قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق 0%

قرآن اور چہرۂ منافق مؤلف:
زمرہ جات: مفاھیم قرآن
صفحے: 193

قرآن اور چہرۂ منافق

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجۃ الاسلام سید احمد خاتمی
زمرہ جات: صفحے: 193
مشاہدے: 68221
ڈاؤنلوڈ: 4675

تبصرے:

قرآن اور چہرۂ منافق
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 193 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 68221 / ڈاؤنلوڈ: 4675
سائز سائز سائز
قرآن اور چہرۂ منافق

قرآن اور چہرۂ منافق

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

(یا ایها الذین آمنوا ان تطیعوا الذین کفروا یردّوکم علی اعقابکم فتنقلبوا خاسرین) (52)

اے ایمان والو! اگر تم کفر اختیار کرنے والوں کی اطاعت کرو گے تو یہ تمھیں گزشتہ زمانہ کی طرف پلٹا لے جائیں گے، اور سر انجام تم خود ہی خسارہ و نقصان اٹھانے والوں میں ہوگے۔

(ودّ کثیر من اهل الکتاب لو یردّونکم من بعد ایمانکم کفار حسداً من عند انفسهم من بعد ما تبین لهم الحق) (53)

بھت سے اہل کتاب حسد کی بنا پر یہ چاہتے ہیں کہ تمھیں ایمان کے بعد کافر بنادیں حالانکہ حق ان پر بالکل واضح و آشکار ھوچکا ہے۔

2۔ اسلامی اصول و اقدار سے انحراف کی تمنا کرنا

دشمن کی ایک اہم خواہش یہ ہوتی ہے کہ اسلامی حکومت اور مومنین، اسلامی اصول و اقدار سے رو گرداں و منحرف ھوجائیں، مومنین سے اسلامی اصول اور اس کے اقدار پر سودا کرنے کے خواہش مند ھوتے ہیں:

(ودّوا لو تدهن فیه هنون) (54)

یہ چاہتے ہیں کہ آپ تھوڑا نرم (حق کی راہ سے منحرف) ہوجائیں تاکہ وہ بھی نرم ہوجائیں۔

اسلامی حکومت میں الہی سیاست گزار کو صرف اپنی شرعی ذمہ داری و فرائض کا خیال رکھنا ہوتا ہے، ان کے پروگرام میں سر فھرست الہی مقاصد اور اصولوں کی حفاظت مقصود ہوتی ہے، ان کے طریقۂ کار میں اصولی و بنیادی مسائل پر سودا گری اور ساز باز کا کوئی مفھوم نہیں ہوتا ہے۔

------------

52. سورہ آل عمران/ 149۔

53. سورہ بقرہ/ 109۔

54. سورہ قلم/ 9۔

۴۱

لیکن دنیاوی اور مادہ پرست سیاست گزار کا ھدف و مقصد صرف حکومت و استعماریت ہوتا ہے ان کی سیاست کی بساط، اصول کی سودا گری و ساز و باز پر ہوتی ہے وہی سیاست کہ جس کا معاویہ شیدائی تھا لیکن مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام شدت سے مخالف تھے، آپ اس طریقۂ کار کو شیطنت و مکر و فریب سمجھتے تھے۔

حضرت علی علیہ السلام ایسی پست سیاست و طرز عمل سے دور تھے، وہ لوگ جو معاویہ کی حرکات کو زیرکی و دانائی تصور کرتے تھے، امام علی علیہ السلام ان کے جواب میں فرماتے ہیں:

((و الله ما معاویة با دهٰی منی و لکنه یغدر و یفجر ولو لا کراهیة الغدر لکنت منّی ادهی الناس)) (55)

خدا کی قسم! معاویہ مجھ سے زیادہ ھوشیار و صاحب ھنر نہیں ہے، لیکن وہ مکر و فریب اور فسق و فجور کا ارتکاب کرتا ہے، اگر مجھے مکر و فریب نا پسند نہ ہوتا تو مجھ سے زیادہ ھوشیار کوئی نہیں تھا۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اپنی مختصر مدت حکومت و خلافت میں بعض قریبی اصحاب کی نصیحت و مشورہ کے باوجود ھرگز اسلامی اصول سے انحراف و سودا گری کو قطعاً قبول نہیں کرتے تھے، بعض صاحبان تفسیر ابن عباس سے نقل کرتے ہیں، یھودی مذہب کے بزرگان ایک نزاع کے سلسلہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسلامی اصول سے منحرف کرنے کی غرض سے آپ کی خدمت میں آئے، اور اپنی آرزؤں کو اس انداز سے پیش کیا، ہم یھودی قوم و مذہب کے اشراف و عالم ہیں اگر ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے، تو تمام یھودی ہم لوگ کی پیروی کرتے ہوئے آپ پر ایمان لے آئیں گے، لیکن ھمارے ایمان لانے کی شرط یہ ہے کہ آپ اس نزاع میں ھمارے فائدے و حق میں فیصلہ دیں،

