نماز کي گہرائیاں

نماز کي گہرائیاں0%

نماز کي گہرائیاں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

نماز کي گہرائیاں

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اي حفظہ اللہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 7068
ڈاؤنلوڈ: 3315

تبصرے:

نماز کي گہرائیاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7068 / ڈاؤنلوڈ: 3315
سائز سائز سائز
نماز کي گہرائیاں

نماز کي گہرائیاں

مؤلف:
اردو

نماز تمام کمالات الہي کا مجموعہ ہے

ايک طرف يہ خيال کرنا چاہئيے کہ ہماري زندگي کے مادي مسائل اتنے پيچيدہ اور گھمبير ہيں ۔۔۔۔ اور يہ فطري بات ہے ۔۔۔۔۔ کہ انسان اپني زندگي کے مقصد اعليٰ اور عظيم ہدف کو فراموش کرديتا ہے اور دوسري جانب انسان کا خودبخود ان عظيم ذمہ داريوں کي طرف ۔۔۔۔۔۔ جو اسے مقام کمال تک پہنچے کے لئے سونپي گئي ہيں۔۔ ہر روز متوجہ ہونا ، نا ممکن اور محال ہے اور اسي طريقے سے يہ بھي ممکن نہيں کہ کوئي ايسي ذات ہو جس کا کام فقط يہي ہو کہ وہ ہميں سمجھائے کہ تم کس لئے دنيا ميں آئے ہو اور تمہاري زندگي کا کيا مقصد ہے؟

اس کے ساتھ ساتھ ايک اور بات بھي قابل ذکر ہے کہ خود يہ زمانہ اپنے دامن ميں اتني وسعت نہيں رکھتا ہے کہ ہم اسلامي آئيڈيالوجي يا نظريات کے مطابق اپني زندگي بسر کريں اور اسلام کي عطا کردہ خواہشات کي تکميل کريں۔ نہ تو ہمارے صبح و شام ميں اتني گنجائش ہے کہ ہم اعليٰ مقاصد تک پہنچ سکيں اور نہ ہي ايسي لمبي فرصت ملے گي کہ ہم اس ميں اپني منزل کو پاسکيں۔

چنانچہ کم اوقات والے دن و رات کي زندگي ميں نماز وہ معجون الہي ہے جس نے انسانوں کے لئے تمام کمالات کو اپنے اندر سمويا ہوا ہے يا با الفاظ ديگر نماز ہي تمام کمالات الہي کا مجموعہ ہے۔ ہمارا دل روزانہ نما ز ميں متوجہ ہوتا ہے کہ ہميں دنيا ميں رہ کر کيا کرنا ہے۔۔۔۔۔ نماز ہميں بتاتي ہے کہ اسلام ہم سے کس چيز کا تقاضا کرتا ہے۔۔۔۔ ؟ نماز کے لئے ہم کہہ سکتے ہيں کہ نما زتمام ممالک کا قومي نغمہ ہے البتہ ہر قوم کے لحاظ سے نماز کے معني ميں تھوڑے بہت فرق ہوں گے اور ہر ملک اور ہر زمانے کے لحاظ سے اس کي توجہ ميں کمي بيشي ہوسکتي ہے۔

اصول و قوانين کي تکرار ذہنوں ميں ان کي پختگي کا سبب ہوتي ہے

ايک مملکت اس بات کي خواہشمند ہوتي ہے کہ اس کے اصول و قوانين مضبوط ہوں، اس کے نظريات وہاں بسنے والے افراد کے اذہان ميں راسخ و پختہ ہوں اور وہ مملکت کي فکر پر باقي رہيں، چنانچہ اس کے لئے ضروري ہے کہ ان افراد کے لئے ان نظريات کي تکرار کي جائے اور وہاں کے افراد ہے کہ ان افراد کے لئے ان نظريات کي تکرار کي جائے اور وہاں کے افراد سے کہا جائے کہ يہ تمہارا قومي نغمہ ہے ۔۔۔۔ جو زندگي کے ہدف ، آئيڈيالوجي اور ملت کے افراد کے مقاصد پر مشتمل ہے۔۔۔۔

اسے بار بار پڑھو اور ضروري ہے کہ اس ملک کے باشندے ان کي تکرار کرتے ہيں کيونکہ اس تکرار کي وجہ سے وہ ملک کے نظريات و افکار پر باقي رہيں گے اور انہيں يہ احساس رہے گا کہ وہ اس ملک کے رہنے والے ہيں اور وہ ، ان اغراض و مقاصد کو ۔۔ جو مملکت انہيں بتا رہي ہے۔۔۔ حاصل کرنے کي جدوجہد جاري رکھيں گے۔

اگر اس مملکت کے رہنے والے اپنے ملک کے اصول و قوانين اور اغراض و مقاصد کو فراموش کرديں تو اس کا مطلب يہ ہے کہ ان کا راستہ بدل جائے گا اور وہ اس راستے کے مسافر نہيں رہيں گے۔ چنانچہ لوگوں کے لئے مملکت کے اغراض و مقاصد بار بار بيان کرنا ، ان ميں احساس ذمہ داري پيدا کرنا اور کام و خدمت کي طرف بار بار ان کي توجہ مبذول کرانا۔۔۔۔ يہي وہ عوامل ہيں جن کي وجہ سے وہ جدوجہد کے لئے آمادہ ہوں گے۔۔۔۔۔ اور ويسے ہي بن جائيں گے ۔۔۔ اور اسي تکرار کي وجہ سے منزل کا نقشہ اور منزل کا راستہ ان کي سمجھ ميں آجائے گا اور ساتھ ہي وہ اپني مسؤليت و ذمہ داري کو بھي سمجھ ليں گے۔ يہ تکرار ان کے ذہنوں ميں ان کي مملکت کے اصول و قوانين اور اغراض و مقاصد کو زندہ رکھنے اور ان کي ذمہ داريوں کو مقرر کرنے کا باعث ہوگي اور ان تمام باتوں کا نتيجہ يہ ہوگا کہ وہ عمل کے لئے تيار ہوجائيں گے اور شجاعت و ہمت کے ساتھ ساتھ قدم آگے بڑھائيں گے۔

