قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق 0%

قرآن اور چہرۂ منافق مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 193

قرآن اور چہرۂ منافق

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجۃ الاسلام سید احمد خاتمی
زمرہ جات: صفحے: 193
مشاہدے: 68076
ڈاؤنلوڈ: 4665

تبصرے:

قرآن اور چہرۂ منافق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68076 / ڈاؤنلوڈ: 4665
سائز سائز سائز
قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

قرآن اور چہرۂ منافق

مؤلف : خاتمی، سید احمد

مترجم / مصحح : سید نوشاد علی نقوی خرم آبادی

ناشر : مجمع جہانی اہل بیت (ع)

نشر کی جگہ : قم (ایران)

نشر کا سال : 2006

جلدوں کی تعداد : 1

صفحات : 251

سائز : رقعی

زبان : -

۱

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیض یاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے ہیں غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کر لیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ وراہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں۔

چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و مؤسس سرور کائنات حضرت محمد مصطفٰی صل اللہ علیہ وآلم وسلم غار حرا سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگھی کی پیاسی ایک دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل، فطرت انسانی سے ہم آھنگ ارتقاء بشریت کی ضرورت تھا۔

اس لئے تیئیس برس کے مختصر سے عرصے میں ہی اسلام کی عالم تاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمران ایران و روم کی قدیم تھذیبیں اسلامی اقدار کے سامنے ماند پڑ گئیں، وہ تھذیبی اصنام صرف جو دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ ولولہ اور شعور نہ رکھتے ہوں تو مذاھب عقل و آگاھی سے رو برو ہونے کی توانائی کھو دیتے ہیں یہی وجہ ہے ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاھب اور تھذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۲

اگر چہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ گراں بھا میراث کو جس کی اھلبیت علیہم السلام اور ان کے پیروؤں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرندان اسلام کی بے توجھی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ھوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا، چودہ سال کے عرصہ میں بھت سے ایسے جلیل القدر علماء اور دانشور دنیائے اسلام کو پیش کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشت پناھی کی ہے ہر دور اور زمانہ میں ہر قسم کے شکوک و شبھات کا ازالہ کیا ہے۔

خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاھیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ھوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت و اقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذھبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامران زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین و بیتاب ہیں۔

یہ زمانہ علمی و فکری مقابلہ کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بھتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

مجمع جھانی اہل بیت علیہم السلام (عالمی اہل بیت کونسل) نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت علیہم السلام عصمت وطھارت کے پیروؤں کے درمیان ہم فکری و یکجھتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں بھتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کریں۔

۳

موجودہ دنیاء بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے، زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ھوسکے۔

ھمیں یقین ہے، عقل و خرد پر استوار ماھرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طھارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علم بردار خاندان نبوت و رسالت کی جاوداں میراث، اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کی دشمن، انانیت کی شکار، سامرا جی خونخواروں کی نام نھاد تھذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جھالت سے تھکی ماندی آدمیت کو، امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنٰی خدمت گار تصور کرتے ہیں۔

زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے فاضل علام حجۃ الاسلام و المسلمین "سید احمد خاتمی" کی گراں قدر کتاب قرآن اور چھرہ نفاق کو فاضل جلیل مولانا "سید نوشاد علی نقوی خرم آبادی" نے اردو زبان میں اپنے سے قلم آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار اور مزید توفیقات کے آرزو مند ہیں۔

اس منزل میں ہم اپنے ان تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنٰی جھاد رضائے مولٰی کا باعث قرار پائے۔ والسلام مع الکرام

مدیر امور ثقافت: مجمع جھانی اہل بیت علیہم السلام

۴

عرض مترجم

((نٓ و القلم و ما یسطرون))

