توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)0%

توضیح المسائل(آقائے سیستانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید علی سیستانی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 64136
ڈاؤنلوڈ: 6401

تبصرے:

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 35 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 64136 / ڈاؤنلوڈ: 6401
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

مؤلف:
اردو

زکوۃ کے احکام

1861 ۔ زکوٰ ۃ چند چیزوں پر واجب ہے۔

1 ۔ گ یہ وں 2 ۔ جَو 3 ۔ ک ھ جور 4 ۔ کشمش 5 ۔ سونا 6 ۔ چاند ی 7 ۔ اون ٹ 8 ۔ گائ ے 9 ۔ ب ھیڑ بکری 10 ۔ احت یاط لازم کی بنا پر مال تجارت۔

اگر کوئی شخص ان دس چیزوں میں سے کس ی ایک کا مالک ہ و تو ان شرائط ک ے تحت جن کا ذکر بعد م یں کیا جائے گا ضرور ی ہے ک ہ جو مقدار مقرر ک ی گئی ہے اس ے ان مصارف م یں سے کس ی ایک مد میں خرچ کرے جن کا حکم د یا گیا ہے۔

1862 ۔ سلت پر جو گ یہ وں کی طرح ایک نرم اناج ہے اور جس ے ب ے چ ھ لک ے ک ا جَو بھی کہ ت ے ہیں اور علس پر جو گیہ وں کی ایک قسم ہے اور صنعا ( یمن) کے لوگوں ک ی غذا ہے احت یاط واجب کی بنا پر زکوٰۃ دینا ضروری ہے۔

زکوۃ واجب ہ ون ے ک ی شرائط

1863 ۔ زکوٰ ۃ کورہ دس چ یزوں پر اس صورت میں واجب ہ وت ی ہے جب مال اس نصاب ک ی مقدار تک پہ نچ جائ ے جس کا ذکر بعد م یں کیاجائے گا اور وہ مال انسان ک ی اپنی ملکیت ہ و اور اس کا مالک آزاد ہ و ۔

1864 ۔ اگر انسان گ یارہ مہینے گائے ، ب ھیڑ بکری، اونٹ ، سون ے یا چاندی کا مالک رہے تو اگرچ ہ بار ھ و یں مہینے کی پہ ل ی تاریخ کو زکوٰۃ اس پر واجب ہ و جائ ے گ ی لیکن ضروری ہے ک ہ اگل ے سال ک ی ابتدا کی حساب بارھ و یں مہینے کے خاتم ے ک ے بعد س ے کر ے۔

1865 ۔ سون ے ، چاند ی اور مال تجارت پر زکوۃ کے واجب ہ ون ے ک ی شرط یہ ہے ک ہ ان چ یزوں کا مالک، بالغ اور عاقل ہ و ۔ ل یکن گیہ وں،جَو، کھ جور، کشمش اور اس ی طرح اونٹ ، گائ ے اور ب ھیڑ بکریوں میں مالک کا بالغ اور عاقل ہ ونا شرط ن ہیں ہے۔

1866 ۔ گ یہ وں اور جَو پر زکوۃ اس وقت واجب ہ وت ی ہے جب ان ہیں "گیہ وں " اور "جَو" کہ ا جائ ے۔ کشمش پر زکو ۃ اس وقت واجب ہ وت ی ہے جب و ہ اب ھی انگور ہی کی صورت میں ہ وں ۔ اور ک ھ جور پر زکو ۃ اس وقت واجب ہ وت ی ہے جب (و ہ پک جائ یں اور) عرب اسے تمر ک ہیں لیکن گیہ وں اور جَو میں زکوۃ کا نصاب دیکھ ن ے اور زکوۃ دینے کا وقت وہ ہ وتا ہے جب یہ غلہ ک ھ ل یان میں پہ نچ ے اور ان (ک ی بالیوں) سے ب ھ وسا اور (دان ہ ) الگ ک یا جائے۔ جبک ہ ک ھ جور اور کشمش م یں یہ وقت وہ ہ وتا ہے جب ان ہیں اتار لیتے ہیں۔ اس وقت کو خشک ہ ون ے کا وقت ب ھی کہ ت ے ہیں۔

1867 ۔ گ یہ وں، جَو، کشمش اور کھ جور م یں زکوۃ ثابت ہ ون ے ک ے لئ ے ج یسا کہ سابق ہ مسئل ے م یں بتایا گیا ہے اقو ی کی بنا پر معتبر نہیں ہے ک ہ ان کا مالک ان م یں تصرف کر سکے۔ پس اگر مالک غائب ہ و اور مال ب ھی اس کے یا اس کے وک یل کے ہ ات ھ م یں نہ ہ و مثلا کس ی نے ان چ یزوں کو غصب کر لیا ہ و تب ب ھی زکوۃ ان چیزوں میں ثابت ہے۔

1868 ۔ سون ے ، چاند ی اور مال تجارت میں زکوۃ ثابت ہ ون ے ک ے لئ ے ۔ ج یسا کہ ب یان ہ و چکا ۔ ضرور ی ہے ک ہ مالک عاقل ہ و اگر مالک پورا سال یا سال کا کچھ حص ہ د یوانہ رہے تو اس پر زکوٰ ۃ واجب نہیں ہے۔

1869 ۔ اگر گائ ے ، ب ھیڑ ، اونٹ ، سون ے اور چاند ی کا مالک سال کا کچھ حص ہ مست (ب ے حواس) یا بے ہ وش ر ہے تو زکو ۃ اس پر سے ساقط ن ہیں ہ وت ی اور اسی طرح گیہ وں، جَو، اور کشمش کا مالک زکوٰۃ واجب ہ ون ے ک ے موقع پر مست یا بے ہ وش ہ وجائ ے تو ب ھی یہی حکم ہے۔

1870 ۔ گ یہ وں، جَو، کھ جور اور کشمش ک ے علاو ہ دوسر ی چیزوں میں زکوۃ ثابت ہ ون ے ک ے لئ ے یہ شرط ہے ک ہ مالک اس مال م یں تصرف کرنے ک ی قدرت رکھ تا ہ و پس اگر کس ی نے اس مال ک ی غصب کر لیا ہ و اور مالک اس مال م یں تصرف نہ کر سکتا ہ و تو اس م یں زکوٰۃ نہیں ہے۔

1871 ۔ اگر کس ی نے سونا اور چاند ی یا کوئی اور چیز جس پر زکوۃ دینا واجب ہ و کس ی سے قرض ل ی ہ و اور و ہ چ یز ایک سال تک اس کے پاس ر ہے تو ضرور ی ہے ک ہ اس ک ی زکوٰۃ دے اور جس ن ے قرض د یا ہ و اس پر کچ ھ واجب ن ہیں ہے۔

گیہ وں، جَو، کھ جور اور کشمش ک ی زکوۃ

1872 ۔ گ یہ وں، جَو، کھ جور اور کشمش پ ر زکوٰۃ اس وقت واجب ہ وت ی ہے جب و ہ نصاب ک ی حد تک پہ نچ جائ یں اور ان کا نصاب تین سو صاع ہے جو ا یک گروہ (علماء) ک ے بقول تقر یباً 847 کیلو ہ وتا ہے۔

1873 ۔ جس انگور، ک ھ جور ، جو اور گ یہ وں پر زکوٰۃ واجب ہ وچک ی ہ و اگر کوئ ی شخص خود یا اس کے ا ہ ل و ع یال اسے ک ھ ال یں یا مثلاً وہ یہ اجناس کسی فقیر کو زکوۃ کی نیت کے بغ یر دے د ے تو ضرور ی ہے ک ہ جتن ی مقدار استعمال کی ہ و اس پر زکوٰ ۃ دے۔

1874 ۔ اگر گ یہ وں،جَو،ک ھ جور اور انگور پر زکوٰۃ واجب ہ ون ے ک ے بعد ان چ یزوں کا مالک مرجائے تو جتن ی زکوٰۃ بنتی ہ و و ہ اس ک ے مال س ے د ینی ضروری ہے ل یکن اگر وہ شخص زکو ۃ واجب ہ ون ے س ے پ ہ ل ے مرجائ ے تو ہ ر و ہ وارث جس کا حص ہ نصاب تک پ ہ نچ جائ ے ضرور ی ہے ک ہ اپن ے حص ے ک ی زکوۃ خود ادا کرے۔

1875 ۔ جو شخص حاکم شرح ک ی طرف سے زکوٰ ۃ جمع کرنے پر مامور ہ و و ہ گ یہ وں اور جو کے ک ھ ل یان میں بھ وسا (اور دان ہ ) الگ کرن ے ک ے وقت اور ک ھ جور اور انگور کے خشک ہ ون ے ک ے وقت زکوٰ ۃ کا مطالبہ کر سکتا ہے اور اگرمالک ن ہ د ے اور جس چ یز پر زکوٰۃ واجب ہ وگئ ی ہ و و ہ تلف ہ و جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا عوض د ے۔

1876 ۔ اگر کس ی شخص کے ک ھ جور ک ے درختوں، انگور ک ی بیلوں یا گیہ وں اور جَو کے ک ھیتوں (کی پیداوار) کا مالک بننے ک ے بعد ان چ یزوں پر زکوٰۃ واجب ہ و جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ ان پر زکوٰ ۃ دے۔

1877 ۔ اگر گ یہ وں، جَو، کھ جور اور انگور پر زکوٰ ۃ واجب ہ ون ے ک ے بعد کوئ ی شخص کھیتوں اور درختوں کو بیچ دے تو ب یچنے والے پر ان اجناس ک ی زکوٰۃ دینا واجب ہے اور جب و ہ زکو ۃ ادا کر دے تو خریدنے والے پر کچ ھ واجب ن ہیں ہے۔

1878 ۔ اگر کوئ ی شخص گیہ وں، جَو، کھ جور یا انگور خریدے اور اسے علم ہ و ک ہ ب یچنے والے ن ے ان ک ی زکوٰۃ دے د ی ہے یا شک کرے ک ہ اس ن ے زکوٰ ۃ دی ہے یا نہیں تو اس پر کچھ واجب ن ہیں ہے اور اگر اس ے معلوم ہ و ک ہ ب یچنے والے ن ے ان پر زکوٰ ۃ نہیں دی تو ضروری ہے ک ہ و ہ خود اس پر ز کوٰۃ دیدے لیکن اگر بیچنے والے ن ے دغل ک یا ہ و تو و ہ زکو ۃ دینے کے بعد اس س ے رجوع کر سکتا ہے اور زکو ۃ کی مقدار کا اس سے مطالب ہ کر سکتا ہے۔

1879 ۔ اگر گ یہ وں، جَو، کھ جور اور انگور کا وزن تر ہ ون ے ک ے وقت نصاب ک ی حد تک پہ نچ جائ ے اور خشک ہ ون ے ک ے وقت اس حد س ے کم ہ و جائ ے تو اس پر زکوٰ ۃ واجب نہیں ہے۔

1880 ۔ اگر کوئ ی شخص گیہ وں، جَو اور کھ جور کو خشک ہ ون ے ک ے وقت س ے پ ہ ل ے خرچ کر ے تو اگر و ہ خشک ہ و کر نصاب پر پور ی اتریں تو ضروری ہے ک ہ ان کو زکوٰ ۃ دے۔

1881 ۔ ک ھ جور ک ی تین قسمیں ہیں :۔

1 ۔ و ہ جس ے خشک ک یا جاتا ہے ( یعنی چھ وار ے ) ۔ اس ک ی زکوٰۃ کا حکم بیان ہ و چکا ہے۔

2 ۔ و ہ جو رُطَب (پک ی ہ وئ ی رس دار) ہ ون ے ک ی حالت میں کھ ائ ی جاتی ہے ۔

3 ۔ و ہ جو کچ ی ہی کھ ائ ی جاتی ہے۔

دوسری قسم کی مقدار اگر خشک ہ ون ے پر نصاب ک ی حد تک پہ نچ جائ ے تو احت یاط مستحب ہے ک ہ اس ک ی زکوۃ دی جائے۔ ج ہ ان تک ت یسری قسم کا تعلق ہے ظا ہ ر یہ ہے ک ہ اس پر زکوٰ ۃ واجب نہیں ہے۔

1882 ۔ جس گ یہ وں، جَو، کھ جور اور کشمش ک ی زکوٰۃ کسی شخص نے د ے د ی ہ و اگر و ہ چند سال اس ک ے پاس پ ڑی بھی رہیں تو ان پر دوبارہ زکوٰ ۃ واجب نہیں ہ وگ ی۔

1883 ۔ اگر گ یہوں،جَو، کھ جور اور انگور (ک ی کاشت) بارانی یا نہ ر ی زمین پر کی جائے یا مصر زراعت کی طرح انہیں زمین کی نمی سے فائد ہ پ ہ نچ ے تو ان پر زکو ۃ دسواں حصہ ہے اور اگر ان ک ی سینچائی (جھیل یا کنویں وغیرہ) کے پان ی سے بذر یعہ ڈ ول ک ی جائے تو ان پر زکو ۃ بیسواں حصہ ہے۔

1884 ۔ اگر گ یہ وں، جو، کھ جور اور انگور (ک ی کاشت) بارش کے پان ی سے ب ھی سیراب ہ و اور اس ے ڈ ول وغ یرہ کے پان ی سے ب ھی فائدہ پ ہ نچ ے تو اگر یہ سینچائی ایسی ہ و ک ہ عام طور پر ک ہ ا جاسک ے ک ہ ان ک ی سینچائی ڈ ول وغ یرہ سے ک ی گئی ہے تو اس پر زکو ۃ بیسواں حصہ ہے اور اگر یہ کہ ا جائ ے کہ یہ نہ ر اور بارش ک ے پان ی سے س یراب ہ وئ ے ہیں تو ان پر زکوٰۃ دسواں حصہ ہے اور اگر س ینچائی کی صورت یہ ہ و ک ہ عام طور پر ک ہ ا جائ ے ک ہ دونوں ذرائع س ے س یراب ہ وئ ے ہیں تو اس پر زکوۃ ساڑھے سات ف ی صد ہے۔

1885 ۔ اگر کوئ ی شک کرے ک ہ عام طور پر کون س ی بات صحیح سمجھی جائے گ ی اور اسے علم ن ہ ہ و ک ہ س ینچائی کی صورت ایسی ہے ک ہ لوگ عام طور پر ک ہیں کہ دونوں ذرائع س ے س ینچائی ہ وئ ی یا یہ کہیں کہ مثلاً بارش ک ے پان ی سے ہ وئ ی ہے تو اگر و ہ سا ڑھے سات ف ی صد زکوٰۃ دے تو کاف ی ہے۔

1886 ۔ اگر کوئ ی شک کرے اور اس ے علم ن ہ ہ و ک ہ عموماً ک ہ ت ے ہیں کہ دونوں ذرائع س ے س ینچائی ہ وئ ی ہے یا یہ کہ ت ے ہیں کہ ڈ ول وغ یرہ سے ہ وئ ی ہے تو اس صورت م یں بیسواں حصہ د ینا کافی ہے۔ اور اگر اس بات کا احتمال ب ھی ہ و ک ہ عموماً لوگ ک ہیں کہ بارش ک ے پان ی سے س یرابی ہ وئ ی ہے تب ب ھی یہی حکم ہے۔

