• ابتداء
  • پچھلا
  • 13 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20100 / ڈاؤنلوڈ: 4619
سائز سائز سائز
مجالس حافظ کفایت حسین

مجالس حافظ کفایت حسین

مؤلف:
اردو

مجلس چہارم :

بتاریخ ۴محرم الحرام ۱۳۷۵ ھ

( أَ فَغَیْرِ دِیْنِ اللّٰهِ یَبْغُونَ وَ لَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِيْ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ طَوْعًا وَ کَرْهًا وَإِلَیْهِِ یُرْجَعُونَ ) ۔ ( آل عمران : ۸۳ )

حضرات جناب احدیث غراسمہ اپنے کلام بلاغت میں ارشاد فرماتا ہے کہ کیا لوگ اللہ کے دین کے سوا کسی کی خواہش کرتے ہیں۔ حالانکہ آسمانوں اور زمین کے دہنے والے اسی کے لیے اپنی گردنیں خم کئے ہوئے ہیں خوشی سے یا جبر و قھر سے اور آخرکار اسی کی طرف بازگشت ہونے والی ہے۔

چونکہ یہ تقریر مسلسل چلی آرہی ہے اس لیے ضرورت ہے کہ ایک منٹ میں صرف آپ کو یہ بتادوں کہ کل میری تقریر کہاں تک پہنچی تھی اور پھر جو آج کا پروگرام عرض کرنا ہے شروع کیا جائے گا۔

کل یہ عرض کیا گیا تھا کہ اللہ کا دین جس کا وہ اسلام بے تعبیر کرتا ہے اس دین میں کچھ احکام ہیں جو ہمارے لیے نافذ کیے گئے ہیں اور اس میں اس کا فائدہ نہیں بلکہ فائدہ ہمارا ہے اور وہ یہ کہ ان پر عمل کرنے سے ہماری تکمیل ہو جائے۔ ان احکام کے تعلق کا نام ہے ”تکلیف“۔ اور اس بناء پر ہم ہیں ”مکلف“۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کو اس امر کی تکلیف دی گئی ہے کہ ہم ان احکام پر عمل کریں۔ نیز عرض کیا گیا تھا کہ درجات انسانی مختلف ہیں لہذا ناممکن تھاکہ ہر انسان کو یکساں تکلیف دی جائے۔ ورنہ ظلم ہوتا اگر پروردگار عالم قوت سے زیادہ کسی کو تکلیف دیتا اور چونکہ ظلم سے وہ ذات پاک ہے۔ اس لیے اس نے جیسا کسی کو بتایا ویسا ہی وہ بن گیا‘ قابلیت یا اس قدر کہ اعتبار سے جیسا کسی کو پایا ویسی ہی تکلیف بھی اس کو دی گئی۔ معصوم کو وہ تکلیف نہ دی جو غیر معصوم کو دی گئی۔ ایک جاہل سے متعلق وہ تکلیف نہ رکھی جو عالم سے متعلق رکھی گئی۔

یہاں تک عرض کرنے کے بعداب سلسلہ بیان مرتبط ہوگیا۔ لہذا اب عرض کرنا چاہتا اور آپ آج کی تقریر اس فقرہ سے کرتا ہوں جو شاید پرسوں عرض کیا تھا کہ

جو عراف ہیں ان کی معرفت ایک درجہ خاص یا ایک خاص منزل و مرتبہ پر پہنچی ہوتی ہے ان کے لیے وہ درجات جو اس منزل سے گرے ہوئے ہوتے ہیں جہالت ہوتے ہیں۔

اور نیچے درجے والا اس کو ابھی تصور ہی نہیں کرسکتا کہ اس کے اوپر کیا درجہ اور کیا چیز ہے؟

یہ وہ حقیقت ہے جسے آپ آگے چل کر سماعت فرمائیں گے کہ جو کوئی بھی کسی منزل بلند پر پہنچ چکا ہے اس کے سامنے تمام نیچی کی منزلیں ضلاتیں ہیں یا کم از کم جھالتیں ہیں۔ نیز یہ کہ جو شخص اپنی حیثیت کے موافق جس درجے پر پہنچا ہوا ہے۔ وہ درجہ اس کے لیے باعث خوشی ہے اورسبب راحت ہے اس لیے کہ وہ سمجھتا ہے کہ میں اس درجہ کمال پر پہنچ گیا اور یہی وجہ ہے کہ یہ امر اس کے واسطے باعث سرور ہے۔ لیکن اس کے اوپر کے درجہ والے کے واسطے یہی درجہ باعث رنج ہوتا ہے بلکہ اوپر کے درجہ کے اعتبار سے یہ نچلا درجہ اس کے نزیدک جھالت اور گمراہی قرار پاتا ہے۔

آپ کی خدمت میں توضح کے لیے مثال پیش کرتا ہوں تاکہ آپ کے ذہن میں یہ بات واضح ہوجائے۔

ایک شخص ہے جسے سو روپیہ ماہوار ملتے ہیں۔ اگر اس کے لیے یہی روپیہ چار سو روپیہ ماہوار ہو جائیں تو اس کے واسطے رنج ہوگا۔ لیکن یہی چار سو روپیہ ماہوار اس شخص کے لیے جو تین سو روپیہ ماہوار لینے والا ہے اس کے گھر میں عید ہو جائے گی۔

تو یہ دونو شخص اپنے درجے کے اعتبار سے رنج اور خوشی حاصل کرتے ہیں۔ ایک ہی چیز کے اعتبار سے رنج کا باعث بنتی ہے اور دوسرے اعتبار سے خوشی بن جاتی ہے۔

ٹھیک اس طرح معرفت کے اعتبار سے جو زینہ بلند پر پہنچ چکا ہے اس کے لیے وہ درجہ سبب خوشی ہوتا ہے لیکن نیچے کی منزل کو وہ سمجھتا ہے کہ عین جِھالت ہے۔

بزرگوں کی خدمت میں التماس کرتا ہوں کہ آپ اسے ذہن پر رکھیں اس سے بہت کچھ آپ کی سمجِھ میں آجائے گا۔

پس گذارش کرتا ہوں کہ جس طرح سے ہمارے اعمال بلند ہوتے رہتے ہیں ہماری معرفت کے اعتبار سے ہمارے گناہ بھی بدلتے ہیں۔ ایک شخص کا فعل اس کی حیثیت کے اعتبار سے ثواب ہے لیکن وہی فعل اس سے بلند معرفت والے کے واسطے گناہ بن جائے گا۔

گویا اس اعتبار سے آپ لفظ رنج کو ہٹا کر گناہ کردیجئے۔ وہی شئے مادی اعتبار سے رنج تھی معرفت میں جا کر گناہ بن جائے گی۔ علی ہذا جو شئے مادی طور پر خوشی کہلائے گی معرفت میں ثواب بن جائے گی۔دیکھئے نماز ایک ہی شئے ہے لیکن ایک آدمی نماز ادا کرتا ہے اس کے واسطے ثواب بن جاتی ہے لیکن صاحب معرفت کے واسطے یہ ہی نماز گناہ لکھی جاتی ہے۔ ٹھیک جس طرح کم چیز رنج تھی مثلا ۵ سو روپیہ والے تو ۴ سو روپیہ ملنے لگے تو رنج ہو گا علی ہذا بلند معرفت والے کے لیے کم معرفت والے کا سا فعل گناہ بن جائے گا اور اسی طرح بلند معرفت والے کے لیے اسی نماز کا ستر درجے زیادہ ہوں گے اور اگر اس سے کوئی بلند معرفت والا ہے اس کی ایک نماز پر ہزار نماز کا ثواب مرتب ہوگا۔ اسی طرح جس قدر درجہ بلند ہوگا نماز کے درجہ بھی بڑھتے جائیں گے حتی کہ ایک نماز تمام عالم کی نمازوں کے برابر درجہ پائے گی اور اس سے آگے ایک وہ درجہ آتا ہے کہ دونوں جھانوں کی نمازیں اس نماز سے کم ہو جائیں گے۔

اسی توضیح کی تائید میں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا وہ قول مدنظر رکھیے جو آپ نے جناب امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے حق میں ارشاد فرمایا۔

آپ اس اعتبار سے حضور کا درجہ سامنے رکھیے۔ اگر جکہنے والا کوئی اور ہوتا احتمالات کی بڑی گنجائش تھی۔ لیکن کہنے والا وہ ہے جو اعمال کی حقیقت کا جاننے والا اور اعمال کرنے والے کی حقیقت سے بھی واقف۔ جن کا بولنا خود وحی خدا ہے۔ کہ قرآن پاک ان کے حق میں ارشاد فرمائے:و ما ینطق عن الهویٰ ان هو الا وحی یوحی

