قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق 0%

قرآن اور چہرۂ منافق مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 193

قرآن اور چہرۂ منافق

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجۃ الاسلام سید احمد خاتمی
زمرہ جات: صفحے: 193
مشاہدے: 68125
ڈاؤنلوڈ: 4665

تبصرے:

قرآن اور چہرۂ منافق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68125 / ڈاؤنلوڈ: 4665
سائز سائز سائز
قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

فتنہ پروری

منافقین کی سیاسی رفتار کی وہ خصوصیت جسے قرآن با صراحت بیان کر رہا ہے فتنہ پروری ہے منافقین اسلامی معاشرہ میں فتنہ و آشوب برپا کرنے کی فکر میں رہتے ہیں اور اس وسیلہ سے اپنے شوم و نحس مقاصد تک پھنچنا چاہتے ہیں۔

کلمۂ فتنہ کے لئے چند معانی ذکر کئے گئے ہیں لیکن آیات میں منافقین کی توصیف کرتے ہوئے جو قرائن استعمال کئے گئے ہیں، اس پر توجہ کرتے ہوئے، دو معانی منافقین کی فتنہ گری کے مفھوم کو بیان کرنے والے ھوسکتے ھیں(149)

پھلا احتمال: یہ ہے کہ منافقین کی فتنہ پروری کا ھدف اسلامی معاشرہ میں اختلاف کی ایجاد اور مسلمانوں کے اندر فتنے و افتراق کا پیدا کرنا ہے۔

دوسرا احتمال: یہ ہے کہ ان کی فتنہ گری کا مقصد شرک و بی ایمانی کی ترویج کرنا ہے، ذیل کی آیت میں فتنہ بہ معنی شرک کا مشاہدہ ہوتا ہے۔

(وقاتلوهم حتی لا تکون فتنة ویکون الدین کله لله) (150)

اور تم لوگ ان کفار سے جھاد کرو یھاں تک کہ فتنہ کا وجود نہ رہ جائے۔

---------------

149. اصل لغت میں فتنہ، وھاں استعمال ہوتا ہے جہاں سونے کو خالص کرنے کے لئے آگ میں قرار دیتے ہیں۔ قرآن میں فتنہ سات معانی میں استعمال ہوا ہے ان کا قدر مشترک (مشکل و سختی کا وجود ھے) ۔

150. سورہ انفال/39، سورہ بقرہ/193۔

۱۰۱

یہ آیت دو مرتبہ قرآن میں نازل ھوئی ہے فتنہ ان آیات میں شرک کے معنی میں استعمال ہوا ہے، صاحب ایمان حضرات کو حکم دیا گیا ہے کہ جھان میں شرک و بت پرستی کے ریشہ کنی تک مبارزہ و جنگ کرتے رھیں۔

اکثر مفسرین حضرات منافقین کے لئے فتنہ گری کے معانی میں پہلے احتمال کو قبول کرتے ہیں اور فتنہ گری کے معانی کو (تفریق کلمہ) مسلمین کے درمیان تشتت و افتراق کو سمجھتے ہیں لیکن میری نظر میں دونوں احتمال کو جمع کیا جاسکتا ہے، اس بیان کے ذریعہ کہ، منافقین ایجاد و اختلاف کے ذریعہ مسلمین کی وحدت اور اسلامی حاکمیت کو تضعیف و سرنگوں کرتے ہوئے، شرک کے حامی اور طاغوتی حکومت کے خواستگار ہیں اس لئے کہ اسلام نیز حق کی حاکمیت ختم ھوجانے کے بعد طاغوت و باطل کے سواء رہ ہی کیا جاتا ہے۔

(فماذا بعد الحق الّا الضلال) (151)

حق کے بعد، گمراھی کے علاوہ کیا رہ گیا۔

بھر حال طول تاریخ میں مشاہدہ ہوتا ہے کہ انبیاء کے دشمنوں نیز استعمار گروں کا شیوۂ کار یہ رہا ہے کہ، اختلاف ڈالو اور حکومت کرو، جن لوگوں نے اس شیوہ طرز کا استعمال کیا ہے ان میں سے ایک، فرعون بھی ہے۔

(ان فرعون علا فی الارض و جعل اهلها شیعا) (152)

فرعون نے روئے زمین پر بلندی اختیار کی اور اس نے اہل زمین کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیا۔

-------------

151. سورہ یونس/32۔

152. سورہ قصص/4۔

۱۰۲

منافقین بھی اس شیوہ، اختلاف ڈالو اور حکومت کرو کا استعمال کر کے فائدہ حاصل کرتے تھے، ہمیشہ اختلاف ایجاد کرنے کی فکر میں رہتے تھے تاکہ دوبارہ کفر کی حاکمیت کو واپس لے آئیں۔

(لو خرجوا فیکم مازادوکم الا خبالا ولأ وضعوا خلالکم یبغونکم الفتنة وفیکم سمّاعون لهم والله علیم باالظالمین) (153)

اگر یہ تمھارے درمیان نکل پڑتے تو تمھاری وحشت میں اضافہ ہی کرتے اور تمھارے درمیان فتنہ کی تلاش میں گھوڑے دوڑاتے اور تم میں سے ایسے لوگ بھی تھے جو ان کی سننے والے بھی تھے، اور اللہ تو ظالمین کو خوب جاننے والا ہے۔

