غریب القرآن

غریب القرآن0%

غریب القرآن مؤلف:
زمرہ جات: علوم قرآن
صفحے: 33

غریب القرآن

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹر سید عبدالوہاب طالقانے
زمرہ جات: صفحے: 33
مشاہدے: 15919
ڈاؤنلوڈ: 4465

تبصرے:

کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 33 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 15919 / ڈاؤنلوڈ: 4465
سائز سائز سائز
غریب القرآن

غریب القرآن

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

گنہگاروں کے لئے یہ عذاب ناقابل تصور حد تک مشکل اور سخت ہے کیونکہ انسان جہنم میں جانے کے بعد نہ شدت درد سے مرجاتا ہے کہ مرکرہی اس عذاب سے نجات مل جائے اور نہ ہی اس ہولناک درد ہی افاقے کا امکان ہے کیونکہ ہر آن جلتا ہے ۔ راکھ بنتا ہے گل سٹر جاتا ہے تو تازہ کھال چڑھایا جاتا ہے تاکہ درد کھلے عروج اورتسلسل میں کوئی خلل نہ آئے۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا درد کے تسلسل کو باقی رکھنے کے لئے تازہ کھال چڑھائے جانے کا ذکر ہوا ہے۔

۳ ۔ درج ذیل آیات کو مجموعاً ملاحظہ کیجئے۔

( فَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ ) (لقمان: ۱۰)

”پس ہم نے زمین پودوں اور نباتات کے اچھے جوڑے لگائے“

دوسری جگہ فرمایا!

( وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ )

”اسی نے ہر طرح کے پھلوں کے جوڑے پیدا کئے“

تیسری جگہ فرمایا!

( سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ ) (یٰسین: ۳۶)

”پاک ہے وہ ذات جس نے جملہ اقسام کے جوڑے بنائے خواہ وہ زمین کے نباتات میں سے ہو یا اپنی جنس (نوع انسانی) یا ان اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں“

مندرجہ بالا آیتوں سے یہ معلوم ہوا کہ ہر چیز کے جوڑے ہوتے ہیں یعنی نر اور مادہ ہوتے ہیں قرآن مجید نے واضح طورپر بیان کیا ہے کہ نباتات میں بھی نر مادہ ہوتے ہیں۔ سائنس دانوں نے بڑی تحقیق کے بعد ثابت کیاہے کہ پودوں کے بھی جوڑے ہوتے ہیں بلکہ ایک ہی پودے کے ایک ہی پھول کے اندر دو ڈنڈیاں ہوتی ہیں جن میں سے ایک نر اور دوسری مادہ ہوتی ہے۔ ایک سوال یہ ابھرتا ہے کہ کیا نر مادے کا ہونا کافی ہے؟ یاان میں ملاپ بھی ضروری ہے تاکہ یہ موجود بارآور ہو جائے۔

۲۱

سائنس نے ثابت کیا ہے کہ نباتات اور درختوں کے بارآور ہونے کیلئے ان کا ملاپ ضروری ہے اور نباتات میں یہ عمل ممکن نہیں ہے اس لئے ان میں ملاپ کے لئے کچھ دیگر ذرائع رکھ دیئے ہیں ان میں سے ایک وہ ہے جسے حضرات بے فائدہ مخلوق سمجھتے ہیں حشرات اور پرندے جیسے مکھی تتلی، بھڑ، اور پرندے پودوں کے پھول کی نر ڈنڈی کے اوپر موجود سفوف ذرات۔۔۔۔۔؟ کو اپنے ساتھ لے کر مادہ ڈنڈی کی طرف جاتے ہیں یوں ان کی ٹانگوں پروں اور جسموں کے ساتھ لگے ہوئے ذرات مادہ تک پہنچ جاتے ہیں اور پودا اسی سے بارآور ہو جاتا ہے۔ گویا یہی ان کا ملاپ ہے ایک اور طریقے کو سائنس نے انکشاف کیا ہے وہ ہوا کی حرکت ہے جب ہوا چلتی ہے تو نر اور مادہ پھول کے اندر موجود ذرات ہوا کے ذریعے ایک دوسرے تک پہنچ جاتے ہیں جس کے نیچے ہی یہ پھول یا پودا بارآور ہو جاتا ہے یہی طریقہ ملاپ ہے اور یوں پودے اور نباتات انہی نسل برقرار رکھتے ہیں حیران کن بات یہ ہے قرآن کریم نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔

( وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ ) (حجر: ۲۲)

”ہم نے بارآور کر دینے والی ہوائیں چلائیں“

قرآن مجید نے جس راز کو آج سے ۱۴ سو سال پہلے بتا دیا ہے سائنس نے اسے صرف دو سال پہلے کشف کیا ہے۔

۴ ۔( أَيَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَلَّن نَّجْمَعَ عِظَامَهُ ﴿﴾ بَلَىٰ قَادِرِينَ عَلَىٰ أَن نُّسَوِّيَ بَنَانَهُ ) (قیامة: ۲۰۱)

”کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم (قیامت کے دن) ان کی ہڈیوں کو جوڑنے پر قادر نہیں (ان ہڈیوں کا جوڑنا کوئی مشکل نہیں) بلکہ ہم اس پر (بھی) قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کی پوروں تک درست کریں“

۲۲

خالق کائنات کی ساری مخلوقات میں سے صرف انگلیوں کے اندر ایک ایسی خصوصیت رکھی ہے جو اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کردیتی ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے منکرین قیامت نیز انسان کی گلی سڑی ہڈیوں کو دوبارہ جمع کرنے پر اللہ سبحانہ کی قدرت کے انکار کرنے والوں کے جواب میں فرمایا ہے۔ ہڈیوں کا جمع کرنا تو کوئی مشکل نہیں ہم تو ان کی انگلیوں کو بھی اسی حالت میں لے آئیں گے جس میں وہ پہلے تھیں۔ انگلی کی خصوصیت کیا ہے جس کی وجہ سے اس کا دوبارہ وجود میں یا اسی حالت میں لے آنا کسی کے لئے مشکل ہو۔

دراصل اسکی خصوصیت وہ لکیریں ہیں جو انگلی کے پوروں میں ہوتی ہیں اور ان لکیروں کے اندر جو حیران کن بات ہے وہ یہ ہے کہ تمام انسانوں کے ہاتھوں کی لکیریں ایک دوسرے سے نہیں ملتیں۔ یعنی ہر ایک دوسرے سے مختلف ہے یہ بات قابل فہم ہے کہ کسی فنکار کے لئے، یا کارخانہ دار کے لئے ایک جیسی چیزیں بنانا آسان ہے، جس طرح سے گاڑیوں کا کارخانہ ایک ہی ماڈل کی گاڑیاں بناتا ہے اور کم از کم ایک سال بعد ماڈل تبدیل کرکے پھر ایک جیسے لاکھوں گاڑیاں بناتا ہے اگر ان سے ہر ضرورت مند ایک خاص ماڈل کا مطالعبہ کرے اور ہر گاڑی کا ماڈل رنگ شکل اور دیگر خصوصیات مختلف ہو تو یہ ان کی قدرت سے باہر ہو گی۔ اسی لئے کسی فنکار یا ہنر مند شخص کیلئے ایک جیسی چیزیں بنانا آسان ہے مگر ہر چیز الگ خصوصیت کی حامل ہو یہ ذرا مشکل کام ہے اس کا ہنر اس کا فن یہاں جواب دے دے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھئے کسی انسان کی انگلی دوسرے کی انگلی سے نہیں ملتی اور ہر انگلی کی خاص خصوصیت ہے لہذا اتنی تعداد میں مختلف اور متنوع چیز بنانا اپنی جگہ مشکل اور عادةً انسان کے لئے محال ہے لیکن یہ کام اللہ کے لئے آسان ہے اور ہماری انگلیوں کی خلقت اس بات کی دلیل ہے۔

