امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے متعلق گفتگو
میرے والد نے فر مایا: تم نے بہت سے احکام شرعیہ کو جان لیا ہے کہ جن کی تم کو ضرورت تھی اور بہت سی چیزوں کو جان لیا ہے ۔اب تم نے خدا وندعالم کے بعض احکام کو جان لیا ہے اور ان کے واجبات کی بھی حسب ضرورت تم پر وضاحت ہو گئی ہے اور ان کے بعض محرمات (حرام چیزوں) کو بھی یاد کر لیا ہے ۔اب میں تمہارے سامنے وہ چیز بیان کر تا ہوں کہ جس کو اس سے پہلے بیان نہیں کیا گیا۔
اس وقت تمہارے اوپر واجب ہے کہ تم ماضی کی تمام سختیوں کو یاد کرو۔ آج تم اپنے سر کو آسمان کی طرف بلند کرو ، اور اپنے دل کی گہرائی سے حزن و ملال اور حیرت کے ساتھ پر ور د گار کی بار گا ہ میں یوں عرض کرو “۔
الهی اعلم انک کلفتی ،ولکنی لا اعلم بما ذا کلفتنی“
”پالنے والے میں جانتا ہوں کہ تو نے مجھے مکلف بنا دیا ہے ۔ لیکن میں یہ نہیں جانتا ہوں کہ تو نے مجھے کس چیز کا مکلف بنایا ہے “۔ پا لنے والے؛مجھ پر ضروری ہے کہ میں جان لوں کہ تو نے کس چیز کو مجھ پر حلال کیا تا کہ میں اس کو انجام دوں ۔ اور کس چیز کو تو نے حرام قراردیا ہے، تا کہ میں اس سے پرہیز کروں۔
اس وقت تمہیں جان لینا چاہیے، تمہارے ہم عمر یا تم سے بڑے لوگ بہت زیادہ ہیں جو پڑھ رہے ہیں ، وہ مدت سے تمہارے ساتھ رہتے ہیں اور تمہاری تمام مشکلات ومصائب میں وہ تمہارے شا نہ بشانہ رہے ہیں۔ اورتم خدا کی بارگاہ میں عرض کرو ، کہ اے خدایا ! فقہ اسلامی کی کتابوں کے مطالب کو جیسا تو چاہتا ہے میرے اوپر روشن اور آ شکار بنا دے اور میری مدد فر ما،تا کہ میں ان کو تیری مرضی کے مطابق سمجھ سکوں ۔فعلا جن چیزوں کا سیکھنا ضروری تھا وہ تم سیکھ چکے، اور کچھ احکام فقہ کا تم نے ذخیرہ کر لیا ہے۔ اب تم کو قرآن مجید کے اس قول کے مطابق ان پر عمل کر نا چا ہئے۔
(
ولتکن منکم امةیدعون الی الخیر یامرون بالمعروف وینهون عن المنکر و اولئک هم المفلحون)
”اور تم میں سے کچھ لوگ ہوں جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائیں اور اچھی باتوں کا حکم کریں اور بری باتوں سے روکیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں“پس تم بھی لوگوں کو نیکی کی طرف دعوت دو اور انھیں اچھائی کا حکم دو اور برائی سے رو کو۔
سوال: والد صاحب میں کس چیز کا حکم کروں اور کس چیز سے منع کروں؟
جواب: جس نیکی اور اچھائی کو تم جانتے ہو اس کا حکم کرو اور جس کو تم برائی سمجھتے ہو اس سے روکو۔
سوال: لیکن ابا جان ؛ مجھے دو سرے لوگوں سے کیا مطلب جو شخص برائی کر رہا ہے میرا اس سے کیا تعلق ہے۔کہ میں اس کو ترک کر نے کا حکم دوں،میں کیوں لوگوں کے معاملات میں مدا خلت کروں ، اور ان کو نیکی اور اچھا ئی کا حکم کروں ، اور برائیوں سے روکوں، میں خود اچھا کام انجام دوں اور برائی سے ا پنے آپ کوروکوں کیا یہ کافی نہیں ہے؟
جواب: اے بیٹا ! آج کے بعد ایسی بات نہ کہنا اور دو بارہ اس کی تکرار نہ کرنا ۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کچھ مراتب میں واجب کفائی ہیں اور اگر کسی نے بھی امر با لمعروف و نہی عن المنکر کے فرائض کو انجام نہ دیا مثلانہ میں نے، نہ تم نے اور نہ ہمارے علاوہ کسی اور نے ، تو ہم سب کے سب گناہ گار ہوں گے اور خدا وندعالم کے غضب اور اس کی ناراض گی کا باعث بنیں گے، اور اگر ہم میں سے کسی ایک نے بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو انجام دے دیا تو پھر تمام لوگوں سے اس کا وجوب ساقط ہو جائے گا کیا تم نے خدا کے اس قول میں غور نہیں کیا؟
(
ولتکن منکم امةً یّدعون الی الخیرو یا مرون بالمعروف وینهون عن المنکر واولئک هم المفلحون)
” تم میں سے کچھ لوگ ہوں جو لوگو ں کو نیکی کی طرف بلائیں اور انہیں اچھی باتوں کا حکم دیں اور بری باتوں سے روکیں یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں“ یہ آیت پہلے بیان ہو چکی ہے، کیا تم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول کو نہیں سنا کہ وہ ارشاد فر ماتے ہیں:
لاتزال امتی بخیر ماامر وابالمعروف ، ونهواعن المنکر وتعاونوا علی البر الخ“
”جب تک میری امت اچھائی اور نیکی کا حکم کرے گی اور برا ئی سے رو کے گی اور نیکی پر ایک دوسرے کی مدد کرے گی اس وقت تک میری امت سے خیر ختم نہیں ہو گا ۔ اورجب وہ یہ کام ترک کر دے گی تو اس سے بر کتیں اٹھالی جائیں گی اور ان میں سے بعض کو بعض پر مسلط کردیا جائے گا۔ اور ان کا زمین اور آسمان میں کوئی مدد گار نہ ہو گا“ کیا تم نے امام علی علیہ السلام کا یہ قول نہیں پڑھا:
” لاتترکو الامربالمعروف والنهی عن المنکر فیولی علیکم شرارکم ثم تد عون فلا یستجاب لکم“؟
”امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو ترک نہ کرنا ورنہ بد کار لوگ تم پر حاکم ہوجائیں گے۔ پھر تم ان کو بلاؤ گے تو وہ تمہاری آوا زپر لبیک نہ کہیں گے“ ”امام جعفر صادق علیہ السلام نے نے فر مایا:
” ان الامر بالمعروف والنهی عن المنکر سبیل الانبیاء ، ومنهاج الصلحاء فریضة عظیمة بها تقام الفراض ، وتامن المذاهب ، وتحل المکا سب وترد المظالم، وتعمرالا رض، وینتصف من الاعداء ویستقیم الامر “
” امر بالمعروف ونہی عن المنکر انبیاء اور صالحین کا راستہ ہے ، یہ ایک ایسا عظیم فریضہ ہے کہ جس کے ذریعہ واجبات ادا ہوتے ہیں اور نیک راہیں محفوظ ، اور کارو بار حلال ، مظالم دور ہوتے ہیں ، زمینیں آباد ، دشمنوں سے انصاف اور مشکلات حل ہوتے ہیں“
اور نیز آپ ہی کا یہ ارشاد ہے:
” الامر بالمعروف والنهی عن المنکر خلقان من خلق الله، فمن نصر هما اعزه الله ومن خذ لهما خذله الله “
” امر بالمعروف ونہی عن المنکر دو مخلوق خدا ہیں ، جو شخص ان دو نو ں کی مدد کرے گا تو خدا اسے عزت عطا کرے گا اور جو ان کو ذلیل ورسوا کرے گا تو خدا اس کو ذلیل ورسوا کرےگا “
” کلکم راع کلکم مسؤ ول عن رعیته
” تم میں سے ہر ایک اپنے اپنے گر وہ اور جماعت کا نگہبان اور ذمہ دار ہے “
ہاں میں نے پڑھا ہے ؛
پس اس بنا پر تم بھی اپنی جماعت اور گر وہ کے ذمہ دار ہو ، جو شخص ذمہ دار اور نگہبان ہوتا ہے اس کی ذمہ داریوں اور واجبات وحقوق میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے ۔ یا تم ان سب چیزوں کے بدلے یہ کہہ سکتے ہو کہ میں یہ فضول کام کیوں کرو ں میں کسی کے معاملات میں مدا خلت کیوں کروں یہ میرے لیے زیبا نہیں ۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کوئی فضول چیز نہیں ہیں اور یہ دونوں کسی کے معا ملہ میں مدا خلت بھی نہیں ، یہ تمہاری شان کے خلاف نہیں ، بلکہ تمہاری شان کے عین مطابق ہیں۔ پس جس ذات نے تم پر نماز ، روزہ،حج اور خمس کو واجب کیا ہے اسی نے تم پر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو واجب قرار دیاہے۔
سوال: لیکن میں کوئی مولوی نہیں ہوں کہ جو امر بامعروف ونہی عن المنکر کروں؟
جواب: کس نے تم سے کہا کہ امر بالعروف ونہی عن المنکر صرف مولوی کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔امر بالمعروف ونہی عن المنکر دو ایسے واجبات ہیں جو تمہارے اوپر میرے اوپر مولوی صاحب پر، طالب علم، استاد،تاجر، مزدور، ملازم ، فوجی ، ماتحت، مالدار،غریب ، عورت اور مرد سب پر واجب ہیں۔
سوال: آپ کو میں نے فر ماتے ہوئے سناہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے کچھ مراتب واجب کفائی ہیں پس کیا ان دونوں کے کچھ مراتب واجب عینی بھی ہیں ۔ جیسے وجوب نماز یومیہ کہ جو واجب عینی ہے؟
جواب: ہاں ان دونوں کے کچھ مراتب واجب عینی بھی ہیں، اور وہ ایسے شخص سے فعلی وقولی اعتبار سے نارضایتی کے اظہار کا مرتبہ ہے۔ جوواجب کو ترک کرتا ہے اور حرام کو انجام دیتا ہے ۔ کیاتم تک امیرالمنین علی علیہ السلام کا یہ قول نہیں پہنچا کہ جس میں آپ نے فر مایا :
” امر نا رسول الله صل الله علیه وآله وسلم ان نلقی اهل المعاصی بو جوه مکفهرة“
” امیرا لمو منین علیہ السلام نے فر ما یا کہ رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے ہم کو حکم دیا کہ جب ہم اہل معاصی ( گناہ کر نے والو ں) سے ملیں تو ترش روئی کے ساتھ ملیں۔“ یعنی ہم سب کے اوپر واجب ہے کہ جو شخص گناہ کا مر تکب ہوتا ہے اس سے نا پسندگی اور ناراضگی کا اظہار کریں۔
سوال: کیا امر بالمعروف ونہی عن المنکر تمام حالات میں واجب ہیں؟
جواب: نہیں ،ان کے وجوب میں مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:
( ۱) امر با المعر وف ونہی عن المنکر کر نے والا شخص واجب اور حرام امورکو جانتاہو، چاہے اجمالی طور پر ہی جانتا ہو اور ان کی تفصیل نہ جانتا ہو اور اس کا اتنا جاننا ہی کافی ہے کہ یہ عمل واجب ہے کہ جس کا حکم کر رہا ہے اور یہ عمل حرام ہے کہ جس سے روک رہا ہے،
( ۲) یہ احتمال ہو کہ جس کا یہ حکم دے رہا ہے اس کو وہ بجالائے گا اور جس چیز سے یہ روک رہا ہے اس سے وہ رک جائے گا اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی لاپرواہی اور غفلت نہیں کریگا ۔
سوال: اگر یہ معلوم ہوجائے کہ یہ شخص جس کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کیا جا رہا ہے حرام کو انجام دے گا اور واجب کو ترک کردے گا اور واجب وحرام دونو ں میں کسی کی اہمیت کا قائل نہیں تو کیا حکم ہے؟
جواب: امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے بعض مر احل اس سے ساقط ہو جائیں گے (اور ا ن دونو ں کے بعض مراحل واجب رہیں گے۔ اور اس کاقولاًو فعلاً واجب کے ترک کر نے اور حرام کے انجام دینے والے سے کراہت وناراض گی کا اظہار ہے)
