مجلس ششم :
جو اپنے ۶ محرم الحرام ۳۷۰ ھ کو اندرون بھاٹی گیٹ امام بارگاہ سید مراتب علی شاہ میں رات کے ۸-۱/۲ بجے تا ۱۰-۱/۲ بجے دو گھنٹے میں ارشاد فرمائی۔
بسم الله الرحمٰن الرحیم
(
أَ فَغَیْرِ دِیْنِ اللّٰهِ یَبْغُونَ وَ لَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِيْ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ طَوْعًا وَ کَرْهًا وَإِلَیْهِِ یُرْجَعُونَ
)
۔ ( آل عمران : ۸۳ )
یہ الفاظ آپ نے عموماً سنے ہوں گے کہ فلاں دین فطرتی دین ہے یعنی فطرت الہی کے عین مطابق ہے۔
مجھے صرف آپ حضرات کی زحمت کا خیال ہے ورنہ میرے لیے تو کوئی زحمت نہیں ہے۔
آیت کریمہ جس کا ترجمہ روزانہ آپ سنتے آرہے ہیں سن لیجئے۔ عرض کرتا ہوں پروردگار عالم ارشاد فرماتا ہے: لوگ خدا کے دین کے علاوہ کچھ اور چاہتے ہیں۔حالانکہ آسمان اور زمین کے باشندے اس کے سامنے اپنی گردنیں جھکائے ہوئے ہیں۔ خوشی کے ساتھ یا جبروقہر کے ساتھ اور اس کی طرف تمام کی باز گشت ہے۔
حضرات! آپ نے جب سننے کا وعدہ فرمالیا تو اب سویئے نہ ذرا توجہ کے ساتھ بات کو سمجھ لیجئے۔
ارشاد جناب احدیث ہے کہ دین الہی فطرت ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے اقم وجھک للدین حنیفا ط فطرة اللہ اللتی فطر الناس علیھا لا تبدیل لخلق اللہ الاٰیتہ
اے حبیب! تو اپنے چہرہ مبارک کو قائم رکھ اس دین کے لیے جو خالص دین ہے اور وہ کیا ہے؟ اللہ کی فطرت ہے جس پر تمام انسانوں کو اس نے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خلقت میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں ہے۔
ترجمہ سنانے کے بعد اب چاہتا ہوں کہ آپ کی خدمت میں چند قواعد پیش کر دوں جو ہر ایک شخص اپنی فطرت میں لے کر آتا ہے۔
پس عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر پروردگار عالم انسان کی فطرت میں وہ چیزیں ودیعت نہ کرتا کہ جس سے انسان کو اچھی چیز کے قبول کرنا آسان ہو جاتا تو دین اسلام یا کوئی اور دین جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے کبھی قبول نہ کیا جاتا۔ اس لیے کہ جب وہ فطرت کے مطابق نہ ہوتا تو اس کی مخالفت کی جاتی۔ پس جس دین کو عقلاً فطرتا قبول کرانا واجب ہو جاتا تھا لازمی ہوگیا کہ وہ فطرت اور عقل کے عین مطابق ہوتا اور یہی وجہ ہوئی کہ جب بھی کسی دین کے فطری ہونے میں کمی واقع ہوئی اس کی مخالفت ہونی شروع ہوگئی اور اسی لیے ممکن نہ تھا کہ ایسا دین باقی رہ جاتا۔
میں آپ کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں کہ انسان اپنی فطرت میں کچھ بدیہات لے کر آتا ہے جسے دیکھتے ہی فوراً سمجھتا اور قبول کرلیتا ہے۔ بدیہ اس چیز کو کہتے ہیں جس پر تمام عالم کا اتفاق ہو اور فطرت انسان اس کو بلادلیل تسلیم کرلے۔
جیسے آگ گرم ہے اس پر کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ آفتاب روشن ہے‘ پانی پینے کی چیز ہے‘ کل ہمیشہ جزء سے بڑا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب چیزیں بدیہات میں شامل ہیں اور داخل ہیں۔
انسان جب دنیا میں قدم رکھتا ہے تو پروردگار عالم تب ہی سے اس کی فطرت میں ان بدیہات کو رکھ کر بھیجتا ہے کہ اس فطرت کو لے کر جاؤ میرے بعض احکام تیرے پاس آئیں گے الہی قواعد کلیہ کے ماتحت ان احکام پر عمل کرنا تمہارے لیے سہل ہو جائے گا۔
