مناسك حج

مناسك حج0%

مناسك حج مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل
صفحے: 217

مناسك حج

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید علي خامنہ اي حفظہ اللہ
زمرہ جات:

صفحے: 217
مشاہدے: 62748
ڈاؤنلوڈ: 2905

تبصرے:

مناسك حج
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 217 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 62748 / ڈاؤنلوڈ: 2905
سائز سائز سائز
مناسك حج

مناسك حج

مؤلف:
اردو

حج كا حكم كيا ہے ؟

ج: اس سے اسكے حج كى صحت كو نقصان نہيں پہنچتا اگر چہ اس نے اپنے آپ كو دشمنان خدا سے اعلان برائت كے پروگرام ميں شركت كرنے كى فضيلت سے محروم كرديا ہے_

س ۷: كيا حيض يا نفاس والى عورت كيلئے اس ديوار پر بيٹھنا جائز ہے جو مسجدالحرام كے برآمدے اور سعى كرنے كى جگہ كے درميان واقع ہے يہ جانتے ہوئے كہ يہ ان كے درميان مشترك ہے؟_

ج: اس ميں كوئي اشكال نہيں ہے مگر جب ثابت ہو جائے كہ وہ مسجدالحرام كا حصہ ہے

س۸: جس شخص كو چاند ديكھنے كى وجہ سے دو وقوف اور روز عيد كے درك كرنے ميں شك ہو اسكے حج كا كيا حكم ہے اور كيا اس پر حج كا اعادہ واجب

۱۸۱

ہے يا نہيں ؟

ج: سنى قاضى كے نزديك ذى الحج كا چاند ثابت ہونے اور اسكى طرف سے چاند ثابت ہوجانے كے فيصلے كے مطابق عمل انجام دينا كافى ہے پس اگر لوگوں كى پيروى كرتے ہوئے دو وقوف كو درك كرلے تو اس نے حج كو درك كرليا اور يہ كافى ہے _

س۹: بعض فتاوى ميں آيا ہے كہ آپ مكہ مكرمہ كے ہوٹلوں ميں جماعت قائم كرنے كى اجازت نہيں ديتے تو كيا آپ كى طرف سے ان رہائشے گاہوں اور گھروں ميں جماعت قائم كرنے كى اجازت ہے كہ جن ميں عام طور پر قافلے آتے ہيں يہ جانتے ہوئے كہ ان قافلوں كى اپنى مستقل رہائشے گاہ اور اپنى مستقل جماعت ہوتى ہے پس يہ حجاج كيلئے مسجدالحرام ميں نماز ترك كرنے كا ذريعہ نہيں بنتے _

ج: ہمارى طرف سے ان رہائشے گا ہوں اور گھروں ميں

۱۸۲

جماعت قائم كرنے كى اجازت نہيںہے اگر يہ دوسروں كى توجہ كے مبذول كرنے كا موجب بنے اور مسجد ميں مسلمانوں كے ساتھ انكى نماز ميں شركت نہ كرنے كى وجہ سے تنقيد كا سبب بنے_

س ۱۰: ڈرائيور حضرات بھيڑسے بچنے كيلئے منى اور مزدلفہ تك پہنچنے والے بعض شاق راستوں اور سرنگوں سے اندرونى راستوں كے طور پر استفادہ كرتے ہيں پس ان جگہوں تك پہنچنے كيلئے مكہ كے بعض محلوں سے ہوتے ہوئے ايسے راستوں سے جاتے ہيں جو منى كے اندر سے گزرتے ہيں تو كيا اسے مكہ سے نكلنا شمار كيا جائيگا يا نہيں ؟

ج: ظاہر يہ ہے كہ نكلنے كے جائز نہ ہونے كى دليل اس سے منصرف ہے بہرحال اس سے عمرہ اور حج كى صحت كو نقصان نہيں پہنچتا_

