اکتیسواں جلسہ
تفکیک قوا (قدرتوں کی جدائی) کے نظریہ کی تحقیق اور اس پر نقد وتنقید
۱۔ گذشہ مطالب پر ایک نظر
جیسا کہ ہم نے گذشتہ جلسات میں عرض کیا کہ اسلامی حکومت کے بھت سے وظائف اور ذمہ داریاں ہوتی ہیں جن کی بنا پر اسلامی حکومت کا فلسفہ وجودی سمجھ میں آتا ہے وہ وظائف اور ذمہ داریاں جن کی اسلامی حکومت عھدہ دار ہوتی ہے ان کے لئے کچھ خاص اختیارات بھی ہونا ضروری ہیں جن کے تحت وہ اپنے وظائف اور ذمہ داریوں کو پورا کرسکتی ہے بھر حال تمام ہی حکومتوں بالخصوص اسلامی حکومت کی خاص ذمہ داریوں کی وجہ سے کاموں کی تقسیم بندی ہوتی ہے جو مھارت، لیاقت اور ذمہ داری کی قسم کی بنا پر عھدہ داران کو دی جاتی ہے بے شک یہ کاموں اور قدرتوں کی تقسیم ایک ضروری چیز ہے، کیونکہ اگر ایک محدود مقام جیسے کسی گاؤں وغیرہ کی حکومت کا مسئلہ ہوتا تو اس وقت کاموں کی تقسیم اتنی زیادہ ضروری نہ ہوتی لیکن چونکہ اسلامی حکومت ایک خاص علاقے سے مخصوص نہیں ہے لھٰذا اکثر موارد میں قدرتوں کی تقسیم نھایت ضروری ہے۔
اور چونکہ اسلامی حکومتی نظریہ پوری دنیا اور تمام زمانوں کے لئے ہے، لھٰذا اس کے لئے ایک ایسا نقشہ مرتب کیاگیاہے جو عالمی اوردائمی ہے، او رکسی خاص علاقے اور خاص زمانہ سے مخصوص نہیں ہے،اسی وجہ سے اس کے لئے ایسے قوانین کا انتخاب کیا گیا ہے جو مختلف زمانہ اور مختلف مقامات کے لئے جاری ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں ؛ بے شک کاموں اور قدرت کی تقسیم انہیں قوانین کے تحت ہوتی ہے۔
۲۔ تفکیک قوا (قدرتوں کی جدائی) کے نظریہ کی تاریخی حیثیت
قارئین کرام ! جیسا کہ ہم نے گذشتہ جلسہ میں عرض کیا کہ حکومتی نظام کا ایک ہرم(وسیلہ اور طاقت) کی طرح تصور کیا جاسکتا ہے،جو مختلف شکلوں اور صورتوں سے تشکیل پاتا ہے،لیکن ان شکلوں کی تعداد تقریباً معاہدہ کے طور پرہوتی ہیں چنانچہ حکومت کی یہ شکل قدیم زمانہ سے چلتی آرہی ہے،یونانی فلاسفہ منجملہ ”ارسطو“ کے زمانے سے حکومت کی یہی تین چھرے والی تصویر پیش کی گئی ہے ان میں سے ایک چھرہ ان لوگوں سے مخصوص ہوتا ہے جو معاشرہ کے صاحب عقل وخرد ہوتے ہیں ، اورحکومت کے اس حصے کو (جسے آج کل ”قانون گذاری پاور“ (ممبر آف پارلیمنٹ ) کا نام دیا جاتا ہے)؛وہ لوگ تشکیل دیتے ہیں جو اپنی عقل وفکر کو بروئے کار لاتے ہوئے معاشرہ کے نظام کے لئے ضروری قوانین مرتب کرتے ہیں اسی طرح ارسطو کے کلام میں دوسرے دو چھروں کا بھی تذکر ہ ہے جو قوہ مجریہ (حکومت) اور قوہ قضائیہ (عدل) پر منطبق ہوتی ہیں ،اور وہ درج ذیل ہیں :
۱۔ معاشرہ کے حکام اور اس کو چلانے والے۔
۲۔عوام الناس کے فیصلے کرنے والے افراد۔
