بسم الله الرحمن الرحيم
خصوصي مقدمہ
الحمد لله والصلوٰة عليٰ رسول الله وعليٰ آله خلفائ الله
١۔ خدا وند عظيم کي صفات ۔
مخلوق کي تربيت کرنا ہے۔ اس نے ہم انسانوں کي تربيت اور کمالات تک پہنچانے کے لئے جو انسانيت کا عروج ہيں۔ کچھ عبادات مقرر کي ہيںاور کچھ اخلاقي اچھائيوں کو ہمارے لئے معين فرمايا ہے۔ خدا کي غرض يہي ہے کہ انسان ان عبادات پر عمل کرے اور ان اخلاقي فرائض کو اپنے ميں پيدا کرے۔۔ اور ان دونوں کے ذريعے سے انسا ن اس کمال تک پہنچے جو اس کي معراج ہے۔ يہ معراج اس لحاظ سے ہے کہ انسان ان روحاني لذتوں اور باطني کمالات کو حاصل کرے جس سے وہ دنيا ميں بھي ظاہري اور باطني اعتبار سے خوشي محسوس کرے گا اور آخرت ميں بھي وہاں کے عظيم باطني کمالات کو حاصل کرے گا۔
قابل توجہ بات يہ ہے کہ انسان غير اخلاقي اور گھٹيا حرکات ميں مصروف ہے اور اس کا کردار پست لوگوں جيسا ہے ۔۔۔۔ جو اس کي (انسانيت) کي شان سے بالکل ميل نہيں کھاتا۔۔۔ ايسي حالت ميں اس کي باطني قوتيں اور روحاني کمالات کو صلاحيتيں دبي رہ جائيں گي اور اسے کوئي فائدہ نہيں پہنچاسکيں گي۔۔۔ اور جب تک انسان خود ميں روحاني اور باطني عظمتوں کو پيدا نہ کرے اور نا ہي خود اپني صلاحيتوں کو عملي کرسکے تو اس وقت تک اس کے اس کے باطن کي کيفيت ايسي نہيں ہوگي کہ وہ روحاني لذات کا احساس اور باطني کيفيات کا ادراک کرسکے۔
ايسے آدمي کي مثال اس ديہاتي کي سي ہے جو بالکل جاہل اور ان پڑ ھ ہو اور ہم اسے ايسي لائبريري ميں لے جائيں جس ميں علم و فکر کے خزانے بھرے ہوں ليکن اسے علمي خزانوں کي اہميت ذرہ بر ابر بھي نہ ہوسکے گي يا اسے ايک فلسفي کے پاس بٹھا ديا جائے جس کي محفل علم و دانش سے پر ہو اور وہ فلسفي گہرے مطالب کو باآساني سمجھا ديتا ہو ليکن يہ جاہل ديہاتي نہ اس کتب خانہ سے کوئي فائدہ اٹھاسکے گا اور نا ہي اس فلسفي کي نشست سے کوئي علمي لذت حاصل کرسکے گا۔
٢۔ يہ حقيقت واضح ہوني چاہئيے
کہ دنيا کو خلق کرکے خدا نے نا کسي اپني خواہش کي تکميل چاہي ہے اور نا ہي اپنا کوئي مقصد پورا کرنے کا ارادہ کيا ہے۔ کيونکہ خدا غني ہے ، وہ کسي چيز اور کسي کام کے لئے محتاج نہيں ہے اور نا ہي کوئي ايسا مقصد ہے کہ جس کا کوئي فائدہ يا نفع ذات مقدس الہي کو پہنچے گا۔ اس قسم کا کوئي ايمان عقلاً ، ممکن نہيں ۔ پھر بھي يہ بات اپني جگہ ايک مسلم حقيقت ہے کہ اس نے تمام کائنات کو بے مقصد خلق نہيں کيا ہے۔ ہم يہ نہيں کہہ سکتے کہ کائنات جو زندگي کے ہنگاموں سے بھري ہوئي ہے اور يہ آسمان بے مقصد و عبث ہے۔ کيونکہ خداوند عظيم نے ارشاد فرمايا ہے:
وما خلقنا السموات والارض وما بينهما لاعبين
اور ہم نے آسمانوں اور زمين کو ۔۔ اور جو کچھ ان کے درميان ہے کھيل کے طور پر خلق نہيں کيا ہے ۔(سورہ دخان ٣٨)
ما خلقنا هما الا بالحق ولکن اکثرهم لا يعلمون
ہم نے ان دونوں کو حق کے ساتھ خلق کيا ہے ليکن لوگوں ميں سے اکثريت کو اس کا علم نہيں۔(سورہ دخان ٣٩)
کائنات کي تخليق سے خدا کي جو بھي غرض ہو ليکن يہ بات بالکل يقيني ہے کہ خدا کي تمام مخلوقات ميں انسان کي حيثيت سب سے اعليٰ ہے اور اسے پيدا کرنے کي غرض بھي سب سے زيادہ اعليٰ و ارفع مقام ہے۔ بازار ہستي ميں صرف انسان ہي ہے جو اس اعليٰ و ارفع مقام تک پہنچنے کي طاقت و لياقت رکھتا ہے اور اس عظمت کو برداشت کرسکتا ہے۔ انسان کے علاوہ اس درجہ اعليٰ تک پہنچنے کي طاقت نہ تو بلند و بالا پہاڑوں کو ہے جو اپنے سر آسمان کي طرف اٹھائے ہوئے ہيں اور نا ہي اس درجہ تک پہنچنے کي قوت و قدرت اس نيلگوں آسمان کو ہے جس کي عظمت کو ستاروں اور کہکشاوں کے بے حد حساب نظام چار چاند لگا رہے ہيں۔
انا عرضنا االامانة عليٰ السموت والارض والجبال فابين ان يحملنها واشفقن منها و حملها الانسان
ہم نے امانت کو پيش کيا آسمانوں ۔۔۔۔ اور زمين اور پہاڑوں پر ۔۔۔ پر انہوں نے انکار کيا کہ وہ اس امانت کو نہيں اٹھائيں گے اور وہ اس سے ڈرے اور انسان نے اس امانت کو اٹھاليا ۔۔۔۔ (سورہ دخان ٧٢)
آسمان بار امانت نتوانست کشيد
قرعہ فال بنام من ديوانہ زدند
آسمان بار امانت کو نہ اٹھا سکا
قرعہ ہم ديوانے انسانوں کے نام آگيا
واصطنعتک لنفسي
اور ہم نے تمہيں (خاص) اپنے نفس کے لئے بنايا ہے۔
اس آيہ مبارکہ ميں کہ خدا کا ارشاد اس مقصد کے راز سے تھوڑا پردہ ہٹا کر اس حقيقت کو ظاہر کررہا ہے کہ انسان کي غرض خلقت کيا ہے وہ لوگ جو زندہ دل ہيں ، پروانے کي مانند شمع کے شعلہ سے جو شعلہ الہي سے جل کر خود کو اس کے سامنے فنا کرديتے ہيں۔
٣۔ انسانيت کا يہ اعليٰ کمال کيونکہ حاصل کيا جائے ، اس سلسلے ميں بہت سے نظريے اور پروگرام پيش کئے گئے۔ ان نظريوں اور پروگراموں کو پيش کرنے والے لوگ اس بات کے دعويدار تھے کہ ہم بشريت کو کمال تک پہنچانے والے ہيں۔ ان ميں انبيائ بھي تھے اور غير انبيائ بھي۔ ان کے دعووں کے سلسلے ميں ہماري غرض يہ نہيں ہے کہ کوئي تفصيلي گفتگو يہاں کريں۔البتہ ہم يہ کہہ سکتے ہيں کہ ہم نے گہري فکر کي ، ہر پہلو پر غور کيا اور ديکھا کہ وہ نظام جس کے پيش کرنے والے انبيائ کے علاوہ دوسرے طبقے کے لوگ تھے ، اس ميں جو باتيں بيان کي گئي ہيں ان کا ايک جملے ميں خلاصہ کيا جاسکتا ہے کہ ان پروگراموں اور نظاموں ميں سے کوئي ايک بھي ان دو خرابيوں سے خالي نہ تھا۔
