مجلس اول :
بسم الله الرحمٰن الرحیم
(
أَ فَغَیْرِ دِیْنِ اللّٰهِ یَبْغُونَ وَ لَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِيْ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ طَوْعًا وَ کَرْهًا وَإِلَیْهِِ یُرْجَعُونَ
)
۔ ( آل عمران : ۸۳ )
حضرات آپ کی خدمت میں جو آیت پیش کی ہے ۔ وہ پارہ سوم کے آخری رکوع کی آیت ہے ، جس کا ترجمہ یہ ہے :
لوگ اللہ کے دین کے سوا اور کسی کی خواہش رکھتے ہیں ۔ حالانکہ اللہ کے لیے آسمانوں والے اور زمین کے باشندے سب کے سب اپنی گردن جھکائے ہوئے ہیں ۔ اور اسی خدا کی طرف باز گشت ہوگی ۔
اس عشرے کی ان مجالس میں صرف مجھے دین خدا کے متعلق عرض کرنا ہے ۔ کہ وہ کیا چیز ہے ؟ او رعقل کے نزدیک حقیقی دین کیا ہونا چاہیے ؟یہی موضوع ہے جسے آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں کہ جس چیز کو دین اللہ کہا جاتا ہے ۔ یعنی اللہ کا دین قرآن میں متعددمقامات پر اس کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ یہ اللہ کا دین ہے ۔
آپ کے سامنے کسی قدر تفصیل کے ساتھ عرض کرنا ہے کہ دین کو فطری ہونا چاہیے یا نہیں ؟ اور دین فطرت کے معنی کیا ہیں ؟ جس کا نام اسلام ہے ۔ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کو دوسرے دینوں سے کیا امتیاز حاصل ہے ؟
دین کے معنی لغت کے اعتبار سے متعدد ہیں : اس کے معنی حساب کے بھی ہیں ، ایک مقام پر قرآن پاک میں فرمایا :
مالک یوم الدین
۔ ( سورة الحمد : ۴ )
خدا مالک ہے روز جزا کا
یہاں جزا کے معنی بھی دین کے آئے ہیں ، اس کے معنی حکم کے بھی ہیں اور بدلے کے اور عزت کے معنی بھی ہیں ۔ علاوہ ازیں بہت سے معنی ہیں ۔ایک معنی یہ کہ وہ چیز جس کے ذریعے خدا کی عبادت مطلقاً کی جائے اسے دین کہتے ہیں یعنی وہ طریقہ جس کا پابند ہو کر انسان خدا کی عبادت کرے ۔ارشاد ہوتا ہے :
(
إِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْإِسْلَامُ
)
( ال عمران : ۱۹ )
خدا تعالیٰ کے نزدیک دین کیا ہے ؟ اسلام ہے ۔
اسلام کے معنی ہیں :
الإنقعاد لامر لآمر والنهی وبلا امتیاز
۔
یعنی کسی حکم دینے والے کے حکم کی اطاعت کرنا اور منع کرنے پر رک جانا بغیر کسی اعتراض کے یا امتیاز کے اصطلاحی اعتبار سے مسلم حقیقتاً وہ ہے جو پروردگار حقیقی کے اوامر و نواہی کے سامنے بغیر اعتراض کئے اپنی گردن کو جھکا دے ۔
یہ معنی لغت کے اعتبار سے ہیں ۔اس ضمن میں کچھ اور آیات مبارکہ پیش کرنا چاہتا ہوں ۔ علی ھذا القیاس اس ذیل میں احادیث صحیحہ کو بھی عرض کروں گا ۔
صحیح بخاری میں غالباً اسی لغت کے اعتبار سے اسلام کے لغوی معنی کی تائید ہوتی ہے :
المسلم من سلم المسلمون من لسانه ویده
۔
مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ سے اور اس کی زبان سے تمام مسلمان محفوظ رہیں ۔
یہ حدیث مبارک ابتداء صحیح بخاری میں نقل ہوئی ہے ۔ اسی طرح جنت کا نام ہے دارالسلاماور دارالسلامکے معنی ہیں ” وہ گھر جو عیب و نقص سے پاک ہو بحیثیت گھر ہونے کے “۔اسی طرح پروردگار عالم کا نام السلام قرآن شریف میں یہ نام آتا ہے۔ اس کے معنی ہیں ” وہ ذات پاک جو تمام برائیوں اور نقائص سے پاک اور مبرّا ہے “۔ پس اسی لفظ السلام اور مسلم سے ہی وہ چیز نکلتی ہے جس کا نام اسلام ہے یعنی اسلام کے معنی محفوظ رکھیں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ کون مسلمان ہے ۔ اور کون مسلمان نہیں اور کون کافر ہے اور کافر نہیں ؟ اس طرح آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ حقیقت اسلام کیا ہے ؟ کوئی زمانہ ہو پروردگار حقیقی نے ہر شے کو اس کی فطرت پر پیدا کیا ہے ۔ انسان کی جو فطرت بنائی اس کے دماغ اور دل کے اندر کچھ ایسے خاص لوگوں کی تصویریں محفوظ کردیں جن کی وجہ سے پروردگار کی صحبت پوری ہوتی رہی اور پوری ہورہی ہے ۔ وہی اسلام کے حامل تھے اور وہی مسلم ، وہ ہر طرح سے محفوظ اور سالم ۔ پس ان لوگوں کو چھوڑ دو کہ جن کے ذہن میں نقائص تھے اور وہ محفوظ نہ تھے ۔اس لیے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کون لوگ تھے جو حقیقت میں مسلم تھے ۔ مسلم کے معنی کے اور اسلام کے پابند تھے ۔
عام طور سے انسان گناہ گار ہے کون ہے جو غیب نہ رکھتا ہو ۔ بہر حال کسی کے عیب کا تجسس کرنا صحیح نہیں ۔ اب وہ جو حقیقی مسلمان ہیں او رصحیح طور سے اسلام کے معنی ان میں موجود ہیں ان کو صرف اشارة پیش کرتا ہوں اور آپ کا دل سچ مچ تصدیق کرے گا ۔ابھی تعریف کی گئی ہے کہ جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں وہ ہے مسلم۔میرا کسی سے کوئی تعرض نہیں لیکن یہ آواز بلند عرض کرتا ہوں کہ کیا ہے کوئی دنیا میں جو کہے کہ کبھی اہل بیت کے کسی فرد کے ہاتھ سے کسی کو نقصان پہنچا ہو ۔ یہ وہ دعویٰ ہے کہ جس کا دل اور زبان سے نکلا ہوا جواب یہی ہے کہ کسی شخص کو دنیا میں زبان و دست اہل بیت اطہار علیہم السلام سے کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچا جیسا کہ اسلامی تاریخیں شاہد ہیں۔
یہ ایک مسلم حقیقت ہے چاہے جاہل سے یا عالم سے دریافت کرلیں سب کا نقطہ نظر ایک ہوگاکہ اہل بیت اطہارعلیہم السلام ہی وہ مسلمان ہستیاں ہیں جن کے ہاتھوں سے کسی کو کبھی ضرر نہیں پہنچا اور لوگ ان کی زبان اورہاتھ سے ہمیشہ محفوظ رہے۔
تاریخ ا سی بات پر گواہ ہے اور قیامت تک یہ پردے اٹھاتی رہے گی کہ کون تھا جس کی عادت گالیاں دینے کی تھی اور کس کے ہاتھوں سے بے گناہ لوگوں کی جان خطرے میں پڑی۔