اسی طرح ان آخری صدیوں میں مغربی سیاست داں افراد نے بھی حکومت کے تین چھروں والا نظریہ پیش کیا ہے چنانچہ ان کے آخر میں ”مونٹسکیو“ نے بھی تفکیک قوا کے نظریہ کے تحت حکومت کو درج ذیل تین حصوں میں تقسیم کیا ہے: قانون گذاری، عدلیہ، اور قوہ مجریہ، اور اسی وجہ سے اس نے ”روح القوانین“ نامی کتاب لکھی، جس میں ہر ایک قدرت کے بارے میں تفصیل سے بحث کی ہے ”مونٹسکیو“ کی علمی اور نئے نظریات کے سلسلہ میں کی گئی کوشش کی وجہ سے تفکیک قوا کا مسئلہ اسی وقت سے مشھور ہوگیا یہاں تک کہ آج بعض لوگ اسی کو اس تھیوری کا مخترکھتے ہیں ۔
آج کل اکثر ممالک منجملہ ہمارے ملک میں بھی بنیادی قوانین اسی نظریہ کے تحت بنائے جاتے ہیں ، اور تینوں طاقتوں کو استقلال اور ڈیموکریسی کے اصول میں شمار کرتے ہیں بین الملل (عالمی سطح) پر اسی ملک کو ڈیموکریٹک کھا جاتا ہے جس میں یہ تینوں طاقتیں ایک دوسرے سے الگ الگ اور مستقل ہوں اور ایک دوسرے پر مسلط نہ ہوں ۔
۳۔ تفکیک قوا نظریہ کے دلائل پر ایک نظر
۱۔ چونکہ حکومت کی مختلف اور پیچیدہ ذمہ داریاں ہوتی ہیں جن کے سبب ان کے بارے میں کافی معلومات اور خاص مھارت کی ضرورت ہوتی ہے لھٰذا یہ سب کام ایک شخص سے نہیں ہوسکتا لھٰذا انہیں پیچیدگیوں کے پیش نظر کام اور قدرت کی تقسیم ضروری ہے اور چونکہ حکومت کی مختلف ذمہ داریاں ہوتی ہیں لھٰذا ان میں اختلاف اور ایک دوسرے کامخالف ہونا بھی ممکن ہے تو اس صورت میں حکومت کے اسی خاص چھرے کے لحاظ سے عھدہ داروں کا بھی انتخاب ہوتا ہے اسی بنا پر حکومت کی تینوں طاقتیں تقسیم ہوتی ہیں اور انہیں کے تحت تمام حکومتی امور انجام پاتے ہیں ،البتہ اس کی زیادہ تر فعالیت قوہ مجریہ کے تحت ہوتی ہیں : مثلاً جنگ اور دفاع سے متعلق مسائل، معاشرہ کے مستضعف او رکمزور لوگوں کی امداد کرنا، تعلیم وتربیت کا نظام اور علاج ومعالجہ سسٹم وغیرہ یہ تمام محکمات قوہ مجریہ کے تحت ہوتے ہیں جبکہ عدلیہ کا کام صرف عوام الناس کے اختلافات اور جھگڑوں کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے، اور قانون گذار پاور (پارلیمنٹ ) کا کام فقط قوانین بنانا ہوتا ہے، اس کے علاوہ دوسرے مخصوص کام نیز معاشرہ اور ملک کی دوسری ضرورتوں کا پورا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
قوہ مجریہ کی عظیم اور وسیع ذمہ داریوں کے پیش نظر ہوسکتا ہے اس کو عدلیہ اور پارلیمنٹ کے برابر رکہ دیا جائے اوراس کو ایک قدرت کا نام دیدیا جائے لیکن خود حکومت کا ایک پہلو نہیں ہوتا بلکہ مختلف ذمہ داریوں اور وظائف کی بنا پر اس کے ایک سے زیادہ پہلو ہوتے ہیں اور اس قدرت کی تقسیم کی بنا پر ہر ایک محکمہ پر ایک قدرت کا اطلاق ہوسکتا ہے، اس صورت میں اس کے بھت سے پہلو دکھائی دے سکتے ہیں ،اور اس کے، تحت ہر وزارتخانہ اس کے ایک پہلو کو تشکیل دیتا ہے۔
بھر حال حکومتی نظام کی مختلف ذمہ داریوں کی بنا پر قدرت کی جوتین قسمیں کی گئی ہے،اور اس تقسیم کو آج کی دنیا ئے سیاست نے بھی قبول کیا ہے اور وہ ایک معاہدہ کے عنوان سے مشھور ہے، لھٰذا اس تقسیم میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