ابراہیم زمن، شہنشاہیت شکن، حضرت امام خمینی (رح) کی قیادت و رہبری میں رونما ہونے والا عظیم اسلامی انقلاب جس نے افکار شرق اور سیاست غرب کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا، جس نے عالم اسلام کو نئی حیات و وقار عطا کیا، اس انقلاب کی کامیابی کے بعد، اسلامی تھذیب و تمدن، فرھنگ و ثقافت، افکار و اخلاق کو اہل جہاں تک پہونچانے کے لئے، جہاں اور اہم اسلامی ادارے وجود میں آئے، مجمع جھانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی صفحۂ ھستی پر قدم رکھا اس عالمی ادارہ کے بلند اغراض و مقاصد میں سے ایک، معارف اہل بیت علیہم السلام کے تشنگان کو سیراب کرنا ہے، اس مقدس ھدف و مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے دنیا کی ھزاروں رائج زبانوں میں اہل بیت اطھار علیہم السلام کے افکار و اخلاق، افعال و گفتار، رفتار و کردار کو تحریری شکل میں پیش کیا جاتا ہے اسی رائج زبانوں میں ایک اردو بھی ہے، اس عالمی ادارے کی طرف سے اردو زبان میں اب تک قابل توجہ اعداد میں کتب شائع ھوکر منظر عام پر آچکی ہیں۔

آپ کے پیش نظر کتاب "قرآن اور چھرہ نفاق" فارسی کتاب "سیمای نفاق در قرآن" کا اردو ترجمہ ہے، حقیر نے تمام ھمت کے ساتھ کوشش کی ہے کہ مطلب و مفھوم کتاب کو سادے، آسان، عام فھم الفاظ میں پیش کرے، غیر مانوس اور ذھن گریز کلمات سے پرہیز کیا گیا ہے۔

۵

یہ کتاب موضوع نفاق پر ایک جامع و کامل دستاویز ہے جو آپ کے ھاتھوں میں ہے، یہ کتاب صاحبان ایمان کی خدمت میں خصوصی ھدیہ ہے اس لئے کہ ایمان اس وقت تک کامل نہیں ھوسکتا جب تک اجر رسالت کی ادائگی نہ ھو، اجر رسالت اس وقت تک ادا نہیں ھوسکتا جب تک اہل بیت اطھار علیہم السلام سے محبت و مودت نہ کی جائے(1) ان حضرات سے محبت و مودت نہیں ھوسکتی جب تک کہ ان کے دشمنوں کی شناخت کرتے ہوئے ان سے اور ان کے افعال و کردار سے نفرت نہ کی جائے، اور یہ ممکن ہی نہیں جب تک نفاق کی آشنائی کا حصول نہ ھوجائے، اس لئے کہ نفاق کی شناخت اہل بیت اطھار علیہم السلام کے دشمنوں کی شناخت ہے۔

اگر یہ نفاق نہ ہوتا تو امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کا حق غصب نہ کیا گیا ھوتا، ام ابیہا فاطمہ زھرا صلوات اللہ علیہا کے شکم و بازو پر جلتا ہوا دروازہ نہ گرایا گیا ھوتا، قرۃ عین رسول اللہ صلی اللہ عیہ وآلہ وسلم امام حسن مجتبی علیہ السلام کے جنازے پر تیروں کی بارش نہ ہوتی اور کربلا کے میدان میں"حسین منی و انا من الحسین" کا تن تنھا مصداق تین دن کا تشنہ لب شھید نہ کیا گیا ھوتا۔

اگر نفاق کے اقدامات نہ ھوتے تو آج کرۂ ارض کی وضعیت و کیفیت کچھ اور ھوتی، جھانی و عالمی معاشرے کا رنگ و روپ کچھ اور ہی ھوتا، آج عالم اسلامی کی ذلت و پستی کی شناخت اور اعدا اسلام کی پیش قدمی اس نفاق کے عملی اقدام کا نتیجہ ہے۔

شناخت نفاق کا ما حصل اہل بیت علیہم السلام کے دشمنوں کی شناخت ہے اور ان کے دشمنوں کی شناخت تبرّا کے قالب میں جزء فروع دین ہے، فروع دین کے اجزا کی بجا آوری تکمیل ایمان کا سبب ہے۔

----------------------

(1): سورہ شوری/ 23۔(قل لا اسئلکم علیه اجراً الا المودة فی القربی)

۶

لہذا استاد محترم حجۃ الاسلام و المسلمین سید احمد خاتمی دام ظلہ العالی کی کتاب "قرآن اور چھرۂ نفاق"، ایمان کو جلا، فکر کو مستحکم، عمل کو قوی، دائرہ ایمان کو وسیع کرنے کے لئے معاون و مدد گار ثابت ھوگی استاد معظم نے دقیق مطالب، شائستہ انداز، زمان و مکان سے تطابق کرتے ہوئے جامع و کامل کتاب تحریر فرمائی ہے۔

