مجلس نہم :
اعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم
بسم الله الرحمٰن الرحیم
الحمد لله رب العٰلمین والعاقبة للمتقین والجنة للمطیعین والنار للملحدین والصلوة والسلام علی رسوله سید الاولین والاخرین شفیع المذبنین ابی القاسم سیدنا محمد واله والطیبین الطاهرین معصومین الغر المحجلین اما بعد قال الله تبارک و تعالٰی فی کتابه المبین
(
أَ فَغَیْرِ دِیْنِ اللّٰهِ یَبْغُونَ وَ لَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِيْ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ طَوْعًا وَ کَرْهًا وَإِلَیْهِِ یُرْجَعُونَ
)
۔ ( آل عمران : ۸۳ )
حضرات ! جناب ! خدا تعالٰی اپنے کلام معجز نظام میں ارشاد فرماتا ہے کہ کیا لوگ اللہ کے دین کے سوا اور کسی کی خواہش رکھتے ہیں ۔ حالانکہ اس خدا کے لئے آسمانوں اور زمین کی رہنی والی مخلوقات اپنی گردنیں جھکائے ہوئے ہیں، خوشی سے یا جبر سے، اور اسی کی طرف سب کی باز گشت ہے ۔
اب چونکہ آج کی ہی مجلس رہ گئی ہے اور وہ بھی ایسے وقت میں ہے کہ عزاداران اہل بیت کے دل رو رہے ہیں ۔
میں نے آیت کریم کے پہلے فقرہ پر اس سے پہلے عرض کیا ہے ۔ آج دوسرے فقرہ ولہ اسلم من فی السموات والارض طوعا و کرھا والیہ یرجعون ۔ کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ توجہ کے ساتھ سنیے اور ایک مرتبہ درود و صلوات پڑھ لیجئے ۔ اللھم صل علی محمد وال محمد
کل میں نے گزارش کی تھی کہ پروردگار عالم نے قرآن مجید اس قسم کے کئی مجزات کا استعمال کیا ہے کہ لفظ بیت استعمال کیا اور مراد اس سے اہل بیت کی ۔ لفظ قریة استعمال کیا اورمراد اس سے اہل قریة کو لیا اسی طرح لفظ دین استعمال کیا اور اس سے اہل دین مراد لئے ۔ جب قریة سے اہل قریة مراد ہوسکتے ہیں تو دین سے اگر اہل دین مراد لی جائے تو کون سا مانع ہے جس کی بناء پر یہ مراد نہیں لی جاسکتی ۔
مجاز سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اسکی نوع کا لحاظ کرنے میں فعد کا لحاط نہیں ہوتا کہ سماعی ہونی چاہئے ۔ نوع کے جتنے افراد زبان پر استعمال ہوتے ہیں حق ہے کہ کسی فرد کو استعمال میں لایا جائے ۔
کل عرض کیا تھا کہ بعض حضرات دین اس لئے کہلایا کہ ان کی وجہ سے دین قائم ہوا ہے اور جب دین خراب ہونے لگا تھا ۔ تب بھی انہوں نے اسے درست کردیا ۔ چونکہ وہ ہمہ تن دین بن گئے تھے اس لئے ان کو دین کہا گیا ۔ یہ ایک ایسی شے ہے جو نہایت واضح ہے ۔
آیت کا حصہوله اسلم من فی السموات والارض طوعا و کرها والیه یرجعون
۔ کہ آسمانوں اور زمین کے تمام باشندے اس کے سامنے گردن جھکائے ہوئے ہیں طوعا و کرھا میں واو جو ہے جغبی او ہے یعنی کوئی خوشی کے شاتھ گردن جھکائے ہوئے ہے اور کوئی نا خوشی سے گردن جھکائے ہوئے ہے ۔
آج زمانہ بہت ترقی کرچکا ہے ۔ لیکن سن رہا ہوں کہ چند روز پہلے کچھ الحاد کی طرف مائل تھا اور آج پھر کچھ خدا کی طرف جھک رہا ہے سائنس دان ایسی ایسی کتابیں لکھ رہے ہیں کہ پروردگار عالم کے وجود پر دلائل موجود ہیں ۔ خیر کوئی لکھے یا نہ لکھے، تب بھی سب کی گردن جھکی ہوئی ہے تمام کا زمانہ قدرت کی ترقیاں اس کے کسی کام میں ذرہ بھر فرق نہیں لا سکیں ۔
دیکھئے گرمی کو کئی شخص برداشت نہیں کرنا چاہتا ۔ لیکن تمام عالم کے لوگوں کی یہ خواہش بے کار پڑ جاتی ہے اور کوئی طاقت گرمی کو پڑنے سے نہیں روک سکتی اور جس قدر گرمی پڑتی ہے پڑ کر رہتی ہے ۔
آپ کسی شخص کی صورت یا شکل کو دیکھ لیجئے ۔ حسین سے حسین کو دیکھ لیں آپ محسوس کریں گے کہ اس میں فلاں جگہ فلاں شے کی کمی ہے ۔ اگر اس میں فلاں اور شے ہوتی تو وہ مکمل حسین ہوجاتی ۔
دنیا بھر کی چیزوں کے متعلق کہہ سکتا ہوں کہ کسی کی اگر شکل اچھی ہے تو قد اتنا ہے کہ اس کے حسن کا قصور سمجھا جاتا ہے، یا طول صحیح ہے تو رفتار اچھی نہیں‘ چہرہ اچھا ہے تو کسی اور عضو میں کمی رہ گئی ہے۔
اس تصور کے ساتھ نظرڈالئے‘ کہ آیا کہا جاسکتا ہے کہ جو بہمہ وجوہ حسین ہے اس میں کچھ کمی نہیں ہے؟