اس آیت کے یہ معنی نہیں کہ میرا رسول جب بولتا ہے وحی نازل ہو جاتی ہے۔

بلکہ معنی یہ ہیں کہ میرا رسول اپنے نفس کی خواہش سے کبھی نہیں بولتا بلکہ جب وہ بولتا ہے اُس کا بولنا ہی وحی ہوتا ہے۔

آیت کریمہ کے صرف دو ترجمے ہو سکتے ہیں۔

۱ ۔ حضور کا بولنا خود وحی ہے۔

۲ ۔ حضور کا نطق بھی بولنا جو آیت کریمہ میں بیان فرمایا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ذات محمد مصطفیٰ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی تو سراپا وحی ہے۔

وحی کا مطلب کیا ہے؟ وحی کا مطلب علم صحیح ہے کہ حضور حکم دے دو۔ علم سکھا دو۔ ذات سرکار خود علم ہی علم ہے۔ سراپا علم ہے۔

پس جب وہ ذات علم ہی علم ہے تو کیو ں نہ کہیں کہ ان کا بولنا علم ہے۔ ان کا بولنا وحی ہی وحی ہے۔

میرے بزرگو! یہ قول جو حضور کے سامنے پیش کر رہا ہوں وہ ہمارا قول نہیں ہے بلکہ رسول خدا نے فرمایا ہے اور آج تک کل اہل اسلام بلکہ ساری دنیا اقرار کرتی چلی آئی ہے کہ خندق کی لڑائی میں سرکار سالت مآب نے زبان مبارک سے ارشاد فرمایا: ضربت علی یوم خندق افضل عبادة الثقلین۔ کہ دونو جہان کی عبادت سے بلند درجہ رکھتی ہے علی کی وہ ایک ضربت جو خندق کے دن آپ نے لگائی تھی۔ جیسے ۵۰ نمازیں ایک طرف رکھیں اور صاحب معرفت کی ایک نماز دوسری طرف رکھیں تو اس کی ایک نماز جاھل عامی کو ۵۰ نمازوں سے بہتر ہوگی۔

یہ اصول ہے کہ صفات معنویہ میں ناقصوں کا مجموعہ ناقص ہوتا ہے ۵۰ جاھلوں کی عقل ایک جگہ کردی جائے چونکہ سب ناقص ہیں لہذا مجموعہ بھی ناقص ہوگا اور ایک کامل اگر ان کے سامنے آجائے تو اس کی عقل پر سب غالب اور کامل ہوگی۔

مثال کے طور پر ایک بی۔اے کے مقابلے میٹرک ناقص ہے اگرچہ میٹرک ۱۰۰ جمع ہوجاھیں وہ ایک سب پر غالب ہوگا اور سب کو پڑھائے گا۔

پس ثابت ہوا کہ ناقصوں کا مجموعہ ناقص ہی ہوگا ٹھیک اسی طرح صاحب معرفت کامل کے مقابلے میں ہم سب کی بلند مجموعہ بھی ناقص ہی ہوگا۔ علی ہذا معصوم کے اعتبار سے تو وہ دیکھ لو تو وہ کامل ہے اور اس کے سامنے غیر معصوم وغیرہ سب کہ یہ حقیقت ہوگا۔ مطلب یہ کہ معصوم کی معرفت کے مقابلہ میں سب غیر معصوموں کی معرفت ناقص ٹھہرے گی اسی طرح اس کی عبادت کا ثواب بھی ان سب کے ناقص مجموعہ ثواب کامل ثواب ہوگا۔

پس یہی وہ مقام ہے جو مقام علی ہے۔ یہی وہ منزل ہے جھان علی ہیں کہ تمام ملائکہ تک کی عبادتیں ان کے بالمقابل ناقص اورکم مرتبہ نطر آرہی ہیں اور یہی وجہ تھی کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایک ضربت علی کی ثقلین کی عبادت پر غالب اور کامل ہے۔

یہ حدیث نبوی متفق علیہ ہے آیات کریمہ اس کی تائید کرتی ہیں۔

اس حدیث نے ثابت کردیا کہ تمام آدمیوں سے علی کی عبادت افضل ہے بلکہ عالم ناسوت ملکوت سب کی عبادت ان کی عبادت کے سامنے ہیچ ہے۔ پس جب ضربت علی بلند ہوئی تو ملائکہ معرفت میں ناقص ہوئے جب وہ ناقص ہوئے تو وہ کامل ہی تو تھا جو ناقص مجموعہ کو تعلیم دے رہا تھا۔ یہ حقیقت اس قدر واضح ہے کہ اس میں کوئی گنجائش کسی شبہ کی نہ ہونی چاہیے۔

حضرات اس تمام توضیح سے اصل مطلب میرا یہ ہے کہ میں کہنا چاہتا ہوں کہ دو باتیں آپ مد نظر رکھیں۔

۱ ۔ میں نے عرض کیا تھا کہ گناہ بدلتے رہتے ہیں۔ جیسے میرے اعتبار سے کہ میں ناقص ہوں میری نماز میں خیالات آئیں کہ نماز کے بعد فلاں فلاں چیز بازار میں فلاں دکان سے جاکر خریدیں گے وغیرہ تو میرے لیے نماز میں اس خیال کا آنا گناہ نہیں ہے کیونکہ میری نماز ہے۔ لیکن اگر کوئی صاحب معرفت ہو تو اس کی ایسی نماز اس کے منہ پر واپس مار دینے کے قابل ہوگی۔ اس کی نماز ایسی ہونی چاہیے جو ان تخیلات سے پاک ہو اور اگر اس کی نماز میری نماز جیسی ہو تو وہ نماز نہیں ہوگی۔ اسی طرح نماز کے دوران میں کسی فقہ کے مسئلہ کا ہی خیال پیدا ہو جائے تو وہ نماز ہو جائیگی لیکن ایک شخص جو معصوم ہے اس کی نماز میں اگر کسی قسم کا بھی تصور آگیا تو اس کی نماز اسی وقت ٹوٹ جائے گی اور ایسی نماز بالکل نہ ہوگی۔ بلکہ معصوم کی نماز کا حال یہ ہوگا کہ تیر پاؤں کے اندر جا گھسا کسی صورت نہیں نکلتا اور کھینچ کر زبردستی نکالنے سے بڑا درد ہوتا ہے۔ رسالت مآب کو اطلاع ملتی ہے ارشاد فرماتے ہیں: تیر اس وقت نکالاجائے جب کہ حضرت علی بحالت نماز ہوں۔ علی نماز شروع کرتے ہیں دنیا و مافیا سے اس قدر بے خبر ہوتے ہیں کہ تیر نکالا جاچکا تھا اور جناب امیر علیہ اسلام کو کچھ پتہ نہ تھا کہ کس نے تیر کو نکالا ۔

کتاب ” مستمل الاعمال “ میں موجود ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام رات کا وقت ہے ۔ آپ عبادت الٰہی میں مشغول ہیں ۔ گھر میں سے ایک بچہ گر پڑتا ہے ایسی شدید چوٹ لگی کہ ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی ۔ گھر بھر میں ایک شور برپا ہوتا ہے ۔ حسب قاعدہ شور عورتوں اور بچوں کا مشہور ہے ۔ خادم بچے کو طبیب کے پاس لے گیا پٹی باندھی گئی ۔ پھر بھی درد کے مارے بچہ کراہ رہا تھا ۔

امام زین العابدین علیہ السلام اپنی عبادت سے صبح کے وقت کھیر جاکر فارغ ہوئے ۔ بچہ جب آپ کے سامنے پٹی باندھے آیا آپ نے فرمایا: ” ہیں یہ پٹی کیسی ؟“ ۔ کہا گیا حضور رات آپ عبادت میں مصروف تھے اس کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی تمام لوگ جانتے ہیں اسے

حضرت امام علیہ السلام نے فرمایا واللہ مجھے قطعاً کچھ خبر نہیں ہوئی کہ کب شور مچا کب ہڈی ٹوٹی اور کس طرح اسے اپنی طبیب پاس لے گئے۔

یہ تھا وہ عرفان کا مقام خاص جس پر امام علیہ السلام فائز ہیں۔

پس میرے بزرگوٓ جیسا کہ کبھی ایک مرتبہ ضمناً عرض کیا تھا کہ معرفت پر اعتبار سے جتنی معرفت بلند ہوگی نماز بھی بلند ہوگی اور گناہ بھی بدلتے جائیں گے جو ہمارے لئے گناہ ہونگے وہ ہمارے ناقص اعتبار سے ہونگے لیکن بڑے مرتبہ والوں کے ہاں اس قسم کے گناہوں کا تذکرہ ہی چھوڑ دیجئے اس مرتبہ کے گناہ کچھ اور طرح کے ہی ہوتے ہیں ۔