آپ آشیانۂ آل محمد علیہم السلام، مرکز تشیع، بستان علم، گلشن فقاھت، حوزہ علمیہ قم جمھوری اسلامی ایران کے ستارہ فروزان ہیں آپ کو علوم اسلامی میں تجرّ حاصل ہے، علم اصول و فقہ و تفسیر قرآن کے ھزاروں تربیت کردہ آپ کے شاگرد خدمات اسلام و قرآن انجام دے رہے ہیں۔

بھر حال بندہ کے لئے باعث افتخار ہے کہ ایسے عظیم المرتبت گراں قدر عالم و فاضل و جلیل کی کتاب کا ترجمہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ھوں، معانی و مفاھیم کو منتقل کرنے میں کتنا کامیاب رہا ہوں وہ تو قارئین ہی بتا سکتے ہیں البتہ اس کتاب کو ادبی محک سے نہ پرکھا جائے کیوں کہ کسی ادیب کے ذریعہ ترجمہ شدہ نہیں، لھذا خطا و غلطی کو دامن عفو میں جگہ دیں گے۔

سید نوشاد علی نقوی خرم آبادی

حوزہ علمیہ قم المقدسہ

۷

مقدمہ مصنف

بصیرت و نظر، دینی معاشرے کے لئے بنیادی ترین معیار رشد و کمال ہے، دینی معاشرہ میں فضا سازی، طلاطم آفرینی، معرکہ آرائی، سخن اوّل نہیں ھوتے بلکہ سخن اوّل بصیرت و نظر ہے، دعوت حق کے لئے، بصیرت لازم ترین شرط ہے، اللہ کی طرف دعوت دھندگان کو چاھئے کہ خود کو اس صفت سے آراستہ کریں:

(قل هذه سبیلی ادعوا الی الله علی بصیرة انا و من اتّبعنی) (2)

آپ کہہ دیجئے یھی میرا راستہ ہے، میں بصیرت کے ساتھ خدا کی طرف دعوت دیتا ھوں، اور میرے ساتھ میرا اتباع کرنے والا بھی ہے۔

بصیرت و دانائی کثیر الجھت و مختلف زوایا کی حامل ہے، خدا، نبی (ص) و امام علیہ السلام کی معرفت، قیامت کی شناخت اور وظائف سے آشنائی وغیرہ------

دشمن کی معرفت و، اہم ترین زاویہ بصیرت پر مشتمل ہے، اس لئے کہ قرآن میں اکثر مقام پر خدا کی وحدانیت و عبودیت کی دعوت کے بعد یا اس کے قبل بلا فاصلہ، طاغوت سے انکار(3) طاغوت سے پرہیز(4) عبادت شیطان سے کنارہ کشی(5) کی گفتگو ہے، کبھی دشمن شناختہ شدہ ہے، علی الاعلان، دشمنی کے بیز کو اٹھائے ہوتا ہے، اس صورت میں گرچہ دشمن سے ٹکرانے میں بھت سی مشکلات و سختی کا سامنا ہے، لیکن فریب و اغوا کی صعوبتیں نہیں ہیں۔

---------------------

2. سورہ یوسف /108۔

3. سورہ بقرہ/ 256۔

4. سورہ نحل/ 36۔

5. سورہ یس/ 60۔

۸

لیکن کبھی دشمن ایسے لباس ایسے رسم و رواج میں ظھور پذیر ہوتا ہے، جسے سماج و معاشرہ، مقدس سمجھتا ہے، مخالفت دین کا پرچم اٹھائے نہیں ھوتا، بلکہ اپنی منافقانہ رفتار و گفتار کے ذریعہ خود کو دین کا طرف دار و مروّج، دین کا پاسبان و نگھبان ظاہر کرتا ہے۔

اس حالت میں دشمن سے مبارزہ و مقابلہ کی سختی و مشکلات کے علاوہ دوسری مشکلات و صعوبتیں بھی عالم وجود میں آتی ہیں، جو اصل مقابلہ و مبارزہ سے کہیں زیادہ اور کئی برابر ھوتیں ہیں، اور وہ مشکلات عوام فریبی، اثر گذاری اپنے ہی فریق و دستہ پر ہوتی ہے۔ اسی بنا پر امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی ناکثین، قاسطین، مارقین سے حرب و جنگ، ان جنگوں کی بہ نسبت سخت ترین و مشکل ترین تھی جو پیامبر عظیم الشان نے بت پرستوں و مشرکوں سے کی تھی۔

