رکوع
نماز پڑھنے والا قرآت کے بعد رکوع ميں چلا جاتا ہے (٢٧) يعني خدا کے سامنے جو انساني فکر کي آخري حدود سے بھي آگے اور بالاتر اور تمام نيک صفات اور عظمتوں کا حامل ہے، اپنے سر کو اس کي تعظيم کے لئے جھکا ديتا ہے۔
رکوع خدا کي قدرت کے سامنے انسان کے خضوع اور اس کے دل ميں خدا کي عظمت کو ظاہر کرتا ہے اور مسلمان چونکہ خدا کو عظيم قدرت سمجھتا ہے تواس کے سامنے رکوع ميں جھک جاتا ہے اور چونکہ وہ کسي کو بھي خدا کے سوا انسانيت سے بلند و بہتر خيال نہيں کرتا ہے لہذا کسي بھي ايک شخص اور کسي بھي چيز کے سامنے اپنے سر کو جھکانے کے لئے تيار نہيں ہوتا ہے، چنانچہ ايسي حالت ميں اپنے بدن کو خدا کے سامنے خضوع يعني جھکانے کي حالت ميں لے آتا ہے اور اپني زبان سے خدا کي حمد اور عظمت کو بيان کرنا ضروري سمجھتا ہے۔
سبحان ربي العظيم وبحمده
پاک و بے عيب ہے ميرا رب جو عظيم ہے اور ميں اس کي تعريف کرتا ہوں۔
يہ عمل کہ جس کے ساتھ ساتھ اس کي زبان بھي حرکت کرتي ہے ۔۔۔۔ نماز پڑھنے والے اور ان تمام لوگوں کو جو اس کي اس حالت کو ديکھتے ہيں کہ يہ انسان کے سامنے خضوع کے ساتھ اپنے سر کو جھکا رہا ہے ، ظاہر کرتا ہ کہ وہ خدا کي بندگي کا اقرار کررہا ہے اور چونکہ وہ خدا کا بندہ ہے لہذا غير خدا کا بندہ نہيں ہے اور حقيتقاً وہ انسان کے سامنے جھک کر واضح طور پر علي الاعلان اپني سعادت و سرفرازي اور دوسروں کي بندگي سے اپني آزادي کا اعلان کرتا ہے۔
سجدہ
پس جب نمازي رکوع سے سر اٹھاتا ہے تو ايسي حالت ميں ہوتا ہے کہ گويا وہ ايسي تعظيم و بندگي کے لئے آمادہ ہے جو پہلے سے بھي زيادہ ذلت کے ساتھ ہو يعني وہ خود کو خاک پر گرادے گا۔
پيشاني کو خاک پر رکھنا انسان کے خضوع اور ذلت کي آخري حد ہے اور انسان کا اس حد تک خضوع يعني ذلت کے ساتھ جھکنا صرف ايک ذات يعني خدا کو عظيم و بزرگ سمجھنے کي وجہ سے ہے۔
خدا کے سامنے سر جھکانا، دراصل تمام اعليٰ صفات، تمام نيکيوں اور تمام حسن و جمال کے سامنے سر جھکانا ہے لہذا انسان اپنے خدا کے سامنے اس طرح سر جھکانے کے بعد کسي بھي انسان اور کسي بھي چيز کے سامنے سر جھکانے کو حرام اور نامناسب سمجھتا ہے کيونکہ وہ يہ جانتا ہے کہ انساني وجود وہ گوہر ناياب ہے جو بازار ہستي ميں سب سے زيادہ قيمتي اور لائق عزت ہے کہ اگر انسان غير خدا کے سامنے سر جھکائے تو نا صرف اس سے انسان کي عزت ختم ہوجاتي ہے بلکہ انسان پستي و ذلت کے تاريک کنويں ميں اپنے آپ کو گرا کر ذلت و خواري کا طوق اپني گردن ميں ڈال ليتا ہے۔
ايسي حالت ميں ۔۔۔ جبکہ وہ اپنے سر کو خاک پر رکھے ہوا ہے۔۔۔ وہ خود کو عظمت خدا ميں غرق ديکھتا ہے۔ اس کي زبان سر جھکي ہوئي حالت ميں انہي خيالات کو ظاہر کرتي ہے اور وہ اپني زبان سے ذکر خدا جاري کرتا ہے جو کہ حقيقت ميں اس کے اسي عمل کي تفسير ہوتاہے۔