( ۳) یہ کہ واجب کا ترک کر نے والا اور حرام کا بجا لا نیوالا ترک واجب اور فعل حرام پر مصر رہے لیکن اگر احتمال ہو کہ وہ اپنے اس فعل سے بعض آجائے گا تو پھر اسکو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کر نا واجب نہیں ہے۔
سوال: میں تاکید کے ساتھ سوال کر تاہوں کہ اگر وہ منکر کے بجا لانے اور معروف کے ترک کرنے پر اصرار نہ کرے تو کیا حکم ہے؟
جواب: تو پھر اس کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرنا واجب نہیں ہے۔
سوال: کس طرح معلوم ہوگا کہ یہ شخص منکر کے بجا لانے پر مصرہے یا نہیں؟
جواب: جب تم پر کوئی ایسی علامت ظاہر ہوکہ جس سے یہ معلوم ہو جائے کہ وہ اپنے اس فعل سے باز آ گیا ہے اور وہ اس پر نادم ہے تو پھر معلوم ہوجائے گا کہ وہ اس پر مصر نہیں ہے اور اس کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرنا واجب نہیں ہے۔
سوال: مجھے کسی شخص کے متعلق معلوم ہوتا ہے کہ وہ منکر کو انجام دے نے اور معروف کو ترک کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو کیا ایسی صورت میں مجھ پر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کر نا واجب ہے؟
جواب: یہاں تم پر اس کوامربالمعروف ونہی عن المنکر کر نا واجب ہے ۔ یہاں تک کہ اگر وہ ۔۔۔ صرف ایک بار ہی کیو ں نہ قصد مخالفت رکھتا ہو ( تو بھی تم پر واجب ہے )
( ۴) حرام کا م کو انجام دینے والا اور واجب کام کو ترک کر نے والا اپنے اعتقاد کی بنا پر معذورنہ ہو مثلا جو فعل وہ انجام دے رہا ہے اور اس کے اعتقاد کے مطابق حرام نہیں ہے۔ اور جس کام کو وہ ترک کر رہا ہے وہ اس کے اعتقاد کے مطابق واجب نہیں ہے ۔ اور وہ اپنی اس خطامیں معذورہے۔ تو ایسی صورت میں تم پر کوئی چیز واجب نہیں ہے ۔
( ۵) امر بالمعروف ونہی عن المنکر کر نے والے کی جان، مال اور ناموس کو حد سے زیادہ خطرہ نہ ہویا اس کے امر با لمعروف ونہی عن المنکر سے کسی کو خطرہ لاحق نہ ہو ، اگر ایسا ہوگا تو پھر واجب نہیں ہے۔
سوال: اور اگر امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرنے سے اسے اپنی جان یا مسلمانوں میں سے کسی کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو تو کیا کرے؟
جواب: تو اس حالت میں اس پر امر با لمعروف ونہی عن ا لمنکرواجب نہیں ہے، مگر یہ کہ معروف یا منکر شارع اسلامی کی نظر میں بہت اہم ہوں ۔ تو ایسی صورت میں احتمال کی قوت کا لحاظ اور تحمل کی اہمیت کا لحاظ کرکے دونوں طرف کا موازنہ کرنا ضروری ہے۔ پس کبھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر واجب ہے اور کبھی واجب نہیں ہے۔
سوال: اور جب میں معروف کے حکم کرنے اور منکر سے نہی کرنے کا ارادہ کر لوں تو؟
جواب: امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے چند مراتب ہیں:
پہلا مرتبہ
جو شخص منکر کو انجام دیتاہے اور معروف کو ترک کر تاہے، اس سے بیزاری اور قلبی نفرت کا اظہارکر نا ہے۔
سوال: میں کس طرح اس پر ناراضگی کا اظہار کر سکتا ہوں؟
جواب: اس کے چند طریقے ہیں ۔ اس سے اپنا رخ موڑ لینا ، اور اس سے اپنے تعلقات ختم کرنا، یا اس سے اس طرح ترش روئی سے پیش آ نا کہ اس کو معلوم ہو جائے یا اس سے ترک کلام کرنا،ان کے علاوہ اور بھی طریقے ہیں۔
دوسرا مرتبہ
اپنی زبان اور قول سے اس کو امر ونہی کر نا۔
سوال: کس طرح میں امر ونہی قول وزبان سے کر سکتا ہوں؟
جواب: چند طریقوں سے ۔ اس کام کے انجام دینے والے کو وعظ ونصیحت کرو۔خداوند عالم نے گنہگاروں کے لئے درد ناک عذاب معین کیا ہے اس کی یاد دلاؤ اور اس سے اطاعت کرنے والوں کے لیے جو عظیم ثواب مقررکیا ہے اس کا تذکرہ کرو۔ اور اس کے انکار پر اس کو ڈراؤ ، اس کے علاوہ جو مناسب طریقے ہوں وہ اختیار کرو۔
تیسرا مر تبہ
امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے سلسلے میں عملی اقدام کرو۔
سوال: وہ کس طرح؟
جواب: اس کام کے کر نے وا لے پر ذراسختی کرو، یا اس کو مارو یا اس کو قید کرو تاکہ وہ گناہ کر نے سے باز آجائے۔
میرے والد صاحب نے مزید فر مایا : ان تمام مراتب میں ہر مرتبہ کے لئے حالات وزمانہ کے اعتبار سے کچھ سخت اور ہلکے در جات ہیں ۔
سوال: کیا میں پہلی مر تبہ سے شروع کروں اگر یہ کافی نہ ہو تو دوسرے یا تیسرے مر تبہ کو اختیار کروں؟
جواب: ہاں پہلے تم پہلی مرتبہ یا دوسری مرتبہ سے شروع کرو، جس کی بھی زیادہ تاثیر کا تم کو احتمال ہو یا دونوں مرتبوں کو باہم اختیار کرو جبکہ اس سلسلہ میں تمہارا مقصدحاصل ہو جائے اور اس بات کو مدنظر رکھو کہ اذیت اور ہتک حرمت کم ہو اور بالتدریج سختی اختیار کرو۔
سوال: اور جب یہ دونو ں مر تبہ نفع بخش نہ ہو ں تو ؟
جواب: اس کے بعد تم حاکم شرع کی اجازت حاصل کرکے تیسرے مرتبہ کی طرف رجوع کر سکتے ہو ۔ کیونکہ عملی اقدام کو تدریجاً انجام دینا چاہیے، پہلے کم سختی کرو ، پھر شدید اور پھر سخت قدم اٹھا ؤ ۔ لیکن خیال رہے کہ نہ تو زخمی ہو ۔ اور نہ اس کا کوئی عضوٹوٹے، اور نہ ہی اس کے علاوہ اسے کو ئی اور گزند پہنچے، قتل کرنا تو بہت دور کی چیز ہے ۔
میرے وا لد نے فر ماکر اس بات کی تا کید فرمائی کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر دو نو واجب ہیں ، لیکن تمہارے لئے دونوں زیادہ ضروری ہیں ۔ اس چیز پر توجہ رکھو کہ تمہارے گھر والوں میں سے کوئی بھی واجب کا تارک اور حرام کا انجام دینے والانہ ہو ۔ تم اپنے گھر والو ں پر نظر رکھو کہ کو ئی واجبات کے ادا کرنے میں غفلت اور سستی سے کام نہ لے، تم دیکھو کہ کون وضو، تیمم اور غسل جنابت یا جسم ولباس کی طہارت کو صحیح شکل میں انجام نہیں دیتا ، کون حمد وسورہ کی قرائت اور نماز میں واجب اذکار کو صحیح صورت میں نہیں پڑھتا اور کون اپنے مال سے خمس وزکواۃ ادا نہیں کرتا ۔ اور تم اپنے گھر والو ں پر نظر رکھو کہ کون حرام چیز وں کا مر تکب ہو تا ہے ، کون پوشیدہ عادت میں مبتلا ہے کون قمار کھیلتا ہے کون گانا سنتا ہے اورکون شراب پیتاہے یا کون مردار کھا تا ہے ، یا کون لوگوں کے اموال غصب کر تا ہے ، یا کون دھوکہ بازی یا چو ری کر تا ہے۔ اپنے گھر کی عورتو ں پر نظر رکھو کہ کون پردہ نہیں کرتی ، یا کون اپنے بالوں کو نہیں چھپاتی ، اور تم ان عورتوں پر توجہ رکھو کہ ان میں سے کون غسل اور وضوکرتے وقت اپنے ناخونوں سے ملی ہوئی نا خن پالش کو صاف نہیں کرتی ۔اور تم ان میں تلاش کروکہ کون اپنے شوہر کے علاو ہ کسی غیر مرد کے لئے خشبو لگاتی ہے یا اپنے چچازاد ، یا پھو پھی زاد ، خالہ زاد ، مامو ں زاد بھائیوں ، اور شوہر کے بھائی اور اس کے دوست سے اپنے بالوں اور جسم کو نہیں چھپاتی ، اور وہ یہ دلیل پیش کرتی ہے کہ وہ ایک ہی گھر میں رہتے ہیں ۔ پس وہ بھا ئی کے مثل ہیں اور اس کے علاوہ دو سرے فضول عذر پیش کرتی ہیں اور تم اپنے گھر والو ں میں تلاش کرو کون جھوٹ بولتا ہے ، غیبت کرتا ہے ۔ دوسروں پر ظلم کرتا ہے اور دوسروں کے اموال کو بر باد کر تا ہے ۔ کون ظالموں کی ان کے ظلم میں مدد کرتا ہے ۔ تم تلاش کرو ۔ تلاش کرو ۔ تلاش کرو۔
سوال: اگر میں نے ا ن میں سے کسی کو پالیا تو؟
جواب: جب تم کسی میں کسی بری چیز کو پاؤ تو تم اچھی بات کا حکم کرو اور برائی سے منع کرو پہلی اور دوسری مرتبہ سے ابتداء کرتے ہوئے ۔ ناراضگی کا اظہار ، زبان سے انکار اور جب یہ نفع بخش نہ ہو تو پھر تیسرے مرتبہ کی طرف حاکم شرع کی اجا زت کے بعد رجوع کرو ۔ اور وہ عملی اقدام ہیں کہ ان میں تدر یجاً کم اور زیادہ کو اختیار کرنا چاہیے۔
سوال: کیا کبھی معروف (اچھی بات) مستحب ہوتا ہے؟
جواب: ہاں معروف کبھی مستحب ہو تاہے۔ واجب نہیں ۔ پس جب تم اس کا امر کرو گے تو تم ثواب کے مستحق ہوجاؤ گے ۔ اور اگر تم نے اس مستحب کا امر نہیں کیا تو عقاب اور عذاب کے مستحق نہیں ہو گے ۔ اور اس نیک کام کی رہنمائی کر نے والا اس کے فاعل کے مانندہے (یعنی جس نے کسی نیک کام کی رہنمائی کی گو یاوہ نیک کام انجام دینے والے کے مانند ہے)۔
سوال: آپ نے فرمایا کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر دونوں واجب ہیں ، اور آپ نے جو مثالیں بیان کی ان سے میں نے کچھ چیزوں کو جان لیا کہ جن کا حکم کرنا میرے اوپر واجب ہے یہ کچھ چیز یں ایسی ہیں کہ جن کی نہی کرنا میرے اوپر واجب ہے، اس کے علاوہ میں اس بات کو پسند کر تا ہوں کہ آپ چند ایسے امور میرے لئے بیان کیجئے کہ جن کی نہی کر نا میرے اوپر واجب ہو اور یہ ان امور کے علاوہ ہوں جن کوآپ نے موجو دہ اور گزشتہ بحثوں میں میرے لئے بیان کیا ہے؟
جواب: تمہارے لئے میں الگ الگ کچھ امور کو بیان کروں گا پہلے معروف کو اور پھر منکر امو ر کو بیان کروں گا لیکن اس سے پہلے میں تم سے ایک شرط کر تا ہوں۔
سوال: وہ کیا ہے؟
جواب: وہ یہ ہے کہ تم ان پر عمل کرو چاہے مستحب ہوں یا واجب ! اور تم ان امور کی طرف دعو ت دو ، اور ان کا حکم کرو اگر وہ معروف ہوں، اور اگر وہ منکر ہوں تو ان سے تم نہی کرو۔
سوال: میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں ؟
جواب: پہلے میں ان امور کو شروع کرتا ہوں کہ جو معروف ہیں اور ان کو الگ الگ صورت میں بیان کرتا ہوں ۔ کہہ کر مرے والد نے کبھی اپنے حا فظہ کی مدد سے اور کبھی ان چیزوں کے مصادر کو سامنے رکھ کر بیان کر نا شروع کیا ۔پس انھوں نے نیچے دیئے ہوئے معروف کو گنوانا شروع کیا۔
( ۱) ”التوکل علی الله
“ (اللہ پر بھروسہ رکھنا )
خدا وند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے :
”ومن یتوکل علی الله فهو حسبه “
جو اللہ پر توکل کرتا ہے پس وہ اس کے لئے کافی ہے۔
