مجلس دوم :
بتاریخ دو محرم الحرام ۱۳۷۵
اعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم
بسم الله الرحمٰن الرحیم
مختصر خطبہ حمد و ثنا و درود۔
( افغیر دین الله یبغون وله اسلم من فی السموٰت والارض طوعا وکرها والیه ترجعون )
حضرات ! تیسرے پارے کے آحری رکوع میں پروردگار عالم ارشاد فرماتا ہے کہ کیا یہ لوگ دین خدا کے غیر کو چاہتے ہیں حالانکہ خدا کے لئے آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والے اپنی گردنیں جھکائے ہوئے ہیں ۔ خوشی لے یا کراہت سے اور اسی طرف سب کی باز گشت ہوگی ۔
یہ ہے ترجمہ اس آیت کریم جو آپ کے سامنے میں نے پڑھی ہے ۔
مجھے ان مجالس محرم الحرام میں صرف دین خدا کے متعلق عرض کرنا ہے ۔ کہ دین اللہ جس شے کو ارشاد فرمایا گیا ہے ۔ وہ کیا چیز ہے ؟
میں نے گزشتہ رات مقدمات کی حیثیت سے عرض کیا تھا کہ دین اللہ ۔ اسلام ۔ ملت یا ملت اسلامیہ وغیرہ یہ تمام الفاظ ماحصل کے اعتبار سے ایک معنی رکھتے ہیں ۔ اگرچہ لغت کے اعتبار سے ان میں باہمی کچھ فرق ہے لیکن مطلب معنٰی کے اعتبار سے یہ سب ہم معنٰی ہیں ۔
مجھے ان مجالس میں اچھا معلوم ہوا کہ اس سال آپ کی خدمت میں دین اللہ کی تفصیل کردوں اور مجھے یہ امید ہے کہ اگر ان چیزوں کی توجہ سے سماعت فرمایا گیا تو اگرچہ عمل اور چیز ہے لیکن علمی صیئت سے شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے گی ۔
پروردگار عالم کو مکلّف کہا جاتا ہے اور ہم لوگ ہیں مکلّف جس کے معنی ہیں وہ جسے تکلیف کا مطلب یہ ہے حکم دیا گیا کہ اصول دین کو سمجھو اور فروغ دین پر عمل کرو۔ اصول پر اعتقاد رکھو اور فروغ کی پیروی کرو۔
پس اعتقاد اصول کا حکم اور فروغ دین پر عمل کرنے کا نام ہے تکلیف اور اسی اعتبار سے ہم سب مکلف بنائے گئے ہیں
”اس تکلیف “ کی عرض کیا ہے
عرض صرف یہ ہے کہ پروردگار عالم ہم کو کامل کرنا چاہتا ہے ۔ پس عرضِ تکلیف حقیقت میں تکمیل انسان ہے ۔
کسی کو کامل کرنے کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہے یا یوں سمجھیے کہ تکمیل موقوف ہے دو چیزوں پر ( ۱) وہ شے خود ناقص ہو ( ۲) اس لئے قابلیت کمال موجود ہو ۔
اگر شے ناقص نہیں تو کامل کرنے کے معنی کیا اور اگر استعداد قابلیت کمال نہیں تو اس صورت میں بھی تکمیل بہ معنی ہے ۔ پس جہاں ان دو سے ایک یا دونوں نہ پائی جائیں گی وہاں تکمیل نہ ہوسکے گی اور تکمیل جب نہ ہوگی تو تکلیف کا تعلق بھی نہ ہوگا ۔
انسان اپنی ذات کے اعتبار سے ناقص مخلوق ہے ۔ پروردگار عالم یہ چاہتا کہ انسان کو حد کمال تک پہنچا دے اور اسے کامل بنادے یہ حقیقت ہے عرض تخلیق انسان کی اس نے ہم کو وہ ہم کو کامل کرنا چاہتا ہے ۔
یہ شے کہ نفس بھی ہو اور قابلیت کمال بھی ہو یہ منحصر ہے صرف انسان میں جنات میں اور بعض ملائکہ ہیں ۔
اور جن میں نقص نہیں وہ عقول ہیں پروردگار عالم کی مخلوقات میں جو عقول ہیں سب سے اول انکو پیدا کیا گیا ہے انہیں کسی قسم کا شائبہ نقص یا عیب نہ رکھا کیونکہ ان میں نقص نہیں لہٰذا ان کی تکمیل بے معنی ہے۔
بہرحال ان کے علاوہ اور کچھ اقسام ملائکہ ہیں۔ جنات اور انسان تو ظاہر ہیں حیوانات بری ہیں۔ جمادات بے تعلق ہیں۔ کیونکہ انہیں قابلیت کمال ہی ہیں (البتہ حیوانات کو سکھلا دینا اور کسی حد تک پہنچا دینا در حقیقت وہ کمال نہیں جو حقیقی کمال ہو۔ اسی ضمن میں نباتات آجائیں گی۔ ان میں نقص موجود رہے اور استعداد کمال بھی نہیں۔ اس طرح عقول میں نقص نہیں وہ خود کامل ہیں)۔
اس وقت جنات یا ملائکہ سے بحث نہیں بحث ہم سے ہے کہ ہم (انسان) ناقص بھی ہیں اور ہم میں استعداد کمال بھی موجود ہے۔ اب دونوں چیزیں موجود ہیں تو خدا اگر کامل نہ کرنا چاہے۔ باوجود قابلیت موجود ہونے کے تو وہ عاجز ثابت ہوگا۔
اور کہا جائیگا کہ وہ کامل نہیں کرسکتا یا یہ وجہ ہوگی کہ وہ کامل تو کرسکتا ہے مگر بخیل ہے اور یہ دونوں وجوہ اس کی ذات واجب تعالیٰ میں یہ دونوں باتیں ناممکن ہیں۔
لہٰذا فرض ہوگیا کہ کامل کرنے کے لئے خداوند ذرائع بہم پہنچائے اور تکمیل ہو نہیں سکتی جب تک تکلیف نہ دی جائے پس ضروری ہوا کہ وہ ہم کو مکلّف بھی بنائے۔
میں آپ کے سامنے جمادات کی نظیر پیش کرتا ہوں اس مثال سے آپ میرے پہلے قول کی مخالفت نہ سمجِھئیے گا ایک مثال کے طریقے سے عرض کر رہا ہوں کہ لوہے میں اگر نقص نہ ہوتا اور استعداد کمال بھی نہ ہوتی تو وہ کبھی بھی میں نہ جاتا نقص دور کرنے کیلئے اسے پگھلایا جاتا ہے تا کہ وہ دوسرے اجزا سے پا ک کردیا جائے۔
علیٰ ھذا لکڑی میں اگر نقص نہ ہوتا اور قابلیت کمال بھی نہ ہوتی تو آر لے کے سپرد وہ نہ کی جاتی یہ نقص ہی ہے جو لوہے یا لکڑی کو ان تمام ادوار اور مراتب میں لئے پھرتا ہے ۔
اس طرح انسان اگر بیمار نہ ہوتا تو دوا کی ضرورت کیا تھی ؟
پس میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دونوں چیزیں موجود ہیں
نیز دیکھئے بوٹے کو لگایا جاتا ہے اسے پانی دیا جاتا ہے کوئی اس کی خدمت کرتا ہے محض اس لئے کہ حد کمال کو پہنچ جائے ۔
میں اس کمال کے متعلق یہ عرض کرتا ہوں کہ یہ کمال بے اختیاری ہے جو جمادات کا کمال ہے ۔ ان کے اختیار میں نہیں کہ از خود کامل بن سکیں ۔ لکڑی خود کسی وجہ سے کسی شکل میں آجائے تو اس کی کوئی مدح یا ذم نہیں کی جائے گی اس لئے کہ اس کے اختیار میں نہ تھا ۔ اس طرح لوہے کا بہترین قسم کی شمشیر بن جانا بھی اس کے لیے قابل مدح یا ذم نہیں ہوسکتا لیکن ہمارا (یعنی انسان کا) وہ کمال ہے جس سے اصل بحث ہے اور اس کمال تعلق ہے ہمارے اختیار میں۔
پس اے میرے بزرگو! یہ انسان کیونکہ اس کی مدح یامذمت کی جاتی ہے کہ فلاں کام برا کیا ہے لہذا قابل مذمت فلاں کام اچھا کیا لہذا قابل مدح وہ کام کس نے کیا؟ اس نے خود کیا۔۔۔ لکڑی میں کسی بننے میں لوہے نے شمشیر بننے می حود کام نہ کیا تھا۔ لہذا وہ دونوں قابل مدح نہ قابل ذم۔ انسان چونکہ خود کرنیوالا ہے اپنے اختیار سے افعال کو بچجا لاتا شہے اس لیے پروردگار عالم اس کے لیے سزا یا جزا مرتب کرنے کا پورا مجاز ہے اور اگر انسان مجبور ہوتا۔ تو کبھی قابل ذم نہ ہوتا اور نہ ہی جہنم اس کے لیے تیار کیا جاتا۔
معلوم ہوا کہ ایمان اضطراری قابل قبول نہیں۔ حالت اضطراب میں مجبوری ہوتی ہے اور مجبوری کے وقت کوئی ایمان لے آئے تو وہ قابل قبول نہ ہوگا۔ اسی لیے حالت اضطرار کے افعال کے سبب انسان نہ ممدوح بنتا ہے کہ مذموم ٹھہرتا ہے۔
اس طرف اشارہ کرتے ہوئے پروردگار نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے۔
( فلم بک ینفعهم ایمانهم لما راؤ بایتها ) (پس بالکل نہ نفع دیا ان کے ایمان نے ہمارے عذاب کو آنکھوں سے دیکھے لیا) ایسی حالت میں ایمان کسی طرح مفید نہیں۔ اس لیے کہ یہ اضطراری ایمان ہے۔
پس ثابت ہوگیا کہ فاعل صاحب اختیار ہے اور مجبور نہیں ہے۔
ہدایت کی دو قسمیں ہیں:
۱ ۔ ہدایت تقوینی
۲ ۔ ہدایت تکلیفی
ہدیایت تقوینی کا مقصد یہ ہے کہ پروردگار نے انسان کو ایسا بنایا کہ اس میں آلات ادراک جمع کردیئے اس میں کلیات عقلیہ ودیعت کردیئے کہ کم از کم کلیات کے اعتبار سے وہ اس قابل ہے کہ ہدایت پاسکے۔ اس کی مزید توضیح کرتا ہوں۔
پروردگار نے آنکھیں دیں کان عطا کیے ناک دی علیٰ ھذا اور آلات ادراک مرحمت فرمائے اور ان سب کے بعد قوت عاقلہ بھی عطا فرمائی ان سب چیزوں کے ذریعے سے ہم اشیاء کو محسوس کرتے ہیں اور معلوم کرتے ہیں۔ خداوند تعالیٰ نے ان سب کو باطل نما نہ بنایا بلکہ حق نما بنایا۔
آنکھوں کو حق نما بنایا۔ آپ کے سامنے ایک چیز ہے۔ اگرچہ آنکھیں دو ہیں۔ مگر انکا کام ہے کہ وہ ایک شے کو ایک ہی دیکھیں۔ اس طرح پروردگار عالم نے زبان دی۔ یہ میں جانتا ہوں کہ ذائقہ کی کچھ حقیقت نہیں۔ مگر طبعی حیثیت سے ذائقہ حقیقت رکھتا ہے زبان اگر بیمار نہیں تو کبھی میٹی کو کروا نہ کہے گی۔
اور کروی کو میٹھا نہ کہے گی۔ آنکھ اگر بیمار نہیں تو کبھی سرخ کو سفید نہ بتائے گی اور سفید کو سرخ نہ بتائے گی۔ تو بشرطیکہ ایسی شئے حائل نہ ہو جو کبھی دھوکے میں ڈال دیتی ہے۔ آنکیھں ایک ہی دیکھیں گی۔ سفید کو سفید کہیں گی۔ اس لیے یہ آلہ حق نما ہیں۔
البتہ بعض جگہ جب دھوکہ لگ جائے تو عقل آئے گی۔ اس دھوکے کو سامنے لاکر پیش کریگی اور غلطی دور ہو جائیگی۔ مثلاً حوض کے سامنے پانی میں گزبھر لمبی لکڑی ڈالی جائے تو ایک بالشت معلوم ہوتی ہے۔ یا ڈالی جائے سیدھی تو نظر آتی ہے ٹیڑھی۔ اس کا سبب دوسری چیزیں ہی ں جن کے ملنے سے یہ دکھوکہ پڑگیا ہے پس جو کچھ سامنے ہے اس کے اعتبار سے یہ سب آلات حق نما ہیں۔ اور جب یہ آلے حق نما ہیں۔ تو عقل کیسے باطل نما ہوسکتی ہے۔ پس عقل بھی حق نما بناد ی گئی ہے اور اس کا حق نما بنایا جانا یہ وہ ہدایت ہے جسے ہدایت تکوینی کہتے ہیں۔
اس طرح لوہے کا پیدا کرنا ہدایت تکوینی کی جگہ ہے اور اس کا شمشیر بنا دینا ہدایت تکلیفی کی جگہ ہے ہدایت تکوینی کا تعلق خدا وند سے ہے اور ہدایت تکلیفی کا تعلق کامل بنانے والے بندوں انبیاء اور مرسلین سے پس ضرورت ہوئی کہ ہداتی تکلیفی کے لیے ھادی کو تلاش کیا جائے۔
اور ھادی وہ ہونا چاہیے جو خود ہمہ وجوہ سے کامل اور تندرست ہو نہ یہ کہ خود بیمار یا ناقص ہو اس لیے کہ جو خود ناقص ہوگا وہ دوسرے کو کیا کامل بنا سکے گا۔
پس ہم کو تکلیف اس لیے دی گئی تاکہ کامل بن جائے۔ ارو ایسا کرنا واجب تھا خدا پر کہ ایسے کامل بنانے والے بھیجے جو کسی طرح بھی ناقص نہ ہوں۔
ہمارے نقائص کیا ہیں۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ہدایت تکوینی بھی ہمیں حاصل ہے اس لیے کہ اس نے عقل دی اور آلات ادراک دیئے۔ مگر انسان اس قدر کمزور چیز ہے کہ صرف یہ دونوں ہمارے لیے کافی نہیں ہوسکتے۔
اگر عقل یا آلات ادراک کمال کے لیے کافی ہوتے۔ تو کوئی بھی تو دنیا مں ی حکما سے یا عقلا سے ہوتا جو کامل ہدایت یافتہ ہوتا۔ حکما کو دیکھو۔ انہوں نے جس قدر معرفت اشیاء میں لغزش کھای اور ٹھوکریں کھائیں وہ آپ سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس لیے کہ آپ کو جو کچھ معلوم ہوا ہے وہ انبیاء و مرسلین سے معلوم ہوا ہے جن کی معرفت بالکل صحیح تھی لیکن ان عقل والے کما نے %۹۹ غلطی کھائی پس محض ہدایت تکوینی ان کے لیے کافی نہ ہوسکی۔
ہدایت تکوینی صرف اس واسطے ہے کہ وہ ہدایت تکلیفی کے لیے مددگار بن جائے انہیں فطریات مستقیہ میں شاید میرے الفاظ بعض حضرات کو بوجھل یا سخت معلوم ہورہے ہوں حقیقت یہ ہے کہ میں ناقص ہوں اور اسی نقص کی وجہ سے مجبور ہوں کہ ایسے الفاظ استعمال کرجاؤں۔
پس جب عقل انسانی کلیات کی تشخیص یا جزئیات کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔ قدم قدم پر دھوکہ کھاتی ہے۔
کون نہیں سمجھتا یا جانتا کہ اس کا کوئی پیدا کرنے والا یعنی دھرے سے دھریہ بھی یہی سمجھتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی سے پیدا نہیں ہوااس کے عضاء کے جسم کو دیکھئے جو اپنی اپنی جگہ اس طرح رکھے گئے ہیں کہ یہ جگہ انہیں کی تھی جہاں کہ انہیں رکھا گیا۔
مجھے یاد آگیا ایک واقعہ کہ حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں ہندوستان سے ایک طیبیب آیا۔ جسے اپنے فن طب میں بڑا کمال حاصل تھا۔ لوگوں سے آپ کی بڑی تعریف سنی۔ حضرت کو ملنے آیا۔ (یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ وہ آپ کے ملک میں خود آیا تھایا حکومت وقت نے اسے بلایا تھا) ملاقات کے وقت منضور نے یہ کہہ رکھا تھا کہ حضرت امام برائے بلند پایہ عالم اور ماہر علوم ہیں۔ تم طب کے فن میں ماہرہو وہ ہر علم میں کامل ہیں۔
حضرت امام نے فرمایا: ”آیا میں علم طب کے متعلق کچھ ایسے سوال کروں یا آپ مجھ سے کچھ پوچِھو گے؟“
طبیب کو اپنے فن پ ناز تھا کہا ”آپ کو جو کچھ پوچھنا ہے پہلے پوچھ کر دیکھ لیجئے۔“
حضرت امام نے ارشاد فرمایا: ”ذرا یہ تو بتلائیے کہ پیشانی پر بال کس لیے پیدا نہیں کئے گئے اور سر پہ بالوں کو پیدا کیا گیا ہے؟“
”بھوریں پر بال تو بنادیئے گئے مگر ہاتھ کی ہتھیلی کو بالوں سے خالی رکھا۔ آپ بتاسکتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟“
علیٰ ھذا القیاس جو سوال بھی امام کرتے وہ یہی جوب دیتا کہ میں نہیں جانتا۔
امام نے فرمایا:”نک اور منہ کے درمیان مونچھیں پیدا کی گئی ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟“
اس نے کہا: ”میں نہیں جانتا۔“
آپ نے فرمایا: ”آنکھ کے ڈھیلے بادامی شکل کے کیوں پیدا ہوئے؟“
طبیب نے کہا: ”میں نہیں جانتا“
امام نے فرمایا: ”پھر یا جانتا ہے اگر کچھ نہیں جانتا تو پھر مجھ سے کچھ سوال کر جو تجھے کچھ یاد ہے؟“
یہ کوئی پندرہ وہ سواات تھے جو حضرت نے اس پر کئے اور وہ رسالے کی شکل میں موجود ہیں۔
بالآخر امام نے فرمایا: ”جو سوال کرنا چاہتے ہو کرو اور جواب لیتے جوؤ اور پھر جو تمہارے دل میں ہے اس کو بھی پوچِھ لو۔“
طبیب نے جس قدر سوال کرنے تھے کئے اور ہر سوال کاشافی جواب پایا۔ جب کوئی سوال باقی نہ رہا تو عرض کیا کہ اب مجِِھے اپنے دین کا حکم پڑھا دیجئے۔
پس میرے بزرگو! اور عزیزو! یہ ہیں وہ چیزیں جو آج نہیں بلکہ تیرہ سو سال کی چلی آرہی ہیں۔
محض ہدایت تکوینی کمزور رہتی ہے اور ضعیف ہے کہتا ضعف ہے کہ قدرت کی ان تمام چیزوں کے دیکھنے کے باوجود احکام الہیہ پر عمل نہیں کیا جاتا بلکہ بعض ایسے اتصاف ہیں۔ جو انہیں تسلیم بھی نہیں کرتے ہیں۔
پس ضرورت پڑی کہ ہدایت تکوینی کے ساتھ ساتھ ہدایت تکلیفی کو بھی لیا جائے۔
اور ہدایت تکلیفی وہ ہدایت ہے جس کا تعلق اس وجود سے ہوسکتا ہے جس میں نہ تو کمزوری ہو نہ کوئی نقص (کمزوری سے مراد جسمانی ضعف نہیں)۔
اس لیے کہا جاتا ہے کہ رسول دو ہیں ایک رسول ظاہر اور ایک رسول باطن تو عقل ہے اور رسول ظاہر حاکمان کامل۔
میرا مقصد صرف اتنا ہے کہ جو خود بیمار ہو دوسرے کو کیا شفاء دے سکتا ہے جیسے جس کا کان دکھ رہا ہو اور وہ اپنا علاج خود نہ کرسکتا ہو۔ تو اسی سبب اور اسی جہت سے اور کسی اور کا کان دکھتا ہوتا ہوگا۔ تو اس کا وہ کیا علاج کرسکے گا۔
اگر کسی کے دماغ میں کمزوری آگئی اور عقل میں سہو و نسیان ہے جب وہ اپنے دماغ کا علاج نہیں کرسکتا تو اور کسی دماغی مریض کا کیا علاج کرسکے گا۔
پس ہادیان تکلیفی کو ان بیماریوں سے منزا ہونا چاہیے۔ (بیماری کا ملب نزلہ زکام وغیرہ نہیں بلکہ روح کی بیماریاں مراد ہیں) تمام امت بیمار ہے ناقص ہے۔ جب یہ ناقص ہے اس کو کامل کرنا ہے اور چونکہ کمال تک پہنچنے کی قابلیت اس میں موجود ہے اس لیے ضرورت ہے کہ کوئی کامل کرنے والا ہو اور ان لوگوں سے حاص ہو جو ناقص ہیں اور جن کو کامل کرنا ہے اس لیے کہ اگر وہ انہی میں سے ہوگا جو ناقص ہیں تو ان کو کامل کیا بنائے گا پس ہادی تو وہ ہوناچاہیے جو تمام امت سے افضل ہو۔
اس کی تائید پارہ گیارواں نصف کے قریب نویں رکوع میں یہ آیت کرتی ہے۔
قل ھل من شرکائکم من یھدی الی الحق قل اللہ یھدی للحق اس آیت سے زیادہ وضاحت میرے خیال میں ممکن نہیں اگر انسان اجنبی کی حیثیت سے صرف اسی آیت کو پڑھ لے اور سمجھ لے تو یہی ایک آیت کافی ہے۔
ترجمہ: حبیب ان سے کہہ دو کہ ان کے شریکوں میں سے کوئی ہے جو حق کی طرف ہدایت کرے؟ آپ فرما دیجئے اللہ ہی ہے جو حق کی ہدایت کرتا ہے۔
آگے ارشاد ہوتا ہے: افمن یھدی الی الحق احق ان یتبع امن لا یھدی الا ان یھدی ط فما لکم کیف تحکمون
ترجمہ: کیا پس وہ شخص جو حق کی طرف ہدایت کرتاہے زیادہ حق رکھتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے؟ یا وہ شخص جو ہدایت ہی نہیں رکھتا مگر یہ کہ وہ ہدایت کیا جاتا ہے پس کیاہوا تمہیں کس طرح کا فیصلہ کرتے ہو تم؟
پس ایک شخص تو وہ ہے جوجب ہدایت کرتا ہے حق کی ہدایت کرتا ہے وہ کبھی ہدایت سے باہر نہیں جاتا او رایک وہ ہے جو ہدایت کر ہی نہیں کستا یا ہدایت رکھتا ہی نہیں جب تک کہ کوِئی اور اس کو ہدایت نہ کرے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان دو میں سے تم کس کی پیروی کرو گے؟
میرے بزرگو! میں اپنے نقص کا اعتراف کرتا ہوں۔ ممکن ہے کہ میرے الفاظ آپ کے ذہن نشین ہوگئے ہوں گے۔ میں پھر عرض کرتا ہوں شاید بعض کے اذھان مبارکہ تک میں مطلب آپ کو نہ سمجھا سکا ہوں بعض تو آپ میں سے وہ ہوں گے جو واقعا مجھ سے بہتر جانتے ہیں اور بعض وہ ہیں جن کے کان میں یہ باتیں نہیں پہنچتی اور وہ سید الشھداء کے صدقے میں انہیں سننے آجاتے ہیں۔
دوبارہ ترجمہ سنیئے۔ کیا وہ شخص جو حق ہی کی طرف ہدایت کرتا ہے جب بھی ہدایت کرتا ہے وہ حق کی طرف ہی ہدایت کرتا ہے یعنی اس کی ہدایت میں غلطی کا کوئی احتمال نہیں اور ایک وہ شخص ہے جو ہدایت یافتہ نہ ہو اور ایک شخص وہ ہے جو خود ہدایت یافتہ نہ ہوتا اگر کوئی ہدایت کرنے والا نہ اسے مل جاتا پس تم ان دونوں سے کس کی پیروی کی جائے گی۔
سبحان اللہ پروردگار عالم خود ہی سوال فرمایا ہے: فما لکم کیف تحکمون گویا سننے والے نے خود ہی جواب دے دیا اب سوال کرتا ہے کہ تمہیں کیا ہوا؟ کیسا جواب دیتے ہیں کہ ایک وہ شخص ہے جس نے جب بھی ہدایت کی حق کی ہدایت کی اور ایک وہ شخص ہے جس کو خود ہدایت ہی نہ ملی پس کس کی پیروی کی جائے؟ تمہیں کیا ہوگیا اس کے خلاف باتیں کررہے ہو۔ جو کہتے ہو عمل اس کے خلاف کررہے ہو۔
پس دونوں قسم کے آدمی زمانہ رسول میں موجود ہیں۔ وہ بھی ہیں کہ جب کبھی اس نے ہدایت کی حق کی ہی ہدایت کی اور وہ بھی جس کو ہدایت نہ ملتی اگر اسے ہادی نہ ملتا۔
پس کس قدر معاملہ سہل اور آسان ہوگیا کہ جس جس کا نام آپ کے سامنے آتا جائے اس معیار پر آپ پرکھتے جائیں۔
ہم آپ مسلمان ہیں۔ مسلمان پیدا ہوئے مسلمان ماں باپ کی گود میں ہے مسلمان مدرسے میں گئے یعنی سارا ماحول اسلام ہی رہا آپ بتائیں کہ اگر ہمیں ہدایت نہ ملتی خواہ استاد سے خواہ ماشباب سے تم ہم محتاج نہ تھے کہ ہدایت پاتے۔
آپ ان لوگوں کے متعلق کی اکہیں گے جن کو آغوش ملی تو کفر کی جوانی آئی تو حالت کفر میں پس ان کو ہادی نہ ملتا تو وہ ہدایت یافتہ ہوئے۔ پس یہ اسی لیے ہدایت یافتہ ہوئے کہ ان کو ہادی مل گیا۔ لہذا ثابت ہوا کہ یہ اس فہرست میں نہیں جو ہادیوں کی فہرست ہے۔
لیکن آیت کہتی ہے کوئی ایسا بھی ہوگا کہ جو اس فہرست میں ہو کہ جب کبھی اس نے ہدایت کی حق کی ہدایت کی۔
بطور مثال میرا نام لیجئے دیکھئے اسے ہدایت مل سکتی تھی اگر ہادی نہ ہوتا ذرا ایک سو سال پیچھے ہٹ کر کسی کا نام لیجئے اور دیکھ ئے کہ اسے ہدایت ہوسکتی تھی اگر ہادی نہ ملتا؟ چلئے او رپیچھے ہٹیے زمانہ رسول تک کوئی ہے جس کا نام لیں اگر اسے ہادی نہ ملتا تو اسے ہدایت ہوتی پس ضروری ہوا کہ کوئی تو ہوگا جو پیدا ہو تو ہادی تھا آپ تلاش کریں گے تو آپ کو ضرور مل جائے گا۔ ممکن ہے کوئی اور بھی ہو ہم کو انکار کی ضرورت نہیںٍ لیکن نبی کی زبان سے جو فیصلہ ہوتا ہے وہ یہ ہے:
علی مع الحق و الحق مع علی
فرمایا رسالت مآب نے کہ علی ہمیشہ حق کے ساتھ رہا اور حق ہمیشہ علی کے ساتھ رہا۔
ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا: اللھم ادر الحق حیث دار علی کہ الھی حق کو وہاں چلا جہاں علی ہے۔
پس آپ کو اگر کوئی ایسا شخص نہ ملے تو کم از کم بروئے فرمان نبوی امیر المومنین علی ابن ابی طالب آپ کو ایسے ملیں گے جو حق پر تھے حق ان کے ساتھ تھا اور جب بھی آپ نے ہدایت کی تو حق کی ہدایت کی۔ فما لکم کیف تحکمون ط اور تم خود دل میں سوچ لو کہ تمہارا فیصلہ کیا ہے۔
الغرض پروردگار عالم نے ہم کو ایک طرف ناقص پیدا کیا دوسری طرف ہمیں استعداد رکھی کہ اگر برے آدمی کی صحبت ملی تو برے ہوگئے اچھے آدمیوں کی صحبت ملی تو قریب قریب ظنی میں بھی بلکہ یقینی طور پر اچھے ہوگئے۔ اگر ہمارا ماحول بگڑ گیا۔ تو ہماری فطری حالت بھی بدل گئی ایسی صورت میں خدا پر واجب ہوگیا کہ ہمارے نقص کودور کرے کامل بنانے والے کو بھیجے اور کامل کردے پس ہمارے پیدا کرنے کا فائدہ یا غرض تکمیل ہے اور تکمیل ہو نہیں سکتی جب تک معرفت کے ساتھ محبت نہ ہو۔
فرعون جانتا تھا کہ خدا خدا ہے وہ جانتا تھا کہ وہ خود اس طرح خدا نہیں بلکہ خدا وہ ہے جس نے اس کو بنایا ہے لیکن محض یہ جاننا اسکے کچھ کام نہ آیا۔
نمرود کا واقعہ آپ نے ضرور سنا ہوگا جناب ابراھیم منجیق پر رکھ کر پھینک دئے گئے نمرود مطمئن ہوگیا کہ آج ابراھیم کی اذیت سے اس کو نجات مل گئی رات کا وقت تھا آگ کے شعلے اس قدر بلند ہو رہے تھے کہ اوپر سے کوئی جانور گذر نہ سکتا تھا اندازہ لگا لیجئے کہ کتنی لکڑی تھیں جو اس میں جلانے کے لیے جمع کی گئی تھیں۔ رات بھر آرام سے سویا کہ بس ابراھیم ختم ہوگئے۔ صبح اٹھا وزیر سے کہا چلئے دیکھیں ابراھیم کا حال کیا ہے۔ دونوں وہاں پہنچے وہ زمین جو کل بالکل ایک بنجر تھی اور ایک تنکا بھی وہاں اگا ہوا نہ تھا۔ دیکھتے ہیں کہ پھولوں سے لدی ہوئی ہے نہ صرف پتے شاخ میں اگے تھے بلکہ معلوم ہو رہا تھا کہ پھول ہی پھول کھلے ہیں یہ ایک نفسیاتی امر ہے ایسے وقت میں کہہ سکتا تھا کہ کیا ہوگیا۔ آگے بڑھا دیکھا کہ ڈھیر ہے بالکل تازہ پھولوں کا۔
اس ڈھیر میں حضرت ابراھیم بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ ایک جوان بھی بیٹھا تھا۔ دونوں مسکرا مسکرا کر باتیں کررہے تھے۔ اب نمرود چھپا نہ سکا اپنے وزیر سے کہا کہ خدا ہو تو ایسا خدا ہو جیسا کہ ابراھیم کا ہے۔
معلوم ہوا کہ نمرود یہ پہلے بہی جانتا تھا لیکن خواہشات انسانی انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔
ذکر ہے کے ایک شخص کہا کرتا تھا کہ خدا کے لئے معاف کر دو علی تم میں موجود ہیں معاف کردو ان کی موجودگی میں میں اس قابل نہیں۔