اس لئے کہ مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مد مقابل وہ گروہ تھے جن کا نعرہ تھا بت زندہ باد، لیکن امام علی علیہ السلام کا ان افراد سے مقابلہ تھا جن کو بھت سے جھادوں میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم رکاب جونے کا تمغہ حاصل تھ(6) اور جانباز اسلام کھلاتے تھے(7) ان افراد سے مقابلہ تھا جن کے درخشاں ماضی کو دیکھتے ہوئے پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعریف و تمجید کی تھی(8)

-------------------

6. جناب زبیر کے قتل کے بعد ان کی شمشیر کو امام علی علیہ السلام کے پاس لایا گیا۔ امام نے فرمایا: "سیف طالما جلی الکرب عن وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم" یہ وہ شمشیر ہے جس نے رسول خدا کے چھرہ سے ھزاروں غم کو دور کئے۔ (مروج الذھب۔ ج2۔ ص361۔ سفینۃ البحار کلمہ زبر) ۔

7. جناب طلحہ، اکثر معرکے خصوصاً احد و خندق میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم رکاب و ہم کار زار تھے جنگ احد میں سر پر ضرب لگنے سے شدید زخمی و مجروح بھی ہوئے تھے۔

8. جنگ خندق کےوقت جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکوں کے حالات کی آگاھی کے لئے مجمع میں اس بات کا اعلان کیا، قریش میں سے کون ہے جو ان کی خبروں کو ہم تک پہنچائے جناب زبیر کھڑے ہوئے اور اپنی آمادگی کا اظھار کیا پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سوال تین مرتبہ تکرار کیا اور تینوں مرتبہ جناب زبیر کھڑے ہوئے، آپ گئے اور مشرکوں کے حالات کی آگاھی پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی، آپ نے ان کی فدا کاری کو دیکھتے ہوئے فرمایا: ہر نبی کے لئے ناصر و مددگار ہیں اور میرے ناصر و مددگار زبیر ہیں (اسد الغابہ، ج2، ص250) ۔

۹

ان افراد سے مقابلہ تھا جن کی پیشانی پر کثرت عبادت و شب زندہ داری کی وجہ سے نشان پڑ گئے تھے(9) ان افراد سے مقابلہ تھا جن کی رات گئے قرائت قرآن کی دلنشین آواز کا جادو کمیل جیسی عظیم ھستی پر بھی اثر انداز ھوگیا تھا(10)

حضرت علی علیہ السلام کا مقابلہ اس نوعیت کے دشمنوں سے تھا۔ ظاہر سی بات ہے ایسے دشمنوں سے معرکہ آرائی، ان کے حقیقی چہرے کی شناسائی علوی نگاہ و بصیرت کا کام ہے، جیسا کہ خود آپ نے نھج البلاغہ میں چند مقام پر اس کی تصریح بھی فرمائی ھے(11)

اہم ترین زاویہ بصیرت ایسے دشمنوں کی شناخت ہے جسے قرآن کریم منافق کے نام سے یاد کرتا ہے۔

قرآن کریم میں نفاق کے رخ کا تعارف کرانے کے سلسلے میں کفر سے کہیں زیادہ اھتمام کیا گیا ہے، اس لئے کہ اسلامی معاشرہ کے لئے خطرات و نقصان کافروں سے کہیں زیادہ منافقوں سے ہے۔

خاص کر آج کے اسلامی و انقلابی معاشرہ کے لئے جس نے بحمد اللہ سر بلندی کے ساتھ اسلامی انقلاب کی چھبیس 26 بھاروں کا مشاہدہ کر چکا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ خدا کے فضل و کرم اور پیامبر عظیم الشان (ص) و اہل بیت اطھار علیہم السلام کی ارواح طیبہ کے تصدق میں تمام مشکلات و زحمات کو حل کرتے ہوئے دینی حکومت و معاشرت کا ایک عالی ترین و کامیاب ترین نمونہ و معیار ثابت ہوگا۔

-------------

9. امام علی علیہ السلام نے ابن عباس کو خوارج کی نصیحت کے لئے بھیجا آپ نے واپس آنے کے بعد خوارج کو ان الفاظ میں توصیف کی: "لھم جباۃ قرحۃ لطول السجود و اید کثفنات الابل علیھم قمص مرخصۃ وھم مشمرون"، ان کی پیشانیوں پر کثرت عبادت سے گھٹے پڑے ہوئے ہیں حق کے لئے گرم و خشک زمین پر ھاتھ پیر رکھنے کی بنا پر اونٹ کے پیر کے مثل سخت ھوگئے ہیں، پھٹے پرانے کپڑے پہنتے ہیں لیکن قاطع و با ارادہ انسان ہیں۔

