وصیت کے احکام
2703 ۔ "وص یت" یہ ہے ک ہ انسان تاک ید کرے ک ہ اس ک ے مرن ے ک ے بعد اس ک ے لئ ے فلاں فلاں کام کئ ے جائ یں یا یہ کہے ک ہ اس ک ے مرن ے ک ے بعد اس ک ے مال م یں سے کوئ ی چیز فلاں شخص کی ملکیت ہ وگ ی یا اس کے مال م یں سے کوئ ی چیز کسی شخص کی ملکیت میں دے د ی جائے یا خیرات کی جائے یا امور خیر یہ پر صرف کی جائے یا اپنی اولاد کے لئ ے اور جو لوگ اس ک ی کفالت میں ہ وں ان ک ے لئ ے کس ی کو نگران اور سرپرست مقرر کرے اور جس شخص کو وص یت کی جائے اس ے "وص ی" کہ ت ے ہیں۔
2704 ۔ جو شخص بول ن ہ سکتا ہ و اگر و ہ اشار ے س ے اپنا مقصد سمج ھ ا د ے تو و ہ ہ ر کام ک ے لئ ے وص یت کر سکتا ہے بلک ہ جو شخص بول سکتا ہو اگر وہ ب ھی اس طرح اشارے س ے وص یت کرے ک ہ اس کا مقصد سمج ھ م یں آجائے تو وص یت صحیح ہے۔
2705 ۔ اگر ا یسی تحریر مل جائے جس پر مرن ے وال ے ک ے دستخط یا مہ ر ثبت ہ و تو اگر اس تحر یر سے اس کا مقصد سمج ھ م یں آجائے اور پتا چل جائ ے ک ہ یہ چیز اس نے وص یت کی غرض سے لک ھی ہے تو اس کے مطابق عمل کرنا چا ہ ئ ے ل یکن اگر پتا چلے ک ہ مرن ے وال ے کا مقصد وص یت کرنا نہیں تھ ا اور اس نے کچ ھ بات یں لکھی تھی تاکہ بعد م یں ان کے مطابق وص یت کرے تو ا یسی تحریر وصیت کافی نہیں ہے۔
2706 ۔ جو شخص وص یت کرے ضرور ی ہے ک ہ بالغ اور عاقل ہ و، سف یہ نہ ہ و اور اپن ے اخت یار سے وص یت کرے ل ہ ذا نابالغ بچ ے کا وص یت کرنا صحیح نہیں ہے۔ مگر یہ کہ بچ ہ دس سال کا ہ و اور اس ن ے اپن ے رشت ے داروں ک ے لئ ے وص یت کی ہ و یا عام خیرات میں خرچ کرنے ک ی وصیت کی ہ و تو ان دونوں صورتوں میں اس کی وصیت صحیح ہے۔ اور اگر اپن ے رشت ے داروں ک ے علاو ہ کس ی دوسرے ک ے لئ ے وص یت کرے یا سات سالہ بچ ہ یہ وصیت کرے ک ہ "اس ک ے اموال م یں سے ت ھ و ڑی سی چیز کسی شخص کے لئ ے ہے یا کسی شخص کو دے د ی جائے " تو وص یت کا نافذ ہ ونا محل اشکال ہے اور ان دونوں صورتوں م یں احتیاط کا خیال رکھ ا جائ ے اور اگر کوئ ی شخص سفیہ ہ و تو اس ک ی وصیت اس کے اموال م یں نافذ نہیں ہے۔ ل یکن اگر اس اس کی وصیت اموال کے علاو ہ دوسر ے امور م یں ہ و مثلاً ان مخصوص کاموں ک ے متعلق ہ و جو موت ک ے بعد م یت کے لئ ے انجام د یئے جاتے ہیں تو وہ وص یت نافذ ہے۔
2707 ۔ جس شخص ن ے مثال ک ے طور پر عمداً اپن ے آپ کو زخم ی کر لیا ہ و یا زہ ر ک ھ ال یا ہ و جس ک ی وجہ س ے اس ک ے مرن ے کا یقین یا گمان پیدا ہ وجائ ے اگر و ہ وص یت کرے ک ہ اس ک ے مال ک ی کچھ مقدار کس ی مخصوص مصرف میں لائی جائے اور اس ک ے بعد و ہ مرجائ ے تو اس ک ی وصیت صحیح نہیں ہے۔
2708 ۔ اگر کوئ ی شخص وصیت کرے ک ہ اس ک ی املاک میں سے کوئ ی چیز کسی دوسرے کا مال ہ وگ ی تو اس صورت میں جب کہ و ہ دوسرا شخص وص یت کو قبول کرلے خوا ہ اس کا قبول کرنا وص یت کرنے وال ے ک ی زندگی میں ہی کیوں نہ ہ و و ہ چ یز "موصی" کی موت کے بعد اس ک ی ملکیت ہ وجائ ے گ ی۔
2709 ۔ جب انسان اپن ے آپ م یں موت کی نشانیاں دیکھ لے تو ضرور ی ہے ک ہ لوگوں ک ی امانتیں فوراً ان کے مالکوں کو واپس کر د ے یا انہیں اطلاع دے د ے۔ اس تفص یل کے مطابق جو مسئل ہ 2351 میں بیان ہ وچک ی ہے۔ اور اگر و ہ لوگوں کا مقروض ہ و اور قرض ے ک ی ادائیگی کا وقت آگیا ہ و اور قرض خوا ہ اپن ے قرض ے کا مطالب ہ ب ھی کر رہ ا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ قرض ہ ادا کرد ے اور اگر وہ خود قرض ہ ادا کرن ے ک ے قابل ن ہ ہ و یا قرضے ک ی ادائیگی کا وقت نہ آ یا ہ و یا قرض خواہ اب ھی مطالبہ ن ہ کر ر ہ ا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ ا یسا کام کرے جس س ے اطم ینان ہ و جائ ے ک ہ اس کا قرض اس کی موت کے بعد قرض خوا ہ کو ادا کر د یا جائے گا مثلاً اس صورت م یں کہ اس ک ے ق رضے کا کس ی دوسرے کو علم ن ہ ہ و و ہ وص یت کرے اور گوا ہ وں ک ے سام ے وص یت کرے۔
2710 ۔ جو شخص اپن ے اپن ے آپ م یں موت کی نشانیاں دیکھ رہ ا ہ و اگر زکوٰ ۃ، خمس اور مظالم اس کے ذم ے ہ وں اور و ہ ان ہیں اس وقت ادا نہ کرسکتا ہ و ل یکن اس کے پاس مال ہ و یا اس بات کا احتمال ہ و ک ہ کوئ ی دوسرا شخص یہ چیزیں ادا کردے گا تو ضرور ی ہے ک ہ وص یت کرے اور اگر اس پر حج واجب ہ و تو اس کا ب ھی یہی حکم ہے۔ ل یکن اگر وہ شخص اس وقت اپن ے شرع ی واجبات ادا کرسکتا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ فوراً ادا کر ے اگرچ ہ و ہ اپن ے آپ م یں موت کی نشانیاں نہ د یکھے۔
2711 ۔ جو شخص اپن ے آ پ میں موت کی نشانیاں دیکھ رہ ا ہ وا اگر اس ک ی نمازیں اور روزے قضا ہ وئ ے ہ وں تو ضرور ی ہے ک ہ وص یت کرے ک ہ اس ک ے مال س ے ان عبارات ک ی ادائیگی کے لئ ے کس ی کو اجیر بنایا جائے بلک ہ اگر اس ک ے پاس مال ن ہ ہ و ل یکن اس بات کا احتمال ہ وک ہ کوئ ی شخص بلا معاوضہ یہ عبادات بجالائے گا تب ب ھی اس پر واجب ہے ک ہ وص یت کرے ل یکن اگر اس کا اپنا کوئی ہ و مثلاً ب ڑ ا ل ڑ کا ہ و اور و ہ شخص جانتا ہ و ک ہ اگر اس ے خبر د ی جائے تو و ہ اس ک ی قضا نمازیں اور روزے بجالائ ے گا تو اس ے خبر د ینا ہی کافی ہے ، وص یت کرنا لازم نہیں۔
2712 ۔ جو شخص اپن ے آپ م یں موت کی نشانیاں دیکھ رہ ا ہ و اگر اس کا مال کس ی کے پاس ہ و یا ایسی جگہ چ ھ پا ہ وا ہ و جس کا ورثاء کو علم ن ہ ہ و تو اگر لاعلم ی کی وجہ س ے ورثاء کا حق تلف ہ وتا ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ ان ہیں اطلاع دے اور یہ لازم نہیں کہ و ہ اپن ے نابالغ بچوں ک ے لئ ے ن گراں اور سرپرست مقرر کرے ل یکن اس صورت میں جب کہ نگراں کا ن ہ ہ ونا مال ک ے تلف ہ ون ے کا سبب ہ و یا خود بچوں کے لئ ے نقصان د ہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ ان ک ے لئ ے ان ام ین نگران مقرر کرے۔
2713 ۔ وص ی کا عاقل ہ ونا ضرور ی ہے۔ ن یز جو امور موصی سے متعلق ہیں اور اسی طرح احتیاط کی بنا پر جو امور دوسروں سے متعلق ہیں ضروری ہے ک ہ وص ی ان کے بار ے م یں مطمئن ہ و اور ضرور ی ہے ک ہ مسلمان کا وص ی بھی احتیاط کی بناپر مسلمان ہ و ۔ اور اگر موص ی فقط نابالغ بچے ک ے لئ ے اس مقصد سے وص یت کرے تاک ہ و ہ بچپن م یں سرپرست سے اجازت لئ ے بغ یر تصرف کرسکے تو احت یاط کی بنا پر درست نہیں ہے۔ ل یکن اگر موصی کا مقصد یہ ہ و ک ہ بالغ ہ ون ے ک ے بعد یا سرپرست کی اجازت سے تصرف کر ے تو کوئ ی اشکال نہیں ہے۔
