نماز کي گہرائیاں

نماز کي گہرائیاں0%

نماز کي گہرائیاں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

نماز کي گہرائیاں

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اي حفظہ اللہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 7066
ڈاؤنلوڈ: 3315

تبصرے:

نماز کي گہرائیاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 22 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 7066 / ڈاؤنلوڈ: 3315
سائز سائز سائز
نماز کي گہرائیاں

نماز کي گہرائیاں

مؤلف:
اردو

رکوع

نماز پڑھنے والا قرآت کے بعد رکوع ميں چلا جاتا ہے (٢٧) يعني خدا کے سامنے جو انساني فکر کي آخري حدود سے بھي آگے اور بالاتر اور تمام نيک صفات اور عظمتوں کا حامل ہے، اپنے سر کو اس کي تعظيم کے لئے جھکا ديتا ہے۔

رکوع خدا کي قدرت کے سامنے انسان کے خضوع اور اس کے دل ميں خدا کي عظمت کو ظاہر کرتا ہے اور مسلمان چونکہ خدا کو عظيم قدرت سمجھتا ہے تواس کے سامنے رکوع ميں جھک جاتا ہے اور چونکہ وہ کسي کو بھي خدا کے سوا انسانيت سے بلند و بہتر خيال نہيں کرتا ہے لہذا کسي بھي ايک شخص اور کسي بھي چيز کے سامنے اپنے سر کو جھکانے کے لئے تيار نہيں ہوتا ہے، چنانچہ ايسي حالت ميں اپنے بدن کو خدا کے سامنے خضوع يعني جھکانے کي حالت ميں لے آتا ہے اور اپني زبان سے خدا کي حمد اور عظمت کو بيان کرنا ضروري سمجھتا ہے۔

سبحان ربي العظيم وبحمده

پاک و بے عيب ہے ميرا رب جو عظيم ہے اور ميں اس کي تعريف کرتا ہوں۔

يہ عمل کہ جس کے ساتھ ساتھ اس کي زبان بھي حرکت کرتي ہے ۔۔۔۔ نماز پڑھنے والے اور ان تمام لوگوں کو جو اس کي اس حالت کو ديکھتے ہيں کہ يہ انسان کے سامنے خضوع کے ساتھ اپنے سر کو جھکا رہا ہے ، ظاہر کرتا ہ کہ وہ خدا کي بندگي کا اقرار کررہا ہے اور چونکہ وہ خدا کا بندہ ہے لہذا غير خدا کا بندہ نہيں ہے اور حقيتقاً وہ انسان کے سامنے جھک کر واضح طور پر علي الاعلان اپني سعادت و سرفرازي اور دوسروں کي بندگي سے اپني آزادي کا اعلان کرتا ہے۔

سجدہ

پس جب نمازي رکوع سے سر اٹھاتا ہے تو ايسي حالت ميں ہوتا ہے کہ گويا وہ ايسي تعظيم و بندگي کے لئے آمادہ ہے جو پہلے سے بھي زيادہ ذلت کے ساتھ ہو يعني وہ خود کو خاک پر گرادے گا۔

پيشاني کو خاک پر رکھنا انسان کے خضوع اور ذلت کي آخري حد ہے اور انسان کا اس حد تک خضوع يعني ذلت کے ساتھ جھکنا صرف ايک ذات يعني خدا کو عظيم و بزرگ سمجھنے کي وجہ سے ہے۔

خدا کے سامنے سر جھکانا، دراصل تمام اعليٰ صفات، تمام نيکيوں اور تمام حسن و جمال کے سامنے سر جھکانا ہے لہذا انسان اپنے خدا کے سامنے اس طرح سر جھکانے کے بعد کسي بھي انسان اور کسي بھي چيز کے سامنے سر جھکانے کو حرام اور نامناسب سمجھتا ہے کيونکہ وہ يہ جانتا ہے کہ انساني وجود وہ گوہر ناياب ہے جو بازار ہستي ميں سب سے زيادہ قيمتي اور لائق عزت ہے کہ اگر انسان غير خدا کے سامنے سر جھکائے تو نا صرف اس سے انسان کي عزت ختم ہوجاتي ہے بلکہ انسان پستي و ذلت کے تاريک کنويں ميں اپنے آپ کو گرا کر ذلت و خواري کا طوق اپني گردن ميں ڈال ليتا ہے۔

ايسي حالت ميں ۔۔۔ جبکہ وہ اپنے سر کو خاک پر رکھے ہوا ہے۔۔۔ وہ خود کو عظمت خدا ميں غرق ديکھتا ہے۔ اس کي زبان سر جھکي ہوئي حالت ميں انہي خيالات کو ظاہر کرتي ہے اور وہ اپني زبان سے ذکر خدا جاري کرتا ہے جو کہ حقيقت ميں اس کے اسي عمل کي تفسير ہوتاہے۔

سبحان ربي الاعليٰ وبحمده

پاک و بے عيب ہے ميرا رب جو سب سے اعليٰ ہے اور ميں اس کي تعريف کرتا ہوں خداوند عالم جو سب سے برتر و اعليٰ ہے جو تمام نيک صفات کا حامل اور ہر نقص و عيب سے پاک ہے اور تمام ہستيوں ميں تنا وہي ايک ہے جو اس لائق اور قابل ہے کہ انسان زبان سے ا سکي حمد و ستائش بيان کرے اور اس کے سامنے خاک پر اپنے چہرے کو رکھ دے۔

