نماز کي گہرائیاں

نماز کي گہرائیاں0%

نماز کي گہرائیاں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

نماز کي گہرائیاں

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اي حفظہ اللہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 7067
ڈاؤنلوڈ: 3315

تبصرے:

نماز کي گہرائیاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7067 / ڈاؤنلوڈ: 3315
سائز سائز سائز
نماز کي گہرائیاں

نماز کي گہرائیاں

مؤلف:
اردو

لم يلد ۔۔

۔۔۔ اس نے کسي کو پيدا نہيں کيا

ہمارے اور خدا کے درميان بندگي اور ربوبيت کا رشتہ ہے

ہمارا خدا ايسا نہيں ہے جيسا کہ لوگوں نے اپنے فضول خيالات ميں تراشا ہوا ہے اور جسے تحريف شدہ مذاہب اور شرک آميز عقائد ميں بيان کيا گيا ہے۔

وہ خدائي خيال جو عيسائيوں اور مشرکوں نے تخليق کيا ہے يعني جس خدا کا بيٹا يا کئي بيٹے ہوں ، ہم ايسے خدا کو قبول نہيں کرتے بلکہ ہم تو اس خدا کو ماننے والے ہيں کہ جس نے کائنات کي تمام چيزوں اور تمام انسانوں کو اپني قدرت و ارادے سے وجود کي نعمت دي ہے ليکن وہ ان سب کا باپ نہيں ہے بلکہ ان کا خالق ہے اور اس لحاظ سے آسمانوں اور زمين ميں زندگي بسر کرنے والے تمام جمادات ، نباتات ، حيوانات، انسان اور تمام چيزيں سب اس کے بندے ہيں نہ کہ اس کے بيٹے يا اولاد ، سب اس کے نظام قدرت کے تابع اوراس کي رحمت کے زير سايہ زندگي بسر کرنے والے ہيں اور يہي بندگي اور ر بوبيت کا رشتہ اس نے انسان اور اپنے درميان قائم کيا ہے جس کي وجہ سے خدا کے حقيقي بندے صرف خدا ہي کي بندگي کرتے ہيں اور اس کے علاوہ تمام بندگيوں سے خود کو آزاد قرار ديتے ہيں کہ زندگي ميں صرف ايک ہي خدا کي اطاعت ہوسکتي ہے نا کہ دو خداوں کي۔

خدا کي حقيقي بندگي کرنے والوں کے خلاف ايک طبقہ ايسا بھي ہے جو ان تمام حقائق اور عظمتوں کا نہ صرف انکاري ہے بلکہ مخالف بھي ہے۔ اس طبقے کا کہنا ہے کہ تمہارا خدا ايک مہربان باپ ہے۔ يہ طبقہ انسانوں کو خدا کا بيٹا قرار ديتاہے کيونکہ يہ طبقہ بندگي اور ربوبيت ( يعني تربيت کرنے ) کے رشتے کو خدا اور اس کي مخلوق کے درميان نامناسب خيال کرتا ہے اور نا ہي انساني عظمت اور اس کي کرامت و بزرگي کے لحاظ سے خدا کي بندگي کو درست شمار کرتا ہے اور اس مقدس رشتے کو ختم کرکے انسانوں کے لئے غير خدا کي بندگي کا دروازہ کھول ديتا ہے۔ يہ لوگ دوسروں کے مرتب کردہ نظاموں کے مطابق زندگي گذارنے اور ان کي بندگي کرنے کو ہي حق و حقيقت کا نام ديتے ہيں چنانچہ يہي وجہ ہے کہ انہوں نے ( دنيا کے ) بے شرف و بے حقيقت خداوں کي پرستش شروع کررکھي ہے ۔ ايسے لوگ خود اس امر کا سبب بنتے ہيں کہ لوگ خدا کي بندگي کے بجائے دوسروں کي غلامي کريں اور وہ خود بھي غلاموں کے مانند دوسروں کے آلہ کار بن کر اپني زندگي کو بربادي، ہلاکت اور تباہي کي طرف دھکيل رہے ہيں۔

ولم يولد

اور نا ہي اس کو کسي نے پيدا کيا

اس کا وجود کسي سے نہيں ہے

وہ کبھي پيدا نہيں ہوا اور نا ہي اس کے ساتھ ايسا ہے کہ وہ نہيں تھا اور نا ہي اس کے ساتھ ايسا معاملہ رہا کہ ايک دن ايسا آيا کہاس نے دنيا کي زندگي کو حاصل کيا کوئي ايسا نہيں ہے کہ جس نے اسے پيدا کيا۔ نا ہي کوئي ايسي فکر ، نظام اور طبقہ تھا اور نا ہي کوئي شکل انسانوں ميں ايسي تھي کہ وہ اس شکل سے خدا بن گيا ہو بلکہ وہ تو عظيم اور بالاترين ہستي ہے۔ ايسي حقيقت کہ جسے زوال نہيں ۔ وہ ہميشہ ہميشہ سے تھا اور ہميشہ ہميشہ رہے گا۔

ولم يکن له کفواً احد

اور کوئي ايک بھي اس کا کفو اور ہمسر نہيں۔

کائنات کا کوئي وجود اس کي برابري کي اہليت نہيں رکھتا

ايسا نا ممکن ہے کہ ہم کسي بے حقيقت اور محتاج کو خدا بناليں اور اسي طرح ہمارے لئے يہ بھي ممکن نہيں ہے کہ ہم کسي کو اس کا ہمسر وہم پايہ قرار ديں اور نا ہي ہم خدا کے زير اثر علاقوں اور اس کے احکامات کے بارے ميں ۔۔۔۔ جس ميں تمام کائنات اور تمام جہان شامل ہيں ۔۔۔۔۔۔ يہ کہہ سکتے ہيں کہ وہ کسي دوسرے کے درميان تقسيم ہوگئے ہيں اور نا ہي يہ ہوسکتا ہے کہ ہم کائنات کے ايک رخ اور انساني زندگي کے ايک پہلو کو خدا کي طرف سے خيال کريں اور کائنات کے دوسرے رخ اور انساني زندگي کے دوسرے پہلوو ں کو غير خدا سے وابستہ کرديں۔ غير خدا کون ۔۔۔ ؟ وہ سب جن کو خدا مانا جاتا ہے جاندار ہوں يا بے جان يا پھر اپني ربوبيت و قدرت کا دعويٰ کرنے والے المختصر ہم ان ميں سے کسي کو بھي خدائے حقيقي کے بر ابر درجہ دينے والے نہيں ہيں۔