نماز مکتب اسلام کے اصولوں کا خلاصہ

نماز ۔۔۔ مکتب اسلام کے اصولوں خلاصہ ہے ، نماز ۔۔۔ مسلمانوں کے لئے ان سے راہ نماز ’’ صراط مستقيم ‘‘ کو روشن کرنے والي ۔۔۔ ان کي مسؤليت و ذمہ داري کي نشاندہي کرنے والي۔۔۔ اور ان کي محنت و جدوجہد کے نتيجے کو بيان کرنے والي ہے۔

دن کا آغاز يا زوال آفتاب يا پھر رات کي تاريکي ۔۔۔ مسلمان کو طلب کرکے اسلام کے اصول و قوانين ، اسلام کے راستے اور اس کے مقصد و نتيجے کو اس کي زبان ميں سمجھايا جاتا ہے اور اسے روحاني طريقے سے آمادہ کيا جاتا ہے کہ وہ اسلام کے اصول و قوانين کے مطابق عمل کرے۔ نماز ميں انسان اپني زبان کے ذريعے دل کو آمادہ کرتا ہے۔۔۔۔۔ اسے اطمينان و تسلي ديتا ہے اور اپنے ميں يہ احساس پيد اکرتا ہے کہ کہيں ميں اپنے ہدف و مقصد سے دور تو نہيں ہورہا ہوں، نماز ہي انسان کے ہر قدم کو ايمان کے آخري درجے تک لے جاتي ہے اور اس کے ہر عمل کو کامل کرديتي ہے ۔ المختصر نماز انسان ناقص کو انسان کامل بناديتي ہے۔ ہاں يہي نماز ہے جو معراج مومن ہے۔

نماز تار يکي و ظلمت ميں نور الہي ہے

ہم انسانوں کا راستہ ۔۔۔ جو خداوند عالم نے ہمارے کمال کے لئے مقرر کيا ہے ۔۔۔ جو آگے چل کر بہت دشوار ہوگا کہ اسي راستے پر چل کر انسان کامياب ہوسکتا ہے ۔۔۔۔ حقيقي سعادت ۔۔۔۔ خوشي اور کمال کو حاصل کرسکتا ہے اور اسي راستے پر چلنا اور منزل کو پانا ہي انسان کي زندگي کا اصلي ہدف ہے۔

ليکن مشکل يہ ہے کہ ہمارے سامنے صرف يہي راستہ نہيں ہے کہ اس کي نشاندہي کردي جائے اور ہم وہ راستہ طے کرکے اپني منزل تک پہنچ جائيں بلکہ ظلمت ( تاريکي) ۔۔۔ خدائي اصولوں سے انحراف۔۔۔۔ اور ہميں ہماري منزل سے دور کرنے والے عوامل کثرت سے ہماري راہ ميں رکاوٹ ہيں اور نہ صرف رکاوٹ ہيں بلکہ اتنے پرکشش و پر فريب اور دل کو اپني جانب موہ لينے والے ہيں کہ راہ اسلام پر چلنے والا مسافر تردد ميں مبتلا ہوجاتا ہے کہ کيا کروں اور کيا نہ کروں ۔۔۔ اس راستے پر قدم اٹھاوں يا نہ اٹھاوں۔۔۔ اور اسي کيفيت ميں انسان بعض اوقات غلط کو صحيح خيال کرنے لگتا ہے۔

انسان اس منزل پر کيا کرے جب اس کے قدم لڑکھڑانے لگيں۔۔۔۔ انسان کيا کرے کہ اس کي راہ روشن اور اس کي جدوجہد صحيح سمت ميں جاري رہے ۔۔۔۔۔ اور انسان کيا کرے کہ وہ اپني منزل آخر ۔۔۔ جو قرب خدا اور کمالات کا حصول ہے ۔۔۔۔۔ سے ايک لمحے کے لئے بھي غافل نہ ہو۔

انساني عزائم کو کمزور و متزلزل کرنے کے مقام پر نماز ہي وہ سہارا ہے جس کے ذريعے انسان باحفاظت اپني منزل تک پہنچ سکتا ہے ۔۔۔ تردد و اشتباہ کي سياہي و ظلمت ميں نماز ہي مينارہ نور ہے جو انسان کي راہ کمال کو روشن رکھتي ہے ۔۔۔۔ نماز ہي وہ ميزان الہي ہے جو حق کو حق اور باطل کو باطل قرار ديتي ہے ۔۔۔ اور يہ نماز ہي ہے جس کي وجہ سے انسان ياد خدا کي طرف متوجہ رہتا ہے۔