ہر شخص جو مدعی ہوتا ہے اگر وہ خلاف حق تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ میں کیا کہتا ہوں۔انسان میں کمزوریاں ہیں ہاں کبھی سوداوی مرض کا غلبہ ہو جائے تو انسان کبھی اپنے آپ کو جانور جانتا ہے کبھی خدا جاننے لگتا ہے۔لہذا ضرورت ہے کہ انسان کے لئے کوئی کامل کرنے والا ہو۔تکلیف دی گئی کہ نماز پڑھو!روزہ رکھو! لیکن ضروری ہو گا کہ جو کامل کرنے والا یا ہم کو بتلانے والا ہو۔ وہ ہم جیسا نہ ہو۔
سیدنا سلمان فارس کا بڑا بلند مقام ہے ان سے اونچا ہونا بہت مشکل ہے جناب رسالت ماب نے ان کے حق میں ارشاد فرمایا ہے: سلمان منا اھل البیت“کہ سلمان ہم اہل بیت سے ہیں حضور نے انکی بڑی تعریف کیٍ۔
چاہتا ہوں کہ عرض کر دوں کہ آئمہ طاہرین کے دوست کیسے تھے؟ اس لئے کہ کسی آدمی کے شناخت کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ اسکے دوستوں کو دیکھا جائے۔ حکماء کا قول ہے کہ کسی کو دیکھنا ہو کہ وہ کیسا ہے تو اسکے ہم نوالے ،ہم پیالہ لوگوں کو دیکھو جو ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کا دعوٰی رکھتے ہیں۔
پس پتہ چل جائیگا کے وہ کس قسم کا آدمی ہے چاہتا ہوں کہ یہ دلیل عرض کر دوں جو انشاء اللّہ سیدھا ہے راستے کو دکھلا دے گی۔ اگرچہ راستے پر نہ چلنا اور بات ہے تاہم راستہ سامنے آجائے گا۔
جس قدر آدمی ہیں ۔ ہدایت کے محتاج ہیں اپنی تمیل میں ان کو غیر کی احتجاج ہے ۔ جو ہدایت کرتے ہیں ۔ محتاج نہ ہو ۔ ورنہ ”کیف یسئل المحتاج “ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی محتاج کسی ایسے شخص کے سامنے اپنا سوال یا حاجت پیش کرے جو خود اس حاجت میں محتاج ہے ۔
عمل ھذا لقیاس ایک شخص جو بے دولت ہے بغیر مال کے ہے ۔ مال کی اسے خود ضرورت ہے کوئی ایسا ہوگا ؟ جو ایسے شخص کی طرف رغبت کرے گا تاکہ وہ اسے مال دار بنا دے ۔
تمام عالم محتاج ہے ۔ آپ بھی محتاج ہیں میں بھی محتاج ہوں ( یاد رکھیں کہ محتاج کے معنی محتاج ہدایت ہے ) آپ مجھے فرض کیجیے بھیک مانگتے ہیں اور میں پہلے ہی ہاتھ بڑھاتے ہوئے ہوں تو کیا یہ ممکن ہوگا کہ آپ مجھ سے مانگیں ؟ بلکہ اس میدان میں اس کی طرف جانا ہوگا جو خود محتاج نہیں ۔
خدا تعالٰی نے جب انسان کو عقل عطا کی استعداد بخشی تو خدا پر فرض ہوگیا کہ ایسے لوگوں کو بھی بھیج دے جو خدا محتاج نہ ہوں بلکہ محتاجوں کی حاجت روا ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ معصوم بھی ہونے چاہیں کہ ان سے غلطیاں بھی نہ ہوں ۔
ایسے لوگ کون ہوتے ہیں ؟ خدا تعالٰی کے بدل تّام ہوتے ہیں ۔
بدل تّام کا مطلب یہ ہے کہ جو احکام ادھر خدا تعالٰی کی طرف منسوب کئے جائیں وہ ان کی طرف منتقل ہوجائیں ان کی معیت خدا کی معیت ہو ان کی اطاعت خدا کی اطاعت ہو ۔ اسی حقیقت کو قرآن مجیدنے ان الفاظ میں بیان فرمایا: ”من یطع الرسول فقد اطاع اللہ“ کہ جس نے رسول خدا کی اطاعت کی بے شک اس نے کی اطاعت کی پس اس کی معصیت خدا کی اطاعت ہے۔ وہ ہم میں پروردگار عالم کا قائم مقام ہوگا۔ وہ اس کی طرف سے آکے وہ کام کریگا۔ جو خدا کا کام ہوگا۔ اس لیے کہ خدا اگر خود کام کرنے کو آجاتا تو خدا نہ رہتا۔
پس اس ہادی کی ہدایت خدا کی ہدایت اس سے محبت خدا سے محبت اس سے لڑائی خدا سے لڑائی اس کو ماننا خدا کو ماننا اور اس کو نہ ماننا خدا کو نہ ماننا۔
پس تکمیل کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے رسول کو بھیجا گیا۔ لیکن آپ خیال فرمائیں کہ رسول کے بعد بھی تکمیل کی ضرورت رہی تھی۔ اگر ان کے بعد بھی تکیل کی ضرورت باقی رہی تو پھر ویسا ہی ”مکمل“ یعنی کامل کرنے والا بھی ضروری ہوا جیسا کہ خو رسول مکمل (کامل بنانے والے) تھے۔
اس مکمل کی شناخت بھی وہی ہوگی جیسا وہ کہے ویسا ہی ہو جائے اس کی شان بھی ویسی ہی ہو جیسی شان رسول کی تھی۔
ممکن ہے آپ کسی اور کے متعلق کہیں کہ وہ بعد از رسول مکمل ہوگا۔ مگر خود فرمان رسول کی رو سے جو مکمل تھا۔ وہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب تھے جنکے لیے حضور ارشاد فرماتے ہیں:
۲) ” ایھا الناس انا و علی من نور واحد“
”کہ اے بنی نوع انسان میں اور علی ایک ہی نور سے ہیں۔“
پس ہماری نیاز مندی یا خدمت اس شخص کے لیے ہونی چاہیے جو ہم کو بے نیاز کردے نیاز مندی حقیقت میں ایک عذاب ہے (نیاز مندی کا مطلب وہ نہیں ہے جو ہم آج بولتے ہیں۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ محتاجی اصل میں ایک عذاب ہے۔ مثلاً:
آج کپڑوں کی ضرورت ہے کل مکان کی ضرورت ہے پرسوں سواری کی حاجت ہے پھر غذا کی محتاجی ہے۔ پھر دوا کی ضرورت ہے وغیرہ وغیرہ یہ محتاجیاں حقیقت میں ایک عذاب ہیں اگر عذاب نہ ہوتیں تو ان کی احتیاج نہ ہوتی۔
اس لیے خدمت اس کی کرنی چاہیے جو اس احتیاج کو دور کردے اور بے نیاز کردے۔
مزید توضیح اس کی یہ ہے کہ خدمت اس کی کرنی چاہیے کہ جس میں چند صفات ہوں۔
۱) وہ قادر ہو۔ تاکہ وہ خدمت کے مطابق بدلہ دے سکے۔
۲) وہ حکیم ہو۔ جو عین حکمت کے مطابق بدلہ دے۔
۳) وہ عالم ہو کہ بدل وغیرہ کے مطابق سچٍے علم کے مطابق اور صحیح علم کے ساتھ بدلہ دے۔
جب وہ قادر نہ ہوگا تو حق نہیں رکھتا کہ اس کی خدمت کی جائے۔ اگر وہ عالم نہ ہوگا تو اس کی خدمت بے معنی ہوگی۔
خدمت سے مردا اطاعت ہے ہمیں اطاعت پر مامور کیا گیا ہے۔ یہی اطاعت ہماری خدمت ہے۔
مذکورہ صنعتوں کا مالک خدا ہے اس کا قائم مقام اس لیے آتا ہے کہ تم اس کی خدمت کرلو اور بے نیاز ہو جاؤ اور ضروری ہے کہ وہ قائم مقام خود بے نیاز ہو۔ ورنہ وہ ہماری نیاز مندی کیسے دور کرے گا۔
بے نیازی کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ کسی شئے کو کہے کہ ہو جاتو وہ ہو جائے۔ جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد ہوا: ”یا ابن آدم! اطعنی لاجعلک مثلی“ کہ اے آدم کے بیٹے تو میری اطاعت کرنے والا بن جا میں تجھے اپنے جیسا بنادونگا۔ جن کانوں سے تو سنے گا وہ میرے ہونگے جن آنکھوں سے دیکھے گا وہ میری آنکھیں ہوں گی۔
پس اگر ایسا شخص مل جائے تو اسے اذن اللہ (خدا کا کان) کہ دیں تو ٹھیک ہے۔ اس کو ید اللہ کہ دیں تو ٹھیک ہے۔ اس کی شان یہ ہو تو ٹھیک کہ ”اذا اراد شیأ ان یقول له کن فیکون “کہ ادھر کسی چیز کے ہونے کا ارادہ کیا اور کہا کہ ہو جا۔ تو وہیں وہ چیز ہوگی۔
پس یہ شان و حیثیت رکھنے والا کوئی تو ہوگا۔ آپ سمجھیں اور سوچیں کہ وہ کون ہوسکتا ہے۔ اس قسم کے خطاب خود رسول خدا کی زبان سے سکے مل چکے ہیں۔ کبھی فرمایا ید اللہ کبھی کہا گیا نفس اللہ کبھی کہا گیا اس کا بولنا اپنا بولنا ہی نہیں ”و ما ینطق عن الھوا ان ھو الا وحی یوحیٰ“ وہ اپنی طرف سے نہیں بولتا وہ جو بولتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی وحی ہوتی ہے۔ اس کا بولنا اپنا بولنا نہیں ہوتا بلکہ وحی خدا کا بولنا ہوتا ہے۔
اب اسی کا کام ہے کہ وہ ہمیں محتاجی سے بے نیاز کر دے اور بہشت کی تعریف بھی اسی لیے ہے کہ وہاں کسی قسم کی احتیاج نہ ہوگی ورنہ بہشت میں جاکر بھی احتیاج رہی تو عذاب ساتھ ساتھ رہا۔
کیا خوب کہا کسی نے
آنکہ شریاں را کند دوباہ مزاج
احتیاج است احتیاج است احتیاج
اگر جنت میں بھی احتیاج باقی رہی تو جہنم اور جنت میں فرق کیا رہا۔ پس جنت میں نہ احتیاج ہوتی نہ عذاب ہوگا۔
قرآن پاک میں اسی لیے ارشاد ہوا: ولکم فیھا ماتشتھی انفسکم و لکم فیھا ماتدعون کہ جنت میں تمہارے نفس جو کچھ خواہش کرینگے موجود پاؤ گے اور جو کچھ منہ سے مانگو گے تمہیں دیا جائے گا۔
بلکہ نفس جو خواہش کرے گا وہ خواہش سے ہیلے موجود ہوگی اگر جواہرات کا مکان ضرورت ہے خواہش سے پہلے بنا بنایا موجود۔ اگر ایسے طائر کا گوشت چاہو گے تو خواہش کے ساتھ ہی سامنے موجود ہوگا۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:لهم ما یشاؤن فیها و لدینا مزید “ یعنی بہشت میں بہشتی جو کچھ چاہیں گے موجود ہوگا اور اس کے علاوہ مزید بھی سب کچھ ہوگا۔
میرے بزرگو! آپ بتلائیں کہ ایسے لوگ کون ہیں۔ جو ”محتاجی سے بے نیاز کرسکیں“ ”جو کسی شئے کو کہے ہو جا تو وہ ہو جائے“ اگر ہم سے آپ پوچھیں گے تو ہم پھر وہی کہیں گے یہ لوگ حضرات اہل بیت اطہار ہیں جو ارشاد فرماتے ہیں ایک موقع پر
”کہ لوگو سامنے دیوار کو اگر حکم دے دوں اور کہدوں کہ سونا ہو جا۔ تو اسی وقت سونا ہو جائے۔“
کیا آپ جانتے نہیں کہ آپ نے صرف یہ لفظ فرمائے اور ابھی یہ حکم نہیں دیا تھا۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جو چیز محض فرمانے سے ان کے تصور میں آچکی تھی۔ ادھر زبان مبارک سے یہ لفظ نکلے۔ ادھر لوگوں نے دیکھا کہ وہ دیوار سونے کی بن چکی تھی۔
کسی نے حضرت امام جعفر صادق سے دریافت کیا ”کہ بندے کا کیا حق ہے خدا پر“ ارشاد فرمایا حضور نے ”کہ بندے کا حق یہ ہے کہ خدا اسے یہ مرتبہ عطا کردے کہ اگر وہ اس درخت چلنے لگ جائے تو اسی وقت وہ درخت چلنے لگے“
حضرت امام باوجودیکہ درخت کو چلنے کے لیے نہیں فرمایا زبان مبارک سے یہ فرمودہ ختم نہیں ہوا تھا کہ وہ درخت چل پڑا اور وہ شخص دیکھ رہا تھا۔
اور یہ چیزیں وہ ہیں جو حاصل نہیں ہوسکتیں تا وقتیکہ نفس کا تزکیہ اور تصفیہ آخری منزل کمال پر نہ پہنچ چکا ہو۔ اسی منزل پر پہنچنے کے بعد خدا کا کلام ایسے نفس والوں کے حق میں صادق آتا ہے۔
”اذا اردت شیأ ان تقول له کن فیکون “
اس منزل کے متعلق یہ کہنا کہ فلاں شخص میں ایسی صفائی ہے یا نہیں معلوم نہیں ہوسکتی جب تک خداوند خود تصدیق نہ کرے۔ اسی لیے آیت تطہیر ایسے نفوس کے تزکیہ و طہارت کے بارے میں نازل ہوئی۔ ”انما یرید اللہ لیذھ عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا“ اے اہل بیت کو کامل پاک اور مطہر کرنے کا ارادہ کریں اس میں خدا نے پاکیزگی او رطہارت کی انتہاء کر دی۔
پس اب بھی اگر کسی کو نظر نہ آئے تو آیت تطہیر بھی اس کے لیے نہیں ہوگی۔ خواہ کوئی ہو۔
پس اطاعت کرنی ہے تو اس کی کرتی ہے جو غنی کردے دولت سے نہیں بلکہ غنی کا مطلب یہ ہے احتیاج عذاب نیاز مندی سے غنی کرد ے۔
کیا خوب ارشاد فرمایا: ”انما الغنا لیس باالمال و انما الغنا من الناهیس “ط غنیٰ یہ نہیں کہ مال و دولت سے بے نیازی حاصل ہو جائے بلکہ غنیٰ یہ ہے۔ جو لوگوں سے احتیاج کو ختم کردے۔ اگر ایک شخص فقیر ہے اور کسی کا محتاج نہیں تو وہ غنیٰ ہے۔ ایک شخص مالدار ہے اور وہ محتاج ہے تو وہ فقیر ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ کیا آج تک کسی نے سنا کہ اہل بیت رسول کسی کے دروازے پر اپنی کی ضرورت کو لے کر گئے ہوں؟
اس لیے کہ وہ غنی تھے۔ بلکہ دنیا کو ضرروت تھی کہ جب کسی چیز کی احتیاج ہو تو ان کے دروازے پر حاضر ہوں۔
ہاں! ہاں! اگر کسی حکمت کی بناپر ضرورت پڑگئی تو بے شک انہیں جانا پڑا لیکن مسلمانوں کے دروازے پر وہ کبھی نہ گئے بلکہ یہودی کے دروازے پر گئے جس نے دیکھتے ہی کہا کہ آپ تو غنی ہیں اور چادر لے کر آئے ہیں۔ ارشاد فرمایا ہم نے دنیا میں رہنا ہے۔ اپنے غلاموں کے لیے زندگی کے سارے نمونے پیش کرنے ہیں۔ یہ ہمارا آنا پیروکاروں کے لیے ہے کہ وہ ہمارے نمونے کو سامنے رکھیں۔
ورنہ خدا نے ہمیں یہ طاقت دی ہے کہ اگر اس دیوار کو کہ دیں کہ سونے کی ہو جا تو اسی وقت سونے کی ہو جائے۔
پس میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو ضرورت پڑی تو ان کے دروازے پر حاضر ہوئے مگر یہ کسی کے دروازے پر حاضر نہ ہوئے۔ اگر کسی کو علم کی ضرورت پڑی تو کو نسا دروازہ تھا جسے دنیا جانتی تھی اور وہاں سب پہنچتے تھے؟ البتہ اہل بیت ہی وہ تھے۔ جو کسی کے دروازے پر نہ جاتے تھے۔
دور دور سے لوگ مالداروں کو چھوڑ کر ان کے دروازے پہ آتے تھے اس لیے کہ یہ وہ نفوس پاکیزہ تھے جو کسی کو خالی ہاتھ واپس نہیں کرتے تھے اور ان کو یہ اطمینان بھی ہوتا تھا یہ حضرات دینے کے بعد بھول جائیں گے۔
ایک شخص سیدنا امام حسین کے دروازے پر آیا۔ اپنا مطلب دو شعروں میں لکھا اور کنیز کے ہاتھ رقہ اندربھیجا دیا۔ آپ ضروری سوالات کے جوابات لکھنے میں مصروف تھے کنیز نے اس رقے کے دینے میں کچھ دیر لگائی۔
رقعے میں سائل نے یہ واضح کیا تھا کہ وہ اپنے وطن میں ایک بڑا مالدار تھا۔ دنیا کی ہر شئے ایک اس کے پاس موجود تھی زمانے کا انقلاب آیا تمام اسباب لٹنے لگا اور سوائے ایک شے سب کچھ لٹ گیا ۔ مگر وہ شے جو باقی رہ گئی تھی اس کا خریدار میں نے کسی کو نہ پایا آپ کے در پر میں آیا ہوں کے آپ اسے خرید لیں اور وہ شے کیا ہے ؟ ” میری عزت “ اس لئے کہ کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنا عزت کو بیچنا ہے ۔ بس آپ کے در پر آیا کہ میری اس شے کو خرید لیں ۔
پرچے کے ملنے میں کچھ اور دیر ہوگئی اس نے دو شعر اور لکھے۔ جن کا مفہوم یہ تھا کہ اے فرزند فاطمہ امام حسین! حیراں ہوں تمہارا در چھوڑ کر کہاں جاؤں اب میں کسی کے در پر نہیں جاؤں گا۔ وطن کے لوگ پوچھیں گے کہ امام حسین کے پاس گئے تھے انہو ں نے کیا دیا؟ اگر کہوں گا کچھ دیا ہے تو جھوٹا بنوں گا اور اگر یہ کہوں گا کچھ نہیں دیا تو لوگ کہیں گے تو جھوٹا ہے یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ کوئی حسین کے دروازے پر جائے اور اسے کچھ نے ملے؟ لہذا حیراں ہوں کہ میں کیا کروں۔
اپنے دونوں رقعے پڑھے کنیز پر غصہ فرمایا: وہ بیچاری تڑپنے لگی۔ فرمایا کہ تو نے سائل کو اتنی تکلیف دی اس قدر اس نے انتظار کی زحمت اٹھائی۔ بہرحال گھر میں جو نقدی تھی عورتوں کے پاس جو زیور تھے جمع کئے۔ ایک تھیلی میں سب کچھ ڈالا اور محسوس فرمایا کہ جتنا کچھ دینا چاہیے تھا اتنا نہیں دیا جاسکا۔ دروازہ بند تھا۔ ایک ہی پٹ کھولا اور فرمایا ”بھائی اسی قدر حاضر ہے‘ لے لے“ اور دوشعر اس عذر کے ساتھ لکھے کہ زمانے ہمارے موافق نہیں کہ وہ کچھ دیتے جو دے سکتے تھے۔
سائل نے تھیلی کھولی تو امید سے زیادہ پایا۔ عرض کی حضور دروازہ کھول دیجئے اپنا دیدار تو کرا دیجئے۔ فرمایا مجھے شرم آتی ہے تمہارے سامنے آنے سے اس لیے کہ اتنا کچھ نہیں دے سکا جتنا کہ مجھے دینا چاہیے تھا۔
اہل اسلام کی کتب میں یہ واقعات موجود ہیں کہ انسان درکنار جانور بھپی ضرورت کے وقت ان ہی کے مقدس استانہ پر حاضر ہوتے تھے۔
سیدنا امام زین العابدین مسجد میں تشریف فرماہیں کہ ایک ہرنی دوڑتی ہوئی مسجد میں پہنچ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ آپ قائم مقام رسول ہیں۔
یہ واقعہ حضور رسالت مآب صلعم کے متعلق بھی احادیث میں موجود ہے کہ حضور بیٹھے ہیں کہ سامنے سے اونٹ آتا ہے۔ آپ اس کے قریب ہوتے ہیں وہ کچھ حضور کے کان میں عرض کرتا ہے۔ جب وہ چپ ہو جاتا ہے۔ تو حضور نے حاضرین سے پوچھا کہ فلاں شخص کو کوئی جانتا ہے اس ے بلا لاؤ۔ ایک آدمی اسے بلانے گیا۔ عرض کیا گیا یہ اونٹ آپ سے کیا کہہ رہا تھا؟ ارشاد فرمایا یہ اپنے آقا کی شکایت لے کر آیا ہے او رکہتا ہے کہ ساری عمر میں نے مالک کی خدمت میں گزاری بار برداری کا کام کرتا رہا اب میرا مالک مجھے ذبح کرنا چاہتا ہے۔ یا رسول اللہ! اپنی فاطمہ کے بچوں کی صدقے مجِھے بچا لیجئے۔
اتنے میں اونٹ کا مالک آپہنچا حضور نے ارشاد فرمایا: کیا اسے ذبح کرنے کا ارادہ ہے؟ عرض کیا ہاں یا رسول اللہ! یہ بوڑھا ہوچکا ہے کام کرنے کے لائق نہ رہا اس لیے چاہتا ہوں کہ اسے ذبح کردیا جائے۔
حضور نے فرمایا: ”میری خاطر اسے چھوڑ دے“ اونٹ کے مالک نے جواب دیا: ”کہ بہتر یا رسول اللہ! یہ اونٹ بھی آپکا ہے اور میں بھی آپکا۔
لوگو ں نے دیکھا کہ جب اونٹ کا مالک اسے واپس لے چلا تو اونٹ نے مسجد کے دروازے پر تین مرتبہ آواز دی۔
عرض کیا گیا ”یا رسول اللہ! اونٹ نے کیا کہا۔ ارشاد فرمایا: کہ یہ اونٹ میری فاطمہ کے بچوں کے لیے دعائیں دے رہا ہے۔
پس حضرت امام زین العابدین حضور ہی کے جانشین ہیں۔ آپ نے ہرنی کی فریاد سنی کہ کوئی شخص اس کا بچہ گرفتار کرکے لے آیا ہے حضور اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے گرفتار کرنے والے کے گھر پہنچے اسے باہر بلایا۔
اور فرمایا یہ ہرنی اس بچے کی ماں ہے جو تیرے پاں ہے یہ آئی ہے کہ تو اس کے بچے کو چھوڑ دے۔ اس شخص نے عرض کیا کہ حضور وہ بھاگ جائے گا۔ آپ نے فرمایا: میں ذمہ دار ہوں نہیں بھاگے گا۔
آہ! اس بچے کے واقعہ نے مجھے وہ ننھا بچہ یاد کرا دیا کہ بھوکا پیاسا دنیا سے چل بسا اور اس کی ماں زار زار رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ بیٹا کہ تو پیاسا تھا پانی پیئے بغیر زخمی حلقوم کے ساتھ دنیا سے چل پڑا۔
یہ وہ یاد ہے جو رونے والوں کو جس قدر لائے کم ہے۔ تیرہ سو سال گذر گئے لیکن روز بروز رونے والوں میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ رونے سے روکنے والو قدرت کو یہ رونا پسند نہ ہوتا تو اس طرح رونے والوں میں ترقی نہ ہوتی ظاہراً اس ترقی کے کوئی اسباب موجود نہیں ہیں کسی کو کوئی دولت نہیں دی جاتی کوئی لالچ نہیں دیا جاتا اور باوجود اس کے ادھر ماہ محرم کا چاند نظر آیا اور دنیا کا دل کھنچ آیا۔ دنیا کو یتماؤں میں وہ لطف نہ آتا ہوگا جو رونے والوں کو رونے میں مزا آتا ہوگا۔ یہ لوگ ڈھونڈتے ہیں کہ کونسی جگہ رونے کی ملے کہ جہاں ان کے لیے رویا جائے۔ ارے یقین کرلو! یہ خدا ہے جو اس یاد کو اور رونے کے روز بروز ترقی دے رہا ہے۔ یہ کام ہمارا نہیں یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے جو اسے برابر بڑھا رہا ہے اس لیے کہ خدا سیدہ فاطمہ الزہرا سے وعدہ کرچکا ہے۔ فاطمہ تجدید عہد ہوا جنابہ سیدہ نے رسول اللہ سے عرض کیا کہ بابا جی گھٹتا ہے کہ میرا یہ بچہ ذبح کیا جائیگا؟ ارشاد فرمایا: ہاں ہاں یہ تب ہوگا جب نہ تم ہوگی نہ میں ہونگا۔ اور نہ علی ہوں گے۔
تب حضرت سیدہ نے پوچھا: بابا جان! پھر اس پر کون روئے گا۔ آپ نے فرمایا: ”مدینہ کی عورتیں اہل بیت کی عورتوں کے مصائب اور اس کے مرد اہل بیت کے مردوں کے مصائب پر ہر سال رویا کریں گے۔ قیامت کے دن تو ان عورتیں کی اور ان مردوں کی شفاعت کرکے جنت میں داخل کروں گا۔“
یہی وہ چیزیں تھیں کہ امام حیسن کو رسول خدا دیکھتے تو روتے۔ جب سیدہ کے سامنے آتے تو وہ بھی روتیں۔ جب وہ تصور کرتے کہ بیٹے کو تکلیف آنے والی ہے تو ان کے دل میں درد بڑھ جاتا۔ حضرت امام سیدہ کو کبھی فرماتے: اماں جان کیوں روتی ہو؟ میرا وعدہ ہے میں اسے پورا کرکے رہوں گا۔اگر میرے باپ نے وعدہ کیا اس سے زائد کرکے دکھلا دوں گا۔
ایک بار کا ذکرہے کہ حضور ہمہ تن متوجہ تھے۔ سیدنا امام حسین سامنے آگئے اپنے اپنے ساتھی اصحابی سے فرمایا یہ میرے دل کا ٹکڑا ہے۔ جب یہ مدد مانگے مدد کرنا پانی مانے گا پانی دینا۔
مگر آہ افسوس جس اہل بیت نے کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلایا تھا۔ ایک وقت آگیا کہ ایک گھونٹ پانی کے لیے ہاتھ پھیلانا پڑگیا۔ لیکن اپنے لیے نہیں چھ ماہ کے بچے کے لے۔ عمر بھر دنیا پر جنکے احسان ہوتے رہے۔ کیا ان کو پانی نہ ملا ہوگا؟ مگر حقیقت یہی ہے کہ پانی کیا ملنا تھا کہ جواب میں تیر آیا۔ حلقوم نازک چھلنی کرگیا۔
یہی امام مدینے سے نکلنے کے بعد راستے کی منزلیں اور تکلیفیں طے کرتے ہوئے کربلا پہنچے علی اکبر سامنے آیا معلوم ہوتا تھا کہ بیٹے کا جنازہ جارہا ہے بہن سامنے آئی محسوس ہوتا تھا کہ براھنہ سر نظر آرہی ہے۔
یہی سبب تھا مکہ سے آپ نکلے جبکہ لوگ حج کو جارہے تھے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ کیوں جارہے ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ میرے خدا کے گھر کی عزت برباد ہو جائے گے چند در چند منزلیں طے کیں۔ ایک منزل پر نماز صبح کے بعد اصحاب کے ساتھ بیٹھے سرجھکائے ہوئے تھے۔ ہمت نہ ہوتی تھی کسی کی پوچھے کہ آپ غمگین کیوں ہوں۔ خود ہی سر مبارک اٹھایا اور فرمایا وہ ایک شخص کوفے سے آتا نظر آرہا ہے۔ اس کا خیال رکھو اسے میرے پاس لے آؤ۔ راہ گزرنے سمجھا کہ راستہ کاٹ نکلوں۔ آپ کے غلام نے کہا۔ ڈرو نہیں میرے آقا کے پاس چلو انہوں نے کچھ پوچھنا ہے۔
کہا”کون ہے تمہارا آقا“ جواب دیا: ”علی اور فاطمہ کے بیٹے حسین“ کہا: ”بھی چلتا ہوں“ حاضر ہوا سلام کیا: امام نے فرمایا: ”تکلیف دی میں نے آپ کو کوفے سے آرہے ہو پوچھتا ہوں۔ ذرا بتلانا۔ میرے بھائی مسلم وہاں گئے تھے۔ وہ خیریت سے ہیں؟ اس شخص نے عرض کیا۔ حضور ذرا اٹھ کر ایک طرف آئیے۔ فرمایا: ”کیوں“ آپ نے اپنے اصحاب پر نظر ڈالی اور کہا کہ سب اپنے ہی ہیں جو کہنا ہے ان کے سانے کہہ دو۔ اس نے سر سے پگڑی اتاری۔ قدموں پہ رکھی اور فریاد کی۔ کہ حضور کوفے سے جب نکلاہوں مسلم کی لاش تب کوچوں میں پھرائی جارہی تھی۔ رسی پاؤں میں بندھی ہوئی تھی اور کھینچے جارہی تھی۔ آپ نے یہ سنا بے اختیار روئے تمام اصحاب رونے لگے گردن جھکائی پھر اٹھے اور خیمے کی طرف آئے اور ارشاد فرمایا: ”بہن زینب مسلم کی بیٹی رقیہ کو میرے پاس حاضر کرو۔ چار سال کی بچی لائی گئی۔ زانو پر بٹھلایا۔ سرپر ہاتھ پھیرا پھر فرمایا: ”وہ گوشوارے بھی لے آؤ۔“ اپنے ہاتھ سے پہنائے۔ معصوم بچی گھبرا اٹھی اور پکاری ”چچی جان‘ کیا میرے باب مسلم کی خیریت آئی ہے۔ تو ارشاد فرمایا بئی صبر کر اگر مسلم موجود نہیں۔ تو حسین موجود ہے۔ بیٹی نہ گھبرا۔
خداوندا ن آنسوؤں کو قبول کر
برحمتک یا الرحم الرٰحمین
مجلس سوم :
بتاریخ ۳ محرم الحرام ۳۷۰ ھ
بسم الله الرحمٰن الرحیم
( افغیردین الله یبغون وله اسلم من فی السمٰوت والارض طوعا وکرهأوالیه یرجعون )
