قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق 0%

قرآن اور چہرۂ منافق مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 193

قرآن اور چہرۂ منافق

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجۃ الاسلام سید احمد خاتمی
زمرہ جات: صفحے: 193
مشاہدے: 68122
ڈاؤنلوڈ: 4665

تبصرے:

قرآن اور چہرۂ منافق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68122 / ڈاؤنلوڈ: 4665
سائز سائز سائز
قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

خداوند عالم ان کے اس شبہ (جنگ میں شرکت قتل کئے جانے کا سبب ھے) کا جواب بیان کررھا ہے، موت ایک الہی تقدیر و سر نوشت ہے موت سے فرار میسر نہیں، اور معرکہ احد میں قتل کیا جانا نبوت و پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نا سالم ہونے اور ان کے نادرست اقدام کی علامت نہیں، جن افراد نے اس جنگ میں شرکت نہیں کی ہے موت سے گریز و فرار نہیں کرسکتے ہیں یا اس کو موخر کرنے کی قدرت و توانائی نہیں رکھتے ہیں۔

(قل لو کانوا فی بیوتکم لبرز الذین کتب علیهم القتل الی مضاجعهم) (248)

تو آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم گھروں میں بھی رہ جاتے تو جن کے لئے شھادت لکھ دی گئی ہے وہ اپنے مقتل تک بہر حال جاتے۔

قرآن موت و حیات کو خدا کے اختیار میں بتاتا ہے معرکہ و جنگ کے میدان میں جانا موت کے آنے یا تاخیر سے آنے میں مؤثر نہیں ہے۔

(والله یحیی و یمیت والله بما تعملون بصیر) (249)

موت و حیات خدا کے ھاتھ میں ہے اور وہ تمھارے اعمال سے خوب باخبر ہے اس مطلب کی تاکید کی کہ موت و حیات انسان کے اختیار میں نہیں ہے منافقین کے لئے اعلان کیا جارھا ہے کہ اگر تمھارا عقیدہ یہ ہے کہ موت و حیات تمھارے اختیار میں ہے تو جب فرشتۂ مرگ نازل ہو تو اس کو اپنے سے دور کردینا اور اس سے نجات حاصل کرلینا۔

(قل فادرئوا عن انفسکم الموت ان کنتم صادقین) (250)

پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے کہہ دیجئے کہ اگر اپنے دعوے میں سچے ہو تو اب اپنی ہی موت کو ٹال دو۔

-----------------

248. سورہ آل عمران/154۔

249. سورہ آل عمران/156۔

250. سورہ آل عمران/168۔

۱۶۱

مسلمانوں کو اپنے مذہب و عقیدہ میں شک سے دوچار کرنے کے لئے منافقین ہمیشہ یہ نعرہ بلند کیا کرتے تھے، اگر ہم حق پر تھے تو کیوں قتل ہوئے اور کیوں اس قدر ھمیں قربانی دینی پڑی، ھمیں جو جنگ احد میں ضربات و شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ھمارا دین اور آئین حق پر نہیں ہے۔

قرآن کے کچھ جوابات اس شبہ کے سلسلہ میں گزر چکے ہیں، اساسی و مرکزی مطلب اس شبہ کو باطل کرنے کے لئے مورد توجہ ہونا چاھئے وہ یہ کہ ظاہری شکست حق پر نہ ہونے کی علامت نہیں ہے جس طریقہ سے ظاہری کامیابی بھی حقانیت کی دلیل نہیں ہے۔

بھت سے انبیاء حضرات کہ جو یقیناً حق پر تھے، اپنے پروگرام کو جاری کرنے میں کامیابی سے ہم کنار نہیں ھوسکے، بنی اسرائیل نے بین الطلوعین ایک روز میں ستر انبیاء کو شھید کر ڈالا اور اس کے بعد اپنے کاموں میں مشغول ھوگئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، کوئی حادثہ وجود میں آیا ہی نہیں، تو کیا ان پیامبران الہی کا شھید و مغلوب ہونا ان کے باطل ہونے کی دلیل ھے؟ اور بنی اسرائیل کا غالب ھوجانا ان کی حقانیت کی علامت ھے؟ یقیناً اس کا جواب نہیں میں ہے، دین کے سلسلہ میں فریب کی نسبت دینا اور حق پر نہ ہونے کے لئے شبہ پیدا کرنا، منافقین کے القاء شبھات کے دو نمونہ تھے جسے منافقین پیش کرتے تھے لیکن ان کے شبھات کی ایجاد ان دو قسموں پر منحصر و محصور نہیں ہے۔

۱۶۲

دین کو اجتماع و معاشرت کے میدان سے جدا کرکے صرف آخرت کے لئے متعارف کرانا، دین کے تقدس کے بھانے دین و سیاست کی جدائی کا نعرہ بلند کرنا، تمام ادیان و مذاھب کے لئے حقانیت کا نظریہ پیش کرنا، صاحب ولایت کا تمام انسانوں کے برابر ھونا، صاحب ولایت کی درایت میں تردید اور اس کے اوامر میں مصلحت سنجی کے نظریہ کو پیش کرنا، احکام الہی کے اجرا ہونے کی ضرورت میں تشکیک وجود میں لانا، خدا محوری کے بجائے انسان محوری کی ترویج کرنا، اس قبیل کے ھزاروں شبھات ہیں جن کو منافقین ترویج کرتے تھے اور کررھے ہیں، تا کہ ان شبھات کے ذریعہ دین کے حقایق و مسلّمات کو ضعیف اور اسلامی معاشرہ سے روح ایمان کو خالی کردیں اور اپنے باطل و بیھودہ مقاصد کو حاصل کرلیں۔