اپنے مفاہيم کو سميٹتے ہوئے ہم اپنے مقصد کو دوسرے الفاظ ميں يوں بيان کرسکتے ہيں کہ انسان کي پوري زندگي کا خلاصہ روزانہ نماز ميں اس کے سامنے آتا ہے ۔۔۔۔ نماز ہي کي وجہ سے ہمارے دل کي کھڑکي سے خدا کے رابطے باد نسيم ہماري روحاني دنيا کو شاد و آباد رکھتي ہے اور ہمارے وجود کو حقيقت ۔۔۔۔ انسانيت ۔۔۔۔ اور روحانيت عطا کرتي ہے يا يوں کہيے کہ نماز کے چند الفاظ ميں اسلامي فکر کي تمام باتيں اور مقاصد بطور خلاصہ موجود ہيں يا اسلام کے تمام بيانات کا نچوڑ نماز ميں ہے يا نماز اسلام کا جوہر اصلي ہے۔

اس طريقے سے يہ واضح ہوجاتا ہے کہ نماز کو پانچ اوقات ميں تقسيم کرنے کي کيا وجہ ہے اور اسي وجہ سے يہ اندازہ ہوتا ہے کہ نماز کي اہميت کس قدر ہے ؟ جيسے جسم کو قوت پہنچانے کے لئے ہم ايک نظام کے تحت اسے غذا ديتے ہيں، اسي طرح ہماري روح کو بھي خدا تک پرواز کے لئے غذا کي ضرورت ہے تاکہ وہ تندرست و توانا رہتے ہوئے تمام شيطاني قوتوں کا ظابت قدمي سے مقابلہ کرسکے۔ ساتھ ہي ساتھ يہ بھي سمجھنا چاہئيے کہ روح کا معاملہ ايسا نہيں ہے کہ ہم روح کو ايک دفعہ درس دے ديں يا ايک ہي دفعہ ہدايت کرديں جو ہمارے مرنے تک اس کے لئے کافي ہو بلکہ روح کا معاملہ بدن سے زيادہ حساس ہے يعني روح کے لئے ضروري ہے کہ دن و رات ميں ہر تھوڑي دير بعد اسے غذا فراہم کي جائے۔

ايک بات تو يہ طے ہوگئي کہ نماز اسلام کے تمام اغراض و مقاصد کا خلاصہ ہے۔ نماز ميں تلاوت قرآن بھي ہے جو نماز کے واجبات ميں سے ہے۔ نما ز، نمازي کو قرآن کے مضامين سے آشنا کرتي ہے کہ قرآن کے مطالب ميں غور کرو اور اپني فکر کو فکر قرآن کے ساتھ مربوط کرنے کي کوشش کرو۔ بنيادي طور سے ہم يہ کہہ سکتے ہيں کہ نماز ميں جتنے افعال و حرکات ہيں سب اسلام کو نمونہ پيش کرتي ہيں البتہ مختصر طريقے سے۔

اسلام اپنے پيروکاروں کے بدن، ان کي فکر اور ان کي روحوں کو بھي ان کي خوش بختي اور کمال کے لئے استعمال کرتا ہے۔ نماز ميں انسان کي تينوں چيزيں يعني اس کا بدن ، اس کي فکر اور اس کي روح مصروف ہوتے ہيں۔

بدني حالت : ہاتھ ، پير ، زبان کي حرکت ، جھکنا ، بيٹھنا اور خاک پر پيشاني رکھنا۔ يہ انسان کي بدني حالت ہے۔

فکري حالت: ہم نماز کے مضامين اور نماز کے الفاظ کے بارے ميں سوچتے ہيں جو نماز ميں بيان کئے جاتے ہيں۔ يہ مضامين اور الفاظ عام طور سے اشارہ کرتے ہيں کہ ہماري زندگي کا ہدف و مقصد اور اس کے وسيلے کيا ہيں يعني نماز ميں اسلام کا خلاصہ ہمارے ذہنوں سے گذرتا ہے۔

روحي حالت: نماز ميں ہماري روح کا عالم يہ ہوتا ہے کہ نماز ميں ہم خدا کو ياد کرتے ہيں جو ہماري روح کے کمال کا سبب ہے، نماز ميں ہمارا دل ۔۔۔ باطني کمالات ۔۔۔ اور اخلاقي پاکيزگي کے لئے پرواز کرتا ہے اور نماز نہ صرف ہماري روح کي طہارت کرتي ہے بلکہ ہمارے دل کو فضول کاموں کي انجام دہي اور اسے بھٹکنے سے روکتي ہے اور يہ نماز ہي ہے جو ہماري روح ميں خوف خدا کا بيج ڈالتي ہے۔

نماز کو قائم کرنا پڑھنے سے زيادہ اہميت ک حامل ہے

لوگوں نے بيان کيا ہے کہ دنيا ميں جتنے آئين اور جتنے لوگ ہيں، ہر ملت کي نماز ان کے نظريے کا خلاصہ ہوتي ہے چنانچہ اس بيان کے مطابق ہم کہہ سکتے ہيں کہ نماز بھي ايسي ہي ہے اور اسلام نے جو نماز مقرر کي ہے اس ميں روح و جسم ۔۔۔۔ماديت و روحانيت ( معنويت) ۔۔۔۔ اور دنيا و آخرت ۔۔۔۔۔ کو يکجا کرديا گيا ہے۔ يہ نماز کي عظيم الشان خوبيان ہيں جو اسلام نے بيان کي ہيں۔ يہي وجہ ہے کہ جب ايک مسلمان نماز اد اکرتا ہے تو وہ اپني تمام ( مادي و روحاني) طاقتوں اور قوتوں کو اپنے وجود کے کمال کے لئے استعمال کرتا ہے يعني وہ بيک وقت اپني جسماني ۔۔۔ فکري ۔۔۔۔ اور روحي قوتوں کو اپنے کمال و ارتقائ کے لئے استعمال کرتا ہے۔