خدا کي وحدانيت کا روشن مينارہ ۔۔۔ سورہ توحيد

يہ سورہ ۔۔۔۔ جيسا کہ نام سے ظاہر ہے ۔۔۔ حقيقتاً خدا کي وحدانيت اور کائنات ميں اس کے واحد و يکتا ہونے کي طرف متوجہ کرتا ہے جبکہ دوسري طرف اسي توحيد کي جانب قرآن مجيد ميں بار بار مختلف پيرايوں سے ہميں متوجہ کياگيا ہے اور قرآن کي سينکڑوں آيات ميں قسم قسم کے بيانات سے اس بات کو واضح کيا گيا ہے کہ اس کائنات کا مالک ايک ہے۔ تمام باطل عقائد کو ۔۔ جن ميں شرک شامل تھا ۔۔۔ اس سورے ميں بہت واضح طريقے سے بيان کيا گيا ہے اور ساتھ ہي ساتھ يہ بھي بيان کيا گيا ہے کہ تمام الوہيت ( خدائي) کے دعوے بے بنياد اور باطل ہيں۔

يہ سورہ تمام مسلمانوں بلکہ تمام جہان والوں کو اس خدا کي ۔۔ جو اسلام کي نظر ميں قابل پرستش اور قابل تعريف ہے۔۔۔۔ معرفت کرا رہا ہے کہ وہ خدا جو اکيلا نہ ہو، ايک نہ ہو ، وہ خدا کہ جس کي سينکڑوں بلکہ ہزاروں شبيہہ مخلوقات ميں بن سکتي ہيں ، اس قابل نہيں کہ وہ ہمارا رب اور معبود ہو۔ قدرت والي چيزيں اور صاحبان قدرت جو اپنے وجود اور اپني زندگي کي بقا کے لئے دوسروں کے محتاج ہيں ، خدا کيسے ہوسکتے ہيں اور جو خود اپني زندگي ميں دوسروں کا محتاج ہو وہ دوسروں کي مشکل کشائي ، دستگيري اور امداد کيونکر کرسکتا ہے؟ لہذا ايسے افراد کو بشريت کا معبود قرار دينا عقلاً نامناسب ہے۔

چنانچہ ايسے افراد جو جھوٹے خداوں کے سامنے ۔۔ جو خود اپنے وجود کي بقا کے لئے دوسروں کے محتاج ہيں ، جو پہلے نہيں تھے اور ان کو بعد ميں پيدا کيا گيا اور جن کے وجود کے لئے زوال و فنا لازمي ہے۔۔۔ ان کي عظمت کے لئے جھکتے ہيں انہوں نے حقيقتاً اپني انساني عظمت کو پامال کيا ہے اور اپني ذات اور انسانيت کو پستي کي جانب دھکيل ديا ہے لہذا سورہ توحيد کا ايک مثبت پہلو يہ ہے بھي ہے کہ حقيقتاً اس خدا کے وجود سے کيا جلوہ ظاہر ہوتا ہے، ہمارے معبود اور کائنات کو پالنے والے کي کيا پہچان اور کيا خصوصيات ہيں؟ ان تمام باتوں کو اس سورے ميں بيان کيا گيا اور اس کے ساتھ ساتھ تاريخ ميں جتنے جھوٹے اور خود ساختہ خدا گذرے ہيں ان کي بيکاري اور بے ثباتي کو بھي اس سورے ميں بيان کيا گيا ہے۔

خدا کي منع کردہ حدود سے تجاوز مت کرو

دوسري جانب يہ سورہ خدا پرستوں اور اسلام قبول کرنے والوں کو ہوشيار کر رہا ہے کہ خدا کي ذات اور اس کي صفات کے بارے ميں جو کچھ بيان کيا گيا ہے وہ کافي ہے اور يہ بھي بيان کيا گيا ہے کہ عقلي پيچيدگيوں اور دل ميں شبہ اور وسوسہ پيدا کرنے والي چيزوں ميں دلچسپي لے کر اپنے خيالات کو خراب مت کرو۔

اس مختصر بيان سے ہماري توجہ اس طرف بھي ہوتي ہے کہ خدائي کا دعويٰ کرنے والوں ميں تقديس کا کوئي وجود نہيں ہوتا اور نا ہي ان ميں ہماري ربوبيت کي قدرت ہے لہذا انہيں اپنے ذہن سے نکال کر ہميں چاہئيے کہ اس مختصر بيان ميں خدائے واحد کي طرف متوجہ ہوں اور اسے ياد کريں نہ کہ فلسفے کي گہرائي کي باتوں ميں اپنے آپ کو غرق کرديں اور ذہني الجھنوں ميں خود کو گرفتار کرليں بلکہ ہميں تو يہ چاہئيے کہ سورہ توحيد ميں بيان کردہ عقيدے کے مطابق آگے بڑھيں، اس توحيد کے ساتھ کام کريں اور اس کے مطابق اپنے ذہنوں کو آگے بڑھائيں۔ حضرت امام زين العابدين سے وارد شدہ ايک حديث ميں ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کو يہ معلوم تھا کہ تاريخ کے آئندہ زمانے ميں ايسے لوگ ہوں گے جو گہري فکر کے حامل ہوں گے اسي وجہ سے خدا نے سورہ توحيد اور سورہ حديد سے چند آيات

عليم بذات الصدور

تک نازل کيں تاکہ انسانوں کو پتہ چل جائے کہ خدا کي ذات و صفات کے بارے ميں کس حد تک ان کو تحقيق کرنے کي اجازت دي گئي ہے اور جو شخص خدا کي اس سورہ توحيد اور سورہ حديد ميں بيان کردہ حدود سے زيادہ باتوں کي گہرائي ميں جانے کي کوشش کرے گا سوائے اس کے کہ وہ اپنے آپ کو ہلاکت ميں ڈالے گا ، کوئي اور نتيجہ نہيں نکلے گا۔

