نماز کي گہرائیاں

نماز کي گہرائیاں0%

نماز کي گہرائیاں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

نماز کي گہرائیاں

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اي حفظہ اللہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 7065
ڈاؤنلوڈ: 3315

تبصرے:

نماز کي گہرائیاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7065 / ڈاؤنلوڈ: 3315
سائز سائز سائز
نماز کي گہرائیاں

نماز کي گہرائیاں

مؤلف:
اردو

مالک يوم الدين

خدا قيام کے دن کا مالک اور صاحب اختيار ہے۔

روز جزا ۔۔۔ وہ دن ہے جب زندگي ختم ہوجائے گي ۔۔۔۔ آخرت کا دن ہے جس کے لئے لوگ اپنے اپنے انجام کي فکر ميں رہتے ہيں۔ مادي خيالات رکھنے والا مادہ پرست جو منکر خدا ہے ، وہ اور خدا پرست دونوں ايک خاص مقصد کے تحت اپنے اپنے کام تک پہنچنے کے لئے کوششيں کرتے ہيں ليکن دونوں کي جدوجہد اور کوشش ميں فرق يہ ہے کہ دونوں ميں سے ہر ايک نے اپني عاقبت و انجام کو دو مختلف اور متضاد نظريوں سے سمجھا ہے۔

خدا پرست اور مادہ پرست

مادي خيالات کا پر تو انسان اس کي فکر ميں رہتا ہے کہ اسے اپني جدوجہد اور کوشش کا نتيجہ اگلے گھنٹے ميں کيا ملے گا ؟ يعني اس کي تمام جدوجہد اور کوششوں کا دائرہ صرف آنے والے دن ، سال يا چند اور سالوں تک محدود ہے کہ ان آنے والے دنوں يا سالوں ميں وہ اپني جدوجہد اور کوشش سے کيا منزل پانے والا ہے؟ جبکہ اس پر يہ حقيقت روز روشن کي مانند عياں ہے کہ اس کي جدوجہد اور کوشش کا نتيجہ بڑھاپا ، بدن و قوت کي ضعيفي اور انتہائي عمر کي افسردگي کے علاوہ کچھ نہيں ہے اور اس کي زندگي کي محنتوں اور مشقتوں کا انجام صرف بڑھاپے کي سرد آئيں ، گذشتہ زندگي پر افسوس اور نالہ ہائے غم ہيں ليکن خدا پرست انسان کي نگاہيں اس دنيا کے پار اپني منزل حقيقي تک ديکھتي ہيں ، اس کے خيالات کا دائرہ چند گھنٹوں کے مختصر سے شب و روز اور چند سالوں کي دنيا سے بہت وسيع اور اس کي منزل بہت آگے ہوتي ہے۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھي ہيں

ابھي عشق کے امتحاں اور بھي ہيں

نہ تو خدا پرست کي دنيا اس مادي دنيا تک محدود ہے اور نہ ہي اس کا نظريہ زندگي اس فاني دنيا کے حصار ميں ہے بلکہ اس کي دنيا، اس کي زندگي اور اس کا جہان مادہ پرست کي دنيا سے ہزار ہا درجہ بلند ہے جس کا تصور ممکن نہيں۔

عقابي روح جب بيدار ہوتي ہے جوانوں ميں

نظر آتي ہے ان کو اپني منزل آسمانوں ميں

اسي طرح خدا پرست کا مستقبل لا محدود زندگي پر قائم ہے۔ ايسا انسان ۔۔۔۔ جو ہميشہ کي زندگي خواہش مند اور متلاشي ہے ۔۔۔۔ آخر وقت تک اپني جدوجہد اور کوشش سے ہاتھ نہيں اٹھائے گا اور نہ ہي ہمت ہارے گا۔

اگر کوئي انسان يہ خيال کرتاہے کہ موت سے نہ تو اميديں ختم ہوتي ہيں اور نہ ہي زندگي کے اعمال کا انجام و نتيجہ منقطع ہوتا ہے تو وہ اپني زندگي کے آخر لمحات تک اسي جوش و جذبے ، تحرک و استقلال اور پامردي سے ۔۔۔۔ جن سے اس نے اپنے کاموں کا آغاز کيا تھا ۔۔۔ اپنے کام اور جدوجہد کو جاري رکھے گا اور اپني زندگي کے آخري سانسوں تک خدا کے پسنديدہ اعمال و افعال سے خود کو آراستہ کرتا رہے گا۔

نماز ميں يہ ياد کرنا کہ ۔۔۔ مرنے کے بعد ہميں اٹھانے والا ، ہميں ہمارے اعمال کي جزا دينے والا اور صاحب اختيار صرف خدا ہي ہے۔۔۔۔ نماز پڑھنے والے کي زندگي کو صحيح ڈگر پر لے جاتا ہے اور اس کے تمام امور کا رخ خدا کي طرف موڑ ديتا ہے چنانچہ وہ اپنے تمام امور کو خدا ہي کے لئے انجام دے گا اور اپني پوري زندگي کو صرف خدا ہي کي راہ ميں خرچ کرے گا اور ان تمام امور کے ذريعے سے اس کي يہ کوشش ہوگي کہ وہ کمالات حاصل کرے اور اس کي بشريت ۔۔۔۔ انسانيت کي معراج حاصل کرے اور يہي وہ راستہ ہے جس کو خداوند عالم نے انسانوں کے لئے پسند کيا ہے۔ دوسري جانب ان تمام باتوں کا نتيجہ يہ ہوگا کہ بيہودہ افکار سے انسان کا بھروسہ ختم ہوجائے گا، وہ بے بنياد و بے حقيقت اميدوں سے اپنا دامن چھڑانے لگے گا اور اس کي خدا سے اميد قوي ہوگي کہ خدا ہي سب کچھ دينے والا ہے اور اس طرح اپنے عمل پر اس کا بھروسہ بڑھ جائے گا۔