2714 ۔ اگر کوئ ی شخص کئی لوگوں کو اپنا وصی معین کرے تو اگر اس ن ے اجازت د ی ہ و ک ہ ان م یں سے ہ ر ا یک تنہ ا وص یت پر عمل کرسکتا ہے تو لازم ن ہیں کہ و ہ وص یت انجام دینے میں ایک دوسرے س ے اجازت ل یں اور اگر وصیت کرنے وال ے ن ے ا یسی کوئی اجازت نہ د ی ہ و تو خوا ہ اس ن ے ک ہ ا ہ و یا نہ ک ہ ا ہ و ک ہ دونوں مل کر وص یت پر عمل کریں انہیں چاہ ئ ے ک ہ ا یک دوسرے ک ی رائے ک ے مطابق وص یت پر عمل کریں اور اگر وہ مل کر وص یت پر عمل کرنے پر ت یار نہ ہ وں اور مل کر عمل ن ہ کرن ے م یں کوئی شرعی عذر نہ ہ و تو حاکم شرع ان ہیں ایسا کرنے پر مجبور کرسکتا ہے اور اگر و ہ حاکم شرع کا حکم ن ہ مان یں یا مل کر عمل نہ کرن ے کا دونوں ک ے پاس کوئ ی شرعی عذر ہ و تو و ہ ان م یں سے کس ی ایک کی جگہ کوئ ی اور وصی مقرر کر سکتا ہے۔
2715 ۔ اگر کوئ ی شخص اپنے وص یت سے منحرف ہ وجائ ے مثلاً پ ہ ل ے و ہ یہ کہے ک ہ اس ک ے مال ت یسرا حصہ فلاں شخص کو د یا جائے اور بعد م یں کہے ک ہ اس ے ن ہ د یا جائے تو وص یت کالعدم ہ وجات ی ہے اور اگر کوئ ی شخص اپنی وصیت میں تبدیلی کر دے مثلا ً کو اپنے بچوں کا نگران مقرر کر ے اور ب عد میں اس کی جگہ کس ی دوسرے شخص کو نگراں مقرر کرد ے تو اس ک ی پہ ل ی وصیت کالعدم ہ وجات ی ہے اور سرور ی ہے ک ہ اس ک ی دوسری وصیت پر عمل کیا جائے۔
2716 ۔ اگر ا یک شخص کوئی ایسا کام کرے جس س ے پتا چل ے ک ہ و ہ اپن ی وصیت سے منحرف ہ وگ یا ہے مثلاً جس مکان ک ے بار ے م یں وصیت کی ہ و ک ہ و ہ کس ی کو دیا جائے اس ے ب یچ دے یا۔ پ ہ ل ی وصیت کو پیش نظر رکھ ت ے ہ وئ ے ۔ کس ی دوسرے شخص کو اس ے ب یچنے کے لئ ے وک یل مقرر کر دے تو وص یت کالعدم ہ وجات ی ہے۔
2717 ۔ اگر کوئ ی شخص وصیت کرے ک ہ ا یک معین چیز کسی شخص کو دی جائے اور بعد م یں وصیت کرے ک ہ اس چ یز کا نصف حصہ کس ی اور شخص کو دیا جائے تو ضرور ی ہے اس چ یز کے دو حص ے کئ ے جائ یں اور ان دونوں اشخاص میں سے ہ ر ا یک کو ایک حصہ د یا جائے۔
2718 ۔ اگر کوئ ی شخص ایسے مرض کی حالت میں جس مرض سے و ہ مرجائ ے اپن ے مال ک ی کچھ مقدار کس ی شخص کو بخش دے اور وص یت کرے ک ہ م یرے مرنے ک ے بعد مال ک ی کچھ مقدار کس ی اور شخص کو بھی دی جائے تو اگر اس ک ے مال کا ت یسرا حصہ دونوں مال ک ے لئ ے کاف ی نہ ہ و اور ورثاء اس ز یادہ مقدار کی اجازت دینے پر تیار نہ ہ وں تو ضرور ی ہے پ ہ ل ے جو مال اس س ے بخشا ہے و ہ ت یسرے حصے س ے د یدیں اور اس کے بعد جو مال ماق ی بچے و ہ وص یت کے مطابق خرچ کر یں۔
2719 ۔ اگر کوئ ی شخص وصیت کرے ک ہ اس ک ے مال کا ت یسرا حصہ ن ہ ب یچا جائے اور اس ک ی آمدنی ایک معین کام میں خرچ کی جائے تو اس ک ے ک ہ ن ے ک ے مطابق عمل کرنا ضرور ی ہے۔
2720 ۔ اگر کوئ ی ایسے مرض کی حالت میں جس مرض سے و ہ مرجائ ے یہ کہے ک ہ و ہ اتن ی مقدار میں کسی شخص کا مقروض ہے تو اگر اس پر یہ تہ مت لگائ ی جائے ک ہ اس ن ے یہ بات ورثاء کو نقصان پہ نچان ے ک ے لئ ے ک ی ہے تو جو مقدار قرض ے ک ی اس نے مع ین کی ہے و ہ اس ک ے مال ک ے ت یسرے حصے س ے د ی جائے گ ی اور اگر اس پر یہ تہ مت ن ہ لگ ائی جائے تو اس کا اقرار نافذ ہے اور قرض ہ اس ک ے اصل مال س ے ادا کرنا ضرور ی ہے۔
2721 ۔ جس شخص ک ے لئ ے انسان وص یت کرے ک ہ کوئ ی چیز اسے د ی جائے یہ ضروری نہیں کہ وص یت کرنے ک ے وقت و ہ وجود رک ھ تا ہ و ل ہ ذا اگر کوئ ی انسان وصیت کرے ک ہ جو بچ ہ فلاں عورت ک ے پ یٹ سے پ یدا ہ و اس بچے کو فلاں چ یز دی جائے تو اگر و ہ بچ ہ وص یت کرنے وال ے ک ی موت کے بعد پ یدا ہ و ت و لازم ہے ک ہ و ہ چ یز اسے د ی جائے ل یکن اگر وہ وص یت کرنے وال ے ک ی موت کے بعد و ہ (بچ ہ ) پ یدا نہ ہ و اور وص یت ایک سے ز یادہ مقاصد کے لئ ے سمج ھی جائے تو ضرور ی ہے ک ہ اس مال کو کس ی ایسے دوسرے کام م یں صرف کیا جائے جو وص یت کرنے وال ے ک ے مقصد س ے ز یادہ قریب ہ و ورن ہ ورثاء خو د اسے آپس م یں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ل یکن اگر وصیت کرے ک ہ مرن ے ک ے بعد اس ک ے مال م یں سے کوئ ی چیز کسی شخص کا مال ہ وگ ی تو اگر وہ شخص وص یت کرنے وال ے ک ی موت کے وقت موجود ہ و تو ص یت صحیح ہے ورن ہ باطل ہے اور جس چ یز کی اس شخص کے لئ ے وص یت کی گئی ہ و ۔ (وص یت باطل ہ ون ے ک ی صورت میں) ورثاء اسے آپس م یں تقسیم کرسکتے ہیں۔
2722 ۔ اگر انسان کو پتا چل ے ک ہ کس ی نے اس ے وص ی بنایا ہے تو اگر و ہ وص یت کرنے وال ے کو اطلاع د ے د ے ک ہ و ہ اس ک ی وصیت پر عمل کرنے پر آماد ہ ن ہیں ہے تو لازم ن ہیں کہ و ہ اس ک ے مرن ے ک ے بعد اس وص یت پر عمل کرے ل یکن اگر وصیت کنندہ ک ے مرن ے س ے پ ہ ل ے انسان کو یہ پتا نہ چل ے ک ہ اس نے اس ے وص ی بنایا ہے یا پتا چل جائے ل یکن اسے یہ اطلاع نہ د ے ک ہ و ہ ( یعنی جسے وص ی مقرر کیا گیا ہے ) اس ک ی (یعنی موصی کی) وصیت پر عمل کرنے پر آماد ہ ن ہیں ہے تو اگر وص یت پر عمل کرنے م یں کوئی زحمت نہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ اس ک ی وصیت پر عملدر آمد کرے ن یز اگر موصی کے مرن ے س ے پ ہ ل ے وص ی کسی وقت اس امر کی جانب متوجہ ہ و ک ہ مرض ک ی شدت کی وجہ س ے یا کسی اور عذر کی بنا پر موصی کسی دوسرے شخص کو وص یت نہیں کرسکتا تو احتیاط کی بنا پر ضروری ہے ک ہ وص ی وصیت کو قبول کرلے۔
2723 ۔ جس شخص ن ے وص یت کی ہ و اگر و ہ مرجائ ے تو وص ی کو یہ اختیار نہیں کہ و ہ کس ی دوسرے کو م یت کا وصی معین کرے اور خود ان کاموں س ے کنار ہ کش ہ وجائ ے ل یکن اگر اسے علم ہ و ک ہ مرن ے وال ے کا مقصد یہ نہیں تھ ا ک ہ خود وص ی ہی ان کاموں کو انجام دینے میں شریک ہ و بلک ہ اس کا مقص د فقط یہ تھ ا ک ہ کام کر د یئے جائیں تو وصی کسی دوسرے شخص کو ان کاموں ک ی انجام دہی کے لئ ے اپن ی طرف سے وک یل مقرر کرسکتا ہے۔
2724 ۔ اگر کوئ ی شخص دو افراد کو اکٹھے وص ی بنائے تو اگر ان دونوں م یں سے ا یک مرجائے یا دیوانہ یا کافر ہ و جائ ے تو حاکم شرع اس ک ی جگہ ا یک اور شخص کو وصی مقرر کرے گا اور اگر دونوں مر جائ یں یا کافر یا دیوانے ہ و جائ یں تو حاکم شرع دو دوسرے اشخاص کو ان ک ی جگہ مع ین کرے گا لیکن اگر ایک شخص وصیت پر عمل کرسکتا ہ و تو دو اشخاص کا مع ین کرنا لازم نہیں۔
2725 ۔ اگر وص ی تنہ ا خوا ہ وک یل مقرر کرکے یا دوسرے کو اجرت د ے کر متوف ی کے کام انجام ن ہ د ے سک ے تو حاکم شرع اس ک ی مدد کے لئ ے ا یک اور شخص مقرر کرے گا ۔