1887 ۔ اگر گ یہ وں،جَو، کھ جور اور انگور بارش اور ن ہ ر ک ے پان ی سے س یراب ہ وں اور ان ہیں ڈ ول وغ یرہ کے پان ی کی حاجت نہ ہ و ل یکن ان کی سینچائی ڈ ول ک ے پان ی سے ب ھی ہ وئ ی ہ و اور ڈ ول ک ے پان ی سے آمدن ی میں اضافے م یں کوئی مدد نہ مل ی ہ و تو ان پر زکوٰ ۃ دسواں حصہ ہے اور اگر ڈ و ل وغیرہ کے پان ی سے س ینچائی ہ وئ ی ہ و اور ن ہ ر اور بارش ک ے پان ی کی حاجت نہ ہ و ل یکن نہ ر اور بارش ک ے پان ی سے ب ھی سیراب ہ وں اور اس س ے آمدن ی میں اضافے م یں کوئی مدد نہ مل ی ہ و تو ان پر زکوٰ ۃ بیسواں حصہ ہے۔

1888 ۔ اگر کس ی کھیت کی سینچائی ڈ ول وغ یرہ سے ک ی جائے اور اس س ے ملحق ہ زم ین میں کھیتی باڑی کی جائے اور و ہ ملحق ہ زم ین اس زمین سے فائد ہ ا ٹھ ائ ے اور اس ے س ینچائی کی ضرورت نہ ر ہے تو جس زم ین کی سینچائی ڈ ول وغ یرہ سے ک ی گئی ہے اس ک ی زکوٰۃ بیسواں حصہ اور اس س ے ملحق ہ ک ھیت کی زکوٰۃ احتیاط کی بنا پر دسواں حصہ ہے۔

1889 ۔ جو اخراجات کس ی شخص نے گ یہ وں، جو، کھ جور اور انگور پر کئ ے ہ وں ان ہیں وہ فصل ک ی آمدنی سے من ہ ا کرک ے نصاب کا حساب ن ہیں لگا سکتا لہ ذا اگر ان م یں سے کس ی ایک کا وزن اخراجات کا حساب لگانے س ے پ ہ ل ے نصاب ک ی مقدار تک پہ نچ جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ اس پر زکوٰ ۃ دے۔

1890 ۔ جس شخص ن ے زراعت م یں بیج استعمال کیا ہ و خوا ہ و ہ اس ک ے پاس موجود ہ و یا اس نے خر یدا ہ و و ہ نصاب کا حساب اس ب یچ کو فصل کی آمدنی سے من ہ ا کر ک ے ن ہیں کر سکتا بلکہ ضرور ی ہے ک ہ نصاب کا حساب پور ی فصل کو مدنظر رکھ ت ے ہ وئ ے لگائ ے۔

1891 ۔ جو کچ ھ حکومت اصل ی مال سے (جس پر زکوٰ ۃ واجب ہ و) بطور محصول ل ے ل ے اس پر زکوۃ واجب نہیں ہے مثلاً اگر ک ھیت کی پیداوار 2000 کیلو ہ و اور حکومت اس م یں سے 1000 کیلو بطور لگان کے ل ے ل ے تو زکوٰ ۃ فقط 1900 کیلو پر واجب ہے۔

1892 ۔ احت یاط واجب کی بنا پر انسان یہ نہیں کر سکتا کہ جو اخراجات اس ن ے زکوٰ ۃ واجب ہ ون ے س ے پ ہ ل ے کئ ے ہ وں ان ہیں وہ پ یداوار سے من ہ ا کر ے اور صرف باق ی ماندہ پر زکو ۃ دے۔

1893 ۔ زکوٰ ۃ واجب ہ ون ے ک ے بعد جو اخراجات کئ ے جائ یں اور جو کچھ زکو ۃ کی کی مقدار کی نسبت خرچ کیا جائے و ہ پ یداوار سے من ہ ا ن ہیں کیا جاسکتا اگرچہ احت یاط کی بنا پر حکم شرع یا اس کے وک یل سے اس کو خرچ کرن ے ک ی اجازت بھی لے ل ی ہ و ۔

1894 ۔ کس ی شخص کے لئ ے یہ واجب نہیں کہ و ہ انتظار کر ے تاک ہ جو اور گ یہ وں کھ ل یان تک پہ نچ جائ یں اور انگور اور کھ جور ک ے خشک ہ ون ے کا وقت ہ و جائ ے پ ھ ر زکوٰ ۃ دے بلک ہ جون ہی زکوٰۃ واجب ہ و جائز ہے ک ہ زکوٰ ۃ کی مقدار کا اندازہ لگا کر و ہ ق یمت بطور زکوٰۃ دے۔

1895 ۔ زکوٰ ۃ واجب ہ ون ے ک ے بعد متعلق ہ شخص یہ کر سکتا ہے ک ہ ک ھڑی فصل کاٹ ن ے یا کھ جور اور انگور کو چنن ے س ے پ ہ ل ے زکوٰ ۃ مستحق شخص یا حاکم شرع یا اس کے وک یل کو مشترکہ طور پ یش کر دے اور اس ک ے بعد و ہ اخراجات م یں شریک ہ وں گ ے۔

1896 ۔ جب کوئ ی شخص فصل یا کھ جور اور ا نگور کی زکوٰۃ عین مال کی شکل میں حاکم شرع یا مستحق شخص یا ان کے وک یل کو دے د ے تو اس ک ے لئ ے ضرور ی نہیں کہ بلا معاوض ہ مشترک ہ طور پر ان چ یزوں کی حفاظت کرے بلک ہ و ہ فصل ک ی کٹ ائ ی یا کھ جور اور انگور ک ے خشک ہ ون ے تک مال زکوٰ ۃ اپنی زمین میں رہ ن ے ک ے بدل ے اجرت کا مطالب ہ کر سکتا ہے۔

1897 ۔ اگر انسان کئ ی شہ ر یوں میں فصل پکنے کا وقت ا یک دوسرے س ے مختلف ہ و اور ان سب ش ہ روں س ے فصل اور م یوے ایک ہی وقت میں دستیاب نہ ہ وت ے ہ وں اور یہ سب ایک سال کی پیداوار شمار ہ وت ے ہ وں تو اگر ان م یں سے جو چ یز پہ ل ے پک جائ ے وہ نصاب ک ے مطابق ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس پر اس کے پکن ے ک ے وقت زکوٰ ۃ دے اور باق ی ماندہ اجناس پر اس وقت زکوٰ ۃ دے جب و ہ دست یاب ہ وں اور اگر پ ہ ل ے پکن ے وال ی چیز نصاب کے برابر ن ہ ہ و تو انتظار کر ے تاک ہ باق ی اجناس پک جائیں۔ پ ھ ر اگر سب ملا کر نصاب ک ے برابر ہ وجائ یں تو ان پر زکوٰۃ واجب ہے اور اگر نصاب ک ے برابر نہ ہ وں تو ان پر زکو ۃ واجب نہیں ہے۔

1898 ۔ اگر ک ھ جور اور انگور ک ے درخت سال م یں دو دفعہ پ ھ ل د یں اور دونوں مرتبہ ک ی پیداوار جمع کرنے پر نصاب ک ے برابر ہ وجائ ے تو احت یاط کی بنا پر اس پیداوار پر زکوٰۃ واجب ہے۔

1899 ۔ اگر کس ی شخص کے پاس غ یر خشک شدہ ک ھ جور یں ہ وں یا انگور ہ وں جو خشک ہ ون ے ک ی صورت میں نصاب کے مطابق ہ وں تو اگر ان ک ے تاز ہ ہ ون ے ک ی حالت میں وہ زکوٰ ۃ کی نیت سے ان ک ی اتنی مقدار زکوٰۃ کے مصرف م یں لے آئ ے جتن ی ان کے خشک ہ ون ے پر زکو ۃ کی اس مقدار کے برابر ہ و جو اس پر واجب ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

1900 ۔ اگر کس ی شخص پر خشک کھ جور یا کشمش کی زکوٰۃ واجب ہ و تو و ہ ان ک ی زکوٰۃ تازہ ک ھ جور یا انگور کی شکل میں نہیں دے سکتا بلک ہ اگر و ہ خشک ک ھ جور یا کشمش کی زکوۃ کی قیمت لگائے اور انگور یا تازہ ک ھ جور یں یا کشمش یا کوئی اور خشک کھ جور یں اس قیمت کے طور پر د ے تو اس م یں بھی اشکال ہے ن یز اگر کسی پر تازہ ک ھ جور یا انگور کی زکوۃ واجب ہ و تو و ہ خشک ک ھ جور یا کشمش دے کر و ہ زکوٰ ۃ ادا نہیں کر سکتا بلکہ اگر و ہ ق یمت لگا کر کوئی دوسری کھ جور یا انگور دے تو اگرچ ہ و ہ تاز ہ ہی ہ و اس م یں اشکال ہے۔

1901 ۔ جو کچ ھ حکومت اصل ی مال سے (جس پر زکوٰ ۃ واجب ہ و) بطور محصول ل ے ل ے اس پر زکوٰ ۃ واجب نہیں ہے مثلاً اگر ک ھیت کی پیداوار 2000 کیلو ہ و اور حکومت اس م یں سے 100 کیلو بطور لگان کے ل ے ل ے تو زکوٰ ۃ فقط 1900 کیلو پر واجب ہے۔

1892 ۔ احت یاط واجب کی بنا پر انسان یہ نہیں کر سکتا کہ جو اخراجات اس ن ے زکو ۃ واجب ہ ون ے س ے پ ہ ل ے کئ ے ہ وں ان ہیں وہ پ یداوار سے من ہ ا کر ے اور صرف باق ی ماندہ پر زکوٰ ۃ دے۔

1893 ۔ زکوٰ ۃ واجب ہ ون ے ک ے بعد جو اخراجات کئ ے جائ یں اور جو کچھ زکوٰ ۃ کی مقدار کی نسبت خرچ کیا جائے و ہ پ یداوار سے من ہ ا ن ہیں کیا جاسکتا اگرچہ احت یاط کی بنا پر ھ اکم شرع یا اس کے وک یل سے اس کو خرچ کرن ے ک ی اجازت بھی لے ل ی ہ و ۔

1894 ۔ کس ی شخص کے لئ ے یہ واجب نہیں کہ و ہ انتظار کر ے تاک ہ جو اور گ یہ وں کھ ل یان تک پہ نچ جائ یں اور انگور اور کھ جور ک ے خشک ہ ون ے کا وقت ہ و جائ ے پ ھ ر زکوٰ ۃ دے بلک ہ جون ہی زکوٰۃ دے بلک ہ جون ہی زکوٰۃ واجب ہ وجائز ہے ک ہ زکوٰ ۃ کی مقدار کا اندازہ لگا کر و ہ ق یمت بطور زکوۃ دے۔

1895 ۔ زکوٰ ۃ واجب ہ ون ے ک ے بعد متعلق ہ شخص یہ کر سکتا ہے ک ہ ک ھڑی فصل کاٹ ن ے یا کھ جور اور انگور کو چنن ے س ے پ ہ ل ے زکوٰ ۃ مستحق شخص یا حاکم شرع یا اس کے وک یل کو مشترکہ طور پر پ یش کر دے اور اس ک ے بد و ہ اخراجات م یں شریک ہ وں گ ے۔

1896 ۔ جب کوئ ی شخص فصل یا کھ جور اور انگور ک ی زکوٰۃ عین مال کی شکل میں حاکم شرع یا مستحق شخص یا ان کے وک یل کو دے د ے تو اس ک ے لئ ے ضرور ی نہیں کہ بلامعاوض ہ مشترک ہ طور پر ان چ یزوں کی حفاظت کرے بلکہ و ہ فصل ک ی کٹ ائ ی یا کھ جور اور انگور ک ے خشک ہ ون ے تک مال زکوٰ ۃ اپنی زمین میں رہ ن ے ک ے بدل ے اجرت کا مطالب ہ کر سکتا ہے۔

1897 ۔ اگر انسان کئ ی شہ روں م یں گیہ وں،جَو، کھ جور یا انگور کا مالک ہ و اور ان ش ہ روں م یں فصل پکنے کا وقت ا یک دوسرے س ے مختلف ہ و اور ان سب ش ہ روں س ے فصل اور م یوے ایک ہی وقت میں دستیاب نہ ہ وت ے ہ وں اور یہ سب ایک سال کی پیداوار شمار ہ وت ے ہ وں تو اگر ان م یں سے جو چ یز پہ ل ے پک جائے و ہ نصاب ک ے مطابق ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس پر اس ک ے پکن ے ک ے وقت زکوٰ ۃ دے اور باق ی ماندہ اجناس پر اس وقت زکوٰۃ دے جب و ہ دست یاب ہ وں اور اگر پ ہ ل ے پکن ے وال ی چیز نصاب کے برابر ن ہ ہ و تو انتظار کر ے تاک ہ باق ی اجناس پک جائیں۔ پ ھ ر اگر سب ملا کر نصاب ک ے برابر ہ وجائ یں تو ان پر زکوٰۃ واجب ہے اور اگر نصاب ک ے برابر ن ہ ہ وں تو ان پر زکوٰ ۃ واجب نہیں ہے۔

1898 ۔ اگر ک ھ جو ر اور انگور کے درخت سال م یں دو دفعہ پ ھ ل د یں اور دونوں مرتبہ ک ی پیداوار جمع کرنے پر نصاب ک ے برابر ہ وجائ ے تو احت یاط کی بنا پر اس پیداوار پر زکوٰۃ واجب ہے۔

1899 ۔ اگر کس ی شخص کے پاس غ یر خشک شدہ ک ھ جور یں ہ وں یا انگور ہ وں جو خشک ہ ون ے ک ی صورت میں نصاب کے مطابق ہ وں تو اگر ان ک ے تاز ہ ہ ون ے ک ی حالت میں وہ زکوٰ ۃ کی نیت سے ان ک ی اتنی مقدار زکوٰۃ کے مصرف م یں لے آئ ے جتن ی ان کے خشک ہ ون ے پر زکوٰ ۃ کی اس مقدار کے برابر ہ و جو اس پر واجب ہے تو اس م یں کوئی حرج نہیں۔

1900 ۔ اگر کس ی شخص پر خشک کھ جور یا کشمش کی زکوٰۃ واجب ہ و تو و ہ ان ک ی زکوٰۃ تازہ ک ھ جور یا انگور کی شکل میں نہیں دے سکتا بلک ہ اگر و ہ خشک ک ھ جور یا کشمش کی زکوٰۃ کی قیمت لگائے اور انگور یا تازہ ک ھ جور یں یا کشمش یا کوئی اور خشک کھ جور یں اس قیمت کے طور پر د ے تو اس میں بھی اشکال ہے ن یز اگر کسی پر تازہ ک ھ جور یا انگور کی زکوٰۃ واجب ہ و تو و ہ خشک ک ھ جور یا کشمش دے کر و ہ زکوٰ ۃ ادا نہیں کر سکتا بلکہ اگر و ہ ق یمت لگا کر کوئی دوسری کھ جور یا انگور دے تو اگرچ ہ و ہ تاز ہ ہی ہ و اس م یں اشکال ہے۔

1901 ۔ اگر کوئ ی ایسا شخص مرجائے جو مقروض ہ و اور اس ک ے پاس ا یسا مال بھی ہ و جس پرزکوٰ ۃ وجاب ہ وچک ی ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ جس مال پر زکوٰ ۃ واجب ہ وچک ی ہ و پ ہ ل ے اس م یں سے تمام زکوٰ ۃ دی جائے اور اس ک ے بعد اس کا قرض ہ ادا ک یا جائے۔