آپ کوئی مثال بھی لے لیں کسی بڑے سے بڑے کو لیجئے وہ اپنے اندر کچھ نہ کچھ کمی محسوس کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے فلاں شئے حاصل نہیں ہے۔ کوئی کہتا ہے فلاں آدمی کے بھنویں (ابرو) کے نیچے ہوتی تو چہرہ بہت درست ہوتا۔ لیکن اس کمی کو پورا کرنے والی کوئی طاقت نہیں۔
ہر حال میں یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اس کمی کی موجودگی میں ان کے علاوہ کوئی ایسا کامل موجود ہے یہ تو سب ناقص اور نامکمل ہیں مگر وہ کامل اور مکمل ہے۔
معاف کیجئے گا ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ جو لوگ حکم شریعت کے موافق داڑھی رکھتے ہیں کوئی ایسی تدبیر ہوتی کہ اس کے درست کرانے پر ۱/۲ گھنٹہ کم از کم صرف نہ وہتا۔ ان لوگوں کا تو ذکرہی کیا جو سرے سے داڑھیاں رکھتے ہی نہیں وہ تو روزانہ کی مصیبت میں گرفتار ہیں الغرض دونوں چاہتے ہیں کہ اس مصیبت سے کسی طرح ان کو نجات حاصل ہو جائے لیکن کسی کی خواہش پوری نہی ہوتی بس کوئی زبردست طاقت ایسی موجود ہے جہاں تمام خواہشات ختم ہر کر رہ جاتی ہیں۔
دنیا کی جس قدر چیزیں ہیں وہ کسی نہ کسی کے سامنے جھکی ہوتی ہیں ایک آدمی کسی مشین کے متعلق یہ سمجھتا ہے کہ یہ سال بھر چلے گی لیکن وہ دوسرے دن ہی خراب ہو جاتی ہے بڑے سے بڑے جھاز بنتے ہیں کہ یہ نہ گریں گے بری مضبوط مشینری والے ہیں۔ پہلی مرتبہ ہی ڈالا گیا تھا کہ ہوائی تار آتا ہے کہ ڈوبنے سے بچالو۔
تو کوئی کامل صاحب اختیار ہے جس کے قبضہ میں سب کچھ ہے اور وہ جس کو جتنا چاہتا ہے دیتا ہے جسے چاہتاہے گردش میں ڈال دیتا ہے چوبکہ ہمارا کام اس عالم اسباب میں یہ ہے کہ کسی سبب کو اختیار کریں لیکن سچ کہتا ہوں کہ اگر کسی شے کا سبب معلوم بھی ہوتا ہے تو اسی وقت اس سبب کا سبب نامعلوم ہوتا ہے علی ہذا اس نامعلوم سبب کا سبب اثر لاپتہ ہے۔ یہ ایسا سلسلہ ہے کہ انسان کو جہالت سے نکلنے نہیں دیتا اور اقرار کرنا پڑتا ہے انسان کو کہ ”میں فلاں معاملے میں جاہل ہوں“۔
سبحان اللہ! بیماریوں وغیرہ کے علاج کے واسطے طبیب و ڈاکٹر لوگ ایک بیماری کا سبب دریافت کرتے ہیں کہ یہ بیماری کیوں پیدا ہوئی؟ کہنے لگے کہ یہ فلاں قسم کے جراثیم سے پیدا ہوگئی۔ اس پر سوال ہوا کہ وہ جراثیم کیوں ہوئے؟
پھر اسی طرح علتوں کا سلسلہ بڑھتا جائے گا تا آنکہ انسان کو اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ جاہل ہے اور نہیں جانتا کہ اس علت کی علت کیا ہے اور جب یہ اپنے یہاں کی چیزوں پر قدرت نہیں رکھتا تو اسمانوں پر اسے کیسے قدرت حاصل ہوسکے گی۔ معلوم ہوا کہ انسان سے ایک ایک وہ ہستی یا جس کے اختیار میں سب کچھ ہے اور سب کی گردنیں وہاں جھکی ہوئی ہیں۔
البتہ یہ سوال رہ جاتا ہے کہ کافروں کی گردن کیسے اس کے حضور جھکی ہوئی ہے؟ قرآن پاک فرما رہا ہے یسبح لہ ما فی السموات و الارض و ھو العزیز الحکیم۔ کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے سب کا سب اس کی تسبیح کرتا ہے اور وہ غالب اور حکمت والا ہے۔
میں کہوں گا کہ بے شک کافروں کے دل بھی اس کے حضور جِھکے ہوئے ہیں جب وہ کہتا ہے مرجاؤ۔ تو ہے کوئی جو کہہ سکے کہ نہیں میں نہیں مرتا۔
حکم الہی ہوتا ہے کہ فلاں شخص پر فلاں مصیبت آجپڑے‘ فلاں مرض میں فلاں گرفتار ہو جائے۔ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ وہ کسی مصیبت یا مرض میں گرفتار ہو لیکن جب وہ وقت کوئی ہے تو وہ گرفتار ہو ہی جاتا ہے اور موت کے وقت بالآخر مرجاتا ہے تو کیا ان سب کی گردنیں اس کے سامنے جھکی ہوئی نہیں ہیں؟ بے شک ہیں۔
اب میں کہنا چاہتا ہوں کہ آپ حضرات اہل فہم اور صاحبان ادراک ہیں‘ کہ بلاشک آپ ان بلند ذکر باتوں کو جلدی سے سمجھ لیتے ہیں‘ آپ غور فرمائیں کہ وہ جو رارشاد فرماتا ہے:
افغیر دین الله یبغون وله اسلم فی السموات ولارض طوعا و کرها والیه یرجعون
۔ کہ کیا لوگ اللہ کے دین کے سوا اور کسی کی خواہش رکھتے ہیں ۔ حالانکہ اس خدا کے لئے آسمانوں اور زمین کے باشندے اس کے لیے جھکے ہوئے ہیں۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیا دلیل ہوئی؟ جو بھی خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں سب ہی جانتے ہیں کہ بے شک سب اس کے سامنے جٍکھے ہوئے ہیں۔
