تسبيحات اربعہ
قبل اس کے کہ ہم رکوع اور سجدے کے ذکر اور ان کے ترجمے کي طرف توجہ ديں، نماز کي تيسري اور چوتھي رکعت ميں قيام کي حالت ميں بار بار پڑھے جانے والے ذکر کي وضاحت کرنا چاہتے ہيں ۔ يہ چار جملے دراصل چار ذکر ہيں جو خدا وند عالم کي حقيقت کو ظاہر کرتے ہيں۔
سبحان الله
خدا ( تمام ) عيوب سے پا ک ہے۔
والحمد لله
تعريف صرف خدا کے لئے ہے۔
ولا اله الا الله
کوئي معبود نہيں ہے سوائے اللہ کے،
والله اکبر
خدا بزرگ ترين ہے۔
جب انسان ان چار حقائق سے آگاہي حاصل کرتا ہے تو وہ خدا کے بارے ميں ايک حقيقي کيفيت حاصل کرتا ہے اور خدا کي طرف کامل توجہ کرتا ہے۔ يہ چاروں صفات جو اوپر بيان کي گئي ہيں وہ انسان کو عقيدہ توحيد کي ايک کيفيت کي طرف متوجہ کرتي ہيں اور انسان پر گہرے اثرات مرتب کرتي ہيں۔
الفاظ نماز کا پڑھنا خدائي صفات کي طرف توجہ دلاتا ہے
ان جملوں کو بار بار پڑھنا صرف اس لئے نہيں ہے کہ ہم صرف ذہني طور پر خدا کي معرفت حاصل کرليں ، خدا کے بارے ميں باخبر ہوجائيں اور خدا کے وجود کے بارے ميں اطلاعات ہمارے ذہن کي معلومات ميں اضافہ کرديں بلکہ خدا کي صفات و خصوصيات کو جاننے اور ان کو اپني زبان سے ادا کرنے کا سب سے بڑا فائدہ يہ ہے کہ ان صفات کي وجہ سے انسان ميں عمل کي طرف توجہ پيدا ہوتي ہے، انہي صفات کي وجہ سے انسان اپني ذمہ داري و مسؤليت ، اس کي اہميت اور دنيا ميں اپنے فريضے کي ادائيگي کا خيال کرتا ہے اور خدائي صفات کي جو معرفت اس نے حاصل کي ہے ، اس کے نتيجے ميں اپنے آپ کو بيکار اور خدائي قوانين سے آزاد خيال نہيں کرتا ہے بلکہ اپنے کندھوں پر ( الہي و انساني) ذمہ داريوں کے کوہ گراں کو اٹھانے کو تيار ہوجاتاہے۔
چنانچہ ان بيانات کي روشني ميں ہم مجموعي طور سے يہ کہہ سکتے ہيں کہ اسلام کے تمام عقائد کو ذہن ميں ( قيد) نہيں ہونا چاہئيے بلکہ انہيں انساني زندگي ميں عملي اور انسان کے اعمال و حرکات کو اسلامي عقائد کا مظہر ہونا چاہئيے۔
يہ عقائد صرف ہمارے ذہن کي خوشي و تسکين کے لئے بيان نہيں کئے گئے ہيں بلکہ وہ اس لئے بيان کئے گئے ہيں کہ خدا کي صفات انسانوں کي زندگي سے کيا تعلق و علاقہ رکھتي ہيں اور وہ ان کي زندگي سے کس چيز کي طلبگار ہيں ؟ خدا کي صفات کو اس لئے بھي بيان کياگيا ہے کہ انسانوں کو ان کي کامياب زندگي کا نقشہ بنا کر پيش کريں اور انہيں متوجہ کريں کہ ايک فرد کا عمل کيسا ہونا چاہئيے اور اسي طرح ايک معاشرے کا طرز عمل کيسا ہو؟ چنانچہ انہي عملي اثرات کي وجہ سے اسلام نے ان حقائق کو انسانوں سے متعارف کرايا ہے۔