البتہ یہ بات ظاہر و عیاں ہے کہ منافقین مسلمانوں کے اعتقادی و مذھبی یقینیات و مسلّمات میں القاء شبھات کے لئے اس نوع کے مسائل کا انتخاب کرتے ہیں جو اسلامی حکومت و معاشرے کی تشکیل میں مرکزی نقش رکھتے ہیں اور ان کے تسلط و قدرت کے لئے موانع ثابت ھوتے ہیں، اسی بنا پر منافقین کے القاء شبھات کے لئے زیادہ تر سعی و کوشش دین کے سیاسی و اجتماعی مبانی نیز دین و سیاست کی جدائی اور دین کو فردی مسائل سے مخصوص کردینے کے لئے ہوتی ہیں۔

۱۶۳

فصل پنجم: منافقین کی اجتماعی و معاشرتی خصائص

1) اہل ایمان و اصلاح ہونے کی تشھیر

منافقین ہمیشہ سماج اور معاشرہ میں ظاہراً ایمان اور اصلاح کا نعرہ بلند کرتے ہوئے قد علم کرتے ہیں، دین اور اسلامی نظام سے و معرکہ آرائی کی صریح گفتگو نہیں کرتے اسی طرح منافقین کبھی بھی فساد کا دعوی نہیں کرتے بلکہ شدت سے انکار کرتے ہوئے، بلکہ خود کو اصلاح کی دعوت دینے والا اور دینداری کا علمبردار پیش کرتے ہیں۔

اس سے قبل منافقین کی فردی رفتار کی خصوصیت کے ذیل میں بعض آیات جو منافقین کے کردار کی عکاسی کرتی ہیں، پیش کی گئی ہیں، جس میں عرض کیا گیا کہ منافقین اس طرح خوبصورت اور دلچسپ انداز میں گفتگو کرتے ہیں کہ پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی تعجب خیز ہوتا ہے، پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض منافقین کو پہچانتے بھی تھے، لیکن اس کے باوجود دیکھتے تھے کہ وہ اچھائی اور بھتری کا نعرہ لگاتے ہیں، دل موہ لینے والی گفتگو کرتے ہیں، ان کی گفتگو میں خیر و صلاح کی نمائش بھی ہوتی ہے، منافقین کی یہ فردی خصوصیات ان کی اجتماعی رفتار میں بھی مشاہدہ کی جاسکتی

ہے۔

(ویقولون آمنّا بالله و بالرسول و اطعنا ثم یتولّی فریق منهم من بعد ذلک وما اولئک بالمومنین) (251)

اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور رسول پر ایمان لے آئے اور ہم نے ان کی اطاعت کی اور اس کے بعد ان میں سے ایک فریق منہ پھیر لیتا ہے اور یہ واقعاً صاحبان ایمان نہیں ہیں۔

--------------

251. سورہ نور/47۔

۱۶۴

مسجد ضرار کی سازش میں منافقین کا نعرہ مریض، بیمار افراد کی مساعدت اور ایک مقدس ھدف کا اظھار تھا، قرآن صریحی اعلان کررھا ہے کہ ان لوگوں نے مسجد، اسلام و مسلمانوں کو ضرر اور نقصان پھونچانے اور کفر کی تقویت دینے کے لئے بنائی تھی، مسجد کا ھدف صاحبان ایمان کے مابین تفرقہ و اختلاف کی ایجاد اور دشمنان اسلام کے لئے سازشی مرکز تیار کرنا تھا حالانکہ وہ قسم کھاتے تھے کہ ھمارا ارادہ خدمت خلق اور نیکی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔

(ولیحلفن ان اراد الّا الحسنی) (252)

اور یہ قسم کھاتے ہیں کے ہم نے صرف نیکی کے لئے مسجد بنائی ہے۔

ایک دوسرے مقام پر قرآن منافقین کو اس طرح بیان کررھا ہے کہ منافقین پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور میں ان کے دستور و آئین کی فرماں فرداری اور مطیع محض ہونے کا اظھار کرتے ہیں لیکن جب خصوصی جلسہ تشکیل دیتے ہیں تو پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف سازش کا پروگرام بناتے ھیں(253)

ظواھر کا آراستہ ہونا اور اچھے اچھے نعرے لگانا، منافقین کے دونوں گروہ، یعنی منافق خوف، اور منافق طمع، کی اجتماعی خصوصیات میں سے ہے، منافقین، اسلامی و ایمانی معاشرے میں پلید افعال انجام دینے کے لئے ایمان کے نعرے بلند کرتے ہیں اور دین داری و اصلاح طلبی کا اظھار کرتے ہیں۔

