توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)0%

توضیح المسائل(آقائے سیستانی) مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

مؤلف: آیت اللہ العظميٰ سید علی سیستانی مدظلہ العالی
زمرہ جات:

مشاہدے: 64149
ڈاؤنلوڈ: 6401

تبصرے:

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 35 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 64149 / ڈاؤنلوڈ: 6401
سائز سائز سائز
توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

توضیح المسائل(آقائے سیستانی)

مؤلف:
اردو

طلاق کے احکام

2507 ۔ جو مرد اپن ی بیوی کو طلاق دے اس ک ے لئ ے ضرور ی ہے ک ہ بالغ اور عاقل ہ و ل یکن اگر دس سال کا بچہ اپن ی بیوں کو طلاق دے تو اس ک ے بار ے م یں احتیاط کا خیال رکھیں اور اسی طرح ضروری ہے ک ہ مرد اپن ے اخت یار سے طلاق د ے اور اگر اس ے اپن ی بیوی کو طلاق دینے پر مجبور کیا جائے تو طلاق باطل ہے اور یہ بھی ضروری ہے ک ہ و ہ شخص طلاق ک ی نیت رکھ تا ہ و ل ہ ذا اگر و ہ مثلاً مذاق مذاق م یں طلاق کا صیغہ کہے تو طلاق صح یح نہیں ہے۔

2508 ۔ ضرور ی ہے ک ہ عورت طلاق ک ے وقت ح یض یا نفاس سے پاک ہ و اور اس ک ے شو ہ ر ن ے اس پاک ی کے دوران اس س ے ہ م بستر ی نہ ک ی ہ و اور ان دو شرطوں ک ی تفصیل آئندہ مسائل م یں بیان کی جائے گ ی۔

2509 ۔ عورت کو ح یض یا نفاس کی حالت میں تین صورتوں میں طلاق دینا صحیح ہے :

1 ۔ شو ہ ر ن ے نکاح ک ے بعد اس س ے ہ م بستر ی نہ ک ی ہ و ۔

2 ۔ معلوم ہ و ک ہ و ہ حامل ہ ہے۔ اور اگر یہ بات معلوم نہ ہ و اور شو ہ ر اس ے ح یض کی حالت میں طلاق دے د ے اور بعد م یں شوہ ر کو پتا چل ے ک ہ و ہ حامل ہ ت ھی تو وہ طلاق باطل ہے اگرچ ہ احت یاط مستحب یہ ہے ک ہ اس ے دوبار ہ طلاق د ے۔

3 ۔ مرد غیر حاضری یا ایسی ہی کسی اور وجہ س ے اپن ی بیوں سے جدا ہ وا اور یہ معلوم نہ ہ وسکتا ہ و ک ہ عورت ح یض یا نفاس سے س ے پاک ہے یا نہیں۔ ل یکن اس صورت میں احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے ک ہ مرد انتظار کر ے تاک ہ ب یوں سے جدا ہ ون ے ک ے بعد کم از کم ا یک مہینہ گزر جائے ا س کے بعد اس طلاق د ے۔

2510 ۔ اگر کوئ ی شخص عورت کو حیض سے پاک سمج ھے اور اس ے طلاق د ے د ے اور بعد م یں پتا چلے ک ہ و ہ ح یض کی حالت میں تھی تو اس کی طلاق باطل ہے اور اگر شو ہ راس ے ح یض کی حالت میں سمجھے اور طلاق د ے د ے اور بعد م یں معلوم ہ و ک ہ پاک ت ھی تو اس کی طلاق صحیح ہے۔

2511 ۔ جس شخص کو علم ہ و ک ہ اس ک ی بیوی حیض یا نفاس کی حالت میں ہے اگر و ہ ب یوی سے جدا ہ و جائ ے مثلاً سفر اخت یار کرے اور اس ے طلاق د ینا چاہ تا ہ و تو اس ے چا ہ ئ ے ک ہ اتن ی مدت صبر کرے جس م یں اسے یقین یا اطمینان ہ و جائ ے ک ہ و ہ عورت ح یض یا نفاس سے پاک ہ و گئ ی ہے اور جب و ہ یہ جان لے ک ہ عورت پاک ہے اس ے طلاق د ے۔ اور اگر اس ے شک ہ وتب ب ھی یہی حکم ہے ل یکن اس صورت میں غائب شخص کی طلاق کے بار ے م یں مسئلہ 2509 میں جو شرائط بیان ہ وئ ی ہیں ان کا خیال رکھے۔

2512 ۔ جو شخص اپن ی بیوی سے جدا ہ و اگر و ہ اس ے طلاق د ینا چاہے تو اگر و ہ معلوم کرسکتا ہ و ک ہ اس ک ی بیوی حیض یا نفاس کی حالت میں ہے یا نہیں تو اگرچہ عورت ک ی حیض کی عادت یا ان دوسری نشانیوں کو جو شرع میں معین ہیں دیکھ ت ے ہ وئ ے اس ے طلاق د ے اور بعد م یں معلوم ہ و ک ہ و ہ حیض یا نفاس کی حالت میں تھی تو اس کی طلاق صحیح ہے۔

2513 ۔ اگر کوئ ی شخص اپنی بیوی سے جو ح یض یا نفاس سے پاک ہ و ہ م بستر ی کرے اور پ ھ ر اس ے طلاق د ینا چاہے تو ضرور ی ہے ک ہ صبر کر ے حت ی کہ اس ے دوبار ہ ح یض آجائے اور پ ھ ر و ہ پاک ہ وجائ ے ل یکن اگر ایسی عورت کو ہ م بستر ی کے بعد طلاق د ی جائے جس ک ی عمر نو سال سے کم ہ و یا معلوم ہ و کہ و ہ حامل ہ ہے تو اس م یں کوئی اشکال نہیں اور اگر عورت یائسہ ہ و تب ب ھی یہی حکم ہے۔

2514 ۔ اگر کوئ ی شخص ایسی عورت سے ہ م بستر ی کرے جو ح یض یا نفاس سے پاک ہ و اور اس ی پاکی کی حالت میں اسے طلاق د ے د ے اور بعد م یں معلوم ہ و ک ہ و ہ طلاق د ینے کے وقت حامل ہ ت ھی تو وہ طلاق باطل ہے اور احت یاط مستحب یہ ہے ہ ک شو ہ ر اس ے دوبار ہ طلاق د ے۔

