مالک يوم الدين
خدا قيام کے دن کا مالک اور صاحب اختيار ہے۔
روز جزا ۔۔۔ وہ دن ہے جب زندگي ختم ہوجائے گي ۔۔۔۔ آخرت کا دن ہے جس کے لئے لوگ اپنے اپنے انجام کي فکر ميں رہتے ہيں۔ مادي خيالات رکھنے والا مادہ پرست جو منکر خدا ہے ، وہ اور خدا پرست دونوں ايک خاص مقصد کے تحت اپنے اپنے کام تک پہنچنے کے لئے کوششيں کرتے ہيں ليکن دونوں کي جدوجہد اور کوشش ميں فرق يہ ہے کہ دونوں ميں سے ہر ايک نے اپني عاقبت و انجام کو دو مختلف اور متضاد نظريوں سے سمجھا ہے۔
خدا پرست اور مادہ پرست
مادي خيالات کا پر تو انسان اس کي فکر ميں رہتا ہے کہ اسے اپني جدوجہد اور کوشش کا نتيجہ اگلے گھنٹے ميں کيا ملے گا ؟ يعني اس کي تمام جدوجہد اور کوششوں کا دائرہ صرف آنے والے دن ، سال يا چند اور سالوں تک محدود ہے کہ ان آنے والے دنوں يا سالوں ميں وہ اپني جدوجہد اور کوشش سے کيا منزل پانے والا ہے؟ جبکہ اس پر يہ حقيقت روز روشن کي مانند عياں ہے کہ اس کي جدوجہد اور کوشش کا نتيجہ بڑھاپا ، بدن و قوت کي ضعيفي اور انتہائي عمر کي افسردگي کے علاوہ کچھ نہيں ہے اور اس کي زندگي کي محنتوں اور مشقتوں کا انجام صرف بڑھاپے کي سرد آئيں ، گذشتہ زندگي پر افسوس اور نالہ ہائے غم ہيں ليکن خدا پرست انسان کي نگاہيں اس دنيا کے پار اپني منزل حقيقي تک ديکھتي ہيں ، اس کے خيالات کا دائرہ چند گھنٹوں کے مختصر سے شب و روز اور چند سالوں کي دنيا سے بہت وسيع اور اس کي منزل بہت آگے ہوتي ہے۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھي ہيں
ابھي عشق کے امتحاں اور بھي ہيں
نہ تو خدا پرست کي دنيا اس مادي دنيا تک محدود ہے اور نہ ہي اس کا نظريہ زندگي اس فاني دنيا کے حصار ميں ہے بلکہ اس کي دنيا، اس کي زندگي اور اس کا جہان مادہ پرست کي دنيا سے ہزار ہا درجہ بلند ہے جس کا تصور ممکن نہيں۔
عقابي روح جب بيدار ہوتي ہے جوانوں ميں
نظر آتي ہے ان کو اپني منزل آسمانوں ميں
اسي طرح خدا پرست کا مستقبل لا محدود زندگي پر قائم ہے۔ ايسا انسان ۔۔۔۔ جو ہميشہ کي زندگي خواہش مند اور متلاشي ہے ۔۔۔۔ آخر وقت تک اپني جدوجہد اور کوشش سے ہاتھ نہيں اٹھائے گا اور نہ ہي ہمت ہارے گا۔
اگر کوئي انسان يہ خيال کرتاہے کہ موت سے نہ تو اميديں ختم ہوتي ہيں اور نہ ہي زندگي کے اعمال کا انجام و نتيجہ منقطع ہوتا ہے تو وہ اپني زندگي کے آخر لمحات تک اسي جوش و جذبے ، تحرک و استقلال اور پامردي سے ۔۔۔۔ جن سے اس نے اپنے کاموں کا آغاز کيا تھا ۔۔۔ اپنے کام اور جدوجہد کو جاري رکھے گا اور اپني زندگي کے آخري سانسوں تک خدا کے پسنديدہ اعمال و افعال سے خود کو آراستہ کرتا رہے گا۔