اس لیے ضروری سمجھتا ہوں کہ ان قواعد سے کچھ پیش کردوں کیونکہ تمام قواعد دین بھی ان ہی کے اورپر مبنی ہیں۔ میری بات کسی صاحب کو ممکن ہے اجنبی معلوم ہوتی ہوگی لیکن جب آپ توجہ کے ساتھ سماعت فرمائیں گے تو انشاء اللہ انکار کی گنجائش نہ رہے گی۔ وہ کلیات عرض کئے جائیں گے جن سے کوئی اختلاف ہی نہ کرسکے گا۔
مثلاً ایک کلیّہ ہے اور حکماء نے اسے بنیاد قرار دیا ہے کہ جب تک اشرف چیز موجود ہے اس سے ارذل یا کمتر ایجاد قبول نہیں کی جاسکتی۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ پروردگار عالم نے اس عالم کو بیکار یا عبث نہیں پیدا کیا خداوند عالم کو خود اس سے کوئی غرض یا فائدہ اگرچہ نہیں لیکن بندہ کے لیے ہر ایک شئے کا فائدہ اورغرض ہے۔
سوال کیا جاسکتا ہے کہ جب خدا تعالیٰ کو عالم کے پیدا کرنے سے غرض نہ تھی تو پیدا کرنے کی توجہ کیوں فرمائی؟
پس وہ ذات جس کے افعال معلل بالاغراض نہیں اس سے وہ اپنی ذات کو فائدہ نہیں پہنچانا چاہتا لیکن کسی دوسرے کو فائدہ پہنچانا بھی تو ایک علت ہے۔ لہذا ایک غایت یہ بھی تو ہوسکتی ہے۔ پہلی بات اپنی حد تک ہے لیکن اس کا فرض یہ بھی تھا کہ وہ پیدا کرنے عدم سے وجود میں لانا بہرحال اچھا فعل ہے۔
فرض کیجئے آپ کے سامنے دو چیزیں ہیں ایک میں فائدہ زیادہ ہے اور دوسری میں کم فائدہ ہے‘ تو کون شخص ہے جو کمتر شے کو اعلیٰ اور مفیدتر شئے کے مقابلہ میں اختیار کرے گا؟ اگر کرے گا تو یا وجہ اس کی یہ ہوگی کہ وہ پہلی کے فائدہ سے واقف نہیں اور اگر واقف ہے تو یقیناً فعل عبث کر رہا ہے اور یہ دونوں امر خداوند تعالیٰ کے لیے محال ہیں وہ فعل عبث سے بھی پاک ہے اور ہر شئے سے بخوبی واقف بھی ہے پس ترجیح بلا مرجح ناممکن ہے۔
آپ غور فرمائیں مثال واضح عرص کرتا ہوں۔ ایک کام کے کر نے سے ۵ سو روپیہ کا فائدہ ہے اور دوسرے کام کے کرنے میں دو سو روپیہ کا فائدہ اور کام کرنابھی یکساں حیثیت رکھتا ہو نہ اس میں دشواری ہو اور نہ اس میں آسانی تو آپ بتائیے کہ فائدہ والی چیز کو کون چھوڑے گا؟
یا وہ اس لیے چھوڑے گا کہ جانتا نہ ہوگا کہ اس میں فائدہ یا ہے اور اگر معلوم ہوگا تو زیادہ فائدہ کو چھوڑ دینا احمق پن ہوگا۔
توجہ سے سنئے گا۔ وقت مختصر ہے اور مختصر طریقہ سے ہی پیش کرتا ہوں کہ ترجیح مرجوح کے معنی یہ ہیں کہ ایک شے ہوتی ہے اور راجح اور ایک ہوتی ہے مرجوح۔ فائدہ کے اعتبار سے ایک کا پلّہ بھاری ہوتا ہے اور دوسری کا ہلکا۔ تو راجح کو کوئی بھی کبھی نہ چھوڑے گا‘ انسان تو درکنار حیوان بھی ایسا نہ کرے گا کہ راجح شئے کو چھوڑ کر مرجوح کی طرف جائے۔
جانور بی جانتا ہے کہ اس راستے سے چلے گا تو فائدہ ہوگا اور اس راستے پر چلنے سے نقصان ہوگا تو نقصان والے راستے پر کبھی نہ جائے گا۔
بلی کے سامنے آپ ایک طرف تازہ گوشت رکھیئے اور دوسری طرف بدبو دار گوشت رکھ دیجئے اگرچہ بلی پیٹ بھرنے کے اعتبار سے جب تازہ نہ ملے تو بدبودار سے بھی بھر لے گی۔ لیکن تازہ گوشت کی موجودگی میں کبھی نہیں ہوسکتا کہ وہ بدبودار گوشت کو اختیار کرے۔
توجانور بھی راجح کو چھوڑ کر مرجوع کی طرف نہ جائے گا۔
میں نے کل پرسوں حضرت ابوذر غفاری کا ذکر کیاتھا۔ اگر ان کا بیان نہ کروں تو موضوع کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔
اسلام سے ۳ سال پہلے آپ نے لا الہ الا اللہ کہا۔ ایک صاحب نے سوال کیا کہ جب لا الہ الا اللہ کے داعی ظاہر نہ ہوئے تھے تو انہوں نے کیسے لا الہ الا اللہ کہا تھا؟
شایدیہ صاحب سمجھتے ہوں گے کہ آپ نے غلط کہا یا جھوٹ بولا؟
میں نے حوالہ دیا ہے طبقات ابن سعد کا آپ اس میں حضرت ابوذر کا بیان دیکھ لیجئے۔ اگر یہ قول حضرت ابوذر کا ہے۔ تو یہ کبھی غلط ہوسکتا ہے اور نہ جھوٹ ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ فرمان رسول سے اس امر کی تصدیق ثابت ہے کہ زمین پر آسمان کے نیچے ابوذر صادق القول ہے۔
پھر بھی معترض یہی کہے کہ ابوذر نے پھر کہاں سے کلمہ توحید یعنی لا الہ الا اللہ کہ دیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ حضور رسول اللہ سے پہلے بھی موجود تھا‘ ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے یہ تعلیم رائج تھی بلکہ یہ کلمہ پاک حضرت آدم حنفی اللہ سے چلا آرہا ہے ان کے زمانہ میں لا الہ الا اللہ حنفی اللہ آدم تھا۔ پھر حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں لا الہ الا اللہ نوح نجی اللہ ہو‘ ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں لا الہ الا اللہ ابراہیم خلیل اللہ ہوا۔ تا آنکہ حضرت رسول اللہ کے ظہور پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہوا۔
تو لا الہ الا اللہ جناب آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور قیامت تک چلا جائے گا اور اس میں تغیر و تبدل کبھی نہ ہوگا۔ لا الہ الا اللہ تو حجت کاملہ ہے۔ وہ تو ہر زمانہ میں رہتا ہے۔
آپ اصحاب کہف کا واقعہ آیة کریمہ کے تحت پڑھئے۔ ام حسبت ان اصحب الکھف و الرقیم کانوا من آیتنا عجباً ط۔ چند اشخاص ایک غار میں اکٹھے ہے اتنی مدت میں زمین و آسمان بدل جاتے ہیں‘ ان میں سے ایک کھانا پینا لینے سب کے جاگ اٹھنے کے بعد بازار جاتا ہے‘ حال شہر کا دگر گون دیکھتا ہے نہ وہ گلیاں ہیں نہ وہ کوچے‘ آدمی ہیں تو سب کے سب نئے‘ بعض جگہ دیوار پہ لکھا دیکھا لا الہ الا اللہ عیسیٰ روح اللہ۔
پس ہر زمانہ میں حجت خدا موجود رہتی ہے قول فیصل ہے کہ کوئی زمانہ اس سے خالی نہیں رہتا الجة قبل الخلق مع الخلق و بعد الخلق کہ حجت خداوند خلق سے پہلے‘ خلق کے ساتھ اور خلق کے بعد ہر زمانہ میں رہتی ہے۔
بس یہ نہ سمجھا جائے کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیانی زمانہ میں کوئی مسلمان نہ تھا۔
روایات میں موجود ہے کہ حضور کے پاس ایک عورت ابو سلمہ آئی۔ حضور نے تعظیم کی اور فرمایا یہ نبی کی بیٹی ہے۔
پس حجت جاری تھی اس زمانہ میں بھی جب ابھی آنحضرت نے ظہور نہ فرمایا تھا۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ جناب رسالت مآب سے پہلے بھی کوئی زمانہ ایسا نہیں گذرا کہ جب موحد کامل موجود نہ تھا اور قیامت تک بھی اس کے بغیر کوئی زمانہ خالی نہ رہے گا۔
پس جب حضور سے پہلے بھی موحد کامل موجود تھے تو اسی قسم کے لوگوں سے حضرت ابوذر غفاری کی ملاقات ہوئی ہوگی اور آپ نے اس سے سن کر لا الہ الا اللہ کہا ہوگا۔
طبقات ابن سعد میں صاف طور پر موجود ہے کہ آنحضرت کی بعثت سے ۳ سال پہلے آپ نے (یعنی حضرت ابوذر نے) نماز پڑھی تھی۔ اب یہ سوال کہ کیسی پڑھی تھی اور کدھر کو منہ کرکے پڑھی تھی؟