2515 ۔ اگر کوئ ی شخص ایسی عورت سے ہ م بستر ی کرے جو ح یض یا نفاس سے پاک ہ و پ ھ ر و ہ اس س ے جدا ہ وجائ ے مثلاً سفر اخت یار کرے ل ہ ذا اگر و ہ چا ہے ک ہ سفر ک ے دوران اس ے طلاق د ے اور اس ک ی پاکی یانا پاکی کے بار ے م یں نہ جان سکتا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اتن ی مدت صبر کرے ک ہ عورت کو ا س پاکی کے بعد ح یض آئے اور و ہ دوبار ہ پاک ہ و جائ ے اور احت یاط واجب یہ ہے ک ہ و ہ مدت ا یک مہینے سے کم ن ہ ہ و ۔

2516 ۔ اگر کوئ ی مرد ایسی عورت کو طلاق دینا چاہ تا ہ و جس ے پ یدائشی طور پر یاکسی بیماری کی وجہ س ے حیض نہ آتا ہ و اور اس عمر ک ی دوسری عورتوں کو حیض آتا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ جب اس ن ے ا یسی عورت سے جماع ک یا ہ و اس وقت س ے ت ین مہینے تک اس سے جماع ن ہ کر ے اور بعد م یں اسے ط لاق دے د ے۔

2517 ۔ ضرور ی ہے ک ہ طلاق کا ص یغہ صحیح عربی میں لفظ "طالقٌ" کے سات ھ پ ڑھ ا جائ ے اور دو عادل مرد اسے سن یں۔ اگر شو ہ ر خود طلاق کا ص یغہ پڑھ نا چا ہے اور مثال ک ے طور پر اس ک ی بیوی کا نام فاطمہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ ک ہے :زَوجَتِ ی فَاطِمَۃ ُ طَالِقٌ یعنی میری بیوی فاطمہ آزا د ہے اور اگر و ہ کس ی دوسرے شخص کو وک یل کرے تو ضرور ی ہے ک ہ وک یل کہے : "زَوجَ ۃ ُ مُوَکِّلِی فَاطِمَۃ ُ طَالِقٌ" اور اگر عورت معین ہ و تو اس کا نام ل ینا لازم نہیں ہے اور اگر مرد عرب ی میں طلاق کا صیغہ نہ پ ڑھ سکتا ہ و اور وک یل بھی نہ بنا سک ے تو و ہ جس زبان م یں چاہے ہر اس لفظ کے ذر یعے طلاق دے سکتا ہے جو عرب ی لفظ کے ہ م معن ی ہ و ۔

2518 ۔ جس عورتس ے متعہ ک یا گیا ہ و مثلاً ا یک سال ایک ایک مہینے کے لئ ے اس س ے نکاح ک یا گیا ہ و اس ے طلاق د ینے کا کوئی سوال نہیں۔ اور اس کا آزاد ہ ونا اس بات پر منحصر ہے ک ہ یا تو متعہ ک ی مدت ختم ہ و جائ ے یا مرد اسے مدت بخش د ے اور و ہ اس طرح ک ہ اس س ے ک ہے : "م یں نے مد ت تجھے بخش د ی۔ " اور کس ی کو اس پر گواہ قرار د ینا اور اس عورت کا حیض سے پاک ہ ونا لازم ن ہیں۔

طلاق کی عدت

2519 ۔ جس ل ڑ ک ی کی عمر (پورے ) نو سال ن ہ ہ وئ ی ہ و ۔ اور جو عورت یائسہ ہ وچک ی ہ و ۔ اس ک ی کوئی عدت نہیں ہ وت ی۔ یعنی اگرچہ شو ہ ر ن ے اس س ے مجامعت ک ی ہ و، طلاق ک ے بعد ک ے بعد و ہ فوراً دوسرا شوہ ر کر سکت ی ہے۔

2520 ۔ جس ل ڑ ک ی کی عمر ( پورے ) نو سال ہ وچک ی ہ و اور جو عورت یائسہ نہ ہ و، اس کا شو ہ ر اس س ے مجامعت کر ے تو اگر و ہ اس ے طلاق د ے تو ضرور ی ہے ک ہ و ہ (ل ڑ ک ی یا) عورت طلاق کے بعد عدت رک ھے اور آزاد عورت ک ی عدت یہ ہے ک ہ جب اس کا شو ہ ر اس ے پاک ی کی حالت میں طلاق دے تو اس ک ے بعد و ہ اتن ی مدت صبر کرے ک ہ دو دفع ہ ح یض سے پاک ہ وجائ ے اور جون ہی اسے ت یسری دفعہ ح یض آئے تو اس ک ی عدت ختم ہ وجات ی ہے اور و ہ دوسرا نکاح کرسکت ی ہے ل یکن اگر شوہ ر عورت س ے مجامعت کرن ے س ے پ ہ ل ے اس ے طلاق د ے د ے تو اس ک ے لئ ے کوئ ی عدت نہیں یعنی وہ طلاق ک ے فوراً بعد دوس را نکاح کرسکتی ہے۔ ل یکن اگر شوہ ر ک ی منی جذب یا اس جیسی کسی اور وجہ س ے اس ک ی شرم گاہ م یں داخل ہ وئ ی ہ و تو اس صورت م یں اظہ ر ک ی بنا پر ضروری ہے ک ہ و ہ عورت عدت رک ھے۔

2521 ۔ جس عورت کو ح یض نہ آتا ہ و ل یکن اس کا سن ان عورتوں جیسا ہ و جن ہیں حیض آتا ہ و اگر اس کا شو ہ ر مجامعت کرن ے ک ے بعد اس ے طلاق د ے د ے تو ضرور ی ہے ک ہ طلاق ک ے بعد ت ین مہینے کی عدت رکھے۔

2522 ۔ جس عورت ک ی عدت تین مہینے ہ و اگر اس ے چاند ک ی پہ ل ی تاریخ کو طلاق دی جائے تو ضرور ی ہے ک ہ ت ین قمری مہینے تک یعنی جب چاند دیکھ ا جائے اس وقت س ے ت ین مہینے تک عدت رکھے اور اگر اس ے م ہینے کے دوران (کس ی اور تاریخ کو) طلاق دی جائے تو ضرور ی ہے ک ہ اس م ہینے کے باق ی دنوں میں میں اس کے بعد آن ے وال ے دوم ہینے اور چوتھے ک ے اتن ے دن جتن ے دن پ ہ ل ے م ہینے سے کم ہ وں عدت رک ھے تاک ہ ت ین مہینے مکمل ہ وجائ یں مثلاً اگر اسے م ہینے بیسویں تاریخ کو غروب کے وقت طلاق د ی جائے اور یہ مہینہ انتیس دن کا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ نو دن اس م ہینے کے اور ا س کے بعد دو م ہینے اور اس کے بعد چوت ھے م ہینے کے ب یس دن عدت رکھے بلک ہ احت یاط واجب یہ ہے ک ہ چوت ھے م ہینے کے اک یس دن عدت رکھے تاک ہ پ ہ ل ے م ہینے کے جتن ے دن عدت رک ھی ہے ان ہیں ملا کر دنوں کی تعداد تیس ہ وجائ ے۔