حضرات!آج اپنا بیان شروع کرنے سے قبل آپ کی خدمت میں التجا ہے اور وہ یہ کہ آپ تمام اصحاب اپنی اس مجلس میں ایک کمی محسوس کر رہے ہونگے۔کہ بانی مجلس جو اس سکون کے ساتھ جس طرح غلام یا نوکر ہوتا ہے۔سیدنا امام حسین کی نوکری کے لیے کھڑے رہا کرتے تھے۔اتفاق سے وہ بیمار ہو گئے ہیں۔صدق دل سے دعا فرما ویں پروردگارعالم ان کی طبیعت صحیح اور درست کر دے کوئی وجہ نہیں کہ آپ لوگوں کی دعا قبول ہو۔ انشاء اللہ خدا وندعالم صحیح سالم ان کو ہم میں لے آئے گا۔
اس آ یت کا ترجمہ آپ برابر سنتے رہے ہیں کہ پروردگار عالم ارشاد فرماتا ہے: لوگ خدا کے دین کے علاوہ کچھ اور چاہتے ہیں۔حالانکہ آسمان اور زمین کے باشندے اس کے سامنے اپنی گردنیں جھکائے ہوئے ہیں۔ خوشی کے ساتھ یا جبروقہر کے ساتھ اور اس کی طرف تمام کی باز گشت ہے۔
بہتر ہو گا کہ میں آپکو یاد دلا دوں کہ کل کیا کچھ آپ بزرگان کے سامنے ہیں عرض کر چکا ہوں کہ پروردگار عالم دین کا نافذ کرنے والاہے۔جس کو دین اللہ کہتے ہیں۔اس دین کا تعلق ایک طرف اصول سے ہے اور دوسری طرف فروع سے ہے۔چونکہ انسان کو مکلف کیا کہ اصول پہ اتقاد رکھے اور فروع پر عمل کرے۔ اس کے حکم دینے کا نام تکلیف اور جسے تکلیف دی گئی اسے مکلف کہتے ہیں اور عرض تکلیف یہ قرار دی کہ انسان کی تکمیل ہو جائے اس لئے انسان کی غرض خلقت ہی یہ ہے کہ وہ مکمل ہو جائے۔
اور تکمیل اس وقت تک ہو نہیں سکتی جب تک رب کی طرف سے ارشاد اور تعلیم نہ ہو بلکہ یہ تکمیل مکمل موقوف ہے ہدایت اور تکلیف پر اور ہادی یا مرشد ہر گز ایسا نہ ہو جو کہ ہم یعنی ہدایت پانے والے۔ہادی کو کامل اور مکمل ہونا ضروری ہے۔
چونکہ ہادی کامل ہوتا ہے۔ وہ خلیفہ خدا ہوتا ہے اور اسی لئے اس کی اطاعت خدا کی اطاعت اور اسکی نافرمانی خدا کی نا فرمانی اس یے اس کے احکام کا رد کرنا بعض اوقات کافر بنا دیتا ہے۔کم از کم گناہ گار ہونا تو لازمی ہوتا ہے اس کے احکام میں کسی طرح کی کمی یا زیادتی کرنے کا کسی کو حق نہیں۔
یہ فقرہ آج اور بڑھا رہا ہوں کہ اس کے احکام میں کمی یا زیادتی جو کرے گا وہ ایسا ہو گا گویا کہ اس نے قولاً نہ سہی تو عملاً خود دعویٰ نبوت کیا۔
جیسے آقا کہے کہ یہ دیوار پانچ گز اونچی بنا دو۔اگر اس کے غلام نے چھ گز بنا دی تو آقا خوش ہو گا؟ُاسکی مرضی کے خلاف ہو گا کہ نہیں؟تو یہ زیادتی بالکل بے ہودہ ہو گی علی ھذا القیاس اب اگر غلام نے چار گز دیوار بنا دی تب بھی حماقت اور نا فرمانی میں شامل ہو گا۔اطاعت صرف اسی میں ہے جتنی کا حکم دیا اتنی ہی بنائی جائے۔
اب سوال یہ سامنے آتا ہے کہ اطاعت کا مطلب کیا ہے جتنی عبادتیں فرض ہیں اتنی ہی فرض رکھی جائیں۔اگر ذمیادتی ہو گی تب بھی نا فرمانی اگر کمی کر دی جائے گی تب بھی نا فرمانی اس طرح جتنی چیزیں ہیں ۔قیامت تک کے لئے تمام مکلفین میں ایک مشترک حیثیت سے رکھتی ہیں یعنی رسالت مآب کے زما نے میں جس چیز کی جو حالت تھی اس کے اعتبار سے جو حکم دیا گیا تھا۔ قیامت تک جاری رہے گا اگر وہی حالت رہے گی تو اس کے متعلق وہی حکم باقی رہے گا جو زمانہ نبوت میں جاری تھا۔ جیسے کسی کو نبی نے کہا کہ تم کھڑے نہیں ہو سکتے بیٹھ کر نماز پڑھو وہ جس زمانے میں ہو گا بیٹھ کر نماز پڑھے گا ا س لیے کہ یہ فیصلہ ہوچکا اور اسیر اتفاق ہو چکا کہ
”حلال و محمد حلال الی یوم القیامه و حرام محمدحرام الی یوم القیامه
کہ جو کچھ حضور محمدالرسول اللہ نے حلال کر دیا وہ قیامت تک کہ لیے حلال ہے اور جسے آپ نے حرام کردیا وہ قیامت تک کے واسطے حرام ہے۔“
پس زانے کی حیئیات کو دیکھ کر نہ حلال سے حرام کی جاسکتی ہے اور نہ حرام ہی حلال کی جاسکتی ہے۔ اگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی کو حلال کیا تھا۔ آج بھی وہ حلال ہے۔ سو سال بعد بھی حلال رہے گی۔
اس طرح قیامت تک اور اگر کسی شئے کو حرام کردیا تھا۔ تو آج بھی حرام۔ سو سال کے بعد بھی۔
کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ یہ سمجھے یادعویٰ کرے کہ وہ اتنا علم رکھتا ہے۔ جتنا کہ جناب محمد مصطفیٰ صلعم کا علم تھا اور یہ حقیقت ہے کہ ان تمام حلال کردہ چیزوں کے علم کا عبور ہونے کا دعویٰ ایک عامی جاہل سے جاہل بھی نہیں کرسکتا یا جن چیزوں کو حرام کردیا۔ان تمام کو جان لینے کا دعویٰ کر دینا جاہل سے جاہل آدمی بھی نہیں کر سکتا کہ مجھ کو اتنا علم ہے جس قدر رسالت مآب صلعم کو تھا۔
ہمارے زمانے میں مثال کے طور پر قربانی کرنا عید قربان کے دن دس‘ گیارہ‘ بارہ تاریخ ماہ ذوالحجہ کے تیرہ سو سال سے سنت چلا آرہا ہے۔ جو صاحب حیثیت ہیں۔ ان کے لیے قربانی منت رسول ہے۔ علماء کا عمل بھی برابر چلا آرہا ہے۔ تمام اہل اسلام کا اسیر اتفاق ہے۔ اب ایسی صورت میں اگر کوئی شخص قربانی نہ کرے باوجود صاحب حیثیت ہونے کے یا کوئی شخص اس امر کو سنت سے الگ قرار دیدے تو کہا جائیگا۔ وہ ایسا دعویٰ کر رہا ہے گویا کہ معاذ اللہ اس کا علم جناب رسالت مآب صلعم کے برابر ہے۔
جیسے کے پچھلے دنوں اخبارات میں مضامین نکلے تھے کہ بے فائدہ اس قدر تعداد جانوروں کی ذبح ہوتی ہے اور گوشت ضائع کیا جاتا ہے اتنا روپیہ بچالیا جاتا مستحقین کو دیاجاتا یا قوم کا کسی کام آنا۔ تو معلوم ہوا کہ جو فعل سنت نبوی تھا۔ وہ آج سنت نہ رہی۔ مکروہ ہوگئی یا کم از کم سنت رسول کی مخالفت ہوگئی۔
ان چیزوں کی مخالفت کرنے والا ایک علمت کی وجہ سے مخالفت کرتا ہے جو اس کے مد نظر ہوتی ہے۔
ایک صاحب ہندوستان میں فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے لیے روزے واجب نہیں یہ تو صرف عرب والوں کے لیے واجب تھے اور وہ اس لیے کہ وہ عربی لوگ خرمے کھایا کرتے تھے جس سے کافی خون پیدا ہوتا تھا۔ نیز روغن زیتون بھی بہت استعمال کرتے تھے۔
جس کے سبب ان کے خون میں زیادتی ہو جاتی تھی اور اسی لیے ان کے واسطے روزوں کا حکم ہوا تاکہ ان کی حالت اعتدال پر آجائے۔ لہٰذا آج ہم کو کیا ضرورت ہے کہ روزہ رکھیں یہ تو صرف انہیں پر واجب تھا ہم پر بالکل واجب نہیں۔
لیکن اس قسم کی حماقت کی کوئی حد ہے؟ کہ جو علت ایسے لوگوں نے اپنی نظر کے سامنے رکھی کیا ضروری ہے کہ خدا کی نظر میں بھی وہی علت ہو۔
ایک اور صاحب اٹھتے ہیں او رکہتے ہیں کہ آج نماز کی کوئی ضرورت نہیں اس لیے کہ نماز کا مقصد پابند اوقات بنانا تھا۔ چونکہ انگریز اپنے زمانے حکومت میں یہ پابندی سکھا گیا اور پابندی وقت کی غرض حاصل ہوچکی لہذا نمام کی کیا ضرورت ہے؟
میرے بزرگو اور عزیزو! اس قسم کی تمام علتیں اپنی طرف سے قائم کرلینا خالص حماقت ہی حماقت ہے۔
پچھلے سال ایک اور مسئلہ پوتے کی میراث کا نکل پڑا تھا۔ ارباب حکومت نے بڑی مہربانی کی کہ اس فتنے کو دبا لیا ورنہ جاھلان شریعت نے طے کرالیا تھا کہ لوگوں کے اس معاملے میں ووٹ لے لئے جائیں کہ آیا پوتے کو میراث ملتی ہے یا نہیں؟
مقصد یہ کہ ہمارے لیے جس کو مکمل مقرر کیا اور مرشد بنایا گیا ہے اس کا علم ہم تمام کے مجموعے سے زائد ہونا چاہیے اور جو نقائص ہم تمام میں ہیں۔ وہ سب کے سب اس میں نہیں ہونے چاہیں اور اسی کا مطلب یہ ہے کہ ھادی کو معصوم ہونا چاہیے۔
پس دین اللہ کو بتانے کے لیے معصوم کی ضرورت ہے اور دین اللہ اس وقت تک نہیں آسکتا جبا تک کہ ہادی معصوم نہ ہو۔
میرے بزرگو آج چاہتا ہوں کہ کسی قدر تفصیل کے ساتھ عرض کردوں کہ جب ہم کو معلوم ہوچکا کہ انسان کو تکلیف دی گئی جس کے مختلف درجات ہیں۔ مختلف اعتبارات سے مثلاً علم کے اعتبار سے سب انسان یکساں نہیں۔ صفات معینہ کے اعتبار بھی سب یکساں نہیں بلکہ تمام کے تمام مختلف ہیں۔ تو جب مکلفین میں اس قدر اختلاف ہے۔ تو واضح ہوا کہ تکلیف میں اختلاف ہونا چاہیے۔
اسی سلسلے میں پروردگار عالم نے فرمایا ”لھم درجات عند اللہ“ کہ اسنانوں کے متعدد درجے ہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک۔ کوئی اونچا‘ کوئی اس سے اونچا اور کوئی اس سے بھی اونچا۔
اس طرح کلام الہی میں ارشاد ہوتا ہے:
( والذین امنوا و عملواالصالحات لا تکلف نفسا الا و سعها ) کہ وہ جو ایمان لائے اور اعمال صالح بجا لائے۔اس قدر ہم ہر نفس کو تکلیف دیتے ہیں جس قدر برداشت کرنے کی اس میں وسعت ہوتی ہے۔مثال کے طور پر ہر کسی کو ایک سیر اٹھانے کی طاقت ہے تو اس پر پانچ سیر کا وزن نہیں لادا گیا بلکہ جس قدر طاقت تھی اتنی تکلیف دی گئی اور عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اگر طاقت سے تکلیف دی جائے گی تو وہ ظلم ہو گا اور اگر طاقت سے کم تکلیف دی جائے گی تو بھی ظلم ہو گا اس لئے کہ تکمیل کی کمی رہ گئی اور تکمیل میں کمی رکھنا خدا کے لیے کسی طرح درست نہیں۔
پس جو جیسا ہے علم کے اعتبار سے ذہن و ذکا کے اعتبار سے وغیرہ وغیرہ اسے ویسی ہی تکلیف دی گئی۔اسی وجہ سے جاہلوں کی تکلیف وہ نہیں ہے جو علما کی تکلیف ہے اور علما کی تکلیف وہ نہیں جو انبیاء کی تکلیف ہے ہر ایک کی تکلیف الگ الگ ہے۔
پروردگار ارشاد فرماتا ہے:( انظر کیف فضلنا بعضهم علی بعض ورفعنا فوقهم الدرجات ) “کہ”حبیب دیکھ لیجیئے کس طرح ہم نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمادی اور ”ہم نے ان کے اوپر اور لوگوں کو درجات میں اونچا کیا۔
معوم ہوا کہ انسان خلقت کے اعتبار سے بھی الگ الگ ہیں۔
اعتراض ہو سکتا تھا کہ جب انسانوں کو مختلف حیئیات سے پیدا کیا گیا ہے تو تکلیف یکساں کیوں دی گئی کیونکہ کلام الہی ہر شے اعتراض سے پاک ہے ثابت ہوا کہ تکلیف میں بھی انسان الگ الگ ہیں جس قدر کسی کا ظرف رکھا گیااور وسعت دی گئی اس قدر اس کے لیئے تکلیف بھی مقرر کی گئی۔
اب آپ اجمالی حیثیت سے انسانوں کے درجات سن لیجیئے۔گھر میں دیکھ لیجیئے سکول یا کالج میں جا کر دیکھ لیجیئے۔ بعض طلبا وہ ملیں گے کہ جس قدر بھی محنت کریں گے پھر بھی فیل ہی رہیں گے۔بعض طلباء کو دیکھیں گے کہ وہ سال بھر کھیلتے رہے اور امتحان سے قبل کچھ دن محنت کی اور پاس ہو گئے۔البتہ میرا اشارہ ان طلبہ کی طرف نہیں جو سفارش سے پاس ہو جاتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم نے بعض کو دیکھا کہ ساری ساری رات جاگتے رہے اور محنت میں حد کر دی لیکن آخر کار فیل ہو گئے۔
پس ثابت ہوا کہ ذہن کے اعتبار سے انسانوں میں فرق ہے۔ آپ خود اس جلسے کو دیکھ لیجیئے ۔ آپ خود اس جلسے کو دیکھ لیجیئے ۔ آپ حضرات ہی میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو میرے مطلب کو زیادہ سمجھ گئے اور بعض وہ ہیں جو سمجھتے ہی نہیں اور بعض وہ ہیں کہ ان کو کچھ مسائل سمجھ آگئے ۔ مگر فضائل کی ان کو کچھ سمجھ نہ لگی اور بعض باہر نکل کر سنے ہوئے مسائل کو اس طرح بیان کرنے لگے ۔ گویا کہ وہ بالکل خلاف کہ رہے ہیں اس سب کچھ کے کہ جو جہاں کہا گیا۔
اس روشنی میں اب یہ واضح ہو گیا کہ رسول خدا کی روایتوں میں بھی اسی طرح اختلاف ہو گیا تھا کہ رسول خدا نے تو کچھ فرمایا اور سننے والوں نے مجلس سے باہر جا کے بالکل فرمان نبوی کے خلاف بیان کیا۔
سبحان اللّہ:کہ حضور کے پاس بیٹھنے والوں میں ایک وہ بھی تھے کہ انہوں نہ جو کچھ جان یا سیکھا اسے کامل طور پر اور پورے کمال کے ساتھ جانا اور سیکھا۔
جناب محمد مصطفے صلعم کی مجلس والوں میں وہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ہیں جو ارشاد فرماتے ہیں: ”علمنی رسول الله الف باب من العلم وافتح لی من کلّ باب “یعنی رسول اللہ صلعم نے مجھے علم الہی کے ھزار باب تعلیم فرمائے جن میں سے فضل الہی کے سب ایک ایک باب کے ساتھ ہزار ہزار باب کے علم اور مجھ پر کھل گئے۔“ٰ
کیفیت جناب امیر کی ذہانت کی کہ حضور نے ہزار علم کے سکھائے آپ پر ہر ایک باب سے ہزار ہزار باب مزید کھل گئے۔
اور ایک وہ تھے رسول خدا کی مجلس میں ہی بیٹھنے والے جو حضورسے لفظ ”کلالہ“ کا معنی پوچھتے ہیں آپ سمجھاتے ہیں۔ سات آٹھ دن کے بعد پھر وہ حضرت آبیٹھتے ہیں کہ یا رسول اللہ میں ”کلالہ“ کے معنی بھول گیا۔ آپ نے معنی بتاددیئے چند دن گذرے تھے وہ پھر آئے اور کہا یا رسول اللہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی بالآخر حضور نے فرمایا: ”تم جاؤ گے اور تب بھی تمہیں سمجھ نہ آئے گی“ تو یہ لوگ بھی تھے۔ جن کے ذہن یہ تھے۔
اس طرف کلام الہی میں ارشاد ہوتا ہے:
”و منھم من یستمع الیک۔۔۔ حتی اذا خرجوا من عندک قالوا الذین اوتوا العلم ماذا قال انفاہ“ط کہ آپ کے پاس بیٹھنے والوں میں سے بعض وہ ہیں جو آپ کے فرمانکو نہایت غور سے سنتے ہیں لیکن جب مسجد سے نکل کر باہر ہوتے ہیں تو علم والوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا فرمایا تھا رسول نے
پس آپ حضرات خو داندازہ فرمائیں کہ اب یہ بیچارہ جو رسول الل کی خدمت میں بیٹھا اور اس نے کچھ سن لیا تو وہ باہر جا کے جو روایت کرے گا۔ اس میں اصل کے مقابلے میں کس قدر اختلاف ہوگا۔ اسی وجہ سے روایات والوں نے ایک مستقلعلم اسمأ رجال قائم کردیا ملاحظہ فرمائیے اصول کافی میں۔ حضرت سیدنا امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
ہمارے دشمن بہت ہیں اور رہیں گے جہاں دلوں پر ظلمتیں ہوں گی وہاں ظلمت کا اقتضا ہوگا کہ وہ خود کے ساتھ دشمنی کرے۔ مگر مصیبت یہ بن گئی کہ جو لوگ درست تھے۔ انہوں نے غفلت کے سبب ہم پر ظلم کردیا۔ اگرچہ وہ گہنہ گار نہیں لیکن ہم پر ظلم ہوگیا۔
کسی نے عرض کیا: ”کیسے“؟
ارشاد فرمایا: ہمارے دشمنوں نے ہمارے خلاف روایتں گھڑیں اور کسی دوسرے مقام پر جاپہنچے اب لوگوں نے انکو مقدس صورت سمجھا جیسا انہوں نے بیان کیا۔ سادہ لوح لوگوں نے جو کچھ ان سے سنا اس پر یقین کرلیا۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ وہ ہمیشہ سے دشمنان اہل بیت رہے ہیں۔ اس طری روایات بنیں اور ان میں اختلاف بڑھتے گئے۔
میرے بزرگو! میں بیان کررہا تھا کہ ہمارے ہادی کو بہرحال کامل و مکمل ہونا چاہیے۔
الحمد اللہ اس سے مجھے ہر علم اور ہر فن کا ایک ایکسپرٹ یعنی قابل ہے۔ کامل کہنے کو تو ڈر لگتا ہے۔ کامل کہنا غلط ہوگا جو محال عقلی نہیں۔ تو مشکل تو ضرور ہے۔ بہرحال قابل اور ماہر آدمی تشریف فرمائیں۔
اور کوئی علم نہیں جس کے ذریعے مقائل شرعی میں کسی نہ کسی طرح روشنی نہ پڑجاتی ہو علم ریاضی۔ علم جبر و ادب وغیرہ کوئی علم بھی ہو۔ ان کی رو سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔ کہ مجھے جلسے بستی و ملک وغیرہ کے انتظام کو اس وقت تک قائم نہیں رکھا جاسکتا جب تک کہ ہکوئی ایک کامل شخصیت کے ہاتھ میں اس کا انتظام نہ ہو اور وہ کامل امیر و غریب و فقیر‘ چور شریف وغیرہ کے لیے ایسا کامل قانون مقرر کرے گا۔ جو سب پر بیک وقت ایک ہی جیسا نافذ ہو۔ اگر فقیر چوری کرے تو اس کے لیے بھی وہی سزا ہو۔ جو امیر چور کے لیے۔ اس طرح اس میں بھی فرق نہ ہو کہ یہ عربی ہے۔ اسے زیادہ حقوق ملنے چاہیں اور یہ غیر عربی ہے۔ اسے کم حقوق ملنے چاہیں۔
حضرات جو بات منہ سے نکلتی ہے اس میں سے ایک اور بات سامنے آجاتی ہے عرض کرتا ہوں سنیئے۔
جناب رسالت مآب صلعم مال غنیمت تقسیم کرتے تھے۔ تو آپ نے کبھی یہ نہ دیکھا کہ یہ امیر ہے۔ یہ غریب ہے۔ یہ مہاجر ہے یہ مکہ کا رہنے والا ہے یا اس کے علاوہ کسی گاؤں کا رہنے والا ہے۔ سب کو ایک ہی حیثیت سے آپ تقسیم کرتے تھے۔ لیکن حضور کے اٹھنے کے بعد یہی طریقہ جاری رہا لیکن پھر کچھ زمانے کے بعد یہ طریقہ بدل گیا۔عرب و عجم میں فرق ہونے لگا۔ مہاجر انصار میں فرق کیا جانے لگا اور یہ طریقہ عرصے تک چلتا رہا۔
میرے بزرگو میں ان چیزوں کو ہر گز نہیں کہنا چاہتا جو ثابت شدہ واقعات کے خلاف ہیں یا محض کسی کو خوش کرنے کے لیے کہی جائیں یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ وہ وقت آگیا تھا کہ مال خدا کو جو تقسیم کیاجاتا تھا۔ تو اس میں فرق ہونے لگ گیا۔ مہاجر کو انصار سے زیادہ ملنا چاہیے اور جو کبھی نبی کریم صلعم سے کوئی جنگ کرچکے تھے۔ انکو بعد میں آنے والوں سے زیادہ ملنا چاہیے۔
تا آنکہ امیر المومنین علی کا وقت آگیا عرض کیا گیا کیسے تقسیم کیا جائے؟ فرمایا بالکل مادی حیثیت سے چنانچہ تقسیم کرنے پر ہر ایک کے حصے میں تین تین درھم آئے۔ جو لوگ ہزار ہزار درھم ان کو ملا کرتے تھے۔ وہ کب خوش ہوسکتے تھے۔
عبد اللہ بن عباس جیسے جو لوگوں میں قرآن کے تفسیر ان مشہور ہوئے۔ ان کو آخر عرض کرنا پڑا کہ یا امیر اب لوگ عادی ہوچکے ہیں۔ عادی لوگوں کو زیادہ دین ورنہ فتنے اٹھیں گے۔ فرمایا: ”اگر میرا ذاتی مال ہوتا تو بھی کبھی تفریق نہ کرتا۔ یہ تو خدا کی مال ہے ا س میں کس طرح اور کیسے تفریق کی جاسکتی ہے۔
وقت آج جلدی ہی گذر گیا۔ میں پھر واپس اپنے مطلب پر آتا ہوں اور پیش کرتا ہوں کہ انسانوں کے درجات کمال کی حیثیت سے کتنے ہیں۔
۱ ۔ ایک انسان تو وہ ہوتا ہے جسے ”مجنوں یا دیوانہ“ کہتے ہیں۔ جو سمجھ ہی نہیں رکھتا آپ اسے کبھی نہیں فرمائیں گے کہ بھائی مکتب میں جایا کرو علم حاصل کرو۔ بڑے بن جاؤ وغیرہ وغیرہ۔
۲ ۔ دوسرا درجہ اس کا ہے جس کو قرآن مجید کے الفاظ میں ”سفیہ“ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ دیوانہ یا مجنون تو نہیں بلکہ بے وقوف ہے۔
۳ ۔ ”مستضعف“ جسے ضعیف العقل بھی کہہ سکتے ہیں اور وہ ”سفیہ“ سے ایک درجہ اونچا ہے۔
۴ ۔ عام متوسط لوگوں کا ہے۔ کہ وہ نہ تو اتنے کم درجہ ہوتے ہیں۔ کہ انکو سفیہ یا مستضعفین میں داخل کیا جائے اور نہ اتنے بلند ہوتے ہیں کہ ذھینوں میں ان کا شمار ہو۔
۵ ۔ ”ذھین“ جن کا ذھانت میں اس قدر بلند پایہ ہو۔ یا جو کہ اشیائے عجیبہ کی اختراع کرسکیں۔
۶ ۔ ایک درجہ ان فقھا ء اور علماء کا ہے جو معصوم تو نہیں ہوتے مگر عصمت سے ان کے حالات ملے جلے ہوتے ہیں۔
۷ ۔ ”انبیاء و مرسلین“ کا درجہ ہے جو معصوم ہوتے ہیں اور تمام صفات کمال سے موصوف ہوتے ہیں۔
ان تمام درجات انسانی کے احکام الگ الگ ہیں۔جیسے جیسے درجے ویسی ویسی جو تکلیف ایک درجہ میں ہو گی اس سے بلند درجہ میں تکلیف بھی بلند مرتبہ کی ہو گی۔ایک جاھل درجے کے اعتبار سے کم اسے تکلیف بھی کم اور بالمقابل عالم کا مرتبہ بھی بلند اور اسکے لئے تکلیف کے احکام بھی بڑے اور بلند۔
اس سے یہ نہ سمجھ لینا کے جاھل رہنا اچھا ہے اس لئے کہ اس میں تکلیف کم رہے گی۔
انسان کے لئے پہلا حکم ہی یہی ہے کہ وہ جہالت کو دور کرے اور علم سے اپنے آپ کو معمور کرے۔
البتہ اس میں شک نہیں کے کسی انسان کوشش کی اور پوری کوشش کے بعد بھی جاہل رہا تو وہ اس شخص سے اچھا یعنی بہتر جس نے علم حاصل کیا۔عالم کہلایا ۔لیکن بے عمل رہا۔
تائیدی حکم ہے کہ علم حاصل کرو۔جہالت سے ہمیشہ بچو۔
میرے بزرگو! میں عرض کر رہا تھا کے ہر ایک انسان کے لئے تکلیف کے احکام الگ الگ ہیں بلکہ اعتقاد کے اعتبار سے بھی انسان انسان الگ الگ ہوں گے۔کسی کا کم اعتقاد کسی کا زیادہ اعتقاد اس کا اس سے زیادہ اعتقاد پس بلند اعتقاد والے کے نزدیک وہ جو کمزور اور پست اعتماد والا ہے۔اس کی اعتقاد میں پستی۔جہالت ہو گی یا نہیں؟اور بلند اعتقاد والے کے نزدیک گمراہی ہو گی یا نہیں؟
ایک ذھین، عالم، صاحب معرفت انسان ہے اس کا اعتقاد جاہل کے اعتباد سے کتنا بلند ہو گا اور اس کے نزدیک جاہل کا اعتقاد یقیناً پست ہو گا اور ایک طرح سے جہالت اور گناہ ہوگا ۔یہی وہ حقیقت ہے جو مشہور مقولہ سے بھی واضح ہوتی ہے کہ”حسنٰت الا برار شیئات المقربین“ کہ”ابرار لوگوں کے نزدیک جو چیزیں نیکیاں ہوتی ہیں۔
سبحان اللہ! امام جعفر صادق کے خادم ہیں۔ ایک بار عرض کیا کہ حضور کچھ سیدھے سادھے لوگ آئے تھے یا ابن رسول اللہ!ھم تو ان سے بیزار ہیں۔
حضرت امام نے فرمایا: کیا وہ ہم سے محبت کرتے ہیں؟ خادم نے عرض کیا”ہاں“ارشاد فرمایا: ”پھر کیوں بیزار ہو تم؟“
عرض کیا”حضور ان کے اعتقاد کمزور ہیں“۔
ارشاد فرمایا: ”اگر یہی دلیل ہے بیزاری کی تو چاہیے کے ہم بھی تم سے بیزار ہو جائیں اس لئے کہ جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ تم نہیں جاتے اعتقاد کا بلند مرتبہ جو ہمارا ہے وہ تمہارا نہیں اور اسطرح چاھیے کے خدا تعالیٰ ہم سے بیزار ہو جائے اس لئے کہ جو کچھ وہ جانتا ہے وہ ہم نہیں جاتے۔ پس پست اعتقاد انسانوں سے بیزار نہ ہو جاؤ بلکہ انہیں سمجھانے کی کوشش کرو جس قدر ان کے پاس ہے وہ ان کے اعتبار سے ان کے لئے ٹھیک سمجھو ورنہ دنیا میں بیزاری ہی بیزاری ہو جائے گی۔
لہٰذا احکام شریعت میں اتنی ہی تکلیف ہے جتنی کہ برداشت ہو سکے اور یہی وجہ ہے پروردگار عالم نے فرمایا:
( لا یکلف الله نفساً الا وسعها )
کہ ”اللہ تعالیٰ کسی کو ہر گز اتنی تکلیف نہیں دیتے جو اس کی وسعت یا برداشت سے باہر ہو۔
ایک واقعہ یاد آ گیا کہ ایک بڑے نیک صاحب ایمان درویش مسلمان نے ایک یہودی کو مسلمان کر دیا۔آپ نے کہا میاں پہلے غسل کر لو۔پاک کپڑے بھی پہن لو تاکہ ھم کلمہ شہادت پڑھا دیں۔ اس نے ایسا ہی کیا پھر کہا کہ مکمل مسلمان تم تب ہو گے جب تک نماز نہیں پڑھو گے۔اس نے کہا بہتر ٹھیک سویرے سویرے اس کا دروازہ جا کھٹکھایا کہ چلیئے نماز ادا کریں ابھی صحیح کی آذان میں کچھ وقت باقی تھا کہا تھوڑی سی نفل نماز پڑھا لیں پھر دو فرض پڑھنے شروع کئے۔جو نماز پانچ منٹ کی دیر میں ختم ہو سکتی تھی۔انہوں نے پندرہ منٹ لگائے اور خوب ٹھر ٹھر کے پڑھی۔نماز بعد کہا کچھ کلام ہی پڑھ لیں جس پر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹا صرف ہو گیا۔ پھرکہا کچھ دعائیں بھی مانگ لیں اور دعائیں پڑھتے پڑھتے درس گیارہ بج گئے۔کیونکہ دیر ہو چکی تھی ساتھ ہی لے گئے کہا کھانا کھا لو۔جب کھا چکے تو ارشاد فرمایا اب زوال ہو گیا ہے چلو مسجد میں نماز ہی پڑھ آئیں۔آٹھ رکعت نوافل خود پڑھانے کے بعد نماز ظہر پھر دعائیں اس انداز سے پڑھیں کے عصر کی نماز کا وقت آ گیا۔نماز ختم کرنے کے بعد پھر دعائیں وظائف شروع کئے۔حتیٰ کے مغرب کی نماز بھی وہاں ہی اداکرنی پڑی اور دعا کا سلسلہ اتنا پڑھا کہ عشا کی نماز کا وقت آ گیا جس کے بعد پڑھتے پڑھاتے۔گیارہ بجے کے قریب وقت آ گیا۔اب آپ نے کہا کہ ذرا جائے گھر میں آرام کیجیئے۔