----------

252. سورہ توبہ/107۔

253. سورہ نساء/ 81۔

۱۶۵

2) معروف کی نھی و منکر کا حکم

منافقین کی دوسری اجتماعی خصوصیت معروف کی نھی اور منکر کا حکم دینا ہے کلمہ (معروف و منکر) وسیع مفھوم کے حامل ہیں، تمام فردی، اجتماعی، سیاسی، نظامی ثقافتی اور معاشرتی اقدار و ضد اقدار کو شامل ھوتے ہیں جماعت نفاق کا نشانہ اور ھدف انواع منکرات کی اشاعت اور اسلامی اقدار و شائستگی کو محو کرنا ہے، لھذا اپنے منافقانہ کردار و رفتار کے ذریعہ شوم مقاصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

(المنافقون والمنافقات بعضهم من بعض یامرون باالمنکر وینهون عن المعروف) (254)

منافق مرد اور منافق عورتیں آپس میں سب ایک دوسرے سے مربوط ہیں سب برائیوں کا حکم دیتے ہیں اور نیکیوں سے روکتے ہیں۔

مذکورہ آیت میں جیسا کہ اس کے شان نزول سے استفادہ ہوتا ہے منکر کا مصداق سیاسی اقدار کی خلاف ورزی ہے، منافقین افراد کو پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ھمراھی نہ کرنے کی دعوت دیتے تھے جو اسلامی نظام کی علامت اور بانی تھے، صاحبان ایمان حضرات کو ولایت کے فرامین سے عدول اور نافرمانی کی ترغیب دلاتے تھے، ظاہرا ہے کہ اس منکر سیاسی کا خطرہ، فردی منکرات سے کہیں زیادہ ہے۔

لیکن کبھی خطا سرزد ھوجاتی ہے اور معروف کی جگہ منکر اور منکر کی جگہ معروف انجام ہوجاتا ہے قصد تخریب نہیں ہوتا ہے، لھذا اس قسم کے موراد قابل گذشت ہیں لیکن اس کے مقابل بعض افراد معروف کی شناخت رکھتے ہوئے اس کے برخلاف دعوت عمل دینے کے پابند ہیں منکر سے آگاہ ھوتے ہوئے بھی لوگوں کو اس کے انجام کے لئے ورغلاتے ہیں۔

------------

254. سورہ توبہ/67۔

۱۶۶

ابو حنیفہ کی یہ کوشش رھتی تھی کہ وہ بعض موارد میں حضرت امام صادق علیہ السلام کے خلاف فتوی دے، چنانچہ وہ سجدے کے مسئلہ میں حضرت امام صادق علیہ السلام کے فتوے کو نہیں جانتا تھا کہ اس حالت میں آپ کا فتوی آنکھ بند کرنے کا ہے یا کھلی رکھنے کا لھذا اس نے فتوی دیا کہ ایک آنکھ کھلی اور ایک بند رکھی جائے تاکہ ہر حال میں حضرت امام صادق علیہ السلام کے فتوے کی مخالفت ھوسکے۔

منافقین، اسلامی معاشرے میں معروف و منکر کی عمیق شناخت رکھتے ہوئے منکر کا حکم اور معروف سے نھی کرتے تھے لیکن انتھائی زیر کی اور فریب کاری کے ساتھ کہ کہیں ان کے راز فاش نہ ہوجائیں اور ان کے حربے ناکام ہوجائیں۔

3) بخل صفت ہونا

منافقین کی اجتماعی رفتارکی دوسری خصوصیت بخیل ہونا ہے وہ سماج و معاشرے کی تعمیر اور اصلاح کے لئے مال صرف کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

(یقبضون ایدیهم) (255)

اور (منافقین وہ لوگ ہیں جو) اپنے ھاتھوں کو (نفاق و بخشش سے) روکے رہتے ہیں۔

سورہ احزاب میں بھی منافقین کی توصیف کرتے ہوئے ان کی اس معاشرتی فکر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

(اشحة علیکم) (256)

وہ (منافقین) تمام چیزوں میں، تمھارے حق میں بخیل ہیں۔

------------

255. سورہ توبہ /67۔

256. سورہ احزاب 19، اشحۃ، شیح کی جمع ہے اس کے معنی شدید بخل حرص کے ساتھ، کرنا ہے۔

۱۶۷

منافقین نہ صرف یہ کہ خود بخیل، کوتاہ دست، نیز محرومین و فقراء کی مدد و مساعدت نہیں کرتے بلکہ دوسروں کو بھی اس صفت کا عادی بنانا چاہتے ہیں اور انفاق کرنے سے روکتے ہیں۔

(هم الذین یقولون لا تنفقوا علی من عند رسول الله حتی ینفضّوا ولله خزائن السماوات والارض ولکن المنافقین لا یفقهون) (257)

یھی وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ کے ساتھیوں پر کچھ خرچ نہ کرو تاکہ یہ لوگ منتشر ہوجائیں حالانکہ آسمان و زمین کے سارے خزانے اللہ ہی کے ہیں اور یہ منافقین اس بات کو نہیں سمجھ رہے ہیں۔

مذکورہ آیت کی شان نزول کے بارے میں کھا جاتا ہے کہ غزوہ بنی المصطلق کے بعد مسلمانوں کے دو فرد کا کنویں سے پانی لینے کے سلسلہ میں جھگڑا ھوگیا ان میں ایک انصار اور دوسرا مھاجرین کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے دونوں نے اپنے اپنے گروھوں کو مدد کے لئے آوازدی، عبداللہ ابن ابی جو منافقین کے ارکان میں سے تھا، گروہ انصار کی طرف داری کرتے ہوئے میدان میں اتر آیا دونوں گروہ میں لفظی جنگ شروع ھوگئی۔