يہ بات بالکل درست ہے کہ اسلام کے تمام عقائد معنوي لحاظ سے ايک واقعيت و حقيقت کو بيان کرتے ہيں ليکن صرف ان چند عقيدوں کو اسلام ميں ضروري قرار ديا گيا ہے جن پر اعتقاد و ايمان رکھنا ہر شخص پر لازم ہے اور جب انسان ان کو قبول کرتا ہے اور ان پر عمل کي پابندي کو اپنے لئے ضروري سمجھتا ہے تو اس ميں احساس ذمہ داري پيد اہوتا ہے اور وہ خيال کرتا ہے کہ اس کائنات ميں ميرا بھي کوئي فريضہ ہے۔ مجھے بھي کچھ کام ہيں اور ذمہ داريوں کے بوجھ سے ميرے کندھے خالي نہيں ہيں۔
توحيد کا عقيدہ انسان کو اس کي ذمہ داريوں کي طرف متوجہ کرتا ہے۔
خدا کے وجود ميں ہمارا عقيدہ اس قسم کا ہے کہ خدا کے ہونے اور نا ہونے کے بارے ميں اعتقاد رکھنا دونوں انسان کي زندگي اور عمل پر مختلف اثرات مرتب کرتا ہے۔ ايک شخص يا ايک معاشرے کي ۔۔۔ جو حقيقي معني ميں خدا کے وجود کا اعتقادي ہے ۔۔۔۔ زندگي کي شکل اور طور طريقہ اور قسم کا ہوگا اور وہ فرد يا معاشرہ جو خدا کے وجود کا انکاري ہے ، اس کي زندگي کي شکل بھي اور ہي قسم کي ہوگي۔
اگر انسان اس بات کا معتقد ہو کہ اسے اور پوري کائنات کو پيدا کرنے والي ہستي صاحب قدر ت و ارادہ ہے اور اسي نے ہميں حکمت و شعور سے نوازا ہے۔۔۔۔ تو وہ يہ خيال کرے گا کہ ميري زندگي کا بھي ايک مقصد ہے ، ميري زندگي کا ايک مخصوص راستہ ہے جس پر مجھے چلنا ہے اور اپني منزل تک پہنچنا ہے جو کہ مجھے حد درجے محبوب ہوني چاہئيے اور اس طرح وہ دل سے يہ بھي قبول کرتا ہے کہ اسے اپنے مقصد و منزل تک پہنچنے کے لئے ايک راستہ اور نقشہ تيار کيا گياہے کہ ميں اس کے مطابق عمل کروں اور يہي احساس ذمہ داري اور احساس ادائيگي فريضہ اس ميں کام کرنے کي طرف رغبت پيدا کرتا ہے اور اپني ذمہ داريوں کي تلاش پر آمادہ کرتا ہے۔ اس عقيدے کي وجہ سے انسان ميں آگے بڑھنے کي ہمت پيدا ہوتي ہے اور وہ عظيم ذمہ داريوں کے کوہ گراں کو اپنے کاندھوں پر اٹھانے کے لئے تيار ہوجاتا ہے اور پھر ان سب سے بڑي بات يہ ہے کہ وہ ان کاموں کي انجام دہي ميں راضي رہتا ہے اور خوشي کا احساس کرتا ہے۔تمام اصول دين انسان کے راہ کمال کو اس کے سامنے واضح کرتے ہيں
يہي صورتحال قيامت ( معاد) کے عقيدے کي ہے جو انسان کي زندگي پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے اور اسي طرح نبوت و امامت کا عقيدہ ذمہ داري اور فريضے کو انسان کے دوش پر مقرر کرتا ہے، اس کي زندگي کے راستے کو واضح کرنے ، زندگي کے پروگرام کو تعيين کرنے اور زندگي کي سمت کو مشخص کرنے کے ساتھ ساتھ اس کي زندگي کو دوسروں کي زندگي سے ممتاز بناتا ہے۔
غلط مشاہدہ