قارئین کرام ! یہاں پر ایک سوال یہ باقی رہتا ہے کہ کیا حکومت کی مختلف ذمہ داریوں کا ہونا اس تقسیم اور استقلال کے لئے کافی ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ مختلف ذمہ داریوں کا ہونا صرف تفکیک قوا پر ایک توجیہ تو ہوسکتی ہے لیکن اس کو اس سلسلہ میں علت تامہ (مکمل طور پر علت) قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ جب ہم قوہ مجریہ کو دیکھتے ہیں تو اس میں بھی مختلف ذمہ داریاں ہوتی ہیں جن میں آپس میں زیادہ تعلق بھی نہیں ہوتا؛ مثلا جنگ اور دفاع کا مسئلہ، میڈیکل وغیرہ لیکن اس کے بعد بھی یہ تمام چیزیں قوہ مجریہ کے تحت ہوتی ہیں اور اگر ذمہ داریوں کے مختلف ہونے ہی کو قدرت کے زیادہ ہونے کا سبب قرار دیں تو پھر دسیوں مستقل قدرتیں ہونا چاہئیں تھیں ۔
۲۔ تفکیک قوا اور تکونی تقسیم کی مہم ترین دلیل اور توجیہ وہی ہو جس کی بنا پر مونٹسکیو نے تفکیک قوا کا یہ نظریہ پیش کیا ہے: چونکہ انسانی فطرت میں ایک دوسرے پر سلطنت اور ظلم کی طرف جھکاؤ پایا جاتا ہے ، اور اگر تینوں طاقتیں ایک شخص یا ایک گروہ کے تحت ہوتیں تو پھر اس (حکومت) سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے زیادہ امکانات پائے جاتے،کیونکہ اس صورت میں وہی گروہ قانون گذار بھی ہے اور فیصلے کرنے کی ذمہ داری بھی اسی کی ہے اور قوانین کو جاری کرنے کا عھدہ بھی اسی کے پاس ہے، اور یہ ظاہر ہے کہ ہر انسان اپنے مفاد میں قانون بناتا ہے اور پھر اپنےھی حق میں فیصلے کرتا ہے، اس طرف سے قوانین کو جاری کرنے کی ذمہ داری بھی اسی کی ہے لھٰذا ناجائز فائدہ اٹھانے کے بھت سے راستے ہموار ہوجاتے اسی بنا پر مونٹسکیو کا ماننا تھا کہ راہ اعتدال کو برقرار رکہنے اور ظلم وجور سے روک تھام اور ناجائز فائدہ اٹھانے سے روکنے کے لئے تینوں قدرتوں کا الگ الگ ہونا ضروری ہے۔
قارئین کرام ! گذشتہ مطالب کے پیش نظر یہ بات معلوم ہوگئی کہ قدرتوں کا مستقل ہونا اس لئے ضروری ہے،کہ ناجائز فائدہ اٹھانے کا سد باب ہوجائے خصوصاً قوہ مجریہ کے لئے جو جب عدلیہ بالکل مستقل ہو تو پھر سب کے فیصلے قوانین کے تحت ہوں گے،اور کوئی بھی سزا سے نہیں بچ سکتا،اور تمام ہی افراد عدلیہ کے مقابلہ میں جواب دہ ہوں گے، کیونکہ اس صورت میں عدلیہ بڑے سے بڑے حکومتی عھدہ دار کو عدالت کے کٹھیرے میں کھڑا کرسکتی ہے،اور اگر انھوں نے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے تو اس کو سزا دے سکتی ہے اسی طرح اگر قانون گذار طاقت (پارلیمنٹ ) نے اسلامی قوانین کی مخالفت کی ہے تو اس صورت میں عدلیہ ان کے خلاف کاروائی کرسکتی ہے اسی طرح اگر قانون گذار طاقت مستقل ہوگی تو وہ (بھی) قانون گذاری کے سلسلہ میں کسی (عدلیہ اور حکومت) سے متاثر ہوکر قانون نہیں بنائے گی اور ممبر آف پارلیمنٹ قوانین بناتے وقت مکمل طور پر مستقل اور آزادی کے ساتھ قوانین بنائیں گے اور کسی بھی طاقت کے تحت تاثیر قرار نہیں پائیں گے، اور دوسرے سے وابستہ ہونے کا احساس بھی نہیں کریں گے۔
