حیض پر گفتگو
آج میرے والد محترم گفتگو کے کمرے میں آکر اپنی جگہ پر بیٹھ گئے، ان کے ہونٹوں پر ایک گہری مسکراہٹ تھی میں نے اندازہ لگایا کہ کوئی خلاف معلوم بات ہے چنانچہ وہ یہ کہتے ہوئے بیٹھے:
آج حیض کے سلسلہ میں تم سے گفتگو کروں گا۔
میں اس سے پہلے نہ جانتا تھا کہ حیض کیا ہے اگر میں نے اس سے پہلے اس لفظ کو سنا بھی تھا تو اس کے بارے میں کچھ جاننا فضول سمجھتا تھا کیونکہ میں نے اس لفظ کے متعلق کچھ عورتوں سے بہ حالت شرم سنا تھا گویا اس کلمہ میں ہی شرم محسوس ہوئی اور جیسے ہی مجھے معلوم ہوا کہ آج حیض کے بارے میں گفتگو ہے تو میں اتنا شرمسار ہوا کہ میری شعوری کیفیت بھی شرمندہ سی ہوگئی۔
میں نے اپنے دل میں کہاکیوں تو اتنا شرمندہ ہورہا ہے اور اس سوال کو بار بار دہرایا کہ کیوں تو شرمندہ ہورہاہے۔
میں نے غور کیا کہ آخر شرم کی کیا بات ہے اور کیوں؟ اگر حیض ایک ایسی چیز ہوتی کہ جس پر خجالت وشرم صحیح ہوتی تو پھر میرے والد اس بارے میں آج مجھ سے گفتگو کیوں کرتے؟ پھر کیا ایک ایسی شرم والی چیز پر مجھ سے گفتگو کیوں کرتے ؟ پھر کیا ایک ایسی شرم والی چیز پر مجھ سے گفتگو کرنا اچھی بات ہے کہ جس کے بارے میں کسی نے بھی بات نہ کی ۔
اور ایک دم مجھے یاد آیا کہ ہماری اس گفتگو کا موضوع احکام شرعیہ ہیں پس لازمی طور پر حیض کو بھی فقہ اسلامی کا ایک گفتگو کا موضوع ہونا چاہیے۔
اور جب ایسا ہوتو پھر خجالت کے کیا معنی ہیں ایسی چیز کے بارے میں جس کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہو اور حضرت محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی حدیث میں جس کا بیان ہو اور ائمہ معصومین علیہم السلام نے اپنے احکام میں اس کو اپنے اصحاب سے بیان کیا ہو، پھر اس کے بعد شرمند گی یا خجالت کے کیا معنی ہیں؟ اس چیز کے بارے میں کہ جس کے احکام کا اس کے مطابق یاد کرنا واجب ہے، میں اس سوچ میں غرق تھا کہ میرے والد کی آواز نے مجھے یہ کہتے ہوئے چونکایا :
حیض کا سبب
خون حیض وہ خون ہے، جو عورتوں کو نوبرس کی عمر کے بعد پچاس ساٹھ سال کی عمر تک آسکتا ہے اور یہ عورتوں کو تقریباًہر مہینہ میں معینہ مدت میں اور آتاہے خون حیض اکثر سیاہ یا سرخ اور گرم ہوتا ہے جس میں سوزش ہوتی ہے اور اچھل کر نکلتا ہے اور کبھی اس کے خلاف بھی ہوتا ہے۔
سوال: جن عورت کو حیض آتا ہے کیا ان کی عمر معین ہوتی ہیں؟
جواب: ہاں جب وہ قمری حساب سے نوسال پورے کرلیتی ہیں اور قمری حساب سے ساٹھ سال تک نہ پہنچیں کیونکہ یہ ساٹھ سال کی عمر میں یائسہ کہلاتی ہے۔
سوال: تو کیا حیض والی عورتیں ۹ اور ۶۰ سال کے درمیان ہوتی ہیں۔
جواب: ہاں، ہر وہ لڑکی جو نو سال سے پہلے خون دیکھے، چاہے ایک ہی لمحہ کے لیے کیوں نہ ہو، وہ خون حیض نہیں ہوتا اور ہر وہ خون جو عورتوں کو ۶۰ سال کے بعد آئے تو اس کو بھی خون حیض نہیں سمجھا جائے گا۔