پس نماز کا سجدہ ۔ ۔۔۔۔ جو خاک پر سر رکھنا ہے ۔۔۔۔۔ کسي ايسي ذات کے لئے نہيں ہے جو کمالات کے لحاظ سے ناقص اور کمزور و ضعيف ہے۔ اسي طرح نماز کا سجدہ نا ہي ان بتوں کے لئے ہے کہ جن کے سامنے لوگ اپنے سروں کو جھکا ديتے ہيں اور نا ہي نماز کا سجدہ ان گھٹيا قدرتوں کے لئے ہے جو اندر سے کھوکھلي اور بے حقيقت ہيںبلکہ سجدے ميں خاک پر سر رکھنا دراصل اس کے لئے ہے جو کائنات ميں اعليٰ ترين ، ہر عيب سے پاک اور تمام عظمتوں ، خوبيوں اور کمالات والا ہے۔

نماز پڑھنے والا سجدے ميں سر کو جھکا کر يہ اعلان کرتا ہے کہ وہ خدا حکيم و بصير کا فرمانبردار اور اطاعت گذار ہے اور وہ اپنے اس تسليم ( سر جھکانے) اور حکم خدا کي فرمانبرداري سے خود کو تلقين کرتا ہے اور اپنے دل کو ياد دلاتا ہے اور جيسا کہ اس سے قبل ہم جان چکے ہيں کہ يہ نظريہ کہ عبادت و بندگي صرف اور صرف خدا کے لئے ہو ۔۔۔وہ نظريہ ہے جس کي وجہ سے انسان خود کو تمام انسانوں کي بندگي ، قيد اور ان کي ذلتوں سے ۔۔۔۔ جن ميں وہ ابھي تک گرفتار تھا۔۔۔۔ آزاد کراليتا ہے۔

رکوع اور سجدے کے ان دو ذکر کا سب سے اہم اثر ہے جس کي وجہ سے ہميں اميد کرني چاہئيے ، يہ ہے کہ وہ نماز پڑھنے والے کو يہ درس ديتے ہيں کہ وہ کون سي ذات ہے کہ جس کے سامنے ہميں سر جھکانا ہے ، خضوع اختيار کرنا ہے اور اس کي تعريف کرني ہے اور بندے کا سر جھکانا ، خضوع اختيار کرنا اور خدا کي تعريف بيان کرنا دراصل خدا کے علاوہ تمام طاقتوں کا انکار ہے اور شايد اسي موضوع کي طرف اس حديث ميں اشارہ کيا گيا ہے کہ جس ميں امام نے ارشاد فرمايا کہ :

انسان کي خدا سے سب سے نزديک حالت ۔۔۔ حالت سجدہ ہے۔

تشہد

ہر نماز کي دوسري اور آخري رکعت ميں جب نمازي دو سجدوں کے بعد سر اٹھا کر بيٹھتا ہے تو ا س حالت ميں تين جملوں کو اپني زبان سے ادا کرتا ہے جو دين کے حقائق اور عظمتوں کي ترجماني کرتے ہيں۔ نمازي کا يہ عمل کہ جس ميں اس کا بولنا بھي شامل ہے ، ہم اسے تشہد ( گواہي) کا نام ديتے ہيں۔

اشهد ان لا اله الاالله

ميں گواہي ديتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئي اور معبود نہيں ہے۔

اور پھر اس حقيقت کو بطور تاکيد ادا کرتا ہے۔

وحده ۔۔۔ صرف وہ ہے ( کائنات کا خدا)

دوبارہ اور طريقے سے اپني زبان کے ذريعے اس حقيقت کي تکرار کرتا ہے۔

لا شريک له ۔ ۔۔ اسکي خدائي ميں اس کے ساتھ کوئي نہيں ہے۔

ہر وہ آدمي اور ہر وہ چيز جو انسان کو اپني بندگي کي طرف کھينچتي ہے اور وہ ذات کہ جس کے احکام کي انسان اطاعت کرتا ہے ۔۔۔ اس کا معبود ( الہ ) ہے ۔۔۔ خود وہ خواہشات کي اطاعت ہو يا حيواني ميلانات کي ، شہوات کي اطاعت ہو يا لالچ کے پيچھے بھاگنا ہو غرض وہي انسان کا معبود ہوگا جس کے پيچھے انسان ہے اور جس کے احکام کي انسان اطاعت کرتا ہے۔

کسي معاشرے يا نظام کو چلانے کے لئے ان کے قوانين بنانے والے اور بڑے لوگوں نے دوسرے چھوٹے انسانوں کو مجبور کيا کہ وہ ان کي خدمت کريں اور جس بہانے سے بھي عوام الناس کو مجبور کيا يہ سب الوہيت کي ہي شکل ہے۔

تشہد خدا کے علاوہ تمام طاقتوں کي نفي ہے

تشہد ميں لا الہ الا اللہ کہنا دراصل اس قسم کے تمام احکامات کي پيروي سے انکار ہے۔ تشہد گواہي دينا ہے اور نماز پڑھنے والا تمام طاقتوں کي نفي کرتے ہوئے گواہي ديتا ہے کہ وہ صرف خدا کے احکام کي پيروي کرنے والا ہے يعني نماز پڑھنے والا صرف اس بات کو قبول کرتا ہے اور صرف اس ذمہ داري کو اپنے کاندھوں پر اٹھاتا ہے کہ صرف خدائے اور واحد يکتا ہے جسے يہ حق حاصل ہے کہ وہ حکم جاري کرے اور انسان صرف اسي کے سامنے سر جھکائے۔