مذکورہ کی آیت سے استفادہ ہوتا ہے کہ جھاد کی صف میں منافقین کا وجود، تفرقہ و تردید اور قلوب کو ضعیف کرنے کا سبب ہے، یہ اپنے سریع حضور و شدید ھنگامہ آرائی کی بنا پر ان مسلمانوں کو جو عمیق فکر نہیں رکھتے تھے اور منافق کے خطرات کو درک کرنے سے قاصر تھے فوراً تحت تاثیر قرار دیتے تھے، تاکہ لشکر کے افراد میں تفرقہ ایجاد کرسکیں۔

مسجد ضرار کے بنانے میں بھی، ھنگامہ، فتنہ گری، مومنین کے درمیان ایجاد تفرقہ اور کفر کی ترویح جیسے امور ان کے اھداف و مقاصد تھے(154)

خداوند عالم سورہ توبہ کی آیت نمبر اڑتالیس جو منافقین کی جنگ تبوک میں فتنہ انگیزی کے صورت حال کو بیان کرتی ہے اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ فتنہ انگیزی منافقین کی دائمی رفتار ہے اور اس میدان میں سبقت رکھتے ہیں منافقین جنگ احزاب (خندق) میں بھی تفرقہ ایجاد کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن کامیاب نہیں ھوسکے۔

---------------

153. سورہ توبہ/47۔ یھاں (سماع) سے مراد سادہ لوح اور تاثیر پذیری ہے گرچہ بعض مفسرین نے جاسوس کے معنی میں لیا ہے لیکن جب منافقین خود ہی لشکر میں ہوں تو جاسوسی کرنا لغو ہے۔

154. سورہ توبہ/107 (والذین اتخذوا مسجدا ضرارا وکفرا وتفریقا بین المومنین) ۔

۱۰۳

(لقد ابتغوا الفتنة من قبل و قلبوا لک الامور حتی جاء الحق و ظهر امر الله وهم کارهون) (155)

بے شک انھوں نے اس سے قبل بھی فتنہ کی کوشش کی تھی اور تمھارے امور کو الٹ پلٹ دینا چاہتے تھے یھاں تک کہ حق آگیا اور امر خدا واضح ھوگیا اگر چہ یہ لوگ اسے ناپسند کر رہے تھے۔

تاریخ میں وافر شواہد موجود ہیں کہ منافقین، مومنین میں ایجاد اختلاف اور وحدت کلمہ کو نیست و نابود کرنے کے لئے بھت زیادہ سعی و کوشش کیا کرتے تھے صرف دو مورد کو بیان کیا جارھا ھے:

1۔ جنگ احد میں عبد اللہ ابن ابی جو منافقین کے ارکان میں سے تھا، تین سو افراد کو لے کر رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لشکر سے جدا ھوکر، مدینہ پلٹنے کا ارادہ کر لیا، بعض اشخاص نے جیسے عبد اللہ جابر انصاری کے والد جو خزرج قبیلہ کے سرداروں میں سے تھے کافی نصیحتیں کیں لیکن فائدہ بخش نہ رھی، عبد اللہ ابن ابی رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفوں سے جدا ہونے کا بھانہ یہ کر رہا تھا کہ ہم جن افراد کی قدر و قیمت کے قائل نہیں، پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے مشورہ کو قبول کرتے ہوئے احد کی طرف حرکت کی ہے، عبد اللہ ابن ابی اپنے ان الفاظ و حرکات سے چاھتا تھا کہ قبیلہ کے سرداروں کو بھڑکائے اور احد میں شریک ہونے سے منع کرسکے لیکن کامیاب نہ ھوسکا(156)

--------------

155. سورہ توبہ/48۔

156. تفسیر المیزان، ج10، ص238۔

۱۰۴

2۔ مھاجرین میں سے ایک شخص بنام "جھجاة" اور ایک فرد انصار بنام "سنان" کا کنویں سے پانی لینے کے موقع پر اختلاف ھوگیا شخص مھاجر کے انصار کے منہ پر طمانچہ مار دینے کی وجہ سے، رسم جاھلیت کی بنا پر دونوں طرف کے افراد اپنے قبیلہ و گروہ کی نصرت کے لئے ننگی تلواریں لے کر میدان میں اتر آئے، قریب تھا کہ طرفین میں شدید جنگ شروع ھوجائے لیکن رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مداخلت سے ایسا نہ ھوسکا آپ نے فرمایا: اس طرح سے لڑنا اور مدد کا مانگنا شرم اور نفرت انگیز ہے منافق جماعت چاھتی تھی کہ اس موقعیت سے فائدہ اٹھائیں اور طرفین میں قبیلہ کے تعصب کو بھڑکائیں اور فتنہ ایجاد کریں لیکن مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دخالت سے یہ سازش بھی ناکام رھی(157)

اس طرز کے مشابہ حوادث اور واقعات سے عبرت حاصل کرنا چاھئے اور اس نکتہ کی طرف متوجہ رھنا چاھئے کہ دشمن ہمیشہ چاھتا یہ ہے کہ فضا کو کینہ عداوت اور اختلاف سے آلودہ کئے رہے تاکہ دوبارہ جاھلیت کے رسم و رواج کو حاکمیت بخش سکے، یہ رفتار و شیوہ فقط کل کے منافقین کا نہیں تھا بلکہ آج اور آئندہ کے منافقین کا بھی ایسا ہی طرز عمل رہے گا۔

حضرت امام علی افتراق کے نقصانات، منافقین کی فتنہ گری کے خطرات کار گر ہونے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:

((و ایم الله ما ختلفت امة قط بعد نبیها الاظهر اهل باطلها علی اهل حقها الا ما شاء الله )) (158)