اب وہ وقت آگیا کہ آپ کے سامنے بیان کردوں کے علماء نے فرمایا انسانوں کی سات قسمیں کی گئی ہیں گویا انسان کے سات درجے قائم کئے ہیں :

۱) بدن ۲) نفس ۳) قلب ۴) سر ۵) ودح ۶) خفی ۷) اور خفٰی

یہیں سات منزلیں ہر منزل سے ایک خاص علم کا تعلق ہے اور ہر ایک منزل پر پہنچ جانے والے کی نماز الگ نماز ہے ۔

۱)” بدن“ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ رب العٰلمین ارشاد فرماتا ہے ” ان الصلوٰة تنھی عن الفحشآءِ والمنکر “ ، ”کہ بے شک نماز تمام بے حیائیوں اور بری باتوں سے روک دیتی ہے “۔ پہلا درجہ بدن ہے ۔ اس درجے والے نہ بری باتیں اور ہیں جن سے نماز روکے گی ۔ لہٰذا دوسری منزل والوں کے لئے اور قسم کی برائیاں ہوں گی جن سے انہیں نماز روکے گی ۔

آج چاہتا تھا کہ اس مضمون کی تفصیل عرض کرتا ۔ چونکہ چھ اور مجالس باقی رہ گئی ہیں اور آپ بھی الحمدللہ اس وقت جدید الذھن ہیں اور پھر محبتِ اہل بیت کی وجہ سے آپ کی روح کا تعلق ان سے ہے جو مجسم عقل ہیں ۔ اس لئے جس بات کو اور لوگ نہیں سمجھ سکتے آپ سمجھنے کے وقت سے پہلے اسے با برکت ان کے سمجھ لیتے ہیں ۔

میں نے عرض کیا کہ پہلی منزل بدن ہے ۔ اس علم کا ام علم لطیفہ بدنیہ ہے آپ تصور فرمائیں گے کہ ہمارے پیشوا کہاں اور کس مقام پر ہیں اور ان کے مخالف کہاں ہیں ۔ بہر حال اس منزل میں اعمال اور شرائط کی تعلیم دی جاتی ہے کہ عبادت کے لئے اس طرح بیٹھا جائے ۔ اس طرح جاگا جائے اس طرح سویا جائے ۔ ان تمام اعمال و آداب کا تعلق اصلاح معاش سے ہے ۔ پس اس منزل میں اس کا علم کا تعلق اس سے ہے کہ دنیا میں کیسے رہا جائے ۔

یہی منزل ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ رکوع اس طرح کیا جائے ، سجدہ اس طرح ادا کیا جائے اس لحاظ سے یہ مسائل ظاہر شریعت کے ہیں ۔ ان کے اعتبار سے ایسی نماز پڑھی جائے کہ اس کے کسی رکن یا شرط میں غلطی نہ ہو نماز کو سمجھو اور شیطان سے بچایا جائے ۔ یہ بدن کی نماز ہے یہ نماز تمام ظاہری گناہوں سے بچاتی ہے ۔

میں یقین کرتا ہوں کہ آپ کے اذھان مبارکہ میں یہ وضاحت آگئی ہے ۔ ورنہ میرا قصور سمجھے کہ میں زیادہ واضح نہ کرسکا ہوں گا ۔

تو یہ نماز ارکان ظاہری اور مسائل ظاہری کے مطابق ہو گی یہ نماز کون سے گناہوں سے روکے گی ؟ تمام برے گناہوں سے جیسے جھوٹ بولنے سے ، کسی کا مال غصب کرنے سے ، وعدہ سے پھر جانے سے ، خیانت کرنے سے، مکر فریب اور دغا بازی سے میدان غزا سے بھاگ جانے سے وغیرہ سے بچائے گی۔

اگر کسی کی نماز اسے ان گناہوں سے نہ بچائے اور وہ برابر نماز پڑھتا چلا جائے تو کیا یہ نماز نماز ہوگی؟ قرآن پاک تو کہتا ہے ان الصلوة تنھی عن الفحشاء و المنکر کہ نماز ہر قسم کی بے حیائیوں اور برائیوں سے روکتی ہے۔

اگر نماز ہوتی رہے اور لوگوں کا مال بھی غضب ہوتا رہے اور لوگوں کو ان کے مرتبے سے گرانے کی کوشش بھی جاری رکھی جائے تو کہنا پرے گا کہ کلام الہی کی رو سے ایسی نماز نماز نہیں۔

اس منزل کی نماز پڑھنے والے بہت ہیں۔ لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جو اس پہلے مرتبہ میں ہی فیل ہیں جب یہ لوگ پہلی منزل میں ہی ایسے رہے تو باقی منزلیں تو علیحدہ اور ایک طرف رہیں۔

۲ ۔ نفس۔ دوسری منزل نفس کی ہے۔ اس کا علم اخلاق اور فضائل سے تعلق رکھنا ہے کہ انسان اپنے نفس میں کون کون سی فضیلتیں پیدا کرے۔

اس منزل میں بنماز ظاہری طور پر تو وہی ہی ہوگی لیکن روح نماز خشوع اور خضوع ہوگی۔ یہ نماز کیا ہے؟ انقیاد لامر اللہ ہے کہ خدا کے اوامر کے سامنے جھک جایا جائے۔ بالفاظ دیگر خوف و رجاء کے درمیان کی حالت پیدا ہونے کے سبب اطمینان حاصل ہوجائے۔ یہ دوسری منزل کی نماز ہے۔

اس درجہ میں نماز کون سے گناہوں سے بچائے گی؟ یہاں اس مکاری یا بے ایمانی کا ذکرنہیں رہا جس سے بچنے کا ذکر پہلے ہوچکا۔ یہ نماز اخلاق رویہ سے بچائے گی۔ نفس میں جس قدر بری عادات یا گندے اخلاق ہوں گے ان سے یہ نماز بچائے گی چاہے عمل کرنے کی نوبت آئے یا نہ آئے۔ مثلاً بزدلی ایک ردی خلق ہے۔ یہ نماز اس سے بچائے گی۔ مثلاً بخل کا ہونا‘ بے وفائی کا مادہ ہونا وغیرہ وہ گناہ ہیں جن سے اس منزل کی نماز بچائے گی۔ یہ دوسرے درجہ کی نماز ہوگی پہلی منزل میں جرم ڈاکہ زنی تھا۔ یہاں یہ نہیں بلکہ ردی عادت سے بچنا ہوگا۔

اب اس دوسری منزل والا دغا بازی‘ لوٹ کھسوٹ وغیرہ کو کیا کیا سمجھے گا۔ ہم ایسوں کی نماز جو پہلے درجہ والوں کی نماز ہے اس درجہ والے کے لیے نماز نہ ہوگی بلکہ گناہ ہوگی۔

۳ ۔ منزل قلب: تیسری منزل قلب ہے اس کا تعلق علم کلی سے ہے یعنی صفات کمالیہ سے یہ منزل متعلق ہوگی۔ اس منزل کی نماز حضور اور مراقبہ ہے۔ جہاں پہنچ کر نمازی یہ نہیں سمجھتا کہ وہ یہاں کھڑا ہے بلکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ عین بارگاہ خدا میں حاضر ہوگیا۔ وہ دیکھ رہا ہوتا ہے یا کم از کم یقین کر رہا ہوتا ہے اسے خدا دیکھ رہا ہے۔

جسے حدیث صحیح میں وارد ہوا ہے کہ ”واعبد ربک کانک ترا وان لم فانہ ھو یراک“ کہ تیری عبادت اس طرح ہو کہ گویا تو اسے آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ورنہ یہ جان کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔

مثلاً نمازی نے پڑھنا شروع کیا الحمد اللہ رب العلمین الرحمن الرحیم ملک یوم الدین پہلے غائب کی حیثیت سے خدا تعالیٰ کی صفات بیان کرنے لگا (کہ الہی توکل جھانوں کا پرودگار ہے تو نہایت مھربان اور بخشش کرنے والا ہے تو روز جزا کا حقیقی مالک ہے) اس بیان صفات الہیہ میں اس قدر غرق ہوا کہ یکایک محویت کا عالم طاری ہوگیا‘ غائب کلام خطاب سے بدل گیا اور اب وہ یہی نمازی کہہ رہا ہے ایاک نعبد و ایاک نستعین (کہ خداوندا تیری ہی بندگی کر رہا ہوں اور تجھ سے ہی امداد چاہ رہا ہوں)۔