سبحان ربي الاعليٰ وبحمده
پاک و بے عيب ہے ميرا رب جو سب سے اعليٰ ہے اور ميں اس کي تعريف کرتا ہوں خداوند عالم جو سب سے برتر و اعليٰ ہے جو تمام نيک صفات کا حامل اور ہر نقص و عيب سے پاک ہے اور تمام ہستيوں ميں تنا وہي ايک ہے جو اس لائق اور قابل ہے کہ انسان زبان سے ا سکي حمد و ستائش بيان کرے اور اس کے سامنے خاک پر اپنے چہرے کو رکھ دے۔
پس نماز کا سجدہ ۔ ۔۔۔۔ جو خاک پر سر رکھنا ہے ۔۔۔۔۔ کسي ايسي ذات کے لئے نہيں ہے جو کمالات کے لحاظ سے ناقص اور کمزور و ضعيف ہے۔ اسي طرح نماز کا سجدہ نا ہي ان بتوں کے لئے ہے کہ جن کے سامنے لوگ اپنے سروں کو جھکا ديتے ہيں اور نا ہي نماز کا سجدہ ان گھٹيا قدرتوں کے لئے ہے جو اندر سے کھوکھلي اور بے حقيقت ہيںبلکہ سجدے ميں خاک پر سر رکھنا دراصل اس کے لئے ہے جو کائنات ميں اعليٰ ترين ، ہر عيب سے پاک اور تمام عظمتوں ، خوبيوں اور کمالات والا ہے۔
نماز پڑھنے والا سجدے ميں سر کو جھکا کر يہ اعلان کرتا ہے کہ وہ خدا حکيم و بصير کا فرمانبردار اور اطاعت گذار ہے اور وہ اپنے اس تسليم ( سر جھکانے) اور حکم خدا کي فرمانبرداري سے خود کو تلقين کرتا ہے اور اپنے دل کو ياد دلاتا ہے اور جيسا کہ اس سے قبل ہم جان چکے ہيں کہ يہ نظريہ کہ عبادت و بندگي صرف اور صرف خدا کے لئے ہو ۔۔۔وہ نظريہ ہے جس کي وجہ سے انسان خود کو تمام انسانوں کي بندگي ، قيد اور ان کي ذلتوں سے ۔۔۔۔ جن ميں وہ ابھي تک گرفتار تھا۔۔۔۔ آزاد کراليتا ہے۔
رکوع اور سجدے کے ان دو ذکر کا سب سے اہم اثر ہے جس کي وجہ سے ہميں اميد کرني چاہئيے ، يہ ہے کہ وہ نماز پڑھنے والے کو يہ درس ديتے ہيں کہ وہ کون سي ذات ہے کہ جس کے سامنے ہميں سر جھکانا ہے ، خضوع اختيار کرنا ہے اور اس کي تعريف کرني ہے اور بندے کا سر جھکانا ، خضوع اختيار کرنا اور خدا کي تعريف بيان کرنا دراصل خدا کے علاوہ تمام طاقتوں کا انکار ہے اور شايد اسي موضوع کي طرف اس حديث ميں اشارہ کيا گيا ہے کہ جس ميں امام نے ارشاد فرمايا کہ :
انسان کي خدا سے سب سے نزديک حالت ۔۔۔ حالت سجدہ ہے۔
تشہد
ہر نماز کي دوسري اور آخري رکعت ميں جب نمازي دو سجدوں کے بعد سر اٹھا کر بيٹھتا ہے تو ا س حالت ميں تين جملوں کو اپني زبان سے ادا کرتا ہے جو دين کے حقائق اور عظمتوں کي ترجماني کرتے ہيں۔ نمازي کا يہ عمل کہ جس ميں اس کا بولنا بھي شامل ہے ، ہم اسے تشہد ( گواہي) کا نام ديتے ہيں۔
اشهد ان لا اله الاالله
ميں گواہي ديتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئي اور معبود نہيں ہے۔
اور پھر اس حقيقت کو بطور تاکيد ادا کرتا ہے۔
وحده
۔۔۔ صرف وہ ہے ( کائنات کا خدا)
دوبارہ اور طريقے سے اپني زبان کے ذريعے اس حقيقت کي تکرار کرتا ہے۔
لا شريک له
۔ ۔۔ اسکي خدائي ميں اس کے ساتھ کوئي نہيں ہے۔