2726 ۔ اگر متوف ی کے مال ک ی کچھ مقدار وص ی کے ہ ات ھ سے تلف ہ وجائ ے تو اگر وص ی نے اس ک ی نگہ داشت م یں کوتا ہی یا تعدی کی ہ و مثلاً اگر متوف ی نے اس ے وص یت کی ہ و ک ہ مال ک ی اتنی مقدار فلاں شہ ر ک ے فق یروں کو دے د ے اور وص ی مال کو دوسرے ش ہ ر ل ے جائ ے اور و ہ راست ے م یں تلف ہ و جائے تو وہ ذم ے دار ہے اور اگر اس ن ے کوتا ہی یا تعدی نہ ک ی ہ و تو ذم ے دار ن ہیں ہے۔
2727 ۔ اگر انسان کس ی شخص کو وصی مقرر کرے اور ک ہے ک ہ اگر و ہ شخص ( یعنی وصی) مر جائے تو پ ھ ر فلاں شخص وص ی ہ وگا تو جب پ ہ لا وص ی مرجائے تو دوسر ے وص ی کے لئ ے متوف ی کے کام انجام د ینا ضروری ہے۔
2728 ۔ جو حج متوف ی پر واجب ہ و ن یز قرضہ اور مال ی واجبات مثلاً خمس، زکوٰۃ اور مظالم جن کا ادا کرنا واجب ہ وا ن ہیں متوفی کے اصل مال س ے ادا کرنا ضرور ی ہے خوا ہ متوف ی نے ان ک ے لئ ے وص یت نہ ب ھی کی ہ و ۔
2729 ۔ اگر متوف ی کا ترکہ قرض ے س ے اور واجب حج س ے اور ان شرع ی واجبات سے جو اس پر واجب ہ وں مثلاً خمس اور زکوٰۃ اور مظالم سے ز یادہ ہ و تو اگر اس ن ے وص یت کی ہ و ک ہ اس ک ے مال کا ت یسرا حصہ یا تیسرے حصے ک ی کچھ مقدار ا یک معین مصرف میں لائی جائے تو اس ک ی وصیت پر عمل کرنا ضروری ہے اور اگر وص یت نہ ک ی ہ و تو جو کچ ھ بچ ے و ہ ورثاء کا مال ہے۔
2730 ۔ جو مصرف متوف ی نے مع ین کیاہ و اگر وہ اس ک ے مال ک ے ت یسرے حصے س ے ز یادہ ہ و تو مال ک ے ت یسرے حصے س ے ز یادہ کے بار ے م یں اس کی وصیت اس صورت میں صحیح ہے جب ورثاء کوئ ی ایسی بات یا ایسا کام کریں جس سے معلوم ہ و ک ہ ان ہ وں ن ے وص یت کے مطابق عمل کرن ے ک ی اجازت دے د ی ہے اور ان کا صرف راضی ہ ونا کاف ی نہیں ہے اور اگر و ہ موص ی کی رحلت کے کچ ھ عرص ے بعد ب ھی اجازت دیں تو صحیح ہے اور اگر بعض ورثاء اجازت د ے د یں اور بعض وصیت کو رد کردیں تو جنہ وں ن ے اجازت د ی ہ و ان ک ے حصوں ک ی حد تک وصیت صحیح اور نافذ ہے۔
2731 ۔ جو مصرف متوف ی نے مع ین کیا ہ و اگر اس پر اس ک ے مال ت یسرے حصے س ے ز یادہ لاگت آتی ہ و اور اس ک ے مرن ے س ے پ ہ ل ے ورثاء اس مصرف ک ی اجازت دے د یں (یعنی یہ اجازت دے د یں کہ ان ک ے حص ے س ے وص یت کو مکمل کیا جاسکتا ہے ) تو اس ک ے مرن ے ک ے بعد و ہ اپن ی دی ہ وئ ی اجازت سے منحر ف نہیں ہ وسکت ے۔
2732 ۔ اگر مرن ے والا وص یت کرے ک ہ اس ک ے مال ک ے تیسرے حصے خمس اور زکوٰ ۃ یا کوئی اور قرضہ جو اس ک ے ذم ے ہ و د یا جائے اور اس ک ی قضا نمازوں اور روزوں کے لئ ے اج یر مقرر کیا جائے اور کوئ ی مستحب کام مثلاً فقیروں کو کھ انا ک ھ لانا ب ھی انجام دیا جائے تو ضرور ی ہے ک ہ پ ہ ل ے ا س کا قرضہ مال ک ے ت یسرے حصے س ے د یا جائے اور اگ ر کچھ بچ جائ ے تو نمازوں اور روزوں ک ے لئ ے اج یر مقرر کیا جائے اور اگر پ ھ ر ب ھی کچھ بچ جائ ے تو جو مستحب کام اس ن ے مع ین کیا ہ و اس پر صرف ک یا جائے اور اگر اس ک ے مال کا ت یسرا حصہ صرف اس ک ے قرض ے ک ے برابر ہ و اور ورثاء ب ھی تہ ائ ی مال سے ز یادہ خرچ کرنے ک ی اجازت نہ د یں تو نماز، روزوں اور مستحب کاموں کے لئ ے ک ی گئی وصیت باطل ہے۔
2733 ۔ اگر کوئ ی شخص وصیت کرے ک ہ اس کا قرض ہ ادا ک یا جائے اور اس ک ی نمازوں اور روزوں کے لئ ے اج یر مقرر کیا جائے اور کوئ ی مستحب کام بھی انجام دیا جائے تو اگر اس ن ے یہ وصیت نہ ک ی ہ و ک ہ یہ چیزیں مال کے ت یسرے حصے س ے د ی جائیں تو ضروری ہے ک ہ اس کا قرض ہ اصل مال س ے د یا جائے اور پ ھ ر جو کچ ھ بچ جائ ے اس کا ت یسرا حصہ نماز، روزوں (ج یسی عبادات) اور ان مستحب کاموں کے مصرف م یں لایا جائے جو اس ن ے مع ین کئے ہیں اور اس صورت میں جبکہ ت یسرا حصہ (ان کاموں ک ے لئ ے ) کاف ی نہ ہ و اگر ورثا اجازت د یں تو اس کی وصیت پر عمل کرنا چاہ ئ ے اور اگر و ہ اجازت ن ہ د یں تو نماز اور روزوں کی قضا کی اجرت مال کے ت یسرے حصے س ے د ینی چاہ ئ ے اور اگر اس م یں سے کچ ھ بچ جائ ے تو وص یت کرنے وال ے ن ے جو مستحب کام مع ین کیا ہ و اس پر خرچ کرنا چا ہ ئ ے ۔
2734 ۔ اگرکو ئی شخص کہے ک ہ مرن ے وال ے ن ے وص یت کی تھی کہ اتن ی رقم مجھے د ی جائے تو اگر و ہ عادل مرد اس ک ے قول ک ی تصدیق کر دیں یا وہ قسم ک ھ ائ ے اور ا یک عادل شخص اس کے قول ک ی تصدیق کر دے یا ایک عادل مرد اور دو عادل عورتیں یا پھ ر چارعادل عورت یں اس کے قول ک ی گواہی دیں تو جتنی مقدار وہ بتائ ے اس ے د ے د ینی ضروری ہے اور اگر ا یک عادل عورت گواہی دے تو ضرور ی ہے ک ہ جس چ یز کا وہ مطالب ہ کر ر ہ ا و اس کا چوت ھ ا حص ہ اس ے د یا جائے اور اگر دو عادل عورت یں گواہی دیں تو اس کا نصف دیا جائے اور اگر ت ین عادل عورتیں گواہی دیں تو اس کا تین چوتھائی دیاجائے نیز اگر دو کتابی کافر مرد جو اپنے مذ ہ ب م یں عادل ہ وں اس ک ے قول ک ی تصدیق کریں تو اس صورت میں جب کہ مرن ے والا وص یت کرنے پرمجبور ہ وگ یا ہ و اور عادل مرد اور عورت یں بھی وصیت کے موقع پر موجود ن ہ ر ہے ہ وں تو و ہ شخص متوف ی کے مال س ے جس چ یز کا مطالبہ کر ر ہ ا ہ و و ہ اس ے د ے د ینی ضروری ہے۔
2735 ۔ اگر کوئ ی شخص کہے ک ہ م یں متوفی کا وصی ہ وں تاک ہ اس ک ے مال کو فلاں مصرف م یں لے آوں یا یہ کہے ک ہ متوف ی نے مج ھے اپن ے بچوں کا نگراں مقرر ک یا تھ ا تو اس کا قول اس صورت م یں قبول کرنا چاہ ئ ے جب ک ہ دو عادل مرد اس ک ے قول ک ی تصدیق کریں۔
2736 ۔ اگر مرن ے والا وص یت کرے ک ہ اس ک ے مال ک ی اتنی مقدار فلاں شخص کی ہ وگ ی اور وہ شخص وص یت کو قبول کرنے یا رد کرنے س ے پ ہ ل ے مرجائ ے تو جب تک اس ک ے ورثاء وص یت کو رد نہ کرد یں وہ اس چ یز کو قبول کرسکتے ہیں لیکن یہ حکم اس صورت میں ہے ک ہ وص یت کرنے والا اپن ی وصیت سے منحرف نہ ہ و جائ ے ورن ہ و ہ ( یعنی وصی یا اس کے ورثاء) اس چ یز پر کوئی حق نہیں رکھ ت ے۔
میراث کے احکام
2737 ۔ جو اشخاص متوف ی سے رشت ے دار ی کو بناپر ترکہ پات ے ہیں ان کے ت ین گروہ ہیں :
1 ۔ پ ہ لا گرو ہ متوف ی کا باپ، ماں اور اولاد ہے اور اولاد ک ے ن ہ ہ ون ے ک ی صورت میں اولاد کی اولاد ہے ج ہ اں تک یہ سلسلہ ن یچے چلا جائے۔ ان م یں سے جو کوئ ی متوفی سے ز یادہ قریب ہ و و ہ ترک ہ پاتا ہے اور جب تک اس گرو ہ م یں سے اک شخص ب ھی موجود ہ و دوسرا اگر و ہ ترک ہ ن ہیں پاتا۔
2 ۔ دوسرا گرو ہ ، دادا ، داد ی ،نانا، نانی، بہ ن اور ب ھ ائ ی ہے اور ب ھ ائ ی اور بہ ن ن ہ ہ ون ے ک ی صورت میں ان کی اولاد ہے۔ ان م یں سے جو کوئ ی متوفی سے ز یادہ قریب ہ و تو ہ ترک ہ پاتا ہے۔ اور جب تک اس گرو ہ م یں سے ا یک شخص بھی موجود ہ و ت یسرا گروہ ترک ہ ن ہیں پاتا۔