2523 ۔ اگر حامل ہ عورت کو طلاق د ی جائے تو اس ک ی عِدّت وَضع حَمل یا اِستاطِ حَمل تک ہے ل ہ ذا مثال ک ے طور اگر طلاق ک ے ا یک گھ ن ٹے بعد بچ ہ پ یدا ہ وجائ ے تو اس عورت ک ی عدت ختم ہ وجائ ے گ ی۔ ل یکن یہ حکم اس صورت میں ہے جن و ہ بچ ہ صاحب ہ عدت کا شرع ی بیٹ ا ہ و ل ہ ذا اگر عورت زنا سے حاملہ ہ وئ ی ہ و اور شو ہ ر اس ے طلاق د ے تو اس ک ی عدت بچے ک ے پ یدا ہ ون ے س ے ختم ن ہیں ہ وت ی۔

2524 ۔ جس ل ڑ ک ی نے عمر ک ے نو سال مکمل کرلئ ے ہ وں اور جو عورت یائسہ نہ ہ و اگر و ہ مثال ک ے طور پر کس ی شخص سے ا یک مہینے یا ایک سال کے لئ ے متع ہ کر ے تو اگر اس کا شو ہ ر اس س ے مجامعت کر ے اور اس عورت ک ی مدت تمام ہ وجائ ے یا شوہ ر اس ے مدت بخش د ے تو ضرور ی ہے ک ہ و ہ عدت رک ھے۔ پس اگر اس ے ح یض آئے تو احت یاط کی بنا پر ضروری ہے ک ہ دو ح یض کے برابر عدت رکھے اور نکاح ن ہ کر ے اور اگر ح یض نہ آئ ے تو پ ینتالیس یا اسقاط ہ ون ے تک ہے۔ اگرچ ہ احت یاط مستحب یہ ہے ک ہ جو مدت وضع حمل یا پینتالیس دن میں سے ز یادہ ہ و اتن ی مدت کے لئ ے عدت رک ھے۔

2525 ۔ طلاق ک ی عدت اس وقت شروع ہ وت ی ہے جب ص یغہ کا پڑھ نا ختم ہ وجاتا ہے خوا ہ عورت کو پتا چل ے یا نہ چل ے ک ہ اس ے طلاق ہ وگئ ی ہے پس اگر اس ے عدت (ک ے برابر مدت) گزرن ے ک ے بعد پتا چل ے ک ہ اس ے طلاق ہ وگئ ی ہے تو ضرور ی نہیں کہ و ہ دوبار ہ عدت رک ھے۔

وفات کی عدت

2526 ۔ اگر کوئ ی عورت بیوہ ہ وجائ ے تو اس صورت م یں جبکہ و ہ آزاد ہ و اگر و ہ حامل ہ ن ہ ہ و تو خوا ہ و ہ یائسہ ہ و یا شوہ ر ن ے اس س ے مُتع ہ ک یا ہ و یا شوہ ر ن ے اس س ے مجامعت ن ہ ک ی ہ و ضرور ی ہے ک ہ چار م ہینے اور دس دن عدت رکھے اور اگر حامل ہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ وضع حمل تک عدت رک ھے لیکن اگر چار مہینے اور دس دن گزرنے س ے پ ہ ل ے بچہ پ یدا ہ وجائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ شو ہ ر ک ی موت کے بعد چار م ہینے دس دن تک صبر کرے اور اس عدت کو وفات ک ی عدت کہ ت ے ہیں۔

2527 ۔ جو عورت وفات ک ی عدت میں ہ و اس ک ے لئ ے رنگ برنگا لباس پ ہ ننا، سرم ہ لگان ہ اور اس ی طرح دوسرے ا یسے کام جو زینت میں شمار ہ وت ے ہیں حرام ہیں۔

2528 ۔ اگر عورت کو یقین ہ وجائ ے ک ہ اس کا شو ہ ر مرچکا ہے اور عدت وفات تمام ہ ون ے ک ے بعد و ہ دوسرا نکاح کر ے اور پ ھ ر اس ے معلوم ہ و ک ہ اس ک ے شو ہ ر ک ی موت بعد میں واقع ہ وئ ی ہے تو ضرور ی ہے ک ہ دوسر ے شو ہ ر س ے عل یحدگی اختیار کرے اور احت یاط کی بنا پر اس صورت میں جب کہ و ہ حا ملہ ہ و وضع حمل تک دوسر ے شو ہ ر ک ے لئ ے وط ی شبہ ک ی عدت رکھے۔ جو ک ہ طلاق ک ی عدت کی طرح ہے۔ اور اس ک ے بعد پ ہ ل ے شو ہ ر ک ے لئ ے عدت وفات رک ھے اور اگر حامل ہ ن ہ ہ و تو پ ہ ل ے شو ہ ر ک ے لئ ے عدت وفات اور اس ک ے بعد دوسر ے شو ہ ر ک ے لئ ے وط ی شبہ ک ی عدت رکھے۔

2529 ۔ جس عورت کا شو ہ ر لاپت ہ ہ و یا لاپتہ ہ ون ے ک ے حکم م یں ہ و اس ک ی عدت وفات شوہ ر ک ی موت کی اطلاع ملنے ک ے وقت س ے شروع ہ وت ی ہے ن ہ ک ہ شو ہ ر ک ی موت کے وقت ہے۔ ل یکن اس حکم کا اس عورت کے لئ ے ہ ونا جو نابالغ یا پاگل ہ و اشکال ہے۔

2530 ۔ اگر عورت ک ہے ک ہ م یری عدت ختم ہ وگئ ی ہے تو اس ک ی بات قابل قبول ہے مگر یہ کہ و ہ غلط ب یان مشہ ور ہ و تو اس صورت م یں احتیاط کی بنا پر اس کی بات قابل قبول نہیں ہے۔ مثلاً و ہ ک ہے ک ہ مج ھے ا یک مہینے میں تین دفعہ خون آتا ہے تو اس بات ک ی تصدیق نہیں کی جائے گ ی مگر یہ کہ اس ک ی سہیلیاں اور رشتے دار عورت یں اس بات کی تصدیق کریں اور اس کی حیض کی عادت ایسی ہی تھی۔

طلاق بائِن اور طلاق رَجعی

2531 ۔ طلاق بائن و ہ ک ہ طلاق ہے جس ک ے بعد مرد اپن ی عورت کی طرف رجوع کرنے کا حق ن ہیں رکھ تا یعنی یہ کہ بغ یر نکاح کے دوبار ہ اس ے اپن ی بیوی نہیں بنا سکتا اور اس طلاق کو چھ قسم یں ہیں :