س ۱۱: كاروانوں كے خدام جو عيد والے دن عورتوں اور كمزور لوگوں

۱۸۳

كے ہمراہ ہوتے ہيں اور ان كے ہمراہ فجر سے پہلے ہى مشعرالحرام سے كوچ كرجاتے ہيں اگر ان كيلئے طلوع فجر سے پہلے پلٹنا اور وقوف اختيارى كو درك كرنا ممكن ہو تو كيا يہ ان پر واجب ہے يا نہيں ؟ اور اگر ان كيلئے پلٹنا ممكن نہ ہو ليكن دن كے وقت جمرہ عقبہ كو كنكرياں مارنے كيلئے پلٹنا ممكن ہو تو كيا عورتوں اور كمزور لوگوں كى متابعت ميں ان كيلئے بھى رات كے وقت كنكرياں مارنا كافى ہے يا ان پر واجب ہے كہ دن كے وقت كنكرياں ماريں؟اور پلٹنے اور وقوف اختيارى كو درك كرنے كى صورت ميں كيا يہ انہيں نائب بنانے كے امكان كيلئے كافى ہے يا وہ محض رات كو نكل آنے سے صاحبان عذر ميں سے شمار ہوں گے كہ جنہيں نائب بنانا جائز نہيں ہے_

ج۱: وقوف اختيارى كو در ك كرنے كيلئے ان پر پلٹنا واجب نہيںہے_

۲ _ رات ميں كنكرياں مارنا ان كيلئے كافى نہيں ہے مگر يہ كہ دن ميں ايسا كرنے سے عذ ر ركھتے ہوں_

-

۱۸۴

۳_ نائب كى نسبت احوط يہ ہے كہ وہ رات كے وقت مشعر الحرام سے نہ نكلے اگر چہ پلٹ كر مشعر الحرام كے اختيارى وقوف كو درك كرلے ہاں اگر فرض كريں كہ وہ عذر نہيں ركھتا اور اختيار كے برخلاف نكلے تو اگر پلٹ آئے اور اختيارى اور پورے واجب وقوف كو درك كرلے تو يہ اسكى نيابت كيلئے مضر نہيں ہے_

س ۱۲: جو شخص شب عيد اور مزد لفہ ميں معمولى سا وقوف كرنے كے بعد عورتوںاور مريضوں كے ہمراہ ہوتاہے كيا اس پر واجب ہے كہ انہيں مكہ پہنچانے كے بعد فجر سے پہلے مزدلفہ كى طرف پلٹ آئے يا اس كيلئے طلوع فجر اور طلوع آفتاب كے درميان وقوف كرلينا كافى ہے يا اس كيلئے وہى معمولى سا وقوف ہى كافى ہے جبكہ اس كے ساتھ تھكن ، مشقت اور ٹريفك كى وہ پابندياں بھى ہوتى ہيں جو انتظاميہ نافذ كرتى ہے اور كيا نيابتى حج كرنے والے اور اسكے غير كے درميان كوئي فرق ہے؟

۱۸۵

ج: جو شخص صاحبان عذر كى نگرانى اور تيمار دارى كيلئے ان كے ہمراہ كوچ كرتاہے اس پر طلوع فجر اور طلوع شمس كے درميان وقوف كرنا واجب نہيں ہے بلكہ اس كيلئے رات كے اضطرارى وقوف پر اكتفا كرنا جائز ہے ہاں جو شخص نيابتى حج انجام دے رہا ہے اس كيلئے يہ جائز نہيں ہے اور اس پر اختيارى اعمال كو انجام دينا واجب ہے_

س ۱۳ : كيا اختيارى صورت ميں نذر كےساتھ ميقات سے پہلے احرام باندھنا جائز ہے جبكہ انسان جانتاہو كہ وہ سايہ ميں جانے پر مجبور ہوجائيگا جيسے اگر نذر كركے اپنے شہر سے احرام باندھے اور پھر دن كے وقت ہوائي جہاز ميں سوار ہوجائے؟

ج: نذر كركے ميقات سے پہلے احرام باندھنا جائز ہے اور دن كے وقت سايہ ميں جانا حرام ہے اور ايك عنوان كاحكم دوسرے عنوان تك سرايت نہيں كرتا_