3 ۔ ت یسرا گروہ چچا، پ ھ وپ ھی ماموں خالہ اور انک ی اولاد ہے۔ اور جب تک متوف ی کے چچاوں پ ھ وپ ھیوں، مامووں اور خلاوں میں سے ا یک شخص بھی زندہ ہ و اس ک ی اولاد ترکہ ن ہیں پاتی لیکن اگر متوفی کا پدری چچا اور ماں باپ دونوں کی طرف سے چچا زاد ب ھ ائ ی موجود ہ و تو ترک باپ اور م ال کی طرف سے چچازاد ب ھ ائ یوںکو ملے گا اور پدر ی چچا کو نہیں ملے گال یکن اگر چچایا چچازاد بھ ائ ی متعدد ہ وں یا متوفی کی بیوی زندہ ہ و ۔ تو یہ حکم اشکال سے خال ی نہیں ہے۔
2738 ۔ اگر خود متوف ی کا چچا، پھ وپ ھی، ماموں اور خالہ اور ان ک ی اولاد یا ان کی اولاد کی اولاد نہ ہ و تو اس ک ے باپ اور ماں ک ے چچا، پ ھ وپ ھی، ماموں اور خالہ ترک ہ پات ے ہیں اور اگر وہ ن ہ ہ وں تو ان ک ی اولاد ترکہ پات ی ہے اور اگر و ہ ب ھی نہ ہ و تو متوف ی کے دادا، داد ی کے چچا پھ وپ ھی، ماموں اور خالہ ترک ہ پات ے ہیں اور اگر وہ ب ھی نہ ہ وں تو ان ک ی اولاد ترکہ پات ی ہے۔
2739 ۔ ب یوی اور شوہ ر ج یسا کہ بعد م یں تفصیل سے بتا یا جائے گا ا یک دوسرے س ے ترک ہ پات ے ہیں۔
پہ ل ے گروہ ک ی میراث
2740 ۔ اگر پ ہ ل ے گرو ہ م یں سے صرف ا یک شخص متوفی کا وارث ہ و مثلاً باپ یا ماں یا اکلوتا بیٹ ا یا اکلوتی بیٹی ہ و ت ومتوف ی کا مال اسے ملتا ہے اور اگر ب یٹے اور بیٹیاں وارث ہ وں تو مال کو یوں تقسیم کیا جاتا ہے ک ہ ہ ر ب یٹ ا بیٹی سے دگنا حص ہ پاتا ہے۔
2741 ۔ اگر متوف ی کے وارث فقط اس کا باپ اور اس ک ی ماں ہ وں تو مال ک ے ت ین حصے کئ ے جات ے ہیں جن میں سے دو حص ے باپ اور ا یک حصہ ماں کو ملتا ہے۔ ل یکن اگرمتوفی کے دو ب ھ ائ ی یا چار بہ ن یں یا ایک بھ ائ ی اور دو بہ ن یں ہ وں جو سب ک ے سب مسلمان، آزاد اور ایک باپ کی اولاد ہ وں خواہ ان کی ماں حقیقی ہ و یا سوتیلی ہ و اور کوئ ی بھی ماں حاملہ ن ہ ہ و تو اگرچ ہ و ہ متوف ی کے باپ اور ماں ک ے ہ وت ے ہ وئ ے ترک ہ ن ہیں پاتے ل یکن ان کے ہ ون ے ک ی وجہ س ے ماں کو مال چ ھٹ ا حص ہ ملتا ہے اور باق ی مال باپ کوملتا ہے۔
2742 ۔ جب متوف ی کے وارث فقط اس کا باپ، ماں اور ا یک بیٹی ہ و ل ہ ذا اگر اس ک ے گزشت ہ مسئل ے م یں بیان کردہ شرائط رک ھ ن ے وال ے دو پدر ی بھ ائ ی یا چار پدری بہ ن یں یا ایک پدری بھ ائ ی اور دو پدری بہ ن یں نہ ہ وں تو مال ک ے پانچ حص ے کئ ے جات ے ہیں۔ باپ اور ماں ان م یں سے ا یک ایک حصہ لیتے ہیں اور بیٹی تین حصے ل یتی ہے۔ اور اگر متوف ی کے سابق ہ ب یان کردہ شرائط وال ے دوپدر ی بھ ائ ی یا چار پدری بہ ن یں یا ایک پدری بھ ائ ی اور دو پدری بہ ن یں بھی ہ وں تو ا یک قول کے مطابق مال ک ے ۔ سابق ہ ترت یب کے مطابق ۔ پانچ حص ے کئ ے جائ یں گے اور ان افراد ک ے وجود س ے کو ئی اثر نہیں پڑ تا ل یکن (علماء کے ب یچ) مشہ ور یہ ہے ک ہ اس صورت م یں مال چھ حصوں م یں تقسیم ہ وگا ۔ اس م یں سے باپ اور ماں کو ا یک ایک حصہ اور ب یٹی کو تین حصے ملت ے ہیں اور جو ایک حصہ باق ی بچے گا اس ک ے پ ھ ر چار حص ے کئ ے جائ یں گے جس م یں سے ا یک حصہ باپ کو اور ت ین حصے ب یٹی کو ملتے ہیں۔ نت یجے کے طور پر متوف ی کے مال ک ے 24 حصے کئ ے جات ے ہیں جن میں سے 15 حصے ب یٹی کو، 5 حصے باپ کو اور 4 حصے ماں کو ملت ے ہیں چونکہ یہ حکم اشکال سے خال ی نہیں اس لئے ماں ک ے حص ے م یں 5 ۔ 1 اور 6 ۔ 1 میں جو فرق ہے اس م یں احتیاط کو ترک نہ ک یا جائے۔
2743 ۔ اگر متوف ی کے وا رث فقط اس کا باپ، ماں، اور ایک بیٹ ا ہ و تو مال ک ے چ ھ حص ے کئ ے جات ے ہیں جن میں سے باپ اور ماں کو ا یک ایک حصہ اور ب یٹے کو چار حصے ملت ے ہیں اور اگر متوفی کے (صرف) چند ب یٹے ہ وں یا (بصورت دیگر صرف) چند بیٹیاں ہ وں تو و ہ ان چار حصوں کو آپس م یں مساوی طور پر تقسیم کر لیتے ہیں اور اگر بیٹے بھی ہ وں اور ب یٹیاں بھی ہ وں تو ان چار حصوں کو اس طرح تقس یم کیا جاتا ہے ک ہ ہ ر ب یٹے کو ایک بیٹی سے دگنا حص ہ ملتا ہے۔
2744 ۔ اگر متوف ی کے وارث فقط باپ یا ماں اور ایک یا کئی بیٹے ہ وں تو مال ک ے چ ھ حص ے کئ ے جات ے ہیں جن میں سے ا یک حصہ باپ یا ماں کو اور پانچ حصے ب یٹے کو ملتے ہیں اور اگر کئی بیٹے ہ وں تو و ہ ان پانچ حصوں کو آپس م یں مساوی طور پر تقسیم کرلیتے ہیں۔
2745 ۔ اگر باپ یا ماں متوفی کے ب یٹ وں اور بیٹیوں کے سات ھ اس ک ے وارث ہ وں تو مال ک ے چ ھ حص ے کئ ے جات ے ہیں جن میں سے ا یک حصہ باپ یا ماں کو ملتا ہے اور باق ی حصوں کو یوں تقسیم کیا جاتا ہے ک ہ ہ ر ب یٹے کو بیٹی سے دگنا حص ہ ملتا ہے۔
2746 ۔ اگر متوف ی کے وارث فقط باپ یا ماں اور ایک بیٹی ہ وں تو مال ک ے چار حص ے کئ ے جات ے ہیں جن میں سے ا یک حصہ باپ یا ماں کو اور باقی تین حصے ب یٹی کو ملتے ہیں۔
2747 ۔ ا گر متوفی کے وارث فقط باپ یا ماں اور چند بیٹیاں ہ وں تو مال ک ے پانچ حص ے کئ ے جات ے ہیں ان میں سے ا یک حصہ باپ یا ماں کو ملتا ہے اور چار حص ے ب یٹیاں آپس میں مساوی طور پر تقسیم کر لیتی ہیں۔
2748 ۔ اگر متوف ی کی اولاد نہ ہ و تو اس ک ے ب یٹے کی اولاد ۔ خوا ہ و ہ ب یٹی ہی کیوں نہ ہ و ۔ متوف ی کے ب یٹے کا حصہ پات ی ہے اور ب یٹی کی اولاد ۔ خوا ہ و ہ ب یٹ ا ہی کیوں نہ ہ و ۔ متوف ی کی بیٹی کا حصہ پات ی ہے۔ مثلاً اگر متوف ی کا ایک نواسا (بیٹی کا بیٹ ا ) اور ایک پوتی (بیٹے کی بیٹی) ہ و تو مال ک ے ت ین حصے کئ ے جائ یں گے جن م یں سے ا یک حصہ نواس ے کو اور دو حص ے پوت ی کو ملیں گے۔
دوسرے گروہ ک ی میراث
2749 ۔ جو لوگ رشت ہ دار ی کی بنا پر میراث پاتے ہیں ان کا دوسرا گروہ متوف ی کا دادا، دادی ، نانا، نانی، بھ ائ ی اور بہ ن یں ہیں اور اگر اس کے ب ھ ائ ی بہ ن یں نہ ہ وں تو ان ک ی اولاد میراث پاتی ہے۔
2750 ۔ اگر مت وفی کا وارث فقط ایک بھ ائ ی یا ایک بہ ن ہ و تو سارا مال اس کو ملتا ہے اور اگر کئ ی سگے ب ھ ائ ی یا کئی سگی بہ ن یں ہ وں تو مال ان م یں برابر برابر تقسیم ہ وجاتا ہے اور اگر سگ ے ب ھ ائ ی بھی ہ وں اور ب ہ ن یں بھی تو ہ ر ب ھ ائ ی کو بہ ن س ے دگنا حص ہ ملتا ہے مثلاً اگر متوف ی کے دو سگ ے ب ھ ائ ی اور ایک سگی بہ ن ہ و تو مال ک ے پانچ حص ے کئ ے جائ یں گے جن م یں سے ہ ر ب ھ ائ ی کو دو حصے مل یں گے اور ب ہ ن کو ا یک حصہ مل ے گا ۔