خدا عالم و عادل ہے

اس مادي زندگي ميں فرسودہ نظريات ، باطل نظام اور ناجائز راستے موجود ہيں کہ سست مزاج اور فر صت طلب لوگوں کے لئے ايسے انتظام ہيں کہ وہ دھوکے ، ريا ، جھوٹ ، چال بازي ، فريب اور الٹي سيدھي باتيں کرکے اپنے لئے دنيا کا سامان حاصل کرليتے ہيں ليکن يہ سب اسي دنيا تک محدود ہے کہ انسان بغير عمل اور بغير کوشش کے نتيجہ حاصل کرلے يا غاصبانہ طريقے سے اپني پست خواہشات کي تکميل کرلے ليکن نماز پڑھنے والے کو معلوم ہے کہ وہ دنيا کہ جس ميں اس کے تمام اعمال و افعال پر سخت گرفت کرنے والا خدا ۔۔۔ عالم و عادل ہے جسے دھوکہ دينا اور اس کے نظام سے بچ نکلنا ناممکن ہے اور وہ يہ بھي جانتا ہے کہ خدا کسي بھي بے عمل شخص کو ذرہ برابر فائدہ اور اجر دينے والا نہيں ہے۔

سورہ حمد کے اس آدھے حصے ميں اس پروردگار کي تعريف جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور اس طرح اس ميں بعض اہم صفات خدا کا ذکر ہوا ہے ۔ا س سورے کے بقيہ حصے ميں بندگي کا اظہار اور ہدايت کي طلب ہے اور اس بقيہ حصے ميں بھي بعض اہم توجہات ميں يعني اسلام کي حقيقي آئيڈيالوجي کيا ہے؟ ان ميں سے بعض کي طرف اشارہ کيا جارہا ہے۔

اياک نعبد

ہم فقط تيري ہي عبادت کرتے ہيں

غير خدا کي بندگي سے انکار

ہمارا پورا وجود ۔۔۔۔ ہماري جسماني ۔۔۔ روحاني ۔۔۔ اور فطري قوتيں سب خدا کے اختيار ميں ہيں اور ہم ان قوتوں کو صرف اس کے حکم کے مطابق اور فقط اسي کي خوشنودي کے لئے استعمال کرتے ہيں۔

نماز پڑھنے والا يہ جملہ ادا کرکے اس چيز کو اپنے دل سے نکال ديتا ہے کہ وہ خدا کے علاوہ کسي اور کے سامنے سر جھکائے گا ۔۔۔ نہ دل کي طاقتوں کو غير از خدا کے سامنے جھکائے گا ۔۔۔ اور نا ہي اپنے اعضائ و جوارح سے غير خدا کي بندگي کرے گا اور اسي طريقے سے وہ ان سب کي زندگي کو رد کرديتا ہے جو اس سے اپني اطاعت کے خواہشمند ہوتے ہيں۔

تاريخ ميں ايسے لوگوں کا وجود ملتا ہے جو خو د کو بشريت کي فلاح کا ذمہ دار ٹھہراتے ہيں مگر انہوں نے لوگوں کو مختلف طبقات ميں بانٹ ديا ۔ تاريخ ميں ايسي مثاليں بکثرت موجود ہيں کہ بلند و بانگ دعوے کرنے والے اپني اپني رعايا اور قوموں کو اپنے ہي بنائے ہوئے نظاموں کي بندگي پر مجبور کرتے اور اپني خواہشات کي تکميل کے لئے انہيں اسير و مقيد رکھتے تھے۔

ہم نماز ميں يہي کہتے ہيں کہ ہم ان ميں سے کسي کو قبول کرنے والے نہيں ہيں۔ نماز پڑھنے والا يہ نہيں کہتا ہے کہ ميں تيري عبادت کرتا ہوں بلکہ وہ يہ کہتا ہے کہ نعبد ۔۔۔ ہم تيري عبادت کرتے ہيں۔ ہم سب اور تمام مومنين صرف خدا کي اطاعت و فرمانبرداري کرنے والے اور صرف اسي کے احکام کي پابندي کرنے والے ہيں اور ہمارا درجہ اس سے بہت بلند ہے کہ ہم خدا کے نظام کے علاوہ کسي اور نظام کو قبول کريں يا غير از خدا کي اطاعت کريں۔

تقدير کے پابند ہيں جمادات و نباتات

مومن فقط احکام الہي کا ہے پابند

خلاصہ يہ کہ نماز پڑھنے والا يہ اعلان کرکے خدا کي بندگي کو قبول کرتا ہے اور انسانوں کي بندگي و اطاعت سے خود کو دور کرتا ہے اور اس طرح خود کو ان لوگوں کے راستے پر ڈال ديتا ہے جو خدا کے لئے کام کرنے والے ہيں اور حقيقتاً خود کو انہي ميں سے قرار ديتا ہے۔

يہ اعتراف و قبول کرنا کہ بندگي صرف خدا اور اس کي خوشنودي کے حصول کے لئے ہوني چاہيے۔۔۔۔ نہ صرف اسلام کے اہم ترين بنيادي اصولوں ميں سے ايک اصول ہے بلکہ قوانين الہي کي بنياد بھي اسي اصول پر ہے يعني بندگي فقط خدا کے لئے ہو يعني جسے الہٰ ( معبود) ہونا چاہئيے اور خدا کے علاوہ کوئي بھي عبادت و بندگي کے قابل نہيں ہے۔