لہذا جس شخص نے يہ نظريہ قبول کرليا تو اسے يہ حق حاصل نہيں ہے کہ وہ کسي دوسرے موجود ۔۔۔ خواہ وہ کوئي بھي ہو ، کتنا ہي بڑا انسان کيوں نہ ہو، حيوان ہو يا فرشتہ ، جمادات ہوں يا پھر اس کے نفس کي خواہشات و شہوت ۔۔۔۔ کي بندگي اور حکم کو قبول کرے اور نا ہي اسے يہ حق حاصل ہے کہ اپنے بدن کو ان کي اطاعت ميں جھکا دے ليکن اس بيان کا يہ مطلب نہيں ہے کہ خدا کا ماننے والا اور اطاعت گذار معاشرے ميں کسي اجتماعي نظام کا قائل نہيں ہے يا وہ کسي کے حکم کو قبول نہيں کرتا ہے۔ کيوں؟

اس لئے کہ يہ بات تو واضح ہے کہ انسان کو لوگوں کے ساتھ مل جل کر اجتماعي طور پر زندہ رہنا ہے تو اس کے لئے ضروري ہے کہ آپس ميں کچھ عہد و پيمان ہوں اور کچھ نظاموں اور اصول و قوانين کي پيروي ہو ۔ مسلمان ہونے کا يہ مطلب نہيں ہے کہ وہ کسي قسم کے اجتماعي اصول و قوانين کو خاطر ميں نہيں لائے گا بلکہ اس کے معني يہ ہيں کہ وہ کسي ايسے حکم يا نظام کو جو خدا کے فرمان کے مطابق نہ ہو۔۔۔ نا ہي قبول کرے گا اور نا ہي اسے اپنے اوپر مسلط کرے گا۔ مسلمان ہونے کا مطلب يہ ہے کہ وہ اپني شخصي و اجتماعي زندگي ميں صرف خدا کے احکام کي پيروي کرنے والا ہوگا۔

چنانچہ ايسے بہت سے احکام جو خداوند عالم نے جاري کيے ہيں اور لوگوں کے درميان رہن سہن کے جو اصول وضع کيے ہيں، ان کے لحاظ سے بھي ضروري ہے کہ کچھ ايسے لوگ ہوں جن کي اطاعت کي جائے اور معاشرے ميں رائج قوانين کي پابندہ ہو لہذا خدا کا ماننے والا اس سوسائٹي کے انہي قوانين کي پيروي کرے گا۔ فرق صرف يہ ہے کہ وہ سوسائٹي کے جن احکام کي اطاعت کررہا ہے وہ اس وجہ سے نہيں ہے کہ ان لوگوں کي خواہشات نفس ہيں يا ان کے سرکش نفسوں نے اپني مرضي اور جي چاہنے کي بنا پر جو قانون بناديا ہے اسے اس نے قبول کرليا ہے ۔ وہ کيوں قبول نہ کرے۔۔۔۔۔؟

اس لئے کہ يہ سب قوانين اور نظام تو اس کے جيسے لوگوں کے بنائے ہوئے ہيں بلکہ مسلمان تو حقيقتاً ان قوانين کي اطاعت و فرمانبرداري کرتا ہے جو خدائے حکيم و بصير نے اپنے ارادے سے مقرر کيے ہيں کيونکہ صرف خدا ہي جو يہ جانتا ہے کہ معاشرے کي فلاح و بہبود کے لئے کون سا قانون ضروري ہے، معاشرے کي کيا حاجات ہيں اور خدا ہي مقرر کرتا ہے کہ کون لوگ ہيں جو قابل حکومت و اطاعت ہيں اور يہ خدا کے مقرر کردہ لوگ بھي خدا ہي کے بيان کردہ احکامات کو اس کے بندوں کے درميان رائج کريں گے۔

قرآن کي يہ آيت اسي حقيقت کي طرف اشارہ کرتي ہے۔

اطيعوا الله واطيعوا الرسول واولي الامر منکم

اطاعت کرو اللہ کي اور ا س کے رسول کي اور ان کي جو تم ميں اولي الامر ہيں۔

خدا کي اطاعت ، اس کے رسول کي اطاعت اور ان لوگوں کي اطاعت جن کو خداوند عالم نے تمہارے درميان مقرر کيا ہے اور جو صاحبان حکم ہيں ۔۔۔۔ انہي کي اطاعت کا حکم ديا گيا ہے اور شايد اسي حقيقت کو ديکھتے ہوئے نمازي تشہد کا دوسرا جملہ کہتا ہے

واشهد ان محمدا عبده ورسوله

اور ميں گواہي ديتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کا پيغام لانے والے ہيں۔

يہ قبول کرنا کہ محمد اللہ کا پيغام لانے والے ہيں ۔۔۔ دراصل ان معني ميں يہ قبول کرنا ہے کہ وہي خدا کے نمائندے اور خليفہ نہيں با الفاظ ديگر اگر ہم راہ خدا کے متلاشي ہيں تو ہميں راہ محمد کو ديکھنا ہوگا اور خدا کے احکام و فرمان کو خدا کے اس برگزيدہ بندے سے لينا ہوگا۔

خدا کے ماننے والوں ميں اکثريت ايسے لوگوں کي ہے جنہوں نے خدا کے پسنديدہ راستے کو پہچاننے ميں غلطي کي ہے لہذا تشہد ميں يہ بيان کرنا کہ محمد خدا کا پيغام لانے والے ہيں ۔۔ انسانوں کي تلاش و حرکت کا رخ مقرر کرتا ہے لہذا خدا پرست انسان کو چاہئيے کہ اپني زندگي کو رسول اسلام کے بيان کردہ احکامات کے مطابق گذارے تاکہ اس کا خدا پرستي کا دعويٰ صحيح ثابت ہو۔