١۔ بعض خوبيوں کي طرف ضرورت سے زيادہ توجہ دلائي گئي تھي اور (٢) بعض خوبيوں کي طرف توجہ دلانے ميں کوتاہي کي گئي تھي۔ اس لحاظ سے ان کا نظريہ اور نظام اس قابل نہ تھا کہ جو انسان کے کامل بننے کي بھوک کو مٹاسکے۔ ہر انسان ميں يہ بھوک موجود ہے اور تمام انسان بغير اس بھوک کو سير کيے دنيا سے چلے جاتے ہيں۔
اسي اثنائ ميں ہم نے ديکھا کہ خدا کا پيغام لانے والے اور اس کي طرف سے رہبري کا عہدہ لے کر آنے والے انبيائ نے (ہميں) يہ بتايا کہ انسان کي روح و باطن کا کمال صرف اس چيز ميں ہے کہ وہ خدا کي عبادت کرے اور اس کي بندگي ميں مصروف رہے چنانچہ اس سلسلے ميں ہم ۔۔۔ شيعوں کے پيشوا کے بيان کو نقل کررہے ہيں کہ انہوں نے فرمايا :
بندگي وہ جوہر ہے ۔۔۔۔ جس کے اندر چھپا ہوا راز تربيت ہے ۔
عبادت کرنے سے ہمارے باطني کمالات خود بخود تربيت پانے لگتے ہيں ۔ يعني خدا کي بندگي روح کا چمکتا ہوا موتي ہے اور جو بھي اس چمک کي روشني ميں آگے بڑ ھے گا وہ بارگاہ الہي کي ربوبيت کے حرم ميں پہنچ جائے گا يا يوں کہا جائے کہ خدا کے بتائے ہوئے روح کے اس کارخانے تک پہنچ جائے گا جہاں روحوں کو اعليٰ درجے کو تربيت دے کر انہيں باکمال فرد کي حيثيت سے اس دنيا سے اس دنيا تک جانے کے قابل بنايا جاتا ہے۔
اے خدا ۔۔۔ تيري محبت کي قسم ! اگر تو مجھے اپنا بندہ قبول کرلے تو ميں دنيا اور سارے جہانوں کي بادشاہت کو ترک کردوں گا ۔ (فارسي شعر کا ترجمہ)
حديث صحيح جو شيعہ اور سني علمائ نے رسول خدا سے نقل کي ہے کہ رسول اکرم نے ارشاد فرمايا :
بندہ جن چيزوں سے ميري بارگاہ ميں قربت حاصل کرتا ہے ان ميں سب سے زيادہ جو بات مجھے محبوب ہے وہ ۔۔۔ وہ واجبات ہيں جو ميں نے اس پر فرض کيے ہيں اور يہ بندہ پھر ميري اور قربت کو حاصل کرتا ہے نافلہ ادا کرکے يہاں تک کہ ميں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ پس جب ميں اس سے محبت کرنے لگوں تو ميں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کي آنکھيں بن جاتا ہوں جن سے وہ ديکھتا ہے ، اس کي زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بات کرتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ قوت کے جوہر دکھاتا ہے۔
يعني اس کے کان ميں وہي آوازيں پڑتي ہيں جو اس کے لئے مفيد ہوتي ہيں اور جسے خدا چاہتا ہے کہ يہ بات اس کے کان ميں آئے۔ اسي طرح وہ وہي چيزيں ديکھتا ہے جسے خدا چاہتا ہے کہ بندہ اسے ديکھے اور اس کي زبان سے ايسي باتيں نکلتي ہيں کہ وہ خود بھي سمجھتا بلکہ خود اس کي زبان سے ادا کرديتا ہے اور اس کے ہاتھ سے ايسے کام انجام پاتے ہيں کہ جسے وہ محسوس کرتا ہے کہ اس نے يہ کام انجام نہيں دئيے بلکہ کسي غيبي طاقت نے اس سے يہ کام کرايا ہے۔