10. بحار الانوار ج33 ص399، سفینۃ البحار کلمہ (کمل) ۔

11. نھج البلاغہ، خطبہ/ 10/ 137/ 93۔

۱۰

آج بیرونی دشمنوں کے ساتھ ساتھ اندرونی دشمن (منافقین) تمام قدرت و طاقت کے ساتھ سعی لا حاصل میں مصروف ہیں، کہ اسلامی معاشرے کو باور اور یقین کرادیں کہ دینی حکومت و نظام ناکام ہے، تاکہ پوری دنیا کے وہ افراد جو قلباً اس انقلاب سے وابستہ ہیں ان کو نا امید کرسکیں۔

اس سلسلہ میں اپنی تمام توانائی صرف کرچکے ہیں، جو کچھ قدرت و اختیار میں تھا انجام دے چکے ہیں، اگر اب تک کسی کام کو انجام نہیں دیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ انجام دینا نہ چاہتے ہوں بلکہ اس فعل کے عمل سے عاجز و ناتواں ہیں۔

عظیم الشان اسلامی انقلاب کی اوائل کامیابی سے ہی کفر کا متحد گروہ خالص محمدی (ص) اسلام کہ مقابل صف آرائی میں مشغول ہے، اور اس گروہ کی عداوت ابھی تک جاری ہے۔

اس جماعت کا اسلامی انقلاب کے مقابلہ میں صف آرا ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ان میں اتحاد ہی اتحاد ہے، بلکہ یہ گروہ اختلاف و افتراق کا مرکز ہے لیکن ان کا مشترک ھدف و مقصد اسلامی انقلاب سے مقابلہ کرنا ہے۔

احزاب کو اسلامی نظام سے ٹکرا دینا، بغیر درک و فھم کے قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنا، ایران کی مسلمان ملت پر جنگ مسلط کرنا، ان کے مشترک اھداف و مقاصد کے کچھ نمونہ ہیں۔

۱۱

اسلامی انقلاب کے کینہ پرور دشمنوں کا آخری حربہ انقلاب کی اصالت و بنیاد پر ثقافتی یورش کرنا ہے لیکن اب تک جس طریقہ سے ان کی سازشیں ناکام ہوتی رھی ہیں، خدا کے فضل و کرم سے یہ سازش بھی شرمندہ تعبیر نہ ھوسکے گی۔

ان سازشوں کا ناکام بنانے کے سلسلہ میں اہم ترین وسیلہ، نفاق و منافقین کی روش و طرزِ عمل کی شناخت ہے، خوش قسمتی سے قرآن مجید اس سلسلہ میں عمیق، جامع، موزون مطالب و نکات کو پیش کر رہا ہے۔

خداوند عالم کے لطف و کرم سے امید کرتا ہوں کے یہ ناچیز کتاب، اسلامی معاشرہ کے لیے دینی بصیرت و بینائی کے اضافہ کا سبب بنے گی، اشاء اللہ

(بشر المنافقین بانّ لهم عذاب الیماً) (12) آپ ان منافقین کو درد ناک عذاب کی بشارت دے دیں۔

سید احمد خاتمی - حوزہ علمیہ، قم المقدسہ

-----------------

12. سورہ نساء / 138۔

۱۲

فصل اوّل؛ نفاق کی اجمالی شناخت

1۔ نفاق شناسی کی ضرورت

2۔ نفاق کی لغوی و اصطلاحی معانی

3۔ اسلام میں نفاق کے وجود آنے کی تاریخ

نفاق شناسی کی ضرورت

دشمن شناسی کی اھمیت

صاحبان ایمان کے وظائف میں سے ایک اہم وظیفہ خصوصاً اسلامی نظام و قانون میں دشمن کی شناخت و معرفت ہے۔

