• ابتداء
  • پچھلا
  • 13 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20097 / ڈاؤنلوڈ: 4619
سائز سائز سائز
مجالس حافظ کفایت حسین

مجالس حافظ کفایت حسین

مؤلف:
اردو

مجلس پنجم :

بتاریخ ۵ محرم الحرام ۳۷۰ ھ

( أَ فَغَیْرِ دِیْنِ اللّٰهِ یَبْغُونَ وَ لَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِيْ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ طَوْعًا وَ کَرْهًا وَإِلَیْهِِ یُرْجَعُونَ ) ۔ ( آل عمران : ۸۳ )

ارشاد جناب باری تعالیٰ عزاسمہ ہے کہ لوگ کیا اللہ کے دین کے سوا اور کسی چیز کو چاہیے ہیں؟ حالانکہ اس اللہ کے لیے ہی آسمانوں اور زمین کے باشندے اپنے سروں کو جھکائے ہوئے ہیں‘ خوشی سے یا نا حوشی یعنی جبر و اکراہ سے اور اسی کی طرف باز گشت ہوگی۔

حضرات! کل میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ دین اللہ جو ہے وہ حقیقت میں ایک تربیت ہے خداوند تعالیٰ کی طرف سے انسان کی۔

اوراس تربیت کا فائدہ صرف انسان ہی کو پہنچتا ہے۔ یعنی کہ اپنی حیثیت کے موافق اس کی قابلیت کے اعتبار سے وہ کامل ہوتا ہے اور پروردگار عالم چاہتا ہے کہ جہاں تک انسان اپنے کمال کو پہنچ سکتا ہے وہاں تک اسے پہنچا دیا جائے۔

یہ تربیت جو پروردگار عالم کی طرف سے ہوتی ہے اس کی دو قسمیں ہیں۔ ۱) اضطراری‘ ۲) اختیاری

ایک تربیت تو وہ ہے جس کے ماتحت کسی کو مالدار بناتا ہے کسی کو فقیر بناتا ہے یعنی مفلس کردیتا ہے یا کبھی کسی کو مریض بناتا ہے کسی کو صحیح رکھتا ہے یہ بھی در حقیقت ایک قسم کی تربیت ہوتی ہے جو خداوند عالم فرماتا ہے۔

آپ حکیموں کو دیکھیے۔ کبھی مریض کو اس قسم کی دوائی دی جاتی ہے جو ذہان کو اچھی معلوم نہیں ہوتی یعنی کڑوی ہوتی ہے لیکن اس کا نتیجہ چونکہ اچھا ہوتا ہے لہذا طبیب اس دوائی کو استعمال کراتا ہے ہاں میں یہ نہیں کہتا کہ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے البتہ کبھی ایسا ہوتا ہے۔

ٹھیک اسی طرح خداوند تعالیٰ اپنے بندوں کو ایسی چیزوں سے آزماتا ہے کہ جو انسان کو بہ ظاہر اچھی نہیں معلوم ہوتیں۔

چنانچہ ارشاد فرمایا:( و لنبلو نکم بشی من الخوف و الجوع و نقص من الاموال و الانفس و الثمرات و بشر الصبرین الدین اذا اصابتهم مصیبته قالوا انا لله و انا الیه راجعون )

کہ ہم ضرور تمہیں ایمان والو! آزمائیں گے کبھی خوف سے کبھی بھوک سے کبھی مالوں میں نقصان کردینے سے ‘ کبھی جانوں کے نقصان کے ذریعے سے کبھی پھلوں میں نقصان کردینے کے ذریعے سے لیکن جو آزمائش میں صابرین ہوتے ہیں ان کو خوشخبری دیجیئے کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ انا للہ و انا الیہ راجعون کہتے ہیں۔

امیر المومنین علی نے اس آیت کے ذیل میں ارشاد فرمایا:انا لله دلیل علی ملکه تعالیٰ و انا الیه راجعون دلیل علی هلاک الانسان کہ پہلا فقرہ انا للہ دلیل ہے اس امر پر کہ ہم کہتے ہیں کہ الہی تو ہمارا مالک ہے۔

پس ثابت ہوا کہ ہم مملوک ہوئے اور وہ مالک ہوا اور جب ہم ملوک ہوئے تو غلام کے لیے وہ ہی مناسب ہے جو آقا کا منشاء ہو۔ اس لیے وہ کہتا ہے کہ ہم تیرے لیے ہی ہیں۔

اور دوسرے فقرہ میں دلیل اس امر کی ہے کہ انسان اقرار کرتا ہے کہ ہم ہلاک ہونے والے ہیں اور اس کو ان الفاظ سے ادا کرتا ہے کہ ہم تیری ہی طرف لوٹنے والے ہیں۔

پس مصیبت کے وقت یہ دو نوں چیزیں صبر سکھلاتی ہیں۔ اول یہ کہ وہ مالک ہے تو مالک کبھی ظلم نہ کریگا اس لیے کہ وہ حکیم ہے۔ دوم یہ کہ اس کی طرف ہی بازگشت ہے اور جب یہ ہے تو پھر جو کچھ ہو رہا ہے اس کی منشاء کے مطابس ہو رہا ہے لہذا وہ بالکل ٹھیک ہو رہا ہے۔

اسی لیے پروردگار عالم نے فرمایا ولنبلونکم کہ ہم آزمائش کرتے ہیں۔

او رجہاں تک میرے بزرگو! میں سمجھا ہوں یہ آزمائش مومنین کے ساتھ مخصوص ہے یہ مصائب آتے ہیں۔ قسم قسم کی بیماریاں آتی ہیں ان کا کبھی تو کوئی مادی سبب ہوتا ہے لیکن کبھی یہ انتقامی حیثیت سے آتی ہیں مثلاً کسی کو کسی نے ناحق سنایا ہے۔ اس کی فریاد یا دعا باب اجابت تک پہنچ گئی لہذا مظلوم کا دل ٹھنڈا کرنے کے لیے قدرت کے حکم سے اسے ابتلاء میں ڈالا یا تکلیف میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔

اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ امتحان کے لیے اسے متبلا کردیا جاتا ہے۔ پروردگار عالم کسی کا امتحان لیتے ہیں لہذا اسے آزمائش میں ڈالتے ہیں تاکہ اس کی سمجھ میں آجائے کہ جو کچھ انسان سمجھ رہاہے وہ نہیں ہے بلکہ حقیقت اور ہے۔

مثلاً ایک شخص جھاد کے لیے لوگوں کو بلاتا ہے کہ لوگو! گھروں سے نکلو اور میدان جنگ میں آکر جان دے دو۔ گویا وہ سمجھ رہاہوتا ہے۔کہ میں لڑوں گا اور پائے ثبات سے لڑوں گا اور خدائی بارگاہ میں بڑی قدر ہوگی۔ تو پروردگار عالم کہتا ہے اچھا آؤ میدان میں‘ وہاں معلوم ہو جائے گا کہ کون ہے جو ایمان میں کامل ہے اور سچائی کے ساتھ جان دیتا ہے اور کون ہے جو منافق ہے اور جان دینے سے جی چراتا ہے۔

چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد فرمایا( و ماصابکم یوم التفی الجمعن فباذن الله و لیعلم الذین نافقوا ) کہ جس دن مسلمانوں اور کافروں کی دونوں جماعت آپس میں بھڑیں تھیں سو حکم الہی سے وہ ملی تھیں اور اس لیے انہیں ملایا گیا تھا کہ پتہ لگ جائے کہ آج مومن کون ہے اور منافق کون ہے؟

بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو وعدہ کرتے ہیں کہ اگر ضرورت پڑی تو ہم لڑیں گے۔ لیکن میدان جنگ کی مصیبتوں کو دیکھ کر ثابت قدم رہنا اور چیز ہے اور محض گھر میں بیٹھ کر خیال کا جمانا اور چیز ہے۔

پس بزرگو! میں یہ عرض کر رہا تھا کہ کبھی امتحان اس اعتبار سے ہوتا ہے۔

آپ آیت سن کر یہ اعتراض نہ کریں کہ وہ تو علیم ہے اور جانتا ہے پھر ضرورت کیا پڑتی ہے کہ معلوم کیا جائے کون منافق ہے او رکون مومن ہے؟ اس سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ ایسا کرنے سے خدا تعالیٰ کو پتہ چل جاتا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کو دھوکہ ہوتا ہے اور وہ دراصل جھوٹے ہوتے ہیں انہیں پتہ چل جاتا ہے کہ کن کا اقرار ایمان کے مطابق صحیح تھا اور کون منافقانہ طور پر وعدہ کررہے تھے پس مصائب میں مبتلا کرنے کی ایک حیثیت امتحان لیناہوتی ہے۔

اور دوسری حیثیت یہ ہے کہ پروردگار عالم چاہتا ہے کہ کسی کے درجات بلند کرے لہذا وہ کسی نہ کسی مصیبت میں ڈالتا ہے تاکہ انسان صبر کرے اور صبر کے سبب اس کے درجات بلند ہو جائیں۔

دربار رسالت میں ایک شخص آیا اور عرض کیا ”یارسول اللہ! میں خدا تعالیٰ کو دوست رکھتا ہوں۔ ارشاد فرمایا: اعد للفقر کہ تب فقیری یعنی محتاجی کے لیے تیار ہو جا۔ اس نے عرض کیا حضور! آپ کو بھی دوست رکھتا ہوں۔ حضور نے ارشاد فرمایا: اعد لبلاء کہ پھر بلاؤں کے لیے یعنی امتحان کے لیے تیار ہو جاؤ۔