1902 ۔ اگر کوئ ی ایسا شخص مر جائے جو مقروض ہ و اور اس ک ے پاس گ یہ وں،جَو، کھ جور یا انگور بھی ہ و اور اس س ے پ ہ ل ے ک ہ ان اجناس پر زکوٰ ۃ واجب ہ و اس ک ے ورثاء اس کا قرض ہ کس ی دوسرے مال س ے ادا کرد یں تو جس وارث کا حصہ نصاب ک ی مقدار تک پہ نچتا ہ و ضرور ی ہے ک ہ زکوٰ ۃ دے اور ا گر اس سے پ ہ ل ے ک ہ زکو ۃ ان اجناس پر واجب ہ و متوف ی کا قرضہ ادا ن ہ کر یں اور اگر اس کا مال فقط اس قرضے جتنا ہ و تو ورثاء ک ے لئ ے واجب ن ہیں کہ ان اجناس پر زکوٰ ۃ دیں اوعر اگر متوفی کا مال اس کے قرض س ے ز یادہ ہ و جبک ہ متوف ی پر اتنا قرض ہ و ک ہ اگر اس ے ادا کرنا چا ہیں تو ادا کرسکیں ضروری ہے ک ہ گ یہ وں، جَو، کھ جور اور انگور م یں سے کچ ھ مقدار ب ھی قرض خواہ کو د یں لہ ذا جو کچ ھ قرض خوا ہ کو د یں اس پر زکوۃ نہیں ہے اور باق ی ماندہ مال پر وارثوں م یں سے جس کا ب ھی حصہ زکو ۃ کے نصاب ک ے برابر ہ و اس ک ی زکوٰۃ دینا ضروری ہے۔

1903 ۔ جس شخص ک ے پاس اچ ھی اور گھٹیا دونوں قسم کی گندم، جَو، کھ جور اور انگور ہ وں جن پر زکوٰ ۃ واجب ہ وگئ ی ہ و اس ک ے لئ ے احت یاط واجب یہ ہے ک ہ اچ ھی اور گھٹیادونوں اقسام میں سے الگ الگ زکوٰ ۃ نکالے۔

سونے کا نصاب

1904 ۔ سون ے ک ے نصاب دو ہیں :

اس کا پہ لا انصاب ب یس مثقال شرعی ہے جب ک ہ ہ ر مثقال شرع ی 18 نخود کا ہ وتا ہے پس جس وقت سون ے ک ی مقدار بیس مثقال شرعی تک جو آجکل کے پندر ہ مثقال ک ے برابر ہ وت ے ہیں پہ نچ جائ ے اور و ہ دوسر ی شرائط بھی پوری ہ وت ی ہ وں جو ب یان کی جاچکی ہیں تو ضروری ہے ک ہ انسان اس کا چال یسواں حصہ جو 9 نخود کے برابر ہ وتا ہے۔ زکوٰ ۃ کے طور پر د ے اور اگر سونا اس مقدار تک ن ہ پ ہ نچ ے تو اس پر زکوٰ ۃ واجب نہیں ہے۔ اور اس کا دوسرا انصاب چار مثقال شرعی ہے جو آجکل ک ے ت ین مثقال کے برابر ہ وت ے ہیں یعنی اگر پندرہ مثقال پر ت ین مثقال کا اضافہ ہ و جائ ے تو ضر وری ہے ک ہ تمامتر 18 مثقال پر ڈھ ائ ی فیصد کے حساب س ے زکوٰ ۃ دے اور اگر ت ین مثقال سے کم اضاف ہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ صرف 15 مثقال پر زکوٰۃ دے اور اس صورت م یں اضافے پر زکوٰ ۃ نہیں ہے اور جوں جوں اضاف ہ ہ و اس ک ے لئ ے یہی حکم ہے یعنی اگر تین مثقال اضافہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ تمامتر مقدار پر زکوٰ ۃ دے اور اگر اضاف ہ ت ین مثقال سے کم ہ و تو جو مقدار ب ڑھی ہ و اس پر کوئ ی زکوٰۃ نہیں ہے۔

چاندی کا نصاب

1905 ۔ چاند ی کے نصاب دو ہیں :

اس کا پہ لا نصاب 105 مروجہ مثقال ہے ل ہ ذا جب چاند ی کی مقدار 105 مثقال تک پہ نچ جائ ے اور و ہ دوسر ی شرائط بھی پوری کرتی ہ و جو ب یان کی جاچکی ہیں تو ضروری ہے ک ہ انسان اس کا ڈھ ائ ی فیصد جو دو مثقال اور 15 نخود بنتا ہے بطور زکوٰ ۃ دے اور اگر و ہ اس مقدار تک ن ہ پ ہ نچ ے تو اس پر زکوٰ ۃ واجب نہیں ہے اور اس کا دوسرا نصاب 21 مثقال ہے یعنی اگر 105 مثقال پر 21 مثقال کا اضافہ ہ و جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ ج یسا کہ بتا یا جاچکا ہے پور ے 166 مثقال پر زکوٰۃ دے اور اگر 21 مثقال سے کم اضاف ہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ صرف 105 مثقال پر زکوٰۃ دے اور جو اضاف ہ ہ وا ہے اس پر زکوٰ ۃ نہیں ہے اور جتنا ب ھی اضافہ ہ وتا جائ ے یہی حکم ہے یعنی اگر 21 مثقال کا اضافہ ہ و تو ضرور ی ہے تمامتر مقدار پر زکوٰ ۃ دے اور اگر اس س ے کم اضاف ہ ہ و تو و ہ مقدار ج س کا اضافہ ہ وا ہے اور جو 21 مثقال سے کم ہے اس پر زکوٰ ۃ نہیں ہے۔ اس بنا پر انسان ک ے پاس جتنا سونا یا چاندی ہ و اگر و ہ اس کا چال یسواں حصہ بطور زکوٰ ۃ دے تو و ہ ا یسی زکوۃ ادا کرے گا جو اس پر واجب ت ھی اور اگر وہ کس ی وقت واجب مقدار سے کچ ھ ز یادہ دے مثلاً اگر کس ی کے پاس 110 مثقال چاندی ہ و اور و ہ اس کا چال یسوں حصہ د ے تو 105 مثقال کی زکوٰۃ تو وہ ہوگی جو اس پر واجب تھی اور 5 مثقال پر وہ ا یسی زکوٰۃ دے گا جو اس پر واجب ن ہ ت ھی۔

1906 ۔ جس شخص ک ے پاس نصاب ک ے مطابق سونا یا چاندی ہ و اگرچ ہ و ہ اس پر زکو ۃ دے د ے ل یکن جب تک اس کے پاس سونا یا چاندی پہ ل ے نصاب س ے کم ن ہ ہ وجائ ے ضرور ی ہے ک ہ ہ ر سال ان پر زکوٰ ۃ دے۔

1907 ۔ سون ے اور چاند ی پر زکوۃ اس صورت میں واجب ہ وت ی ہے جب و ہ ضرور ی ہے ڈھ ل ے ہ وئ ے سکوں ک ی صورت میں ہ وں اور ان ک ے ذر یعے لین دین کا رواج ہ و اور اگر ان ک ی مہ ر م ٹ ب ھی چکی ہ و تب ب ھی ضروری ہے ک ہ ان زکو ۃ دی جائے۔

1907 ۔ سون ے اور چاند ی پر زکوٰۃ اس صورت میں واجب ہ وت ی ہے جب و ہ ضرور ی ہے ڈھ ل ے ہ وئ ے سکوں ک ی صورت میں ہ وں اور ان ک ے ذر یعے لین دین کا رواج ہ و اور اگر ان ک ی مہ ر م ٹ ب ھی چکی ہ و تب ب ھی ضروری ہے ک ہ ان پر زکوٰ ۃ دی جائے۔

1908 ۔ و ہ سک ہ دار سونا اور چاند ی جنہیں عورتیں بطور زیور پہ نت ی ہ وں جب تک و ہ رائج ہ وں یعنی سونے اور چاند ی کے سکوں ک ے طور پر ان ک ے ذر یعے لین دین ہ وتا ہ و احت یاط کی بنا پر ان کی زکوٰۃ دینا واجب ہے ل یکن اگر ان کے ذر یعے لین دین کا رواج باقی نہ ہ و تو ان زکوٰ ۃ واجب نہیں ہے۔

1909 ۔ جس شخص ک ے پاس سونا اور چاند ی دونوں ہ ون اگر ان م یں سے کوئ ی بھی پہ ل ے نصاب ک ے برابر ن ہ ہ و مثلاً اس ک ے پاس 104 مثقال چاندی اور 14 مثقال سونا ہ و تو اس پر زکوٰ ۃ واجب نہیں ہے۔

1910 ۔ ج یسا کہ پ ہ ل ے بتا یا گیا ہے سون ے اور چاند ی پر زکوٰۃ اس صورت میں واجب ہ وت ی ہے جب و ہ گ یارہ مہینے نصاب کی مقدار کے مطابق کس ی شخص کی ملکیت میں رہیں اور اگر گیارہ مہینوں میں کسی وقت سونا اور چاندی پہ ل ے نصاب س ے کم ہ وجائ یں تو اس شخص زکوۃ واجب نہیں ہے۔

1911 ۔ اگر کس ی شخص کے پاس سونا اور چاند ی ہ و اور و ہ گ یارہ مہینے کے دوران ان ہیں کسی دوسری چیز سے بدل ل ے یا انہیں پگھ لا ل ے تو اس پر زکوٰ ۃ واجب نہیں ہے۔ ل یکن اگر وہ زکوٰ ۃ سے بچن ے ک ے لئ ے ان کو سون ے یا چاندی سے بدل ل ے یعنی سونے کو سون ے یا چاندی سے یاچاندی کو چاندی یا سونے س ے بدل ل ے تو احت یاط واجب ہے ک ہ زکوٰ ۃ دے۔

1912 ۔ اگر کوئ ی شخص بارھ و یں مہینے میں سونا یا چاندی پگھ لائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ ان پر زکوٰ ۃ دے اور اگر پگ ھ لان ے ک ی وجہ س ے ان کا وزن یا قیمت کم ہ و جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ ان چ یزوں کو پگھ لان ے س ے پ ہ ل ے جو زکو ۃ اس پر واجب تھی وہ د ے۔

1913 ۔ اگر کس ی شخص کے پاس جو سونا اور چاند ی ہ و اس م یں سے کچ ھ ب ڑھیا اور کچھ گ ھٹیا قسم کا ہ و تو و ہ ب ڑھیا کی زکوۃ بڑھیا میں سے اور گ ھٹیا کی زکوٰۃ گھٹیا میں سے د ے سکتا ہے۔ ل یکن احتیاط کی بنا پر وہ گ ھٹیا حصے م یں سے تماما زکوٰ ۃ نہیں دے سکتا بلک ہ ب ہ تر یہ ہے ک ہ سار ی زکوٰۃ بڑھیا سونے اور چاند ی میں سے د ے۔

1914 ۔ سون ے اور چاند ی کے سک ے جن م یں معمول سے ز یادہ دوسری دھ ات ک ی آمیزش ہ و اگر ان ہیں چاندی اور سونے ک ے سک ے ک ہ ا جاتا ہ و تو اس صورت م یں جب وہ نصاب ک ی حد تک پہ نچ جائ یں ان پر زکوٰۃ واجب ہے گو ان کا خالص حص ہ نصاب ک ی حد تک نہ پ ہ نچ ے ل یکن اگر انہیں سونے اور چاند ی کے سکے ن ہ ک ہ ا جاتا ہ و تو خواہ ان کا خالص حص ہ نصاب ک ی حد تک پہ نچ ب ھی جائے ان پر زکوٰ ۃ کا واجب ہ ونا محل اشکال ہے۔

1915 ۔ جس شخص ک ے پاس سون ے اور چاند ی کے سک ے ہ وں اگر ان م یں دوسری دھ ات ک ی آمیزش معمول کے مطابق ہ و تو اگر و ہ شخص ان ک ی زکوٰۃ سونے اور چاند ی کے ا یسے سکوں میں دے جن م یں دوسری دھ ات ک ی آمیزش معمول سے ز یادہ ہ و یا ایسے سکوں میں دے جو سون ے اور چاند ی کے بن ے ہ وئ ے ن ہ ہ وں لیکن یہ سکے اتن ی مقدار میں ہ وں ک ہ ان ق یمت اس زکوٰۃ کی قیمت کے برابر ہ و جو اس پر واجب ہ وگئ ی ہے تو اس م یں کوئی حرج نہیں ہے۔

اونٹ ، گائے ب ھیڑ ، بکری کی زکوٰۃ

1916 ۔ اون ٹ ، گائ ے اور ب ھیڑ بکری کی زکوٰۃ کے لئ ے ان شرائط ک ے علاو ہ جن کا ذکر آچکا ہے ا یک شرط اور بھی ہے اور و ہ یہ کہ ح یوان سارا سال صرف (خودرو) جنگلی گھ اس چرتا ر ہ ا ہ و ۔ ل ہ ذا اگر سارا سال یا اس کا کچھ حص ہ کا ٹی ہ وئ ی گھ اس ک ھ ائ ے یا ایسی چراگاہ م یں چرے جو خود اس شخص کی (یعنی حیوان کے مالک ک ی) یا کسی دوسرے شخص ک ی ملکیت ہ و تو اس ح یوان پر زکوٰۃ نہیں ہے ل یکن اگر وہ ح یوان سال بھ ر م یں ایک یا دودن مالک کی مملوکہ گ ھ اس ( یاچارا)کھ ائ ے تو اس ک ی زکوٰۃ واجب ہے۔ ل یکن اونٹ ، گائ ے اور ب ھیڑ کی زکوٰۃ واجب ہ ون ے م یں احتیاط کی بنا پر شرط یہ نہیں ہے ک ہ سارا سال ح یوان بے کار ر ہے بلک ہ اگر آب یاری یاہ ل چلانے یا ان جسے امور م یں ان حیوانوں سے استفاد ہ ک یا جائے تو احت یاط کی بنا پر ضروری ہے ک ہ ان ک ی زکوٰۃ دے۔

اونٹ کے نصاب

1918 ۔ اون ٹ ک ی نصاب بارہ ہیں۔

1 ۔ پانچ اون ٹ۔ اور ان ک ی زکوٰۃ ایک بھیڑ ہے اور جب تک اونٹ وں ک ی تعداد اس حد تک نہ پ ہ نچ ے ، زکوٰ ۃ (واجب) نہیں ہے۔

2 ۔ دس اون ٹ۔ اور ان ک ی زکوٰۃ دو بھیڑیں ہیں۔

3 ۔ پندر ہ اون ٹ۔ اور ان ک ی زکوٰۃ تین بھیڑیں ہیں۔

4 ۔ ب یس اونٹ۔ اور ان ک ی زکوٰۃ چار بھیڑیں ہیں ۔

5 ۔ پچ یس اونٹ۔ اور ان ک ی زکوٰۃ پانچ بھیڑیں ہیں۔

6 ۔ چ ھ ب یس اونٹ۔ اور ان ک ی زکوٰۃ ایک ایسا اونٹ ہے جو دوسر ے سال م یں داخل ہ و چکا ہ و ۔

7 ۔ چ ھ ت یس اونٹ۔ اور ان ک ی زکوٰۃ ایک ایسا اونٹ ہے جو ت یسرے سال میں داخل ہ وچکا ہ و ۔

8 ۔ چ ھیالیس اونٹ۔ اور ان ک ی زکوٰۃ ایک ایسا اونٹ ہے جو چوت ھے سال م یں داخل ہ وچکا ہ و ۔