اگر ہم اس بات کا مشاہدہ کريں جو زندگي آج ہم دنيا ميں ديکھ رہے ہيں ، اس ميں اسلام کے اصول و قوانين کے پيروکاروں اور معتقد لوگوں کي زندگي ان لوگوں کي زندگي کے ہم رنگ اور يکساں ہے جو نا صرف اسلامي اصول و قوانين سے بے خبر ہيں بلکہ ان پر اعتقاد کے انکاري بھي ہيں يعني اسلامي اور غير اسلامي لوگ جو اس دنيا ميں ايک جيسي زندگي گذار رہے ہيں اس کي بنيادي وجہ اور اولين سبب يہي ہے کہ توحيد کا اعتقاد رکھنے والوں کي اطلاعات درست نہيں ہيں اور نا ہي انہوں نے درست سمت ميں آگاہي حاصل کي ہے يا اگر اعتقاد سے آگاہ و باخبر ہيں بھي تو نہ ان کے ايمان نے ان کے دل پر اثر کيا ہے اور نا ہي اسلامي عقائد کو انہوں نے دل سے قبول کيا ہے لہذا زندگي کے بہت سے حساس مواقع پر۔۔۔۔۔ جہاں انسان کے دل کي توجہات ہوتي ہيں ۔۔۔ غور کيا جائے تو وہ لوگ جو حقيقت ميں ان اسلامي عقائد کے معتقد ہيں ، ان کي زندگي کا طور طريقہ اور کيفيت ان لوگوں سے جدا اور مختلف نظر آئے گي جو اسلامي عقائد کے سلسلے ميں ناآگاہ ہيں اور صرف زندگي کي فرصت سے فائدہ اٹھانے والے ہيں ان چند قابل توجہ باتوں کے بعد ہم واپس ان چار ذکر کي طرف پلٹتے ہيں کہ ان ميں کن معني کي طرف توجہ مبذول کرائي گئي ہے۔
سبحان الله
خدا کي تعريف تمام نيکيوں اور اچھائيوں کي تعريف ہے
خدا تمام برائيوں سے پاک و پاکيزہ ہے اور اچھائيوں والا ہے، نا ہي اس کي ذات ايسي ہے کہ کوئي اس کے کاموں ميں اس کا شريک ہو اور نا ہي اس کے کام ظلم پر مبني ہوتے ہيں ۔نا وہ کبھي مخلوق تھا اور نا ہي اس کے کام کبھي حکمت و مصلحت کے خلاف رہے ہيں۔ اسي طرح اس کے تمام نقائص اور خرابيوں سے بھي پاک ہيں اور اسي طرح وہ ان تمام صفات سے جو مخلوقات کے لئے لازمي ہيں ، پاک ہے۔
نمازي جب يہ جملہ ادا کرتا ہے تو وہ اس کي عظمت اور تمام عيوب اور تمام عيوب سے اس کي پاکيزگي کو سمجھتا ہے اور احساس کرتا ہے کہ وہ جس ذات کے مقابل کھڑا ہے کيا عظيم ذات ہے۔۔۔ ! وہ اس قابل ہے کہ اس کي تعريف کي جائے ۔۔ ! وہ عظيم ہے کہ اس کے سامنے سر جھکايا جائے اور اس کي عظمت کا احساس کيا جائے۔
نماز پڑھنے والا احساس کرتا ہے کہ خدا کي تعظيم ہے اور خدا کے سامنے سر جھکانا اور اصل نيکي اور کمال مطلق کے سامنے سرجھکانا ہے۔ اگر کسي ( انسان) کو يہ خيال ہ کہ خداوند عالم کي ذات تمام عيوب سے پاک اور تمام خوبيوں اور نيکيوں والي ہے تو کيا وہ خدا کي عظمت کا احساس کرنے ميں ذلت و حقارت محسوس کرے گا ، ہوسکتا ہے کہ ذلت و حوارت کا تعلق دنيا اور دنيا والوں کي تعريف کرنے سے ہو۔
خدا کي ذات ۔۔۔ تمام اچھائيوں ، خوبيوں اور تمام کمالات کا بحر بيکراں