نماز پڑھنے والا اس دليل کي وجہ سے۔۔۔ اپني تمام ( مادي و روحاني) صلاحيتوں اور قوتوں کے ساتھ خدائي راستے پر قدم بڑھاتا ہے ۔۔۔۔ اور اپنے وجود ميں سر اٹھانے والے شر کے جذبات ۔۔۔۔۔ فساد کے ميلانات اور انحرافات کا مشاہدہ کرتا ہے تو نماز کے ذريعے سے ان کو ترک کرتا جاتا ہے چنانچہ قرآن ميں کئي مقامات پر نماز کو قائم کرنے کو کہا گيا ہے اور يہي دينداري کي پہچان اور علامت ہے اور اسي وجہ سے ہماري يہ خيال ہوتا ہے کہ نماز کو قائم کرنا نماز کو پڑھنے سے زيادہ اہميت والا ہے يعني آيات قرآني ميں جس کثرت کے ساتھ نماز کو قائم کرنے کا حکم آيا ہے اس کا مطلب فقط يہ نہيں ہے کہ ايک شخص صر ف( ظاہري صورت اور آداب کے ساتھ) نماز پڑھ لے بلکہ حقيقتاً نماز کو قائم کرنے کا مقصد يہ ہے کہ نماز ہميں جس سمت لے جانا چاہتي ہے ہم اسي سمت پيش قدمي کريں۔۔۔۔ جس منزل کي طرف ہماري توجہ مبذول کرانا چاہتي ہے ہم اس کے لئے بھرپور توجہ کريں ۔۔۔۔ اور جن اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے آمادہ کرتي ہے ہم ان کے حصول کے لئے جدوجہد کريں يعني ہم نيک صفات اور تمام خير و خوبيوں کو حاصل کرنے کا عہد کريں جن کا خلاصہ نماز ہے يا دوسرے الفاظ ميں ياد خدا اور اسلام کے بيان کردہ تمام مقاصد ہمارے دل ميں قيام کريں اور يہ دوسروں کي زندگي ميں قيام کريں۔ ہم بھي اسلام کے مقرر کردہ ہدف و مقصد کے حصول کے لئے جدوجہد کريں اور دوسرے بھي انہي مقاصد کے حصول کے لئے کوشاں رہيں۔

گويا نماز کو قائم کرنے سے مراد يہ ہے کہ انسان اپني کوشش کے ذريعے اپنے ماحول اور زندگي کي فضا کو ايسا بنائے کہ جيسا نما زہم سے تقاضا کرتي ہے يعني سب خدا کي تلاش و توجہ ميں ہمہ وقت کوشاں ہوں، خدا پرست ہوں اور اس سمت اور اس راستے پر حرکت کريں کہ جس سمت اور جس راہ پر نما ز ہميں لے جانا چاہتي ہے۔

پس ايک مومن ہو يا مومنين کا گروہ۔۔۔۔۔ نماز کو قائم کرکے اپني تباہي ، گناہ کي طرف توجہات و ميلانات اور فساد کي تمام کيفيات کو اپني ذات سے ختم کرديتا ہے اور نہ صرف اپني ذات کو ان سے پاک کرتا ہے بلکہ اپنے ماحول اور معاشرے کو بھي پاک کرتا ہے۔

يعني ايک گروہ جب نماز قائم کرتا ہے تو اس کا مطلب يہ ہوتا ہے کہ وہ خود کو تباہي و بربادي سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔

نماز ان تمام کيفيات کو ۔۔۔ جو انسان کو اس کے مقصد و ہدف سے انحراف و بغاوت پر اکساتي ہيں ۔۔۔۔ ختم کرديتي ہے، ہمارے گناہوں کو جلاديتي ہے ، نماز ہي ہمارے اندروني و بيروني جوش و جذبات کے طوفان کو پرسکون کرديتي ہے اور نفس کے ان عوامل کو ۔۔۔۔ خواہ شخصي و فردي ہوں يا اجتماعي ۔۔۔ بے جان کرديتي ہے ۔ حقيقت يہ ہے کہ نماز فرد واحد کي اصلاح کے ساتھ ساتھ ايک معاشرے کو بيہودہ اور ناپسنديدہ اعمال سے روکنے کا ذريعہ ہے۔

نيکي کے خلاف شيطان کي جنگ جاري ہے

زندگي کي دوڑ ميں ۔۔۔۔۔ جہاں ہر طرف مختلف نوعيتوں کي کشمکش اور نيکي و بدي کي جنگ و جدل جاري ہے۔۔۔ ہمارا مقابلہ مختلف النوع مسائل سے ہوتا ہے اور ہمارا ذہن مختلف الجھنوں ميں گھرا رہتا ہے۔ کاروبار حيات ميں برائيوں کي نجاسات اپنے عروج پر ہيں يعني تمام شيطاني قوتيں اپنے کل اسباب ، بہترين انتظامات اور ہتھياروں سے مسلح اپني کمين گاہ سے انسانوں کو اپنے نشانے پر لئے ہوئے ہيں اور انہوں نے اس بات پر قيام کيا ہوا ہے کہ جہاں بھي ديکھيں کہ لوگوں ميں نيکي کا جذبہ ہے يا نيک اعمال کي طرف توجہات ہيں تو کسي نے کسي طرح اسے نابود کرديں اور اس شجر طيبہ کو جڑ سے کاٹ ديں تاکہ وہ نيکي کا شجر معاشرے ميں نشونما نہ پاسکے۔