دوسری صبح آپ نے اس نو مسلم یہودی کا دوروازہ کھٹکھٹایا اس نے جواب دیا کے بھائی صاحب مذھب تمہارا تو بہت اچھا ہے لیکن یہ مذہب تمہارا بہت بڑی فراغت چاہتا ہے لہٰذا میں دین اسلام سے باز آیا ایسا دین تمہیں ہی مبارک ہو۔
پس اس نا سمجھ نے وسعت سے زیادہ تکلیف دی اور یہ انجام ہوا۔ اس لئے احکام اس طرح مسلط کر لئے جائیں تو خطرہ پیدا ہو جائے گا کہ کوئی اصل سے ہی نہ پھر جائے۔
پس ثابت ہوا کہ ہر ایک کی تکلیف الگ الگ ہے اس طرح ہر ایک کا ذہن بھی الگ الگ ہے۔ اسی طرح اعتقاد بھی الگ الگ ہے۔کس کا بلند درجہ اعتقاد ہے اور کسی کا پست درجہ۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: کہ ایمان کے اعتقاد کے اعتبار سے پچاس درجے ہں کوئی اس کے پہلے درجے میں اور کوئی دوسرے میں کوئی دسویں میں کوئی پندرھویں میں کوئی بیسویں میں۔اب جو دوسرے درجے والا ہے وہ پہلے اعلیٰ ہے پانچویں والا دوسرے سے بہتر ہے اور پندرھویں والا دسویں سے بہتر ہے۔لیکن پندرھویں والے کو ہر گز نہ چاہیے کے وہ پانچویں والے یا دسویں والے کو ذلیل یا حقیر سمجھے۔ اگر بلاشبہ اس کی نظر میں ان پست درجہ والوں کا اعتقاد جہالت ہوگا ۔
آپ درود شریف پڑھیں ۔ میں ایک اور مادی مثال پیش کرتا ہوں ۔
جیسے کوئی چار پانچ سو روپے ماہوار پاتا ہے اور ایک اور محض ہے جو ایک سو ماھوار لیتا ہے کیا پہلے کو چاہیے کہ دوسرے کو ذلیل سمجھے ؟ اگرچہ سو روپے ماھوار والا خود اپنی جگہ راضی ہوگا مگر اس کی جگہ اور مرتبے کو پانچ سو روپے ماہوار والد کبھی پسند نہ کرے گا ۔
میرے بزرگو! میں یہ عرض کررہا تھا کہ دین اللہ میں انسان کی عرض تکلیف تکمیل انسان ہے اور تکمیل انسان کے لئے تکلیف رکھی گئی اور تکلیف میں اسی طرح درجات ہیں جس طرح انسانوں میں درجے ہیں ۔ اعتقاد کے اعتبار سے تو اوپر کے درجے والے کے نزدیک نیچے کے درجے والے کا اعتقاد جہالت ہے۔
اسی لئے رسالت مآب نے ارشاد فرمایا :
”لو علم ابوذر ما فی قلب سلیمان الفارسی وکفرته اوقتله “ کہ اگر وہ اعتقاد ابوذر کو معلوم ہوجائے گا جو جناب سلیمان فارسی کو حاصل ہے۔ تو وہ اس کا انکار کردے اس پر کفر کا فتوٰی لگا دے یا اسے قتل کردے ۔ اس لئے کہ سلیمان فارسی کا اتنا بلند درجہ ہے کہ وہ ابوذر کے تصور میں بھی نہیں آسکتا “۔
یہ ابوذر سلیمان فارسی کے اعتبار سے اس قول کی رو سے کتنے کم درجہ ہیں کہ ان کو اگر معلوم ہوجائے کہ سلیمان کے عقیدے میں یہ باتیں شامل ہیں۔ تو وہ اس پر کفر کا فتوٰی دے دیں یا قتل ہی کر ڈالیں ۔
حالانکہ حضرت ابوذر کا اپنی جگہ وہ عظیم الشان درجہ ہے جناب رسالت مآب معلصم نے فرمایا ”ماقتلت …اصدق من ابی ذر “ کہ ” زمین کے اوپر آسمان کے سائے کے نیچے کوئی انسان بھی کہ جس پر آسمان نے اپنا سایہ ڈالا ہو اور وہ بولنے والا ہو اور وہ زیادہ سچا ہو حضرت ابوذر سے “
معلوم فرمایا آپ نے کون تھے یہ ابوذر تمام اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ ان کے متعلق حضورکا یہ فرمان ۔
حضرات مجھے یہ واقعہ یاد آیا کہ ایک شخص نے ابوذر کو بلایا ہم لوگ تمہیں اچھا نہیں سمجھتے ۔ تم حکومت وقت کے خلاف لوگوں کو ابھارتے رہتے ہو۔ میرے بزرگو! یہ واقعات ذرا تفصیل طلب ہیں۔ میں تفصیل میں نہیں جاتا۔ صرف دو لفظ میرے مطلب کے ہیں۔ وہ سنیے۔ حضرت ابوذر نے ارباب حکوت کو فرمایا: ”کہ جو مال آرہا ہے وہ خدا کا مال ہے؟ اور وہ فلاں کو کیا نہیں دے دیا گیا؟حکومت وقت نے مال خدا میں سے عطیات دیئے تھے۔درھم دیئے تھے۔دنیار دیئے تھے۔(درھم چاندی کا سکہ ہوتا ہے اور دینار سونے کا) اور وہ عطیات جو دیئے گئے تھے۔اسکی تعداد ۲۰ کروڑ درھم اور ۲۵ لاکھ دینار تھے۔(موجودہ وقت کے اعتبار سے آپ اندازہ لگائیں کہ اس وقت ایک پیسہ کی قیمت آج کے پانچ روپے کے برابر تھی)۔
جناب ابوذر کو یہ بات بری معلوم ہوئی تھی کہ مال خدا وندی میں سے اس قسم کے عطیات دیئے جائیں۔آپ بری بات معلوم فرمانے کے بعد چپ رہ ہی نہیں سکتے تھے۔جہاں خلاف شرع بات دیکھی۔وہاں ابوذر اٹھ کھڑے ہوئے۔
یہی ابوذر فرماتے ہیں عاص کے متعلق کہ میں نے رسول اللہ سے سنا ”کہ عاص جو ہے اسکی اولاد جب تیس آدمیوں تک پہنچ جائے گی تو اپنے دین اسلام کو تباہ کرنے لگے گی“۔ کہا گیا کس کے سامنے یہ الفاظ آپ نے سنے؟ آپ نے تمام نشت گان سے پوچھا کے ”کسی اور نے بھی یہ الفاظ آپ لوگوں میں سے سنے؟“ جب کوئی بھی نہ بولا۔تو ابوذر نے کہا کہ ”علی ابن ابی طالب کو بلایا جائے“۔آپ سے یہی بات پوچھی گئی جناب امیر نے فرمایا”اگرچہ میں نے الفاظ تو نہیں سنے مگر ابوذر جو کچھ کہ رہے ہیں۔وہ اپنے کہنے میں بالکل سچے ہیں۔ اس لیے کہ میں نے یہ الفاظ حضور سے ضرور سنے کہ آپ نے فرمایا کہ:
”زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے کوئی ایسا نہیں ہے۔ جو ابوذر سے زیادہ سچا ہو۔“
تو جب رسول خدا نے گواہی دے دی تو میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ابوذر نے جو کچھ حضور کا ارشاد سنایا ہے کہ اس کے بیان کرنے میں یہ کسی طرح غلط نہیں کہہ سکتے۔
پھر آپ نے حاضرین محفل کو مخاطب فرمایا۔کہ کیا ابوذر کے متعلق رسول اللہ کے یہ الفاظ تم نے نہیں سنے؟جب سنے ہیں۔ تو پھر اب کیسے کہہ سکتے ہو کے ابوذر جھوٹ بول رہے ہیں۔اگر تم ایسا کہو گے تو کیا تکذیب رسول نہ ہو جائے گی۔
پس حضرت ابوذر کا پایہ کتنا بلند ہے اور اس سے آپ یہ بھی اندازہ لگا لیں کہ جناب سلیمان فارسی کا پایہ کتنا بلند ہوگا اور جب سلیمان دروازہ اھل بیت کے ادنیٰ غلام تھے اور یہ پایہ رکھتے تھے تو اندازہ لگائیے کہ وہ درواذہ کتنا بزرگ ہو گا اور اسکا پایہ کتنا بلند ہو گا۔جہاں سلیمان جیسے بزرگ جبہ سائی کیا کرتے تھے۔
حضرات وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے یہ تفصیل میں کل عرض کروں گا انشاء اللہ کہ انسانوں کے مختلف درجے ہیں۔ اعتقاد کے لحاظ سے بھی درجے ہیں عمل کے لحاظ سے انسانوں کے الگ الگ درجے ہیں اور یہ بات واضح اور صاف ہے کہ بڑے درجے والے اپنے سے کم درجے والے کو ایک قسم گمراہی یا جہالت میں دیکھتا ہے اور اتنی بات ضرور سمجھ لو اور انبیاء کے ترک اولیٰ کو یاد رکھو۔
اھل بیت کی منزلت یہ ہے کہ سلمان فارسی جیسے انکی غلامی پر فخر کرتے ہیں اور اپنے آپ کو امیرالمومنین کے ادنیٰ غلام سمجھتے ہیں۔پس جب غلام کا یہ مقام ہو تو آقا کا مقام کہاں ہو گا۔
حکما کے ہاں طریقہ مقرر ہے۔کہ کسی شخص کو جاننے یا سمجھنے اور اس کے اندرونی حالات معلوم کرنے کے لئے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے دوستوں کو اور ہم نوالہ ہم پیالہ آدمیوں کو دیکھ لو۔
اگر تم ان کو کسی طرح نہ دیکھ سکو تو ان کودیکھ لو۔ ان کا پتہ لگ جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص کے دوست سب کے سب شرابی ہوں تو اگرچہ شرابی نہیں۔تو کم از کم اتنا تو ضرور معلوم ہو جائے گا کہ اس کے نزدیک شراب کوئی عجیب نہیں۔
عرض کرنا چاھتا ہوں کہ اھل بیت رسول اللہ کے دوست کون کون تھے اور کیسے کیسے تھے امید ہے مجھے کہ جن بزرگوں کے نام آپ کے سامنے لے رہا ہوں خوامخواہ بلاوجہ کئی یہ نہ کہ دے کہ”میں جھوٹ بول رہا ہوں۔یہ وہ بزرگ ہیں کہ انہیں جان لینے کے بعد ان لوگوں کی آنکھیں کھل جائیں گی۔جن کی نظر میں اھل بیت کی وقعت کم ہے۔ پس میں ان کے غلاموں میں سے ایک غلام اور ان کے مریدوں میں سے ایک مرید کو پیش کرتا ہوں جن کا نام۔”اویس قرنی“ ہے۔
میرے خیال میں کوئی مسلمان ایسا نہ ہوگا جو ان سے واقف نہ ہوگا۔لفظ”قرن“مناظر نجہ میں سے رہنے والوں کی ایک جگہ ہے اگر آپ حج کے لئے جائیں تو جس مقام پر احرام باندھا جاتا ہے اس جگہ ایک گاؤں ہے۔ اس کا نام ”قرن“ ہے اور اسی قرن کے نام سے حضرت اویس۔اویس قرنی مشہور ہو گئے۔
آپ کے کان میں جناب رسالت ماب کا تذکرہ ہو ۔لوگون سے حالات پوچھنے شروع کیے۔کیسے نبی ہیں؟ کہا گیا بڑے عجیب نبی ہیں۔نور الہی ہیں سایہ تک نہیں ہوتا۔ اتنی کثافت بھی نہیں رکھتےٍ۔کہ سایہ ہی نہ ہو۔اتنے پاک اور اپنی خوشبو کے مالک ہیں۔کہ صبح وقت جس کس کوچے سے نکل گئے شام کو گزرنے والے سمجھ جاتے کہ رسول اللہ گزرے ہیں ۔
اس قسم کے حالات سنتے ہی غائبانہ ایمان لے آئے اور اتنی ترقی ہوئی ایمان میں کہ تاریخ کی رو سے زھاد ثمانیہ یعنی آٹھ زاہدوں کے مرتبے کے اعتبار سے سردار مانے گئے ہیں۔
میرے بزرگو! آپ نے عام طور سے لوگوں سے سنا ہو گا کہ جنگ احد میں سرکار رسالت مآب کے جب دانت شہیدہوگئے تو بتلانے والے نے انہیں آکر بتلایا کہ حضور کا دانت کافروں نے شہید کردیا محبت محبوب کے جذبے نے ایسا جوش مارا کہ دانت نکالنے والے کو بلایا اور ایک دانت نکلوا دیا۔
بتانے والے نے یہ نہیں بتایا تھا کہ رسالت مآب کا کونسا دانت شہید ہوا ہے۔ آپ نے ایسے جذبے میں یہ خیال کیا۔ ممکن ہے جو دانت نکلوایا گیا اس کے ساتھ والا دانت حضور کاشہید ہوا ہوگا۔ پس اسے بھی نکلوا دیا حتی کہ اس طرح ایک ایک کرکے ۳۲ کے ۳۲ دانت باہر نکلوا ڈالے۔
محبت کے اس جذبے نے اتنی ترقی کی کہ ملاقات نبوی کا شوق پیدا ہوا آپ کی والدہ ماجدہ زندہ تھیں۔ ان کے نان نفطے کا انتظام شتر بانی کے لیے جو اجرت ملتی تھی ۔ اس سے کرتے تھے۔ایک دن اشتیاق بہت بڑھا ماں سے درخواست کی اجازت دو تاکہ آقا و مولیٰ کی زیارت کرآؤں۔ فرمایا چلے جاؤ مگر میرے پاس کون رہے گا؟ بالآخر اصرار کے بعد ماں نے اجازت دی کہ جائیے لیکن آدھے دن سے زیادہ نہ رہناآپ نے اقرار اور گرتے پڑتے پوچھتے پوچھتے مدینے جا پہنچے۔ اتفاق کی بات یہ ہے رسول خدا صلعم شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ چھ گھنٹے کامل انتظآر کے بعد واپس لوٹنا پڑا تاکہ ماں سے کئے گئے اقرار کے خلاف نہ ہو۔
شام کو جناب رسالت مآب تشریف لائے آتے ہی فرمایا یہ کس کانور ہے جو گھر میں محسوس کررہا ہوں۔ کون اس گھر میں آیا تھا؟
لوگوں نے عرض کیا ایک آدمی آیاتھا جس کا اویس نام تھا۔
فرمایا: اویس ہمارے گھر آیا اور اس کا نور سارے گھر میں پھیل گیا۔
حضرات! اویس قرنی وہ تھے جو ہر ایک فرقے کہ نزدیک مانے گئے ہیں۔ بلکہ کل فرقے ان باکمال ہونے پر اتفاق کرتے ہیں۔
رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان مربی حق پر ارشاد فرمایا: لوگو! تجھ پر ایک شخص کی بشارت دیتا ہوں جو کل میدان حشر میں شفاعت کرے گا پروردگار عالم اس کی شفارت سے اس قدر آدمیوں کی مغفرت فرمائے گا جس قدر قبیلہ مضر اور ربیع کے لوگ ہیں۔ یعنی لاکھوں کی شفاعت فرمائیں گے؟ اور وہ کون ہوں گے؟ جناب ”اویس قرنی“
آپ کی عبادت کی شان یہ تھی کہ جب رات آتی فرماتے یہ رات شب رکوع ہے۔ پھر نیت باندھتے جب رکوع پر جاتے تو ساری رات ایک ہی رکوع پر گذار دیتے۔ بہرحال دوسری رات آتی فرائض کی ادائیگی کے بعد فرماتے آج کی رات ”سجود کی رات“ ہے اور ساری رات سجدہ میں ہی گذار دیتے۔
جناب ”اویس“ ہی کے سلسلے میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ تفوح روائح الجنة من قبل الیمن و اشوقاہ الیک یا اویس قرن کہ جنت کی خوشبوئیں جن کی طرف سے آرہی ہیں اے اویس قرنی! مجھے کس قدر تیرا شوق ہے۔
بزرگو! آخر میں صرف اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ ذرا سی توجہ کے ساتھ آپ سماعت فرمائیں گے تو بعض کی آنکھیں کھل جائیں گی۔
جانتے ہیں آپ کہ ”اویس قرنی“ کی شھادت کب ہوئی؟ جنگ صفین میں۔ امیر المومنین عیلہ السلام کے ساتھ ان کی غلامی میں رہ کر دشمن امیر سے جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔
امیر المومنین ”جنگ صفین“ میں پہنچے۔ فرماتے ہیں ”کوفے“ سے ۱۰۰ آدمی آئیں گے جو آکر بیعت کریں گے۔ اس تعداد سے نہ کم آئیں گے نہ زیادہ۔ لوگوں نے دیکھا کہ سچ مچ ایک جماعت وقت مقررہ پر آرہی ہے۔ گنتی کی گئی تو ۹۹ آدمی پائے گئے۔ روای کہتا ہے کہ میری کیفیت بہت بری ہوگئی کہ جناب امیرقول مبارک میں ایک شخص کی کمی سے شک پیدا نہ ہو جائے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا خدا کی قسم! نہ میں نے جھوٹ بولا اور نہ جناب آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غلط فرمایا: یقینا ایک اور کو ضرور آنا چاہیے۔
یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ ایک شخص دور سے کمبل میں ملبوس نمودار ہوا بلکہ ٹاٹ کا کرتہ یا عباء پہنے ہوئے تھا وہ ترکش ساتھ تھا جس میں تیر تھے اور کمان ہاتھ میں تھی اور دو تلواریں بھی تھیں۔ سیدھا امیر المومنین کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا امیر! ہاتھ بڑھائیے کہ بیعت کروں۔
کہا گیا کہ یہ کوئی پہلی بیعت ہے؟ عرض کیا پہلی بیعت تو کبھی کی ہوچکی آج یہ بیعت کرنا چاہتا ہوں کہ یا تو مارا جاؤں گا اور شہادت پاؤں گا یا دشمن امیر کوفتح کرلوں گا۔
کیا فرماتے ہیں آپ اس جنگ میں امیر المومنین حق پر تھے یا وہ حق پر تھے جن سے آپ لڑ رہے تھے؟ ان دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہے۔
اگر ”اویس“ حق پر فرمان نبوی حق تھا ان کی شہادت حق تھی تو حضرت علی حق پر تھے اور دشمن باطل پر تھے علماء کو ان ہی کو حق میں ماننا پڑے گا کہ آپ حق پر تھے۔ اس لیے کہ ان ہی کے متعلق ارشاد نبوی سن چکے تھے کہ اویس قبیلہ مضر اور ربیعہ افراد جتنوں کی سفارش کریں گے۔ ان کو موت ایمان پر تھی۔ لہذا ثابت ہوگیا یا نہ کہ علی حق پر تھے؟ اور آپ سے لڑنے والا باطل تھا یا نہیں؟
ہمارے آئمہ طاہرین میں سے ایک امام کی روایت میں موجود ہے کہ میدان حشر میں منادی کی جائے گی۔
کہاں ہیں ہو جواری جنہو ں نے عہد کیا تھا میرے رسول سے اور پھر کبھی اس میں خلاف عہد نہ کیا تھا انہوں نے!
اعلان کے بعد ابوذر‘ سلمان‘ مقداد آئیں گے پھر سرکار فرماتے ہیں ”علی“ آئینگے۔ ان کے بعد اویس قرنی آئیں گے۔ پھر اور علی کے حواری باری باری آئیں گے۔
سبحان اللہ! جب ”اویس قرنی“ کا اتنا بلند مرتبہ ہے تو اقا کا مرتبہ کیا ہوگا؟
پھر اس کے بعد حسن مجبتیٰ کے حواری آئیں گے۔ پھر سید الشھداء امام حسین علیہ السلام کے حواری آئیں گے لکھا ہے کہ ۷۲ تن آئیں گے تمام کے تمام آئیں گے جو میدان کربلا میں شہید ہوئے تھے۔
حضرات! میں چاہتا ہوں کہ صرف دو باتیں آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ کہ حواریوں کے ذکر میں سے اویس قرنی کا ذکر آپ سن چکے ۔ جن لوگوں کی نظر میں آپ یہ تھے اور ان کا مرتبہ اس قدر تھا حالانکہ آپ غلام تھے پس سوچنا یہ ہے کہ غلام جب ایسا تھاتو جن کے غلام تھے وہ آقا کس مرتبہ کا ہوگا؟ کہ جس کے ہمرکاب ہو کر اویس شہادت قبول کی۔ پس محکوم کیسا تھا اور حاکم کیسا ہوگا۔
پھر یہ سوچنا ہے کہ میدان حشر میں جب پکارے جائیں گے تو امیر المومنین کے دوستوں میں شامل ہو کر آئیں گے اور یہ کہتے ہوئے آئیں گے کہ ”میں بھی ان کا غلام ہوں“ پھر شہید کربلا امام حسین کے حواری آئیں گے تو آپ کا قافلہ ایک عجیب قسم کا قافلہ ہوگا۔ کوئی ان میں ایک سوسال کا بڈھا ہوگا کوئی ان میں ۱۸ سال کانوجوان ہوگا اور کوئی ان میں سے ۶ ماہ کا بچہ ہوگا۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ ”میدان حشر میں جب لوگ اٹھائے جائیں گے تو حکم ہوگا کہ وہ لوگ اٹھائے جائیں اور اپنی فریاد پیش کریں جن پر دنیا میں ناحق ظلم ہوا تھا۔ تو بہرحال اویس بھی امیر المومنین کے دوستوں میں شامل ہو کر آئیں گے۔ ذرا تصور کریں آپ اس میدان کا جب سیدمظلوم کا مظلوم قافلہ حاضرہوگا اور اس دن ہر مظلوم اپنے ہر ظالم سے بدلہ لے جائے گا۔
سبحان اللہ! یہ قافلہ حشر کے دن کس شان سے چلے گاآگے آگے سید الشھداء امام حسین علیہ السلام ہوں گے اور غالباً داہنے طرف ہم شکل رسول علی اکبر ہوں گے اور بائیں طرف آپ کے کٹے بازؤں کے ساتھ جناب عباس پھر سفید داڑھیاں والے حبیب بن مظاہر وغیرہ ہوں گے۔ ذرا دیکھئے و سبھی قافلہ سالار کربلا کے ہمراہ تمام شھید آگئے؟ غور کریں کہ تمام شھید آگئے مگر ہاں ایک شہید نہیں معلوم وہ اتنا کم سن ہے کہ نہ پاؤں سے چل سکتا ہے۔ نہ سوار ہو کر آسکتا ہے اس کا نام اصغر بے شیر ہے۔ ایک مرتبہ قیامت میں زلزلہ آگیا کہ کربلا کا وہ سب سے ننھا شہید وہ آرہا ہے۔ دادی کے ہاتھوں میں وہ فاطمہ کا نور آرہا ہے۔ اس طرح کہ ایک ہاتھ گلے پر اور ایک ہاتھ خدا کے دربار میں ہے کہ پروردگارا میں بے گناہ مارا گیا۔ پروردگارا میرے باپ کے غزہ داروں کو بخش دے کہ ان کی آنکھیں روئی تھیں اس حسین کو روئیں تھیں جس سے زیادہ کوئی مظلوم نہ تھا اور اس سے زیادہ کسی اور پر رونے کا کسی او رکو حق ہی حاصل نہیں۔
ہائے کس کس کو یاد کریں اور کس کس پر کیوں نہ روئیں۔ انصاف کرنے والو علی اکبر کی جوانی یاد کرو۔ اس پر نہ روئیس علی اصغر کی بے زبانی یاد آئے۔ اس پر نہ روئیں دنیا والو اولاد والو! ہم نہ روئیں جب کہ رسول کی بیٹیاں ننگے سر آئیں پا برہنہ آئیں۔ تم ہی انصاف کرو۔ کہ ہم کیوں رو رہے ہیں؟ کیا اسی ظلم کی خاطر رسول اللہ اپنے کندھوں پر حسین کو چڑھاتے تھے۔کہ ان کے ماننے والے نیزے پر سر مار کر شہید کردیں۔ مسلمانو! انصاف کرنا کیا رسول اللہ امت والوں کی خدمت اس خاطر کرتے تھے کہ ان کے گھرانے تباہ کردیاجائے گا۔
بزرگو! آج محھے کچھ اور مسائل بیان کرنے تھے مگر عنان بیان اس طرف آگئی۔ مسلمانوں انصاف کرنا ذرا گھر جا کے سوچنا۔ایک شخص قوم کے لوگوں میں سب سے بڑا مہذب اس کی ساری عمر لوگوں سے اچھا سلوک کرتے ہوئے گذر گئی۔ اچانک اسے موت آگئی اس کی بیماری پر لوگ بیمار پرسی کرنے آئے۔ اگر وہ بھوکا تھا خود نہ کھایا اسے کھلایا۔ بالآخر اس کے مرنے پر سب لوگ آئے اس کا جنازہ اٹھایا جارہا ہے۔
لیکن امت کے والی کا یہ فرزند ہے بھوکا ہے۔ پیاسا ہے۔ عالم غربت میں ہے اور اس کا جنازہ تک اٹھانے والا کوئی نہیں ہے کاش کوئی سمجھ لیتا کہ فرزند رسول پانی مانگ رہا ہے اس ے پانی پلادیا جائے۔
میں کہتا ہوں اسے بھی جانے دیجئے دل پر نشت سا چھبھتا ہے۔ کہ لوگوں نے یہ نہ سمجھا کہ رسول کا نواساقتل کیا جارہا ہے۔ قتل کرنے والے کون ہیں؟ حسین کو یہودی قتل کرتے اتنا رنج نہ ہوتا۔ عیسائی قتل کرتے اتنا غم نہ ہوتا۔ او! یزید امام حسین نبی کا نواسا ہم سے شکایت کررہے ہیں کہ افسوس انہیں ان کے نانا کے کلمے پڑھنے والوں نے مارا ہے۔
افسوس حسین کو نواسہ رسول نہ سمجھتے تو ہم کو رنج نہ ہوتا۔ دل کے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔ حسین کو علی کا جگر گوشہ نہ سمجھتے تو اتنا غم نہ ہوتا۔ مارنے والے ظالموں نے ہمارے امام کو مسلمان نہیں سمجھا۔
کیا یہ کبھی ہوامسلمانوں کے سامنے کسی مسلمان کا جنازہ بے گور و کفن بولتی بنا ہو؟
ہم نے کئی بار دیکھا ہے کہ مسلمانوں کے شہر یا محلہ میں کوئی مسافر آیا۔ مرگیا۔ محلے والے یا گاوں والے اکھٹے ہوگئے۔ آپس میں کہتے ہیں کہ آج کاروبار نہ کریں گے جب تک اس غریب الوطن کو دفن نہ کرلیں گے۔
جب کبھی یہ بات یاد آتی ہے یا حسین دل بجھنے لگتا ہے۔ ایک اور مقام کا ذکر ہے کہ وہاں ایک مسافر آگیا۔ ایک دو مہینے وہاں رہا ایک نیک یا مقدس آدمی تھا تمام گاؤں والے گھروں کو چھوڑ کر آتے ہیں ایک بڑھیا بھی اس کا حال کو دیکھتی ہے اور کہتی ہے کہ اگر یہ مسافر گھر میں ہوتا تو اس کی بہو‘ بیٹی اور ماں اس پر ضرور روتیں آج اس کے اوپر رونے والا کوِئی نہیں چلو ہم ہی اس پر جا کر روئیں۔
مگر افسوس رہے افسوس یہاں زینب کو ہمیں شکایت کبھی نہ ہوتی کہ زینب کو چھوڑ دیا جاتا سکینہ کو اجازت مل جاتی۔ مسلمانو! یہ بچی یہ بہن آنکھوں کے سامنے دیکھ رہی ہیں کہ حسین قتل ہوگئے۔ انکا جنازہ کوئی اٹھانے والا نہیں ہے۔ اور نہ کوئی انہیں دفن کرنے والا ہے۔
حالانکہ رسالت مآب صلعم فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سے کوئی مرجائے تو بہت جلدی بغیر کسی دیر کے دفن کردیا جائے۔ اس لیے کہ جب تک جنازہ پڑا رہے گا۔ بیٹی الگ روئے گی۔ بہن الگ فریا دکرے گی۔ ماں الگ پریشان ہوگی اور کہے گی کہ آج کوئی بھی نہیں۔ جو ہماری اس میت کی طرف متوجہ ہو۔
رسالت مآب نے فریا کہ کوئی تم میں سے مر جائے اور رات آجائے تو مردے کے پاس چراغ جلا دینا کہ مردے کا اندھیرے میں رہنا اس کی توہین ہوگی۔ لیکن یہاں امام حسین اٹھ چکے ہیں۔ رات آگئی ہے یا رسول اللہ! مسلمان امت میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس نے چراغ جلایا ہو۔ ہاں یہ ضرور کیا کہ مخدرات عصمت پناہ جن خیموں میں پناہ گزیں ہیں ان خیموں میں آگ لگا دی گئی۔ کسی بی بی کا برقعہ جل رہا ہے کسی بچی کے کرتے میں آگ لگی ہے۔
مسلمانو! کافر بھی ہوتا تو اسے بھی کچھ رحم آتا۔ چھوٹے بچوں کو روتا دیکھ لے جن کا باپ سامنے مرا پڑا ہو۔ ان کے سر پر ضرور ہاتھ پھیرے گا۔ مگر یہاں سر پر ہتاھوں کا پھرنا تو کجا رہا۔ گردن کٹی ہوئی لاشیں سامنے پڑی ہیں۔ سکینہ بے اختیار باپ کی کٹی ہوئی گردن پر جا گرتی ہے اور کہہ رہی ہے کہ ”با با خیمے جل گئے۔ بابا کانوں سے گوشوارے اتر گئے۔ زینب ادھر سے گھومتی چلی ہے کہ ادھر شمر ملعون آن پہنچا۔ شمر پہلے پہنچ گیا۔ درہ اس ظالم کے ہاتھ میں ہے۔ بچی کے پاس جا کر ایسا ظلم کیا کہ بیٹی کو لاش چھوڑنی پڑی اور فریا کرتی ہوئی کہہ رہی ہے کہ ”بابا اس شمر پلید سے بچا لیجئے۔“
خداوندا حسین کے رونے والوں کا رونا منظور فرما۔
مجلس سوم :
بتاریخ ۳ محرم الحرام ۳۷۰ ھ
بسم الله الرحمٰن الرحیم
( افغیردین الله یبغون وله اسلم من فی السمٰوت والارض طوعا وکرهأوالیه یرجعون )