-----------------

55. نھج البلاغہ، خطبہ200۔

۴۲

لیکن مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی شرط اور ایمان لانے کی لالچ کو ٹھکرادیا، اسلام کے اصول و ارکان یعنی عدالت سے ھرگز منحرف نہیں ہوئے، ذیل کی آیت اسی واقعہ کی بنا پر نازل ھوئی ھے:

( و ان احکم بینهم بما انزل الله ولا تتبع اهوائهم و احذرهم ان یفتنوک عن بعض ما انزل الله الیک) (56)

اور پیامبر آپ کے درمیان تنزیل خدا کے مطابق فیصلہ کریں اور ان کی خواہشات کا اتباع نہ کریں، اور اس بات سے بچتے رھیں کہ یہ بعض احکام الہی سے جو تم پر نازل کیا جاچکا ہے منحرف کردیں۔

سورہ اسراء میں پیامبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اصول سے منحرف کرنے کے لئے دشمنون کے شدید وسوسہ کا ذکر کیا گیا ہے خدا کا ارشاد ہو رہا ہے، اگر آپ کو عصمت اور وحی کی مساعدت نہ ھوتی، اگر آپ عام بشر کے مثل ھوتے تو ان کے دلدادہ ھوجاتے۔

(و ان کادوا لیفتنوک عن الذی اوحینا الیک لتفتری علینا غیره و اذاً لاتّخذوک خلیلا ولولا ان ثبتناک لقد کدت ترکن الیهم شیئا قلیلا) (57)

اور یہ ظالم اس بات کے کوشاں تھے کہ آپ کو میری وحی سے ھٹا کر دوسری باتوں کی افترا پر آمادہ کردیں، اور اسی طرح یہ آپ کو اپنا دوست بنا لیتے اور اگر ھماری توفیق خاص نے آپ کو ثابت قدم نہ رکھا ہوتا تو آپ (بشری طور سے) کچھ نہ کچھ ان کی طرف ضرور مائل ھوجاتے۔

--------------

56. سورہ مائدہ/ 49۔

57. سورہ اسراء/ 73/ 74۔

۴۳

3۔ خیر خواہ نہ ہونا

قرآن کریم نے اغیار کی شناخت کے سلسلہ میں دوسری جو صفت بیان کی ہے وہ اغیار کا مسلمانوں کے سلسلہ میں خیر خواہ نہ ہونا ہے، وہ اپنی بد خصلت اور پست فطرت خمیر کی بنا پر ہمیشہ اسلام کے افکار و نظام کے خلاف سازش کرتے رہتے ہیں وہ مومنین کے سلسلہ میں صرف عدم خیر خواھی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ صاحبان ایمان کی آسائش و آرام، امن و سکون، فتح و کامرانی کو ایک لمحے کے لئے تحمل بھی نہیں کرسکتے۔

(ما یودّ الذین کرو من اهل الکتاب ولا المشرکین ان ینزل علیکم من خیر من ربکم) ) 58 (

کافر اہل کتاب (یھود و نصاری) اور عام مشرکین یہ نہیں چاہتے کہ تمھارے اوپر پروردگار کی طرف سے کوئی خیر و برکت نازل ھو۔

وہ مومنین کے سلسلہ میں صرف خیر و برکت کے عدم نزول کی خواہش ہی نہیں رکھتے بلکہ مومنین کی سختی و پریشانی کو دیکھ کر خوشحال اور ایمان والوں کی خوشی کو دیکھ کر غمگین ھوتے ہیں۔

(ان تمسسکم حسنة تسؤهم وان تصبکم سیئة یفرحوا بها) ) 59 (

اگر تمھیں ذرا بھی خیر و نیکی ملے تو انھیں برا لگے گا اور اگر تمھیں تکلیف پھونچےتو وہ خوش ہوں گے۔

------------------

58. سورہ بقرہ/ 105۔

59. سورہ آل عمران/ 120۔

۴۴

4۔بغض و کینہ کا رکھنا

اغیار کی ایک اور اہم خصوصیت بغض اور کینہ پرستی ہے ان کا تمام وجود اسلام کے خلاف عداوت و نفرت سے بھرا ہوا ہے، یہ صفت رذائل فقط دل کی چھار دیواری تک محدود نہیں بلکہ عملی طور سے ان کے افعال و کردار میں حسد و کینہ توزی کے آثار ھویدا ہیں، اپنی اس کیفیت کو پوشیدہ و مخفی رکھے بغیر اہل اسلام کے خلاف وسیع پیمانے پر معرکہ و جنگ کی جد و جھد میں مصروف رہتے ہیں۔

(لا یألونکم خبالا ودّوا ما عنتّم قد بدت البغضاء من افواهم وما تخفی صدورکم اکبر…… اذا لقوکم قالوا آمنا واذا خلوا عضو علیکم الأنامل من الغیظ قل موتوا بغیظکم) ) 60 (

یہ تمھیں نقصان پھونچانے میں کوئی کوتاھی نہیں کریں گے، یہ صرف تمھاری مشقت و زحمت رنج و مصیبت کے خواہش مند ہیں ان کی عداوت و نفرت زبان سے بھی ظاہر ہے اور جو دل میں پوشیدہ کر رکھا ہے وہ تو بھت زیادہ ہے اور جب تم سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور جب اکیلے ھوتے ہیں تو خشم و غصہ سے انگلیاں کاٹتے ہیں، پیامبر آپ کہہ دیجئے کہ تم اسی غصہ میں مرجاؤ۔