نماز ميں يہ ياد کرنا کہ ۔۔۔ مرنے کے بعد ہميں اٹھانے والا ، ہميں ہمارے اعمال کي جزا دينے والا اور صاحب اختيار صرف خدا ہي ہے۔۔۔۔ نماز پڑھنے والے کي زندگي کو صحيح ڈگر پر لے جاتا ہے اور اس کے تمام امور کا رخ خدا کي طرف موڑ ديتا ہے چنانچہ وہ اپنے تمام امور کو خدا ہي کے لئے انجام دے گا اور اپني پوري زندگي کو صرف خدا ہي کي راہ ميں خرچ کرے گا اور ان تمام امور کے ذريعے سے اس کي يہ کوشش ہوگي کہ وہ کمالات حاصل کرے اور اس کي بشريت ۔۔۔۔ انسانيت کي معراج حاصل کرے اور يہي وہ راستہ ہے جس کو خداوند عالم نے انسانوں کے لئے پسند کيا ہے۔ دوسري جانب ان تمام باتوں کا نتيجہ يہ ہوگا کہ بيہودہ افکار سے انسان کا بھروسہ ختم ہوجائے گا، وہ بے بنياد و بے حقيقت اميدوں سے اپنا دامن چھڑانے لگے گا اور اس کي خدا سے اميد قوي ہوگي کہ خدا ہي سب کچھ دينے والا ہے اور اس طرح اپنے عمل پر اس کا بھروسہ بڑھ جائے گا۔
خدا عالم و عادل ہے
اس مادي زندگي ميں فرسودہ نظريات ، باطل نظام اور ناجائز راستے موجود ہيں کہ سست مزاج اور فر صت طلب لوگوں کے لئے ايسے انتظام ہيں کہ وہ دھوکے ، ريا ، جھوٹ ، چال بازي ، فريب اور الٹي سيدھي باتيں کرکے اپنے لئے دنيا کا سامان حاصل کرليتے ہيں ليکن يہ سب اسي دنيا تک محدود ہے کہ انسان بغير عمل اور بغير کوشش کے نتيجہ حاصل کرلے يا غاصبانہ طريقے سے اپني پست خواہشات کي تکميل کرلے ليکن نماز پڑھنے والے کو معلوم ہے کہ وہ دنيا کہ جس ميں اس کے تمام اعمال و افعال پر سخت گرفت کرنے والا خدا ۔۔۔ عالم و عادل ہے جسے دھوکہ دينا اور اس کے نظام سے بچ نکلنا ناممکن ہے اور وہ يہ بھي جانتا ہے کہ خدا کسي بھي بے عمل شخص کو ذرہ برابر فائدہ اور اجر دينے والا نہيں ہے۔
سورہ حمد کے اس آدھے حصے ميں اس پروردگار کي تعريف جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے اور اس طرح اس ميں بعض اہم صفات خدا کا ذکر ہوا ہے ۔ا س سورے کے بقيہ حصے ميں بندگي کا اظہار اور ہدايت کي طلب ہے اور اس بقيہ حصے ميں بھي بعض اہم توجہات ميں يعني اسلام کي حقيقي آئيڈيالوجي کيا ہے؟ ان ميں سے بعض کي طرف اشارہ کيا جارہا ہے۔
اياک نعبد
ہم فقط تيري ہي عبادت کرتے ہيں
غير خدا کي بندگي سے انکار
ہمارا پورا وجود ۔۔۔۔ ہماري جسماني ۔۔۔ روحاني ۔۔۔ اور فطري قوتيں سب خدا کے اختيار ميں ہيں اور ہم ان قوتوں کو صرف اس کے حکم کے مطابق اور فقط اسي کي خوشنودي کے لئے استعمال کرتے ہيں۔
نماز پڑھنے والا يہ جملہ ادا کرکے اس چيز کو اپنے دل سے نکال ديتا ہے کہ وہ خدا کے علاوہ کسي اور کے سامنے سر جھکائے گا ۔۔۔ نہ دل کي طاقتوں کو غير از خدا کے سامنے جھکائے گا ۔۔۔ اور نا ہي اپنے اعضائ و جوارح سے غير خدا کي بندگي کرے گا اور اسي طريقے سے وہ ان سب کي زندگي کو رد کرديتا ہے جو اس سے اپني اطاعت کے خواہشمند ہوتے ہيں۔
تاريخ ميں ايسے لوگوں کا وجود ملتا ہے جو خو د کو بشريت کي فلاح کا ذمہ دار ٹھہراتے ہيں مگر انہوں نے لوگوں کو مختلف طبقات ميں بانٹ ديا ۔ تاريخ ميں ايسي مثاليں بکثرت موجود ہيں کہ بلند و بانگ دعوے کرنے والے اپني اپني رعايا اور قوموں کو اپنے ہي بنائے ہوئے نظاموں کي بندگي پر مجبور کرتے اور اپني خواہشات کي تکميل کے لئے انہيں اسير و مقيد رکھتے تھے۔