۴۔ تفکیک قوا کو بالکل محدود کرنا نا ممکن
سیاست داں حضرات نے ڈیموکریسی کے لئے تینوں طاقتوں کو مستقل ہونا شرط قرار دیا ہے،البتہ یہ استقلال عملی طور پرحاصل ہونا چاہئے اور نظریہ کے لحاظ سے بھی، کیونکہ ہوسکتا ہے کوئی نظام تفکیک قوا کے نظریہ کے تحت ہو اور یہ تصور کیا جائے کہ تینوں طاقتیں ایک دوسرے سے بالکل جدا ہیں ،اور کسی ایک طاقت سے بھی متاثر نہیں ہے لیکن عملی میدان میں ایک طاقت دوسری طاقت پر تجاوز کرجائے اور اپنے حکمرانی چلانے کی کوشش کرے۔
اگر ہم دنیا بھر کی ڈیموکرسی حکومتوں پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ بھت ہی کم ایسی حکومتیں ہیں جن میں تینوں طاقتیں ایک دوسرے سے مکمل طور پر الگ الگ ہوں ،مثلاً عدلیہ اور پارلیمنٹ ؛ حکومت سے متاثر نہ ہوں اور یہ تو ظاہر سی بات ہے کہ جب عدلیہ کے تمام اخراجات حکومت کے ھاتہ میں ہوں اور انتخابات حکومت کے ذریعہ انجام پاتے ہوں تو پھر بھت ممکن ہے کہ حکومت چند پارٹیوں کے مقابلہ میں اسی طرح اپنی حکومت کو برقرار رکھے؛ اور جب حکومت اس کے ھاتہ میں ہوگی تو دوسری طاقتیں بھی اسی کے اختیار میں ہوں گی۔
اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر کی مختلف حکومتوں میں حکومت کے عھدہ دار افراد کبھی علی الاعلان اور کبھی مخفی طور پر دوسری حکومتوں میں دخالت کرتے ہیں اور ان پر زور دیتے ہیں ، خصوصاً وہ ممالک جن میں پارلیمنٹی نظام ہوتا ہے اور پارلیمنٹ کے ذریعہ ہی حکومتیں عھدہ داروں کا انتخاب کرتی ہیں ،یعنی ممبر آف پارلیمنٹ براہ راست عوام الناس کے ذریعہ چنے جاتے ہیں اور پھر یہی ممبر اپنی اکثریت سے حکومت کے لئے عھدہ داروں کا انتخاب کرتے ہیں ۔
اسی طرح ریاستی نظام جن میں صدر مملکت کا انتخاب خود عوام الناس کرتی ہے اور اجرائی قدرت صدر مملکت کے اختیار میں ہوتی ہے؛ ان میں حکومت پارلیمنٹ اور عدلیہ میں دخالت کرتی ہے، خصوصاً بھت سے وہ ممالک جن میں صدر مملکت کو وٹو " Veto " کا حق ہوتا ہے، اور وہ پارلیمنٹ کے قوانین کو بے اثر کرسکتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ باید وشاید طور پر اپنے نظریہ کو حکومت پر لاگو نہیں کرسکتا، ممبر آف پارلیمنٹ قوانین بناتے ہیں ، اپنی بحث وگفتگو کے بعد اکثریت سے کسی قانون کو پاس کرتے ہیں ، لیکن چونکہ خود بنیادی قوانین نے صدر مملکت کو وٹو کا حق دیا ہے لھٰذا ان کے بنائے ہوئے قوانین بے اثر ہوجاتے ہیں ۔
ہماری نظر میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جس میں تینوں طاقتیں ایک دوسرے سے مستقل ہوں ، اور کسی ایک طاقت کے تحت تاثیر نہ ہوں اور ایک دوسرے میں کسی طرح کی کوئی دخالت نہ کرتی ہوں ،خصوصاً قوہ مجریہ جو دوسری طاقتوں پر زیادہ نفوذ رکھتی ہے، فقط بنیادی قوانین میں استقلال کے نام سے موجود ہے جبکہ حقیقت میں تینوں طاقتیں مستقل اور ایک دوسرے سے جدا نہیں ہے، بلکہ حکومت ان پر مسلط ہوتی ہے۔