عبرت ناک واقعہ پیش کرتا ہوں جو تاریخ ابن کثیر وغیرہ متعدد تاریخوں میں موجود ہے ( ) ۔ ایک عورت پر اس کے قبیلے کے لوگ اور اس کا شوہر زنا کا الزام لگاتے ہیں اور حاکم وقت سے کہا جاتا ہے کہ چھ ماہ میں اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے۔ اس لیے اس پر حد زنا جاری کی جائے اس کے شوہر اور لوگوں کی گواہی پر عادل وقت نے حکم دیا کہ اس عورت کو لے جاؤ اور سنگسار کردو۔ اس لیے کہ بچہ سالم ہے اس کے اعضاء درست ہیں اور چھ ماہ میں پیدا ہوا ہے۔حاکم وقت نے حکم دیا۔ سنگسار کردو۔ یعنی اس قدر پتھر مارے جائیں کہ وہ وہیں اسی وقت مر جائے۔لوگ عورت کو لے گئے۔ شوہر اور قبیلے والوں کا منشاء بھی یہی تھا۔امیرالمومنین مولا علی علیہ السلام کو اس بات کا پتہ لگا۔ جلدی تشریف لائے حاکم سے پوچھا:”کیا تم نے ایسا حکم دیا ہے؟ “
اس نے عرض کیا : ہاں سوائے اس کے اور کوئی صورت نہ تھی۔
فرمایا : قرآن کی آیتیں تمہیں یاد نہ رہیں؟
کہا : کونسی ؟
فرمایا :آیت :
(
وَ الْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلَادَ هُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ
)
۔ ( سورة البقرة : ۲۳۳ )
یہ کہ مائیں دو سال کامل دودھ پلائیں گی
اور دوسرے مقام پہ قرآن میں فرمایا:
(
وَ حَمْلُهُ وَ فِصَالُهُ ثَلَاثُوْنَ شَهْرًا
)
( سورة احقاف : ۱۵ )
دودھ پلائی اور حمل کا زمانہ تیس (۳۰) مہینے ہے۔
پس اگر دو سال کی مدت اس مدت سے نکال دی جائے تو باقی چھ ماہ رہیں گے۔ پس کم از کم مدت حمل چھ ماہ ہوئی اور اس اعتبار سے حمل کی چھ ماہ مدت جا ئز مدت ہے۔
حضرات ! قرآن کی آیتیں تو سب پڑھتے ہیں اور رسول کے زمانے میں ان کے پاس بیٹھ کر سنتے تھے۔ وہ خالص عرب کے رہنے والے تھے عربی دان تھے ، عرب میں پلے تھے عربی مادری زبان تھی لیکن جب امیرالمومنین علی علیہ السلام نے مذکورہ آیتیں پڑھ کر سنائیں توسب کے سب آدمی متحیر ہوگئے ۔ گویا کہ کبھی یہ آیتیں پڑھی ہی نہ تھیں حاکم وقت نے فوراً حکم دیا کہ جلدی واپس لاؤ اس عورت کو ۔ مگر آہ ! افسوس! اس حکم کے پہنچنے سے پہلے وہ عورت سنگسار ہوچکی تھی ۔ اور روایت میں ہے کہ جب اس عورت کو کھڑاکیا گیا اس کی بہن چیخ مار کر رونے لگی۔ تو اس عورت نے یعنی سنگسار ہونے والی عورت نے کہا :یا اختي ! لا تحزني
” پیاری بہن ! بالکل نہ گھبرانا ہرگز رنج نہ کرنا جس خدا نے مجھے پیدا کیا اس کی قسم کھا کے کہتی ہوں کہ میں نے ساری عمر آج تک وہ گناہ نہیں کیا جس کے عوض میں آج مجھ بے گناہ کو سنگسار کیا جارہا ہے “۔تو کیا اس حقیقت کے سامنے آجانے کے بعد وہ لوگ حق بجانب تھے یا نہیں جن کو اس عورت سے تعلق تھا یا اس کے رشتہ دار تھے اور ان کو صدمہ پہنچا اور وہ یہ کہیں کہ یہ عورت بے گناہ مار ڈالی گئی۔
یہ ایک معمولی سا واقعہ ہے جو گوش گذار کیا گیا۔آخری فقرہ اس واقعہ کا اور بھی ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کو جب معلوم ہوچکا کہ یہ عورت سنگسار ہوگئی ہے تو آپ کو اس قدر قلق ہوا کہ برداشت نہ کرسکے اٹھ کھڑے ہوئے اور چلے آئے اور سب لوگ دیکھ رہے تھے کہ یہ کیا ہوگیا۔
پس حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ سالم رہیں ہوں لہذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ خون ناحق کس کی گردن پر ہوا؟ اور وہ حقیقی مسلمان ہے؟ حضرت علی علیہ السلام کے اس فیصلہ پر کون گواہی دیتا کیونکہ ان حالات کا کوئی شاہد عینی نہیں ہوتا اس لیے فطرت نے بڑھ کر شہادت دی جب یہ بچہ پیدا ہوا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ اپنے باپ کے بالکل شبیہ تھا اور امیر ا لمومنین کے فیصلے کے بعد وہ پشیمان تھا اور اسے یقین ہوچکا کہ وہ اس کا بیٹا ہے۔ پھر وہ ایسی بیماری میں مبتلا ہوگا کہ فرش پر اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے گرتے جاتے تھے۔
پس امیر المومنین کتنے بڑے عالم تھے اور حقیقی مسلم وہی شخص ہوسکتا ہے جو اتنا بڑا عالم ہو اور اس قدر قرآنی علم کا مالک ہو۔ اس کے فیصلے میں بھی غلطی نہیں ہوسکتی۔پس میرا دعویٰ حقیقت ہے کہ اہل بیت علیہم السلام ہی وہ ہیں جن کی زبان اور ہاتھ سے آج تک کسی کو قول کے مطابق بھی یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ فلان شخص کو کوئی تکلیف پہنچی ہو۔
اس کے ساتھ دوسری حیثیت علم کی ہے‘ ہے کوئی دعویٰ کرنے والا ؟ کہ اہل بیت علیہم السالم سے زیادہ کوئی اور عالم تھا ؟ اوّل عمر سے آخر عمر تک مسلم اس معنی کے اعتبار سے کہ حقیقی مسلمان وہ ہے جس سے مسلمان محفوظ رہے ہوں اہلبیت علیہم السلام ہی ہیں۔ یوں تو آج ہم بھی مسلمان ہیں مگر معلوم نہیں کتنے لوگ ہیں جو اس معیار پر پورے اتریں۔ لیکن ہے کوئی شخص جو پیش کرسکے کہ سوائے اہل بیت کے وہ اس معیار پر پورا اترا ہو!پھر یہ واقعہ خود اس امر کی دلیل ہے اہل بیت سے زیادہ کوئی عالم قرآن نہ تھا۔
قرآن مجید ہر ایک کے گھر میں ہے اس کے یاد کرنیوالے یعنی حافظ لوگ لاکھوں ہوں گے اور ترجمہ یاد کرنے والے بھی لاکھوں ہوں گے لیکن یاد کرنا یا ترجمہ جاننا اور چیز ہے اور حقیقی حیثیت سے قرآن کو سمجھنا اور چیز ہے۔ کیا یہ لوگ جو اصحابِ رسول کہلاتے تھے۔ قرآن نہیں جانتے تھے ؟چونکہ میری زبان سے وہ لفظ نہ نکلے گا جو کسی کو بھی گراں گذرے اس لیے کہتا ہوں کہ یہ لوگ تفسیر ظاہری جانتے تھے باوجودیکہ انہیں صحبت رسول حاصل تھی۔ لیکن صحبت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں عمر گذارنا اور بات ہے اور قرآن کو سمجھنا اور بات ہے۔ یعنی قرآن کے معنی جاننا اور بات ہے اور مقصد حقیقی سمجھنا اور بات ہے۔
تاریخی واقعہ ہے کہ ہارون الرشیدجیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے بہت شراب پیا کرتا تھا چونکہ خلیفہ المسلمین اور امیر المومنین کہلاتا تھا۔ یعنی ایمان والوں کا خلیفہ یعنی ایمان والوں کا حاکم بلکہ خلیفہ رسول کہلاتا تھا۔ چونکہ شراب کی عادت بہت زیادہ تھی۔ اس لیے فکر رہتی تھی کہ کسی صورت سے شراب جائز ہو جائے اگر جائز ہوگئی تو میں برابر شراب پیتا رہوں گا اور لوگ بھی اپنے گھروں میں یہ ذکر نہ کیا کریں گے کہ امیر المومنین شراب پیتے ہیں۔حسب دستور دربار میں بڑے بڑے عالم اور فقیہ جمع تھے سوال پیش کیا کہ قرآن مجید میں شراب کی حرمت کا ذکر کہاں ہے؟ اور اگر حرام نہیں تو پھر پینے میں کیا حرج ہے؟ علماء نے آیت پڑھی :
(
إِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْأَنْصَابُ وَ الْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْهُ
)
( سورة المائدة : ۹۰ )
کہ سوائے اس کے نہیں کہ شراب جوا وغیرہ وغیرہ شیطان کے کام ہیں، پلید چیزیں ہیں پس ان سے بچو! ان سے اجتناب کرو۔
ہارون الرشید نے کہا :” اجتناب کی سے بچنے کا حکم تو ہوسکتا ہے اور یہ کراہت کی حیثیت سے بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ مکروہ سے بھی بچنے کا حکم قرآن شریف میں ہے تم قطعی حرمت کا حکم قرآنی سند سے پیش کرو؟ “
فقہاء نے کہا : خدا فرماتا ہے:
(
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ قُلْ فِیْهِمَا إِثْمٌ کَبِیْرٌ وَ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ إِثْمُهُمَا أَکْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا
)
(سورة البقرة : ۲۱۹ )
اے رسول! لوگ شراب اور جوئے کے بارے میں سوال کرتے ہیں فرمائیے ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے نفع بھی ہے لیکن ان دونوں کا گناہ ان دونوں کے نفع سے بہت بڑا ہے ۔
پس اس آیت میں گناہ کا ذکر ہے اور شراب کا استعمال گناہ ہے۔ ہارون نے کہا: آیت کریمہ میں گناہ کے ساتھ منفعت کا بھی تو ذکر ہے ‘ لہٰذا زیادہ سے زیادہ شراب میں یہ نسبت نفع کے برائی زیادہ ہے اور وہ حد کراہت تک پہنچ سکتی ہے تم بتاؤ کہ (( شراب حرام ہے )) یہ کس آیت قرآن سے ثابت ہوتا ہے؟ “
ہارون کے اس سوال پر تمام علماء و فقہاء حیران رہ گئے اور مجبوراً ایک ہفتے کی مہلت مانگی چنانچہ مہلت دے دی گئی ۔ علماء نے حافظوں کو بلالیا اور کہا کہ قرآن کو متعدد بار پڑھو تاکہ کسی آیت سے شراب حرام ثابت ہو جائے چھ دن گذر گئے تمام کے تمام عاجز آگئے صرف ایک دن باقی رہ گیا تھا اور دوسرے دن حاضر دربار ہونا تھا سب پریشان ہیں کہ غضب ہوا کل شراب جائز ہوجائیگی اور امیر المومنین کی بھی خواہش یہی ہے اور اس طرح کل لوگوں میں شراب مقبول ہو جائے گی۔ایک شخص نے کہا اگر تم ضرور چاہتے ہو کہ حرمت شراب ثابت ہو جائے تو اس کے لیے صرف ایک دوازہ ہے ہاں تم اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہو۔سب نے پوچھا وہ کون؟
کہا : وہ جناب امام سیدنا موسیٰ کاظم علیہ السلام کی ذات بابرکات ہے۔
اب امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے در اقدس پر پہنچے ، آنے کی اجازت چاہی۔
فرمایا : کیوں پریشان ہو کہاں سے آئے ہو، کیا مقصد ہے؟
عرض کیا: یا حضرت ! آپ کے نانا کا دین برباد ہونے لگا ۔ ہم عاجز آچکے ہیں ہماری سمجھ میں اس سوال کا کوئی جواب نہیں آیا۔ کیا قرآن مجید کی رو سے شراب قطعی حرام ہے؟
ارشاد فرمایا :کیوں نہیں ! یقیناً قرآن سے ثابت ہے کہ شراب حرام ہے عرض کیا گیا کہ ایک ایک کو بیس بیس مرتبہ پڑھ چکے مگر کوئی پتہ نہ چلا۔
ارشاد فرمایا: اھل البیت ادریٰ بما فی البیت” قرآن ہمارا ہے ہم قرآن کو جانتے ہیں اور جو کچھ اس میں ہے اس کو بہتر جانتے ہیں۔“
سب نے عرض کیا: ارشاد فرمائیے ۔
فرمایا: جس طرح کسی لفظ کے استعمال میں یا معنی کے سمجھنے میں آپ حضرات کو شک ہونے لگے کہ یہ لفظ صحیح ہے یا غلط؟ مذکر ہے یا مونث؟ تو آپ کیا کریں گے ۔
یعنی یہ کہ کسی ایسے ادیب یا شاعر کا شعر تلاش کریں گے جس کی زبان مستند ہو۔(مثلاً انیس مرحوم کے کسی مصرعے سے آج کل ہم لوگ کسی لفظ کے متعلق جب اختلاف ہوتا تھا تو جاہلیت کا کلام پیش کیا کرتے تھے۔ جو خالص زبان میں ہوتا تھا۔ ان کے کلام میں دوسری زبان مخلوط نہ ہوتی تھی اور اسلام کے آنے کے بعد ادھر ادھر کے لوگ اسلام میں داخل ہوئے اور زبان غلط ملط ہونے لگی۔)
پس حضرات امام سیدنا موسیٰ کاظم علیہ السلام نے اس زمانے کے اشعار پڑھے جس کا معنیٰ یہ تھا میں نے اثم کو پیا اور نشہ میں ہوگیا۔
آپ کا اشعار کو پڑھنا تھا سب نے تسلیم کیا کہ اثم کے معنی عربی زبان کے اندر شراب کے آتے ہیں اور خالص عربی شاعر مستند زبان والوں نے اثمکے لفظ کو شراب کے معنی میں استعمال کیا ہے۔
اس کے بعد حضرات امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :اب سورہ اعراف کو پڑھو:
(
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَ الْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ
)
(سورة الاعراف : ۳۳ )
پس اس آیت کریم کے رو سے صاف واضح ہوگیا کہ خداوندِ کریم فرما رہا ہے :
کہ اے محبوب فرما دیجئے سوائے اس کے نہیں میرے پروردگار نے تمام بے حیائیوں (فحش باتوں) اور تمام گناہوں (اثم) کو حرام کردیا۔ پس چھوڑ دو شراب کو (جو اثم ہے)۔ جو کچھ اس کا ظاہر ہو اسے بھی چھوڑ دو اور جو باطن ہو اسے بھی چھوڑ دو۔“
حضرت امام نے ارشاد فرمایا : تم دیکھتے نہیں کہ اس آیت کریمہ میں پروردگار نے اثمکو حرام کردیا جس کے معنی عرب کے محاورے میں شراب کے ہیں۔ لہٰذا شراب کی حرمت لفظ حرمت کے ساتھ موجود ہے یا نہیں؟
تمام صاحبان علم اچھل پڑے اور اقرار کیا کہ بے شک قرآن میں لفظ حرام کے ساتھ شراب کی حرمت موجود اور ثابت ہے۔ دوسرے دن خوشی خوشی ہارون الرشید کے دربار میں پہنچے اور ثابت کیا کہ شراب قرآن کی رو سے حرام ہے ہارون الرشید حیران ہوگی کہ یہ آیت کہاں سے مل گئی آخر اس نے کہا :کہ یہ سب کچھ تمہارے دماغوں کا نتیجہ نہیں ہے سچ بتاؤ یہ ثبوت کس کے ذریعے ملا؟
سب نے عرض کیا : (( سیدنا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے درپاک سے )) ۔
ہارون الرشید نے تصدیق کی زبان کھولی کہ ہاں ہاں بے شک قرآن کے جاننے والے وہی ہیں۔
حضرات! میں عرض کر رہا تھا کہ صحیح بخاری میں مسلمان کے معنی ہیں۔جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں اور یہ ناممکن ہے جب تک کہ وہ تمام احکام قرآن سے واقف نہ ہو۔
تاریخ شاہد ہے کہ اس واقفیت کے دعویدار صرف اور صرف اہل بیت تھے۔
یاد کیجئے مولا علی علیہ السلام کا وہ ارشاد فرماتے ہیں:
(
سُلُونِي سُلُوْنِيْ قَبْلَ أَنْ تَفْقَدُوْنِيْ
)
کہ لوگو ! میں زمین اور آسمان کی تمام باتوں کو جانتا ہوں میری موت کے آنے سے پہلے پوچھ لو جو کچھ پوچھنا ہے ۔ ہم تورات کو بھی جانتے ہیں انجیل کو بھی جانتے ہیں۔ قرآن کو بھی جانتے ہیں۔
آپ نے مزید ارشاد فرمایا:
اگر اہل تورات آئیں گے تو ہم تورات سے فیصلہ کرینگے اہل انجیل آئیں تو انجیل سے فیصلہ کرینگے اور اہل قرآن آئیں تو قرآن سے فیصلہ کریں گے ان سب کتب آسمانی کے مالک ہم ہیں اور سب کے ماہر ہم ہیں۔
دنیا میں پروردگار کی طرف سے یہ فقرہ ہمیشہ موجود رہا اور رہے گا اور آپ لوگ اپنے دل میں اس فقرے کو جگہ دیں کہ پروردگار کی حجت ہمیشہ باقی رہی ، ہر زمانے میں اس کی حجت تمام ہوتی رہی اور ہوتی رہتی ہے ۔ جب تک ہم میں اس کی حجت باقی رہے گی کلام حق ثابت اور باقی رہے گا۔ ہم نماز پڑھتے ہیں تو اس حجت کے ساتھ ہماری نماز کا صحیح ہونا ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح تمام دین کی باتیں اور سارا دین خدا کی حجت کے ساتھ ہی ثابت ہے۔ ہاں وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جہاں دین اسلام پہنچا ہی نہیں۔اس زمانے کے لوگوں سے پہلے زمانے کے لوگ زیادہ منصف تھے۔ وہ لکھ گئے اور صاف لکھ گئے تاکہ پروردگار کی حجت مخفی نہ رہے زمانے میں انقلابات آتے رہتے ہیں مگر ان کے قلموں سے حق بات نکل گئی جس کے سب خدا کی حجت تمام رہی اور رہے گی۔ میں کبھی اس مقدس مقام پر صرف آپ کو خوش کرنے کے لیے کوئی ایسی بات نہ کہوں گا نہ کہتا ہوں جو حقیقت کے خلاف ہو۔ آپ گھروں میں جائیں اور سوچیں کہ پہلے لوگوں کی آوازیں اور کلمات صفحات تاریخ پر جلی طور موجود ہیں۔
لا بیق من اللّٰه
خدا مجھے اس وقت کے لیے زندہ نہ رکھے کہ جب کوئی مشکل مسئلہ در پیش ہو اور علی ( علیہ السلام ) موجود نہ ہوں۔
ا ور کبھی کبھی یہ الفاظ نکلے ہیں۔
میں ایک قصہ عرض کرتا ہوں جو ایک اور وقت میں ہوا مکمل ذمہ داری سے بیان کرتا ہوں آپ چاہیں تو پوچھ سکتے ہیں کہ یہ واقعہ کہاں ہے؟ مذکورہ بالا واقعہ کی طرح ہی ایک واقعہ وقوع پذیر ہوا امیر المومنین مولا علی علیہ السلام عین اس وقت پہنچ گئے جب مجرم کو لوگ لے جارہے تھے۔
آہ ! کتنی جرءت ہے کہ ایک انسان کی جان جس کو اس قدر محترم قرار دیا ہے کہ اگر اس جان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہو تو اس کو بچانے کے لیے حرام چیز کے کھانے کی اجازت دے دی جائیبفرمان و من اضطر غیر باغ ولا عاد فلا اثم علیہ ، ایسی محترم جان کو بچانے کا وسیلہ وہ ذات پاک بنے۔ جس کے متعلق زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ابھی آپ نے سنے۔
حضرات! موضوعِ تقریر پر صرف سلام ہے آیت تلاوت کردہ میں فرمایا ہے :
(
أَ فَغَیْرِ دِیْنِ اللّٰهِ یَبْغُوْنَ
)
( سورة آل عمران : ۸۳ )
کیا لوگ خدا کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں۔
ایسا ہر گز نہ کریں خدا وہ ہے جس کے سامنے آسمان اور زمینوں کی تمام چیزیں سر خم کئے ہوئے ہیں اور دینوں میں سے کون سا ایسا دین ہے کہ اسے دین اسلام کے مقابلے میں قبول کیا جائے پروردگار نے قرآن پاک میں دوسری جگہ پھر ارشاد فرمایا:
(
وَ مَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الْإِسْلَامِ دَیْنًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْهُ
)
( سورة آل عمران : ۸۵ )
کہ جو شخص بھی اسلام کے سوا کسی اور دین کی خواہش کرے گا اس سے وہ دین قبول نہ ہوگا بس خواہش کے قابل صرف اسلام ہے۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات ابھی تک نامعلوم رہی کہ وہ ہے کیا؟ وہ کونسی شئے ہے جو دین اللہ ہے ؟یعنی وہ پروردگار کا دین ہے لیکن میں انشاء اللہ انہی آیتوں سے ثابت کرونگا کہ وہ کیا ہے۔ایک اور مقام پر پروردگار فرماتا ہے:
(
شَرَعَ لَکُمْ مِنَ الَّذِیْنَ مَا وَصّٰی بِهِ نُوْحًا وَ الَّذِي أَوْ حَیْنَا إِلَیْکَ وَ مَا وَصَّیْنَا بِهِ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی أَنْ أَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْهِ کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ
)
کہ تمہارے لیے خدا تعالیٰ نے بیان کردیا وہ جو نوح علیہ السلام کو حکم دیاتھا اور وہ جو میرے اوپر وحی بھیجی اور پروردگار نے بیان کردیں جو ابراہیم اور موسیٰ علیہ السلام کو وصیت فرمائیں تھیں اور ان سب کو یہ حکم ملا تھا۔
ان اقیم الدین و لا تفرقوا
کہ دین کو قائم کئے رہنا اور خبردار تفرقہ نہ ہونے پائے۔
سوال یہ ہے کہ دین کو قائم رکھنا کب سے چلا آرہا ہے۔ ابراہیم ، موسی اور نوح علیہم السلام کو یہی خطاب ہوا۔ پس پروردگار نے فرمایا: میں نے تمہارے لئے نوح ، ابراہیم اور موسیٰ علیہم السلام وغیرہ کی تمام وصیتیں بیان کردی ہیں۔ آج یہ پتہ نہیں کہ ان پیغمبروں کے صحیفوں میں کیا احکام تھے۔ پس عمومی حیثیت سے یہ خطاب عام لوگوں سے نہیں ہے۔ بلکہ اس کے مخاطب مخصوص لوگ ہیں۔ جن کے لیے یہ وصیتیں بیان ہوئیں اور وہ خاص لوگ اہلبیت اطہار علیہم السلام ہیں۔ ان کے لیے ارشاد ہوا :
(
فَأَقِمْ وَجْهَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا
)
کہ اپنے چہرہ پاک کو مضبوط ترین دین کے لہیے قائم رکھو جو اللہ تعالیٰ کی فطرت ہے جس پر لوگوں کو پیدا کیا اور اس میں کوئی کسی طرح کی تبدیلی نہیں۔
غرض ہرجگہ پروردگار نے فرمایا کہیں اس کو دین کہا کہیں اسلام۔ کہیں ملت ابراہیمی فرمایا:
(
إِنِ إتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِیْمَ حَنِیْفًا
)
( سورة النحل : ۱۲۳ )
کہ اے حبیب ! اپنے داد ابراہیم علیہ السلام کی ملت کی پیروی کرتے رہو ۔
اور کہیں ارشاد فرمایا:
(
من یرغب عن الملة ابراهیم الا من سفه نفسه
)
کہ جو ملت ابراہیمی سے نفرت کریگا وہ کمینہ ہے ذلیل ہے بیوقوف ہے۔
آیئے دیکھئیے ملت ابراہیمی کا مطلب کیا ہے۔
ارشاد ہوتا ہے: و ما کان استغفار ابراھیم لا بیہ الا عن موعدة کہ آپ نے اپنے باب آذر کے ساتھ وعدہ کرلیا تھا کہ میں تیسرے لیے استغفار کرونگا۔ تو انہوں نے استغفار شروع کی۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ مفسرین نے آپ کے باب کا نام آذر لکھا ہے۔ جو بت تراش تھا۔ یہ حقیقتاً آپ کا باپ نہ تھا۔ بلکہ چچا تھا چونکہ آپ نے پرورش اس کے گھر میں پائی تھی۔ اس لیے اس کو مجازی باپ کہتے تھے۔ آپ کے حقیقی باپ کا نام تارخ تھا دیکھئیے ملاحظہ فرمائیے۔ تفسیر کبیر امام رازی
اس باپ کے متعلق قرآن فرماتا ہے کہ جب آپ نے استغفار شروع کیا۔فلما بین له انه عدو الله تبرأ منه
۔ کہ ابراہیم علیہ السلام پر یہ واضح ہوگیا کہ آذر اللہ کا دشمن ہے۔ تو حضور نے اس سے بیزار ہونے کا اعلان فرمایا۔
پس معلوا ہوا ہے کہ مطلب ملت ابراھیم کا یہ ہے کہ جب انسان کو پتہ چل جائے کہ فلان شخص خدا تعالیٰ کا دشمن ہے تو اس سے بیزاری کا اعلان کردیا جائے ورنہ ملت ابراہیم سے نفرت ثابت ہوگی اور جو ملت ابراہیمی سے نفرت کرے گا وہ کمینہ ہے۔ ذلیل ہے بے وقوف ہے۔
پس حضرات! یہ ہی سبب ہے آپ یاد رکھیں اور آپ بہتر جانتے ہیں کہ محبت الہٰی۔ اس وقت تک کامل اور حقیقی نہیں ہوسکتی۔ جب تک اس کے دشمن سے نفرت نہ ہو۔
اور کوئی شخص نہیں جو اس حقیقت سے انکار کرسکے دولت کے دشمن سے نفرت ہی دوست سے محبت کرنے کی دلیل ہے اور محبت غرض خلقت عالم ہے۔ اگر محبت نہیں توغرض خلقت عالم پوری نہ ہوگی اور عرض اگر نہ پوری ہوئی تو انسان کی خلقت عبث ہوگی جو محال ہے۔
پس محبت ہونی چاہیے‘ اگر محبت لے کر اس دنیا سے نہ گیا۔ تو یقیناً ناقص رہا۔
محبت کس کی ہو۔ خدا کی محبت ہو۔ مگر عامة الناس نہ خدا کو دیکھ سکتے ہیں نہ بات کرسکتے ہیں نہ اس کی رضا و غضب کو پہچان سکتے ہیں۔
اس لیے خدا تعالیٰ نے اپنے مخصوص بندے بھیجے اور حکم دیا کہ ان سے محبت کرو۔ ان بندوں میں کوئی عیب نہیں یہ بندے الہٰی صفات جمالی و جلالی کے مظہر ہیں۔ اگر کسی سے یہ خفا ہوگئے تو میں (خدا) خفا ہوا اور اگر وہ کسی سے راضی ہوگئے تو میں (خدا) بھی راضی ہوگیا۔
پس اگر ان خاص بندگان الہٰی سے محبت ہوگئی اور کوئی ان کا دشمن نکل آیا جس سے نفرت نہ کی گئی تو محبت پوری ہوگی کیونکہ یہ محبت کی اہم شرط ہے۔
میرے اس بیان سے کوئی شبہ میں نہ پڑ جائے کہ رسالت مآب صلعم دین ابراھیمی کا اتباع کرتے تھے اور خود آپ کا کوئی دین نہ تھا۔ میرا یہ مطلب نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد ملت ابراھیمی کی مخصوص چیزیں ہیں۔
قرآن مجید میں دوسرے مقام پر آیا ہے۔ جہاں ابراھیم علیہ السلام کے استھ دیگر انبیاء کا ذکر کیا اور فرمایا۔ اولئک الذین ھدی ھو اللہ فبھذاھم اقتدہ کہ یہی لوگ اللہ کے ہدایت یافتگان ہیں ان کی ہدایت کی تم اقتدا کرنا۔ بظاہر اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ تمام نبیوں کی اقتدا کرنا۔
حاشیہ:
اغوث صلعم کو ملت ابراھیمی کے اتباع کا حکم ہوا ہے نہ کہ دین ابراھیمی کا دین اور ہر شریعت اور ہر ملت اور دین ماہیت کلیہ ہے جو کل انبیاء کا ایک ہی ہے۔ اس میں تغیر و تبدل اور نسخ نہیں ہوتا۔ شریعت ہ رنبی کی الگ اور اس میں نسخ اور تغیر و تبدل ہے۔ ملت شے دیگر ہے اس کا مطلب ہے۔ امامت اور خلافت کو ذریت میں قرار دینا۔ پسملت کے اتباع کا حکم ہوا تھا۔ نہ کہ دین یا شریعت کا اتباع کیونکہ شریعت ابراھیمی منسوخ ہوگئی اس لیے اس کا اتباع ناممکن ہے۔ دین تمام انبیاء کا ایک ہی تھا اس میں اتباع بامعنی ہے۔
تحقیق اس امر میں یہ ہے کہ اصول میں تقلید حرام ہے۔ فروعات میں تقلید ناجائز اس لیے اسلام سے پہلے تمام دین منسوخ ہوگئے یعنی ان کے اصول پرعمل حرام ہے اور فروعات اور اصول میں مطلق حیثیت سے تقلید ناجائز ہے۔ تو پھر اقتدار کا حکم اور معنیٰ کیا ہوا۔؟
حقیقت یہ ہے کہ کچھ اصول میں کچھ فروع ہیں ارو کچھ اخلاق ہیں۔ تو یہ اقتدا ان گذشتہ انبیاء کے اخلاق کی ہے۔ ان کے اخلاق کے متعلق حکم ہوا کہ اتباع کر نہ اصول سے یا فروعات سے کوئی تعلق رکھ اس لیے کہ دین اسلام ناسخ ہے اورفروعات سے کوئی تعلق نہیں لہذا شریعت محمد سابقہ شریعتوں کی ناسخ ہے۔
یہ دلیل واضح دلیل ہے۔ کہ تمام انبیاء کرام سے حضرت سرکار دو جہاں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم افضل ہیں۔ ا سلیے جتنی صفات کمالیہ ان میں تھیں تمام ذات پاک جناب محمد مصطفیٰ میں یکجا موجود تھیں۔
مثلاً بعض انبیاء میں جلال تھا کہ جہاد کرتے تھے قوت غضبیہ ان کی بلند ہوتی تھی۔ لیکن بعض انبیاء کو بھیجا۔ تو یہ حکم ملا کہ خبردار تلوار نہ اٹھانا صرف نرمی سے تبلیغ کرنا۔ یہ مطلب نہیں کہ ان میں قوت غضبیہ تھی ہی نہیں جس کے سبب جلال پیدا ہوتا ہے او رجہاد کیا جاتا ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ان قوت غضبیہ ایسی نہیں تھی جیسے موسیٰ علیہ السلام میں تھی۔ کہ ایک کہنے والے نے کسی کی شکایت کی تو آپ نے دوست کے دشمن کو ایک ایسا گھونسا رسید کیا کہ اس کا کام تمام کردیا۔ اس کے برعکس ایک وہ تھے کہ جو یہ کہتے ہوئے آئے کہ اگر کوئی تمہارے ایک رخسار پر کوئی طمانچہ مارے تو تم دوسرا رخسار اس کے آگے کردو۔
تو جناب محمد مصطفیٰ صلی علیہ وآلہ وسلم تمام صفات متضادہ کے جامع ہو کر آئے۔ شجاعت اتنی کہ تمام لوگ جنگ حنین آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مگر جہاں یہ تمام مورخین کا اتفاق ہے کہ آپ کے پائے استقلال میں جنبش ہوتی اور یہ کہتے رہے۔ انا نبی لا کذب انا ابن عبد المطلب یعنی میں نبی ہوں کاذب نہیں ہوں میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔ انک لعلی خلق عظیم اس طرح آپ اخلاق کی اعلیٰ مثال تھے جب کہ خدا فرماتا ہے تم خلق عظیم کے مرتبہ پر فائز ہو۔ یہ دلیل ہے۔ فضیلت جناب محمد کی۔
میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ علامہ فخرالدین رازی اپنی تفسیر کبیر میں فبھذا ھم اقتدہ کے ذیل میں پیش فرماتے ہیں۔ کہ اخلاق انبیاء کی پیروی کرو۔ اپنا اخلاقی فریضہ سمجھ کر دینا سے جانے سے پہلے اپنا جانشین اور وصی مقرر فرمایا تاکہ امت گمراہ نہ ہو۔ انصاف کی نطر سے دیکھئیے کہ کس شان کے ساتھ جناب رسالت مآب صلعم ان تمام صفات کمالیہ کے جامع تھے۔ اگر پروردگار عالم کے سچے رسول کسی کو نفس رسول کہہ دیں۔ تو انصاف سے بتائیے کہ وہ بھی ان صفات کا حامل ہوگا یا نہیں۔
امام راضی رحمة اللہ علیہ آیت مباھلہ کے ذیل میں یہ لکھا ہے۔ کہ سوائے قصائص نبوت کے نفس مولا علی مساوی ہے نفس رسول کے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کا مزاج تابع ہوتا ہے کہ ان اجزا کے جن سے جس م مرکب ہوتا ہے۔ بعض جانوروں میں حرص ہوتی ہے۔ بعض میں مکر ہوتا ہے۔ ان کے اجزا ہی وہ ہوتے ہیں۔ جن میں یہ صفات مرکب ہوتی ہیں۔
ہر خواش مزاج کے ماتحت ہوتی ہے اور مزاج ماتحت ان اجزاء کے ہوتا ہے جن سے جسم بنا ہوتا ہے اور رسالت مآب صلعم کا جسم جن اجزاء سے بنا فرمان نبوی سے ثابت ہوتا ہے کہ انہی اجزاء سے مولا علی کا جسم بنا تھا۔
ارشاد ہوتا ہے: یا علی لحمک لحمی و دمک دمی کہ اے میرے علی میرا گوشت تیرا گوشت ہے اور میرا خون تیرا خون ہے۔
جیسا جسم ہوتا ہے ویسی ہی روح ہوتی ہے۔ روح ما تحت جسم کے ہوتی ہے اور جسم ماتحت روح کے ہوتا ہے جیسا جسم ویسی روح۔
یہی سبب ہے کہ اسلام نے ہمارے نزدیک آواگون باطل ٹہرایا۔ اس لیے کہ انسان کی روح جانور کے جسم میں نہیں ٹھہر سکتی اور فرمایا جب میرا جسم تیرا جسم میرا گوشت تیرا گوشت۔ میرا خون تیرا خون اور ایک اور فرمان میں روسل پاک نے توضح بھی کردی یا علی روحک روحی کہ اے علی تیری روح میری روح ہے۔ یہ اس لیے فرمایا کہ بعض کو کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہے۔
یہ ہیں وہ حضرات جو حقیقی اعتبار سے مسلمان ہیں اور آج کل تمام دنیا کے مسلمان متفق ہیں کہ لفظ حقیقی مسلم جن کے حق میں ثابت ہوسکتا ہے وہ محمد‘ علی اور آل محمد ہیں۔ ان سے مکروہ بات کا ارتکاب تو درکنار مباح امر کا ارتکاب بھی نہ ہوا۔ سوائے اس کے کہ جناب رسالت مآب نے اس بارے میں اجازت دی ہو۔
قرآن مجید میں مزید ارشاد ہوتا ہے۔ وجاھدو فی اللہ حق جھادہ ھو اجتباکم و ما جعل علیکم فی الدین من حرج ملتہ ابیکم ابراھیم ھو سما کم المسلمین یعنی اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ اس طرح جہاد کرو جس طرح جہاد کا حق ہے اور فرمایا کہ اسی نے تجکو اوروں سے چنکر متجنیٰ بنا دیا۔اپنے باپ ابراھیم علیہ السلام کی ملت پر قائم رہو۔ وہی ہیں جنہوں نے تمہارا نام مسلمیں رکھا۔
یہ کون لوگ ہیں جو مسلمین ہیں اور ان سے کہا گیا ہے ؟ جاھدوا فی اللہ حق جہادہ کہ تم راہ خدا میں اس طرح جہاد و مجاہدہ کرو کہ جو اس کے جہاد کا حق ہے پس یہ خاص لفظ حق جہادہ کہنا اور جہاد کا حق کما حقہ ادا کرنا کس سے ہوسکتا ہے۔ سوائے اس شخص کے کہ جو معصوم ہو یقیناً یہ حق سوائے معصوم کے کسی اور سے ادا ہو ہی نہیں سکتا۔
قرآن پاک میں ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے: یا ایھا الذین آمنوا التقوا اللہ و کونو مع الصادقین یعنی اے ایمان لانے والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ یہ ارشاد عام مومنوں کیلئے ہے۔ مگر خاص لوگوں لیے جو ارشاد ہے وہ دوسرے مقام پر اسطرح ہے۔ یا ایھا الذین آمنوا التقوا اللہ حق تقاتہ یہ آیت کریمہ مفسرین لکھتے ہیں جب نازل ہوئی تو لوگوں نے کہا ایسا ڈرنا جس طرح ڈرنے کا حق ہو ہم سے مقصود نہیں ہوسکتا۔ تو آیت کریمہ نازل ہوئی اور ان کے لیے یہ حکم اس آیت سے منسوخ کیا گیا۔ و التقوا اللہ ما استطعتم کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے اتنا ڈرو جتنا کہ تمہاری استطاعت کے مطابق ہو۔
معلوا ہوا کہ کچھ خاص لوگ ہیں جن کو حکم دیا گیا کہ تم سے تو یہ کہتا ہوں یہ یا ایھا الذین آمنوا التقوا اللہ حق تقاتہ (کہ خدا سے ایمان والو! اس طرح ڈرو جس طرح کہ ڈرنے کا حق ہے) اور دوسروں سے یہ کہتا ہوں کہ کونو مع الصادقیں کہ جس قدر تم سے ہوسکے اتنا ڈرو۔ مگر تمہارے لیے لازمی ہے کہ ہمارے خاص راستباز لوگوں کے ساتھ رہو۔ جو اس شان کے مالک ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ سے اس طرح ڈرتے ہیں جس طرح کہ ڈرنے کا حق ہے۔
تو حق جہاد ادا کرنے والے خاص لوگ ہیں اور وہ وہیں ہیں۔ جن کا ذکر آپ سن چکے ہیں۔ آپ خود بتائیں کہ کیا آپ لوگ رسول اللہ کی طرح جہاد کرسکتے ہیں؟ نہیں پس معلوم ہوا کہ یہ حکم ان لوگوں کو دیا گیا کہ جو اس مقام پر قائم اور ان شرطوں پر فائز ہیں کہ جن کے سامنے حق کی ادائیگی کا کوئی نقطہ باقی نہ رہا اور وہ خاص لوگ حضرت محمد‘ علی‘ آل محدم ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ حق جہاد ادا کرنا کوئی رسول یا معصوم کرسکتا ہے۔ وہ عام اور تمام لوگ نہیں کرسکتے۔ پس معلوم ہوا کہ یہ مخصوص لوگ ہی تھے۔ انہی کو کہا گیا تھا۔ ھو سما کم المسلمین۔ عام لوگوں کو یہ نہیں کہا گیا۔ عام لوگ اگر مسلم بن سکتے ہیں تو صرف ان کے صدقے سے مسلم بن سکتے ہیں جو محمد و آل محمد ہیں۔
زمانہ وہ ہے آپ لوگ جذبات لے کے آتے ہیں۔ غور فرمائیں وہ کون ہیں۔ جن کی رسائی اس جہاد تک ہوسکتی ہو۔ جو جہاد امیر المومنین علی کا تھا۔
ایک علامہ مغزلی کہتے ہیں۔ ”علی سید المجاھدین اور میرے خیال میں علی کے بغیر جہاد کسی نے کیا ہی نہیں علی وہ تھے کہ جتنے بہادر پہلے گذرے علی نے ان سب کا نام مٹا دیا۔ اور جو قیامت تک اویں گے۔
ان میں سے بھی کوئی ایسا نہ ہوگا جو ان کا مقاملہ کرسکے گا۔
یہ فقرہ کہ ویسا جہاد کسی نہ کیا اور علی جیسا بہادر کوئی نہ گذرا اس فقرے میں علامہ مذکور کو دھوکہ لگا۔ ورنہ کربلا کا خیال انہیں آجاتا۔ تو یہ کلمے ان کی زبان قلم سے نہ نکلتے۔ بھلا جس نے چاند دیکھا ہو۔ اس کے دماغ سے خجر شمر کا تصور کیسے بھول سکتا ہے۔
مولا علی نے ایک دن بھوکے رہ کر جہاد کیا لیکن سیدنا امام حسین نے وہ جہاد ایک دن نہیں بلکہ تین دن کی بھوک تھی۔ بے نظیر شان کے ساتھ کیا۔
امیر المومنین نے جہاد کیا۔ تو ان کے تصور میں یہ بات بالکل نہ تھی کہ اگر میں مرگیا تو میرے بچے اسیر ہو جائینگے۔ لیکن سیدنا امام حسین علیہ السلام جس شب کوفے کو جارہے تھے۔ آپ کے ساتھ بچے بی تھے اور عفت مآب مستورات بھی تھیں اور یقین کامل تھا کہ میری شہادت کے بعد یہ لوگ ضرور اسیر بنائے جائیں گے۔
کربل کی رات میں وہ رات ہے جس کی صبح کو آپ میدان میں جارہے ہیں۔ کاش مسلمان تھوڑا سا انصاف کرلیتے امام کے مقام کو سمجھتے۔ آپ کی وہ ذات اور آپ کے جہاد کی وہ شان ہے کہ ا س قدر قابل فخر ہے کہ مسلمان تو در کنار ان کا نام لیتے ہیں غیر مسلم بھی فخر کرتے ہیں۔
مجھے راجواؤوں میں راجوتانے کے اندر جانے کا اتفاق ہوا کہ کوئی ریاست ہندؤں نہ دیکھی جس میں امام حسین کا تعزیہ ہندو لوگ نہ بناتے ہوں۔ ان کا اسلام سے تعلق نہیں مگر سمجھتے ہیں کہ امام حسین کو یاد کرنا انسانیت کے لوازمات میں سے ہے۔ کہ جس نے سوچ سمجھ کر خدا کی راہ میں ایسی قربانیاں پیش کیں۔ جن کی نظیر نہ ہوئی اور نہ ملے گی۔
کون شخص ہے جو ایسے حرم سے محبت نہیں کرتا اور کون ہے جو اپنے ناموس کی حفاظت میں کوئی دقیقہ فرو گذشات کرتا ہو۔
امام حسین علیہ السلام نے اے دیندارو اے خدا کے ماننے والو۔ دین خدا کو حامیو۔ اس قدر دین الہی کی حمایت کی کہ لوگوں نے ان کو خود ”دین“ کہہ دیا اور یوں پکار اٹھے۔
ع شاہ است حسین بادشاہ است حسین
دین است حسین دین پناہ است حسین
پس حسین عین دین ہے۔ جس نے حسین کا دامن پکڑا لیا وہ صاحب دین ہوگیا جس نے حسین کو مان لیا وہ دین دار ہوگیا۔
ہمارا دین کیا ہے کہ رسول خوش ہو جائیں اگر حسین کسی سے خوش ہو جائیں تو کیا رسول اس سے خوش نہ ہوں گے ضرور ہوں گے جناب رسالت مآب پر کوئی وقت نہ گذرتا تھا۔ جبکہ تاکید کرتے تھے کہ حسین سے محبت رکھو۔ میں اس سے محبت رکھتا ہوں۔
مشکواة شریعت میں ایک واقعہ واضح طور پر موجود ہے کہ حضور ایک رات کو جارہے تھے۔ ایک شخص راہ میں حضور کو سلام کیا دیکھا کہ عبا کے نیچے کچھ لیے جارہے ہیں۔ حضور سے عرض کیا ”حضور حاضر ہوں مجھے ارشاد ہو۔ تو اس بوجھ کو میں اٹھا لے جاؤں۔ حضور یہ کیا کچھ ہے؟
ارشاد فرمایا: ”دیکھو گے“!
عرض کیا: ” ضرور“۔
آپ نے عبا مبارک اٹھائی۔ اس میں دیکھا کہ آپ حسن و حسین دنوں کو سینے سے چمٹائیہوئے ہیں۔ اب جب دیکھ لیا۔ اس کو جرءت نہ ہوئی کیونکہ جانتا تھا کہ وہ شہزادے اپنے نانا سے جدا نہ ہوں گے۔
ایک مرتبہ حضور نے آسمان کی طرف منہ کیا اور فرمایا: ”انی احبھ ما فاحب من احب ھما“ الہی مجھے ان دونوں سے بے حدمحبت ہے۔ پس جوان سے محبت رکھے اس سے تو بھی محبت رکھ۔ یہ حدیث مبارک تواتر کو پہنچی ہے۔
حضرات! یہ ایام یا محرم وہ زمانہ ہیں کہ جن میں امام حسین علیہ السلام کے واقعات تازہ ہوتے ہیں۔ اس زمانے کی انتظار رہتی ہے کہ محرم کا چاند کب نکلنے والا ہے۔ جس کی دسویں وہ دن ہے کہ سیدنا امام حسین گھر سے چلے۔
وہ تخیل دراصل لفظوں سے نہیں ادا ہوسکتا۔ کہ جب حضور مکے سے۔ عبد اللہ بن مطیع سے عرض کیا کہ کدھر جارہے ہیں فرمایا کوفے کو عرض کیا کیا غضب کررہے ہیں آپ کو فے جارہے ہیں؟ وہاں تو آپ کے خون لینے کو تلواریں نکل آئی ہیں۔ خدا کے واسطے نہ جاؤ آپ سارے عرب کی عزت ہیں سب عرب کی عزت مٹ جائے گی۔
اس طرح عبد اللہ بن عباس نے روکا۔ محمد بن حنفیہ نے روکا۔
حضرت امام نے فرمایا: بھائی جانا ضرور ہے۔ رات کو نانا پاک کو دیکھا ہے آپ ارشاد فرما رہے کہ بیٹا حسین جلد اپنی قتل گاہ کی طرف چلو۔ وہ زمین تمہاری انتظار کر رہی ہے۔
عرض کیا حضور آپ ان کے ظاہر اور باطن کو جانتے ہیں۔ ان بیبیوں کو تو ساتھ نہ لے چلو۔
ارشاد فرمیا: اگر ایسا نہ کروں تو مقصد پورا نہ ہوگا۔
معلوم ہوا کہ آپ بیبیوں کو باخبر کرچکے ہیں بلکہ انہیں پہلے سے خبر تھی بی بی زینب ابھی چار سال سے زیادہ کی نہ تھی جبکہ امی جان نے فرمایا تھا کہ بچی حسین جب سفر کرنے لگیں تو ان کو اکیلا نہ جانے دینا۔
میں نے ایک کتاب میں پڑھا کہ امیر المومنین نے اپنے حقیقی بھائی کے بیٹیعبد اللہ کو ساتھ جب زینب کا نکاح کرنے لگے تو آپ نے یہ شرط فرمائی کہ جب اس کا بھائی حسین سفر کرنے لگے گا تو اے عبد اللہ بی بی زینب کو ہر گز نہ روکنا۔
جب یزید کا خط پہنچا کہ حسین سے بیت لی جائے۔ یا اس کا سرکاٹ کر حاضر کیا جائے۔ تو جناب زینب نے پوچھا۔ کہ بھائی آج کیا خبر لائے ہو۔ فرمایا: وقت آگیا ہے۔ اب چلنے کا ام سلمہ جو نانی ہیں حضرت امام حسین کی اور جنہوں نے سیدہ فاطمہ کے دور آپ کو حود پرورش کیا جب آپ جانے لگے تو فرمایا: بیٹا جارہے ہو؟ جواب دیا: نانی جان آخری سفر ہے اور جانا ضرور ہے۔ یہ وہی سفر ہے جس کی خبر نانان جان نے دی تھی۔ فرمایا: ”ہاں“ اور آُ نے جگہ بھی بتا دی یہ کہتے ہوئے کہ دیکھو نانی کہ وہ جگہ ہے جہاں گھوڑے سے گروں گا اور وہ وہ مقام ہے۔ جہاں بہنوں کے خیمے ہونگے۔ وہ جگہ ہے جہاں عباس گریں گے۔
تو جنابہ زینب نے عرض کیا بھیا حسین ہرگز نہ گھبرانا میں تمہارا ساتھ کربلا تک دونگی اور تمہارے مقصود کو کامیاب بنانے کے لیے شام تک جاؤں گی۔
حضرات دل میں بڑا درد پیدا ہوتا ہے دینا میں بھائی بہن بہت گذرے ہیں۔ مگر جو محبت ان بھائی بہنوں میں تھی وہ کسی میں نہ ہوگی ان کی محبت عشق کی حد تک تھی۔ جب تک زنیب حسین کو نہ دیکھ لیتی تھیں چین نہ آتا تھا۔ اس طرح حسین جب تک زینب کو دیکھ نہ لیتے تھے چین نہ پاتے تھے۔
واقعہ مشہور ہے۔ کہ ایک صبح نماز پڑھ کر زینب سو گئیں تا آنکہ آفتاب نکل آیا اور حضرت امام کی نظر پڑی کہ سیدہ زینب پر دھوپ آرہی ہے اپنی عبا اٹھائی کھڑے ہوگئے اور جب تک آپ نہ اٹھیں عبا کا سایہ کیے کھڑے رہے۔ آپ جاگیں عرض کیا اتنی تکلیف کیوں کی فرمایا: تکلیف نہیں ہوئی بلکہ راحت ہوئی۔
تو کیا یہ زینب بھول سکتی تھیں آپ کو عمر بھر میں کوئی وقت نہ ملا تھا۔ مگر آج کربلا کا میدان ہے جسم مبارک حضرت امام کا دھوپ میں پڑا ہے سیدہ نے چاہا کہ آج بھائی پر سایہ کردوں مگر اے افسوس کہ بیبیوں کے سروں سے چادریں بھی چھن چکی تھیں۔
اللہ اللہ! ایک وہ زمانہ تھا کہ جب کہ امیر المومنین بادشاہ تھے۔ یہ شہزادیاں وہ تھیں کہ کوفے کے بڑے بڑے خاندانوں کی عورتیں ان کی زیارت کو مشتاق ہوتی تھیں اور اجازت لیے بغیر انہیں نہ مل سکتیں تھیں۔
مدینہ شریف میں جب یہ شہزادیاں نانا پاک کی زیارت کو جانے لگتیں۔ تو راستے بند کردیئے جاتے تھے۔ پہرے لگ جاتے تھے ایک طرف امام حسن اوردوسری طرف حسین ہوتے تھے۔ لیکن کوفے کے بازاروں سے گذرتے ہوئے شام کے بازاروں میں گذر ہو رہا ہے۔ یزید بادشاہ ہے۔ امام کی مظلومی کو چھپانے کی پوری طاقت خرچ کرتا ہے۔ سیدہ زینب نے فرمایا: ”زینب اس وقت تک دم نہ لیگی جب تک امام حسین کی مظلومی کا اعلان دربار یزید میں نہ جائیگا۔ دربار یزید جب آراستہ ہو رہا تھا۔ حکم ہوا کہ قیدیوں کو لاؤ۔ تو بیبیوں نے ایک دوسرے کو دیکھا زینب نے فرمایا کہ او یزید! ہم تمہارے نبی کی بیٹیاں ہیں بازاروں میں پھر چکی ہیں اور دربارمیں نہ لے چلو۔ سیدہ کو ایک بار جلال بھی آگیا۔ تو فرمایا: کہ اگر نہ جاؤں تو کوئی زبردستی لے جاسکتا ہے؟ شمر نے کہا ہاں تم کو جانا پڑیگا۔ فرمایا: ابھی دعا کرتی ہوں سکینہ تم بھی ہاتھ اٹھانا یہ کہنا تھا کہ ایک نظر اچانک سر امام کی طرف جا پڑی دیکھا کہ آنسو بہہ رہے ہیں اور فرما رہے ہیں بہن بھول گئی اپنے وعدے کو؟ جو تو نے دربار یزید میں جاکر کے ایفا کرنے کو کیا تھا۔
حضرات! یزید ملعون کس حال میں تھا۔ کٹا ہوا سر امام کا (بہن بیٹی والو! زینب اپنے بھائی حسین کا سر کٹا ہوا دیکھ رہی ہے) پوچھا جاتا ہے شمر! کون ہیں یہ بیبیاں!
شمر نے کہا وہ ہے حسین کی بیٹی سکینہ وہ ہے فاطمہ کی بیٹی زینب آخری قطار میں بیٹھی ہوئی۔
خدا کا شکر ہے کہ میرے میں فاطمہ کی بیٹی قید ہو کر آئی اور اس کے بیٹے حسین کو میں نے قتل کیا۔
یہ فقرہ سنتے ہی سیدہ کو اس قدر جوش آیا کہ فرمایا: خاموش!
لوگ حیران ہوگئے کہ علی کی آواز کہاں سے آپہنچی سیدہ نے فرمایا: یزید! چند روزہ زندگی پر خوش نہ ہو۔ ذلیل ہم نہیں ہوئے ذلیل تو ہوا کہ قید کرکے اپنی نبی کی بیٹیوں کو دربار میں لایا۔ خدا دیکھ رہا ہے۔ کل جب نانا پوچھیں گے کہ میری اہل بیت کے ساتھ تم نے کیا سلوک کیا تو اس وقت کیا جواب دو گے۔
اور دربار والو! جانتے ہو تم کون ہیں ہم! ہم تمہارے نبی کی بیٹیاں ہیں۔
یہ آواز سننی تھی کہ یزید کے پیچھے اندر سے پردہ اٹھا۔ یزید کی بیوی بے اختیار باہر آئی یزید اس کو نہ پہچان سکا پکارا۔ کچھ تو میری عزت کا خیال کر۔ اس نے کہا خدا تحقیر لعنت کرے۔ تیری عزت کا خیال کروں اور عزت والی فاطمہ کی بیٹیوں کا خیال نہ کروں۔ قیامت کے دن کیا جواب دے گا اپنے رسول کو۔
اللهم صل علی سیدنا محمد و علیٰ آل سیدنا محمد و بارک و سلم