روایت کی گئی ہے کہ سائل نے امام علیہ السلام سے اس آیہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا ”کہ خدا پر توکل کے درجات ہیں ۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ اپنے تمام امور میں تم اللہ پر توکل رکھو، پس جو بھی تمہارے ساتھ وہ کرے تم اس سے راضی رہو ، تم جانتے ہو کہ خیرو فضل میں تم تمیز نہیں کر سکتے اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ حکم اسی کے لیے ہے ۔ پس اللہ پر توکل کرو اور اپنے امور کو اسی کے سپرد کرو اور تمام چیزوں کے بارے میں اس پر بھرو سہ رکھو۔
( ۲) ”الا عتصام بالله تعالی
“ (خدا کو اپنی پناہ بنانا)
خدا وندعالم قرآن میں ارشاد فر ماتا ہے:
ومن یعتصم با لله فقد هدیٰ الیٰ صراط مستقیم
اور جو شخص خدا کا سہارا لے گا یقینا اس کو صراط مستقیم کی ہدایت کی جائے گی اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: خدا وند عالم نے حضرت داؤد کی طرف وحی کی کہ میرے بندو ں میں جو میرا سہارا لے وہ میری مخلوق میں کسی کا بھی سہارا قبول نہیں کرے گا یہ بات مجھے اس کی نیّت سے معلوم ہو جائےگی تو پھر زمین و آسمان اور ان دونو ں کے درمیان جو چیزیں ہیں اگر وہ اس کو دھوکہ دیں تو میں ان چیزوں کے درمیان سے اس کے نکلنے کے لئے راستہ بنا دو ں گا اور اگر میرے بندوں میں سے کوئی بندہ میری مخلوق میں سے کسی کا سہارا لے گاتو اس کی نیت کو میں جان لو ں گا اور آسمان کے تمام اسباب اس کے لئے منقطع کردوں گا ۔ اور زمین کو اس کے لئے دشوار بنا دونگا مجھے کوئی پر واہ نہیں ہے کہ وہ کسی بھی وادی میں گر کر ہلاک ہوجائے؛
( ۳) ” اللہ کا اس کی مسلسل نعمت پر شکر کرنا“
خدا وندعالم اپنی کتاب قرآ ن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
” ومابکم من نعمه فمن الله ِ“
اور جو نعمت بھی ملی ہے وہ خدا کی طرف سے ہے۔
خدا وند عالم ارشاد فر ماتا ہے:
رب اوزعنی ان اشکر نعمتک التی انعمت علیّ و علیٰ والدی وان اعمل صالحا ترضاه“
پالنے والے مجھے توفیق عنایت فرما کہ میں تیری ان نعمتوں کا کہ جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر نازل کی ہیں شکر بجا لاؤں اور ایسا نیک عمل بجا لاؤں کہ جس کو توپسند فرمائے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے :
اللہ تعالی نے جو نعمتیں اپنے بندوں کو عنایت کی ہیں وہ نعمت بالغہ ہیں پس اللہ کی حمد تو ان پر کی جاتی ہے ورنہ اسکی حمد تو اس نعمت سے افضل اور عظیم و زیا دہ وزنی ہو تی ہیں ؛
( ۴) ” اللہ سے حسن ظن (اچھا گمان رکھنا ) “
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ۔
ہم نے حضرت علی علیہ السلام کی کتابوں میں پایا کہ رسول اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے اپنے منبر پر ارشادفرمایا :خدا نے دنیا و آخرت کا خیر کبھی کسی مومن کو عنایت نہیں فرماتامگر یہ کہ وہ مومن اللہ سے حسنِ ظن اور امید قائم رکھے اور اپنا اخلاق اچھا رکھے۔
( ۵) ” رزق و عمر و نفع و نقصان میں اللہ تعالیٰ پر یقین رکھنا“
حضرت علی علیہ االسلا م کا ارشاد ہے کہ :
”لا یجد عبدطعم الایمان حتی یعلم ان ما اصابه لم یکن لیخطئه و ان ما اخطا ه لم یکن لیصیبه و ان الضار و النافع هو الله عزو جل “
”کسی بندہ کو ایمان کا مزہ اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک وہ یہ جان لے کہ جو اچھائی اس کوحاصل ہوئی ہے تو کسی برائی کا اس تک پہنچنا ممکن نہیں ہے اور جو برائی اس تک پہنچی ہے کسی اچھائی کا اس تک پہنچنا ممکن نہیں اور یقینانفع اور نقصان کا دینے والا صرف اللہ تبارک و تعالی ہے۔
( ۶) ” خدا وند عالم سے خوف اور اس کے ساتھ اس سے امید بھی رکھنا “
خدا وند عالم نے قرآن کریم میں مومن کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ۔
”(
تتجافی جنو بهم عن المضاجع یدعون ربهم خوفا و طمعا و مما رزقنا هم ینفقون فلا تعلم نفس ما اخفی لهم من قرة اعین جزاء بما کا نو ا یعملون
)
۔“
” ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں وہ اپنے پروردگا ر سے امیدوبیم کی حالت میں دعا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے دیا ہے اسکا ایک حصہ وہ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں پس کوئی شخص اس بات کو نہیں جانتا کہ ان کی آ نکھوں کی ٹھندک کے لئے کیا کیا چھپا کر رکھا گیا ہے ۔
یہ ان کے اعما ل کا بدلا ہو گا جو وہ کیا کرتے ہیں ۔؛
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا جو کوئی تنہائی میں گناہ کرتا ہے ، اللہ تعالی وہاں بھی اس کو دیکھتا ہے اور جس نے شرم کی اور اس کو بجا نہ لایا تو خدا وند عالم اسکے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے چاہے اس کے گنا ہ دنیا و آخرت کے برابر ہی کیوں نہ ہوں ۔
آپ نے فرمایا: اللہ سے امیدرکھو اس طرح کہ وہ تم کو اس کی نا فر مانی پر جر ی نہ کردے اور اللہ کا خوف کرو اس طرح کہ وہ تم کو اس کی رحمت سے ما یوس نہ کردے۔
( ۷)” صبراور غصہ پینا “
خدا وند عالم نے قرآ ن مجید میں ارشاد فرمایا :
”(
انما یوفی الصابرون اجرهم بغیر حساب
)
“
سوائے اس کے کچھ نہیں کہ صبر کرنے والوں کو پورا پوراان کے اجر کا حساب دیا جائے گا۔
و الکاظمین الغیظ و العافین عن الناس والله یحب المحسنین
اور جو غصہ کے روکتے اور لوگوں کو معاف کرتے رہتے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتاہے؛
نبیصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے مروی ہے کہ آ پ نے فرمایا :
کسی بندے کا اپنے غصہ کو پینا اتنا بڑا اجر رکھتا ہے کہ ان سے زیادہ کسی چیز کا اجر نہیں ہے غصہ کا پینا خوشنودی خدا کا باعث ہے
آ نحضرت سے مروی ہے کہ:
”اللہ کی طرف جانے والے بہترین راستوں میں سے دو جرعہ ہیں ایک جرعہ غیظ ہے کہ جس کو حلم کے ذریعہ ختم کیا جاتا ہے اور ایک مصیبت ہے کہ جس کو صبر کے ذریعہ ختم کیا جاتا ہے ۔
حضرت محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے اپنے کسی فرزند سے فر مایا کہ
اے فرزند ! غصہ کو پینے سے زیادہ تمہارے باپ کی آ نکھ کی ٹھندک کوئی اور چیز نہیں ہے کہ جس کی عاقبت صبر ہے ۔
( ۸)” اللہ تعالی کی حرام کی ہوئی چیزوں پر صبر کرنا “
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ :
”الصبر صبران صبر عند المصیبة حسن جمیل واحسن من ذ لک الصبر عند ما حرم الله تعالی علیک
“
صبر کی دو قسمین ہیں :
” ایک مصیبت کے وقت کہ جو بہترین ہے اور اس سے زیادہ بہترین وہ ہے کہ جو چیزیں خدا وند عالم نے آپ پرحرام کی ہیں ان پر صبر کرو “
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ :
اتقوا معا صی الله فی الخلوات فان الشاهد هو الحاکم
خلوتوں میں اللہ کی نافر مانی نے سے بچو ،کیونکہ جو شاھد ہے وہی حاکم ہے ۔
( ۹) ” عدل “
خدا وند عالم نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:
”(
انّ الله یا مر بالعدل والاحسان وایتاء ذی القربیِِٰ
)
“
”بے شک خدا وند عالم عدل اور احسان کر نے کا حکم دیتا ہے اور رشتہ داروں کے حقوق اداکرنے کا حکم دیتا ہے“
امام جعفرصادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
قیامت کے روز تین لوگ حساب کے تمام ہونے تک اللہ سے زیادہ قریب ہوں گے ایک وہ شخص جو غصہ کے وقت اپنے ماتحتوں پر اپنی قدرت استعمال نہیں کرتا ۔
ایک وہ شخص کہ جو دو آد میوں کے درمیان چلتا ہے مگر یہ کہ وہ ایک جو کے برابر بھی کسی کی طرف نہیں جھکتا ، اور ایک وہ کہ اگر اس کے خلاف کاروائی کی جائے تو وہ حق بات ہی کہتا ہے ۔
( ۱۰) ” شہوت پر عقل کو غلبہ دینا “
خدا وند عالم اپنی کتاب میں فرماتا ہے:
زین للناس حب الشهوات من النساء والبنین والقناطیر المقنطرةمن الذهب والفضةولخیل المسومةوالانعام والحرث ذلک متاع الحیاة الدنیا والله عند ه حسن الماب قل او نبئکم بخیر من ذالکم للذ ین اتقو اعند ربهم جنات تجری من تحتها الانهار خالدین فیها و ازواج مطهرةورضوا ن من الله والله بصیر با لعباد
“
”لوگو ں کی نظروں میں خواہشات کی محبت زینت پا گئی ہے ، جو عورتیں اولاد اور سونے چاندی کے زیورات اور دغیلے گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی باڑی سے متعلق ہے ۔ دنیا وی زندگی کا متاع ہے ۔ اور حسن انجام خداہی کے ہاتھ میں ہے ۔ تم کہہ دو کیا میں تم کو ان سے اچھی چیزوں کی خبر دوں ، جو ان لو گوں کیلئے ہیں کہ جنہوں نے پر ہیز گاری اختیار کی، ان کے رب کے پا س ایسے باغات ہیں کہ جن کے نیچے ندیاں بہہ رہی ہیں ، جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور ان میں پاکیزہ بیویاں ہیں اور خدا کی خشنودی ہے اور خدا تمام بندوں کا نگران ہے۔“
رسو ل خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ:
جس نے بھی اپنی موجود ہ خواہشات کی محبت کو ترک کیا اس کو ایک ایسی جگہ کی خوشخبری دیدو کہ جس کو اس نے کبھی نہیں دیکھا،
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ: مختصرسی شہوت رانی طولانی دردورنج کوجنم دیتی ہے۔
( ۱۱) ” تواضع“
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ
” قیامت کے دن اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارے رہنے کی جگہ مجھ سے قریب ہو تو تمہارا اخلاق بہت اچھا اور تواضع بہت بہتر ہونا چاہیے ۔“
امام زین العا بدین علیہ السلام سے مروی ہے کہ :
آ پ نے اپنے پروردگار سے دعا کرتے ہوئے فرمایا ” پالنے والے محمد وآ ل محمد پر اپنی رحمت نازل فرما“ تو میرے درجہ کو لوگوں میں بلند نہ فرما “ مگر یہ میرے نفس میں اتنے ہی درجہ کو کم کر دے ۔ اور مجھے کوئی ظاہری عزت عنایت نہ فر ما مگر یہ کہ اتنی ہی مقدار میں میرے نفس میں ذلت باطنی عنایت فرما ۔
( ۱۲) ” کھانے پینے اور دوسری چیزوں میں اعتدال قائم رکھنا“