اور چونکہ تینوں طاقتیں ایک دوسرے میں دخالت کرتی ہیں لھٰذا ان تینوں طاقتوں کے کام کے درمیان ایک ثابت حد بندی معین کرنا واقعاً مشکل ہے جیسے قانون گذاری والے مسائل ہوں یا قوانین جاری کرنے والے مسائل یا اس کے برعکس،یعنی اجرائی مسائل کو قانون گذاری کے حوالے سے جدا کرنا مشکل ہے ہم خود اپنے ملک میں اور دوسرے ممالک میں یہ دیکھتے ہیں کہ وہ مسائل جو قانون گذاری کا پہلو رکھتے ہیں لیکن وہ (بھی) حکومت کے ذمہ ہیں مثال کے طور پر بنیادی قوانین کے تحت بعض قوانین حکومتی کابینٹ کے سپرد کئے جاتے ہیں جن کو طے کرکے جاری کیا جاتا ہے اگرچہ ان قوانین پر اسپیکر کے دستخط ہونا (بھی) ضروری ہوتے ہیں ، لیکن کبھی کبھی صرف ان قوانین کا پارلیمنٹ میں بھیج دینا ہی کافی ہوتا ہے بعض حکومتوں میں اسپیکر کے دستخط کرنا یا پارلیمنٹ میں بھیجنا ضروری بھی نہیں ہوتا، بلکہ خود حکومتی کابینٹ میں پاس ہونے سے وہ قانونی شکل اختیار کرلیتے ہیں ،اور ان کو نافذ کردیا جاتا ہے لیکن وہ موارد میں جن میں اسپیکر کے دستخط اور اس کا تائید کرنا ضروری ہوتا ہے،ان میں ( بھی) دستخط اور تائید کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی اور صرف دکھاوٹی پہلو ہوتا ہے کیونکہ حکومتی کابینٹ کوئی بھی قانون بنادے تو پھر اسپیکر کو اس پر دستخط کرنا ہی ہوتا ہے اور اگر یہ فرض کرلیں کہ اسپیکر کے دستخط دکھاوے کے طور پر نہیں ہیں توکیا اسپیکر کے دستخط کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس قانون کو ممبر آف پارلیمنٹ نے بنایا ہے؟!
بھر حال بعض ایسے مسائل جو قانون گذاری کے پہلو رکھتے ہیں اور ان پر بحث وگفتگو کے ذریعہ ان کو پاس کرنا پارلیمنٹ کے ذمہ ہوتا ہے ، لیکن ان کی فوری طور پر ضرورت ہے اور اگر وہ فوراً تصویب نہ ہوئے تو معاشرہ میں خلل پیش آجائے گا تو اس صورت میں خود حکومتی کابینٹ کو اس طرح کے قوانین بنانے کا حق دیا جاتا ہے دوسری طرف بعض وہ مسائل جو اجرائی پہلو رکھتے ہیں لیکن ان کی اہمیت کے پیش نظر بنیادی قوانین ان کو جاری کرنے کے لئے پارلیمنٹ کو مصوب کرنے اور اس کی تائید کرنے کی شرط کرتا ہے مثلاً جنگ، اقتصاد اور تیل وغیرہ کے سلسلہ میں بیرونی کمپنیوں سے معاہدہ کرنا یہ سب کام اجرائی پہلو رکھتے ہیں لیکن بنیادی قوانین کے مطابق پارلیمنٹ کا پاس کرنا ضروری ہے قارئین کرام ! ہمارا مقصد یہ ہے کہ تھیوری اور نظری لحاظ سے پارلیمنٹ اور قوہ مجریہ کے وظائف میں مکمل طور سے جدائی کرنا صحیح اور منطقی نہیں ہے۔