انسان کے الہي مقاصد کي پہلي حفاظتي ديوار کہ جس پر شيطاني قوتوں کا زيادہ ہجوم رہتا ہے انسان کا عزم اور نفس کي قوت ہے۔ شيطان کي دلي آرزو ہے کہ ہمارے عزم ( مقصد و ہدف کو حاصل کرنے کي قوت طلبي) کو کمزور کردے اور ہمارے نفس کي قدر و طاقت نيست و نابود ہوجائے۔ چنانچہ انسان کي زندگي ميں عزم اور قدرت نفس کا نہ ہونا يا کمزور ہونا اس بات کا پيش خيمہ ہوگا کہ شيطان ہمارے وجود پر اپنا تسلط جمالے اور ہماري صلاحيتوں اور کمالات کو برباد کردے۔ شيطان انسان کے وجود کو ۔۔۔۔۔ جس ميں صلاحيتيں ، کمالات ، خوبياں اور علم و معرفت الہي کے خزانے پوشيدہ ہيں ۔۔۔۔۔ اپني چراگاہ بناليتا ہے اور جب چاہے اس ميں داخل ہو کر انسان کے گلشن معرفت کو ويران کرديتا ہے اور اس طرح اپنے مذموم مقاصد کي تکميل کرتا ہے۔

وہ افراد جو اپنے زمانے اور تاريخ کے لئے خدا کے راستے پر ايک پيغام رکھتے ہوں اور نئے راستے پر چلنے کے خواہشمند ہوں۔۔۔۔ ايسے افراد اور ان کے نظريے کي تباہي کے لئے شيطان زيادہ فکر مند رہتا ہے اور ان پر زيادہ حملے کرتا ہے تاکہ ان کے عزم و قدرت نفس کو کمزور کردے۔ چنانچہ وہ افراد جو اپني منزل تک پہنچنا چاہتے ہيں انہيں چاہئيے کہ اپنے عزم و ارادے کو مستحکم بنائيں تاکہ وہ شيطان کے حملوں کا دفاع کرتے ہوئے اپني منزل مقصود تک پہنچ سکيں۔

اسلام نے انسان کي حقيقي کاميابي و کامراني اور اس کے معراج کے لئے جو نماز مقرر کي ہے، ہم اس ميں اپنے آپ کو نصيحت کرتے ہيں اور دل کو بار بار ياد خدا کي طرف متوجہ کرتے ہيں۔ نماز معمولي قوتوں کي مالک اور مادي کمالات کي حاصل شخصيت کو ۔۔۔ جس کے لئے تباہي کے خطرات ہمہ وقت اس کے سر پر منڈلاتے رہتے ہيں ۔۔۔۔۔ اس خدا سے مربوط کرديتي ہے جس کي تمام صفات و کمالات کي کوئي حد نہيں ہے بلکہ حد يہ ہے کہ وہ تمام حدود سے مبرا ہے۔

يقيناً نماز ہي وہ پل ہے جس کے ذريعے ہمارا اور خدا کا رشتہ قائم ہوتا ہے اور نماز ہي کے ذريعے سے ہم خدا پر بھروسہ کرتے ہيں اور ہم خود کو اس ذات سے قريب کرتے ہيں جو تمام جہانوں کي فکر کرنے والي ہے اور ہميں احساس ہوتا ہے کہ ہماري قوت لامحدود لازول ہے۔ نماز کے ذريعے سے انسان کا خدا سے قريب ہونا اور خدا کي حاکميت و طاقت پر بھروسہ کرنا ہم انسانوں کي تمام کمزوريوں اور تمام برائيوں کا بہترين علاج ہے اور ہمارے عزم و ارادے کو مضبوط و مستحکم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے بہترين مالک ہے۔

رسول اللہ اور نماز

رسول گرامي قدر صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم ۔۔۔ جو اسلام کے عظيم آستانے ميں تمام دنيا کي جاہليت کے مقابل اپنے کندھوں پر مسؤليت اور ذمہ داري کا کوہ گراں محسوس کررہے ہيں ۔۔۔۔ کو حکم ديا گيا خدا کو ياد کرو اور رات کي تاريکي ميں نماز پڑھو

(سورہ مزمل ١ تا ٥)

اے مزمل ۔۔۔۔ رات کو خدا کي بارگاہ ميں قيام کرو مگر تھوڑي دير۔ آدھي رات يا اس سے کم يا اس سے زيادہ اور قرآن کو ترتيل کے ساتھ پڑھو۔ ہم عنقريب تم پر ايک بھاري بيان ( کي ذمہ داري) ڈالنے والے ہيں۔

اس عظيم ذمہ داري ، قول ثقيل يا مقصد کے لئے سورہ مزمل کي ان ابتدائي آيات ميں رسول خدا کو نماز شب پڑھنے کا حکم ديا گيا ہے ۔ ہم اپنے مضمون کو آگے بڑھاتے ہيں تاکہ نماز کے بيانات ميں توجہ کرسکيں اور اسي توجہ ميں ہم نماز کے ترجمے سے ۔۔۔۔۔ جو مناسب ہونا چاہئيے ۔۔۔۔ آگے نہيں بڑھيں گے اور اس کے ساتھ ساتھ ہم علمي نقطہ نگاہ سے يہ تعليم دينے کي کوشش کريں گے کہ نماز کا ہدف کيا ہے ؟ اور حتيٰ الامکان ہماري يہ بھي کوشش ہوگي کہ ہم انہيں بيان کرنے ميں اپنے مقصد سے نزديک تر ہوں۔