اسلام نے جو نماز ہميں سکھائي ہے وہ ايک ذات کے سامنے سر جھکانا ہے ، ايسي ذات کي تعريف کرنا ہے جو تمام کمالات ، خوبيوں اور تمام حسن و جمال کا بحر بيکراں ہے کہ جس کا نہ کوئي ساحل ہے اور نا کوئي کنارہ اور نا ہي اس کي گہرائي کا اندازہ لگايا جاسکتا ہے۔ لہذا نماز خدا کي ايسي تعظيم نہيں ہے جيسا کہ دنيا اور دنيا والوں کي تعظيم جو انسان کو ذليل کرديتي ہے اور اس کي عزت و شرافت کو گھٹا ديتي ہے۔ خدا کي تعريف ايسي نہيں ہے جو آدمي کو حقير کردے اور جس کي وجہ سے انسان خواري کا احسا س کرے۔
انسان ہي وہ وجود ہے جو کسي کے حسن و جمال کا بخوبي اندازہ لگاسکتا ہے۔ انسان خود بھي مطلق کمال و جمال کا متلاشي ہے کہ جہاں کہيں ماديت کے صحرا ميں اسے اچھائيوں اور کمالات کا نخلستان ملتا ہے اور اسے حاصل کرنے اور اس سے فائدہ لينے کي کوشش کرتا ہے چنانچہ اس لحاظ سے يہ بات فطري معلوم ہوتي ہے کہ انسان ديکھے کہ ايک ذات ايسي ہے جس ميں تمام کمالات ، اچھائياں ، خوبياں اور جمال بہ درجہ اتم موجود ہيں تو ا سکے سامنے خاک پر اپنا چہرہ رکھ دے اور وہ ذات کہ جس ميں تمام خوبياں اور اچھائياں سو فيصد اپنے عروج پر ہيں ، اس قابل ہے کہ اس کي پرستش اور تعريف کي جائے۔
خدا کي ہي تعريف کرنے سے انسان راہ کمال کو اختيار کرے گا
خدا کي پرستش و تعريف کرنے سے انسان نيکي اور کمال و جمال کي راہ کو اختيار کرنے کي کوشش کرے گا، کمال کو ( اپنے لئے ) اچھا سمجھے گا اور اسے حاصل کرنے کي کوشش کرے گا ، خود بھي حسن و جمال کي تعريف کرے گا اور اپنے اعمال ميں بھي حسن و جمال کے نور کا خواہشمند ہوگا اور حقيقتاً خدا کي پرستش و تعريف کرنا ہي انسان کي زندگي کو کمال و جمال اور نيکي کي راہ اور اس کي اپني منزل کي سمت قرار دے گا۔
مگر کچھ ايسے بھي لوگ ہيں جنہوں نے اسلام ميں نماز اور عبادت کو انسان کي ذلت اور اس کي عزت ميں کمي کے مترادف خيال کيا۔ انہوں نے خدا کي عبادت کو دنيا کي مادي طاقتوں کے سامنے سر جھکانا گردانا۔ وہ خيال نہيں کرتے تھے کہ سر جھکانا کسي مادي ذات کي طرف نہيں ہے بلکہ نيکيوں اور پاکيزگي کے سامنے سرجھکانا اور سر بسجود ہونا ہے۔ لہذا اگر ہم نيکي ، پاکيزگي اور دوسري صفات کے حصول کا جذبہ بيدار ہوگا اور يہي وہ نکتہ ہے کہ جسے ہم کہہ سکتے ہيں کہ سبحان اللہ ۔۔۔ ہميں درس ديتا ہے جسے اوپر بيان کيا گيا ہے۔
والحمد لله
انسان کي جہالت
رنج و الم سے پر تاريخ ميں انسان اپني زندگي کي بعض مختلف حاجات کي وجہ سے اپني زندگي کو چھوٹي سطح اور چھوٹے درجے پر بہتر بنانے کا خواہش مند رہا ہے۔ کبھي ممتاز و مشہور شخصيت بنانے کي خاطر تو کبھي چند روز زيادہ زندہ رہنے کي خاطر حتيٰ کہ اکثر مواقع پر روٹيوں کے چند ٹکڑوں کي خاطر، جو ا سکي زندگي کي بقا کا سبب ہوں۔ انسان اپنے ان دنياوي مقاصد کے لئے دوسروں کي غلامي اور اپني ذلت کو برداشت کرتا رہا جبکہ وہ دوسرے جن کي اس نے غلامي کي ، خلقت ميں اسي جيسے اور اسي کے ہم پلہ تھے۔ ان ميں سے کسي ايک ميں بھي کوئي ايسي قابليت نہيں تھي کہ ان کے سامنے سرجھکايا جاتا مگر انسان چند روزہ زندگي کي خاطر ان کے سلسلے ميں غلطي کا شکار رہا، اپاني زبان سے ان کي تعريف اور شکر گذاري کرتا اور اپنے بدن و روح کو ان کے سامنے سر جھکا کر ذليل کرتا رہا۔