9 ۔ اکس ٹھ اون ٹ۔ اور ان ک ی زکوٰۃ ایک ایسا اونٹ ہے جو پانچو یں سال میں داخل ہ وچکا ہ و ۔

10 ۔ چ ھ تر اون ٹ۔ اور ان ک ی زکوٰۃ دو ایسے اونٹ ہیں جو تیسرے سال میں داخل ہ وچک ے ہ وں ۔

11 ۔ اک یانوے اونٹ ۔ اور ان ک ی زکوٰۃ دو ایسے اونٹ ہیں جو چوتھے سال م یں داخل ہ وں ۔

12 ۔ ا یک سو اکیس اونٹ اور اس س ے اوپر جتن ے ہ وت ے جائ یں ضروری ہے ک ہ زکوٰ ۃ دینے والا یا تو ان کا چالیس سے چال یس تک حساب کرے اور ہ ر چال یس اونٹ وں ک ے لئ ے ا یک اونٹ د ے جو چوت ھے سال م یں داخل ہ وچکا ہ و یا چالیس اور پچاس دونوں سے حساب کر ے ل یکن ہ ر صورت م یں اس طرح حساب کرنا ضروری ہے ک ہ کچ ھ باق ی نہ بچ ے یا اگر بچے ب ھی تو نو سے ز یادہ نہ ہ و مثلاً اگر اس ک ے پاس 140 اونٹ ہ وں تو ضرور ی ہے ک ہ ا یک سو لئے دو ا یسے اونٹ د ے جو چوت ھے سال م یں داخل ہ وچک ے ہ وں اور چال یس کے لئ ے ا یک ایسا اونٹ د ے جو ت یسرے سال میں داخل ہ وچکا ہ و اور جو اون ٹ زکوٰ ۃ میں دیا جائے اس کا ماد ہ ہ ونا ضرور ی ہے۔

1919 ۔ دو نصابوں ک ے درم یان زکوٰۃ واجب نہیں ہے ل ہ ذا اگر ا یک شخص جو اونٹ رک ھ تا ہ و ان ک ی تعداد پہ ل ے نصاب س ے جو پانچ ہے ، ب ڑھ جائ ے تو جب تک و ہ دوسر ے نصاب تک جو دس ہے ن ہ پ ہ نچ ے ضرور ی ہے ک ہ فقط پانچ پر زکوٰ ۃ دے اور باق ی نصابوں کی صورت بھی ایسی ہی ہے۔

گائے کا نصاب

1920 ۔ گائ ے ک ے دو نصاب ہیں:

اس کا پہ لا نصاب ت یس ہے۔ جب کس ی شخص کی گایوں کی تعداد تیس تک پہ نچ جائ ے اور و ہ شرائط ب ھی پوری ہ وت ی ہ وں جن کا ذکر ک یا جاچکا ہے تو ضرور ی ہے ک ہ گائ ے کا ا یک ایسا بچہ جو دوسر ے سال م یں داخل ہ وچکا ہ و زکوٰ ۃ کے طور پر د ے اور احت یاط واجب یہ ہے ک ہ و ہ بچ ھڑ ا ہ و ۔ اور اس ک ا دوسرا نصاب چالیس ہے اور اس ک ی زکوٰۃ ایک بچھیا ہے جو ت یسرے سال میں داخل ہ وچک ی ہ و اور ت یس اور چالیس کے درم یان زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ مثلاً جس شخص ک ے پاس انتال یس گائیں ہ وں ضرور ی ہے ک ہ صرف ت یس کی زکوٰۃ دے اور اگر اس ک ے پاس چال یس سے ز یادہ گائیں ہ وں تو جب تک ان ک ی تعداد ساٹھ تک ن ہ پ ہ نچ جائ ے ضرور ی ہے ک ہ صرف چال یس پر زکوٰۃ دے۔ اور جب ان ک ی تعداد ساٹھ تک پ ہ نچ جائ ے تو چونک ہ یہ تعداد پہ ل ے نصاب س ے دگن ی ہے اس لئ ے ضرور ی ہے ک ہ دو ا یسے بچھڑے بطور زکوٰ ۃ دے جو دوسر ے سال م یں داخل ہ وچک ے ہ وں اور اس ی طرح جوں جوں گایوں کی تعداد بڑھ ت ی جائے ضرور ی ہے ک ہ یا تو تیس سے ت یس تک حساب کرے یا چالیس سے چال یس تک یا تین اور چالیس دونوں کا حساب کرے اور ان پر اس طر یقے کے مطابق زکوٰ ۃ دے جو بتا یا گیا ہے۔ ل یکن ضروری ہے ک ہ اس طرح حساب کرے ک ہ کچ ھ باق ی نہ بچ ے اور اگر کچ ھ بچ ے تو نو س ے ز یادہ نہ ہ و مثلا اگ ر اس کے پاس ستر گائ یں ہ وں تو ضرور ی ہے ک ہ ت یس اور چالیس کے مطابق حساب کر ے اور ت یس کے لئ ے ت یس کی اور چالیس کی زکوٰۃ دے ک یونکہ اگر وہ ت یس کے لحاظ س ے حساب کر ے گا تو دس گائ یں بغیر زکوٰۃ دیئے رہ جائ یں گی۔

بھیڑ کا نصاب

1921 ۔ ب ھیڑ کے پانچ نصاب ہیں۔

پہ لا نصاب 40 ہے اور اس ک ی زکوٰۃ ایک بھیڑ ہے اور جب تک ب ھیڑ وں کی تعداد چالیس تک نہ پ ہ نچ ے ان پر زکوٰ ۃ نہیں ہے۔

دوسرا نصاب 121 ہے اور اس ک ی زکوٰۃ دو بھیڑیں ہیں۔

تیسرا نصاب 201 ہے اور اس ک ی زکوۃ تین بھیڑیں ہیں۔

چوتھ ا نصاب 301 ہے اور اس ک ی زکوٰۃ چار بھیڑیں ہیں۔

پانچواں نصاب 400 اور اس سے اوپر ہے اور ان کا حساب سو س ے سو تک کرنا ضرور ی ہے اور ہ ر سو ب ھیڑ وں پر ایک بھیڑ دی جائے اور یہ ضروری نہیں کہ زکوٰ ۃ انہی بھیڑ وں میں سے د ی جائے بلک ہ اگر کوئ ی اور بھیڑیں دے د ی جائیں یا بھیڑ وں کی قیمت کے برابر نقد ی دے د ی جائے تو کاف ی ہے۔

1922 ۔ دو نصابوں ک ے درم یان زکوٰۃ واجب نہیں ہے ل ہ ذا اگر کس ی کی بھیڑ وں کی تعداد پہ ل ے نصاب س ے جو ک ہ چال یس ہے ز یادہ ہ و ل یکن دوسرے نصاب تک جو 121 ہے ن ہ پ ہ نچ ی ہ و تو اس ے چا ہ ئ ے ک ہ صرف چال یس پر زکوٰۃ دے اور جو تعداد اس س ے ز یادہ ہ و اس پر زکوٰ ۃ نہیں ہے اور اس ک ے بعد ک ے نصابوں کے لئ ے ب ھی یہی حکم ہے۔

1923 ۔ اون ٹ ، گائ یں اور بھیڑیں جب نصاب کی حد تک پہ نچ جائ یں تو خواہ و ہ سب نر ہ وں یا مادہ یا کچھ نر ہ وں اور کچ ھ ماد ہ ان پر زکوٰ ۃ واجب ہے۔

1924 ۔ زکوٰ ۃ کے ضمن م یں گائے اور ب ھینس ایک جنس شمار ہ وت ی ہیں اور عربی میں غیر عربی اونٹ ا یک جنس ہیں۔ اس ی طرح بھیڑ ، بکرے اور دنب ے م یں کوئی فرق نہیں ہے۔

1925 ۔ اگر کوئ ی شخص زکوٰۃ کے طور پر ب ھیڑ دے تو احت یاط واجب کی بنا پر ضروری ہے ک ہ و ہ کم از کم دوسر ے سال م یں داخل ہ وچک ی ہ و اور اگر بکر ی دے تو احت یاط ضروری ہے ک ہ و ہ ت یسرے سال میں داخل ہ وچک ی ہ و ۔

1926 ۔ جو ب ھیڑ کوئی شخص زکوٰۃ کے طور پر د ے اگر اس ک ی قیمت اس کی بھیڑ وں سے معمول ی سی کم بھی ہ و تو کوئ ی حرج نہیں لیکن بہ تر ہے ک ہ ا یسی بھیڑ دے جس ک ی قیمت اس کی ہ ر ب ھیڑ سے ز یادہ ہ و ۔ ن یز گائے اور اون ٹ ک ے بار ے م یں بھی یہی حکم ہے۔

1927 ۔ اگر کئ ی افراد باہ م حص ے دار ہ وں تو جس جس کا حص ہ پ ہ ل ے نصاب تک پ ہ نچ جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ زکوٰ ۃدے اور جس کا حصہ پ ہ ل ے نصاب س ے کم ہ و اس پر زکوٰ ۃ واجب نہیں۔

1928 ۔ اگر ا یک شخص کی گائیں یا اونٹ یا بھیڑیں مختلف جگھ وں پ ر ہ وں اور و ہ سب ملا کر نصاب ک ے برابر ہ وں تو ضرور ی ہے ک ہ ان ک ی زکوٰۃ دے۔

1929 ۔ اگر کس ی شخص کی گائیں، بھیڑیں یا اونٹ ب یمار اور عیب دار ہ وں تب ب ھی ضروری ہے ک ہ ان ک ی زکوٰۃ دے۔

1930 ۔ اگر کس ی شخص کی ساری گائیں، بھیڑیں یا اونٹ ب یمار یا عیب دار یا بوڑھے ہ وں تو و ہ خود ان ہی میں سے زکوٰ ۃ دے سکتا ہے ل یکن اگر وہ سب تندرست، ب ے ع یب اور جوان ہ وں تو و ہ ان ک ی زکوٰۃ میں بیمار یا عیب دار یا بوڑھے جانور ن ہیں دے سکتا بلک ہ اگر ان م یں سے بعض تندرست اور بعض ب یمار، کچھ ع یب دار اور کچھ ب ے ع یب اور کچھ بو ڑھے اور کچ ھ جو ان ہ وں تو احت یاط واجب یہ ہے ک ہ ان ک ی زکوٰۃ میں تندرست، بے ع یب اور جوان جانور دے۔

1931 ۔ اگر کوئ ی شخص گیارہ مہینے ختم ہ ون ے س ے پ ہ ل ے اپن ی گائیں، بھیڑیں اور اونٹ کس ی دوسری چیز سے بدل ل ے یا جو نصاب بنتا ہ و اس ے اس ی جنس کے اتن ے ہی نصاب سے بدل ل ے مثلاً چال یس بھیڑیں دے کر چال یس اور بھیڑیں لے ل ے تو اگر ا یسا کرنا زکوٰۃ سے بچن ے ک ی نیت سے ن ہ ہ و تو ا س پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔ ل یکن اگر زکوٰۃ سے بچن ے ک ی نیت سے ہ و تو اس صورت م یں جب کہ دونوں چ یزیں ایک ہی نوعیت کا فائدہ رک ھ ت ی ہ وں مثلاً دونوں ب ھیڑیں دودھ د یتی ہ وں تو احت یاط لازم یہ ہے ک ہ اس ک ی زکوٰۃ دے۔

1932 ۔ جس شخص کو گائ ے۔ ب ھیڑ اور اونٹ ک ی زکوٰۃ دینی ضروری ہ و اگر و ہ ان ک ی زکوٰۃ اپنے کس ی دوسرے مال س ے د ے د ے تو جب تک ان جانوروں ک ی تعداد نصاب سے کم ن ہ ہ و ضرور ی ہے ک ہ ہ ر سال زکوٰ ۃ دے اور اگر و ہ زکوٰ ۃ انہی جانوروں میں سے د ے اور و ہ پ ہ ل ے نصاب سے کم ہ و جائ یں تو زکوٰۃ اس پر واجب نہیں ہے مثلاً جو شخص چال یس بھیڑیں رکھ تا ہ و اگر و ہ ان ک ی زکوٰۃ اپنے دوسر ے مال س ے د ے د ے تو جب تک اس ک ی بھیڑیں چالیس سے کم ن ہ ہ وں ضرور ی ہے ک ہ ہ ر سال ا یک بھیڑ دے اور اگر خود ان ب ھیڑ وں میں سے زکوٰ ۃ دے تو جب تک ان ک ی تعداد چالیس تک نہ پ ہ نچ جائ ے ا س پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔

مال تجارت کی زکوٰۃ

جس مال کا انسان معاوضہ د ے کر مالک ہ وا ہ و اور اس ن ے و ہ مال تجارت اور فائد ہ حاصل کرن ے ک ے لئ ے محفوظ رک ھ ا ہ و تو احت یاط کی بنا پر ضروری ہے ک ہ (مندرج ہ ذ یل) چند شرائط کے سات ھ اس ک ی زکوٰۃ دے جو چالیسوں حصہ ہے۔

1 ۔ مالک بالغ اور عاقل ہ و ۔

2 ۔ مال نصاب ک ی مقدار تک پہ نچ گ یا ہ و اور و ہ نصاب سون ے اور چاند ی کے نصاب ک ے برابر ہے۔

3 ۔ جس وقت س ے اس مال س ے فائد ہ ا ٹھ ان ے ک ی نیت کی ہ و، اس پر ا یک سال گزر جائے

4 ۔ فائد ہ ا ٹھ ان ے ک ی نیت پورے سال باق ی رہے۔ پس اگر سال کے دوران اس ک ی نیت بدل جائے مثلاً اس کو اخراجات ک ی مد میں صرف کرنے ک ی نیت کرے تو ضرور ی نہیں کہ اس پر زکوٰ ۃ دے۔

5 ۔ مالک اس مال م یں پورا سال تصرف کر سکتا ہ و ۔

6 ۔ تمام سال اس ک ے سرمائ ے ک ی مقدار یا اس سے ز یادہ پر خریدار موجود ہ و ۔ پس اگر سال ک ے کچ ھ حص ے م یں سرمائے س ے کم تر مال کا خر یدار ہ و تو اس پر زکوٰ ۃ دینا واجب نہیں ہے۔

زکوٰۃ کا مصرف

1933 ۔ زکوٰ ۃ کا مال آٹھ مصرف م یں خرچ ہ وسکتا ہے۔

1 ۔ فق یر۔ و ہ (غر یب محتاج)شخص جس کے پاس اپن ے اور اپن ے ا ہ ل و ع یال کے لئ ے سال ب ھ ر ک ے اخراجات ن ہ ہ وں فق یر ہے ل یکن جس شخص کے پاس کوئ ی ہ نر یا جائداد یا سرمایہ ہ و جس س ے و ہ اپن ے سال ب ھ ر ک ے اخراجات پور ے کر سکتا ہ و و ہ فق یر نہیں ہے۔

2 ۔ مَسکِ ین۔ و ہ شخص جو فق یر سے ز یادہ تنگدست ہ و، مسک ین ہے۔

3 ۔ و ہ شخص جو امام عصر عل یہ السلام یا نائب امام کی جانب سے اس کام پر مامور ہ و ک ہ زکوٰ ۃ جمع کرے ، اس ک ی نگہداشت کرے ، حساب ک ی جانچ پڑ تال کر ے اور جمع ک یا ہ وا مال امام عل یہ السلام یا نائب امام یا فقراء (و مساکین) کو پہ نچائ ے۔