2751 ۔ اگر متوف ی کے سگ ے ب ہ ن ب ھ ائ ی موجود ہ وں تو پدر ی بھ ائ ی اور بہ ن یں جن کی ماں متوفی کی سوتیلی ماں ہ و م یراث پاتے اور اگر اس ک ے سگے ب ہ ن ب ھ ائ ی نہ ہ وں یا ایک پدری بہ ن ہ و تو سارا مال اس کو ملتا ہے اور اگر اس ک ے لئ ے کئ ی پدری بھ ائ ی یا کئی پدری بہ ن یں ہ وں تو مال ان کے درمیان مساوی طور پر تقسیم ہ وجاتا ہے اور اگر اس ک ے پدر ی بھ ائ ی بھی ہ وں اور پدر ی بہ ن یں بھی تو ہ ر ب ھ ائ ی کو بہ ن س ے دگنا حص ہ ملتا ہے۔
2752 ۔ اگر متوف ی کا وارث فقط ایک مادری بہ ن یا بھ ائ ی ہ و جو باپ ک ی طرف سے متوف ی کی سوتیلی بہ ن یا سوتیلا بھ ائ ی ہ و تو سارا مال اس ے ملتا ہے اور اگر چند مادر ی بھ ائ ی ہ وں یا چند مادری بہ ن یں ہ وں یا چند مادری بھ ائ ی اور بہ ن یں ہ وں تو مال ان کے درم یان مساوی طور پر تقسیم ہ وجاتا ہے۔
2753 ۔ اگر متوف ی کے سگ ے ب ھ ائ ی بہ ن یں اور پدری بھ ائ ی بہ ن یں اور ایک مادری بھ ائ ی یا ایک مادری بہ ن ہ و تو پدر ی بھ ائ ی بہ نوں کو ترک ہ ن ہیں ملتا اور مال کے چ ھ حص ے کئ ے جات ے ہیں جن میں سے ا یک حصہ مادر ی بھ ائ ی یا مادری بہ ن کو ملتا ہے اور باق ے حص ے سگ ے ب ھ ائ ی بہ نوں کوملت ے ہیں اور ہ ر ب ھ ائ ی دو بہ نوں ک ے برابر حص ہ پاتا ہے۔
2754 ۔ اگر متوف ی کے سگ ے ب ھ ائ ی بہ ن یں اور پدری بھ ائ ی بہ ن یں اور ایک مادری بھ ائ ی یا ایک مادری بہ ن ہ وں تو مال ک ے چ ھ حص ے کئ ے جات ے ہیں ان میں سے ا یک حصہ مادر ی بھ ائ ی یا مادری بہ ن کو ملتا ہے اور باق ی حصے پدر ی بہ ن ب ھ ائ یوں میں اس طرح تقسیم کئے جات ے ہیں کہ ہ ر ب ھ ائ ی کو بہ ن سے دگنا حص ہ ملتا ہے۔
2756 ۔ اگر متوف ی کے وارث فقط پدر ی بھ ائ ی بہ ن یں اور ایک مادری بھ ائ ی یا ایک مادری بہ ن ہ وں تو مال ک ے چ ھ حص ے کئ ے جات ے ہیں ان میں سے ا یک حصہ مادر ی بھ ائ ی یا مادری بہ ن کو ملتا ہے اور باق ی حصے پدر ی بہ ن ب ھ ائ یوں میں اس طرح تقسیم کئے جات ے ہیں کہ ہ ر ب ھ ائ ی کو بہ ن س ے دگنا حص ہ ملتا ہے۔
2756 ۔ اگر متوف ی کے وارث فقط پدر ی بھ ائ ی بہ ن یں اور چند مادری بھ ائ ی بہ ن یں ہ وں تو مال ک ے ت ین حصے کئ ے جات ے ہیں۔ ان م یں سے ا یک حصہ مادر ی بھ ائ ی بہ ن یں آپس میں برابر برابر تقسیم کرلیتے ہیں اور باقی دو حصے پدر ی بہ ن ب ھ ائ یوں کو اس طرح ملتے یں کہ ہ ر ب ھ ائ ی کا حصہ ب ہ ن س ے دگنا ہ وتا ہے۔
2757 ۔ اگر متوف ی کے وارث فقط اس ک ے ب ھ ائ ی بہ ن یں اور بیوی ہ وں تو ب یوی اپنا ترکہ اس تفص یل کے مطابق ل ے گ ی جو بعد میں بیان کی جائے گ ی اور بھ ائ ی بہ ن یں اپنا ترکہ اس طرح ل یں گے ج یسا کہ گذشت ہ مسائل م یں بتایا گیا ہے ن یز اگر کوئی عورت مر جائے اور اس ک ے وارث فقط اس ک ے بھ ائ ی بہ ن یں اور شوہ ر ہ وں تو نصف مال شو ہ ر کو مل ے گا اور ب ہ ن یں اور بھ ائ ی اس طریقے سے ترک ہ پائ یں گے جس کا ذکر گذشت ہ مسائل م یں کیا گیاہے لیکن بیوی یا شوہ ر ک ے ترک ہ پان ے ک ی وجہ س ے مادر ی بھ ائ ی بہ نوں ک ے حص ے م یں کوئی کمی نہیں ہ وگ ی تاہ م سگ ے ب ھ ائ ی بہ نوں یا پدری بھ ائ ی بہ نوں ک ے حص ے م یں کمی ہ وگ ی مثلاً اگر کسی متوفیہ کے وارث اس کا شو ہ ر اور مادر ی بہ ن ب ھ ائ ی اور سگے ب ہ ن ب ھ ائ ی ہ وں تو نصف مال شو ہ ر کو مل ے گا اور اصل مال ک ے ت ین حصوں میں سے ا یک حصہ مادر ی بہ ن ب ھ ائ یوں کو ملے گا اور جو کچ ھ بچ ے و ہ سگ ے ب ہ ن ب ھ ائ یوں کا مال ہ وا ۔ پس اگر ا س کا کل مال چھ روپ ے ہ و تو ت ین روپے شو ہ ر کو اور دو روپ ے مادر ی بہ ن ب ھ ائ یوں کو اور ایک روپیہ سگے ب ہ ن ب ھ ائ یوں کو ملے گا ۔
2758 ۔ اگر متوف ی کے ب ھ ائ ی بہ ن یں نہ ہ وں تو ان ک ے ترک ہ کا حص ہ ان ک ی (یعنی بھ ائ ی بہ نوں ک ی) اولاد کو ملے گا اور مادر ی بھ ائ ی بہ نوں ک ی اولاد کا حصہ ان ک ے ماب ین برابر تقسیم ہ وتا ہے اور جو حص ہ پدر ی بھ ائ ی بہ نوں ک ی اولاد یا سگے ب ھ ائ ی بہنوں کی اولاد کو ملتا ہے اس ک ے ب ارے میں مشہ ور ہے ک ہ ہ ر ل ڑ کا دو ل ڑ ک یوں کے برابر حص ہ پاتا ہے ل یکن کچھ بع ید نہیں کہ ان ک ے ماب ین بھی ترکہ برابر برابر تقس یم ہ و اور احوط یہ ہے ک ہ و ہ مصالحت ک ی جانب رجوع کریں۔
2759 ۔ اگر متوف ی کا وارث فقط دادا یا فقط دادی یا فقط نانا یا فقط نانی ہ و تو متوف ی کا تمام مال اسے مل ے گا اور اگر متوف ی کا دادا یا نانا موجود ہ و تو اس ک ے باپ ( یعنی متوفی کے پردادا یا پرنانا) کو ترکہ ن ہیں ملتا اور اگر متوفی کے وارث فقط اس ک ے دادا اور داد ی ہ وں تو مال ک ے ت ین حصے کئ ے جات ے ہیں جن میں سے دو حص ے دادا کو اور ا یک حصہ داد ی کو ملتا ہے اور اگر و ہ نانا اور نان ی ہ وں تو و ہ مال کو برابر برابر تقس یم کر لیتے ہیں۔
2760 ۔ اگر متوف ی کے وارث ا یک دادا یا دادی اور ایک نانا ہ وں تو مال ک ے ت ین حصے کئ ے جائ یں گے جن م یں سے دو حص ے دادا یا دادی کو ملیں گے اور ا یک حصہ نانا یا نانی کو ملے گا ۔
2761 ۔ اگر متوف ی کے وارث دادا اور داد ی اور نانا اور نانی ہ وں تو مال ک ے ت ین حصے کئ ے جات ے ہیں جن میں سے ا یک حصہ نانا اور نان ی آپس میں برابر برابر تقسیم کر لیتے ہیں اور باقی دو حصے دادا اور داد ی کو ملتے ہیں جن میں دادا کا حصہ دو ت ہ ائ ی ہ وتا ہے۔
2762 ۔ اگر متوف ی کے وارث فقط اس ک ی بیوی اور دادا، دادی اور نانا، نانی ہ وں تو ب یوی اپنا حصہ اس تفص یل کے مطابق ل یتی ہے جو بعد م یں بیان ہ وگ ی اور اصل مال کے ت ین حصوں میں سے ا یک حصہ نانا اور نان ی کو ملتا ہے جو و ہ آپس م یں برابر برابر تقسیم کرتے ہیں اور باقی ماندہ (یعنی بیوی اور نانا ،نانی کے بعد جو کچ ھ بچ ے ) دادا اور داد ی کو ملتا ہے جس م یں سے دادا، داد ی کے مقابل ے م یں دگنا لیتا ہے۔ اور اگر متوف ی کے وارث اس کا شو ہ ر اور دادا یا نانا اور دادی یا نانی ہ وں تو شو ہ ر کو نصف مال ملتا ہے اور دادا، نانا اور داد ی نانی ان احکام کے مطابق ترک ہ پات ے ہیں جن کا ذکر گزشتہ مسائل م یں ہ وچکا ہے۔
2763 ۔ ب ھ ائ ی ، بہ ن، ب ھ ائ یوں، بہ نوں ک ے سات ھ دادا، داد ی یا نانا، نانی اور داداوں، دادیوں یا ناناوں، نانیوں کے اجتماع ک ی چند صورتیں ہیں :
اول : نانا یا نانی اور بھ ائ ی یا بہ ن سب ماں ک ی طرف سے ہ وں ۔ اس صورت م یں مال ان کے درم یان مساوی طور پر تقسیم ہ وجاتا ہے اگرچ ہ و ہ مذکر اور مونث ک ی حیثیت سے مختلف ہ وں ۔