میرے بزرگو! میں آپ کے سامنے واضح کررہاہوں کہ دین اللہ کا مطلب کیا ہے؟ ابھی اس کے معانی پیش کرنے باقی ہیں کہ وہ اصولی چیزیں دین اللہ میں کیا ہیں؟ جن کے متعلق پروردگار عالم فرماتا ہے کہ

افغیردین الله یبغون وله اسلم من فی السمٰوت والارض طوعا وکرهأوالیه یرجعون

کہ کیا پس سوائے دین اللہ کے کسی اور کو چاہتے ہیں۔ حالانکہ آسمانوں اور زمین کے باشندے اس کے سامنے اپنے سروں کو جھکائے ہوئے ہیں خوشی سے‘ یا جبرا وکراہ سے اور اسکی طرف سب کی بازگشت ہے۔

پس چاہتاہو ں کہ عرض کردوں کہ وہ دین اللہ کیا ہے؟ اور وہ خدا تعالیٰ کی تربیت ہے جس کے سبب چاہتا ہے کہ انسان کو کامل کردے۔

پروردگار کی تربیت کی دو قسمیں ہیں۔ ایک اضطراری جو انتقامی یا امتحانی حیثیت رکھتی ہے اور اس کا علاج دواؤں سے نہیں ہوسکتا جب تک کہ انتقام ختم نہ ہو جائے یا وہ تو نہ کرلے ایسی توبہ کہ جو قابل قبول ہو۔ اس وقت تک ہزار دوا کرلو کبھی فائدہ نہ ہوگا جب تک کہ امتحان باقی ہوگا۔

دوائیں صرف ان بیماریوں میں مفید ہیں جو مادی اسباب کے ماتحت آتی ہیں اور چونکہ انسان نہیں چانتا کہ کس مادی سبب سے مرض آتا ے اس لیے علاج کو رسالت مآب نے سنت قرار دیا۔ ورنہ محض صبر کرتے رہنا درست نہیں ہے۔ لیکن بعض مصائب یا بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جن کا سبب مادی نہیں ہوتا اور اسی طرف اشارہ فرمایا ہے اس آیت کریمہ میں و لو بسط اللہ الرزق علی عبادہ لبغوا فی الارض کہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کو فقیر بنا دیتے ہیں اور اگر تمام بندوں پر خدا تعالیٰ رزق کو فراخ کردیتا تو وہ زمین پر بغاوت اور سرکشی شروع کردیتے۔ اس لیے بعض دفعہ فقیری‘ مصیبت وغیرہ حکم الہی سے اسی پروردگار عالم کی طرف سے واقع ہوتی ہے اور یہ بھی در حقیقت ایک قسم کی تربیت ہوتی ہے اور یہ وہ تربیت ہے جو اختیاری نہیں ہوتی بلکہ اضطراری ہوتی ہے۔

مثلاً ایک شخص اگر مفلس پیدا ہوا ہے تو کیا اس کا کچھ احتیار تھا جو مالدار کے گھر پیدا ہوتا اور مفلس نہ ہوتا؟

دوسری قسم ربوبیت کی وہ ہے جو اختیاری کہلاتی ہے اور یہ وہ ہے کہ پروردگار عالم نے ہم کو بتلا دیا کہ فلاں کام کرو اور فلاں کام نہ کرو۔ اگر یہ تربیت اختیاری نہ ہوتی تو انسان کرنے پر نہ قابل مدح ہوتا اور نہ برا کرنے پر قابل مذمت ہوتا۔ اگر کسی نے چوری کی تو اسی وقت وہ قابل مذمت ہے کہ اس نے اختیار سے چوری کی علی ہذا اس نے اچھاکام کیا تو اس لیے قابل مدح ہے کہ اس نے اختیار سے اس اچھے کام کو کیا۔اس دنیا میں مسلمانوں کے ۷۳ فرقے ہوگئے اس لیے لوگوں کو اصول وضع کرنے پڑے ایک اصول آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ مذہب اہل بیت یہ ہے کہ حسن و قبح ہر شئے کی ذات میں موجود ہے‘ ایک شئے اچھی ہے اس لیے اچھی ہے کہ وہ اپنی ذات کے اعتبار سے اچھی ہے۔ اسی طرح جو بری ہے وہ اپنی ذات کے اعتبار سے بری ہے مثلاً جھوٹ بولنا محض اس لیے ہی برا نہیں کہ شریعت نے اسے برا کہا ہے یا سچ کہتا اچھا صرف اسی لیے نہیں ہے کہ شریعت نے کہا ہے کہ سچ اچھی چیز ہے بلکہ جھوٹ در حقیقت برا ہے اور سچ حقیقتا ہی اچھا ہے۔

پس حقیقت ان اشیاء کے حسن و قبح کی عقلی ہے نہ فطری۔

انبیاء کرام صرف اس واسطے آتے ہیں کہ وہ ظاہر کردیتے ہیں کہ کونسی چیز اچھی ہے اور کونسی بری ہے۔

اور بزرگوں کو اصول بنانا پڑا کہ ”کلی حکم به العقل حکم باالشرع و کلی حکم بالشرع حکم بالعقل

کہ جس چیز کا حکم عقلنے جس طرح دیا شرع نے بھی اسی طرح اس کا حکم جاری فرمایا اور جس طرح شرع شریف نے کوئی حکم دیا اسی طرح عقل نے بھی ویسا ہی حکم جاری کیا۔

گویا عقل و شرع ایک ہی ماں کو گود میں پلے ہیں جو اس کا حکم ہے وہی اس کا حکم ہے۔

چونکہ اشیاء کا حسن و قبح عقلی ہے لہذا یہ نہیں کہہ سکتے کہ جھوٹ کے عوض خدا تعالیٰ جنت دے گا اور سچ بولنے کے عوض جھنم میں ڈال دے گا۔

اسی طرح جو کہتے ہیں کہ کسی نا حق کہتے ہیں برائی نہیں یا یہ کہتے ہیں کہ کوئی برائی جیسے جھوٹ اصل میں بری نہیں بلکہ چونکہ شریعت نے اسے برا کہا ہے لہذا جھوٹ برا ہے‘ پس ان لوگوں کو کہنا پڑے گا کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جھوٹا جنت میں چلا جائے گا یا سچا جھنم میں چلا جائے گا۔

حالانکہ ایسا نہی ں ہے۔

میں دوبارہ عرض کرتا ہوں کہ کسی بچے سے بھی آپ پوچھیں کہ جھوٹ بولنا اچھا ہے یا سچ بولنا اچھا ہے؟ تو وہ بچہ بھی کبھی نہ کہے گا کہ جھوٹ بولنا اچھا ہے۔

آپ ایک بچے سے ایک کھلونا جس کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہے اچھا ہے یا وہ کھلونا اچھا ہے جو درست ٹانگ والا ہے؟ تو آپ دیکھیں گے کہ بچہ اسی کو اچھا کہے گا جو درست ہوگا۔

الغرض یہ نہایت واضح امر ہے۔

پس کچھ چیزیں اختیاری ہیں انسان کو ان میں اختیار دے دیا گیا اور وہ کون سی چیزیں ہیں؟ وہ چیزیں اصول دین اور فروع دین ہیں۔

دراصل آج کا مضمون اب شروع ہورہا ہے کہ جن باتوں میں پروردگار عالم نے انسان کو اختیار بخشا ہے ان میں کچھ اصول دین ہیں اور کچھ فروع دین ہیں۔

آپ حضرات تھوڑی سی توجہ کے ساتھ سماعت فرمائیں تو مطلب بالکل واضح ہے اگرچہ کبھی مجبور ہوتا ہوں کہ مشکل الفاظ استعمال کرنے پڑتے ہیں۔ لیکن انشاء اللہ اس مطلب کو آسانی کے ساتھ سمجھ جائیں گے۔

اس کے لیے ایک مختصر سی تقریر کی ضرورت ہے کہ عرض کردوں کہ اصول دین کیا ہیں؟ تھوڑی سی توجہ آپ فرمائیں تو بات بالکل مشکل نہیں ہے۔

کہ علم دو قسم کا ہوتا ہے۔ ۱ ۔ ایک وہ علم جس کا مقصود بالذات خود وہ ہی علم ہو۔ یعنی یہ کہ علم کا کیا مقصد ہے؟ خود اس علم کا حاصل کرنا ہے اور کچھ نہیں۔

پس ایک قسم تو وہ علم ہے کہ اس کے حاصل کرنے کا مقصد صرف علم ہوتا ہے۔ جیسے خدا تعالیٰ کی معرفت‘ تو معرفت الہی کا مقصد در حقیقت خود یہی معرفت ہے‘ یعنی اس کا مقصود بالذات معرفت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ کیونکہ کائنات عالم کی غرض ہی یہی معرفت ہے۔

۲ ۔ دوسری قسم علم کی وہ ہے کہ اس کے حاصل کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔ مثلاً دیکھیے سکول یا مدرسہ میں پڑھایاسکھایا جاتا ہے کہ نماز اس طرح سے کھڑے ہو کر پڑھی جاتی ہے پھر اس کے بعد رکوع اس طرح کیا جاتا ہے۔ علیٰ ہذا سجدہ اس طرح ادا کیا جاتا ہے۔ پس اس پڑھانے کا اصل مقصد یا غرض عمل ہوتا ہے۔