بندہ خدا سے بہت زيادہ قربت کي وجہ سے اس منزل پر پہنچ جاتا ہے کہ خداوند عالم اس کا کان ، آنکھ، زبان اور ہاتھ ہوجاتا ہے۔
٤۔ تمام عبادات ميں نماز ايک عظيم فريضہ ہے بلکہ اگر يوں کہا جائے تو زيادہ بہتر ہوگا کہ اسلامي باتوں کي تربيت کا عالي ترين مکتب اور درسگاہ ۔۔۔ نماز ہے ۔
خدا نے عبادت کي اس قسم کو اس لئے ايجاد فرمايا ہے کہ بندہ اس عبادت کے ذريعہ اپنے خدا سے رشتہ جوڑ ليتا اور وہ اپني بندگي کي بنيادوں کو مضبوط و مستحکم کرليتا ہے۔ نماز اگر سمجھ کر پڑھي جائے تو اس سے نما گذار کے دل ميں وہ طاقت پيدا ہوجائے گي کہ اس کا دل گناہ کے مقابل اس کي سخت حفاظت کرے گا اور يہ دل مشکلات ميں بالکل پريشان نہ ہوگا بلکہ مردانگي کے ساتھ ثابت قدم رہے گا ۔ قرآن ميں ہے کہ
ان الصلاة تنهيٰ عن الفحشائ
والمنکر
يقينا نماز روکتي ہے ۔۔۔ فحش باتوں اور منکرات سے ۔ (سورہ عنکبوت ٤٥)
واستعينوبالصبر والصلوٰة
مدد حاصل کرو ۔۔۔ صبر اور نماز سے ۔ (سورہ بقرہ ٤٥)
بہت سے لوگ يہ سوال کرتے ہيں کہ يہ عبادت کيوں بجالائي جائے؟ کيا خدا ہماري عبادات کا محتاج ہے کہ ہم اس کي تکليف دور کرنے کے لئے اس کي عبادت کريں؟
اس قسم کا سوال کرنے والے اپنے ذہن ميں يہ تصور کرتے ہيں کہ خدا کو ہماري عبادت سے کوئي فائدہ يا خوشي حاصل ہوتي ہے اور وہ اپني خوشي يا حاجت کي تکميل کے لئے ہم سے اپني عبادات کراتا ہے۔۔۔ جبکہ حقيقت ميں يہ فکر کي بہت بڑي غلطي ہے۔ ہم عبادت اس لئے بجا نہيں لاتے کہ خدا کي کسي پريشاني کو دور کريں۔ ہم اس کي اطاعت کريں يا اس کي نافرماني کريں۔۔۔ اس سے کوئي نفع يا نقصان ذات الہي کو نہيں پہنچتا۔ حضرت علي نے ھمام کو خطبہ ديتے وقت شروع ميں يہ فرمايا تھا :
اللہ تعاليٰ نے مخلوقات کو خلق کيا ہے اور وہ غني ہے۔ اسے نہ ان کي اطاعت کي کوئي حاجت ہے اور نا ہي مخلوقات کي معصيت سے کسي پريشاني ميں مبتلا ہوتا ہے کيونکہ خدا کو اطاعت کرنے والوں کي اطاعت سے نا کوئي فائدہ حاصل ہوتا ہے اور نا ہي معصيت کرنے والے کي معصيت سے کوئي نقصان ۔
گر جملہ کائنات کافر گردند
بردامن کبرياش ننشيند گرد
( اگر تمام کي تمام کائنات کافر ہوجائے تو بھي خدا کي بزرگي کے دامن ميں ايک دھبہ بھي نہيں آئے گا)