حکومتی نظام میں پارلیمنٹ اور قانون گذار مجلس کے علاوہ دوسری شوریٰ اور مجالس بھی ہوتی ہیں جن کا کام بھی ایک طرح سے قانون گذاری ہوتا ہے مثال کے طور پر ہمارے ملک میں ”شوریٰ انقلاب فرہنگی“ بھی بعض چیزوں کو تصویب کرتی ہے جن کو قانون کی جگہ سمجھا جاتا ہے،اور ان قوانین کی شکل ایسی ہوتی ہے جس کی بنا پروہ شوریٰ اسلامی مجلس او رممبر آف پارلیمنٹ کے ذریعہ تصویب ہوجاتے ہیں ، لیکن ہمارے ملکی نظام کے ثقافتی اہمیت کی خاطر اور ثقافتی سلسلہ میں سیاست اور طریقہ کار کو طے کرنے کی ذمہ داری ان افراد پر ہوتی ہے جو اس سلسلہ میں کافی تجربہ اور مھارت رکھتے ہوں اسی طرح بعض دوسرے مخصوص ادارے ہوتے ہیں جن کا شمار قوہ مجریہ میں ہوتا ہے،اور قانون کو جاری کرنے والوں کی طرح تصیمم گیری کرتے ہیں اور قانون گذاری پہلو نہیں رکھتے، مثلاً ”شوریٰ عالی امنیت“ اور ”شوریٰ عالی اقتصاد“ جو اس سلسلہ کے ماہر ین افراد پر مشتمل ہوتی ہیں ، جن کی مھارت اور دقت عقلی دوسری کی نسبت زیادہ ہوتی ہے جوملک کے اہم اور اسٹریٹیجک" Strate'gique " مسائل میں اپنی دقت اور ظرافت کے ساتھ عمل کرتی ہے۔
قارئین کرام ! ہماری گذشتہ باتوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تینوں طاقتوں کا مکمل طریقہ سے مستقل اور الگ الگ ہوناچاہے تھیوری" Theory " کے لحاظ ہو یا عملی (پریکٹیکل) " Practical " اعتبارسے ایک مشکل کام ہے،خصوصاً حکومت کے مخصوص کاموں کا پارلیمنٹ کی ذمہ داریوں سے الگ کرنا لیکن جیسا کہ دیکہنے میں آتا ہے کہ یہ طاقتیں ایک دوسرے میں دخالت کرتی ہیں ،خصوصاً بھت سے ملکوں میں حکومت؛ پارلیمنٹ اور عدلیہ میں دخالت کرتی ہے اسی وجہ سے اس طرح کی مداخلت سے روک تھام کے لئے ایک طریقہ سے معاہدہ کرنا ضروری ہے۔
۵۔ تینوں طاقتوں پر ایک ناظر اور ہم اہنگ کرنے والی طاقت کی ضرورت
قارئین کرام ! دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر در حقیقت تینوں طاقتوں میں مطلق اور مکمل طور جدائی ہوجائے اور ہم پارلیمنٹ کو مستقل طور پردیکہنا چاہیں جودوسری دونوں طاقتوں سے کوئی بھی عھدا دار کا رابطہ نہ رکھتا ہو، اسی طرح قوہ مجریہ یا عدلیہ کو مستقل طور پر دیکہنا چاہیں اور اس تقسم میں تھیوری اور پریکٹیکل طور پر کسی طرح کی کوئی مشکل پیش نہ آئے تو ملک کی ترقی کے سلسلہ میں پیش آنے والے اہم امور میں بھت بڑی مشکل میں پھنس جائیں گے، اور وہ مشکل یہ ہوگی کہ حکومت میں ایک قسم کاشدید اختلاف پیدا ہوجائے گا؛ گویا ایک ہی ملک میں تین حکومتیں ہوں گی، جن میں سے ہر ایک اپنے لحاظ سے کارکردگی میں مشغول ہے جس کاایک دوسرے سے بالکل کوئی واسطہ نہیں ہے۔
المختصرایک طرف حکومت کی کار کردگی کا مختلف ہونا اور ان کا پیچیدہ اور وسیع ہونا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ طاقتیں تقسیم ہونا چاہئیں ، اور حکومت کے لئے مختلف پہلو مد نظر رکھے جائیں ، اور ان تینوں طاقتوں کی ذمہ داری کی وجہ سے ایک حکومت کے لئے بھت سے چھرے تصور کئے جائیں جس کے نتیجہ میں ایک حکومت مثلث القاعدہ یا مخمس القاعدہ ہوجائے جس کی وجہ سے اس حکومت کے مختلف چھرہ دکھائی دیں دوسری طرف سے عوام الناس اور معاشرہ کے نظام کی وحدت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ حکومت میں ایک وحدت اوران کا منسجم ہونا ضروری ہے تاکہ اسی کے زیر سایہ تمام نظام کی وحدت اور اتحاد نیز طاقتوں کے درمیان ایک ہم اہنگی برقرار رہے اسی طرح ان تینوں طاقتوں کی کارکردگی پر بھی نظارت ہوسکے۔