اس جملے ميں ہم ديکھتے ہيں کہ حضرت محمد کي بندگي کي طرف توجہ دي گئي ہے اور اسي لئے اس پہلے کلمے ميں ’’ عبدہ ‘‘ پہلے ہے اور ’’ رسولہ ‘‘ بعد ميں۔ يعني پہلے بندگي ہے اور بعد ميں رسالت گويا اس کے ذريعے سے يہ چاہا گيا ہے کہ اسلام کي عظيم الشان صفت کو متعارف کرايا جائے اور حقيقت بھي يہي ہے کہ انسان کي عظمت کمال اور فضيلت کا خلاصہ اس چيز ميں پنہاں ہے کہ وہ خدا کي بندگي کرے اور بندگي کے رشتے کو خلوص کي بنيادوں پر قائم کرے اور وہ انسان جو ميدان بندگي خدا مي سب سے آگے ہے، انسانيت کے درجات کے لحاظ سے بھي اس کا درجہ بہت بلند ہے۔

جو شخص يہ جانتا ہو کہ خدا کي بندگي کا مفہوم کيا ہے چنانچہ اس کے لئے پيغمبر کے بارے ميں بيان کئے گئے ارشاد کو سمجھنے کي ضرورت نہيں ہے۔ اگر انسان يہ خيال کرے کہ خدا کي بندگي کا مطلب يہ ہے کہ ميں اس ذات کے سامنے کہ جس کے تمام کام حکمت سے پر ہيں ، جو صاحب بصيرت ہے ، وہ جو کچھ ہمارے لئے کررہا ہے وہ سب کا سب رحمت ہے اور اس کي ذات خوبيوں والي ہے۔۔۔ خضوع اختيار کروں ، اس کے سامنے اپنے دل کو جھکادوں اور اس کے ساتھ ساتھ خواہش نفس کي اطاعت اور غيروں کي غلامي سے خود کو آزاد کرنا ہي اگر بندگي خدا کے معني ہيں تو پھر دنيا ميں اس سے بڑھ کر اور کون سي قدر و قيمت والي بات پائي جاتي ہے اور حقيقت بھي يہي ہے کہ دنيا ميں جو برائياں نظر آتي ہيں ، لوگ جن پستيوں ميں پڑے ہوئے ہيں ، لوگوں کے دلوں ميں جن شقاوتوں اور اخلاق رذيلہ نے گھر کيا ہوا ہے اور انسان کي زندگي ميں آنے والي تاريکيوں کي اصل اور بنيادي وجہ يہي ہے کہ انسان اپني خواہش نفس کي غلامي کرتا ہے يا اس قسم کے دعوے کرنے والے انسانوں کي سرکشي اور طغياني کي اطاعت کرتا ہے۔چنانچہ اگر انسان يہ اعلان کرے کہ وہ صرف خدا کي بندگي کرے گا تو اس کا مطلب يہ ہے کہ اس نے نفس اور دوسروں کي بندگي کو يکسر مسترد کرديا اور دل ميں اٹھنے والے جذبات کو جلا کر خاک کرديا۔

تشہد کے ان دو جملوں ميں ايک بہت ہي عمدہ ، قابل توجہ اور باريک نکتہ يہ ہے کہ نماز پڑھنے والا توحيد اور نبوت کا اقرار ايک ہي گواہي کرتا ہے اور خدا کي توحيد اور محمد کي بندگي و رسالت کي شہادت ديتا ہے۔

اس کي يہ گواہي حقيقت ميں اس معني ميں ہے کہ ميں خدا کي عبادت اور محمد کے تمام پيغاموں کو قبول کررہا ہوں۔ اس عقيدے کا مقصد اپنے کاندھوں پر ذمہ داري لينا ہے ۔ گويا نماز پڑھنے والا گواہي دينے کے ساتھ ساتھ يہ چاہتا ہے کہ ميں ان تمام ذمہ داريوں کے سامنے ۔۔۔۔۔ جو مجھ پر ان دو عقيدوں ( يعني توحيد و نبوت) کي وجہ سے عائد ہوتي ہيں ۔۔۔۔ اپني گردن جھکادوں۔

تشہد کا مطلب صرف علم حاصل کرنا نہيں ہے کہ جس کے ساتھ کوئي عمل نہ ہو، ايسا علم کہ جس کے ساتھ کوئي ذمہ داري اور عہد و پيمان نہ ہو(بے کار ہے) ور نا ہي تشہد ايسا يقين ہے کہ جس کے نتيجے ميں کوئي عمل اور جدوجہد نہ ہو۔ ايسے عقيدوں اور علم و يقين کي اسلام ميں کوئي قدر و قيمت نہيں ہے۔

يہ گواہي دينا کہ ميں خدا کي عبادت کرنے والا اور محمد کے ذريعے اس کے پيغامات کو ( دل و جان سے) قبول کرنے والا ہوں اور اس ذيل ميں تمام عہد و پيمان کو قبول کرتا ہوں تاکہ ميں ان حقائق کے ذريعے سے کامياب ہوجاوں۔ پس ہم کہہ سکتے ہيں کہ نماز ميں تشہد کا ادا کرنا دراصل خدا سے کيے گئے عہد و پيمان کي تجديد کرنا ہے کہ جسے نمازي خدا ور اس کے رسول کے ساتھ کرتا ہے۔ اس کے بعد تشہد کا تيسرا اور آخري جملہ ہے جو خدا سے درخواست اور اس کي بارگاہ ميں دعا پر مشتمل ہے۔