سوال: اباجان یہ بتائیے، خون حیض کتنے دن تک جاری رہتا ہے؟
جواب: کم ازکم خون حیض تین دن کے درمیان میں دوراتیں، اور زیادہ سے زیادہ دس دن جاری رہتا ہے۔
سوال: اور اگر تین روزسے کم آئے یا درمیان میں منقطع ہوجائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: تو یہ خون حیض نہیں ہے۔
سوال: اور اگر دس روز سے زیادہ ہوجائے؟
جواب: جواب: حیض دس روزسے زیادہ نہیں ہوتا۔
سوال: اوراگر حیض کی مدت تمام ہوجائے اور عورت پاک ہوجائے، پھر سات روزبعد دوبارہ خون آجائے تو اس بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب: یہ خون، خون حیض نہیں ہے کیونکہ دو حیضوں کے درمیان مدت کبھی دس روز سے کم نہیں ہو تی۔
سوال: عورت اپنے آپ کو حائض کب شمار کرے گی؟
جواب: جب خون اس کی عادت کے زمانہ میں آئے، یازمانہ عادت سے کچھ وقت پہلے آئے جیسے ایک روزیا دو روز پہلے خون آئے تو عورت اپنے آپ کو حائض سمجھے گی ۔
سوال: عورت صاحب عادت وقتیہ کس طرح ہوگی ؟
جواب: جب خون حیض دو مربتہ دو مہنیہ برابر کسی وقت معین میں آئے ، تو وہ عورت صاحب عادت وقتیہ ہوگی۔
جواب: جب عورت کی کوئی خاص مدت اور وقت نہ ہو، جیسے وہ لڑکی کہ جس کو پہلی مرتبہ خون آیا ہو، یا وہ مضطربہ کہ جس کی کوئی عادت معین نہ ہوتو وہ اپنے آپ کو کب سے حائض شمار کرے گی؟
جب خون میں حیض کی تمام صفات پائی جاتی ہوں، جیسے سرخی یا سیاہی، گرمی اور اس کی سوزش اور تیزی کے ساتھ اس کا نکلنا ۔
جب خون دیکھے تو اس کو اطمینان ہو کہ یہ خون تین دن یا زیادہ تک جاری رہے گا۔
سوال: مذکورہ بالا امور کی بناپر عورت نے اپنے کوحائض شمار کیا، اوراس نے نماز نہ پڑھی لیکن خون تین روزسے پہلے ہی بند ہوگیا اور وہ سمجھ گئی کہ یہ خون حیض نہیں ہے تو اب وہ کیا کرے گی؟
جواب: اس مدت میں جو نماز چھوٹی ہے اس کی قضا بجالائے۔
سوال: اگر خون دس روز سے کم یا دس روز سے زیادہ اس کی عادت کے دنوں سے تجاوز کرجائے تو اس کا وظیفہ شرعی کیا ہوگا؟
جواب: وہ اس مدت میں اپنے آپ کو حائض شمار کرے گی اگرچہ اس خون میں حیض کی کچھ صفات نہ بھی پائی جاتی ہوں ۔
سوال: اور جب خون دس دن سے زیادہ تجاوز کرجائے اور اس کے وقت اور عدددنوں معین ہوں تو؟
جواب: تو وہ صرف اپنی عادت کے مخصوص ایام میں اپنے آپ کو حائض شمار کرے گی عادت سے پہلے اور بعد کے ایام کا حساب حیض میں نہیں ہوگا۔
سوال: عادت والی عورت جب اپنی عادت کے ایام میں خون نہ دیکھے، اور اس کی عادت کے وقت کے بعد خون آئے اور وہ دس دن سے زیادہ ہوجائے، اور اس طرح خون میں کچھ حیض کی صفات پائی جائیں اور خون میں کچھ حیض کے صفات نہ پائی جاتی ہوں تو وہ ان دونوں میں سے کس کو حیض قراردے گی۔