ذرا دقیق سی چیز تو ہے اور میں جانتا ہوں کہ شاید ایسے الفاظ میں پیش نہ کرسکوں جو ذہن میں اتر جائیں لیکن یہ یقین ضرور رکھتا ہوں کہ آپ کے اذھان مافیہ ایسے ہیں کہ ضرور بالضرور آپ لو جتنا کہ مجھے معلوم ہے اس سے زیادہ معلوم کرلیں گے۔
سنیئے! خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کے دین کو اختیار کرو! کیوں؟ اس لیے کہ کل عالم کی چیزیں اس کے سامنے گردن خم کی ہوئی ہیں۔
تو دین کو اختیار کرنے کی علت کیا بات ہوئی؟ یہ ہوئی کہ سب کی گردنیں ا سکے سامنے جھکی ہوئی ہیں اور اگر وہ جھکی نہ ہوتیں تو دین کو ماننے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ چونکے جِھکی ہوئی ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ کا دین قابل پسندیدگی ہے سوائے چند انگلیوں پر گنے جانے والے دھریوں کے باقی تمام لوگ وہ ہیں جو اسے مانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مخلوقات عالم سب کے سب اس کے سامنے جھکی ہوئی ہیں۔ تو جو اللہ تعالیٰ کو مانے اور پھر یہ کہے کہ زمین اور آسمان کی چیزیں اس کے مطیع نہیں‘ ایسا کوئی مذھب ہے جویہ نہ مانے؟ یقیناً سب کے سب اس امر کومانتے اور جانتے ہیں۔
اب پھر سوال یہ باقی رہ جاتا ہے کہ اللہ کا کون سا دین ہے جسے ہم مانیں؟
یہ تو سارے آدمی ہی کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ کو مانتے ہیں کہ سب اس کے سامنے جھکے ہوئے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس علت معلوم میں باہمی تلازم کہاں سے آیا؟ لیکن اگر ہم سمجھنا چاہیں تو کیا سمجھ میں آجائے گا مگر مجازات کا ایسا استعمال کرنا پڑے گا کہ اس کا ماننا طبیعت پر بار ہوگا اور وہ یہ کہ
اگر دین اللہ سے ہم ایک شخص یا ذات کو مراد لے لیں تو بات صارف واضح ہو جائے گی۔
میرا خیال ہے کہ یہ بات سمجھ نہ آئے گی جب تک کہ کل کی بات نہ دھرا دوں۔ یہ اس لیے کہا کہ آپ یہ نہ کہہ دیں کہ کل کی بات ہے۔
شاہ اجمیری نے کیا کہا تھا
شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
صاف ماناکہ حسین کی ذات خود دین ہے‘ تو جوان سے بھی افضل ہیں ہو کیوں نہ مومن ہوں گے۔ وہ کون ہیں؟ وہ حسین کے والد امیر المومنین علی ابن ابی طالب ہیں۔ جن کی شان میں الفاظ رسالت مآب کے وارد ہوئے برز الایمان کلہ‘ برز الاسلام کلہ جو غزوہ خندق کے موقعہ پر سرکار نے ارشاد فرماتے ہیں۔
جو انسان ہے وہ کبھی انکارنہیں کرے گا جب تک کہ دیوانہ نہ ہو جائے‘ دیوانگی میں انکار تو ہوسکتا ہے لیکن باہوش ہوتے ہوئے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ
رسول نے کل ایمان کہا تو علی کو اور کل اسلام کہا تو علی کو اور ایمان و اسلام ہی دین ہے۔ لیکن قرآن نے کہا دین کیا ہے اسلام ہے پس نتیجہ یہ نکلا کہ دین ہے تو وہ علی ہیں۔
پس جب ثابت ہوگیا کہ دین اللہ‘ علی ہیں تو اب آیت کریمہ مندرجہ بالا کا ترجمہ کریں کہ فرما رہے ہیں کہ
کیا علی (جو دین اللہ ہیں) کے سوا کسی اور کو پسند کرنا چاہتے ہیں لوگ؟
اب دوسرا حصہ آیت لیجئے ممکن ہے کہ کوئی کیسے کہ یہ تو علی کے لیے مناسب نہیں کہ ان کے سامنے آسمان و زمین کی تمام چیزیں جھکی ہوئی ہوں۔
لیکن اگر ثابت کردیا جائے کہ یہ سب چیزیں بلاشبہ ان کے سامنے جھکی ہوئی ہیں تو آیت کریمہ کا مفہوم صاف ہو جائے گا کہ نہ؟
جناب انہی کے لیے تو یہ چیزیں بے شک جھکی ہوئی ہیں لیکن اگر ان کے لیے بھی ثابت ہو جائے تو آیت میں لہ میں ضمیر مولاعلی کی طرف نہ پھرے گی؟
اب آپ ذرہ توجہ فرمائے اور معلوم کیجئے کہ لہ کی ضمیر دونوں طرفوں میں سے کس طرف پھرے گی، اللہ کی طرف، یا دین اللہ کی طرف پھرے گی؟ اس لئے کہ پہلے فقرہ میں افغیر دین اللہ آیا ہے یا افغیر اللہ آیا ہے؟ یعنی ضروری ہے کہ ضمیر کو یا اللہ کی طرف راجع کرو یا دین کی طرف راجع کرو۔