حضرات!آج اپنا بیان شروع کرنے سے قبل آپ کی خدمت میں التجا ہے اور وہ یہ کہ آپ تمام اصحاب اپنی اس مجلس میں ایک کمی محسوس کر رہے ہونگے۔کہ بانی مجلس جو اس سکون کے ساتھ جس طرح غلام یا نوکر ہوتا ہے۔سیدنا امام حسین کی نوکری کے لیے کھڑے رہا کرتے تھے۔اتفاق سے وہ بیمار ہو گئے ہیں۔صدق دل سے دعا فرما ویں پروردگارعالم ان کی طبیعت صحیح اور درست کر دے کوئی وجہ نہیں کہ آپ لوگوں کی دعا قبول ہو۔ انشاء اللہ خدا وندعالم صحیح سالم ان کو ہم میں لے آئے گا۔
اس آ یت کا ترجمہ آپ برابر سنتے رہے ہیں کہ پروردگار عالم ارشاد فرماتا ہے: لوگ خدا کے دین کے علاوہ کچھ اور چاہتے ہیں۔حالانکہ آسمان اور زمین کے باشندے اس کے سامنے اپنی گردنیں جھکائے ہوئے ہیں۔ خوشی کے ساتھ یا جبروقہر کے ساتھ اور اس کی طرف تمام کی باز گشت ہے۔
بہتر ہو گا کہ میں آپکو یاد دلا دوں کہ کل کیا کچھ آپ بزرگان کے سامنے ہیں عرض کر چکا ہوں کہ پروردگار عالم دین کا نافذ کرنے والاہے۔جس کو دین اللہ کہتے ہیں۔اس دین کا تعلق ایک طرف اصول سے ہے اور دوسری طرف فروع سے ہے۔چونکہ انسان کو مکلف کیا کہ اصول پہ اتقاد رکھے اور فروع پر عمل کرے۔ اس کے حکم دینے کا نام تکلیف اور جسے تکلیف دی گئی اسے مکلف کہتے ہیں اور عرض تکلیف یہ قرار دی کہ انسان کی تکمیل ہو جائے اس لئے انسان کی غرض خلقت ہی یہ ہے کہ وہ مکمل ہو جائے۔
اور تکمیل اس وقت تک ہو نہیں سکتی جب تک رب کی طرف سے ارشاد اور تعلیم نہ ہو بلکہ یہ تکمیل مکمل موقوف ہے ہدایت اور تکلیف پر اور ہادی یا مرشد ہر گز ایسا نہ ہو جو کہ ہم یعنی ہدایت پانے والے۔ہادی کو کامل اور مکمل ہونا ضروری ہے۔
چونکہ ہادی کامل ہوتا ہے۔ وہ خلیفہ خدا ہوتا ہے اور اسی لئے اس کی اطاعت خدا کی اطاعت اور اسکی نافرمانی خدا کی نا فرمانی اس یے اس کے احکام کا رد کرنا بعض اوقات کافر بنا دیتا ہے۔کم از کم گناہ گار ہونا تو لازمی ہوتا ہے اس کے احکام میں کسی طرح کی کمی یا زیادتی کرنے کا کسی کو حق نہیں۔
یہ فقرہ آج اور بڑھا رہا ہوں کہ اس کے احکام میں کمی یا زیادتی جو کرے گا وہ ایسا ہو گا گویا کہ اس نے قولاً نہ سہی تو عملاً خود دعویٰ نبوت کیا۔
جیسے آقا کہے کہ یہ دیوار پانچ گز اونچی بنا دو۔اگر اس کے غلام نے چھ گز بنا دی تو آقا خوش ہو گا؟ُاسکی مرضی کے خلاف ہو گا کہ نہیں؟تو یہ زیادتی بالکل بے ہودہ ہو گی علی ھذا القیاس اب اگر غلام نے چار گز دیوار بنا دی تب بھی حماقت اور نا فرمانی میں شامل ہو گا۔اطاعت صرف اسی میں ہے جتنی کا حکم دیا اتنی ہی بنائی جائے۔
اب سوال یہ سامنے آتا ہے کہ اطاعت کا مطلب کیا ہے جتنی عبادتیں فرض ہیں اتنی ہی فرض رکھی جائیں۔اگر ذمیادتی ہو گی تب بھی نا فرمانی اگر کمی کر دی جائے گی تب بھی نا فرمانی اس طرح جتنی چیزیں ہیں ۔قیامت تک کے لئے تمام مکلفین میں ایک مشترک حیثیت سے رکھتی ہیں یعنی رسالت مآب کے زما نے میں جس چیز کی جو حالت تھی اس کے اعتبار سے جو حکم دیا گیا تھا۔ قیامت تک جاری رہے گا اگر وہی حالت رہے گی تو اس کے متعلق وہی حکم باقی رہے گا جو زمانہ نبوت میں جاری تھا۔ جیسے کسی کو نبی نے کہا کہ تم کھڑے نہیں ہو سکتے بیٹھ کر نماز پڑھو وہ جس زمانے میں ہو گا بیٹھ کر نماز پڑھے گا ا س لیے کہ یہ فیصلہ ہوچکا اور اسیر اتفاق ہو چکا کہ
”حلال و محمد حلال الی یوم القیامه و حرام محمدحرام الی یوم القیامه
کہ جو کچھ حضور محمدالرسول اللہ نے حلال کر دیا وہ قیامت تک کہ لیے حلال ہے اور جسے آپ نے حرام کردیا وہ قیامت تک کے واسطے حرام ہے۔“
پس زانے کی حیئیات کو دیکھ کر نہ حلال سے حرام کی جاسکتی ہے اور نہ حرام ہی حلال کی جاسکتی ہے۔ اگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی کو حلال کیا تھا۔ آج بھی وہ حلال ہے۔ سو سال بعد بھی حلال رہے گی۔
اس طرح قیامت تک اور اگر کسی شئے کو حرام کردیا تھا۔ تو آج بھی حرام۔ سو سال کے بعد بھی۔
کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ یہ سمجھے یادعویٰ کرے کہ وہ اتنا علم رکھتا ہے۔ جتنا کہ جناب محمد مصطفیٰ صلعم کا علم تھا اور یہ حقیقت ہے کہ ان تمام حلال کردہ چیزوں کے علم کا عبور ہونے کا دعویٰ ایک عامی جاہل سے جاہل بھی نہیں کرسکتا یا جن چیزوں کو حرام کردیا۔ان تمام کو جان لینے کا دعویٰ کر دینا جاہل سے جاہل آدمی بھی نہیں کر سکتا کہ مجھ کو اتنا علم ہے جس قدر رسالت مآب صلعم کو تھا۔
ہمارے زمانے میں مثال کے طور پر قربانی کرنا عید قربان کے دن دس‘ گیارہ‘ بارہ تاریخ ماہ ذوالحجہ کے تیرہ سو سال سے سنت چلا آرہا ہے۔ جو صاحب حیثیت ہیں۔ ان کے لیے قربانی منت رسول ہے۔ علماء کا عمل بھی برابر چلا آرہا ہے۔ تمام اہل اسلام کا اسیر اتفاق ہے۔ اب ایسی صورت میں اگر کوئی شخص قربانی نہ کرے باوجود صاحب حیثیت ہونے کے یا کوئی شخص اس امر کو سنت سے الگ قرار دیدے تو کہا جائیگا۔ وہ ایسا دعویٰ کر رہا ہے گویا کہ معاذ اللہ اس کا علم جناب رسالت مآب صلعم کے برابر ہے۔
جیسے کے پچھلے دنوں اخبارات میں مضامین نکلے تھے کہ بے فائدہ اس قدر تعداد جانوروں کی ذبح ہوتی ہے اور گوشت ضائع کیا جاتا ہے اتنا روپیہ بچالیا جاتا مستحقین کو دیاجاتا یا قوم کا کسی کام آنا۔ تو معلوم ہوا کہ جو فعل سنت نبوی تھا۔ وہ آج سنت نہ رہی۔ مکروہ ہوگئی یا کم از کم سنت رسول کی مخالفت ہوگئی۔
ان چیزوں کی مخالفت کرنے والا ایک علمت کی وجہ سے مخالفت کرتا ہے جو اس کے مد نظر ہوتی ہے۔
ایک صاحب ہندوستان میں فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے لیے روزے واجب نہیں یہ تو صرف عرب والوں کے لیے واجب تھے اور وہ اس لیے کہ وہ عربی لوگ خرمے کھایا کرتے تھے جس سے کافی خون پیدا ہوتا تھا۔ نیز روغن زیتون بھی بہت استعمال کرتے تھے۔
جس کے سبب ان کے خون میں زیادتی ہو جاتی تھی اور اسی لیے ان کے واسطے روزوں کا حکم ہوا تاکہ ان کی حالت اعتدال پر آجائے۔ لہٰذا آج ہم کو کیا ضرورت ہے کہ روزہ رکھیں یہ تو صرف انہیں پر واجب تھا ہم پر بالکل واجب نہیں۔
لیکن اس قسم کی حماقت کی کوئی حد ہے؟ کہ جو علت ایسے لوگوں نے اپنی نظر کے سامنے رکھی کیا ضروری ہے کہ خدا کی نظر میں بھی وہی علت ہو۔
ایک اور صاحب اٹھتے ہیں او رکہتے ہیں کہ آج نماز کی کوئی ضرورت نہیں اس لیے کہ نماز کا مقصد پابند اوقات بنانا تھا۔ چونکہ انگریز اپنے زمانے حکومت میں یہ پابندی سکھا گیا اور پابندی وقت کی غرض حاصل ہوچکی لہذا نمام کی کیا ضرورت ہے؟
میرے بزرگو اور عزیزو! اس قسم کی تمام علتیں اپنی طرف سے قائم کرلینا خالص حماقت ہی حماقت ہے۔
پچھلے سال ایک اور مسئلہ پوتے کی میراث کا نکل پڑا تھا۔ ارباب حکومت نے بڑی مہربانی کی کہ اس فتنے کو دبا لیا ورنہ جاھلان شریعت نے طے کرالیا تھا کہ لوگوں کے اس معاملے میں ووٹ لے لئے جائیں کہ آیا پوتے کو میراث ملتی ہے یا نہیں؟
مقصد یہ کہ ہمارے لیے جس کو مکمل مقرر کیا اور مرشد بنایا گیا ہے اس کا علم ہم تمام کے مجموعے سے زائد ہونا چاہیے اور جو نقائص ہم تمام میں ہیں۔ وہ سب کے سب اس میں نہیں ہونے چاہیں اور اسی کا مطلب یہ ہے کہ ھادی کو معصوم ہونا چاہیے۔
پس دین اللہ کو بتانے کے لیے معصوم کی ضرورت ہے اور دین اللہ اس وقت تک نہیں آسکتا جبا تک کہ ہادی معصوم نہ ہو۔
میرے بزرگو آج چاہتا ہوں کہ کسی قدر تفصیل کے ساتھ عرض کردوں کہ جب ہم کو معلوم ہوچکا کہ انسان کو تکلیف دی گئی جس کے مختلف درجات ہیں۔ مختلف اعتبارات سے مثلاً علم کے اعتبار سے سب انسان یکساں نہیں۔ صفات معینہ کے اعتبار بھی سب یکساں نہیں بلکہ تمام کے تمام مختلف ہیں۔ تو جب مکلفین میں اس قدر اختلاف ہے۔ تو واضح ہوا کہ تکلیف میں اختلاف ہونا چاہیے۔
اسی سلسلے میں پروردگار عالم نے فرمایا ”لھم درجات عند اللہ“ کہ اسنانوں کے متعدد درجے ہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک۔ کوئی اونچا‘ کوئی اس سے اونچا اور کوئی اس سے بھی اونچا۔
اس طرح کلام الہی میں ارشاد ہوتا ہے:
( والذین امنوا و عملواالصالحات لا تکلف نفسا الا و سعها ) کہ وہ جو ایمان لائے اور اعمال صالح بجا لائے۔اس قدر ہم ہر نفس کو تکلیف دیتے ہیں جس قدر برداشت کرنے کی اس میں وسعت ہوتی ہے۔مثال کے طور پر ہر کسی کو ایک سیر اٹھانے کی طاقت ہے تو اس پر پانچ سیر کا وزن نہیں لادا گیا بلکہ جس قدر طاقت تھی اتنی تکلیف دی گئی اور عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اگر طاقت سے تکلیف دی جائے گی تو وہ ظلم ہو گا اور اگر طاقت سے کم تکلیف دی جائے گی تو بھی ظلم ہو گا اس لئے کہ تکمیل کی کمی رہ گئی اور تکمیل میں کمی رکھنا خدا کے لیے کسی طرح درست نہیں۔
پس جو جیسا ہے علم کے اعتبار سے ذہن و ذکا کے اعتبار سے وغیرہ وغیرہ اسے ویسی ہی تکلیف دی گئی۔اسی وجہ سے جاہلوں کی تکلیف وہ نہیں ہے جو علما کی تکلیف ہے اور علما کی تکلیف وہ نہیں جو انبیاء کی تکلیف ہے ہر ایک کی تکلیف الگ الگ ہے۔
پروردگار ارشاد فرماتا ہے:( انظر کیف فضلنا بعضهم علی بعض ورفعنا فوقهم الدرجات ) “کہ”حبیب دیکھ لیجیئے کس طرح ہم نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمادی اور ”ہم نے ان کے اوپر اور لوگوں کو درجات میں اونچا کیا۔
معوم ہوا کہ انسان خلقت کے اعتبار سے بھی الگ الگ ہیں۔
اعتراض ہو سکتا تھا کہ جب انسانوں کو مختلف حیئیات سے پیدا کیا گیا ہے تو تکلیف یکساں کیوں دی گئی کیونکہ کلام الہی ہر شے اعتراض سے پاک ہے ثابت ہوا کہ تکلیف میں بھی انسان الگ الگ ہیں جس قدر کسی کا ظرف رکھا گیااور وسعت دی گئی اس قدر اس کے لیئے تکلیف بھی مقرر کی گئی۔
اب آپ اجمالی حیثیت سے انسانوں کے درجات سن لیجیئے۔گھر میں دیکھ لیجیئے سکول یا کالج میں جا کر دیکھ لیجیئے۔ بعض طلبا وہ ملیں گے کہ جس قدر بھی محنت کریں گے پھر بھی فیل ہی رہیں گے۔بعض طلباء کو دیکھیں گے کہ وہ سال بھر کھیلتے رہے اور امتحان سے قبل کچھ دن محنت کی اور پاس ہو گئے۔البتہ میرا اشارہ ان طلبہ کی طرف نہیں جو سفارش سے پاس ہو جاتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم نے بعض کو دیکھا کہ ساری ساری رات جاگتے رہے اور محنت میں حد کر دی لیکن آخر کار فیل ہو گئے۔
پس ثابت ہوا کہ ذہن کے اعتبار سے انسانوں میں فرق ہے۔ آپ خود اس جلسے کو دیکھ لیجیئے ۔ آپ خود اس جلسے کو دیکھ لیجیئے ۔ آپ حضرات ہی میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو میرے مطلب کو زیادہ سمجھ گئے اور بعض وہ ہیں جو سمجھتے ہی نہیں اور بعض وہ ہیں کہ ان کو کچھ مسائل سمجھ آگئے ۔ مگر فضائل کی ان کو کچھ سمجھ نہ لگی اور بعض باہر نکل کر سنے ہوئے مسائل کو اس طرح بیان کرنے لگے ۔ گویا کہ وہ بالکل خلاف کہ رہے ہیں اس سب کچھ کے کہ جو جہاں کہا گیا۔
اس روشنی میں اب یہ واضح ہو گیا کہ رسول خدا کی روایتوں میں بھی اسی طرح اختلاف ہو گیا تھا کہ رسول خدا نے تو کچھ فرمایا اور سننے والوں نے مجلس سے باہر جا کے بالکل فرمان نبوی کے خلاف بیان کیا۔
سبحان اللّہ:کہ حضور کے پاس بیٹھنے والوں میں ایک وہ بھی تھے کہ انہوں نہ جو کچھ جان یا سیکھا اسے کامل طور پر اور پورے کمال کے ساتھ جانا اور سیکھا۔
جناب محمد مصطفے صلعم کی مجلس والوں میں وہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ہیں جو ارشاد فرماتے ہیں: ”علمنی رسول الله الف باب من العلم وافتح لی من کلّ باب “یعنی رسول اللہ صلعم نے مجھے علم الہی کے ھزار باب تعلیم فرمائے جن میں سے فضل الہی کے سب ایک ایک باب کے ساتھ ہزار ہزار باب کے علم اور مجھ پر کھل گئے۔“ٰ
کیفیت جناب امیر کی ذہانت کی کہ حضور نے ہزار علم کے سکھائے آپ پر ہر ایک باب سے ہزار ہزار باب مزید کھل گئے۔
اور ایک وہ تھے رسول خدا کی مجلس میں ہی بیٹھنے والے جو حضورسے لفظ ”کلالہ“ کا معنی پوچھتے ہیں آپ سمجھاتے ہیں۔ سات آٹھ دن کے بعد پھر وہ حضرت آبیٹھتے ہیں کہ یا رسول اللہ میں ”کلالہ“ کے معنی بھول گیا۔ آپ نے معنی بتاددیئے چند دن گذرے تھے وہ پھر آئے اور کہا یا رسول اللہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی بالآخر حضور نے فرمایا: ”تم جاؤ گے اور تب بھی تمہیں سمجھ نہ آئے گی“ تو یہ لوگ بھی تھے۔ جن کے ذہن یہ تھے۔
اس طرف کلام الہی میں ارشاد ہوتا ہے:
”و منھم من یستمع الیک۔۔۔ حتی اذا خرجوا من عندک قالوا الذین اوتوا العلم ماذا قال انفاہ“ط کہ آپ کے پاس بیٹھنے والوں میں سے بعض وہ ہیں جو آپ کے فرمانکو نہایت غور سے سنتے ہیں لیکن جب مسجد سے نکل کر باہر ہوتے ہیں تو علم والوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا فرمایا تھا رسول نے
پس آپ حضرات خو داندازہ فرمائیں کہ اب یہ بیچارہ جو رسول الل کی خدمت میں بیٹھا اور اس نے کچھ سن لیا تو وہ باہر جا کے جو روایت کرے گا۔ اس میں اصل کے مقابلے میں کس قدر اختلاف ہوگا۔ اسی وجہ سے روایات والوں نے ایک مستقلعلم اسمأ رجال قائم کردیا ملاحظہ فرمائیے اصول کافی میں۔ حضرت سیدنا امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
ہمارے دشمن بہت ہیں اور رہیں گے جہاں دلوں پر ظلمتیں ہوں گی وہاں ظلمت کا اقتضا ہوگا کہ وہ خود کے ساتھ دشمنی کرے۔ مگر مصیبت یہ بن گئی کہ جو لوگ درست تھے۔ انہوں نے غفلت کے سبب ہم پر ظلم کردیا۔ اگرچہ وہ گہنہ گار نہیں لیکن ہم پر ظلم ہوگیا۔
کسی نے عرض کیا: ”کیسے“؟
ارشاد فرمایا: ہمارے دشمنوں نے ہمارے خلاف روایتں گھڑیں اور کسی دوسرے مقام پر جاپہنچے اب لوگوں نے انکو مقدس صورت سمجھا جیسا انہوں نے بیان کیا۔ سادہ لوح لوگوں نے جو کچھ ان سے سنا اس پر یقین کرلیا۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ وہ ہمیشہ سے دشمنان اہل بیت رہے ہیں۔ اس طری روایات بنیں اور ان میں اختلاف بڑھتے گئے۔
میرے بزرگو! میں بیان کررہا تھا کہ ہمارے ہادی کو بہرحال کامل و مکمل ہونا چاہیے۔
الحمد اللہ اس سے مجھے ہر علم اور ہر فن کا ایک ایکسپرٹ یعنی قابل ہے۔ کامل کہنے کو تو ڈر لگتا ہے۔ کامل کہنا غلط ہوگا جو محال عقلی نہیں۔ تو مشکل تو ضرور ہے۔ بہرحال قابل اور ماہر آدمی تشریف فرمائیں۔
اور کوئی علم نہیں جس کے ذریعے مقائل شرعی میں کسی نہ کسی طرح روشنی نہ پڑجاتی ہو علم ریاضی۔ علم جبر و ادب وغیرہ کوئی علم بھی ہو۔ ان کی رو سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔ کہ مجھے جلسے بستی و ملک وغیرہ کے انتظام کو اس وقت تک قائم نہیں رکھا جاسکتا جب تک کہ ہکوئی ایک کامل شخصیت کے ہاتھ میں اس کا انتظام نہ ہو اور وہ کامل امیر و غریب و فقیر‘ چور شریف وغیرہ کے لیے ایسا کامل قانون مقرر کرے گا۔ جو سب پر بیک وقت ایک ہی جیسا نافذ ہو۔ اگر فقیر چوری کرے تو اس کے لیے بھی وہی سزا ہو۔ جو امیر چور کے لیے۔ اس طرح اس میں بھی فرق نہ ہو کہ یہ عربی ہے۔ اسے زیادہ حقوق ملنے چاہیں اور یہ غیر عربی ہے۔ اسے کم حقوق ملنے چاہیں۔
حضرات جو بات منہ سے نکلتی ہے اس میں سے ایک اور بات سامنے آجاتی ہے عرض کرتا ہوں سنیئے۔
جناب رسالت مآب صلعم مال غنیمت تقسیم کرتے تھے۔ تو آپ نے کبھی یہ نہ دیکھا کہ یہ امیر ہے۔ یہ غریب ہے۔ یہ مہاجر ہے یہ مکہ کا رہنے والا ہے یا اس کے علاوہ کسی گاؤں کا رہنے والا ہے۔ سب کو ایک ہی حیثیت سے آپ تقسیم کرتے تھے۔ لیکن حضور کے اٹھنے کے بعد یہی طریقہ جاری رہا لیکن پھر کچھ زمانے کے بعد یہ طریقہ بدل گیا۔عرب و عجم میں فرق ہونے لگا۔ مہاجر انصار میں فرق کیا جانے لگا اور یہ طریقہ عرصے تک چلتا رہا۔
میرے بزرگو میں ان چیزوں کو ہر گز نہیں کہنا چاہتا جو ثابت شدہ واقعات کے خلاف ہیں یا محض کسی کو خوش کرنے کے لیے کہی جائیں یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ وہ وقت آگیا تھا کہ مال خدا کو جو تقسیم کیاجاتا تھا۔ تو اس میں فرق ہونے لگ گیا۔ مہاجر کو انصار سے زیادہ ملنا چاہیے اور جو کبھی نبی کریم صلعم سے کوئی جنگ کرچکے تھے۔ انکو بعد میں آنے والوں سے زیادہ ملنا چاہیے۔
تا آنکہ امیر المومنین علی کا وقت آگیا عرض کیا گیا کیسے تقسیم کیا جائے؟ فرمایا بالکل مادی حیثیت سے چنانچہ تقسیم کرنے پر ہر ایک کے حصے میں تین تین درھم آئے۔ جو لوگ ہزار ہزار درھم ان کو ملا کرتے تھے۔ وہ کب خوش ہوسکتے تھے۔
عبد اللہ بن عباس جیسے جو لوگوں میں قرآن کے تفسیر ان مشہور ہوئے۔ ان کو آخر عرض کرنا پڑا کہ یا امیر اب لوگ عادی ہوچکے ہیں۔ عادی لوگوں کو زیادہ دین ورنہ فتنے اٹھیں گے۔ فرمایا: ”اگر میرا ذاتی مال ہوتا تو بھی کبھی تفریق نہ کرتا۔ یہ تو خدا کی مال ہے ا س میں کس طرح اور کیسے تفریق کی جاسکتی ہے۔
وقت آج جلدی ہی گذر گیا۔ میں پھر واپس اپنے مطلب پر آتا ہوں اور پیش کرتا ہوں کہ انسانوں کے درجات کمال کی حیثیت سے کتنے ہیں۔
۱ ۔ ایک انسان تو وہ ہوتا ہے جسے ”مجنوں یا دیوانہ“ کہتے ہیں۔ جو سمجھ ہی نہیں رکھتا آپ اسے کبھی نہیں فرمائیں گے کہ بھائی مکتب میں جایا کرو علم حاصل کرو۔ بڑے بن جاؤ وغیرہ وغیرہ۔
۲ ۔ دوسرا درجہ اس کا ہے جس کو قرآن مجید کے الفاظ میں ”سفیہ“ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ دیوانہ یا مجنون تو نہیں بلکہ بے وقوف ہے۔
۳ ۔ ”مستضعف“ جسے ضعیف العقل بھی کہہ سکتے ہیں اور وہ ”سفیہ“ سے ایک درجہ اونچا ہے۔
۴ ۔ عام متوسط لوگوں کا ہے۔ کہ وہ نہ تو اتنے کم درجہ ہوتے ہیں۔ کہ انکو سفیہ یا مستضعفین میں داخل کیا جائے اور نہ اتنے بلند ہوتے ہیں کہ ذھینوں میں ان کا شمار ہو۔
۵ ۔ ”ذھین“ جن کا ذھانت میں اس قدر بلند پایہ ہو۔ یا جو کہ اشیائے عجیبہ کی اختراع کرسکیں۔
۶ ۔ ایک درجہ ان فقھا ء اور علماء کا ہے جو معصوم تو نہیں ہوتے مگر عصمت سے ان کے حالات ملے جلے ہوتے ہیں۔
۷ ۔ ”انبیاء و مرسلین“ کا درجہ ہے جو معصوم ہوتے ہیں اور تمام صفات کمال سے موصوف ہوتے ہیں۔
ان تمام درجات انسانی کے احکام الگ الگ ہیں۔جیسے جیسے درجے ویسی ویسی جو تکلیف ایک درجہ میں ہو گی اس سے بلند درجہ میں تکلیف بھی بلند مرتبہ کی ہو گی۔ایک جاھل درجے کے اعتبار سے کم اسے تکلیف بھی کم اور بالمقابل عالم کا مرتبہ بھی بلند اور اسکے لئے تکلیف کے احکام بھی بڑے اور بلند۔
اس سے یہ نہ سمجھ لینا کے جاھل رہنا اچھا ہے اس لئے کہ اس میں تکلیف کم رہے گی۔
انسان کے لئے پہلا حکم ہی یہی ہے کہ وہ جہالت کو دور کرے اور علم سے اپنے آپ کو معمور کرے۔
البتہ اس میں شک نہیں کے کسی انسان کوشش کی اور پوری کوشش کے بعد بھی جاہل رہا تو وہ اس شخص سے اچھا یعنی بہتر جس نے علم حاصل کیا۔عالم کہلایا ۔لیکن بے عمل رہا۔
تائیدی حکم ہے کہ علم حاصل کرو۔جہالت سے ہمیشہ بچو۔
میرے بزرگو! میں عرض کر رہا تھا کے ہر ایک انسان کے لئے تکلیف کے احکام الگ الگ ہیں بلکہ اعتقاد کے اعتبار سے بھی انسان انسان الگ الگ ہوں گے۔کسی کا کم اعتقاد کسی کا زیادہ اعتقاد اس کا اس سے زیادہ اعتقاد پس بلند اعتقاد والے کے نزدیک وہ جو کمزور اور پست اعتماد والا ہے۔اس کی اعتقاد میں پستی۔جہالت ہو گی یا نہیں؟اور بلند اعتقاد والے کے نزدیک گمراہی ہو گی یا نہیں؟
ایک ذھین، عالم، صاحب معرفت انسان ہے اس کا اعتقاد جاہل کے اعتباد سے کتنا بلند ہو گا اور اس کے نزدیک جاہل کا اعتقاد یقیناً پست ہو گا اور ایک طرح سے جہالت اور گناہ ہوگا ۔یہی وہ حقیقت ہے جو مشہور مقولہ سے بھی واضح ہوتی ہے کہ”حسنٰت الا برار شیئات المقربین“ کہ”ابرار لوگوں کے نزدیک جو چیزیں نیکیاں ہوتی ہیں۔
سبحان اللہ! امام جعفر صادق کے خادم ہیں۔ ایک بار عرض کیا کہ حضور کچھ سیدھے سادھے لوگ آئے تھے یا ابن رسول اللہ!ھم تو ان سے بیزار ہیں۔
حضرت امام نے فرمایا: کیا وہ ہم سے محبت کرتے ہیں؟ خادم نے عرض کیا”ہاں“ارشاد فرمایا: ”پھر کیوں بیزار ہو تم؟“
عرض کیا”حضور ان کے اعتقاد کمزور ہیں“۔
ارشاد فرمایا: ”اگر یہی دلیل ہے بیزاری کی تو چاہیے کے ہم بھی تم سے بیزار ہو جائیں اس لئے کہ جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ تم نہیں جاتے اعتقاد کا بلند مرتبہ جو ہمارا ہے وہ تمہارا نہیں اور اسطرح چاھیے کے خدا تعالیٰ ہم سے بیزار ہو جائے اس لئے کہ جو کچھ وہ جانتا ہے وہ ہم نہیں جاتے۔ پس پست اعتقاد انسانوں سے بیزار نہ ہو جاؤ بلکہ انہیں سمجھانے کی کوشش کرو جس قدر ان کے پاس ہے وہ ان کے اعتبار سے ان کے لئے ٹھیک سمجھو ورنہ دنیا میں بیزاری ہی بیزاری ہو جائے گی۔
لہٰذا احکام شریعت میں اتنی ہی تکلیف ہے جتنی کہ برداشت ہو سکے اور یہی وجہ ہے پروردگار عالم نے فرمایا:
( لا یکلف الله نفساً الا وسعها )
کہ ”اللہ تعالیٰ کسی کو ہر گز اتنی تکلیف نہیں دیتے جو اس کی وسعت یا برداشت سے باہر ہو۔
ایک واقعہ یاد آ گیا کہ ایک بڑے نیک صاحب ایمان درویش مسلمان نے ایک یہودی کو مسلمان کر دیا۔آپ نے کہا میاں پہلے غسل کر لو۔پاک کپڑے بھی پہن لو تاکہ ھم کلمہ شہادت پڑھا دیں۔ اس نے ایسا ہی کیا پھر کہا کہ مکمل مسلمان تم تب ہو گے جب تک نماز نہیں پڑھو گے۔اس نے کہا بہتر ٹھیک سویرے سویرے اس کا دروازہ جا کھٹکھایا کہ چلیئے نماز ادا کریں ابھی صحیح کی آذان میں کچھ وقت باقی تھا کہا تھوڑی سی نفل نماز پڑھا لیں پھر دو فرض پڑھنے شروع کئے۔جو نماز پانچ منٹ کی دیر میں ختم ہو سکتی تھی۔انہوں نے پندرہ منٹ لگائے اور خوب ٹھر ٹھر کے پڑھی۔نماز بعد کہا کچھ کلام ہی پڑھ لیں جس پر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹا صرف ہو گیا۔ پھرکہا کچھ دعائیں بھی مانگ لیں اور دعائیں پڑھتے پڑھتے درس گیارہ بج گئے۔کیونکہ دیر ہو چکی تھی ساتھ ہی لے گئے کہا کھانا کھا لو۔جب کھا چکے تو ارشاد فرمایا اب زوال ہو گیا ہے چلو مسجد میں نماز ہی پڑھ آئیں۔آٹھ رکعت نوافل خود پڑھانے کے بعد نماز ظہر پھر دعائیں اس انداز سے پڑھیں کے عصر کی نماز کا وقت آ گیا۔نماز ختم کرنے کے بعد پھر دعائیں وظائف شروع کئے۔حتیٰ کے مغرب کی نماز بھی وہاں ہی اداکرنی پڑی اور دعا کا سلسلہ اتنا پڑھا کہ عشا کی نماز کا وقت آ گیا جس کے بعد پڑھتے پڑھاتے۔گیارہ بجے کے قریب وقت آ گیا۔اب آپ نے کہا کہ ذرا جائے گھر میں آرام کیجیئے۔
