قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق 0%

قرآن اور چہرۂ منافق مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 193

قرآن اور چہرۂ منافق

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجۃ الاسلام سید احمد خاتمی
زمرہ جات: صفحے: 193
مشاہدے: 68108
ڈاؤنلوڈ: 4665

تبصرے:

قرآن اور چہرۂ منافق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68108 / ڈاؤنلوڈ: 4665
سائز سائز سائز
قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

جس وقت مومنین، منافقین کو ایجاد فساد و تباھی سے منع کرتے ہیں، خود کو تاکید کے ساتھ مصلح و آباد گر کہتے ہیں خداوند عالم ان کی گفتار کی تکذیب کرتے ہوئے ان کے مفسد ہونے کا اعلان کررھا ہے۔

(واذا قیل لهم لا تفسدوا فی الارض قالوا انما نحن مصلحون الا انهم هم المفسدون ولکن لا یشعرون) (221)

جب ان سے کھا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ برپا کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں حالانکہ یہ سب مفسد ہیں اور اپنے فساد کو سمجھتے بھی نہیں ہیں۔

منافقین اپنی کذب بیانی سے، پہلے کھی گئی بات کو آسانی سے انکار بھی کردیتے ہیں، تاریخی شواہد کے مطابق کسی مودر میں جب یہ کوئی بات کرتے تھے اور اس کی خبر رسول اسلا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ھوجاتی تھی تو یہ سرے ہی سے اس کا انکار اور شدت سے اس خبر کی تکذیب کردیتے تھے۔

نقل کیا گیا ہے کہ"جلاس" نام کا منافق جنگ تبوک کے زمانہ میں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض خطبے کو سننے کے بعد اس کا انکار کرتے ہوئے پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب بھی کی، حضور کی مدینہ واپسی کے بعد عامر ابن قیاس نے پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جلاس کی حرکات کو بیان کیا، جب جلاس حضور کے خدمت میں پھونچا تو عامر بن قیس کی گزارش کو انکار کر بیٹھا، آپ نے دونوں کو حکم دیا کہ مسجد نبوی میں منبر کے نزدیک قسم کھائیں کہ جھوٹ نہیں بول رہے ہیں دونوں نے قسم کھائی، عامر نے قسم میں اضافہ کیا خدایا! اپنے پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آیت نازل کرکے جو صادق ہے اس کا تعارف کرادے، حضور اور مومنین نے آمین کھی، جبرئیل نازل ہوئے اور اس آیت کو پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔

-------------

221. سورہ بقرہ/11، 12۔

۱۴۱

(یحلفون بالله ما قالوا ولقد قالوا کلمة الکفر وکفروا بعد اسلامهم) (222)

یہ اپنی باتوں پر اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ ایسا نہیں کھا حالانکہ انھوں نے کلمہ کفر کھا اور اپنے اسلام کے بعد کافر ھوگئے ہیں۔

یہ اور مذکورہ آیات سے استفادہ ہوتا ہے کہ کذب اور تکذیب، منافقین کا ایک طرۂ امتیاز ہے تاکہ مومنین کی صفوف میں نفوذ کرکے اپنائیت کا اظھار کرسکیں۔

منافقین پیامبر عظیم الشان (ص) کے دور میں تصور کرتے تھے کہ کذب و تکذیب کے ذریعہ آپ کو فریب دے سکتے ہیں تاکہ اپنے باطن کو مخفی کرسکیں خداوند عالم منافقین کی اس روش کو افشا کرتے ہوئے تاکید کررھا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ پیامبر گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمھارے احوال و اوضاع سے بے خبر ہیں یا خوش خیالی کی بنا پر تمھاری باتوں پر اطمینان کرلیتے ہیں۔

نقل کیا جاتا ہے کہ جماعت نفاق کے افراد آپس میں بیٹھے ہوئے پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناسزا الفاظ سے یاد کررھے تھے، ان میں سے ایک نے کھا: ایسا نہ کرو، ڈرتا ہوں کہ یہ بات (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کانوں تک پہنچ جائے اور وہ ہم کو برا بھلا کہیں اور افراد کو ھمارے خلاف ورغلائیں، ان میں سے ایک نے کھا: کوئی اہم بات نہیں، جو ھمارا دل چاھے گا کہیں گے، اگر یہ بات ان کے کانوں تک پہنچ بھی جائے، تو ان کے پاس جاکر انکار کردیں گے چونکہ (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش خیال و منہ دیکھے ہیں، کوئی جو کچھ بھی کھتا ہے قبول کرلیتے ہیں اس موقع پر سورہ توبہ کی ذیل آیت نازل ھوئی اور ان کے اس غلط تصور و فکر کا سختی سے جواب دیا۔

--------------

222. سورہ توبہ/74۔

۱۴۲

(منهم الذین یوذون النبی ویقولون هو اذن) (223)