1 ۔ اس عورت کو د ی گئی طلاق جس کی عمر ابھی نو سال نہ ہ وئ ی ہ و ۔

2 ۔ اس عورت کو د ی گئی طلاق جا یائسہ ہ و ۔

3 ۔ اس عورت کو د ی گئی طلاق جس کے شو ہ ر ن ے نکاح ک ے بعد اس س ے جماع ن ہ ک یا ہ و ۔

4 ۔ جس عورت کو ت ین دفعہ طلاق د ی گئی ہ و اس ے د ی جانے وال ی تیسری طلاق۔

5 ۔ خُلع اور مبارات ک ی طلاق

6 ۔ حاکم شرع کا اس عورت کو طلاق د ینا جس کا شوہ ر ن ہ اس ک ے اخراجات برداشت کرتا ہ و ن ہ اس ے طلاق د یتا ہ و، جن ک ے احکام بعد م یں بیان کئے جائ یں گے۔

اور ان طلاقوں کے علاو ہ جو طلاق یں ہیں وہ رجع ی ہیں جس کا مطلب یہ ہے ک ہ جب تک عورت عدت م یں ہ و شو ہ ر اس س ے رجوع کر سکتا ہے۔

2532 ۔ جس شخص ن ے اپن ی عورت کو رجعی طلاق دی ہ و اس ک ے لئ ے اس عورت کو اس گ ھ ر س ے نکال د ینا جس میں وہ طلاق د ینے کے وقت مق یم تھی حرام ہے البت ہ بعض موقعوں پر ۔ جن م یں سے ا یک یہ ہے ک ہ عورت زنا کر ے تو اس ے گ ھ ر س ے نکال د ینے میں کائی اشکال نہیں ۔ ن یز یہ بھی حرام ہے ک ہ عورت غیر ضروری کاموں کے لئ ے شو ہ ر ک ی اجازت کے بغ یر اس گھ ر س ے با ہ ر جائ ے۔

رجوع کرنے ک ے احکام

2533 ۔ رجع ی طلاق میں مرد دو طریقوں سے عورت ک ی طرف رجوع کر سکتا ہے :

1 ۔ ا یسی باتیں کرے جن س ے مترشح ہ و ک ہ اس ن ے اس ے دوبار ہ اپن ی بیوی بنا لیا ہے۔

2 ۔ کوئ ی کام کرے اور اس کام س ے رجوع کا قصد کر ے اور ظا ہ ر یہ ہے ک ہ جماع کرن ے س ے رجوع ثابت ہ وجاتا ہے خوا ہ اس کا قصد رجوع کرن ے کا ن ہ ب ھی ہ و ۔ بلک ہ بعض (فق ہ اء) کا ک ہ نا ہے ک ہ اگرچ ہ رجوع کا قصد ن ہ ہ و صرف لپ ٹ ان ے اور بوس ہ ل ینے سے رجوع ثابت ہ وجاتا ہے البت ہ یہ قول اشکال سے خال ی نہیں ہے۔

2534 ۔ رجوع کرن ے م یں مرد کے لازم ن ہیں کہ کس ی کو گواہ بنائ ے یا اپنی بیوی کو (رجوع کے متعلق) اطلاع د ے بلک ہ اگر بغ یر اس کے ک ہ کس ی کو پتا چلے و ہ خود ہی رجوع کرلے تو اس کا رجوع کرنا صح یح ہے ل یکن اگر عدت ختم ہ وجان ے ک ے بعد مرد ک ہے ک ہ م یں نے عدت ک ے دوران ہی رجوع کر لیاتھ ا تو لازم ہے ک ہ اس بات کو ثابت کر ے۔

2535 ۔ جس مرد ن ے عورت کو رجع ی طلاق دی ہ و اگر و ہ اس س ے کچ ھ مال ل ے ل ے اور اس س ے مصالح ت کرل ے ک ہ اب تج ھ س ے رجوع ن ہ کروں گا تو اگرچ ہ یہ مصالحت درست ہے اور مرد پر واجب ہے ک ہ رجوع ن ہ کر ے ل یکن اس سے مرد ک ے رجوع کرن ے کا حق ختم نہیں ہ وتا اور اگر و ہ رجوع کر ے تو جو طلا ق دے چکا ہے و ہ عل یحدگی کا موجب نہیں بنتی۔

2536 ۔ اگر کوئ ی شخص اپنی بیوی کو دو دفعہ طلاق د ے کر اس ک ی طرف رجوع کرلے یا اسے دو دفع ہ طلاق د ے اور ہ ر طلاق ک ے بعد اس س ے نکاح کر ے یا ایک طلاق کے بعد رجوع کر ے اور دوسر ی طلاق کے بعد نکاح کر ے تو ت یسری طلاق کے بعد و ہ اس مرد پر حرام ہ وجائ ے گ ی۔ ل یکن اگر عورت تیسری طلاق کے بعد کس ی دوسرے مرد س ے نکاح کر ے تو و ہ پانچ شرطوں ک ے سات ھ پ ہ ل ے مرد پر حلال ہ وگ ی یعنی وہ اس عورت س ے دوبار ہ نکاح کرسک ے گا ۔

1 ۔ دوسر ے شو ہ ر کا نکاح دائم ی ہ و ۔ پوس ا گر مثال کے طور پر و ہ ا یک مہینے یا ایک سال کے لئ ے اس عورت س ے متع ہ کرل ے تو اس مرد ک ے اس س ے عل یحدگی کے بعد پ ہ لا شو ہ ر اس س ے نکاح ن ہیں کرسکتا۔

2 ۔ دوسرا شو ہ ر جماع کر ے اور احت یاط واجب یہ ہے ک ہ جماع فرج م یں کرے۔

3 ۔ دوسرا شو ہ ر اس ے طلاق د ے یا مرجائے۔

4 ۔ دوسر ے شو ہ ر ک ی طلاق کی عدت یا وفات کی عدت ختم ہ وجائ ے۔

5 ۔ احت یاط واجب کی بنا پر دوسرا شوہ ر جماع کرت ے وقت بالغ ہ و ۔

طلاق خلع

2537 ۔ اس عورت ک ی طلاق کو جو اپنے شو ہ ر ک ی طرف مائل نہ ہ و اور اس س ے نفرت کرت ی ہ و اپنا م ہ ر یا کوئی اور مال اسے بخش د ے تاک ہ و ہ اس ے طلاق د ے د ے طلاق خلع کہ ت ے ہیں۔ اور طلاق خلع م یں اظہ ر ک ی بنا پر معتبر ہے ک ہ عورت اپن ے شو ہ ر س ے اس قدر شد ید نفرت کرتی ہ و ک ہ اس ے وظ یفہ زوجیت ادا نہ کرن ے ک ی دھ کم ی دے۔