اگر ضمیر اللہ کی طرف پیشگی تو معنی ہوں گے کہ آسمان زمین کے باشندوں کی گردنیں اللہ کے سامنے جھکی ہوئی ہیں اور اگر دین کی طرف ضمیر ہو پیشگی تو یہ سب چیزیں دین کے سامنے جھکی ہوئی ثابت ہوں گی اور اس صورت میں دین سے مراد کوئی شخص ہوگا ۔
اب بتائیے آسمانوں میں کیا ہے؟ ملائکہ ہیں، اسی طرح خداوند کا پیدا کردہ ارواح ہیں حتی کہ سب فرشتے جو بھی خدا تعالٰی نے پیدا کئے ہیں سب معہ ان کے سردار جبریل کے جن کی شان میں قرآن مجید کہتا ہے ذی قوة عند ذی العرش مکین رفاع ثم امین ( ترجمہ : کہ وہ بڑی قوت والے، عرش والے کے پاس رہنے والے، فرشتوں کے مطاع کہ جس کی اطاعت کی جاتی ہے، پھر امانت دار ہیں، تمام عالم کے سردار فرشتے جبریل میکائیل، اسرائیل اور عزرائیل ہیں اور ان سب میں بلند مرتبہ حضرت جبریل ہیں ۔
سنا ہے آپ نے کہ کل ملائکہ کا سردار جبریل کس کے گھر میں آکر گنوارہ جیسانی کیا کرتا تھا؟ تو کیا جھکا ہوا تھا کہ نہیں ؟
جب تمام فرشتوں کا سردار، اس ہستی کی سامنے جھکا ہوا ہے تو جو اس مکاع کا سردار کے سامنے مطیع ہیں کیا وہ سب کے سب اس ہستی کے سامنے جھکے ہوئے ثابت ہوگئے کہ نہ ؟
جب سردار جھکے ہوئے ہیں تو ماتحت فرشتے تو بدرجہ اولٰی خود بخود جھکے ہوئے ہیں ۔
ایک آدھ واقعہ اگرچہ واقعات بہت ہیں سناتا ہوں۔
علامہ واعظ کاشفی اپنی کتاب روضة الشہداء میں لکھتے ہیں کہ جناب سیدہ فاطمہ الزھرا تھک جاتی تھیں تو پروردگار عالم جبریل و میکائیل کو بھیج دیتے تھے کہ سیدہ حسین کا جھولا جھلاتے ہوئے تھک گئی ہیں تم دونوں جاؤ اور یہ کام کرنے لگ جاؤ۔آپ آرام فرماتی تھیں اور یہ دونوں فرشتے جھولا جھلاتے رہتے تھے اور اگر امام حسین جاگ پڑتے تو یہ لوریاں دینے لگ جاتے تھے۔
میکائیل ایک طرف سے کہا کرتے تھے
انّ فی الجنة نهرین لعسل ولبن‘ لعلی و الزهرا والحسین والحسن
اور اگر پھر بھی چپ نہ ہوتے تھے تو دوسری طرف سے جبریل لوری دینے لگتے تھے کہ
ولمن کان حبالهم،دخل الجنة بغیرالمحن
تو اس قسم کے واقعات گہوار جنبانی کے کتابوں میں بہت کچھ لکھے ہوئے ہیں۔
(حضرت علامہ تقریر فرما رہے تھے کسی شخص نے موضوع سے ہٹ کر کوئی اعتراض پیش کرنا چاہا تو آپ نے فرمایا)
میں یہ ہمیشہ عرض کرتا رہتا ہوں کہ جس موضوع پر تقریر ہو رہی ہے اس متعلق آپ لوگ بصد شوق دریافت کر سکتے ہیں۔لیکن ادھر اُدھر کے سوالات کا ذمہ دار میں نہیں ہوں۔
مہربانی کرکے خیال فرمائیں کہ اس قسم کے حضرات ذوق صحیح رکھتے والے نصیب ہوتے جو یوں بھی پرچے دے دیتے ہیں، بات کیا ہو رہی ہے کہ پرچہ آتا ہے کہ علی کی دختروں کے متعلق بیان کر دو۔صرف اس قدر خواہش کرتا ہوں کہ اتنے دماغوں کو موضوع سے دور لے جا کر پریشان کر دوں بہتر نہیں ہے، میں اتنی دیر سے اپنی بھی اور آپ کی بھی دماغ سوزی کر رہا تھا تاکہ اصل مسئلہ واضح ہو جائے۔
تو ملائکہ میں سب سے بلند مقام جو رکھتے ہیں وہ جبریل ہیں۔ جو ہمارے علی کے شہزادوں کی گہوارہ جنبانی کرتے ہیں اتنا جھکتے ہیں کہ عرش سے فرش پر آتے ہیں اور پھر واپس جا کر فخر کرتے ہیں کہ میں ایک علی کا گہواہ جنباں ہوں۔
پھر آپ سن چکے ہوگے کہ آفتاب کہ جس کی روشنی اور فوائد پر کائنات کے کاروبار کا دارمدار ہے کیا ڈوبے کے بعد چڑھا لیا تھا کہ نہ؟ تو آفتاب کیا جھکا ہوا تھا یا نہیں؟ جس طرح چاند کے دو ٹکڑے رسالت مآب کا اشارے سے ہوگیا تھا‘ تو کیا جِھکا ہوا نہ تھا؟
اب دیکھا یہ ہے کہ جب آسمان کی کل چیزیں جِھکی ہوئی تھیں تو زمین کے لیے کیا کہیں گے؟
نہر فرات میں طغیانی آجاتی ہے باقی کوفہ کی گلیوں تک جاپہنچا ہے اندیشہ ہے کہ لوگ غرق نہ ہوجائیں ایسے وقت مولائے علی کی ضرورت پڑتی ہے۔
جب کوئی مشکل مکہ میں پڑجاتی تیھ اور حل نہ ہوتی تھی تب علی کا دروازہ ہوتا تھا جس پر مشکل کشائی ہوتی تھی کہ یا علی! اس وقت محتاج ہیں‘ ہماری مشکل حل کردیجئے۔
آپ فرماتے ہیں یا ماء انقص باذن اللہ کہ پانی کم ہو جااذن خداوندی سے۔ یہ الفاظ زبان سے نکلنے کی دیر تھی کہ شاید موسیٰ علیہ السلام کے عصاء نے دیر لگائی ہوگی کہ دریا کی مچھلیاں خشکی پر نظر آرہی تھی لیکن یہاں دیر نہ لگی اور پانی نے کم ہونا شروع کردیا۔