عبد اللہ ابن ابی نے کھا: ہم نے مھاجرین جماعت کو پناہ دی، اور ان کی مدد کی لیکن ھماری مدد و مساعدت اس معروف مثل کے مانند ھوگئی جس میں کھا جاتا ہے "ثمن کلبک یأکلک" اپنے کتے کو کھلا پلا کر فربہ کرو تاکہ وہ تم کو کھا جائے یہ ہم انصار کی مدد و نصرت کا نتیجہ ہے جو ہم نے مھاجرین ھمارے ساتھ کررھے ہیں ہم نے اس گروہ (مھاجر) کو اپنے شھر میں جگہ دی اپنے اموال کو ان کے درمیان تقسیم کئے، اگر اپنی باقی ماندہ غذا کو ان مھاجرین کو نہ دیتے تو آج ہم انصار کی یہ نوبت نہ آتی کہ مھاجر ھماری گردنوں پر سوار ھوتے بلکہ ھماری مدد نہ کرنے کی صورت میں اس شھر سے چلے جاتے اور اپنے قبائل سے ملحق ھوجاتے۔

قرآن عبداللہ ابن ابی کی توھین آمیز گفتگو اور اس کی تاکید کہ انصار مھاجرین کی مدد کرنا ترک کردیں، کا ذکر کرتے ہوئے اضافہ کررھا ہے کہ آسمان و زمین کے خزائن خدا کے ھاتھوں میں ہے منافقین کے بخل کرنے اور انفاق سے ھاتھ روک لینے سے، کچھ بدلنے والا نہیں ہے۔

-----------

257. سورہ منافقون/7۔

۱۶۸

4) صاحبان ایمان کی عیب جوئی اور استھزا

منافقین کی اجتماعی خصائص میں سے ایک خصوصیت صاحب ایمان کا استھزا، عیب جوئی اور تمسخر ہے، منافقین سے ایسے افعال کا صدور ان کی ناسالم طبیعت اور روحانی مریض ہونے کی غمازی کررھا ہے، تمسخر اور عیب جوئی ایک قسم کا ظلم شخصیت پر دست درازی اور انسانی حیثیت کی بے حرمتی ہے، حالانکہ انسان کے لئے اس کی شخصیت و حرمت اور آبرو ھرشی سے عزیز تر ہوتی ہے۔

اشخاص کی تمسخر و عیب جوئی کے ذریعہ رسوائی اور بے حرمتی کرنا، فرد مقابل کے مریض، کینہ پرستی سے لبریز قلب اور پست فطرتی کی علامت ہے، منافقین بھی اس مرض میں مبتلا ہیں۔

(واذا لقوا الذین آمنوا قالوا آمنا واذا خلوا الی شیاطینهم قالوا انا معکم انما نحن مستهزون) (258)

جب صاحبان ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم اہل ایمان ہیں، اور جب اپنے شیاطین کے ساتھ خلوت اختیار کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں، ہم تو صرف صاحبان ایمان کا مذاق اڑاتے ہیں۔

منافقین جنگوں میں ہر زاویہ سے مومنین پر اعتراض کرتے تھے جو جنگ میں زیادہ حصہ لیتے تھے اور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے تھے ان کو ریا کاری کا عنوان دیدیتے تھے اور جن کی بضاعت کم تھی اور مختصر مساعدت کرتے تھے، تو ان کا استھزا کرتے ہوئے کہتے تھے لشکر اسلام کو اس کی کیا ضرورت ھے؟!

-------------

258. سورہ بقرہ/14۔

۱۶۹

نقل کیا جاتا ہے ابو عقیل انصاری نے شب و روز کام کرکے دومن خرمے حاصل کئے ایک من اپنے اہل و عیال کے لئے رکھے اور ایک من پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا، منافقین ابو عقیل انصاری کے اس عمل پر تمسخر و استھزا میں مشغول ھوگئے، اس وقت ذیل کی آیت کا نزول ہوا۔

(الذین یلمزون المطوعین من المؤمنین فی الصدقات والذین لا یجدون الا جهدهم فیسخرون منهم سخر الله منهم ولهم عذاب الیم) (259)

جو لوگ صدقات میں فراخ دلی سے حصہ لینے والے مومنین اور ان غریبوں پر جن کے پاس ان کی محنت کے علاوہ کچھ نہیں ہے الزام لگاتے ہیں اور پھر ان کا مذاق اڑاتے ہیں خدا ان کا بھی مذاق بنادے گا اور اس کے پاس بڑا درد ناک عذاب ہے۔

آیت فوق سے استفادہ ہوتا ہے کہ منافقین ایک گروہ کی عیب جوئی کرتے تھے اور ایک گروہ کا استھزا و مسخرہ کرتے تھے ان کا استھزا ان افراد کے لئے تھا جو لشکر اسلام کے لئے مختصر اور ناچیز مساعدت کرتے تھے اور عیب جوئی ان اشخاص کے لئے تھی جو وافر مقدار میں نصرت و مدد کرتے تھے پہلی قسم کے افراد کو استھزا کرتے ہوئے بے مقدار و ناچیز مدد کرنے والے القاب سے نوازتے تھے اور دوسری قسم کے اشخاص کو ریا کار سے تعارف کراتے تھے۔