اور قائدہ سکیموں کا یہ ہے کہ اصل غرض افضل ہوتی ہے اس چیز سے جس کے ذریعہ وہ شئے حاصل کی جاتی ہے۔

مثلاً مجھے کعبہ شریف کے طواف کرنے جانا ہے تو یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا جب تک راستہ طے کرنے کے لیے گھوڑا‘ اونٹ یا کوئی دوسری سواری نہ خریدی یا حاصل کی جائے۔ یہ چیزیں جب خریدی گئیں تو ذریعہ بن گئیں حج کے ادا کرنے کا۔ تو یہ ذریعہ اصل مقصد سے افضل تھیں ہوسکتا یعنی حج سے۔

اور غور فرمائیں کہ میں مکان تیار کرتا ہوں کہ اس میں بال بچے رہیں گے تاکہ گرمی سردی سے بھی حفاظت ہوسکے۔ تو اس ضرورت کے لیے مکان ہے ورنہ اس کی ضرورت ہی نہیں۔ پس ثابت ہوا کہ مکان افضل نہیں بلکہ اس مکان سے وہ لوگ زیادہ افضل ہوں گے جن کے رہنے کے واسطے وہ مکان بنایا گیا ہے۔

پس ذریعہ پست ہوتا ہے اس چیز سے جس کے لیے ذریعہ مقرر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح علم حاصل کیا جاتا ہے عمل کے لیے تو اس عمل کے لیے جو علم وضع کیا جائے گا وہ عمل سے پست ہوگا اور یہی وجہ ہے کہ اگر عمل نہیں ہے توعلم وبال ہے۔

اس تقریر سے مطلب یہ واضح ہوا کہ ۱ ۔ ایک وہ علم ہے جس کا حاصل کرنا خود متصود بالذات ہو۔ ۲ ۔ دوسرا وہ علم ہے جو عمل کے لیے حاصل کیا جائے۔

مثلاً ہم نے کوٹھے پر جانا ہے سیڑھی کے ذریعہ جانا ہے تو سیڑھی افضل نہ ہوگی بلکہ اصل شئے اوپر جانا ہے اوروہی افضل ہوگا۔

مجِھے یاد آگیا۔ افسوس کہ وقت بڑی جلدی سے گذر جاتا ہے۔ بعض لوگ استدلال کرتے ہیں کہ رسول ہم جیسے ہی ہیں۔ بہلا ان میں اور ہم باہم کیا زیادتی ہے؟ اس لیے کہ ایک شخص ہمارا محبوب ہے وہ پوسٹ مین کے ذریعہ خط بھیجتا ہے تو پوسٹ مین کسی طرح افضل نہیں اس طرح خدا تعالیٰ قرآن حضرت محمد مصطفیٰ کے ذریعہ بٍھیجا۔ تو پوسٹمین کی طرح آپ سے کیا غرض ہے۔ وہ خط پہنچا گئے اور پھر چلے گے۔

لیکن آہ! افسوس! ان لوگوں سے کوئی پوچھے کہ وہ جو تم کو خط بھیجتا ہے کیا وہ ایسی شئے تم کو لکھ کر بھیج سکتا ہے جو تمہاری سمجھ میں نہ آسکے؟ اگر ایسا کرے تووہ بھیجنے والا احمق ہوتا یا عاقل؟

اور اگر کوئی یہ کہے کہ ہم تو اس خط کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ تو پھر کیا یہ کہا جائے گا کہ بھیجنے والے نے یہ سمجھ کر بھیجا ہے کہ پڑھنے والے سمجھ ہی نہ سکیں۔

اور اگر کسی کو یہ دعویٰ ہو کہ ہم خدا کے لکھے خط (قرآن) کو از خود سمجھ سکتے ہیں تو یہ دعویٰ پیش کرنے والوں کو میدان میں آکر ثابت کرنا چاہیے۔

عام طور پر آیت کریم سورہ ولقد یسرنا القرآن للذکر فھل من ذکرہ کو پیش کیا جاتا ہے کہ بروئے قرآن قرآن پاک آسان کتاب ہے۔

لیکن کوئی جاھل صرف عربی کے حروف پہچان لے اور کہے کہ میں قرآن کو سمجھ گیا‘ اور اگر نہ سمجھا تو معاذ اللہ قرآن غلط قرار دیا جائے گا یا یہ کہا جائے گا کہ خداتعالیٰ نے غلطی کی۔ یا کہنے والا دیوانہ سمجھا جائے گا۔

حالانکہ قرآن پاک آسان اس صورت میں ہے جب وہ صاحب قرآن کی زبان سے سمجھا جائے جیسا کہ ارشاد خداوند تعالیٰ ہے انما یسرناہبلسانک کہ قرآن پاک کو ہم نے حضور کی زبان سے آسان کیا ہے۔ یعنی آپ کی زبان سے آسانی ہے آپ سمجھا دو گے تو آسان ورنہ ٹیڑھے دل ہو جائیں گے۔

اسی لیے ارشاد فرمایا:فاما لذین فی قلوبهم زیغ فیتبعون ماتشابه منه ابتغاء الفتنة ۔ تو قرآن پاک آسان ہے لیکن حضور کی زبان کے ذریعہ آسان ہے۔ ورنہ اسی کلام میں متشابھات بھی تو ہیں۔ اگر اہل اسلام اسے نہ سمجھیں گے تو غلطی کریں گے اور کفر تک پہنچ جائیں گے۔

احکام قرآن دو قسم ہیں محکمات و متشابھات۔

سورة العمران میں پہلے رکوع کے اندر ارشاد فرمایا( هو الذی انزل الیک الکتاب منه آیت محکمات هن ام الکتب و اخر متشابهات فاما الذین فی قلوبهم زیغ فیتبعون ماتشابه منه ابتغاء الفتنة وابتغاء تاویله و ما یعلم تأویلة الا الله و الراسخون فی العلم یقولون کل و ما یذکر الا اولواالباب )

ماحصل کلام باری کایہ ہے کہ وہ ہی ذات جس نے تیری طرف کتاب اللہ اتاری جس کی بعض آیات محکم ہیں جو سامنے آتے ہی سمجھ میں آجائیں اور کچھ آیات وہ ہیں جو متشابہ ہیں۔ یعنی وہ کہ آپ کچھ کہیں میں کچھ کہوں۔ محکم تو بالکل واضح ہیں لیکن متشابہ کی وضاحت نہیں۔ ان دونوں میں بڑا فرق ہے‘ متشابہ میں غور کرنے والوں کے دل ٹیڑھے ہوتے ہیں تا آنکہ ایمان پر بھی نہ رہے گا۔

اھل اسلام بلند آواز سے کہتا ہوں‘ سن لو اس اعتبار سے مجھے جواب دو۔ کوئی حدیث جناب رسالت مآب لے آؤ کہ جس سے ثابت ہو جائے کہ آپ فرما دیا کہ قرآن میں فلان آیتیں محکمات ہیں اور فلاں آیتیں متشابھات کوئی صاحب آئے اور ایسی حدیث لے آئے کم از کم میں لکھ دوں گا کہ میں ان صاحب کا شاگرد بن جاؤں گا۔ البتہ یہ نہ مانوں گا کہ فلاں مفسر نے کہا کہ یہ ہوگا حضور کے فرمان سے اور یہ بھی نہ مان لیتا اگر کسی ایک مفسر کا قول ہوتا اس بارے میں سولہ اقوال ہیں۔ کسی مفسر نے اوامر کو محکم کہا ہے باقی تمام آیات کو متشابہ مانا ہے اور پھر اوامر میں بھی اختلاف ہوا حتی کہ آج تک طے نہ ہوسکا کہ کون سی آیت واقعی محکم ہے اور کون سی متشابہ۔

آج کوغیر مسلم پوچھ لے کہ قرآن کہتا ہے کہ کچھ آیات محکم اور کچھ متشابہات اور جن کا دل ٹیڑھا ہوتا ہے وہ متشابہات میں ہیں غور کرتے ہیں لیکن اس قدر تو بتلادیا ہوتا کہ یہ محکم کون سی آیات ہیں اور متشابہات کون سی؟

پس نہ جناب سالت مآب کی حدیث‘ نہ قرآن کی کوئی آیت جو اس مسئلہ کو بتائے‘ کس مصیبت میں ہم پھنس گئے۔ کیا عالم مصیبت ہے جو طاری ہے کہ کون سی آیت محکم اور کون سی متشابہ؟

البتہ ایک بات رہ جاتی ہے کہ آیا یہ مصیبت ہمارے لیے ہی ہے یا رسول کریم کے لیے بھی ہے؟ معاذ اللہ اگر حضور بھی نہ جانتے تھے تو میں ضرور عرض کروں کہ پروردگار عالم کو ان آیتوں کے اتارنے کی ضرورت ہی کیا تھی جو رسول بھی نہ سمجھ سکیں اور بالفرض رسول بھی نہ سمجھے تو اور کون دعویٰ کرسکتا ہے کہ میں سمجھا۔

میں اس موضوع پر بحث نہیں کرنا چاہتا بلکہ صرف یہ عرض کررہا تھا کہ جو لوگ اس امر کے قائل ہیں کہ و ما یعلم تاویلہ الا اللہ کہ متشابہ کی تاویل اللہ کے سوا کوی نہیں جانتا۔ تو رسول اللہ جب نہیں جانتے تو دوسرے بھی نہیں جانتے۔