زمین پر زلزلہ آگیا تھا علی نے پاوں سے ٹھوکر ماری اور کہا ”مالک یا ارض“ اے زمین تجھے کیا ہوگیا؟ زلزلہ اسی وقت بندہوگا۔
علی ہذا القیاس جانوروں کی مثالیں بہت سی ہیں۔
دراصل انسانوں میں دو قسم کے آدمی ہیں‘ کہنے والے اور نہ ماننے والے۔ تمام ماننے والوں کی گردن تو جھکی ہوئی تھی ہی کہ نہ ماننے والے بھی گردن جھکے ہوئے تھے میں کہتا ہوں کہ ان کو اگر کسی کتے کی ضرورت ہوتو مجِے پروردگار عالم ان کے لیے کتا بنا دے تو محبت کرنے والوں کی یوں بھی گردن جھکی ہوئی ہے۔
نیز اگ مشرک نہیں جھکے ہوئے اس لیے کہ وہ علی کو نہیں مانتے تو کیا وہ خدا کو مانتے ہیں؟ اور ماننے کے لحاظ سے کیا ان کی گردنیں خدا کے سامنے جھکی ہوئی ہیں؟ سوائے اس کے قہراً‘ جبراً وہ سب جھکے ہوئے ہیں اور آیت میں اسی لیے یہ الفاظ آئے طوعا و کرھا۔ کہ مخلوقات دو طرح سے گردن خم کئے ہوئے ہیں ایک خوشی سے اور ایک جبر و اکراہ سے۔ بس اسی طرح ان کے حضور بعض تو خوشی سے گردن خم کئے ہیں اور بعض ناخوش‘ جبر وقہر سے ان کے سامنے جھکے ہوئے ہیں۔
عام واقعہ بیان کرتا ہوں۔ جسیعلامہسلیمان حنفی سے عیون المودت اپنی تصنیف میں ہارون الرشید کے بارے میں نقل کیا ہے۔ اس نے سوال کیا کہ کس قدر احادیث علی کی فضیلت میں ہیں؟ کسی نے کہا ۱۵ ہزار کسی نے کہا ۱۴ ہزار۔
ہارون نے کہا کہ میرے پاس ایک حدیث ایسی ہے جو سب پر غالب ہے کل ایک شخص علی کو برا کہہ رہا تھا‘ مجھے غصہ آگیا۔ میں نے اسے جیل کی کوٹھری میں بند کرا دیا۔ رات کو حضور رسالت مآب خواب میں تشریف لائے امیر المومنین علی بھی ساتھ تھے کہ حضرت یہ شخص آپ کو برا کہتا تھا۔ اس شخص نے نفی کی مگر حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا او کتے دور ہو جاؤ‘ چنانچہ وہ عالم خواب میں ہی کتا ہوگیا۔ میں سخت حیرا تھا‘ میں نے آدمی کو بھیجا کہ فلاں آدمی کو بلالاؤ۔ وہ جب گیا دیکھا کہ آدمی نہیں کتا بن چکا ہے۔
میں نے دیکھا کہ وہ ایسی حرکتیں کر رہا ہے کہ جن سے وہ پشیمانی کا اظہار کر رہا ہے بس زنجیروں سے باندھ کر دربار میں لایا گیا۔ دوبارہ بڑے عالم نے کہا بد بخت! اپنی سزا دنیا میں ہی دیکھ لی تو نے؟ ایک عالم نے کہا اس ملعون کو نکال دو کہیں عذاب الہی یہاں ہی نازل نہ ہو جائے۔ چنانچہ اسے لے گئے دروازہ پر پہنچا تو اس کی ایک چیخ نکلی اور ایک بجلی آسمان سے گری اور اسے ختم کردیا۔
اب تو یہ کوئی نہ کہے ا کہ ایسا محال عقلی ہے سائنس نے محال عقلی کو ختم کردیا۔
امام حسین علیہ السلام مسجد میں بیٹھے ہیں ایک شخں امیر المومنین کو برا کہہ رہا تھا۔ آپ ضبط کئے جارہے تھے۔اور ضبط جب حد سے تجاوز ہو چکا تو فرمایا ”نہ مانے گا؟“ ا سنے کہا میں ٹھیک طور پر برا کہتا ہوں آپ کو جلال آیا اور فرمایا او کتے کیوں نہیں اس مجلس سے اٹھتے؟ لوگوں نے دیکھا تو اسی وقت اس کی قلب حقیقت ہوچکی تھی۔
تو سب اشیاء ان کے سامنے جِھکی ہوئی ہیں۔ کوئی خوشی بلا اکراہ اور کوئی نا خوشی بہ جبر و قہر سے۔
جب بروئے حدیث قدوسی خود پروردگار عالم نے فرمایا تو کوئی ایسا نہ ہوگا جو اس منزل پر پہنچا ہو؟ بے شک ہوگا اور وہ وہ ہی ہیں۔
حدیث یہ ہے کہ حضور رب العزت فرماتے ہیں اطعنی یابن آدم لا جعلک متلی اذا ارت شیئا ان نقول لہ کن فیکون کہ اے ابن آدم میری اطاعت کرتا کہ تجھے اپنی مثل کردوں کہ جب تو بھی ارادہ کرے کسی شئے کا اور کہے کہ ”ہوجا“ وہیں وہ ہو جائے گی۔
حضرات! آپ ان کے علاوہ کسی اور کا نام بتا دو۔ کہ جن کے لیے اس طرح سے قلب ماہیت ہوا ہو۔ کہا اسی لیے رسول اللہ نے ان کو ید اللہ نہ فرمایا تھا؟
بہرحال حضرات وقت اس تمہید میں زیادہ گذر چکا۔
علی کی اطاعت اور ان کی عبادت کی حد یہ ہے کہ آپ کے تیر لگ گیا بہتیرا زور لگایا کیا تیر نہ نکلا۔ حضور رسالت مآب نے فرمایا علی جب عبادت میں ہوں تب اسے نکالا جائے۔
علی محرب عبادت میں گئے۔ تیر نکال لیا گیا آپ کو نماز کے بعد پوچھا گیا۔ فرمایا اللہ کی قسم مجھے خبر نہیں ہوئی۔
اب صرف اس قدر کہتا ہوں کہ یہ حد فضیلت نہیں ہے۔ یہ تو ان کے غلاموں کی حد ہے۔