گويا سورہ توحيد نماز سے يہ کہتا ہے کہ خدا کا نظام (قدرت) ايک ہي ہے وہ واحد، عاليشان اور سب سے برتر ہے ، وہ خود غني اور بے نياز ہے، کسي کا محتاج نہيں ہے، نا ہي اس نے کسي کو پيدا کيا ہے اور نا ہي اس نے کسي سے وجود حاصل کيا ہے۔ اس جيسا ہم ميں کوئي نہيں اور نا ہي پوري کائنات ميں اس جيسا کوئي کام کرنے والا ہے۔ خدا کا عالم و بصير ہونا، اس کي رحمت اور اس کي دوسري صفات ۔۔ کہ جن کا جاننا اور پہچاننا ايک مسلمان کے لئے لازم و ضروري ہے جو اس کي زندگي کو شکل کو مقرر کرنے اور اسکي روح کے عروج و کمال کے لئے موثر ترين ہے، کو قرآن کي دوسري آيات ميں بيان کيا گيا ہے۔ لہذا جو کچھ سورہ توحيد ميں بيان کيا گيا ہے اس سے زيادہ خدا کي ذات کہ گہرائي ميں جانے کي ضرورت نہيں ہے اور نا ہي زيادہ گہرائي جسے خدا کي کيفيات کو سمجھنے کي ضرورت ہے ( صرف اتني ہي جتني خدا نے اجازت دي ہے) ۔ خدا کي صفات قرآن ميں پھيلي ہوئي ہيں کہ اگر تم ان کے مطابق زندگي ميں خد اکے لئے کام کرو گے تو عمل کي منزل ميں باقي معرفتيں تمہاري سمجھ ميں آتي چلي جائيں گي۔ اس فکر ميں مت پڑو کہ زيادہ بحث کرنے اور زيادہ گہرے خيالات کي طرف دلچسپي رکھنے سے تم خدا کي معرفت زيادہ حاصل کرسکتے ہو بلکہ تمہارا فريضہ تو يہ ہے کہ معرفت خدا کے حصول کے لئے اپنے دل و نفس کو صاف اور روحانيت کے حصول کي کوشش کرو تاکہ باطن ميں خدا کي طرف توجہ اور تعلق زيادہ ہو اور جب تم عمل کي منزل ميں آگے بڑھو گے تو معرفت کي تمام باتيں تمہيں خود معلوم ہوجائيں گي چنانچہ دنيا ميں جتنے پيغمبر اور صديقين تھے ، ان سب کا اور توحيد کے ماننے والوں اور عارفوں کا يہي حال تھا کہ خدا کي معرفت کے ساتھ انہوں نے آگے قدم بڑھائے۔

تسبيحات اربعہ

قبل اس کے کہ ہم رکوع اور سجدے کے ذکر اور ان کے ترجمے کي طرف توجہ ديں، نماز کي تيسري اور چوتھي رکعت ميں قيام کي حالت ميں بار بار پڑھے جانے والے ذکر کي وضاحت کرنا چاہتے ہيں ۔ يہ چار جملے دراصل چار ذکر ہيں جو خدا وند عالم کي حقيقت کو ظاہر کرتے ہيں۔

سبحان الله خدا ( تمام ) عيوب سے پا ک ہے۔

والحمد لله تعريف صرف خدا کے لئے ہے۔

ولا اله الا الله کوئي معبود نہيں ہے سوائے اللہ کے،

والله اکبر خدا بزرگ ترين ہے۔

جب انسان ان چار حقائق سے آگاہي حاصل کرتا ہے تو وہ خدا کے بارے ميں ايک حقيقي کيفيت حاصل کرتا ہے اور خدا کي طرف کامل توجہ کرتا ہے۔ يہ چاروں صفات جو اوپر بيان کي گئي ہيں وہ انسان کو عقيدہ توحيد کي ايک کيفيت کي طرف متوجہ کرتي ہيں اور انسان پر گہرے اثرات مرتب کرتي ہيں۔

الفاظ نماز کا پڑھنا خدائي صفات کي طرف توجہ دلاتا ہے

ان جملوں کو بار بار پڑھنا صرف اس لئے نہيں ہے کہ ہم صرف ذہني طور پر خدا کي معرفت حاصل کرليں ، خدا کے بارے ميں باخبر ہوجائيں اور خدا کے وجود کے بارے ميں اطلاعات ہمارے ذہن کي معلومات ميں اضافہ کرديں بلکہ خدا کي صفات و خصوصيات کو جاننے اور ان کو اپني زبان سے ادا کرنے کا سب سے بڑا فائدہ يہ ہے کہ ان صفات کي وجہ سے انسان ميں عمل کي طرف توجہ پيدا ہوتي ہے، انہي صفات کي وجہ سے انسان اپني ذمہ داري و مسؤليت ، اس کي اہميت اور دنيا ميں اپنے فريضے کي ادائيگي کا خيال کرتا ہے اور خدائي صفات کي جو معرفت اس نے حاصل کي ہے ، اس کے نتيجے ميں اپنے آپ کو بيکار اور خدائي قوانين سے آزاد خيال نہيں کرتا ہے بلکہ اپنے کندھوں پر ( الہي و انساني) ذمہ داريوں کے کوہ گراں کو اٹھانے کو تيار ہوجاتاہے۔

چنانچہ ان بيانات کي روشني ميں ہم مجموعي طور سے يہ کہہ سکتے ہيں کہ اسلام کے تمام عقائد کو ذہن ميں ( قيد) نہيں ہونا چاہئيے بلکہ انہيں انساني زندگي ميں عملي اور انسان کے اعمال و حرکات کو اسلامي عقائد کا مظہر ہونا چاہئيے۔