۲۳

آپ کو معلوم ہوگا انگلیوں کے پوروں کا مختلف ہونا جراثیم کی دنیا میں پولیس اور تحقیقاتی اداروں کے لئے نیز دیگر ضروری اسناد کے حوالے سے نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے آج کی جراثیم کی دنیا میں ( Finger Print ) انکشاف جرائم، اسناد، دفتری امور میں اسے استفادہ کیا جاتا ہے اور حتی کہ یہ سننے میں آیا ہے کہ بعض ترقی یافتہ ممالک میں دستخط کی بجائے ضروری اسناد پر انگوٹھا ہی لگوایا جاتا ہے تاکہ اسناد میں کسی قسم کی ہیر پھیر نہ کی جا سکے۔ اگرچہ ہمارے ہاں انگوٹھا لگوانا جہالت کی نشانی ہے اور یقینا انگلی کے اندر موجود خدا کی لازوال قدرت کی نشانی کا علم نہ ہونا یقینا جہالت کی نشانی ہے۔

۵ ۔( يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَن يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ ۖ وَإِن يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَّا يَسْتَنقِذُوهُ مِنْهُ ۚ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ )

”اے لوگو! عجیب بات یہا ں کی جاتی ہے کان لگا کر سن لو(یہ وہ ہے کہ) اس میں کوئی شک نہیں کہ جن کی تم لوگ خدا کو چھوڑ کر عبادت کرتے ہو وہ ایک (ادنی) مکھی کو تو پیدا نہیں کر سکتے گو( سب کے سب بھی کیوں نہ) جمع ہو جائیں اور (پیدا کرنا تو بڑی بات ہے وہ اسے عاجز ہیں کہ) اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے تو اسے چھڑا بھی نہیں سکتے“

تہران میں شائع ہونے والے ایک علمی مجلہ ”یدنیہا“ میں لوگوں سے یہ سوال لکھا گیا تھا کہ وہ کون سا عمل ہے جس کے انجام دینے سے سائنس عاجز ہے؟ جواب میں لکھا گیا تھا کہ سائنس دانوں کے لئے یہ بات یا یہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ایک چھوٹی مخلوق یعنی مکھی کا نظام ہاضمہ ایسا ہے کہ اگر مکھی کسی چیز کو اپنے میں اٹھا لے تو اے دوبارہ اسی حالت میں حاصل کرنا ناممکن ہے کیونکہ اس کا نظام ہاضمہ میں عمل ہضم اس قدر تی ہے کہ حاصل کردہ غذا کو ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ہضم کرکے تحلیل کر دیتی ہے۔

۲۴

”دعوت مطالعہ“

قرآن کریم کا مقصد اور نصب العین نوع بشر کی ہدایت اور معنوی تکامل ہے۔ قرآن کوئی سائنسی کتاب نہیں ہے کہ جس میں فزکس، کیمسٹری، فلکیات وغیرہ سے بحث کی جائے یا سائنسی نظریات بیان کئے جائیں تاہم قرآن مجید نے بعض موارد میں اس کائنات اور اس کے اندر موجود اسرار وروموز کی طرف اشارہ بھی کیا ہے ان میں سے چند موارد کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ کہ یہ کائنات اور اس کے اندر موجود ساری موجودات (کتاب تکوین) بھی اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے ہیں اور قرآن کریم نے کتاب تکوین کی مطالعے اور غوروفکر کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے کائنات اور تمام مخلوقات کے اندر غوروفکر سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی اور پیشرفت کا ضامن ہے وہ آیات جن میں مظاہر فطرت کی تحقیق اور مطالعے کی دعوت دی گئی ہے ان میں سے بعض آیات درج ذیل ہیں۔

( قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقُ ) (عنکبوت: ۲۰)

”آپ ان لوگوں سے کہیں کہ تم لوگ زمین پر چلو پھرو اور دیکھو کہ خدا تعالیٰ نے مخلوق کو کس طرح ابتداء سے خلق کیا“