ہم نماز ميں يہي کہتے ہيں کہ ہم ان ميں سے کسي کو قبول کرنے والے نہيں ہيں۔ نماز پڑھنے والا يہ نہيں کہتا ہے کہ ميں تيري عبادت کرتا ہوں بلکہ وہ يہ کہتا ہے کہ نعبد ۔۔۔ ہم تيري عبادت کرتے ہيں۔ ہم سب اور تمام مومنين صرف خدا کي اطاعت و فرمانبرداري کرنے والے اور صرف اسي کے احکام کي پابندي کرنے والے ہيں اور ہمارا درجہ اس سے بہت بلند ہے کہ ہم خدا کے نظام کے علاوہ کسي اور نظام کو قبول کريں يا غير از خدا کي اطاعت کريں۔
تقدير کے پابند ہيں جمادات و نباتات
مومن فقط احکام الہي کا ہے پابند
خلاصہ يہ کہ نماز پڑھنے والا يہ اعلان کرکے خدا کي بندگي کو قبول کرتا ہے اور انسانوں کي بندگي و اطاعت سے خود کو دور کرتا ہے اور اس طرح خود کو ان لوگوں کے راستے پر ڈال ديتا ہے جو خدا کے لئے کام کرنے والے ہيں اور حقيقتاً خود کو انہي ميں سے قرار ديتا ہے۔
يہ اعتراف و قبول کرنا کہ بندگي صرف خدا اور اس کي خوشنودي کے حصول کے لئے ہوني چاہيے۔۔۔۔ نہ صرف اسلام کے اہم ترين بنيادي اصولوں ميں سے ايک اصول ہے بلکہ قوانين الہي کي بنياد بھي اسي اصول پر ہے يعني بندگي فقط خدا کے لئے ہو يعني جسے الہٰ ( معبود) ہونا چاہئيے اور خدا کے علاوہ کوئي بھي عبادت و بندگي کے قابل نہيں ہے۔
باطل نظريہ
ايسے افراد کا وجود ہر زمانے ميں رہا ہے کہ جنہوں نے اس نظريہ زندگي کو حقيقي معنوں ميں درک نہيں کيا اور اس کے مطالب و مفاہيم کو غلط انداز سے سمجھنے کے ساتھ ساتھ اسے چند باتوں تک محدود کرديا اور عملي زندگي ميں اطاعت خدا کا مفہوم غلط سمجھتے ہوئے غير خدا کي بندگي کرنے لگے۔
ان لوگوں نے يہ گمان کيا کہ عبادت خدا کے حقيقي معني يہي ہيں کہ اس کو مقدس سمجھا جائے اور عبادت کے لئے اس کے سامنے سر جھکايا جائے لہذا انہوں نے خدا کي بارگاہ ميں صرف نماز پڑھنے ، دعا مانگنے اور سجدے کي ادائيگي کو ہي عبادت خدا گردانا اور اس بات سے مطمئن ہوگئے کہ ہم خدا کے علاوہ کسي اور کي بندگي نہيں کرتے کيونکہ بندگي تو فقط نماز ، سجدے اور دعا کا نام ہے اور ہم سب کا بھي يہي حال ہے ۔
ہميں آگاہ ہونا چاہئيے کہ عبادت و بندگي صرف نماز ، اور دعا کا نام نہيں ہے بلکہ عبادت و بندگي کے معني بہت زيادہ وسيع ہيں۔ قرآن و حديث کي اصطلاح ميں عبادت و بندگي بلند پاياں معني کي حامل ہے۔ قرآن و حديث کي اصطلاح ميں عبادت کے معني يہ ہيں کہ ہم خدا کے احکام کي اطاعت کرتے ہوئے اس کے سامنے سر تسليم خم کرديں اور خدا کے فرمان کے علاوہ ہر کسي کے فرمان کو ۔۔۔۔ خواہ وہ کسي کا بھي ہو ۔۔۔۔ کوئي بھي قانون و نظام ہو ۔۔۔۔ خواہ کسي کي بھي طرف سے ہو ۔۔۔۔ کتني ہي بڑي اور زبردست طاقت اس کي مالک کيوں نہ ہو ۔۔۔ يا جس کسي بھي طرف ہميں دعوت دي جائے يا مجبور کيا جائے ۔۔۔ ہم ماننے سے انکار کرديں کہ ہم کسي کے قانون کو قبول کرنے والے نہيں ہيں بلکہ صرف خدا کے فرمان و قانون کي اطاعت کرنے والے ہيں۔