باطل نظريہ

ايسے افراد کا وجود ہر زمانے ميں رہا ہے کہ جنہوں نے اس نظريہ زندگي کو حقيقي معنوں ميں درک نہيں کيا اور اس کے مطالب و مفاہيم کو غلط انداز سے سمجھنے کے ساتھ ساتھ اسے چند باتوں تک محدود کرديا اور عملي زندگي ميں اطاعت خدا کا مفہوم غلط سمجھتے ہوئے غير خدا کي بندگي کرنے لگے۔

ان لوگوں نے يہ گمان کيا کہ عبادت خدا کے حقيقي معني يہي ہيں کہ اس کو مقدس سمجھا جائے اور عبادت کے لئے اس کے سامنے سر جھکايا جائے لہذا انہوں نے خدا کي بارگاہ ميں صرف نماز پڑھنے ، دعا مانگنے اور سجدے کي ادائيگي کو ہي عبادت خدا گردانا اور اس بات سے مطمئن ہوگئے کہ ہم خدا کے علاوہ کسي اور کي بندگي نہيں کرتے کيونکہ بندگي تو فقط نماز ، سجدے اور دعا کا نام ہے اور ہم سب کا بھي يہي حال ہے ۔

ہميں آگاہ ہونا چاہئيے کہ عبادت و بندگي صرف نماز ، اور دعا کا نام نہيں ہے بلکہ عبادت و بندگي کے معني بہت زيادہ وسيع ہيں۔ قرآن و حديث کي اصطلاح ميں عبادت و بندگي بلند پاياں معني کي حامل ہے۔ قرآن و حديث کي اصطلاح ميں عبادت کے معني يہ ہيں کہ ہم خدا کے احکام کي اطاعت کرتے ہوئے اس کے سامنے سر تسليم خم کرديں اور خدا کے فرمان کے علاوہ ہر کسي کے فرمان کو ۔۔۔۔ خواہ وہ کسي کا بھي ہو ۔۔۔۔ کوئي بھي قانون و نظام ہو ۔۔۔۔ خواہ کسي کي بھي طرف سے ہو ۔۔۔۔ کتني ہي بڑي اور زبردست طاقت اس کي مالک کيوں نہ ہو ۔۔۔ يا جس کسي بھي طرف ہميں دعوت دي جائے يا مجبور کيا جائے ۔۔۔ ہم ماننے سے انکار کرديں کہ ہم کسي کے قانون کو قبول کرنے والے نہيں ہيں بلکہ صرف خدا کے فرمان و قانون کي اطاعت کرنے والے ہيں۔

اس بيان پروہ تمام لوگ ۔۔۔ جو الہي نظام کے علاوہ لوگوں کے نظاموں کو قبول کريں اور دوسروں کے جاري کردہ احکام و فرامين کے سامنے سر جھکاديں ۔۔۔۔ ان نظاموں اور انسانوں کے بندے اور عبادت گذار کہلائيں گے ۔ دوسروں کي عبادت کے ساتھ ساتھ اگر انہوں نے اپني زندگي کا کچھ حصہ خدا کي عبادت و بندگي کے لئے رکھ چھوڑا کہ انفرادي يا اجتماعي زندگي ميں خدا کے قانون و فرمان پر عمل کريں گے تو ايسے بعض معاملات اور امور ميں دوسروں کي بھي بندگي کرتے ہيں اور اگر يہ لوگ اپنے تمام امور اور معاملات ميں غير از خدا کے مرتب کردہ اصول و قوانين کے مطابق عمل کرتے رہے اور خدا کي بندگي کي طرف ذرہ برابر توجہ نہ کي تو يہ کافر کہلائيں گے يعني جنہوں نے خدا کي واضح اور اظہر من الشمس حقيقتوں اور اس کي روشن نشانيوں کا بصارت قلبي سے مشاہدہ نہيں کيا اور نا ہي انہيں قبول کيا اور اپني عملي اور اعتقادي زندگي ميں اس کے انکاري رہے۔

اسلام کے اس نظرئيے کے مطابق ہم با آساني سمجھ سکتے ہيں کہ خدا کي طرف سے نازل کردہ اديان ميں سب سے پہلے جس شعار کي طرف دعوت دي گئي اور جس بات سے روشناس کرايا گيا وہ يہ ہے کہ لا الہ الا اللہ ( نہيں ہے کوئي معبود سوائے خدا کے ) کا اقرار کرو، ليکن اس کے کہنے کا مقصد کيا ہے اور اس کے ذريعے سے وہ کن باتوں کا خواہش مندہے اور کس سمت رخ کروانا چاہتا ہے؟

حقيقت بندگي اسلامي مدارک اور قرآن و حديث ميں متواتر اور مسلسل آئي ہے اور روز روشن کي مانند عياں ہے کہ غور و فکر کرنے والے اور بافہم و ہوشمند افراد کے لئے ذرہ برابر شک و تردد نہيں ہے کہ خدا يہ چاہتا ہے کہ زندگي کے تمام امور ميں صرف اسي کے احکام پر عمل کياجائے ۔ ہم يہاں نمونے کے طور پر قرآن سے دو آيات اور امام جعفر صادق کي ايک حديث نقل کررہے ہيں۔

اتخذوا احبارهم و رهبانهم اربابا من دون الله والمسيح ابن مريم وما امروا الا ليعبدوا الها واحدا لا اله الا هو ۔

ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علمائ اور مقدس لوگوں کو اپنا رب بناليا اور عيسيٰ ابن مريم کو بھي جبکہ انہيں يہ حکم ديا گيا تھا کہ يہ سب نہ کريں بلکہ اپنے معبود واحد کي عبادت کريں کہ نہيں ہے کوئي معبود سوائے اس کے۔

(توبہ ٣١)

والذين اجتنبوا الطاغوت ان يعبدوها وانا الي الله لهم البشريٰ

اور وہ لوگ جو طاغوت سے بچتے ہيں کہ اس کي بندگي کريں اور انہوں نے اپنا رخ (توجہ ) اللہ کي طرف کيا ہوا ہے۔ انہي لوگوں کي لئے بشارت (خوشخبري) ہے۔

روي ابو بصير عن ابي عبدالله عليه السلام انه قال انتم هم و من اطاع جابرا فقد عبده

ابو بصير حضرت امام جعفر صادق سے روايت نقل کرتے ہيں کہ امام نے فرمايا ۔۔۔ ( حضرت کا يہ خطاب اپنے زمانے کے شيعوں سے تھا) تم ہي لوگ ہو کہ جنہوں نے اپنے آپ کو طاغوت کي عبادت سے الگ کرليا اور جس کسي ظالم کي اطاعت کي پس اس نے اس ظالم کي بندگي کي۔

واياک نستعين

اور فقط تجھ ہي سے مدد چاہتے ہيں۔

جھوٹے خدا ہماري کيونکر امداد کرسکتے ہيں؟

وہ تمام لوگ جو خود ساختہ خدا ہيں اور لوگوں پر اپني خدائي کا دعويٰ کرنے والے ہيں، ہميں ان سے کوئي توقع نہيں ہے کہ وہ ہماري حمايت و امداد کرينگے۔ يہي وہ لوگ ہيں جو خود کو احکام خدا کي اطاعت سے ہٹانے والے ہيں اور جب يہ خدا کي اطاعت اور اس کے راستے پر چلنے کو تيار ہي نہيں تو پھر يہ خدا کے بندوں اور اس کي راہ پر چلنے والوں کو کيونکر امدادکريں گے؟

خدا کا راستہ تو وہي ہے جسے خدا کے پيغمبروں نے لوگوں کو متعارف و روشناس کرايا ہے اور وہي راستہ ہے جو حق و عدالت کي طرف ہے تاکہ لوگوں ميں بھائي چارہ اور دلبستگي قائم رہے، انسان کي قدر و قيمت کو سمجھا جائے، کسي کو کسي پر ( بلا جواز) ترجيح و سبقت نہ دي جائے، کسي پر ظلم و ستم نہ ہو اور کسي کو چھوٹا يا بڑا نہ سمجھا جائے جبکہ اس نظام کے مد مقابل چند خود ساختہ خدا ہيں جو اپني خدائي کے دعوے دار ہيں اور اپني شرمناک زندگي کو پايہ تکميل تک پہنچانے اور ظلم و زيادتي سے دنياوي فائدے حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اس بات کا بيڑا اٹھايا ہے کہ عدل و انصاف کے تمام سر چشموں کو ختم اور انسانوں کي بھلائي کے تمام قيمتي سرمايوں کو برباد کرديں ۔

جب ان خود ساختہ خداوں کے يہ افکار ہيں تو پھر يہ کس طرح ممکن ہے کہ يہ لوگ ايک خدا کي بندگي کرنے والوں کي حمايت و نصرت کريں!

يہ تو وہ لوگ ہيں جو بندگان خدا کے ساتھ جنگ کررہے ہيں بلکہ فائدے حاصل کرنے کے لئے کبھي ان سے صلح کرنے والے نہيں ہيں بلکہ لوٹ مار ، ظلم کرنا اور بے امني پھيلانا انہي کا شيوہ ہے۔ پس ہم خدا ہي سے مدد طلب کرتے ہيں اور اپني عقل ، فہم اور ارادے سے ،۔۔ جو خدا نے ہميں وديعت کيے ہيں ۔۔۔۔ اور ان تمام سامان و اسباب سے ۔۔۔۔۔ جو خداوند عالم نے ہميں زندہ رہنے اور زندگي گذارنے کے لئے عطاکيے ہيں ۔۔۔۔ فائدے اٹھاتے ہيں۔ ہم ديکھتے ہيں کہ خدا کي سنتيں اور فطري قوانين جو تاريخ ميں دہرائے گئے ہيں اگر ہم ان الہي نظاموں کو سمجھيں تو ہماري فکر اور ہمارا عمل خدا کے راستے پر چل پڑے گا اور اسي طرح خدا کي وہ تمام چيزيں جو خداوند عالم نے خلق کي ہيں، خدا کے سپاہي ہيں جو انسانوں کي مدد کرتے ہيں۔

اهدنا الصراط المستقيم

(خداوند ا) ہميں سيدھے راتے کي ہدايت فرما۔

ہدايت انسان کي سب سے بڑي حاجت

انسان کي سب سے بڑي حاجت ہدايت ہے کہ اس سے بڑھ کر انسان کي کوئي اور حاجت نہيں ہے اور اگر ہدايت سے اعليٰ ترين کوئي اور حاجت ہوتي تو بے شک اسے سورہ حمد ميں بيان کيا جاتا۔ ليکن چونکہ سورہ حمد قرآن کا ديباچہ ہے اور نماز کا اہم ترين رکن ( جز) ہے لہذا ہدايت کو سورۃ الحمد ميںبطور دعا ذکر کيا گيا ہے اور خدا سے اسے طلب کرنے خواہش کي جاتي ہے۔