ہر وہ آدمي اور ہر وہ چيز جو انسان کو اپني بندگي کي طرف کھينچتي ہے اور وہ ذات کہ جس کے احکام کي انسان اطاعت کرتا ہے ۔۔۔ اس کا معبود ( الہ ) ہے ۔۔۔ خود وہ خواہشات کي اطاعت ہو يا حيواني ميلانات کي ، شہوات کي اطاعت ہو يا لالچ کے پيچھے بھاگنا ہو غرض وہي انسان کا معبود ہوگا جس کے پيچھے انسان ہے اور جس کے احکام کي انسان اطاعت کرتا ہے۔
کسي معاشرے يا نظام کو چلانے کے لئے ان کے قوانين بنانے والے اور بڑے لوگوں نے دوسرے چھوٹے انسانوں کو مجبور کيا کہ وہ ان کي خدمت کريں اور جس بہانے سے بھي عوام الناس کو مجبور کيا يہ سب الوہيت کي ہي شکل ہے۔
تشہد خدا کے علاوہ تمام طاقتوں کي نفي ہے
تشہد ميں لا الہ الا اللہ کہنا دراصل اس قسم کے تمام احکامات کي پيروي سے انکار ہے۔ تشہد گواہي دينا ہے اور نماز پڑھنے والا تمام طاقتوں کي نفي کرتے ہوئے گواہي ديتا ہے کہ وہ صرف خدا کے احکام کي پيروي کرنے والا ہے يعني نماز پڑھنے والا صرف اس بات کو قبول کرتا ہے اور صرف اس ذمہ داري کو اپنے کاندھوں پر اٹھاتا ہے کہ صرف خدائے اور واحد يکتا ہے جسے يہ حق حاصل ہے کہ وہ حکم جاري کرے اور انسان صرف اسي کے سامنے سر جھکائے۔
لہذا جس شخص نے يہ نظريہ قبول کرليا تو اسے يہ حق حاصل نہيں ہے کہ وہ کسي دوسرے موجود ۔۔۔ خواہ وہ کوئي بھي ہو ، کتنا ہي بڑا انسان کيوں نہ ہو، حيوان ہو يا فرشتہ ، جمادات ہوں يا پھر اس کے نفس کي خواہشات و شہوت ۔۔۔۔ کي بندگي اور حکم کو قبول کرے اور نا ہي اسے يہ حق حاصل ہے کہ اپنے بدن کو ان کي اطاعت ميں جھکا دے ليکن اس بيان کا يہ مطلب نہيں ہے کہ خدا کا ماننے والا اور اطاعت گذار معاشرے ميں کسي اجتماعي نظام کا قائل نہيں ہے يا وہ کسي کے حکم کو قبول نہيں کرتا ہے۔ کيوں؟
اس لئے کہ يہ بات تو واضح ہے کہ انسان کو لوگوں کے ساتھ مل جل کر اجتماعي طور پر زندہ رہنا ہے تو اس کے لئے ضروري ہے کہ آپس ميں کچھ عہد و پيمان ہوں اور کچھ نظاموں اور اصول و قوانين کي پيروي ہو ۔ مسلمان ہونے کا يہ مطلب نہيں ہے کہ وہ کسي قسم کے اجتماعي اصول و قوانين کو خاطر ميں نہيں لائے گا بلکہ اس کے معني يہ ہيں کہ وہ کسي ايسے حکم يا نظام کو جو خدا کے فرمان کے مطابق نہ ہو۔۔۔ نا ہي قبول کرے گا اور نا ہي اسے اپنے اوپر مسلط کرے گا۔ مسلمان ہونے کا مطلب يہ ہے کہ وہ اپني شخصي و اجتماعي زندگي ميں صرف خدا کے احکام کي پيروي کرنے والا ہوگا۔
چنانچہ ايسے بہت سے احکام جو خداوند عالم نے جاري کيے ہيں اور لوگوں کے درميان رہن سہن کے جو اصول وضع کيے ہيں، ان کے لحاظ سے بھي ضروري ہے کہ کچھ ايسے لوگ ہوں جن کي اطاعت کي جائے اور معاشرے ميں رائج قوانين کي پابندہ ہو لہذا خدا کا ماننے والا اس سوسائٹي کے انہي قوانين کي پيروي کرے گا۔ فرق صرف يہ ہے کہ وہ سوسائٹي کے جن احکام کي اطاعت کررہا ہے وہ اس وجہ سے نہيں ہے کہ ان لوگوں کي خواہشات نفس ہيں يا ان کے سرکش نفسوں نے اپني مرضي اور جي چاہنے کي بنا پر جو قانون بناديا ہے اسے اس نے قبول کرليا ہے ۔ وہ کيوں قبول نہ کرے۔۔۔۔۔؟