يہ عقائد صرف ہمارے ذہن کي خوشي و تسکين کے لئے بيان نہيں کئے گئے ہيں بلکہ وہ اس لئے بيان کئے گئے ہيں کہ خدا کي صفات انسانوں کي زندگي سے کيا تعلق و علاقہ رکھتي ہيں اور وہ ان کي زندگي سے کس چيز کي طلبگار ہيں ؟ خدا کي صفات کو اس لئے بھي بيان کياگيا ہے کہ انسانوں کو ان کي کامياب زندگي کا نقشہ بنا کر پيش کريں اور انہيں متوجہ کريں کہ ايک فرد کا عمل کيسا ہونا چاہئيے اور اسي طرح ايک معاشرے کا طرز عمل کيسا ہو؟ چنانچہ انہي عملي اثرات کي وجہ سے اسلام نے ان حقائق کو انسانوں سے متعارف کرايا ہے۔

يہ بات بالکل درست ہے کہ اسلام کے تمام عقائد معنوي لحاظ سے ايک واقعيت و حقيقت کو بيان کرتے ہيں ليکن صرف ان چند عقيدوں کو اسلام ميں ضروري قرار ديا گيا ہے جن پر اعتقاد و ايمان رکھنا ہر شخص پر لازم ہے اور جب انسان ان کو قبول کرتا ہے اور ان پر عمل کي پابندي کو اپنے لئے ضروري سمجھتا ہے تو اس ميں احساس ذمہ داري پيد اہوتا ہے اور وہ خيال کرتا ہے کہ اس کائنات ميں ميرا بھي کوئي فريضہ ہے۔ مجھے بھي کچھ کام ہيں اور ذمہ داريوں کے بوجھ سے ميرے کندھے خالي نہيں ہيں۔

توحيد کا عقيدہ انسان کو اس کي ذمہ داريوں کي طرف متوجہ کرتا ہے۔

خدا کے وجود ميں ہمارا عقيدہ اس قسم کا ہے کہ خدا کے ہونے اور نا ہونے کے بارے ميں اعتقاد رکھنا دونوں انسان کي زندگي اور عمل پر مختلف اثرات مرتب کرتا ہے۔ ايک شخص يا ايک معاشرے کي ۔۔۔ جو حقيقي معني ميں خدا کے وجود کا اعتقادي ہے ۔۔۔۔ زندگي کي شکل اور طور طريقہ اور قسم کا ہوگا اور وہ فرد يا معاشرہ جو خدا کے وجود کا انکاري ہے ، اس کي زندگي کي شکل بھي اور ہي قسم کي ہوگي۔

اگر انسان اس بات کا معتقد ہو کہ اسے اور پوري کائنات کو پيدا کرنے والي ہستي صاحب قدر ت و ارادہ ہے اور اسي نے ہميں حکمت و شعور سے نوازا ہے۔۔۔۔ تو وہ يہ خيال کرے گا کہ ميري زندگي کا بھي ايک مقصد ہے ، ميري زندگي کا ايک مخصوص راستہ ہے جس پر مجھے چلنا ہے اور اپني منزل تک پہنچنا ہے جو کہ مجھے حد درجے محبوب ہوني چاہئيے اور اس طرح وہ دل سے يہ بھي قبول کرتا ہے کہ اسے اپنے مقصد و منزل تک پہنچنے کے لئے ايک راستہ اور نقشہ تيار کيا گياہے کہ ميں اس کے مطابق عمل کروں اور يہي احساس ذمہ داري اور احساس ادائيگي فريضہ اس ميں کام کرنے کي طرف رغبت پيدا کرتا ہے اور اپني ذمہ داريوں کي تلاش پر آمادہ کرتا ہے۔ اس عقيدے کي وجہ سے انسان ميں آگے بڑھنے کي ہمت پيدا ہوتي ہے اور وہ عظيم ذمہ داريوں کے کوہ گراں کو اپنے کاندھوں پر اٹھانے کے لئے تيار ہوجاتا ہے اور پھر ان سب سے بڑي بات يہ ہے کہ وہ ان کاموں کي انجام دہي ميں راضي رہتا ہے اور خوشي کا احساس کرتا ہے۔تمام اصول دين انسان کے راہ کمال کو اس کے سامنے واضح کرتے ہيں

يہي صورتحال قيامت ( معاد) کے عقيدے کي ہے جو انسان کي زندگي پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے اور اسي طرح نبوت و امامت کا عقيدہ ذمہ داري اور فريضے کو انسان کے دوش پر مقرر کرتا ہے، اس کي زندگي کے راستے کو واضح کرنے ، زندگي کے پروگرام کو تعيين کرنے اور زندگي کي سمت کو مشخص کرنے کے ساتھ ساتھ اس کي زندگي کو دوسروں کي زندگي سے ممتاز بناتا ہے۔

غلط مشاہدہ

اگر ہم اس بات کا مشاہدہ کريں جو زندگي آج ہم دنيا ميں ديکھ رہے ہيں ، اس ميں اسلام کے اصول و قوانين کے پيروکاروں اور معتقد لوگوں کي زندگي ان لوگوں کي زندگي کے ہم رنگ اور يکساں ہے جو نا صرف اسلامي اصول و قوانين سے بے خبر ہيں بلکہ ان پر اعتقاد کے انکاري بھي ہيں يعني اسلامي اور غير اسلامي لوگ جو اس دنيا ميں ايک جيسي زندگي گذار رہے ہيں اس کي بنيادي وجہ اور اولين سبب يہي ہے کہ توحيد کا اعتقاد رکھنے والوں کي اطلاعات درست نہيں ہيں اور نا ہي انہوں نے درست سمت ميں آگاہي حاصل کي ہے يا اگر اعتقاد سے آگاہ و باخبر ہيں بھي تو نہ ان کے ايمان نے ان کے دل پر اثر کيا ہے اور نا ہي اسلامي عقائد کو انہوں نے دل سے قبول کيا ہے لہذا زندگي کے بہت سے حساس مواقع پر۔۔۔۔۔ جہاں انسان کے دل کي توجہات ہوتي ہيں ۔۔۔ غور کيا جائے تو وہ لوگ جو حقيقت ميں ان اسلامي عقائد کے معتقد ہيں ، ان کي زندگي کا طور طريقہ اور کيفيت ان لوگوں سے جدا اور مختلف نظر آئے گي جو اسلامي عقائد کے سلسلے ميں ناآگاہ ہيں اور صرف زندگي کي فرصت سے فائدہ اٹھانے والے ہيں ان چند قابل توجہ باتوں کے بعد ہم واپس ان چار ذکر کي طرف پلٹتے ہيں کہ ان ميں کن معني کي طرف توجہ مبذول کرائي گئي ہے۔

