ یعنی وہ شخص جو اسلامی نظریہ کے مطابق حکومت کرنے کے شرائط رکھتا ہو، اور علم، تقویٰ اور معاشرہ کی رہبری کے سلسلہ میں امام معصوم (ع) سے زیادہ شباہت رکھتا ہو اور حکومت تشکیل دے، اور وہ معاشرہ کو ادارہ کرنے میں معصوم (ع) کے اختیارات رکھتا ہوگا اور جس وقت ولی فقیہ کے اس قدر وسیع اختیارات ہوں تو اس وقت ولی فقیہ کے تحت اسلامی حکومت کے تمام قوانین اور دستور العمل ولی فقیہ کی اجازت اور اس کے اذن سے مشروعیت (جواز) پیدا کرتے ہیں ، اور ایک ایک کو براہ راست یا مستقل طور پر قانون گذاری کا حق نہیں ہوگا، اور نا ہی حکومتی قوانین کو جاری کرنے کا حق ہوگا، تمام حکومتی امور اسی کی اجازت سے قانونی ہونگے، اس کی حکومت میں قوانین کو جاری کرنے کا کوئی بھی عھدہ اسی کی طرف دیا جائے گا، یا اگر کسی خاص قانون کے ذریعہ اس کا انتخاب کیا جائے تو اس کو اسی وقت قانونیت ملے گی جب ولی فقیہ اس کی موافقت کردے، لھٰذا چاہے قانون گذاری کا مسئلہ ہو یا قانون کو جاری کرنے کا مسئلہ جب تک ولی فقیہ کی اجازت نہ ہو تو کوئی بھی کام جائز نہیں ہے۔
جیسا کہ امام خمینی (رہ) مکرر ارشاد فرماتے تھے: ”اگر کوئی حکومت ولی فقیہ کی اجازت سے نہ ہو تو وہ طاغوت ہے۔“
اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کی صرف دو قسمیں ہیں ایک حق کی حکومت اور دوسری طاغوت کی حکومت حق کی حکومت وہ حکومت ہے جس کی باگ ڈور ولی فقیہ کے ھاتھوں میں ہے اور حکومت کے تمام مسائل اسی کے ماتحت ہوں اور اسی کی اجازت سے مشروعیت پیدا کرتے ہیں ، لیکن اگر ایسا نہ ہو تو وہ حکومت باطل اور حکومت طاغوت ہے ، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
(
فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلاّٰ الضَّلاٰلُ
)
”اور حق کے بعد ضلالت کے سوا کچھ نہیں ہے “
۸۔ مقبولہ(روایت) عمر بن حنظلہ سے ولایت فقیہ
قارئین کرام ! مذکورہ بیان کے مطابق، ولی فقیہ کے وسیع اختیارات قوانین شرع مقدس میں منحصر ہیں اور ان سے متجاوز نہیں ہونگے؛ کے پیش نظر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ”ولایت مطلقہ فقیھ“ موجب شرک اور غیر خدا کو مطلق قرار دینا نہیں ہے؛ بلکہ اس کے برعکس ائمہ معصومین علیہم السلام سے نقل شدہ روایات کے مضمون کے لحاظ سے اگر کوئی شخص ولی فقیہ کے حکم اور فرمان کی نافرمانی کرے تو وہ مشرک ہے جیسا کہ عمر بن حنظلہ کی روایت میں موجود ہے:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے دو شیعہ افراد( جن میں دینی مسائل یا دنیوی مسائل اور میراث کے سلسلہ میں اختلاف تھا)کے بارے میں سوال کیا گیا کہ اپنے اختلافات کو دورکرنے اور اپنے فیصلہ کے لئے کس کی طرف رجو ع کریں ؟ تو امام علیہ السلام نے ان کو ظالم اور طاغوت حاکم کی طرف رجوع کرنے سے منع فرمایا اور حکم دیا کہ راویان حدیث اور دینی مسائل کے ماہر اور اہل فن کی طرف رجوع کریں ، چنانچہ آپ ایک حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں :
” فَاِنِّی قَدْ جَعَلْتُه حَاکِماً، فَاِذَا حَکَمَ بِحُکْمِنَا فَلَمْ یَقْبَلْه مِنْه فَاِنَّمَا اسْتَخَفَّ بِحُکْمِ اللهِ وَعَلَیْنَا رَدَّ، وَالرَّادُ عَلَیْنَا الرَّادُ علی اللهِ وَهوْ عَلٰی حَدِّ الشِّرْکِ بِاللهِ “
(میں اس (فقیہ اور دین میں ماہر شخص )کو تم پر حاکم قرار دیتا ہوں پس جس وقت وہ ہمارے حکم کے مطابق فیصلہ کرے اور کوئی اس کو قبول نہ کرے تو بے شک اس نے حکم خدا کو ھلکا قرار دیا ہے اور ہمارے حکم کو ردّ کیا ہے ، ہمارے حکم کو ردّ کرنا خدا کے حکم کو ردّ کرنا ہے اور یہ خدا وندعالم پر شرک کی حد ہے۔)
چنانچہ مذکورہ روایت کے پیش نظر اگر کسی جامع الشرائط فقیہ نے حکومت تشکیل دی تو اگر کوئی شخص اس کی مخالفت کرے یا اس کے حکم کو ردّ کرے تو گویا اس نے ائمہ معصومین علیہم السلام کی مخالفت کی اور ان کی مخالفت خدا کے شرک کی حد تک ہے البتہ یہ شرک ربوبیت تکوینی میں شرک کی طرح نہیں ہے بلکہ ربوبیت تشریعی میں شرک ہے کیونکہ توحید کے اقسام ومراتب ہیں :
۱۔ توحید در خالقیت؛ یعنی خداوندعالم کی وحدانیت اور اس کی یکتائی کا اقرار کرنا۔
۲۔ توحید در الوہی ت وعبودیت؛ یعنی خدا وندعالم کے علاوہ ربّ اور مطلق قانون گذار نہ ہونے اور کسی کے لائق عبادت ہونے پر عقیدہ رکہنا۔
خود توحید ربوبی کی دو قسمیں ہوتی ہیں :
۱۔ توحید ربوبیت تکوینی۔
۲۔ توحید ربوبیت تشریعی۔
”توحید در ربوبیت“ یعنی دونوں جھان کی تدبیر کو خدا وندعالم سے مخصوص مانے اور اس بات پر عقیدہ رکھیں کہ گردش آفتاب ومھتاب ، دن رات کا موجود ہونا، انسان وحیوانات کی موت وزندگی اور دیگر جاندار اشیاء کی حفاظت نیز دیگر حادثات خدا کی طرف سے ہوتے ہیں ، وہی زمین وآسمان کی حفاظت کرتا ہے نیز اس وسیع وعرض دنیا میں جو چیز بھی پیدا ہوتی ہے ، رشد کرتی ہے، اپنے بچے پیدا کرتی ہے اور پھر مرجاتی ہے یا کسی بھی طرح کے جو آثار رونما ہوتے ہیں وہ تمام کے تمام خدا وندعالم کی تدبیر اور اس کے ارادہ کے تحت ہوتے ہیں ، اور کوئی بھی واقعہ خداوندعالم کے دائرہ ربوبیت سے باہر نہیں ہے۔
”ربوبیت تشریعی“ صرف انسانوں کی اختیاری تدبیر سے متعلق ہوتی ہے برخلاف دوسری مخلوقات کے ، کیونکہ انسان کی تمام حرکات وسکنات اور اس کی ترقی ؛ اس کے اختیاری افعال کی بنا پر ہوتی ہے ، کیونکہ خداوندعالم نے انسان کو راہ مستقیم کی ہدایت فرمائی ہے، اور اس کو خوب وبد کی پہنچان کرادی ہے، اور وہی انسان کی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں قانون صادر فرماتا ہے۔