لھٰذا ہم اسلامی حکومت کے لئے دو قسم کی مصلحت اندیشی کے روبرو ہیں : ایک طرف سے ہمیں طاقتوں اور ذمہ داریوں کی تقسیم کو قبول کرنا ہے کیونکہ حکومت کی مختلف کار کردگی کی الگ الگ قسمیں ہیں اور ایسے ماہر افرادجواپنی مھارت او رتجربہ کے ذریعہ مختلف ذمہ داریوں کو نبھاسکیں ، بھت ہی کم ہیں ، اور شاید ایسے افراد کا وجود ہی نہ ہو ، لھٰذاان طاقتوں کا تقسیم کرنا ضروری ہے، اور ہر حصہ کی مخصوص ذمہ داریاں اسی فن میں ماہر افراد کے سپرد کی جائے دوسری طرف ،چونکہ معاشرہ کو ایک اتحاد اور وحدت کی ضرورت ہے؛ کیونکہ اگر ان طاقتوں میں اختلاف اور ٹکراؤ ہونے کا امکان ہے، لھٰذا ان تینوں طاقتوں کو ہم اہنگ کرنے سے ایک اہم طاقت کا ہونا ضروری ہے تاکہ اگر ان طاقتوں میں اختلاف ہوجائے تو وہ طاقت ان کے درمیان اس اختلاف کو دور کرسکے،اور ادھر معاشرہ میں اتحاد کے پیش نظر اپنا بنیادی کردار ادا کرے کیونکہ وہ معاشرہ جس پر تین طاقتیں مستقل طور پر اپنا اپنا حکم چلاتی ہیں ؛ اس کو ایک متحد اور ہم اہنگ نہیں کھا جاسکتا اور خواہ نخواہ ایک طرح کا اختلاف اور ٹکراؤ پیدا ہوجائے گا۔
اس مشکل کو حل کرنے اور ان طاقتوں میں اتحاد کو برقرار رکہنے کے لئے، نیز اختلاف کو حل کرنے کے لئے سیاست دانوں نے بھت سی راہ حل بیان کی ہیں جن کا بیان کرنا اس وقت ممکن نہیں ہے ، اور ہم صرف اسلامی راہ حل پیش کرتے ہیں ۔
۶۔ ولایت فقیہ معاشرہ کے اتحاد کا مرکز
قارئین کرام ! گذشتہ جلسات میں بیان شدہ مطالب کے پیش نظر جن میں اسلامی حکومت کی مختلف صورتیں اور اس کے اقداری درجات کے بارے میں عرض کیا کہ اسلامی حکومتوں کی بعض صورتیں نمونہ ہیں ، اور ان میں سے بعض اس سے کم تر درجہ کی ہیں ، کہ اگر بلند ترین اور نمونہ حکومت تشکیل نہ ہوسکے تو اس سے کم تر درجہ والی حکومت تشکیل پائے گی؛ یہاں پر ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ اسلامی نظام میں اس مشکل کے بارے میں بہتر ین چارہ جوئی بیان کی گئی ہے کیونکہ نمونہ حکومت میں ایک معصوم ذات کو بر سر اقتدار ہونا چاہئے، اور اسی کے ھاتھوں میں طاقت وقدرت ہونی چاہئے،اور یہ ظاہر سی بات ہے کہ جب (معصوم علیہ السلام) کے ھاتھوں میں قدرت ہوگی تو تو معاشرہ میں وحدت واتحاد اور قدرتوں میں ہم اہنگی پیدا ہوجائے گی، اور اپنی قدرت سے اختلافات اور قدرتوں کے درمیان ٹکراؤ کا خاتمہ فرمادیں گے اس کے علاوہ ہر قسم کی خودخواہی ،ذاتی مفاد اور پارٹی بازی سے جدا رہیں گے؛ کیونکہ معصوم وہ ہے جس میں کسی طرح کا کوئی غیر الہی تصور نہیں پایا جاتا (البتہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ اسلامی حکومت کی نمونہ صورت(آئیڈیل شکل) صرف امام علیہ السلام کے حاضر ہونے کی صورت ہی میں ممکن ہے۔