ابتدائي نماز

نماز کي ابتدائ ، خدا کے نام ، اس کي عظمت کي ياد اور اس چيز سے ہے کہ اس کي ذات کتني بلند ہے اور اس کي ذات تمام انساني فکروں سے بلند تر ہے۔

اللہ اکبر ۔۔۔۔ خدا سب سے بزرگ ہے

نماز گذار اس جملے کے ساتھ خدا سے اپنے راز و نياز کو شروع کرديتا ہے۔

اللہ اکبر ۔۔ خدا بزرگ تر ہے۔ خدا اس سے بھي اونچا ہے کہ کوئي اس کي تعريف و توصيف بيان کرے۔ خدا تاريخ عالم کے تمام خداوں سے بزرگ تر ہے بلکہ خدا ان کي قدرتوں اور ظاہر طاقتوں سے بھي بزرگ تر ہے کہ جن سے انسان خوف کھاتا ہے يا جن سے لالچ رکھتا ہے اور خدا اس سے بھي بلند و اعليٰ ہے کہ خدا کي جو سنتيں مقرر ہيں، اور اس کے قوانين جو کائنات ميں جاري و ساري ہيں ، کوئي ان کو توڑ سکے۔

اگر انسان ان خدائي سنتوں کي معرفت اور ان پر اپني توجہ مرکوز رکھتے ہوئے اپنے مقصد اور اپني تلاش کا انتخاب کيے ہوئے ہو اوراس کا خيال ہو کہ خدا بہت عظيم اور بزرگ ہے تو وہ اپنے دل ميں ايک طاقت کا احساس کرے گا اور اميد سے بھر پور احساس کرے گا کہ اسے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کي جدوجہد ميں خدا کي مدد ضرور شامل ہوگي اور اس کے کاموں کا انجام يقينا نيک اور کامياب ہوگا اور اس طرح وہ مستقبل کي زندگي اور آنے والے راستے پر نيک خيالات سے بھرپور نگاہ ڈالنے کا چنانچہ نماز پڑھنے والا لفظ ۔۔۔۔۔۔ اللہ اکبر کے ادا کرنے کے بعد عملاً نماز ميں داخل ہوجاتا ہے۔ پس اسے چاہئيے کہ اس قيام کي حالت ميں سورہ حمد کے بعد قرآن کے ايک مکمل سورے کي تلاوت کرے۔

سورہ حمد

بسم الله الرحمن الرحيم

ابتدائ اس خدا کے نام سے جو ايسي رحمت رکھتا ہے جو تمام عالم پرسايہ افگن ہے اور ايسي رحيميت ( مہرباني) والا ہے جو ہميشہ باقي رہنے والي ہے۔

قرآن کے ہر سورے کي ابتدائ اسي جملے سے ہے اور اسي جملے سے نہ صرف نماز کي ابتدائ ہوتي ہے بلکہ ايک مسلمان کے تمام کاموں کي ابتدائ اور آغاز نام خدا سے ہوتا ہے۔ انسان کي زندگي ، اس کے تمام معاملات اور اس کي زندگي کے تمام جلووں کي ابتدائ خدا کے نام سے ہے۔ مسلمان خدا کے نام سے اپنے دن کو شروع کرتا ہے اور خدا ہي کے نام سے اپنے روزمرہ کے امور کو انجام تک پہنچاتا ہے ۔۔۔۔ وہ خدا کے نام اور اس کي ياد کے ساتھ بستر ميں داخل ہوجاتا ہے ۔۔۔ اور اپنے نئے دن کے کاموں کو دوبارہ خدا کے نام سے شروع کرکے انہيں پايہ تکميل تک پہنچاتا ہے بلکہ اپنے خدا کي ياد سے اس دنيا سے آنکھيں بند کرتا ہے اور ہميشہ رہنے والي زندگي کي طرف منتقل ہوجاتا ہے۔

الحمد لله رب العالمين

تعريف و توصيف صرف اس خدا کے لئے ہے جو پوري دنيا اور تمام کائنات کا پالنے والا ہے۔

سب تعريفيں خدا کے لئے ہيں

تعريف و توصيف کي جتني بھي قسميں ہيں وہ سب خد اکے لئے مخصوص ہيں کيونکہ کائنات ميں جتني عظمتيں وجود رکھتي ہيں اب سب کا خالق خدا ہے اور جتني رحمتيں ہيں وہ سب خدا کي طرف سے ہيں۔ خداوند عالم کي ذات ميں تمام اعليٰ صفات جمع ہيں اور تمام نيکياں اور نيک کام جو ہم دنيا ميں ديکھ رہے ہيں ان سب کا سر چشمہ اسي کا وجود ہے۔ لہذا خدا کي تعريف کرنا نيکيوں اور نيکوکاروں کي تعريف کرنا ہے اور خدا ہي کي تعريف کرنے کي وجہ سے ہماري کوشش اور جدوجہد کو ۔۔۔۔ جو نيک بننے اور نيک خواہشات کي تکميل کے لئے ہے، اپنے انجام تک پہنچنے کا راستہ مل جاتا ہے۔