دوسری صبح آپ نے اس نو مسلم یہودی کا دوروازہ کھٹکھٹایا اس نے جواب دیا کے بھائی صاحب مذھب تمہارا تو بہت اچھا ہے لیکن یہ مذہب تمہارا بہت بڑی فراغت چاہتا ہے لہٰذا میں دین اسلام سے باز آیا ایسا دین تمہیں ہی مبارک ہو۔
پس اس نا سمجھ نے وسعت سے زیادہ تکلیف دی اور یہ انجام ہوا۔ اس لئے احکام اس طرح مسلط کر لئے جائیں تو خطرہ پیدا ہو جائے گا کہ کوئی اصل سے ہی نہ پھر جائے۔
پس ثابت ہوا کہ ہر ایک کی تکلیف الگ الگ ہے اس طرح ہر ایک کا ذہن بھی الگ الگ ہے۔ اسی طرح اعتقاد بھی الگ الگ ہے۔کس کا بلند درجہ اعتقاد ہے اور کسی کا پست درجہ۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: کہ ایمان کے اعتقاد کے اعتبار سے پچاس درجے ہں کوئی اس کے پہلے درجے میں اور کوئی دوسرے میں کوئی دسویں میں کوئی پندرھویں میں کوئی بیسویں میں۔اب جو دوسرے درجے والا ہے وہ پہلے اعلیٰ ہے پانچویں والا دوسرے سے بہتر ہے اور پندرھویں والا دسویں سے بہتر ہے۔لیکن پندرھویں والے کو ہر گز نہ چاہیے کے وہ پانچویں والے یا دسویں والے کو ذلیل یا حقیر سمجھے۔ اگر بلاشبہ اس کی نظر میں ان پست درجہ والوں کا اعتقاد جہالت ہوگا ۔
آپ درود شریف پڑھیں ۔ میں ایک اور مادی مثال پیش کرتا ہوں ۔
جیسے کوئی چار پانچ سو روپے ماہوار پاتا ہے اور ایک اور محض ہے جو ایک سو ماھوار لیتا ہے کیا پہلے کو چاہیے کہ دوسرے کو ذلیل سمجھے ؟ اگرچہ سو روپے ماھوار والا خود اپنی جگہ راضی ہوگا مگر اس کی جگہ اور مرتبے کو پانچ سو روپے ماہوار والد کبھی پسند نہ کرے گا ۔
میرے بزرگو! میں یہ عرض کررہا تھا کہ دین اللہ میں انسان کی عرض تکلیف تکمیل انسان ہے اور تکمیل انسان کے لئے تکلیف رکھی گئی اور تکلیف میں اسی طرح درجات ہیں جس طرح انسانوں میں درجے ہیں ۔ اعتقاد کے اعتبار سے تو اوپر کے درجے والے کے نزدیک نیچے کے درجے والے کا اعتقاد جہالت ہے۔
اسی لئے رسالت مآب نے ارشاد فرمایا :
”لو علم ابوذر ما فی قلب سلیمان الفارسی وکفرته اوقتله “ کہ اگر وہ اعتقاد ابوذر کو معلوم ہوجائے گا جو جناب سلیمان فارسی کو حاصل ہے۔ تو وہ اس کا انکار کردے اس پر کفر کا فتوٰی لگا دے یا اسے قتل کردے ۔ اس لئے کہ سلیمان فارسی کا اتنا بلند درجہ ہے کہ وہ ابوذر کے تصور میں بھی نہیں آسکتا “۔
یہ ابوذر سلیمان فارسی کے اعتبار سے اس قول کی رو سے کتنے کم درجہ ہیں کہ ان کو اگر معلوم ہوجائے کہ سلیمان کے عقیدے میں یہ باتیں شامل ہیں۔ تو وہ اس پر کفر کا فتوٰی دے دیں یا قتل ہی کر ڈالیں ۔
حالانکہ حضرت ابوذر کا اپنی جگہ وہ عظیم الشان درجہ ہے جناب رسالت مآب معلصم نے فرمایا ”ماقتلت …اصدق من ابی ذر “ کہ ” زمین کے اوپر آسمان کے سائے کے نیچے کوئی انسان بھی کہ جس پر آسمان نے اپنا سایہ ڈالا ہو اور وہ بولنے والا ہو اور وہ زیادہ سچا ہو حضرت ابوذر سے “
معلوم فرمایا آپ نے کون تھے یہ ابوذر تمام اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ ان کے متعلق حضورکا یہ فرمان ۔
حضرات مجھے یہ واقعہ یاد آیا کہ ایک شخص نے ابوذر کو بلایا ہم لوگ تمہیں اچھا نہیں سمجھتے ۔ تم حکومت وقت کے خلاف لوگوں کو ابھارتے رہتے ہو۔ میرے بزرگو! یہ واقعات ذرا تفصیل طلب ہیں۔ میں تفصیل میں نہیں جاتا۔ صرف دو لفظ میرے مطلب کے ہیں۔ وہ سنیے۔ حضرت ابوذر نے ارباب حکوت کو فرمایا: ”کہ جو مال آرہا ہے وہ خدا کا مال ہے؟ اور وہ فلاں کو کیا نہیں دے دیا گیا؟حکومت وقت نے مال خدا میں سے عطیات دیئے تھے۔درھم دیئے تھے۔دنیار دیئے تھے۔(درھم چاندی کا سکہ ہوتا ہے اور دینار سونے کا) اور وہ عطیات جو دیئے گئے تھے۔اسکی تعداد ۲۰ کروڑ درھم اور ۲۵ لاکھ دینار تھے۔(موجودہ وقت کے اعتبار سے آپ اندازہ لگائیں کہ اس وقت ایک پیسہ کی قیمت آج کے پانچ روپے کے برابر تھی)۔
جناب ابوذر کو یہ بات بری معلوم ہوئی تھی کہ مال خدا وندی میں سے اس قسم کے عطیات دیئے جائیں۔آپ بری بات معلوم فرمانے کے بعد چپ رہ ہی نہیں سکتے تھے۔جہاں خلاف شرع بات دیکھی۔وہاں ابوذر اٹھ کھڑے ہوئے۔
یہی ابوذر فرماتے ہیں عاص کے متعلق کہ میں نے رسول اللہ سے سنا ”کہ عاص جو ہے اسکی اولاد جب تیس آدمیوں تک پہنچ جائے گی تو اپنے دین اسلام کو تباہ کرنے لگے گی“۔ کہا گیا کس کے سامنے یہ الفاظ آپ نے سنے؟ آپ نے تمام نشت گان سے پوچھا کے ”کسی اور نے بھی یہ الفاظ آپ لوگوں میں سے سنے؟“ جب کوئی بھی نہ بولا۔تو ابوذر نے کہا کہ ”علی ابن ابی طالب کو بلایا جائے“۔آپ سے یہی بات پوچھی گئی جناب امیر نے فرمایا”اگرچہ میں نے الفاظ تو نہیں سنے مگر ابوذر جو کچھ کہ رہے ہیں۔وہ اپنے کہنے میں بالکل سچے ہیں۔ اس لیے کہ میں نے یہ الفاظ حضور سے ضرور سنے کہ آپ نے فرمایا کہ:
”زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے کوئی ایسا نہیں ہے۔ جو ابوذر سے زیادہ سچا ہو۔“
تو جب رسول خدا نے گواہی دے دی تو میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ابوذر نے جو کچھ حضور کا ارشاد سنایا ہے کہ اس کے بیان کرنے میں یہ کسی طرح غلط نہیں کہہ سکتے۔
پھر آپ نے حاضرین محفل کو مخاطب فرمایا۔کہ کیا ابوذر کے متعلق رسول اللہ کے یہ الفاظ تم نے نہیں سنے؟جب سنے ہیں۔ تو پھر اب کیسے کہہ سکتے ہو کے ابوذر جھوٹ بول رہے ہیں۔اگر تم ایسا کہو گے تو کیا تکذیب رسول نہ ہو جائے گی۔
پس حضرت ابوذر کا پایہ کتنا بلند ہے اور اس سے آپ یہ بھی اندازہ لگا لیں کہ جناب سلیمان فارسی کا پایہ کتنا بلند ہوگا اور جب سلیمان دروازہ اھل بیت کے ادنیٰ غلام تھے اور یہ پایہ رکھتے تھے تو اندازہ لگائیے کہ وہ درواذہ کتنا بزرگ ہو گا اور اسکا پایہ کتنا بلند ہو گا۔جہاں سلیمان جیسے بزرگ جبہ سائی کیا کرتے تھے۔
حضرات وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے یہ تفصیل میں کل عرض کروں گا انشاء اللہ کہ انسانوں کے مختلف درجے ہیں۔ اعتقاد کے لحاظ سے بھی درجے ہیں عمل کے لحاظ سے انسانوں کے الگ الگ درجے ہیں اور یہ بات واضح اور صاف ہے کہ بڑے درجے والے اپنے سے کم درجے والے کو ایک قسم گمراہی یا جہالت میں دیکھتا ہے اور اتنی بات ضرور سمجھ لو اور انبیاء کے ترک اولیٰ کو یاد رکھو۔
اھل بیت کی منزلت یہ ہے کہ سلمان فارسی جیسے انکی غلامی پر فخر کرتے ہیں اور اپنے آپ کو امیرالمومنین کے ادنیٰ غلام سمجھتے ہیں۔پس جب غلام کا یہ مقام ہو تو آقا کا مقام کہاں ہو گا۔
حکما کے ہاں طریقہ مقرر ہے۔کہ کسی شخص کو جاننے یا سمجھنے اور اس کے اندرونی حالات معلوم کرنے کے لئے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے دوستوں کو اور ہم نوالہ ہم پیالہ آدمیوں کو دیکھ لو۔
اگر تم ان کو کسی طرح نہ دیکھ سکو تو ان کودیکھ لو۔ ان کا پتہ لگ جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص کے دوست سب کے سب شرابی ہوں تو اگرچہ شرابی نہیں۔تو کم از کم اتنا تو ضرور معلوم ہو جائے گا کہ اس کے نزدیک شراب کوئی عجیب نہیں۔
عرض کرنا چاھتا ہوں کہ اھل بیت رسول اللہ کے دوست کون کون تھے اور کیسے کیسے تھے امید ہے مجھے کہ جن بزرگوں کے نام آپ کے سامنے لے رہا ہوں خوامخواہ بلاوجہ کئی یہ نہ کہ دے کہ”میں جھوٹ بول رہا ہوں۔یہ وہ بزرگ ہیں کہ انہیں جان لینے کے بعد ان لوگوں کی آنکھیں کھل جائیں گی۔جن کی نظر میں اھل بیت کی وقعت کم ہے۔ پس میں ان کے غلاموں میں سے ایک غلام اور ان کے مریدوں میں سے ایک مرید کو پیش کرتا ہوں جن کا نام۔”اویس قرنی“ ہے۔
میرے خیال میں کوئی مسلمان ایسا نہ ہوگا جو ان سے واقف نہ ہوگا۔لفظ”قرن“مناظر نجہ میں سے رہنے والوں کی ایک جگہ ہے اگر آپ حج کے لئے جائیں تو جس مقام پر احرام باندھا جاتا ہے اس جگہ ایک گاؤں ہے۔ اس کا نام ”قرن“ ہے اور اسی قرن کے نام سے حضرت اویس۔اویس قرنی مشہور ہو گئے۔
آپ کے کان میں جناب رسالت ماب کا تذکرہ ہو ۔لوگون سے حالات پوچھنے شروع کیے۔کیسے نبی ہیں؟ کہا گیا بڑے عجیب نبی ہیں۔نور الہی ہیں سایہ تک نہیں ہوتا۔ اتنی کثافت بھی نہیں رکھتےٍ۔کہ سایہ ہی نہ ہو۔اتنے پاک اور اپنی خوشبو کے مالک ہیں۔کہ صبح وقت جس کس کوچے سے نکل گئے شام کو گزرنے والے سمجھ جاتے کہ رسول اللہ گزرے ہیں ۔
اس قسم کے حالات سنتے ہی غائبانہ ایمان لے آئے اور اتنی ترقی ہوئی ایمان میں کہ تاریخ کی رو سے زھاد ثمانیہ یعنی آٹھ زاہدوں کے مرتبے کے اعتبار سے سردار مانے گئے ہیں۔
میرے بزرگو! آپ نے عام طور سے لوگوں سے سنا ہو گا کہ جنگ احد میں سرکار رسالت مآب کے جب دانت شہیدہوگئے تو بتلانے والے نے انہیں آکر بتلایا کہ حضور کا دانت کافروں نے شہید کردیا محبت محبوب کے جذبے نے ایسا جوش مارا کہ دانت نکالنے والے کو بلایا اور ایک دانت نکلوا دیا۔
بتانے والے نے یہ نہیں بتایا تھا کہ رسالت مآب کا کونسا دانت شہید ہوا ہے۔ آپ نے ایسے جذبے میں یہ خیال کیا۔ ممکن ہے جو دانت نکلوایا گیا اس کے ساتھ والا دانت حضور کاشہید ہوا ہوگا۔ پس اسے بھی نکلوا دیا حتی کہ اس طرح ایک ایک کرکے ۳۲ کے ۳۲ دانت باہر نکلوا ڈالے۔
محبت کے اس جذبے نے اتنی ترقی کی کہ ملاقات نبوی کا شوق پیدا ہوا آپ کی والدہ ماجدہ زندہ تھیں۔ ان کے نان نفطے کا انتظام شتر بانی کے لیے جو اجرت ملتی تھی ۔ اس سے کرتے تھے۔ایک دن اشتیاق بہت بڑھا ماں سے درخواست کی اجازت دو تاکہ آقا و مولیٰ کی زیارت کرآؤں۔ فرمایا چلے جاؤ مگر میرے پاس کون رہے گا؟ بالآخر اصرار کے بعد ماں نے اجازت دی کہ جائیے لیکن آدھے دن سے زیادہ نہ رہناآپ نے اقرار اور گرتے پڑتے پوچھتے پوچھتے مدینے جا پہنچے۔ اتفاق کی بات یہ ہے رسول خدا صلعم شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ چھ گھنٹے کامل انتظآر کے بعد واپس لوٹنا پڑا تاکہ ماں سے کئے گئے اقرار کے خلاف نہ ہو۔
شام کو جناب رسالت مآب تشریف لائے آتے ہی فرمایا یہ کس کانور ہے جو گھر میں محسوس کررہا ہوں۔ کون اس گھر میں آیا تھا؟
لوگوں نے عرض کیا ایک آدمی آیاتھا جس کا اویس نام تھا۔
فرمایا: اویس ہمارے گھر آیا اور اس کا نور سارے گھر میں پھیل گیا۔
حضرات! اویس قرنی وہ تھے جو ہر ایک فرقے کہ نزدیک مانے گئے ہیں۔ بلکہ کل فرقے ان باکمال ہونے پر اتفاق کرتے ہیں۔
رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان مربی حق پر ارشاد فرمایا: لوگو! تجھ پر ایک شخص کی بشارت دیتا ہوں جو کل میدان حشر میں شفاعت کرے گا پروردگار عالم اس کی شفارت سے اس قدر آدمیوں کی مغفرت فرمائے گا جس قدر قبیلہ مضر اور ربیع کے لوگ ہیں۔ یعنی لاکھوں کی شفاعت فرمائیں گے؟ اور وہ کون ہوں گے؟ جناب ”اویس قرنی“
آپ کی عبادت کی شان یہ تھی کہ جب رات آتی فرماتے یہ رات شب رکوع ہے۔ پھر نیت باندھتے جب رکوع پر جاتے تو ساری رات ایک ہی رکوع پر گذار دیتے۔ بہرحال دوسری رات آتی فرائض کی ادائیگی کے بعد فرماتے آج کی رات ”سجود کی رات“ ہے اور ساری رات سجدہ میں ہی گذار دیتے۔
جناب ”اویس“ ہی کے سلسلے میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ تفوح روائح الجنة من قبل الیمن و اشوقاہ الیک یا اویس قرن کہ جنت کی خوشبوئیں جن کی طرف سے آرہی ہیں اے اویس قرنی! مجھے کس قدر تیرا شوق ہے۔
بزرگو! آخر میں صرف اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ ذرا سی توجہ کے ساتھ آپ سماعت فرمائیں گے تو بعض کی آنکھیں کھل جائیں گی۔
جانتے ہیں آپ کہ ”اویس قرنی“ کی شھادت کب ہوئی؟ جنگ صفین میں۔ امیر المومنین عیلہ السلام کے ساتھ ان کی غلامی میں رہ کر دشمن امیر سے جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔
امیر المومنین ”جنگ صفین“ میں پہنچے۔ فرماتے ہیں ”کوفے“ سے ۱۰۰ آدمی آئیں گے جو آکر بیعت کریں گے۔ اس تعداد سے نہ کم آئیں گے نہ زیادہ۔ لوگوں نے دیکھا کہ سچ مچ ایک جماعت وقت مقررہ پر آرہی ہے۔ گنتی کی گئی تو ۹۹ آدمی پائے گئے۔ روای کہتا ہے کہ میری کیفیت بہت بری ہوگئی کہ جناب امیرقول مبارک میں ایک شخص کی کمی سے شک پیدا نہ ہو جائے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا خدا کی قسم! نہ میں نے جھوٹ بولا اور نہ جناب آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غلط فرمایا: یقینا ایک اور کو ضرور آنا چاہیے۔
یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ ایک شخص دور سے کمبل میں ملبوس نمودار ہوا بلکہ ٹاٹ کا کرتہ یا عباء پہنے ہوئے تھا وہ ترکش ساتھ تھا جس میں تیر تھے اور کمان ہاتھ میں تھی اور دو تلواریں بھی تھیں۔ سیدھا امیر المومنین کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا امیر! ہاتھ بڑھائیے کہ بیعت کروں۔
کہا گیا کہ یہ کوئی پہلی بیعت ہے؟ عرض کیا پہلی بیعت تو کبھی کی ہوچکی آج یہ بیعت کرنا چاہتا ہوں کہ یا تو مارا جاؤں گا اور شہادت پاؤں گا یا دشمن امیر کوفتح کرلوں گا۔
کیا فرماتے ہیں آپ اس جنگ میں امیر المومنین حق پر تھے یا وہ حق پر تھے جن سے آپ لڑ رہے تھے؟ ان دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہے۔
اگر ”اویس“ حق پر فرمان نبوی حق تھا ان کی شہادت حق تھی تو حضرت علی حق پر تھے اور دشمن باطل پر تھے علماء کو ان ہی کو حق میں ماننا پڑے گا کہ آپ حق پر تھے۔ اس لیے کہ ان ہی کے متعلق ارشاد نبوی سن چکے تھے کہ اویس قبیلہ مضر اور ربیعہ افراد جتنوں کی سفارش کریں گے۔ ان کو موت ایمان پر تھی۔ لہذا ثابت ہوگیا یا نہ کہ علی حق پر تھے؟ اور آپ سے لڑنے والا باطل تھا یا نہیں؟
ہمارے آئمہ طاہرین میں سے ایک امام کی روایت میں موجود ہے کہ میدان حشر میں منادی کی جائے گی۔
کہاں ہیں ہو جواری جنہو ں نے عہد کیا تھا میرے رسول سے اور پھر کبھی اس میں خلاف عہد نہ کیا تھا انہوں نے!
اعلان کے بعد ابوذر‘ سلمان‘ مقداد آئیں گے پھر سرکار فرماتے ہیں ”علی“ آئینگے۔ ان کے بعد اویس قرنی آئیں گے۔ پھر اور علی کے حواری باری باری آئیں گے۔
سبحان اللہ! جب ”اویس قرنی“ کا اتنا بلند مرتبہ ہے تو اقا کا مرتبہ کیا ہوگا؟
پھر اس کے بعد حسن مجبتیٰ کے حواری آئیں گے۔ پھر سید الشھداء امام حسین علیہ السلام کے حواری آئیں گے لکھا ہے کہ ۷۲ تن آئیں گے تمام کے تمام آئیں گے جو میدان کربلا میں شہید ہوئے تھے۔
حضرات! میں چاہتا ہوں کہ صرف دو باتیں آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ کہ حواریوں کے ذکر میں سے اویس قرنی کا ذکر آپ سن چکے ۔ جن لوگوں کی نظر میں آپ یہ تھے اور ان کا مرتبہ اس قدر تھا حالانکہ آپ غلام تھے پس سوچنا یہ ہے کہ غلام جب ایسا تھاتو جن کے غلام تھے وہ آقا کس مرتبہ کا ہوگا؟ کہ جس کے ہمرکاب ہو کر اویس شہادت قبول کی۔ پس محکوم کیسا تھا اور حاکم کیسا ہوگا۔
پھر یہ سوچنا ہے کہ میدان حشر میں جب پکارے جائیں گے تو امیر المومنین کے دوستوں میں شامل ہو کر آئیں گے اور یہ کہتے ہوئے آئیں گے کہ ”میں بھی ان کا غلام ہوں“ پھر شہید کربلا امام حسین کے حواری آئیں گے تو آپ کا قافلہ ایک عجیب قسم کا قافلہ ہوگا۔ کوئی ان میں ایک سوسال کا بڈھا ہوگا کوئی ان میں ۱۸ سال کانوجوان ہوگا اور کوئی ان میں سے ۶ ماہ کا بچہ ہوگا۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ ”میدان حشر میں جب لوگ اٹھائے جائیں گے تو حکم ہوگا کہ وہ لوگ اٹھائے جائیں اور اپنی فریاد پیش کریں جن پر دنیا میں ناحق ظلم ہوا تھا۔ تو بہرحال اویس بھی امیر المومنین کے دوستوں میں شامل ہو کر آئیں گے۔ ذرا تصور کریں آپ اس میدان کا جب سیدمظلوم کا مظلوم قافلہ حاضرہوگا اور اس دن ہر مظلوم اپنے ہر ظالم سے بدلہ لے جائے گا۔
سبحان اللہ! یہ قافلہ حشر کے دن کس شان سے چلے گاآگے آگے سید الشھداء امام حسین علیہ السلام ہوں گے اور غالباً داہنے طرف ہم شکل رسول علی اکبر ہوں گے اور بائیں طرف آپ کے کٹے بازؤں کے ساتھ جناب عباس پھر سفید داڑھیاں والے حبیب بن مظاہر وغیرہ ہوں گے۔ ذرا دیکھئے و سبھی قافلہ سالار کربلا کے ہمراہ تمام شھید آگئے؟ غور کریں کہ تمام شھید آگئے مگر ہاں ایک شہید نہیں معلوم وہ اتنا کم سن ہے کہ نہ پاؤں سے چل سکتا ہے۔ نہ سوار ہو کر آسکتا ہے اس کا نام اصغر بے شیر ہے۔ ایک مرتبہ قیامت میں زلزلہ آگیا کہ کربلا کا وہ سب سے ننھا شہید وہ آرہا ہے۔ دادی کے ہاتھوں میں وہ فاطمہ کا نور آرہا ہے۔ اس طرح کہ ایک ہاتھ گلے پر اور ایک ہاتھ خدا کے دربار میں ہے کہ پروردگارا میں بے گناہ مارا گیا۔ پروردگارا میرے باپ کے غزہ داروں کو بخش دے کہ ان کی آنکھیں روئی تھیں اس حسین کو روئیں تھیں جس سے زیادہ کوئی مظلوم نہ تھا اور اس سے زیادہ کسی اور پر رونے کا کسی او رکو حق ہی حاصل نہیں۔
ہائے کس کس کو یاد کریں اور کس کس پر کیوں نہ روئیں۔ انصاف کرنے والو علی اکبر کی جوانی یاد کرو۔ اس پر نہ روئیس علی اصغر کی بے زبانی یاد آئے۔ اس پر نہ روئیں دنیا والو اولاد والو! ہم نہ روئیں جب کہ رسول کی بیٹیاں ننگے سر آئیں پا برہنہ آئیں۔ تم ہی انصاف کرو۔ کہ ہم کیوں رو رہے ہیں؟ کیا اسی ظلم کی خاطر رسول اللہ اپنے کندھوں پر حسین کو چڑھاتے تھے۔کہ ان کے ماننے والے نیزے پر سر مار کر شہید کردیں۔ مسلمانو! انصاف کرنا کیا رسول اللہ امت والوں کی خدمت اس خاطر کرتے تھے کہ ان کے گھرانے تباہ کردیاجائے گا۔
بزرگو! آج محھے کچھ اور مسائل بیان کرنے تھے مگر عنان بیان اس طرف آگئی۔ مسلمانوں انصاف کرنا ذرا گھر جا کے سوچنا۔ایک شخص قوم کے لوگوں میں سب سے بڑا مہذب اس کی ساری عمر لوگوں سے اچھا سلوک کرتے ہوئے گذر گئی۔ اچانک اسے موت آگئی اس کی بیماری پر لوگ بیمار پرسی کرنے آئے۔ اگر وہ بھوکا تھا خود نہ کھایا اسے کھلایا۔ بالآخر اس کے مرنے پر سب لوگ آئے اس کا جنازہ اٹھایا جارہا ہے۔
لیکن امت کے والی کا یہ فرزند ہے بھوکا ہے۔ پیاسا ہے۔ عالم غربت میں ہے اور اس کا جنازہ تک اٹھانے والا کوئی نہیں ہے کاش کوئی سمجھ لیتا کہ فرزند رسول پانی مانگ رہا ہے اس ے پانی پلادیا جائے۔
میں کہتا ہوں اسے بھی جانے دیجئے دل پر نشت سا چھبھتا ہے۔ کہ لوگوں نے یہ نہ سمجھا کہ رسول کا نواساقتل کیا جارہا ہے۔ قتل کرنے والے کون ہیں؟ حسین کو یہودی قتل کرتے اتنا رنج نہ ہوتا۔ عیسائی قتل کرتے اتنا غم نہ ہوتا۔ او! یزید امام حسین نبی کا نواسا ہم سے شکایت کررہے ہیں کہ افسوس انہیں ان کے نانا کے کلمے پڑھنے والوں نے مارا ہے۔
افسوس حسین کو نواسہ رسول نہ سمجھتے تو ہم کو رنج نہ ہوتا۔ دل کے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔ حسین کو علی کا جگر گوشہ نہ سمجھتے تو اتنا غم نہ ہوتا۔ مارنے والے ظالموں نے ہمارے امام کو مسلمان نہیں سمجھا۔
کیا یہ کبھی ہوامسلمانوں کے سامنے کسی مسلمان کا جنازہ بے گور و کفن بولتی بنا ہو؟
ہم نے کئی بار دیکھا ہے کہ مسلمانوں کے شہر یا محلہ میں کوئی مسافر آیا۔ مرگیا۔ محلے والے یا گاوں والے اکھٹے ہوگئے۔ آپس میں کہتے ہیں کہ آج کاروبار نہ کریں گے جب تک اس غریب الوطن کو دفن نہ کرلیں گے۔
جب کبھی یہ بات یاد آتی ہے یا حسین دل بجھنے لگتا ہے۔ ایک اور مقام کا ذکر ہے کہ وہاں ایک مسافر آگیا۔ ایک دو مہینے وہاں رہا ایک نیک یا مقدس آدمی تھا تمام گاؤں والے گھروں کو چھوڑ کر آتے ہیں ایک بڑھیا بھی اس کا حال کو دیکھتی ہے اور کہتی ہے کہ اگر یہ مسافر گھر میں ہوتا تو اس کی بہو‘ بیٹی اور ماں اس پر ضرور روتیں آج اس کے اوپر رونے والا کوِئی نہیں چلو ہم ہی اس پر جا کر روئیں۔
مگر افسوس رہے افسوس یہاں زینب کو ہمیں شکایت کبھی نہ ہوتی کہ زینب کو چھوڑ دیا جاتا سکینہ کو اجازت مل جاتی۔ مسلمانو! یہ بچی یہ بہن آنکھوں کے سامنے دیکھ رہی ہیں کہ حسین قتل ہوگئے۔ انکا جنازہ کوئی اٹھانے والا نہیں ہے۔ اور نہ کوئی انہیں دفن کرنے والا ہے۔
حالانکہ رسالت مآب صلعم فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سے کوئی مرجائے تو بہت جلدی بغیر کسی دیر کے دفن کردیا جائے۔ اس لیے کہ جب تک جنازہ پڑا رہے گا۔ بیٹی الگ روئے گی۔ بہن الگ فریا دکرے گی۔ ماں الگ پریشان ہوگی اور کہے گی کہ آج کوئی بھی نہیں۔ جو ہماری اس میت کی طرف متوجہ ہو۔
رسالت مآب نے فریا کہ کوئی تم میں سے مر جائے اور رات آجائے تو مردے کے پاس چراغ جلا دینا کہ مردے کا اندھیرے میں رہنا اس کی توہین ہوگی۔ لیکن یہاں امام حسین اٹھ چکے ہیں۔ رات آگئی ہے یا رسول اللہ! مسلمان امت میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس نے چراغ جلایا ہو۔ ہاں یہ ضرور کیا کہ مخدرات عصمت پناہ جن خیموں میں پناہ گزیں ہیں ان خیموں میں آگ لگا دی گئی۔ کسی بی بی کا برقعہ جل رہا ہے کسی بچی کے کرتے میں آگ لگی ہے۔
مسلمانو! کافر بھی ہوتا تو اسے بھی کچھ رحم آتا۔ چھوٹے بچوں کو روتا دیکھ لے جن کا باپ سامنے مرا پڑا ہو۔ ان کے سر پر ضرور ہاتھ پھیرے گا۔ مگر یہاں سر پر ہتاھوں کا پھرنا تو کجا رہا۔ گردن کٹی ہوئی لاشیں سامنے پڑی ہیں۔ سکینہ بے اختیار باپ کی کٹی ہوئی گردن پر جا گرتی ہے اور کہہ رہی ہے کہ ”با با خیمے جل گئے۔ بابا کانوں سے گوشوارے اتر گئے۔ زینب ادھر سے گھومتی چلی ہے کہ ادھر شمر ملعون آن پہنچا۔ شمر پہلے پہنچ گیا۔ درہ اس ظالم کے ہاتھ میں ہے۔ بچی کے پاس جا کر ایسا ظلم کیا کہ بیٹی کو لاش چھوڑنی پڑی اور فریا کرتی ہوئی کہہ رہی ہے کہ ”بابا اس شمر پلید سے بچا لیجئے۔“
خداوندا حسین کے رونے والوں کا رونا منظور فرما۔