یہ ہے حضور اور مراقبہ کی منزل۔ تو اس میں پہلی منزلوں کی سی صفات ہوں گی نہ ان جیسے گناہ ہوں گے۔

اس منزل کے گناہ فضول امور اور غفلت ہوں گے ایسی نماز میں کوئی وقت غفلت میں نہ گزرے گا۔ کسی گھڑی وہ غافل نہ رہے گا‘ ذکرمیں پوری طرح شاغل رہے گا۔ اس کی نماز حضور ہی حضور ہوگی۔

ذرہ بھر غفلت اور فضول شئے کی طرف التفات یا خیال کاچلا جانا اس منزل کے گناہ ہوں گے۔

اس منزل والے کے سامنے پہلی منزلیں ایک طرح سے گناہ ہوں گی۔

۴ ۔ منزل ستر: چوتھی منزل‘ منزل ستر ہے اس منزل میں علم حقیقی سے تعلق ہوتا ہے۔ اس منزل کی نماز مناجات اور مکالمہ ہے۔ عربی زبان میں راز و نیاز کی بات کرنے کو مناجات کہتے ہیں۔ جب تک ایک شخص ہو مناجات نہیں ہوتی جب دونوں طرف سے باتیں ہونے لگیں تو وہ مناجات ہوتی ہیں۔

اب وہ درجہ آیا کہ بندے اور خدا میں باتیں شروع ہوئیں۔ بندہ کہتا ہے ایاک نعبد و ایاک نستعین ادھر سے آواز آتی ہے بندے میرےٓ کس بات میں مدد کروں؟ بندہ کی طرف سے عرض ہوتا ہے اھدنا الصراط المستقیم۔ الہی سیدھے راستے پر مدد کر۔ ادھر سے جواب آتا ہے کہ کون سا سیدھا راستہ؟ سیدھے راستے تو سبھی ہیں‘ وہ جو جنت کی طرف جاتا ہے وہ بھی سیدھا جاتا ہے۔ جو جہنم کی طرف وہ بھی سیدھا جہنم کو جاتا ہے‘ جو شیطان کی طرف ہے وہ بھی سیدھا اس تک پہنچتا ہے اور جو تیرے خدا کی طرف ہے وہ بھی سیدھا اس تک جا پہنچتا ہے‘ تجھے کونسا سیدھا راستہ ضرورت ہے؟

بندہ عرض کرتا ہے صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم و لا الضالین‘ الہی مجھے وہ سیدھا راستہ چاہیے جو ان تیرے بندگان خاص کا ہے جن پر تو نے انعامات نازل فرمائے اور ان راستوں سے محفوظ رکھ لے جن پر وہ لوگ چلے جن پر تیرا غضب نازل ہوا یا وہ تیرے سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔

پس یہ منزل نماز کی چوتھی منزل ہے جسے مناجات اور مکالمہ کہتے ہیں۔ تیسری منزل والوں کے لیے یہ منزل عرش معلی ہے لیکن اس منزل والوں کے لیے پہلی منزلیں گناہ متصور ہوں گی اور وہ فرمان صادق آئے گا حسنات الابرار سیئات المقربین کہ ہزار لوگں کی نیکیاں مقربیں کی برائیاں یعنی گناہ شمار ہوتی ہیں۔

پہلی منزل کی نماز میرے لیے نماز تھی لیکن تیسری یا چوتھی منزل والوں کے لیے میری نماز گناہ ہوگی۔

پس اس منزل میں کس قسم کے گناہ ہیں؟ التفات الی الغیر سوائے محبوب معبود برحق کے کسی غیر کی طرف توجہ کا پھرنا اس منزل کا گناہ ہے۔ اس منزل والے کی نماز اسے اس قسم پر گناہ سے بچا لے گی۔

۵ ۔ منزل روح: پانچویں منزل‘ منزل روح ہے اور یہ وہ علم ہے جن کا تعلق مشاھدات سے ہے۔ ابھی تک تو نماز مکالمہ و مناجات تھی جس میں دو تھے جو باتیں کر رہے تھے۔ لیکن اس منزل میں پردے اٹھ جاتے ہیں اب وہ مرتبہ آتا ہے گویا کہ وہ ان چیزوں کو آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔

حاضرینٓ وہ شئے ہے کہ ہمارے تصور سے اس کا معاملہ بلند ہورہا ہے۔ یہ منزل مواصلات مشاہدات سے متعلق ہے اور معائنہ اس منزل والوں کا کام ہے جو امور ہمارے تخیلات سے باہر ہیں وہ ان کا مشاہدہ ہوگا اس منزل میں توجہ الی الغیر ناممکن ہے۔ لہذا اس نماز والے کے لیے گناہ کیا ہوگا؟ روح کو معراج ہورہی ہے اور بلندی کی طرف منازل طے کرتی چلی جارہی ہے۔ روح انسان میں صفات قلبیہ کے ظہور کی وجہ سے طغیانی کیفیت پیدا ہوا کرتی ہے اور اس منزل سے کبِھی بھٹکنے کا احتمال ہوتا ہے پس اس منزل کی نماز اس طغیانی سے روکتی ہے۔

۶ ۔ خفی: چھٹی منزل منزل خفی ہے۔ اس علم کا تعلق وہاں سے ہے جہاں مشاہدہ ختم ہوتا ہے اور اسے منزل مغنات اور ملاطفت کہتے ہیں جیسے کوئی کسی کو لوریاں دیتا ہے کسی پر مہربانیاں کرتا ہے ۔ اب مشاہدات ختم ہونے کے بعد ناز و نیاز کی باتیں شروع ہوتی ہیں محسوس ہورہا ہوتا ہے کہ یہ بچہ ہے جو جھلایا جا رہا ہے۔ اس بچہ کی طرح جسے لوریاں دی جاری ہوں یہ منزل‘ منزل مواصلت ہے۔

یہ وہ منزل ہے جو اس گناہ سے بچائے گی جسے ”اثنینیت“ کہتے ہیں اور جسے ظہور ”انانیت“ کہتے ہیں۔

اس علم کا تعلق اسرار محبت سے ہے۔ یہاں آکر محبت کے روز معلوم ہوتے ہیں۔ ہماری آپ کی محبت مادی امور سے ہوتی ہے یہ نماز تمام غیر محبتوں سے ہر قسم کی ”اثنینیت“ سے بچاتی ہے اور اس کا مطلب حقیقی وہ مقام ہے جسے مقام توحید کہتے ہیں اسی منزل میں مالک کو حقیقی مقام توحید نظر آتا ہے۔ وہ لوگ کیا سمجھیں گے جنہوں نے ایسی نمازیں دیکھی ہی نہیں۔

اور ہم نے جن کو پیشوا مانا ہے ان کی نمازیں ان منزلوں سے آگے کی نماز ہے۔

اسامر کی وضاحت کے لیے ایک دو چار فقرے پیش کرتا ہوں کیونکہ دماغ پر بوجِھ محسوس ہورہا ہے اس لیے کہ یہ بڑی بلند ذکر چیز ہے کہ جسے اس وقت عرض کررہا ہوں۔

کہ ”اثنینیت“ کیا ہے؟ اپنی جہالت کے اعتراف کے ساتھ مثالیں عرض کرتا ہوں جو مجھ ایسے جاھلوں کے لیے مفید مطلب ہوسکیں گے۔ مثلاً اپنے ”اللہ اکبر“ کہا اور یعنی خدا تعالیٰ سب سے بزرگ ہے۔ تو لفظ ”سب“ کیا چیز ہے؟ ”سب“ بھی آگیا اور ”اللہ“ بھی آگیا تو ”توحید“ کہاں رہی؟ اس ی ”توحید“ میں ”سب“ مثال ہوگیا۔

یہ توحید ہم ایسے لوگوں کے لیے نہیں رہتی چہ جائیکہ ان منزلوں پر فائز لوگوں کی توحید کو پانا۔ یہ ہمارے بس کی بات نہیں۔

جسے میں ہوں خدا تعالیٰ کومانتا ہوں کہ وہ وہ ہے۔ فلاں صفتوں سے پاک ہے۔ لیکن میرا تعلق بیٹوں سے بھی ہے ماں باپ سے بھی محبت ہے جب تک محبت میں خالص ”انفرادیت“ نہ آئے گی ”توحید“ خالص نہ ہوگی۔ ماسوی اللہ سے کامل بے تعلقی‘ کسی سے کوئی تعلق یا کسی محبت نہ رہے تو کم از کم ”نفس“ کی محبت رے گی بس دوئی موجود رہے گی‘ ”اثنینیت“ باقی رہے گی اور یہ کب ختم ہوگی؟ جب اپنے سے بھی بے خبر اور غافل ہو جائے یہ وہ مقام آتا ہے جہاں ظہور ”انانیت“ نہیں رہتا اور ”اثنینیت“ ختم ہو جاتی ہے۔