درود

اللهم صلي علي محمد واٰل محمد

خداوندا ۔۔۔ درود بھيج محمد اور خاندان محمد پر

محمد اور ان کا پاک اور طاہر خاندان ۔۔ خدا رحمتيں ان پر ہوں ۔۔۔۔ مکتب اسلام کا کامل اور اعليٰ ترين نمونہ ہيں۔ نماز پڑھنے والا اپني دعا کي زبان ميں ان اعليٰ نمونوں ، بہترين شخصيات اور مشعل راہ افراد کي ياد کو اپنے دل ميں تازہ کرتا ہے اور ان پر درود بھيج کر ان سے اپنا روحاني رشتہ استوار کرتا ہے۔

کامل نمونوں کا ہونا ضروري ہے

زندگي بسر کرنے والے اور کسي دوسرے مکتب پر عمل کرنے والے لوگوں کے لئے اس مکتب کے مطابق اگر اعليٰ اور کامل ترين نمونہ ہو اور وہ کسي شخصيت کو اپنے مکتب کے نظريے پر عمل پيرا نہ ديکھيں تو اس بات کا قوي امکان ہے کہ وہ عمل کے وقت غلط سمت ميں قدم اٹھائيں اور نتيجے ميں اپني راہ سے بھٹک جائيں اور يہي وجہ ہے کہ خدا کے راستے پر خدا کي بندگي کرنے والے لوگ اور انبيائ کے نظريے ہر زمانے ميں موجود رہے ہيں۔ ہر دور ميں جب انبيائ خدائي مکتب کا پيغام لے کر آئے تو انہوں نے عوام کے سامنے اعليٰ نمونوں کو پيش کيا اور اسي وجہ سے انبيائ کا پيش کردہ نظريہ حيات باقي اور محفوظ رہا۔

تاريخ ميں ايسے صاحبان عقل کثرت کے ساتھ مليں گے جن کي کوشش فقط يہ تھي کہ وہ انسانوں کي زندگي اور ان کي سعادت و خوش قسمتي کے لئے نقشے بنائيں، پروگرام مرتب کريں اور مدينہ فاضلہ ، ۔۔۔۔۔ کہ جو امن و امان کا شہر ہے ۔۔۔۔۔ کا تصور پيش کريں چنانچہ انہوں نے اس مقصد کے لئے کتابيں لکھيں ليکن پيغمبر کا طور طريقہ اور تھا انہوں نے دوسرے لوگوں کي طرح بحث اور فلسفيانہ خيالات کو نہيں چھيڑا بلکہ اپنے نظريے کو عملي طور سے پيش کيا ، خود اس پر عمل کيا اور اپنے نظريے پر عمل پيرا لوگوں کے ذريعے معاشروں اور سوسائٹي کے لئے افراد تيار کئے اور يہي وجہ ہے کہ پيغمبروں کا مکتب اور ان کا نظريہ ہر زمانے ميں زندہ رہا جبکہ عقلمند لوگوں اور فلسفيوں نے زندگي اور عظمت انساني کے جو فارمولے اور نظام تيار کئے ہيں وہ صرف کتابوں کے اوراق ميں ہي باقي رہے۔

نماز پڑھنے والا محمد اور ان کي آل کے لئے ۔۔۔ جو مکتب اسلام کے منتخب ترين نمونے اور روشن و درخشاں ستارے ہيں ۔۔۔۔ دل سے دعا کرتا ہے کہ جنہوں نے اپني مختصر سي زندگي مکتب اسلام کے قوانين کے مطابق بسر کي اور لوگوں کو بتايا کہ اسلامي نظريہ ميں اعليٰ درجے کا انسان کيسا ہوتا ہے؟

نمازي کي خواہش

نماز پڑھنے والا ان لوگوں کے لئے درود بھيجتا ہے اور ان کے لئے خدا سے درخواست کرتا ہے اور يہ خواہش کرتا ہے کہ ان اعليٰ ترين اور منتخب نمونوں يعني محمد و آل محمد سے اس کا روحاني رشتہ قائم ہوجائے کيونکہ يہ روحاني رشتہ اعليٰ کمالات کي طرف کشش کا سبب ہوگا۔ يہ طاقتور کشش ۔۔۔۔۔ اس راستے اور اس مقصد کي طرف جس راہ پر انہوں نے قدم بڑھايا اور جس سمت انہوں نے پيش قدمي کي۔۔۔۔۔ اسے بھي کھينچے اور اس کا ان پاکيزہ ترين افراد سے روحاني رشتہ اور قلبي لگاو اور زيادہ مستحکم ، مضبوط اور گہرا ہو۔

لہذا محمد و آل محمد پر درو د بھيجنے کا مقصد يہ ہے کہ نماز پڑھنے والا ان پاک و پاکيزہ ہستيوں کي طرف متوجہ ہو جو اسلام کے منتخب وجود اور اعليٰ ترين نمونے ہيں اور ان عظيم شخصيات کو اپنے سامنے لا کر اور انہيں ياد کرنے کي وجہ سے ہوسکتا ہے کہ ايک مسلمان اس راستے کو پہچانتا ہو رہے کہ جس راستے پر ان عظيم افراد نے قدم اٹھائے تاکہ وہ اس طرح عمل کے لئے جدوجہد پر آمادہ رہے۔

سلام

نماز ميں تشہد کے ساتھ ساتھ تين اور درود يعني سلام ہيں البتہ يہ سلام خدا اور اس کے نام کي ياد کے ساتھ ادا کئے جاتے ہيں (٣١)۔ پس معلوم ہوتا ہے نماز خدا کے نام سے شروع ہوتي ہے اور خدا ہي کے نام پر اپنے انجام و اختتام تک پہنچتي ہے اور اس ميں شروع سے آخر تک مسلسل خدا کا نام ليا جاتا اور اسے ياد کيا جاتا ہے۔ اگر کسي جملے يا ذکر ميں پيغمبر يا ان کے خاندان کا تذکرہ ہے تو وہ بھي خدا کي ياد اور اس سے دعا کے ساتھ ہوتا ہے کہ خداوند ا ۔۔۔۔ ان پر اپني لطف و رحمت نازل فرما۔