سبحان الله

خدا کي تعريف تمام نيکيوں اور اچھائيوں کي تعريف ہے

خدا تمام برائيوں سے پاک و پاکيزہ ہے اور اچھائيوں والا ہے، نا ہي اس کي ذات ايسي ہے کہ کوئي اس کے کاموں ميں اس کا شريک ہو اور نا ہي اس کے کام ظلم پر مبني ہوتے ہيں ۔نا وہ کبھي مخلوق تھا اور نا ہي اس کے کام کبھي حکمت و مصلحت کے خلاف رہے ہيں۔ اسي طرح اس کے تمام نقائص اور خرابيوں سے بھي پاک ہيں اور اسي طرح وہ ان تمام صفات سے جو مخلوقات کے لئے لازمي ہيں ، پاک ہے۔

نمازي جب يہ جملہ ادا کرتا ہے تو وہ اس کي عظمت اور تمام عيوب اور تمام عيوب سے اس کي پاکيزگي کو سمجھتا ہے اور احساس کرتا ہے کہ وہ جس ذات کے مقابل کھڑا ہے کيا عظيم ذات ہے۔۔۔ ! وہ اس قابل ہے کہ اس کي تعريف کي جائے ۔۔ ! وہ عظيم ہے کہ اس کے سامنے سر جھکايا جائے اور اس کي عظمت کا احساس کيا جائے۔

نماز پڑھنے والا احساس کرتا ہے کہ خدا کي تعظيم ہے اور خدا کے سامنے سر جھکانا اور اصل نيکي اور کمال مطلق کے سامنے سرجھکانا ہے۔ اگر کسي ( انسان) کو يہ خيال ہ کہ خداوند عالم کي ذات تمام عيوب سے پاک اور تمام خوبيوں اور نيکيوں والي ہے تو کيا وہ خدا کي عظمت کا احساس کرنے ميں ذلت و حقارت محسوس کرے گا ، ہوسکتا ہے کہ ذلت و حوارت کا تعلق دنيا اور دنيا والوں کي تعريف کرنے سے ہو۔

خدا کي ذات ۔۔۔ تمام اچھائيوں ، خوبيوں اور تمام کمالات کا بحر بيکراں

اسلام نے جو نماز ہميں سکھائي ہے وہ ايک ذات کے سامنے سر جھکانا ہے ، ايسي ذات کي تعريف کرنا ہے جو تمام کمالات ، خوبيوں اور تمام حسن و جمال کا بحر بيکراں ہے کہ جس کا نہ کوئي ساحل ہے اور نا کوئي کنارہ اور نا ہي اس کي گہرائي کا اندازہ لگايا جاسکتا ہے۔ لہذا نماز خدا کي ايسي تعظيم نہيں ہے جيسا کہ دنيا اور دنيا والوں کي تعظيم جو انسان کو ذليل کرديتي ہے اور اس کي عزت و شرافت کو گھٹا ديتي ہے۔ خدا کي تعريف ايسي نہيں ہے جو آدمي کو حقير کردے اور جس کي وجہ سے انسان خواري کا احسا س کرے۔

انسان ہي وہ وجود ہے جو کسي کے حسن و جمال کا بخوبي اندازہ لگاسکتا ہے۔ انسان خود بھي مطلق کمال و جمال کا متلاشي ہے کہ جہاں کہيں ماديت کے صحرا ميں اسے اچھائيوں اور کمالات کا نخلستان ملتا ہے اور اسے حاصل کرنے اور اس سے فائدہ لينے کي کوشش کرتا ہے چنانچہ اس لحاظ سے يہ بات فطري معلوم ہوتي ہے کہ انسان ديکھے کہ ايک ذات ايسي ہے جس ميں تمام کمالات ، اچھائياں ، خوبياں اور جمال بہ درجہ اتم موجود ہيں تو ا سکے سامنے خاک پر اپنا چہرہ رکھ دے اور وہ ذات کہ جس ميں تمام خوبياں اور اچھائياں سو فيصد اپنے عروج پر ہيں ، اس قابل ہے کہ اس کي پرستش اور تعريف کي جائے۔

خدا کي ہي تعريف کرنے سے انسان راہ کمال کو اختيار کرے گا

خدا کي پرستش و تعريف کرنے سے انسان نيکي اور کمال و جمال کي راہ کو اختيار کرنے کي کوشش کرے گا، کمال کو ( اپنے لئے ) اچھا سمجھے گا اور اسے حاصل کرنے کي کوشش کرے گا ، خود بھي حسن و جمال کي تعريف کرے گا اور اپنے اعمال ميں بھي حسن و جمال کے نور کا خواہشمند ہوگا اور حقيقتاً خدا کي پرستش و تعريف کرنا ہي انسان کي زندگي کو کمال و جمال اور نيکي کي راہ اور اس کي اپني منزل کي سمت قرار دے گا۔

مگر کچھ ايسے بھي لوگ ہيں جنہوں نے اسلام ميں نماز اور عبادت کو انسان کي ذلت اور اس کي عزت ميں کمي کے مترادف خيال کيا۔ انہوں نے خدا کي عبادت کو دنيا کي مادي طاقتوں کے سامنے سر جھکانا گردانا۔ وہ خيال نہيں کرتے تھے کہ سر جھکانا کسي مادي ذات کي طرف نہيں ہے بلکہ نيکيوں اور پاکيزگي کے سامنے سرجھکانا اور سر بسجود ہونا ہے۔ لہذا اگر ہم نيکي ، پاکيزگي اور دوسري صفات کے حصول کا جذبہ بيدار ہوگا اور يہي وہ نکتہ ہے کہ جسے ہم کہہ سکتے ہيں کہ سبحان اللہ ۔۔۔ ہميں درس ديتا ہے جسے اوپر بيان کيا گيا ہے۔