2538 ۔ جب شو ہ ر خود طلاق خلع کا ص یغہ پڑھ نا چا ہے تو اگر اس ک ی بیوی کا نام مثلاً فاطمہ ہ و تو عوض ل ینے کے بعد ک ہے :" زَو جَتِی فَاطِمَۃ ُ کَالَعتُھ َا عَلٰ ی مَا بَذَلَت" اور احتیاط مستحب کی بنا پر "ھ ِ یَ طَالِقٌ" بھی کہے یعنی میں نے اپن ی بیوی فاطمہ کو اس مال ک ے عوض جو اس ن ے مج ھے د یا ہے طلاق خلع د ے ر ہ ا ہ وں اور و ہ آزاد ہے ۔ اور اگر عورت مع ین ہ و تو طلاق خلع م یں اور نیز طلاق مبارات میں اس کا نام لینا لازم نہیں ۔

2539 ۔ اگر کوئ ی عورت کسی شخص کو وکیل مقرر کرے تاک ہ و ہ اس کا م ہ ر اس ک ے شو ہ ر کو بخش د ے اور شو ہ ر ب ھی اسی شخص کو وکیل مقرر کرے تاک ہ و ہ اس ک ی بیوی کو طلاق دے د ے تو اگر مثال ک ے طور پر شو ہ ر کا نام محمد اور ب یوی کا نام فاطمہ ہ و تو وک یل صیغہ طلاق یوں پڑھے "عن مَوَکّ ِلَتِی فَاطِمَۃ َ بَذَلتُ مَہ رَ ھ َا لِمُوَکِّلِ ی مُحَمَّدٍ لِیَخلَعَھ َا عَلَیہ" اور اس کے بعد بلافاصل ہ ک ہے "زَوج ۃ ُ مَوَکِّلِی خَالَعتُھ ا عَلٰ ی مَابَذَلَت ھ ِ یَ طَالِقٌ۔ اور اگر عورت کس ی کو وکیل مقرر کرے ک ہ اس ک ے شو ہ ر کو م ہ ر ک ے علاو ہ کوئ ی اور چیز بخش دے تاک ہ ا س کا شوہ ر اس ے طلاق د ے د ے تو ضرور ی ہے ک ہ وک یل لفظ "مَہ رَ ھ َا" ک ی بجائے اس چ یز کا نام لے مثلاً اگر عورت ن ے سو روپ ے د یئے ہ وں تو ضرور ی ہے ک ہ ک ہے : بَذّلَت مِاَ ۃ َ رُوبِیَۃ۔ "

طلاق مبارات

2540 ۔ اگر م یاں بیوی دونوں ایک دوسرے کو ن ہ چا ہ ت ے ہ وں اور ا یک دوسرے س ے نفرت کرت ے ہ وں اور عورت مرد کو کچ ھ مال د ے تاک ہ و ہ اس ے طلاق د ے د ے تو اس ے طلاق مبارات ک ہ ت ے ہیں۔

2541 ۔ اگر شو ہ ر مبارات کا ص یغہ پڑھ نا چا ہے تو اگر مثلاً عورت کا نام فاطم ہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ ک ہے :

"بَارَاتُ زَوجَتِی فَاطِمَۃ َ عَلٰی مَابَذَلَت" اور احتیاط لازم کی بنا پر "فَھ ِ یَ طَالِقٌ" بھی کہے یعنی میں اور میری بیوی فاطمہ اس عطا ک ے مقابل م یں جو اس نے ک ی ہے ا یک دوسرے س ے جدا ہ وگئ ے ہیں پس وہ آزاد ہے۔ اور اگر و ہ شخص کس ی کو وکیل مقرر کرے تو ضرور ی ہے ک ہ وکیل کہے : "عَن قِبَلِ مُوَکِّلِ ی بَارَاتُ زَوجَتَہ فَاطِمَ ۃ َ عَلٰی مَابَذَلَت فَھ ِ یَ طَالِقٌ" اور دونوں صورتوں میں کلمہ "عَلٰ ی مَابَذَلَت" کی بجائے اگر "بِمَا بَذَلَت" ک ہے تو کوئ ی اشکال نہیں ہے۔

2542 ۔ خلع اور مبارات ک ی طلاق کا صیغہ اگر ممکن ہ و تو صح یح عربی میں پڑھ نا جانا چا ہ ئ ے اور اگر ممکن ن ہ ہ و تو اس کا حکم طلاق ک ے حکم ج یسا ہے جس کا ب یان مسئلہ 2517 میں گزر چکا ہے ل یکن اگر عورت مبارات کی طلاق کے لئ ے شو ہ ر کو اپنا مال بخش د ے۔ مثلاً ارودو م یں کہے ک ہ " میں نے طلاق ل ینے کے لئ ے فلاں مال تم ہیں بخش دیا" تو کوئی اشکال نہیں۔

2543 ۔ اگر کوئ ی عورت طلاق خلع یا طلاق مبارات کی عدت کے دوران اپن ی بخشش سے پ ھ ر جائ ے تو شو ہ ر اس ک ی طرف رجوع کرسکتا ہے اور دوبار ہ نکاح کئ ے بغ یر اسے اپن ی بیوی بنا سکتا ہے۔

2544 ۔ جو مال شو ہ ر طلاق مبارات د ینے کے لئ ے ضرور ی ہے ک ہ و ہ عورت ک ے م ہ ر س ے ز یادہ نہ ہ و ل یکن طلاق خلع کے سلسل ے م یں لیا جانے والا مال اگر م ہ ر س ے ز یادہ بھی ہ و تو کوئ ی اشکال نہیں۔

طلاق کے مختلف احکام

2545 ۔ اگر کوئ ی آدمی کسی نامحرم عورت سے اس گمان م یں جماع کرے ک ہ و ہ اس ک ی بیوی ہے تو خوا ہ عورت کو علم ہ و ک ہ و ہ شخص اس کا شو ہ ر ن ہیں ہے یا گمان کرے ک ہ اس کا شوہ ر ہے ضرور ی ہے ک ہ عدت رک ھے۔

2546 ۔ اگر کوئ ی آدمی کسی عورت سے یا جانتے ہ وئ ے زنا کر ے ک ہ و ہ اس ک ی بیوی نہیں ہے تو اگر عورت کو علم ہ و ک ہ و ہ آدم ی اس کا شوہ ر ن ہیں ہے اس ک ے لئ ے عدت رک ھ نا ضرور ی نہیں۔ ل یکن اگر اسے شو ہ ر ہ ون ے کا گمان ہ و تو احت یاط لازم یہ ہے ک ہ و ہ عورت عدت رک ھے۔