----------------

259. سورہ توبہ/79۔

۱۷۰

5) تضحیک و خندہ زنی

منافقین کی ایک دوسری اجتماعی رفتار کی خصوصیت تضحیک اور خندہ زنی ہے یعنی جب بھی صاحب ایمان سختی و عسرت میں ھوتے تھے تو منافقین خوشحال ھوتے اور ھنستے تھے اور مومنین کی سرزنش کیا کرتے تھے لیکن جب صاحبان ایمان کو آرام اور آسائش میں دیکھتے تھے تو ناراض اور غمزدہ ھوتے تھے، قرآن مجید چند آیات کے ذریعہ منافقین کی اس کیفیت کو بیان کر رہا ہے۔

(ان تمسسکم حسنة تسؤهم وان تصبکم سیئة یفرحوا بها) (260)

تمھیں ذرا بھی نیکی پہنچتی ہے تو وہ ناراض ھوتے ہیں اور تمھیں تکلیف پھنچتی ہے تو وہ خوش ھوتے ہیں۔

(وان اصابتکم مصیبة قال قد انعم الله علی اذالم اکن معهم شهیداً) (261)

اور اگر تم پر کوئی مصیبت آگئی تو کہیں گے خدا نے ہم پر احسان کیا کہ ہم ان کے ساتھ حاضر نہیں تھے۔

(ان تصبک حسنة تسؤهم وان تصبک مصیبة یقولوا قد اخذنا امرنا من قبل ویتولوا وهم فرحون) (262)

ان کا حال یہ ہے کہ جب آپ تک نیکی آتی ہے تو انھین بری لگتی اور جب کوئی مصیبت آجاتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنا کام پہلے ہی ٹھیک کرلیا تھا اور خوش و خرم واپس چلے جاتے ہیں۔

----------------

260. سورہ آل عمران/120۔

261. سورہ نساء/72۔

262. سورہ توبہ/50۔

۱۷۱

منافقین عداوت و دشمنی کی بنا پر جو مسلمانوں کے لئے رکھتے ہیں ان کی خوش حالی اور آسائش کو دیکھنا پسند نہیں کرتے ہیں لیکن جب صاحب ایمان مصیبت یا جنگ میں گرفتار ھوتے ہیں تو بھت شادمان اور خوش نظر آتے ہیں۔

جب مسلمان سختی و عسرت میں ھوتے ہیں تو ان کی سرزنش کرتے ہیں اور اپنے موقف کو ان سے جدا کر لیتے ہے، اور شکر خدا بھی کرتے ہیں کہ ہم مومنین کے ساتھ (گرفتار) نہیں ہوئے۔

6) کینہ توزی

منافقین، مومنین و اسلامی نظام کی نسبت شدید عداوت و کینہ رکھتے ہیں، کینہ و عداوت کے شعلے ہمیشہ ان کے دل و قلب میں افروختہ ہیں جو کچھ بھی دل میں ہوتا ہے وہ ان کی زبان و عمل سے ظاہر ہو ہی جاتا ہے خواہ وہ اظھار خفیف ہی کیوں نہ ھو۔

امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السلام اپنی گران قدر گفتگو میں صراحت کے ساتھ اس باریکی کو انسانوں کے لئے بیان فرماتے ہیں۔

((ما اضمر احد شیئا الا ظهر فی قلتات لسانه و صفحات وجهه)) (263)

انسان جس بات کو دل میں چھپانا چاھتا ہے وہ اس کی زبان کے بے ساختہ کلمات اور چھرہ کے آثار سے نمایاں ھوجاتی ہے۔

مذکورہ کلام کی بنیاد پر منافقین جو شدید کینہ و عداوت صاحب ایمان سے رکھتے ہیں اس کا مختصر حصہ ہی منافقین کی رفتار و گفتار میں جلوہ گر ہوتا ہے۔

--------------

263. نھج البلاغہ، حکمت26۔

۱۷۲

قرآن مجید نے اس باریک مطلب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ منافقین نے اپنے دلوں میں جو مخفی کر رکھا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو ان کی رفتار و گفتار میں دیکھا جاتا ہے۔

(قد بدت البغضاء من افواههم وما تخفی صدورهم اکبر) (264)

ان کی عداوت زبان سے بھی ظاہر ہے اور جو دل میں چھپا رکھا ہے وہ تو اس سے بھی زیادہ ہے۔

لھذا منافقین کی رفتار و گفتار کے ظواھر سے اسلامی نظام اور صاحبان ایمان سے عداوت و کینہ کے کچھ بخش و حصہ کی شناخت کی جاسکتی ہے اور یہ آگاھی و شناخت مقدمہ ہے کہ ان سے مبارزہ کیا جاسکے اور اس نوعیت کے دشمنوں کو اسلامی معاشرے سے جدا اور اخراج کیا جاسکے۔