خدا کی قسم ہر امت ان کے پیامبر کے بعد اختلافات سے دوچار ھوئی ہے اور اہل باطل حق پر قابض ھوگئے ہیں مگر وھاں جہاں خدا نے نہیں چاھا ہے۔

-------------

157. سیرت ابن ھشام ج2، ص29۔ منشور جاوید قرآن، ج4، ص81، 82۔

158. شرح نھج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج5، ص181۔

۱۰۵

اہل حق کا آپس میں اختلاف و تفرقہ پیدا کرنے کا نتیجہ و ثمرہ، اہل باطل کا ابھرنا اور ان کے اقتدار و قبضہ کا وسیع ہونا ہے لھذا اسی دلیل کی بنا پر منافق جماعت شدت سے کوشش کرتی ہے کہ اہل حق کے درمیان اختلاف اور دو دلی ایجاد کردیں تاکہ اس کے ثمرہ سے فائدہ اٹھا سکیں۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے دوران حکومت، معاویہ اور اس کے اہل کار امام کے لشکر اور افراد میں فتنہ برپا کرنے اور اختلاف ڈالنے میں کامیاب ھوگئے اور جب آپ کے افراد اختلاف و تفرقہ کی بنا پر مختلف گروھوں میں تقسیم ھوگئے، باوجودیکہ ان کا رھبر و قائد (امام علی علیہ السلام) جیسا بھترین فرد زمان و مکان تھا لیکن منافق جماعت اپنے ھدف میں کامیاب ھوگئی اور روز بروز امام علی علیہ السلام کی حکومت کا دائرہ تنگ سے تنگ تر کرنے لگی تھی۔

جب امام علی علیہ السلام کو یمن پر بسر بن ابی ارطاة کے مسلط ھونے، نیز اس کے حولناک مظالم کی خبر پائی کوفہ کے لوگوں کو مخاطب کر کے کھا: خدا کی قسم میں جانتا تھا کہ تمھاری رفتار و اطوار اور آپسی اختلاف و تفرقہ کی بناء پر ایسا دن ضرور آئے گا۔

(انی والله لأظن ان هولاء اقوم سید الون منکم باجتماعهم علی باطلهم وتفرقکم عن حقکم) (159)

خدا کی قسم میرا خیال یہ ہے کہ عنقریب یہ لوگ تم پر مسلط و قابض ہوجائیں گے اس لئے کہ یہ اپنے باطل پر متحد اور تم اپنے حق پر متحد نہیں ھو۔

-------------

159. نھج البلاغہ، خطبہ25۔

۱۰۶

نفسیاتی جنگ کی ایجاد

قرآن میں منافقین کی سیاسی رفتار کی خصوصیت میں سے ایک نفسیانی جنگ کی ایجاد ہے، متزلزل و مضطرب ماحول سازی، نا امن فضا کی جلوہ نمائی، غلط اور جھوٹ افواہ کی نشر و اشاعت، معاشرے میں بے بنیاد و مختلف تھمتوں کا وجود، معاشرہ میں ایک نفسیاتی جنگ کے عناصر ہیں وہ ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کے نفسیاتی جنگ کے ذریعہ معاشرے کو اضطراب کی طرف لے جاتے ہوئے عمومی حوصلہ کو ضعیف کردیں اور مایوسی و ناامیدی کا شکار بنادیں، تاکہ مومنین وقت پر صحیح اور ضروری اقدام کی صلاحیت کھو بیٹھیں، اور بر محل مناسب حرکت کی قدرت بھی نہ رکھ سکیں۔

نفسیاتی جنگ کی ایجاد کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ معاشرے کو حالت تردید کا مریض بنادیں، تاکہ وہ ملک کی اطلاعات و اخبار کے سلسلہ میں مشکوک ھوجائے، اسلامی نظام کے ارکان اور کار گذاران نیز ممتاز شخصیت پر سے اعتماد سلب ھوجائے، جس کا ثمرہ معاشرے میں اختلاف و تفرقہ اور اسلامی حکومت کی تصعیف ہے منافقین نفسیاتی جنگ کو وجود میں لانے کے لئے مختلف طریقہ کار و طرز عمل سے استفادہ کرتے ہیں۔

۱۰۷

نفسیاتی جنگ کے حربے اور وسائل

1) دشمن کے عظیم اور بزرگ ہونے کی جلوہ نمائی کرانا

نفسیاتی جنگ کے سلسلہ میں ان کے وسایل میں سے ایک، دشمن کے عظیم و بزرگ ہونے کی جلوہ نمائی کرانا،اور مسلمانوں کی قوتوں کو پست و تحقیر کرنا ہے، وہ دشمن کے افراد اور وسائل کو شمار کرتے ہوئے مسلمانوں کے لشکر کو بھت معمولی اور حقیر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کہ مومنین کے دلوں میں خوف و رعب ڈال دیں تاکہ وہ دشمن کے مقابلہ میں نہ ٹھر سکیں۔

(واذا قالت طائفة منهم یا اهل یثرب لا مقام لکم فارجعوا) (160)

اور جب ان کے ایک گروہ نے کہدیا کہ مدینہ والو اب یھاں ٹھکانہ نہیں ہے لھذا واپس اپنے گھر چلے جاؤ۔

منافقین دشمنوں کی کامیابی کو عظیم تصور کرتے ہیں، اور مومنین کی فتح و کامیابی کو حقیر سمجھتے ہیں، مشرکین کو مفتضحانہ شکست کو ناچیز اور لشکر اسلام پر وارد شدہ نقصان کو خوف ناک انداز سے بیان کرتے ہیں، کبھی بے محل کامیابی کی خبر سنا کر مومنین کو غرور کا شکار بنادیتے ہیں اور کبھی بے وقت شکست و خطرات کی اطلاع دے کر مومنین کو رعب و وحشت سے دوچار کردیتے ھیں(161)