اس بيان پروہ تمام لوگ ۔۔۔ جو الہي نظام کے علاوہ لوگوں کے نظاموں کو قبول کريں اور دوسروں کے جاري کردہ احکام و فرامين کے سامنے سر جھکاديں ۔۔۔۔ ان نظاموں اور انسانوں کے بندے اور عبادت گذار کہلائيں گے ۔ دوسروں کي عبادت کے ساتھ ساتھ اگر انہوں نے اپني زندگي کا کچھ حصہ خدا کي عبادت و بندگي کے لئے رکھ چھوڑا کہ انفرادي يا اجتماعي زندگي ميں خدا کے قانون و فرمان پر عمل کريں گے تو ايسے بعض معاملات اور امور ميں دوسروں کي بھي بندگي کرتے ہيں اور اگر يہ لوگ اپنے تمام امور اور معاملات ميں غير از خدا کے مرتب کردہ اصول و قوانين کے مطابق عمل کرتے رہے اور خدا کي بندگي کي طرف ذرہ برابر توجہ نہ کي تو يہ کافر کہلائيں گے يعني جنہوں نے خدا کي واضح اور اظہر من الشمس حقيقتوں اور اس کي روشن نشانيوں کا بصارت قلبي سے مشاہدہ نہيں کيا اور نا ہي انہيں قبول کيا اور اپني عملي اور اعتقادي زندگي ميں اس کے انکاري رہے۔
اسلام کے اس نظرئيے کے مطابق ہم با آساني سمجھ سکتے ہيں کہ خدا کي طرف سے نازل کردہ اديان ميں سب سے پہلے جس شعار کي طرف دعوت دي گئي اور جس بات سے روشناس کرايا گيا وہ يہ ہے کہ لا الہ الا اللہ ( نہيں ہے کوئي معبود سوائے خدا کے ) کا اقرار کرو، ليکن اس کے کہنے کا مقصد کيا ہے اور اس کے ذريعے سے وہ کن باتوں کا خواہش مندہے اور کس سمت رخ کروانا چاہتا ہے؟
حقيقت بندگي اسلامي مدارک اور قرآن و حديث ميں متواتر اور مسلسل آئي ہے اور روز روشن کي مانند عياں ہے کہ غور و فکر کرنے والے اور بافہم و ہوشمند افراد کے لئے ذرہ برابر شک و تردد نہيں ہے کہ خدا يہ چاہتا ہے کہ زندگي کے تمام امور ميں صرف اسي کے احکام پر عمل کياجائے ۔ ہم يہاں نمونے کے طور پر قرآن سے دو آيات اور امام جعفر صادق کي ايک حديث نقل کررہے ہيں۔
اتخذوا احبارهم و رهبانهم اربابا من دون الله والمسيح ابن مريم وما امروا الا ليعبدوا الها واحدا لا اله الا هو
۔
ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے علمائ اور مقدس لوگوں کو اپنا رب بناليا اور عيسيٰ ابن مريم کو بھي جبکہ انہيں يہ حکم ديا گيا تھا کہ يہ سب نہ کريں بلکہ اپنے معبود واحد کي عبادت کريں کہ نہيں ہے کوئي معبود سوائے اس کے۔
(توبہ ٣١)
والذين اجتنبوا الطاغوت ان يعبدوها وانا الي الله لهم البشريٰ
اور وہ لوگ جو طاغوت سے بچتے ہيں کہ اس کي بندگي کريں اور انہوں نے اپنا رخ (توجہ ) اللہ کي طرف کيا ہوا ہے۔ انہي لوگوں کي لئے بشارت (خوشخبري) ہے۔
روي ابو بصير عن ابي عبدالله عليه السلام انه قال انتم هم و من اطاع جابرا فقد عبده
ابو بصير حضرت امام جعفر صادق سے روايت نقل کرتے ہيں کہ امام نے فرمايا ۔۔۔ ( حضرت کا يہ خطاب اپنے زمانے کے شيعوں سے تھا) تم ہي لوگ ہو کہ جنہوں نے اپنے آپ کو طاغوت کي عبادت سے الگ کرليا اور جس کسي ظالم کي اطاعت کي پس اس نے اس ظالم کي بندگي کي۔