----------------

264. سورہ آل عمران/118۔

۱۷۳

فصل ششم: منافقین سے مقابلہ کرنے کی راہ و روش

روشن فکری و افشا گری

منافقین سے مقابلہ و مبارزہ کرنے کی راہ و روش ایک مفصل اور طولانی بحث ہے، یھاں بطور اجمال اشارہ کیا جارھا ہے، منافقین سے مقابلہ کے طریقوں میں زیادہ وہ طریقے قابل بحث ہیں جو منافقین کے سیاسی و ثقافتی فعالیت کو مسدود کرسکیں اور ان کے شوم اھداف کے حصول کو ناکام بناسکیں۔

منافقین سے مقابلہ اور مبارزہ کے سلسلہ میں پھلا مطلب یہ ہے کہ تحریک نفاق، ان کے اھداف نیز ان کے طور طریقہ اور روش کے سلسلہ میں روشن فکر ہونا چاھئے، نفاق کے چھروں کا تعارف نیز ان کے اعمال و افعال کا افشا کرنا نفاق و منافقین سے مقابلے و مبارزہ کے سلسلہ میں ایک مؤثر قدم ھوسکتا ہے۔

بطور مقدمہ اس مطلب کی یاد دھانی بھی ضروری ہے کہ دوسروں کے گناہ، اسرار کا افشا اور عیب جوئی کو اسلام میں شدت سے منع کیا گیا ہے۔

بعض روایات و احادیث میں دوسروں کی معصیت و گناہ کو فاش کرنے کا گناہ، اسی معصیت و گناہ کے مطابق ہے، صاحبان ایمان کو نصیحت کی گئی ہے اگر تم چاہتے ھوکہ خداوند عالم قیامت میں تمھارے عیوب پر پردہ ڈالے رہے تو دنیا میں دوسروں کے عیوب کی پردہ پوشی کرتے رھو۔

۱۷۴

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک سوال کے جواب میں، جس نے سوال کیا تھا ہم کون سا فعل انجام دیں کہ اللہ قیامت میں ھمارے عیوب کو ظاہر نہ کرے، آپ فرماتے ہیں:

((استر عیوب اخوانک یستر الله علیک عیوبک)) (265)

اپنے (دینی) برادران کے عیوب کو پوشیدہ رکھو تاکہ اللہ بھی تمھارے عیوب کو پوشیدہ اور چھپائے رکھے۔

امیر المومنین حضرت علی نھج البلاغہ میں فرماتے ہیں:

جو لوگ گناھوں سے محفوظ ہیں اور خدا نے ان کو گناھوں کی آلودگی سے پاک رکھا ہے ان کے شایان شان یھی ہے کہ گناھگاروں اور خطا کاروں پر رحم کریں اور اس حوالے سے خدا کی بارگاہ میں شکر گزار ہوں کیوں کہ ان کا شکر کرنا ہی ان کو عیب جوئی سے محفوظ رکھ سکتا ہے، چہ جائیکہ انسان خود عیب دار ہو اور اپنے بھائی کا عیب بیان کرے اور اس کے عیب کی بنا پر اس کی سرزنش بھی کرے، یہ شخص یہ کیوں نہیں فکر کرتا ہے کہ پروردگار نے اس کے جن عیوب کو چھپاکر رکھا ہے وہ اس سے بڑے ہیں جن پر یہ سرزنش کر رہا ہے اور اس عیب پر کس طرح مذمت کررھا ہے جس کا خود مرتکب ہوتا ہے اور اگر بعینہ اس گناہ کا مرتکب نہیں ہوا ہے تو اس کے علاوہ دوسرے گناہ کرتا ہے جو اس سے بھی عظیم تر ہیں اور خدا کی قسم! اگر اس سے عظیم تر نہیں بھی ہیں تو کمتر تو ضرور ہی ہیں اور ایسی صورت میں برائی کرنے اور سرزنش کرنے کی جرأت بھر حال اس سے بھی عظیم تر ہے۔

------------------

265. میزان الحکمۃ، ج7، ص145۔

۱۷۵

اے بندہ خدا! دوسرے کے عیب بیان کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لے خدا نے اسے معاف کردیا ہو اور اپنے نفس کو معمولی گناہ کے بارے میں محفوظ تصور نہ کر شاید کہ خداوند عالم اسی پر عذاب کردے ہر شخص کو چاھئے کہ دوسرے کے عیب بیان کرنے سے پرہیز کرے کیونکہ اسے اپنا عیب بھی معلوم ہے اور اگر عیب سے محفوظ ہے تو اس سلامتی کے شکریہ ہی میں مشغول رھے(266)

حضرت علی علیہ السلام کی فرمایش کے مطابق نہ صرف یہ کہ افراد کو چاھئے کہ اپنے دینی اور انسانی برادران کے اسرار کو فاش نہ کریں اور ان کی بے حرمتی نہ کریں بلکہ حضرت کی فرمایش و نصیحت یہ ہے کہ اگر حکومت بھی، سماج و معاشرہ کے جن افراد کے اسرار و عیوب کو جانتی ہے تو اس کو چاھئے، ان کے عیوب کو پوشیدہ رکھے ان کی خطاؤں سے جہاں تک ممکن ہے چشم پوشی کرے، حضرت ایک نامہ کے ذریعہ مالک اشتر کو لکھتے ہیں:

((ولیکن ابعد رعیتک منک واشنأهم عندک اطلبهم لمعائب الناس فان فی الناس عیوبا الوالی احق من سترها فلا تکشفنّ عما غاب عنک منها فانّما علیک تطهیر ما ظهر لک والله یحکم علی ما غاب عنک فاستر العورة ما استطعت یستر الله منک ما تحبّ ستره من رعیتک)) (267)