4 ۔ و ہ کفار جن ہیں زکوٰۃ دی جائے تو و ہ د ین اسلام کی جانب مائل ہ وں یا جنگ میں یا جنگ کے علاو ہ مسلمانوں ک ی مدد کریں۔ اس ی طرح وہ مسلمان جن کا ا یمان ان بعض چیزوں پر جو پیغمبر اسلام صلی اللہ عل یہ وآلہ وسلم لائ ے ہیں کمزور ہ و ل یکن اگر ان کو زکوٰۃ دی جائے تو ان ک ے ایمان کی تقویت کا سبب بن جائے یا جو مسلمان (شہ نشا ہ ولا یت) امام علی علیہ السلام کی ولایت پر ایمان نہیں رکھ ت ے ل یکن اگر ان کو زکوٰۃ دی جائے تو و ہ ام یرالمومنین علیہ السلام کی ولایت (کبری) کی طرف مائل ہ وں اور اس پر ا یمان لے آئ یں۔

5 ۔ غلاموں کو خر ید کر انہیں آزاد کرنا۔ جس ک ی تفصیل اس کے باب م یں بیان ہ وئ ی ہے۔

6 ۔ و ہ مقروض جو اپنا قرض ادا ن ہ کرسکتا ہ و ۔

7 ۔ فِ ی سَبِیلِ اللہ یعنی وہ کام جن کا فا ئدہ تمام مسلمانوں کو پ ہ نچتا ہ و مثلاً مسجد بنانا، ا یسا مدرسہ تعم یر کرنا جہ اں د ینی تعلیم دی جاتی ہ و، ش ہ ر ک ی صفائی کرنا نیز سڑ کوں کو پخت ہ بنانا اور ان ہیں چوڑ ا کرنا اور ان ھی جیسے دوسرے کام کرنا ۔

8 ۔ اِبنُ السَّبِ یل یعنی وہ مسافر جو سفر م یں ناچار ہ وگ یا ہ و ۔

یہ وہ مد یں ہیں جہ اں زکوٰ ۃ خرچ ہ وت ی ہے ل یکن اقوی کی بنا پر مالک زکوٰۃ کو امام یا نائب امام کی اجازت کے بغ یر مد نمبر 3 اور مد نمبر 4 میں خرچ نہیں کر سکتا اور اسی طرح احتیاط لازم کی بنا پر مد نمبر 7 کا حکم بھی یہی ہے اور مذکور ہ مدوں ک ے احکام آئند ہ مسائل م یں بیان کئے جائ یں گے۔

1934 ۔ احت یاط واجب یہ ہے ک ہ فق یر اور مسکین اپنے اور اپن ے ا ہ ل و ع یال کے سال ب ھ ر ک ے اخراجات س ے ز یادہ زکوٰۃ نہ ل ے اور اگر اس ک ے پاس کچ ھ رقم یا جنس ہ و تو فقط اتن ی زکوٰۃ لے جتن ی رقم یا جنس اس کے سال ب ھ ر ک ے اخراجات ک ے لئ ے کم پ ڑ ت ی ہ و ۔

1935 ۔ جس شخص ک ے پاس اپنا پور ے سال کا خرچ ہ و اگر و ہ اس کا کچ ھ حص ہ استعمال کر ل ے اور بعد م یں شک کرے ک ہ جو کچ ھ باق ی بچا ہے و ہ اس ک ے سال ب ھ ر ک ے اخراجات ک ے لئ ے کاف ی ہے یا نہیں تو وہ زکوٰ ۃ نہیں لے سکتا ۔

1936 ۔ جس ہ نرمند یا صاحب جائداد یا تاجر کی آمدنی اس کے سال بھ ر ک ے اخراجات س ے کم ہ و و ہ اپن ے اخراجات ک ی کمی پوری کرنے ک ے لئ ے زکوٰ ۃ لے سکتا ہے اور لازم ن ہیں ہے ک ہ و ہ اپن ے کام ک ے اوزار یا جائداد یا سرمایہ اپنے اخراجات ک ے مصرف م یں لے آئ ے۔

1937 ۔ جس فق یر کے پاس اپن ے اور اپن ے ا ہ ل وع یال کے لئ ے سال ب ھ ر کا خرچ ن ہ ہ و ل یکن ایک گھ ر کا مالک ہ و جس م یں وہ ر ہ تا ہ و یا سواری کی چیز رکھ تا ہ و اور ان ک ے بغ یر گزر بسر نہ کرسکتا ہ و خوا ہ یہ صورت اپنے عزت رک ھ ن ے ک ے لئ ے ہی ہ و و ہ زکوٰ ۃ لے سکتا ہے اور گ ھ ر ک ے سامان، ب رتنوں اور گرمی و سردی کے کپ ڑ وں اور جن چ یزوں کی اسے ضرورت ہ و ان ک ے لئ ے ب ھی یہی حکم ہے اور جو فق یر یہ چیزیں نہ رک ھ تا ہ و اگر اس ے ان ک ی ضرورت ہ و تو و ہ زکوٰ ۃ میں سے خر ید سکتا ہے۔

1938 ۔ جس فق یر کے لئ ے ہ نر س یکھ نا مشکل نہ ہ و احت یاط واجب کی بنا پر زکوٰۃ پرزندگی بسر نہ کر ے ل یکن جب تک ہ نر سک یھ ن ے میں مشغول ہ و زکوٰ ۃ لے سکتا ہے۔

1939 ۔ جو شخص پ ہ ل ے فقیر رہ ا ہ و اور و ہ ک ہ تا ہ و ک ہ م یں فقیر ہ وں تو اگرچ ہ اس ک ے ک ہ ن ے پر انسان کو اطم ینان نہ ہ و پ ھ ر ب ھی اسے زکوٰ ۃ دے سکتا ہے۔ ل یکن جس شخص کے بار ے م یں معلوم نہ ہ و ک ہ و ہ پ ہ ل ے فق یر رہ ا ہے یا نہیں تو احتیاط کی بنا پر جب تک اس کے فق یر ہ ون ے کا اطم ینان نہ ہ و پ ھ ر ب ھی اسے زکوٰ ۃ دے سکتا ہے۔

1940 ۔ جو شخص ک ہے ک ہ م یں فقیر ہ وں اور پ ہ ل ے فق یر نہ ر ہ ا ہ و اگر اس ک ے ک ہ ن ے س ے اطم ینان نہ ہ وتا ہ و تو احت یاط واجب یہ ہے ک ہ اس ے زکوٰ ۃ نہ د ی جائے۔

1941 ۔ جس شخص پر زکوٰ ۃ واجب ہ و اگر کوئ ی فقیر اس کا مقروض ہ و تو و ہ زکوٰ ۃ دیتے ہ وئ ے اپنا قرض اس میں سے وصول کر سکتا ہے۔

1941 ۔ اگر فق یر مر جائے اور اس کا مال اتنا ن ہ ہ و جتنا اس ن ے قرض ہ د ینا ہ و تو قرض خوا ہ قرض ے کو زکوٰ ۃ میں شمار کر سکتا ہے بلک ہ متوف ی کا مال اس پر واجب الادا قرضے ک ے برابر ہ و اور اس ک ے ورثا اس کا قرض ہ ادا ن ہ کر یں یا کسی اور وجہ س ے قرض خو اہ اپنا قرض ہ واپس ن ہ ل ے سکتا ہ و تب ب ھی وہ اپنا قرض ہ واپس ن ہ ل ے سکتا ہ و تب ب ھی وہ اپنا قرض ہ زکوٰ ۃ میں شمار کر سکتا ہے۔

1943 ۔ یہ ضروری نہیں کہ کوئ ی شخص جو چیز فقیر کو بطور زکوٰۃ دے اس ک ے بار ے م یں اسے بتائ ے ک ہ یہ زکوٰۃ ہے بلک ہ اگر فق یر زکوٰۃ لینے میں خفت محسوس کرتا ہ و تو مستحب ہے ک ہ اس ے مال تو زکوٰ ۃ کی نیت سے د یا جائے ل یکن اس کا زکوٰۃ ہ ونا اس پر ظا ہ ر ن ہ ک یا جائے۔

1944 ۔ اگر کوئ ی شخص یہ خیال کرتے ہ وئ ے کس ی کو زکوٰۃ دے ک ہ و ہ فق یر ہے اور بعد م یں اسے پت ہ چل ے ک ہ و ہ فق یر نہ ت ھ ا یا مسئلے س ے ناواقف ہ ون ے ک ی بنا پر کسی ایسے شخص کو زکوٰۃ دے د ے جس ک ے متعلق اس ے علم ہ و ک ہ و ہ فق یر نہیں ہے تو یہ کافی نہیں ہے ل ہ ذا اس ن ے جو چ یز اس شخص کو بطور زکوٰۃ دی تھی اگر وہ باق ی ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس شخص س ے واپس ل ے کر مستحق کو د ے سکتا ہے اور اگر ل ینے والے کو یہ علم نہ ت ھ ا ک ہ و ہ مال زکوٰ ۃ ہے تو اس س ے کچ ھ ن ہیں لے سکتا اور انسان کو اپن ے مال س ے زکوٰ ۃ کا عوض مستحق کو دینا ضروری ہے۔

1945 ۔ جو شخص مقروض ہ و اور قرض ہ ادا ن ہ کرسکتا ہ و اگر اس ک ے پاس اپنا سال ب ھ ر کا خرچ ب ھی ہ و تب ب ھی اپنا قرضہ ادا کرن ے ک ے لئ ے زکوٰ ۃ لے سکتا ہے لیکن ضروری ہے ک ہ اس ن ے جو مال بطور قرض ل یا ہ و اس ے کس ی گناہ ک ے کام م یں خرچ نہ ک یا ہ و ۔

1946 ۔ اگر انسان ا یک ایسے شخص کو زکوٰۃ دے جو مقروض ہ و اور اپنا قرض ہ ادا ن ہ کرسکتا ہ و اور بعد م یں اسے پت ہ چل ے ک ہ اس شخص ن ے جو قرض ہ ل یا تھ ا و ہ گنا ہ ک ے کام پر خرچ ک یا تھ ا تو اگر وہ مقروض فق یر ہ و تو انسان ن ے جو کچ ھ اس ے د یا ہ وا اس ے سَ ہ م فقراء م یں شمار کر سکتا ہے۔

1947 ۔ جو شخص مقروض ہ و اور اپنا قرض ہ ادا ن ہ کرسکتا ہ و اگرچ ہ و ہ فق یر نہ ہ و تب ب ھی قرض خواہ قرض ے کو جو اس ے مقروض س ے وصول کرنا ہے زکوٰ ۃ میں شمار کر سکتا ہے۔

1948 ۔ جس مسافر کا زاد را ہ ختم ہ و جائ ے یا اس کی سواری قابل استعمال نہ ر ہے اگر اس کا سفر گنا ہ ک ی غرض سے ن ہ ہ و اور و ہ قرض ل ے کر یا اپنی کوئی چیز بیچ کر منزل مقصود تک نہ پ ہ نچ سکتا ہ و تو اگرچ ہ و ہ اپن ے سفر ک ے اخراجات حاصل کر سکتا ہ و تو و ہ فقط اتن ی مقدار میں زکوٰۃ لے سکتا ہے جس ک ے ذر یعے وہ اپن ی منزل تک پہ نچ جائ ے۔

1949 ۔ جو مسافر سفر م یں ناچار ہ وجائ ے اور زکوٰ ۃ لے اگر اس ک ے وطن پ ہ نچ جان ے ک ے بعد زکوٰ ۃ میں سے کچ ھ بچ جائ ے اس ے زکوٰ ۃ دینے والے کو واپس ن ہ پ ہ نچا سکتا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ و ہ زائد مال حاکم شرع کو پ ہ نچا د ے اور اس ے بتا دے ک ہ یہ مال زکوٰۃ ہے۔

مُستحِقّینِ زکوٰۃ کی شرائط

1950 ۔ (مال کا) مالک جس شخص کو اپن ی زکوٰۃ دینا چاہ تا ہ و ضرور ی ہے ک ہ و ہ ش یعہ اثنا عشری ہ و ۔ اگر انسان کس ی کو شیعہ سمجھ ت ے ہ وئ ے زکوٰ ۃ دے د ے اور بعد م یں پتہ چل ے ک ہ و ہ ش یعہ نہ ت ھ ا تو ضرور ی ہے ک ہ دوبار ہ زکوٰ ۃ دے۔

1951 ۔ اگر کوئ ی شیعہ بچہ یا دیوانہ فقیر ہ و تو انسان اس ک ے سرپرست کو اس ن یت سے زکوٰ ۃ دے سکتا ہے ک ہ و ہ جو کچ ھ د ے ر ہ ا ہے و ہ بچ ے یا دیوانے کی ملکیت ہ وگ ی۔

1952 ۔ اگر انسان بچ ے یا دیوانے کے سرپرست تک ن ہ پ ہ نچ سک ے تو و ہ خود یا کسی امانت دار شخص کے ذر یعے زکوٰۃ کا مال ان پر خرچ کرسکتا ہے اور جب زکوٰ ۃ ان لوگوں پر خرچ کی جارہی ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ زکوٰ ۃ دینے والا زکوٰۃ کی نیت کرے۔

1953 ۔ جو فق یر بھیک مانگتا ہ و اس ے زکوٰ ۃ دی جاسکتی ہے ل یکن جو شخص مال زکوٰۃ گناہ ک ے کام پر خرچ کرتا ہ و ضرور ی ہے ک ہ اس ے زکوٰ ۃ نہ د ے جائ ے بلک ہ ا حتیاط یہ ہے ک ہ و ہ شخص جس ے زکوٰ ۃ دینا گناہ ک ی طرف مائل کرنے کا سبب ہ و اگرچ ہ و ہ اس ے گنا ہ ک ے کام م یں خرچ نہ ب ھی کرے اس زکوٰۃ نہ د ی جائے۔

1954 ۔ جو شخص شراب پ یتا ہ و یا نماز نہ پ ڑھ تا ہ و اور اس ی طرح جو شخص کُھ لّم کُ ھ لاّ گنا ہ کب یرہ کا مرتکب ہ وتا ہ و تو اح یتاط واجب یہ ہے ک ہ اس ے زکوٰ ۃ نہ د ی جائے۔

1955 ۔ جو شخص مقروض ہ و اور اپنا قرض ہ ادا ن ہ کر سکتا ہ و اس کا قرض ہ زکوٰ ۃ سے د یا جاسکتا ہے خوا ہ اس شخص ک ے اخراجات زکوٰ ۃ دینے والے پر ہی واجب کیوں نہ ہ وں ۔

1956 ۔ انسان ان لوگوں ک ے اخراجات جن ک ی کفالت اس پر واجب ہ و ۔ مثلاً اولاد ک ے اخ راجات ۔ زکوٰ ۃ سے ادا ن ہیں کرسکتا لیکن اگر وہ خود اولاد کا خرچ ہ ن ہ د ے تو دوسر ے لوگ ان ہیں زکوٰۃ دے سکت ے ہیں۔

1957 ۔ اگر انسان اپن ے ب یٹے کو زکوٰۃ اس لئے د ے تاک ہ و ہ اس ے اپن ی بیوی اور نوکر اور نوکرانی پر خرچ کرے تو اس م یں کوئی حرج نہیں ہے۔