جواب: جو ان میں پہلا خون ہے اس کو حیض قرار دے گی لیکن اس میں اپنی پچھلی عادت کی مدت کی رعایت کرے گی پس جن ایام میں حیض کی صفات وعلامات پائی جاتی ہیں وہ اگر عادت سے کم ہیں تو اپنی ان عادت کے دنوں کو ان ایام سے پورا کرے گی کہ جن دنوں میں اس کے خون میں حیض کی صفات نہ پائی جاتی تھیں اور اگر حیض کی صفات اس کی عادت کے دنوں سے زیادہ پائی جاتی ہوں تو پھروہ اپنی مخصوص عادت کے مطابق حیض قراردے گی۔
سوال: جب خون دس روز سے زیادہ تجاوز کرجائے اور وہ اصلاًصاحب عادت بھی نہ ہو جیسے :مبتدئہ۔مضطربہ اور متحیرہ وغیرہ تو ایسی صورت میں وہ کیسے خون حیض کو دوسرے خون سے تمیز کرے گی؟
جواب: مختلف علامات کی بناپر پس اگر حیض کی علامت والے خون کی مقدار تین روز اور دس روز کے درمیان پائی جاتی ہوتو اسی کو وہ حیض قرار دے گی اور اس کے علاوہ خون کو استحاضہ قرار دے گی اس استحاضہ کے بارے میں آئندہ ہونے والی گفتگو میں، میں آپ کو بتاؤں گا۔
سوال: اگر عورت خون حیض کے تمام ہوجانے میں شک کرے؟یعنی شک کرے کہ وہ پاک ہوگئی یا ابھی حیض باقی ہے تو ایسی صورت میں کیا کرےگی؟
جواب: اس پر تحقیق کرنا واجب ہے۔
سوال: وہ کس طرح تحقیق کرے گی؟
جواب: وہ تھوڑی سی روئی اپنی شرمگاہ میں داخل کرے، اور کچھ دیر صبر کرے، اس کے بعد نکالے، اگر وہ سفید نکلے تو وہ پاک ہوگئی، اب اس پر واجب ہے کہ غسل کرکے اپنی عبادت کو بجالائے مثلاًنماز، روزہ وغیرہ، اور اگر خون سے بھری ہوئی ہو یا رنگین نکلے، تو پھر وہ اپنے آپکو حائض شمار کرے۔
سوال: اور جب عورت کو معلوم ہوجائے کہ وہ حائض ہے؟تو اس کا وظیفہ کیا ہوگا؟اور کس چیز کو ترک کرنا اس کے لیے ضروری ہے؟
جواب: حیض کی حالت میں عورت کے لیے ذیل کے احکام ہیں:
( ۱) اس کے لیے نماز واجب اور نماز مستحب کا پڑھنا صحیح نہیں ہے
( ۲) حیض کے دنوں میں جو نمازیں چھوٹ گئی ہیں ان کی قضا نہیں ہے۔
( ۳) روزہ رکھنا درست نہیں ہے۔
( ۴) حیض کی حالت میں ماہ رمضان میں جو روزے چھوٹ گئے ہیں ان کی قضا کرے؟
(اور اسی طرح وقت معین میں نذر کیا ہوا روزہ کی قضا بجالائے۔“
( ۵) ایسی حالت میں حج کا طواف کرنا چاہے واجب ہویا مستحب صحیح نہیں ہے۔
( ۶) حیض کی حالت میں عورت کو طلاق دینا صحیح نہیں ہے، مگر چند جگہوں پر چھوٹ ہے۔
( ۷) خون کے دنوں میں اس سے مقاربت کرنا حرام ہے؟البتہ شرمگاہ کو پاک کرنے کے بعد ۔
( ۸) اس عورت پر ہر وہ چیز حرام ہے جو مجنب پر حرام ہے(جنابت کی بحث میں دیکھئے)
( ۹) جب حیض کا زمانہ ختم ہوجائے تو اس پر نماز کےلیے غسل کرنا واجب ہے۔
غسل کی آنے والی بحث میں، آپ کو بتاؤں گا کہ غسل کس طرح کرنا چاہیے۔
نفاس پر گفتگو
میرے والد صاحب نے فرمایا کہ بیٹا میں آج تم سے نفاس کے سلسلے میں گفتگو کروںگا۔