2547 ۔ اگر کوئ ی آدمی کسی عورت کو ورغلائے ک ے و ہ اپن ے شو ہ ر س ے متعلق ازدواج ی ذمے دار یاں پوری نہ کر ے تاک ہ اس طرح شو ہ ر اس ے طلاق د ینے پر مجبور ہ وجائ ے اور و ہ خود اس عورت ک ے سات ھ شاد ی کرسکے تو طلاق اور نکاح صح یح ہیں لیکن دونوں نے ب ہ ت ب ڑ ا گ ناہ ک یا ہے۔

2548 ۔ اگر عورت نکاح ک ے سلسل ے م یں شوہ ر س ے شرط کر ے ک ہ اگر اس کا شو ہ ر سفر اخت یار کرلے یا مثلاً چھ م ہینے اسے خرچ ن ہ د ے تو طلاق کا اخت یار عورت کو حاصل ہ وگا تو یہ شرط باطل ہے۔ ل یکن اگر وہ یوں شرط کرے ک ہ اب ھی سے شو ہ ر ک ی طرف سے وک یل ہے ک ہ اگر و ہ مسافرت اختیار کرے یا چھ م ہینے تک اس کے اخراجات پور ے ن ہ کر ے تو و ہ اپن ے آپ کو طلاق د ے گ ی تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

2549 ۔ جس عورت کا شو ہ ر لاپت ہ ہ و جائ ے اگر و ہ دوسرا شو ہ ر کرنا چا ہے تو ضرور ی ہے ک ہ مجت ہ د عادل ک ے پاس جائ ے اور اس ک ے حکم مطابق عمل کر ے۔

2550 ۔ د یوانے کے باپ دادا اس ک ی بیوی کو طلاق دے سکت ے ہیں۔

2551 ۔ اگر باپ یا دادا اپنے (نابالغ) ل ڑ ک ے ( یا پوتے ) کا کس ی عورت سے متع ہ کر د یں اور متعہ ک ی مدت میں اس لڑ ک ے ک ے مکلف ہ ون ے ک ی کچھ مدت ب ھی شامل ہ و مثلاً اپن ے چود ہ سال ہ ل ڑ ک ے کا کس ی عورت سے دو سال ک ے لئ ے متع ہ کر د یں تو اگر اس میں لڑ ک ے ک ی بھ لائ ی ہ و تو ہ ( یعنی باپ دادا) اس عورت کی مدت بخش سکتے ہیں لیکن لڑ ک ے ک ی دائمی بیوی کو طلاق نہیں دے سکت ے۔

2552 ۔ اگر کوئ ی شخص دو آدمیوں کو شرع کو مقرر کردہ علامت ک ی رو سے عادل سمج ھے اور اپن ی بیوی کو ان کے سامن ے طلاق د ے د ے تو کوئ ی اور شخص جس کے نزد یک ان دو آدمیوں کی عدالت ثابت نہ ہ و اس عورت ک ی عدت ختم ہ ون ے ک ے بعد س ک ے سات ھ خود نکاح کرسکتا ہے یا اسے کس ی دوسرے ک ے نکاح میں دے سکتا ہے اگرچ ہ احت یاط مستحب یہ ہے ک ہ اس ک ے سات ھ نکاح س ے اجتناب کر ے اور دوسر ے کا نکاح ب ھی اس کے سات ھ ن ہ کر ے۔

2553 ۔ اگر کوئ ی شخص اپنی بیوی کے علم م یں لائے بغ یر اسے طلاق د ے د ے تو اگر و ہ اس ک ے اخراجات اس ی طرح دے جس طرح اس وقت د یتا تھ ا جب و ہ اس ک ی بیوی تھی اور مثلاً ایک سال کے بعد اس س ے ک ہے ک ہ "م یں ایک سال ہ وا تج ھے طلاق د ے چکا ہ وں" اور اس بات کو شرعاً ثابت ب ھی کر دے تو جو چیزیں اس نے اس مدت م یں اس عورت کو مہیا کی ہ وں اور و ہ ان ہیں اپنے استعمال م یں نہ لائ ی ہ و اس س ے واپس ل ے سکتا ہے ل یکن جو چیزیں اس نے استمعال کر ل ی ہ وں ان کا مطالب ہ ن ہیں کرسکتا۔

غصب کے احکام

"غصب" کے معن ی یہ ہیں کہ کوئ ی شخص کسی کے مال پر حق پر ظلم (اور د ھ ونس یا دھ اندل ی) کے ذر یعے قابض ہ و جائ ے۔ اور یہ بہ ت ب ڑے گنا ہ وں م یں سے ا یک گناہ ہے جس کا مرتکب ق یامت کے دن سخت عذاب م یں گرفتار ہ وگا ۔ جناب رسول اکرم (صل ی اللہ عل یہ وآلہ ) س ے روا یت ہے "جو شخص کس ی دوسرے کی ایک بالشت زمین غصب کرے ق یامت کے دن اس زم ین کو اس کے سات ھ طبقوں سم یت طوق کی طرح اس کی گردن میں ڈ ال د یا جائے گا ۔ ”

2554 ۔ اگر کوئ ی شخص لوگوں کو مسجد یا مدرسے یا پل یا دوسری ایسی جگہ وں س ے جو رفا ہ حام ہ ک ے لئ ے بنائ ی گئی ہ وں استفاد ہ ن ہ کرن ے د ے تو اس ن ے ان کا حق غصب ک یا ہے۔ اس ی طرح اگر کوئی شخص مسجد میں اپنے (ب یٹھ ن ے کے ) لئ ے جگ ہ مختص کر ے اور دوسرا کوئ ی شخص اسے اس جگ ہ س ے نکال دے اور اسے اس جگ ہ س ے استفاد ہ کرن ے د ے تو و ہ گنا ہ گار ہے۔

2555 ۔ اگر گرد ی رکھ وان ے والا اور گرد ی رکھ ن ے والا یہ طے کر یں کہ جو چ یز گروی رکھی جارہی ہ و و ہ گرو ی رکھ ن ے وال ے یا کسی تیسرے شخص کے پاس رک ھی جائے تو گرو ی رکھ وان ے والا اس کا قرض ادا کرن ے س ے پ ہ ل ے اس چ یز کو واپس نہیں لے سکتا اور اگر و ہ چ یز واپس لی ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ فوراً لو ٹ ا د ے۔

2556 ۔ جو مال کس ی کے پاس گرو ی رکھ ا گ یا ہ و اگر کوئ ی اور شخص اسے غصب کرل ے تو مال کامالک اور گرو ی رکھ ن ے والا دونوں غاصب س ے غصب ک ی ہ وئ ی چیز کا مطالبہ کر سکت ے ہیں اور اگر وہ چ یز غاصب سے واپس ل ے ل یں تو وہ گرو ی رہے گ ی اور اگر وہ چ یز تلف ہ و جائ ے اور و ہ اس کا عوض حا صل کریں تو وہ عوض ب ھی اصلی چیز کی طرح گروی رہے گا ۔