لھٰذا توحید اور اس کے اقسام کے بارے میں بیان شدہ مطالب کے پیش نظر اگر کوئی شخص توحید در خالقیت اور عبودیت نیز توحید ربوبیت تکوینی کو قبول کرلے لیکن اگر توحید ربوبیت تشریعی کو قبول نہ کرے تو وہ مشرک ہے، جس طرح سے حضرت شیطان بھی اسی شرک میں مبتلا ہوئے ہیں ، کیونکہ شیطان خدا وندعالم کی توحید در خالقیت کو قبول رکھتا تھا اسی طرح خداوندعالم کی توحید ربوبیت تکوینی کو بھی قبول رکھتا تھا، اسی وجہ سے اس نے کھا:
(
قَالَ رَبِّ بِمَا اغْوَیْتَنِی لَازَیِّنَنَّ لَهمْ فِی الْارْضِ وَلَاغْوِیَنَّهمْ اجْمَعِینَ
)
”اس نے کھا پرودگارا ! جس طرح تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں ان بندوں کے لئے زمین میں ساز و سامان آراستہ کروں گا اور ان سب کو اکھٹا کروں گا۔“
قارئین کرام ! جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ شیطان خداوندعالم کی تکوینی ربوبیت کا معتقد تھا، اور خداوندعالم کو اپنا پروردگار سمجھتا تھا، لیکن اس نے ربوبیت تشریعی کا انکار کیا اسی وجہ سے وہ مشرک ہوگیا جب خداوندعالم امام معصوم علیہ السلام کی اطاعت کو واجب قرار دیتا ہے تو اگر کوئی شخص اس کو نہ مانے اور اس (امام) کی اطاعت نہ کرے، تو اس نے خداوندعالم کی تشریعی ربوبیت کا انکار کیاہے اور وہ تشریعی ربوبیت میں مشرک ہوگیا ہے اسی طرح اگر امام معصوم علیہ السلام کسی شخص کو اپنے طرف سے معین اور منصوب فرمائیں اور اس کی اطاعت دوسروں پر واجب قرار دیں تو اگر کوئی اس کو نہ مانے اور امام معصوم علیہ السلام کو تسلیم نہ کرے تو وہ بھی تشریعی ربوبیت میں شرک کا مرتکب ہوا ہے لھٰذا اگر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرمائیں : ولی فقیہ کی مخالفت ”علی حدّ الشرک بالله“ (خدا پر حدّ شرک ہے) ؛ تو امام نے کوئی مبالغہ نہیں کیا ہے اور حقیقت کو بیان فرمایا ہے، لیکن خالقیت یا تکوینی ربوبیت میں شرک نہیں ؛ بلکہ اس کا شرک شیطان کی طرح تشریعی ربوبیت میں ہے۔
مذکورہ باتوں کے پیش نظر اسلامی نظریہ کے مطابق اسلامی حکومت کے مختلف مراتب ہیں اس حکومت کابلندترین نمونہ اس وقت وجود میں آسکتا ہے جب اس حکومت کی باگ ڈور پیغمبر یا امام معصوم علیہ السلام کے ھاتہ میں ہو اس سے کم مرتبہ کی حکومت وہ حکومت ہے جو جامع الشرائط فقیہ کے ذریعہ تشکیل پاتی ہے، جو علم وعمل اور معاشرہ کی مدیریت کے لحاظ سے امام معصوم (ع) سے زیادہ شباہت رکھتا ہے اس سے کم مرتبہ والی حکومت کا بھی تصور پایا جاتا ہے (جیسا کہ فقھاء نے اپنی اپنی کتابوں میں اس بارے میں بھی بیان کیا ہے)اور وہ یہ ہے کہ اگر جامع الشرائط فقیہ موجود