سلام ميں پہلا جملہ نماز پڑھنے والے کي طرف سے درود ہے خدا کا پيغمبر پر اور خدا سے اس کے بندے کے لئے طلب رحمت ہے جو خدا کا عظيم اور برگزيدہ بند ہ ہے۔

السلام عليک ايها النبي و رحمة الله و برکاة

درود ( سلام )ہو آ پ پر اے پيغمبر اور خدا کي رحمتيں اور برکتيں آپ پر ہوں۔

خدا کے رسول کا اعلان حق

پيغمبر اسلام ۔۔۔۔ اسلام کے بنياد گذار يعني اسلام کے مقصد عظيم کو دنيا ميں رائج کرنے والے ہيں اور اس وقت نماز پڑھنے والا اس کام ميں اپنے آپ کو داخل خيال کرتا ہے کہ جس کام کے لئے انہوں نے قدم اٹھايا اور جس کام کي حضور نے بنياد ڈالي يعني توحيد کے اعلان حق کو انہوں نے باآواز بلند لوگوں کے سامنے پيش کيا اور اس کے ذريعے پوري دنيا کو ہلا ڈالا اور انہوں نے انسان کي بہترين زندگي کے نظام اور اصول و قوانين کو ہميشہ کے لئے زمانے ميں نافذ کرديا۔

يہ پيغمبر ہي تھے کہ جنہوں نے انسان اور معاشرے کے حقيقي چہرے کو ہم سے متعارف کرايا کہ جسے دين کے مطابق ہونا چاہئيے۔ ايسا معاشرہ کہ جس ميں اسلامي نظريات کے مطابق انسان تيار ہوں چنانچہ نماز پڑھنے والا انہي اعلان و شعار کو اپني نماز ميں کچھ درس اور راہنمائيوں کے ساتھ بيان کرتا ہے کہ جنہيں وہ اپني زندگي اور اپنے زمانے ميں عملي کرنا چاہتا ہے اور وہ اس بات کا بھي خواہش مند ہوتا ہے کہ وہ ايسا قدم اٹھائے جو ايک بے مثال و اعليٰ ترين معاشرے کے قيام اور انسان سازي کے لئے ہو۔

پس يہ بے موقع نہيں ہے کہ اس نماز کے آخر ميں اپنے پيغمبر و پيشوا کو ۔۔۔ جس نے خود اسے دين پر عمل کے لئے آمادہ کيا اوراس راہ پر اس کي راہنمائي کي ۔۔۔۔ سلام سے ياد کرے اور اپني زبان سے اپنے پيغمبر کي راہ اور ان کے ساتھ ہونے کا اعلان کرے کہ وہ اپنے رہبر کے راستے پر ہے۔

نماز پڑھنے والا دوسرے جملے ميں خود اپنے اپنے ساتھيوں اور خدا کے تمام نيک بندوں پر سلام و درود بھيجتا ہے۔

السلام علينا و عليٰ عباد الله الصالحين

سلام ہو ہم پر اور اللہ کے تمام نيک بندوں پر۔

نماز پڑھنے والا يہ سلام بھيج کر نيک بندوں کو اپنے دل ميں ياد کرتا ہے کيونکہ ان کي ياد اس کے دل کو گرمانے کا سبب بنتي ہے۔

دنيا کي ظاہري چمک اور اس کي حقيقت

يہ دنيا کہ جہاں ہر طرف گناہ کے جلوے ہيں ، پستي ، گھٹيا پن ، چھوٹي چھوٹي مادي باتيں ہيں ، ظلم و ستم ، نجاستيں ، برائياں ، بدياں اور ظلمت و تاريکياں چاروں جانب سے دنيا کو گھيرے ہوئے ہيں اور تمام لوگ انہي برائيوں ميں غرق ہيں ۔۔۔ ايسے ماحول ميں ايک ہوشيار اور صاحب دانش کي دور انديش نگاہيں اسے خبردار کردينگي کہ ہر طرف انسانيت کا افلاس ہے ، انسانيت ختم ہوچکي ہے اور تم دنيا ميں جو چمک دمک ديکھ رہے ہو اور جو ظاہري خوشنما رنگ تمہيں نظر آرہا ہے اس کے پيچھے صرف انسانيت کي پستياں ، ذلتيں ، نجاستيں ، خرابياں ، برائياں اور سياہياں اپنے تمام ساز و سامان کے ساتھ اپنے عروج پر ہيں۔

نمازي اس بات کي اچھي طرح مشاہدہ کرتا ہے کہ اس دنيا ميں حق کو طلب کرنے والے اور انسانيت کي اصلاح و بہبود کے بلند و بانگ دعوے کرنے والے بکثرت موجود ہيں ليکن يہ دعوے کرنے والے اپنے ان دعوں کے ذريعے اپني اور اپني دنيا کي حقيقت کو چھپا نہيں سکتے کيونکہ حقيقت بڑي ذلت والي ہے کہ سب ہي نفس پرست اور دنياوي شان و شوکت کے طلبگار ہيں ۔ يہ سب وہ جگہ ہے کہ جسے امام علي ، امام حسين اور امام جعفر صادق نے خالي کرديا اور اب صرف شور و غل کرنے والے اور عوام کو دھوکہ دينے والے معاويہ ، يزيد اور منصور دوانيقي جيسے موجود ہيں۔