دوم : دادا یا دادی کے سات ھ ب ھ ائ ی یا بہ ن باپ ک ی طرف سے ہ وں ۔ اس صورت م یں بھی ان کے ماب ین مال مساوی طور پر تقسیم ہ وتا ہے بشرط یکہ وہ سب مرد ہ وں یا سب عورتیں ہ وں اور اگر مرد اور عورت یں ہ وں تو پ ھ ر ہ ر مرد ہ ر عورت ک ے مقابل ے م یں دگنا حصہ ل یتا ہے۔
سوم: دادا یا دادی کے سات ھ ب ھ ائ ی یا بہ ن ماں اور باپ ک ی طرف سے ہ وں اس صورت م یں بھی وہی حکم ہے جو گزشت ہ صورت م یں ہے اور یہ جاننا چاہے ک ہ اگر متوف ی کے پدر ی بھ ائ ی یا بہ ن، سگ ے ب ھ ائ ی یا بہ ن ک ے سات ھ جمع ہ و جائ ے تو تن ہ ا پدر ی بھ ائ ی یا بہ ن م یراث نہیں پاتے (بلک ہ سب ھی پاتے ہیں)۔
چہ ارم : دادے ، داد یاں اور نانے ، نان یاں ہ وں ۔ خوا ہ و ہ سب ک ے سب مرد ہ وں یا عورتیں ہ وں یا مختلف ہ وں اور اس ی طرح سگے ب ھ ائ ی اور بہ ن یں ہ وں ۔ اس صورت م یں جو مادری رشتے دار ب ھ ائ ی، بہ ن اور نان ے ، نان یاں ہ وں ترک ے م یں ان کا ایک تہ ائ ی حصہ ہے اور ان ک ے درم یان برابر تقسیم ہ وجاتا ہے خوا ہ و ہ مرد اور عورت ک ی حیثیت سے ا یک دوسرے س ے مختلف ہ وں اور ان م یں سے جو پدر ی رشتہ دار ہ وں ان کا حص ہ دو ت ہ ائ ی ہے جس م یں سے ہ ر مرد کو ہ ر عورت ک ے مقابل ے م یں دگنا ملتا ہے اور اگر ان م یں کوئی فرق نہ ہ و اور سب مرد یا سب عورتیں ہ وں تو پ ھ ر و ہ ترک ہ ان م یں برابر برابر تقسیم ہ وجاتا ہے۔
پنجم: دادا یا دادی ماں کی طرف سے ب ھ ائ ی، بہ ن ک ے سات ھ جمع ہ وجائ یں اس صورت میں اگر بہ ن یا بھ ائ ی بالفرض ایک ہ و تو اس ے مال کا چ ھٹ ا حص ہ ملتا ہے اور اگر کئ ی ہ وں تو ت یسرا حصہ ان ک ے درم یان برابر برابر تقسیم ہ وجاتا ہے اور جو باق ی بچے و ہ دادا یا دادی کا مال ہے اور اگ ر دادا اور دادی دونوں میں ہ وں تو دادا کو داد ی کے مقابل ے م یں دگنا حصہ ملتا ہے۔
ششم:نانا یا نانی باپ کی طرف سے ب ھ ائ ی کے سات ھ جمع ہ و جائ یں۔ اس صورت م یں نانا یا نانی کا تیسرا حصہ ہے خوا ہ ان م یں سے ا یک ہی ہ و اور ت ہ ائ ی بھ ائ ی کا حصہ ہے خوا ہ و ہ ب ھی ایک ہی ہ و اور اگر اس نانا یا نانی کے سات ھ باپ ک ی طرف سے ب ہ ن ہ و اور و ہ ا یک ہی ہ و تو و ہ آد ھ ا ح صہ لیتی ہے اور ا گر کئی بہ ن یں ہ وں تو دو ت ہ ائ ی لیتی ہیں اور ہ ر صورت م یں نانا یا نانی کا حصہ ا یک تہ ائ ی ہی ہے اور اگر ب ہ ن ا یک ہی ہ و تو سب ک ے حص ے د ے کر ترک ے کا چ ھٹ ا حص ہ بچ جاتا ہے اور اس ک ے بار ے م یں احتیاط واجب مصالحت میں ہے۔
ہ فتم : دادا یا دادیاں ہ وں اور کچ ھ نانا نان یاں ہ وں اور ان ک ے سات ھ پدر ی بھ ائ ی یا بہ ن ہ و خوا ہ و ہ ا یک ہی ہ و یا کئی ہ وں اس صورت م یں نانا یا نانی کا حصہ ا یک تہ ائ ی ہے اور اگر و ہ ز یادہ ہ وں تو ی ان کے ماب ین مساوی طور پر تقسیم ہ وجاتا ہے خوا ہ و ہ مرد اور عورت ک ی حیثیت سے مختلف ہی ہ وں اور باق ی ماندہ دو ت ہ ائ ی دادے یا دادی اور پدری بھ ائ ی یا بہ ن کا ہے اور اگر و ہ مرد اور عورت ک ی حیثیت سے مختلف ہ وں تو فرق ک ے سات ھ اور اگر مختلف ن ہ ہ وں تو برابر ان م یں تقسیم ہ وجاتا ہے۔ اور اگر ان دادوں، نانوں یا دادیوں نانیوں کے سات ھ مادر ی بھ ائ ی یا بہ ن ہ وں تو نانا یا نانی کا حصہ مادر ی بھ ائ ی یا بہ ن ک ے سات ھ ا یک تہ ائ ی ہے جو ان ک ے درم یان برابر برابر تقسیم ہ وجاتا ہے اگرچ ہ و ہ ب ہ ح یثیت مرد اور عورت ایک دوسرے س ے مختلف ہ وں اور دادا یا دادی کا حصہ دو ت ہ ائ ی ہے جو ان ک ے ماب ین اختلاف کی صورت میں (یعنی بہ ح یثیت مرد اور عورت اختلاف کی صورت میں) فرق کے سات ھ ورن ہ برابر برابر تقس یم ہ وجاتا ہے۔
ہ شتم : بھ ائ ی اور بہ ن یں ہ وں جن م یں سے کچ ھ پدر ی اور کچھ مادر ی ہ وں اور ان ک ے سات ھ دادا یا دادی ہ وں ۔ اس صورت م یں اگر مادری بھ ائ ی یا بہ ن ا یک ہ و تو ترک ے م یں اس کا چھ ا ٹ ا حص ہ ہے اور اگر ا یک سے ز یادہ ہ وں تو ت یسرا حصہ ہے جو ک ہ ان ک ے ماب ین برابر برابر تقسیم ہ وجاتا ہے اور باقی ترکہ پدر ی بھ ائ ی یا بہ ن اور داد ی یا دادی کا ہے جو ان ک ے بح یثیت مرد اور عورت مختلف نہ ہ ون ے ک ی صورت میں ان کے ماب ین برابر برابر تقسیم ہ وجاتا ہے اور مختلف ہ ون ے ک ی صورت میں فرق سے تقس یم ہ وتا ہے اور اگر ان ب ھ ائ یوں یا بہ نوں ک ے سات ھ نانا یا نانی ہ وں تو نا نا یا نانی اور مادری بھ ائ یوں اور بہ نوں کو ملا کر سب کا حص ہ ا یک تہ ائ ی ہ وتا ہے اور ان ک ے ماب ین برابر تقسیم ہ وجاتا ہے اور پدر ی بھ ائ یوں یا بہ نوں کا حص ہ دو ت ہ ائ ی ہ وتا ہے جو ان م یں بہ ح یثیت مرد اور عورت اختلاف کی صورت میں فرق سے اور اختلاف ن ہ ہ ون ے ک ی صورت میں برابر برابر تقسیم ہ وجاتا ہے۔
2764 ۔ اگر متوف ی کے ب ھ ائ ی یا بہ ن یں ہ وں تو ب ھ ائ یوں یا بہ نوں ک ی اولاد کی میراث نہیں ملتی لیکن اگر بھ ائ ی کی اولاد اور بہ ن ک ی اولاد کا میراث پانا بھ ائ یوں اور بہ نوں ک ی میراث سے مزاحم ن ہ ہ و تو پ ھ ر اس حکم کا اطلاق ن ہیں ہ وتا ۔ مثلاً اگر متوف ی کا پدری بھ ائ ی اور نانا ہ و تو پدری بھ ائ کو م یراث کے دو حص ہ اور نانا کو ا یک تہ ائ ی حصہ مل ے گا اور اس صورت م یں اگر متوفی کے مادر ی بھ ائ ی کا بیٹ ا بھی ہ و تو ب ھ ائ ی کا بیٹ ا نانا کے سات ھ ا یک تہ ا ئی میں شریک ہ وتا ہے۔
تیسرے گروہ ک ی میراث
2765 ۔ م یراث پانے والوں ک ے ت یسرے گروہ م یں چچا، پھ وپ ھی، ماموں اور خالہ اور ان ک ی اولاد ہیں اور جیسا کہ ب یان ہ وچکا ہے اگر پ ہ ل ے اور دوسر ے گرو ہ م یں سے کوئ ی وارث موجود نہ ہ و تو پ ھ ر یہ لوگ ترکپ پاتے ہیں۔
2766 ۔ اگر متوف ی کا وارث فقط ایک چچا یا ایک پھ وپ ھی ہ و تو خوا ہ و ہ سگا ہ و یعنی وہ اور متوف ی ایک ماں باپ کی اولاد ہ وں یا پدری ہ و یا مادری ہ و سارا مال اس ے ملتا ہے۔ اور اگر چند چچا یا چند پھ وپ ھیاں ہ وں اور و ہ سب سگ ے یا سب پدری ہ وں تو ان ک ے درم یان مال برابر تقسیم ہ وگا ۔ اور اگر چ چا اور پھ وپ ھی دونوں ہ وں اور سب سگ ے ہ وں یا سب پدری ہ وں تو بنابر اقو ی چچا کو پھ وپ ھی سے دگنا حص ہ ملتا ہے مثلاً اگر دو چچا اور ا یک پھ وپ ھی متوفی کے وارث ہ وں تو مال پانچ حصوں م یں تقسیم کیا جاتا ہے جن م یں سے ا یک حصہ پوپ ھی کو ملتا ہے اور باق ی ماندہ چار حصوں کو دونوں چچا آپس میں برابر برابر تقسیم کر لیں گے۔
2767 ۔ اگر متوف ی کے وارث فقط کچ ھ مادر ی چچا یا کچھ مادر ی پھ وپ ھیاں ہ وں تو متوف ی کا مال ان کے ماب ین مساوی طور پر تقسیم ہ وگا اور اگر وارث مادر ی چچا اور مادری پھ وپ ھی ہ و تو چچا کو پ ھ وپ ھی سے دو گنا ترک ہ مل ے گا اگرچہ احت یاط یہ ہے ک ہ چچا کو جتنا ز یادہ حصہ ملا ہے اس پر باہ م تصف یہ کریں۔