ہماري عبادت کا مقصد يہ ہے کہ ہماري روح و جان کي تربيت ہو اور وہ کمال تک پہنچيں يعني عبادت کي غرض يہ ہے کہ ہم اپني روحاني قدرتوں کو سمجھيں ۔۔۔۔ انہيں استعمال کريں۔۔۔ اور ان سے لذت اٹھائيں اور ان تمام روحاني قدرتوں کا سر چشمہ ۔۔۔۔ خدا کي عبادت و بندگي ۔۔۔۔ ہے۔ان تمام عبادات کا مقصد يہ ہے کہ ہمارے دل کي تاريکي چھٹ جائے اور ہمارے دل کي باطني کيفيات خدا کي حکمت والي باتوں کو سمجھ کر خدا کي حکمت کے نور سے بھر جائيں اور انسان کا دل اس قابل ہوجائے کہ وہ حق کي باتوں کے جلووں کو سمجھ سکے اور عشق الہي کا نور اس کے باطن ميں پيدا ہو۔
٥۔ بہت سے نماز پڑھنے والے نماز پڑھنے ہيں۔۔۔۔ ليکن وہ نہيں جانتے کہ کس وجہ سے نماز پڑھ رہے ہيں ؟ انہيں نماز سے کيا فائدہ پہنچے گا ؟ انہيں نہيں علم کہ نماز ان کے باطن اور روح ميں کيا عظيم تبديلياں پيدا اور انقلاب رونما کرسکتي ہيں۔ ہم اس بات کو زيادہ واضح طور سے يوں بيان کرسکتے ہيں کہ وہ خود نہيں سمجھتے کہ وہ نماز کيوں پڑھ رہے ہيں اور وہ عظيم الشان اغراض و مقاصد سے خود غافل ہيں لہذا انہيں نماز سے کوئي فائدہ نہيں پہنچتا اور نا ہي يہ عبادت بزرگ ان کي روحانيت پر کوئي اثر ڈالتي ہے يا اگر بہت معمولي سا بھي اثر ڈالتي ہے تو اس سے کوئي نماياں فائدہ حاصل نہيں ہوتا۔ چنانچہ رسول اکرم ايک شخص کے بارے ميں جو جلدي جلدي نما پڑھ رہا تھا ، ارشاد فرمايا :
’’ يہ شخص ايسے ٹھونگے مار رہا ہے جيسے کوا ٹھونگے مارتا ہے۔‘‘
جس طرح کوا اپني چونچ زمين پر مارتا ہے اسي طرح نمازي نے بے سوچے سمجھے اپني نماز شروع کردي اور بے سوچے سمجھے اسے ختم کرديگا۔ البتہ اس نماز پڑھنے والے کو اپني نماز سے کوئي فائدہ نہيں پہنچے گا اور نا ہي نماز اس کے دل کو روشن و نوراني کرسکے گي ۔۔۔ اور نا ہي اسے انسانيت کي طاقت دے سکے گي اسي وجہ سے ہم قرآن ميں ديکھتے ہيں کہ خدا کا ارشاد ہے :
نماز ۔۔۔۔ نماز ي کو فحش و منکرات سے روکتي ہے۔ (سورہ عنکبوت ٤٥)
ليکن ہم ميں سے لوگوں کي ايک کثير تعداد ہے جو سالہا سال سے نماز پڑھ رہي ہے ليکن ہماري روح ميں اتني چھوٹي سي بھي طاقت پيدا نہيں ہوئي کہ ہم خود کو معمولي سے معمولي گناہ سے بھي روک سکيں۔ اس بحث سے ہم اس نتيجے کو حاصل کرسکتے ہيں کہ حقيقت ميں ہم نے بالکل نماز نہيں پڑھي بلکہ جو کچھ ہم بجالاتے ہيں وہ صرف نماز کي ظاہري شکل و صورت ہوتي ہے۔
انسان کي اسي حاجت کو پورا کرنے اور اس کے روحاني نقصانات و آفات کو دور کرنے کے لئے اسلام کے بزرگ علمائ نے اس عظيم الشان عبادت کي باطني خوبيوں کو ظاہر کرنے۔۔۔۔ باطني آداب سے آگاہ کرنے اور روحاني اچھائيوں سے پردہ اٹھانے کے لئے بہت سي کتابيں لکھي ہيں۔
١۔ اسرار الصلوٰۃ ۔۔۔۔۔۔ تاليف شہيد ثاني ( شہيد زين الدين)
٢۔ اسرار الصلوٰۃ ۔۔۔۔۔۔ از حکيم و عارف اعليٰ قاضي سعيد قمي
٣۔ اسرار الصلوٰۃ ۔۔۔۔۔۔ از عارف و زاہد فقيہہ ( مجتہد) کامل مرحوم حاج مرزا جواد ملکي