۱۸۶

س ۱۴ : ايك شخص فوج ميں كام كرتاہے اور بعض اوقات جبرى حكم كے ذريعے اسكى ڈيوٹى لگائي جاتى ہے جيسے كسى اہم كام كيلئے فوراً مكہ پہنچنا اور اس نے پہلے عمرہ نہيں كيا ہوتا اور تنگى وقت كى وجہ سے احرام كى حالت ميں مكہ ميں داخل نہيں ہوسكتا تو كيا وہ اس صورت ميں گناہ گار ہوگا كيا اس پر كفارہ ہے؟

ج: سوال كے فرض ميں اس كيلئے بغير احرام كے مكہ مكرمہ ميں داخل ہونا جائز ہے اور اس سلسلے ميں اس پر كوئي شے نہيں ہے_

س ۱۵: اگر ماہ ذيقعد ميں مكہ ميں عمرہ مفردہ بجالائے اور پھر ذى الحج ميں دوبارہ مكہ ميں داخل ہونا چاہے جبكہ ابھى اس عمرے كو دس دن نہ ہوئے ہوں تو كيا اس كيلئے نيا احرام باندھنا ضرورى ہے يا وہ بغير احرام كے داخل ہوسكتاہے؟

۱۸۷

ج: احوط كى بناپر اس وقت اس كيلئے احرام باندھنا ضرورى ہے _

س ۱۶: ايك شخص جدہ ميں رہتاہے اور مكہ مكرمہ ميں كام كرتاہے يعنى وہ چھٹى كے دنوں كے علاوہ تسلسل كے ساتھ ہر دن مكہ جاتاہے يا آدھا ہفتہ جاتاہے يعنى تين دن مكہ جاتاہے اور چار دن نہيں جاتا اگرچھٹى كے ايام يا چار دن ختم ہوجائيں تو كيا اس كيلئے دوبارہ عمرہ كرنا واجب ہے؟

ج: سوال كى مفروضہ صورت ميں عمرہ كرنا واجب نہيں ہے_

س ۱۷: اگر عمرہ ختم ہوجائے اور انسان مكہ ميں ہى ہو تو كيا اس پر نيا عمرہ كرنا واجب ہے؟ اور كہاں سے ؟ كيا حرم كى حدود سے يا مسجد تنعيم سے؟

ج: جبتك وہ مكہ مكرمہ ميں ہے نياعمرہ بجالانا واجب نہيں ہے اور اگر نيا عمرہ بجالانا چاہے تو ضرورى ہے كہ اطراف

۱۸۸

حرم سے ادنى الحل كى طرف جائے اور يا پھر مسجد تنعيم جائے_

س ۱۸: ايك شخص ٹيكسى كا ڈرائيور ہے اور سوارى اسے مكہ جانے كا كہتى ہے يہ جانتے ہوئے كہ ڈرائيور نے پہلے عمرہ نہيں كر ركھا كيا اس پر واجب ہے كہ احرام كى حالت ميں داخل ہو اور اگر بغير احرام كے داخل ہو تو اس كا كيا حكم ہے ؟

ج: سوال كى مفروضہ صورت ميں اس پر واجب ہے كہ مكہ مكرمہ ميں داخل ہونے كيلئے احرام باندھے اور عمرہ مفردہ كے اعمال بجالائے اور اگر بغير احرام كے مكہ ميں داخل ہوجائے تو فعل حرام كا مرتكب ہوا ہے ليكن اس پر كفارہ نہيں ہے_

س ۱۹: جو شخص سخت بھيڑكے وقت كئي مستحب طواف كرتاہے اس طرح كے ان

۱۸۹

حجاج كو مزاحم ہوتاہے جو واجب طواف كرتے ہيں تو كيا اس پر كوئي اشكال ہے بالخصوص اگر اسكے پاس مستحب طواف كيلئے وسيع وقت ہو_

ج: اس پر كوئي اشكال نہيں ہے ہاں اولى بلكہ احوط يہ ہے كہ اس بھيڑ كے ہوتے ہوئے مستحب طواف نہ كرے_

س ۲۰:جو شخص استطاعت كى وجہ سے حج افراد كو بطور واجب بجالاتاہے يا اسے بطور مستحب انجام ديتاہے اور اس سے پہلے متعدد دفعہ عمرہ كرچكاہو تو كيا اس پر ايك نيا عمرہ واجب ہے جو اس حج كے متعلق ہو؟

