مجلس دوم :
بتاریخ دو محرم الحرام ۱۳۷۵
اعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم
بسم الله الرحمٰن الرحیم
مختصر خطبہ حمد و ثنا و درود۔
(
افغیر دین الله یبغون وله اسلم من فی السموٰت والارض طوعا وکرها والیه ترجعون
)
حضرات ! تیسرے پارے کے آحری رکوع میں پروردگار عالم ارشاد فرماتا ہے کہ کیا یہ لوگ دین خدا کے غیر کو چاہتے ہیں حالانکہ خدا کے لئے آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والے اپنی گردنیں جھکائے ہوئے ہیں ۔ خوشی لے یا کراہت سے اور اسی طرف سب کی باز گشت ہوگی ۔
یہ ہے ترجمہ اس آیت کریم جو آپ کے سامنے میں نے پڑھی ہے ۔
مجھے ان مجالس محرم الحرام میں صرف دین خدا کے متعلق عرض کرنا ہے ۔ کہ دین اللہ جس شے کو ارشاد فرمایا گیا ہے ۔ وہ کیا چیز ہے ؟
میں نے گزشتہ رات مقدمات کی حیثیت سے عرض کیا تھا کہ دین اللہ ۔ اسلام ۔ ملت یا ملت اسلامیہ وغیرہ یہ تمام الفاظ ماحصل کے اعتبار سے ایک معنی رکھتے ہیں ۔ اگرچہ لغت کے اعتبار سے ان میں باہمی کچھ فرق ہے لیکن مطلب معنٰی کے اعتبار سے یہ سب ہم معنٰی ہیں ۔
مجھے ان مجالس میں اچھا معلوم ہوا کہ اس سال آپ کی خدمت میں دین اللہ کی تفصیل کردوں اور مجھے یہ امید ہے کہ اگر ان چیزوں کی توجہ سے سماعت فرمایا گیا تو اگرچہ عمل اور چیز ہے لیکن علمی صیئت سے شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے گی ۔
پروردگار عالم کو مکلّف کہا جاتا ہے اور ہم لوگ ہیں مکلّف جس کے معنی ہیں وہ جسے تکلیف کا مطلب یہ ہے حکم دیا گیا کہ اصول دین کو سمجھو اور فروغ دین پر عمل کرو۔ اصول پر اعتقاد رکھو اور فروغ کی پیروی کرو۔
پس اعتقاد اصول کا حکم اور فروغ دین پر عمل کرنے کا نام ہے تکلیف اور اسی اعتبار سے ہم سب مکلف بنائے گئے ہیں
”اس تکلیف “ کی عرض کیا ہے
عرض صرف یہ ہے کہ پروردگار عالم ہم کو کامل کرنا چاہتا ہے ۔ پس عرضِ تکلیف حقیقت میں تکمیل انسان ہے ۔
کسی کو کامل کرنے کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہے یا یوں سمجھیے کہ تکمیل موقوف ہے دو چیزوں پر ( ۱) وہ شے خود ناقص ہو ( ۲) اس لئے قابلیت کمال موجود ہو ۔
اگر شے ناقص نہیں تو کامل کرنے کے معنی کیا اور اگر استعداد قابلیت کمال نہیں تو اس صورت میں بھی تکمیل بہ معنی ہے ۔ پس جہاں ان دو سے ایک یا دونوں نہ پائی جائیں گی وہاں تکمیل نہ ہوسکے گی اور تکمیل جب نہ ہوگی تو تکلیف کا تعلق بھی نہ ہوگا ۔
انسان اپنی ذات کے اعتبار سے ناقص مخلوق ہے ۔ پروردگار عالم یہ چاہتا کہ انسان کو حد کمال تک پہنچا دے اور اسے کامل بنادے یہ حقیقت ہے عرض تخلیق انسان کی اس نے ہم کو وہ ہم کو کامل کرنا چاہتا ہے ۔
یہ شے کہ نفس بھی ہو اور قابلیت کمال بھی ہو یہ منحصر ہے صرف انسان میں جنات میں اور بعض ملائکہ ہیں ۔
اور جن میں نقص نہیں وہ عقول ہیں پروردگار عالم کی مخلوقات میں جو عقول ہیں سب سے اول انکو پیدا کیا گیا ہے انہیں کسی قسم کا شائبہ نقص یا عیب نہ رکھا کیونکہ ان میں نقص نہیں لہٰذا ان کی تکمیل بے معنی ہے۔
بہرحال ان کے علاوہ اور کچھ اقسام ملائکہ ہیں۔ جنات اور انسان تو ظاہر ہیں حیوانات بری ہیں۔ جمادات بے تعلق ہیں۔ کیونکہ انہیں قابلیت کمال ہی ہیں (البتہ حیوانات کو سکھلا دینا اور کسی حد تک پہنچا دینا در حقیقت وہ کمال نہیں جو حقیقی کمال ہو۔ اسی ضمن میں نباتات آجائیں گی۔ ان میں نقص موجود رہے اور استعداد کمال بھی نہیں۔ اس طرح عقول میں نقص نہیں وہ خود کامل ہیں)۔
اس وقت جنات یا ملائکہ سے بحث نہیں بحث ہم سے ہے کہ ہم (انسان) ناقص بھی ہیں اور ہم میں استعداد کمال بھی موجود ہے۔ اب دونوں چیزیں موجود ہیں تو خدا اگر کامل نہ کرنا چاہے۔ باوجود قابلیت موجود ہونے کے تو وہ عاجز ثابت ہوگا۔
اور کہا جائیگا کہ وہ کامل نہیں کرسکتا یا یہ وجہ ہوگی کہ وہ کامل تو کرسکتا ہے مگر بخیل ہے اور یہ دونوں وجوہ اس کی ذات واجب تعالیٰ میں یہ دونوں باتیں ناممکن ہیں۔
لہٰذا فرض ہوگیا کہ کامل کرنے کے لئے خداوند ذرائع بہم پہنچائے اور تکمیل ہو نہیں سکتی جب تک تکلیف نہ دی جائے پس ضروری ہوا کہ وہ ہم کو مکلّف بھی بنائے۔
میں آپ کے سامنے جمادات کی نظیر پیش کرتا ہوں اس مثال سے آپ میرے پہلے قول کی مخالفت نہ سمجِھئیے گا ایک مثال کے طریقے سے عرض کر رہا ہوں کہ لوہے میں اگر نقص نہ ہوتا اور استعداد کمال بھی نہ ہوتی تو وہ کبھی بھی میں نہ جاتا نقص دور کرنے کیلئے اسے پگھلایا جاتا ہے تا کہ وہ دوسرے اجزا سے پا ک کردیا جائے۔
علیٰ ھذا لکڑی میں اگر نقص نہ ہوتا اور قابلیت کمال بھی نہ ہوتی تو آر لے کے سپرد وہ نہ کی جاتی یہ نقص ہی ہے جو لوہے یا لکڑی کو ان تمام ادوار اور مراتب میں لئے پھرتا ہے ۔
اس طرح انسان اگر بیمار نہ ہوتا تو دوا کی ضرورت کیا تھی ؟
پس میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دونوں چیزیں موجود ہیں
نیز دیکھئے بوٹے کو لگایا جاتا ہے اسے پانی دیا جاتا ہے کوئی اس کی خدمت کرتا ہے محض اس لئے کہ حد کمال کو پہنچ جائے ۔
میں اس کمال کے متعلق یہ عرض کرتا ہوں کہ یہ کمال بے اختیاری ہے جو جمادات کا کمال ہے ۔ ان کے اختیار میں نہیں کہ از خود کامل بن سکیں ۔ لکڑی خود کسی وجہ سے کسی شکل میں آجائے تو اس کی کوئی مدح یا ذم نہیں کی جائے گی اس لئے کہ اس کے اختیار میں نہ تھا ۔ اس طرح لوہے کا بہترین قسم کی شمشیر بن جانا بھی اس کے لیے قابل مدح یا ذم نہیں ہوسکتا لیکن ہمارا (یعنی انسان کا) وہ کمال ہے جس سے اصل بحث ہے اور اس کمال تعلق ہے ہمارے اختیار میں۔
پس اے میرے بزرگو! یہ انسان کیونکہ اس کی مدح یامذمت کی جاتی ہے کہ فلاں کام برا کیا ہے لہذا قابل مذمت فلاں کام اچھا کیا لہذا قابل مدح وہ کام کس نے کیا؟ اس نے خود کیا۔۔۔ لکڑی میں کسی بننے میں لوہے نے شمشیر بننے می حود کام نہ کیا تھا۔ لہذا وہ دونوں قابل مدح نہ قابل ذم۔ انسان چونکہ خود کرنیوالا ہے اپنے اختیار سے افعال کو بچجا لاتا شہے اس لیے پروردگار عالم اس کے لیے سزا یا جزا مرتب کرنے کا پورا مجاز ہے اور اگر انسان مجبور ہوتا۔ تو کبھی قابل ذم نہ ہوتا اور نہ ہی جہنم اس کے لیے تیار کیا جاتا۔
معلوم ہوا کہ ایمان اضطراری قابل قبول نہیں۔ حالت اضطراب میں مجبوری ہوتی ہے اور مجبوری کے وقت کوئی ایمان لے آئے تو وہ قابل قبول نہ ہوگا۔ اسی لیے حالت اضطرار کے افعال کے سبب انسان نہ ممدوح بنتا ہے کہ مذموم ٹھہرتا ہے۔
اس طرف اشارہ کرتے ہوئے پروردگار نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے۔
(
فلم بک ینفعهم ایمانهم لما راؤ بایتها
)
(پس بالکل نہ نفع دیا ان کے ایمان نے ہمارے عذاب کو آنکھوں سے دیکھے لیا) ایسی حالت میں ایمان کسی طرح مفید نہیں۔ اس لیے کہ یہ اضطراری ایمان ہے۔
پس ثابت ہوگیا کہ فاعل صاحب اختیار ہے اور مجبور نہیں ہے۔
ہدایت کی دو قسمیں ہیں:
۱ ۔ ہدایت تقوینی
۲ ۔ ہدایت تکلیفی
ہدیایت تقوینی کا مقصد یہ ہے کہ پروردگار نے انسان کو ایسا بنایا کہ اس میں آلات ادراک جمع کردیئے اس میں کلیات عقلیہ ودیعت کردیئے کہ کم از کم کلیات کے اعتبار سے وہ اس قابل ہے کہ ہدایت پاسکے۔ اس کی مزید توضیح کرتا ہوں۔
پروردگار نے آنکھیں دیں کان عطا کیے ناک دی علیٰ ھذا اور آلات ادراک مرحمت فرمائے اور ان سب کے بعد قوت عاقلہ بھی عطا فرمائی ان سب چیزوں کے ذریعے سے ہم اشیاء کو محسوس کرتے ہیں اور معلوم کرتے ہیں۔ خداوند تعالیٰ نے ان سب کو باطل نما نہ بنایا بلکہ حق نما بنایا۔
آنکھوں کو حق نما بنایا۔ آپ کے سامنے ایک چیز ہے۔ اگرچہ آنکھیں دو ہیں۔ مگر انکا کام ہے کہ وہ ایک شے کو ایک ہی دیکھیں۔ اس طرح پروردگار عالم نے زبان دی۔ یہ میں جانتا ہوں کہ ذائقہ کی کچھ حقیقت نہیں۔ مگر طبعی حیثیت سے ذائقہ حقیقت رکھتا ہے زبان اگر بیمار نہیں تو کبھی میٹی کو کروا نہ کہے گی۔
اور کروی کو میٹھا نہ کہے گی۔ آنکھ اگر بیمار نہیں تو کبھی سرخ کو سفید نہ بتائے گی اور سفید کو سرخ نہ بتائے گی۔ تو بشرطیکہ ایسی شئے حائل نہ ہو جو کبھی دھوکے میں ڈال دیتی ہے۔ آنکیھں ایک ہی دیکھیں گی۔ سفید کو سفید کہیں گی۔ اس لیے یہ آلہ حق نما ہیں۔
البتہ بعض جگہ جب دھوکہ لگ جائے تو عقل آئے گی۔ اس دھوکے کو سامنے لاکر پیش کریگی اور غلطی دور ہو جائیگی۔ مثلاً حوض کے سامنے پانی میں گزبھر لمبی لکڑی ڈالی جائے تو ایک بالشت معلوم ہوتی ہے۔ یا ڈالی جائے سیدھی تو نظر آتی ہے ٹیڑھی۔ اس کا سبب دوسری چیزیں ہی ں جن کے ملنے سے یہ دکھوکہ پڑگیا ہے پس جو کچھ سامنے ہے اس کے اعتبار سے یہ سب آلات حق نما ہیں۔ اور جب یہ آلے حق نما ہیں۔ تو عقل کیسے باطل نما ہوسکتی ہے۔ پس عقل بھی حق نما بناد ی گئی ہے اور اس کا حق نما بنایا جانا یہ وہ ہدایت ہے جسے ہدایت تکوینی کہتے ہیں۔
اس طرح لوہے کا پیدا کرنا ہدایت تکوینی کی جگہ ہے اور اس کا شمشیر بنا دینا ہدایت تکلیفی کی جگہ ہے ہدایت تکوینی کا تعلق خدا وند سے ہے اور ہدایت تکلیفی کا تعلق کامل بنانے والے بندوں انبیاء اور مرسلین سے پس ضرورت ہوئی کہ ہداتی تکلیفی کے لیے ھادی کو تلاش کیا جائے۔
اور ھادی وہ ہونا چاہیے جو خود ہمہ وجوہ سے کامل اور تندرست ہو نہ یہ کہ خود بیمار یا ناقص ہو اس لیے کہ جو خود ناقص ہوگا وہ دوسرے کو کیا کامل بنا سکے گا۔
پس ہم کو تکلیف اس لیے دی گئی تاکہ کامل بن جائے۔ ارو ایسا کرنا واجب تھا خدا پر کہ ایسے کامل بنانے والے بھیجے جو کسی طرح بھی ناقص نہ ہوں۔
ہمارے نقائص کیا ہیں۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ہدایت تکوینی بھی ہمیں حاصل ہے اس لیے کہ اس نے عقل دی اور آلات ادراک دیئے۔ مگر انسان اس قدر کمزور چیز ہے کہ صرف یہ دونوں ہمارے لیے کافی نہیں ہوسکتے۔
اگر عقل یا آلات ادراک کمال کے لیے کافی ہوتے۔ تو کوئی بھی تو دنیا مں ی حکما سے یا عقلا سے ہوتا جو کامل ہدایت یافتہ ہوتا۔ حکما کو دیکھو۔ انہوں نے جس قدر معرفت اشیاء میں لغزش کھای اور ٹھوکریں کھائیں وہ آپ سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس لیے کہ آپ کو جو کچھ معلوم ہوا ہے وہ انبیاء و مرسلین سے معلوم ہوا ہے جن کی معرفت بالکل صحیح تھی لیکن ان عقل والے کما نے %۹۹ غلطی کھائی پس محض ہدایت تکوینی ان کے لیے کافی نہ ہوسکی۔
ہدایت تکوینی صرف اس واسطے ہے کہ وہ ہدایت تکلیفی کے لیے مددگار بن جائے انہیں فطریات مستقیہ میں شاید میرے الفاظ بعض حضرات کو بوجھل یا سخت معلوم ہورہے ہوں حقیقت یہ ہے کہ میں ناقص ہوں اور اسی نقص کی وجہ سے مجبور ہوں کہ ایسے الفاظ استعمال کرجاؤں۔
پس جب عقل انسانی کلیات کی تشخیص یا جزئیات کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ قدم قدم پر دھوکہ کھاتی ہے۔
کون نہیں سمجھتا یا جانتا کہ اس کا کوئی پیدا کرنے والا یعنی دھرے سے دھریہ بھی یہی سمجھتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی سے پیدا نہیں ہوااس کے عضاء کے جسم کو دیکھئے جو اپنی اپنی جگہ اس طرح رکھے گئے ہیں کہ یہ جگہ انہیں کی تھی جہاں کہ انہیں رکھا گیا۔
مجھے یاد آگیا ایک واقعہ کہ حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں ہندوستان سے ایک طیبیب آیا۔ جسے اپنے فن طب میں بڑا کمال حاصل تھا۔ لوگوں سے آپ کی بڑی تعریف سنی۔ حضرت کو ملنے آیا۔ (یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ وہ آپ کے ملک میں خود آیا تھایا حکومت وقت نے اسے بلایا تھا) ملاقات کے وقت منضور نے یہ کہہ رکھا تھا کہ حضرت امام برائے بلند پایہ عالم اور ماہر علوم ہیں۔ تم طب کے فن میں ماہرہو وہ ہر علم میں کامل ہیں۔
حضرت امام نے فرمایا: ”آیا میں علم طب کے متعلق کچھ ایسے سوال کروں یا آپ مجھ سے کچھ پوچِھو گے؟“
طبیب کو اپنے فن پ ناز تھا کہا ”آپ کو جو کچھ پوچھنا ہے پہلے پوچھ کر دیکھ لیجئے۔“
حضرت امام نے ارشاد فرمایا: ”ذرا یہ تو بتلائیے کہ پیشانی پر بال کس لیے پیدا نہیں کئے گئے اور سر پہ بالوں کو پیدا کیا گیا ہے؟“
”بھوریں پر بال تو بنادیئے گئے مگر ہاتھ کی ہتھیلی کو بالوں سے خالی رکھا۔ آپ بتاسکتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟“
علیٰ ھذا القیاس جو سوال بھی امام کرتے وہ یہی جوب دیتا کہ میں نہیں جانتا۔
امام نے فرمایا:”نک اور منہ کے درمیان مونچھیں پیدا کی گئی ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟“
اس نے کہا: ”میں نہیں جانتا۔“
آپ نے فرمایا: ”آنکھ کے ڈھیلے بادامی شکل کے کیوں پیدا ہوئے؟“
طبیب نے کہا: ”میں نہیں جانتا“
امام نے فرمایا: ”پھر یا جانتا ہے اگر کچھ نہیں جانتا تو پھر مجھ سے کچھ سوال کر جو تجھے کچھ یاد ہے؟“
یہ کوئی پندرہ وہ سواات تھے جو حضرت نے اس پر کئے اور وہ رسالے کی شکل میں موجود ہیں۔
بالآخر امام نے فرمایا: ”جو سوال کرنا چاہتے ہو کرو اور جواب لیتے جوؤ اور پھر جو تمہارے دل میں ہے اس کو بھی پوچِھ لو۔“
طبیب نے جس قدر سوال کرنے تھے کئے اور ہر سوال کاشافی جواب پایا۔ جب کوئی سوال باقی نہ رہا تو عرض کیا کہ اب مجِِھے اپنے دین کا حکم پڑھا دیجئے۔
پس میرے بزرگو! اور عزیزو! یہ ہیں وہ چیزیں جو آج نہیں بلکہ تیرہ سو سال کی چلی آرہی ہیں۔
محض ہدایت تکوینی کمزور رہتی ہے اور ضعیف ہے کہتا ضعف ہے کہ قدرت کی ان تمام چیزوں کے دیکھنے کے باوجود احکام الہیہ پر عمل نہیں کیا جاتا بلکہ بعض ایسے اتصاف ہیں۔ جو انہیں تسلیم بھی نہیں کرتے ہیں۔
پس ضرورت پڑی کہ ہدایت تکوینی کے ساتھ ساتھ ہدایت تکلیفی کو بھی لیا جائے۔
اور ہدایت تکلیفی وہ ہدایت ہے جس کا تعلق اس وجود سے ہوسکتا ہے جس میں نہ تو کمزوری ہو نہ کوئی نقص (کمزوری سے مراد جسمانی ضعف نہیں)۔
اس لیے کہا جاتا ہے کہ رسول دو ہیں ایک رسول ظاہر اور ایک رسول باطن تو عقل ہے اور رسول ظاہر حاکمان کامل۔
میرا مقصد صرف اتنا ہے کہ جو خود بیمار ہو دوسرے کو کیا شفاء دے سکتا ہے جیسے جس کا کان دکھ رہا ہو اور وہ اپنا علاج خود نہ کرسکتا ہو۔ تو اسی سبب اور اسی جہت سے اور کسی اور کا کان دکھتا ہوتا ہوگا۔ تو اس کا وہ کیا علاج کرسکے گا۔
اگر کسی کے دماغ میں کمزوری آگئی اور عقل میں سہو و نسیان ہے جب وہ اپنے دماغ کا علاج نہیں کرسکتا تو اور کسی دماغی مریض کا کیا علاج کرسکے گا۔
پس ہادیان تکلیفی کو ان بیماریوں سے منزا ہونا چاہیے۔ (بیماری کا ملب نزلہ زکام وغیرہ نہیں بلکہ روح کی بیماریاں مراد ہیں) تمام امت بیمار ہے ناقص ہے۔ جب یہ ناقص ہے اس کو کامل کرنا ہے اور چونکہ کمال تک پہنچنے کی قابلیت اس میں موجود ہے اس لیے ضرورت ہے کہ کوئی کامل کرنے والا ہو اور ان لوگوں سے حاص ہو جو ناقص ہیں اور جن کو کامل کرنا ہے اس لیے کہ اگر وہ انہی میں سے ہوگا جو ناقص ہیں تو ان کو کامل کیا بنائے گا پس ہادی تو وہ ہوناچاہیے جو تمام امت سے افضل ہو۔
اس کی تائید پارہ گیارواں نصف کے قریب نویں رکوع میں یہ آیت کرتی ہے۔
قل ھل من شرکائکم من یھدی الی الحق قل اللہ یھدی للحق اس آیت سے زیادہ وضاحت میرے خیال میں ممکن نہیں اگر انسان اجنبی کی حیثیت سے صرف اسی آیت کو پڑھ لے اور سمجھ لے تو یہی ایک آیت کافی ہے۔
ترجمہ: حبیب ان سے کہہ دو کہ ان کے شریکوں میں سے کوئی ہے جو حق کی طرف ہدایت کرے؟ آپ فرما دیجئے اللہ ہی ہے جو حق کی ہدایت کرتا ہے۔
آگے ارشاد ہوتا ہے: افمن یھدی الی الحق احق ان یتبع امن لا یھدی الا ان یھدی ط فما لکم کیف تحکمون
ترجمہ: کیا پس وہ شخص جو حق کی طرف ہدایت کرتاہے زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے؟ یا وہ شخص جو ہدایت ہی نہیں رکھتا مگر یہ کہ وہ ہدایت کیا جاتا ہے پس کیاہوا تمہیں کس طرح کا فیصلہ کرتے ہو تم؟
پس ایک شخص تو وہ ہے جوجب ہدایت کرتا ہے حق کی ہدایت کرتا ہے وہ کبھی ہدایت سے باہر نہیں جاتا او رایک وہ ہے جو ہدایت کر ہی نہیں کستا یا ہدایت رکھتا ہی نہیں جب تک کہ کوِئی اور اس کو ہدایت نہ کرے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان دو میں سے تم کس کی پیروی کرو گے؟
میرے بزرگو! میں اپنے نقص کا اعتراف کرتا ہوں۔ ممکن ہے کہ میرے الفاظ آپ کے ذہن نشین ہوگئے ہوں گے۔ میں پھر عرض کرتا ہوں شاید بعض کے اذھان مبارکہ تک میں مطلب آپ کو نہ سمجھا سکا ہوں بعض تو آپ میں سے وہ ہوں گے جو واقعا مجھ سے بہتر جانتے ہیں اور بعض وہ ہیں جن کے کان میں یہ باتیں نہیں پہنچتی اور وہ سید الشھداء کے صدقے میں انہیں سننے آجاتے ہیں۔
دوبارہ ترجمہ سنیئے۔ کیا وہ شخص جو حق ہی کی طرف ہدایت کرتا ہے جب بھی ہدایت کرتا ہے وہ حق کی طرف ہی ہدایت کرتا ہے یعنی اس کی ہدایت میں غلطی کا کوئی احتمال نہیں اور ایک وہ شخص ہے جو ہدایت یافتہ نہ ہو اور ایک شخص وہ ہے جو خود ہدایت یافتہ نہ ہوتا اگر کوئی ہدایت کرنے والا نہ اسے مل جاتا پس تم ان دونوں سے کس کی پیروی کی جائے گی۔
سبحان اللہ پروردگار عالم خود ہی سوال فرمایا ہے: فما لکم کیف تحکمون گویا سننے والے نے خود ہی جواب دے دیا اب سوال کرتا ہے کہ تمہیں کیا ہوا؟ کیسا جواب دیتے ہیں کہ ایک وہ شخص ہے جس نے جب بھی ہدایت کی حق کی ہدایت کی اور ایک وہ شخص ہے جس کو خود ہدایت ہی نہ ملی پس کس کی پیروی کی جائے؟ تمہیں کیا ہوگیا اس کے خلاف باتیں کررہے ہو۔ جو کہتے ہو عمل اس کے خلاف کررہے ہو۔
پس دونوں قسم کے آدمی زمانہ رسول میں موجود ہیں۔ وہ بھی ہیں کہ جب کبھی اس نے ہدایت کی حق کی ہی ہدایت کی اور وہ بھی جس کو ہدایت نہ ملتی اگر اسے ہادی نہ ملتا۔
پس کس قدر معاملہ سہل اور آسان ہوگیا کہ جس جس کا نام آپ کے سامنے آتا جائے اس معیار پر آپ پرکھتے جائیں۔
ہم آپ مسلمان ہیں۔ مسلمان پیدا ہوئے مسلمان ماں باپ کی گود میں ہے مسلمان مدرسے میں گئے یعنی سارا ماحول اسلام ہی رہا آپ بتائیں کہ اگر ہمیں ہدایت نہ ملتی خواہ استاد سے خواہ ماشباب سے تم ہم محتاج نہ تھے کہ ہدایت پاتے۔
آپ ان لوگوں کے متعلق کی اکہیں گے جن کو آغوش ملی تو کفر کی جوانی آئی تو حالت کفر میں پس ان کو ہادی نہ ملتا تو وہ ہدایت یافتہ ہوئے۔ پس یہ اسی لیے ہدایت یافتہ ہوئے کہ ان کو ہادی مل گیا۔ لہذا ثابت ہوا کہ یہ اس فہرست میں نہیں جو ہادیوں کی فہرست ہے۔
لیکن آیت کہتی ہے کوئی ایسا بھی ہوگا کہ جو اس فہرست میں ہو کہ جب کبھی اس نے ہدایت کی حق کی ہدایت کی۔
بطور مثال میرا نام لیجئے دیکھئے اسے ہدایت مل سکتی تھی اگر ہادی نہ ہوتا ذرا ایک سو سال پیچھے ہٹ کر کسی کا نام لیجئے اور دیکھ ئے کہ اسے ہدایت ہوسکتی تھی اگر ہادی نہ ملتا؟ چلئے او رپیچھے ہٹیے زمانہ رسول تک کوئی ہے جس کا نام لیں اگر اسے ہادی نہ ملتا تو اسے ہدایت ہوتی پس ضروری ہوا کہ کوئی تو ہوگا جو پیدا ہو تو ہادی تھا آپ تلاش کریں گے تو آپ کو ضرور مل جائے گا۔ ممکن ہے کوئی اور بھی ہو ہم کو انکار کی ضرورت نہیںٍ لیکن نبی کی زبان سے جو فیصلہ ہوتا ہے وہ یہ ہے:
علی مع الحق و الحق مع علی
فرمایا رسالت مآب نے کہ علی ہمیشہ حق کے ساتھ رہا اور حق ہمیشہ علی کے ساتھ رہا۔
ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا: اللھم ادر الحق حیث دار علی کہ الھی حق کو وہاں چلا جہاں علی ہے۔
پس آپ کو اگر کوئی ایسا شخص نہ ملے تو کم از کم بروئے فرمان نبوی امیر المومنین علی ابن ابی طالب آپ کو ایسے ملیں گے جو حق پر تھے حق ان کے ساتھ تھا اور جب بھی آپ نے ہدایت کی تو حق کی ہدایت کی۔ فما لکم کیف تحکمون ط اور تم خود دل میں سوچ لو کہ تمہارا فیصلہ کیا ہے۔
الغرض پروردگار عالم نے ہم کو ایک طرف ناقص پیدا کیا دوسری طرف ہمیں استعداد رکھی کہ اگر برے آدمی کی صحبت ملی تو برے ہوگئے اچھے آدمیوں کی صحبت ملی تو قریب قریب ظنی میں بھی بلکہ یقینی طور پر اچھے ہوگئے۔ اگر ہمارا ماحول بگڑ گیا۔ تو ہماری فطری حالت بھی بدل گئی ایسی صورت میں خدا پر واجب ہوگیا کہ ہمارے نقص کودور کرے کامل بنانے والے کو بھیجے اور کامل کردے پس ہمارے پیدا کرنے کا فائدہ یا غرض تکمیل ہے اور تکمیل ہو نہیں سکتی جب تک معرفت کے ساتھ محبت نہ ہو۔
فرعون جانتا تھا کہ خدا خدا ہے وہ جانتا تھا کہ وہ خود اس طرح خدا نہیں بلکہ خدا وہ ہے جس نے اس کو بنایا ہے لیکن محض یہ جاننا اسکے کچھ کام نہ آیا۔
نمرود کا واقعہ آپ نے ضرور سنا ہوگا جناب ابراھیم منجیق پر رکھ کر پھینک دئے گئے نمرود مطمئن ہوگیا کہ آج ابراھیم کی اذیت سے اس کو نجات مل گئی رات کا وقت تھا آگ کے شعلے اس قدر بلند ہو رہے تھے کہ اوپر سے کوئی جانور گذر نہ سکتا تھا اندازہ لگا لیجئے کہ کتنی لکڑی تھیں جو اس میں جلانے کے لیے جمع کی گئی تھیں۔ رات بھر آرام سے سویا کہ بس ابراھیم ختم ہوگئے۔ صبح اٹھا وزیر سے کہا چلئے دیکھیں ابراھیم کا حال کیا ہے۔ دونوں وہاں پہنچے وہ زمین جو کل بالکل ایک بنجر تھی اور ایک تنکا بھی وہاں اگا ہوا نہ تھا۔ دیکھتے ہیں کہ پھولوں سے لدی ہوئی ہے نہ صرف پتے شاخ میں اگے تھے بلکہ معلوم ہو رہا تھا کہ پھول ہی پھول کھلے ہیں یہ ایک نفسیاتی امر ہے ایسے وقت میں کہہ سکتا تھا کہ کیا ہوگیا۔ آگے بڑھا دیکھا کہ ڈھیر ہے بالکل تازہ پھولوں کا۔
اس ڈھیر میں حضرت ابراھیم بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ ایک جوان بھی بیٹھا تھا۔ دونوں مسکرا مسکرا کر باتیں کررہے تھے۔ اب نمرود چھپا نہ سکا اپنے وزیر سے کہا کہ خدا ہو تو ایسا خدا ہو جیسا کہ ابراھیم کا ہے۔
معلوم ہوا کہ نمرود یہ پہلے بہی جانتا تھا لیکن خواہشات انسانی انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔
ذکر ہے کے ایک شخص کہا کرتا تھا کہ خدا کے لئے معاف کر دو علی تم میں موجود ہیں معاف کردو ان کی موجودگی میں میں اس قابل نہیں۔
ہر شخص جو مدعی ہوتا ہے اگر وہ خلاف حق تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ میں کیا کہتا ہوں۔انسان میں کمزوریاں ہیں ہاں کبھی سوداوی مرض کا غلبہ ہو جائے تو انسان کبھی اپنے آپ کو جانور جانتا ہے کبھی خدا جاننے لگتا ہے۔لہذا ضرورت ہے کہ انسان کے لئے کوئی کامل کرنے والا ہو۔تکلیف دی گئی کہ نماز پڑھو!روزہ رکھو! لیکن ضروری ہو گا کہ جو کامل کرنے والا یا ہم کو بتلانے والا ہو۔ وہ ہم جیسا نہ ہو۔
سیدنا سلمان فارس کا بڑا بلند مقام ہے ان سے اونچا ہونا بہت مشکل ہے جناب رسالت ماب نے ان کے حق میں ارشاد فرمایا ہے: سلمان منا اھل البیت“کہ سلمان ہم اہل بیت سے ہیں حضور نے انکی بڑی تعریف کیٍ۔
چاہتا ہوں کہ عرض کر دوں کہ آئمہ طاہرین کے دوست کیسے تھے؟ اس لئے کہ کسی آدمی کے شناخت کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ اسکے دوستوں کو دیکھا جائے۔ حکماء کا قول ہے کہ کسی کو دیکھنا ہو کہ وہ کیسا ہے تو اسکے ہم نوالے ،ہم پیالہ لوگوں کو دیکھو جو ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کا دعوٰی رکھتے ہیں۔
پس پتہ چل جائیگا کے وہ کس قسم کا آدمی ہے چاہتا ہوں کہ یہ دلیل عرض کر دوں جو انشاء اللّہ سیدھا ہے راستے کو دکھلا دے گی۔ اگرچہ راستے پر نہ چلنا اور بات ہے تاہم راستہ سامنے آجائے گا۔
جس قدر آدمی ہیں ۔ ہدایت کے محتاج ہیں اپنی تمیل میں ان کو غیر کی احتجاج ہے ۔ جو ہدایت کرتے ہیں ۔ محتاج نہ ہو ۔ ورنہ ”کیف یسئل المحتاج
“ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی محتاج کسی ایسے شخص کے سامنے اپنا سوال یا حاجت پیش کرے جو خود اس حاجت میں محتاج ہے ۔
عمل ھذا لقیاس ایک شخص جو بے دولت ہے بغیر مال کے ہے ۔ مال کی اسے خود ضرورت ہے کوئی ایسا ہوگا ؟ جو ایسے شخص کی طرف رغبت کرے گا تاکہ وہ اسے مال دار بنا دے ۔
تمام عالم محتاج ہے ۔ آپ بھی محتاج ہیں میں بھی محتاج ہوں ( یاد رکھیں کہ محتاج کے معنی محتاج ہدایت ہے ) آپ مجھے فرض کیجیے بھیک مانگتے ہیں اور میں پہلے ہی ہاتھ بڑھاتے ہوئے ہوں تو کیا یہ ممکن ہوگا کہ آپ مجھ سے مانگیں ؟ بلکہ اس میدان میں اس کی طرف جانا ہوگا جو خود محتاج نہیں ۔
خدا تعالٰی نے جب انسان کو عقل عطا کی استعداد بخشی تو خدا پر فرض ہوگیا کہ ایسے لوگوں کو بھی بھیج دے جو خدا محتاج نہ ہوں بلکہ محتاجوں کی حاجت روا ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ معصوم بھی ہونے چاہیں کہ ان سے غلطیاں بھی نہ ہوں ۔
ایسے لوگ کون ہوتے ہیں ؟ خدا تعالٰی کے بدل تّام ہوتے ہیں ۔
بدل تّام کا مطلب یہ ہے کہ جو احکام ادھر خدا تعالٰی کی طرف منسوب کئے جائیں وہ ان کی طرف منتقل ہوجائیں ان کی معیت خدا کی معیت ہو ان کی اطاعت خدا کی اطاعت ہو ۔ اسی حقیقت کو قرآن مجیدنے ان الفاظ میں بیان فرمایا: ”من یطع الرسول فقد اطاع اللہ“ کہ جس نے رسول خدا کی اطاعت کی بے شک اس نے کی اطاعت کی پس اس کی معصیت خدا کی اطاعت ہے۔ وہ ہم میں پروردگار عالم کا قائم مقام ہوگا۔ وہ اس کی طرف سے آکے وہ کام کریگا۔ جو خدا کا کام ہوگا۔ اس لیے کہ خدا اگر خود کام کرنے کو آجاتا تو خدا نہ رہتا۔
پس اس ہادی کی ہدایت خدا کی ہدایت اس سے محبت خدا سے محبت اس سے لڑائی خدا سے لڑائی اس کو ماننا خدا کو ماننا اور اس کو نہ ماننا خدا کو نہ ماننا۔
پس تکمیل کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے رسول کو بھیجا گیا۔ لیکن آپ خیال فرمائیں کہ رسول کے بعد بھی تکمیل کی ضرورت رہی تھی۔ اگر ان کے بعد بھی تکیل کی ضرورت باقی رہی تو پھر ویسا ہی ”مکمل“ یعنی کامل کرنے والا بھی ضروری ہوا جیسا کہ خو رسول مکمل (کامل بنانے والے) تھے۔
اس مکمل کی شناخت بھی وہی ہوگی جیسا وہ کہے ویسا ہی ہو جائے اس کی شان بھی ویسی ہی ہو جیسی شان رسول کی تھی۔
ممکن ہے آپ کسی اور کے متعلق کہیں کہ وہ بعد از رسول مکمل ہوگا۔ مگر خود فرمان رسول کی رو سے جو مکمل تھا۔ وہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب تھے جنکے لیے حضور ارشاد فرماتے ہیں:
۲) ” ایھا الناس انا و علی من نور واحد“
”کہ اے بنی نوع انسان میں اور علی ایک ہی نور سے ہیں۔“
پس ہماری نیاز مندی یا خدمت اس شخص کے لیے ہونی چاہیے جو ہم کو بے نیاز کردے نیاز مندی حقیقت میں ایک عذاب ہے (نیاز مندی کا مطلب وہ نہیں ہے جو ہم آج بولتے ہیں۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ محتاجی اصل میں ایک عذاب ہے۔ مثلاً:
آج کپڑوں کی ضرورت ہے کل مکان کی ضرورت ہے پرسوں سواری کی حاجت ہے پھر غذا کی محتاجی ہے۔ پھر دوا کی ضرورت ہے وغیرہ وغیرہ یہ محتاجیاں حقیقت میں ایک عذاب ہیں اگر عذاب نہ ہوتیں تو ان کی احتیاج نہ ہوتی۔
اس لیے خدمت اس کی کرنی چاہیے جو اس احتیاج کو دور کردے اور بے نیاز کردے۔
مزید توضیح اس کی یہ ہے کہ خدمت اس کی کرنی چاہیے کہ جس میں چند صفات ہوں۔
۱) وہ قادر ہو۔ تاکہ وہ خدمت کے مطابق بدلہ دے سکے۔
۲) وہ حکیم ہو۔ جو عین حکمت کے مطابق بدلہ دے۔
۳) وہ عالم ہو کہ بدل وغیرہ کے مطابق سچٍے علم کے مطابق اور صحیح علم کے ساتھ بدلہ دے۔
جب وہ قادر نہ ہوگا تو حق نہیں رکھتا کہ اس کی خدمت کی جائے۔ اگر وہ عالم نہ ہوگا تو اس کی خدمت بے معنی ہوگی۔
خدمت سے مردا اطاعت ہے ہمیں اطاعت پر مامور کیا گیا ہے۔ یہی اطاعت ہماری خدمت ہے۔
مذکورہ صنعتوں کا مالک خدا ہے اس کا قائم مقام اس لیے آتا ہے کہ تم اس کی خدمت کرلو اور بے نیاز ہو جاؤ اور ضروری ہے کہ وہ قائم مقام خود بے نیاز ہو۔ ورنہ وہ ہماری نیاز مندی کیسے دور کرے گا۔
بے نیازی کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ کسی شئے کو کہے کہ ہو جاتو وہ ہو جائے۔ جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد ہوا: ”یا ابن آدم! اطعنی لاجعلک مثلی“ کہ اے آدم کے بیٹے تو میری اطاعت کرنے والا بن جا میں تجھے اپنے جیسا بنادونگا۔ جن کانوں سے تو سنے گا وہ میرے ہونگے جن آنکھوں سے دیکھے گا وہ میری آنکھیں ہوں گی۔
پس اگر ایسا شخص مل جائے تو اسے اذن اللہ (خدا کا کان) کہ دیں تو ٹھیک ہے۔ اس کو ید اللہ کہ دیں تو ٹھیک ہے۔ اس کی شان یہ ہو تو ٹھیک کہ ”اذا اراد شیأ ان یقول له کن فیکون
“کہ ادھر کسی چیز کے ہونے کا ارادہ کیا اور کہا کہ ہو جا۔ تو وہیں وہ چیز ہوگی۔
پس یہ شان و حیثیت رکھنے والا کوئی تو ہوگا۔ آپ سمجھیں اور سوچیں کہ وہ کون ہوسکتا ہے۔ اس قسم کے خطاب خود رسول خدا کی زبان سے سکے مل چکے ہیں۔ کبھی فرمایا ید اللہ کبھی کہا گیا نفس اللہ کبھی کہا گیا اس کا بولنا اپنا بولنا ہی نہیں ”و ما ینطق عن الھوا ان ھو الا وحی یوحیٰ“ وہ اپنی طرف سے نہیں بولتا وہ جو بولتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی وحی ہوتی ہے۔ اس کا بولنا اپنا بولنا نہیں ہوتا بلکہ وحی خدا کا بولنا ہوتا ہے۔
اب اسی کا کام ہے کہ وہ ہمیں محتاجی سے بے نیاز کر دے اور بہشت کی تعریف بھی اسی لیے ہے کہ وہاں کسی قسم کی احتیاج نہ ہوگی ورنہ بہشت میں جاکر بھی احتیاج رہی تو عذاب ساتھ ساتھ رہا۔
کیا خوب کہا کسی نے
آنکہ شریاں را کند دوباہ مزاج
احتیاج است احتیاج است احتیاج
اگر جنت میں بھی احتیاج باقی رہی تو جہنم اور جنت میں فرق کیا رہا۔ پس جنت میں نہ احتیاج ہوتی نہ عذاب ہوگا۔
قرآن پاک میں اسی لیے ارشاد ہوا: ولکم فیھا ماتشتھی انفسکم و لکم فیھا ماتدعون کہ جنت میں تمہارے نفس جو کچھ خواہش کرینگے موجود پاؤ گے اور جو کچھ منہ سے مانگو گے تمہیں دیا جائے گا۔
بلکہ نفس جو خواہش کرے گا وہ خواہش سے ہیلے موجود ہوگی اگر جواہرات کا مکان ضرورت ہے خواہش سے پہلے بنا بنایا موجود۔ اگر ایسے طائر کا گوشت چاہو گے تو خواہش کے ساتھ ہی سامنے موجود ہوگا۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:لهم ما یشاؤن فیها و لدینا مزید
“ یعنی بہشت میں بہشتی جو کچھ چاہیں گے موجود ہوگا اور اس کے علاوہ مزید بھی سب کچھ ہوگا۔
میرے بزرگو! آپ بتلائیں کہ ایسے لوگ کون ہیں۔ جو ”محتاجی سے بے نیاز کرسکیں“ ”جو کسی شئے کو کہے ہو جا تو وہ ہو جائے“ اگر ہم سے آپ پوچھیں گے تو ہم پھر وہی کہیں گے یہ لوگ حضرات اہل بیت اطہار ہیں جو ارشاد فرماتے ہیں ایک موقع پر
”کہ لوگو سامنے دیوار کو اگر حکم دے دوں اور کہدوں کہ سونا ہو جا۔ تو اسی وقت سونا ہو جائے۔“
کیا آپ جانتے نہیں کہ آپ نے صرف یہ لفظ فرمائے اور ابھی یہ حکم نہیں دیا تھا۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جو چیز محض فرمانے سے ان کے تصور میں آچکی تھی۔ ادھر زبان مبارک سے یہ لفظ نکلے۔ ادھر لوگوں نے دیکھا کہ وہ دیوار سونے کی بن چکی تھی۔
کسی نے حضرت امام جعفر صادق سے دریافت کیا ”کہ بندے کا کیا حق ہے خدا پر“ ارشاد فرمایا حضور نے ”کہ بندے کا حق یہ ہے کہ خدا اسے یہ مرتبہ عطا کردے کہ اگر وہ اس درخت چلنے لگ جائے تو اسی وقت وہ درخت چلنے لگے“
حضرت امام باوجودیکہ درخت کو چلنے کے لیے نہیں فرمایا زبان مبارک سے یہ فرمودہ ختم نہیں ہوا تھا کہ وہ درخت چل پڑا اور وہ شخص دیکھ رہا تھا۔
اور یہ چیزیں وہ ہیں جو حاصل نہیں ہوسکتیں تا وقتیکہ نفس کا تزکیہ اور تصفیہ آخری منزل کمال پر نہ پہنچ چکا ہو۔ اسی منزل پر پہنچنے کے بعد خدا کا کلام ایسے نفس والوں کے حق میں صادق آتا ہے۔
”اذا اردت شیأ ان تقول له کن فیکون
“
اس منزل کے متعلق یہ کہنا کہ فلاں شخص میں ایسی صفائی ہے یا نہیں معلوم نہیں ہوسکتی جب تک خداوند خود تصدیق نہ کرے۔ اسی لیے آیت تطہیر ایسے نفوس کے تزکیہ و طہارت کے بارے میں نازل ہوئی۔ ”انما یرید اللہ لیذھ عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا“ اے اہل بیت کو کامل پاک اور مطہر کرنے کا ارادہ کریں اس میں خدا نے پاکیزگی او رطہارت کی انتہاء کر دی۔
پس اب بھی اگر کسی کو نظر نہ آئے تو آیت تطہیر بھی اس کے لیے نہیں ہوگی۔ خواہ کوئی ہو۔
پس اطاعت کرنی ہے تو اس کی کرتی ہے جو غنی کردے دولت سے نہیں بلکہ غنی کا مطلب یہ ہے احتیاج عذاب نیاز مندی سے غنی کرد ے۔
کیا خوب ارشاد فرمایا: ”انما الغنا لیس باالمال و انما الغنا من الناهیس
“ط غنیٰ یہ نہیں کہ مال و دولت سے بے نیازی حاصل ہو جائے بلکہ غنیٰ یہ ہے۔ جو لوگوں سے احتیاج کو ختم کردے۔ اگر ایک شخص فقیر ہے اور کسی کا محتاج نہیں تو وہ غنیٰ ہے۔ ایک شخص مالدار ہے اور وہ محتاج ہے تو وہ فقیر ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ کیا آج تک کسی نے سنا کہ اہل بیت رسول کسی کے دروازے پر اپنی کی ضرورت کو لے کر گئے ہوں؟
اس لیے کہ وہ غنی تھے۔ بلکہ دنیا کو ضرروت تھی کہ جب کسی چیز کی احتیاج ہو تو ان کے دروازے پر حاضر ہوں۔
ہاں! ہاں! اگر کسی حکمت کی بناپر ضرورت پڑگئی تو بے شک انہیں جانا پڑا لیکن مسلمانوں کے دروازے پر وہ کبھی نہ گئے بلکہ یہودی کے دروازے پر گئے جس نے دیکھتے ہی کہا کہ آپ تو غنی ہیں اور چادر لے کر آئے ہیں۔ ارشاد فرمایا ہم نے دنیا میں رہنا ہے۔ اپنے غلاموں کے لیے زندگی کے سارے نمونے پیش کرنے ہیں۔ یہ ہمارا آنا پیروکاروں کے لیے ہے کہ وہ ہمارے نمونے کو سامنے رکھیں۔
ورنہ خدا نے ہمیں یہ طاقت دی ہے کہ اگر اس دیوار کو کہ دیں کہ سونے کی ہو جا تو اسی وقت سونے کی ہو جائے۔
پس میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو ضرورت پڑی تو ان کے دروازے پر حاضر ہوئے مگر یہ کسی کے دروازے پر حاضر نہ ہوئے۔ اگر کسی کو علم کی ضرورت پڑی تو کو نسا دروازہ تھا جسے دنیا جانتی تھی اور وہاں سب پہنچتے تھے؟ البتہ اہل بیت ہی وہ تھے۔ جو کسی کے دروازے پر نہ جاتے تھے۔
دور دور سے لوگ مالداروں کو چھوڑ کر ان کے دروازے پہ آتے تھے اس لیے کہ یہ وہ نفوس پاکیزہ تھے جو کسی کو خالی ہاتھ واپس نہیں کرتے تھے اور ان کو یہ اطمینان بھی ہوتا تھا یہ حضرات دینے کے بعد بھول جائیں گے۔
ایک شخص سیدنا امام حسین کے دروازے پر آیا۔ اپنا مطلب دو شعروں میں لکھا اور کنیز کے ہاتھ رقہ اندربھیجا دیا۔ آپ ضروری سوالات کے جوابات لکھنے میں مصروف تھے کنیز نے اس رقے کے دینے میں کچھ دیر لگائی۔
رقعے میں سائل نے یہ واضح کیا تھا کہ وہ اپنے وطن میں ایک بڑا مالدار تھا۔ دنیا کی ہر شئے ایک اس کے پاس موجود تھی زمانے کا انقلاب آیا تمام اسباب لٹنے لگا اور سوائے ایک شے سب کچھ لٹ گیا ۔ مگر وہ شے جو باقی رہ گئی تھی اس کا خریدار میں نے کسی کو نہ پایا آپ کے در پر میں آیا ہوں کے آپ اسے خرید لیں اور وہ شے کیا ہے ؟ ” میری عزت “ اس لئے کہ کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنا عزت کو بیچنا ہے ۔ بس آپ کے در پر آیا کہ میری اس شے کو خرید لیں ۔
پرچے کے ملنے میں کچھ اور دیر ہوگئی اس نے دو شعر اور لکھے۔ جن کا مفہوم یہ تھا کہ اے فرزند فاطمہ امام حسین! حیراں ہوں تمہارا در چھوڑ کر کہاں جاؤں اب میں کسی کے در پر نہیں جاؤں گا۔ وطن کے لوگ پوچھیں گے کہ امام حسین کے پاس گئے تھے انہو ں نے کیا دیا؟ اگر کہوں گا کچھ دیا ہے تو جھوٹا بنوں گا اور اگر یہ کہوں گا کچھ نہیں دیا تو لوگ کہیں گے تو جھوٹا ہے یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ کوئی حسین کے دروازے پر جائے اور اسے کچھ نے ملے؟ لہذا حیراں ہوں کہ میں کیا کروں۔
اپنے دونوں رقعے پڑھے کنیز پر غصہ فرمایا: وہ بیچاری تڑپنے لگی۔ فرمایا کہ تو نے سائل کو اتنی تکلیف دی اس قدر اس نے انتظار کی زحمت اٹھائی۔ بہرحال گھر میں جو نقدی تھی عورتوں کے پاس جو زیور تھے جمع کئے۔ ایک تھیلی میں سب کچھ ڈالا اور محسوس فرمایا کہ جتنا کچھ دینا چاہیے تھا اتنا نہیں دیا جاسکا۔ دروازہ بند تھا۔ ایک ہی پٹ کھولا اور فرمایا ”بھائی اسی قدر حاضر ہے‘ لے لے“ اور دوشعر اس عذر کے ساتھ لکھے کہ زمانے ہمارے موافق نہیں کہ وہ کچھ دیتے جو دے سکتے تھے۔
سائل نے تھیلی کھولی تو امید سے زیادہ پایا۔ عرض کی حضور دروازہ کھول دیجئے اپنا دیدار تو کرا دیجئے۔ فرمایا مجھے شرم آتی ہے تمہارے سامنے آنے سے اس لیے کہ اتنا کچھ نہیں دے سکا جتنا کہ مجھے دینا چاہیے تھا۔
اہل اسلام کی کتب میں یہ واقعات موجود ہیں کہ انسان درکنار جانور بھپی ضرورت کے وقت ان ہی کے مقدس استانہ پر حاضر ہوتے تھے۔
سیدنا امام زین العابدین مسجد میں تشریف فرماہیں کہ ایک ہرنی دوڑتی ہوئی مسجد میں پہنچ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ آپ قائم مقام رسول ہیں۔
یہ واقعہ حضور رسالت مآب صلعم کے متعلق بھی احادیث میں موجود ہے کہ حضور بیٹھے ہیں کہ سامنے سے اونٹ آتا ہے۔ آپ اس کے قریب ہوتے ہیں وہ کچھ حضور کے کان میں عرض کرتا ہے۔ جب وہ چپ ہو جاتا ہے۔ تو حضور نے حاضرین سے پوچھا کہ فلاں شخص کو کوئی جانتا ہے اس ے بلا لاؤ۔ ایک آدمی اسے بلانے گیا۔ عرض کیا گیا یہ اونٹ آپ سے کیا کہہ رہا تھا؟ ارشاد فرمایا یہ اپنے آقا کی شکایت لے کر آیا ہے او رکہتا ہے کہ ساری عمر میں نے مالک کی خدمت میں گزاری بار برداری کا کام کرتا رہا اب میرا مالک مجھے ذبح کرنا چاہتا ہے۔ یا رسول اللہ! اپنی فاطمہ کے بچوں کی صدقے مجِھے بچا لیجئے۔
اتنے میں اونٹ کا مالک آپہنچا حضور نے ارشاد فرمایا: کیا اسے ذبح کرنے کا ارادہ ہے؟ عرض کیا ہاں یا رسول اللہ! یہ بوڑھا ہوچکا ہے کام کرنے کے لائق نہ رہا اس لیے چاہتا ہوں کہ اسے ذبح کردیا جائے۔
حضور نے فرمایا: ”میری خاطر اسے چھوڑ دے“ اونٹ کے مالک نے جواب دیا: ”کہ بہتر یا رسول اللہ! یہ اونٹ بھی آپکا ہے اور میں بھی آپکا۔
لوگو ں نے دیکھا کہ جب اونٹ کا مالک اسے واپس لے چلا تو اونٹ نے مسجد کے دروازے پر تین مرتبہ آواز دی۔
عرض کیا گیا ”یا رسول اللہ! اونٹ نے کیا کہا۔ ارشاد فرمایا: کہ یہ اونٹ میری فاطمہ کے بچوں کے لیے دعائیں دے رہا ہے۔
پس حضرت امام زین العابدین حضور ہی کے جانشین ہیں۔ آپ نے ہرنی کی فریاد سنی کہ کوئی شخص اس کا بچہ گرفتار کرکے لے آیا ہے حضور اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے گرفتار کرنے والے کے گھر پہنچے اسے باہر بلایا۔
اور فرمایا یہ ہرنی اس بچے کی ماں ہے جو تیرے پاں ہے یہ آئی ہے کہ تو اس کے بچے کو چھوڑ دے۔ اس شخص نے عرض کیا کہ حضور وہ بھاگ جائے گا۔ آپ نے فرمایا: میں ذمہ دار ہوں نہیں بھاگے گا۔
آہ! اس بچے کے واقعہ نے مجھے وہ ننھا بچہ یاد کرا دیا کہ بھوکا پیاسا دنیا سے چل بسا اور اس کی ماں زار زار رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ بیٹا کہ تو پیاسا تھا پانی پیئے بغیر زخمی حلقوم کے ساتھ دنیا سے چل پڑا۔
یہ وہ یاد ہے جو رونے والوں کو جس قدر لائے کم ہے۔ تیرہ سو سال گذر گئے لیکن روز بروز رونے والوں میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ رونے سے روکنے والو قدرت کو یہ رونا پسند نہ ہوتا تو اس طرح رونے والوں میں ترقی نہ ہوتی ظاہراً اس ترقی کے کوئی اسباب موجود نہیں ہیں کسی کو کوئی دولت نہیں دی جاتی کوئی لالچ نہیں دیا جاتا اور باوجود اس کے ادھر ماہ محرم کا چاند نظر آیا اور دنیا کا دل کھنچ آیا۔ دنیا کو یتماؤں میں وہ لطف نہ آتا ہوگا جو رونے والوں کو رونے میں مزا آتا ہوگا۔ یہ لوگ ڈھونڈتے ہیں کہ کونسی جگہ رونے کی ملے کہ جہاں ان کے لیے رویا جائے۔ ارے یقین کرلو! یہ خدا ہے جو اس یاد کو اور رونے کے روز بروز ترقی دے رہا ہے۔ یہ کام ہمارا نہیں یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے جو اسے برابر بڑھا رہا ہے اس لیے کہ خدا سیدہ فاطمہ الزہرا سے وعدہ کرچکا ہے۔ فاطمہ تجدید عہد ہوا جنابہ سیدہ نے رسول اللہ سے عرض کیا کہ بابا جی گھٹتا ہے کہ میرا یہ بچہ ذبح کیا جائیگا؟ ارشاد فرمایا: ہاں ہاں یہ تب ہوگا جب نہ تم ہوگی نہ میں ہونگا۔ اور نہ علی ہوں گے۔
تب حضرت سیدہ نے پوچھا: بابا جان! پھر اس پر کون روئے گا۔ آپ نے فرمایا: ”مدینہ کی عورتیں اہل بیت کی عورتوں کے مصائب اور اس کے مرد اہل بیت کے مردوں کے مصائب پر ہر سال رویا کریں گے۔ قیامت کے دن تو ان عورتیں کی اور ان مردوں کی شفاعت کرکے جنت میں داخل کروں گا۔“
یہی وہ چیزیں تھیں کہ امام حیسن کو رسول خدا دیکھتے تو روتے۔ جب سیدہ کے سامنے آتے تو وہ بھی روتیں۔ جب وہ تصور کرتے کہ بیٹے کو تکلیف آنے والی ہے تو ان کے دل میں درد بڑھ جاتا۔ حضرت امام سیدہ کو کبھی فرماتے: اماں جان کیوں روتی ہو؟ میرا وعدہ ہے میں اسے پورا کرکے رہوں گا۔اگر میرے باپ نے وعدہ کیا اس سے زائد کرکے دکھلا دوں گا۔
ایک بار کا ذکرہے کہ حضور ہمہ تن متوجہ تھے۔ سیدنا امام حسین سامنے آگئے اپنے اپنے ساتھی اصحابی سے فرمایا یہ میرے دل کا ٹکڑا ہے۔ جب یہ مدد مانگے مدد کرنا پانی مانے گا پانی دینا۔
مگر آہ افسوس جس اہل بیت نے کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلایا تھا۔ ایک وقت آگیا کہ ایک گھونٹ پانی کے لیے ہاتھ پھیلانا پڑگیا۔ لیکن اپنے لیے نہیں چھ ماہ کے بچے کے لے۔ عمر بھر دنیا پر جنکے احسان ہوتے رہے۔ کیا ان کو پانی نہ ملا ہوگا؟ مگر حقیقت یہی ہے کہ پانی کیا ملنا تھا کہ جواب میں تیر آیا۔ حلقوم نازک چھلنی کرگیا۔
یہی امام مدینے سے نکلنے کے بعد راستے کی منزلیں اور تکلیفیں طے کرتے ہوئے کربلا پہنچے علی اکبر سامنے آیا معلوم ہوتا تھا کہ بیٹے کا جنازہ جارہا ہے بہن سامنے آئی محسوس ہوتا تھا کہ براھنہ سر نظر آرہی ہے۔
یہی سبب تھا مکہ سے آپ نکلے جبکہ لوگ حج کو جارہے تھے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ کیوں جارہے ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ میرے خدا کے گھر کی عزت برباد ہو جائے گے چند در چند منزلیں طے کیں۔ ایک منزل پر نماز صبح کے بعد اصحاب کے ساتھ بیٹھے سرجھکائے ہوئے تھے۔ ہمت نہ ہوتی تھی کسی کی پوچھے کہ آپ غمگین کیوں ہوں۔ خود ہی سر مبارک اٹھایا اور فرمایا وہ ایک شخص کوفے سے آتا نظر آرہا ہے۔ اس کا خیال رکھو اسے میرے پاس لے آؤ۔ راہ گزرنے سمجھا کہ راستہ کاٹ نکلوں۔ آپ کے غلام نے کہا۔ ڈرو نہیں میرے آقا کے پاس چلو انہوں نے کچھ پوچھنا ہے۔
کہا”کون ہے تمہارا آقا“ جواب دیا: ”علی اور فاطمہ کے بیٹے حسین“ کہا: ”بھی چلتا ہوں“ حاضر ہوا سلام کیا: امام نے فرمایا: ”تکلیف دی میں نے آپ کو کوفے سے آرہے ہو پوچھتا ہوں۔ ذرا بتلانا۔ میرے بھائی مسلم وہاں گئے تھے۔ وہ خیریت سے ہیں؟ اس شخص نے عرض کیا۔ حضور ذرا اٹھ کر ایک طرف آئیے۔ فرمایا: ”کیوں“ آپ نے اپنے اصحاب پر نظر ڈالی اور کہا کہ سب اپنے ہی ہیں جو کہنا ہے ان کے سانے کہہ دو۔ اس نے سر سے پگڑی اتاری۔ قدموں پہ رکھی اور فریاد کی۔ کہ حضور کوفے سے جب نکلاہوں مسلم کی لاش تب کوچوں میں پھرائی جارہی تھی۔ رسی پاؤں میں بندھی ہوئی تھی اور کھینچے جارہی تھی۔ آپ نے یہ سنا بے اختیار روئے تمام اصحاب رونے لگے گردن جھکائی پھر اٹھے اور خیمے کی طرف آئے اور ارشاد فرمایا: ”بہن زینب مسلم کی بیٹی رقیہ کو میرے پاس حاضر کرو۔ چار سال کی بچی لائی گئی۔ زانو پر بٹھلایا۔ سرپر ہاتھ پھیرا پھر فرمایا: ”وہ گوشوارے بھی لے آؤ۔“ اپنے ہاتھ سے پہنائے۔ معصوم بچی گھبرا اٹھی اور پکاری ”چچی جان‘ کیا میرے باب مسلم کی خیریت آئی ہے۔ تو ارشاد فرمایا بئی صبر کر اگر مسلم موجود نہیں۔ تو حسین موجود ہے۔ بیٹی نہ گھبرا۔
خداوندا ن آنسوؤں کو قبول کر
برحمتک یا الرحم الرٰحمین