ان (منافقین) میں سے جو پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں وہ تو صرف کان (سادہ لوح و خوش باور) ہیں۔

2) باطل قسمیں یاد کرنا

دوسری وہ روش جس کو استعمال کرتے ہوئے منافقین مومنین کے حلقہ میں نفوذ کرتے ہیں، باطل قسمیں کھانا ہے، وہ ہمیشہ شدید قسموں کے ذریعہ سعی کرتے ہیں تاکہ اپنے باطن کو افشا ہونے سے بچا سکیں اور اسی کے سایہ میں تخریبی حرکتیں انجام دیتے ہیں۔

(اتخذوا ایمانهم جنةً فصدوا عن سبیل الله) (224)

انھوں نے اپنی قسموں کو سپر بنا لیا ہے اور لوگوں کو راہ خدا سے روک رہے ہیں۔ منافقین باطل اور جھوٹی قسموں کے ذریعہ کوشش کرتے ہیں کہ خود کو مومنین کا خیر خواہ ثابت کریں، اور صاحب ایمان کے حلقہ میں اپنا ایک مقام بنالیں۔

(ویحلفون بالله انهم لمنکم وما هم منکم و لکنهم قوم یفرقون) (225)

اور یہ اللہ کی قسم کھاتے ہیں اس بات پر کہ یہ تمھیں میں سے ہیں حالانکہ یہ تم میں سے نہیں ہیں یہ بزدل لوگ ہیں۔

--------------

223. سورہ توبہ/61۔

224. سورہ منافقون/2۔

225. سورہ توبہ/56۔

۱۴۳

منافقین چونکہ واقعی ایمان کے حامل نہیں، رضائے الہی کا حصول ان کے لئے اھمیت نہیں رکھتا ہے اور معاشرے میں اپنی ساکھ اور اعتبار بھی بنائے رکھنا چاہتے ہیں اور معاشرہ کے افراد کی توجہ کی حصول کے لئے زیادہ اھتمام بھی کرتے ہیں لھذا مختلف میدان میں جھوٹی قسمیں کھاکر مومنین حضرات کی رضایت و خشنودی کو حاصل کرتے ہیں۔

خدا قرآن میں تصریح کررھا ہے کہ منافقین کا بنیادی مقصد مومنین کی رضایت کو حاصل کرنا ہے حالانکہ رضایت الہی کا حصول اھمیت کا حامل ہے جب تک خدا راضی نہ ہو بندگان خدا کی رضایت منافقین کے لئے سودمند ہو ہی نہیں سکتی ہے شاید مومنین کی رضایت سے سوء استفادہ کرتے ہوئے مزید کچھ دن تخریبی کاروائی انجام دے سکیں۔

(یحلفون بالله لکم لیرضوکم والله ورسوله احق ان یرضوه ان کانوا مومنین) (226)

یہ لوگ تم لوگوں کو راضی کرنے کے لئے خدا کی قسم کھاتے ہیں حالانکہ خدا و رسول اس بات کے زیادہ حق دار تھے اگر یہ صاحبان ایمان تھے تو واقعاً انھیں اپنے اعمال و کردار سے راضی کرتے۔

(یحلفون لکم لترضوا عنهم فان ترضوا عنهم فان الله لا یرضی عن القوم الفاسقین) (227) یہ تمھارے سامنے قسم کھاتے ہیں کہ تم ان سے راضی ھوجاؤ اگر تم راضی بھی ھوجاؤ تو بھی خدا فاسق قوم سے راضی ہونے والا نھیں۔

-------------

226. سورہ توبہ/62۔

227. نھج البلاغہ، خطبہ194۔

۱۴۴

3) غلط اقدامات کی توجیہ کرنا

منافقین صاحبان ایمان کی تحصیل رضایت اور حسن نیت کی اثبات کے لئے اپنے غلط اقدامات و حرکات کی توجیہ کرتے ہیں کہ اپنائیت کا اظھار کرتے ہوئے فائدہ حاصل کرسکیں منافقین کی نفسیاتی خصوصیت میں یہ نکتہ مورد بحث قرار دیا گیا ہے اور تصریح کیا گیا ہے کہ منافقین تاویل و توجیہ کے ہتکنڈے کو تمام ہی موارد میں استعمال کرتے ہیں۔

منافقین عمومی افکار اور اعتماد کو ھاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتے لھذا اظھار اپنائیت کرتے ہوئے اپنے غلط اقدامات و حرکات کی توجیہ کرتے ہیں اور اپنے باطل مقاصد کو حق کے لباس اور قالب میں پیش کرتے ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اہل نفاق کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

((یقولون فیشبهون ویصفون فیموهون)) (228)

جب بات کرتے ہیں تو مشتبہ انداز میں اور جب تعریف کرتے ہیں تو باطل کو حق کا رنگ دے کر، کرتے ہیں۔