سوال: نفاس سے آپ کی کیا مراد ہے؟
جواب: جب عورت ولادت کے وقت یا ولاوت کے بعد، ولادت ہی کے سبب سے خون دیکھتی ہے، اس وقت ہم اس عورت کا نام نفساء رکھتے ہیں۔
سوال: نفاس کتنے دن رہتا ہے؟
جواب: زیادہ سے زیادہ دس روز۔
سوال: کم سے کم کتنا؟
جواب: کم کی کوئی مدت نہیں کبھی ایک منٹ بھی رہتا ہے اور کبھی اس سے بھی کم ۔
سوال: کیا عورتوں کےدرمیان نفاس مختلف ہوتا ہے؟
جواب: نفاس والی عورتوں تین قسمیں ہیں اور ان میں ہر ایک کا مخصوص حکم ہے وہ یہ ہے کہ جس کا خون دس دن سےزیادہ تجاوز نہیں کرتا۔
سوال: اس کا حکم کیا ہے۔؟
جواب: یہ تمام خون نفاس شمار کیا جائے گا۔
سوال: جس کا خون دس دن سے زیادہ تجاوز کرجائے اور وہ عورت حیض میں عادت عددیہ والی ہے مثلاًحیض میں اس کی عادت ہر مہینہ پانچ دن ہے۔
اس کا حکم کیا ہے؟
جواب: وہ اپنی عادت کی مدت کو نفاس قراردے گی، جیسا کہ ہم نے گذشتہ مثال میں پانچ دن بتائے ہیں وہ ان پانچ دنوں کو نفاس قرار دے گی۔
سوال: باقی دوسرے ایام کا کیا ہوگا۔؟
جواب: وہ باقی ایام استحاضہ قراردے گی۔
سوال: جس کے خون نکلنے کا زمانہ دس دن سے زیادہ ہو اور حیض میں اس کی کوئی عادت متعین نہ بھی ہو تو پھر اس کا کیا حکم ہوگا؟
جواب: وہ دس دن کی مدت کو نفاس قراردے گی۔
سوال: جب کہ نفساء (نفاس والی عورت ) حیض میں صاحب عادت ہو اور اس کا خون اس کی عادت سے تجاوز کرگیا ہوا ور وہ ابھی نہیں جانتی کہ اس کا خون دس دن سے پہلے بند ہوا ہے یا دس دن کے بعد بھی) خون جاری رہا ہے تو ایسی صورت میں کیا کرے؟
جواب: وہ عبادت کو دس دن تک ترک کرسکتی ہے، پس اگر خون بند ہوگیا ہوتو یہ تمام کی تمام مدت نفاس کی شمار ہوگی اور اگر خون دس روز سے زیادہ تجاوزکرگیا ہو تو پھر وہ غسل کرے گی اور عمل مستحاضہ انجام دے گی ۔
سوال: اور اس کی عادت اور دس روز کے درمیان جو فاصلہ واقع ہوگیا ہے اور اس میں جو عبادت چھوٹ گئی تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: اس مدت کو وہ استحاضہ قراردے گی اور جو اس درمیان عبادت ترک ہوگئی ہے اس کی قضاء کرے گی ۔
سوال: اگر پہلے دن خون نکلے پھر بند ہوکر دوسری مرتبہ دسویں روز یا دس روزسے پہلے کسی بھی دن خون نکلے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: پہلے خون کا نکلنا اور پھر دوسری مرتبہ خون کا نکلنا یہ دونوں کے دونوں نفاس شمارہوںگے۔
سوال: ان دونوں کے درمیان جو فاصلہ ہے، اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: وہ ان ایام میں نفاس سے پاک ہونے کے بعد والے اعمال اور نفاس کی حالت میں جن کا ترک کرنا واجب ہے، ان دونوں کو جمع کرے۔