اس نے ايسا اس وجہ سے کيا کہ وہ جہالت ميں مبتلا تھا کہ يہ نعمت ، يہ روٹي ، يہ عزت ، يہ دنياوي عظمت ، يہ عہدہ اور يہ ميري نماياں شخصيت ان بندوں کي مرہون منت ہے اور ان دنياوي نعمتوں کا وجود صرف انہي کے دم سے ہے لہذا اس نے خود کو بدن و روح دونوں کے اعتبار سے ان کے سامنے غلام خيال کيا اور وہ ان مختصر ، فاني اور زوال پذير دنياوي نعمتوں کے حصول کے لئے نعمت کے ( ظاہري) مالک کي غلامي کے لئے تيار ہوجاتا ہے ان کي چمچہ گيري ، چاپلوسي اور خوشامد شروع کرديتا ہے۔
خدا مالک ہے نا کہ يہ مجبور و کمزور لوگ
اس کے مد مقابل ہمارا نماز ميں يہ ياد کرنا کہ تمام تعريفيں اور تمام شکريہ صرف خدا کے لئے ہيں ہميں يہ سمجھاتا ہے کہ تمام چيزيں اور تمام نعمتيں سب خدا کي طرف سے ہيں اور وہي سب کچھ دينے والا ہے۔ خدا کي تعريف کرنا ہميں متوجہ کرتا ہے کہ يہ صرف آنکھوں کا دھوکہ اور دل کا بہلاوا ہے کہ ہم نعمتوں کو دوسروں کي طرف سے قرار دے رہے ہيں مگر حقيقتاً ان ميں سے کوئي بھي اپني کسي بھي چيز کا مالک نہيں۔الحمد للہ ۔۔ ہميں يہ بتاتا ہے کہ تمام مال و نعمت کا مالک خدا ہے ناکہ مجبور لوگ۔ يہ لوگ مال اور نعمت کي وجہ سے انسانوں کو اپنا غلام و اسير بنانا چاہتے ہيں اور انہيں اپنا مطيع و فرمانبردار بنا کر ان سے اپنے احکام کي اطاعت کے خواہشمند ہيں ، يہ انسانوں کو اپنا بندہ بنا کر انہيں اپنے اشاروں پر نچوانا چاہتے ہيں۔
نماز ہم انسانوں کي کمزور روحوں کو ۔۔۔جو تھوڑے اور معمولي مال و دولت کے لئے پريشان رہتي ہيں، دنياوي لذات کي طرف جھکنے والے ہمارے دلوں اور نعمتوں کي طرف ہماري فريفتہ اور عاشق آنکھوں کو يہ سبق ديتي ہے کہ ان دولت مندوں کي تھوڑي سي بخشش و رحمت و عنايت کو کوئي حيثيت نہ دو اور بظاہر جو لوگ تمہيں اور سارے جہان کو پال رہے ہيں وہ کسي حقيقت کے حامل نہيں ہيں لہذا ان کے سامنے غلامي کے لئے سر مت جھکاو۔ يہ کيا چيز ہيں؟ اور يہ کيا حيثيت رکھتے ہيں؟ يہ خدا ہے کہ جس نے يہ سب اسباب پيد اکيے ہيں لہذا اگر وہ تم کو دنياوي نعمات سے محروم رکھيں تو خاموشي مت اختيار کرو ، ان کے ظلم و ستم کو برداشت مت کرو، ان لوگوں نے مال خدا کو ۔۔۔ جو تمہارا حق ہے ۔۔ جمع کيا ہوا ہے ، يہ ظالم و غاصب ہيں اور اس طرح انہوں نے تمہاري روزي کو اپني گرفت ميں ليا ہوا ہے چنانچہ ان کو مالک نا سمجھو اور نا ہي ان کي خوشامد کرو۔