تو یہ ہیں وہ لوگ جو دین اللہ ہیں ہم لوگ اگرچہ برے ہں ی لیکن ان کا دامن تھامے ہیں جو نہایت پاک‘ عبادت میں کامل و اکمل ہیں۔
حد ہے کہ امام گھوڑے سے گررہے ہیں ساتھی کہتے ہیں آقا زوال کا وقت ہوگیا ہے جی چاہتا ہے کہ آپ کے پیچِھے نماز ادا ہ وجائے۔
کہا چشم فلک نے ایسی نماز کبھی دیکھی تھی؟ ادھر سے اطرفا میں سے تیر آرہے ہیں ان کے سینے چھلنی ہیں تمام تر تصور میں امام حیسن کی طرف متوجہ ہیں۔ اس قدر غرق ہوئے کہ جب امام علیہ السلام کی السلام علیکم و رحمة اللہ ختم ہوئی ادھر وہ بھی ختم ہوگئے انا للہ و انا الیہ راجعون بس یہ تو حد ان کے غلاموں کی تھی۔
سبحان اللہ! غلام جب یہاں ہیں تو آپ اندازہ لگاھیں کہ آقا کہاں ہوں گے۔ اس سے آگے نہیں کہنا چاہتا۔ اب اس منزل پر آگیا کہ عرض کروں۔
کہ آج شب عاشورا ہے کہ ہمارے مظلوم آقا کی زندگی کی آخری رات ہے۔ اس کے بعد جو رات آئے گی وہ امام کی لاش دیکھے گی اور ان کا سرمبارک کٹ چکا ہوگا۔
اب اتنی تعداد میں یہ حضرات جمع ہوئے ہیں کونسی چیز ہے جس نے اس گرمی ان کو لا کر بٹھایا ہے اور کسی کو کھڑا کیا ہے وہ چیز یہی ہے کہ چلو فاطمہ کے بیٹے پر چند آنسو بہالیں۔ تاکہ ان آنسوں کے نکلنے سے کچھ حق ہی ادا ہو جائے۔
یہ تمام بوجھ امام حسین علیہ السلام نے کس بات کے لیے اٹھایا تھا‘ مسلمانوں تمہاری خاطر اٹھایا تھا۔
معاذ اللہ اگر بیعت کرلیتے‘ یا حکومت یزید کو چھوڑ کر‘ باہر کہیں چلے جاتے تو یہ اسلام نہ ہوتا جو آج آپ کے پاس ہے بلکہ وہ اسلام ہوتا جو یزید کا ہوتا۔
امام حسین علیہ السلام نے یہ آخری رات مانگی ہے جیسے کوئی بھیک مانگتا ہے کہ آج جی بھر کر مولا کی بندگی کرلیں۔
ادھر ابن زیاد کا حکم ابن سعد کے نام آتا ہے کہ جب خط پہنچے حملہ کردینا ورنہ سب باگ ڈور فو کی شمر کے حوالہ کردی جائے خود حملہ کیا اس نے گھوڑیں کی باگیں اٹھیں اوراس وقت ۴-۱/۲ یا ۵ بجے کا وقت ہوگا کہ امام حسین علیہ السلام نماز پڑھ کر اپنی بہن کے سامنے دروازہ کے ساتھ کرسی ڈال کر بیٹھ گئے ہیں اور کچھ سوچ رہے ہیں غنودگی کا عالم طاری ہوگیا ہے ادھر وہ فوج بڑھتی ہے۔
چنانچہ زینب جیسی بہن دنیا نے کبھی نہ دیکھی ہوگی اور نہ حسین جیسا بھائی دیکھا ہوگا بازو سے پکڑ کر ہلایا کہ بھیا فوجیں آگئی ہیں۔ آپ نے عباس کو آواز دی کہ کیا ارادہ ہے تمہارا؟ ذرا ان سے پوچھو تو۔
عباس کے ہمراہ مسلم بن موسجہ‘ حبیب ابن مظاہر نے کہا ٹھہر جاؤ کدھر کا خیال ہے؟
کہا گیا کہ ابن سعد نے حکم دیا ہے کہ ابھی جنگ ہو۔
عباس نے فرمایا: ذرا رک جاؤ‘ ابھی جنگ ہو جائے گی۔ امام حسین علیہ السلام کے پاس آئے کہ دشمن لڑائی کی خاطر آگے بڑھ رہا ہے۔
فرمایا: اسے جا کر کہ دو کہ بھاگ نہ جاؤں گا کہیں! ایک رات کی مہلت اور دو کہ اپنے خدا کو دل بھر کر یاد کرلوں۔
وہاں مختلف باتیں ہورہی تھیں۔ آخر ایک نے کہا: کہ کافر بھی اگر مہلت مانگتے تو دی جاتی۔ یہ رسول کے نواسے ہیں بالآخر مہلت مل گئی۔ فوج بیٹھی رہی شام آگئی یہ رات بس باقی رہی تھی۔
حضرات! تو یہ آخری شب ہے اس کے بعد آپ کو پھر تکلیف نہ ہوگی۔ امام حسین علیہ السلام مصلی عبادت پر بیٹھ گئے تسبیح و تہلیل میں مصروف ہیں۔
تاریخوں کا متواتر فقرہ ہے کہ آپ پڑھ رہے تھے اور لھم دری کدری نحل کہ تسبیح کی آوازیں اس طرح گونج پیدا کررہی تیں جسے شہد کی مکھیوں کی آواز ہوتی ہے صحرائے کربلا گونج رہا تھا تسبیح اور یاد خدا سے۔ ادھر بیویاں خیموں میں مصروف ذکر الہی تھیں۔
بعض حضرات نے کہا ہے کہ کل کی تیاریوں میں مصروف رہے کہ جنابہ زینب نے اپنی کنیز فضہ سے کہا کہ جاکر م یرے ماں جائے حسین کو بلالا۔ دروازہ پر فضہ آئیں۔ عرض کیا آقا! عالم کی شہزادی یاد کررہی ہے۔ امام حسین علیہ السلام تسبیح پڑھ رہے تھے۔ گردن جھکائی‘ جب داخل ہوئے‘ جنابہ زینب کو خبر نہ ہوئی۔ دیکھا کہ زینب گردن کو جھکائے بیٹھی ہیں۔ امام حسین نے آواز دی بہن میں آگیا۔ کیوں بلایا تھا؟
ایک مرتبہ آواز سنی‘ اپنے ہاتھ کھڑے ہو کر بھائی کے گلے میں ڈالدیئے اور چیخ نکل گئی اور منہ سے نکلا بھیا حسین!