مصر میں ایک کتاب ”وحی محمدی“ لکھی گئی ہے جو ایک تفسیر کا مقدمہ ہے اس میں لکھا ہے کہ کوئی شخص کسی کو ایسی چیز سکھاتا ہے جس کے متعلق وہ جانتا ہے کہ سیکھنے والا سمجھ نہ سکے گا تو ایسا شخص یقیناً پاگل ہے۔ تو معاذ اللہ جب ایسا لفظ کوئی اپنے لیے استعمال نہیں کرسکتا تو خدا تعالیٰ ایسا کرکے کیسے اپنے آپ کو (معاذاللہ) پاگل کہلا سکے گا۔

پس ماننا پڑے گا کہ رسول اللہ متشابہات کو اچھی طرح جانتے تھیاور جب یہ مان لیا جائے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ علم میں رساخ یعنی بڑے پکے لوگ بھی جانتے تھے جو زمین علم میں پیدا کئے گئے تھے۔

اب سوال یہ سامنے آئے گا کہ پیش کیا جائے کہ کوئی ہے راسخین فی العلم میں سے۔ دوسرے لوگ تو یہ بھی نہ سمجھ سکے کہ ۴ رکعت کون سی آیت سے ثابت ہوتی ہے؟

پس علم بھی دو طرح کے ہیں۔ ۱ ۔ جس کی غرض خود وہ علم ہو۔ ۲ ۔ جس کی غرض عمل ہو اور یہی وہ علم ہے جسے فروع دین کہتے ہیں اور پہلا علم کہ جس کے حاصل کرنا مقصود بالذات ہے۔ وہ اصول دین کہلاتا ہے۔

فروع دین کا تعلق عمل سے ہے اور عمل کرانے کے واسطے یہ علم درکار ہوتا ہے۔

۱ ۔ اور دوسرا علم اصول دین وہ ہے کہ اس کے حاصل کرنا خود اصل غرض اور مقصود ہے اس کی مثال عرض کرتا ہوں جیسے ہم پروردگار عالم کی معرفت حاصل کرتے ہیں کہ وہ موجود ہے۔ اس کی صفات یہ ہیں۔ تو یہ علم محض علم کے لیے ہے علم کے لیے نہیں ہے۔ مثلاً خدا ہے تو بے شک ہے یہ جاننا ہی کافی ہے اس کے ساتھ کسی عمل کی ضرورت نہیں چونکہ معرفت الہی خود کمال ہے تو اس کا جاننا بھی خود ایک مقصد ہے۔

پس ہم نے خدا تعالیٰ کو جاننا ہے کہ وہ پروردگار ہے اور اس نے عقل دے کر انسان کو پیدا کیا خود خدا تو کبھی آکربات نہیں کرتا حتی کہ وہ خواب میں بھی آکر بات نہیں کرتا۔

حضرت امام سے کسی نے کہا کہ ”میں نے خدا تعالیٰ کو خواب میں دیکھا“ حضور نے فرمایا کہ وہ کافر ہے۔ اس لیے کہ وہ قابلیت ہی نہیں رکھتا خواب میں اگر آجائے تو وہ خدا نہیں ہے۔ شیطان ہے‘ اسی طرح کلام الہی کے سننے کے واسطے موسیٰ علیہ السلام کی طرح قابلیت کی ضرورت ہے۔

تو میں آپ کے سامنے واضح کررہا ہوں کہ ہماری پیدائش کی غرض ہے تکمیل۔ اس لیے ضرورت تھی کہ وہ انبیاء کو بھیجے۔

سو یہ معرفت بھی مقصود بالذات ہے۔ اس لیے توحید کے بعد رسات بھی اصول دین میں شامل ہوگئی۔

۲ ۔ انبیاء آئے۔ انہوں نے تعلیم دی۔ احکام سکھائے انہوں نے دین کی عمارت بنائی اور اسے محفوظ رکھنے کے لیے سپرد کردیا۔ ایک عمارت جب بنائی جاتی ہے تو اس کی حفاظت کی بھی ضرورت ہے یا نہیں؟ پس فرض ہوا کہ رسول کے بعد کوئی اس کے دین کا محافظ بھی ہو۔

۳ ۔ اس لیے اصول دین میں ”امام کی معرفت“ یا امامت بھی شامل ہونا لازمی ہوگیا۔

۴ ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہم کو اختیار دیا کہ اچھے کام کریں تو کوئی دن ضرور ہوگا کہ اس میں بدلہ پایا جائے گا اسی کو قیامت کہتے ہیں۔ اس لیے یہ بھی اصول دین میں سے مقرر ہوگیا۔

۵ ۔ اور چونکہ عدل ضروری تھا۔ بعض نے عدل کا انکار کیا تھا اس واسطے ہم نے عدالت کوبھیاصول دین میں داخل کرکے پیش کیا۔

ورنہ اصل مقصود بالذات اصول تین ہی تھے۔ ۱ ۔ معرفت خدا توحید

۲ ۔ معرفت نبی نبوت

۳ ۔ معرفت امام امامت

عمارت دین کی حفاظت ہر شخص نہیں کرسکتا پس جاننا ضروری ہے کہ اس کی حفاظت کون کرسکتا ہے؟ اسی کا نامعرفت امام ہے۔

آپ غور کریں کہ جس گھر میں سب ہی بڑے ہوں تو چند دنوں میں اس کی تباہی ضروری ہے لہذا لازمی ہوا کہ ایک علاقہ کے انتظام کے واسطے ایک چودھری ہو۔ اسی طرح ضلع کے انتظام کے واسطے ضروری ہے کہ اس کے ایک صاحب ضلع ہو۔ ورنہ ڈاکے پڑیں گے چور ڈاکو آرام نہ لینے دیں گے۔

پھر اگر دو چودھری ہوں گے یا دو ضلع کے مالک ہوں گے تب بھی فسادات ہوں گے۔

جھاں کہیں ایک بڑا نہ ہوا وہاں طوائف الملوکی پھیل گئی۔ تاریخ اٹھا کر دیکھیں عرب کے اندر اسلام کے آنے سے پہلے ایک حاکم نہ تھا‘ ۳‘۳ پشت تک‘ لڑائیاں جاری رہیں اور صرف ایک اونٹ کے سبب پہلی لڑائی جاری ہوئی۔ ایک بسوسی کے کھیت میں کسی کے اونٹ نے قدم جارکھا۔ جس کے نیچے شتر مرغ کے انڈے ٹوٹ گئے محافظ کھیت نے فریادکی کہ میری بے عزتی ہوگئی ایک پناہ گزین نے میری کھیت میں انڈے دیئے تھے اس سے بڑھ کر مییر کیا بے عزتی ہوگی کہ اس کے انڈے اونٹ نے ضائع کر دیئے۔ قبیلہ والے تلواریں لے کر باہر نکل آئے کہ واقعی ایک حیوان پر ظلم ہوگیا۔

حضرات! دعوت فکر دے رہا ہوں آپ اس حیثیت سے سنیں کہ آیا یہ واقعہ صحیح ہے یا نہیں؟

عورت کی ایک شکایت پر قبیلہ والے نکل آئے‘ اونٹ کے پاؤں ہی کاٹ ڈالا‘ اونٹ والا بگڑا جس کے ہاں ٹھہرا جارکر فریادکی۔ اس نے اپنے قبیلہ کے سامنے فریاد کی کہ میرے مہمان کی بے عزتی ہوگئی۔

پس لڑائی ہونے لگی۔ حتی کہ خود قسم کھا کھا کر سروں پر رکھ رہے تھے کہ یہ نہ اتارے جائیں جب تک انتقال نہ لیا جائے گا۔ ایک پشت نے یہ جنگ کی اور گذر گئی۔ دوسری پشت بھی گذر گئی۔ تا آنکہ تیسری پشت میں سے کچھ لوگوں نے یہ جنگ ختم کی۔

آخر اس خونریزی کا کیا سبب تھا؟ سبب یہ تھا کہ ان میں ایک رئیس اعلیٰ نہ تھا پس جہاں ایک رئیس ہوگا وہاں لڑائی نہ ہوگی۔

پس اسی طرح اگر کوئی ملک ہے وہاں بھی رئیس مملکت کی ضرورت ہے اور وہ رئیس مملک تایک ہونا چاہیے ورنہ اگر چند ہوں گے تو ضرور آپس میں لڑیں گے۔

ٹھیک اسی طرح اس تمام نظام عالم کا قیام بھی صرف اسی وقت باقی رہ سکتا ہے کہ جب اس کا ایک ناظم یا بادشاہہو۔

یہی سب ہے کہ آج بادشاہاں آپس میں برسرپیکار ہیں۔ امن و سکون ندارد ہر وقت جنگ کے خطرات کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ اس لیے امن و امان تب قائم ہوگا جب وہ آئے گا کہ تمام عالم اس کے قبضے میں ہوگا اور وہ بملو الارض قسطاً و عدلاً امن و انصاف سے عالم کو بھر دے گا اور آج ساری دنیا کو اس کا انتظار ہے۔

پس میں سمجھانا چاہتا تھا کہ ایک رئیس حکام کی ضرورت ہے جس کی اطاعت فرض ہوگی۔ اگر کئی ہوں گے اور ایک رئیس نے الگ دستور و قانون بنا لیا۔ دوسرے نے علیحدہ ضابطہ اور نظم قائم یا بس اس طرح نظام درھم برھم رہے گا۔

