اور ہمیں اس بات کا پورا اطمینان حاصل ہو جائے گا کہ تفسیر کی تدوین غریب القرآن کی تدوین پر مقدم ہے کیونکہ ابن عباس کے بعد، ابو عبداللہ سعید بن جبیر اسری کوفی ( ۴۵ تا ۹۵) جوابن عباس کے قابل قدر شاگر ہے ،وہ سب سے پہلے مفسرین میں شامل ہیں عبدالملک مردان (متوفی ۸۶) سعید بن جبیر سے ایک تفسیر لکھنے کا کہا ہے سعید اس کے کہنے پر عمل کرتا ہے
لیکن اگر ہم سعید بن جبیر کی تفسیر میں شک کریں تو مجبوراً تفسیر مجاہدبن جبرمکی ( ۲۱۱۰۴) کو ابن عباس کی روایت کے مطابق ، قبول کرنا پڑے گا
بہرحال تفسیر کی تدوین پہلی صدی کے اواخر سے پہلے پہلے ہی انجام پذیر ہوئی ہے جبکہ ابان بن تغلب کی غریب القرآں دوسری صدی کے نصف اول سے متعلق ہے
بنابریں اگر ابن عباس کی طرف دی گئی ہے نسبت میں شک نہ کریں تو غریب القرآن اور تفسیر قران کی تدوین کا زمانہ ایک ہی ہے اور ابن عباس کے توسط سے اسکی تدوین انجام پائی ہے اور اگر اس میں شک کریں تو غریب القرآن کی تالیف کو تفسیر قران سے موخر مانا جائے گا
ابن ندیم غریب القرآن سے متعلق کتب کے حصے میں ابو عبیدہ معمر بن مثنی (متوفی ، ۲۱۰) سے شروع کرتے ہیں اور ابان بن تغلب کو یاد نہیں کرتے ہیں
معلوم نہیں ہے کہ ابان بن تغلب اور اسکی کتاب کو ابن ندیم نے کیوں یاد نہیں کیا
لیکن شیخ نجاشی اور شیخ طوسی نے ابان بن تغلب کی کتب میں الغریب فی القرآن اور ذکر شواھدہ مِن الشتر کا ذکر کیا ہے
ابن ندیم کے بقول غریب القرآن دوسری صدی کے نصف دوم میں یاتیسری صدی کے اوائل میں تدوین کی گئی
اگر غریب القرآن کے تقابل میں معمر بن مسثنیٰ نے بھی تفسیر میں ایک مدون اور جامع کتاب جو سورتوں کی تفسیر اور تو ضیح میں خاص نظم و ترتیب سے لکھی ہو تو جو کچھ ذکر کیا گیا ہے اُس سے صرفِ نظر کرنی چاہیے اور ابی ذکریا یحییٰ ابن زیاد فرّا (متوفی ، ۲۰۷) کی کتاب کا نام لیا جاتا ہے