---------------

228. نھج البلاغہ، خطبہ 194۔

۱۴۵

قرآن مجید نے منافقین کے مختلف عذر اور غلط اقدامات کا ذکر کیا ہے اور ان کی تکذیب بھی کی ہے، بطور مثال جنگ تبوک میں اپنے عدم حضور کی توجیہ، ناتوانی و عدم قدرت کی شکل میں پیش کرنا چاہتے تھے کہ خداوند عالم ان سے قبل ان کی اس توجیہ کی تکذیب کرتے ہوئے فرماتا ھے:

(لو کان عرضاً قریباً و سفرا قاصدا لا تبعونک ولکن بعدت علیهم الشقّه وسیحلفون بالله لو استطعنا لخرجنا معکم یهلکون انفسهم والله یعلم انهم لکاذبون) (229)

پیامبر! اگر کوئی فوری فائدہ یا آسان سفر ہوتا تو تمھارا اتباع کرتے لیکن ان کے لئے دور کا سفر مشکل بن گیا ہے اور عنقریب یہ خدا کی قسمیں کھائیں گے اس بات پر کہ اگر ممکن ہوتا تو ہم ضرور آپ کے ساتھ چل پڑتے، یہ اپنے نفس کو ھلاک کررھے ہیں اور خدا خوب جانتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں۔

منافقین کے غلط اقدام کی توجیہ کا ایک اور موقع یہ ہے کہ، تقریباً منافقین میں سے ایک سو اسّی افراد نے غزوہ تبوک میں شرکت نہیں کی، جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمان وھاں سے واپس آئے تو منافقین مختلف توجیہ کرنے لگے۔

--------------

229. سورہ توبہ/42۔

۱۴۶

ذیل کی آیت منافقین کی اس غلط حرکات کی سرزنش کے لئے نازل ھوئی ہے خداوند عالم بطور واضح بیان کررھا ہے کہ ان کے جھوٹے عذر خدا کے لئے پوشیدہ نہیں ہیں ان کے حالات سے مومنین کو باخبر کرکے منافقین کے اسرار سے پردہ اٹھا رہا ہے۔

(یعتذرون الیکم اذا رجعتم الیهم قل لا تعتذروا لن نؤمن لکم قد نبّأنا الله من اخبارکم و سیری الله عملکم ورسوله ثم تردون الی عالم الغیب و الشهادة فینبئکم بما کنتم تعملون) (230)

یہ تخلف کرنے والے منافقین تم لوگوں کی واپسی پر طرح طرح کے عذر بیان کریں گے تو آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ عذر نہ بیان کرو ہم تصدیق کرنے والے نہیں ہیں اللہ نے ھمیں تمھارے حالات بتادیئے ہیں وہ یقیناً تمھارے اعمال کو دیکھ رہا ہے اور رسول بھی دیکھ رہا ہے اس کے بعد تم حاضر و غائب کے عالم (خدا) کی بارگاہ میں واپس کئے جاؤ گے اور وہ تمھیں تمھارے حال سے باخبر کرے گا۔

----------------

230. سورہ توبہ/94۔

۱۴۷

4) ظاہر سازی کرنا

ظواھر دینی کی شدید رعایت، خوش نما و اشخاص پسند گفتگو، اصلاح طلب نظریات و افکار کا اظھار، منافقین کے حربہ ہیں تاکہ طرف کے مقابل کو اپنا ھمنوا بناکر خودی ہونے کا القاء کرسکیں۔

امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السلام کے ہم عصر بعض منافقین ظاہر میں عبّاد و زہاّد دھر تھے نماز شب، قرآن کی تلاوت، ان سے طولانی ترین سجدے ترک نہیں ھوتے تھے، ان کی ظاہر سازی سے اکثر مومنین فریب کے شکار ہوجاتے تھے، بھت کم ہی تھے جو ان کے دین و ایمان میں شک رکھتے ھوں۔

منافقین کی ظاہر سازی کچھ اس نوعیت کی تھی کہ بقول قرآن، خود پیامبر عظیم الشان (ص) کے لئے بھی باعث حیرت و تعجب خیز تھی۔

(واذا رأیتهم تعجبک اجسامهم ان یقولوا تسمع لقولهم) (231)

اور جب آپ انھیں دیکھیں گے تو ان کے جسم بھت اچھے لگیں گے اور بات کریں گے تو اس طرح کہ آپ سننے لگیں گے۔

منافقین کی ظواھر سازی، رفتار و کردار سے اختصاص نہیں رکھتی بلکہ ان کی گفتار بھی فریب و جاذبیت سے لبریز ہے۔

(ومن الناس من یعجبک قوله فی الحیوة الدنیا و یشهد الله علی ما فی قلبه وهو الدّ الخصام) (232)

انسانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کی باتیں زندگانی دنیا میں بھلی لگتی ہیں اور وہ اپنے دل کی باتوں پر خدا کو گواہ بتاتے ہیں حالانکہ وہ بدترین دشمن ہیں۔