رعایا میں سب سے زیادہ دور اور تمھارے نزدیک مبغوض وہ شخص ہونا چاھئے جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے عیوب کو تلاش کرنے والا ہو اس لئے کہ لوگوں میں بھر حال کمزوریاں پائی جاتی ہیں ان کی پردہ پوشی کی سب سے بڑی ذمہ داری، والی پر ہے لھذا خبردار جو عیب تمھارے سامنے نہیں ہے اس کا انکشاف نہ کرنا تمھاری ذمہ داری صرف عیوب کی اصلاح کرنا ہے اور غائبات کا فیصلہ کرنے والا پروردگار ہے جہاں تک ممکن ہو لوگوں کے ان تمام عیوب کی پردہ پوشی کرتے رہو کہ جن کے سلسلہ میں اپنے عیوب کی پردہ پوشی کی پروردگار سے تمنا کرتے ھو۔

----------------

266. نھج، البالغہ، خطبہ140، خطبہ طولانی ہونے کی بنا پر عربی عبارت نقل کرنے سے صرف نظر کیا گیا۔

267. نھج البلاغہ، نامہ53۔

۱۷۶

البتہ گناہ و معصیت کو پوشیدہ رکھنے اور فاش نہ کرنے کا حکم اور دستور وھاں تک ہے جب تک گناہ فردی و شخصی ہو اور سماج و معاشرے یا اسلامی نظام کے مصالح کے لئے ضرر و زیان کا باعث نہ ہو لیکن اگر کسی فرد نے بیت المال میں خیانت کی ہے، عمومی اموال و افراد کے حقوق ضائع کئے ہیں یا اسلامی نظام کے خلاف سازش اور فعالیت انجام دی ہے، تو اس کے افعال و رفتار کی خبر دینی چاھئے اور اس کو بیت المال کی خیانت و افراد کے حقوق ضائع کرنے کی بنا پر محاکمہ اور سزا دینی چاھئے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اپنے تعیین کردہ امراء اور کارندوں کے افعال و رفتار کی تحقیق و نظارت کے لئے بھت سے مقام پر اپنے تفتیش کرنے والوں کو بھیجا کرتے تھے، اور جب کبھی ان کار گزاروں کی طرف سے خطا و نافرمانی کی خبر ملتی تھی ان کو حاضر کر کے شدید توبیخ کرتے اور سزا دیتے تھے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام بیت المال کے خیانت کاروں اور اموال عمومی کو ضائع کرنے والوں سے قاطعانہ طور پر باز پرس کرتے تھے آپ کے دوران خلافت و حکومت میں یہ مسئلہ بطور کامل مشھود ہے۔

منافقین کے عیوب و معصیت کے لئے یہ دونوں طریقے یقینی طور پر قابل اجرا ہیں، اگر ان کے گناہ، فسق و فجور فردی ہیں تو چشم پوشی سے کام لینا چاھئے لیکن اگر ان کی سرگرمی و فعالیت دشمن اسلام کے مانند ہو ان کا ھدف اسلام اور اسلامی نظام کی بنیاد کو اکھاڑ پھینکنا ہو تو ایسی صورت میں ان کی حرکت کو فاش کرنا چاھئے ان کے افراد و ارکان کا تعارف کرانا چاھئے تاکہ امنیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تخریبی حرکتیں انجام نہ دیں، جیسا کہ اس سے قبل عرض کیا گیا قرآن مجید نے تین سو آیات کے ذریعہ منافقین کی افشا گری کرتے ہوئے ان کی تخریبی فعالیت کی نشاندھی کی ہے اور ان کی صفات کو بطور دقیق بیان کیا گیا ہے، نفاق کی تحریک اور منافقین جماعت کی افشا گری چند بنیادی فوائد رکھتے ہیں۔

۱۷۷

1۔ منافق جماعت کے ذریعہ فریب کے شکار ہوئے افراد خواب غفلت سے بیدار ھوکر حق کے دامن میں واپس آجائیں گے۔

2۔ دوسرے وہ افراد جو تحریک نفاق سے آشنائی نہیں رکھتے وہ ھوشیار ہوجائیں گے اور اس کے خلاف موقف اختیار کریں گے ان کے موقف کی بنا پر حزب نفاق کے افراد کنارہ کش اور خلوت نشین ہوجائیں گے۔

3۔ تیسرے منافقین کی جانی امنیت اور مالی حیثیت، افشا گری کی بنا پر خطرہ سے مواجہ ہوجائیں گی اور ان کی فعالیت میں خاصی کمی واقع ھوجائے گی۔

نفاق کے وسائل سے مقابلہ

منافقین سے مقابلہ کے سلسلہ میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ نفاق کے وسایل و حربے نیز ان کی راہ و روش کی شناخت ہے، پہلے منافقین کی تخریبی فعالیت کے وسایل اور اھداف کی شناخت ہونا چاھئے پھر ان سے مقابلہ کرنا چاھئے۔