اس لیے نظم تب ہی قائم ہوگا جب خداوند عالم ان کی طرف حقیقی ناظم بھیجے گا۔ یہ ہیں وجود جن کی بناء پر ایک امام کی ضرورت پڑتی ہے۔

ابتداء عالم سے یہ نظم خداوند نے نبی وقت سے سپرد کیا ۔ جب ایک نبی چلا گیا تو دوسرا آیا جو یا اسی نظم پر چلے گا یا زمانہ کے اعتبار سے اور نظم لائے گا۔ یہ سلسلہ رسالت مآب تک پہنچے گا۔

اور جب خاتم رسالت بھی آگئے تو ضروری ہوا کہ وہ ایسا نظم پیش کریں جو اس قدر کامل و مکمل ہو کہ قیامت تک وہ محفوظ رہے۔

اسی لیے یہ اصل ثابت ماننی پڑی کہ ارشاد فرمایاحلال محمد حلا لالی یوم القیامة و حرام محمد حرام الی یوم القیامة ۔ ترجمہ: کہ جو رسالت مآب حلال کرگئے وہ ہی قیامت تک حلال اور جو آپ حرام کہہ گئے وہ قیامت تک حرام ہوگیا۔

پس سور کو آپ نے حرام کہا۔ خواہ کس قدرشوق کے ساتھ کھانے والے نکل آئیں وہ قیامت تک حرام ہی رہے گا شراب آپ نے حرام قرار دی۔ پس قیامت تک وہ حرام ہوگئی۔ خواہ پینے والے کتنے ذوق کے ساتھ اسے پیا کریں۔

پس جو سرکار لائے وہ قیامت تک کے واسطے فرض ہوگیا۔ حضور کا نظم قیامت تک کے لیے ہے اس کا انکارکیا ہی نہیں جاسکتا۔

اب آپ سے ایک بات از روئے غور و فکر پوچھتا ہوں کہ رسالت مآب کے تشریف لے جانے کے بعد مذہب بدل جائے گا یا بعینہ وہی رہے گا جو حضور لائے تھے؟

مسلمان یہی جواب دیں گے کہ بعینہ وہی رہے گا اور کوئی مذہب اس کے سوا نہ آئے گا ایک مسلمان بچہ بھی اس بات کے خلاف نہیں کہہ سکے گا۔

ہاں ثابت ہوا کہ وہی مذہب صحیح اور ٹھیک ہوگا جو بالکل اس مذہب کے مطابق ہو جو حضور پیغمبر خدا لائے تھے۔

دوسرا سوال جو قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ انسانوں میں اس صحیح مذہب کو نافذ کرنے کے لیے یا اس پر عمل کرنے کے لیے یا اسے باقی رکھنے کے لیے ایسے شخص کی ضرورت نہیں جو اسے نافذ کرنے یا عمل کرائے اور وہ اس مذہب کو کامل اور صحیح طور پر جانتا ہو؟ وہ تمام مذہب سے واقفیت تام رکھتا ہو؟

ہر عقل مند اور مسلمان ان سوالوں کا یہی جواب دے گا کہ یقیناً دین اسلام کو قائم رکھِنے کے لیے صرف اس شخص کی ضرورت ہوگی جو ۱۰۰ میں سے ۱۰۰ درجے ہی جانتا ہو اور وہ مذھب کو کلیةً اور جزیةً پوری طرح جانتاہو اور وہ شخص ہرگز مذھب کو قائم نہ رکھ سکے گا جو ۱۰۰ میں پچاس یا کچھ جانتا ہو اور پچاس یا کچھ نہ جانتا ہے۔

مسلمانوں کے نزدیک ممکن ہے اور لوگ بھی ہوں گے لیکن میں وہ شخص آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتاہوں کہ جن کے متعلق نبی نے خود فیصلہ فرما دیا اور وہ ہیں جن کے حق میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اقضی کم علی کہ تم میں سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے (مولا) علی ہیں۔

بھائیو! اور بزرگو! ایک بات خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ رسالت مآب جب دنیا سے تشریف لے گئے لیکن جتنے مسائل تھے وہ سب کے سب مسائل تمام کو نہیں بتلا کر گئے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ سب کچھ کل عالم مبتلا کرگئے ہوں۔

پڑھالکھا آمدی اس حقیقت ناقابل انکار ہیں ذرہ بھر بھی شک نہ لائے گا ۔ ورنہ قیاس پر عمل کرنے کی ضرورت پڑے گی اور قیاس سے کام کسی طرح نہ چلے گا۔

حضرت امام جعفر صداق علیہ السلام کے پاس ایک شخص آیا جو قیاس پر عمل کرتا تھا۔ فرمایا: آپ نے کیا تو ایسا کرتا ہے؟ عرض کیا جی حضور! ارشاد فرمایا: کیا مطلب ہے اس آیت کریمہ سے و من دخلہ کان امنا داخل کہاں ہوا اور بے خوفی کا ہے سے ہوئی؟

اس نے جواب دیا: اس مقام سے مراد کعبہ ہے۔

آپ نے ارشاد فرمایا: اگر مقام امن کعبہ ہوا اور جو وہاں داخل ہوگیا وہ امن میں ہوگیا!

تو کیا یہ ہی کعبہ نہ تھا جہاں کتنے آدمی قتل کردیئے گئے؟ اور اگر بے خوفی سے مراد دنیا کی سزا سے بے خوفی مراد ہے تو یزید کی فوج نے عبد اللہ بن زبیر پر کعبہ میں چڑھائی نہیں کی تھی؟ اور خانہ کعبہ کاپردہ کیا جلایا نہ گیا تھا؟ اور کتنے ہی آدمی وہاں نہ مارے گئے تھے؟

اس نے کہا: حضور اس سے مراد یہ ہے کہ وہ آخرت کے عذاب سے محفوظ ہوگیا۔

امام نے ارشاد فرمایا: اگر کعبہ میں ایک عیسائی چلا جائے تو وہ آخرت کے عذاب سے کیا بے خوف ہو جائے گا؟

بالآخر اس شخص نے عرض کیا: حضور! پھر آپ سمجھا دیں کہ اس گھر سے کیا مراد ہے؟

او وہ کس طرح بے خوف ہوگا؟

ارشاد فرمایا: اس گھر سے مراد اہل بیت محمد ہیں اور اندر داخل ہونے والے لوگ ہیں جو ہم اہل بیت سے تمسک کرنے والے ہیں پس وہ لوگ یقیناً ہر طرح سے عذاب آخرت سے محفوظ اور بے خوف رہیں گے۔

پس سوالاً پِھر عرض کرناچاہتا ہوں کہ آپ خوب غور فرما ویں کہ رسول اللہ تمام لوگوں کو تمام چیزیں بیان کرکے نہ گئے تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو آج تک جِھگڑے کبھی نہ ہوتے آج ایسے کئی مسائل ایسے ہیں کہ حدیثیں ان کے بارے میں نہیں ملتیں اور لوگ عقل و سوچ کے ساتھ غور و فکر کرتے ہوئے نکالتے ہیں۔

پس جس رسالت مآب سب چیزوں کو تمام سے جب بیان کرکے نہ گئے تھے تو جو باقی رہ گئے تھے یقیناً انمیرے کوئی ایسا ضرور ہوگا کہ جیسے سب کچھ مکمل طور پر آپ بتا سکھاگئے تھے۔ ورنہ اگر جو کچھ تو جانتا ہو اور کچھ نہ جانتا ہو تو لازم ماننا پڑے گا کہ ایسا آدمی مذھب حق سے بالضرور ناواقف ہوگا۔

پس وہ کون ہے جو تمام تر مذہب سے واقف تھا؟

آپ کو اختیار ہے کہ جسے چاہیں پیش کردیں۔ لیکن اگر ہم سے پوچھیں گے تو ہم ان ہی کو پیش کریں گے جن کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا: انا مدینة العلم و علی بابھا کہ میں علم الہی یا دین الہی کے علم کا شہر ہوں اور جناب امیر علی ابن ابی طالب اس کے دروازے ہیں۔

اس اعتبار سے ایک نیا مقدمہ ہے جسے پیش کرکے آج ختم کرنا چاہتا ہوں‘ جو آپ میرے حاضر ہیں وہ غور سے سنیں کہ صحیح بات پیش کرتا ہوں۔

حضور کیا یہ درست نہیں کہ ہمارے حالات رات و دن‘ صبح و شام بدلتے رہتے ہیں۔ صبح اور تھے شام کو اور ہوتے ہیں۔

پھر جب بیمار ہوگئے تو رنگ طبع اور ہے اور جو اچھے یعنی تندرست ہوگئے تو اور حال ہوتا ہے۔ جب بیمارہوئے تھے کہنے لگے تھے کہ جوا بڑی بری شے ہے اور رات ہوئی تو کرنے لگے توبہ‘ لیکن جب راضی اور تکڑے ہوگئے تو کہنے لگے ”یہاں کاہے کی توبہ آؤ ‘جوا تو اچھی شے ہے ذرا کھیل لو“