نہ ہو یا اگر موجود ہے لیکن معاشرہ کی رہبری کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو اس وقت ولایت وحکومت عادل مومنین کے حوالے کی جائے گی؛ کیونکہ معاشرہ کو اس کے حال پر نہیں چھوڑا جاسکتا، اور اس کے لئے حکومت تشکیل نہ دی جائے لھٰذا طے یہ ہوا کہ اگر امام معصوم علیہ السلام حاضر ہوں تو ان کی حکومت وولایت بہتر ین اور مطلوب حکومت ہے، لیکن اگر امام معصوم (ع)حاضر نہ ہوں توپھر وہ جامع الشرائط فقیہ جو امام معصوم (ع) سے زیادہ شباہت رکھتا ہے اس کی حکومت ہونا چاہئے، لیکن اگر جامع الشرائط فقیہ بھی موجود نہ ہو تو تو پھرایسے عادل مومن کی حکومت ہو جس کا تقویٰ اور عدالت اس حدّ تک ہو جس پر عوام الناس اعتماد کریں ، اور اس کے احکام جاری کرنے پر راضی ہوں اگرچہ اس کا علم فقیہ کی حد تک نہ ہو۔
اگرچہ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ ہمیشہ معاشرہ میں ایسے علماء ، فقھاء اور بزگان رہے ہیں جو معاشرہ کی رہبری اور مدیریت کی صلاحیت رکھتے ہیں ، تاکہ معاشرہ کی رہبری کی عظیم ذمہ داری کا بار اپنے شانوں پر اٹھائیں ، جیسا کہ خداوندعالم نے ہم پر احسان کیا کہ اس نے حضرت امام خمینی (رہ) جیسی عظیم نعمت سے سرفراز کیا، تاکہ معاشرہ کی بہتر ین طریقہ سے رہبری کریں ، اور ان کے بعد ایسے شخص کا ذخیرہ کیا جو امام خمینی (رہ) کا خاص شاگرد اور ان کا خلف صالح ہے، جس میں زھد وتقویٰ، سیاسی فکر، مصالح مومنین کی رعایت، اسلامی معاشرہ کی رہبری اور مدیریت نیز دیگرمہم صفات میں امام خمینی (رہ) سے زیادہ مشابہ اور نزدیک ہے۔
۹۔ اسلام کی نظر میں تفکیک قوا ( قدرت کا جدا جدا ہونا) کا جائزہ
دوسری وہ چیز جس پر ہم نے زیادہ اشارہ کیا ہے اور کہ اس پر مزید روشنی ڈالنا مناسب ہے وہ تفکیک قوا ( قدرت کا جدا جدا ہونا) اور حکومتی ذمہ داریوں کی تقسیم ہے جیسا کہ آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ اسلامی نقطہ نظر سے حکومت کی ایسی کوئی خاص شکل وصورت نہیں ہے جو مخصوص شرائط یا کسی خاص معاشرہ سے مخصوص ہو اسلام کے لحاظ سے حکومت ایسی بھی ہوسکتی ہے جس میں فقط چند خاندان شامل ہوں ، یا بھت زیادہ آبادی والے ملک میں بھی حکومت ہوسکتی ہے ، بلکہ عالمی معاشرہ کے لئے بھی حکومت ہوسکتی ہے ظاہر سی بات ہے کہ حکومت کی مخصوص ذمہ داریاں اور وظائف جن سے حکومت کا وجودی فلسفہ ظاہر ہوتا ہے (خصوصاً زیادہ آبادی والے ملک میں ) تو یہ ذمہ داریاں ایک یا دوافراد کے بس کی بات نہیں ہیں ۔