والحمد لله

انسان کي جہالت

رنج و الم سے پر تاريخ ميں انسان اپني زندگي کي بعض مختلف حاجات کي وجہ سے اپني زندگي کو چھوٹي سطح اور چھوٹے درجے پر بہتر بنانے کا خواہش مند رہا ہے۔ کبھي ممتاز و مشہور شخصيت بنانے کي خاطر تو کبھي چند روز زيادہ زندہ رہنے کي خاطر حتيٰ کہ اکثر مواقع پر روٹيوں کے چند ٹکڑوں کي خاطر، جو ا سکي زندگي کي بقا کا سبب ہوں۔ انسان اپنے ان دنياوي مقاصد کے لئے دوسروں کي غلامي اور اپني ذلت کو برداشت کرتا رہا جبکہ وہ دوسرے جن کي اس نے غلامي کي ، خلقت ميں اسي جيسے اور اسي کے ہم پلہ تھے۔ ان ميں سے کسي ايک ميں بھي کوئي ايسي قابليت نہيں تھي کہ ان کے سامنے سرجھکايا جاتا مگر انسان چند روزہ زندگي کي خاطر ان کے سلسلے ميں غلطي کا شکار رہا، اپاني زبان سے ان کي تعريف اور شکر گذاري کرتا اور اپنے بدن و روح کو ان کے سامنے سر جھکا کر ذليل کرتا رہا۔

اس نے ايسا اس وجہ سے کيا کہ وہ جہالت ميں مبتلا تھا کہ يہ نعمت ، يہ روٹي ، يہ عزت ، يہ دنياوي عظمت ، يہ عہدہ اور يہ ميري نماياں شخصيت ان بندوں کي مرہون منت ہے اور ان دنياوي نعمتوں کا وجود صرف انہي کے دم سے ہے لہذا اس نے خود کو بدن و روح دونوں کے اعتبار سے ان کے سامنے غلام خيال کيا اور وہ ان مختصر ، فاني اور زوال پذير دنياوي نعمتوں کے حصول کے لئے نعمت کے ( ظاہري) مالک کي غلامي کے لئے تيار ہوجاتا ہے ان کي چمچہ گيري ، چاپلوسي اور خوشامد شروع کرديتا ہے۔

خدا مالک ہے نا کہ يہ مجبور و کمزور لوگ

اس کے مد مقابل ہمارا نماز ميں يہ ياد کرنا کہ تمام تعريفيں اور تمام شکريہ صرف خدا کے لئے ہيں ہميں يہ سمجھاتا ہے کہ تمام چيزيں اور تمام نعمتيں سب خدا کي طرف سے ہيں اور وہي سب کچھ دينے والا ہے۔ خدا کي تعريف کرنا ہميں متوجہ کرتا ہے کہ يہ صرف آنکھوں کا دھوکہ اور دل کا بہلاوا ہے کہ ہم نعمتوں کو دوسروں کي طرف سے قرار دے رہے ہيں مگر حقيقتاً ان ميں سے کوئي بھي اپني کسي بھي چيز کا مالک نہيں۔الحمد للہ ۔۔ ہميں يہ بتاتا ہے کہ تمام مال و نعمت کا مالک خدا ہے ناکہ مجبور لوگ۔ يہ لوگ مال اور نعمت کي وجہ سے انسانوں کو اپنا غلام و اسير بنانا چاہتے ہيں اور انہيں اپنا مطيع و فرمانبردار بنا کر ان سے اپنے احکام کي اطاعت کے خواہشمند ہيں ، يہ انسانوں کو اپنا بندہ بنا کر انہيں اپنے اشاروں پر نچوانا چاہتے ہيں۔

نماز ہم انسانوں کي کمزور روحوں کو ۔۔۔جو تھوڑے اور معمولي مال و دولت کے لئے پريشان رہتي ہيں، دنياوي لذات کي طرف جھکنے والے ہمارے دلوں اور نعمتوں کي طرف ہماري فريفتہ اور عاشق آنکھوں کو يہ سبق ديتي ہے کہ ان دولت مندوں کي تھوڑي سي بخشش و رحمت و عنايت کو کوئي حيثيت نہ دو اور بظاہر جو لوگ تمہيں اور سارے جہان کو پال رہے ہيں وہ کسي حقيقت کے حامل نہيں ہيں لہذا ان کے سامنے غلامي کے لئے سر مت جھکاو۔ يہ کيا چيز ہيں؟ اور يہ کيا حيثيت رکھتے ہيں؟ يہ خدا ہے کہ جس نے يہ سب اسباب پيد اکيے ہيں لہذا اگر وہ تم کو دنياوي نعمات سے محروم رکھيں تو خاموشي مت اختيار کرو ، ان کے ظلم و ستم کو برداشت مت کرو، ان لوگوں نے مال خدا کو ۔۔۔ جو تمہارا حق ہے ۔۔ جمع کيا ہوا ہے ، يہ ظالم و غاصب ہيں اور اس طرح انہوں نے تمہاري روزي کو اپني گرفت ميں ليا ہوا ہے چنانچہ ان کو مالک نا سمجھو اور نا ہي ان کي خوشامد کرو۔

ولا اله الا الله

يہ اسلام کا نعرہ ہے جو يہ ثابت کرتاہے کہ پوري کائنات ميں صرف ايک ہي نظام جاري و ساري ہے۔ يہ نعرہ و آئيڈيا لوجي ہے جو کائنات کے مطالعے ميں مختلف نظر آتي ہے مگر حقيقت ميں ايک ہي ہے۔ اس نعرے ميں ايک بات کا انکار ہے اور ايک بات کا اثبات و اقرار۔

انکار يہ ہے کہ دنيا کي تمام طاغوتي اور سرکش طاقتوں اور تمام غير الہي نظاموں کو يکسر مسترد کرديا جائے کہ ان ميں سے کوئي بھي قدرت کا مالک نہيں ہے سوائے خدا کے اور اس انکار سے انسان خو دکو ان کي غلامي سے نجات دے۔