----------------

231. سورہ منافقون/2۔

232. سورہ بقرہ/204۔

۱۴۸

5) جھوٹے عہد و پیمان کرنا

خودی ظاہر کرنے کے لئے منافقین کا ایک اور وطیرہ وعدہ اور اس کی خلاف ورزی ہے بسا اوقات منافقین سے عادتاً ایسی خطائیں سرزد ہوتی تھیں کہ جس کی کوئی توجیہ و تاویل ممکن نہیں تھی یا مومنین کے لئے قابل قبول نہیں ہوتی تھی ایسے مقام پر وہ توبہ کو وسیلہ بناتے تھے اور عہد کرتے تھے اب ایسی خطائیں نہیں کریں گے اور صحیح راستہ پر مستحکم و ثابت قدم رھیں گے لیکن چونکہ دین اور دین کے اعتبارات کے لئے منافقین کے قلب میں کوئی جگہ تھی ہی نہیں جو اپنے عہد و پیمان پر باقی رھتے، تخلف وعدہ ایسے ہی تھا جیسے ان کے لئے کذب وغیرہ------جنگ احزاب میں منافقین کی وعدہ خلافی کی بنا پر ذیل کی آیت کا نزول ہوا:

(ولقد کانوا عاهدوا الله من قبل لا یولون الأدبار وکان عهد الله مسئولا) (233)

اور ان لوگوں نے اللہ سے یقینی عہد کیا تھا کہ ھرگز پشت نہیں دکھائیں گے، اور اللہ کے عہد کے بارے میں بھر حال سوال کیا جائے گا۔

خداوند عالم "ثعلبہ بن حاطب" کی عہد گزاری نیز پیمان شکنی کے واقعہ کو یاد دھانی کے طور پر پیش کررھا ہے، ثعلبہ بن حاطب ایک فقیر مسلمان تھا اس نے پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعا کرنے کی خواہش کی تاکہ وہ صاحب ثروت ھوجائے حضرت نے فرمایا: وہ تھوڑا مال جس کا تم شکر ادا کرسکتے ہو اس زیادہ اموال سے بھتر ہے جس کی شکر گزاری نہیں کرسکتے ھو، ثعلبہ نے کھا: اگر خدا عطا کرے تو اس کے تمام واجب حقوق کو ادا کرتا رھوں گا۔

----------------

233. سورہ احزاب/15۔

۱۴۹

پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا سے اموال میں اضافہ ہونے لگا، یھاں تک کہ اس کے لئے مدینہ میں قیام، نماز جماعت نیز جمعہ میں شرکت کرنا مشکل ھوگیا اطراف مدینہ میں منتقل ھوگیا، جب زکوٰۃ لینے والے گئے تو یہ کہہ کر واپس کردیا کہ مسلمان اس لئے ہوئے ہیں تاکہ جزیہ و خراج نہ دینا پڑے، اگر چہ بعد میں ثعلبہ پشیمان تو ہوا لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تنبیہ اور دوسروں کی عبرت کے لئے زکوٰۃ لینے سے انکار کردیا، ذیل کی آیت اسی واقعہ کو بیان کررھی ہے۔

(ومنهم من عاهد الله لئن آتانا من فضله لنصدقن و لنکونن من الصالحین فلما آتیهم من فضله بخلوا به وتولوا وهم معرضون فاعقبهم نفاقاً فی قلوبهم الی یوم یلقونه) (234)

ان میں سے وہ بھی ہیں جنھوں نے خدا سے عہد کیا اگر وہ اپنے فضل و کرم سے عطا کرے گا، تو اس کی راہ میں صدقہ دیں گے اور نیک بندوں میں شامل ہوجائیں گے، اس کے بعد جب خدا نے اپنے فضل سے عطا کردیا تو بخل سے کام لیا، اور کنارہ کش ھوکر پلٹ گئے تو ان کے بکل نے ان کے دلوں میں نفاق راسخ کردیا، اس دن تک کے لئے جب یہ خدا سے ملاقات کریں گے اس لئے کہ انھوں نے خدا سے کئے ہوئے وعدہ کی مخالفت کی ہے اور جھوٹ بولتے ہیں۔

پیمان گزاری و پیمان شکنی، وعدہ اور وعدہ کی خلاف ورزی، آئندہ صالح ہونے کا پیمان اور اس سے روگردانی وغیرہ-------، یہ وہ طریقے ہیں جس سے منافقین استفادہ کرتے ہوئے مومنین کے حلقہ و دینی معاشرے میں خود کو مخفی؛ کئے رہتے ہیں اور عوام فریبی کے لئے زمین ھموار کرتے ہیں۔