سوال: اگر خون بند ہوجائے اور پھر جاری ہو، پھربند ہوجائے اور پھرجاری ہو اور یہ سلسلہ جاری رہے، لیکن یہ سب دس روزسے زیادہ تجاوزنہ کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: ایام خون سب کے سب نفاس شمار ہوںگے اور جو پاکیزگی کے ایام ہیں تو وہ اس مدت میں اعمال طاہرہ اور تروک نفساء کو جمع کرے گی۔
سوال: جب نفاس ختم ہوجائے اس کے بعد پھروہ خون دیکھے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: نفاس کے بعد جب بھی وہ دس روز کے اندر اندر خون دیکھے، تو وہ استحاضہ ہے، چاہے اس میں حیض کے خون کی علامت پائی جاتی ہو یا نہ ہو، اور چاہے وہ عادت کے دن ہوں یا نہ ہوں۔
سوال: نفساء پر کون سے احکام مرتب ہوتے ہیں؟
جواب: اس کے تمام احکام وہی ہیں ہیں جو حیض والی عورت کے ہیں،چاہے وہ احکام واجبات میں سے ہوں یا محرمات میں سے ، یا مکروہات میں سے ہوں(حتی سورہ عزائم میں سے آیت سجدہ کا پڑھنا مسجد الحرام ومسجد نبویصلىاللهعليهوآلهوسلم
میں داخل ہونا، اگر چہ گزرنے کی نیت سے ہی ہو، اور دوسری مساجد میں ٹھہرنا اور ان میں کوئی چیز رکھنا حرام ہے، حیض والی بحث میں ملاحظہ کریں۔)
استحاضہ پر گفتگو
آج میرے والدبزرگورارتشریف لائے اپنی مخصوص جگہ پر اور انہوں نے گفتگو کے شروع میں استحاضہ کا نام لیا ۔
جیسے ہی استحاضہ کا لفظ میرے سامنے آیا، فوراً میرے ذہن میں یہ بات آئی،کہ استحاضئہ کا لفظ بھی) حیض کا طرح ہے یا اسی محورکا ہے اور جیسے ہی یہ بات میرے ذہن میں آئی ویسے ہی ایک بجلی سی میرے دماغ میں کوندی اور ایک عورت کی ہئیت تشکیل پائی گئی۔
سوال: قبلہ والد صاحب : کیا استحاضہ بھی عورتوں کی خصوصیات میں سے ہے؟
جواب: فرمانے لگے ہاں:
سوال: کیا یہ بھی خونی چیز ہے؟
جواب: فرمایا، ہاں، لیکن ،
سوال: لیکن کیا؟
جواب: لیکن نہ یہ حیض ، نہ نفاس، نہ زخم، نہ پھوڑا اور نہ ہی ازالہ بکارت کا خون ہے۔
سوال: میں نے کہا کہ اس کے معنی یہ ہوئے کہ جو خون نہ حیض ہو، نہ نفاس ہو، نہ پھوڑے اور زخم کا ہو، نہ ازالہ بکارت کا ہوتو پھروہ خون استحاضہ ہے۔
جواب : فرمایاہاں،
سوال: میں نے کہا یہی چند خون ہیں ؟
جواب: فرمایا: ان میں بغض خون عورتوں کی جوانی اور خوبی کی علامت ہیں، کیا تم کو نہیں معلوم کہ جس وقت وہ بوڑھی ہوجاتی ہیں تو ان کا خون بند ہوجاتا ہے اور بچوں کی پیدائش بھی بند ہوجاتی ہے۔
سوال: میں نے کہا، زخم پھوڑے یا نفاس کے خون تو عادتا مشہور ہیں، لیکن کس طرح معلوم ہوکہ یہ خون استحاضہ ہے اور خون حیض نہیں ہے؟
فرمانے لگے کہ آپ کو خون حیض کی علامات معلوم ہیں؟
میں نے کہا ہاں وہ سرخ یا کالا، سوزش اور حرارت کے ساتھ نکلتا ہے۔
جواب: فرمایا کہ اکثر جو علامات خون استحاضہ کی ہیں، وہ خون حیض کی علامتوں کے بالکل خلاف ہیں پس خون استحاضہ اکثر پیلے رنگ کا پتلا اور سوزش وجلن کے بغیر نکلتا ہے۔