نا م نہاد بڑي طاقتوں اور شيطاني قوتوں کي آرزو

تمام شيطاني طاقتيں اور نظام ہميشہ اس بات کے آرزو مند رہے ہيں کہ ان کے اصول و قوانين کي پيروي کي جائے۔ ان کے دست و بازو کي طاقتيں اور ذہني اختراع ہم سے يہ مطالبہ کرتي ہيں کہ خدا سے انحراف کے راستے پر قدم بڑھاو ليکن ہم لا الہ الا اللہ کے ذريعے سے ان کي تمام خواہشات کو مليا ميٹ اور اميدوں کو قطع کرديتے ہيں خدا کي قدرتوں کے علاوہ تمام قدرتوں ، تمام غير الہي اور خدا کے پسنديدہ جذبات کے علاوہ تمام جذبوں کو يہ جملہ ختم کرديتا ہے اور نمازي تمام غير الہي نظاموں کي نفي کے ساتھ خود کو تمام ہستيوں ، غلاميوں ، ذلتوں اور ہر قسم کے لوگوں کي ہر قسم کي بندگي سے آزاد قرار ديتا ہے۔ اس وقت وہ يہ سمجھتا ہے کہ صرف خدا ہي کا فرمان پيروي کے قابل ہے اور صرف خدا ہي کے ارادے سے کائنات کا نظام جاري و ساري ہے يعني ايک اسلامي معاشرے کے نظريے کو ۔۔۔ جو دنيا ميں حقيقي معنوں ميں عملي ہوسکتا ہے ۔۔۔۔۔ ايک مسلمان لا الہ الا اللہ کے ذريعے سے اسے ضروري سمجھتا ہے اور خدا کي بندگي کو قبول کرکے باقي تمام بندگيوں کو نامناسب اور بے کار و بے فائدہ خيال کرتا ہے۔

خدا کي بندگي سے کيا مراد؟

بندگي خدا سے کيا مراد؟ بندگي خدا يعني حکمت سے بھرپور احکامات خدا کے زير سايہ اپني زندگي کو بہتر بنانا اور نظام الہي کے مطابق ۔۔۔۔ جو خدا کے واضح کردہ خطوط اور بيان شدہ احکام کے ذريعے ترتيب ديا گيا ہے ۔۔۔ زندگي بسر کرنا اور اپني تمام قدرت و فکر کو اسي قانون خد اکے نفاذ کے لئے استعمال کرنا تاکہ پوري دنيا اسي کے ساتھ حرکت کرے۔

اسلام کے علاوہ تمام نظاموں کي بنياد غلط افکار و نظريات پر ہے

خدا کے نظام کے علاوہ زندگي بسر کرنے کے لئے لوگوں نے جو دوسرے قوانين اور نظام بنائے ہيں وہ صرف ايک انسان کي فکر کا نتيجہ ہوتے ہيں جو صرف اسي انسان کي فکر کے محور پر گردش کرتے ہيں۔ ايسے غير الہي نظام اور اصول و قوانين اپنے دامن ميں عوام الناس کے لئے بہت سي خرابياں سميٹے ہوئے ہيں اور جو جہالت کي ظلمتوں سے اپنا سفر شروع کرتے ہيں۔ ايسے غير الہي نظام جو نا صرف انسان کي حقيقي سعادت و کاميابي سے بے خبر ہيں بلکہ ان کي بنياد غلط افکار و نظريات پر قائم ہے اور ايسے نظام و قوانين پر عمل پيرا ہوکر انسان نا ہي کامياب ہوسکتا ہے اور نا ہي اپني منزل کمال تک کہ جہاں اسے پہنچنا چاہئيے ۔ ۔۔۔ پہنچ سکتا ہے۔

صرف وہ معاشرہ ( سوسائٹي) اور نظام الہي ہے جسے خدا نے بنايا ہے جو حکمت سے پر ہے اور جسے خدا نے اپني رحمت کو ظاہر کرنے کے لئے بنايا ہے کيونکہ خداوند عالم کو انسانوں کي حاجتوں کا علم ہے اور وہ اس بات سے بھي آگاہ ہے کہ انسان کي يہ حاجتيں کن ذرائع سے پوري ہوسکتي ہيں چنانچہ اس نے انسانوں کے لئے قانون بنايا ہے تاکہ ( ہم ) انسان اپنے وجود کو ۔۔۔۔ جو ابھي ايک چھوٹے سے پودے کي شکل ميں ہے ۔۔۔ کمال تک پہنچيں۔

عوام الناس کي بہتري صرف اسلام ہي کے ذريعے ممکن ہے

ہم ان تمام نظاموں کے جو دوسروں کے بنائے ہوئے ہيں ۔۔۔۔ دشمن نہيں ہيں ، ہم ان کي قدر داني کرتے ہيں ليکن جو باتيں ميں عرض کررہا ہوں ۔۔۔۔ وہ انبيائ کي ہيں اور تمام انبيائے خدا عالم بشريت کے لئے ايک درد مند باپ کي حيثيت رکھتے ہيں ۔ لہذا وہ لوگ جو اس بات کے خواہشمند ہيں کہ عوام الناس کي زندگي کو بہتر بنائيں اور ايسے مکانات بنائيں کہ جن ميں انساني زندگي بہتر اور ٹھيک طور پر بسر ہوسکے يعني وہ لوگ جو معاشرے اور سوسائٹيوں کو آباد کرنا اور انہيں سنوارنا چاہتے ہيں ، ان لوگوں کو انبيائ نے يہ درس ديا اور يہ نصيحت کي کہتم جو ان عوام الناس کي تربيت کرنا چاہتے ہو ، نظام الہي کے سوا کسي اور نظام سے تربيت نہيں کرسکتے اور خدائے وحدہ لا شريک نے جو نظام مقرر کيا ہے ، عوام صرف اسي کے ذريعے کامياب و کامران ہوسکتے ہيں۔