1958 ۔ باپ اپن ے ب یٹے کو سَہ م "ف یِ سَبِیلِ اللہ " م یں سے علم ی اور دینی کتابیں جن کی بیٹے کی ضرورت ہ و خر ید کر نہیں دے سکتا ۔ ل یکن اگر رفاہ عام ہ ک ے لئ ے ان کتابوں ک ی ضرورت ہ و تو احت یاط کی بنا پر حاکم شرع سے اجازت ل ے ل ے۔

1959 ۔ جو باپ ب یٹے کی شادی کی استطاعت نہ رک ھ تا ہ و و ہ ب یٹے کی شادی کے لئ ے زکوٰ ۃ میں سے خرچ کر سکتا ہے اور ب یٹ ا بھی باپ کے لئ ے ا یسا ہی کرسکتا ہے۔

1960 ۔ کس ی ایسی عورت کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی جس کا شوہ ر اس ے خرچ د یتا ہ و اور ا یسی عورت جسے اس کا شو ہ ر خرچ ن ہ د یتا ہ و ل یکن جو حاکم شرع سے رجوع کرک ے شو ہ ر کو خرچ د ینے پر مجبور کر سکتی ہ و اس ے زکوٰ ۃ نہ د ی جائے۔

1961 ۔ جس عورت ن ے مُتعَ ہ ک یا ہ و اگر و ہ فق یر ہ و تو اس کا شو ہ ر اور دوسر ے ہیں۔ ہ اں اگر عَقد ک ے ک ہ موقع پر شو ہ ر ن ے یہ شرط قبول کی ہ و ک ہ س کا خرچ د ے گا یا کسی اور وجہ س ے اس کا خرچ د ینا شوہ ر پر واجب ہ و اور و ہ اس عورت ک ے اخراجات دیتا ہ و تو اس عورت کو زکوٰ ۃ نہیں دی جاسکتی۔

1962 ۔ عورت اپن ے فق یر شوہ ر کو زکوٰ ۃ دے سکت ی ہے خوا ہ شو ہ ر و ہ زکوٰ ۃ اس عورت پر ہی کیوں نہ خرچ کر ے۔

1963 ۔ س ید غیر سید سے زکوٰ ۃ نہیں لے سکتا ل یکن اگر خمس اور دوسرے ذرائع آمدن ی اس کے اخراجات ک ے لئ ے کاف ی نہ ہ وں اور غیر سید سے زکوٰ ۃ لینے پر مجبور ہ و تو اس س ے زکوٰ ۃ لے سکتا ہے۔

1924 ۔ جس شخص ک ے بار ے م یں معلوم نہ ہ و ک ہ س ید ہے یا غیر سید، اسے زکوٰ ۃ دی جاسکتی ہے۔

زکوٰۃ کی نیت

1965 ۔ ضرور ی ہے ک ہ انسان ب ہ قصد قربت یعنی اللہ تبارک و تعال ی کی خوشنودی کی نیت سے زکوٰ ۃ دے اور اپن ی نیت میں معین کرے ک ہ جو کچ ھ د ے ر ہ ا ہے و ہ مال ک ی زکوٰۃ ہے یا زکوٰۃ فطرہ ہے بلک ہ مثال ک ے طور پر اگر گ یہ وں اور جَو کی زکوٰۃ اس پر واجب ہ و اور و ہ کچ ھ رقم زکوٰ ۃ کے طور پر د ینا چاہے تو اس ک ے لئ ے یہ ضروری ہے ک ہ و ہ مع یں کرے ک ہ گ یہ وں کی زکوٰۃ دے ر ہ ا ہے یا جَو کی۔

1966 ۔ اگر کس ی شخص پر متعد چیزوں کی زکوٰۃ واجب ہ و اور و ہ زکوٰ ۃ میں کوئی چیز دے ل یکن کسی بھی چیز کی "نیت نہ کر ے " تو جو چ یز اس نے زکوٰ ۃ میں دی ہے اگر اس ک ی جنس وہی ہ و جو ان چ یزوں میں سے کس ی ایک کی ہے تو و ہ اس ی جنس کی زکوٰۃ شمار ہ وگ ی۔ فرض کر یں کہ کس ی شخص پر چالیس بھیڑ وں اور پندرہ مثقال سون ے ک ی زکوۃ واجب ہے اگر و ہ مثلاً ا یک بھیڑ زکوٰۃ میں دے اور ان چ یزوں میں سے (ک ہ جن پر زکوٰ ۃ واجب ہے ) کس ی کی بھی "نیت" نہ کر ے تو و ہ ب ھیڑ وں کی زکوٰۃ شمار ہ وگ ی۔ ل یکن اگر وہ چاند ی کے سک ے یا کرنسی نوٹ د ے جو ان (چ یزوں) کے ہ م جنس ن ہیں ہے تو بعض (علماء) ک ے بقول و ہ (سک ے یا نوٹ ) ان تمام (چ یزوں) پر حساب سے بان ٹ د یئے جائیں لیکن یہ بات اشکال سے خال ی نہیں ہے بلک ہ احتمال یہ ہے ک ہ و ہ ان چ یزوں میں سے کس ی کی بھی (زکوٰۃ ) شمار نہ ہ ونگ ے اور (ن یت نہ کرن ے تک) مالک مال ک ی ملکیت رہیں گے۔

1967 ۔ اگر کوئ ی شخص اپنے مال ک ی زکوٰۃ (مستحق تک) پہ نچان ے ک ے لئ ے کس ی کو وکیل بنائے تو جب و ہ مال زکوٰ ۃ وکیل کے حوال ے کر ے تو احت یاط واجب کی بنا پر ضروری ہے ک ہ ن یت کرے ک ہ جو کچ ھ اس کا وک یل بعد میں فقیر کو دے گا و ہ زکوٰ ۃ ہے اور اَحوطَ یہ ہے ک ہ زکوٰ ۃ فقیر تک پہ نچ ے کے وقت تک پ ہ نچن ے ک ے وقت تک و ہ اس ن یت پر قائم رہے۔

1968 ۔ اگر کوئ ی شخص مال زکوٰۃ قصد قربت کے بغ یر زکوٰۃ کی نیت سے حاکم شرع یا فقیر کو دے د ے تو اقو ی کی بنا پر وہ مال زکوٰ ۃ میں شمار ہ وگا اگرچ ہ اس ن ے قصد قربت ک ے بغ یر ادا کرکے گنا ہ ک یا ہے۔

زکوٰۃ کے مُتَفَرِّق مَسائِل

1969 ۔ احت یاط کی بنا پر ضروری ہے ک ہ انسان گ یہ وں اور جَو کو بھ وس ے س ے الگ کرن ے ک ے موقع پر اور ک ھ جور اور انگور ک ے خشک ہ ون ے ک ے وقت زکوٰ ۃ فقیر کو دے د ے یا اپنے مال س ے عل یحدہ کر دے۔ اور ضرور ی ہے ک ہ سون ے ، چاند ی، گائے ، ب ھیڑ اور اونٹ ک ی زکوٰۃ گیارہ مہینے ختم ہ ون ے ک ے بعد فق یر کو دے یا اپنے مال س ے عل یحدہ کر دے ل یکن اگر وہ شخص کس ی خاص فقیر کا منتظر ہ و یا کسی ایسے فقیر کو زکوٰۃ دینا چاہ تا ہ و جو کس ی لحاظ سے (دوسر ے پر) برتر ی رکھ تا ہ و تو و ہ یہ کر سکتا ہے ک ہ زکوٰ ۃ علیحدہ نہ کر ے۔

1970 ۔ زکوٰ ۃ علیحدہ کرنے ک ے بعد ا یک شخص کے لئ ے لازم ن ہیں کہ اس ے فوراً مستحق شخص کو د ے د ے۔ ل یکن اگر کسی ایسے شخص تک اس کی رسائی ہ و، جس ے زکوٰ ۃ دی جاسکتی ہ و تو احت یاط مستحب یہ ہے ک ہ زکوٰ ۃ دینے میں تاخیر نہ کر ے۔

1971 ۔ جو شخص زکوٰ ۃ مستحق شخص کو پہ نچا سکتا ہ و اگر و ہ اس ے زکوٰ ۃ نہ پ ہ نچائ ے اور اس ک ے کوتا ہی برتنے ک ی وجہ س ے مال زکوٰ ۃ تلف ہ و جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا عوض د ے۔

1972 ۔ جو شخص زکوٰ ۃ مستحق تک پہ نچا سکتا ہ و اگر و ہ اس ے زکوٰ ۃ پہ نچائ ے اور مال زکوٰ ۃ حفاظت کرنے ک ے باوجود تلف ہ وجائ ے تو زکوٰ ۃ ادا کرنے م یں تاخیر کی کوئی صحیح وجہ ن ہ ہ و ت و ضروری ہے ک ہ اس کا عِوض د ے ل یکن اگر تاخیر کرنے ک ی کوئی صحیح وجہ ت ھی مثلاً ایک خاص فقیر اس کی نظر میں تھ ا یا تھ و ڑ ا ت ھ و ڑ ا کر ک ے فقراء کو د ینا چاہ تا ت ھ ا تو اس کا ضامن ہ ونا معلوم ن ہیں ہے۔

1973 ۔ اگر کوئ ی شخص زکوٰۃ (عین اسی ) مال سے ادا کر د ے تو و ہ باق یماندہ مال میں تصرف کر سکتا ہے اور اگر و ہ زکوٰ ۃ اپنے کس ی دوسرے مال س ے ادا کر د ے تو اس پور ے مال م یں تصرف کرسکتا ہے۔

1974 ۔ انسان ن ے جو مال زکوٰ ۃ علیحدہ کیا ہ و اس ے اپن ے لئ ے ا ٹھ ا کر اس ک ی جگہ کوئ ی دوسری چیز نہیں رکھ سکتا ۔

1975 ۔ اگر اس مال زکوٰ ۃ سے جو کس ی شخص نے عل یحدہ کر دیا ہ و کوئ ی منفعت حاصل ہ و مثلاً جو ب ھیڑ بطور زکوٰۃ علیحدہ کی ہ و و ہ بچ ہ جن ے تو و ہ منفعت فق یر کا مال ہے۔

1976 ۔ جب کوئ ی شخص مال زکوٰۃ علیحدہ کر رہ ا ہ و اگر اس وقت کوئ ی مستحق موجود ہ و تو ب ہ تر ہے ک ہ زکوٰ ۃ اسے د ے د ے بجز اس صورت ک ے ک ہ کوئ ی ایسا شخص اس کی نظر میں ہ و جس ے زکوٰ ۃ دینا کسی وجہ س ے ب ہ تر ہ و ۔

1977 ۔ اگر کوئ ی شخص حاکم شرع کی اجازت کے بغ یر اس مال سے کاروبار کر ے جو اس ن ے زکوٰ ۃ کے لئ ے عل یحدہ کر دیا ہ و اور اس م یں خسارہ ہ و جائ ے تو اس زکوٰ ۃ میں کوئی کمی نہیں کرنی چاہ ئ ے ل یکن اگر منافع ہ و تو احت یاط لازم کی بنا پر ضروری ہے ک ہ مستحق کو د ے د ے۔

1978 ۔ اگر کوئ ی شخص اس سے پ ہ ل ے ک ہ زکوٰ ۃ اس پر واجب ہ و کوئ ی چیز بطور زکوٰۃ فقیر کو دے د ے تو و ہ زکوٰ ۃ میں شمار نہیں ہ وگ ی اور اگر اس پر زکوٰۃ واجب ہ ون ے ک ے بعد و ہ چ یز جو اس نے فق یر کو دی تھی تلف نہ ہ وئ ی ہ و اور فق یر ابھی تک فقیری میں مبتلا ہ و تو زکوٰ ۃ دینے والا اس چیز کو جو اس نے فق یر کو دی تھی زکوٰۃ میں شمار کر سکتا ہے۔

1979 ۔ اگر فق یر یہ جانتے ہ وئ ے ک ہ زکوٰ ۃ ایک شخص پر واجب نہیں ہ وئ ی اس سے کوئ ی چیز بطور زکوٰۃ کے ل ے ل ے اور و ہ چ یز فقیر کی تحویل میں تلف ہ و جائ ے تو فق یر اس کا ذمہ دار ہے اور جب زکوٰ ۃ اس شخص پر واجب ہ و جائ ے اور فق یر اس وقت تک تنگدست ہ و تو جو چ یز اس شخص نے فق یر کو دی تھی اس کا عوض زکوٰۃ میں شمار کر سکتا ہے۔

1980 ۔ اگر کوئ ی فقیر یہ نہ جانت ے ہ وئ ے ک ہ زکوٰ ۃ ایک شخص پر واجب ہ وئ ی اس سے کوئ ی چیز بطور زکوٰۃ لے ل ے اور و ہ چ یز فقیر کی تحویل میں تلف ہ وجائ ے تو فق یر ذمے دار ن ہیں اور دینے والا شخص اس چیز کا عوض زکوۃ میں شمار نہیں کر سکتا ۔

1981 ۔ مستحب ہے ک ہ گائ ے ، ب ھیڑ اور اونٹ ک ی زکوۃ آبرومند فقرا (سفید پوش غریب غربا) کو دی جائے اور زکوٰ ۃ دینے میں اپنے رشت ہ داروں کو دوسروں پر اور ا ہ ل ع لم کو بے علم لوگوں پر اور جو لوگ ہ ات ھ ن ہ پ ھیلاتے ہ وں ان کو منگتوں پر ترج یح دی جائے۔ ہ اں اگر فق یر کو کسی اور وجہ س ے زکوٰ ۃ دینا بہ تر ہ و تو پ ھ ر مستحب ہے ک ہ زکوٰ ۃ اس کو دی جائے۔

1982 ۔ ب ہ تر ہے ک ہ زکوٰ ۃ علانیہ دی جائے اور مستحب صدق ہ پوش یدہ طور پر دیا جائے۔

1983 ۔ جو شخص زکو ۃ دینا چاہ تا ہ و اگر اس ک ے ش ہ ر م یں کوئی مستحق نہ ہ و اور و ہ زکوٰ ۃ اس کے لئ ے مُعَ یّن مَد میں بھی صرف نہ کرسکتا ہ و تو اگر اس ے ام ید نہ ہ و ک ہ بعد م یں کوئی مستحق شخص اپنے ش ہ ر م یں مل جائے گا تو ضرور ی ہے ک ہ زکوٰ ۃ دوسرے ش ہ ر ل ے جائ ے اور زکوٰ ۃ کی مُعیّن مد میں صرف کرے اور اس ش ہ ر م یں لے جان ے ک ے اخراجات حاکم شرع ک ی اجازت سے مال زکوٰ ۃ میں سے ل ے سکتا ہے اور اگر مال زکوٰ ۃ تلف ہ و جائ ے تو و ہ ذم ے دار ن ہیں ہے۔

1984 ۔ اگر زکوٰ ۃ دینے والے کو اپن ے ش ہ ر م یں کوئی مستحق مل جائے تب ب ھی وہ مال زکوٰ ۃ دوسرے ش ہ ر ل ے جاسکتا ہے ل یکن ضروری ہے ک ہ اس ش ہ ر م یں لے جان ے ک ے اخراجات خود برداشت کر ے اور اگر مال زکوٰ ۃ تلف ہ و جائ ے تو و ہ خود ذم ے دار ہے بجز اس صورت ک ے ک ہ مال زکوٰ ۃ دوسرے ش ہ ر م یں حاکم شرع کے حکم س ے ل ے گ یا ہ و ۔