اگر کوئي انسان خود ميں اچھي صفت ديکھے يا قابل تعريف کردار محسوس کرے تو وہ جان لے کہ اس ميں موجود وہ نيکي اور خوبي خدا کي رحمت کا فيض اور اس کا لطف و کرم ہے اس لئے کہ يہ صرف خدا ہي کي ذات ہے کہ جس نے انسانوں کي فطرت کو نيکيوں پر قائم کيا ہے اور يہ بھي خدا ہي کا کام ہے کہ جس نے انسان کے باطن ميں پوشيدہ صلاحيتوں کو ايسا بنايا ہے کہ اس کاباطن ہميشہ ايسي فکر ميں رہتا ہے کہ ان تمام نيکيوں اور صلاحيتوں کو ايسا بنايا ہے کہ اس کا باطن ہميشہ ايسي فکر ميں رہتا ہے کہ ان تمام نيکيوں اور صلاحيتوں کو ۔۔۔۔ جن کا سر چشمہ خدا کي ذات ہے۔ کمال تک پہنچائے اور يہ بھي خدا ہي کي ذات ہے جس نے انسانوں کو ايک اور قدرت دي ہے جسے ہم تصميم يا مصمم ( پکا ) ارادہ کہتے ہيں يعني کس کام کو کرکے ہي چھوڑنا يا کسي کام کو اس کے انجام تک پہنچانے کا عزم ۔ يہ انسان کے لئے ايسا سرمايہ ہے جس کے ذريعے سے انسان نيک بننے کے لئے اور نيک اعمال کے راستے پر قدم بڑھاتا ہے۔

خدا عالمين کا پالنے والا اور انہيں کمال تک پہنچانے والا ہے

انسان اپنے اس خيال سے ۔۔۔۔ کہ جو رحمت و خوبي دنيا ميں ہے وہ سب خدا کي طرف سے ہے ۔۔۔ اپني ذات کو اچھائيوں ميں گم نہيں ہوجاتا ہے اور نہ ہي اپني ذات کے شاندار ہونے کا خيال کرتا ہے۔ اگر انسان ميں نيک بننے اور کمالات حاصل کرنے کي توجہ ہوگي تو اس کي وجہ سے اس کي اس بات کي طرف بھي ہوگي کہ وہ اپنا وقت ضائع نہ کرے يا بيہودہ حرکات ميں وقت نہ گذارے اور اسي طرح يہ بھي خيال ہوگا کہ وہ نيکي کي صلاحيتوں اور قوتوں کي حفاظت و پاسداري بھي کرے۔

نماز پڑھنے والا جب عبادت ميں کہتا ہے کہ رب العالمين ۔۔ وہ تمام ( عالمين ) جہانوں کا رب ہے يعني کائنات ميں جتني دنيائيں اور لوگ وجود رکھتے ہيں وہ ان سب کا رب ہے اور ہم قبول کرتے ہيں کہ کائنات ميں يہي ايک دنيا نہيں ہے بلکہ اس کے علاوہ اور بہت سي دنيائيں ہيں۔ يہي ايک جہان نہيں ہے اور بہت سے پوشيدہ جہان اس کائنات کا حصہ ہيں اور ان تمام دنياوں اور جہانوں کا تعلق ہم ہي سے ہے سب کے سب آپس ميں ايک دوسرے سے منسلک ہيں۔۔ سب کو خدا نے خلق کيا ہے ۔۔۔۔ اور وہي سب کو کمال تک پہنچا رہا ہے۔

نماز پڑھنے والا اس بات کا احساس کرتا ہے کہ اس دنيا کے علاوہ اور بہت سي دنيائيں ہيں جبکہ اس سے قبل وہ نہ صرف خود کو اس دنيا تک محدود خيال کرتا تھا بلکہ اس کي زندگي کا نظريہ بھي ماديت کي قيد ميں تھا ليکن رب العالمين ۔۔۔ کہنے کے بعد اسے يہ خيال ہوتا ہے کہ ہماري اس دنيا کے علاوہ آگے اور بھي دنيائيں اور جہان پھيلے ہوئے ہيں۔۔۔۔۔ جو ميرا خدا ہے وہي ان جہانوں اور دنياوں کا خدا ہے اور ايسي فکر کي وجہ سے اس کي اپني دنيا سے متعلق تنگ نظري ختم ہوجاتي ہے اور محدوديت کا حصار ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔ اس کي کوتاہ نظري کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اس ميں جرآت اور خواہش پيدا ہوتي ہے اور وہ کائنات ميں پوشيدہ رازوں کي تلاش شروع کرديتا ہے اور انسان اس خدا کي ۔۔۔۔۔ جو تمام جہانوں اور دنياوں کا پالنے والا اور انہيں کمال تک پہنچانے والا ہے۔۔۔۔ بندگي سے عظمت کا احساس کرتا ہے کہ ميں خدائے لاشريک کا بندہ ہوں۔

آيت الحمد للہ رب العالمين ۔۔۔ کے پڑھنے کے ساتھ ساتھ نمازي کي توجہ اس بات کي طرف بھي ہوتي ہے کہ کائنات کے تمام موجودات ۔۔۔ انسان ۔۔۔ حيوان۔۔۔۔ جمادات۔۔۔ گھاس ۔۔۔۔ پھوس ۔۔۔ تمام آسمان ۔۔۔۔ اور ان کے علاوہ اس کائنات ميں پوشيدہ ان گنت دنيائيں اور جہان ۔۔۔۔ جو ہمارے ادراک کي رسائي سے بہت آگے ہيں ۔۔۔۔۔ سب خدا کي بندگي اور اطاعت کرنے والے ہيں اور خدا ہي ان کي تربيت کرنے والا ہے اور ان کو کمال تک پہنچانے والا ہے۔