------------------

60. سورہ آل عمران/ 118 و /119۔

۴۵

5۔ غفلت پذیری میں مبتلا کرنا

دشمن و اغیار کا اپنی کامیابی و موفقیت کے لئے مسلمانوں کو غفلت و بے خبری کے جال میں پھنسائے رکھنا ہے، وہ چاہتے یہ ہیں کہ ایسی فضا و حالات وجود میں لائے جائیں جس کی بنا پر صاحبان ایمان اپنی قوت و طاقت کی صلاحیت و موقف سے غفلت ورزی کا شکار ہوجائیں تاکہ وہ ان پر قابض و کامران ھوسکیں، ان کی دائمی کوشش رھتی ہے کہ مسلمان کی نظر میں ان کی اقتصادی طاقت فوجی قدرت، ثمرۂ وحدت اور دین و دنیا کی شان و شوکت کو بے وقعت پیش کیا جائے، تاکہ زیادہ سے زیادہ غفلت و بے خبری کے دام میں الجھے رھیں جس کے نتیجہ میں اغیار کی فتح و ظفر کی زمین ھموار ھوسکے۔

(ودّا لذین کفروا لو تغفلون عن اسلحتکم و امتعتکم فیمیلون علیکم میلة واحدة) ) 61 (

کفار کی خواہش یھی ہے کہ تم اپنے ساز و سامان اور اسلحہ سے غافل ھوجاؤ تو یہ یکبارگی تم پر حملہ کردیں۔

مذکورہ آیت میں اگر چہ اسلحہ و ساز و سامان کا ذکر ہے لیکن آیت کی دلالت صرف اقتصادی ساز و سامان وجنگی اسلحہ جات پر منحصر نہیں ہے بلکہ تمام وہ وسائل و عوامل جو مسلمانوں کے لئے عزت و شرف قوت و طاقت کا باعث ہو آیت کی غرض وغایت ہے، اس لئے کہ دشمن کا ھدف ان وسائل سے غفلت و لاپرواھی میں مبتلا کرنا ہے تاکہ تسلط کے مواقع فراھم ھوسکیں۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر کو خطاب کرتے ہوئے عہد نامہ میں فرماتے ہیں:

((الحذر کل الحذر من عدوک بعد صلحه فان العدو ربما قارب لیتغفل فخذ با لحزم و اتهم فی ذلک حسن الظن)) ) 62 (

صلح کے بعد دشمن کی طرف سے قطعاً مکمل طور پر ھوشیار رھنا کہ کبھی کبھی وہ تمہیں غفلت میں ڈالنے کے لئے تم سے قربت اختیار کرنا چاھیں گے لھذا اس سلسلہ میں مکمل ھوشیار رھنا، اور کسی حسن ظن سے کام نہ لینا۔

--------------

61. سورہ نساء/ 102۔

62. نھج البلاغہ، نامہ/ 53۔

۴۶

6۔ مومنین سے سخت و تند برتاؤ کرنا

قرآن کریم کی روشنی میں اغیار کی ایک دوسری صفت، مومنین کی ساتھ سخت طرز عمل و سلوک کا انجام دینا ہے، یہ عہد و پیمان کی پابندی اور دوستی کا اظھار کرتے ہوئے مومنین کو فریب دینا چاہتے ہیں، ان کے عہد و پیمان، قول و قرار پر اعتماد کرنا منطقی عمل نہیں، جب ناتواں اور کمزور ہوجاتے ہیں تو حقوق بشر اور اخلاق انسانی کی بات کرتے ہیں، لیکن جب قوی و مسلط ہوجاتے ہیں، تمام حقوقِ اور انسانی اخلاق کو پامال کرتے ہیں، عہد و پیمان، قول و قرار، حقوق و اصول بشریت، عظمت انسانیت، سب ہتکنڈے ہیں تاکہ اپنے منافع کو حاصل کرسکیں، منظور نظر منافع کے حصول کے بعد ان قوانین و عہد و پیمان کی کوئی وقعت نہیں رھتی ہے۔

(کیف وان یظهروا علیکم لا یرقبوا فیکم الّا ولا ذمّة یرضونکم بأفواههم و تأبی قلوبهم و اکثرهم فاسقون) ) 63 (

ان کے ساتھ کس طرح رعایت کی جائے، جب کہ یہ تم پر غالب آجائیں گے تو نہ کسی ھمسایگی و قرابتداری کی رعایت کریں گے اور نہ ہی کسی عہد و پیمان کا لحاظ کریں گے یہ تو صرف زبانی تم کو خوش کر رہے ہیں، ورنہ ان کا دل قطعی منکر ہے اور ان کی اکثریت فاسق و بد عہد ہے۔

7۔ خیانت کاری اور دشمنی کا مستمر ہونا

اغیار کی ایک اور صفت، تجاوز گری و تخریب کاری ہے، جب تک ان کے اھداف پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتے فتنہ گری و خراب کاری کا بازار گرم کئے رہتے ہیں۔