(واذا جاءهم أمر من الأمن او الخوف اذاعوا به ولو ردّوه الی الرسول والی اولی الأمر منهم لعلمه الذین یستنبطونه منهم) (162)

جب ان کے پاس امن یا خوف کی خبر آتی ہے تو فوراً نشر کردیتے ہیں حالانکہ اگر رسول اور صاحبان امر کی طرف پلٹا دیتے تو تو ان سے استفادہ کرنے والے حقیقت حال کا علم پیدا کر لیتے۔

----------------

160. سورہ احزاب/13۔

161. اس نکتہ کو سورہ احزاب کی آیت نمبر 60 سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

162. سورہ نساء/83۔

۱۰۸

مذکورہ آیت سے استفادہ ہوتا ہے کہ واصل شدہ خبریں، باوجودیکہ اس کی صحت و درستگی پر مطمئن ہی ہوں منتشر نہیں کرنا چاھئے، بلکہ اس کے نتائج و اثرات کی تحقیق کرتے ہوئے نیز ذمہ دار افراد سے مشورہ کرنے کے بعد اسے نشر کرنا چاھئے اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ انسان کے علم میں جو کچھ بھی ہے وہ بیان کردے۔

حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

((لاتقل کل ما تعلم فان الله فرض علی جوارحک کلها فرائض تحتج بها علیک یوم القیامة)) (163)

ہر وہ بات جسے تم جانتے ہو اسے مت بیان کرو اس لئے کہ اللہ نے ہر عضو بدن کے کچھ فرائض قرار دئے ہیں اور ان ہی کے ذریعہ حجت قائم کی جائے گی۔

مضمون حدیث اس کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ بعض گفتگو و سخن کا اظھار مومنین یا اسلامی نظام کے اسرار کو افشا کرنے کے مترادف ہے یا فساد و فتنہ کا باعث ہے لھذا ایسی گفتگو کرنے والا کہ جس سے ایسے اثرات مرتب ہوں عدل الہی کے محضر میں جوابدہ ہوگا لھذا کوئی بھی کلام و گفتگو زبان پر لانے سے قبل اس کے عواقب و نتائج کے بارے میں بھی غور و فکر کرنی چاھئے، ہر بات چاھے کتنی ہی سچ کیوں نہ ہو بیان کرنے سے پرہیز کرنا چاھئے۔

-------------

163. نھج البلاغہ، حکمت، 382۔

۱۰۹

2) مشتبہ خبروں کی ایجاد و تشھیر

نفسیاتی جنگ کا دوسرا وسیلہ مشتبہ خبروں کی ایجاد اور معاشرے میں وسیع پیمانہ پر تشھیر کرنا ہے، افواہ پھیلانے والوں کا مقصد افراد پر اثر انداز ہونا ہے خواہ تھوڑے ہی عرصہ کے لئے ھو، مشتبہ خبروں کو شائع کرنا منافقین کا طرز عمل تھا اور ہے، یہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بحرانی حالات میں رونما ھوتے تھے اضطراب اور افواہ کو پھیلا کر اسلامی معاشرے کو مضطرب کیا کرتے تھے، یہ شیطانی حرکات جنگ کے زمانے میں زیادہ عروج پر پہونچ جاتی تھیں، دشمن کے وسائل اور تعداد کا مبالغہ آمیز بیان یا پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کردئے جانے یا اسیر ھوجانے کی خبر، افواہ کے اصل محور ہوا کرتے تھے۔

جنگ احزاب کے موقع پر مسلمانوں کی نفسیاتی کیفیت کچھ زیادہ مناسب نہیں تھی اس لئے کہ اسلام کے تمام مخالف گروہ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکومت کو صفحۂ ھستی سے محو کرنے کے لئے جمع ھوگئے تھے، اور مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، اس موقع پر منافقین افواہ پھیلا کر مسلمانوں کی روحی حالت کو زیادہ سے زیادہ کمزور کر رہے تھے۔

خداوند عالم ذیل کی آیت میں منافقین کی حرکات کو برملا کرتے ہوئے تھدید کررھا ہے کہ اگر اس بد رفتاری سے دست بردار نہ ہوئے تو ان کے ساتھ ایسا کیا جائے گا کہ یہ مدینہ میں رہ ہی نہیں سکتے ہیں۔

(لئن لم ینته المنافقون والذین فی قلوبهم مرض و المرجفون فی المدینة لنغرینک بهم ثم لا یجاورونک فیها الا قلیلا) (164)

پھر اگر یہ منافقین اور وہ لوگ کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور مدینہ میں افواہ پھیلانے والے اپنی حرکتوں سے بعض نہ آئے تو ہم آپ ہی کو ان پر مسلط کردیں گے پھر تو یہ آپ کے ساتھ میں چند ہی دن رہ پائیں گے۔

--------

164. احزاب 60 اس آیت میں جو تین عنوان ذکر کئے گئے ہیں 1: منافقین 2: مریض دل 3: مرجفون (افواہ پھیلانے والے) کیا یہ تینوں عنوان تین گروہ کے ہیں جو مدینہ میں سازش کر رہے تھے یا یہ ایک ہی گروہ کے صفات ھیں؟ بعض نے فرمایا ہے کہ سازش کرنے والے تین گروہ تھے منافقین، مریض دل کہ جن کا شمار اراذل و اوباش میں ہوتا تھا جو محاذ جنگ پر جانے کے بجائے مسلمانوں کے لئے اذیت و تکلیف کے اسباب فراھم کرتے تھے، مرجفون افواہ پھیلانے والے ہیں، لیکن یہ بھی احتمال ہے کہ یہ تینوں عنوان منافقین کے لئے ہوں اس توضیح کے ساتھ کہ دوسرا اور تیسرا عنوان ان کی خصوصیت کو بیان کررھا ہے جس کو اصطلاح میں ذکرالخاص بعدالعام کھا جا تا ہے۔

۱۱۰

سماج اور معاشرے میں مشتبہ خبروں کے رائج ہونے سے روکنے کا بھترین راستہ یہ ہے کہ:

الف) اشخاص و افراد ان اخبار یا افواہ کو سننے کے بعد، جن کے صحیح ہونے میں شک و شبہ رکھتے ہیں اس کی تشھیر سے پرہیز کریں، افواہ کی تکرار و تشھیر دشمن کی ایک طرح سے مدد ہے اس لئے کہ وہ اس طرح سے اپنے شوم ارادہ اور مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں اکثر مواقع پر اسلامی معاشرہ اس مصیبت میں گرفتار ہوجاتا ہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے انسان کو ہر سماعت کردہ خبر نقل کرنے سے منع فرمایا ہے

((کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع)) (165)

کسی انسان کے کاذب ہونے کے لئے یھی کافی ہے کہ جس چیز کو سماعت کرے زبان پر بھی لے آئے۔

ب) حقایق کو کشف کرنے، باطل کو حق سے جدا کرنے اور مشتبہ خبر کو الگ کرنے کے لئے قابل اطمینان منبع کی طرف رجوع کرنا چاھئے تاکہ وہ ابھام کو آشکار کردیں اور دشمن اپنے شوم و منحوس مقاصد یعنی مسلمانوں کی روحی وضعیت کو ضعیف کرنے یا مسلمانوں کے ایک دوسرے بالخصوص کار گزاران سے اعتماد کو سلب کرنے میں کامیاب نہ ھوسکیں۔

--------------

165. بحار الانوار، ج2، ص159۔

۱۱۱

3) افترا پردازی و الزام تراشی

تیسرا ذریعہ جو منافقین نفسیاتی جنگ کو وجود میں لانے کے لئے استعمال کرتے ہیں افتراء پردازی و الزام تراشی ہے، منافقین کی سیاسی رفتار کے خصائص میں سے ایک خصوصیت نفسیاتی جنگ کی ایجاد ہے تا کہ اسلامی معاشرے کی حرمت و آبرو اور امنیت کو خطرہ میں ڈال سکیں۔

اسلامی فرھنگ (کلچر) میں اشخاص کی آبرو، عزت، جان و اموال قابل احترام ہیں کوئی کسی ایک پر بھی تعرض کا حق نہیں رکھتا، اسی وجہ سے قانون معاشرت، حدود و قصاص مرتب کئے گئے ہیں تاکہ معاشرے کی امنبیت مختلف زاویہ سے قائم رھے، ان تینوں یعنی جان، اموال اور آبرو میں سے حرمت و آبرو کا خاص مقام ہے پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

((ان الله حرّم من المسلم دمه و عرضه وان یظن به ظن السوء)) (166)

خداوند عالم مومن کی جان و آبرو کو محترم سمجھتا ہے، مومن کے سلسلہ میں سوء ظن حرام ہے

اسلام کی نگاہ میں آبرو، حرمت کا تحفظ اس قدر اھمیت کا حامل ہے کہ زنا و لواط کے الزام لگانے کو اگر ثابت نہ کرسکے تو اسی کوڑے مارنے کا حکم ہے اسی طریقہ سے غیر جنسی الزام لگانے پر حاکم شرع سزادے سکتا ہے، انبیاء حضرات کے مخالفوں کا دائمی شیوۂ کار، پاکیزہ ھستیوں پر الزام و افتراء پردازی رھی ہے خصوصاً جنسی بھتان تراشی، یھاں تک کہ حضرات موسی علیہ السلام اور بعض پیامبران پر بھی یہ تھمت لگائی گئی۔

-----------

166. تفسیر قرطبی، ج16، ص332۔

۱۱۲

نقل کیا جاتا ہے کہ قارون صرف اس لئے کہ زکاة کے قانون کو قبول نہ کرے اور فقرا و غربا کے حقوق ادا نہ کرے، ایک سازش رچی، ایک بد کردار عورت کو حکم دیا کہ مجمع میں اٹھ کھڑی ہو اور حضرت موسی علیہ السلام پر نا مشروع روابط کا الزام لگائے، خدا کے لطف کی بنا پر صرف یھی نہیں کہ قارون کی سازش ناکام رھی بلکہ اس عورت نے حضرت موسی علیہ السلام کی پاکیزگی کا اعلان کرتے ہوئے قارون کی سازش کا بھی اعلان کردیا۔

خداوند متعال اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو نصیحت کر رہا ہے کہ تم لوگ قارون جیسی صفت کے حامل نہ ھونا۔

(یا ایها الذین آمنوا لا تکونوا کا الذین آذوا موسی فبرأه الله مما قالوا وکان عند الله وجیهاً) (167)

ایمان والو! خبردار ان کے جیسے نہ بن جاؤ جنھوں نے موسی کو اذیت دی تو خدا نے موسی کو ان کے قول سے بری ثابت کردیا اور وہ اللہ کے نزدیک ایک وجیہ انسان تھے

حضرت یوسف پر تھمت لگائی گئی کہ وہ زنا کا ارادہ کررھے تھے، حضرت داؤد علیہ السلام پر الزام لگایا گیا کہ وہ ایک سپاھی کی بیوی سے شادی کرنا چاہتے تھے لھذا اس کے شوھر کو محاذ جنگ پر بھیج کر قتل کرادیا، تاکہ اس کی بیوی سے شادی کرسکیں حضرت مریم عذرا سلام اللہ علیھا پر نا مشروع روابط کی بھتان تراشی کی گئی۔

--------------

167. سورہ احزاب/96۔

۱۱۳

قرآن کریم کی آیتوں سے استفادہ ہوتا ہے کہ منافقین بھی اسلامی معاشرہ کے پاک طینت افراد کو اپنی پلید فکر کا نشانہ بناتے رہے ہیں، افک کا واقعہ اسی طرز عمل کا ایک نمونہ ہے آیت افک کی شان نزول اور اصل واقعہ کو دو طریقہ سے بیان کیا گیا ہے۔

لیکن جو طرفین سے مسلم ہے وہ یہ ہے کہ ایک پاک دامن خاتون منافقین کی طرف سے مورد اتھام قرار دی گئی تھی، اسلامی معاشرے کے افراد اس کی عزت و آبرو کا دفاع کرنے کے بجائے اس افواہ کو وسعت دے رہے تھے خداوند عالم سورہ نور کی گیارھویں آیت سے لے کر سترھویں آیت تک کے ضمن میں منافقین کی رفتار کی سرزنش اور مسلمانوں کے رد عمل کی توبیخ کرتے ہوئے، اس قسم کی افواہ و افتراء پردازی سے مبارزہ کرنے کے صحیح اصول و شیوہ کو بتا رہا ہے، آیات کا ترجمہ پیش کیا جارھا ھے:

بے شک جن لوگوں نے زنا کی تھمت لگائی وہ تم ہی میں سے ایک گروہ تھا۔ تم اسے اپنے حق میں شر نہ سمجھو یہ تمھارے حق میں خیر ہے اور ہر شخص کے لئے اتنا ہی گناہ ہے جو اس نے خود کمایا ہے اور ان میں سے جس نے بڑا حصہ لیا ہے اس کے لئے بڑا عذاب ہے، آخر ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم لوگوں نے اس تھمت کو سنا تھا تو مومنین و مومنات اپنے بارے میں خیر کا گمان کرتے اور کہتے کہ یہ تو کھلا ہوا بھتان ہے، پھر ایسا کیوں نہ ہوا پھر یہ چار گواہ بھی لے آتے اور جب گواہ نہیں لائے تو یہ اللہ کے نزدیک بالکل جھوٹے ہیں اور خدا کا فضل دنیا و آخرت میں اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو جو چرچا تم نے کیا تھا اس سے تمھیں بڑا عذاب گرفت میں لے لیتا، جب تم اپنی زبان سے چرچا کر رہے تھے اور اپنے منہ سے وہ بات نکال رہے تھے جس کا تمھیں علم بھی نہیں تھا اور تم اسے بھت معمولی سمجھ رہے تھے حالانکہ اللہ کے نزدیک وہ بھت بڑی بات تھی، اور کیوں نہ ایسا ہوا جب تم لوگوں نے اس بات کو سنا تھا تو کہتے کہ ھمیں ایسی بات کھنے کا کوئی حق نہیں ہے، خدایا! تو پاک و بے نیاز ہے اور یہ بھت بڑا بھتان ہے، اللہ تم کو نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم صاحب ایمان ہو تو اب ایسی حرکت دوبارہ ھرگز نہ کرنا۔

۱۱۴

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے خلاف معاویہ کی پرو پیگنڈا مشیزی بھت زیادہ فعّال تھی، موقع بہ موقع، بھتان تراشی و افترا پردازی سے کام لیتی رھتی تھی، معاویہ کے افتر و الزام میں سے ایک عثمان کے قتل میں آپ کی شرکت کا پروپیگنڈا تھا، جب کہ آپ کی ذات ایسی حرکات سے مبرا تھی، آپ کا تارک الصلاۃ ہونا ایک دوسری تھمت تھی جو معاویہ نے پورے شام میں تشھیر کرا رکھی تھی۔

ہاشم بن عتبہ کا بیان ہے کہ معاویہ کے لشکر میں ایک جوان کو دیکھا جو بھت جوش ولولہ سے لڑرھا تھا اس سے اس جوش و خروش کی وجہ دریافت کی، اس نے کہا میں اس کو قتل کرنا چاھتا ہوں جو نماز نہیں پڑھتا ہے اور عثمان کا قاتل ہے(168)

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے فرق مبارک پر مسجد میں ضربت لگنے اور اس کے ذریعہ سے آپ کی شھادت واقع ہونے کی خبر جب شام میں منتشر ھوئی تو بعض شامی تعجب سے کہتے تھے کیا علی علیہ السلام نماز پڑھتے تھے؟!

حضرت علی علیہ السلام پر معاویہ کی طرف سے انتھائی دردناک و تکلیف دہ الزامات و اتھام میں سے ایک آپ کی طرف سے مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کے لئے سازش اور پروگرام مرتب کرنے کی تھمت تھی(169)

بھر حال منافقین کا طریقہ عمل، معاشرہ میں تلاطم و اضطراب پیدا کرنے کے لئے اتھام و الزام کے حربے کا استعمال ہوتا ہے ان کے بعض مقاصد اس سلسلہ میں بطور اجمال پیش کئے گئے ہیں۔

شخصیت کے مجروح اور افراد کو متھم کرنے کے سلسلہ میں منافقین کے اھداف یہ ھوتے ہیں کہ اپنے امنیتی و حفاظتی دائرہ کو محکم اور اپنی شخصیت کو مبرّہ قرار دیں کیونکہ اپنی پوشیدہ حالت کے آشکار و عیاں ہونے سے خوف زدہ رہتے ہیں، لھذا دیگر اشخاص پر افتراء پردازی و الزام تراشی سے ھنگامہ و اضطراب پیدا کرتے رہتے ہیں تاکہ صاحبان ایمان کی شخصیت اس سے مضمحل اور متأثر ہوتی رھے(170)

-------------------

168. تاریخ طبری، ج6، ص2556۔

169. الغارات، ج2، ص581۔

170. اس نکتہ کو سورہ فتح کی آیت نمبر 15 سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

۱۱۵

فصل سوم : منافقین کی نفسیاتی خصائص

منافقین کی نفسیاتی خصائص

1) تکبر اور خود بینی

قرآن مجید وہ نکات جو منافقین کی نفسیاتی شناخت کے سلسلہ میں، روحی و نفسیاتی خصائص کے عنوان سے بیان کر رہا ہے، پھلی خصوصیت تکبر و خود محوری ہے۔

کبر کے معنی اپنے کو بلند اور دوسروں کو پست تصور کرنا، تکبر پرستی ایک اہم نفسیاتی مرض ہے جس کی بنا پر بھت زیادہ ہی اخلاقی انحرافات پیش آتے ہیں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں۔

((ایاک والکبر فانه اعظم الذنوب والئم العیوب)) (171)

تکبر سے پرہیز کرو اس لئے کہ عظیم ترین معصیت اور پست ترین عیب ہے۔

کبر، اعظم الذنوب ہے یعنی عظیم ترین معصیت ہے کیونکہ تکبر ہی کے ذریعہ کفر نشو و نما پاتا ہے، ابلیس کا کفر اسی کبر سے وجود میں آیا تھا، جس وقت اسے آدم (ع) کے سجدہ کا حکم دیا گیا، اس نے خود کو آدم علیہ السلام سے بزرگ و برتر تصور کرتے ہوئے سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور اس فعل کی بنا پر کفر کے راستہ پر چل پڑا۔

(ابی واستکبر و کان من الکافرین) (172)

اس نے انکار و غرور سے کام لیا اور کافرین میں ھوگیا۔

--------------

171. تصنیف الغرر الحکم، ص309۔

172. سورہ بقرہ/34۔

۱۱۶

انبیاء حضرات کے مخالفین، تکبر فطرت ہونے ہی کی بنا پر پیامبروں کے مقابلہ میں قد علم کرتے تھے، اور انبیاء حضرات کی تحقیر و تکفیر کرتے ہوئے آزار و اذیت دیا کرتے تھے، جب ان کو ایمان کے لئے دعوت دی جاتی تھی وہ اپنی تکبری فکر و فطرت کی بنا پر انکار کرتے ہوئے کہتے تھے۔

(قالوا ما انتم اِلّا بشر مثلنا) (173)

ان لوگوں نے کہا تم سب ھمارے ہی جیسے بشر ھو۔

کبر، الئم العیوب، ہے یعنی تکبر پست ترین عیب ہے اس لئے کہ متکبر فرد کی نفسیاتی حقارت و پستی کی نشان دھی ہوتی ہے، وہ فرد جو خود کو بزرگ تصور کرتا ہے وہ احساس کمتری کا شکار رہتا ہے، لھذا چاھتا ہے کہ تکبر کے ذریعہ اس کمی کا مداوا کرسکے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

((مامن رجل تکبّر او تجبّر اِلا لذلّة و جدها فی نفسه)) (174)

کوئی فرد نہیں، جو تکبر یا ظالمانہ گفتگو کرتا ھو، اور پست طبیعت و حقیر نفس کا حامل نہ ھو۔

احادیث و روایات کے مطابق تکبر میں دو اہم بنیادی عنصر پائے جاتے ہیں، افراد کو پست و حقیر سمجھنا اور حق کے مقابلہ میں سر تسلیم خم نہ کرنا۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

((الکبر ان تغمص الناس و تسفه الحق)) (175)

تکبر یہ ہے کہ لوگوں کی تحقیر کرو اور حق کو بے مقدار تصور کرو۔

----------

173. سورہ یس/15۔

174. اصول کافی، ج2، ص312۔

175. میزان الحکمۃ، ج8، ص305، بحارالانوار، ج73، ص217۔

۱۱۷

اسلامی اخلاق کے پیش نظر تکبر کے دونوں عنصر شدید مذموم ہیں اس لئے کہ اشخاص کی تحقیر کرنا خواہ وہ ظاہراً کسی جرم کے مرتکب بھی ہوئے ہوں محرمات میں شمار ہوتا ہے، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

((ان الله تبارک و تعالی ……اخفی ولیه فی عباده فلا تستصغرون عبدا من عبید الله فربما یکون ولیه وانت لا تعلم)) (176)

خداوند عالم نے اپنے خاص افراد کو اپنے بندوں کے درمیان پھیلا رکھا ہے، بندگان خدا میں کسی کی تحقیر و بے احترامی نہ کرو، شاید وہ اللہ کے دوستوں میں سے ہوں اور تمھیں علم نہ ھو۔

ایک دوسری روایت میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا گیا ہے کہ خدا فرماتا ھے:

((لیأذن بحرب منی من اذلّ عبدی المؤمن)) (177)

جو بھی کسی بندۂ مومن کی تحقیر و تذلیل کرے ہم سے جنگ کے لئے آمادہ ہوجائے۔

جمھوری اسلامی ایران کے بانی حضرت امام خمینی (رح) کتاب تحریر الوسیلہ کے امر بالمعروف والے باب میں تحریر فرماتے ہیں۔

معروف کے حکم دینے اور برائی سے روکنے والے خود کو مرتکب گناہ فرد سے برتر و بغیر عیب کے نہ جانیں، شاید ھوسکتا ہے کہ مرتکب گناہ (خواہ کبیرہ) اچھے صفات کا حامل ہو اور خدا اس کو دوست بھی رکھتا ہو لیکن تکبر و خود بینی کے گناہ کی وجہ سے امر بالمعروف کرنے والا سقوط کرجائے اور شاید ھوسکتا ہے کہ آمر معروف و ناھی منکر ایسے برے صفات کے حامل ہوں کہ خداوند متعال کی نگاہ میں مبغوض ہوں چاھے خود انسان اپنے اس برے صفت کا علم نہ رکھتا ھو۔

------------

176. بحار الانوار، ج90، ص263۔

177. بحار الانوار، ج75، ص145۔

۱۱۸

لیکن اس بات کو عرض کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ امر بالمعروف اور حدود الہی کا اجرا ترک کردیا جائے بلکہ انسان و اشخاص کی کرامت و حرمت اور ایمانی منزلت کو حفظ کرتے ہوئے امر بالمعروف اور حدود کا اجرا کرنا چاھیے۔

پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

((اذا زنت خادم احدکم فلیجلدها الحدو لا یعیرها)) (178)

اگر تمھاری کسی کنیز نے زنا کا ارتکاب کیا ہے تو اس پر زنا کی حد جاری کرو مگر اس کی عیب جوئی و طعنہ زنی کا تم کو حق نھیں۔

اسی بنا پر بارھا دیکھا گیا کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر المومنین نے زناء محصنہ کے مرتکب افراد پر حد جاری کرنے کے بعد خود با احترام اس کے جنازہ پر نماز میت پڑھی ہے اور ان کی حرمت و آبرو کو حفظ کیا ہے(179)

اکثر روایات اور احادیث میں حق کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے، نزاع اور جدال غیر احسن کے عنوان سے اس کی مذمت کی گئی ہے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام کا قول ھے:

((ما الجدال الذی بغیر التی هی احسن ان تجادل مبطلا فیورد علیک مبطلا فلا تردّه بحجة قد نصبها الله ولکن تحجد قوله او تحجد حقا یرید ذالک المبطل ان یعین به باطله فتجحد ذلک الحق مخافة ان یکون علیک فیه حجة)) (180)

جدال غیر احسن یہ ہے کہ کسی ایسے فرد سے بحث کیا جائے جا ناحق ہے اور اس کے ساتھ حجت و منطق نیز شرعی دلیل کے ذریعہ وارد بحث نہ ہوا جائے اور اس کے قول یا اس کے حق کو انکار کردیا جائے اس خوف کی بنا پر کہ خدا ناخواستہ (حق) کے ذریعہ اپنے باطل کے لئے مدد لے۔

-------

178. مجموعہ ورام، ج1، ص57۔

179. سفینۃ البحار، ج1، ص512، وسائل الشیعہ، ج18، ص375، بحار الانوار، ج28 ص12۔

180. تفسیر نور الثقلین، ج2، ص163۔

۱۱۹

قرآن و روایات میں تسلیم حق کے سلسلہ میں زیادہ تاکید کی گئی ہے حق پذیری بندگان خدا اور مومنین کے صفات میں بیان کیا گیا ہے۔

(فبشّر عباد الذین یستمعون القول فیتّبعون احسنه،) (181)

اے پیغمبر! آپ میرے بندوں کو بشارت دے دیجئے جو باتوں کو سنتے ہیں اور جو بات اچھی ہوتی ہیں اس کا اتباع کرتے ہیں،

حق کے مقابلہ سر تسلیم خم کرنا مومنین کے صفات و خصائص میں سے ہے اور کبر کا نکتۂ مقابل ہے۔

(طلبت الخضوع فما وجدت الا بقبول الحق، اقبلوا الحق فان قبول الحق یبعد من الکبر) (182)

میں نے خضوع کو طلب کیا اور اس کو صرف تسلیم حق میں پایا حق کے مقابل تسلیم پزیر رہو کہ یہ حالت تم کو کبر سے دور رکھتی ہے۔

آیات قرآن کی بنا پر تکبر منافقین کی صفات میں سے ہے۔

(و اذا قیل لهم تعالوا یستغفر لکم رسول الله لوّوا رئوسهم ورایتهم یصدون وهم مستکبرون) (183)

اور جب ان سے کھا جاتا ہے کہ آؤ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمھارے حق میں استغفار کریں گے تو یہ سر پھرا لیتے ہیں اور تم دیکھو گے کہ استکبار کی بنا پر منہ بھی موڑ لیتے ہیں۔

(و اذا قیل له اتّق الله اخذته العزّة بالاثم) (184)

جب ان سے کھا جاتا ہے کہ تقوائے الہی اختیار کرو تو وہ تکبر کے ذریعہ گناہ پر اتر آتے ہیں۔

-------------

181. سورہ زمر/17، 18۔

182. بحار الانوار، ج69، ص399۔

183. سورہ منافقون/5۔

184. سورہ بقر/ 206۔

۱۲۰