ج: عمرہ واجب نہيں ہے مگر جن موارد ميں تمتع سے افراد كى طرف عدول كرنا ہو_

س ۲۱: جس شخص نے حج افراد كيلئے طواف باندھا ہوا ہے كيا وہ طواف حج اور سعى كے بعد اپنے اختيار كےساتھ مكہ سے نكل كر جدہ جاسكتاہے؟ كہ پھر سيدھا عرفہ ميں حجاج كے ساتھ ملحق ہوجائے؟

۱۹۰

ج: طواف اور سعى كے بعدجدہ يا كسى اور جگہ جانے سے مانع نہيں ہے ليكن اگر اس كى وجہ سے اسے دو وقوف كے فوت ہوجانے كا خوف نہ ہو_

س ۲۲: شرعى مسافت كہ جسكے ساتھ حج افراد جائز ہوتاہے سولہ فرسخ ہے تو يہ مسافت كہاں سے شمار كى جائيگي؟

الف: كيا آپ كى رائے ميں مكہ قابل توسيع ہے اور ہر وہ جگہ جسے عرف ميں مكہ كہا جاتاہے وہ مكہ كا حصہ ہے؟

ب: جو مكلف مكہ سے سولہ فرسخ سے كم فاصلے پر رہتاہے كيا وہ اپنے گھر سے احرام باندھے گا يا مدينہ كى كسى جگہ سے؟

ج: كيا آپ كى نظر ميںمسافت كا آغاز مكلف كے شہر كے آخر سے ہوگا؟

ج: الف) مسافت مكلف كے شہر يا ديہات كے آخر سے

۱۹۱

شہر مكہ كے شروع تك حساب كى جائيگى اور شہر مكہ قابل توسيع ہے اور مسافت كے حساب كرنے كا معيار وہ جگہ ہے جسے اس وقت عرف ميں شہر مكہ كى ابتدا كہا جاتاہے_

ب: اس كيلئے اپنے شہر كى ہر جگہ سے احرام باندھنا جائز ہے اگر چہ اولى اور احوط يہ ہے كہ اپنے گھر سے احرام باندھے_

ج: ابھى ابھى گزراہے كہ مسافت كا معيار اسكے اپنے شہر اور موجودہ شہر مكہ كے درميان كى مسافت ہے اگر چہ احوط يہ ہے كہ اپنے گھر سے مسافت كى ابتدا كا حساب كرے_

س ۲۳: عمرہ كرنے والا شخص جو مدينہ منورہ يا اسكے مضافات ميں رہتاہے كيا اس كيلئے جائز ہے كہ وہ مكہ مكرمہ جانے كے قصد سے جدہ آئے اور پھر احرام كيلئے ادنى الحل جيسے مسجد تنعيم كا قصدكرے_

۱۹۲

ج: اگر وہ مدينہ سے نكلتے وقت عمرہ كا قصد ركھتاہو تو اس پر لازم ہے كہ مسجد شجرہ سے احرام باندھے اور اس كيلئے بغير احرام كے ميقات سے آگے جانا جائز نہيں ہے اگر چہ مكہ مكرمہ جاتے ہوئے جدہ سے گزرنے كا ارادہ ركھتاہو اور اگر بغير احرام كے ميقات سے گزر كرجدہ پہنچ جائے پھر عمرہ كا ارادہ كرے تو اس پر واجب ہے كہ وہ احرام باندھنے كيلئے كسى ميقات پر جائے اور اس كيلئے جدہ اور ادنى الحل سے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے كيونكہ ادنى الحل صرف ان لوگوں كيلئے عمرہ مفردہ كا ميقات ہے جو مكہ مكرمہ ميں رہتے ہيں _

س ۲۴: مدينہ يا اسكے مضافات سے دو راستے جدہ كى طرف جاتے ہيں ايك حجفہ كے قريب سے گزرتاہے كہ جسكے ساتھ محاذات (مقابل) بن جاتاہے اور دوسرا جو كہ تيز راستہ ہے ، جحفہ كے مقابل سے گذرتاہے ليكن

۱۹۳

وہ جحفہ سے سو كيلوميٹر سے بھى زيادہ دور ہے اور سيدھا راستہ نہيں ہے تو كيا اسے بھى محاذات (مقابل) شمار كيا جائيگا يا نہيں؟