مجلس سوم :
بتاریخ ۳ محرم الحرام ۳۷۰ ھ
بسم الله الرحمٰن الرحیم
( افغیردین الله یبغون وله اسلم من فی السمٰوت والارض طوعا وکرهأوالیه یرجعون )
حضرات!آج اپنا بیان شروع کرنے سے قبل آپ کی خدمت میں التجا ہے اور وہ یہ کہ آپ تمام اصحاب اپنی اس مجلس میں ایک کمی محسوس کر رہے ہونگے۔کہ بانی مجلس جو اس سکون کے ساتھ جس طرح غلام یا نوکر ہوتا ہے۔سیدنا امام حسین کی نوکری کے لیے کھڑے رہا کرتے تھے۔اتفاق سے وہ بیمار ہو گئے ہیں۔صدق دل سے دعا فرما ویں پروردگارعالم ان کی طبیعت صحیح اور درست کر دے کوئی وجہ نہیں کہ آپ لوگوں کی دعا قبول ہو۔ انشاء اللہ خدا وندعالم صحیح سالم ان کو ہم میں لے آئے گا۔
اس آ یت کا ترجمہ آپ برابر سنتے رہے ہیں کہ پروردگار عالم ارشاد فرماتا ہے: لوگ خدا کے دین کے علاوہ کچھ اور چاہتے ہیں۔حالانکہ آسمان اور زمین کے باشندے اس کے سامنے اپنی گردنیں جھکائے ہوئے ہیں۔ خوشی کے ساتھ یا جبروقہر کے ساتھ اور اس کی طرف تمام کی باز گشت ہے۔
بہتر ہو گا کہ میں آپکو یاد دلا دوں کہ کل کیا کچھ آپ بزرگان کے سامنے ہیں عرض کر چکا ہوں کہ پروردگار عالم دین کا نافذ کرنے والاہے۔جس کو دین اللہ کہتے ہیں۔اس دین کا تعلق ایک طرف اصول سے ہے اور دوسری طرف فروع سے ہے۔چونکہ انسان کو مکلف کیا کہ اصول پہ اتقاد رکھے اور فروع پر عمل کرے۔ اس کے حکم دینے کا نام تکلیف اور جسے تکلیف دی گئی اسے مکلف کہتے ہیں اور عرض تکلیف یہ قرار دی کہ انسان کی تکمیل ہو جائے اس لئے انسان کی غرض خلقت ہی یہ ہے کہ وہ مکمل ہو جائے۔
اور تکمیل اس وقت تک ہو نہیں سکتی جب تک رب کی طرف سے ارشاد اور تعلیم نہ ہو بلکہ یہ تکمیل مکمل موقوف ہے ہدایت اور تکلیف پر اور ہادی یا مرشد ہر گز ایسا نہ ہو جو کہ ہم یعنی ہدایت پانے والے۔ہادی کو کامل اور مکمل ہونا ضروری ہے۔
چونکہ ہادی کامل ہوتا ہے۔ وہ خلیفہ خدا ہوتا ہے اور اسی لئے اس کی اطاعت خدا کی اطاعت اور اسکی نافرمانی خدا کی نا فرمانی اس یے اس کے احکام کا رد کرنا بعض اوقات کافر بنا دیتا ہے۔کم از کم گناہ گار ہونا تو لازمی ہوتا ہے اس کے احکام میں کسی طرح کی کمی یا زیادتی کرنے کا کسی کو حق نہیں۔
یہ فقرہ آج اور بڑھا رہا ہوں کہ اس کے احکام میں کمی یا زیادتی جو کرے گا وہ ایسا ہو گا گویا کہ اس نے قولاً نہ سہی تو عملاً خود دعویٰ نبوت کیا۔
جیسے آقا کہے کہ یہ دیوار پانچ گز اونچی بنا دو۔اگر اس کے غلام نے چھ گز بنا دی تو آقا خوش ہو گا؟ُاسکی مرضی کے خلاف ہو گا کہ نہیں؟تو یہ زیادتی بالکل بے ہودہ ہو گی علی ھذا القیاس اب اگر غلام نے چار گز دیوار بنا دی تب بھی حماقت اور نا فرمانی میں شامل ہو گا۔اطاعت صرف اسی میں ہے جتنی کا حکم دیا اتنی ہی بنائی جائے۔
اب سوال یہ سامنے آتا ہے کہ اطاعت کا مطلب کیا ہے جتنی عبادتیں فرض ہیں اتنی ہی فرض رکھی جائیں۔اگر ذمیادتی ہو گی تب بھی نا فرمانی اگر کمی کر دی جائے گی تب بھی نا فرمانی اس طرح جتنی چیزیں ہیں ۔قیامت تک کے لئے تمام مکلفین میں ایک مشترک حیثیت سے رکھتی ہیں یعنی رسالت مآب کے زما نے میں جس چیز کی جو حالت تھی اس کے اعتبار سے جو حکم دیا گیا تھا۔ قیامت تک جاری رہے گا اگر وہی حالت رہے گی تو اس کے متعلق وہی حکم باقی رہے گا جو زمانہ نبوت میں جاری تھا۔ جیسے کسی کو نبی نے کہا کہ تم کھڑے نہیں ہو سکتے بیٹھ کر نماز پڑھو وہ جس زمانے میں ہو گا بیٹھ کر نماز پڑھے گا ا س لیے کہ یہ فیصلہ ہوچکا اور اسیر اتفاق ہو چکا کہ
”حلال و محمد حلال الی یوم القیامه و حرام محمدحرام الی یوم القیامه
کہ جو کچھ حضور محمدالرسول اللہ نے حلال کر دیا وہ قیامت تک کہ لیے حلال ہے اور جسے آپ نے حرام کردیا وہ قیامت تک کے واسطے حرام ہے۔“
پس زانے کی حیئیات کو دیکھ کر نہ حلال سے حرام کی جاسکتی ہے اور نہ حرام ہی حلال کی جاسکتی ہے۔ اگر رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کسی کو حلال کیا تھا۔ آج بھی وہ حلال ہے۔ سو سال بعد بھی حلال رہے گی۔
اس طرح قیامت تک اور اگر کسی شئے کو حرام کردیا تھا۔ تو آج بھی حرام۔ سو سال کے بعد بھی۔
کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ یہ سمجھے یادعویٰ کرے کہ وہ اتنا علم رکھتا ہے۔ جتنا کہ جناب محمد مصطفیٰ صلعم کا علم تھا اور یہ حقیقت ہے کہ ان تمام حلال کردہ چیزوں کے علم کا عبور ہونے کا دعویٰ ایک عامی جاہل سے جاہل بھی نہیں کرسکتا یا جن چیزوں کو حرام کردیا۔ان تمام کو جان لینے کا دعویٰ کر دینا جاہل سے جاہل آدمی بھی نہیں کر سکتا کہ مجھ کو اتنا علم ہے جس قدر رسالت مآب صلعم کو تھا۔
ہمارے زمانے میں مثال کے طور پر قربانی کرنا عید قربان کے دن دس‘ گیارہ‘ بارہ تاریخ ماہ ذوالحجہ کے تیرہ سو سال سے سنت چلا آرہا ہے۔ جو صاحب حیثیت ہیں۔ ان کے لیے قربانی منت رسول ہے۔ علماء کا عمل بھی برابر چلا آرہا ہے۔ تمام اہل اسلام کا اسیر اتفاق ہے۔ اب ایسی صورت میں اگر کوئی شخص قربانی نہ کرے باوجود صاحب حیثیت ہونے کے یا کوئی شخص اس امر کو سنت سے الگ قرار دیدے تو کہا جائیگا۔ وہ ایسا دعویٰ کر رہا ہے گویا کہ معاذ اللہ اس کا علم جناب رسالت مآب صلعم کے برابر ہے۔
جیسے کے پچھلے دنوں اخبارات میں مضامین نکلے تھے کہ بے فائدہ اس قدر تعداد جانوروں کی ذبح ہوتی ہے اور گوشت ضائع کیا جاتا ہے اتنا روپیہ بچالیا جاتا مستحقین کو دیاجاتا یا قوم کا کسی کام آنا۔ تو معلوم ہوا کہ جو فعل سنت نبوی تھا۔ وہ آج سنت نہ رہی۔ مکروہ ہوگئی یا کم از کم سنت رسول کی مخالفت ہوگئی۔
ان چیزوں کی مخالفت کرنے والا ایک علمت کی وجہ سے مخالفت کرتا ہے جو اس کے مد نظر ہوتی ہے۔
ایک صاحب ہندوستان میں فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے لیے روزے واجب نہیں یہ تو صرف عرب والوں کے لیے واجب تھے اور وہ اس لیے کہ وہ عربی لوگ خرمے کھایا کرتے تھے جس سے کافی خون پیدا ہوتا تھا۔ نیز روغن زیتون بھی بہت استعمال کرتے تھے۔
جس کے سبب ان کے خون میں زیادتی ہو جاتی تھی اور اسی لیے ان کے واسطے روزوں کا حکم ہوا تاکہ ان کی حالت اعتدال پر آجائے۔ لہٰذا آج ہم کو کیا ضرورت ہے کہ روزہ رکھیں یہ تو صرف انہیں پر واجب تھا ہم پر بالکل واجب نہیں۔
لیکن اس قسم کی حماقت کی کوئی حد ہے؟ کہ جو علت ایسے لوگوں نے اپنی نظر کے سامنے رکھی کیا ضروری ہے کہ خدا کی نظر میں بھی وہی علت ہو۔
ایک اور صاحب اٹھتے ہیں او رکہتے ہیں کہ آج نماز کی کوئی ضرورت نہیں اس لیے کہ نماز کا مقصد پابند اوقات بنانا تھا۔ چونکہ انگریز اپنے زمانے حکومت میں یہ پابندی سکھا گیا اور پابندی وقت کی غرض حاصل ہوچکی لہذا نمام کی کیا ضرورت ہے؟
میرے بزرگو اور عزیزو! اس قسم کی تمام علتیں اپنی طرف سے قائم کرلینا خالص حماقت ہی حماقت ہے۔
پچھلے سال ایک اور مسئلہ پوتے کی میراث کا نکل پڑا تھا۔ ارباب حکومت نے بڑی مہربانی کی کہ اس فتنے کو دبا لیا ورنہ جاھلان شریعت نے طے کرالیا تھا کہ لوگوں کے اس معاملے میں ووٹ لے لئے جائیں کہ آیا پوتے کو میراث ملتی ہے یا نہیں؟
مقصد یہ کہ ہمارے لیے جس کو مکمل مقرر کیا اور مرشد بنایا گیا ہے اس کا علم ہم تمام کے مجموعے سے زائد ہونا چاہیے اور جو نقائص ہم تمام میں ہیں۔ وہ سب کے سب اس میں نہیں ہونے چاہیں اور اسی کا مطلب یہ ہے کہ ھادی کو معصوم ہونا چاہیے۔
پس دین اللہ کو بتانے کے لیے معصوم کی ضرورت ہے اور دین اللہ اس وقت تک نہیں آسکتا جبا تک کہ ہادی معصوم نہ ہو۔
میرے بزرگو آج چاہتا ہوں کہ کسی قدر تفصیل کے ساتھ عرض کردوں کہ جب ہم کو معلوم ہوچکا کہ انسان کو تکلیف دی گئی جس کے مختلف درجات ہیں۔ مختلف اعتبارات سے مثلاً علم کے اعتبار سے سب انسان یکساں نہیں۔ صفات معینہ کے اعتبار بھی سب یکساں نہیں بلکہ تمام کے تمام مختلف ہیں۔ تو جب مکلفین میں اس قدر اختلاف ہے۔ تو واضح ہوا کہ تکلیف میں اختلاف ہونا چاہیے۔
اسی سلسلے میں پروردگار عالم نے فرمایا ”لھم درجات عند اللہ“ کہ اسنانوں کے متعدد درجے ہیں اللہ تعالیٰ کے نزدیک۔ کوئی اونچا‘ کوئی اس سے اونچا اور کوئی اس سے بھی اونچا۔
اس طرح کلام الہی میں ارشاد ہوتا ہے:
( والذین امنوا و عملواالصالحات لا تکلف نفسا الا و سعها ) کہ وہ جو ایمان لائے اور اعمال صالح بجا لائے۔اس قدر ہم ہر نفس کو تکلیف دیتے ہیں جس قدر برداشت کرنے کی اس میں وسعت ہوتی ہے۔مثال کے طور پر ہر کسی کو ایک سیر اٹھانے کی طاقت ہے تو اس پر پانچ سیر کا وزن نہیں لادا گیا بلکہ جس قدر طاقت تھی اتنی تکلیف دی گئی اور عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اگر طاقت سے تکلیف دی جائے گی تو وہ ظلم ہو گا اور اگر طاقت سے کم تکلیف دی جائے گی تو بھی ظلم ہو گا اس لئے کہ تکمیل کی کمی رہ گئی اور تکمیل میں کمی رکھنا خدا کے لیے کسی طرح درست نہیں۔
پس جو جیسا ہے علم کے اعتبار سے ذہن و ذکا کے اعتبار سے وغیرہ وغیرہ اسے ویسی ہی تکلیف دی گئی۔اسی وجہ سے جاہلوں کی تکلیف وہ نہیں ہے جو علما کی تکلیف ہے اور علما کی تکلیف وہ نہیں جو انبیاء کی تکلیف ہے ہر ایک کی تکلیف الگ الگ ہے۔
پروردگار ارشاد فرماتا ہے:( انظر کیف فضلنا بعضهم علی بعض ورفعنا فوقهم الدرجات ) “کہ”حبیب دیکھ لیجیئے کس طرح ہم نے ان کے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمادی اور ”ہم نے ان کے اوپر اور لوگوں کو درجات میں اونچا کیا۔
معوم ہوا کہ انسان خلقت کے اعتبار سے بھی الگ الگ ہیں۔
اعتراض ہو سکتا تھا کہ جب انسانوں کو مختلف حیئیات سے پیدا کیا گیا ہے تو تکلیف یکساں کیوں دی گئی کیونکہ کلام الہی ہر شے اعتراض سے پاک ہے ثابت ہوا کہ تکلیف میں بھی انسان الگ الگ ہیں جس قدر کسی کا ظرف رکھا گیااور وسعت دی گئی اس قدر اس کے لیئے تکلیف بھی مقرر کی گئی۔
اب آپ اجمالی حیثیت سے انسانوں کے درجات سن لیجیئے۔گھر میں دیکھ لیجیئے سکول یا کالج میں جا کر دیکھ لیجیئے۔ بعض طلبا وہ ملیں گے کہ جس قدر بھی محنت کریں گے پھر بھی فیل ہی رہیں گے۔بعض طلباء کو دیکھیں گے کہ وہ سال بھر کھیلتے رہے اور امتحان سے قبل کچھ دن محنت کی اور پاس ہو گئے۔البتہ میرا اشارہ ان طلبہ کی طرف نہیں جو سفارش سے پاس ہو جاتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم نے بعض کو دیکھا کہ ساری ساری رات جاگتے رہے اور محنت میں حد کر دی لیکن آخر کار فیل ہو گئے۔
پس ثابت ہوا کہ ذہن کے اعتبار سے انسانوں میں فرق ہے۔ آپ خود اس جلسے کو دیکھ لیجیئے ۔ آپ خود اس جلسے کو دیکھ لیجیئے ۔ آپ حضرات ہی میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو میرے مطلب کو زیادہ سمجھ گئے اور بعض وہ ہیں جو سمجھتے ہی نہیں اور بعض وہ ہیں کہ ان کو کچھ مسائل سمجھ آگئے ۔ مگر فضائل کی ان کو کچھ سمجھ نہ لگی اور بعض باہر نکل کر سنے ہوئے مسائل کو اس طرح بیان کرنے لگے ۔ گویا کہ وہ بالکل خلاف کہ رہے ہیں اس سب کچھ کے کہ جو جہاں کہا گیا۔
اس روشنی میں اب یہ واضح ہو گیا کہ رسول خدا کی روایتوں میں بھی اسی طرح اختلاف ہو گیا تھا کہ رسول خدا نے تو کچھ فرمایا اور سننے والوں نے مجلس سے باہر جا کے بالکل فرمان نبوی کے خلاف بیان کیا۔
سبحان اللّہ:کہ حضور کے پاس بیٹھنے والوں میں ایک وہ بھی تھے کہ انہوں نہ جو کچھ جان یا سیکھا اسے کامل طور پر اور پورے کمال کے ساتھ جانا اور سیکھا۔
جناب محمد مصطفے صلعم کی مجلس والوں میں وہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ہیں جو ارشاد فرماتے ہیں: ”علمنی رسول الله الف باب من العلم وافتح لی من کلّ باب “یعنی رسول اللہ صلعم نے مجھے علم الہی کے ھزار باب تعلیم فرمائے جن میں سے فضل الہی کے سب ایک ایک باب کے ساتھ ہزار ہزار باب کے علم اور مجھ پر کھل گئے۔“ٰ
کیفیت جناب امیر کی ذہانت کی کہ حضور نے ہزار علم کے سکھائے آپ پر ہر ایک باب سے ہزار ہزار باب مزید کھل گئے۔
اور ایک وہ تھے رسول خدا کی مجلس میں ہی بیٹھنے والے جو حضورسے لفظ ”کلالہ“ کا معنی پوچھتے ہیں آپ سمجھاتے ہیں۔ سات آٹھ دن کے بعد پھر وہ حضرت آبیٹھتے ہیں کہ یا رسول اللہ میں ”کلالہ“ کے معنی بھول گیا۔ آپ نے معنی بتاددیئے چند دن گذرے تھے وہ پھر آئے اور کہا یا رسول اللہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی بالآخر حضور نے فرمایا: ”تم جاؤ گے اور تب بھی تمہیں سمجھ نہ آئے گی“ تو یہ لوگ بھی تھے۔ جن کے ذہن یہ تھے۔
اس طرف کلام الہی میں ارشاد ہوتا ہے:
”و منھم من یستمع الیک۔۔۔ حتی اذا خرجوا من عندک قالوا الذین اوتوا العلم ماذا قال انفاہ“ط کہ آپ کے پاس بیٹھنے والوں میں سے بعض وہ ہیں جو آپ کے فرمانکو نہایت غور سے سنتے ہیں لیکن جب مسجد سے نکل کر باہر ہوتے ہیں تو علم والوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا فرمایا تھا رسول نے
پس آپ حضرات خو داندازہ فرمائیں کہ اب یہ بیچارہ جو رسول الل کی خدمت میں بیٹھا اور اس نے کچھ سن لیا تو وہ باہر جا کے جو روایت کرے گا۔ اس میں اصل کے مقابلے میں کس قدر اختلاف ہوگا۔ اسی وجہ سے روایات والوں نے ایک مستقلعلم اسمأ رجال قائم کردیا ملاحظہ فرمائیے اصول کافی میں۔ حضرت سیدنا امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
ہمارے دشمن بہت ہیں اور رہیں گے جہاں دلوں پر ظلمتیں ہوں گی وہاں ظلمت کا اقتضا ہوگا کہ وہ خود کے ساتھ دشمنی کرے۔ مگر مصیبت یہ بن گئی کہ جو لوگ درست تھے۔ انہوں نے غفلت کے سبب ہم پر ظلم کردیا۔ اگرچہ وہ گہنہ گار نہیں لیکن ہم پر ظلم ہوگیا۔
کسی نے عرض کیا: ”کیسے“؟
ارشاد فرمایا: ہمارے دشمنوں نے ہمارے خلاف روایتں گھڑیں اور کسی دوسرے مقام پر جاپہنچے اب لوگوں نے انکو مقدس صورت سمجھا جیسا انہوں نے بیان کیا۔ سادہ لوح لوگوں نے جو کچھ ان سے سنا اس پر یقین کرلیا۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ وہ ہمیشہ سے دشمنان اہل بیت رہے ہیں۔ اس طری روایات بنیں اور ان میں اختلاف بڑھتے گئے۔
میرے بزرگو! میں بیان کررہا تھا کہ ہمارے ہادی کو بہرحال کامل و مکمل ہونا چاہیے۔
الحمد اللہ اس سے مجھے ہر علم اور ہر فن کا ایک ایکسپرٹ یعنی قابل ہے۔ کامل کہنے کو تو ڈر لگتا ہے۔ کامل کہنا غلط ہوگا جو محال عقلی نہیں۔ تو مشکل تو ضرور ہے۔ بہرحال قابل اور ماہر آدمی تشریف فرمائیں۔
اور کوئی علم نہیں جس کے ذریعے مقائل شرعی میں کسی نہ کسی طرح روشنی نہ پڑجاتی ہو علم ریاضی۔ علم جبر و ادب وغیرہ کوئی علم بھی ہو۔ ان کی رو سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔ کہ مجھے جلسے بستی و ملک وغیرہ کے انتظام کو اس وقت تک قائم نہیں رکھا جاسکتا جب تک کہ ہکوئی ایک کامل شخصیت کے ہاتھ میں اس کا انتظام نہ ہو اور وہ کامل امیر و غریب و فقیر‘ چور شریف وغیرہ کے لیے ایسا کامل قانون مقرر کرے گا۔ جو سب پر بیک وقت ایک ہی جیسا نافذ ہو۔ اگر فقیر چوری کرے تو اس کے لیے بھی وہی سزا ہو۔ جو امیر چور کے لیے۔ اس طرح اس میں بھی فرق نہ ہو کہ یہ عربی ہے۔ اسے زیادہ حقوق ملنے چاہیں اور یہ غیر عربی ہے۔ اسے کم حقوق ملنے چاہیں۔
حضرات جو بات منہ سے نکلتی ہے اس میں سے ایک اور بات سامنے آجاتی ہے عرض کرتا ہوں سنیئے۔
جناب رسالت مآب صلعم مال غنیمت تقسیم کرتے تھے۔ تو آپ نے کبھی یہ نہ دیکھا کہ یہ امیر ہے۔ یہ غریب ہے۔ یہ مہاجر ہے یہ مکہ کا رہنے والا ہے یا اس کے علاوہ کسی گاؤں کا رہنے والا ہے۔ سب کو ایک ہی حیثیت سے آپ تقسیم کرتے تھے۔ لیکن حضور کے اٹھنے کے بعد یہی طریقہ جاری رہا لیکن پھر کچھ زمانے کے بعد یہ طریقہ بدل گیا۔عرب و عجم میں فرق ہونے لگا۔ مہاجر انصار میں فرق کیا جانے لگا اور یہ طریقہ عرصے تک چلتا رہا۔
میرے بزرگو میں ان چیزوں کو ہر گز نہیں کہنا چاہتا جو ثابت شدہ واقعات کے خلاف ہیں یا محض کسی کو خوش کرنے کے لیے کہی جائیں یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ وہ وقت آگیا تھا کہ مال خدا کو جو تقسیم کیاجاتا تھا۔ تو اس میں فرق ہونے لگ گیا۔ مہاجر کو انصار سے زیادہ ملنا چاہیے اور جو کبھی نبی کریم صلعم سے کوئی جنگ کرچکے تھے۔ انکو بعد میں آنے والوں سے زیادہ ملنا چاہیے۔
تا آنکہ امیر المومنین علی کا وقت آگیا عرض کیا گیا کیسے تقسیم کیا جائے؟ فرمایا بالکل مادی حیثیت سے چنانچہ تقسیم کرنے پر ہر ایک کے حصے میں تین تین درھم آئے۔ جو لوگ ہزار ہزار درھم ان کو ملا کرتے تھے۔ وہ کب خوش ہوسکتے تھے۔
عبد اللہ بن عباس جیسے جو لوگوں میں قرآن کے تفسیر ان مشہور ہوئے۔ ان کو آخر عرض کرنا پڑا کہ یا امیر اب لوگ عادی ہوچکے ہیں۔ عادی لوگوں کو زیادہ دین ورنہ فتنے اٹھیں گے۔ فرمایا: ”اگر میرا ذاتی مال ہوتا تو بھی کبھی تفریق نہ کرتا۔ یہ تو خدا کی مال ہے ا س میں کس طرح اور کیسے تفریق کی جاسکتی ہے۔
وقت آج جلدی ہی گذر گیا۔ میں پھر واپس اپنے مطلب پر آتا ہوں اور پیش کرتا ہوں کہ انسانوں کے درجات کمال کی حیثیت سے کتنے ہیں۔
۱ ۔ ایک انسان تو وہ ہوتا ہے جسے ”مجنوں یا دیوانہ“ کہتے ہیں۔ جو سمجھ ہی نہیں رکھتا آپ اسے کبھی نہیں فرمائیں گے کہ بھائی مکتب میں جایا کرو علم حاصل کرو۔ بڑے بن جاؤ وغیرہ وغیرہ۔
۲ ۔ دوسرا درجہ اس کا ہے جس کو قرآن مجید کے الفاظ میں ”سفیہ“ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ دیوانہ یا مجنون تو نہیں بلکہ بے وقوف ہے۔
۳ ۔ ”مستضعف“ جسے ضعیف العقل بھی کہہ سکتے ہیں اور وہ ”سفیہ“ سے ایک درجہ اونچا ہے۔
۴ ۔ عام متوسط لوگوں کا ہے۔ کہ وہ نہ تو اتنے کم درجہ ہوتے ہیں۔ کہ انکو سفیہ یا مستضعفین میں داخل کیا جائے اور نہ اتنے بلند ہوتے ہیں کہ ذھینوں میں ان کا شمار ہو۔
۵ ۔ ”ذھین“ جن کا ذھانت میں اس قدر بلند پایہ ہو۔ یا جو کہ اشیائے عجیبہ کی اختراع کرسکیں۔
۶ ۔ ایک درجہ ان فقھا ء اور علماء کا ہے جو معصوم تو نہیں ہوتے مگر عصمت سے ان کے حالات ملے جلے ہوتے ہیں۔
۷ ۔ ”انبیاء و مرسلین“ کا درجہ ہے جو معصوم ہوتے ہیں اور تمام صفات کمال سے موصوف ہوتے ہیں۔
ان تمام درجات انسانی کے احکام الگ الگ ہیں۔جیسے جیسے درجے ویسی ویسی جو تکلیف ایک درجہ میں ہو گی اس سے بلند درجہ میں تکلیف بھی بلند مرتبہ کی ہو گی۔ایک جاھل درجے کے اعتبار سے کم اسے تکلیف بھی کم اور بالمقابل عالم کا مرتبہ بھی بلند اور اسکے لئے تکلیف کے احکام بھی بڑے اور بلند۔
اس سے یہ نہ سمجھ لینا کے جاھل رہنا اچھا ہے اس لئے کہ اس میں تکلیف کم رہے گی۔
انسان کے لئے پہلا حکم ہی یہی ہے کہ وہ جہالت کو دور کرے اور علم سے اپنے آپ کو معمور کرے۔
البتہ اس میں شک نہیں کے کسی انسان کوشش کی اور پوری کوشش کے بعد بھی جاہل رہا تو وہ اس شخص سے اچھا یعنی بہتر جس نے علم حاصل کیا۔عالم کہلایا ۔لیکن بے عمل رہا۔
تائیدی حکم ہے کہ علم حاصل کرو۔جہالت سے ہمیشہ بچو۔
میرے بزرگو! میں عرض کر رہا تھا کے ہر ایک انسان کے لئے تکلیف کے احکام الگ الگ ہیں بلکہ اعتقاد کے اعتبار سے بھی انسان انسان الگ الگ ہوں گے۔کسی کا کم اعتقاد کسی کا زیادہ اعتقاد اس کا اس سے زیادہ اعتقاد پس بلند اعتقاد والے کے نزدیک وہ جو کمزور اور پست اعتماد والا ہے۔اس کی اعتقاد میں پستی۔جہالت ہو گی یا نہیں؟اور بلند اعتقاد والے کے نزدیک گمراہی ہو گی یا نہیں؟
ایک ذھین، عالم، صاحب معرفت انسان ہے اس کا اعتقاد جاہل کے اعتباد سے کتنا بلند ہو گا اور اس کے نزدیک جاہل کا اعتقاد یقیناً پست ہو گا اور ایک طرح سے جہالت اور گناہ ہوگا ۔یہی وہ حقیقت ہے جو مشہور مقولہ سے بھی واضح ہوتی ہے کہ”حسنٰت الا برار شیئات المقربین“ کہ”ابرار لوگوں کے نزدیک جو چیزیں نیکیاں ہوتی ہیں۔
سبحان اللہ! امام جعفر صادق کے خادم ہیں۔ ایک بار عرض کیا کہ حضور کچھ سیدھے سادھے لوگ آئے تھے یا ابن رسول اللہ!ھم تو ان سے بیزار ہیں۔
حضرت امام نے فرمایا: کیا وہ ہم سے محبت کرتے ہیں؟ خادم نے عرض کیا”ہاں“ارشاد فرمایا: ”پھر کیوں بیزار ہو تم؟“
عرض کیا”حضور ان کے اعتقاد کمزور ہیں“۔
ارشاد فرمایا: ”اگر یہی دلیل ہے بیزاری کی تو چاہیے کے ہم بھی تم سے بیزار ہو جائیں اس لئے کہ جو کچھ ہم جانتے ہیں وہ تم نہیں جاتے اعتقاد کا بلند مرتبہ جو ہمارا ہے وہ تمہارا نہیں اور اسطرح چاھیے کے خدا تعالیٰ ہم سے بیزار ہو جائے اس لئے کہ جو کچھ وہ جانتا ہے وہ ہم نہیں جاتے۔ پس پست اعتقاد انسانوں سے بیزار نہ ہو جاؤ بلکہ انہیں سمجھانے کی کوشش کرو جس قدر ان کے پاس ہے وہ ان کے اعتبار سے ان کے لئے ٹھیک سمجھو ورنہ دنیا میں بیزاری ہی بیزاری ہو جائے گی۔
لہٰذا احکام شریعت میں اتنی ہی تکلیف ہے جتنی کہ برداشت ہو سکے اور یہی وجہ ہے پروردگار عالم نے فرمایا:
( لا یکلف الله نفساً الا وسعها )
کہ ”اللہ تعالیٰ کسی کو ہر گز اتنی تکلیف نہیں دیتے جو اس کی وسعت یا برداشت سے باہر ہو۔
ایک واقعہ یاد آ گیا کہ ایک بڑے نیک صاحب ایمان درویش مسلمان نے ایک یہودی کو مسلمان کر دیا۔آپ نے کہا میاں پہلے غسل کر لو۔پاک کپڑے بھی پہن لو تاکہ ھم کلمہ شہادت پڑھا دیں۔ اس نے ایسا ہی کیا پھر کہا کہ مکمل مسلمان تم تب ہو گے جب تک نماز نہیں پڑھو گے۔اس نے کہا بہتر ٹھیک سویرے سویرے اس کا دروازہ جا کھٹکھایا کہ چلیئے نماز ادا کریں ابھی صحیح کی آذان میں کچھ وقت باقی تھا کہا تھوڑی سی نفل نماز پڑھا لیں پھر دو فرض پڑھنے شروع کئے۔جو نماز پانچ منٹ کی دیر میں ختم ہو سکتی تھی۔انہوں نے پندرہ منٹ لگائے اور خوب ٹھر ٹھر کے پڑھی۔نماز بعد کہا کچھ کلام ہی پڑھ لیں جس پر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹا صرف ہو گیا۔ پھرکہا کچھ دعائیں بھی مانگ لیں اور دعائیں پڑھتے پڑھتے درس گیارہ بج گئے۔کیونکہ دیر ہو چکی تھی ساتھ ہی لے گئے کہا کھانا کھا لو۔جب کھا چکے تو ارشاد فرمایا اب زوال ہو گیا ہے چلو مسجد میں نماز ہی پڑھ آئیں۔آٹھ رکعت نوافل خود پڑھانے کے بعد نماز ظہر پھر دعائیں اس انداز سے پڑھیں کے عصر کی نماز کا وقت آ گیا۔نماز ختم کرنے کے بعد پھر دعائیں وظائف شروع کئے۔حتیٰ کے مغرب کی نماز بھی وہاں ہی اداکرنی پڑی اور دعا کا سلسلہ اتنا پڑھا کہ عشا کی نماز کا وقت آ گیا جس کے بعد پڑھتے پڑھاتے۔گیارہ بجے کے قریب وقت آ گیا۔اب آپ نے کہا کہ ذرا جائے گھر میں آرام کیجیئے۔