آپ اطباء اور ڈاکٹر صاحبان سے معلوم کرلیجئے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب کسی شخص کے مزاج میں بلغم ہو تو اس کی رائے کی کیفیت اور ہوتی ہے اور جب مزاج پر سیودا کا غلبہ ہو تو رائے کی کیفیت اور ہو جاتی ہے۔ پہلے طبیعت اس قدر ٹھنڈی تھی کہ اس پر کوئی بات اثر بھی نہیں کرتی تھی۔ کس نے ہزار گالی دی کوئی جواب ہی نہیں لیکن اگر مزاج پر صغراء کا غلبہ ہوگیا ہے تو فلاں نے ایک گالی دی اور ادھر ایک ہی طمانچہ ایسا رسید کر رہے ہیں کہ گدن توڑ کر رکھ رہتے ہیں۔ کوئی ہے جو بات بات پر لڑنے کو تیار ہے اور کوئی ہے جس کے سر پر جوتے پڑ رہے ہیں اور اسے کوئی خبر تک نہیں۔

منادی نے جہادکے لیے پکارا۔ بعض وہ تھے جو پہلے سے تیار بیٹھے تھے اور ایک وہ تھے کہ آواز سنتے ہی ایسی جگہ جا پہنچے کہ جہاں سے پتہ ہی نہ چل سکے کہ کہاں ہیں۔

آپ سورہ احزاب کو پڑھ لیجئے غزوہ خندق کا ذکر تازہ کرلیجئے‘ قرآن پاک اس کی حالت ان الفاظ میں ظاہر فرماتا ہے۔ فقدابتلی المومنین و زلزلوا زلزالا شدیدا کہ مومنوں کی پکی آزمائش کی گئی ان کی زمین قلب میں زلزلے یہ زلزلہ آئے لگا۔۔ و اذ بقول الذین فی قلوبھم مرض ما وعدنا اللہ ورسولہ الا غرور کہ حضور! وہ وقت یاد کیجئے کہ جب وہ لوگ کہ ان کے دلوں میں بیماری تھی کہہ رہے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے تو ہم سے فریب اور دھوکہ کیا۔

اذ قالت الطائفة… یقولون ان بیوتنا عورة و ماهی بعورة ان یریدون الا فراراه کہ جب ایک گروہ نے ان میں سے یہ کہہ کر حضور سے اجازتیں یعنی شروع کردی تھیں کہ حضور ہمارے گھر بار خالی اور غیر محفوظ پڑے ہیں‘ حالانکہ وہ قطعاً ایسے نہ تھے‘ ایسا کہنے سے ان لوگوں کا مقصد صرف بھاگنے کی راہ نکالنا تھا۔

لیکن ان ہی لوگوں کے مقابلے میں ایک وہ بھی تھے کہ اگر دنیا کے پہاڑ ان پر آ ٹوٹیں تو بھی ان آباء ثبات میں لغزش نہ آئے۔

پس مزاج انسانی خواہشات کے ماتحت ہوتا ہے اور خواہشات اگر بدل گئیں تو میری رائے کچھ ہوگی اور آپ کی رائے کچھ ہوگی۔

ضلع گجرانوالہ میں ایک صاحب تھے جو ہمیشہ رونے کو بدعت کہا کرتے تھے اور اس عمل کو بڑی سخت قسم کی بدعت کہ کر بری طرح سے رد فرمایا کرتے تھے۔

اتفاقاً خداوند تعالیٰ نے ان کو بیٹا عطا فرما دیا۔ جو ان کی تمام ترامیدوں کا مرجع بن گیا تقدیر الہی سے اچانک وہ بیمار پڑگیا‘ بیماری نے طول کھینچی اور وہ بچہ مرگیا‘ اب ان صاحب پر کوئی وقت ایسا نہ گذرتا تھا جس میں وہ رونے سے باز رہتے ہوں۔ بیوی کا حال بھی یہی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہی رونے لگتے ہیں۔ کبھی بچہ کے کپڑوں پر نظر پڑگئی تو رونے لگتے ہیں ‘کبھی بیٹے کا جھولا نظر آگیا تو رونا شروع کردیا۔

اتفاق کے ساتھ ایک درست کے پاس ان کا گذر ہوا۔ مجمع دیکھا۔ پوچھا کیا بات ہے۔ کہا گیا کہ مجلس ہورہی ہے۔ آپ بھی تشریف لے چلئے۔ مجلس میں پہنچے‘ اتفاق سے ذاکر صاحب نے امام اصغر علی علیہ السلام کا واقعہ بیان کرنا شروع کیا۔ لوگوں نے تو خیر رونا ہی تھی لیکن ان صاحب کاحالیہ تھا کہ مجلس ختم بھی ہو چکی ہے تمام لوگ جا بھی چکے ہیں اور یہ ہیں جو برابر روئے جارہے ہیں۔ آج رات ان صاحب کو یقین ہوا کہ اوہو! یہ لوگ جو روتے ہیں یقیناً ان کے رونے کو بدعت کہنا بالکل جھوٹ ہے۔

پس جب انسان کے اوپر پڑتی ہے تو یوں رائے بدلتی رہتی ہیں۔

لہذا حالات مزاج کی تبدیلی کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔

آپ اسی طرح اقلیم اول والوں کا مزاج دیکھیں وہ اور ہوگا اور اقلیم دوم الوں کا اور ہوگا اور سوم و چھارم والوں کا اور ہوگا۔

اسی طرح بچپنے میں اور رائے ہتی ہے جوانی میں اور رائے‘ بڑھاپے میں اور رائے ہوتی ہے۔ وہی جو ایک وقت خود ایک کام کیا کرتے تھے آج بوڑھے ہو کر بچوں کو کہہ رہے ہیں سمجھا رہے ہیں کہ ”یہاں ہم لوگ تجربہ کار ہیں ہم سے سیکھ لو۔ ایسا نہ کرو‘ ایسا غلط ہے“ حالانکہ حضرت جب جوان تھے ایسا ہی کیا کرتے تھے۔

پس انسانوں کی رائیں بدلتی رہتی ہیں جب یہ مقدمہ آپ سمجھ چکے تو اب غور فرمائیے کہ اگر ہم میں سے کسی کے شریعت سپرد کردی جائے تو جس قدر اس کے حالات میں تغیّر آئے گا‘ اس قدر شریعت بھی بدلتی جائے گی۔

اور جب شریعت کسی ایسے انسان کے سپرد ہوئی کہ جس کی جوانی کا زمانہ بچپنے سے الگ نہ ہو اور جس کا بوڑھا یا جوانی سے علیحدہ نہ ہو تو ایسے کا نام ہماری اصطلاح میں ہوتا ہے معصوم۔

پس شریعت کی محافظت کا ذمہ دار صرف معصوم ہوگا اور اس کے سوا کوئی دوسرا نہ ہوگا۔

اس کی ہزاروں مثالیں ہیں۔

ابھی آپ نے سنا مثال میدان جنگ کی دی گئی تھی۔ ایک وہ لوگ تھے جو لڑنے کو جاتے تھے لیکن مزاج بھی ایک چیز ہے جاتے تو لڑنے کے خاال سے تھے لیکن آتے تھے تو بھاگ کر آتے تھے۔

بعض وہ لوگ ہوتے ہیں جو مرغی تک ذبح نہیں کرسکتے۔ بلکہ مرغی کو بذح ہوتے دیکھ نہیں سکتے۔ یہ درست ہے کہ آپ لوگ ایسے نہ ہوں گے لیکن یقیناً ایسے لوگ بھی ضرور ہوتے ہیں۔

قربانی جو عید قربان کے موقع پر کی جاتی ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی تو رکھا گیا ہے کہ قربانیخود ہاتھ سے کی جائے ہاتھ سے چھری کو پھیرا جائے۔ گویا کم سے کم سال بھر میں ایک مرتبہ تو چھری پھیر لیا کرو۔ تا کہ یہ عادت باقی رہے اور اگر ایسا نہ ہوگا تو جب بھی کافر سے لڑنا پڑے گا خون دیکھ ہی بے ہوش ہو جاؤ گے۔ جب ایسے آدمی نے سرکٹنا دیکھا‘ خون کا فوارہ پھوٹتا نظر آنے لگا‘ لاش گرتی دیکھی تو ایک وہ ہوں کہ ان کی راے پہلی نہ رہی جس کے رو سے وہ کہتے تھے کہ لڑنا اچھا ہوتا ہے۔ اب یہاں کہہ رہے ہیں کہ لڑنا اچھا ہی نہ تھا۔

یہ درست ہے کہ سب کے سب اس خیال سے نہیں بھاگتے تھے۔

میں متفقہ طور ثابت شدہ بات عرض کرتا ہوں بلند آواز سے کہہ کر سنانا چاہتا ہوں۔ تمام دنیا کو ہمشیہ سناتا رہا۔ صرف آج ہی نہیں سناتا‘ بلکہ دنیا اسے سنتی رہی اور مانتی رہی‘ البتہ ماننا اور بات ہے اور عمل کرنا اور بات ہے۔ بدقسمت ہیں وہ لوگ جو عمل نہیں کرتے لیکن یہ بھی نہ سمجھ لینا کہ مان کر عمل ضرور ہوتا ہے بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو مان لینے کے بعد بھی بے عمل رہتے ہیں۔

ذرا سر اٹھا کر آپ بتادیں کہ کوئی ایسی جماعت بتا دی جائے جو اس جماعت سے بہتر اور اعلی ہو جو سیدنا امام حسین علیہ السلام لے کر آئے تھے کہ جب یزیدی فوج کی تلواریں جسم کو کاٹنے تو ان کی ہمت اور بڑھ رہی تھی۔ کبھی سنا آپ نے کہ ۷۲ تنوں میں سے کسی کا بھاگنا تو در کنار کبھی کسی نے تلوار کی طرف سے منہ بھی پھیرا؟