تو میں ایک قاعدہ آپ کے سامنے عرض کرتا ہوں اگر آپ اسے سامنے رکھیں تو معلوم ہو جائے گا کہ اسلام دنیا کے ساتھ ساتھ چلنے کا حکم دیتا ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہم نے دینی مہمات عظیمہ کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔ ہم ان قواعد کو دنیوی ضرورتوں کے لیے تو استعمال کرتے ہیں لیکن دینی ضرورتوں کے لیے استعمال نہیں کرتے۔
جسے سمجھ نہ آئے بلا تکلف پوچھ سکتا ہے۔
کہ انسان تو انسان جانور بھی یہ فطرت لے کر آیا ہے کہ اس کے سامنے اور چیزیں رکھ دیں تو اسی کو اختیار کے گا جو بہتر ہوگی۔
ہے کسی کو اس مسئلہ سے اختلاف؟ کہ بازار آپ روٹیاں خریدنے جائیں۔ ایک آدمی جلی ہوئی سیاہ بدنما روٹی بیچ رہا ہے دوسرا اچھی حالت میں دے رہا ہے تو کیا وہ جلی ہوئی روٹی آپ کو دینا چاہے تو آپ اسے پاگل نہ بنائیں گے۔
کسی آدمی کو سفر پر جانا ہے تو کیا ہوسکتا ہے کہ وہ تیز رفتار‘ صحیح قسم گھوڑے کو چھوڑ دے اور لنگڑے بیمار گھوڑے پر سوار ہو جائے تاکہ اس کا سفر صحیح سلامت طے ہوجائے؟ خریدتے وقت یقیناً وہ صحیح و سالم اعلیٰ گھوڑے کو لے گا ورنہ دیوانہ یا پاگل کہلائے گا۔
بلکہ یہ وہ اصول ہے کہ ایک مگس یعنی مکھی اور پشہ بھی اس کے خلاف نہیں کرسکتا چہ جائیکہ انسان اس شئے کو اختیار کرے جو عیبدار ہو اس لیے کہ ترجیح بلا مرجح محال ہے۔
یہ وہ واضح اصول ہے جسے خود انساناپنی فطرت میں سمجھ کر آیا ہے‘ اسے کسی سکول کالج یا مدرسہ میں جا کرپڑھنے کی ضرورت نہیں۔
ایک درزی ہے جو دس روپیہ بہترین سلائی کا کام کرتا ہے اور ایک اسی رقم میں ردی کا کام کرکے دینے والا ہے تو آپ کس کے پاس جائیں گے؟ صرف اسی کے پاس جو اعلیٰ درجہ کا کاریگر ہے اوراسی اجرت میں اعلیٰ کا کرکے دیتا ہے۔
آپ ۲ پیسے کا کوزہ خریدنے جایئے۔ ایک کوزہ صحیح وسالم ہے اور ایک کا کنارہ ٹوٹا ہوا ہے اب کون ہوگا جو بے عیب کوزہ چھوڑ کر عیبدار کو خریدلے گا؟ افضل کے ہوتے ہوئے غیر افضل کو احتیار کرنا عقل اور فطرت کے خلاف ہے۔ ہے جو اس کے خلاف کرے؟
بڑوں کو چھوڑ دیجئے‘ بچوں کو لیجئے۔ ایک بچہ جو ایک سال کا ہے اس کے سامنے دو کھلونے رکھ دیں۔ ایک کی ٹانگ صحیح ہے اور دوسرے کی لنگڑی ہے۔ تو وہ بچہ بھی اسی کھلونے کو پسند کرے گا اور اختیار کرے گا جو بے عیب ہوگا اور اشارہ سے کہے گا چاہے زبان سے بول بھی نہ سکتا ہو کہ اسے لنگڑے کی ضرورت نہیں۔
پس خداوند نے ہر ذی روح کی فطرت میں ڈال رکھی ہے یہ بات کہ وہ بہتر کو لے اور کمتر کو چھوڑ دے۔
مجھے شاہدرہ جانا ہے تو اس کا ایک صحیح راستہ مقرر ہے۔ جو سیدھا چلا جاتا ہے اور دوسرا راستہ وہ ہے جو لابر سے منٹگری اور وہاں سے گوجرانوالہ اور پھر شاہدرہ۔ تو کیا جو سیدھا راستہ چھوڑ کر اس قدر لبے اور ٹیڑھے راستے کو اختیار کرے اور وہ احمق نہ ہوگا؟ اس لیے کہ بہتر راستہ وہ تھا جو قریب تر اور سیدھا ہو اور اس کی موجودگی میں لمبا اور ٹیڑھا اختیار کرنے والا پاگل ہوگا یا نہ؟
پس یہ ایک اصل اصول ہے اور ایسا قاعدہ ہے جو بدیہی حیثیت رکھتا ہے‘ واضح ہے اور ہر انسان کی فطرت میں یہ بات رکھ دی گئی ہے۔
آپ نے لڑے یا لڑکی کی شادی کرنی ہے تو پوری کوشش کی جاتی ہے کہ کہیں سے اچھا برمل جائے اور جہاں تک عقل کام کرتی ہے بڑا اور ناقابل