---------------

234. سورہ توبہ/75/77۔

۱۵۰

دینی یقینیات و مسلّمات کی تضعیف

منافقین کی ثقافتی رفتار و کردار کی دوسری خصوصیت دینی و مذھبی یقینیات و مسلّمات کی تضعیف ہے یقیناً جب تک انسان کا عقیدہ تحریف، تزلزل، ضعف سے دوچار نہ ہوا ھو۔ کوئی بھی طاقت اس کے عقیدہ کے خلاف زور آزمائی نہیں کرسکتی قدرت کا اقتدار، حکومت کی حاکمیت اجسام و ابدان پر تو ھوسکتی ہے دل میں نفوذ و قلوب پر مسلط نہیں ھوسکتی سر انجام انسان کی رسائی اس شی تک ہو ہی جا تی ہے جسے دل اور قلب پسند کرتا ہے اسلام کا اہم ترین اثر مسلمانوں پر، بلکہ تمام ہی ادیان کا اپنے پیروکاروں پر یہ رہا ہے کہ فرضی و خرافاتی رسم و رواج کو ختم کرتے ہوئے منطقی و محکم اعتقاد کی بنیاد ڈالیں، پہلے تو اسلام نے انسانوں کے اندرونی تحول و انقلاب کے لئے کام کیا ہے پھر اسلامی حکومت کے استقرار کی کوشش کی ہے تاکہ ایسا سماج و معاشرہ وجود میں آئے جو اسلام کے نظریہ کے مطابق اور مورد تایید ھو۔

پیامبر عظیم الشان (ص) پہلے مکہ میں تیرہ سال تک انسان سازی اور ان کے اخلاقی، فکری، اعتقادی ستون کو محکم مضبوط کرنے میں مصروف رہے اس کے بعد مدینہ میں اسلام کی سیاسی نظریات کی تابع ایک حکومت تشکیل دی منافقین جانتے تھے کہ جب تک مسلمان پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انسان ساز تعلیمات پر گامزن اور خالص اسلامی عقیدہ پر استوار و ثابت قدم رھیں گے، ان پر نہ تو حکومت کی جاسکتی ہے اور نہ ہی وہ تسلیم ھوسکتے ہیں، لھذا ان کی طرف سے ہمیشہ یہ کوشش رھی ہے کہ مومنین عقائد، دینی و مذھبی تعلمیات کے حوالہ سے ہمیشہ شک و شبہ میں مبتلا رھیں جیسا کہ آج بھی اغیار کے ثقافتی یلغار و حملہ کا اہم ترین ھدف یھی ہے۔

۱۵۱

منافقین کے اھداف یہ ہیں کہ اہل اسلام سے روح اسلام اور ایمان کو سلب کرلیں، منافقین کی تمام تر سعی، دین کے راسخ عقائد اس کے اھداف و نتائج، مذہب کی حقانیت و مسلمات سے مسلمانوں کو دور کردینا ہے تاکہ شاید اس کے ذریعہ اسلامی حکومت کی عنان اپنے ھاتھ میں لے سکیں اور مسلمانوں پر تسلط و قبضہ کرسکیں لھذا منافقین کا اپنے باطل مقاصد کے تکمیل کے لئے بھترین طریقۂ کار یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں طرح طرح کے شکوک پیدا کریں، اور انواع و اقسام کے شبھات کے ذریعہ مسلمانوں کو دینی مسلّمات کے سلسلہ میں وادی تردید میں ڈال دینے کی کوشش کرتے ہیں، تاریخی شواہد اور وہ آیات جو منافقین کی اس روش کو اجاگر کرتی ہیں، بیان کرنے سے قبل، ایک مختصر وضاحت سوال اور ایجاد شبہ کے سلسلہ میں عرض کرنا لازم ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ سوال اور جستجو کی فکر ایک مستحسن اور مثبت پہلو ہے، تمام علوم و معارف انھیں سوالات کے رھین منت ہیں جو بشر کے لئے پیش آئے ہیں اور جس کے نتیجہ میں اس نے جوابات فراھم کئے ہیں، اگر انسان کے اندر جستجو و تلاش کا جذبہ نہ ہوتا جو اس کی فطرت کا تقاضا ہے نیز ان سوالات کا حل تلاش کرنے کی فکر دامن گیر نہ ہوتی تو یقیناً موجودہ علوم و دانش کی یہ ترقی کسی صورت سے حاصل نہ ھوتی۔

۱۵۲

ان سوالات کے حل کے لئے جو انسان کے لئے پیش آتے ہیں دین اسلام میں فراوان تاکید کی گئی ہے، یہ کھا جاسکتا ہے جس قدر علم و تحصیل کی تشویق و ترغیب کی گئی ہے اسی طرح سوالات اور اس کے حل پر بھی زور دیا گیا ہے، قرآن مجید صریح حکم دے رہا ہے اگر کسی چیز کو نہیں جانتے ہو تو اس علم کے علماء اور دانشمندوں سے سوال کرو۔

(فاسئلوا اهل الذکر ان کنتم لا تعلمون) (235)