2557 ۔ اگر انسان کوئ ی چیز غصب کرے تو ضرور ی ہے ک ہ اس ک ے مالک کو لو ٹ ا د ے اور اگر و ہ چ یز ضائع ہ وجائ ے اور اس ک ی کوئی قیمت ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا عوض مالک کو د ے۔

2558 ۔ جو چ یز غصب کی گئی ہ و اگر اس س ے کوئ ی نفع ہ و مثلاً غصب ک ی ہ وئ ی بھیڑ کا بچہ پ یدا ہ و تو و ہ اس ک ے مالک کا مال ہے ن یز مثال کے طور پر اگر کس ی نے کوئ ی مکان غصب کر لیا ہ و تو خوا ہ غاصب اس مکان م یں نہ ر ہے ضرور ی ہے ک ہ اس کا کرا یہ مالک کو دے۔

2559 ۔ اگر کوئ ی بچے یا دیوانے سے کوئ ی چیز جو اس (بچے یا دیوانے) کا مال ہ و غصب کر ے تو ضرور ی ہے ک ہ و ہ چ یز اس کے سرپرست کو د ے د ے اور اگر و ہ چ یز تلف ہ و جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا عوض د ے۔

2560 ۔ اگر و ہ آدم ی مل کر کسی چیز کو غصب کریں چنانچہ و ہ دونوں اس چ یز پر تسلط رکھ ت ے ہ وں تو ان م یں سے ہ ر ا یک اس پوری چیز کا ضامن ہے اگرچ ہ ان م یں سے ہ ر ا یک جدا گانہ طور پر اس ے غصب ن ہ کرسکتا ہے۔

2561 ۔ اگر کوئ ی شخص غصب کی ہ وئ ی چیز کو کسی دوسری چیز سے ملا د ے مثلاً جو گ یہ وں غصب کی ہ و اس ے جَوس ے ملاد ے تو اگر ان کا جدا کرنا ممکن ہ و تو خوا ہ اس م یں زحمت ہی کیوں نہ ہ و ضرور ی ہے ک ہ ان ہیں ایک دوسرے س ے عل یحدہ کرے اور (غصب ک ی ہ وئ ی چیز) اس کے مالک کو واپس کر د ے۔

2562 ۔ اگر کوئ ی شخص طلائی چیز مثلاً سونے ک ی بالیوں کو غصب کرے اور اس ک ے بعد اس ے پگ ھ لا د ے تو پگ ھ لان ے س ے پ ہ ل ے اور پگ ھ لان ے ک ے بعد ک ی قیمت میں جو فرق ہ و ضرور ی ہے ک ہ و ہ مالک کو ادا کر ے چنانچ ہ اگر ق یمت میں جو فرق پڑ ا ہ و و ہ ن ہ د ینا چاہے اور ک ہے ک ہ م یں اسے پ ہے ک ی طرح بنا دوں گا تو مالک مجبور نہیں کہ اس ک ی بات قبول کرے اور مالک ب ھی اسے مجبور ن ہیں کرسکتا کہ و ہ اس ے پ ہ ل ے ک ی طرح بنادے۔

2563 ۔ جس شخص ن ے کوئ ی چیز غصب کی ہ و اگر و ہ اس م یں ایسی تبدیلی کرے ک ہ اس چ یز کی حالت پہ ل ے س ے ب ہ تر ہ و جائ ے مثلاً جو سونا غصب ک یا ہ و اس ک ے بند بنا د ے تو اگر مال کا مالک اس ے ک ہہ ک ہ مج ھے مال اسی حالت میں (یعنی بندے ک ی شکل میں) دو تو ضروری ہے ک ہ اس ے د ے د ے اور جو ز حمت اس نے ا ٹھ ائ ی ہ و ( یعنی بندے بنان ے پر جو محنت ک ی ہ و) اس ک ی مزدوری نہیں لے سکتا اور اس ی طرح وہ یہ حق نہیں رکھ تا ک ہ مالک ک ی اجازت کے بغ یر اس چیز کو اس کو پہ ل ی حالت میں لے آئ ے ل یکن اگر اس کی اجازت کے بغ یر اس چیز کو پہ ل ے ج یسا کردے یا اور کسی شکل میں تبدیل کرے تو معلوم نہیں ہے ک ہ دونوں صورتوں م یں قیمت کا جو فرق ہے اس کا ضامن ہے یا (نہیں)۔

2564 ۔ جس شخص ن ے کوئ ی چیز غصب کی ہ و اگر و ہ اس م یں ایسی تبدیلی کرے ک ہ اس چ یز کی حالت پہ ل ے س ے ب ہ تر ہ وجائ ے اور صاحب مال اس ے اس چ یز کی پہ ل ی حالت میں واپس کرنے کو ک ہ ت ے تو اس ک ے لئ ے واجب ہے ک ہ اس ے اس ک ی پہ ل ی حالت میں لے آئ ے اور اگر تبد یلی کرنے ک ی وجہ س ے اس چ یز کی قیمت پہ ل ی حالت سے کم ہ وجائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ اس کا فرق مالک کو د ے ل ہ ذا اگر کو ئی شخص غصب کئے ہ وئ ے سون ے کا ہ ار بنال ے اور اس سون ے کا مالک ک ہے ک ہ تم ہ ار ے لئ ے لازم ہے ک ہ اس ے ک ہ پ ہ ل ی شکل میں لے آو تو اگر پگ ھ لان ے ک ے بعد سون ے ک ی قیمت اس سے کم ہ و جائ ے جتن ی ہ ار بنان ے سے پ ہ ل ی تھی تو غاصب کے لئ ے ضرور ی ہے ک ہ ق یمتوں میں جتنا فرق ہ و اس ک ے مالک کو دے۔