ہميں خيال کرنا چاہئيے کہ يہ خدا ہي کي ہدايت ہے جس کي وجہ سے انسان کي عقل اور اس کا تجربہ اسے اس کے فائدے کے راستے يعني سيدھے راستے پر لے جاتا ہے اگر خدا کي ہدايت نہ ہو تو ہماري عقل اور ہمارا تجربہ ہميں ذرا برابر فائدہ نہيں پہنچائے گا بلکہ ہدايت سے دوري کے سبب يہي عقل اور اس کا تجربہ ايک چور کو چوري کے طريقے سکھاتا ہے اور ايک پاگل کے ہاتھ ميں تلوار کي شکل اختيار کرليتا ہے ( کہ جس سے صرف تباہي کي اميد کي جاسکتي ہے)۔

ہدايت کا حصول نجات کي علامت ہے

ہميں ديکھنا چاہئيے کہ انسان کے لئے کاميابي کي ر اہ ( سيدھي راہ) کيا ہے؟ سيدھي راہ يا کاميابي کي راہ انسان کے مزاج ميں فطرت کا بنايا ہوا نظام ہے جس کي اساس و بنياد اس بات پر ہے کہ انسان کي حاجات کيا ہيں؟ اس ميں کيا کوتاہياں ہيں اور اس ميں عمل کرنے کے امکانات کتنے ہيں ؟ ہم سيدھي راہ ( صراط مستقيم) اس راہ کو کہيں گے جسے خدا کے پيغمبروں نے لوگوں کے لئے آشکار کيا ہے اور خود اس راستے پر سب سے پہلے اور سب سے آگے چلنے والے ہيں۔

ہدايت الہي کا راستہ وہ راستہ ہے کہ اگر عالم بشريت اس راستے پر گامزن ہوجائے تو يہ اس پاني کے مثل ہوگي جو ہموار زمين پر بالکل سيدھا اور آگے بڑھتا ہوا چلا جائے ، خود بخود آگے اپني منزل کي طرف بڑھتا رہے گا اور اگر انسان بھي ہدايت الہي سے بہرہ مند ہوجائے تو وہ بحر بيکراں کي طرح ۔۔۔ جو اس کي بلنديوں اور عظمتوں کا بحر بيکراں ہے ۔۔۔۔ آگے بڑھتا چلا جائے گا ۔ ہدايت الہي وہ نور ہے کہ اگر يہ ايک معاشرے کے افراد کے قلوب ميں جا گزين ہوجائے اور وہ اس کے مطابق عمل کرنے لگيں اور وہ حقيقتاً ہدايت الہي کو پاليں تو پورا معاشرہ خوشحال ہوجائے گا، اس معاشرے کے تمام افراد خوش و خرم ہوں گے ، ہر طرف امن و امان ہوگا ، سب غلاموں سے آزاد ہو کر ايک دوسرے کے مدد گار بن جائيں گے اور ذمہ داري ، محبت و خلوص اور بھائي چارگي ان کے دلوں ميں گھر کر لے گي اور اگر پورا عالم بشريت حقيقي معنوں ميں اس پروگرام پر عمل پيرا ہو تو وہ تمام بد بختياں ۔۔۔ جو ہميشہ سے بشريت کے ساتھ چمٹي ہوئي ہيں۔۔۔۔۔ ہميشہ کے لئے نابود ہوجائيں گي۔

ليکن يہ خوش قسمتي کا راستہ اور نجات دہندہ پروگرام کيا ہے ؟ اس کا روبار حيات ميں سب ہي نيکي کا دعويٰ کرنے والے ہيں اور اس عالم کا ہر گروہ دوسرے گروہ کو خطا و اشتباہ کا پتلا قرار ديتا ہے لہذا ہميں چاہئيے کہ ان سب کو چھوڑ کر قرآن مجيد کے افتتاحي سورے ، سورہ حمد کو ديکھيں کہ اس ميں عالم بشريت کے لئے نجات دہندہ اور ہدايت کے راستے کو کس طرح بيان کيا گيا ہے؟

صراط الذين انعمت عليهم

ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے نعمتيں نازل کيں

حقيقي نعمت

وہ کون لوگ ہيں کہ جن کے وجود مقدس کو خداوند عالم نے اپني نعمتوں کے نزول کي جگہ قرار دي ہے۔

اس بات ميں ذرہ برار شک نہيں ہے کہ اس نعمت سے مراد مال و دولت اور مادي عيش و عشرت نہيں ہے بلکہ يہ نعمات تو ان لوگوں کو زيادہ ملتي رہي ہيں جو درندہ صفت ، دشمنان خدا اور دشمنان مخلوق واقع ہوئے ہيں۔ اس نعمت سے مراد وہ نعمت ہے جو اس ماديت اور کھيل کود سے بالاتر ہے بلکہ وہ تو خدا کي لطف و عنايت اور ہدايت کي نعمت ہے۔ وہ نعمت جسے ہم طلب کرتے ہيں اور يہ ہے کہ انسان سمجھے کہ واقعاً اس کي قدر و قيمت کيا ہے اور انسان اپني ذات کو پہچان کر اسے حاصل کرے۔

صاحبان نعمت کون ہيں؟

اس نعمت کو جن لوگوں نے حاصل کيا ہے ، قرآن کريم ميں ان کي معرفت کچھ اس انداز ميں کرائي گئي ہے

ومن يطع اللہ والرسول فاولئک مع الذين انعم اللہ عليھم من النبين والصديقين والشھدائ والصالحين