اگر نہیں جانتے ہو تو اہل ذکر (علماء) سے سوال کرو۔

دوسرا وہ مطلب جو اسلام میں جواب و سوال کی اھمیت کو ظاہر کرتا ہے وہ جوابات ہیں جو خداوند عالم نے قرآن میں بیان کئے ہیں یہ سوالات پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کئے جاتے تھے خدا نے قرآن میں"یسئلونک" سے بات آغاز کرتے ہوئے ان کے جوابات دئے ھیں(236)

پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب روح، ھلال، انفال شراب و قمار کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ سوال اور فکر سوال کی تشویق و تمجید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

((العلم خزائن و مفاتیحها السوال فاسئلوا یرحمکم الله فانه یوجر فیه اربعة السائل والعالم و المستمع والمحب لهم)) (237)

علم خزانہ ہے اور اس کی کنجیاں سوال کرنا ہے، سوال کرو، (جس چیز کو نہیں جانتے ھو) خداوند متعال تم کو اپنی خاص رحمت سے نوازے گا ہر سوال میں چار فرد کو فائدہ نفع حاصل ہوتا ہے سوال کرنے والے، جواب دینے والے، سننے والے اور اس فرد کو جو ان کو دوست رکھتا ہے۔

------------------

235. سورہ نحل/42 و سورہ انبیاء/7۔

236. رجوع کریں بقرہ/89 /215 /217 /219۔

237. میزان الحکمۃ ج4، ص330۔

۱۵۳

ائمہ حضرات کے بھت سارے دلائل، بحث و مباحثات نیز مختلف افراد کے سوالات کا جواب دینا، حتی دشمنوں اور کافرین کے مسائل کا حل پیش کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ سوال ایک امر پسندیدہ و مطلوب شی ہے، ائمہ حضرات کی سیرت میں اس امر کا اھتمام کافی حد تک مشھور ہے(238)

ظاہر ہے کہ وہ سوالات جو درک و فھم اور استفادہ کے لئے کیا جائے، وہ مفید ہے اور فھم و کمال کو بلندی عطا کرتا ہے، لیکن وہ سوالات جو دوسروں کی اذیت، آزمایش یا ایسے علم کے حصول کے لئے ہو جو انسان کے لئے فائدہ مند نہیں ہے، صرف یھی نہیں کہ ایسے سوالات بے قدر و قیمت ہیں بلکہ ممنوع قرار دئے گئے ہیں۔

امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السلام نے ایک پیچیدہ اور بی فائدہ سوال کے جواب میں فرمایا:

((سل تفقها ولا تسأل تعنتا)) (239)

سمجھنے کے لئے دریافت کرو الجھنے کے لئے نھیں۔

قرآن مجید میں بھی پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کئے گئے بعض سوالوں کے جواب کے لحن و طرز سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایسے سوالات نہیں کرنا چاھئے جن کے جوابات ثمر بخش نہیں ہیں۔

بعض مسلمانوں نے ھلال (ماہ) کے سلسلہ میں سوالات کئے کہ ماہ کیا ہے، وہ کیوں تدریجاً کامل ہوتا ہے، پھر کیوں پہلی حالت پر پلٹ آتا ھے(240)

----------------

238. بعض مطالب کو کتاب الاحتجاج، مرحوم طبرسی، ج1، 2 میں حاصل کیا جاسکتا ہے۔

239. نھج البلاغہ، حکمت320۔

240. سورہ بقرہ/189۔

۱۵۴

اللہ اس سوال کے جواب میں پیامبر عظیم الشان کو حکم دیتا ہے کہ ھلال کے تغییرات کے آثار و فوائد کو بیان کریں، ھلال کے متعلق اس جواب کا مفھوم یہ ہے کہ وہ چیز جو سوال کرنے و جاننے کے قابل ہے وہ ھلال کی تغییرات کی بنا پر اس کے آثار و فوائد ہیں نہ یہ کہ، کیوں ماہ تغییر کرتا ہے اور اس کی علت کیا ہے (علت شناسی زیادہ اھمیت کی حامل نھیں) ۔

سوال اور شبہ کا اساسی و بنیادی فرق یہ ہے کہ شبہ القا کرنے والے کا ھدف، جواب کا حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ شبہ کا موجد اپنے باطل مطلب کو حق کے لباس میں ان افراد کے سامنے پیش کرتا ہے، جو حق و باطل میں تشخیص دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں امیر المونین حضرت علی علیہ السلام شبہ کی اسم گزاری کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:

((وانما سمیت الشبهة شبهة لانها تشبه الحق)) (241)