تبريزي استاد گرانقدر حضرت امام خميني رضوان اللہ عليہ
٤۔ اسرار الصلوٰۃ۔۔۔۔۔۔ از باني حکومت جمہوري اسلامي ايران حضرت امام خميني رضوان اللہ
عليہ
٥۔ آداب الصلوٰۃ۔۔۔۔۔ از فقيہہ کامل عارف رباني حضرت امام خميني رضوان اللہ عليہ
٦۔ اور کتاب مبارک ۔۔۔۔ از ژرفاي نماز ( نماز کي گہرائياں) ۔۔۔۔ از مجموعہ تقارير رہبر معظم
انقلاب اسلامي حضرت آيت اللہ العظميٰ خامنہٰ اي دامت برکاتہ
جس شخص کي بھي يہ خواہش ہو کہ اس عظيم عبادت کے کچھ اسرار و آداب سے آگاہي حاصل کرے اس پر لازم ہے کہ جن کتابوں کا ميں نے تذکرہ کيا ہے ، ان کا مطالعہ کرے۔
اپنے مضمون کے اختتام پر ہم حضرت آيت اللہ العظميٰ امام خميني کي کتاب ۔۔ آداب نماز ۔۔۔۔ سے چند جملے تحرير کرکے اپنے مضمون کو نوراني کرنا چاہتے ہيں تاکہ مضمون کے آخر ميں مشک و عنبر کي مہر ثبت ہوجائے۔
خدا وندا۔۔۔۔ تيري بارگاہ ميں پہنچنے کے لئے ہمارا قدم اس قابل نہيں ہے کہ اس عظيم اور اعليٰ منزل تک پہنچ سکے۔
خداوندا ۔۔۔ ہمارا طلب کرنے والا ہاتھ اس قابل نہيں کہ تيري محبت و انسيت کو چھوسکے۔
خداوندا۔۔۔ ہمارے دل پر شہوت و غفلت کے پردے بڑھے ہوئے ہيں، ہمارے دل پر شيطان اور محبت دنيا کے غليظ حجاب پڑے ہيں اور جن کي وجہ سے ہماري بصيرت قلبي تيري ذات ، عظمت اور جلال کي طرف توجہ نہيں کرپاتي۔
آخرت کا راستہ باريک اور انسانيت کا طريقہ حديد ( سخت ) ہے۔
ہم بے چارے مکڑي کے جالے کي طرح اپني حقير فکر کے تانے بانے ميں پھنسے ہوئے ہيں۔ ہم وہ حيران لوگ ہيں جنہوں نے ابر يشم کے کيڑے کي طرح اپنے چاروں طرف شہوتوں اور آرزووں کا جال بن ليا ہے اور خود اپنے ہي جال ميں پھنس گئے ہيں۔
اور ہميں بالکل پتہ نہيں۔ کہ بارگاہ الہي کے غيب کي باتيں کيا ہيں اور اس کي بارگاہ سے عشق و محبت کے کيا مزے ہيں؟
( صرف ايک ہي صورت ہے اور وہ) صرف يہ کہ تو اپنے جلوے سے ہمارے دل کو روشني عنايت فرما اور اپني غيبي چمک سے ہماري خودي کو بے خودي ميں بدل دے۔
مولا علي فرماتے ہيں:
الهي هب لي کمال الا نقطاع اليک وانر ابصار قلوبنا بضيائ نظرها اليک حتيٰ تخرق ابصار القلوب حجب النور فتصل الي معدن العظمة و تصير ارواحنا معلقة بعز قدسک
(مناجات شعبانيہ)
’’ ميرے معبود ۔۔۔ مجھے مکمل طور سے سب چيزوں سے دل کو توڑ کر صرف تيري محبت والا بنادے اور ہمارے دل کي آنکھوں کو وہ روشني دے جس سے تو نظر آئے اور وہ روشني دے جس سے نور کے پردوں کو ہم چاک کرديں۔۔۔ اور براہ راست تيري عظمت کے خزانے سے متصل ہوجائيں۔۔ اور ہماري روحيں تيري مقدس عظمت کے درجے سے وابستہ ہوجائيں۔‘‘
(مناجات شعبانيہ)