ان تمام خيالات کے ساتھ نمازي يہ بھي خيال کرتا ہے کہ ميرا خدا نہ تو کسي خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور نہ ہي وہ کسي نسل و ملت سے ہے بلکہ رب العالمين کہہ کر بندہ يہ خيال کرتا ہے کہ خدا صرف انسانوں کا ہي تربيت کرنے والا نہيں ہے بلکہ وہ تو ايک چيونٹي اور ايک معمولي سي گھاس کا بھي خدا ہے اور خدا ہي کي تربيت کي وجہ سے تمام آسمان ، کہکشائيں اور سيارے اپني اپني منزل کي طرف رواں دواں ہيں۔ نماز پڑھنے والا اس حقيقت کو بھي درک کرتا ہے کہ ميں تنہا نہيں ہوں بلکہ دنيا ميں جتنے دنيا کي چھوٹي سے چھوٹي اور بڑي سے بڑي چيزيں سب خدا کي تربيت کے زير سايہ ميرے ايک ساتھ تربيت کررہا ہے ۔۔۔ ہم سب کے سب شاہراہ حيات پر ايک دوسرے کے بھائي اور ہمسفر ہيں۔۔۔۔ اور يہ کاروان عظيم ۔۔۔ جس ميں کائنات کے ذرے سے لے کر کہکشاوں سميت سب جاندار ، حيوان و انسان شامل ہيں ۔۔۔۔ خدا کے مقرر کردہ ہدف کے تحت ايک ہي راہ پر ايک ہي سمت رخ کئے اپني منزل کي طرف رواں دواں ہے۔

نمازي جب اس ربط و تعلق کا احساس کرتا ہے تو اس کي وجہ سے تمام موجودات کي نسبت خود کو ذمہ دار اور مسؤل سمجھتا ہے کہ ميري ڈيوٹي يہ ہے کہ ميں انسانيت کي خدمت کروں ، اور ان کي خدمت ان کي ہدايت اور زندگي کے امور ميں ان کي امداد کرنا ہے۔ اور وہ يہ بھي خيال کرتا ہے کہ ميں سمجھوں کہ کون سي چيزيں کس لئے بنائي ہے ؟ ان کا صحيح کون سا ہے؟ وہ کون مقاصد کے تحت دنيا ميں آئي ہيں ؟ اور وہ توجہ کرتا ہے کہ تمام موجودات کو اس راستے پر چلنا چاہئيے جس ميں خدا کي غرض ہو۔

الرحمن الرحيم

خدا رحمان اور رحيم ہے

رحمت عام اور رحمت خاص

خدا کي ايک رحمت ۔۔۔۔۔ رحمت ہے جو مختلف شکلوں ميں دنيا ميں وجود رکھتي ہے اور ان ميں سے ايک شکل وہ طاقتيں اور قوانين ہيں جو حيات کي پيدائش کا سبب ہيں اور جن کے ذريعے اس کرہ ارض پر حيات کا وجود اور ا س کي بقائ ہے۔ خداوند عالم کي يہ رحمت عام کائنات کے تمام موجودات پر چھائي ہوئي ہے۔ کائنات کي تمام چيزيں اور انسان ۔۔۔ جب تک موت کي دہليز پر نہيں پہنچتے ۔۔۔۔ ہر آن و ہر لمحے خدا کي رحمت رحمانيت سے فائدہ اٹھاتے ہيں۔

جبکہ دوسري طرف خدا کي وہ رحمت ہے جو ہر ايک کے لئے مخصوص ہے۔ خداوند عالم کي يہ رحمت ، ہدايت اور اعليٰ کاموں ميں نصرت خدا کي رحمت ہے، اجر اور اس کي خاص محبت کي رحمت ہے جو خدا انہي بندوں کو عنايت کرتا ہے جن ميں ان کي لياقت و صلاحيت ہوتي ہے جو کمالات کے لائق اور نيک انسان ہيں۔

خداوند عالم کي يہ رحمت بھي اسي دنيا سے انسان کے شامل حال ہوجاتي ہے۔ اس نوراني رحمت کا اثر قابل موجودات اور نيک انسانوں ميں موت تک اور بعد از موت قيامت تک باقي رہتا ہے۔ يہاں تک کہ انسان اپني منزل آخر تک پہنچ جاتا ہے مگر خدا کي يہ رحمت اس کے ساتھ ساتھ ہوتي ہے۔

پس معلوم ہوا کہ يہ خدا ہي کي ذات ہے جو تمام موجودات پر رحمت کرنے والي ہے اگرچہ کہ وہ تھوڑي ہي کيوں نہ ہو اور يہ بھي خدا ہي کي ذات ہے جس کي رحمت ہميشہ رہنے والي ہے اور ہر انسان ميں موجود لياقت و صلاحيت کے اعتبار سے اس کے لئے مخصوص بھي۔

ہمارا نماز ميں ياد کرنا کہ ہمارا پروردگار رحمت والا ہے يا تلاوت قرآن سے قبل ۔۔۔ نماز کے آغاز ميں ۔۔۔۔ يا کسي بھي سورے کو شروع کرنے سے پہلے خدا اور اس کي رحمت کو ياد کرنا ۔۔۔۔ ہميں متوجہ کرتا ہے کہ خدا کي محبت و مہرباني اس کي نماياں ترين صفات ہيں جو کائنات کي تخليق اور اس کے وجود کي ابتدائ ہي سے ہر ايک کے ساتھ شامل ہيں اور اس کے بر خلاف اس کي دوسري صفات يعني اس کا قہر و غضب ان لوگوں کے لئے مخصوص ہے جو خدا کے دشمن اور فساد و تباہياں پھيلانے والے ہيں۔ا س کي رحمت رحمانيت چار سو پھيلي ہوئي ہے جو تمام موجودات اور ہر ذي حيات تک پہنچ کر رہے گي۔