خدا وندہ عالم اپنی کتاب میں ارشاد فر ماتا ہے:
”(
وکلو اواشر بو اولاتسر فوا انه لا یحب المسر فین
)
“
کھا ؤ، پیو اور اسراف نہ کرو ، کیوںکہ اللہ اسراف کرنے والو کو دوست نہیں رکھتا “
امام جعفر صادق علیہ اسلام سے مروی ہے کہ:
رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے جمعرات کی شام کو مسجد قبا میں افطار کیا ۔ پس آپ نے فر مایا: کیا کسی کے پاس پینے والی کوئی چیز ہے ؟ تو اوس بن خولی انصاری نے شہد سے بھرا ہوا پیالہ پیش کیا۔
( ۱۳) ” لوگوں کہ ساتھ انصاف کرنا “
اگر چہ اپنے نفس سے ہی وہ انصاف کیوں نہ ہو۔
رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے مروی ہےکہ آپ نے فر مایا :
”من واسی الفقیر من ماله وانصف الناس من نفسه فذلک المو من حقا “
جو اپنے مال سے فقیر کی مدد کرے اور لوگوں کے ساتھ اپنے نفس سے انصاف کرے وہی برحق مومن ہے۔
اسی طرح حضرت علی علیہ ا لسلام سے مروی ہے کہ:
الاا نه من ینصف الناس من نفسه لم یزده الله الاعزا“
آ گاہ ہوجاؤ جو بھی اپنے نفس سے لوگوں کے ساتھ انصاف کرے گا تو خدا وند عالم اس کی عزت کو بڑھائےگا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم سے مروی ہےکہ:
” سید الا عمال انصاف الناس من نفسک ومو اساة الاخ فی الله تعالی وذکر الله علی کل حال“
” اعمال کا سردار لوگوں کے ساتھ اپنے نفس کے ذریعہ انصاف کر نا اور بھائی کے ساتھ اللہ کی راہ میں مواسات قائم کرنا اور ہر حال میں خدا کا ذکر کرناہے“
( ۱۴) ” عفت کو محفوظ رکھنا “
امام جعفر صادق علیہ اسلام سے مروی ہے کہ آپؑنے فرمایا:
” افضل العبادة عفة البطن والفرج“
” عبادت میں سب سے افضل پیٹ اور شرم گاہ کی عفت کو محفوظ رکھناہے “
( ۱۵) ” لوگوں کے عیوب کو دیکھ کر انسان کا اپنے عیب کی طرف متو جہ ہونا،
نبی اکرم صلی علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
”طوبی لمن شغله خوف الله عزو جل عن خوف الناس ، طوبی لمن شغله عیبه عن عیوب المو منین
“
” خوشی ہے اس شخص کے لئےجو لوگوں کے خوف کو دیکھ کر اللہ سے خوف کرتا ہے ۔ خوشی ہے اس کے لئےکہ جو مومن کےعیوب کو دیکھ کر اپنے عیب کی طرف متوجہ ہوتاہے ۔
( ۱۶) ” مکارم الاخلاق سے اپنے کوآراستہ کرنا “
خدا وندہ عا لم نے اپنے نبی کریم کی اسطرح تو صیف کی ہے۔
”(
انک لعلی خلق عظیم
)
“
ہم نے تم کو بلند اخلاق پر فائز کیا ہے۔
آ نحضرت مروی ہے کہ آپ نے فر مایا:
”الا اخبرکم باشبهکم لی؟ قالوا: بلی یارسول الله قال:احسنکم خلقاوالینکم کنفاالخ
“
”کیا میں تم کو خبر دوں کہ تم میں کون مجھ سے مشا بہ ہے؟
لوگوں نے کہا ہاں فرمائیے یا رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
۔
تو آپنے فر مایا :
تم میں سے جس کا اخلاق بہترین ، متواضع اور صلہ رحمی پر مبنی ہو، اور وہ اپنے دینی بھائیوں سے بہت زیادہ محبت کر تا ہو ، حق پر اسکا صبر زیادہ ہو، غصہ کو پینے والا ہو، خطاؤ ں سے در گذر کرنے والا ہو، غم اور خوشی میں وہ اپنے نفس کے ساتھ انصاف کر نے میں زیادہ سخت ہو۔ اور آپ ہی سے سوال کیا گیا کہ ایمان کے عتبار سے کو ن سے مومنین افضل ہیں ؟
تو آپنے ارشاد فرمایا :
جس کا اخلاق سب سے بہتر ہو۔
اور آپ ہی سے مروی ہے کہ آپنے فر ما یا:
اکثر وہ لوگ جنت میں داخل ہونگے جو اللہ سے ڈریں گے اور جن کا اخلاق اچھا ہو گا۔
( ۱۷) ” حلم“
رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے مروی ہے کہ آپ نے فر مایا:
خدا کبھی جہالت کو عزت نہیں دیگا ۔ اور کبھی حلم کو ذلیل ورسوانہ کریگا۔
ا مام رضا علیہ السلام سے مروی ہے کہ:
کوئی مرد عابد نہیں ہو تا جب تک کہ وہ حلیم نہ بن جائے۔
( ۱۸)” قرآن کا حفظ کرنا ، اس پر عمل کرنا ،اور اس کا پڑھنا“
خدا وندعالم اپنی کتاب میں ارشاد فر ماتا ہے :
”(
ان الذین یتلون کتا ب الله واقامو ا الصلوة وانفقو امما رز قنا هم سراوعلانیة یرجون تجارة لن تبور
)
“
”یقینا وہ لوگ جو کتاب خدا کی تلاوت کر تے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے وہ ظاہر اور پوشیدہ خرچ کیا کرتے ہیں وہ لوگ ایسی تجارت کی امید لگا ئے ہیں کہ جس میں کوئی گھاٹا نہیں “
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ آ پ نے فر مایا:
اہل قرآن آدمیوں کے سب سے اونچے در جہ میں ہیں ، سوائے انبیاء و مرسلین کے۔
امام جعفر صادق علیہ ا لسلام سے مروی ہے کہ آپ نے فر مایا:
حافظ قرآن اور اس پر عمل کرنے والا ( قیامت میں) خدا کے انبیا ء کے ساتھ ہوگا۔
اور آپ ہی سے مروی ہے کہ:
جو قرآن پڑھے اور وہ جو ان کو محفوظ کر لیا ہو تو خدا وندہ عالم انبیا ءکے ساتھ اس کو قرار دے گا ۔ اور قیامت روز اس کی طرف سے قرآن گواہی دےگا ۔ اور قرآن کے سو روں کے پڑھ نے کے بارے میں خاص طور پر فضیلت وارد ہوئی ہے جو کتب احادیث میں مذ کور ہیں اگر تم چاہو تو ان کی طرف رجو ع کر سکتے ہو۔
( ۱۹) ” زیارت کرنا،
حضرت امام باقر علیہ ا لسلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایاکہ:
امام حسین علیہ السلام نے رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے پوچھا ، اے نانا جان ! جس نے آپ کی زیارت کی اس کے لئے کیا اجر ہوگا ؟
آنحضرت نے ارشاد فر مایا :
”من زار نی او زار اباک او زارک او زار اخاک کان حقا علی ان ازوره یوم القیامة حتی اخلصه من ذنوبه
“
”جس نے میری زیارت کی یا تمہارے والد یا تمہارے بھا ئی کی زیارت کی تو قیامت کے دن مجھ پر حق ہے کہ میں اس کی زیارت کروں اور اس کے گناہوں سے اس کو خلاصی دلاؤں
حضرت امام جعفر صا دق علیہ السلام سے مروی ہے:
”من زار قبر الحسین بن علی عار فا بحقه کتب فی علیین
“
”جس نے قبر حسین بن علی کی زیارت کی انکے حق کو جانتے ہوئے تو اس کانام علیین میں لکھا جائے گا“
اور انھیں حضرتؑ سے مروی ہے کہ:
جس نے بھی ہم میں سے کسی کی زیارت کی تو گویا اس نے حسین کی زیارت کی
( ۲۰) ” دنیا سے کنا رہ اختیار کرنا “
رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے مروی ہے کہ آپ نے فر ما یا:
”از هد فی الدنیا یحبک الله
“
”دنیا سے زیادہ دور ہو،تا کہ اللہ تم سے محبت کر ے۔“ اور آپؐ نے فر ما یا !اللہ سے حیاکر نا “ حیاء کا حق ادا کرنا ہے تو لو گوں نے کہا ! ہم اللہ سے حیا کریں تو آپؐ نے فر ما یا : ایسا نہیں ہے۔ کہ تم گھر بناؤ اور اس میں نہ رہو اور مال کو جمع کرو اور اس کو نہ کھا ؤ ۔
آپ ہی سے مرو ی ہے کہ :
جب اللہ کسی بندہ سے اچھائی چاہتا ہے تو اس کو دنیا میں زاہد بنا دیتا ہے اور اس کی رغبت آخرت کی طرف بڑھا دیتا ہے اور اس کے نفس کے عیوب دکھا تا ہے
اور حضرت علی علیہ السلام سے مر وی ہے کہ آپ نے فرما یا :
دنیا میں زھد اختیار کر نا، دین کی اخلاقی مدد ہے۔
آپ ہی سے مروی ہے کہ :
دنیا کے حسن و جمال ظا ہری سے بچنا آ خرت کے ثواب کی طرف رغبت کر نے کی علا مت ہے :
امام زین العابد ین علیہ السلام سے مروی ہے کہ:
معر فت خدا اور معر فت رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے بعد کوئی عمل بغض دنیا سے زیادہ افضل نہیں ہے۔
روایت کی گئی ہے کہ:
ا یک شخص نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ میری صرف آپ سے چند سال ملا قات ہوئی ہے لہذ ا آپ مجھے کسی چیز کی نصیحت کریں تا کہ میں اس پر عمل کروں ۔
تو آپ نے فر ما یا :
میں تجھے نصیحت کر تا ہوں کہ تم اللہ سے ڈرو اور زھد وا حکام دین پر عمل کر نے کی کوشش کرو اور اپنی حیثیت سے زیا دہ اونچی چیز کا طمع مت کرو اور جو خدا وند عالم نے اپنے رسول سے فر ما یا وہ کا فی ہے۔
”(
ولا تمدن عینیک الی ما متعنا به ازوا جا منهم زهرة الحیاة الد نیا
)
“
”اور کفار کے مختلف گرو ہ کہ جنہیں ہم نے زندگا نی دنیا کی مختلف چیزوں سے نفع پہنچا یا ہے تا کہ ہم ان کی آ ز مائش کریں تو تم ان کی طرف آ نکھ اٹھا کر نہ دیکھنا “
”فلا تعجبک اموا لهم واو لاد هم
“
”پس تم کو ان کے اموال اور اولاد تعجب میں نہ ڈا لیں “
اگر تم پر ان کی ہیبت طاری ہو تو رسول خدا کی زندگی کو یاد کرو کہ ان کی غذا جو تھی اور ان کی شیرنیی کجھور تھی اور ان کا بستر کھجور کی چھال تھا اور جب کبھی تمہارے مال ، جان اور اولاد یا مصیبت نازل ہو تو تم رسول اللہ کی مصیبت یاد کرو ۔
اور روایت بیان کی جاتی ہے کہ:
ایک قبر پر کھڑے ہو کر آپؐ نے فر مایا: بیشک کسی شئے کے سر انجام کے لئے اس کا شروع میں زھداختیار کیا جا ئے اور اسی چیز کے آغاز میں اس کے سرا نجام سے ڈرا جائے ۔
( ۲۱) مومن کی مدد کر نا اور اس کے غم میں شریک ہو نا اور اس کو خوش کر نا اور اس کو کھا نا کھلا نا اور اس کی حاجت روائی کر نا۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلا م سے مروی ہے کہ :
کوئی ا یسا مومن نہیں ہے کہ جو اپنے آپ کسی مظلوم مو من کی مدد کرے ، مگریہ کہ اس کی یہ مدد ماہ رمضان کے روزوں اور مسجدا حرام میں اعتکاف سے افضل ہے، کوئی ایسا مومن نہیں کہ جو قدرت رکھتے ہوئے اپنے کسی بھائی کی مدد کرے مگر یہ کہ خدا وندعالم اس کی دنیا وآخرت میں مدد کرے، اور کوئی مومن ایسا نہیں کہ جو اپنے برادر مومن کی آبرو ریزی کرے حالانکہ وہ اس کی مدد پر قدرت رکھتا ہو مگر یہ کہ خدا اس کو دنیاوآخرت میں رسوا کرے گا۔
انہیں حضرت سے مروی ہے کہ آپ نے فر مایا:
جو مومن اپنے کسی مومن کے غم میں شریک ہو کر اس کے رنج وغم کو دور کرے تو خدا اس کے دنیا وآخرت کے ستر غموں اور اس کی پریشانیوں کو دور کرے گا۔
اور آپ ہی سے مروی ہے کہ :
جو کوئی کسی مومن کی تنگ دستی میں اس کی مدد کرے اور اس کی سختی کو دور کرے تو خدا وند عالم دنیا اور آخرت میں اس کی تمام حاجتوں کو آسان کردےگا ۔