اس میں کوئی تردید نہیں کہ اسلامی نظام کو برقرار رکھنے اور اس کے استحکام، پائداری کے لئے اندرونی (داخلی) و بیرونی (خارجی) دشمنوں نیز، ان کے حملہ ور وسائل کی شناخت لازم و ضروری ہے، دشمن اور ان کے مکر و فریب کو پہچانے بغیر مبارزہ کا کوئی فائدہ نہیں، بعض اوقات دشمن کے سلسلہ میں کافی بصیرت و ھوشیاری نہ ہونے کے سبب، انسان دشمن سے رھائی حاصل کرنے کے بجائے دشمن ہی کی آغوش میں پہنچ جاتا ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے ہر اقدام سے پہلے بصیرت و ھوشیاری کو بنیادی شرط بتایا ہے، آپ فرماتے ہیں:

((العامل علی غیر بصیرة کالسائر علی غیر الطریق، لا یزیده سرع ة السیر الا بعداً عن الطریق)) (13)

-----------

13. اصول کافی، ج1، ص43۔

۱۳

بغیر بصیرت و آگاھی کے عمل کو انجام دینے ولا ایسا ہی ہے جیسے راستہ کو بغیر پہچانے ہوئے چلنے والا، کہ اس صورت میں اصل ھدف و مقصد اور راہ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔

اسی ضرورت کی بنا پر قرآن میں پندرہ سو آیات سے زیادہ دشمن کی شناخت کے سلسلہ میں نازل ھوئی ہیں، خدا وند عالم ان آیات میں، مومنین اور نظام اسلامی کے مختلف دشمنوں کی (جن و انس میں سے) نشاندھی کی ہے نیز ان کی دشمنی کے انواع و اقسام حربے اور ان سے مقابلہ کرنے کے طور و طریقہ کو بتایا ہے، اور اس بات کی مزید تاکید کی ہے کہ مسلمان ان سے دور رھیں اور برائت اختیار کریں:

(یا ایها الذین آمنوا لا تتخذوا عدوی و عدوکم اولیاء) (14)

اے صاحبان ایمان اپنے اور میرے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔

آیات قرآن کی بنا پر مومنین کے دشمنوں کو بنیادی طور پر چار نوع و گروہ میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

نوع اوّل: شیطان اور اس کے اہل کار

(انّ الشیطان لکم عدو فاتخذوه عدوا) (15)

یقیناً شیطان تم سب کا دشمن ہے، تم بھی اسے دشمن بنائے رکھو۔

---------------

14. سورہ ممتحنہ/ 1۔

15. سورہ فاطر/ 6۔

۱۴

بعض قرآن کی آیات میں، خداوند عالم نے انسان خصوصاً مومنین کے سلسلہ میں شیطان کے آشکار کینے اور دشمنی کو عدو مبین (آشکار دشمن) سے تعبیر کیا ہے، اللہ انسان کو منحرف کرنے والے شیطان کے مکر و فریب، حیلے کو شمار کرتے ہوئے، مومنین سے چاھتا ہے کے وہ شیطان کے راستے پر نہ چلیں۔

(یا ایها الذین آمنوا لا تتبعوا خطوات الشیطان) (16)

اے صاحبان ایمان شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلو۔

نوع دوّم: کفار

قرآن کی نظر میں مومنین کے دشمنوں میں ایک دشمن کفار ہیں۔

(انّ الکافرین کانوا لکم عدوا مبینا) (17)

کفار تمھارے آشکار و عیاں دشمن ہیں۔

------------------

16. سورہ نور/ 21۔

17. سورہ نساء/ 101۔

۱۵

نوع سوم: بعض اہل کتاب

صاحبان ایمان و اسلام کے دشمنوں میں بعض اہل کتاب خصوصاً یھودی دشمن ہیں، شھادت قرآن کے مطابق، صدر اسلام سے اب تک اسلام و مسلمان کے کینہ توز، عناد پسند دشمن یھودی رہے ہیں، قرآن ان سے دوستانہ روابط برقرار کرنے کو منع کرتا ہے۔

(لتجدنّ اشدّ الناس عداوة للذین آمنوا الیهود) (18)

یقیناً آپ مومنین کے سلسلہ میں شدید ترین دشمن یھود کو پائیں گے۔

نوع چھارم: منافقین

قرآن مجید نے منافقین کے اصلی خدو خال اور خصوصیت نیز ان کی خطرناک حرکتوں کو اجاگر کرنے کے سلسلہ میں بھت زیادہ اھتمام اور بندوبست کیا ہے، تین سو سے زیادہ آیات میں ان کے طرز عمل کو افشا کرتے ہوئے مقابلہ کرنے کی راہ اور طریقہ کو پیش کیا گیا ہے۔

یہ قرآنی آیتیں جو تیرہ سوروں کے ذیل میں بیان کی گئی ہیں بحث حاضر، قرآن میں چھرۂ نفاق کا اصلی محور و موضوع ہیں۔

گرچہ اہل بیت اطھار علیہم السلام ارواحنا لھم الفداء کے زرین اقوال بھی روایات و احادیث کی شکل میں تناسب مباحث کے اعتبار سے پیش کئے جائیں گے۔

-----------------

18. سورہ مائدہ/ 82۔

۱۶

قرآن میں نفاق و منافقین

منافقین کی خصوصیت و صفات کی شناخت کے سلسلہ میں، قرآن اکثر مقام پر جو تاکید کر رہا ہے وہ تاکید کفار کے سلسلہ میں نظر نہیں آتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ کفار علی الاعلان، مومنین کے مد مقابل ہیں، اور اپنی عداوت خصوصیت کا اعلانیہ اظھار بھی کرتے ہیں، لیکن منافقین وہ دشمن ہیں جو دوستی کا لباس پھن کر اپنی ہی صف میں مستقر ھوتے ہیں، اور اس طریقہ سے وہ شدید ترین نقصان اسلام اور مسلمین پر وارد کرتے ہیں، منافقین کا مخفیانہ و شاطرانہ طرز عمل ایک طرف، ظواھر کی آراستگی دوسری طرف، اس بات کا موجب بنتی ہے کہ سب سے پہلے ان کی شناخت کے لئے خاص بینایی و بصیرت چاھئے، دوسرے ان کا خطرہ و خوف آشکار دشمن سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

"کن للعدو المکاتم اشدّ حذر منک للعدو المبارز" (19)

آشکار و ظاہر دشمن کی بہ نسبت باطن و مخفی دشمن سے بھت زیادہ ڈرو۔

آیت اللہ شھید مطھری، معاشرہ میں نفاق کے شدید خطرے نیز نفاق شناسی کی اھمیت کے سلسلہ میں لکھتے ہیں۔

میں نہیں سمجھتا کہ کوئی نفاق کے خطرے اور نقصان جو کفر کے خطرے اور ضرر سے کہیں زیادہ شدید تر ہے، تردید کا شکار ھو، اس لئے کہ نفاق ایک قسم کا کفر ہی ہے، جو حجاب کے اندر ہے جب تک حجاب کی چلمن اٹھے اور اس کا مکروہ و زشت چھرہ عیاں ھو، تب تک نہ جانے کتنے لوگ دھوکے و فریب کے شکار اور گمراہ ھوچکے ہوں گے، کیوں مولائے کائنات امیر المومنین علی علیہ السلام کی پیش قدمی کی حالت، رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرق رکھتی ہے، ہم شیعوں کے عقیدہ کے مطابق امیر المومنین علی علیہ السلام کا طریقۂ کار، رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا نہیں ھے،

-----------------------

19. شرح نھج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج20 ص311۔

۱۷

کیوں پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیش قدمی اتنی سریع ہے کہ ایک کے بعد ایک دشمن شکست سے دوچار ھوتے جارھے ہیں، لیکن جب مولائے کائنات امیر المومنین علی علیہ السلام دشمنوں کے مد مقابل آتے ہیں، تو بھت ہی فشار و مشکلات میں گرفتار ہوجاتے ہیں، ان کو رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی پیش رفت حاصل نہیں ھوتی، صرف یہی نہیں بلکہ بعض مواقع پر آپ کو دشمنوں سے شکست کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، ایسا کیوں ھے؟!

صرف اس لئے کہ پیامبر عظیم الشان کا مقابلہ کافروں سے تھا اور امیر المومنین علیہ السلام کا مقابلہ منافقین گروہ سے تھا(20)

سورۂ توبہ کی آیت نمبر 101 سے استفادہ ہوتا ہے کہ کبھی چھرۂ نفاق اس قدر غازۂ ایمان سے آراستہ ہوتا ہے کہ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی عادی علم کے ذریعہ اس کی شناخت مشکل ھوجاتی ہے، اللہ ہے جو وحی کے وسلیہ سے اس جماعت کا تعارف کراتا ہے۔

(وممّن حولکم من الاعراب منافقون و من اهل المدینة مردوا علی النفاق لا تعلمهم نحن نعلمهم سنعذّبهم مرّتین یردّون الی عذاب عظیم) (21)

اور تمھارے گرد دیھاتیوں میں بھی منافقین ہیں اور اہل مدینہ میں تو وہ بھی ہیں جو نفاق میں ماھر اور سرکش ہیں تم ان کو نہیں جانتے ہو لیکن ہم خوب جانتے ہیں ہم عنقریب ان پر دھرا عذاب کریں گے اس کے بعد وہ عذاب عظیم کی طرف پلٹادئے جائیں گے۔

---------------------

20. مسئلہ نفاق: بنابر نقل نفاق یا کفر پنھان، ص52۔

21. سورہ توبہ/ 101۔

۱۸

مولائے کائنات امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام، اسلامی معاشرہ میں نفاق کے آفات و خطرات کا اظھار کرتے ہوئے نھج البلاغہ میں فرماتے ہیں:

((ولقد قال لی رسول الله: انی لا اخاف علی امتی مومنا ولا مشرکا امّا المؤمن فیمنعه الله بایمانه و امّا المشرک فیقمعه الله بشرکه ولکنی اخاف علیکم کل منافق الجنان، عالم اللسان یقول ما تعرفون و یفعل ما تنکرون)) (22)

رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ھے: میں اپنی امت کے سلسلہ میں نہ کسی مومن سے خوف زدہ ہوں اور نہ مشرک سے، مومن کو اللہ اس کے ایمان کی بنا پر برائی سے روک دے گا اور مشرک کو اس کے شرک کی بنا پر مغلوب کر دے گا، سارا خطرہ ان لوگوں سے ہے جو زبان کے عالم اور دل کے منافق ہیں کہتے وہی ہیں، جو تم سب پہچانتے ہو اور کرتے وہ ہیں جسے تم برا سمجھتے ھو۔

اسی نفاق کے خدو خال کی پیچیدگی کی بنا پر حضرت علی علیہ السلام کی زمام داری کی پانچ سال کی مدت میں دشمنوں سے جنگ کی مشکلات کہیں زیادہ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی مشکلات و زحمات سے تھیں۔

پیامبر عظیم الشان ان افراد سے بر سر پیکار تھے جن کا نعرہ تھا بت زندہ باد لیکن امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ان افراد سے مشغول مبارزہ و جنگ تھے جن کی پیشانیوں پر کثرت سجدہ کی بنا پر نشان پڑے ہوئے تھے۔

حضرت علی علیہ السلام ان افراد سے جنگ و جدال کر رہے تھے جن کی رات گئے تلاوت قرآن کی صداء دلسوز حضرت کمیل جیسی فرد پر بھی اثر انداز ھوگئی تھی(23)

------------

22. نھج البلاغہ، نامہ27۔

23. بحار الانوار، ج33، ص399۔

۱۹

آپ کا مقابلہ ایسے صاحبان اجتھاد سے تھا جو قرآن سے استنباط کرتے ہوئے آپ سے لڑ رہے تھے(24)

وہ افراد جو راہ خدا میں معرکہ و جھاد کے اعتبار سے درخشاں ماضی رکھتے تھے یھاں تک کہ بعض کو تمغہ جانبازی و فدا کاری بھی حاصل تھا، لیکن دنیا پرستی نے ان صاحبان صفات و کردار کو حق کے مقابل لاکھڑا کیا۔

پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زبیر کو (سابقہ، فداکاری و معرکہ آرائی دیکھتے ہوئے) سیف الاسلام کے لقب سے نوازا تھا اور طلحہ جنگ احد کے جانباز و دلیر تھے، ایسے رونما ہونے والے حالات و حادثات کا مقابلہ کرنا علوی بصیرت ہی کا کام ہے۔

قابل توجہ یہ ہے کہ مولائے کائنات نے نھج البلاغہ میں ایسے افراد سے جنگ کرنے کی بصیرت و بینائی پر افتخار کرتے ہوئے فرماتے ہیں میرے علاوہ کسی بھی فرد کے اندر یہ صلاحیت نہ تھی جو ان سے مقابلہ و مبارزہ کرتا۔

((ایها الناس انی فقات عین الفتنة ولم یکن لیجتری علیها احد غیری) )(25)

لوگو! یاد رکھو میں نے فتنہ کی آنکھ کو پھوڑ دیا ہے اور یہ کام میرے علاوہ کوئی دوسرا انجام نہیں دے سکتا ہے۔

--------------

24. سفینۃ البحار، ج1، ص380۔

25. نھج البلاغہ، خطبہ93۔

۲۰