شبہ کو اس لئے شبہ کا نام دیا گیا کہ حق سے شباھت رکھتا ہے۔

اگر شبہ ایجاد کرنے والے کو علم ھوجائے کہ کسی مقام پر ھمارا مغالطہ کشف ھوجائے گا اور اس کا باطن ہونا آشکار ھوجائے گا تو ایسی صورت میں وہ اس مقام یا فرد کے پاس اصلاً شبہ کو طرح و پیش ہی نہیں کرتا بلکہ وہاں پیش کرنے سے گریز کرتے ہیں سعی و کوشش یہ ہوتی ہے کہ شبہ کے احتمالی جواب کو بھی مخدوش کرکے پیش کرے۔

---------------

241. نھج البلاغہ، خطبہ38۔

۱۵۵

ایسے افراد کے اھداف بعض اشخاص کو اپنے میں جذب اور ان کے مبانی و اصول میں تزلزل پیدا کرنا ہوتا ہے، تاکہ حق کو دور و جدا کرسکیں، شبہ کرنے والے حضرات اپنے باطل کو حق میں اس طرح آمیزش کردیتے ہیں کہ وہ افراد جو تفریق و تمیز کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں وہ فریب کا شکار ہوجائیں۔

شبھات ہمیشہ حق کے لباس میں پیش کئے جاتے ہیں اور آسانی سے سادہ لوح افراد مجذوب ہوجاتے ہیں، شبہ خالص باطل نہیں ہے اس لئے کہ باطل محض اور خالص آسانی سے ظاہر ہوجاتا ہے۔

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فتنہ کا سر چشمہ حق و باطل کی آمیزش کو بیان کرتے ہیں، آپ مزید فرماتے ہیں کہ اگر حق و باطل ایک دوسرے سے جدا کردئے جائیں تو راستہ کی تشخیص بھت ہی آسان اور سھل ھوجاتی ہے۔

((انما بدء وقوع الفتن اهواء تتبع و احکام تبتدع یحلاف فیها کتاب الله ویتولی علیها رجال رجالا علی غیر دین الله فلو ان الباطل خلص من مزاج الحق لم یخف علی المرتادین ولو ان الحق خلص من لبس الباطل انقطعت عنه السن المعاندین ولکن یوخذ من هذا ضغث و من هذا ضغث فیمز جان)) (242)

فتنہ کی ابتدا ان خواہشات سے ہوتی ہے جن کا اتباع کیا جاتا ہے اور ان جدید ترین احکام سے ہوتی ہے جو گڑھ لئے جاتے ہیں اور سراسر کتاب خدا کے خلاف ھوتے ہیں اس میں کچھ لوگ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہوجاتے ہیں اور دین خدا سے الگ ہوجاتے ہیں کہ اگر باطل حق کی آمیزش سے الگ رہتا تو حق کے طلبگاروں پر مخفی نہیں رہ سکتا تھا اور اگر حق باطل کی ملاوٹ سے الگ رہتا تو دشمنوں کی زبانیں کھل نہیں سکتی تھیں، لیکن ایک حصہ اس میں سے لیا جاتا ہے اور ایک اس میں سے، اور پھر دونوں کو ملا دیا جاتا ہے۔ تحقیقی اور تخصصی مسائل کو علمی ظاہر کرتے ہوئے، غیر علمی حلقے و ماحول میں پیش کرنا ایجاد کرنے کا روشن ترین مصداق ہے۔

---------------

242. نھج البلاغہ، خطبہ50۔

۱۵۶

شبہ کا القا

دینی و اعتقادی مسلّمات کو ضعیف و کمزور کرنے کے لئے منافقین کی اہم ترین روش، القا شبہ ہے جس کے ذریعہ دین و ایمان کی روح و فکر کو خدشہ دار کردیتے ہیں۔

منافقین سخت اور حساس مواقع پر خصوصاً جنگ و معرکہ کے ایام میں شبہ اندازی کرکے مومنین کی مشکلات میں اضافہ اور مجاھدین کی فکر و حوصلہ کو تباہ اور برباد کر دیتے ہیں تاکہ میدان جنگ و نبرد کے حساس مواقع پر شرکت کرنے سے روک

سکیں۔

اس مقام پر منافقین کی طرف سے پیش کئے گئے دو شبہ قرآن مجید کے حوالہ سے پیش کئے جارھے ہیں۔

1) دین کے لئے فریب کی نسبت دینا

منافقین جنگ بدر کے موقع پر خداوند عالم کی نصرت و مدد اور مسلمین کی کامیابی و فتح یابی کے وعدے کی تکذیب کرتے ہوئے، ان کے وعدے کو فریب و خوش خیالی قرار دے رہے تھے، قصد یہ تھا کہ ایجاد اضطراب کے ذریعہ وعدہ الہی کے سلسلہ میں مسلمانوں کے اعتقاد و ایمان میں ضعف و تزلزل پیدا کردیں، تاکہ وہ میدان جنگ میں حاضر نہ ھوسکیں۔

۱۵۷

خداوند عالم اس مسئلہ کی یاد دھانی کرتے ہوئے مسلمانوں کے لئے تصریح کرتا ہے کہ خدا کا وعدہ یقینی ہے اگر توکل و اعتماد رکھو گے تو کامیاب و کامران ھوجاؤ گے۔