اور آپ ہی سے مروی ہے۔
جو شخص ا پنے برا در مومن کی مدد کر تا ہے تو خدا اس کی مدد کر تا ہے۔
اور آپ ہی سے مروی ہے کہ:
جس نے مو من کو خوش کیا قیا مت کے دن خدا اس کو خوش کرے گا اور آپ ہی سے نقل کیا گیا ہے کہ جس نے اولیا ء خدا کو اس دنیا میں خوش کیا اس نے اللہ پر احسان کیا ۔
اور آپ ہی سے مروی ہے کہ:
جو کسی مومن کو خوش کرے تو گو یا اس نے رسول خدا کو خوش کیا ۔ پس گویا یہ سلسلہ اللہ تک پہنچے گا اور اسی طرح جس نے کسی مومن کو رنجیدہ و غمگین کیا تو اس نے رسول خدا کو رنجیدہ کیا اور آپ سے مروی ہے کہ جو شخص کسی بھو کے مومن کو سیر کرے خدا اس کو جنت کے پھلوں سے سیر کرے گا اور جو کسی پیا سے مومن کو پانی پلائے گا خدا اس کو ” رحیق مختوم “ سے سیراب کرے گا ۔ اور جو کسی مومن کوکپڑا پہنا ئے گاتو خدا اس کو جنت کے سبز کپڑے پہنائے گا۔
اور آپ ہی سے مروی ہے کہ:
اگر کوئی مسلم کسی مسلم کی حاجت روائی کرے گا تو اللہ اس کو آواز دے گا مجھ پر تیرا ثواب ہے اور میں تیرے لئے جنت کے بغیر راضی نہیں ہوں گا۔
( ۲۲) ” ہر روز اپنے نفس کا محا سبہ کر نا “
روایت بیان کی گئی ہے کہ:
نبی کریمصلىاللهعليهوآلهوسلم
نے حضرت ابو ذرؓ سے فر مایا :
اپنے نفس کا حساب کر لو اس سے پہلے کہ تمہارا حساب کیا جائے ۔ اس لئے کہ تمہا را حساب کرنا کل کے حساب سے زیادہ آسان ہے۔ اور اپنے نفس کو جانچ اور پرکھ لو اس سے پہلے کہ وہ جانچا اور پر کھا جائے اور قیامت کبریٰ کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کر لو خدا پر کوئی پوشیدہ سے پوشیدہ چیز بھی مخفی نہیں ہے۔
آپؐ ہی سے مروی ہے کہ آپ نے فر مایا:
اے ابوذر! کسی مرد کو یقین حاصل نہیں ہو تا جب تک کہ وہ خود اپنے نفس کاحساب نہ کرلے کیو نکہ نفس کا حساب کر نا اپنے کسی شریک کے حساب سے زیادہ سخت ہے ، پس اس چیز کو جان لینا چا ہیے ، کہ اس کو کہاں سے کھا نے پینے کی چیزیں ملتی ہیں اور کہاں سے پہننے کے کپڑے ملتے ہیں ، حلال ہے یا حرام ۔
اے ابوذر ! جو شخص یہ پرواہ نہیں کرتا کہ یہ مال کہاں سے آیا تو اللہ بھی اس پر توجہ نہیں دے گا کہ جہنم میں اس کو کس جگہ سے داخل کرے ۔
حضرت امام زین العا بد ین علیہ السلا م سے مروی ہے کہ آپ نے فر مایا:
اے فرزند آدم ! خیر تجھ سے اس وقت تک جدا نہیں ہو گا جب تک کہ تیرے نفس کا کوئی واعظ ہو اور جب تک تیرا محا سبہ نفس ہو تا رہے ۔اےفرزند آدم ! تومیت ہے تو اٹھا یا جائے گا اور اللہ کے سامنے کھڑا کیا جائے گالہٰذا آج سے جو اب دہی کے لئے آمادہ ہو جا۔
( ۲۳) ” امور مسلمین کو اہمیت دینا“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ:
” من اصبح ولا یهتم با مور المسلمین فلیس بمسلم “
”جس نے ایسے حال میں صبح کی کہ امور مسلمین (مسلما نو کے حالات ) کے سلسلہ میں کوئی اہتمام نہ کیا تو وہ مسلمان نہیں ہے۔
آپ ہی سے مروی ہے :
”من اصبح لا یهتم با مور المسلمین فلیس منهم ومن سمع رجلا ینا دی یا للمسلمین فلم یجبه فلیس بمسلم“
” جس نے ایسے حال میں صبح کی کہ مسلما نو کے حالات کے با رے میں کوئی اہتمام نہیں کیا تو ان میں سے نہیں ہے اور اگر کسی مرد کو ندا دیتے ہوئے سنے یاللمسلمین“ (اے مسلما نو! مدد کرو) اور اس کی ندا پر جو جواب نہ دے تو وہ مسلمان نہیں ہے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے:
” ان المومن لترد علیه الحاجة لا خیه، فلا تکو ن عنده یهتم بها قلبه فید خله الله تبارک وتعالی بهمه الجنة“
( ۲۴) ” سخا وت وکرم اور ایثار“
خدا وند عالم اپنی کتاب قرآن کریم میں ارشاد فر ما تا ہے:
”ویو ثرون علی انفسهم ولو کان بهم خصا صه“
” اور اگر چہ ان کو اس چیز کی ضرورت ہو تی ہے مگر وہ اپنے نفسوں پر دو سروں کو تر جیح دیتے ہیں۔ اور رسول اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے مروی ہے کہ آپ نے فر ما یا:
خدا وند عالم نے اپنے او لیا ء کو سختی اور اخلاق میں قرار دیاہے ۔
آ نحضرت سے یہ بھی مروی ہے کہ:
مغفرت کے اسباب میں سے کھانا کھلا نا اور سلام کرنا اور اچھا کلام کر نا ہے آپ سے مروی ہے کہ آپ نے فرما یا : ”سخی کے گناہ سے چشم پوشی کرو کیو نکہ جب بھی اس سے لغزش ہو تی ہے تو خدا اس کا ہاتھ پکڑ تا ہے۔
اور آپ ہی سے مروی ہے کہ:
” الجنة دار الا سخیاء“
” جنت سخیوں کا گھر ہے“
اور آپ ہی سے مروی ہے کہ :
لوگوں میں ایمان کے لحاظ سے وہ لوگ افضل ہیں کہ جن کا ہاتھ زیادہ سخی والا ہو۔
( ۲۵) ” اپنے اہل وعیال پر خرچ کر نا“
رسول خدا سے مروی ہے کہ آپ نے فر مایا:
” الکاد علی عیا له کا لمجا هد فی سبیل الله “
” اپنے اہل وعیال کے لئے (رزق) تلاش کرنے والا خدا کی راہ میں جہاد کر نے والے کی مانند ہے۔
آپ ہی سے مروی ہے کہ:
جو اپنے اہل وعیال پر خرچ کر تا ہے تو وہ صدقہ ہے۔
آپ ہی سے مروی ہے کہ آپ نے فر مایا:
تم نے اپنے بچوں پر ایک دینار خرچ کیا اور خدا کی راہ میں ایک دینار خرچ کیا یا کسی غلام کی آزادی میں ایک دینار خرچ کیا یا کسی مسکین کو ایک دینار صد قہ دیا ان دیناروں میں سب سے زیادہ ثواب اس دینار کا ہے جو اپنے بچوں پر خرچ کیا ہے۔
( ۲۶) ” گناہوں سے تو بہ کر نا چاہیے“
چھو ٹے ہوں یا بڑے (گناہ صغیرہ یا کبیرہ) اور ان پر نادم ہونا“
خدا وندہ عالم اپنی کتاب قرآن کریم میں ارشاد فر ماتا ہے:
”(
یا ایها الذین آمنو اتو بوا الی الله تو بةً نصوحاً عسی ربکم ان یکفرعنکم سیئا تکم وید خلکم جنات تجری من تحتها الا نهار
)
“
اے ایمان لانے والو! خدا سے پر خلوص توبہ کرو ، عنقریب تمہارا پر ور دگار تمہاری برائیوں کا کفارہ قرار دےگا اور تم کو ایسی جنت میں داخل کرے گا کہ جس کے نیچے نہر یں بہتی ہونگی۔
اور خدا وندعالم فر ماتا ہے کہ:
”(
وتو بو الی الله جمیعا ایها المو منون لعلکم تفلحون
)
“
اے مومنین تم سب اللہ سے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ
خدا وند عالم نے فرمایا :
ان الله یحب التوابین ویحب المتطهرین
” اللہ تو بہ کر نے والوں اور طہارت کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے
اور فر ما تاہےکہ :
”(
وهو الذی یقبل التو بة عن عباده ویعفوعن السیئا ت ویعلم ما تفعلون
)
“
اور وہ خدا ہے جو اپنے بندوں کی تو بہ قبول کرتا ہے اور ان کی برا ئیاں کو معاف کرتا ہے اور جو کچھ تم کر تے ہووہ جانتا ہے۔
خدا وند عالم قرآن مجید میں فرما تا ہے کہ:
”(
قل یا عبادی الذی اسرفواعلی انفسهم لاتقنطوامن رحمةالله ان الله یغفرالذ نوب جمیعاً انه هوالغفورالرحیم
)
“
” تم کہہ دو اے میرے بندو ! کہ جنھوں نے اپنی ذات پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ما یوس نہ ہونا یقینا اللہ تمہارے سب گناہ معاف کردے گا وہ بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے“
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے محمد بن مسلم سے فرمایا:
جب مومن گناہوں سے تو بہ کر تا ہے تو اس کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں پس مومن کو چاہیے کہ اپنی توبہ اور مغفرت کے بعد عمل صالح بجا لائے پس تو بہ کا در وازہ مومن کیلئے کھلا ہے۔
میں نے آپ سے عرض کیا :
اگر اس نے دوبارہ گناہ کیا پھر توبہ اور اللہ سے استغفار کی؟
تو آپ نے فرمایا ! جب بھی مومن تو بہ اور استغفار کا اعادہ کرے گا تو اللہ بھی اس کی مغفرت کا اعادہ کریگا۔
آپ ہی سے مروی ہے کہ آپ نے فر مایا:
گناہ سے توبہ کر نے والا ایسا ہے کے جیسے اس نے گناہ ہی نہ کیا ہو اور توبہ کے بعد پھر گناہ کرنا توبہ واستغفار کا مزاق اڑانے کے مانند ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ :
کوئی بندہ ایسا نہیں کہ جو گناہ کرے اور پھر اس پر نادم ہو مگر یہ کہ خدا اس کے استغفار کرنے سے پہلے بخش دیتا ہے۔
انھیں حضرت سے مروی ہے کہ:
جب کوئی اللہ کا مومن بندہ تو بہ کر تا ہے تو اللہ اس کی تو بہ سے ایسا ہی خوش ہوتا ہے کہ جیسے تم اپنی کسی کھوئی ہوئی چیز کو پا کر خوش ہو جا تے ہو ۔
اور اس کے علاوہ اور بھی معروف ( اچھا ئیاں) کہ جو کتب فقہ اور حدیث میں درج ہیں اگر تم مزید چا ہوتو ان کی طرف راجوع کر سکتے ہو۔
میں نے اپنے والد سے عرض کیا :یہ تعداد جن کی طرف آپنے اشارہ کیا معروف تھے لیکن منکرات کے بارے میں بتایئے کہ وہ کیا ہیں؟
تو انہو ں نے کہا: جو منکر شمار کئے جاتے ہیں وہ بہت ہیں ان میں سے بعض میں تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں لیکن اسی پہلی شرط کے ساتھ ۔
میں نے کہا: آپ کا مقصد وہی ہے جو میں نے آپ سے وعدہ کیا ہے کہ منکرات سے بچنا اور دوسروں کو آ گاہ کرنا؟
تو انھوں نے کہا : ہاں۔
میں نے کہا میں اس کا وعدہ کرتا ہوں۔
انھوں نے فرمایاکہ: منکرات میں سے بعض کو میں تم سے بیان کر تا ہوں اور میرے والد نے پہلے کی طرح ان کو بھی اپنے حافظہ کی مدد سے گنوانا شروع کیا۔
( ۱) ” ظلم کر نا“
خدا وندعالم اپنی کتاب قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
”(
وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون
)
“
اور عنقریب جن لوگوں نے ظلم کیا تھا جان لیں گے کہ وہ کس کروٹ بدلتے ہیں:
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ:
”اعظم الخطایا اقطاع مال امرء مسلم بغیر حق
“
کسی مسلمان کے مال کو ناحق چھین لینا سب سے بڑی خطا ہے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فر مایا:
جب امام زین العابدین علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آ یا تو مجھے اپنے سینہ سے لگایا اور پھر فرما یا: اے فر زند ! میں تم کو وہی وصیت کرتا ہوں جو میرے والد نے وفات کے وقت مجھ سے وصیت کی تھی اور وہ وہی وصیت تھی جو ان کے بزرگوں نے ان سے کی تھی ، فرمایا:
”یابنی ایاک وظلم من لا یجد علیک ناصر اًالّاالله
“
اے فرزند! تم ایسے شخص پر ظلم کرنے سے بچو کہ جو تم سے بچاؤ کے لئے اللہ کے علاوہ کسی کو مدد گار نہیں رکھتا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا:
” من ظلم مظلمة اخذ بھا فی نفسہ اوفی مالہ اوفی ولد ہ“
جو کوئی بے جا ظلم کرے تو اس کا بدلہ اس کی جان یا مال یااولاد سے لیا جائے گا۔
( ۲) ” ظالم کی مدد کرنا اور اس پر راضی رہنا“
نبی کریم سے مروی ہے کہ:
”من مشی الی ظالم لیعینه وهو یعلم انه ظالم فقد خرج من الا سلام
“
جو ظا لم کی مدد کے لئے نکلا وہ جان لے کہ وہ خود ظا لم ہے پس وہ اسلام سے خارج ہوگیا،
اور آنحضرت سے مروی ہے کہ:
”شر الناس من باع آخر ته بد نیاه وشر منه من باع آخر ته بدنیا غیره
“
لوگوں میں سب سے زیادہ برا و ہ ہے جو اپنی آخرت کو اپنی دنیا کے بدلے بیچ دے اور اس سے زیادہ برا وہ شخص ہے جو دوسروں کی دنیا کے بدلے اپنی آخرت بیچ دے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فر مایا:
ظلم کرنے والا ، اس کی مدد کرنے والا ،اور اس کے فعل پر راضی رہنے والا تینوں ظلم میں شریک ہیں۔
اور آپ ہی سے مروی ہے :
جو کسی ظالم کے ظلم کے عذر کو بیان کرے تو خدا وندعالم اس پر ایسے شخص کو مسلط کردے ، جو اس پر ظلم کرے پس وہ اگر دعا کرے گا تو اس کی دعا مستجاب نہ ہو گی ۔ آپ نے اصحاب کو نصیحت کر تے ہوئے فرمایا کسی مظلوم مسلمان کے خلاف مدد کرنے سے بچو، کیونکہ وہ تمہارے خلاف دعا کرے گا تو تمہارے بارے میں اس کی دعا مستجاب ہوگی ۔ کیو نکہ ہمارے جد رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
فرماتے تھے یقینا مظلوم مسلمان کی دعا مستجاب ہوتی ہے۔
انھیں حضرت سے مروی ہے :
جس نے بھی کسی مومن کے قتل پر آدھے کلمے سے مدد کی تو قیامت کے روز اس کی آ نکھوں کے سامنے ایک تحریر آئے گی ” آیس من رحمتہ اللہ“ اللہ کی رحمت سے مایوس ہوجا ۔ آپ ہی سے مروی ہے کہ:
قیامت کے دن ایک شخص دوسرے شخص کے پاس آئے گا جو اپنے خون میں لت پت ہوگا اور کہے گا۔اے اللہ !کے بندے تیرا مجھ سے کیا واسطہ ہے؟ تو وہ کہے گا فلا ں روز تونے میری (ایسی ،ایسی) ایک کلمہ سے مدد کی تھی پس تجھے قتل کر دیا جائے گا۔
( ۳) ” انسان کا اتنا شریر ہونا کہ جس کے شر سے لوگ بچتے ہوں“
رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے مروی ہے کہ آپنے فرمایا:
”شر الناس عندالله یوم القیامته الذین یکر مون اتقاء شر هم“
روز قیامت اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ شریر وہ لوگ ہونگے کہ جن کے شر سے بچنے کی بنا پر لوگ ان کا اکرام کرتے تھے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ :
” من ابغض خلق الله عبدا اتقی الناس لسانه“
اللہ کی مخلوق میں سب سے زیادہ مبغوض وہ شخص ہے کہ جسکی زبان سے لوگ ڈرتے ہوں۔
( ۴) ” قطع رحم کرنا“
خدا وند عالم کتاب قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
”(
فهل عسیتم ان تو لیتم ان تفسدوا فی الارض وتقطعوا ارحامکم
)
“
پھرکیا یہ قریب ہے کہ اگر تم حاکم ہوجاؤ تو تم زمین پر فساد کرو اور قطع رحمی کرو۔
امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
”فی کتاب علی علیه السلام ثلاث خصال لا یموت صاحبهن ابدا حتی یری وبالهن البغی و قطیعة الرحم والیمین الکاذ به یبارزالله بها
“
حضرت امام علی علیہ السلام کی کتاب میں تحریر ہے کہ:
تین خصلت والے انسان کبھی نہیں مریں گے ، جب تک کہ وہ اپنے سخت عذاب کو دیکھ نہ لیں۔ زانی، قطع رحم اور جھوٹی قسمیں کھانے وا لا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے ارشاد فر مایاکہ:
خشعم (ایک قبیلہ کا نام ) کا ایک شخص رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ ! مجھے بتائیے کہ اسلام میں سب سے افضل چیز کیا ہے؟
تو آپؐ نے فر مایا:
اللہ پر ایمان رکھنا ،
پھر اس نے کہا :
پھر کیا افضل ہے ؟
تو آپؐ نے فرمایا:
صلہ رحم،
پھر اس نے کہا پھر کیا افضل ہے؟
آپ نے فرمایا:
امر با لمعروف ونہی عن المنکر۔
تو امام علیہ لسلام نے فرمایا:
پس اس مرد نے رسول سے عرض کیا مجھے بتایئے وہ کون سے اعمال ہیں کہ جن سے اللہ بہت زیادہ بغض رکھتا ہے آپ نے فر مایا:اللہ کے ساتھ کسی کو شریک قرار دینا پھر اس نے کہا اس کے بعد کیا ہے؟ آپنے فر مایا قطعہ رحم کرنا۔ اس نے عرض کیا پھر کیا ہے تو آپنے فرمایا: برائی کا حکم کرنا اور نیکی سے روکنا۔
( ۵) ” غصہ کرنا“
امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
مرد جب غصہ میں ہوتا ہے تو وہ کبھی راضی نہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ جہنم مین داخل ہوجائے پس جب وہ کسی قوم پر غصے ہوتو وہ فورا بیٹھ جائے اس لئے کہ اس طرح رجس شیطان دور ہوتا ہے اور جب وہ کسی رشتہ دار، عزیزپر غصہ ہوتو فوراً اس کے نزدیک جائے اور اسکو مس کرے ، کیونکہ اپنے کسی عزیز کو مس کرنا سکون بخش ہوتا ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ :
”الغضب مفتاح کل شر“
غصہ ہر شر کی کنجی ہے۔
( ۶) ” غرور اور تکبر کرنا“
خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے کہ:
”(
ادخلو ! ابواب جهنم خالدین فیها فبئس مثوی المتکبر ین
)
“
تم ہمیشہ رہنے کے لئے جہنم کے دروازوں میں داخل ہوجاؤ پس تکبر کرنے والوں کا کیا برا ٹھکانہ ہے۔
خداوندعالم فرماتا ہے:
”(
ولا تصعر خدک للناس ولاتمشی فی الا رض مرحاان الله لایحب کل مختال فخور
)
“
اور لوگوں کے د کھا نے کے لئے گال منھ نہ پھلاؤ اور زمین پر اکڑکر نہ چلو بیشک خدا کسی گھمنڈ کرنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔
رسول خدا سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
”اکثر اهل جهنم المتکبرون
“
اہل جہنم زیادہ تر متکبر ہیں۔
آپ سے مروی ہے کہ:
”من مشی علی الارض اختیا لالعنته الارض ومن تحتها ومن فوقها
“
جوکوئی زمین پر اکڑکر چلتا ہے ، زمین اس پر لعنت کرتی ہے اپنے نیچے اور اوپر سے اور آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ:
”من تعظم فی نفسه اختال فی مشیته لقی الله وهو علیه غضبان
“
جو اپنے نفس کا احترام کرائے اور چلنے میں اکڑائے ، خدا اس سے بہت غضب کی حالت میں ملاقات کرے گا۔
اور امام محمد باقر علیہ السلام وامام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایاکہ :
جس میں ذرہ برابر تکبر پایا جائے وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔
اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
”الجبارو ن ا بعد الناس من الله یوم القیامته
“
جبرو تکبر کرنے والے انسان قیامت کے دن رحمت سے بہت دور ہونگے ۔
( ۷ ) ” ناحق یتیم کا مال کھانا “
خداوند عالم اپنی کتاب میں ارشاد فرماتا ہے :
”(
ان الذین یاکلو ن اموال الیتامی ظلماً انما یا کلون فی بطونهم ناراًوسیصلون سعیرًا
)
“
بیشک جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں سوائے اس کے کچھ نہیں کہ وہ اپنے پیٹوں میں انگارے بھرتے ہیں اور وہ عنقریب دہکتی ہوئی آ گ میں ڈالے جائیں گے۔
( ۸)” جھوٹی قسمیں کھانا“
امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہےکہ آپ نے حضرت علی علیہ السلام کی کتاب سے روایت بیان کی ہے:
”ان الیمین الکاذبة وقطیعه الرحم تذران الدیار بلا قع من اهلها
“
اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ:
”من حلف علی یمین وهو یعلم انه کاذب فقد بارذ الله عزوجل
“
جس نے بھی قسم کھائی اور وہ جانتا ہو کہ یہ قسم جھوٹی ہے پس وہ یقینا اللہ عزوجل سے جنگ کرنے والاہے۔
( ۹) ” جھوٹی گوا ہی دینا “
خدا وند عالم اپنی کتاب کریم میں متقین کی صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فر ماتا ہے :
”(
والذین لا یشهدون الزور و اذا مرو ا باللغو مرو اکراما
)
“
اور جولوگ خدا کے خاص بندے ہیں جب ان کا گزر بیہودہ چیز کی طرف سے ہوتا ہے تو وہ بزر گانہ انداز سے گزر جاتے ہیں۔
نبی اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے مروی ہے کہ:
”مامن رجل شهد شهادة زور علی مال رجل لیقطعه الا کتب الله عزو جل له مکانا ضنکا الی النار
“
جو شخص دوسرے کے مال پر جھوٹی گواہی دے تاکہ وہ اس سے لے لیا جائے تو خدا وند عالم اس کو جہنم میں ایک تنگ مکان میں ڈال دے گا۔
( ۱۰) ” مکر اور دھوکا بازی“
کتاب قرآن کریم میں خدا وند عالم فرماتا ہے:
”(
سیصیب الذین اجر مو اصغار عندالله وعذاب شدید بما کانوا یمکرون
)
“
عنقریب جو لوگ گناہ کیا کرتے ہیں ان کو خدا کی طرف سے ذلت پہنچے گی اور مکر کرنے کی بنا پر ان کو سخت عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔
رسول خدا سے مروی ہے کہ:
”لیس منا من ما کرمسلما
“
"جو کسی مسلمان کے ساتھ مکر کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے"
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ:
”لولا ان المکر و الخد یعته فی النار لکنت امکر العرب
“
اگر مکار اور دھوکہ باز جہنمی نہ ہوتے تو عربوں میں، میں سب سے زیادہ مکار ہوتا۔
( ۱۱) ” مومن کو حقیر اور فقیر کو گرا ہوا سمجھنا “
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ:
”لا تحقروامو منا فقیرافان من حقر مو منا و استخف به حقره الله تعالی ولم یزل ماقتاله حتی یرجع عن تحقیره اویتوب
“
کسی مومن فقیر کو حقیر نہ سمجھو۔ پس جس نے کسی مومن کو حقیر اور گرا ہوا سمجھا تو خدا وند عالم بھی اس کو حقیر سمجھے گا اور اللہ کی دشمنی اس وقت ختم ہو گی جب وہ اس مومن کو حقیر سمجھنا چھوڑ دے یا توبہ کرلے۔