ج: محاذات اور مقابل سے مراد يہ ہے كہ مكہ مكرمہ كى طرف جانے والا شخص راستے ميںايسے نقطے پر پہنچ جائے كہ جسكى دائيں يا بائيں جانب ميقات ہو اس بناپر پس نقطہ محاذات كے اعتبار سے دو راستوں كے درميان كوئي فرق نہيں ہے_

س ۲۵: دوسرى صورت ميں اگر بالفرض وہ محاذات نہ بنتى ہو تو جو شخص اس راستے سے جارہاہے كيا اس كيلئے جائز ہے كہ وہ ادنى الحل جاكر وہاں سے عمرہ مفردہ يا حج كا احرام باندھے ؟

ج: ميقات اور اسكى بالمقابل جگہ سے بغير احرام كے گزرنا جائز نہيں ہے اور ادنى الحل سے احرام باندھنا بھى صحيح نہيں ہے جيسے كہ ابھى ابھى گزراہے _

۱۹۴

س۲۶: جس شخص كو ميقات سے احرام باندھنے ميں اپنے يا اپنے اہل و عيال پر خوف كا وہم ہو كيا اس كيلئے ادنى الحل سے احرام باندھنا جائز ہے؟

ج: اگر ميقات ميں احرام باندھنے سے كوئي عذر ہو جو ميقات سے گزرنے كے بعد زائل ہوجائے تو اس پر واجب ہے كہ احرام باندھنے كيلئے ميقات كى طرف واپس پلٹے البتہ اگر ممكن ہوورنہ اپنى جگہ سے احرام باندھے اگر اسكے آگے كوئي ميقات نہ ہو اور كسى دوسرے ميقات پر جانے كى قدرت بھى نہ ركھتاہو_

س ۲۷: كيا احرام كى حالت ميں رات كے وقت بارش سے بچنے كيلئے كسى چيز كے نيچے جانا جائز ہے ؟

ج: احوط مراعات كرناہے_

س ۲۸: جو شخص مقام ابراہيم كے پيچھے قرآن كريم يا مستحب نمازيں پڑھنا

۱۹۵

چاہتاہے يا دعاء كيلئے بيٹھنا چاہتاہے جب كہ اس كيلئے ان چيزوں كو مسجد الحرام كى دوسرى جگہوں ميں انجام دينا بھى ممكن ہے تو كيا بھيڑ كے باوجود اس كيلئے يہ كام جائز ہے جبكہ طواف كى واجب نماز پڑھنے والوں كيلئے مشكل كا باعث ہو_

ج: اولى بلكہ احوط يہ ہے كہ مذكورہ چيزوں كو اس جگہ بجالائے جہاں بھيڑ نہ ہو_

س ۲۹: كيا حاجى ( مرد يا عورت) كيلئے احرام كى حالت ميں پانى كو زائل كرنے كيلئے اپنے چہرے كو توليے سے پونچھنا جائز ہے ؟

ج: اس كام ميں مرد كيلئے تو ہر صورت ميں كوئي حرج نہيں ہے اور عورت كيلئے بھى كوئي حرج نہيں ہے اگر اس پر چہرے كو ڈھانپنا صدق نہ كرے اس طرح كہ يہ كام توليے كو بالتدريج اپنے چہرے پر گزارنے كے ساتھ ہو ورنہ اس كيلئے يہ جائز نہيں ہے بہر حال چہرے كو ڈھانپنے ميں كفارہ

۱۹۶

نہيں ہے_

س ۳۰: حاجى كيلئے جائز ہے كہ حج كے موقع پر منى ميں رات گزارنے كى بجائے مكہ مكرمہ ( حرم ) ميں عبادت كے ساتھ رات گزارے تو كيا كھانا كھانا، نہانا، قضائے حاجت يا مومن كے جنازہ كى تشييع كرنا ايسے كام ہيں جو عبادت كےساتھ مشغول ہونے كو باطل كرديتے ہيں؟

ج: ضرورت كے مطابق كھانے پينے ميںمشغول ہونا اور كسى احتياج كى وجہ سے باہر جانا اور وضو يا واجب غسل بجالانا عبادت كے ساتھ مشغول ہونے كو نقصان نہيں پہنچاتا_