اسی طرح اسلامی حکومت کی دوسرے درجہ میں وہ حکومت ہے جس میں صاحب اقتدار وہ شخص ہو جو امام معصوم علیہ السلام سے زیادہ مشابہ اور نزدیک ہو ، اور ضروری شرائط کے علاوہ امام معصوم کے بعد تقویٰ اور عدالت کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہو ایسی شخصیت کو ولی فقیہ کھا جاتا ہے؛ معاشرہ کی وحدت ، قدرتوں کو ہم اہنگ کرنے والی اور عھدہ داران کی کارکردگی پر ناظر اورنگراں ہوتی ہے، نیز حکومت کے لئے اہم راہنمائیاں ، رہبری اور اہم سیاست گذاری اسی ذات کے ذریعہ ہوتی ہے۔
قدرت سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے لئے ”مونٹسکیو“ نے قدرتوں کی جدائی کا نظریہ پیش کیا جس کو تقریباً سبھی لوگوں نے قبول کیااور وہ ایک حد تک مفید بھی ہے ؛ لیکن اس نظریہ سے اصل مشکل کا حل نہیں ہوتا کیونکہ اگر حکومت کے عھدہ داران (تینوں طاقتوں میں ) اخلاقی صلاحیت اور تقویٰ الہی سے مزین نہ ہوں اور قدرت تقسیم ہوجائے اور تین حصوں میں بٹ جائے، تو اس صورت میں معاشرہ کی برائیاں اور خود حکومت بھی تین حصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے اس صورت میں اگر ہم قوہ مجریہ کی برائیاں کم ہوتی دکھائی دیتی ہیں تو اس کی وجہ اس دائرہ کا محدود ہوجانا ہے اور صرف قدرت کا ایک حصہ اس کے پاس ہے لھٰذا ہمیں اس چیز پر خوش نہیں ہونا چاہئے کہ قوہ مجریھ( حکومت)کے جرائم اور فساد کم ہوگئے ہیں کیونکہ بعض مفاسد عدلیہ کی طرف منتقل ہوگئے ہیں اور بعض پارلیمنٹ کی طرف جو غالباً قوہ مجریہ کے تحت تاثیر ہوتی ہے،اور ان سے خلاف ورزیاں اور مفاسد سرزد ہوتے ہیں ۔
لھٰذا ان طاقتوں کے مفاسد اور ایک دوسرے میں دخالت کرنے سے روک تھام کا بہتر ین طریقہ عھدہ داروں کے لئے تقویٰ الہی اور اخلاقی صلاحیت کی سفارش کرنا ہے اور ہر عھدہ دار اپنے عھدہ کے لحاظ سے تقویٰ اور اخلاقی صلاحیت کا مالک ہو ، اگر عھدہ عظیم اور بڑا ہے تواس کا تقویٰ اور اخلاقی صلاحیت بھی دوسروں کی بہ نسبت زیادہ ہو، اور اسی قانون کے تحت جو شخص اس اسلامی قدرت کی صدارت کررہا ہو وہ سب عھدہ داروں میں سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار ہو،نیز مدیریت اور قوانین کی معلومات بھی بہتر ین ہوں اسی وجہ سے اسلامی نظام میں قدرتوں کے درمیان اختلافات کو روکنے، مفاسد کو دور کرنے اورٹکراؤ وغیرہ سے روک تھام ، نیز معاشرہ کے اتحاد ووحدت کو برقرار رکہنے والے رہبر کے لئے دوسرے حکومتی عھدہ داروں سے زیادہ تقویٰ اور عدالت کی شرط رکھی گئی ہے تاکہ عوام الناس اس کی عدالت اور تقویٰ پر اطمینان رکھتے ہوئے اس کی اطاعت کریں اور اس کو اپنی مشکلات حل کرنے والا سمجھیں اس صورت میں اگر تینوں قدرتوں میں کچھ خامیاں اور مشکلات پیدا ہوجائیں تو اس عظیم الشان رہبری کے زیر سایہ برطرف ہوجائیں ،اور معاشرہ کی مشکلات بھی رفتہ رفتہ دور ہوجائیں جیسا کہ اس بیس سال کے زمانہ میں ہم مقام رہبری کا مشکل کشاء اور ، سعادت بخش کردار دیکھتے آئے ہیں ۔