( ۲۱) ” حسد کرنا“
خدا وندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
”(
ومن شر حاسداذاحسد
)
“
اور حسد کرنے والے کے شرسے جب وہ حسد کرے۔
امام صادق علیہ السلام سے مروی ہےکہ:
حسد ایمان کو اس طرح کھا جاتا ہے کہ جس طرح آ گ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔
انھیں حضرت سے مروی ہے کہ:
”ان المو من یغبط ولا یحسد و المنا فق یحسد ولا یغبط
“
مومن غبطہ کرتا ہے حسد نہیں کرتا اور منافق حسد کرتا ہے غبطہ نہیں کرتا۔
امام جعفر صادق علیہ السلا م سے یہ بھی مروی ہے کہ:
”اصول الکفر ثلاثة ، الحرص والاستکبار والحسد
“
اصول کفر تین ہیں ،حرص ، تکبر اور حسد کرنا۔
( ۱۳) ” غیبت کرنا اور اس کا سننا“
خدا وند عالم کتاب کریم میں ارشاد فرماتا ہے کہ:
”(
ولا تجسسو اولا یغتب بعضکم بعضا ایحب احد کم ان یاکل لحم اخیه میتا فکر هتموه
)
“
اور کسی کے حالات کی تفتیش نہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کیا کرو کیاتم میں کوئی اس بات کو پسند کر تا ہے کہ وہ اپنے بھا ئی کا گوشت کھائے پس اس کو تم برا سمجھو گے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ:
الغیبته حرام علی کل مسلم و انها لتا کل الحسنات کما تا کل النار الحطب
“
غیبت ہر مسلمان پر حرام ہے کیونکہ غیبت نیکیوں کو ایسے کھا جاتی ہے جیسے آ گ لکڑی کو کھاجاتی ہے۔
اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآ لہ و سلم سے مروی ہے کہ:
غیبت کے سلسلے میں منعقد ہونے والی نشست دین کی خرابی ہوتی ہے۔پس اپنے کانوں کو غیبت کے سننے سے محفوظ رکھو، کیونکہ غیبت کرنے والا اور سننے والا دونو ں گناہ میں شریک ہیں ۔
امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ:
جب کسی کے سامنے اس کے برادر مومن کی کوئی غیبت کرے اور وہ اس کی مدد نہ کرے اور اس کی طرف سے وفاع نہ کرے جب کہ وہ اس کی مدد ونصرت پر قادر بھی ہوتو خدا وند عالم دنیا وآخرت میں اس کو حقیر و ذلیل کریگا۔
( ۱۴) ” دنیا کی حرص اور مال سے محبت کرنا“
خدا وندعالم اپنی کتاب کریم میں ارشاد فر ماتاہے کہ:
”(
یاایها الذین آمنو الاتلهکم اموالکم ولا اولادکم عن ذکرالله ومن یفعل ذلک فاولئک هم الخاسرون
)
“
اے ایمان والو تم کو تمہارے اموال اور اولاد ذکر خدا سے غافل نہ کر دیں ۔ اور جوبھی ایسا کرے گا وہی تو نقصان اٹھانے والاہے۔
خدا وند عالم فرماتاہے:
”(
واعلموا انما امو الکم واولادکم فتنة
)
“
”اور جان لو کہ تمہارے مال اور اولاد فتنہ کے علاوہ کچھ نہیں ہیں“
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم سے مروی ہے کہ:
جس نے ایسے حال میں صبح کی کہ جس کی نظرمیں دنیا کی اہمیت زیادہ ہو تو اللہ کی طرف سے کسی چیز میں اس کا حصہ نہیں ہے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم سے مروی ہے کہ آ پ نے فر مایا:
میرے بعد تمہارے پاس دنیا اس حالت میں آئے گی کہ وہ تمہارے ایمان کو اس طرح کھا جائے گی کہ جس طرح آ گ لکڑی کو کھاجاتی ہے۔
آ نحضرت سے مروی ہے کہ آ پ نے فرمایا۔
دنیا اپنے چا ہنے والوں کو دعوت دے گی پس جس نے بھی اپنی ضرورت سے زیادہ اٹھایا پس یقینا اس نے اپنی موت کو بلایاحالا نکہ وہ اس کا شعور نہیں رکھتا۔
آ پ ہی سے مروی ہے کہ:
بیشک دینا ر اور درہم نے تم سے پہلے والوں کو ہلاک کردیا اور اب تم کو ہلاک کریں گے۔
آپ نے فرمایا:
”من احب دنیاه اضر باخرته
“
جس نے دنیا سے محبت کی اس نے اپنی آخرت کو نقصان پہنچایا۔
امام زین العابد ین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
میں نے تمام خیر کو طمع کے قطع کرنے میں دیکھا ہے۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
وہ برا انسان ہے کہ جو طمع کرتاہو ،اور طمع اس کو اپنی طرف کھینچتی ہو، اور وہ برا انسان ہے کہ جو دنیا سے رغبت رکھتا ہو، اور وہ اس کو ذلیل کرتی ہو۔۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ :
”حب الدنیا راس کل خطیئته
“
ہر غلطی اور خطا کا سر چشمہ دنیا کی محبت ہے۔
( ۱۵) ” تہمت لگانا، برا بھلا کہنا، بد زبانی اور گالیاں دینا “
رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے مروی ہےکہ:
اے عائشہ! اگر فحش (گالی) کی کوئی مثال ہو سکتی ہے تو وہ بری مثال ہوگی۔
آ پ ہی سے مروی ہے کہ:
اللہ برا بکنے والے اور سائل کے باربار مانگنے سے بغض رکھتا ہے۔
آ نحضرتؐ سے مروی ہے: ”مومن کو گالی دینا فسق ہے جیسے اس کا قتل کرنا کفرہے اس کی غیبت کرنا گناہ ،اور اسکا مال کھانا ایسا ہی حرام ہے جیسے اس کا خون پینا“
عمر وبن نعمان جعفی سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا:
امام جعفر صادق علیہ السلام کا ایک ایسا دوست تھا کہ جو آپ سے کبھی جدا نہ ہوتا تھا تو اس نے اپنے غلام کو اس طرح پکارا (اے بدکارعورت کے بیٹے تو کہاں ہے؟)پس امام علیہ السلام نے اپنے ہاتھ کو بلند فرماکر اسکی پیشانی پر مارا اس کے بعد فرمایا تونے اس کی ماں پر جھوٹی تہمت لگائی ہے! میں تجھ کو پرہیز گار آ دمی خیال کرتا تھالیکن تو پرہیز گار نہیں ہے ۔اس نے کہا آ پ پر فدا ہوجاؤں اس کی ماں سندھی اور مشرک عورت ہے۔
تو امام علیہ السلام نے فرمایا:
کیا تو نہیں جانتا کہ ہر قوم کا (اپنے اپنے طریقہ سے ) نکاح ہے تو مجھ سے جدا ہوجا ۔(راوی کہتا ہے) میں نے ان کو پھر ایک ساتھ نہ دیکھا یہا ں تک کہ موت نے ان دونو کے درمیان جدائی پیدا کردی۔
( ۱۶) والدین کا عاق کرنا“
خدا وندعالم قرآ ن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
”(
وقضی ربک الاتعبدوالا ایاه وبالوالدین احسانا اما یبلغن عندک الکبر احدهما او کلا هما فلا تقل لهما اف ولا تنهر هما وقل لهما قولا کریماً
)
“
اور تمہارے پرور دگار نے یہ حکم دیا ہے کہ تم اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرنا،اور ماں، باپ کے ساتھ نیکی کرتے رہنا۔ اگر ان دونوں میں کوئی ایک یا دو نو ں بڑھا پے تک پہنچ جائیں تو انکے سامنے اف بھی نہ کرنا اور ان کو نہ جھڑکنا اور ان سے اچھی باتیں کرنا۔
رسول اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے مروی ہے کہ :
”ایا کم وعقوق الوالدین
“
” بچو تم ایسی حالت سے کہ تمہارے والدین تم کو عاق کردیں۔
اور آ نحضرتؐ ہی سے مروی ہے:
من اصبح مسخطا لابو یه یصبح له بابان مفتو حان الی النار
“
جس نے ایسی حالت میں صبح کی کہ اس کے والدین اس سے ناراض ہوں تو اس کے لئے جہنم کی طرف دو دروازے کھل جاتے ہیں۔
امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ آ پ نے ارشاد فرمایا:
کہ ایک دن میرے والد نے ایک شخص کو دیکھا ، وہ اپنے بیٹے کے ساتھ جارہا تھا اور بیٹا اپنے باپ کے ہاتھ پر تکیہ کئے ہوئے تھا۔
امام نے فرمایا :
میرے والد نے اس سے مرتے دم تک قطع کلام کیا (یعنی اس سے بات نہ کی) اورامام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا جو اپنے ماں باپ کی طرف دشمنی سے نگاہ کرے گا ، حالانکہ وہ دونوں اس کے حق میں ظالم ہوں توخدا اس کی نماز قبول نہیں کرے گا۔
انھیں سے مروی ہے کہ:
اگر لفظ ” اف“ سے بھی کوئی نیچی چیز ہو تی تو خدا وند عالم اس سے منع کرتا اور وہ ”اف“ ادنی چیز ہے جو عاق والدین میں سے ہے اور عاق ہونے میں شمار ہوتا ہے وہ شخص جو اپنے والدین کی طرف نگاہ کرے اور ان پر اپنی نگاہ کو جمالے (یعنی انکی طرف دیکھ کر فوراً نگاہوں کو نیچی کرلو )۔
( ۱۷) جھوٹ بولنا
”خدا وند عالم اپنی کتاب قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
”(
انما یفتری الکذب الذین لا یومنون
)
“
جو جھوٹی تہمت لگاتے ہیں وہ مومن نہیں ہیں۔
”(
فاعقبهم نفاقا فی قلوبهم الی یوم یلقونه بما اخلفو الله ما وعدوه وبما کانو ایکذ بون
)
“
پس خدا وند عالم نے ان کے دلوں میں اس دن تک کے لئے نفاق پیداکر دیا جس دن وہ خود اس سے ملاقات کریں گے کیونکہ انہوں نے جو وعدہ خدا سے کیا تھا اس کے خلاف کیا اور وہ جھوٹ بولا کرتے تھے
رسول خداصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے مروی ہے کہ:
سب سے بڑی خیا نت یہ ہے کہ تم اپنے کسی ایسے بھائی کے بارے میں بات کرو کہ وہ تمہارے بارے میں جوکچھ کہتا ہے صحیح کہتا ہے اور تم اس کے بارے میں جو کچھ کہتے ہو جھوٹ کہتے ہو۔
آ پ ہی سے مروی ہے :
الکذب ینقص الرزق
“
جھوٹ بولنا رزق کو کم کرتا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ آ پ نے فرمایا:
کوئی بندہ ایمان کا مزہ نہیں پائے گا جب تک کہ وہ جھوٹ کو ترک نہ کردے ۔ چاہے وہ جھوٹ مذاق میں ہو یا مذاق میں نہ ہو۔
امام زین العابدین علیہ السلام سے مروی ہے کہ:
جھوٹ سے بچوچاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ،مذاق میں ہو یا مذاق میں نہ ہو اس لئے کہ اگر کوئی شخص چھوٹا جھوٹ بولے گا تو وہ بڑا جھوٹ بو لنے پر جری ہوجائے گا۔
امام حسن عسکری علیہ السلام سے مروی ہے کہ آ پ نے فرمایا:
”جعلت الخبائث کلها فی بیت وجعل مفتا حها الکذب
“
تمام خبائث (برائیوں) کو ایک گھر میں قرار دیا گیا ہے اور اس کی کنجی جھوٹ بولنا ہے۔
( ۱۸) ” وعدہ خلافی کرنا“
خدا وند عالم اپنی کتاب قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
”(
فاعقبهم نفاقا فی قلوبهم الی یوم یلقونه بما اخلفوا الله ماوعدوه
)
“
خدا نے ان کے دلوں میں اس دن تک کے لئے نفاق پیدا کردیا کہ جس دن وہ خود اس سے ملاقات کریں گے کیونکہ انھو ں نے جووعدہ خدا سے کیا تھا اس کے خلاف کیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم نے فرمایا:
”من کان یومن باالله وبالیوم الا خر فلیف اذاوعد
“