سوال: میں نے کہا اگر کوئی عورت خون دیکھے اور یہ اتفاق اس کی شادی کے روز ہوتووہ کس طرح تشخیص کرے گی کہ وہ خون اس کی ازالہ بکارت کا نہیں ہے بلکہ خون استحاضہ ہے ؟
جواب: فرمایا : خون بکارت روئی کے اطراف میں ہوتا ہے اور وہ مثل ہلال کے طوق دار ہوتا ہے، اس کے برخلاف خون استحاضہ سے روئی بھر جاتی ہے اور کبھی اتنا زیادہ ہوجاتاہے کہ خون روئی سے نکل کر پٹی تک پہنچ جاتاہے۔
سوال: ہاں اور کبھی روئی کو پورا لپیٹ میں نہیں لیتا پس خون استحاضہ کی تین قسمیں ہیں۔
استحاضہ کثیرہ وہ ہے کہ جو خون روئی سے نکل کر پٹی تک پہنچ جائے اور استحاضہ متوسطہ وہ ہے جو خون روئی میں نفوذ کرجائے، لیکن وہ وہیں ٹھہرجائے اور اس پٹی تک نہ پہنچے کہ جس کو عموماً عورتیں خون سے محفوظ رہنے کے لیے باندھ لیتی ہیں۔
استحاضہ قلیلہ وہ ہے کہ جو خون روئی کو رنگین کردے اور کم ہونے کی بناپر خون اس میں نہ پہنچے۔
ان سب کا حکم کیا ہے؟
جواب: استحاضہ کثیرہ میں واجب ہے کہ عورت تین غسل کرے، نماز صبح کے لیے، نمازظہر کے لیے، جب کہ دونوں کو ایک ساتھ پڑھے اوراسی طرح نماز مغرب وعشاء کے لیے جب کہ دونوں کو ایک ساتھ پڑھے ۔
سوال: اور اگر دونوں نمازوں کو الگ الگ پڑھے؟
جواب: تو پھر ہر نماز کے لیے غسل کرے۔
سوال: کیا تمام حالات میں اس کا یہی حکم ہے؟
جواب: نہیں، بلکہ یہ حکم اس وقت ہے جب خون بند نہ ہو، اور اگر خون اتنی دیر کے لیے بند ہوجائے کہ جس میں غسل کرکے ایک نماز یا زیادہ نمازیں دوسری مرتبہ خون آنے سے پہلے پہلے بجالائے، تو ایسی عورت کو چاہیے کہ جب بھی خون نکلے تو دوبارہ غسل کرے، پس اگر اس نے غسل کیا اور نماز ظہر پڑھ لی، پھر نماز عصر پڑھنے سے پہلے روئی پر خون دکھائی دیا یا نماز کے درمیان خون روئی پر ظاہر ہوا تو عورت پر نماز پڑھنے کے لئے غسل کرنا واجب ہے لیکن اگر دوخونوں کے درمیان اتنا وقت ہے کہ جس میں دو نماز یا کچھ نمازیں بجالا سکتی ہے تو دوبارہ غسل کے بغیر نماز پڑھ سکتی ہے ۔
سوال: یہ تو استحاضہ کثیرہ کا حکم تھا اور استحاضہ متوسطہ میں اس عورت پر واجب ہے کہ ہر نماز کے لیے وضوے کرے، اور ہر روز ایک مرتبہ وضو سے پہلے غسل کرے۔ہربانی کرکے مجھے مشال سے سمجھائیے؟
جواب: نماز صبح سے پہلے عورت کو معلوم ہوجائے کہ وہ مستحاضہ ہے، تو وہ اپنا امتحان کرلے، پس اگر وہ استحاضہ متوسطہ ہے تو غسل کرے، پھر نماز صبح کے واسطے وضو کرے، اور یہ غسل اس روز کی تمام نمازوں کے لیے کافی ہے، مگر ہر نماز کے لیے وضو کرے پس اگر دوسرے روز نکلے تو غسل کرے،پھر وضو کرے اور یہ حکم اس وقت تک رہے گا، جب تک یہ حالت باقی رہے گی نہ کم ہوگا نہ زیادہ استحاضہ قلیلہ میں عورت پر واجب ہے کہ وہ ہرنماز کے لیے خواہ واجب ہویا مستحب، وضو کرے۔
سوال: کیا استحاضہ ایک قسم سے دوسری قسم کی طرف تبدیل ہوجاتاہے؟