جب تک کوئی مالک ”میں“ کو سمجھتا ہے اس وقت تک اس منزل پر اس کا قدم نہیں پہنچتا۔ اس منزل میں قدم رکھنے کے لیے یہ باقی ہی نہ رہے گا کہ ”میں ہوں“۔ لہذا جب ”میں“ نہ ہوتی تو اور کون رہے گا؟ اب وہ ہی وہ ہوگا۔

اس منزل میں گناہ ”میں“ کا وجود ہے اور یہ وہ گناہ ہے کہ صبح سے شام تک ہم لوگ ”میں“ ، ”میں“ کہتے رہتے ہیں۔

۷ ۔ اخفی: ساتویں منزل وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا ہے؟

اس میں شک نہیں کہ دو چار حضرات کے دماغوں میں الجھن ضرور ہوگی لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ ذرا سے مشکل مضمون پر لوگ سونے لگتے ہیں لیکن ”سید الشھداء“ کی برکت سے ایک بھی وہ نہیں نظر آتا جس کی آنکھوں میں نیند ہو۔

حضرات! تین چیزیں ہوتی ہیں:

۱ ۔ ایک شئے ہوتی ہے سلوک الی اللہ۔

۲ ۔ ایک شئے ہوتی ہے سلوک فی اللہ۔

۳ ۔ ایک شئے ہوتی ہے سلوک من اللہ۔

اگر انساناس میدان معرفت میں چلنے لگا تو مالک ہوا۔ کچھ خدا تعالیٰ کی رحمت شامل حال ہوگئی ہادی بھی آملا تو منزل طے ہونے لگی۔

کتابوں میں مذکور ہے کہ بعض لوگوں کی نماز ایسی تھی بعض کی ایسی تھی۔ آپ نہ سمجھیں کہ غلطی ہوگئی یا زیادتی کر رہا ہوں۔

لیکن ایسے بڑے اور اچھے لوگ بھی تھے کہ عشاء کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جب نماز کا سلام پھر چکا‘ نمازیوں کی طرف منہ کیا اور دریافت کیا ”کیا نماز ہوگئی“؟ ”کیا نماز ٹھیک پڑھا دی“؟ سب نے کہا ہو تو گئی لیکن خیر ہے؟ اس بزرگ نے فرمایا کہ جب نماز شروع کی گئی تھی اتفاق سے قافلہ تجارت یمن سے آ رہا تھا۔دیکھتا ہوں کہ مال تجارت آنپہنچا ہے‘ ہم بازار میں کھڑے ہیں اور کہ رہے ہیں یہ چیز لیں وہ مال خرید لیں کہ اتنے ہیں اُدھر مال تجارت ختم ہوگیا اور ادھر نماز ختم ہوگئی۔

میں پھر یقین دلاتا ہوں کہ آپ نہ سمجھائیگا کہ یہ بنا دلیل بات عرض کر رہا ہوں۔بلکہ یہ واقعہ ہے جو کوئی صاحب دیکھنا چاہیں تو کتاب میں دکھایا جا سکتا ہے۔

تو آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ایک وہ نمازی ہیں کہ ادھر نماز؛ شروع کی اور ادھر اللہ اکبر کے بعد سوائے تجارت کاروبار وغیرہ کچھ دیگر خیال ہی نہیں آتا۔

پس ایسی نماز والے کیا جانیں کہ منزل دوم والوں کی نماز کیا ہے؟ اور منزل دوم والے کیا جانیں کہ منزل سوم کی نماز کیا ہے؟ اور منزل سوم والے کیا جانیں کہ منزل چھارم کی نماز کیا ہے؟ اور منزل چھارم والے کیا جانیں کہ منزل پنجم کی نماز کیا ہے؟اور منزل پنجم والے کیا جانیں کہ منزل ششم کی نماز کیا ہے؟اور منزل ششم والے کیا جانیں کہ منزل ہفتم کی نماز کیا ہے؟

الغرض پہلی منز ل والوں کو اگلی منزل والوں کا کیا تصور ہو سکتا ہے؟

اس طرح ساتویں منزل کا آدمی چھٹی میں آ جائے تو اس لئے گناہ ہوگا اور گزر جائے گا اسے اس گناہ سے اتغفار کرتے کرتے اور یہ کہتے کہتے کہ”ربنا ظلمنا انفسنا وان لھم تغفرلنا و ترحمنا لنکونن من الخا سرین“کہ پروردگار ہم اپنے نقسوں پر ظلم کر بیٹھے اگر تو مغفرت نہ کرے گا یا رحمت نہ نازل فرمائے گا تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

یہ منزل کب طے ہوتی ہے؟اس وقت انسان اس منزل کو طہ کرتا ہے جب خدا تعالیٰ کی رحمت شامل حال ہوتی ہے اور اسے حقیقی راہنما مل جاتا ہے‘اس دامن سے لپٹ جاتا ہے۔اس کی بحثت میں مٹتا چلا جاتا ہے اس مقام پر اس ھاری کا نام”صراط مستقیم“ہو جاتا ہے اور یہ ہای وہ سیدھا ارستہ ہے جسج پر پڑ جانے سے پھر بھی پھٹکنے کی صورت پیدا ہو سکتی ہے ؟ کبھی تھیں ۔

غور فرمائیں ایک سیدھی سڑک ہے جو راولپنڈی جا رہی ہے کیا اس پر جانے والے کو کبھی غلطی لگے گی ؟ دوڑ اس میں نہیں ۔ اونچائی نیچائی اس میں نہیں ؟ اگر سچے ھادی تک انسان پہنچ گیا تو یہ ہی ہے وہ ” صراط مستقیم “ جس کے ذریعہ خدا تک ضرور پہنچ گیا ۔

اور یہ ھادی جو ” صراط مستقیم “ ہیں کون ہیں ؟ درحقیقت وہ ہیں جن کا نام نامی محمد مصطفی ہے۔اب جوانن تک پہنچ گیا اس خدا مل گیا۔

اب سوال یہ ہے کہ آیا وہ مل بھی گئے یا نہیں؟کہنے کو تو سبھی کہتے ہیں کہ ہم سبھی کو ملہ گئے۔اگر یہ درست ہے تو رسول اللہ نے کیوں فرمایا تھا کہ میری امت میں میرے فرقے ہو جائیں گے۔پس ضروری ہوا کہ اس شبہ کو دور کرنے کے لئے کوئی شے ہو جس سے معلوم ہو جائے کہ ان فرقوں میں سے ”ناجی“ یا بہشت جانے والا کون سا فرقہ ہوگا؟

آیئے! رسول خدا سے معلوم کریں کہ آپ نے خود تک پہنچے کے لیے راستے میں کون سی منزل یا ذریعہ بتایا جس کے متعلق ارشاد فرمایا: کہ جو اس ذریعہ تک جا پہنچا تو وہ مجھ تک جا پہنچا یا جس کو وہ مل گیا اسے میں مل گیا۔

ممکن ہے کوئی اس ذریعہ کو کسی اور طرح سے بتائے لیکن ارشاد نبوی جو متفق علیہ ہے وہ یہ ہے کہ فرمایا: انا مدینة العلم و علی بابھا کہ میں علم حق کا شہر ہوں اور علی اس شہر کا دروازہ ہیں۔ کہ وہ ذریعہ جناب امیر المومنین علی ہیں۔ جو آدمی اس دروازہ پر آگیا وہ شہر میں آپہنچا۔ جو ان سے مل گیا اسے رسول مل گئے اور جسے رسول مل گئے اسے خدا مل گیا اور اگر رلی نہ ملے تو کہتا ہی رہے گا لیکن اسے نہ رسول ملیں گے نہ خدا ہی مل سکے گا۔

پس یہ ہی ہیں وہ صراط مستقیم اور یہاں سے وہ منزل شروع ہوتی ہے جسے سلوک الی اللہ کہتے ہیں۔

افسوس وقت تھوڑا رہ گیا۔ میں بعض باتیں عرض کرناچاہتا تھا۔ الحمد للہ آپ سید الشھداء کی برکت سے متوجہ بھی ہیں۔

اب گویا وہ منزل ہے کہ مالک خدا کی طرف جا رہا ہے صفات انہیں منعکس ہوتی ہیں ان کا جلوہ ی اپر تو اس پر پڑنے لگتا ہے کہ وہ پہچاننے لگتا ہے کہ اللہ اکبر وہ ایسا حکم ہے غیر خدا ایسا علم ہے۔