اندرونی امنیت ، بیرونی دشمن سے مقابلہ، اقتصادی کارکردگی پر نظارت، بین الاقوامی امور پر نظارت، بین الاقوامی تعلقات کو طے کرنا نیز معاشرہ کی دوسری ضرورتیں اور ان سب میں مہم اسلامی شعار کو اقامہ کرنا، احکام اسلامی کے جاری ہونے پر نظارت اور ان کی حفاظت وغیرہ وغیرہ جیسی مہم ذمہ داریاں حکومت کے ذمہ ہوتی ہیں جن کے تحت ان کے لئے کام تقسیم ہونا چاہئے یہ تقسیم کار دو محور میں انجام پاتی ہے، ایک عمودی (طولی ) اور دوسرا افقی (عرضی) ؛ یعنی حکومتی کار کردگی کے یہ دونوں حصے ساق مثلث کے دو خطوں کو تشکیل دیتے ہیں ، جو وسط سے ایک دوسرے کے راستہ کو نہیں کاٹتے، اور آخر میں ” راس ہرم“ (مرکزی نقطھ) پر پہنچ جاتے ہیں ، سادہ الفاظ میں حکومت کو ہرم کے مانند سمجھیں ، جیسا کہ سیاست دانوں نے اس شباہت کی بنا پر حکومت کو ”ھرم قدرت“ سے تعبیر کیا ہے، جس میں ایک مرکزی نقطہ ہوتا ہے اور اسی کے تحت ہرم ہوتی ہے، اسی طرح حکومت کی مرکزی قدرت ایک شخص کے پاس ہوتی ہے جس کے تحت تمام ادارے کام کرتے ہیں
جس وقت ہم حکومت کے عام معنی تصور کریں تو قدرت کا ہر ایک رخ حکومت کے وظائف کو تشکیل دیتا ہے ”مانٹسکیو“ کے زمانہ سے فلسفہ حقوق اور سیاست میں حکومتی قدرت کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:قوہ مقننہ (پارلیمنٹ) قوہ قضائیہ (قضاوت وعدالت) اور قوہ مجریہ (قوانین کو جاری کرنے والی طاقت جو حکومت کی شکل میں دکھائی دیتی ہے)، حکومت کا ایک رخ قانون گذاری ہوتی ہے دوسرا رخ قضاوت (عدالت) اور تیسرا رخ قوانین کو جاری کرنا ہوتا ہے حکومت کی کار کردگی کا ایک حصہ کلی اور جزئی قوانین ومقررات بنانا ہوتا ہے اور دوسرا حصہ عوام الناس کے اختلافات اور جھگڑوں کے فیصلے کرتا ہے، اور تیسرا حصہ معاشرہ میں قوانین کو جاری کرتا ہے۔
۱۰۔ طاقت کے ایک ساتھ ہونے کا سبب
اگرچہ حکومتی کارکردگی اور اس کی قدرت کی مذکورہ تقسیم مناسب اور بجا ہے، لیکن اس بات پر بھی توجہ رکہنا ضروری ہے کہ ان تینوں حصوں کے درمیان خط کھینچنا آسان کام نہیں ہے یعنی یہ بات عملی طور پر ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم عام طور پر قوانین ومقررات اور آئین ناموں اور ان کے جاری کرنے کو جدا جدا کریں اور قوہ مجریہ کو بالکل کسی بھی طرح کے قوانین نہ بنانے کی اجازت نہ دیں ، آج کل ان تمام ہی ممالک میں جن میں ڈیموکریسی سسٹم ہوتا ہے قدرت کی تقسیم کو قبول کیا گیا ہے، اور ان میں خواہ نا خواہ بعض چیزوں میں قانون گذاری اور ان کو جاری کرنے کے سلسلہ میں اختلاط (مخلوط ہونا) پایا جاتا ہے، جس کی سب سے واضح مثال کا پارلیمنٹ نظام میں مشاہدہ کیا جاتا ہے، کیونکہ ڈیمو کراٹک نظام پارلیمنٹ اور ریاستی نظام کی طرف تقسیم ہوتا ہے۔
۱۔پارلیمنٹی نظام