اور جو کوئي اللہ اور اس کے رسول کي اطاعت کرے تو يہ لوگ ان کے ساتھ ہوں گے جن اللہ نے نعمت نازل کي ہے جو نبيوں ، صديقوں ، شہدائ اور صالحين ميں سے ہيں۔

پس نماز پڑ ھنے والا اس جملے ميں خدا سے درخواست کرتا ہے کہ اے خدا تو ہميں اس راستے پر چلا جو پيغمبروں ۔ صديقوں ( سچوں) ۔ شہيدوں اور صالحين ( نيک لوگوں) کا راستہ ہے۔ خداوندا تو ہميں ان کے راستے کي ہدايت فرما۔

ان لوگوں کا راستہ تاريخ ميں بہت واضح اور روشن رہا ہے اور اس کے مقاصد اور اہداف بھي معين تھے جبکہ اس راستے کے مسافر ہر زمانے ميں معروف رہے ہيں جبکہ اس راستے کے مد مقابل کچھ دوسرے خطوط اور راستے کار فرما رہے ہيں لہذا نماز پڑھنے والا اس باطل راتے کي طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس کے مسافروں کي طرف بھي اور خود کو ہوشيار کرتا ہے کہ تو ہرگز اس راستے پر قدم نہيں رکھے گا اور نہ ہي اس سمت حرکت کرے گا۔

غير المغضوب عليهم

نہ ان لوگوں کا راستہ جن پر تيرا غضب نازل ہوا۔

خدا کا غضب کن پر نازل ہوا؟

وہ کون لوگ ہيں جن کے وجود کو خدا نے اپنے غضب کي منزل قرار ديا ہے۔ يہ وہ لوگ ہيں جو خدا کے راستے کو چھوڑ کر دوسروں کے راستے پر چلنے والے ہيں۔ يہ وہ لوگ ہيں جنہوں نے خدا کي کثير مخلوق کو ۔ جو بے خبر اور بے ارادہ تھي۔ اپنے ساتھ گمراہي کي سمت چلايا اگر وہ مخلوق باخبر اور با ارادہ تھي تو ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے ، وہ اسير تھے اور غضب خدا کے حقدار ان کو اپنے ساتھ چلاتے تھے۔

يہ وہ لوگ ہيں جنہوں نے انسانوں کے تمام امور زندگي کو اپني طاقت و قوت يا دھوکے ، فريب اور مختلف حيلہ سازي سے اپني گرفت ميں ليا ہوا تھا اور خدا کي مخلوق کے بے اختيار ، اپنے مذموم اور گھناونے مقاصد کي تکميل کے لئے آلہ کار اور اپنے پيچھے پيچھے چلنے والا مستضعف ۔۔۔ ايسا کمزور جسے بولنے ، احتجاج کرنے اور اپني غلامي کي راہ سے انحراف کرنے کا کوئي حق نہ ہو ۔۔۔ بناليا تھا۔ يہ وہ لوگ ہيں جنہوں نے انسانوں کو بے وقوف بنا کر خود کو ان پر مسلط کرديا اور اپني گندي عيش و عشرت اور پست خواہشات کي تکميل کے لئے ان انسانوں سے فائدہ اٹھايا۔

دوسرے الفاظ ميں ہم يوں کہہ سکتے ہيں کہ خدا کا غضب جن لوگوں پر آنے والا ہے ، وہ لوگ ہيں کہ جنہوں نے راہ شيطان و راہ باطل کو اپني جہالت و بے خبري سے اختيار نہيں کيا بلکہ بغض و عناد، دشمني ، خود پرستي اور اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے راہ باطل کو اپنے لئے منتخب کيا اور لوگوں کي تکليف و پريشاني کا باعث بنے۔

تاريخ کي واضح حقيقت

يہ ہميشہ کي ايک واضح حقيقت ہے کہ يہ گروہ ۔۔۔۔ جس پر خدا کا غضب نازل ہوا ہميشہ دنيا ميں لوگوں کے درميان طاقت و قدرت کا مالک رہا ہے اور اسي لئے دين نے ان کے وجود کو ہميشہ باطل قرار ديا ہے اور يہي وجہ ہے کہ دين نے جب بھي کسي کام کا آغاز کيا تو انہي کے خلاف اقدامات سے اس کي ابتدائ کي اور جو بھي قدم اٹھايا انہي کے مقابلے ميں اٹھايا ۔ ان دو گروہوں ۔۔۔ يعني گروہ ہدايت يافتہ اور گروہ غضب خدا ۔۔۔ کے علاوہ ايک تيسرا گروہ اور بھي ہے اور اسي آيت کا اگلا جملہ اسي کي طرف اشارہ کرتا ہے۔

ولا الضالين

اور نہ گمراہوں کا راستہ

گمراہوں اور بے وقوفوں کا راستہ

وہ لوگ جو اپني بے خبري اور ناواقفيت کي بنا پر گمراہ کرنے والے رہبروں اور پيشواوں کي اتباع و پيروي سے اس راستے پر چلنے لگے جو خدا کا راستہ نہيں تھا، وہ حقيقت سے بہت دور تھے جبکہ وہ گمان کرتے تھے کہ حقيقتاً وہ درست راستے پر کاميابي کي سمت گامزن ہيں ليکن حقيقت يہ تھي کہ وہ غلط راستے پر تباہي کي جانب قدم بڑھارہے تھے کہ جس کا انجام بہت تلخ تھا۔