---------------

63. سورہ توبہ/ 8۔

۴۷

(لا یزالون یقاتلونکم حتی یردّوکم عن دینکم) ) 64 (

اور یہ کفار برابر تم لوگوں سے جنگ کرتے رھیں گے، یہاں تک کہ ان کے امکان میں ہو تو وہ تم کو تمھارے دین سے پلٹادیں۔

اسی بنا پر دشمن کی عارضی، خاموشی و سکوت یا دوستی و محبت کا اظھار، دشمنی کے پایان و اتمام کی علامت نہیں، یہ صرف دشمن کی بدلتی ھوئی طرز و روش ہے، برابر کچھ وقفہ کے بعد کوئی نہ کوئی خیانت کاری کا آشکار ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ جب تک اغیار و دشمن اپنے اھداف و مقاصد کو عملی جامہ نہ پہنالیں تب تک وہ فتنہ گری و دشمنی سے دست بردار نہیں ہوں گے۔

(ولا تزال تطلع علی خائنة منهم) ) 65 (

آپ ان کی طرف سے خیانتوں پر مطلع ھوتے رھیں گے۔

اصل اوّل کا ماحصل، اسلام کے پیش نظر اغیار سے سیاسی روابط و اصول اور اغیار کی شناخت ہے جس میں ان کی چند خصائص کو بیان کیا گیا ہے کسی فرد یا گروہ میں ایک خصوصیت کا بھی پایا جانا قرآن کی رو سے اس کا شمار اغیار میں ہے، لھذا ان سے رابطہ کے سلسلہ میں اسلام کے اغیار سے رابطہ و اصول کا لحاظ کیا جانا چاھئے۔

------------------

64. سورہ بقرہ/ 217۔

65. سورہ مائدہ/ 13۔

۴۸

اصل دوّم: دشمن کے مقابلہ میں ھوشیاری اور اقتدار کا حصول

اسلام کے فردی و اجتماعی روابط میں حسن ظن کی رعایت اسلام کے اصل دستورات میں سے ہے لیکن اغیار سے روابط کے سلسلہ میں اسلام کی تاکید سوء ظن پر ہے، ہر زمان و مکان میں ان سے بھترین اقتصادی، سیاسی، ثقافتی روابط ہونے کے باوجود سوء ظن کی کیفیت باقی رکھتے ہوئے ھوشیار رھنا چاھئے۔ ان کی چھوٹی حرکتیں اور ھلکے مناظر دشمنی کو نظر انداز نہیں کرنا چاھئے۔

اسلام کی تاکید یہ ہے کہ اسلامی نظام و حکومت اغیار کے مقابلہ میں زیادہ سے زیادہ قدرت و طاقت کا حصول کریں، اس قدر قوی اور طاقتور ہوں کہ دشمن تجاوز کا خیال بھی دل میں نہ لاسکے۔

(و اعدّوا لهم ما استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون به عدو الله و عدوکم) ) 66 (

اور تم سب ان کے مقابلہ کے لئے امکانی قوت اور گھوڑے کی صف بندی (سلاح) کا انتظام کرو جس سے اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن سب کو خوف زدہ کردو۔

آیت قرآن سے استفادہ ہوتا ہے کہ دشمن کے مقابلہ میں قوی و قدرت مند ھونا، جدید اسلحہ جات سے آراستہ ہونا ضروری ہے تاکہ اسلامی حکومت و نظام کا دفاع کیا جاسکے، (ما استطعتم) عبارت کا مفھوم وسیع ہے وسائل و سلاح، اطلاعاتی و نظامی، اقتصادی و سیاسی، فرھنگی و ثقافتی آمادگی، سب پر منطبق ہوتا ہے، جیسا کہ ذیل کی آیت میں کلمہ حذر کا مفھوم وسیع و عریض

ہے۔

(یا ایها الذین آمنوا خذوا حذرکم فانفرو اثبات او انفروا جمیعا) ) 67 (

اے صاحبان ایمان! اپنے تحفظ کا سامان سنبھال لو اور گروہ در گروہ یا اکٹھا جیسا موقع ہو سب نکل پڑو۔

------------------

66. سورہ انفال/ 60۔

67. سورہ نساء/ 71، بعض مفسرین نے کلمہ حذر کو اسلحہ سے تفسیر کی ہے حالانکہ حذر کے معنی وسیع ہیں وسائل جنگ سے مختص نہیں نساء کی آیت 102 حذر و اسلحہ کے تفاوت کو پیش کر رھی ہے اس آیت میں دونوں لفظ کا استعمال ہوا ہے اور یہ تعدد معنا کی علامت ہے، (ان تصنعوا اسلحتکم و خذو احذرکم) ۔

۴۹

یہ آیت ایک جامع و کلی آئین و دستور ہر زمان و مکان کے مسلمانوں کو دے رھی ہے، اپنی امنیت و سرحد کی حفاظت کے لئے ہر وقت آمادہ رھیں اجتماع و معاشرے میں ایک قسم کی مادی و معنوی آمادگی کا ہمیشہ وجود رھے۔