مختصر يہ کہ يہ زمانہ ايسا ہے کہ جہاں شيطان کے اطاعت گذار لوگ ايسے مقامات پر ہيں جہاں خدا کے نيک بندوں کو ہونا چاہئيے تھا۔ پھر بھلا ايسے برے زمانے ميں ايسا کيونکہ ہوسکتا ہے کہ انسان کسي نيکي ، بھلائي اور کسي حقيقت کي طرف توجہ کرے اور ايسا کيونکہ ممکن ہے کہ انسان اس انتظار ميں رہے کہ بھلائي کا ماحول پيدا ہوگا۔ ايسا زمانہ جس کے حالات ابھي بيان کئے گئے کہ ہم صرف انتظار ہي کرسکتے ہيں کہ ہر طرف گناہ ہوں گے، نجاستيں ہوں گي، ناکامياں ہوں گي اور ہر طرف لوگوں کا حق چھينا جارہا ہوگا۔ ان تمام باتوں اور کاموں کے علاوہ ہم اور اميد بھي کيا کرسکتے ہيں اگر ہم کوشش بھي کريں تم ہم آساني کے ساتھ بھي ( اميد) نہيں کرسکتے۔

خدا کے نيک بندے ۔۔۔۔۔۔ اميد کي کرن

چنانچہ ايسے برے ماحول ميں يہ کہنا کہ سلام ہو تم پر اے خدا کے نيک بندوں ، خدا کے نيک بندوں کو ( خدا کي اجازت سے) ہمراہي اور امداد کے لئے پکارنا افسردہ اور مردہ دلوں کو تسلي اور نويد مسرت ديتا ہے۔ گويا سلام ہو تم پر اے خدا کے نيک بندوں ۔۔ کہنا درحقيقت ہمارے قلوب کي تاريکي ميں اميد کي کرن ہے جو ہماري دل کي تاريکي کو يہ خوشخبري ديتي ہے کہ افسردہ مت ہو ، تاريکي سے مت گھبراو ۔۔۔ ابھي روشني باقي ہے، ابھي سپيدي سحر ہے جو تاريکيوں اور ظلمتوں کے بادلوں کو چھاٹ ديني والي ہے۔

نماز ميں يہ کہنا کہ سلام ہو تم پر اے خدا کے نيک بندوں ۔۔۔۔ نمازي کو متوجہ کرتا ہے کہ يہ دنيا نيک اور اچھے لوگوں سے خالي نہيں ہے بلکہ اس دنيا ميں تمہارے يار دوست اور تمہارے ساتھ محاذ پر جا کر کام اور جدوجہد کرنے والے موجود ہيں اور حقيقتاً اس جملے سے نمازي کے دل ميں اميد کي کرنيں پھوٹتي ہيں۔ يہ جملہ نمازي کي ہمت باندھتا ہے ، اس کي کمر کستا اور اس کے دل کو قوي و توانا کرتا ہے کہ تم تنہا نہيں ہو بلکہ تمہارے ساتھ اور بھي نيک بندے ہيں ، دنيا کے اس بياباں صحرا اور خشک ويرانے ميں ايسے ہرے بھرے درخت اور نخلستان موجود ہيں جو پھل بھي دينے والے ہيں اور دير تک تمہارا ساتھ بھي دينے والے ہيں۔

خدا کي سنت ۔۔۔۔۔ نيک لوگوں کا وجود

چنانچہ تاريخ ميں ہميشہ ايسے معاشرے اور سوسائٹياں ، جو تباہ ہوچکي تھيں ۔۔۔ سے ايسے افراد پيدا ہوئے جن کا ارادہ قوي اور مستحکم تھا اور وہ اعليٰ شخصيات کے مالک تھے۔ يہ افراد زمانے کو اچھا بنانے کا ذريعہ بنے ، انہوں نے ويران زندگي کو ہرا بھرا اور شاندار بنايا اور انقلاب سے ( معاشرے کي) کايا پلٹ دي۔ لہذا نماز پڑھنے والا اس وقت يہ خيال کرتا ہے کہ تاريخ ميں خدا کي ہميشہ يہ سنت رہي ہے کہ اچھے لوگ پيدا ہوں لہذا ايسے ہي لوگ جو نوراني طاقتوں کے مالک اور نيکيوں کو فروغ دينے والے ہيں اس تاريک دنيا ميں موجود ہيں ، وہ کام کررہے ہيں ، اپني جدوجہد جاري رکھے ہوئے ہيں اور صحيح راستے کي تلاش ميں ہيں يعني خدا کے نيک بندے خدا کي بندگي کے ساتھ ساتھ اس کے فرمان پر بھي عمل کرنے والے اور دنيا کي طاغوتي اور سرکش طاقتوں سے حالت جہاد ميں ہيں۔ ليکن ہميں سوچنا چاہئيے کہ ايسے لائق اور نيک بندے کہاں ہيں اور کيا ہميں ان کي زندگي سے سبق حاصل کرنا چاہئيے اور کيا ان کے قدم سے ملا کر چلنا چاہئيے ؟ کيوں نہيں ۔۔۔۔ ضرور!

