”دعوت مطالعہ“
قرآن کریم کا مقصد اور نصب العین نوع بشر کی ہدایت اور معنوی تکامل ہے۔ قرآن کوئی سائنسی کتاب نہیں ہے کہ جس میں فزکس، کیمسٹری، فلکیات وغیرہ سے بحث کی جائے یا سائنسی نظریات بیان کئے جائیں تاہم قرآن مجید نے بعض موارد میں اس کائنات اور اس کے اندر موجود اسرار وروموز کی طرف اشارہ بھی کیا ہے ان میں سے چند موارد کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ کہ یہ کائنات اور اس کے اندر موجود ساری موجودات (کتاب تکوین) بھی اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے ہیں اور قرآن کریم نے کتاب تکوین کی مطالعے اور غوروفکر کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے کائنات اور تمام مخلوقات کے اندر غوروفکر سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی اور پیشرفت کا ضامن ہے وہ آیات جن میں مظاہر فطرت کی تحقیق اور مطالعے کی دعوت دی گئی ہے ان میں سے بعض آیات درج ذیل ہیں۔
(
قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقُ
)
(عنکبوت: ۲۰)
”آپ ان لوگوں سے کہیں کہ تم لوگ زمین پر چلو پھرو اور دیکھو کہ خدا تعالیٰ نے مخلوق کو کس طرح ابتداء سے خلق کیا“
(
قُلِ انْظُرُوْا مَاذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ
)
(یونس: ۱۰۱)
آپ کہہ دیجئے کہ تم غور کرو اور دیکھو کیا کیا چیزیں ہیں آسمانوں اور زمینوں میں“
(
فَلْیَنْظُرِ الاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ
)
(طارق: ۵)
دیکھنا چاہیے کہ انسان کو کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے“
(
وَاِلَی السَّمَآءِ کَیْفَ رُفِعَتْ
o
وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ
o
وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْ
o
فَذَکِّرْ اِنَّمَا اَنْتَ مُذَکِّرٌ
o
لَسْتَ عَلَیْهِمْ ِمُصَیْطِرٍ
o
اِلَّا مَنْ تَوَلّٰی وَکَفَرَ
o
فَیُعَذِّبُهُ اللّٰهُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ
o
اِنَّ اِلَیْنَا اِیَابَهُمْ
o
ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَهُمْ
)
(الغاشیہ: ۱۷،۲۶)
”کیا اونٹ کو نہیں دیکھتے کہ کس طرح عجیب طور پر خلق کیا گیا ہے اور آسمانوں کو نہیں دیکھتے کیونکر بلند کئے گئے اور پہاڑوں کی طرف، کہ وہ کیونکر گاڑے گئے اور زمین کی طرف، کہ اسے کس لئے بچھائی گئی ہے غرض یہ ہے کہ قرآن مجید میں جا بجا مطالعہ فطرت کی دعوت دی جا رہی ہے ایک تحقیق کے مطابق ۷۵۰ سے زیادہ آیات میں کائنات اور مخلوقات خداوندی کے بارے میں غورو فکر کرنے، تحقیق و مطالعہ کی تاکید کی گئی ہے ۔“