حذر کے معنی اس قدر وسیع ہیں کہ ہر قسم کے مادی و معنوی وسائل پر اطلاق ھوتے ہیں۔

مسلمانوں کو چاھئے کہ مدام دشمن کی حرکات و سکنات، سلاح کی نوعیت، جنگ کے اطوار پر نگاہ رکھے رھیں، اس لئے کہ یہ تمام موارد دشمن کے خطرات کو روکنے میں مؤثر اور آیت حذر کے مفھوم کی نشان دھی ہے۔

آیت حذر کے دستور کے مطابق مسلمانوں کے چاھئے کہ اپنے تحفظ کے لئے زمان و مکان کے اعتبار سے انواع و اقسام کے وسائل کو فراھم کریں، نیز ان وسائل و سلاح سے بھترین استفادہ کے طور و طریقہ کو بھی حاصل کریں۔

۵۰

اصل سوم: اغیار سے دوستی و صمیمیت کا ممنوع ھونا

اغیار سے سیاسی رفتار و روابط کے سلسلہ میں اسلام کی نظر کے مطابق ان سے دوستانہ روابط و صمیم قلبی کو منع کیا گیا ہے، عداوت پسند افراد نیز وہ لوگ جو اسلامی مقدسات کی بے حرمتی کرتے ہیں ان سے سخت برتاؤ سے پیش آنا چاھئے۔

(یا ایها الذین آمنوا لاتتخذوا الذین اتخذوا دینکم هزوا ولعبا من الذین اوتوا الکتاب من قبلکم و الکفار اولیاء واتقوا الله ان کنتم مؤمنین و اذا نادیتم الی الصلاة اتخذوها هزوا ولعبا ذلک بانهم قوم لا یعقلون) ) 68 (

اے ایمان والو! خبر دار اہل کتاب میں جن لوگوں نے تمھارے دین کو مزاق و تماشا بنا لیا ہے اور دیگر کفار کو بھی اپنا ولی (دوست) و سرپرست نہ بناؤ اور اللہ سے ڈرو، اگر تم واقعی صاحب ایمان ہو اور تم جب نماز کے لئے اذان دیتے ہو تو یہ اس کو مذاق و کھیل بنالیتے ہیں اس لئے کہ یہ بالکل بے عقل قوم ہیں۔

ھنر و تمسخر آمیز گفتگو و حرکات کو کھا جاتا ہے جو کسی چیز کی قدر و قیمت کو کم کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

لعب، وہ افعال جب کے اھداف غلط یا بے ھدف ہوں ان پر اطلاق ہوتا ہے آیت کا مفھوم یہ ہے کہ مومنین کی حیا وغیرت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اسلامی مقدسات و دینی اقدار کو پامال کرنے والوں سے سخت اور تند برتاؤ کریں، اور ان کا یہ برتاؤ دینی تقوے کی ایک جھلک ہے، کیونکہ تقوا صرف فردی مسائل پر منحصر نہیں ہے۔

---------------

68. سورہ مائدہ/ 57، 58۔

۵۱

سورۂ ممتحنہ کی پہلی آیت میں بھی صریحاً اغیار سے دوستانہ روابط برقرار کرنے کی ممانعت کی گئی ہے۔

(یا ایها الذین آمنوا لا تتخذوا عدوی و عدوکم اولیاء تلقون الیهم بالمودة وقد کفروا بما جاءکم من الحق)

اے ایمان والو خبردار میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بنانا، کہ تم ان کی طرف دوستی کی پیش کش کرو جب کہ انھوں نے اس حق کا انکار کیا ہے، جو تمھارے پاس آچکا ہے۔

اس بنا پر تمام وہ افراد، جو دین اسلام اور اس کی شائستگی کے معتقد نہیں ہیں ان کا شمار اغیار و بیگانے میں ہوتا ہے، لھذا ان سے دوستی و نشست و برخاست کو منع کیا گیا ہے، قرآن مجید نے اغیار سے، خصوصاً جو اسلامی مقدسات کی بے حرمتی کرتے ہیں، فکری و ثقافتی قربت کو خسران و نقصان سے تعبیر کیا ہے، کیونکہ رفت و آمد و دوستی کے اثرات انسان پر ضرور مرتب ھوتے ہیں اور اسی کے مثل بنا دیتے ہیں۔

(وقد نزّل علیکم فی الکتاب ان اذا سمعتم آیات الله یکفر بها و یستهز ٔبها فلا تقعدوا معهم حتی یخوضوا فی حدیث غیره انکم اذا مثلهم) ) 69 (

اور اللہ نے کتاب میں یہ بات نازل کردی ہے کہ جب آیات الہی کے بارے میں یہ سنو کہ ان کا انکار اور استھزا ھورھا ہے تو خبردار ان کے ساتھ نشست و برخاست نہ کرو جب تک وہ دوسری باتوں میں مصروف نہ ہوجائیں ورنہ تم انھیں کے مثل ھوجاؤ گے۔

بیان شدہ اصل سوم کا مفھوم یہ نہیں کہ دیگر مذاھب کے پیروکاروں کے ساتھ مسالمت آمیز زندگی کی نفی کی جائے یا ان کے انسانی حقوق کو ضائع کیا جائے غیر اسلامی حکومتوں سے رابطہ نہ رکھا جائے) 70 (