تاريخ نے يہ بات ثابت کردي ہے اور ہم نے بھي ديکھا اور آئندہ بھي ديکھتے رہيں گے کہ وہ نظام جو خدا کے علاوہ لوگوں نے بنائے ہيں ان کے نتيجے ميں عوام الناس نے کيا کيا تکليفيں اٹھائيں، کس کس طرح انسانوں کي شخصيت کو پامال کيا گيا اور انسان کس کس طرح کي عذاب والي زندگي سے دوچار ہوا۔

والله اکبر

پس ہر قسم کے غير الہي نظاموں کا انکار کرنے کے بعد ايک معمولي انسان زمانہ جاہليت کي باتوں کو ديکھ کر اپنے يکتا و تنہا ہونے کا احساس کرتا ہے اور تنہائي سے گھبراتا ہے کہ مير اکوئي مددگار نہيں ہے جبکہ ميں خدا کے راستے پر قدم بڑھانے والا ہوں اور جب وہ اپني نظريں آگے دوڑاتا ہے تو زندگي گذارنے کے تمام نظاموں کو ۔۔۔ جن کو ابھي تک اچھا اور شاندار سمجھتا تھا ۔۔ بيکار و فضول خيال کرتا ہے ليکن جب زمانہ جاہليت کے لوگوں کي زندگي پر نظر ڈالتا ہے تو ان کي زندگي ايک پہاڑ کي مانند اس کي جانب رخ کيے نظر آتي ہے اور وہ اس بات کا مشاہدہ کرتا ہے کہ وہ جن چيزيں اور قدرتوں کي نفي کررہا ہے وہ اس کے سامنے جلوہ افروز ہيں اور اپني شان و شوکت کا مظاہرہ کررہي ہيں۔ زمانہ جاہليت کے نظاموں کي شان و شوکت اسے خوف زدہ کرتي ہے اور يہي وہ لمحہ ہے کہ وہ کہتا ہے اللہ اکبر ۔۔۔۔ اللہ ان تمام باتوں سے بزرگ تر ہے، وہ تمام لوگ ، تمام قدرتوں اور ان تمام طاقتوں سے بھي جو لوگ ظاہر کررہے ہيں ، بڑا ہے اور وہ ا س سے بھي بزرگ ہے کہ ہم اس کي تعريف کريں۔

خدا ئي نظام سے وابستگي نجات اور کاميابي کي علامت ہے

کائنات کو چلانے کے لئے جو اصول و قوانين مرتب کيے گئے ہيں اور جو نظام جاري وساري ہيں خواہ وہ دنيا کے مادي قوانين ہوں يا تاريخ کے ، سب کے سب خدا ہي کے قوانين ہيں ۔ پس وہ يہ خيال کرتا ہے کہ انتہائي درجے کي سعادت و کاميابي اسي وقت ممکن ہے کہ جب ميں خود کو ان قوانين اور الہي سنتوں سے وابستہ کرلوں گا۔ حقيقي نجات صرف خدائي اصولوں کي پابندي اور ان کے مطابق زندگي گذارنے ميں ہے اور دنيا ميں صرف وہي لوگ کامياب ہيں جو تاريخ بشريت ميں ہونے والي کشمکش ميں صرف خدا کے اطاعت گذار رہے۔

انسان کامل کا ايمان

حضرت محمد نے اس حقيقت کو اچھي طرح سمجھا تھا کہ لوگ کچھ نہيں کرسکتے بلکہ خدا ہي سب کچھ کرنے پر قادر ہے اور آپ اپنے پورے وجود کے ساتھ اس بات پر ايمان کامل رکھتے تھے اور اس کا احساس کرتے تھے چنانچہ يہي وجہ تھي کہ آپ نے تن و تنہا مکے کے تمام گمراہوں کے سامنے قيام کيا تھا بلکہ آپ پوري دنيا کے مقابل کھڑے ہوگئے اور آپ جيسي ہي شخصيت سے ايسي پامردي، استقامت اور ہمت کي اميد کي جاسکتي ہے چنانچہ آپ نے استقامت کے ساتھ اپني کوشش کے ذريعے اس زمانے کي گمراہ انسانيت کے قافلے کو ۔۔۔ جو اپني منزل کي راہ کو گم کرکے مختلف خود ساختہ خداوں کے پاس بھٹک رہا ٹھا، اس بات پر آمادہ کيا کہ وہ طاغوتي طاقتوں کے پيچھے نہ چلے۔ اس طرح آپ نے ان گمراہوں کو ذلت و غلامي کے راستے سے نجات دلائي اور انہيں اس راستے پر گامزن کيا جو فطرت اور ان کے کمال کا راستہ تھا۔ با الفاظ ديگر آپ نے ان کو تاريکي و ظلمت سے نکال کر نور ميں لاکھڑا کيا۔

لہذا وہ شخص جو انسانوں کے درميان تھوڑي بہت قدرت رکھنے والے لوگوں ، ان کے ظلم و زيادتيوں اور سختيوں کے مقابلے ميں اپنے آپ کو چھوٹا اور کمزور سمجھتا ہے اور خود کو بے ارادہ ۔۔۔ کہ ميں کچھ بھي نہيں کرسکتا ہوں، خيال کرتا ہے کہ وہ اس نکتے کو سمجھ لے اور اس بات پر صدق دل سے ايمان لے آئے کہ يہ طاقتور لوگ اور ان کي طاقتيں کوئي حيثيت نہيں رکھتي ہيں کيونکہ ان سب سے بڑي بلکہ سب سے برتر طاقت خدا ہے ، تو اس کے دل کو سکون و اطمينان نصيب ہوگا اور اس کے باطن ميں اميد خدا کي آگ روشن ہوگي کہ خدا کي مرضي کے بغير يہ طاقتيں ميرا کچھ نہيں بگاڑ سکتيں اور يہي اطمينان و سکون اور خدا سے اميد اسے عظيم اور کامياب ترين انسان بنا دے گي۔

يہ تھا تسبيحات اربعہ کے چار ٹکڑوں کے فوائد و مقاصد کا خلاصہ جو يہاں بيان کيا گيا کہ جن کي ہم تيسري اور چوتھي رکعت ميں قيام کي حالت ميں تکرار کرتے ہيں۔