1985 ۔ جو شخص گ یہ وں، جَو، کشمش اور کھ جور بطور زک وٰۃ دے ر ہ ا ہ و، ان اجناس ک ے ناپ تول ک ی اجرت اس کی اپنی ذمے دار ی ہے۔

1986 ۔ جس شخص کو زکوٰ ۃ میں 2 مثقال اور 15 نخود یا اس سے ز یادہ چاندی دینی ہ و و ہ احت یاط مستحب کی بنا پر 2 مثقال اور 15 نخود کم چاندی کسی فقیر کو نہ د ے ن یز اگر چاندی کے علاو ہ کوئ ی دوسری چیز مثلا گیہ وں اور جو دینے ہ وں اور ان ک ی قیمت 2 مثقال اور 15 نخود چاندی تک پہ نچ جائ ے تو احت یاط مستحب کی بنا پر وہ ا یک فقیر کو اس سے کم ن ہ د ے۔

1987 ۔ انسان ک ے لئ ے مکرو ہ ہے ک ہ مستحق س ے درخواست کر ے ک ہ جو زکوٰ ۃ اس نے اس س ے ل ی ہے اس ی کے ہ ات ھ فروخت کرد ے ل یکن اگر مستحق نے جو چ یز بطور زکوٰۃ لی ہے اس ے ب یچنا چاہے تو جب اس ک ی قیمت طے ہ و جائ ے تو جس شخص ن ے مستحق کو زکوٰ ۃ دی ہ و اس چ یز کو خریدنے کے لئ ے اس کا حق دوسروں پر فائق ہے۔

1988 ۔ اگر کس ی شخص کو شک ہ و ک ہ جو زکوٰ ۃ اس پر واجب ہ وئ ی تھی وہ اس ن ے د ی ہے یا نہیں اور جس مال میں زکوٰۃ واجب ہ وئ ی تھی وہ ب ھی موجود ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ زکوٰ ۃ دے خوا ہ اس کا شک گزشت ہ سالوں ک ی زکوٰۃ کے متعلق ہی کیوں نہ ہ و ۔ اور (جس مال م یں زکوٰۃ واجب ہ وئ ی تھی) اگر وہ ضائع ہ و چکا ہ و تو اگرچ ہ اس ی سال کی زکوٰۃ کے متعلق ہی شک کیوں نہ ہ و اس پر زکوٰ ۃ نہیں ہے۔

1989 ۔ فق یر یہ نہیں کر سکتا کہ زکوٰ ۃ لینے سے پ ہ ل ے اس ک ی مقدار سے کم مقدار پر سمج ھ وت ہ کر ل ے یا کسی چیز کو اس کی قیمت سے ز یادہ قمیت پر بطور زکوٰۃ قبل کرے اور اس ی طرح مالک بھی یہ نہیں کر سکتا کہ مستحق کو اس شرط پر زکوٰ ۃ دے ک ہ و ہ مستحق اس ے واپس کر د ے گا ل یکن اگر مستحق زکوٰۃ لینے کے بعد راض ی ہ و جائ ے اور اس زکوٰ ۃ کو اسے واپس کر د ے تو کوئ ی حرج نہیں مثلاً کسی شخص پر بہ ت ز یادہ زکوٰۃ واجب ہ و اور فق یر ہ و جان ے ک ی وجہ س ے و ہ زکوٰ ۃ ادا نہ کرسکتا ہ و اور اس ن ے توب ہ کرل ی ہ و تو اگر فق یر راضی ہ وجائ ے ک ہ اس س ے زکوٰ ۃ لے کر پ ھ ر اس ے بخش دے تو کوئ ی حرج نہیں ۔

1990 ۔ انسان قرآن مج ید، دینی کتابیں یا دعا کی کتابیں سَہ م ف یِ سَبِیلِ اللہ س ے خر ید کر وقف نہیں کرسکتا۔ ل یکن اگر رفاہ عام ہ ک ے لئ ے ان چ یزوں کی ضرورت ہ و تو احت یاط لازم کی بنا پر حاکم شرع سے اجازت ل ے ل ے۔

1991 ۔ انسان مال زکوٰۃ سے جائداد خر ید کر اپنی اولاد یا ان لوگوں کو وقف نہیں کر سکتا جن کا خرچ اس پر واجب ہ و تاک ہ و ہ اس جائداد ک ی منفعت اپنے مصرف م یں لے آئ یں۔

1992 ۔ حج اور ز یارات وغیرہ پر جانے ک ے لئ ے انسان فِ ی سَبِیلِ اللہ ک ے حص ے س ے زکوٰ ۃ لے سکتا ہے اگرچ ہ و ہ فق یر نہ ہ و یا اپنے سال ب ھ ر ک ے اخراجات ک ے لئ ے زکوٰ ۃ لے چکا ہ و ل یکن یہ اس صورت میں ہے جب ک ہ اس کا حج اور ز یارات وغیرہ کے لئ ے جانا لوگوں ک ے مفاد م یں ہ و اور اح یتاط کی بنا پر ایسے کاموں میں زکوٰۃ خرچ کرنے ک ے لئ ے حاکم شرع س ے اجازت ل ے ل ے۔

1993 ۔ اگر ا یک مالک اپنے مال ک ی زکوٰۃ دینے کے لئ ے کس ی فقیر کو وکیل بنائے اور فق یر کو یہ احتمال ہ و ک ہ مالک کا اراد ہ یہ تھ ا ک ہ و ہ خود ( یعنی فقیر) اس مال سے کچ ھ ن ہ ل ے تو اس صورت م یں وہ کوئ ی چیز اس میں سے اپن ے لئ ے ن ہیں لے سکتا اور اگر فق یر کو یہ یقین ہ و ک ہ مالک کا ارادہ یہ نہیں تھ ا تو و ہ اپن ے لئ ے ب ھی لے سکتا ہے۔

1994 ۔ اگر کوئ ی فقیر اونٹ ، گائ یں، بھیڑیں، سونا اور چاندی بطور زکوٰۃ حاصل کرے اور ان م یں وہ سب شرائط موجود ہ وں جو زکوٰ ۃ واجب ہ ون ے ک ے لئ ے ب یان کی گئی ہیں ضروری ہے ک ہ فق یران پر زکوٰۃ دے۔

1995 ۔ اگر دو اشخاص ا یک ایسے مال میں حصہ دار ہ وں جس ک ی زکوٰۃ واجب ہ وچک ی ہ و اور ان م یں سے ا یک اپنے حص ے ک ی زکوٰۃ دے د ے اور بعد م یں وہ مال تقس یم کرلیں (اور جو شخص زکوٰۃ دے چکا ہے ) اگرچ ہ اس ے علم ہ و ک ہ اس ک ے سات ھی نے اپن ے حص ے ک ی زکوٰۃ نہیں دی اور نہ ہی بعد میں دے گا تو اس کا اپن ے حص ے م یں تصرف کرنا اشکال نہیں رکھ تا ۔

1996 ۔ اگر خمس اور زکوٰ ۃ کسی شخص کے ذم ے واجب ہ و اور کفار اور منت وغ یرہ بھی اس پر واجب ہ و اور و ہ مقروض ب ھی ہ و اور ان سب ک ی ادائیگی نہ کرسکتا ہ و تو اگر و ہ مال جس پر خمس یا زکوٰۃ واجب ہ وچک ی ہ و تلف ن ہ ہ وگ یا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ خمس اور زکوٰۃ دے اور اگر و ہ مال تلف ہ وگ یا ہ و تو کفار ے اور نذر س ے پ ہ ل ے زکوٰ ۃ، خمس اور قرض ادا کرے۔

1997 ۔ جس شخص ک ے ذم ے خمس یا زکوٰۃ ہ و اور حج ب ھی اس پر واجب ہ و اور و ہ مقروض ب ھی ہ و اگر و ہ مرجائ ے اور اس کا مال ان تمام چ یزوں کے لئ ے کاف ی نہ ہ و اور اگر و ہ مال جس پر خمس اور زکوٰۃ واجب ہ وچک ے ہ وں تلف ن ہ ہ وگ یا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ خمس یا زکوٰۃ ادا کی جائے اور اس کا باقی ماندہ مال قرض ک ی ادائیگی پر خرچ کیا جائے۔ اور اگر و ہ مال جس پر خمس اور زکوٰ ۃ واجب ہ وچک ی ہ و تلف ہ وگ یا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا مال قرض ک ی ادائیگی پر خرچ کیا جائے اور اس صورت م یں اگر کچھ بچ جائ ے تو حج ک یا جائے اور اگر ز یادہ بچا ہ و تو س ے خمس اور زکوٰ ۃ پر تقسیم کر دیا جائے۔

1998 ۔ جو شخص علم حاصل کرن ے م یں مشغول ہ و و ہ جس وقت علم حاصل ن ہ کر ے اس وقت اپن ی روزی کمانے ک ے لئ ے کام کرسکتا ہے۔ اگر اس علم حاصل کرنا واجب ع ینی ہ و تو فقراء ک ے حص ے س ے اس کو زکوٰ ۃ دے سکت ے ہیں اور اگر اس علم کا حاصل کرنا عوامی بہ بود ک ے لئ ے ہ و تو فِ ی سَبِیلِ اللہ کی مَد سے احت یاط کی بنا پر حاکم شرع کی اجازت سے اس کو زکوٰ ۃ دینا جائز ہے۔ اور ان دو صورتوں ک ے علاو ہ اس کو زکوٰ ۃ دینا جائز نہیں ہے۔

زکوٰۃ ِ فِطرہ

1999 ۔ ع ید الفطر کی (چاند) رات غروب آفتاب کے وقت جو شخص بالغ اور عاقل ہ و اور ن ہ تو فق یر ہ و ن ہ ہی کسی دوسرے کا غلام ہ و ضرور ی ہے ک ہ اپن ے لئ ے اور ان لوگوں ک ے لئ ے جو اس ک ے ہ اں ک ھ انا ک ھ ات ے ہ وں ف ی کس ایک صاع جس کے بار ے م یں کہ ا جاتا ہے ک ہ تقر یباً تین کلو ہ وتا ہے ان غذاوں میں سے جو اس ک ے ش ہ ر ( یا علاقے ) م یں استعمال ہ وت ی ہ وں مثلاً گ یہ وں یا جَو یا کھ جور یا کشمش یا چاول یا جوار مستحق شخص کو دے اور اگر ان ک ے بجائ ے ان ک ی قیمت نقدی کی شکل میں دے تب ب ھی کافی ہے۔ اور احت یاط لازم یہ ہے ک ہ جو غذا اس ک ے ش ہ ر م یں عام طور پر استعمال نہ ہ وت ی ہ و چا ہے و ہ گ یہ وں، جَو، کھ جور یا کشمش ہ و، ن ہ د ے۔

2000 ۔ جس شخص ک ے پاس اپن ے اور اپن ے ا ہ ل و ع یال کے لئ ے سال ب ھ ر کا خرچ ن ہ ہ و اور اس کا کوئ ی روزگار بھی نہ ہ و جس ک ے ذر یعے وہ اپن ے ا ہ ل و ع یال کا سال بھ ر کا خرچ پورا کرسک ے و ہ فق یر ہے اور اس پر فطر ہ د ینا واجب نہیں ہے۔

2001 ۔ جو لوگ ع ید الفطر کی رات غروب کے وقت کس ی شخص کے ہ اں ک ھ ان ے وال ے سمج ھے جائ یں ضروری ہے ک ہ و ہ شخص ان کا فطر ہ د ے ، قطع نظر اس س ے ک ہ و ہ چ ھ و ٹے ہ وں یا بڑے مسلمان ہ وں یا کافر، ان کا خرچہ اس پر واجب ہ و یا نہ ہ و اور و ہ اس ک ے شہ ر م یں ہ وں یا کسی دوسرے ش ہ ر م یں ہ وں ۔

2002 ۔ اگر کوئ ی شخص ایک ایسے شخص کو جو اس کے ہ اں ک ھ انا ک ھ ان ے والا گردانا جائ ے ، اس ے دوسر ے ش ہ ر م یں نمائندہ مقرر کر ے ک ہ اس ک ے ( یعنی صاحب خانہ ک ے ) مال س ے اپنا فطر ہ د ے د ے اور اس ے اطم ینان ہ و ک ہ و ہ شخص فطر ہ د ے د ے گا تو خود صاح ب خانہ ک ے لئ ے اس کا فطر ہ د ینا ضروری نہیں۔

2003 ۔ جو م ہ مان ع یدالفطر کی رات غروب سے پ ہ ل ے صاحب خان ہ ک ی رضامندی کے بغ یر اس کے گ ھ ر آئ ے اور اس ک ے ہ اں ک ھ انا ک ھ ان ے والوں م یں اگرچہ وقت ی طور پر شمار ہ و اس کا فطر ہ صاحب خان ہ پر واجب ہے۔

2004 ۔ جو م ہ مان ع یدالفطر کی رات غروب پہ ل ے صاحب خان ہ ک ی رضامندی کے بغ یر اس کے گ ھ ر آئ ے اور کچ ھ مدت صاحب کا خرچ ہ د ینے پر مجبور کیا گیا ہ و تو اس ک ے فطر ے ک ے لئ ے ب ھی یہی حکم ہے۔

2005 ۔ جو م ہ مان ع یدالفطر کی رات غروب کے بعد وارد ہ و اگر و ہ صاحب خان ہ ک ے ہ اں ک ھ انا ک ھ ان ے والا شمار ہ و تو اس کا ف طرہ صاحب خان ہ پر احت یاط کی بنا پر واجب ہے اور اگر ک ھ انا ک ھ ان ے والا شمار ن ہ ہ و تو واجب ن ہیں ہے خوا ہ صاحب خان ہ ن ے اس ے غروب س ے پ ہ ل ے دعوت د ی ہ و اور و ہ افطار ب ھی صاحب خانہ ک ے گ ھ ر پر ہی کرے۔

2006 ۔ اگر کوئ ی شخص عیدالفطر کی رات غروب کے وقت د یوانہ ہ و اور اس ک ی دیوانگی عیدالفطر کے دن ظ ہ ر ک ے وقت تک باق ی رہے تو اس پر فطر ہ واجب ن ہیں ہے ورن ہ احت یاط واجب کی بنا پر لازم ہے ک ہ فطر ہ د ے۔

2007 ۔ غروب آفتاب س ے پ ہ ل ے اگر کوئ ی بچہ بالغ ہ و جائ ے یا کوئی دیوانہ عاقل ہ وجائ ے یا کوئی فقیر غنی ہ وجائ ے تو اگر و ہ فطر ہ واجب ہ ون ے ک ی شرائط پوری کرتا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ فطر ہ د ے۔

2008 ۔ جس شخص پر ع یدالفطر کی رات غروب کے وقت فطر ہ واجب ن ہ ہ و اگر ع ید کے دن ظ ہ ر ک ے وقت س ے پ ہ ل ے تک فطر ہ واجب ہ ون ے ک ی شرائط اس میں موجود ہ و جائ یں تو احتیاط واجب یہ ہے ک ہ فطر ہ د ے۔

2009 ۔ اگر کوئ ی کافر عیدالفطر کی رات غروب آفتاب کے بعد مسلمان ہ و جائ ے تو اس پر فطر ہ واجب ن ہیں ہے ل یکن اگر ایک ایسا مسلمان جو شیعہ نہ ہ و و ہ ع ید کا چاند دیکھ ن ے کے بعد ش یعہ ہ و جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ فطر ہ د ے۔