اس لئے کہ يہ سب قوانين اور نظام تو اس کے جيسے لوگوں کے بنائے ہوئے ہيں بلکہ مسلمان تو حقيقتاً ان قوانين کي اطاعت و فرمانبرداري کرتا ہے جو خدائے حکيم و بصير نے اپنے ارادے سے مقرر کيے ہيں کيونکہ صرف خدا ہي جو يہ جانتا ہے کہ معاشرے کي فلاح و بہبود کے لئے کون سا قانون ضروري ہے، معاشرے کي کيا حاجات ہيں اور خدا ہي مقرر کرتا ہے کہ کون لوگ ہيں جو قابل حکومت و اطاعت ہيں اور يہ خدا کے مقرر کردہ لوگ بھي خدا ہي کے بيان کردہ احکامات کو اس کے بندوں کے درميان رائج کريں گے۔
قرآن کي يہ آيت اسي حقيقت کي طرف اشارہ کرتي ہے۔
اطيعوا الله واطيعوا الرسول واولي الامر منکم
اطاعت کرو اللہ کي اور ا س کے رسول کي اور ان کي جو تم ميں اولي الامر ہيں۔
خدا کي اطاعت ، اس کے رسول کي اطاعت اور ان لوگوں کي اطاعت جن کو خداوند عالم نے تمہارے درميان مقرر کيا ہے اور جو صاحبان حکم ہيں ۔۔۔۔ انہي کي اطاعت کا حکم ديا گيا ہے اور شايد اسي حقيقت کو ديکھتے ہوئے نمازي تشہد کا دوسرا جملہ کہتا ہے
واشهد ان محمدا عبده ورسوله
اور ميں گواہي ديتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کا پيغام لانے والے ہيں۔
يہ قبول کرنا کہ محمد اللہ کا پيغام لانے والے ہيں ۔۔۔ دراصل ان معني ميں يہ قبول کرنا ہے کہ وہي خدا کے نمائندے اور خليفہ نہيں با الفاظ ديگر اگر ہم راہ خدا کے متلاشي ہيں تو ہميں راہ محمد کو ديکھنا ہوگا اور خدا کے احکام و فرمان کو خدا کے اس برگزيدہ بندے سے لينا ہوگا۔
خدا کے ماننے والوں ميں اکثريت ايسے لوگوں کي ہے جنہوں نے خدا کے پسنديدہ راستے کو پہچاننے ميں غلطي کي ہے لہذا تشہد ميں يہ بيان کرنا کہ محمد خدا کا پيغام لانے والے ہيں ۔۔ انسانوں کي تلاش و حرکت کا رخ مقرر کرتا ہے لہذا خدا پرست انسان کو چاہئيے کہ اپني زندگي کو رسول اسلام کے بيان کردہ احکامات کے مطابق گذارے تاکہ اس کا خدا پرستي کا دعويٰ صحيح ثابت ہو۔
اس جملے ميں ہم ديکھتے ہيں کہ حضرت محمد کي بندگي کي طرف توجہ دي گئي ہے اور اسي لئے اس پہلے کلمے ميں ’’ عبدہ ‘‘ پہلے ہے اور ’’ رسولہ ‘‘ بعد ميں۔ يعني پہلے بندگي ہے اور بعد ميں رسالت گويا اس کے ذريعے سے يہ چاہا گيا ہے کہ اسلام کي عظيم الشان صفت کو متعارف کرايا جائے اور حقيقت بھي يہي ہے کہ انسان کي عظمت کمال اور فضيلت کا خلاصہ اس چيز ميں پنہاں ہے کہ وہ خدا کي بندگي کرے اور بندگي کے رشتے کو خلوص کي بنيادوں پر قائم کرے اور وہ انسان جو ميدان بندگي خدا مي سب سے آگے ہے، انسانيت کے درجات کے لحاظ سے بھي اس کا درجہ بہت بلند ہے۔