س ۳۱: سابقہ سوال ميں مذكور مصروفيات اگر عبادت كو باطل كرديں تو كيا كفارہ بھى ہے ؟

ج: اگر ايسے كام ميں مشغول ہو جو عبادت نہيں ہے اگر چہ

۱۹۷

مكہ مكرمہ ميں، اور ضروريات ميں سے بھى شمار نہ كيا جاتاہوجيسے كھانا پينا اور كوئي ضرورت پورى كرنا تو اس پر كفارہ واجب ہے _

س۳۲: كيا چند ماہ تك مال كو جمع كرنا حج كى استطاعت كو حاصل كرنے كيلئے كافى ہے ؟ بالخصوص اگر وہ جانتاہو كہ وہ اس طريقے كے علاوہ مستطيع نہيں ہوسكتا_

ج: استطاعت كا حاصل كرنا واجب نہيں ہے ليكن اگر انسان حجة الاسلام كرنا چاہتاہو تو اس سے كوئي مانع نہيں ہے كہ وہ كسى جائز طريقے سے مال حاصل كرے يا اپنى منفعت سے ذخيرہ كرتارہے يہاں تك كہ اس كے حج كا خرچ جمع ہوجائے مگر جب وہ اپنى منفعت سے ذخيرہ كرے اور اس پر خمس كا سال گزر جائے تو اس پر اس كا خمس دينا واجب ہے _

۱۹۸

س ۳۳: كيا والدين كو ملنا :معاشرتي، شرعى يا ذاتى ضرورت شمار ہوتى ہے اور اگر ايسا ہے تو كيا جو شخص استطاعت ركھتا ہے اس كيلئے جائز ہے كہ وہ اپنا مال والدين كو ملنے كيلئے خرچ كردے جب ملنے كيلئے سفر و غيرہ كى ضرورت ہو اور حج كو مؤخر كردے؟

ج: مستطيع پر واجب ہے كہ حج كرے اور اپنے آپ كو استطاعت سے خارج كرنا جائز نہيں ہے اور صلہ رحمى صرف ملنے ميں منحصر نہيں ہے بلكہ رشتہ داروں كى احوال پرسى اور صلہ رحمى ديگر طريقوں سے بھى ممكن ہے جيسے خط لكھنا يا ٹيليفون كرنا و غيرہ ہاں اگر والدين كہ جو دوسرے شہر ميں ہيں ان سے ملنا اسكى اپنى حالت اور انكى حالت كے پيش نظر ضرورى ہو اس طرح كہ اسے اسكى عرفى ضروريات ميں سے شمار كيا جائے اور اسكے پاس اتنا مال بھى نہ ہو جو والدين كى ملاقات اور حج كے اخراجات دونوں كيلئے كافى ہو تو وہ اس حالت ميں مستطيع ہى نہيں

۱۹۹

ہے_

س۳۴: اگر دودھ پلانے والى عورت مستطيع ہوجائے ليكن اسكے حج پر جانے سے شيرخوار بچے كو نقصان پہنچتاہو تو كيا وہ حج كو ترك كرسكتى ہے؟

ج: اگر نقصان اس طرح ہو كہ دودھ پلانے والى كيلئے شير خوار كے پاس رہنا ضرورى ہے يا اس سے دودھ پلانے والى عورت كيلئے حرج ہے تو اس پر حج واجب نہيں ہے _

س ۳۵:جو عورت سونے كے كچھ زيورات كى مالك ہے اوروہ انہيںپہنتى ہے اور اسكے پاس اسكے علاوہ كوئي دوسرا مال نہيں ہے اگر وہ انہيں بيچ دے تو وہ حج كرنے پر قادر ہوجاتى ہے تو كيا عورتوں كے زيورات استطاعت سے مستثنى ہيں يا اس پر واجب ہے كہ وہ حج كے اخراجات كيلئے انہيں بيچے اور انكے ساتھ وہ مستطيع ہوگي_؟

ج: اگر ان زيورات كو وہ پہنتى ہو اور وہ اسكى حيثيت سے

۲۰۰