2768 ۔ اگر متوف ی کے وارث چچا اور پ ھ وپ ھیاں ہ وں اور ان م یں سے کچ ھ پدر ی اور کچھ مادر ی اور کچھ سگ ے ہ وں تو پدر ی چچاوں اور پھ وپ ھیوں کو ترکہ ن ہیں ملتا اور اقوی یہ ہے ک ہ اگر متوف ی کا ایک مادری چچا یا ایک مادری پھ وپ ھی ہ و تو مال ک ے چ ھ حص ے کئ ے جات ے ہیں جن میں سے ا یک حصہ مادری چچا یا پھ وپ ھی کو دیا جاتا ہے اور باق ی حصے سگ ے چچاوں اور پ ھ وپ ھیوں کو ملتے ہیں اور بالفرض اگر سگے چچا اور پ ھ وپ ھیاں نہ ہ وں تو و ہ حص ے پدر ی چچاوں اور پھ وپ ھیوں کو ملتے ہیں۔ ا ور اگر متوفی کے مادر ی چچا اور مادری پھ وپ ھیاں بھی ہ وں تو مال ک ے ت ین حصے کئ ے جات ے ہیں جن میں سے دو حص ے سگ ے چچاوں اور پ ھ وپ ھیوں کو ملتے ہیں اور بالفرض اگر سگے چچا اور پ ھ وپ ھیاں نہ ہ وں تو پدر ی چچا اور پدری پھ وپ ھی کو ترکہ ملتا ہے اور ا یک حصہ مادر ی چچا اور پھ وپ ھی کو ملتا ہے اور مش ہ ور یہ ہے ک ہ مادر ی چچا اور مادری پھ وپ ھی کا حصہ ان ک ے ماب ین برابر برابر تقسیم ہ وگا ل یکن بعید نہیں کہ چچا کو پ ھ وپ ھی سے دگنا حص ہ مل ے اگرچ ہ احت یاط اس میں ہے ک ہ با ہ م تصف یہ کریں۔
2769 ۔ اگر متوف ی کا وارث فقط ایک ماموں یا ایک خالہ ہ و تو سارا مال ا سے ملتا ہے۔ اور اگر کئ ی ماموں بھی ہ وں اور خالائ یں بھی ہ وں اور سب سگ ے یا پدری یا مادری ہ وں تو بع ید نہیں کہ ماموں کو خال ہ س ے دگنا ترک ہ مل ے ل یکن برابر، برابر ملنے کا احتمال ب ھی ہے ل ہ ذا احت یاط کو ترک نہیں کرنا چاہ ئ ے۔
2770 ۔ اگر متوف ی کا وارث فقط ایک یا چند مادری ماموں اور خالائیں اور سگے ماموں اور خالائ یں ہ وں اور پدر ی ماموں اور خالائیں ہ وں تو پدر ی مامووں اور خالاوں کو ترکہ ن ہ ملنا محل اشکال ہے ب ہ ر حال بع ید نہیں کہ ماموں کو خال ہ س ے دگنا حص ہ مل ے ل یکن احتیاط باہ م رضامند ی سے معاملہ کرنا چا ہ ئ ے۔
2771 ۔ اگر متوف ی کے وار ث ایک یا چند ماموں یا ایک چند خالائیں یا ماموں اور خالہ اور ا یک یا چند چچا یا ایک یا چند پھ وپ ھیاں یا چچا اور پھ وپ ھی ہ وں تو مال ت ین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان م یں سے ا یک حصہ ماموں یا خالہ کو یا دونوں کو ملتا ہے اور باق ی دو حصے چچا یا پھ وپ ھی کو یا دونوں کوملتے ہیں۔
2772 ۔ اگر متوف ی کے وارث ا یک ماموں یا ایک خالہ اور چچا اور پ ھ وپ ھی ہ وں تو اگر چچا اور پ ھ وپ ھی سگے ہ وں یا پدری ہ وں تو مال ک ے ت ین حصے کئ ے جات ے ہیں ان میں سے ا یک حصہ ماموں یا خالہ کو ملتا ہے ، اور اقو ی کی بنا پر باقی سے دو حص ے چچا کو اور ا یک حصہ پ ھ وپ ھی کو ملتا ہے ل ہ ذا مال ک ے نو حص ے ہ وں گ ے جن م یں سے ت ین حصے ماموں یا خالہ کو اور چار حص ے چچا کو اور دو حص ے پ ھ وپ ھی کو ملیں گے۔
2773 ۔ اگر متوف ی کے وارث ا یک ماموں یا ایک خالہ اور ا یک مادری چچا یا ایک مادری پھ وپ ھی اور سگے یا پدری چچا اور پھ وپ ھیاں ہ وں تو مال کو ت ین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جن م یں سے ا یک حصہ ماموں یا خالہ کو د یا جاتا ہے۔ اور باق ی دو حصوں کو چچا اور پھ وپ ھی آپس میں تقسیم کریں گے اور بع ید نہیں کہ چچا کو پ ھ وپ ھی سے دگنا حص ہ مل ے اگرچ ہ احت یاط کا خیال رکھ نا ب ہ تر ہے۔
2774 ۔ اگر متوف ی کے وارث چند ماموں یا چند خالائیں ہ وں جو سگ ے یا پدری یا مادری ہ وں اور اس ک ے چچا اور پ ھ وپ ھیاں بھی ہ وں تو مال ک ے ت ین حصے کئ ے جات ے ہیں۔ ان م یں سے دو حص ے اس دستور ک ے مطابق جو ب یان ہ وچکا ہے چچاوں اور پ ھ وپ ھیوں کے ماب ین تقسیم ہ وجات ے ہیں اور باقی ایک حصہ ماموں اور خالائیں جیسا کہ مسئل ہ 2770 میں گزر چکا ہے آپس م یں تقسیم کریں گے۔
2775 ۔ اگر متوف ی کے وارث مادر ی ماموں یا خالائیں اور چند سگے ماموں اور خالائ یں ہ وں یا فقط پدری ماموں اور خالائیں اور چچا و پھ وپ ھی ہ وں تو مال ک ے ت ین حصے کئ ے جات ے ہیں۔ ان م یں سے دو حص ے اس دستور ک ے مطابق جو ب یان ہ وچکا ہے چچا اور پ ھ وپ ھی آپس میں تقسیم کریں گے اور بع ید نہیں کہ باق یماندہ تیسرے حصے کو تقس یم میں باقی ورثا کے حص ے برابر ہ وں ۔
2776 ۔ اگر متوف ی کے چچا اور پ ھ وپ ھیاں اور ماموں اور خالائیں نہ ہ وں تو مال ک ی جو مقدار چچاوں اور پھ وپ ھیوں کو ملنی چاہ ئ ے و ہ ان ک ی اولاد کو اور جو مقدار مامووں اور خالاوں کو ملنی چاہ ئ ے و ہ ان ک ی اولاد کو دی جاتی ہے۔
2777 ۔ اگر متوف ی کے وارث اس ک ے باپ ک ے چچا، پ ھ وپ ھیاں، ماموں اور خالائیں اور اس کی ماں کے چچا، پ ھ وپ ھیاں، ماموں اور خالائیں ہ وں تو مال ک ے ت ین حصے کئ ے جات ے ہیں۔ ان م یں سے ا یک حصہ متوف ی کی ماں کے چچاوں، پ ھ وپ ھیاں، مامووں اور خالاوں کو بطور میراث ملے گا ۔ اور مش ہ ور قول کی بنا پر مال ان کے درم یان برابر، برابر تقسیم کر دیا جائے گا ل یکن احتیاط کے طور پر مصالحت کا خ یال رکھ نا چا ہ ئ ے۔ اور باق ی دو حصوں کے ت ین حصے کئ ے جات ے ہیں۔ ان م یں سے ا یک حصہ متوف ی کے باپ ک ے ماموں اور خالائ یں (یعنی ننھیالی رشتے دار) اس ی کیفیت کے مطابق آپس م یں برابر، برابر بانٹ ل یتے ہیں اور باقی دو حصے ب ھی اسی کیفیت کے مطابق متوف ی کے باپ ک ے چچاوں اور پ ھ وپ ھیوں (یعنی ددھیالی رشتے داروں) کو ملت ے ہیں۔
بیوی اور شوہ ر ک ی میراث
2778 ۔ اگر کوئ ی عورت بے اولاد مرجائ ے تو اس ک ے سار ے مال کا نصف حص ہ شو ہ ر کو اور باق ی ماندہ دوسر ے ورثاء کو ملتا ہے اور اگر کس ی عورت کو پہ ل ے شو ہ ر س ے یا کسی اور شوہ ر س ے اولاد ہ و تو سار ے مال کا چوت ھ ائ ی حصہ شو ہ ر کو اور باقی ماندہ دوسر ے ورثاء کو ملتا ہے۔
2779 ۔ اگر کوئ ی آدمی مرجائے اور اس ک ی کوئی اولاد نہ ہ و تو اس ک ے مال کا چ ھ وت ھ ائ ی حصہ اس ک ی بیوی کو اور باقی دوسرے ورثاء کو ملتا ہے۔ اور اگر اس آدم ی کو اس بیوی سے یا کسی اور بیوی سے اولاد ہ و تو مال کا آ ٹھ واں حص ہ ب یوی کو اور باقی دوسرے ورثاء کو ملتا ہے۔ اور گ ھ ر ک ی زمین، باغ، کھیت اور دوسری زمینوں میں سے عورت ن ہ خود زم ین بطور میراث حاصل کرتی ہے اور ن ہ ہی اس کی قیمت میں سے کوئ ی ترکہ پات ی ہے ن یز وہ گ ھ ر ک ی فضا میں قائم چیزوں مثلاً عمارت اور درختوں سے ترک ہ ن ہیں پاتی لیکن ان کی قیمت کی صورت میں ترکہ پات ی ہے۔ اور ج و درخت، کھیت اور عمارتیں باغ کی زمین، مزروعہ زم ین اور دوسری زمینوں میں ہ وں اور ان کا ب ھی یہی حکم ہے۔