امام حسین نے فرمایا: بہن کیوں گھبرا گئی؟ اتنی پریشان کس لیے ہوگئی‘ ابھی تو منزل دور ہے ابھی تو کل نہیں آیا۔ اس وقت تمہاری حالت یہ ہے تو کل کیا ہوگا؟
عرض کیا بھیا! ذرا بیٹھ جایئے‘ امام حسین بیٹھ گئے۔ رو کر عرض کی بھیا! جب سے مدینہ چھوٹا ہے دل کی بے قراری کبھی کم نہ ہوئی مگر ضبط کرتی رہی کسی سے نہ کہا جب تک مکہ چھوٹا بے چینی اور بڑھ گئی کسی سے نہ کہا۔ جب اس زمین پر پہنچی تو بے قراری کی حد ہوگئی لیکن اپنے دل کے درد کو چھپائے رکھا تاکہ بھائی حسین کو پریشانی نہ ہو۔ لیکن بھائی حسین کیسی رات آگئی کہ دل کسی طرح نہیں ٹھہرتا۔
فرمایا: بہن صاف بات ہے‘ میرے قتل کی رات ہے لیکن ابھی تو قتل نہیں ہوا۔ اگر تمہاری حالت یہی رہی تو اصحاب کی بیویاں کس کے سپرد ہوں گی۔ یہ چھوٹے بچے کس کے سپرد ہوں گے کون ان کی خبر گیری کرے گا؟
زینب نے فرمایا: میں جانتی ہوں‘ سب کچھ پتہ رکھتی ہوں لیکن جس شئے نے دل کو بے قابو کردیا ہے وہ بتلا دو؟
فرمایا: وہ کونسی بات ہے جو اس قدر گھبراتی ہو۔
عرض کیا: یہ کون بی بی ہے جو کبھی ادھر پِھر رہی ہے کبھی ادھر پھر رہی ہے کیا تم اس آواز کو نہیں جانتی۔ فاطمہ آئی ہوئی ہیں‘ میرے قتل پر آئی ہیں دیکھنے کے لیے کہ بیٹا کیسے جان سپرد جان آفرین کرے گا۔
ایک واقعہ اور اس رات کا سن لیجئے یہ روایت خود امام زین العابدین علیہ السلام سے ہے کہ جنابہ سیکنہ کہتی ہیں کہ امام نے آج ہی کی شب میں بڑے خیمہ پر سب اصحاب کو جمع کیا اور خطبہ ارشاد فرمایا: جس میں پروردگار عالم کی حمد و ثناء اس شان کے ساتھ ادا کی کہ ہر ہر کلمے پر فصاحت و بلاغت قربان ہو رہی تھی۔
اس وقت سکینہ فرماتی ہیں کہ میں پیاس کے سبب بہت بے چین تھی‘ پھوپھی زینب سے کہا کہ پیاس کے مارے مرجاؤں گی۔ تو وہ خیمہ میں لے گئیں وہاں کے بچے پیاس پیاس کررہے ہیں دوسرے خیمہ میں گئی وہاں کے بچے کوزے ہاتھ میں لیے ہوئے ہیں حتی کہ وہاں پہنچے کہ جہاں امام نے تما م اصحاب کو خیمہ میں جمع کردیا تھا‘ حمد و ثناء توصیف جناب رسالت مآب کے بعد فرمایا: بھائیو! تم دیکھ رہے ہو۔ اب بغیر موت کے کوئی چارہ کار نہیں تم یقین کر رکھو کہ یہ لوگ صرف میرا سر چاہتے ہیں تم سے ان کو کوئی غرض نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تم بہترین اصحاب ہو‘ لیکن یہ میرے قتل پر بس کردیں گے۔ میں نے تمہاری گردنوں سے اپنی بیعت کو اٹھا دیا۔ اگر تمہارا خیال یہ کہ نانا جان تم سے کہیں پوچھیں گے کہ حسین کو کیوں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ تو میں ذمہ لیتا ہوں کہ مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ اور میرے کہنے سے ایسا کردو۔
اس کے بعد اپنے چراغ کو گل کر دیا تاکہ جانے والے چلے جائیں اور ان کو کوئی شرم محسوس نہ ہو۔
سکینہ کہتی ہیں کہ خیمہ سے لوگ نکلنے لگے کچھ چلے گئے۔ میں نے پھوپھی سے کہا کہ میرے باپ کو چھوڑ کر سب کے سب چلے جائیں گے؟
امام نے ایک مرتبہ پھر کہا بھائیو! چلے جاؤ تم سے میں خوش‘ میرا خدا خوش! میرا نانا خوش‘ اجازت دیتا ہوں کہ چلے جاؤ۔ آپ نے پھر دوسری مرتبہ کہا۔
کہ یکدم ایک آواز گونجی۔ معلوم ہوا کہ شیر کی آواز ہے آقا ! کیا فرما رہے ہیں ہم اور آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں گے۔
یہ جناب ابو الفضل بن عباس کی آواز تھی‘ آقا مرنے کی قسم کھائی ہوئی ہے جب تک ہم زندہ ہیں کوئی انگی آپ کی طرف نہ اٹھ سکے گی۔
پھر اس کے بعد اور عزیزوں نے تقریریں کیں پھر سب اصحاب نے تقریریں کیں ظھیر قیس کی آواز بلند ہوئی کہ اگر ۷ مرتبہ قتل کیا جاؤں پھر زندہ ہو جاؤں پھر آٹھویں مرتبہ جلا دیا جاؤں توراکھ کے ذرے بھی امام کے قدموں پر نثار ہوں گے۔
ایک طرف سے آواز آئی ہم کو صحرا کے درندے کھا جائیں اگر آپ کو چھوڑنے کا خیال بھی دل میں لائیں۔ حبیب بن مظاھر کی آواز الگ آرہی تھی۔
چراغ جلا دیا گیا۔ دیکھا کہ کسی نے تلوار کا قبضہ پکڑا ہوا ہے کسی کے تیوری پر بل چڑھے ہوئے ہیں۔
امام حسین علیہ السلام نے سب کو دعا دی۔
ایک شخص کو دیکھا کہ اس کا بیٹا حکومت روم نے پکڑ لیا تھا اس کو فرمایا: تو تو چلا جا۔ اس نے کہا مولا! میں نے ہی خاص کیا گناہ کیا ہے کہ مجھے فرما رہے ہیں چلا جا۔ فرمایا: تیرا جوان بیٹا گرفتار ہے۔ وہ لوگ جو بدلہ مانگتے مجھ سے لے جاؤ اور اسے آزاد کرالاؤ۔