----------------------------

69. سورہ نساء/140۔

70. اس سلسلہ میں بحث اصل چھارم میں پیش کی جائے گی۔

۵۲

بلکہ اصل سوم کا مفھوم یہ ہے کہ مسلمان دشمن سے دوستانہ وصمیمی روابط سے پرہیز کریں اغیار کی اطاعت و اثر پذیری سے دور رھیں، ان کو فکری و سیاسی اعتبار سے غیر ہی سمجھیں، قرآن اغیار پرستی سے مبارزہ اور برائت کے سلسلہ میں حضرت ابراھیم علیہ السلام اور آپ کے مقلدین کی سیرت کو بطور نمونہ پیش کر رہا ہے آپ اور آپ کے اصحاب اپنی ہی قوم کی بت پرستی کو مشاہدہ کرنے کے بعد، باوجودیکہ ان کے قرابتدار بھی اس میں شریک تھے ان کے افعال سے برائت کرتے ہیں۔

(قد کانت لکم اسوة حسنة فی ابراهیم و الذین معه اذ قالوا لقومهم انّا برآؤا منکم و مما تعبدون من دون الله کفرنا بکم و بدا بیننا وبینکم العداوة و البغضاء ابدا حتّی تؤمنوا بالله وحده؛) ) 71 (

تمھارے لئے بھترین نمونہ عمل ابراھیم اور ان کے ساتھیوں میں ہے، جب انھوں نے اپنی قوم سے کہدیا ہم تم سے اور تمھارے معبودوں سے بیزار ہیں ہم نے تمھارا انکار کردیا ہے اور ھمارے تمھارے درمیان بغض اور عداوت بالکل واضح ہے یھاں تک کہ تم خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لے آؤ۔

---------------

71. سورہ ممتحنہ/ 4۔

۵۳

اصل چھارم: غیر حربی اغیار سے صلح آمیز روابط رکھنا

اسلام کے سیاسی نظریہ و اصول میں اغیار و بیگانے کی دو قسم ہیں۔

1۔ حربی: وہ افراد اور حکومت جو اسلامی حکومت اور نظام سے برسر پیکار ہیں اور مدام سازشیں و خیانتیں کرتے رہتے ہیں۔

2۔ غیر حربی: وہ کفار جو اپنے دین و مذہب پر عمل کرتے ہوئے اسلامی سر زمین پر اسلامی قانون کے تحت اسلامی حکومت کو جزیہ دیتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں، یا وہ ممالک جو اسلامی حکومت سے پیمان صلح یا اس کے مثل عہد و پیمان رکھتے ہیں، اور اس عہد کے پابند بھی ہیں۔اگرچہ دونوں ہی دستہ کا فکری و ثقافتی اعتبار سے اغیار میں شمار ہوتا ہے اور اصل سوم میں شمولیت رکھتے ہیں لیکن ان سے معاشرتی و سماجی رفتار و سلوک میں فرق ہونا چاھئے۔

قرآن کریم ان سے رفتار و برتاؤ کی نوعیت کو بیان کر رہا ہے۔

(لا ینها کم الله عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبرّوهم و تقسطوا الیهم ان الله یحسب المقسطین انما ینها کم الله عن الذین قاتلوکم فی الدین و اخرجوکم من دیارکم و ظاهرو اعلی اخراجکم ان تولّوهم و من یتولّهم فاولئک هم الظالمون) ) 72 (

خدا تمھیں ان لوگوں کے بارے میں جنھوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں وطن سے نہیں نکالا ہے اس بات سے نہیں روکتا ہے کہ تم ان کے ساتھ نیکی اور انصاف کرو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے وہ تمھیں صرف ان لوگوں سے روکتا ہے جنھوں نے تم سے دین میں جنگ کی ہے، اور تمھیں وطن سے نکال باہر کیا ہے اور تمھارے نکالنے پر دشمن کی مدد کی ہے کہ ان سے دوستی کرو اور جو ان سے دوستی کرے گا وہ یقیناً ظالم ہوگا۔

------------------

72. سورہ ممتحنہ/ 8، 9۔

۵۴

آیت مذکورہ سے استفادہ ہوتا ہے کہ وہ افراد یا حکومتیں جو مومنین کے حق میں ظالمانہ رویہ اپناتی ہیں نیز اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نا شائستہ عمل انجام دیتی ہیں اور اسلام کے دشمنوں کی مساعدت کرتی ہیں، اہل اسلام کے وظائف کا تقاضا یہ ہے کہ ان سے سخت و تند رفتار کا مظاہرہ کریں، ان سے ہر قسم کے سماجی و معاشرتی رابطہ کو منقطع کردیں، لیکن وہ افراد جو بے طرف رہے ہیں مسلمانوں کے خلاف سازش میں ملوث نہیں رہے ہیں ان کے حقوق کی رعایت اور اسلامی حوکمت کی حمایت حاصل ہونا چاھئے، ان پر ظلم و تعدی شدید ممنوع ہے۔

پیامبر عظیم الشان (ص) فرماتے ہیں:

((من ظلم معاهداً و تخلّف فوق طاقته فانا حجیجه)) ) 73 (

جو شخص بھی معاھدہ پر ظلم کرے گا میں روز قیامت اس سے باز پرس کروں گا۔

معاہد سے مراد وہ یھودی و نصرانی ہیں جو جزیہ دیتے ہوئے اسلامی حکومت کے زیر سایہ زندگی بسر کرتے ہیں، اسلامی فقہ میں اغیار سے روابط کے تمام حقوقی جوانب توجّہ کے قابل ہیں، اگر اغیار و بیگانے سیاسی و فکری اعتبار سے مسالمت آمیز زندگی کی رعایت کریں مسلمانوں کے حقوق کا احترام کریں تو وہ اپنے تمام بنیادی اور جمھوری حقوق سے فیضیاب ھوسکتے ہیں کسی کو ان سے مزاحمت کا حق نہیں، ذیل کا واقعہ اسلامی نظام اور حکومت میں اغیار غیر حربی کے بنیادی حقوق کی رعایت کا آشکار نمونہ ہے۔

------------------

73. فتوح البلدان، ص67۔

۵۵

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے ایک نابینا بوڑھے آدمی کو دیکھا جو گدائی کر رہا تھا جب مولا نے اس کے احوال دریافت کئے تو معلوم ہوا وہ نصرانی ہے علی علیہ السلام رنجیدہ خاطر ھوے، فرمایا: وہ تمہارے درمیان میں تھا اس سے کام لیا گیا، لیکن جب وہ بوڑھا ھوگیا تو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا، آپ نے اس کے مخارج بیت المال سے اداء کرنے کا حکم دیا) 74 (

منافقین کا اغیار سے ارتباط اور ان کا طرز عمل

گزشتہ بحث میں اغیار سے روابط اور اسلام کے کلی و جامع اصول پیش کئے جاچکے ہیں، اب اغیار کے سلسہ میں منافقین کی روش اور طرز عمل کا مختصر تجزیہ پیش کیا جارھا ہے۔

قرآن کریم سے استفادہ ہوتا ہے کہ منافقین تمام دوستی و محبت اغیار اور بیگانوں پر نچھاور کرتے ہیں، یہ مسلمانوں کے ساتھ شرارت و خباثت سے پیش آتے ہیں، مومنین کو حقارت و ذلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، تمسخر و نکتہ چینی ان کا مشغلہ ہے ان کی تمام سعی و کوشش اور جد و جھد یہ ہوتی ہے کہ اغیار سے قریب تر ہوجائیں اغیار سے صمیمیت و اخلاص اور دوستانہ رفتار و گفتار کے حامی ہیں۔

(الم تر الی الذین تولّوا قوما غضب الله علیهم ما هم منکم ولا منهم و یحلفون علی الکذب وهم یعلمون) ) 75 (

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا ہے جنھوں نے اس قوم سے دوستی کرلی ہے جس پر خدا نے عذاب نازل کیا ہے کہ یہ نہ تم میں سے ہیں اور نہ ان میں سے ہیں اور یہ جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں اور خود بھی اپنے جھوٹ سے باخبر ہیں۔

------------------

74. وسائل الشیعہ، ج11، ص49۔

75. سورہ مجادلہ/14۔

۵۶

منافقین کے بیگانوں سے ارتباط کے جلووں میں سے، مشترک کانفرنس کا انجام دینا، ان سے ہم آواز وھم نشین ہونا ہے، قرآن صریح الفاظ میں کفار اور الہی دستور و آئین کا استھزا کرنے والوں کے ساتھ ہم نشینی کو منع کرتا ہے۔

(واذا رأیت الذین یخوضون فی آیاتنا فاعرض عنهم حتی یخوضوا فی حدیث غیره) ) 76 (

اور جب تم دیکھو کہ لوگ ھماری آیات کا استھزا و تمسخر کر رہے ہیں تو ان سے کنارہ کش ھوجاؤ یہاں تک کہ وہ دوسری باتوں میں مصروف ہوجائیں۔

لیکن قرآن کے صریح دستور و حکم کے باوجود منافقین، مخفی طریقہ سے اغیار کے جلسات و نشست میں شریک ہوا کرتے تھے لھذا سورہ نساء کی آیت نمبر 140 منافقین کو اس رفتار و طرز عمل پر سرزنش و توبیخ کر رھی ہے۔

منافقین کے اجنبی و غیر پرستی کے مظاہر میں سے ایک، ان کے لئے مطیع و فرمان بردار ہونا ہے سورۂ آل عمران کی آیت نمبر 149 منافقین کی اسی روش کو بیان کر رھی ہے اگر تم کفار کے مطیع و دوست ھوگے جیسا کہ بعض منافقین کا یہ طرز عمل ہے تو قدیم و جاھلی اطوار کی طرف پلٹا دیئے جاؤ گے،

(یا ایها الذین آمنوا ان تطیعوا الذین کفروا یردوکم علی اعقابکم) ) 77 (

اے ایمان لانے والو اگر تم کفر اختیار کرنے والوں کی اطاعت کرو گے تو یہ تمھیں گزشتہ طرز زندگی و عمل کی طرف پلٹالے جائیں گے۔