پس صراط مستقیم کے بعدیہ علم ہوتا ہے کہ وہ ایسی حکمتوں والا ہے۔ افسوس منزل اس قدر سخت اور کٹھن ہے کہ اس میں میں خودبھی کبھی نہ پہنچا۔ کیا کہوں گا ابھی منزل توحید بہت دور ہے۔ اس لیے کہ جب تک آپ اسے حکیم‘ علیم‘ رب‘ رحمن رحیم وغیرہ کہہ کر جائیں گے تو اس میں صفات کی کثرتیں نظر آئیں گی۔

جب آپ یہ منزل طے کرلیں گے تو پھر اس منزل میں قدم رکھیں گے جس کا نام ہے ”سلوک فی اللہ“ اور یہ وہ مقام ہے جہاں صفات ذات واحد فناہ ہیں۔ اب وہ صرف ذات کو دیکھتا ہے جو کمال ہی کمال ہے جہاں تمام صفات کی نفی ہو جاتی ہے اور توحید کا وہ مرتبہ آتا ہے جسے توحید حقیقی کہنا چاہیے۔

اسی طرف اشارہ فرماتے ہوئے امیر المومنین نے ارشاد فرمایا: ”اول الدین معرفة امیر المومنین

وکمال المعرفة توحید

و کمال توحیده التصدیق به

و کمال التصدیق الاخلاص له

وکمال الاخلاص نفی الصفات له

و شهادة کل صفة انها غیر موصوف

و شهادة کل صفة انه غیر صفة

کہ سب سے پہلا زینہ خدا کی معرفت کا معرفت ہے جناب امیر المومنین کی اور یہی دین کی ابتدا یا اول ہیں اور کمال معرفت توحید ہے اور کمال توحید اس کے ساتھ تصدیق کرنا ہے اورکمال تصدیق یہ ہے کہ اس کے لیے خالص ہو جائے اور کمال اخلاص یہ ہے کہ اسکے لیے صفات کی نفی کرلی جائے اور ہر موصوف کہتا ہے کہ صفت اور ہے اور میں اور ہوں اور وہ چیز جو باقی رہ گئی وہ ذات ہے اس میں کوئی الگ صفت نہیں وہ عین صفت ہے۔

یہ ہے وہ منزل کہ جس کو ساتویں منزل کہا جاتا ہے اس کے بعد مقام تفریق سے مالک نکل کر مقام جمع میں پہنچتا ہے۔

بہرحال اب میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں خدا کے لیے انصاف کے ساتھ مجِھے نہیں بلکہ اپنے دل کو جواب دیں۔ اس لیے کہ میرے سوال کے ساتھ ہی آپ کا دل سوال کرے گا۔

کہ پہلی منزل میں جس طرح استاد کی ضرورت تھی‘ اسی طرح پہلی منزل والے دوسری منزل میں پہنچنے کے لیے ہادی کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اسی طرح دوسری منزل والے کو تیسری منزل پر جانے کے لیے استاد کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اسی طرح چوتھی منزل میں پہنچنے کے لیے تیسری منزل والے کو کسی راہنما کی ضرورت ہے یا نہیں؟

اسی طرح پانچویں منزل میں پہنچنے کے لیے چوتھی منزل والے کو کسی ہادی کی ضرورت ہے یا نہیں؟

اسی طرح چھٹی منزل میں پہنچنے کے لیے پانچویں منزل والے کو کسی مرشد کی ضرورت ہے یا نہیں؟

علی ہذا القیاس اگلی منزل میں پہنچنے کے لیے پہلی منزل والے کو ہدایت کرنے والے کی ضرورت ہے یا نہیں؟

آپ کا دل خود بخود جواب دے گا کہ جب تک ہادی نہ ہوگا پہلی منزل والے کے لیے اگلی منزل میں پہنچنا نا ممکن ہے۔

اب ہادی کون ہوگا؟ ہادی وہ ہوگا جو تمام پہلی اور اگلی منزلوں کو طے کرچکا ہو اور وہ جو پہلی منزل ہی طے نہ کرسکا ہو وہ کیسے اور کس طرح راہنما بن سکتا ہے؟

پھر ہر شخص کی منزلیں ”تکلیف“ کے اعتبار سے مختلف ہوں گی‘ پس ہادی وہ ہوگا جو یہاں آکر منزلیں طے نہ کرے بلکہ ادھر سے تمام منزلیں طے کرکے آیا ہو۔

اور وہ وہی ہوگا جو ان واحد کے لیے بھی خدا تعالیٰ سے کبھی منحرف نہ ہوا ہو اور پیدا ہوتے ہی وہ وحدانیت کا اقرار کر رہا ہو۔ وہ تمام منزلیں گویا شکم مادر سے ہی طے کرکے آیا ہوگا۔ جو پیدا ہوتے ہی رسول اللہ کے ہاتھ میں آیا اور حضور سے عرض کیا کچھ پڑھوں یا رسول اللہ اجازت ہے؟

آنحضرت نے فرمایا: ہاں یا علی؟ پڑھو!

آپ نے تورات پڑھنی شروع کردی۔ پھر انجیل پڑھنی شروع کردی۔ پھر قرآن کی سورہ مومنین پڑھنے لگے۔

آنحضرت نے فرمایا: موسیٰ ہوتے تو کہتے کہ علی نے مجھ سے بہتر تورات پڑھی۔ عیسیٰ ہوتے تو کہتے کہ علی نے مجھ سے بہتر انجیل پڑھی۔

پس واضح ہوا کہ اگر ہم کو (حضور کو) پہنچنا ہے تو تلاش کرو ہادی کو اور وہ کون ہیں جو ملیں گے؟ وہ ہی ہیں جو ”آیت تطھیر“ والے ہیں اور ”آیت تطھیر“ والے وہ ہیں جو فرشتوں کے تصور سے بھی بلند مرتبہ ہیں اس لیے کہ وہ سب کے سب ان کی منزل سے نیچے ہیں۔

اب خداوند عالم انسان کی تربیت کرتاہے تاکہ وہ دین اللہ کو پہنچانے اوراس تک پہنچ جائے۔

پس دین اللہ کی تعلیم کے لیے خدا تعالیٰ کی تربیت کی دو قسمیں ہیں:

۱ ۔ تربیت اضطراری ۲ ۔ تربیت اختیاری۔

۱ ۔ تربیت اضطراری وہ ہے جیسے کسی کو فقیر کو بنادیا‘ اس کا کوئی گناہ نہ تھا جس کے سبب اسے فقیر بنا دیا اور اس نے کوئی احسان نہ کیا تھا خدا پر جس کے سبب اسے مالدار بنا دیا گیا۔

۲ ۔ تربیت اختیاری۔ اس سے مراد اصول دین اور فروع دین کا ماننا اور ان پر عمل کرنا۔

اصول دین کیا ہیں؟ جو حقیقت میں چار ہی ہیںٍ۔ لیکن بچوں کے پڑھانے کے لیے پانچ ہیں۔

۱ ۔ توحید

۲ ۔ نبوت یا رسالت

۳ ۔ امامت

۴ ۔ قیامت

اور پانچواں عدالت کدھر گیا؟ تو عرض یہ ہے کہ بلاشبہ عدل کو شامل کرکے ہم اصول دین کو پانچ ہی کہتے ہیں اور اصل یہ ہے کہ عدل خدا تعالیٰ کی صفت ہے‘ جس طرح وہ عالم ہے۔ اسی طرح وہ عادل ہے‘ تو جب علم کو اصول میں داخل نہیں کیا اسی لیے عدل کو بھی اصول میں داخل نہ کیا۔

اور چونکہ رسول اللہ کے بعد لوگوں نے کہنا شروع کردیا تھا کہ عدل ضروری تھا‘ اس لیے کہ ہوسکتا ہے کہ خدا ایک کمینے‘ ذلیل انسان کو جنت میں بھیج دے اسی طرح یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک نیک نبی کو وہ جہنم میں ڈال دے۔ پس علی و امامیہ نے ”عدل“ کو اصول دین میں شامل کردیا تاکہ انسان بچپن سے ہی سمجھ لے کہ ”عدل“ لازمی ہوگا‘ برے کام کئے تو پکڑا جائے گا اور اچھے عمل کئے تو ضرور نیکی کا بدلہ ملے گا۔

حضرات تفصیل ان اصول کی انشاء اللہ کل آپ کے سامنے پیش کردوں گا۔ آپ خوب سمجھ جائیں گے اب میرے بیان کی آج کے لیے منزل ختم ہوتی ہے تاکہ عرض کروں کہ حضرات اہل بیت کس منزل میں تھے؟