ہم اس گروہ کو ۔۔۔۔ جو گمراہوں کے راستے پر گامزن تھا ۔۔۔۔ تاريخ ميں بہت واضح ديکھتے ہيں۔ يہ تمام لوگ جو زمانہ جاہليت ميں اپنے رہبروں اور پيشواوں کي خواہشات اور ارادوں کے پيچھے پيچھے آنکھ بند کرکے اور سر کو جھکا کر چلتے رہے اور اپنے گمراہ رہبر ان کو فائدہ پہنچاتے رہے اور دوسري طرف حق و عدالت کے علم برداروں ، مناديوں ، انسانيت کے خير خواہوں يعني خدائي پيغام لانے والوں کي مخالفت کرتے رہے۔

يہ جاہل طبقہ ايک لمحہ کے لئے بھي اس بات کے لئے آمادہ نہيں تھا کہ وہ اپنے بارے ميں سوچے اور اپني احمقانہ زندگي پر نظر ڈالے اور اس کے بارے ميں فکر کرے۔ ہم ان لوگوں کي زندگي کو احمقانہ اس لئے کہہ رہے ہيں کہ اس قسم کے لوگوں کي زندگي کا فائدہ صرف اونچے طبقے کے لوگوں کو پہنچا ہے جبکہ نقصان صرف انہي بے وقوف لوگوں کا مقصد بنا۔

اس کے بر عکس پيغمبروں کي دعوت اس لحاظ سے تھي کہ وہ انسانيت کو گمراہ کرنے والوں کي بنيادوں کو اکھيڑ ديں اور ان کے وجود کو صفحہ ہستي سے ختم کرديں جن پر خدا کا غضب نازل ہوا ہے اور ان تمام اقدامات سے انبيائ کي يہ خواہش تھي کہ وہ مغضوب عليھم کو ختم کرديں جس کا فائدہ بہر حال اس محروم اور مستضعف ( کمزور طبقے کو ہي پہنچے گا جس کو تاريخ ميں ہميشہ بے وقوف بنايا گيا ۔

نمازي اس طرح گمراہوں اور ان لوگوں کے راستے پر ۔۔۔ جن پر خدا کا غضب نازل ہوا۔۔۔۔ توجہ کرکے غور کرتا ہے کہ وہ کون سا راستہ ہے جس پر ہميں قدم بڑھانا چاہئيے اور وہ نجات بخش طريقہ کيا ہے جسے انسانيت کے نجات دہندہ پيغمبروں نے بيان کيا ؟ اس مقام پر نمازي اگر اپني زندگي ميں محسوس کرے کہ وہ ہدايت پارہا ہے يا وہ اپنے قدموں کو سيدھے راستے پر اٹھتا ديکھے تو وہ نيکي کي توجہ اور ميلانات اور ہدايت کے لئے اس نعمت عظيم پر شکر کرے اور خدا کي تعريف يوں بيان کرے

الحمد لله رب العالمين

ساري تعريفيں اللہ ہي کے لئے ہيں جو تمام عالمين کا پالنے والا ہے۔

سورہ حمد قرآن کا آغاز تھي يعني فاتحہ الکتاب

قرآن کا ابتدائيہ سورہ حمد

( اجمالي جائزہ) يہ قرآن کا ديباچہ ( ابتدايہ) ہے اسي طرح جيسے ہر کتاب کا ايک ديباچہ ( ابتدائيہ) ہوتا ہے جس ميں اجمالي طور پر اس کتاب کي تمام باتوں کو بيان کيا جاتا ہے اسي طرح نماز اسلام کے تمام احکامات کا خلاصہ اور مختصر سا خاکہ ہے۔ نماز ميں اسلامي آئيڈيا لوجي کے تمام پہلو نماياں طور پر موجود ہيں اور اس بارے ميں ہم پہلے اشارہ کرچکے ہيں۔ اسي طرح سورہ حمد بھي قرآن کے معارف اور اس کے خطوط کي اجمالي فہرست ہے يعني قرآن نے جن جن باتوں اور پہلووں کي جانب ہماري توجہ مبذول کرائي ہے اور جن راستوں پر قدم اٹھانے سے اجتناب کا حکم ديا ہے ان سب کا خلاصہ سورہ حمد ميں ہے چنانچہ :

تمام لوگ اور تمام عالمين سب ايک دوسرے سے منسلک ہيں اور سب خدا کي طرف رخ کيے ہوئے ہيں يعني رب العالمين

کائنات کي تمام چيزوں اور تمام اشخاص پر خدا کي محبت و مہرباني کا نزول ہے اور جو اہل ايمان ہيں وہ خدا کي رحمت و لطف کے زير سايہ زندگي گذار رہے ہيں يعني الرحمن الرحيم

انسان کي زندگي اس دنيا کے خاتمے کے بعد اس آنے والي آخرت کي زندگي ميں ہميشہ باقي رہنے والي ہے جس کا مالک ’’ حاکم مطلق ‘‘ ہے يعني مالک يوم الدين

انسان کو چاہئيے کہ وہ خود کو غير خدا کي بندگي سے آزاد کرے اور خدائي نظام کے مطابق انساني راستے پر انساني عظمتوں کے حصول کے لئے آزادانہ اور با اختيار زندگي بسر کرے يعني اياک نعبد

انسان کو يہ بھي چاہئيے کہ وہ اپني سعادت و خوش بختي اور زندگي کے سيدھے راستے کو خدا سے ہي طلب کرے يعني اھدنا الصراط المستقيم

انسان کو يہ بھي چاہئيے کہ وہ سمجھے کہ دشمن کون ہے اور دوست کون ؟ ہر ايک کے لئے کيا موقع ہے اور ہر ايک کے لئے کيا اغراض و مقاصد ہيں ۔۔۔ اور ان دونوں طبقوں اور ان کي عاقبت و آخرت کو ديکھ کر خود اپنے لئے شاندار ، بہترين اور کاميابي کا راستہ منتخب کرے يعنيصراط الذين انعمت عليهم