( قُلِ انْظُرُوْا مَاذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ) (یونس: ۱۰۱)

آپ کہہ دیجئے کہ تم غور کرو اور دیکھو کیا کیا چیزیں ہیں آسمانوں اور زمینوں میں“

( فَلْیَنْظُرِ الاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ ) (طارق: ۵)

دیکھنا چاہیے کہ انسان کو کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے“

( وَاِلَی السَّمَآءِ کَیْفَ رُفِعَتْ o وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ o وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ o فَذَکِّرْ اِنَّمَا اَنْتَ مُذَکِّرٌ o لَسْتَ عَلَیْهِمْ ِمُصَیْطِرٍ o اِلَّا مَنْ تَوَلّٰی وَکَفَرَ o فَیُعَذِّبُهُ اللّٰهُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ o اِنَّ اِلَیْنَا اِیَابَهُمْ o ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَهُمْ ) (الغاشیہ: ۱۷،۲۶)

”کیا اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کس طرح عجیب طور پر خلق کیا گیا ہے اور آسمانوں کو نہیں دیکھتے کیونکر بلند کئے گئے اور پہاڑوں کی طرف، کہ وہ کیونکر گاڑے گئے اور زمین کی طرف، کہ اسے کس لئے بچھائی گئی ہے غرض یہ ہے کہ قرآن مجید میں جا بجا مطالعہ فطرت کی دعوت دی جا رہی ہے ایک تحقیق کے مطابق ۷۵۰ سے زیادہ آیات میں کائنات اور مخلوقات خداوندی کے بارے میں غورو فکر کرنے، تحقیق و مطالعہ کی تاکید کی گئی ہے ۔“

۲۵

مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ کائنات اور مظاہر فطرت کے بارے میں تحقیق کرنا اور ان تحقیقات کے نتیجے میں مختلف علوم کو پروان چڑھانا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ آسمانوں کے مطالعے کی دی گئی ہے اگر اس موضوع پر تحقیق کرتے تو علم نجوم وفلکیات وجود میں آتے، زمین کے مطالعے کی دعوت سے علم الارض وجود میں آتا۔ جانوروں کے مطالعے سے علم الحیوان وجود میں آتا، اسی طرح سے سینکڑوں موضوعات ہیں جن میں تحقیق، غوروفکر کی براہ راست دعوت دی گئی ہے عقل وفکر کو بروئے کار لانے کا حکم دیا ہے۔ بنابریں ان آیات کی روشنی میں مسلمانوں کا یہ فریضہ بنتا تھا کہ وہ خالق کائنات کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اس کائنات کی مطالعے میں لگ جاتے اور جس کے نتیجے میں تمام اختراعات ایجادات اور انکشافات کے مالک مسلمان ہوتے۔ جدید سے جدید ترین ٹیکنالوجی مسلمانوں کی طرف سے یورپ میں صادر ہوئے۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ مسلمان انہی آسمانی کتاب کی تعلیمات سے منہ موڑ لینے کی وجہ سے صورت حال اس کے برعکس ہو گیا ہے۔

غیروں نے اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ترقی وتمدن کا سہرا اپنے سر پر سجا لیا اور مسلمان قرآنی تعلیمات کی طرف سے عدم توجہ کی وجہ سے پسماندگی کا شکار ہوگئے۔ احساس کمتری میں مبتلا ہو گئے۔ سائنسی پیشرفت اور ٹیکنالوجی میں اہل یورپ کے دست نگر بن گئے۔ جس کے نتیجے میں سیاسی اقتصادی دیگر امور می فیصلوں کے حق سے محروم ہو گئے۔ اپنے جائز اور بنیادی حقوق کے لئے ان کے آگے جھولی پھیلانے پر مجبور ہوئے۔ سیاسی، اقتصادی خودمختاری ان سے چھن گئی۔

امیر المومنین نے اس خطرے کی نشاندہی کر دی تھی۔ فرمایا:

اللّٰه اللّٰه فی القرآن لا یبقکم بالعمل به غیرکم ۔ (نہج البلاغہ: ۴۷)

”قرآن کے بارے میں ڈرتے رہنا ایسا نہ ہو کہ دوسرے اس پر عمل کرنے میں تم پر سبقت لے جائیں“

( وَكَأَيِّن مِّنْ آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ ) (یوسف: ۱۰۵)

”اور بہت سی نشانیاں ہیں آسمانوں میں اور زمین میں جن پر ان کا گزر ہوتا رہتا ہے اور وہ ان کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے“

۲۶

مسلمان آج جس ذلت اور خواری میں مبتلا ہیں اس کا اصل سبب قرآن سے ان کا رشتہ اور تعلق کا ہ ہونا ہے ترقی کی دوڑ میں مسلمانوں کے پیچھے رہ جانے کا اصل سبب ان کے قرآن کے ساتھ ریاکاری ہے کیونکہ مسلمان زبانی طور پر قرآن کو بڑی اہمیت دیتے ہیں لیکن عمل کے میدان میں قرآن کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔

رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای سے اس موضوع کے بارے میں پڑھئیے۔

”ذرا مسلمانوں کی عملی زندگی کی طرف توجہ کیجئے ان کا قرآن کے ساتھ کیا رشتہ ہے کیا آپ کو مسلمانوں کی سیاسی اداروں میں قرآن کی معمولی جھلک نظر آتی ہے؟ کیا مسلمانوں کے اقتصادی اداروں میں اور ان کے اقتصادی مذاہب میں قرآن کی خوشبو ہے؟ کیا مسلمان اپنے بھائیوں کے ساتھ روابط کے حوالے سے قرآن سے رجوع کرتے ہیں؟ اور مسلمانوں کا غیر مسلموں کے ساتھ کیسا رابطہ ہونا چاہیے اس کے بارے میں قرآن سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں؟ کیا ان کی یونیورسٹیوں ، کالجوں اور سکولوں میں قرآن کے لئے کوئی مقام ہے؟ کیا اسلامی ممالک غیر مسلم ممالک کے ساتھ روابط اور دوستی قائم کرتے وقت قرآنی اصولوں کا خیال رکھتے ہیں؟ کیا مسلمان قومی دولت وثروت کو قوم کے مختلف طبقوں میں تقسیم کے طریقہ کار کے بارے میں قرآن سے راہنمائی لیتے ہیں؟ کیا ہمارے حکمران رفتار کردار، اخلاق، رہن سہن، محافل ومجالس میں قرآنی احکام پر کاربند نظر آتے ہیں؟ کیا مسلمان حکمرانوں کی نجی زندگی میں قرآن کا کوئی حص ہے؟ ہمیں اعتراف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنا چاہیے کہ جتنا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ نے قرآن سے تمسک کرنے اور قرآنی سانچے میں ڈھلنے کی تاکید فرمائی ہے اتنا ہی مسلمان قرآن سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں“

”آج سے سو سال قبل عظیم مصلح اور مفکر اسلام سید جمال الدین افغانی اس بات پر خون کے آنسو روتے تھے کہ نام نہاد مسلمانوں نے قرآن کے ساتھ کیا کیا ظلم روا رکھا ہے، کیونکہ اسے اصل مقصد سے ہٹا کر گفٹ کے طور پر دینے، لائبریریوں کی زینت بنانے، قبور پر فاتحہ خوانی کے کام میں لایا جاتا ہے اور آخر کار طاق نسیان میں نفیس غلاف چڑھا کر رکھ دیا جاتا ہے“

۲۷

اہل تشیع وتسنن اور قرآن

مفسر کبیر علامہ محمد حسین طباطبائی نے قیل کی طرف نسبت دیتے ہوئے فرمایا:

ان اهل السنة اخذ والکتاب وترکوا العترة وترکوا الکتاب لقول النبی انهما یفترفا وان الشیعه اخذوا العترة وترکوا الکتاب قال ذلک من هم الی ترک العترة لقوله ان هما لس یفترفا فترکت الامة الکتاب والعترة معاً

”اس پیرا گراف کا مفہوم یہ ہے کہ اہل سنت نے قرآن کو اخذ کیا اور عترت رسول کو ترک کر دیا، جس کے نتیجے میں دامن قرآن بھی ان کے ہاتھ سے چھوٹ گئی کیونکہ آنحضور نے فرمایا تھا کہ یہ دونوں (قرآن وعترت) کبھی جدا نہیں ہوں گے اور شیعہ حضرات نے عترت رسول کو لیا اور قرآن کو چھوڑ دیا اس کے نتیجے میں ان کے ہاتھ سے عترت رسول کا دامن بھی چھوٹ گیا کیونکہ آنحضور نے فرمایا تھا کہ یہ دونوں کبھی جدا نہیں ہوں گے۔ بنابرایں اس طرح سے گویا پوری امت مسلمہ نے قرآن اور عترت دونوں کو چھوڑ دیا ہے“

یہ یاد رہے کہ مندرجہ بالا مطالب کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں نے قرآن وعترت کا انکار کیا کیونکہ نہ ہی اہل سنت مقام وشرف وعظمت اہل بیت اطہار کے منکر ہیں اور نہ شیعہ کلام اللہ مجدی کے (نعوذ باللہ) منکر ہیں بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے۔ بلکہ یہ دونوں جنہیں رسول اللہ نے ثقل اصغر اور ثقل اکبر سے تعبیر کیا تھا اور دونوں کے ساتھ بیک وقت متمسک رہنے کی بہت تاکید فرمائی تھی اسے مسلمانوں نے فراموش کر دیا ہے اور ان دونوں کو مسلمانوں کے نذدیک جو مقام ملنا چاہیے تھا وہ نہیں ملا اور مسلمانوں نے ان کا حق ادا نہیں کیا، شیعہ میں سے بعض حضرات مجالس ومحافل پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور ان سے جو کچھ سننے کو ملتا ہے ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔ ان کی مثال اس مریض کی سی ہے جو حاذق ڈاکٹر کو تلاش کرنے میں تو کامیاب ہو تے ہیں مگر اس کے نسخوں کو کام میں نہیں لاتے۔ جب تک معصومین کے فرامین پر عمل پیرا نہیں ہوں گے وہ نہ قرآن کا حق ادا کرسکتے ہیں اور نہ اہل بیت اطہار کا اور اہل سنت کی مثال اس مریض کی سی ہے جو طبیب کی تلاش میں دور دور کی مسافت طے کرکے اس طبیب سے رجوع کرتا ہے جو کہ راسخون فی العلم نہیں ہے۔ بنابر ایں دونوں کے مرض میں افاقہ کا امکان نہیں ہے۔

۲۸

امام زمانہ اور قرآن

امیرالمومنین امام زمانہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

یحیی میت من الکتاب والسنة

”وہ (امام زمانہ) جب ظہور فرمائے گا آپ مردہ قرآن وسنت کی احیاء فرمائیں گے“

رسول اللہ فرماتے ہیں:

انه شافع مشفع وماحل مصدق

”قرآن شفاعت کرے گا تو اس کی شفاعت قبول کی جائے گی (اس کے بارے میں جو اس پر عمل کرے گا)اور قرآن لوگوں کی برائیوں کے بارے میں بھی بتائے گا تو اس کی تصدیق کی جائے گی“

قرآن غیروں کی نگاہ میں

جان ژاک روسو:

فرانس کے ایک مشہور دانشور کہتے ہیں: اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: اے قرآن لانے والے، آو ہمارے ہاتھوں کو تھام لو، باغ، چمن، صحرا وبیاباں جہاں تو چاہے لے جاؤ، اگر تو ہمیں بلا اور مصائب کے سمندر میں لے جاؤ تو بھی ہم تیار ہیں کیونکہ تو ہماری زندگی وحیات کے بارے میں خوب جانتا ہے“