میں نے کہا تھا کہ کسی کاحال معلوم کرنا ہو تو اس کے دوستوں کو دیکھنا چاہیے۔ اگر دوست شراب خوار ہے سمجھ لینا کہ وہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ اگر دوست کوصبح سے شام تک عبادت سے ہی فرصت نہیں ملتی تو یقیناً وہ بھی عبادت گذار ہی ہوگا۔

امیر المومنین کے ایک خاص اصحابی کا ذکر عرض کرتا ہوں جس کا نام اویس قرنی ہے اور کل بھی ان کا ذکر کیا تھا۔ غلام امیر کو ملاحظہ کرلیں اور اس سے اندازہ لگا لیں کہ آقا کس شان اور مرتبہ کا مالک ہوگا۔

اویس قرنی کون تھے؟ ممکن ہے آپ حضرات میں کچھ نئے لوگ آج آئے ہوں اس لیے عرض کرتا ہو ں کہ یہ وہ ہیں جو جنگ صفین میں نصرت علی ابن ابی طالب میں شہید ہوئے۔

کس سے لڑ رہ تھے علی؟ یا درکھو! اس سے لڑ رہے تھے جو قاتل ہے ”اویس قرنی“ کا۔ پس جو ”اویس قرنی“ کا قاتل ہو سوچ سمجِھ کر اس سے محبت کرنا‘ وہ محبت کے لائق نہیں ہے اس لیے کہ مولا علی نے اس سے جنگ کی تھی۔

یہ جنگ ہو رہی تھی کہ ایک شخص حاضر ہوا‘ امیر المومنین کی فوج کی طرف اور آتے ہی سوال کیا ھل فیکم اویس قرن؟

ادھر کے لوگوں نے جواب دیا: ہاں دیکھو وہ موجود ہیں۔

اس آدمی نے کہا بس اب یہاں یہ ٹھہرونگا اور اسی فوج کے ہمراہ لڑوں گا۔

کہا گیا کیا سبب‘ کس لیے ایسا کرے گا؟

کہنے لگا: رسول خدا سے خود اپنے کانوں کے ساتھ سنا‘ میں نے کہ آپ نے فرمایا: کہ اویس قرنی کل میدان محشر میں اتنے لوگوں کی شفاعت کریں گے کہ جس قدر قبیلہ ربیعہ اور مضر کے لوگ ہوں گے۔ پس یہی سبب ہے جو امید لے کر آیا ہوں کہ کل میری شفاعت بھی وہ فرما دیں گے۔

آج آپ حضرات کے سامنے ایک اور اصحابی جناب امیر کو پیش کرتا ہوں جن کا نام ”سلمان فارسی“ ہے۔ یہ وہ نام ہے جس سے دل کے خون میں حرکت تیز ہو جاتی ہے۔

سالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو کچھ جناب سلمان فارسی کے بارے میں فرمایا کہ کم از کم اس قدر آپ ضرور یاد رکھیں کہ

۱ ۔ حضور نے فرمایا السلمان منا اھل البیت کہ سلمان فارسی ہم اہل بیت میں سے ہے۔

۲ ۔ آپ کو مداین میں بھیج دیا گیا تھا۔ جناب امیر مدینے میں تھے ۳۶ ھ میں مداین ہی میں آپ کا انتقال ہوگیا۔ امیر المومنین نے عشاء کی نماز پڑھی اور فرمایا ”سلمان“ کا انتقال ہوگیا۔ کہا گیا ”کفن دفن کون کرے گا؟“

ارشاد فرمایا: سلمان کا کفن میں خود جا کر کروں گا۔

چنانچہ ٹھیک صبح مداین پہنچے‘ غسل دیا۔

اور روایت ہے کہ جناب امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ آپ سلمان فارسی کی اتنی تعریف کرتے ہیں۔ فرمایا ہاں اس کو سلما ن فارسی نہ کہو بلکہ سلمان محمدی کہو۔ سبحان اللہ!

الغرض جناب امیر المومنین علی علیہ السلام نے غسل دیا‘ تو لوگوں نے کفن اٹھا کر دیکھا کہ سلمان مسکرا رہے ہیں۔ تو امیر علیہ السلام نے فرمایا: جب رسول اللہ کی خدمت میں جاؤ گے تو کہ دینا کہ آقا تمہاری امت نے ہمارے ساتھ کس قدر برا سلوک کیا۔

مداین کے لوگ حیران تھے‘ انہوں نے پوچھا کہ سلمان کے جنازہ کی نماز کس نے پڑھائی؟

لوگوں نے کہا ہم نے تو جناب علی علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھی اور وہی تھے جو ان کی نماز جنازہ پڑھا گئے ہیں۔

اب سوالات کی بوچھاڑ ہونے لگی کوئی کہہ رہا تھا کہ علی تو مدینے میں ہیں یہا ں کیسے جنازہ کی نماز پڑھا گئے اور کوئی کہہ رہے تھِے کہ ہم یہ نہیں جانتے ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جناب علی علیہ السلام تشریف لائے غسل دیا اور نماز جنازہ بھی پڑھا کہ چلے گئے۔

یہ تھے وہ لوگ جو جناب امیر علیہ السلام کے ساتھی یا اصحابی تھے یا دوسرے الفاظ میں علی کے در کے غلام تھے۔

۳ ۔ رسالت مآب نے ایک او رموقعہ پر ارشاد فرمایا ”سلمان عالم من علم و البلایا“ کہ جناب سلمان موتوں کے علم کے ماہر نہیں اور بلاؤں کے نزول کے علوم کے عالم ہیں۔

سبحان اللہ! غلام علی کا یہ مقام ہے تو آقا ان کے کیسے ہوں گے اور کس مرتبہ والے ہوں گے؟

ایک اور اصحابی جناب امیر کے ابوذر ہیں‘ حاضرین! میں خدا کے وحدہ لا شریک لہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اہل اسلام کی کتابوں می موجود ہے کہ طبقات ابن سعد دیکھ لیجئے۔ وہاں آپ کا قول درج ہے۔

صلیت قبل ان یبعث نبی ثلاث سنین کہ ابھی رسول اللہ مبعوث نہ ہوئے تھے میں آپ کی بعثت سے ۳ سال پہلے بھی نماز پڑھا کرتا تھا۔

حضور کی بعثت سے پہلے دنیا گمراہی میں مبتلا تھی لیکن جناب ابوذر کے تزکیہ نفس کی کیفیت یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کے ظہور سے ۳ سال پہلے آپ لا الہ الا اللہ پڑھ چکے تھے۔ لوگوں نے دریافت کیا آپ کدھر منہ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے؟

فرمایا: مجھے یہ پتہ نہیں‘ البتہ جدھر میرا منہ ہوتا تھا ادھر ہی منہ کرکے نماز پڑھ لیتا تھا۔

اگر کوئی معترض معاذ اللہ یہ کہے کہ آپ نے جھوٹ کہا تو ایسا نہیں ہوسکتا کہ ابوذر کو جھوٹا کہا جاسکتے جن کے حق میں سچوں کے آقا رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم خود فیصلہ فرماگئے۔

کہ زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے تمام لوگوں سے زیادہ سچے ابوذر غفاری ہیں۔

اللہ! اللہ! یہی ابوذر تھے جن کو پٹوایا گیا‘ آپ کے جوش ایمان کا یہ حال تھا کہ کسی غیر شرع معاملہ کو دیکھنے کے بعد خاموش رہ تھیں سکتے تھے۔ خواہ حکومت وقت سے ہی وہ معاملہ ظہور پذیر ہوا ہو۔ تاآنکہ حکومت کے حکم سے آپ کو زد وکوب کرایا گیا‘ اسی وقت آپ کو آنت کے اتر جانے کا عارضہ پیدا ہوگیا۔ آخر اسی پر اکتفا نہ کیا گیا۔ دنیا جانتی ہے کہ انہیں حکم پہنچتا ہے کہ اس ملک مدینہ کو چھوڑ دو اور پوچھا گیا کہ کہاں جانا چاہتے ہوں؟

فرمایا: مکے بھیج دو۔

کہا گیا: مکہ نہیں جاسکتے‘ اور بتاؤ؟

فرمایا: پھر مصر بھیج دو۔

کہا گیا: نہیں اور کوئی جگہ بتاؤ؟

فرمایا: پھر بصرے بھیج دو۔

کہا گیا: نہیں‘ بصرے بھی نہیں جاسکتے کوئی اور جگہ بتاؤ؟

فرمایا: پھر جہاں تمہاری مرضی ہو بھیج دو۔

کہا گیا: جاؤ تمہارے لیے شام کی ربضہ جگہ ہے جس کی تمام برائیاں کیا کرتے تھے‘ جہاں تمہار کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔

فرمایا: میرے نبی نے بالکل سچ فرمایا۔ میں پہلی ہی سے جانتا تھا۔ آقا نے فرمایا تھا یا اباذر! تحیا وحدة‘ تحوت وحدة و تبعث وحدة کہ ابوذر تو زندہ بھی تنہا رہے گا۔ مرے گا بھی تنہا اور اٹھے گا بھی تنہا۔

کہا گیا: پھر یہ مکہ‘ بصر‘ مصر کس لیے کہتے رہے؟

فرمایا: تاکہ جان لے کہ تم جو کچھ پوچھ رہے تھے غلط پوچھ رہ تھے۔

پس اس پاک ہستی کو ظالموں نے اونٹ پر سوار کیا اور تاکید کردی گئی کہ جو کوئی ابوذر سے بات بھی کرے گا اسے سزا ملے گی۔

دوسرے دن جناب امیر علی علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام سے فرمایا: بیٹا چلو چچا ابوذر کو شہر سے باہر پہنچا آؤ۔

آپ جب باہر پہنچے چیخیں مار مار کر رونے لگے کہ یا مولا آپ کے دیدار اور محبت سے علیحدہ ہو گیا۔

فرمایا: ابوذر غم نہ کرو‘ چند روزہ زندگی ہے‘ گذر جائے گی۔ رسول خدا منع نہ کرتے آج اس طرح نہ نکالے جاتے۔

ربضہ پہنچے‘ بیٹی ساتھ تھی وہاں کی آب و ہوا ناموافق طبع تھی‘ بیمار ہوگئے‘ سب سے تنہا ہیں صرف ایک بیٹی تیمار دار ہے۔ ایک شخص مسافر قریب سے گذرا۔ آکر پہچان لیا عرض کیا: حضور کے آپ اصحابی ابوذر ہیں حکم دیجئے کہ طبیب کو لے آؤں!

ارشاد فرمایا: الطبیب امرفنی کہ طبیب نے ہی تو بیمار کیا ہے۔

بیٹی کی پریشانیاں بڑھ گئیں۔

اولاد والو! غور کرو۔ ابوذر کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ ایک وقت وہ آپہنچا‘ عالم تنہائی اور غربت ہے۔ آپ بستر مرض پر پڑے ہیں۔ بیٹی سر کے پاس بیٹھی ہے۔ باپ کی حالت مایوسانہ نگاہوں کے ساتھ دیکھ رہی ہے۔ جب آنکھیں بند ہوگئیں‘ بیٹی نے رونا شروع کیا۔ گرم آنسو ابوذر کے چہرے پر پڑے آنکھیں کھول دیں فرمایا: بیٹی کیوں رو رہی ہو؟

عرض کیا: ابا جان! اس لیے رو رہی ہوں کہ اکیلی ہوں خدانخواستہ آپ اٹھ گئے تو اکیلی کس طرح سے دفن کروں گی؟ غسل کس طرح کراؤنگی؟ دفن کیسے کروں گی؟

فرمایا: بیٹی! گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ میرے آقا خود فرماگئے ہیں کہ

ابوذر! تیرے آخری وقت ایک قافلہ آئے گا اور تجھے دفن کر دے گا۔

پس بیٹی! جب روح نکل جائے تو جسم پر چادر ڈال دینا اور راستے پر جا کھڑی ہونا۔ سامنے سے قافلہ آئے گا انہیں کہ دینا قافلہ والو! ابوذر دنیا سے اٹھ گئے ان کا انتقال ہوچکا۔

بیٹی رونے لگی۔ ابوذر کی روح نے پرواز ی۔ چادر آپ پر ڈال دی گئی اور بیٹی راستے کے کنارے جا کھڑی ہوئی۔ چادر سے منہ کو چھپائے ایک طرف کھڑی تھی کہ ایک طرف سے گرد اٹھی۔ دیکھا کہ سامنے سے قافلہ آرہا ہے۔ گد بیٹھ چکی تھی۔ قافلہ کا سردار جناب امیر علی علیہ السلام کے حقیقی غلام جناب مالک بن اشتر تھے۔ جن کے لیے جناب امیر علی علیہ السلام فرمایا کرتے تھے:

جیسے میں (یعنی علی) رسول اللہ کے لیے تھا۔ مالک اسی طرح میرے لیے تھے۔

سردار قافلہ جناب مالک کی اچانک نظر اٹھی دیکھا کہ ایک عورت چادر میں لپٹی کھڑی ہے۔ ایک شخص سے کہا آگے جا کر دریافت کرو‘ کیوں کھڑی ہے؟ یہ پردہ دار عورت ہے منہ کو چھپائے ہوِئے ہے۔ ہم سب اس کی امداد کے لیے جائیں گے۔ کوئی حاجت مند معلوم ہوتی ہے پوچِھو اسے کیا حاجت ہے؟

کہا گیا بی بی! کیوں کھڑی ہے؟ کچھ حاجت رکھتی ہے؟

فرمایا: مجھے قافلہ کے سردار سے کام ہے اس قافلہ کا سردار کون ہے؟

کہا گیا مالک اشتر

فرمایا: ان ہی کو بھیج دے۔ ان ہی سے کہوں گی۔ مالک قریب پہنچے۔ کہا کس لیے بلایا ہے؟

ابوذر کی بیٹی نے کہا چچا! مالک! آپ کے بھائی ابوذر دنیا سے اٹھ گئے‘ ان کی لاش بے گور و کفن میدان میں پڑی ہے‘ میں ان کی بیٹی ہوں۔

مالک نے یہ سنا‘ چیخ نکل گئی اور ہوش آنے پر پکارا قافلہ والو! ابوذر اصحابی رسول اللہ کا انتقال ہوگیا ہے۔

لاش کے قریب پہنچے سب نے فریاد کی لاش پر خوب روئے۔ حکم دیا کہ وہ کفن جو اپنے لیے رکھا تھا بھائی ابوذر کے لیے لے آؤ۔

غسل دیا‘ کفن میں لپیٹا! سب قافلے نے ملکر نماز جنازہ ادا کی۔ بڑے انتظام سے ابوذر دفن کئے گئے۔

ابوذر کی بیٹی کو باپ کے مرنے کی تکلیف ضرور ہوئی مگر یہ انتظام اور ہمدردان والد دیکھ کر گونہ تسلی ہوئی۔

لیکن افسوس صد افسوس! ہائے سکینہ! حسین کی بیٹی سکینہ‘ ہائے حسین کی بہن زینب! تہاری تسلی کے لیے تو کوئی انتظام تھا نہ کوئی ہمدرد و غمگسار تھا۔ اگر مہلت مل جاتی تو سکینہ کس جگہ اور کس براستہ پر کھڑی ہو کر پکار کرکہتی۔

لوگو! میرا باپ وفات پاگیا باپ کی لاش تنہا پڑی رہ گئی اور اس کے تمام ساتھیوں اور عزیزوں کی بے گور و کفن لاشیں خون سے لتھڑی رہ گئیں اور کوئی بھی پرسان حال نہیں جو ان لاشوں کو سنبھال سکے۔

عزا دارو! زبان کیا ذکر کرے اور جگر کس طرح برداشت کرسکے! جب ابوذر کی لاش کو مالک دفن کرچکے تو آپ نے کہا یہ قافلہ مدینہ کی طرف جرہا ہے ایک ھورج تیا رکیا جائے اس پر پردے باندھے جائیں۔

ھورج جب تیار ہوچکی مالک نے ابوذر کی بیٹی سے کہا بیٹی! بیٹھ جاؤ۔

بڑے انتظام کے ساتھ لے گئے۔ بحفاظت تمام مولا علی علیہ السلام کی خدمت میں لے آئے اور عرض کیا گیا۔

یا مولا علی! ابوذر کی بیٹی کو لایا ہوں!

مولا علی نے سر پر ہاتھ رکھا اور تسلی دی بیٹی! ہرگز نہ گھبرانا۔ آج اگرچہ ابوذر نہیں لیکن ان کی جگہ علی موجود ہے۔

ساتھ لے گئے‘ گھر میں داخل ہوئے فرمایا اے زینب اورکلثوم! تمہاری بہن آئی ہے۔ ذرا اس کے استقبال کے لیے آؤ۔

اللہ! اللہ! یا مولا علی! یتیموں کے ساتھ آپ سلوک یہ تھا۔ لیکن اس کا بدلہ آپ کو کیا ملا؟ سکینہ کا نہ استقبال کیا گیا او رنہ اس کے سر پر کسی نے دست شفقت پھیرا بلکہ کیا تو یہ کہ اس کے نازنین چہرے پر طمانچے مارے گئے۔ فریاد! فریاد! دوہائی حسین بر غربت آل حسین انا للہ و نان الیہ راجعون۔