جو بھی اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے وعدہ کو پورا کرے۔
آ نحضرت سے مرو ی ہےکہ:
جس شخص میں چار چیزیں ہوں گی وہ منافق ہوگا اور جس میں یہ چار چیزیں نہ ہوں گی وہ نفاق سے بری ہوگا۔
وہ چار چیزیں یہ ہیں ۔
”اذا حدث کذب واذا وعدا خلف و اذا عاهد غدر واذا خاصم فجر
“
وہ جب بات کرے تو جھوٹ کہے ،جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے،جب عہد کرے تو غداری کرے جب جھگڑا کرے تو دشمن ہوجائے۔
( ۱۹) گناہ پر اصرار کرنا اور اس کو ترک نہ کرنا اور اس پر نادم نہ ہونا۔
خدا وندعالم اپنی کتاب قرآن کریم میں ا رشاد فر ماتا ہے:
”(
والذین اذا فعلو افا حشة اوظلموا انفسهم ذکرو االله فاستغفرو الذنو بهم ومن یغفر الذنوب الا الله ولم یصر واعلی ما فعلواوهم یعلمون اولئک جزاؤ هم مغفرةمن ربهم وجنات تجری من تحتها الانهار خالدین فیها ونعم اجر العا ملین
)
“
اورجو لوگ بدی کرتے ہیں یا اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں تو وہ خداکو یاد کرکے اپنی گناہوں کی معافی چاہتے ہیں اور سوائے خداکے کون گناہوں کو معاف کرسکتا ہے اور جو کچھ وہ کر چکے ہیں اس پر جان بوجھ کر اصرار نہیں کرتے ان کی جزاء ان کے پرور دگار کی طرف سے ان کی بخشش ہے ۔اور ایسے باغ ہیں جن میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اور نیک عمل کرنے والوں کے لئے اچھا اجر ہے۔
حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم سے مروی ہے کہ:
”ان من جملة علامات الشقاء الاصرار علی الذنب
“
شقاوت کی جملہ علامات میں سے ایک علامت گناہ پر اصرار کرناہے۔
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہےکہ:
”اعظم الذنوب ذنب اصر علیه صاحبه
“
گناہوں میں سب سے عظیم وہ گناہ ہے جس کا کرنے والا اس پر اصرار کرے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہےکہ:
”لاوالله لایقبل اللّه شیئاً من طا عته مع الا صرار علی شئیٍ من معاصیه
“
خدا کی قسم خدا اپنی اطاعت کواس بندے سے قبول نہ کرے گا کہ جو اس کی نافر مانیوں سے کسی نافرمانی پر اصرار کرتاہو۔
( ۲۰)” غذا کا احتکار کرنا (ذخیرہ اندوزی) اس نیت کے ساتھ کہ اس کی قیمت زیادہ ہوگی“
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم سے مروی ہے کہ:
”ایما رجل اشتری طعا ما فحبسه ار بعین صبا حا یرید به غلاء المسلمین ثم باعه فتصدق بثمنه لم یکن کفارة بما صنع
“
کوئی شخص غذا کا سامان خریدے اور ااس کو چالس دن ذخیرہ کرکے رکھے اور مقصد یہ ہوکہ یہ مسلمانوں میں کم ہوجائے تاکہ مہنگا بیچے پھر اگر اس کی قیمت صدقہ میں دےدے تو بھی اس کا کفارہ نہ ہوگا کہ جواس نے کیا۔
نبیؐ سے مروی ہے کہ:
”من احتکرفوق اربعین یوما حرم الله علیه ریح الجنّة
“
جوبھی چالیس دن سے زیادہ احتکار (ذخیرہ اندوزی) کریگا خداوند عالم اس پر جنت کی بو کو حرام کردے گا۔
انھیں حضرتؐ سے مروی ہے:
جوبھی چالیس دن اس انتظار میں غذا کو ذخیرہ کرے گا کہ وہ مسلمانوں میں کم ہوجائے تو خدا اس سے بری ہے۔
( ۲۱ ) ” دھوکہ بازی کرنا“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم سے مروی ہے کہ:
”من غش مسلماً فی شراء اوبیع فلیس منا
“
جو خریدو فروخت میں کسی مسلمان کے ساتھ دھوکہ بازی کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
آپنےؐ فرمایا:
”الا ومن غشنا فلیس منا
“
جوبھی ہمکو دھوکہ دے وہ ہم سے نہیں ہے اور اس کو تین مرتبہ فرمایا کہ:
”ومن غش اخاه المسلم ، نزع الله برکة رزقه و افسد علیه معیشته ووکله الی نفسه
“
جوبھی کسی مسلمان بھائی کے ساتھ دھوکہ کرے خدا اس کے رزق سے برکت اٹھالیتا ہے اور اس کی معیشت کو فاسد کردیتا ہے۔
امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ آ پ نے فرنایا!
نبی مد ینہ کے بازار میں ایک غلہ فروش کے پاس سے گزرے ،آ پ نے اس غلہ فروش سے فرمایا : میں تیرے اناج کو نہیں دیکھتا مگر صاف اور اچھا ۔آ پ نے اس کی قیمت معلوم کی پس اتنے میں وحی نازل ہوئی کہ وہ اپنا ہاتھ اناج کے اندر کریں تو آ پ نے ایساہی کیا تو اس کے نیچے سے خراب اناج نکلا تو آپ نے اس کے مالک سے فرمایا میں تجھ کو نہیں دیکھتا مگر یہ کہ تونے مسلمانو ں کے لئے خیانت اور غش (دھوکہ) کو جمع کرلیا ہے۔
( ۲۲) ” اسراف وتبذیر “
اور مال کا تلف کرنا چاہے کم ہی کیوں نہ ہو اور اس مال میں کفایت سے کام نہ لینا ۔
خدا وندے عالم فرماتا ہے:
”(
وکلو اوشربو اولاتسر فو اانه لا یحب المسر فین
)
“
کھاؤ ،پیو ،اور اسراف نہ کرو اس لئے کہ وہ اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے۔
”وان المسرفین هم اصحاب النار“
اسراف کرنے والے جہنمی ہیں۔
”(
ان المبذرین کانو ا اخوان الشیاطین وکان الشیطان لربه کفورا
)
“
بیشک بے جاخرچ کرنے والے شیاطین کے بھا ئی ہیں اور شیطان اپنے پرور دگار کا سب سے بڑا منکر ہے۔
امیرالمومنین علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ:
”ان اللّه اذا اراد بعبد خیراً ،الهمه الا قتصاد وحسن التدبیروجنبه سوء التدبیر، والاسراف
“
بیشک اللہ جب کسی بندے سے خیر چاہتا ہے تو اس کو اقتصاد اور بہترین تد بر الھام کرتا ہے اور بری تدبیر اور اسراف سے بچاتا ہے۔
اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آ پ نے فرمایا:
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے اس کو کرامت عطا کی کہ جس نے بخشش کی اور اس سے ہاتھ روک لیا جس نے بخشش کے سلسلہ میں سستی کی؟اور جان لوکہ مال، اللہ کا مال ہے اس نے لوگوں کے پاس امانت رکھا ہے اور ان کے لئے جائز قرار دیا ہے کہ وہ اس میں میانہ روی اختیار کرتے ہوئے کھا ئیں پیئیں اور نکاح کریں اور اس کے علاوہ جو بچے وہ فقرا ء کو تقسیم کریں اور اس مال کے ذریعہ فقراء کی پرا گند گی کو جمع کریں پس جو بھی ایسا کرے گا تو وہ حلال کھائے گا ،حلال پئے گا ، حلال نکاح کرے گا۔اور اس کے علاوہ اس پر حرام ہے:پھر آپ نے فرمایا:
”لاتسر فواان لله لا یحب المسر فین
“
اسراف نہ کرو ، خدا اسراف کرنے والو ں کو دوست نہیں رکھتا۔
اور آ پ ہی سے مروی ہے کہ :
میا نہ روی ایک ایسا امر ہے جو خداکو پسند ہے اور اسراف اس کو نا پسند ہے یہاں تک کہ تمہارے کھجور کی گٹھلی کا پھینکنا اگر وہ کسی چیز کے کام آ تی ہے اور تمہارا وہ پانی جو زیادہ ہے اس کا پھینکنا اس کو پسند نہیں ہے۔
( ۲۳) ” واجبات میں سے کسی واجب کا ترک کرنا “
جیسے نماز روزہ یا ان دونو ں کے علاوہ دوسرے واجبات میں سے کسی واجب کا ترک کرنا۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآ لہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
”من ترک الصلوة متعمداً فقد بری من ذمة الله وذمة رسوله
“
جس نے بھی نماز کو عمداً ترک کیاتو اس سے اللہ اور اس کا رسول بری الذمہ ہیں۔
امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
”ولا ینظر الله الی عبده ولا یزکیه لو ترک فریضة من فرائض الله اوار تکب کبیرة من الکبائر
“
خدا اس بند ے کی طرف نہیں دیکھے گا اور نہ اس کی اصلاح کرے گا جو واجبات میں سے کسی واجب کو ترک کرتا ہے یا گناہ کبیرہ میں سے کسی کا مر تکب ہوتا ہے۔
آ پ ہی سے مروی ہے:
”ان الله امره بامر وا مره ابلیس بامر ، فترک ماامر الله عزو جل به وصار الی ما امر به ابلیس فهذ ا مع ابلیس فی الدرک السابع من النار
“
اللہ نے اپنے (بندہ) کوکسی چیز کا حکم کیا اور ابلیس نے کسی چیز کا اس کو حکم دیا ۔ اس نے اللہ کے حکم کو ترک کردیا اور ابلیس کا حکم بجالایا پس وہ ابلیس کے ساتھ جہنم کے ساتویں درجہ میں ہوگا۔اور اس کے علاوہ بھی منکرات ہیں،کہ جن کے ذکر کا محل یہاں نہیں ہے پس اگر تم چاہو تو حدیث اور فقہ کی کتابوں کی طرف رجوع کر سکتے ہو۔ میرے والد نے پروقار انداز اور مؤ ثر آواز میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا:اب میں اس امر بالمعروف ونہی عن المنکرکی گفتگو کو ایک بڑے مجہتد کے کلام کو (نقل کرتے ہوئے ) ختم کررہاہوں جس میں فرمایاہے: یہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کےعظیم، اعلی اور محکم افراد سے ہیں ۔خصوصا دین کی ریاست جن کے ہاتھوں میں ہے ان کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی نسبت سختی سے عمل کرنا چاہئے۔ کہ وہ واجب اور مستحب معروف کی ردا اوڑھ لیں اور حرام و مکروہ منکر کی ردا اتار کر پھینک دیں ۔ اخلاق کریمہ سے اپنے نفس کو مزین اور بداخلاقی سے اپنے نفس کو پاک کرلیں ،اس لئے کہ لوگوں کے معروف انجام دینے اور منکر سے بچنے کایہی ایک کامل سبب ہے خصوصاً اس کو جب بہترین ، پسندیدہ اور خوف زدہ موعظہ سے مزید کامل ترکیا ہوجائے کیونکہ ہر مقام کے لئے ایک نکتہ ہے اور ہرمرض کے لئے ایک دوا ہے۔ اور نفسوں اور عقلوں کا علاج جسموں کے علاج سے زیادہ سخت ہے ، اسی بناء پرامر بالمعروف ونہی عن المنکر کے جو بلند مرا تب ہیں ان کو بجا لایا جائے ،میرے والد نے فرمایا کہ امربالمعروف نہی عن المنکر کی بحث کے سلسلے میں ہماری گفتگو کا اختتام ہوتا ہے میں نے اللہ کی خالص خوشنودی حاصل کرنے کی امید پر اس کو تمہارے اور دوسرے مومنین بھائیوں کے نفع کے لئے بیان کیا ہے۔ اب کل ان عام سوالات کے سلسلہ میں گفتگو شروع کی جائے گی کہ جو تم نے اختیار کئے ہیں یا پچھلی بحثوں میں تم کچھ پوچھنا بھول گئے یا تفصیل کے ساتھ کسی سوال کا بیان چاہتے تھے یا کچھ ایسے سولات ہیں جو پچھلی بحثوں میں ہماری گفتگو سے خارج تھے ۔
میں نے کہا بہت اچھی بات ہے اور امید ہے کہ وہ بہت مفید ہوں گے ۔ انھوں نے فرمایا :پس کل کے جلسہ تک انشاء اللہ (ہم رخصت ہوتے ہیں ) کل کے جلسہ کی بحث میں ایک عام گفتگو ہوگی۔