سورہ توحيد

ہم نے پند و نصيحت سے بھرپور سورہ حمد ختم کي جس ميں حکمت و معرفت اور قرآن کے تمام خزانے موجود ہيں۔ سورہ حمد کے اختتام پر نمازي کو چاہئيے کہ وہ اس کے بعد قرآن سے ايک مکمل سورے کي تلاوت کرے۔ قرآن سے سورے کو پڑھنے کافعل آزادانہ ہو اور سورے کو بھي اپني پسند سے منتخب کيا جائے کيونکہ اس طرح قرآن کي ياد نماز کے دل ميں زندہ ہوجاتي ہے يعني معارف اسلامي کا ايک نيا سلسلہ اس کے سامنے روشن ہوجاتا ہے۔

نماز ميں قرآن کي تلاوت کا فريضہ حضرت امام علي رضا نے اپني حديث ميں فضل بن شاذان سے فرمايا ہے جو کہ ہم پہلے بيان کرچکے ہيں کہ قرآن کي تلاوت نماز ميں اس لئے ضروري قرار دي گئي ہے کہ لوگ قرآن کو ترک نہ کرديں اور کہيں ايسا نہ ہو کہ لوگ قرآن کو سمجھنا ہي چھوڑديں اور اس لحاظ سے بھي ضروري قرار ديا گياہے کہ انسان کے ذہن و خيالات ميں قرآن حاضر رہے۔ ہم اس سلسلے ميں سورہ توحيد ( سورہ اخلاص ) اور اس کے ترجمے کو جس کي عموماً نماز ميں تلاوت کي جاتي ہے۔۔ يہاں نقل کر رہے ہيں۔

بسم الله الرحمن الرحيم

( ابتدائ ہے) خدائے رحمان و رحيم کے نام سے

قل ۔۔۔ کہو ( اے پيغمبر)

اے پيغمبر ۔۔۔۔ تم خود بھي جانو اور دوسروں تک بھي يہي پيغام پہنچاو کہ

هو الله احد ۔۔۔

وہ خدا يکتا ہے۔

نظام کائنات ميں ہم آہنگي اور نظم خدا کے واحد ہونے کي دليل ہے۔

خدائے حقيقي و لا شريک ان خداوں کے مثل نہيں ہے جو دوسرے مذاہب، پرانے اور خرافات سے پر عقائد ميں خراب تھے بلکہ خدا تو ايسا ہي ہے نہيں کہ کوئي اس کا شريک يا ساتھي بنے يا کوئي اس کي اولاد ہو۔ پس اس بيان سے سمجھنا چاہئيے کہ کائنات کي تخليق کا ميدان خداو ں کے جھگڑے کا اکھاڑا نہيں ہے بلکہ کائنات کے تمام قوانين اور تمام نظاموں کو ايک ارادے اور ايک قدرت سے تربيت ديا گيا ہے اور يہي وجہ ہے کہ کائنات کي تخليق ميں ہم آہنگي ، ربط و تعلق اور نظم پايا جاتاہے۔

تمام مرتب شدہ قوانين ، تمام تبديلياں اور تمام حرکتيں جو طبعي لحاظ سے دنيا ميں رونما ہوتي ہيں سب ايک راستے پر جاري و ساري ہيں اور ان کا رخ اور ان کي منزل ايک ہي ہے۔ ان کے درميان صرف انسان ہي ہے جسے يہ قدرت حاصل ہے کہ وہ خود اپنے لئے فيصلہ کرے اور خدا کے عظيم نظام سے منہ موڑ کر تباہي و بربادي کے راستے کو اپنالے، نيا طريقہ اور سنت ايجاد کرے ، خود قوانين مرتب کرے اور ان کے مطابق زندگي بسر کرے يا پھر احکام خدا کے سامنے سر تسليم خم کردے اور خدا کے واضح کردہ بين اصولوں اور منفعت بخش قوانين پر اپني زندگي استوار کرے۔

الله الصمد

خدا بے نياز ہے

خد اکسي کا محتاج نہيں

وہ خداکہ جس کے سامنے سر جھکايا جاتا ہے، جس کي تعظيم کي جاتي ہے اور جس کي عبادت کے لئے اس کي بارگاہ ميں کھڑا ہوجاتا ہے، ان خيالي خداوں کے مثل نہيں ہے جنہيں اپني پيدائش اور زندگي کي بقائ کے لئے کسي کي مدد کي ضرورت ہو ، کوئي ان کي نگہداشت و نگراني کرے يا وہ کسي کي ہم کاري کے محتاج ہوں۔ دوسروں کا محتاج خدا اس قابل نہيں ہے کہ کوئي اس کي عزت و تعظيم کرے۔ اگر خدا دوسروں کا محتاج ہے تو وہ يا ايک انسان ہوگا يا اس سے بالاتر ليکن ہم اسے خدا نہيں کہہ سکتے۔

انساني وجود بہت عظيم ، اس کي زندگي بہت پر معني اور گہرائيوں والي ہے چنانچہ وہ کسي کي عظمت کا احساس ، اس کي بندگي اور تعريف اسي وقت کرے گا جب وہ يہ ديکھے گا کہ وہ ( خدا) ايسي قدرت کا مالک ہے جس ميں دوسروں کي محتاجي شامل نہيں۔وہ ہر ايک سے بے نياز ہے اور اس کا وجود ، اس کي طاقت اور ا س کي بقا کا انحصار اس کي اپني قدرت پر ہے۔