جو شخص يہ جانتا ہو کہ خدا کي بندگي کا مفہوم کيا ہے چنانچہ اس کے لئے پيغمبر کے بارے ميں بيان کئے گئے ارشاد کو سمجھنے کي ضرورت نہيں ہے۔ اگر انسان يہ خيال کرے کہ خدا کي بندگي کا مطلب يہ ہے کہ ميں اس ذات کے سامنے کہ جس کے تمام کام حکمت سے پر ہيں ، جو صاحب بصيرت ہے ، وہ جو کچھ ہمارے لئے کررہا ہے وہ سب کا سب رحمت ہے اور اس کي ذات خوبيوں والي ہے۔۔۔ خضوع اختيار کروں ، اس کے سامنے اپنے دل کو جھکادوں اور اس کے ساتھ ساتھ خواہش نفس کي اطاعت اور غيروں کي غلامي سے خود کو آزاد کرنا ہي اگر بندگي خدا کے معني ہيں تو پھر دنيا ميں اس سے بڑھ کر اور کون سي قدر و قيمت والي بات پائي جاتي ہے اور حقيقت بھي يہي ہے کہ دنيا ميں جو برائياں نظر آتي ہيں ، لوگ جن پستيوں ميں پڑے ہوئے ہيں ، لوگوں کے دلوں ميں جن شقاوتوں اور اخلاق رذيلہ نے گھر کيا ہوا ہے اور انسان کي زندگي ميں آنے والي تاريکيوں کي اصل اور بنيادي وجہ يہي ہے کہ انسان اپني خواہش نفس کي غلامي کرتا ہے يا اس قسم کے دعوے کرنے والے انسانوں کي سرکشي اور طغياني کي اطاعت کرتا ہے۔چنانچہ اگر انسان يہ اعلان کرے کہ وہ صرف خدا کي بندگي کرے گا تو اس کا مطلب يہ ہے کہ اس نے نفس اور دوسروں کي بندگي کو يکسر مسترد کرديا اور دل ميں اٹھنے والے جذبات کو جلا کر خاک کرديا۔
تشہد کے ان دو جملوں ميں ايک بہت ہي عمدہ ، قابل توجہ اور باريک نکتہ يہ ہے کہ نماز پڑھنے والا توحيد اور نبوت کا اقرار ايک ہي گواہي کرتا ہے اور خدا کي توحيد اور محمد کي بندگي و رسالت کي شہادت ديتا ہے۔
اس کي يہ گواہي حقيقت ميں اس معني ميں ہے کہ ميں خدا کي عبادت اور محمد کے تمام پيغاموں کو قبول کررہا ہوں۔ اس عقيدے کا مقصد اپنے کاندھوں پر ذمہ داري لينا ہے ۔ گويا نماز پڑھنے والا گواہي دينے کے ساتھ ساتھ يہ چاہتا ہے کہ ميں ان تمام ذمہ داريوں کے سامنے ۔۔۔۔۔ جو مجھ پر ان دو عقيدوں ( يعني توحيد و نبوت) کي وجہ سے عائد ہوتي ہيں ۔۔۔۔ اپني گردن جھکادوں۔
تشہد کا مطلب صرف علم حاصل کرنا نہيں ہے کہ جس کے ساتھ کوئي عمل نہ ہو، ايسا علم کہ جس کے ساتھ کوئي ذمہ داري اور عہد و پيمان نہ ہو(بے کار ہے) ور نا ہي تشہد ايسا يقين ہے کہ جس کے نتيجے ميں کوئي عمل اور جدوجہد نہ ہو۔ ايسے عقيدوں اور علم و يقين کي اسلام ميں کوئي قدر و قيمت نہيں ہے۔
يہ گواہي دينا کہ ميں خدا کي عبادت کرنے والا اور محمد کے ذريعے اس کے پيغامات کو ( دل و جان سے) قبول کرنے والا ہوں اور اس ذيل ميں تمام عہد و پيمان کو قبول کرتا ہوں تاکہ ميں ان حقائق کے ذريعے سے کامياب ہوجاوں۔ پس ہم کہہ سکتے ہيں کہ نماز ميں تشہد کا ادا کرنا دراصل خدا سے کيے گئے عہد و پيمان کي تجديد کرنا ہے کہ جسے نمازي خدا ور اس کے رسول کے ساتھ کرتا ہے۔ اس کے بعد تشہد کا تيسرا اور آخري جملہ ہے جو خدا سے درخواست اور اس کي بارگاہ ميں دعا پر مشتمل ہے۔