2565 ۔ اگر کوئ ی شخص اس زمین میں جو اس نے غصب ک ی ہ و ک ھیتی باڑی کرے یا درخت لگائے تو زراعت، درخت اور ان کا پ ھ ل خود اس کا مال ہے اور زم ین کا مالک اس بات راضی نہ ہ و ک ہ درخت اس زم ین میں رہیں تو جس نے و ہ زم ین غصب کی ہ و ضرور ی ہے ک ہ خوا ہ ا یسا کرنا اس کے لئ ے نقصان د ہ ہی کیوں نہ ہ و و ہ فوراً اپن ی زراعت یا درختوں کو زمین سے اک ھیڑ ل ے نیز ضروری ہے ک ہ جتن ی مدت زراعت اور درخت اس زمین میں رہے ہ وں اتن ی مدت کا کرایہ زمین کے مالک کو د ے اور جو خراب یاں زمین میں پیدا ہ وئ ی ہ وں ان ہیں درست کرے مثلاً ج ہ اں درختوں کو اکھیڑ ن ے سے زم ین میں گڑھے پڑ گئ ے ہ وں اس جگ ہ کو ہ موار کر ے اور اگر ان خراب یوں کی وجہ س ے زم ین کی قیمت پہ ل ے س ے کم ہ وجائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ ق یمت میں جو فرق پڑے و ہ ب ھی ادا کرے اور و ہ زم ین کے مالک کو اس بات پر مجبور ن ہیں کرسکتا کہ زم ین اس کے ہ ات ھ ب یچ دے یا کرائے پر د یدے نیز زمین کا مالک بھی اسے مجبور ن ہیں کرسکتا کہ درخت یا زراعت اس کے ہ ات ھ ب یچ دے۔

2566 ۔ اگر زم ین کا مالک اس بات پر راضی ہ و جائ ے ک ہ زراعت اور درخت اس ک ی زمین میں رہیں تو جس شخص نے زم ین غصب کی ہ و اس ک ے لئ ے لازم ن ہیں کہ زراعت اور درختوں کو اک ھیڑے لیکن ضروری ہے ک ہ جب زم ین غصب کی ہ و اس وقت س ے ل ے کر مالک ک ے راض ی ہ ون ے تک ک ی مدت کا زمین کا کرایہ د ے۔

2567 ۔ جو چ یز کسی نے غصب ک ی ہ و اگر و ہ تلف ہ و جائ ے تو اگر و ہ چ یز گائے اور ب ھیڑ کی طرح کی ہ و جن ک ی قیمت ان کی ذاتی خصوصیات کی بنا پر عقلاء کی نظر میں فرداً فرداً مختلف ہ وت ی ہے تو ضرور ی ہے ک ہ غاصب اس چ یز کی قیمت ادا کرے اور اگر اس وقت اور ضرورت مختلف ہ ون ے ک ی وجہ سے اس ک ی بازار کی قیمت بدل گئی ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ و ہ ق یمت دے جو تلف ہ ون ے ک ے وقت ت ھی اور احتیاط مستحب یہ ہے ک ہ غصب کرن ے ک ے وقت س ے ل ے کر تلف ہ ون ے تک اس چیز کی جو زیادہ سے ز یادہ قیمت رہی ہ و و ہ د ے۔

2568 ۔ جو چ یز کسی نے غصب ک ی ہ و اگر و ہ تلف ہ و جائ ے تو اگر و ہ گ یہ وں اور جَو کی مانند ہ و جن ک ی فرداً فرداً قیمت کا ذاتی خصوصیات کی بنا پر باہ م فرق ن ہیں ہ وتا تو ضرور ی ہے ک ہ (غاصب ن ے ) جو چ یز غصب کی ہ و اس ی جیسی چیز مالک کو دے ل یکن جو چیز دے ضرور ی ہے ک ہ اس ک ی قسم اپنی خصوصیات میں اس غصب کی ہ وئ ی چیز کی قسم کے مانند ہ و جو ک ہ تلف ہ وگئ ی ہے مثلاً اگر ب ڑھیا قسم کا چاول غصب کیا تھ ا تو گ ھٹیا قسم کا نہیں دے سکتا ۔

2569 ۔ اگر ا یک شخص بھیڑ جیسی کوئی چیز غصب کرے اور و ہ تلف ہ و جائ ے تو اگر اس ک ی بازار کی قیمت میں فرق نہ پ ڑ ا ہ و ل یکن جتنی مدت وہ غصب کرن ے وال ے ک ے پاس ر ہی ہ و اس مدت م یں مثلاً فربہ ہ و گئ ی ہ و اور پ ھ ر تلف ہ و جائ ے تو ضرور ی ہے ک ہ فرب ہ ہ ون ے ک ے وقت ک ی قیمت ادا کرے۔

2570 ۔ جو چ یز کسی نے غصب ک ی ہ و اگر کوئ ی اور شخص وہی چیز اس سے غصب کر ے اور پ ھ ر و ہ تلف ہ و جائ ے تو مال ان دونوں م یں سے ہ ر ا یک سے اس کا عوض ل ے سکتا ہے یا ان دونوں میں سے ہ ر ا یک سے اس ک ے عوض ک ی کچھ مقدار کا مطالب ہ کر سکتا ہے ل ہ ذا اگر مال کا مالک اس کا عوض پ ہ ل ے غ اصب سے ل ے ل ے تو پ ہ ل ے غاصب ن ے جو کچ ھ د یا ہ و و ہ دوسر ے غاصب س ے ل ے سکتا ہے ل یکن اگر مال کا مالک اس کا عوض دوسرے غاصب س ے ل ے ل ے تو اس ن ے جو کچ ھ د یا ہے اس کا مطالب ہ دوسرا غاصب پ ہ ل ے غاصب س ے ن ہیں کرسکتا۔

2571 ۔ جس چ یز کو بیچا جائے اگر اس م یں معاملے ک ی شرطوں میں سے کوئ ی ایک موجود نہ ہ و مثلاً جس چ یز کی خریدوفروخت وزن کرکے کرن ی ضروری ہ و اگر اس کا معامل ہ بغ یر وزن کئے ک یا جائے تو معامل ہ باطل ہے اور اگر ب یچنے والا اور خریدار معاملے س ے قطع نظر اس بات پر رضامند ہ وں ک ہ ا یک دوسرے ک ے مال م یں تصرف کریں تو کوئی اشکال نہیں ہے ورن ہ جو چ یز انہ وں ن ے ا یک دوسرے س ے ل ی ہ و وہ غصب ی مال کی مانند ہے اور ان ک ے لئ ے ضرور ی ہے ک ہ ا یک دوسرے ک ی چیزیں واپس کر دیں اور اگر دونوں میں سے جس ک ے ب ھی ہ ات ھ وں دوسر ے کا مال تلف ہ و جائ ے تو خوا ہ اس ے معل وم ہ و یا نہ ہ و ک ہ معامل ہ باطل ت ھ ا ضرور ی ہے ک ہ اس کا عوض د ے۔

2572 ۔ جب ا یک شخص کوئی مال کسی بیچنے والے س ے اس مقصد س ے ل ے ک ہ اس ے د یکھے یا کچھ مدت اپن ے پاس رک ھے تاک ہ اگر پسند آئ ے تو خر ید لے تو اگر و ہ مال تلف ہ وجائ ے تو مش ہ ور قول ک ی بنا پر ضروری ہے ک ہ اس کا عوض اس ک ے مالک کو د ے۔