دوسری صبح آپ نے اس نو مسلم یہودی کا دوروازہ کھٹکھٹایا اس نے جواب دیا کے بھائی صاحب مذھب تمہارا تو بہت اچھا ہے لیکن یہ مذہب تمہارا بہت بڑی فراغت چاہتا ہے لہٰذا میں دین اسلام سے باز آیا ایسا دین تمہیں ہی مبارک ہو۔
پس اس نا سمجھ نے وسعت سے زیادہ تکلیف دی اور یہ انجام ہوا۔ اس لئے احکام اس طرح مسلط کر لئے جائیں تو خطرہ پیدا ہو جائے گا کہ کوئی اصل سے ہی نہ پھر جائے۔
پس ثابت ہوا کہ ہر ایک کی تکلیف الگ الگ ہے اس طرح ہر ایک کا ذہن بھی الگ الگ ہے۔ اسی طرح اعتقاد بھی الگ الگ ہے۔کس کا بلند درجہ اعتقاد ہے اور کسی کا پست درجہ۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: کہ ایمان کے اعتقاد کے اعتبار سے پچاس درجے ہں کوئی اس کے پہلے درجے میں اور کوئی دوسرے میں کوئی دسویں میں کوئی پندرھویں میں کوئی بیسویں میں۔اب جو دوسرے درجے والا ہے وہ پہلے اعلیٰ ہے پانچویں والا دوسرے سے بہتر ہے اور پندرھویں والا دسویں سے بہتر ہے۔لیکن پندرھویں والے کو ہر گز نہ چاہیے کے وہ پانچویں والے یا دسویں والے کو ذلیل یا حقیر سمجھے۔ اگر بلاشبہ اس کی نظر میں ان پست درجہ والوں کا اعتقاد جہالت ہوگا ۔
آپ درود شریف پڑھیں ۔ میں ایک اور مادی مثال پیش کرتا ہوں ۔
جیسے کوئی چار پانچ سو روپے ماہوار پاتا ہے اور ایک اور محض ہے جو ایک سو ماھوار لیتا ہے کیا پہلے کو چاہیے کہ دوسرے کو ذلیل سمجھے ؟ اگرچہ سو روپے ماھوار والا خود اپنی جگہ راضی ہوگا مگر اس کی جگہ اور مرتبے کو پانچ سو روپے ماہوار والد کبھی پسند نہ کرے گا ۔
میرے بزرگو! میں یہ عرض کررہا تھا کہ دین اللہ میں انسان کی عرض تکلیف تکمیل انسان ہے اور تکمیل انسان کے لئے تکلیف رکھی گئی اور تکلیف میں اسی طرح درجات ہیں جس طرح انسانوں میں درجے ہیں ۔ اعتقاد کے اعتبار سے تو اوپر کے درجے والے کے نزدیک نیچے کے درجے والے کا اعتقاد جہالت ہے۔
اسی لئے رسالت مآب نے ارشاد فرمایا :
”لو علم ابوذر ما فی قلب سلیمان الفارسی وکفرته اوقتله “ کہ اگر وہ اعتقاد ابوذر کو معلوم ہوجائے گا جو جناب سلیمان فارسی کو حاصل ہے۔ تو وہ اس کا انکار کردے اس پر کفر کا فتوٰی لگا دے یا اسے قتل کردے ۔ اس لئے کہ سلیمان فارسی کا اتنا بلند درجہ ہے کہ وہ ابوذر کے تصور میں بھی نہیں آسکتا “۔
یہ ابوذر سلیمان فارسی کے اعتبار سے اس قول کی رو سے کتنے کم درجہ ہیں کہ ان کو اگر معلوم ہوجائے کہ سلیمان کے عقیدے میں یہ باتیں شامل ہیں۔ تو وہ اس پر کفر کا فتوٰی دے دیں یا قتل ہی کر ڈالیں ۔
حالانکہ حضرت ابوذر کا اپنی جگہ وہ عظیم الشان درجہ ہے جناب رسالت مآب معلصم نے فرمایا ”ماقتلت …اصدق من ابی ذر “ کہ ” زمین کے اوپر آسمان کے سائے کے نیچے کوئی انسان بھی کہ جس پر آسمان نے اپنا سایہ ڈالا ہو اور وہ بولنے والا ہو اور وہ زیادہ سچا ہو حضرت ابوذر سے “
معلوم فرمایا آپ نے کون تھے یہ ابوذر تمام اہل اسلام کا اتفاق ہے کہ ان کے متعلق حضورکا یہ فرمان ۔
حضرات مجھے یہ واقعہ یاد آیا کہ ایک شخص نے ابوذر کو بلایا ہم لوگ تمہیں اچھا نہیں سمجھتے ۔ تم حکومت وقت کے خلاف لوگوں کو ابھارتے رہتے ہو۔ میرے بزرگو! یہ واقعات ذرا تفصیل طلب ہیں۔ میں تفصیل میں نہیں جاتا۔ صرف دو لفظ میرے مطلب کے ہیں۔ وہ سنیے۔ حضرت ابوذر نے ارباب حکوت کو فرمایا: ”کہ جو مال آرہا ہے وہ خدا کا مال ہے؟ اور وہ فلاں کو کیا نہیں دے دیا گیا؟حکومت وقت نے مال خدا میں سے عطیات دیئے تھے۔درھم دیئے تھے۔دنیار دیئے تھے۔(درھم چاندی کا سکہ ہوتا ہے اور دینار سونے کا) اور وہ عطیات جو دیئے گئے تھے۔اسکی تعداد ۲۰ کروڑ درھم اور ۲۵ لاکھ دینار تھے۔(موجودہ وقت کے اعتبار سے آپ اندازہ لگائیں کہ اس وقت ایک پیسہ کی قیمت آج کے پانچ روپے کے برابر تھی)۔
جناب ابوذر کو یہ بات بری معلوم ہوئی تھی کہ مال خدا وندی میں سے اس قسم کے عطیات دیئے جائیں۔آپ بری بات معلوم فرمانے کے بعد چپ رہ ہی نہیں سکتے تھے۔جہاں خلاف شرع بات دیکھی۔وہاں ابوذر اٹھ کھڑے ہوئے۔
یہی ابوذر فرماتے ہیں عاص کے متعلق کہ میں نے رسول اللہ سے سنا ”کہ عاص جو ہے اسکی اولاد جب تیس آدمیوں تک پہنچ جائے گی تو اپنے دین اسلام کو تباہ کرنے لگے گی“۔ کہا گیا کس کے سامنے یہ الفاظ آپ نے سنے؟ آپ نے تمام نشت گان سے پوچھا کے ”کسی اور نے بھی یہ الفاظ آپ لوگوں میں سے سنے؟“ جب کوئی بھی نہ بولا۔تو ابوذر نے کہا کہ ”علی ابن ابی طالب کو بلایا جائے“۔آپ سے یہی بات پوچھی گئی جناب امیر نے فرمایا”اگرچہ میں نے الفاظ تو نہیں سنے مگر ابوذر جو کچھ کہ رہے ہیں۔وہ اپنے کہنے میں بالکل سچے ہیں۔ اس لیے کہ میں نے یہ الفاظ حضور سے ضرور سنے کہ آپ نے فرمایا کہ:
”زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے کوئی ایسا نہیں ہے۔ جو ابوذر سے زیادہ سچا ہو۔“
تو جب رسول خدا نے گواہی دے دی تو میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ابوذر نے جو کچھ حضور کا ارشاد سنایا ہے کہ اس کے بیان کرنے میں یہ کسی طرح غلط نہیں کہہ سکتے۔
پھر آپ نے حاضرین محفل کو مخاطب فرمایا۔کہ کیا ابوذر کے متعلق رسول اللہ کے یہ الفاظ تم نے نہیں سنے؟جب سنے ہیں۔ تو پھر اب کیسے کہہ سکتے ہو کے ابوذر جھوٹ بول رہے ہیں۔اگر تم ایسا کہو گے تو کیا تکذیب رسول نہ ہو جائے گی۔
پس حضرت ابوذر کا پایہ کتنا بلند ہے اور اس سے آپ یہ بھی اندازہ لگا لیں کہ جناب سلیمان فارسی کا پایہ کتنا بلند ہوگا اور جب سلیمان دروازہ اھل بیت کے ادنیٰ غلام تھے اور یہ پایہ رکھتے تھے تو اندازہ لگائیے کہ وہ درواذہ کتنا بزرگ ہو گا اور اسکا پایہ کتنا بلند ہو گا۔جہاں سلیمان جیسے بزرگ جبہ سائی کیا کرتے تھے۔
حضرات وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے یہ تفصیل میں کل عرض کروں گا انشاء اللہ کہ انسانوں کے مختلف درجے ہیں۔ اعتقاد کے لحاظ سے بھی درجے ہیں عمل کے لحاظ سے انسانوں کے الگ الگ درجے ہیں اور یہ بات واضح اور صاف ہے کہ بڑے درجے والے اپنے سے کم درجے والے کو ایک قسم گمراہی یا جہالت میں دیکھتا ہے اور اتنی بات ضرور سمجھ لو اور انبیاء کے ترک اولیٰ کو یاد رکھو۔
اھل بیت کی منزلت یہ ہے کہ سلمان فارسی جیسے انکی غلامی پر فخر کرتے ہیں اور اپنے آپ کو امیرالمومنین کے ادنیٰ غلام سمجھتے ہیں۔پس جب غلام کا یہ مقام ہو تو آقا کا مقام کہاں ہو گا۔
حکما کے ہاں طریقہ مقرر ہے۔کہ کسی شخص کو جاننے یا سمجھنے اور اس کے اندرونی حالات معلوم کرنے کے لئے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے دوستوں کو اور ہم نوالہ ہم پیالہ آدمیوں کو دیکھ لو۔
اگر تم ان کو کسی طرح نہ دیکھ سکو تو ان کودیکھ لو۔ ان کا پتہ لگ جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص کے دوست سب کے سب شرابی ہوں تو اگرچہ شرابی نہیں۔تو کم از کم اتنا تو ضرور معلوم ہو جائے گا کہ اس کے نزدیک شراب کوئی عجیب نہیں۔
عرض کرنا چاھتا ہوں کہ اھل بیت رسول اللہ کے دوست کون کون تھے اور کیسے کیسے تھے امید ہے مجھے کہ جن بزرگوں کے نام آپ کے سامنے لے رہا ہوں خوامخواہ بلاوجہ کئی یہ نہ کہ دے کہ”میں جھوٹ بول رہا ہوں۔یہ وہ بزرگ ہیں کہ انہیں جان لینے کے بعد ان لوگوں کی آنکھیں کھل جائیں گی۔جن کی نظر میں اھل بیت کی وقعت کم ہے۔ پس میں ان کے غلاموں میں سے ایک غلام اور ان کے مریدوں میں سے ایک مرید کو پیش کرتا ہوں جن کا نام۔”اویس قرنی“ ہے۔
میرے خیال میں کوئی مسلمان ایسا نہ ہوگا جو ان سے واقف نہ ہوگا۔لفظ”قرن“مناظر نجہ میں سے رہنے والوں کی ایک جگہ ہے اگر آپ حج کے لئے جائیں تو جس مقام پر احرام باندھا جاتا ہے اس جگہ ایک گاؤں ہے۔ اس کا نام ”قرن“ ہے اور اسی قرن کے نام سے حضرت اویس۔اویس قرنی مشہور ہو گئے۔
آپ کے کان میں جناب رسالت ماب کا تذکرہ ہو ۔لوگون سے حالات پوچھنے شروع کیے۔کیسے نبی ہیں؟ کہا گیا بڑے عجیب نبی ہیں۔نور الہی ہیں سایہ تک نہیں ہوتا۔ اتنی کثافت بھی نہیں رکھتےٍ۔کہ سایہ ہی نہ ہو۔اتنے پاک اور اپنی خوشبو کے مالک ہیں۔کہ صبح وقت جس کس کوچے سے نکل گئے شام کو گزرنے والے سمجھ جاتے کہ رسول اللہ گزرے ہیں ۔
اس قسم کے حالات سنتے ہی غائبانہ ایمان لے آئے اور اتنی ترقی ہوئی ایمان میں کہ تاریخ کی رو سے زھاد ثمانیہ یعنی آٹھ زاہدوں کے مرتبے کے اعتبار سے سردار مانے گئے ہیں۔
میرے بزرگو! آپ نے عام طور سے لوگوں سے سنا ہو گا کہ جنگ احد میں سرکار رسالت مآب کے جب دانت شہیدہوگئے تو بتلانے والے نے انہیں آکر بتلایا کہ حضور کا دانت کافروں نے شہید کردیا محبت محبوب کے جذبے نے ایسا جوش مارا کہ دانت نکالنے والے کو بلایا اور ایک دانت نکلوا دیا۔
بتانے والے نے یہ نہیں بتایا تھا کہ رسالت مآب کا کونسا دانت شہید ہوا ہے۔ آپ نے ایسے جذبے میں یہ خیال کیا۔ ممکن ہے جو دانت نکلوایا گیا اس کے ساتھ والا دانت حضور کاشہید ہوا ہوگا۔ پس اسے بھی نکلوا دیا حتی کہ اس طرح ایک ایک کرکے ۳۲ کے ۳۲ دانت باہر نکلوا ڈالے۔
محبت کے اس جذبے نے اتنی ترقی کی کہ ملاقات نبوی کا شوق پیدا ہوا آپ کی والدہ ماجدہ زندہ تھیں۔ ان کے نان نفطے کا انتظام شتر بانی کے لیے جو اجرت ملتی تھی ۔ اس سے کرتے تھے۔ایک دن اشتیاق بہت بڑھا ماں سے درخواست کی اجازت دو تاکہ آقا و مولیٰ کی زیارت کرآؤں۔ فرمایا چلے جاؤ مگر میرے پاس کون رہے گا؟ بالآخر اصرار کے بعد ماں نے اجازت دی کہ جائیے لیکن آدھے دن سے زیادہ نہ رہناآپ نے اقرار اور گرتے پڑتے پوچھتے پوچھتے مدینے جا پہنچے۔ اتفاق کی بات یہ ہے رسول خدا صلعم شہر سے باہر گئے ہوئے تھے۔ چھ گھنٹے کامل انتظآر کے بعد واپس لوٹنا پڑا تاکہ ماں سے کئے گئے اقرار کے خلاف نہ ہو۔
شام کو جناب رسالت مآب تشریف لائے آتے ہی فرمایا یہ کس کانور ہے جو گھر میں محسوس کررہا ہوں۔ کون اس گھر میں آیا تھا؟
لوگوں نے عرض کیا ایک آدمی آیاتھا جس کا اویس نام تھا۔
فرمایا: اویس ہمارے گھر آیا اور اس کا نور سارے گھر میں پھیل گیا۔
حضرات! اویس قرنی وہ تھے جو ہر ایک فرقے کہ نزدیک مانے گئے ہیں۔ بلکہ کل فرقے ان باکمال ہونے پر اتفاق کرتے ہیں۔
رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان مربی حق پر ارشاد فرمایا: لوگو! تجھ پر ایک شخص کی بشارت دیتا ہوں جو کل میدان حشر میں شفاعت کرے گا پروردگار عالم اس کی شفارت سے اس قدر آدمیوں کی مغفرت فرمائے گا جس قدر قبیلہ مضر اور ربیع کے لوگ ہیں۔ یعنی لاکھوں کی شفاعت فرمائیں گے؟ اور وہ کون ہوں گے؟ جناب ”اویس قرنی“
آپ کی عبادت کی شان یہ تھی کہ جب رات آتی فرماتے یہ رات شب رکوع ہے۔ پھر نیت باندھتے جب رکوع پر جاتے تو ساری رات ایک ہی رکوع پر گذار دیتے۔ بہرحال دوسری رات آتی فرائض کی ادائیگی کے بعد فرماتے آج کی رات ”سجود کی رات“ ہے اور ساری رات سجدہ میں ہی گذار دیتے۔
جناب ”اویس“ ہی کے سلسلے میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ تفوح روائح الجنة من قبل الیمن و اشوقاہ الیک یا اویس قرن کہ جنت کی خوشبوئیں جن کی طرف سے آرہی ہیں اے اویس قرنی! مجھے کس قدر تیرا شوق ہے۔
بزرگو! آخر میں صرف اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ ذرا سی توجہ کے ساتھ آپ سماعت فرمائیں گے تو بعض کی آنکھیں کھل جائیں گی۔
جانتے ہیں آپ کہ ”اویس قرنی“ کی شھادت کب ہوئی؟ جنگ صفین میں۔ امیر المومنین عیلہ السلام کے ساتھ ان کی غلامی میں رہ کر دشمن امیر سے جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔
امیر المومنین ”جنگ صفین“ میں پہنچے۔ فرماتے ہیں ”کوفے“ سے ۱۰۰ آدمی آئیں گے جو آکر بیعت کریں گے۔ اس تعداد سے نہ کم آئیں گے نہ زیادہ۔ لوگوں نے دیکھا کہ سچ مچ ایک جماعت وقت مقررہ پر آرہی ہے۔ گنتی کی گئی تو ۹۹ آدمی پائے گئے۔ روای کہتا ہے کہ میری کیفیت بہت بری ہوگئی کہ جناب امیرقول مبارک میں ایک شخص کی کمی سے شک پیدا نہ ہو جائے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا خدا کی قسم! نہ میں نے جھوٹ بولا اور نہ جناب آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے غلط فرمایا: یقینا ایک اور کو ضرور آنا چاہیے۔
یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ ایک شخص دور سے کمبل میں ملبوس نمودار ہوا بلکہ ٹاٹ کا کرتہ یا عباء پہنے ہوئے تھا وہ ترکش ساتھ تھا جس میں تیر تھے اور کمان ہاتھ میں تھی اور دو تلواریں بھی تھیں۔ سیدھا امیر المومنین کی خدمت میں آیا اور عرض کیا یا امیر! ہاتھ بڑھائیے کہ بیعت کروں۔
کہا گیا کہ یہ کوئی پہلی بیعت ہے؟ عرض کیا پہلی بیعت تو کبھی کی ہوچکی آج یہ بیعت کرنا چاہتا ہوں کہ یا تو مارا جاؤں گا اور شہادت پاؤں گا یا دشمن امیر کوفتح کرلوں گا۔
کیا فرماتے ہیں آپ اس جنگ میں امیر المومنین حق پر تھے یا وہ حق پر تھے جن سے آپ لڑ رہے تھے؟ ان دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہے۔
اگر ”اویس“ حق پر فرمان نبوی حق تھا ان کی شہادت حق تھی تو حضرت علی حق پر تھے اور دشمن باطل پر تھے علماء کو ان ہی کو حق میں ماننا پڑے گا کہ آپ حق پر تھے۔ اس لیے کہ ان ہی کے متعلق ارشاد نبوی سن چکے تھے کہ اویس قبیلہ مضر اور ربیعہ افراد جتنوں کی سفارش کریں گے۔ ان کو موت ایمان پر تھی۔ لہذا ثابت ہوگیا یا نہ کہ علی حق پر تھے؟ اور آپ سے لڑنے والا باطل تھا یا نہیں؟
ہمارے آئمہ طاہرین میں سے ایک امام کی روایت میں موجود ہے کہ میدان حشر میں منادی کی جائے گی۔
کہاں ہیں ہو جواری جنہو ں نے عہد کیا تھا میرے رسول سے اور پھر کبھی اس میں خلاف عہد نہ کیا تھا انہوں نے!
اعلان کے بعد ابوذر‘ سلمان‘ مقداد آئیں گے پھر سرکار فرماتے ہیں ”علی“ آئینگے۔ ان کے بعد اویس قرنی آئیں گے۔ پھر اور علی کے حواری باری باری آئیں گے۔
سبحان اللہ! جب ”اویس قرنی“ کا اتنا بلند مرتبہ ہے تو اقا کا مرتبہ کیا ہوگا؟
پھر اس کے بعد حسن مجبتیٰ کے حواری آئیں گے۔ پھر سید الشھداء امام حسین علیہ السلام کے حواری آئیں گے لکھا ہے کہ ۷۲ تن آئیں گے تمام کے تمام آئیں گے جو میدان کربلا میں شہید ہوئے تھے۔
حضرات! میں چاہتا ہوں کہ صرف دو باتیں آپ کی خدمت میں پیش کروں۔ کہ حواریوں کے ذکر میں سے اویس قرنی کا ذکر آپ سن چکے ۔ جن لوگوں کی نظر میں آپ یہ تھے اور ان کا مرتبہ اس قدر تھا حالانکہ آپ غلام تھے پس سوچنا یہ ہے کہ غلام جب ایسا تھاتو جن کے غلام تھے وہ آقا کس مرتبہ کا ہوگا؟ کہ جس کے ہمرکاب ہو کر اویس شہادت قبول کی۔ پس محکوم کیسا تھا اور حاکم کیسا ہوگا۔
پھر یہ سوچنا ہے کہ میدان حشر میں جب پکارے جائیں گے تو امیر المومنین کے دوستوں میں شامل ہو کر آئیں گے اور یہ کہتے ہوئے آئیں گے کہ ”میں بھی ان کا غلام ہوں“ پھر شہید کربلا امام حسین کے حواری آئیں گے تو آپ کا قافلہ ایک عجیب قسم کا قافلہ ہوگا۔ کوئی ان میں ایک سوسال کا بڈھا ہوگا کوئی ان میں ۱۸ سال کانوجوان ہوگا اور کوئی ان میں سے ۶ ماہ کا بچہ ہوگا۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ ”میدان حشر میں جب لوگ اٹھائے جائیں گے تو حکم ہوگا کہ وہ لوگ اٹھائے جائیں اور اپنی فریاد پیش کریں جن پر دنیا میں ناحق ظلم ہوا تھا۔ تو بہرحال اویس بھی امیر المومنین کے دوستوں میں شامل ہو کر آئیں گے۔ ذرا تصور کریں آپ اس میدان کا جب سیدمظلوم کا مظلوم قافلہ حاضرہوگا اور اس دن ہر مظلوم اپنے ہر ظالم سے بدلہ لے جائے گا۔
سبحان اللہ! یہ قافلہ حشر کے دن کس شان سے چلے گاآگے آگے سید الشھداء امام حسین علیہ السلام ہوں گے اور غالباً داہنے طرف ہم شکل رسول علی اکبر ہوں گے اور بائیں طرف آپ کے کٹے بازؤں کے ساتھ جناب عباس پھر سفید داڑھیاں والے حبیب بن مظاہر وغیرہ ہوں گے۔ ذرا دیکھئے و سبھی قافلہ سالار کربلا کے ہمراہ تمام شھید آگئے؟ غور کریں کہ تمام شھید آگئے مگر ہاں ایک شہید نہیں معلوم وہ اتنا کم سن ہے کہ نہ پاؤں سے چل سکتا ہے۔ نہ سوار ہو کر آسکتا ہے اس کا نام اصغر بے شیر ہے۔ ایک مرتبہ قیامت میں زلزلہ آگیا کہ کربلا کا وہ سب سے ننھا شہید وہ آرہا ہے۔ دادی کے ہاتھوں میں وہ فاطمہ کا نور آرہا ہے۔ اس طرح کہ ایک ہاتھ گلے پر اور ایک ہاتھ خدا کے دربار میں ہے کہ پروردگارا میں بے گناہ مارا گیا۔ پروردگارا میرے باپ کے غزہ داروں کو بخش دے کہ ان کی آنکھیں روئی تھیں اس حسین کو روئیں تھیں جس سے زیادہ کوئی مظلوم نہ تھا اور اس سے زیادہ کسی اور پر رونے کا کسی او رکو حق ہی حاصل نہیں۔
ہائے کس کس کو یاد کریں اور کس کس پر کیوں نہ روئیں۔ انصاف کرنے والو علی اکبر کی جوانی یاد کرو۔ اس پر نہ روئیس علی اصغر کی بے زبانی یاد آئے۔ اس پر نہ روئیں دنیا والو اولاد والو! ہم نہ روئیں جب کہ رسول کی بیٹیاں ننگے سر آئیں پا برہنہ آئیں۔ تم ہی انصاف کرو۔ کہ ہم کیوں رو رہے ہیں؟ کیا اسی ظلم کی خاطر رسول اللہ اپنے کندھوں پر حسین کو چڑھاتے تھے۔کہ ان کے ماننے والے نیزے پر سر مار کر شہید کردیں۔ مسلمانو! انصاف کرنا کیا رسول اللہ امت والوں کی خدمت اس خاطر کرتے تھے کہ ان کے گھرانے تباہ کردیاجائے گا۔
بزرگو! آج محھے کچھ اور مسائل بیان کرنے تھے مگر عنان بیان اس طرف آگئی۔ مسلمانوں انصاف کرنا ذرا گھر جا کے سوچنا۔ایک شخص قوم کے لوگوں میں سب سے بڑا مہذب اس کی ساری عمر لوگوں سے اچھا سلوک کرتے ہوئے گذر گئی۔ اچانک اسے موت آگئی اس کی بیماری پر لوگ بیمار پرسی کرنے آئے۔ اگر وہ بھوکا تھا خود نہ کھایا اسے کھلایا۔ بالآخر اس کے مرنے پر سب لوگ آئے اس کا جنازہ اٹھایا جارہا ہے۔
لیکن امت کے والی کا یہ فرزند ہے بھوکا ہے۔ پیاسا ہے۔ عالم غربت میں ہے اور اس کا جنازہ تک اٹھانے والا کوئی نہیں ہے کاش کوئی سمجھ لیتا کہ فرزند رسول پانی مانگ رہا ہے اس ے پانی پلادیا جائے۔
میں کہتا ہوں اسے بھی جانے دیجئے دل پر نشت سا چھبھتا ہے۔ کہ لوگوں نے یہ نہ سمجھا کہ رسول کا نواساقتل کیا جارہا ہے۔ قتل کرنے والے کون ہیں؟ حسین کو یہودی قتل کرتے اتنا رنج نہ ہوتا۔ عیسائی قتل کرتے اتنا غم نہ ہوتا۔ او! یزید امام حسین نبی کا نواسا ہم سے شکایت کررہے ہیں کہ افسوس انہیں ان کے نانا کے کلمے پڑھنے والوں نے مارا ہے۔
افسوس حسین کو نواسہ رسول نہ سمجھتے تو ہم کو رنج نہ ہوتا۔ دل کے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔ حسین کو علی کا جگر گوشہ نہ سمجھتے تو اتنا غم نہ ہوتا۔ مارنے والے ظالموں نے ہمارے امام کو مسلمان نہیں سمجھا۔
کیا یہ کبھی ہوامسلمانوں کے سامنے کسی مسلمان کا جنازہ بے گور و کفن بولتی بنا ہو؟
ہم نے کئی بار دیکھا ہے کہ مسلمانوں کے شہر یا محلہ میں کوئی مسافر آیا۔ مرگیا۔ محلے والے یا گاوں والے اکھٹے ہوگئے۔ آپس میں کہتے ہیں کہ آج کاروبار نہ کریں گے جب تک اس غریب الوطن کو دفن نہ کرلیں گے۔
جب کبھی یہ بات یاد آتی ہے یا حسین دل بجھنے لگتا ہے۔ ایک اور مقام کا ذکر ہے کہ وہاں ایک مسافر آگیا۔ ایک دو مہینے وہاں رہا ایک نیک یا مقدس آدمی تھا تمام گاؤں والے گھروں کو چھوڑ کر آتے ہیں ایک بڑھیا بھی اس کا حال کو دیکھتی ہے اور کہتی ہے کہ اگر یہ مسافر گھر میں ہوتا تو اس کی بہو‘ بیٹی اور ماں اس پر ضرور روتیں آج اس کے اوپر رونے والا کوِئی نہیں چلو ہم ہی اس پر جا کر روئیں۔
مگر افسوس رہے افسوس یہاں زینب کو ہمیں شکایت کبھی نہ ہوتی کہ زینب کو چھوڑ دیا جاتا سکینہ کو اجازت مل جاتی۔ مسلمانو! یہ بچی یہ بہن آنکھوں کے سامنے دیکھ رہی ہیں کہ حسین قتل ہوگئے۔ انکا جنازہ کوئی اٹھانے والا نہیں ہے۔ اور نہ کوئی انہیں دفن کرنے والا ہے۔
حالانکہ رسالت مآب صلعم فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سے کوئی مرجائے تو بہت جلدی بغیر کسی دیر کے دفن کردیا جائے۔ اس لیے کہ جب تک جنازہ پڑا رہے گا۔ بیٹی الگ روئے گی۔ بہن الگ فریا دکرے گی۔ ماں الگ پریشان ہوگی اور کہے گی کہ آج کوئی بھی نہیں۔ جو ہماری اس میت کی طرف متوجہ ہو۔
رسالت مآب نے فریا کہ کوئی تم میں سے مر جائے اور رات آجائے تو مردے کے پاس چراغ جلا دینا کہ مردے کا اندھیرے میں رہنا اس کی توہین ہوگی۔ لیکن یہاں امام حسین اٹھ چکے ہیں۔ رات آگئی ہے یا رسول اللہ! مسلمان امت میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس نے چراغ جلایا ہو۔ ہاں یہ ضرور کیا کہ مخدرات عصمت پناہ جن خیموں میں پناہ گزیں ہیں ان خیموں میں آگ لگا دی گئی۔ کسی بی بی کا برقعہ جل رہا ہے کسی بچی کے کرتے میں آگ لگی ہے۔
مسلمانو! کافر بھی ہوتا تو اسے بھی کچھ رحم آتا۔ چھوٹے بچوں کو روتا دیکھ لے جن کا باپ سامنے مرا پڑا ہو۔ ان کے سر پر ضرور ہاتھ پھیرے گا۔ مگر یہاں سر پر ہتاھوں کا پھرنا تو کجا رہا۔ گردن کٹی ہوئی لاشیں سامنے پڑی ہیں۔ سکینہ بے اختیار باپ کی کٹی ہوئی گردن پر جا گرتی ہے اور کہہ رہی ہے کہ ”با با خیمے جل گئے۔ بابا کانوں سے گوشوارے اتر گئے۔ زینب ادھر سے گھومتی چلی ہے کہ ادھر شمر ملعون آن پہنچا۔ شمر پہلے پہنچ گیا۔ درہ اس ظالم کے ہاتھ میں ہے۔ بچی کے پاس جا کر ایسا ظلم کیا کہ بیٹی کو لاش چھوڑنی پڑی اور فریا کرتی ہوئی کہہ رہی ہے کہ ”بابا اس شمر پلید سے بچا لیجئے۔“
خداوندا حسین کے رونے والوں کا رونا منظور فرما۔