لہذا نماز پڑھنے والا اللہ کے نيک بندوں پر سلام بھيج کر خود کو انہي ميں سے قرار ديتا ہے اور ان کے ساتھ خود کو قابل سلام سمجھتا ہے اور ايک جملے ميں خود اپنے اوپر ان نيک بندوں پر سلام بھيجتا ہے تو اس ميں غرور و سرور بلندي کي کيفيت پيدا ہوتي ہے اور اس کے دل ميں يہ اطمينان پيدا ہوتا ہے کہ اس کاروبار حيات ميں جہاں ہر طرف گندگي ، نجاست اور تاريکياں ہيں ۔۔۔۔ ميں تنہا نہيں ہوں بلکہ ميرے ساتھ اللہ کے نيک بندے بھي ہيں اور اس سلام کے بعد دل سے اس کي يہ خواہش ہوتي ہے کہ وہ واقعتاً ان کا ساتھي بن جائے، خود کو انہي ميں سے قرار دے۔ ان کے ساتھ مل کر اس دنيا کي گندگي اور نجاست کو دور کرنے کي کوشش کرے اور اس خيال کے ساتھ کہ وہ ان نيک بندوں کے ساتھ مل کر اس دنيا کي اصلاح و درستگي کي جدوجہد ميں شامل نہيں ہوسکے گا۔۔۔۔۔ احساس شرم کرتا ہے اور اسي شرم کے احساس کي وجہ سے اس ميں ايک ہمت پيدا ہوتي ہے اور ذمہ داري اور مسؤليت کو نبھانے کا جذبہ پيدا ہوتا ہے۔

نيک کون ہے ؟

يہ خدا کے نيک بندے کيسے ہيں اور ہم کس چيز کو ’’ صالح‘‘ کہتے ہيں کہ ۔ ۔۔۔ ’’ عباد اللہ الصالحين ‘‘ ۔۔۔۔ صالح اور نيک ہونے کا مطلب يہ نہيں ہے کہ وہ صرف نماز پڑھنے والا ہوگا بلکہ نيک وہ ہے جو خدا کي طرف سے اپنے اوپر عائد کردہ ذمہ داريوں اور مسؤليت کو قبول کرنے کے لئے تيار ہو اور ان ذمہ داريوں کو احسن طريقے سے نبھانے کے لئے ايسے اعمال انجام دے کہ اس کے لئے کہا جائے کہ وہ واقعتا خدا کا نيک بندہ ہے اور خدا کا نيک بندہ ہونا بھي اس کے نام کے لئے مناسب ہو ۔ اسي طريقے سے جيسے ايک جماعت ( کلاس) ميں کچھ خاص طالب علم ہوتا ہيں جن کے لئے کہا جاتا ہے کہ يہ واقعتا طالب علم ہيں۔

آخري اور تيسرے جملے ميں نماز پڑھنے والا انہي نيک بندوں ( يا اپنے ساتھ نماز پڑھنے والوں کے ہمراہ فرشتوں) کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ

السلام عليکم ورحمة الله وبرکاته

سلام ہو تم پر اور خدا کي رحمتيں اور برکتيں ہوں

چنانچہ اس آخري سلام کے ذريعے سے وہ ايک اور مرتبہ صلاح ( لايق ہونے) اور نيک ہونے کو ياد کرتا ہے اور اس سلام ميں نيک بندوں يا نمازيوں جيسے دوسرے عزت والے لوگوں کو جو خدا کي بارگاہ ميں قرب کي منزل پر ہيں ياد کرتا ہے اور اس ياد کے ساتھ ختم کرتا ہے۔

فہرست

خصوصي مقدمہ ۴

١۔ خدا وند عظيم کي صفات ۔ ۴

٢۔ يہ حقيقت واضح ہوني چاہئيے ۴

آخرت کا راستہ باريک اور انسانيت کا طريقہ حديد ( سخت ) ہے۔ ۹

نماز ۔۔ بندے اور خدا کے درميان رابطہ ۱۱

انسان کے کمال کا راستہ ۱۱

ياد خدا ۱۳

نماز انسان کو بيدار کرتي ہے ۱۵

نماز تمام کمالات الہي کا مجموعہ ہے ۱۶

اصول و قوانين کي تکرار ذہنوں ميں ان کي پختگي کا سبب ہوتي ہے ۱۶

نماز مکتب اسلام کے اصولوں کا خلاصہ ۱۷

نماز تار يکي و ظلمت ميں نور الہي ہے ۱۷

نماز کو قائم کرنا پڑھنے سے زيادہ اہميت ک حامل ہے ۱۹

نيکي کے خلاف شيطان کي جنگ جاري ہے ۲۰

رسول اللہ اور نماز ۲۲

ابتدائي نماز ۲۲

اللہ اکبر ۔۔۔۔ خدا سب سے بزرگ ہے ۲۲

سورہ حمد ۲۴

خدا عالمين کا پالنے والا اور انہيں کمال تک پہنچانے والا ہے ۲۵

رحمت عام اور رحمت خاص ۲۶

خدا پرست اور مادہ پرست ۲۸

خدا عالم و عادل ہے ۲۹

غير خدا کي بندگي سے انکار ۳۰

باطل نظريہ ۳۱

جھوٹے خدا ہماري کيونکر امداد کرسکتے ہيں؟ ۳۳

ہدايت انسان کي سب سے بڑي حاجت ۳۳

ہدايت کا حصول نجات کي علامت ہے ۳۴

حقيقي نعمت ۳۵

صاحبان نعمت کون ہيں؟ ۳۵

خدا کا غضب کن پر نازل ہوا؟ ۳۵

تاريخ کي واضح حقيقت ۳۶

گمراہوں اور بے وقوفوں کا راستہ ۳۷

سورہ حمد قرآن کا آغاز تھي يعني فاتحہ الکتاب ۳۸

قرآن کا ابتدائيہ سورہ حمد ۳۸

سورہ توحيد ۳۹

خد اکسي کا محتاج نہيں ۴۰

ہمارے اور خدا کے درميان بندگي اور ربوبيت کا رشتہ ہے ۴۱

اس کا وجود کسي سے نہيں ہے ۴۱

کائنات کا کوئي وجود اس کي برابري کي اہليت نہيں رکھتا ۴۲