2780 ۔ جن چ یزوں میں سے عورت ترک ہ ن ہیں پاتی مثلاً رہ ائش ی مکان کی زمین اگر وہ ان م یں تصرف کرنا چاہے تو ضرور ی ہے ک ہ دوسر ے ورثاء س ے اجازت ل ے اور ورثاء جب تک عورت کا حص ہ ن ہ د ے د یں ان کے لئ ے جائز ن ہیں ہے ک ہ اس ک ی اجازت کے بغ یر ان چیزوں میں مثلاً عمارتوں اور درختوں میں تصرف کریں ان کی قیمت سے و ہ ترک ہ پات ی ہے۔
2781 ۔ اگر عمارت اور درخت وغ یرہ کی قیمت لگانا مقصود ہ و تو ج یسا کہ ق یمت لگانے والوں کا معمول ہ وتا ہے ک ہ جس زم ین میں وہ ہیں اس کی خصوصیت کو پیش نظر رکھے بغ یر ان کا حساب کریں کہ ان ک ی کتنی قیمت ہے ، ن ہ ک ہ ان ہیں زمین سے اک ھڑے ہ وئ ے فرض کرک ے ان ک ی قیمت لگائیں اور نہ ہی ان کی قیمت کا حساب اس طرح کریں کہ و ہ بغ یر کرائے ک ے اس زم ین میں اسی حالت میں باقی رہیں یہ اں تک کہ اج ڑ جائ یں۔
2782 ۔ ن ہ روں کا پان ی بہ ن ے ک ی جگہ اور اس ی طرح کی دوسری جگہ زم ین کا حکم رکھ ت ی ہے اور ا ینٹیں اور دوسری چیزیں جو اس میں لگائی گئی ہ وں اور و ہ عمارت ک ے حکم م یں ہیں۔
2783 ۔ اگر متوف ی کی ایک سے ز یادہ بیویاں ہ وں ل یکن اولاد کوئی نہ تو مال کا چوت ھ ا حص ہ اور اگر اولاد ہ و تو مال کا آ ٹھ واں حص ہ اس تفص یل کے مطابق جس کا ب یان ہ وچکا ہے سب ب یویوں میں مساوی طور پر تقسیم ہ وتا ہے خوا ہ شو ہ ر ن ے ان سب ک ے سات ھ یا ان میں سے بعض ک ے سات ھ ہ م بس تری نہ ب ھی کی ہ و ۔ ل یکن اگر اس نے ا یک ایسے مرض کی حالت میں جس مرض سے اس ک ی موت واقع ہ وئ ی ہے کس ی عورت سے نکاح ک یا ہ و اور اس س ے ہ مبستر ی نہ ک ی ہ و تو و ہ عورت اس س ے ترک ہ ن ہیں پاتی اور وہ م ہ ر کا حق ب ھی نہیں رکھ ت ی۔
2784 ۔ اگر کوئ ی عورت مرض کی حالت میں کسی مرد سے شاد ی کرے اور اس ی مرض میں مرجائے تو خوا ہ مرد ن ے اس س ے ہ م بستر ی نہ ب ھی کی ہ و و ہ اس ک ے ترک ے م یں حصے دار ہے۔
2785 ۔ اگر عورت کو اس ترت یب سے رجع ی طلاق دی جائے جس کا ذکر طلاق ک ے احکام م یں کیا جاچکا ہے اور و ہ عدت ک ے دوران مرجائ ے تو شو ہ ر اس س ے ترک ہ پاتا ہے۔ اس ی طرح اگر شوہ ر اس عدت ک ے دورا ن فوت ہ وجائ ے تو ب یوی اس سے تک ہ پات ی ہے ل یکن عدت گزرنے ک ے بعد یا بائن طلاق کی عدت کے دوران ان میں سے کوئ ی ایک مرجائے تو دوسرا اس س ے ترک ہ ن ہیں پاتا۔
2786 ۔ اگر شو ہ ر مرض ک ی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دے د ے اور بار ہ قمر ی مہینے گزرنے س ے پ ہ ل ے مر جائ ے تو عورت ت ین شرطیں پوری کرنے پر اس ک ی میراث سے ترک ہ پات ی ہے :
1 ۔ عورت ن ے اس مدت م یں دوسرا شوہ ر ن ہ ک یا ہ و اور اگر دوسرا شو ہ ر ک یا ہ و تو اس ے م یراث نہیں ملے گ ی اگرچہ احت یاط یہ ہے ک ہ صلح کرل یں (یعنی متوفی کے ورثاء عورت س ے مصالحت کرل یں)۔
2 ۔ طلاق عورت ک ی مرضی اور درخواست پر نہ ہ وئ ی ہ و ۔ ورن ہ اس ے م یراث نہیں ملے گ ی خواہ طلاق حاصل کرن ے ک ے لئ ے اس ن ے اپن ے شو ہ ر کو کوئ ی چیز دی ہ و یا نہ د ی ہ و ۔
3 ۔ شو ہ ر ن ے جس مرض م یں عورت کو طلاق دی ہ و اس مرح ک ے دوران اس مرض ک ی وجہ س ے یا کسی اور وجہ س ے مرگ یا ہ و ۔ ل ہ ذا اگر و ہ اس مرض س ے شفا یاب ہ وجائ ے اور کس ی اور وجہ س ے مرجائ ے تو عورت اس س ے م یراث نہیں پاتی۔
2787 ۔ جو کپ ڑے مرد ن ے اپن ی بیوی کو پہ نن ے ک ے لئ ے فرا ہ م کئ ے ہ وں اگرچ ہ و ہ ان کپ ڑ وں کو پ ہ ن چک ی ہ و پ ھ ر ب ھی شوہ ر ک ے مرن ے ک ے بعد و ہ شو ہ ر ک ے مال کا حص ہ ہ وں گ ے۔
مِیراث کے مختلف مسائل
2788 ۔ متوف ی کا قرآن مجید، انگوٹھی، تلوار اور جو کپڑے و ہ پ ہ ن چکا ہ و و ہ ب ڑے ب یٹے کا مال ہے اور اگر پ ہ ل ی تین چیزوں میں سے متوف ی نے کوئ ی چیز ایک سے ز یادہ چھ و ڑی ہ وں مثلاً اس ن ے قرآن مج ید کے دو نسخ ے یا دو انگوٹھیاں چھ و ڑی ہ وں تو احت یاط واجب یہ ہے ک ہ اس کا ب ڑ ا ب یٹ ا ان کے ب ارے م یں دوسرے ورثاء س ے مصالحت کر ے اور ان چار چ یزوں کے سات ھ رحل، بندوق، خنجر اور ج یسے دوسرے ہ ت ھیاروں کو بھی ملادیں تو "وجہ " س ے خال ی نہیں لیکن احتیاط واجب یہ ہے ک ہ ب ڑ ا ب یٹ ا ان چیزوں سے متعلق دوسر ے ورثاء س ے مصالحت کر ے۔
2789 ۔ اگر کس ی متوفی کے ب ڑے ب یٹے ایک سے ز یادہ ہ وں مثلاً دو ب یویوں سے دو ب یٹے بیک وقت پیدا ہ وں تو جن چ یزوں کا ذکر کیا جاچکا ہے ان ہیں برابر برابر آپس میں تقسیم کریں۔
2790 ۔ اگر متوف ی مقروض ہ و تو اگر اس کا قرض اس ک ے مال ک ے برابر یا اس سے ز یادہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ ب ڑ ا ب یٹ ا اس مال سے ب ھی اس کا قرض ادا کرے جو اس ک ی ملکیت ہے اور جن کا سابق ہ مسئل ے م یں ذکر کیا گیا ہے یا اس کی قیمت کے برابر اپن ے مال س ے د ے۔ اور اگر متوف ی کا قرض اس کے مال س ے کم ہ و اور ذکر شد ہ چند چ یزوں کے علاو ہ جو باق ی مال اسے م یراث میں مل ہ و اگر و ہ ب ھی اس کا قرض ادا کرنے ک ے لئ ے کاف ی نہ ہ و تو ضرور ی ہے ک ہ ب ڑ ا ب یٹ ا ان چیزوں سے یا اپنے مال س ے اس کا قرض د ے۔ اور اگر باق ی مال قرض ادا کرنے ک ے لئ ے کاف ی ہ و تب ب ھی احتیاط لازم یہ ہے ک ہ ب ڑ ا ب یٹ ا جیسے کہ پ ہ ل ے بتا یا گیا ہے قرض ادا کرن ے م یں شرکت کرے مثلاً اگر متوف ی کا تمام مال ساٹھ روپ ے کا ہ و اور اس میں سے ب یس روپے ک ی وہ چ یزیں ہ وں جو ب ڑے ب یٹے کا مال ہیں اور اس پر تیس روپے قرض ہ و تو ب ڑے ب یٹے کو چاہ ئ ے ک ہ ان چ یزوں میں سے دس روپ ے متوف ی کے قرض ک ے سلسل ے م یں دے۔
2791 ۔ مسلمان کافر س ے ترک ہ پاتا ہے ل یکن کافر خواہ مسلمان متوف ی کا باپ یا بیٹ ا ہی کیوں نہ ہ و اس س ے ترک ہ ن ہیں پاتا۔
2793 ۔ جب کس ی متوفی کے ورثاء ک ہ تقس یم کرنا چاہیں تو وہ بچ ہ جو اب ھی ماں کے پ یٹ میں ہ و اور اگر زند ہ پ یدا ہ و تو م یراث کا حق دارہ وگا اس صورت م یں جب کہ ا یک سے ز یادہ بچوں کے پ یدا ہ ون ے کا احتمال ن ہ ہ و اور اطم ینان نہ ہ و ک ہ و ہ بچ ہ ل ڑ ک ی ہے تو احت یاط کی بنا پر ایک لڑ ک ے کا حصہ عل یحدہ کر دیں اور جو مال اس سے ز یادہ ہ و و ہ آپس م یں تقسیم کرلیں بلکہ اگر ا یک سے ز یادہ بچے ہ ون ے کا قو ی احتمال ہ و مثلاً عورت ک ے پ یٹ میں دو یا تین بچے ہ ون ے کا احتمال ہ و تو احت یاط کی بنا پر ضروری ہے ک ہ جن بچوں ک ے پ یداہ ون ے کا احتمال ہ و ان ک ے حص ے عل یحدہ کریں مثلاً اگر ایک لڑ ک ے یا ایک لڑ ک ی کی ولادت ہ و تو زائد ترک ے کو ورثاء آپس م یں تقسیم کرلیں۔