جواب: ہاں: کبھی قلیلہ کثیرہ میں بدل جاتاہے، اور کبھی کثیرہ قلیلہ میں اور اسی طرح متوسطہ کبھی قلیلہ میں اور کبھی کثیر ہ میں،اور کبھی یہ دونوں متوسطہ میں تبدیل ہوجاتے ہیں ۔
سوال: عورت کس طرح پہچانے گی کہ اس کا استحاضہ بدل گیا ہے۔؟
جواب: عورت پر ضروی ہے کہ وہ اپنی آزمائش نماز سے پہلے کرے ،تاکہ اس کو صحیح معلوم ہوجائے: پھر ا پنی آزمائش کے نتیجے کے مطابق عمل کرے۔پس جب اس پر ظاہر ہوجائے کہ وہ استحاضہ قلیلہ ہے تو وہ احکام استحاضہ قلیلہ پر عمل کرے گی اور اگر اس پر ظاہر ہوجائے کہ وہ استحاضہ متوسطہ ہے تو وہ اس کے احکام پر عمل کرے گی اس طرح اگر معلوم ہوجائے کہ استحاضہ کثیرہ ہے تو وہ اس پر عمل کرے گی۔
سوال: آپ بتائیں کہ خون سے بھری ہوئی روئی، کمربند اور پٹی کا کیا حکم ہے؟
جواب: بہتر ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے ان کو بدلے، اور ان کو پاک کرے، جب کہ وہ استحاضہ قلیلہ یا متوسطہ ہو لیکن اگر وہ استحاضہ کثیرہ ہوتو اس پر لازم ہے کہ وہ امکان بھر ان چیزوں کو انجام دئے اور اگر خون کا روکنا اس کو ضررنہ پہنچائے تو وہ غسل کرنے کے بعد سے لے کر نماز کے بعد تک اپنے خون کو نکلنے سے روکے مثلاًروئی وغیرہ شرمگاہ کے اندر رکھ لے تاکہ خون باہر نہ نکل سکے ۔
سوال: کیا اس عورت پر غسل وطہارت انجام دینے کے بعد نماز کا فوری بجالانا ضروری ہے؟
جواب: ہاں ،
سوال: استحاضہ کے احکام کون کون سے ہیں؟
جواب: (اول)۔استحاضہ پر واجب ہے کہ وہ خون بند ہوجانے کے بعد نماز کے لیے وضو کرے گی، اگر اس کا استحاضہ قلیلہ ہے یا متوسطہ ہے، اور اگر کثیرہ ہے تو پھر وہ غسل کرے گی۔
(دوئم) تینوں قسموں میں (قلیلہ، متوسطہ اور کثیرہ) اس پر طہارت سے پہلے قرآن کے حروف کا چھونا حرام ہے اور طہارت کے بعد سے پہلے اس کا چھونا جائز ہے۔
(سوئم )مستحاضہ کو حالت استحاضہ میں طلاق دینا صحیح ہے۔
(چہارم) چو چیزیں حالت حیض میں حرام ہیں وہ استحاضہ میں حرام نہیں ہیں، جیسے عورت سے مقاربت ،مساجد میں داخل ہونا اور ان میں ٹھہرنا اور ان میں کوئی چیز رکھنا اور آیات سجدہ کی تلاوت کرنا۔
(پنجم) استحاضہ قلیلہ اور متوسطہ میں عورت کا روزہ رکھنا صحیح ہے،ا گر چہ اس نے اپنے وضو یا غسل کو (جو نماز کے لیے اس پر واجب تھا)انجام نہ دیا ہو، لیکن استحاضہ کثیرہ میں فقہاء کرام میں سے کچھ فقہا ء اس کے قائل ہیں کہ اس کا روزہ اس وقت صحیح ہے کہ جب وہ گذشتہ رات میں جو غسل واجب تھا اور جو غسل دن میں واجب تھے بجالائے، لیکن اصح (قول کی بناپر) اس کے روزہ کی صحت ان غسلوں پر موقوف نہیں ہے۔
(ششم) مستحاضہ کثیرہ پر غسلوں کے ساتھ وضو کرنا واجب نہیں ہے، اور مستحاضہ متوسطہ پر غسل واجب کے بعد وضو کرنا بھی واجب ہے۔