نفاق کی شناخت کے لئے ضروری ترین امر، ان کی سیاسی و ثقافتی فعالیت کی روش اور طریقہ کی شناسائی ہے، یہ شناخت نفاق ستیزی کے لئے بنیادی رکن کی حیثیت رکھتی ہے، اس لئے کہ جب تک دشمن اور اس کے وسایل و حربے شناختہ شدہ نہ ہوں تو مبارزہ و مقابلہ کی بساط کہیں کی نہیں ہوتی ہے۔

یھاں پر وسائل نفاق سے مقابلہ و مبارزہ کے لئے چند اساسی و بنیادی طریقہ کو بیان کیا جارھا ہے ، البتہ دشمن کے ھجومی اور ہر قسم کے تخریبی حملے سے مقابلہ کے لئے کچھ خاص طریقۂ کار کی ضرورت ہے کہ جس کا یھاں احصا ممکن نھیں۔

۱۷۸

1) صحیح اطلاع فراھم کرنا

اس سے قبل اشارہ کیا جاچکا ہے کہ منافقین کا ایک اور حربہ و وسیلہ افواہ کی ایجاد ہے، اس حربہ سے مقابلہ کے لئے بھترین طریقۂ کار صحیح اور موقع سے اطلاع کا فراھم کرنا ہے، افواہ پھیلانے والے افراد، نظام اطلاعات کے خلاء سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افواھوں کا بازار گرم کرتے ہیں، اگر اخبار و اطلاعات بہ موقع، صحیح اور دقیق، افراد و اشخاص اور معاشرے کے حوالہ کی جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ افواہ و شایعات اپنے اثرات کھو بیٹھیں گے۔

امیرالمومنین حضرت علی علیہ االسلام نھج البلاغہ میں حاکموں پر عوام کے حقوق میں سے ایک حق، ملک کے حالات سے عوام کو آگاہ کرنا بتاتے ہیں، آپ فرماتےھیں:

((ألا و انّ لکم عندی ان لا احتجز دونکم سراً الا فی حرب)) (268)

یاد رکھو! مجھ پر تمھارا ایک حق یہ بھی ہے کہ جنگ کے علاوہ کسی بھی موقع پر کسی راز کو تم سے چھپاکر نہ رکھوں۔

مذکورہ کلام میں جنگ کے مسائل و فوجی و نظامی اسرار کا ذکر کسی خصوصیت کا حامل نہیں، صرف ایک نمونہ کا ذکر ہے، نظامی اسرار اور اطلاعات کے سلسلہ میں عدم افشا کا معیار معاشرہ اور حکومت کے لئے ایک مصلحت تصور کرنا چاھئے، لھذا اسی اصل پر توجہ کرتے ہوئے اور اموی مشیزی کی افواہ سازی کے حربہ کو ناکام بنانے کے لئے آپ نے جنگ صفین کے اتمام کے بعد مختلف شھروں میں خطوط بھیجے اور ان خطوط میں جنگ صفین کے تمام تفصیلات بیان کئے، معاویہ اور اس کے افراد کی جنگ طلبی کی وجہ اور علت کو تحریر فرمایا اور دونوں گروہ کے مذاکرات کی تفصیل بھی مرقوم فرمائی(269)

--------------

268. نھج البلاغہ، نامہ50۔

269. نھج البلاغہ، نامہ58۔

۱۷۹

امام علیہ السلام کے خطوط بھیجنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ امام پیش بینی کر رہے تھے کہ معاویہ اور اس کے افراد افواھوں کا بازار گرم کریں گے مسلمانوں کے درمیان مسموم تبلیغ کے ذریعہ، عمومی افکار کی تخریب کرتے ہوئے علوی حکومت کے خلاف عوام کو ورغلائیں گے لھذا امام نے پھل کرتے ہوئے سریع اور صحیح اطلاعات فراھم کرتے ہوئے لوگوں کے افکار اور قضیہ کے ابھامات روشن کردیئے۔

مذکورہ مقام کے علاوہ بھت سے ایسے موارد نھج البلاغہ میں پائے جاتے ہیں کہ جس میں حضرت نے مختلف مواقع پر حکومتی امور کی گزارش عوام کے سامنے پیش کی ہے، اور اس عمل کے ذریعہ بھت سی افواہ و شایعات کو وجود میں آنے سے روک دیا ہے۔

2) شبھات کی جواب دھی اور سیاسی و دینی بصیرت کی افزائش

شبہ کا القا ایک دوسری روش ہے جس کے ذریعہ منافقین سوء استفادہ کرتے ہیں، منافقین کے شبھات کا منطقی اور بر محل جواب دے کر ان کو خلع سلاح کرتے ہوئے اثرات کو زائل کیا جاسکتا ہے۔

شبھات کے جواب میں منطقی استدلال پیش کرنا ایک، مکتب فکر کے قدرت مند اور مستحکم ہونے کی اہم ترین علامت ہے، بحمداللہ اسلام کے حیات بخش آئین کو عقل قوی اور فطرت کی پشت پناھی حاصل ہے، اہل نفاق کے اس حربہ سے مقابلہ کرنے کے لئے لازم ہے کہ اسلامی مکتب فکر سے عمیق آشنائی رکھتے ہوئے ایجاد کردہ شبھات کی شناسائی اور ان کے شبھات کو حل کرتے ہوئے ان کو گندے عزائم کی تکمیل و تحصیل سے روکنا چاھئے۔

۱۸۰