۲۹

پرنس جاپانی بودگیز:

اسٹالب کے ایک مورخ لکھتے ہیں:

”جونہی مسلمانوں نے قرآن کی پیروی اس کا مطالعہ اور اس کے قوانین پر عمل پیرا ہونے میں سستی کی ہے سعادت اور خوش بختی جہان بانی اور ریاست کا فرشتہ ان سے دور ہو گیا ہے اور وہ عزت، قدرت، خوشحالی اور عظمت اور بندگی نے لی ہے اور دشمنوں نے ان کے معاشرے کے گرد گھیرا تنگ کیا اور آج اس ناگفتہ بہ حالت میں لا کھڑا کر دیا ہے“

واکسٹن آف اسکاٹ لینڈ:

کافی عرصے سے حقیقت کی تلاش تھی یہاں تک کہ اس حقیقت کو میں نے اسلام کے اندر پایا، پھر قرآن کو پایا اس کا مطالعہ شروع کیا، یہی قرآن ہی تو ہے جس نے میرے ذہب میں ابھرنے والے تمام سوالوں کا جواب دیا قرآن کی خصوصیت یہ ہے کہ انسان کے دل میں خوف خدا جانگزین کرتا ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ جو کچھ اس میں تحریر ہے وہ صحیح ہے۔

فرانس کے سابق مقتدر بادشاہ ناپلیئون:

کہتے ہیں کہ :

”صرف اور صرف قرآن بشر کی سعادت کا ضامن ہے میں امیدوار ہوں کہ وہ زمانہ دور نہیں کہ میں پوری دنیا کے دانشمندوں کو متحد کروں اور ایک ہم آہنگ نظام قرآن کریم کے بتائے ہوئے اصولوں پر مبنی نظام دنیا میں رائج کر کے انسانیت کو سعادت اور خوش بختی کی طرف راہنمائی کروں“

۳۰

ہنری کاربن:

فرانس کے ایک مشہور فلسفی کاکہنا ہے:

اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افکار خرافات ہوتے اور قرآن وحی نہ ہوتی تو بشر کو علم ومعرفت کی دعوت ہر گز نہ دیتے۔ کسی انسان یا کسی مکتب نے محمد اور قرآن کی طرح علم ومعرفت کی طرف دعوت نہیں دی قرآن میں ۹۵۰ مرتبہ علم وفکر وتعقل کے بارے میں گفتگو موجود ہے“

بقول علامہ اقبال :

نقش قرآن در این عالم نشست

نقشہائے کانہاں تاپا شکست

فاش گویم آنچہ در دل مضمر است

ایں کتاب نیست چیزی دگر است

چوں بجاں رفت جان دگر شود

جان چو دگر شد جہاں دگر شود

۳۱

منابع:

۱ ۔ قرآن مجید

۲ ۔ نہج البلاغہ

۳ ۔ بحارالانوار

۴ ۔ کنزالعمال

۵ ۔ آشنائی با واژہ ہائے قرآن

۶ ۔ وسائل الشیعہ

۳۲

فہرست

مق دمہ ۳

غریب القرآن کی تدوین: ۴

مجاز القرآن ۷

وجوہ القرآن ۹

فہرست کتب غریب القرآن ۱۰

مہجوریت قرآن ۱۱

قرآن کریم اور عامة الناس ۱۵

قرآن اور تعلیمی ادارے ۱۹

”دعوت مطالعہ“ ۲۵

اہل تشیع وتسنن اور قرآن ۲۸

امام زمانہ اور قرآن ۲۹

قرآن غیروں کی نگاہ میں ۲۹

جان ژاک روسو: ۲۹

پرنس جاپانی بودگیز: ۳۰

واکسٹن آف اسکاٹ لینڈ: ۳۰

فرانس کے سابق مقتدر بادشاہ ناپلیئون: ۳۰

ہنری کاربن: ۳۱

منابع: ۳۲

۳۳