-----------------

76. سورہ انعام/ 68۔

77. سورہ آل عمران/ 149۔

۵۷

دشمنوں کی جماعت میں مدام مومنین سے عداوت و دشمنی رکھنے والے بعض یھودی ہیں خدا نے قرآن مجید میں دشمنوں کے عمومی و کلی اوصاف کو بیان کیا ہے لیکن اس عمومیت کے باوجود بعض دشمنوں کے اوصاف کے ساتھ ان کے نام کا بھی ذکر کیا ہے کہ جس میں یھودی سر فھرست ہیں۔

ہم جب عصر پیامبر عظیم الشان کے منافقین کی تاریخ کی تحقیق کرتے ہیں تو منافقین کے روابط کے شواہد یھودی کے تینوں گروہ بنی قینقاع، بنی نظیر، بنی قریظہ میں پائے جاتے ہیں۔

اغیار سے منافقین کے روابط کا فلسفہ

وہ اہم نکتہ جس کی اس فصل میں تحقیق ھونی چاھئے یہ کہ اغیار سے منافقین کے ارتباط کی حکمت کا پس منظر کیا ہے، وہ کن مضمرات کی بنا پر اس سیاست کے پجاری ہیں، قرآن مجید منافقین کے اغیار سے روابط کی ریشہ یابی کرتے ہوئے دو وجہ کو بیان کر رہا ھے:

1۔ تحصیل عزت

منافقین اپنے اس رویہ و طرز عمل کے ذریعہ محبوبیت و شھرت، عزت و منصب کے طلب گار ہیں، منافقین اغیار کے زیر سایہ خواہشات نفسانی کی تکمیل کے آرزو مند ہیں، شرک کا آشکار ترین جلوہ، وقار و عزت کو کسب کرنے کے لئے غیر (خدا) سے تمسک کرنا ہے۔

۵۸

(و اتّخذوا من دون الله الهةً لیکونوا لهم عزّا) ) 78 (

اور ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر دوسرے خدا اختیار کر لئے ہیں تاکہ وہ ان کے لئے باعث عزت رہے (کیا خیام خیالی ھے!) ۔

اسی طریقہ سے منافقین جو باطن میں مشرک ہیں، اغیار سے وابستگی و تعلقات کے ذریعہ عزت و آبرو کسب کرنا چاہتے ہیں۔

(الذین یتّخذون الکافرون اولیاء من دون المؤمنین أیبتغون عندهم العزة فان العزّة لله جمیعا) ) 79 (

جو لوگ مومنین کو چھوڑ کر کفار کو ولی و سرپرست بناتے ہیں، کیا یہ ان کے پاس عزت تلاش کر رہے ہیں جب کہ ساری عزت صرف اللہ کے لئے ہے۔

خداوند تبارک و تعالی نے عزت کو اپنے لئے مخصوص کر رکھا ہے، پیامبر عظیم المرتبت (ص) اور صاحبان ایمان کی عزت کا سر چشمہ عزت الہی ہے، منافقین عدم ایمان کی بنا پر اس کو درک کرنے سے قاصر ہیں۔

(ولله العزّة و لرسوله و للمؤمنین ولکن المنافقین لا یعلمون) ) 80 (

ساری عزت اللہ، رسول، اور صاحبان ایمان کے لئے ہی ہے اور منافقین یہ جانتے بھی نہیں ہیں۔

---------------

78. سورہ مریم/ 81۔

79. سورہ نساء/ 139۔

80. سورہ منافقون/8۔

۵۹

قرآن کریم فقط اللہ تعالی کے وجود اقدس اور جھان کے حقیقی صاحب عزت (محبوب) سے تمسک کو عزت و عظمت کا سر چشمہ جانتا ہے۔

(من کان یرید العزّة فللّٰه العزّة جمیعا) ) 81 (

جو شخص بھی عزت کا طلب گار ہے وہ یہ سمجھ لے کہ عزت سب پروردگار کے لئے ہے۔

اسی ذیل کی آیت میں پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کیا گیا ہے کہ تحصیل عزت کا واحد راستہ خدا کی اطاعت و فرمان برداری ہے۔

((ان الله یقول کلّ یوم انا ربّکم العزیز فمن اراد عزّ الدارین فلیطع العزیز)) ) 82 (

خداوند عالم ہر روز اعلان کرتا ہے کہ میں تمھارا عزت دار پروردگار ہوں جو شخص بھی آخرت و دنیا کی عزت کا خواہش مند ہے اسے چاھئے کہ حقیقی صاحب عزت کا مطیع و فرمانبردار ھو۔

شاید کوئی فرد خدا کی اطاعت کئے بغیر کسی اور طریقہ سے عزت کا حصول کر لے، لیکن یہ عزت وقتی و کھوکھلی ہوتی ہے یھی عزت اس کے لئے ذلت کا سبب بن جاتی ہے۔

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

((من اعتز بغیر الله اهلکه العز)) ) 83 (

جو شخص غیر خدا سے عزت یافتہ ہے وہ عزت اس کو تباہ کردے گی۔

-----------

81. سورہ فاطر/ 10۔

82. الدرالمنصور، ص2، ص717۔

83. میزان الحکمہ، ج6، ص298۔

۶۰