اس شخص نے کہامولی! یہ ایک بیٹا ہے۔ اگر ستر بیٹے ہوتے تو ان سامنے قتل ہوتا آنکھوں سے دیکھتا اور سب سے آخر خود قربان ہوتا۔خیر رات گذر گئی۔ دن چڑھ گیا رات عبادت میں گذری تھی مائیں بیٹوں کو سمجھاتی تھیں بیٹا کل قربانی کا دن ہے اگر تلوار پڑے گی تو منہ نہ پھیرنا۔ ورنہ کوئی کہہ دے گا کہ فلاں کے بیٹے نے پیٹھ پھیر دی۔
نماز صبح کا وقت ہوا۔ حسین نے آسمان کو دیکھا‘ اٹھے آپ کی فوج کے حجاج بن مسروق موذن تھے۔ انہوں نے اذان دینی تھی۔
آپ نے فرمایا: کوئی ہے جو میرے فرزند نوجوان کو بلا لائے‘ علی اکبر کو رات بھر ماں نے سامنے بٹھایا تھا کہ جی بھر کر دیکھ لے‘ کل یہ تصویر رسول خاک و خون میں ملے گی۔ آپ آئے۔
امام نے فرمایا: بیٹا علی اکبر! ادھر آؤ۔
عرض کیا: کیا حکم ہے حاضر ہوں۔
فرمایا: بیٹا آج تم اذان دو گے۔
ان سے اذان دلانے کی غرض یہ تھی کہ آپ چاہتے تھے کہ ان لوگوں کو آخری مرتبہ رسول کی آواز سنا دیں یا بیویوں نے فرمائش کی ہوگی کہ آج علی اکبر اذان دیں۔
اذان دی جارہی تھی۔ معلوم ہورہا تھا کہ کل عالم کا ذرہ ذرہ ہمہ تن گوش ہے اور اذان کو سن رہا ہے۔
صبح کی شروع ہوگئی۔
حضرات! مجھ میں اس قدر دم نہیں کہ پورے واقعات بیان کرسکوں۔ نہ آپ کے پاس وقت ہے۔
وہ وقت آپہنچا‘ کہ لڑائی شروع ہوگئی‘ لاشیں آنے لگیں‘ کوئی کہتا ہے اقا ایک مرتبہ زیارت کرادو۔ اس آواز کے ساتھ کوئی گرتا ہے۔ آپ پہنچے۔ دیکھا کے ایک غلام ہے آپ نے اس کا سرزانو پر رکھا لیا اور رخسار ہے رخسار رکھا۔ اس نے آنکھ کھول دی۔ اس نے کہا: میرے مولا! ذرا صبر کریں رسول خدا آئے ہوئے ہیں۔
جب اصحاب قتل ہوچکے‘ عزیزوں کی باری آئی۔ جنابہ زینب کے دونوں فرزندوں کی لاشیں آگئیں۔
امام حسن کے بچے شہید ہوئے‘ حسین پہنچے لاش لینے کو۔
ہائے میں کیا کروں! دل کو کس قدر ملامت کرتا ہوں کہ اور شہیدوں کا تو نے ذکر کیا لیکن حسن کے یتموں کا ذکر نہ کرسکا۔
دو فقرہ‘ اس یتیم حسن کے متعلق بھی سن لیجئے ۱۳ سال کی عمر ہے‘ امام حسن دنیا سے جا رہے تھے تو اس بچے کی عمر ۳ سال کی تھی‘ آپ نے فرمایا میرے قاسم کو ذرا جلدی بلا لاؤ۔ کوئی قاسم کو لے آیا۔ امام حسن نے سینے سے لگایا‘ پیشانی اور چھرے کو بوسے لیے کہا بیٹا قاسم کم سن بچے ہو بھول جاؤ گے۔ یہ تعویز باندھ دیتا ہوں۔ اس ساتھ رکھنا۔ جب کبھی سخت ترین وقت آجائے گا اسے کھول کر دیکھ لینا تو جب بھائیوں کی لاشوں کے ڈھیر لگ چکے ہوں گے بیٹا یہ دن عاشور کا ہوگا اگر میں ہوتا اپنے بھائی حسین پر جان دیتا‘ میں نہ ہوں گا۔ بیٹا قاسم اس وقت جان قربان کرکے میری عزت رکھنا میری عزت اب تمہارے ہاتھ میں ہے۔
آج سامنے آئے‘ دیکھِتے ہی امام حسن یاد آگئے امام حسین علیہ السلام نے بھتیجے کو گلے سے لگایا۔ اتنے روئے بھائی کی یاد میں کہ قاسم بھی بے ہوش ہوگئے۔
ہوش آنے پر قاسم نے کہا آقا! اجازت دیجئے‘ اجازت ملی۔ قاسم میدان میں گئے‘ گرتے وقت آواز دی‘ چچا جان! اب جارہا ہوں! امام حسین علیہ السلام دوڑے۔ لاش پر پہنچے دشمنوں کو دور ہٹایا۔ لاش کی کیفیت دیکھی۔ خدا کسی چچا کو بھتیجے کی ایسی حالت نہ دکھائے۔ لاش قاسم کی اس شان کے ساتھ لا رہے ہیں کہ منہ کے اوپر منہ رکھا ہوا تھا سینہ سے سینہ ملا ہوا تھا۔ مگر قاسم کے پاؤں زمین پر لگتے آرہے تھے۔ عزہ دارو! سوچو‘ ۱۳ سال کے اندر یہ لاش اتنی بڑھ چکی تھی۔ ان پر صلوات پڑھو‘الهم صلی علی سیدنا محمد و آل محمد و بارک و سلم علیهم‘ انا لله و انا الیه راجعون
۔
لاش جب ماں نے دیکھی ہوگی‘ اس پر کیا کچھ گزری ہوگی۔ حسین جب لاش سمیت خیمہ میں داخل ہوئے‘ ماں خیمہ کے پاس کھڑی تھی‘ تمام بیبیاں جمع ہو کر رونے لگیں مگر ماں نے ایک ہی مرتبہ کہا ہائے قاسم!
لگتا تھا وہ وقت آپہنچا تھا کہ کوئی باقی نہ بچا تھا علی اصغر تک شہید ہوچکے تھے۔
عزہ دارو! ختم کرنا چاہتا ہوں صرف اس قدر عرض کروں گا۔ کہ امام خیمہ میں آئے اور رخصت حاصل کی‘ میدان میں پہنچے اور وہ گھڑی آگئی‘ کہ زخموں سے چور ہیں‘ گھوڑے پر سے نیچے گرے‘ آپ کا زمین پر گرنا تھا کہ ایک مرتبہ زمین ہلی۔ خیمہ میں صرف حسن کا ایک کم سن بچہ ۱-۱/۲ سال عمر کا عبد اللہ بن حسین نام تھا یکدم خیمہ سے باہر نکلا دیکھا کہ دشمنوں نے امام کو اطراف سے گھیرا ہوا ہے۔ جنابہ زینب نے پیچھے سے کرتا پکڑ کر کھینچا‘ کہا پھوپھی چھوڑ دیئے‘ چچا گھوڑے سے گر گئے ہیں دامن کو چھوڑ دو بالآخر دامن کو چھڑا کر چلا‘ ایسے وقت حسین کے پاس پہنچا کہ ایک شخص تلوار مارنے کو تھا آپ نے کہا ملعون چچا نے کیا قصور کیا؟ ظالم نے تلوار کا ہاتھ اس کے ہاتھوں پر مارا‘ دونوں ہاتھ کٹ گئے‘ امام علیہ السلام نے ہاتھ بڑھا کر بچے کو سینہ سے لگا لیا۔انا لله و انا الیه راجعون