یہ آدمی امام حسین علیہ السلام کی محنت یا کمائی تھی جو اس قدر جان باز پیدا کرلیے۔ کیا کبھی خدا تعالیٰ کے نام پر خالصتاً جان دینے والے چشم فلک نے اتنے دیکھے جتنے سیدنا امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تھے۔

کبھی یہ آیت اتر رہی تھی و یوم حنین اذ اعجبتکم کثرتکم۔ کہ جناب رسالت مآب نے بڑی لڑائیاں کیں مگر سب سے بڑی لڑائی جنگ حنین تھی اور مسلمان قریب قریب برابر تھے۔ اب تک تو کافر زیادہ رہا کرتے تھے۔ لیکن مسلمان اس جنگ میں سمجِھنے لگے کہ آج ضرور فتح ہوگی۔ جب پہلے کئی بار تھوڑے ہوتے ہوئے فتح یاب رہے۔ ارشاد باری: و لقد نصرکم اللہ فی مواطن کثیرة و یوم حنین اذ اعجبتکم کثرتکم فلن تغن عنکم شیئا و مناقبت علیھم الارض بارجبت ثم و لیتم مدبرین۔ (پ۔ ۱۰‘ سورہ توبہ نمبر ۴)

کہ بے شک ایمان والو! اللہ نے تمہاری اکثر جگہ مدد کی‘ خاص طور پر حنین کے دن مدد کی۔ جبکہ تمہیں گھمنڈ ہوچکا تھا کہ ہماری آج کثرت ہے آج تو دشمن کو یقیناً شکست ہوے۔ لیکن جب وقت آپہنچا تو کسی شئے نے تم کو کچھ فائدہ نہ دیا۔ زمین باوجود فراخی کے تم پر تنگ ہوگئی۔

تانکہ آحر کار تم بھاگ ہی گئے اور میرے رسول کو میدان میں چھوڑ کر ہی پھر کر چلے گئے۔

روایات کہتی ہیں کہ بدلے ہزار آدمی تھے اور جو باقی رہ گئے تھے وہ صرف ۹ تھے۔

ا سلیے کہ خدا کے نام پر جان اپنے والے ہمیشہ کی کم ہوتے ہیں۔ اپنی اغراض کے لیے لڑنا اور بات ہے اور خدا کے واسطے جان دینا اور بات ہے۔ گھر سے نکلنا اور بات ہے اور خدا کے نام پر مرنا اور بات ہے۔

تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ اس واقع میں آپ باقی تعداد کو دس سے بیس تک بھی نہ پہنچا سکیں گے اور بعض روایات کی رو سے تو صرف پانچ ہی حضور کے ساتھ رہ گئے تھے۔

حضرات! ایمانداری کے ساتھ فیصلہ کر لیجئے کہ ایسے لوگ لڑنے کے لیے نہیں بلکہ مرنے کے لیے جو گھر سے سیدنا امام حسین کے ساتھ نکلے تھے ان کی تعداد اس اعتبار سے کتنی زیادہ تھی۔

اور اصحاب امام کا کیا کمال تھا کہ ان برے بڈھے الگ نکلے‘ جوان تو جوان بچے بھی ساتھ نکلے۔ ان می ں ایسے بچے بھی تھے کہ جب ان سے کہا گیا کہ ”موت کو تم نے کیسے پایا؟“ تو جواب دیا: چچا موت کو شہد سے زیادہ شیریں پا رہا ہوں اس کے بعد اس نے تلواریں کھائیں اور زخموں سے چور ہوا۔ حتی کہ اتنے زخم کھائے کہ مسکرائے۔

اصحاب امام وہ تھے کہ گھر سے چلتے ہوقت ان سے پوچھا گیا تھا کہ ساتھ کوں چلتے ہو‘ تم اس سفر پر جارہے ہو جس سے واپس نہ آؤگے‘ فرمایا: ہاں! یہی بات ہے کہا گیا تمہارے ساتھ بچے ہیں‘ کیا اب قدم امام کے نہ چھوڑے جائیں گے۔

اور پھر خدا کی قسم بعض وہ بھی تھے کہ حضرت امام حسین نے ان کو بلایا بھی نہ تھا لیکن وہ انتظار میں تھے کہ کب مکہ سے آپ کوفہ کو روانہ ہوتے ہیں تو ساتھ ہو جائیں۔ جب کسی آدمی نے معلوم ہوا کہ امام حسین کہا ں گئے؟ جواب ملا مدینے کی طرف‘ بس بیٹھ گئے‘ لیکن جب پتہ چلا کہ آپ کوفہ کو آرہے ہیں تو بچوں کو سپرد خدا کیا‘ بیویوں سے الوداع ہوئے۔

حبیب ابن مظاھر کو خط لکھا تھا‘ شاید امام ان کو خط نہ لکھتے لیکن بہن کا اصرار تھا‘ کہ آپ نے فرمایا تھا۔ بھائی تم بھی دوستوں کو خط لکھ دو۔

ایک دن رسول کریم نے حبیب ابن مظاھر اور بچوں کو دیکھا کہ کھیل رہے ہیں‘ آپ نے کسی کو طرف توجہ نہ فرمائی صرف حبیب کو گودمیں لیا۔ پیار کیا اور فرمایا ان میں اور اس میں فرق ہے۔

ایک دن میرے حسین کے کام آئے گا۔ تو جب ان کے متعلق نص تھی لہذا وہ کب ٹھہر سکتے تھے۔ امام نے لکھا حبیب تم فقیر‘ عالم ہو تمہاری ضرورت ہے۔ دشمن مخالفت کرہا ہے اور سخت دشمنی پر تلا ہوا ہے۔

ادھر یہ خط ملا۔ ادھر وہ کوفہ کے بازار میں خضاب خرید فرما رہے تھے۔ آپ کے بال سفید ہوچکے تھے ان کے لیے ضرورت تھی جب خرید چکے ادھر خط آپہنچا۔ مسلم بن اوسط سے کہا کہ کوفہ میں تیاریاں ہورہی ہیں کہیں نے لڑائی تو نہیں ہورہی ہے۔ کہا رسول خدا کے خداندان کو لوٹنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ آپ نے کہا کہ بس اب داڑھی خون کے رنگین خضاب سے خضاب کی جائے گی۔ گھر پہنچے بیوی نے دستر خوان بچھایا تھا۔ ہاتھ بڑھایا۔ اچھو لگا ہاتھ اٹھایا اور فرمانے مجھے کوئی یاد کررہا ہے۔ کہ اتنے میں دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا اور کہا گیا انا برید الحسین کہ حسین علیہ السلام کا بھیجا ہوا قاصد ہوں۔ اس سے آپ نے خط لیا۔ آنکھوں پہ رکھا بوسہ دیا۔

حضرات! ایک بات کہنی بھول گیا کہ جب امام خط لکھ چلے فرمایا: اب بھیج رہا ہوں۔ بہن زینب نے کہا ذرا مجھے سنادو۔ آپ نے سنایا فرمایا: بھائی جان ایک فقرہ میری طرف سے بھی لکھ دو العجل العجل کہ حبیب آنا ہے تو جلدی آجانا۔ ذرا دیر نہ لگانا۔

جب حبیب نے یہ نچلا فقرہ پڑھا تو اسی وقت منہ لپیٹ لیا کہ ہاے افسوس کس قدر بدقسمت ہوں کہ اس قدر تاکید ہو رہی ہے اور میں جو اب تک ان تک نہیں پہنچ سکا۔

گھر پر بیوی نے دریافت کیا کس کا خط ہے؟ آپ نے ضبط کرتے ہوئے فرمایا: امام حسین کا ہے۔ کہا یا لکھا ہے؟ حبیب نے کہا امام صاحب نے بلایا ہے۔ غرض کیا بیوی نے کہا پھر جاؤ گے؟ فرمایا مصلحت کو سوچ لوں گا۔

بیوی سے ضبط نہ ہوسکا۔ عرض کیا: حبیب ابھی تک سوچتے ہو۔ امام بلا رہے ہوں اور تم ابھی تک مصلحت اندیشی میں مصروف ہو؟ یہ لو میری چادر۔ فاطمہ کا بیٹا بلا رہا ہے اور ابھی تک سوچ رہے ہو؟

یہ سن کر حبیب خوش ہوئے اور پھر ایک بار دل کھول کر روئے اور کہا کہ بی بی! تیرا امتحان لے رہا تھا۔ بھلا میں اور نہ جاؤں؟

بی بی نے دیکھلیا کہ میاں جارہے ہیں۔ دامن تھام لیا اور کہا کہ وعدہ کرکے جاؤ کہ جب آقا کی خدمت میں پہنچو گے تو میری بھی سفارش کردینا۔

حبیب نے ملازم کو بلایا۔ گھوڑا سپرد کیا اور کہا دونوں جگہ جا کرکھڑے ہو جاؤ۔

اور خود دوسری طرف سے گاؤں والوں کے کپڑے پہننے چل پڑے اور ادھر ادھر سے ہوتے ہوئے جگہ مقررہ پر جا پہنچے جہاں غلام کھڑا تھا۔