(واذ یقول المنافقون والذین فی قلوبهم مرض غرّ هولاء دینهم ومن یتوکل علی الله فان الله عزیز حکیم) (243)

جب منافقین اور جن کے دل میں کھوٹ تھا کہہ رہے تھے کہ ان لوگوں (مسلمان) کو ان کے دین نے دھوکہ دیا ہے حالانکہ جو شخص اللہ پر اعتماد کرتا ہے تو خدا ہر شی پر غالب آنے والا اور بڑی حکمت والا ہے۔

منافقین نے اسی سازش کو جنگ احزاب (خندق) میں بھی استعمال کیا۔

(واذ یقول المنافقون والذین فی قلوبهم مرض ما وعدنا الله ورسوله الا غرورا) (244)

اور جب منافقین اور جن کے دلوں میں مرض تھا یہ کہہ رہے تھے کہ خدا و رسول نے ہم سے صرف دھوکہ دینے والا وعدہ کیا ہے۔

---------------

243. سورہ انفال/49۔

244. سورہ احزاب/12۔

۱۵۸

آیت فوق کی شان نزول یہ ہے کہ مسلمان خندق کھودتے وقت ایک بڑے پتھر سے ٹکرائے، سعی فراوان کے بعد بھی پتھر کو نہ توڑ سکے، رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد کے لئے درخواست کی، آپ نے الہی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تین وار اور ضرب سے پتھر کو توڑ ڈالا، اور آپ نے فرمایا: یھاں سے حیرہ، مدائن، کسری و روم کے قصر و محل میرے لئے واضح و آشکار ہیں، فرشتۂ وحی نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت ان پر کامیاب اور فتحیاب ھوگی نیز ان کے تمام قصر و محل زیر تصرف ہوں گے پھر آپ نے فرمایا: خوش خبری اور مبارک ہو تم مسلمانوں پر اور اس خدا کا شکر ہے کہ اس محاصرہ و مشکلات کے بعد فتح و ظفر ہے۔

اس موقع پر ایک منافق نے بعض مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کھا: تم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات پر تعجب نہیں کرتے ھو، کس طریقہ سے تم کو بے بنیاد وعدوں کے ذریعہ خوش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یھاں سے روم و حیرہ و مدائن کے قصر کو دیکھ رہا ہوں اور جلد ہی فتح نصیب ھوگی، یہ اس حال میں تم کو وعدہ دے رہے ہیں کہ تم دشمن سے مقابلہ کرنے میں خوف و ھراس کے شکار ہو(245)

---------------

245. سیرۃ ابن ھشام، ج2، ص219، منشور جاوید، ص74، 75۔

۱۵۹

2) حق پر نہ ہونے کا شبہ ایجاد کرنا

دوسرا وہ القاء شبہ جسے ہمیشہ منافقین خصوصاً میدان جنگ اور معرکہ میں ایجاد کرتے تھے حق پر نہ ہونے کا شبہ تھا، جب جنگوں میں مسلمان خسارہ اور نقصان میں ھوتے تھے یا بعض مجاھدین درجہ شھادت پر فائز ھوتے تھے، یا اہل اسلام شکست سے دوچار ھوتے تھے تو منافقین اس کا بھانہ لے کر طرح طرح کے شبہ ایجاد کرتے تھے کہ اگر حق پر ھوتے تو شکست نہیں ھوتی، یا قتل نہیں کئے جاتے، اور اس طرح سے مسلمانوں کو شک اور تزلزل میں ڈال دیتے تھے۔

قرآن مجید سے استفادہ ہوتا ہے کہ منافقین نے جنگ احد اور اس کے بعد سے اس انحرافی فکر کو القا کرنے میں اپنی سعی تیز تر کردی تھی۔

(ویقولون لو کان لنا من الأمر شیء ما قتلنا ههنا) (246)

اور کہتے ہیں کہ اگر اختیار ھمارے ھاتھ میں ہوتا ہم یھاں نہ مارے جاتے۔

منافقین میدان جنگ میں شکست کو نبوت پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے آئین کی نا درست و ناسالم ہونے کی علامت سمجھتے تھے اور یہ شبہ ایجاد کرتے تھے اگر یہ (شھدا) میدان جنگ میں نہ جاتے تو شھید نہ ھوتے۔

(الذین قالوا لأخوانهم و قعدوا لو اطاعونا ما قتلوا) (247)

یھی (منافقین) وہ ہیں جنھوں نے اپنے مقتول بھائیوں کے بارے میں یہ کھنا شروع کردیا کہ وہ ھماری اطاعت کرتے تو ھرگز قتل نہ ھوتے۔

------------------

246. سورہ آل عمران/154۔

247. سورہ آل عمران/168۔

۱۶۰