جو قدرت کے یکجا ہونے کی بنیاد پر ہوتا ہے، یعنی تمام تر قدرت پارلیمنٹ کے تحت ہوتی ہے جب عوام الناس کے ووٹوں سے مختلف پارٹیوں سے ممبران منتخب ہوتے ہیں تو ان کے ذریعہ پارلیمنٹ بنتا ہے، اور اسی میں سے مختلف وزیراور وزیر اعظم بنائے جاتے ہیں ، اور تمام بڑے بڑے عھدے اسی پارلیمنٹ کے ممبران میں سے ہوتے ہیں اس نظام میں پارلیمنٹ کی طرف سے مختلف وزراء کو مختلف اداروں کی ذمہ داری دی جاتی ہے ، اور یہی پارلیمنٹ وزراء کو معزول بھی کرسکتا ہے۔
۲۔ ریاستی نظام
جس میں قدرت جدا جدا تقسیم ہوتی ہے اس نظام میں صدر مملکت پارلیمنٹ کی طرف سے انتخاب نہیں ہوتا اور وزراء صدر مملکت کی طرف سے منصوب ہوتے ہیں ،اور پارلیمنٹ ان کو معزول نہیں کرسکتا، در مقابل پارلیمنٹ بھی قوہ مجریہ سے مستقل اور جدا ہوتا ہے اس سسٹم میں ممبر آف پارلیمنٹ اور وزراء کابینٹ " Cabinet " میں ذاتی اور مانعة الجمع اختلاف ہوتا ہے یعنی صدر مملکت ممبر آف پارلیمنٹ میں سے وزیر نہیں بنا سکتامگر اس وزیر کو جس نے پارلیمنٹ کی ممبری شپ سے استعفاء دیدیا ہو۔
ریاستی حکومت میں صدر مملکت براہ راست عوام الناس کے ذریعہ انتخاب ہوتا ہے اور اس میں ایک طرح طاقت کے دخل کا مشاہدہ ہوتا ہے، اور بعض قوانین ومقررات کو طے کرنا وزراء کابینٹ کی ذمہ داری ہوتی ہے آج کل ہمارے ملک میں بھت سی اجتماعی اور اقتصادی کار کردگی کے لئے حکومت کے قوانین کافی ہوتے ہیں ؛ یعنی حکومتی کابینٹ کا جلسہ ہوتا ہے اور صلاح مشورہ کے بعد قوانین تصویب کئے جاتے ہیں ، اور خود ان کو جاری بھی کرتی ہے لھٰذا بعض قوانین بنانے میں حکومت کو اجازت ہوتی ہے۔
دوسری طرف اگرچہ پارلیمنٹ کا کام قوانین بنانا ہوتا ہے لیکن بعض اجرائی کاموں کو بھی انجام دیتی ہے: مثال کے طور پر بیرونی کمپنیوں سے معاہدہ (اگریمنٹ) کرنا ایک اجرائی کام ہے اور قاعدہ کے مطابق حکومت کو کرنا چاہئے لیکن چونکہ یہ مسئلہ بھت مہم اور بنیادی ہے لھٰذا اس سلسلہ میں تمام پہلووں پر نظر رکھتے ہوئے احتیاط کے ساتھ ضروری تحقیق وجائزہ کے بعد یہ قدم اٹھایا جاتا ہے تاکہ اس سے ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جاسکے،اور حکومت میں اس طرح کے معاہدہ کو بیان کرنے کے بعد ضروری تحقیق وبررسی کرکے پارلیمنٹ کے حوالے کیا جاتا ہے، اور جب پارلیمنٹ اس کی تائید کردیتا ہے تو اس پر عمل درآمد ہوتا ہے۔
المختصر تفکیک قوا ( قدرت کا جدا جدا ہونا) کا نظریہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ تینوں طاقتیں ایک دوسرے سے مستقل اور جدا ہوں ، لیکن عملی میدان میں دنیا کے مختلف نظام میں بعض امور کے سلسلہ میں ان قوتوں میں اختلاط پایا جاتا ہے، البتہ یہ قدرتیں جس قدر بھی ایک دوسرے سے جدا جدا رہیں اور ہر قدرت ایک دوسرے سے مستقل ہوں تو پھر ایک دوسرے میں دخالت اور ناجائز فائدہ اٹھانے کا امکان کم پایا جاتا ہے۔
حوالے: