قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق 0%

قرآن اور چہرۂ منافق مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 193

قرآن اور چہرۂ منافق

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجۃ الاسلام سید احمد خاتمی
زمرہ جات: صفحے: 193
مشاہدے: 68103
ڈاؤنلوڈ: 4665

تبصرے:

قرآن اور چہرۂ منافق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68103 / ڈاؤنلوڈ: 4665
سائز سائز سائز
قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

(و اذا قیل لهم لا تفسدوا فی الارض قالوا انّما نحن مصلحون) (185)

جب ان سے کھا جاتا ہے کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔

قرآن کریم منافقین کے سلسلہ میں دونوں مناظر (تحقیر افراد اور عدم تسلیم حق) کی تصریح کررھا ہے کہ وہ خود کو اہل فھم و فراست اور دیگر افراد کو سفیہ (احمق) سمجھتے ہیں اور اس وسیلہ سے اشخاص کی تحقیر کرتے ہیں۔

(و اذا قیل لهم آمنو کما آمن الناس قالوا أنؤمن کما آمن السفهاء) (186)

جب ان سے کھا جاتا ہے کہ دوسرے مومنین کی طرح ایمان لے آؤ تو کہتے ہیں کہ کیا ہم بے وقوفوں کی طرح ایمان اختیار کرلیں؟

منافقین کے بارے میں عدم تسلیم حق کی تصویر کشی کرتے ہوئے خدا ان کو خشک لکڑیوں سے تشبیہ دے رہا ہے۔

(کأنّهم خشب مسنّدة) (187)

گویا سوکھی لکڑیاں ہیں جو دیوار سے لگادی گئی ہیں۔

----------

185. سورہ بقر/11۔

186. سورہ بقرہ/13۔

187. سورہ منافقون/4۔

۱۲۱

2) خوف و ھراس

قرآن کریم منافقین کی نفسیاتی خصوصیت کے سلسلہ میں دوسری صفت خوف و ھراس کو بتا رہا ہے، قرآن ان کو بے حد درجہ ھراساں و خوف زدہ بیان کررھا ہے، اصول کی بنا پر شجاعت و شھامت، خوف وحشت کا ریشہ ایمان ہوتا ہے، جہاں ایمان کا وجود ہے دلیری و شجاعت کا بھی وجود ہے۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

((لایکون المومن جبانا)) (188)

مومن بزدل و خائف نہیں ہوتا ہے۔

قرآن مومنین کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے ان کی شجاعت اور مادی قدرت و قوت سے خوف زدہ نہ ہونے کی تصریح کر رہا ہے۔

(…… وانّ الله لا یضیع اجر المؤمنین الذین استجابوا لِلّٰه والرسول من بعد مَا اصابهم القرح للّذین احسنوا منهم واتقوا اجر عظیم الذین قال لهم النّاس ان النّاس قد جمعوا لکم فاخشوهم فزادهم ایمانا و قالوا حسبنا لله و نعم الوکیل) (189)

خداوند عالم صاحبان ایمان کے اجر کو ضائع نہیں کرتا (خواہ شھیدوں کے اجر کو اور نہ ہی مجاہدوں کے اجر کو جو شھید نہیں ہوئے ہیں) یہ صاحبان ایمان ہیں جنھوں نے زخمی ہونے کے بعد بھی خدا اور رسول کی دعوت پر لبیک کھا (میدان احد کے زخم بہبود بھی نہ ہونے پائے تھے کہ حمراء الاسد میدان کی طرف حرکت کرنے لگے) ان کے نیک کردار اور متقی افراد کے لئے نھایت درجہ عظیم اجر ہے، یہ وہ ایمان والے ہیں کہ جب ان سے بعض لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمھارے لئے عظیم لشکر جمع کرلیا ہے لھذا ان سے ڈرو تو ان کے ایمان میں اور اضافہ ھوگیا اور انھوں نے کہا کہ ھمارے لئے خدا کافی ہے اور وہی ھمارا ذمہ دار ہے۔

----------------

188. بحار الانوار، ج67، ص364۔

189. سورہ آل عمران/ 173، 171۔

۱۲۲

حقیقی صاحبان ایمان کی صفت شجاعت ہے لیکن چونکہ منافقین ایمان سے بالکل بے بھرہ مند ہیں، ان کے نزدیک خدا کی قوت لایزال وبی حساب پر اعتماد و توکل کوئی مفھوم و معنا نہیں رکھتا ہے لھذا ہمیشہ موجودہ قدرت سے خائف و ھراساں ہیں خصوصاً میدان جنگ کہ جہاں شھامت، سرفروشی، ایثار ہی والوں کا گذر ہے، وھاں سے ہمیشہ فرار اور دور ہی سے جنگ کا نظارہ کرتے ہیں اور نتیجہ کے منتظر ھوتے ہیں۔

(فاذا جاء الخوف رأیتهم ینظرون الیک تدور أعینهم کا الذی یغشی علیه من الموت) (190) جب خوف سامنے آجائے گا تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کی طرف اس طرح دیکھیں گے جیسے ان کی آنکھیں یوں پھر رھی جیسے موت کی غشی طاری ھو۔

سورہ احزاب کی آٹھویں آیت سے پینتیسویں آیت، جنگ خندق کے سخت حالات و مسائل سے مخصوص ہے، ان آیات کے ضمن میں چھ مرتبہ صداقت کا ذکر کیا گیا ہے اور اسی کے ساتھ بعض افراد کے خوف و ھراس کو بھی بیان کیا گیا ہے، جنگ احزاب اپنے خاص شرائط (زمانی و مکانی) کی بنا پر مومنین کی ایمانی صداقت اور منافقین کے جھوٹے دعوے کو پرکھنے کے لئے بھترین کسوٹی و محک ہے۔

------------

190. سورہ احزاب/19۔

۱۲۳

ایمان میں صادق افراد کا ذکر آیت نمبر تئیس اور چوبیس میں ھورھا ھے:

(من المؤمنین رجال صدقوا ما عاهدوا الله علیه فمنهم من قضی نحبه و منهم من ینتظرو ما بدّلوا تبدیلا لیجزی الله الصادقین بصدقهم و یعذب المنافقین ان شاء او یتوب علیهم ان الله کان غفورا رحیما) (191)

مومنین میں ایسے بھی مرد میدان ہے جنھوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دیکھایا ہے ان میں بعض اپنا وقت پورا کرچکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کررھے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے تا کہ خدا صادقین کو ان کی صداقت کا بدلہ دے اور منافقین کو چاھے تو ان پر عذاب نازل کرے یا ان کی توبہ قبول کرے اللہ یقیناً بھت بخشنے والا اور مھربان ہے۔

ان آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ ایمان میں صادق سے مراد دین کی راہ میں جھاد و شھادت ہے بعض افراد نے شھادت کے رفیع مقام کو حاصل کرلیا ہے اور بعض اگر چہ ابھی اس عظیم مرتبہ پر فائز نہیں ہوئے ہیں لیکن شجاعت و شھامت کے ساتھ ویسے ہی منتظر و آمادہ ہیں، اسی سورہ کی آیت نمبر بیس میں خوبصورتی کے ساتھ منافقین کے اضطراب و خوف کو میدان جنگ کے سلسلہ میں بیان کیا گیا ہے، آیت اور اس کا ترجمہ اس سے قبل پیش کیا جاچکا ہے۔

-----------

191. سورہ احزاب 32، 24۔

۱۲۴

3) تشویش و اضطراب

منافقین کی نفسیاتی خصوصیت میں سے، تشویش و اضطراب بھی ہے چونکہ ان کا باطن ظاہر کے بر خلاف ہے لھذا ہمیشہ اضطراب کی حالت میں رہتے ہیں کہیں ان کے باطن کے اسرار افشانہ ہوجائیں اور اصل چھرہ کی شناسائی نہ ھوجائے جس شخص نے بھی خیانت کی ہے یا خلافِ امر شی کا مرتکب ہوا ہے اس کے افشا سے ڈرتا ہے اور تشویش و اضطراب میں رہتا ہے عربی کی مثل مشھور ہے "الخائن خائف" خائن خوف زدہ رہتا ہے، دوسرے یہ کہ منافقین نعمت ایمان سے محروم ہونے کی بنا پر مستقبل کے سلسلہ میں کبھی بھی امید واری و در خشندگی کا اعتقاد نہیں رکھتے ہیں اور اپنے انجام کار سے خائف اور ھراساں رہتے ہیں اس کے برخلاف صاحبان ایمان یاد الہی اور اپنے ایمان کی بنا پر اطمینان و سکون سے ھمکنار رہتے ہیں۔

(ألا بذکر الله تطمئن القلوب) (192)

آگاہ ھوجاؤ کہ ذکر خدا ہی سے دلوں کو سکون ملتا ہے۔

منافقین اپنی خیانت کارانہ حرکات کی وجہ سے اضطراب و تشویش کی وادی میں پڑے رہتے ہیں لھذا ہر قسم کی افشا گری و تھدید کی آواز کو اپنے خلاف ہی تصور کرتے ہیں۔

(یحسبون کل صیحة علیهم) (193)

یہ ہر فریاد کو اپنے خلاف ہی گمان کرتے ہیں۔

-------------

192. سورہ رعد/28۔

193. سورہ منافقون/4۔

۱۲۵

منافقین کی دائمی کوشش یہ رھتی ہے کہ جس طرح سے بھی ہو خود کو مومنین کی صفوں میں داخل کریں اور صاحبان ایمان کو مطمئن کرادیں کہ ہم بھی ایمان والے ہیں لیکن ہمیشہ پریشان خیال رہتے ہیں کہ کہیں رسوا و ذلیل نہ ہوجائیں۔

(و یحلفون بالله انهم لمنکم و ماهم منکم و لکنهم قوم یفرقون) (194)

اور یہ اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ یہ تم ہی میں سے ہیں حالانکہ یہ تم میں سے نہیں ہیں یہ لوگ بزدل ہیں۔

ان کے ھراسان و پریشان رھنے کی کیفیت یہ ہے کہ جب بھی کوئی جدید آیت کا نزول ہوتا ہے تو ڈرتے ہیں کہ کہیں وحی کے ذریعہ ھمارے اسرار فاش نہ ھوجائیں، اس نکتہ کو قرآن کریم صراحت سے بیان کررھا ہے اور تاکید کررھا ہے کہ راہ نفاق کا انجام خیر نہیں ھوسکتا، اگر چہ چند روز اپنے باطن کو چھپانے میں کامیاب ہوجائیں لیکن سر انجام رسوا و ذلیل ھوکر رھیں گے۔

(یحذر المنافقون ان تنزل علیهم سورة تنبّئهم بما فی قلوبهم قل استهزئوا ان الله مخرج ما تحذرون) (195)

منافقین کو یہ خوف بھی ہے کہ کہیں کوئی سورہ نازل ھوکر مسلمانوں کو ان کے دل کے حالات سے باخبر نہ کردے تو آپ کہہ دیجئے کہ تم اور مزاق اڑاؤ اللہ بھر حال اس چیز کو منظر عام پر لے آئے گا جس کا تمھیں خطرہ ہے۔

سورہ بقرہ کی آیات نمبر سترہ سے بیس تک میں منافقین کی کشمکش، ترس و اضطراب کی حالت، کو دو معنی خیز تشبیھوں کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے۔

-------------

194. سورہ توبہ/56۔

195. سورہ توبہ/64۔

۱۲۶

4) لجاجت گری

منافقین کی چوتھی نفسیاتی خصوصیت لجاجت گری ہے لجاجت ایک روحی و نفسانی مرض ہے جو صحیح معرفت کے حصول میں اساسی مانع ہے معرفت شناسی میں اس نکتہ کو بیان کیا گیا ہے کہ بعض اخلاقی رذائل سبب ھوتے ہیں کہ انسان حقیقت تک نہ پہونچ سکے، جیسے بیھودہ تعصب، بغیر دلیل خاص، نظریہ پر اصرار، غلط آرزو اور خواہشات وغیرہ-------(196)

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام دو حدیث میں اس مطلب کو صراحتاً بیان فرما رہے ہیں:

((اللجاجة تسل الرای)) (197)

لجاجت صحیح و مستحکم رای کو فنا کردیتی ہے۔

((اللجوج لا رای له)) (198)

لجاجت گر فرد صحیح فکر و نظر کا مالک نہیں ھوتا۔

جو فرد لجاجت گری کی وادی میں سر گردان ہو وہ صاحب رای و نظر نہیں ھوسکتا ہے کیوں کہ لجاجت اس کی بینائی و دانائی پر ایک ضخیم پردہ ڈال دیتی ہے جس کی بنا پر لجاجت گر فرد تمام حقائق کو اپنی خاص نظر سے دیکھتا ہے لھذا ایسا فرد حق شناسی کے وسائل و نور حق کو اختیار میں رکھتے ہوئے بھی حقیقت تک نہیں پہونچ سکتا ہے چونکہ منافقین کا بنیادی منشا اپنی آمال و خواہشات کی تکمیل اور باطل راہ میں قدم رکھنا ہے لھذا کبھی بھی حق کو حاصل نہیں کرسکتا ہے، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

------------

196. نظریۃ المعرفہ، ص319۔

197. نھج البلاغہ، حکمت، 179۔

198. میزان الحکمۃ، ج8، ص484۔

۱۲۷

((من کان غرضه الباطل لم یدرک الحق ولو کان اشهر من الشمس)) (199)

جس کا بنیادی ھدف باطل ہو کبھی بھی حق کو درک نہیں کرسکتا ہے خواہ حق آفتاب سے روشن ترھی کیوں نہ ہو

قرآن مجید منافقین کی حالت لجاجت کو بیان کرتے ہوئے ان کی یوں توصیف کر رکھا ھے:

(صم بکم عمی فهم لا یرجعون) (200)

یہ سب بہرے، گونگے اور اندھے ھوگئے ہیں اور پلٹ کر آنے والے نہیں ہیں۔

منافقین کی لجاجت سبب بن گئی کہ وہ نہ سن سکے جو سننا چاھئے تھا، نہ دیکھ سکے جو دیکھنا چاھئے تھا، نہ کہہ سکے جو کھنا چاھئے تھا، باوجودیکہ آنکھ، کان، زبان جو ایک انسانِ بااعتدال کے لئے صحیح ادراک کے وسائل ہیں، یہ بھی اختیار میں رکھتے ہیں لیکن ان کی لجاجت گری سبب ھوئی کہ عظیم نعمات سے محروم، اور جھالت کی وادی میں سر گرداں ہیں۔

منافقین کا بھرہ، اندھا، گونگا ہونا آخرت سے مخصوص نہیں بلکہ اس دنیا میں بھی ایسے ہی ہیں، ان کا قیامت میں بھرہ، اندھا، گونگا ہونا ان کے حالات سے اسی دنیا میں مجسم ہے۔

(لهم قلوب لا یفقهون بها ولهم اعین لا یبصرون بها ولهم آذان لا یسمعون بها) (201)

ان کے پاس دل ہے مگر سمجھتے نہیں ہیں، آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں، کان ہیں مگر سنتے نھیں۔

مذکورہ آیت سے استناد کرتے ہوئے کھا جاسکتا ہے منافقین اسی دنیا میں اپنی لجاجت کی بنا پر صحیح سماعت و بصارت، زبان گویا، حق کو درک اور بیان کرنے کے لئے نہیں رکھتے ہیں، اور مدام باطل کے گرداب میں غوطہ زن ہیں۔

--------------

199. غرر الحکم، نمبر 8853۔

200. سورہ بقرہ/18۔

201. سورہ اعراف/179۔

۱۲۸

ماحصل یہ ہے کہ منافقین کے فھم و شعور کے منافذ و مسلمات لجاجت پسندی کی بنا پر بند ھوچکے ہیں۔

قرآن مجید نفاق کی اس حالت کو (طبع قلوب) سے یاد کررھا ہے۔

(طبع الله علی قلوبهم فهم لا یعلمون) (202)

خدا نے ان کے دلوں پر مھر لگادی ہے اور اب وہ لوگ کچھ جاننے والے نھیں۔

(فطبع علی قلوبهم فهم لا یفقهون) (203)

ان کے دلوں پر مھر لگادی گئی ہے تو اب کچھ نہیں سمجھ رہے ہیں۔

جو مھر ان کے دلوں پر لگائی گئی ہے اس کا سبب یہ ہوگا کہ حق کی گفتگو سماعت نہ کرسکیں اور حق کی عدم قبولیت ان کی ہمیشہ کی روش بن جائے، البتہ یہ بات واضح ہے کہ طبع قلوب (دلوں پر مھر لگانا) کے اسباب خود انھوں نے فراھم کئے ہیں اور ان کے دلوں پر مھر لگنا خود ان کے افعال و کردار کا نتیجہ ہے۔

------------

202. سورہ توبہ/93۔

203. سورہ منافقون/3۔

۱۲۹

5) ضعف معنویت

منافقین کی پانچویں نفسیاتی و نفسانی صفت جسے قرآن مجید بیان کررھا ہے معنویت میں ضعف و سستی کا وجود ہے، یہ گروہ ضعف بصارت کی بنا پر خدا سے زیادہ عوام اور لوگوں کے لئے حرمت و عزت کا قائل ہے۔

منافقین محکم و راسخ ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے غیبی و معنوی قدرت پر بھی محکم و کامل ایمان نہیں رکھتے، ان کی ساری غیرت اور خوف فقط ظاہری ہے، عوام سے حیا کرتے ہیں، لیکن خدا کے محضر میں بے حیا ہیں چونکہ خود کو الہی محضر میں سمجھتے ہی نہیں اور خدا کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔

(یستخفون من الناس ولا یستخفون من الله وهو معهم اذ یبیتون مالا یرضی من القول وکان الله بما یعلمون محیطاً) (204)

یہ لوگ انسانوں کی نظروں سے اپنے کو چھپاتے ہیں اور خدا سے نہیں چھپ سکتے ہیں جب کہ وہ اس وقت بھی ان کے ساتھ رہتا ہے جب وہ ناپسندیدہ باتوں کی سازش کرتے ہیں اور خدا ان کے تمام اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔

اگر ظاہر میں ایک عبادت انجام دیں یا ظواھر اسلامی کی رعایت کریں تو صرف عوام نیز لوگوں کی توجہ و اعتماد کو حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہے ورنہ ان کی عبادتیں ہر قسم کے مفھوم اور معنویت سے خالی ہیں۔

(ان المنافقین… اذا قاموا الی الصلوٰة قاموا کسالی یرائون الناس ولا یذکرون الله الا قلیلا) (205)

منافقین---- جب نماز کے لئے اٹھتے بھی ہیں تو سستی کے ساتھ، لوگوں کو دکھانے کے لئے عمل کرتے ہیں، اور اللہ کو بھت کم یاد کرتے ہیں۔

--------------

204. سورہ نساء/108۔

205. سورہ نساء/142۔

۱۳۰

(ولا یأتون الصلوٰة الا وهم کسالی) (206)

اور یہ نماز بھی سستی اور تساھلی کے ساتھ بجالاتے ہیں۔

اگر چہ مذکورہ دونوں آیات میں منافقین کی ریا و کسالت (سستی) نماز کے موقع کے لئے بیان کی گئی ہے، لیکن علامہ طباطبائی (رح) تفسیر المیزان میں فرماتے ہیں نماز، قرآن میں تمام معنویت کا محور و مرکز ہے لھذا اس نکتہ پر توجہ کرتے ہوئے دونوں آیت کا مفھوم یہ ہے کے منافقین تمام عبادت و معنویت میں بے حال و سست ہیں اور صاحبان ایمان کے جیسی نشاط و فرحت، سرور و شادمانی نہیں رکھتے ہیں۔

البتہ قرآن مجید کی بعض دوسری آیات میں بھی منافقین کی عبادات کو بے معنویت اور سستی سے تعبیر کیا گیا ہے۔

(ولا ینفقون الا وهم کارهون) (207)

اور راہ خدا میں کراھت و ناگواری کے ساتھ خرچ کرتے ہیں۔

یہ آیت صراحتاً بیان کررھی ہے کہ ان کے انفاق کی بنا اخلاص و خلوص پر نہیں ہے، سورہ انفال میں بھی مسلمانوں کے مبارزہ و جھاد کی صف میں ان کی حرکات کو ریا سے تعبیر کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو اس منافقانہ عمل سے دور رھنے کے لئے کھا گیا ھے:

(ولا تکونوا کالذین خرجوا من دیارهم بطرا و رئاء الناس) (208)

اور ان لوگوں کے جیسے نہ ھوجاؤ جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے نکلتے ہیں۔

------------

206. سورہ توبہ/54۔

207. سورہ توبہ/54۔

208. سورہ انفال/47۔

۱۳۱

بھر حال جن اشخاص نے دین کے اظھار کو قدرت طلبی، شیطانی خواہشات کے حصول کے لئے وسیلہ قرار دیا ہے، ان کی رفتار و گفتار میں دین داری کی حقیقی روح نہیں ملتی ہے وہ عبادت کو خود نمائی کے لئے اور سستی سے انجام دیتے ہیں۔

6) خواہشات نفس کی پیروی

منافقین کی چھٹی نفسیاتی خصوصیت، خواہشات نفسانی کی پیروی اور اطاعت ہے، منافقین حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور عقل و نقل کی پیروی اور اطاعت کرنے کے بجائے، امیال و خواہشات نفسانی کے تابع و پیروکار ہیں، صعیف اعتقاد نیز باطل اور نحس مقاصد کی بنا پر خدا پرستی و حق محوری ان کے لئے کوئی مفھوم و معنی نہیں رکھتا ہے وہ خواہشات نفسانی کے مطیع و خود محوری کے تابع ہیں۔

(اولئک الذین طبع الله علی قلوبهم واتبعوا اهوائهم) (209)

یھی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر خدا نے مھر لگادی ہے اور انھوں نے اپنی خواہشات کا اتباع کرلیا ہے۔

تکبر اور برتر بینی خواہشات نفسانی کی نمائش و علامت میں سے ایک ہے، خواہشات نفسانی کے دو آشکار نمونے، ریاست و منصب کی طلب اور دنیا پرستی ہے جو منافقین میں پائی جاتی ہے، مال و منصب کی محبت، نفاق کی جڑوں کو دلوں میں رشد اور مستحکم کرنے کے عوامل میں سے ہیں۔

-----------

209. سورہ محمد/16۔

۱۳۲

پیامبر عظیم الشان فرماتے ہیں:

((حب الجاه و المال ینبتان النفاق کما ینبت الماء البقل)) (210)

مال دنیا اور مقام و منصب کی محبت، نفاق کو دل میں یوں رشد دیتی ہے جیسے پانی سبزے کو نشو نما دیتا ہے۔

ظاہر ہے کہ وہ ریاست و منصب قابل مذمت ہے جس کا مقصد و ھدف انسان ہو یہ وہی مقام پرستی ہے جو لوگوں کے دین کے لئے بھت بڑا خطرہ ہے۔

نقل کیا جاتا ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام کے محضر میں کسی کا نام لیتے ہوئے کھا گیا وہ منصب و مقام پرست ہے، آپ نے فرمایا:

((ما ذئبان ضاریان فی غنم قد تفرق رعاؤهابأ ضرّ فی دین المسلم من الریاسة)) (211)

دو خونخوار بھیڑیوں کا خطرہ ایسے گلہ کے لئے جو بغیر چوپان کے ہو اس خطرہ سے زیادہ نہیں، جو خطرہ مسلمان کے دین کو ریاست طلبی و مقام پرستی سے ہے۔

لیکن وہ مال و مقام جو اپنی اور اپنے خانوادے کی زندگی کی بھتری نیز مخلوق خدا کی خدمت اور پرچم حق کو بلند و قائم کرنے اور باطل کو ختم کرنے کے لئے ھو، وہ قابل مذمت نہیں ہے بلکہ عین آخرت اور حق کی راہ میں قدم بڑھانا ہے، شاید کبھی واجب بھی ھوسکتا ہے۔

-------------

210. المحجۃ البیضاء، ج،6، ص، 112۔

211. بحار الانوار، ج73، ص145۔

۱۳۳

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اپنی پیوند زدہ اور بے قیمتی نعلین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ابن عباس کو خطاب کرکے فرماتے ہیں:

((والله لهی احب الی من امرتکم الا ان اقیم حقا او ادفع باطل)) (212)

خدا کی قسم! یہ بی قیمت نعلین مجھے تمھارے اوپر حکومت سے زیادہ عزیز ہے مگر یہ کہ حکومت کے ذریعہ کسی حق کو قائم کرسکوں یا کسی باطل کو دفع کرسکوں۔

اس بنا پر اسلام میں اپنے اور خانوادے کی معاشی زندگی کے لئے کوشش و تلاش کو راہ خدا میں جھاد سے تعبیر کیا گیا ہے۔

((الکاد علی عیاله کالمجاهد فی سبیل الله)) (213)

جو فرد بھی اپنے خانوادے کی امرار معاش کے لئے کوشش وسعی کرتا ہے وہ مجاھد راہ خدا ہے

دوسرے افراد کی خدمت گذاری کو بھی بھترین افعال میں شمار کیا گیا ہے۔

((خیر الناس انفعهم للناس)) (214)

بھترین فرد وہ ہے جس سے بیشتر فائدہ لوگوں کو پھنچتا ہے۔

لیکن منافقین کے اھداف فقط دنیا کے اموال، مناصب و اقتدار پر قبضہ کرنا ہے، دوسروں کی خدمت مدنظر نہیں ہے، اور اپنے اس پست و حقیر مقصد کے حصول کی خاطر تمام اسلامی و انسانی اقدار کو پامال کرنے کے لئے حاضر ہیں۔

-------------

212. بھج البلاغہ، خطبہ33۔

213. بحار الانوار، ج96، ص324۔

214. مستدرک الوسایل، ج12،ص391۔

۱۳۴

مدینہ کے منافقین کا سرغنہ، عبد اللہ ابن ابی کا باطنی مرض یہ تھا کہ جب اس نے اپنی ریاست کے دست و بازو قطع ھوتے دیکھے تو تمام خیانت کاری و پست فطرتی کا مظاہرہ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و مسلمانوں پر کرنے لگا کہ شاید ھاتھ سے جاچکا مقام و منصب دوبارہ حاصل ہوجائے۔

منافقین کی دنیا طلبی کی شدید خواہش کی کیفیت کو قرآنی آیات نے بخوبی بیان کیا ہے، قرآن کریم اکثر موارد پر اس نکتہ کو بیان کررھا ہے کہ منافقین اگر چہ میدان جنگ میں کوئی فعال کردار ادا نہیں کرتے لیکن جنگ ختم ھوتے ہی غنائم کی تقسیم کے وقت میدان میں حاضر ہوجاتے ہیں، اور اپنے سھم کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں اس موضوع سے مربوط بعض آیات کو منافقین کی موقع پرستی کی بحث میں بیان کیا جاچکا ہے۔

7) گناہ کی تاویل گری

منافقین کی نفسیاتی خصوصیت کی ساتویں کڑی، گناہ کی توجیہ و تاویل گری ہے اس سے قبل اشارہ کیا گیا ہے کہ منافقین کی تمام سعی لا حاصل یہ ہے کہ اپنے باطن اور پلید نیت کو مخفی کرکے، اور جھوٹی قسمیں کھاکر، ظواھر کی آراستگی کرتے ہوئے خود کو صاحبان ایمان واقعی کی صفوف میں شامل کرلیں۔

۱۳۵

اگر چہ صدر اسلام میں ایسا ممکن ھوسکا ہے لیکن ہمیشہ کے لئے اپنے باطن کو مخفی نہیں رکھ سکتے چونکہ ان سے بعض اوقات ایسے افعال و اعمال صادر ہوجاتے ہیں کہ جس کی وجہ سے مومنین ان کے ایمان میں شک کرنے لگتے ہیں لھذا منافقین، اس لئے کہ مسلمانوں کی نظروں سے نہ گر جائیں، نیز مسلمانوں کا اعتماد ان سے سلب نہ ھوجائے اپنے کردار اور برے افعال کی عام پسند توجیہ و تاویل کرنے لگتے ہیں۔

(فکیف اذا اصابتهم مصیبة بما قدمت ایدیهم ثم جاؤوک یحلفون بالله ان اردنا الا احسانا و توفیقا اولئک الذین یعلم الله ما فی قلوبهم فأعرض عنهم و عظهم و قل لهم فی انفسهم قولا بلیغا) (215)

پس اس وقت کیا ہوگا جب ان پر ان کے اعمال کی بنا پر مصیبت نازل ھوگی وہ آپ کے پاس آکر خدا کی قسم کھائیں گے کہ ھمارا مقصد صرف نیکی کرنا اور اتحاد پیدا کرنا تھا یھی وہ لوگ ہیں جن کے دل کا حال خدا خوب جانتا ہے لھذا آپ ان سے کنارہ کش رھیں انھیں نصیحت کریں اور ان کے دل پر اثر کرنے والی موقع و محل سے مربوط بات کریں۔

جھاد و معرکہ کا میدان ان مقامات میں سے ہے جہاں منافقین حاضر ھوتے ہوئے بے حد درجہ خائف و ھراساں رہتے ہیں لھذا جھاد میں شریک نہ ہونے کی خاطر (جھاد میں عدم شرکت عظیم گناہ ھے) عذر تراشی کرتے ہوئے تاویل و توجیہ کیا کرتے تھے ذیل کی آیت میں ایک منافق کی جنگ تبوک میں عدم شرکت کی عذر تراشی اور تاویل کو بیان کیا گیا ہے۔

(ومنهم من یقول ائذن لی ولا تفتنی الا فی الفتنة سقطوا وان جهنم لمحیطة بالکافرین) (216)

ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم کو اجازت دے دیجئے اور فتنہ میں نہ ڈالیے تو آگاہ ھوجاؤ کہ یہ واقعاً فتنہ میں گر چکے ہیں اور جھنم تو کافرین کو ہر طرف سے احاطہ کئے ہوئے ہے۔

------------

215. سورہ نساء/ 62، 63۔

216. سورہ توبہ/49۔

۱۳۶

اس آیت کی شان نزول کے لئے بیان کیا گیا ہے کسی قبیلہ کا ایک بزرگ جو منافقین کے ارکان میں تھا رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت چاھی کہ جنگ تبوک میں شرکت نہ کرے اور عدم شرکت کی وجہ اور دلیل یہ بیان کی کہ اگر اس کی نطریں رومی عورتوں پر پڑے گی تو ان پر فریفتہ اور گناھوں میں مبتلا ھوجائے گا، پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت فرمادی کہ وہ مدینہ ہی میں رھے، اس واقعہ کے بعد یہ آیت نازل ھوئی جس نے اس کے باطن کو افشا کر کے رکھ دیا اور خداوند عالم نے اسے جنگ میں عدم شرکت کی بنا پر عصیان گر اور فتنہ میں غریق فرد سے تعبیر کیا ہے(217) ، منافقین کے دوسرے وہ افراد جو جنگ احزاب میں شریک نہیں ہوئے تھے ان کا عذر یہ تھا کہ وہ اپنے گھر اور مال و دولت کے تحفظ سے مطمئن نہیں ہیں، ذیل کی آیت ان کی پلید فکر کو فاش کرتے ہوئے ان کی عدم شرکت کے اصل مقصد کو جنگ سے فرار بیان کیا ہے۔

(ویستاذن فریق منهم النبی یقولون ان بیوتنا عورة وما هی بعورة ان یریدون الا فرارا) (218)

اور ان میں سے ایک گروہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت مانگ رہا تھا کہ ھمارے گھر خالی پڑے ہوئے ہیں حالانکہ وہ گھر خالی نہیں تھے بلکہ یہ لوگ صرف بھاگنے کا ارادہ کررھے تھے۔

بھر حال گناہ کی تاویل و توجیہ خود عظیم گناہ ہے جس کے منافق مرتکب ھوتے رہتے تھے بسا اوقات ممکن ہے منافقین سیدھے، سادے و زور باور و مومنین کو فریب دیدیں، لیکن وہ اس سے غافل ہیں کہ خدا ہر اس شی سے جو وہ اپنے قلب کے اندر مخفی کئے ہوئے ہیں آگاہ ہے ان کو اس دنیا میں ذلیل و رسوا کرے گا اور آخرت میں بھی دوزخ کے عذاب سے ان کا استقبال کیا جائے گا، یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ منافقین کی تاویل و توجیہ کا سلسلہ صرف فردی مسائل سے مختص نہیں بلکہ اجتماعی و معاشرتی، ثقافتی اور سیاسی مسائل میں بھی تاویل و توجیہ کرتے رہتے ہیں کہ اس موضوع پر بھی بحث ھوگی۔

--------------------------

217. مجمع البیان، ج3، ص36۔

218. سورہ احزاب/13۔

۱۳۷

فصل چھارم: منافقین کی ثقافتی (کلچرل) خصائص

1۔ خودی اور اپنائیت کا اظھار

2۔ دینی یقینیات کی تضعیف

خودی اور اپنائیت کا اظھار

منافقین کو اپنی تخریبی اقدامات جاری رکھنے کے لئے تاکہ صاحب ایمان حضرات کی اعتقادی اور ثقافتی اعتبار سے تخریب کاری کرسکیں، انھیں ہر چیز سے اشد ضرورت مسلمانوں کے اعتماد و اعتبار کی ہے تاکہ مسلمان منافقین کو اپنوں میں سے تصور کریں اور ان کی اپنائیت میں شک سے کام نہ لیں، اس لئے کہ منافقین کے انحرافی القائات معاشرے میں اثر گذار ہوں اور ان کے منحوس مقاصد کی تکمیل ھوسکے۔

ان کی تمام سعی و کوشش یہ ہے کہ خود معاشرے میں اپنائیت کی جلوہ نمائی کرائیں، اس لئے کہ وہ جانتے ہیں اگر ان کے باطن کا افشا، اور ان کے اسرار آشکار ھوگئے تو کوئی شخص بھی منافقین کی باتوں کو قبول نہیں کریگا اور ان کی سازشیں جلد ہی ناکام ہوجائیں گی، ان کے راز افشا ہونے کی بنا پر اسلام کے خلاف ہر قسم کی تبلیغی فعالیت، نیز سیاسی سر گرمی سے ھاتھ دھو بیٹھیں گے، لھذا منافقین کا بنیادی اور ثقافتی ھدف اپنے خیر خواہ ہونے کی جلوہ نمائی اور عمومی مسلمانوں کے اعتماد کو کسب کرنا ہے اور یہ بھت عظیم خطرہ ہے کہ افراد و اشخاص، بیگانے اور اجنبی شخص کو اپنوں میں شمار کرنے لگیں، اور معاشرہ میں خواص کی نگاہ سے دیکھا جانے لگے،

۱۳۸

ثقافتی حادثہ اس وقت وجود میں آتا ہے کہ جب مسلمین منافقین کی ثقافتی روش طرز سے آشنائی نہ رکھتے ہوں اور ان کو اپنا دوست بھی تصور کریں، امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام مختلف افراد کے ظواھر پر اعتماد کرنے کے خطرات اور اشخاص کی اھمیت پر توجہ کرنے کی ضرورت کے متعلق فرماتے ہیں۔

((انما اتا کبا لحدیث اربعة رجال لیس لهم خامس رجل منافق مظهر للایمان متصنع بالاسلام لا یتأثم ولا یتحرج یکذب علی رسول الله متعمدا فلو علم الناس انه منافق کاذب لم یقبلوا منه ولم یصدقوا قوله ولکنهم قالوا صاحب رسول الله رآه وسمع منه و لقف عنه فیاخذون بقوله) (219)

یاد رکھو کہ حدیث کے بیان کرنے والے چار طرح کے افراد ھوتے ہیں جن کی پانچویں کوئی قسم نہیں ایک وہ منافق ہے جو ایمان کا اظھار کرتا ہے اسلام کی وضع و قطع اختیار کرتا ہے لیکن گناہ کرنے اور افترا میں پڑنے سے پرہیز نہیں کرتا ہے اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف قصداً جھوٹی روایتیں تیار کرتا ہے کہ اگر لوگوں کو معلوم ھوجائے کہ یہ منافق اور جھوٹا ہے تو یقیناً اس کے بیان کی تصدیق نہیں کریں گے لیکن مشکل یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ صحابی ہیں انھوں نے حضور کو دیکھا ہے ان کے ارشاد کو سنا ہے اور ان سے حاصل کیا ہے اور اسی طرح اس کے بیان کو قبول کرلیتے ہے۔

----------------

219. نھج البلاغہ، خطبہ 210۔

۱۳۹

اظھار اپنائیت کے لئے منافقین کی راہ و روش

منافقین اظھار اپنائیت کے لئے مختلف روش و طریقے سے استفادہ کرتے ہیں، چونکہ یہ مبدا و معاد پر ایمان ہی نہیں رکھتے ہیں، لھذا راہ و روش کی مشروعیت یا عدم جواز ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا، اور ان کے نزدیک قابل بحث بھی نہیں ہے ان کی منطق میں ھدف کی تحصیل و تکمیل کے لئے، ہر وسائل سے استفادہ کیا جاسکتا ہے خواہ وسائل ضد انسانی ہی کیوں نہ ہوں یھاں منافقین کی اظھار اپنائیت کے سلسلہ میں فقط پانچ طریقوں کی جانب اشارہ کیا جارھا ہے۔

1) کذب و ریاکاری کے ذریعہ اظھار کرنا

جیسا کہ پہلے اشارہ کیا گیا ہے نفاق کا اصلی جو ہر کذب اور اظھار کا ذبانہ ہے منافقین اظھار اپنائیت کے لئے وسیع پیمانہ پر حربۂ کذب سے استفادہ کرتے ہیں کبھی اجتماعی اور گروھی شکل میں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آتے ہیں اور آپ کی رسالت کا اقرار کرتے ہیں، خداوند عالم با صراحت ان کو اس اقرار میں کاذب تعارف کراتا ہے اور پیامبر عظیم الشان سے فرماتا ہے، اگر چہ تم واقعاً فرستادہ الہی ہو لیکن وہ اس اقرار میں کاذب ہیں اور دل سے تمھاری رسالت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں۔

(اذا جاءک المنافقون قالوا نشهد انک لرسول الله والله یعلم انک لرسوله والله یشهد ان المنافقون لکاذبون) (220)

پیامبر! یہ منافقین آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواھی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ بھی جانتا ہے کہ آپ اس کے رسول ہیں لیکن اللہ گواھی دیتا ہے کہ یہ منافقین اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں۔

----------------

220. سورہ منافقون/1۔

۱۴۰