ادھر کچھ دیر ہونے پر غلام نے گھوڑے کو کہا: آقا نے دیر کردی۔ اگرآپ اب نہ آئے تو خو سوار ہو جاؤں گا اور خدمت امام میں پہنچوں گا۔

سبحان اللہ! آج حسین پر کس قدر مظلومی کا عالم ہے کہ غلام بھی قربان ہو رہا ہے۔

آپ نے آتے ہی غلام کو آزاد کیا۔ عرض کیا میں بیھ ساتھ چلوں گا۔ دونوں کربلا کے قریب پہنچے۔ ابھی نظر کی حد میں نہ پہنچے تھے کہ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: آج ایک دوست آرہا ہے۔ وہ دوست جو بچپنے کا دوست ہے۔

سامنے نظر اٹھائی۔ فرمایا: شاید یہی ہو کہا گیا حضور یہی ہے۔

جب کچھ دور تھے۔ فرمایا علی اکبر! اپنے چچا کے استقبال کو چلو۔ باقی اصحاب بھی بڑھے۔ سب کو دیکھتے ہی گھوڑے سے نیچے کود پڑے اور آقا کے قدموں میں سر رکھ دیا۔ عرض کیا: آقا معاف کیجئے دیر ہوگئی۔

اصحاب امام میں بڑی خوشیاں ہوئیں نعرے بھی بلند ہوئے۔ بی بی زمین نے جنابہ فضہ سے پوچھا: کیا نعرے بلند ہو رہے ہیں۔ عرض کیا: حبیب آپہنچے۔ فرمایا: شہزادی کیا حبیب آگئے۔ جلدی جاؤ اور میری طرف سے حبیب کو سلام کہ دیا۔

حضرات! میں مضمون کو ختم کردیتا۔ لیکن آپ واقف ہوں گے کہ میں اصحابی کی حیثیت سے اصحاب حسین کا ذکر کر رہا ہوں کہ اگر ان کے اصحاب کا ذکر بھول جاؤں تو شاید امام حسین علیہ السلام ناراض نہ ہو جائیں۔

اب تین چار مجلسیں رہ گئی ہیں چاہتا تھا کہ تفصیل سے ذکر کرتا۔ وقت اس قدر باقی نہیں ہے۔ بہرحال اس قدر عرض کرتا ہوں کہ آپ نے اپنے اصحاب کی بڑی بلند شان بیان فرمائی ہے۔ امام کا ارشاد ہے ان کے حق میں ما وجدت اصحابا اوفی من اصحابی۔

کہ میں نے اپنے اصحابیوں سے بڑھ کر کسی اصحاب کو زیادہ و فادار نہ پایا۔

عاشور کا دن ایک ایک بڑھ رہا تھا اور سبقت لے جارہا تھا۔ ایک کہتا تھا مجھے پہلے قربان ہونے دو۔ دوسرا کہتا تھا مجھے جانے دیجئے۔

تیسرا کہتا تھا تم بڑھے ہو مجھے جانے دیجئے یہ تھے امام حسین علیہ السلام کے ساتھی کہ زرہ پہننے کے بجائے دل پہن رکھے تھے۔ مائیں بچوں کو سنوار سنوار کر بھیج رہی تھیں کہ بیٹو! ہم تب خوش ہوں گی جب آقا پہ نثار ہونے کے بعد تمہاری لاش واپس آئے گی۔

ایک بزرگ تھے ”عایس“ جب چند اصحاب شہید ہوچکے تو یہ اٹھے خود سر پر رکھا زرہ جسم پر اوڑھی۔ میدان میں پہنچے۔

آپ مسکرائے خود کو اتار ڈالا۔ زرہ کو اتار پھینکا۔ غلام سے کہا جاؤ آزاد کیا اور بخش دی۔ صرف کرتہ باقی رہ گیا۔ غلام نے عرض کیا یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟

فرمایا: میدان جنگ میں آیا ہوں۔ پھر کرتہ بھی اتار دیا۔ اور کہا یہ سب رکاوٹیں دور کر دیں تاکہ مرنے میں ذرہ دیر نہ لگے۔ اگر خود یا زرہ جسم پر رہیں گے تو جان دینے میں وقفہ آ جائے گا۔

سبحان اللہ! موت سے محبت کرنے والے لوگ ایسے ہوں گے؟

امام حسین علیہ السلام میدان جنگ سے لاش لائے۔ غالباً مسلم بن عوسحہ تھے۔ ان کی وفاداریاں یاد آگئیں۔ رونا آگیا۔

ادھر سے خیمہ کا پرد اٹھا اور ایک ننھا سا بچہ نکلا؟ سر پر چھوٹا سا عمامہ باندھ رکھا ہے۔ تلوار ہاتھ میں ہے جو لمبی ہے اور خط کھینچتی ہوئی زمین پر آرہی ہے جس نے جاتے ہی امام کے قدموں پر اپنے آپ کو گرا دیا۔ پاؤں چوم لیے۔ امام متوجہ ہوئے ننھی سی شکل دیکھی۔ سینے سے لگایا اور فرمایا کیوں آئے؟ دیکھو بیٹا تیر چلے آرہے ہیں۔

عرض کی حضور لڑنے کی اجازت دی جائے۔

فرمایا: تیرا باپ کیا زندہ ہے یا مارا گیا؟ کہا: مر گیا۔ فرمایا: ماں زندہ ہے۔ اپنی کو غم میں مبتلا نہ کر تیرے باپ کا مرنا کیا اس کے لیے کافی غم نہیں ہے؟

اچھا بتا کس کا بیٹا ہے تو؟

بچے نے عرض کیا حضور! یہی لاش جو لارہے ہیں میرے باپ کی لاش ہے۔

امام حسین نے ارشاد فرمایا: بیٹا واپس چلا جا۔ اپنی ماں کو زیادہ غم میں نہ ڈال۔

کہا: آقا! یہ خود عمامہ میری ماں نے ہی باندھا ہے اور اس نے تلوار لگائی ہے۔

اتنے میں خیمہ سے ماں نکل آئی اور عرض کیا۔ آقا! میرے بیٹے کو جانے دیجئے۔ فاطمہ کے دربار میں جا کر سرخروئی حاصل کرونگی۔

سبحان اللہ! یہ لوگ تھے۔ جو موت کی اس قدر آرزو رکھتے تھے۔ جب تک تمام اصحاب شہید نہ ہوچکے امام حسین علیہ السلام کو ایک زخم نہ آنے دیا۔ جب سب کے سب اٹھ گئے امام حسین علیہ السلام ان کی وفائیں یاد کرکے رو رہے تھے۔

حتی کہ وہ وقت آپہنچا۔ کہ ۶ ماہ کے بچے کی لاش پر نماز جنازہ ادا ہو رہی ہے۔ جب نماز ہوچکی تو خیمہ کی طرف آئے اور ارشاد فرمایا:

میری بہنوں! بیٹیو! آخری سلام میری طرف سے قبول کرلو۔ بیوبیوں کو تسلی کہ صبر سے کام لینا۔

لیکن آہ افسوس! مردوں شہید ہوچکے ہیں جن کے بیٹے تھے وہ بھی شہید ہوچکے۔ لاوارث بیویوں سے وداع ہو کر آئے ہیں اور خیمہ سے باہر آکر فرمایا کوئی ہے جو اس وقت گھوڑے کی باگ تھام کر مجھے سوار کردے؟

لیکن اب کوئی بھی نہ تھا جو باگ پکڑ کر سوار کرتا۔

کہ ایک مرتبہ بہن زینب پھر آئی اور کہا بھیاٌ آج اگر کوئی نہیں جو آپ کو گھوڑے پر سوار کرے تو زینب موجود ہے۔ زینب خود آپ کو سوار کرے گی۔ زینب نے سوار کیا اور خدا حافظ کہا۔ امام حسین چلے اور میدان میں پہنچے۔

تاریخ کے الفاظ ہیں۔ نظر عیینا و شمالاً کہ دائیں بائیں دنوں طرف دیکھا جس طرح کوئی مایوس دیکھتا ہے۔ ایک بار پِھر آواز دی ھل من ناصر من ینصرنا؟ کوئی ہے جو کہ اس عالم مظلومی میں امداد کرے؟

اس آواز کا بلند ہونا تھا کہ فوج اعداء سے کوئی جواب واپس نہ آیا۔

جب جواب واپس نہ آیا تو اصحاب کی لاشوں کی طرف منہ کرکے کہا میرے شیرو! میرے بہادرو! تم کہاں پہنچ چکے؟

حالت فرمان امامت سے ایسی ہوئی کہ ان شہیدوں کی لاشیں تڑپ رہی تھیں۔ آواز آئیں کان میں کہ آقا! ہم حاضر ہ یں۔ لیکن موت نے ہم کو مجبور کردیا۔

ادھر خیمے سے پھر بیوبیوں کی رونے کی آواز آئی کہ امام زین العابدین گھٹنوں کے بل رکاب تھامے چلے آرہے ہیں۔ فرمایا: بیٹا کدھر آرہے ہو؟

ام کلثوم سے بھی نہ رہا گیا پکارا بیٹا کہاں جارہے ہو؟ فرمایا: پھوپھی اماں چھوڑ دیئے اپنے باپ کے پاس اس کی مدد کرنے کو جارہا ہوں۔

اللہ اکبر! باپ کے پکارنے پر مدد کرنے کو بیمار عابد جارہے ہیں۔