2010 ۔ جس شخص ک ے پاس صرف اندازاً ا یک صاع گیہ وں یا اسی جیسی کوئی جنس ہ و اس ک ے لئ ے مستحب ہے ک ہ فطر ہ د ے اور اگر اس کے ا ہ ل و ع یال بھی ہ وں اور و ہ ان کا فطر ہ ب ھی دینا چاہ تا ہ و تو و ہ ا یسا کر سکتا ہے ک ہ فطر ے ک ی نیت سے ا یک صاع گیہ وں وغیرہ اپنے ا ہ ل و ع یال میں سے کس ی ایک و دے د ے اور و ہ ب ھی اسی نیت سے دوسر ے کو د ے د ے اور و ہ اس ی طرح دیتے رہیں حتی کہ و ہ جنس خاندان ک ے آخر ی فرد تک پہ نچ جائ ے اور ب ہ تر ہے ک ہ جو چ یز آخری فرد کو ملے و ہ کس ی ایسے شخص کو دے جو خود ان لوگوں م یں سے ن ہ ہ و جن ہ وں ن ے فطر ہ ا یک دوسرے کو د یا ہے اور اگر ان ل وگوں میں سے کوئ ی نابالغ ہ و تو اس کا سرپرست اس ک ی بجائے فطر ہ ل ے سکتا ہے اور احت یاط یہ ہے ک ہ جو چ یز نابالغ کے لئ ے ل ی جائے و ہ کس ی دوسرے کون ہ د ی جائے۔

2011 ۔ اگر ع ید الفطر کی رات غروب کے بعد کس ی کے ہ اں بچ ہ پ یدا ہ و تو اس کا فطر ہ د ینا واجب نہیں ہے ل یکن احتیاط واجب یہ ہے ک ہ جو اشخاص غروب ک ے بعد س ے ع ید کے دن ظ ہ ر س ے پ ہ ل ے تک صاحب خان ہ ک ے ہ اں ک ھ انا ک ھ ان ے والوں م یں سمجھے جائ یں وہ ان سب کا فطر ہ د ے۔

2012 ۔ اگر کوئ ی شخص کسی کے ہ اں ک ھ انا ک ھ اتا ہ و اور غروب س ے پ ہ ل ے کس ی دوسرے ک ے ہ ان ک ھ انا ک ھ ان ے والا ہ وجائ ے تو اس کا فطر ہ اس ی شخص پر واجب ہے جس ک ے ہ اں و ہ ک ھ انا ک ھ ان ے والا بن جائ ے مثلاً اگر عورت غروب س ے پ ہ ل ے شو ہ ر ک ے گ ھ ر چل ی جائے تو ضروری ہے ک ہ شو ہ ر اس کا فطر ہ د ے۔

2013 ۔ جس شخص کا فطر ہ کس ی دوسرے شخص پر واجب ہ و اس پر اپنا فطر ہ خود د ینا واجب نہیں ہے۔

2014 ۔ جس شخص کا فطر ہ کس ی دوسرے شخص پر واجب ہ و اگر و ہ ن ہ د ے تو احت یاط کی بنا پر فطہ خود اس شخص پر فطر ہ واجب ہ وجاتا ہے۔ جو شرائط مسئل ہ 1999 میں بیان ہ وئ ی ہیں اگر وہ موجود ہ وں تو اپنا فطر ہ خود ادا کر ے ۔

2015 ۔ جس شخص کا فطر ہ کس ی دوسرے شخص پر واجب ہ و اگر و ہ خود اپنا فطر ہ د ے د ے تو جس شخص پر اس کا فطر ہ واجب ہ و اس پر س ے اس ک ی ادائیگی کا وجوب ساقط نہیں ہ وتا ۔

2016 ۔ جس عورت کا شو ہ ر اس کو خرچ ن ہ د یتا ہ و اگر و ہ کس ی دوسرے ک ے ہ اں ک ھ انا ک ھ ات ی ہ و تو اس کا فطر ہ اس شخص پر واجب ہے جس ک ے ہ اں و ہ ک ھ انا ک ھ ات ی ہے اور اگر و ہ کس ی کے ہ اں ک ھ انا ن ہ ک ھ ات ی ہ و اور فق یر بھی نہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اپنا فطر ہ خود د ے۔

2017 ۔ غ یر سَیِّد، سَیِّد کو فطرہ ن ہیں دے سکتا حت ی کہ اگر س ید اس کے ہ اں ک ھ انا ک ھ اتا ہ و تب ب ھی اس کا فطرہ و ہ کس ی دوسرے س ید کو نہیں دے سکتا ۔

2018 ۔ جو بچ ہ ماں یا دایہ کا دودھ پ یتا ہ و اس کا فطر ہ اس شخص پر واجب ہے جو ماں یا دایہ کے اخراج ات برداشت کرتا ہ و ل یکن اگر ماں یا دایہ کا خرچ خود بچے ک ے مال س ے پورا ہ و تو بچ ے کا فطر ہ کس ی پر واجب نہیں ہے۔

2019 ۔ انسان اگرچ ہ اپن ے ا ہ ل و ع یال کا خرچ حرام مال سے د یتا ہ و، ضرور ی ہے ک ہ ان کا فطر ہ حلال مال س ے د ے۔

2020 ۔ اگر انسان کس ی شخص کو اجرت پر رکھے ج یسے مستری، بڑھ ئ ی یا خدمت گار اور اس کا خرچ اس طرح دے ک ہ و ہ اس کا ک ھ انا ک ھ ان ے والوں م یں شمار ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا فطر ہ ب ھی دے۔ ل یکن اگر اسے صرف کام ک ی مزدوری دے تو اس (اج یر) کا فطرہ ادا کرنا اس پر واجب ن ہیں ہے۔

2021 ۔ اگر کوئ ی شخص عیدالفطر کی رات غروب سے پ ہ ل ے فوت ہ و جائ ے تو اس کا اور اس ک ے ا ہ ل و ع یال کا فطرہ اس ک ے مال س ے د ینا واجب نہیں۔ ل یکن اگر غروب کے بعد فوت ہ و تو مش ہ ور قول ک ی بنا پر ضروری ہے ک ہ اس کا اور اس ک ے ا ہ ل و ع یال کا فطرہ اس ک ے مال س ے د یا جائے۔ ل یکن یہ حکم اشکال سے خال ی نہیں ہے۔ اور اس مسئلے م یں احتیاط کے پ ہ لو کو ترک ن ہیں کرنا چاہ ئ ے۔

زکوٰۃ فِطرہ کا مصرف

2022 ۔ فطر ہ اح یتاط واجب کی بنا پر فقط ان شیعہ اثنا عشری فقراء کو دینا ضروری ہے ، جو ان شرائط پر پور ے اترت ے ہ وں جن کا ذکر زکوٰ ۃ کے مستحق ین میں ہ وچکا ہے۔ اور اگر ش ہ ر م یں شیعہ اثنا عشری فقراء نہ مل یں تو دوسرے مسلمان فقراء کو فطر ہ د ے سکتا ہے ل یکن ضروری ہے ک ہ کس ی بھی صورت میں "ناصبی" کو نہ د یاجائے۔

2023 ۔ اگر کوئ ی شیعہ بچہ فق یر ہ و تو انسان یہ کر سکتا ہے ک ہ فطر ہ اس پر خرچ کر ے یا اس کے سرپرست کو د ے کر اس ے بچ ے ک ی ملکیت قرار دے۔

2024 ۔ جس فق یر کو فطرہ د یا جائے ضرور ی نہیں کہ و ہ عادل ہ و ل یکن احتیاط واجب یہ ہے ک ہ شراب ی اور بے نماز ی کو اور اس شخص کو جو کھ لم ک ھ لا گنا ہ کرتا ہ و فطر ہ ن ہ د یا جائے۔

2025 ۔ جو شخس فطر ہ ناجائز کاموں م یں خرچ کرتا ہ و ضرور ی ہے ک ہ اس ے فطر ہ ن ہ د یا جائے

2026 ۔ احت یاط مستحب یہ ہے ک ہ ا یک فقیر کو ایک صاع سے کم فطر ہ ن ہ د یا جائے۔ البت ہ اگر ا یک صاع سے ز یادہ دیا جائے تو کوئ ی اشکال نہیں ہے۔

2027 ۔ جب کس ی جنس کی قیمت اسی جنس کی معمولی قسم سے دگن ی ہ و مثلاً کس ی گیہ وں کی قیمت معمولی قسم کی گیہ وں کی قیمت سے دو چند ہ و تو اگر کوئ ی شخص اس (بڑھیا جنس) کا آدھ ا صاع بطور فطر ہ د ے تو یہ کافی نہیں ہے بلک ہ اگر و ہ آد ھ ا صاع فطر ہ ک ی قیمت کی نیت سے ب ھی دے تو ب ھی کافی نہیں ہے۔

2029 ۔ انسان ک ے لئ ے مستحب ہے ک ہ زکوٰ ۃ دینے میں اپنے فق یر رشتے داروں اور ہ مسا یوں کو دوسرے لوگوں پر ترج یح دے۔ اور ب ہ تر یہ ہے ک ہ ا ہ ل علم و فضل اور د یندار لوگوں کو دوسروں پر ترجیح دے۔

2030 ۔ اگر انسان یہ خیال کرتے ہ وئ ے ک ہ ا یک شخص فقیر ہے اس ے فطر ہ د ے اور بعد م یں معلوم ہ و ک ہ و ہ فق یر نہ ت ھ ا تو اگر اس ن ے جو مال فق یر کو دیا تھ ا و ہ ختم ن ہ ہ وگ یا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ واپس ل ے ل ے اور مستحق ک و دے د ے اور اگر واپس ن ہ ل ے سکتا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ خود اپن ے مال س ے فطر ے کا عوض د ے اور اگر و ہ مال ختم ہ وگ یا ہ و ل یکن لینے والے کو علم ہ و ک ہ جو کچ ھ اس ن ے ل یا ہے و ہ فطر ہ ہے تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا عوض د ے اور اگر اس ے یہ علم نہ ہ و تو عوض د ینا اس پر واجب نہیں ہے اور ض روری ہے ک ہ انسان فطر ے کا عوض د ے۔

2031 ۔ اگر کوئ ی شخص کہے ک ہ م یں فقیر ہ وں تو اس ے فطر ے ن ہیں دیا جاسکتا بجز اس صورت کے ک ہ انسان کو اس ک ے ک ہ ن ے س ے اطم ینان ہ و جائ ے یا انسان کو علم ہ و ک ہ و ہ پ ہ ل ے فق یر تھ ا ۔

زکوٰۃ فطرہ ک ے متفرق مسائل

2032 ۔ ضرور ی ہے ک ہ انسان فطر ہ قربت ک ے قصد س ے یعنی اللہ تبارک و تعال ی کی خوشنودی کے لئ ے د ے اور اس ے د یتے وقت فطرے ک ی نیت کرے۔

2033 ۔ اگر کوئ ی شخص ماہ رمضان المبارک س ے پ ہ ل ے فطر ہ د ے د ے تو یہ صحیح نہیں ہے اور ب ہ تر یہ ہے ک ہ ما ہ رمضان المبارک م یں بھی فطرہ ن ہ د ے البت ہ اگر ما ہ رمضان المبارک سے پ ہ ل ے کس ی فقیر کو قرضہ د ے اور جب فطر ہ اس پر واجب ہ وجائ ے ، قرض ے کو فطر ے م یں شمار کرلے تو کوئ ی حرج نہیں ہے۔

2034 ۔ گ یہ وں یا کوئی دوسری چیز جو فطرہ ک ے طور پر د ی جائے ضرور ی ہے ک ہ اس م یں کوئی اور جنس یا مٹی نہ مل ی ہ وئ ی ہ و ۔ اور اگر اس م یں کوئی ایسی چیز ملی ہ وئ ی ہ و اور خالص مال ا یک صاع تک پہ نچ جائ ے اور مل ی ہ وئ ی چیز جدا کئے بغ یر استعمال کے قابل ہ و یا جدا کرنے م یں حد سے ز یادہ زحمت نہ ہ و یا جو چیز ملی ہ وئ ی ہ و و ہ اتن ی کم ہ و ک ہ قابل توج ہ ن ہ ہ و تو کوئ ی حرج نہیں ہے۔

2035 ۔ اگر کوئ ی شخص عیب دار چیز فطرے ک ے طو ر پر دے تو احت یاط واجب کی بنا پر کافی نہیں ہے۔

2036 ۔ جس شخص کو کئ ی اشخاص کا فطرہ د ینا ہ و اس ک ے لئ ے ضرور ی نہیں کہ سارا فطر ہ ا یک ہی جنس سے د ے مثلاً اگر بعض افراد کا فطر ہ گ یہ وں سے اور بعض دوسروں کا جَو س ے د ے تو کاف ی ہے۔

2037 ۔ ع ید کی نماز پڑھ ن ے وال ے شخص کو احت یاط واجب کی بنا پر عید کی نماز سے پ ہ ل ے فطر ہ د ینا ضروری ہے ل یکن اگر کوئی شخص نماز عید نہ پ ڑھے تو فطر ے ک ی ادائیگی میں ظہ ر ک ے وقت تک تاخ یر کر سکتا ہے۔

2038 ۔ اگر کوئ ی شخص فطرے ک ی نیت سے اپن ے مال ک ی کچھ مقدار عل یحدہ کر دے اور ع ید کے دن ظ ہ ر ک ے وقت تک مستحق کو ن ہ د ے تو جب ب ھی وہ مال مستحق کو د ے ، فطر ے ک ی نیت کرے۔

2039 ۔ اگر کوئ ی شخص فطرے واجب ہ ون ے ک ے وقت فطر ہ ن ہ د ے اور الگ ب ھی نہ کر ے تو اس ک ے بعد ادا اور قضا ک ی نیت کئے بغ یر فطرہ د ے۔

2040 ۔ اگرکوئ ی شخص فطرہ الگ کر د ے تو و ہ اس ے اپن ے مصرف م یں لاکر دوسرا مال اس کی جگہ بطور فطر ہ ن ہیں رکھ سکتا ۔

2041 ۔ اگر کس ی شخس کے پاس ا یسا مال ہ و جس ک ی قیمت فطرہ س ے ز یادہ ہ و تو اگر و ہ شخص فطر ہ ن ہ د ے اور ن یت کرے ک ہ اس مال ک ی کچھ مقدار فطر ے ک ے لئ ے ہ وگ ی تو ایسا کرنے م یں اشکال ہے۔

2042 ۔ کس ی شخص نے جو مال فطر ے ک ے لئ ے ک یا ہ و اگر و ہ تلف ہ وجائ ے تو اگر و ہ شخص فق یر تک پہ نچ سکتا ت ھ ا اور اس ن ے فطر ہ د ینے میں تاخیر کی ہ و یا اس کی حفاظت کرنے م یں کوتا ہی کی ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا عِوَض د ے اور اگر فق یر تک نہیں پہ نچ سکتا ت ھ ا اور اس ک ی حفاظت میں کاتاہی نہ ک ی ہ و تو پ ھ ر ذم ہ دار ن ہیں ہے۔

2043 ۔ اگر فطر ے د ینے والے ک ے اپن ے علاق ے م یں مستحق مل جائے تو احت یاط واجب یہ ہے ک ہ فطر ہ دوسر ی جگہ ن ہ ل ے جائ ے اور اگر دوسر ی جگہ ل ے جائ ے اور و ہ تلف ہ وجائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا عوض د ے۔