مجلس ھفتم :
بتاریخ ۷محرم الحرام ۱۳۷۵ ھ
بسم الله الرحمٰن الرحیم
(
أَ فَغَیْرِ دِیْنِ اللّٰهِ یَبْغُونَ وَ لَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِيْ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ طَوْعًا وَ کَرْهًا وَإِلَیْهِِ یُرْجَعُونَ
)
۔ ( آل عمران : ۸۳ )
جناب احدیث اپنے کلام بلاغت میں ارشاد فرماتا ہے کہ کیا لوگ اللہ کے دین کے سوا کسی کی خواہش کرتے ہیں۔ حالانکہ آسمانوں اور زمین کے دہنے والے اسی کے لیے اپنی گردنیں خم کئے ہوئے ہیں خوشی سے یا جبر و اکراہ سے اور آخرکار اسی کی طرف بازگشت ہونے والی ہے۔
حضرات! یہ ہے آیت کریمہ کا ترجمہ جسے آپ سنا کرتے ہیں۔اس میں پروردگار عالم نے اس دین کے متعلق جس کا نام اسلام رکھا گیا اور جس کو دین خدا بھی کہا جاتا ہے اور دین رسول بھی اسے کہتے ہیں ارشاد فرماتا ہے: کہ یہ دین میری طرف سے ہے جو انبیاء اکرام کے ذریعے اور آخری بارکامل صورت میں جناب محمد مصطفیٰ کا ذریعہ تم تک پہنچا گیا ہے فطری دین ہے۔
کل اس امر کی تشریح کی جارہی تھی آج چاہتا ہوں کہ عرض کردوں کہ وہ قواعد فطریہ کون سے آپ جن کے اوپر کسی فطری دین کی بنیاد ہوتی ہے آپ نہایت توجہ کے ساتھ سماعت فرمائیں۔ تشریف لانے والے حضرات پرسکون اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے(
فاقم وجهک للذین خیرفا فطرت الله اللی فطر الناس علیهاء لا تبدیل لخلق الله ذلک الدین القیم و لکن اکثر الناس لا یعلمون
)
(الروم نمبر ۴‘ پ۔ ۲۱)
کہ حبیب اپنے چھرہ یا منہ کو دین حنیف کے لیے سیدھا کرلو‘ اس دین اللہ کے لیے ہم تن متوجہ ہو جاؤ۔ حنیفا کا مطلب ج وبالکل سیدھا ہے۔ تمام دوسرے باطل دین سیدھا خدا تعالیٰ تک نہیں پہنچتے اور یہ ہی دین خدا ہے جس پر خدا تعالیٰ نے تمام لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ البتہ خدا تعالیٰ کی خلقت میں جس پر اس نے اپنی مخلوق کو پیدا کیا ہے کوئی تبدیلی نہیں۔ یہی تو مستحکم اور بالکل سیدھا دین ہے۔ لیکن اکثر انسان سمجھتے نہیں ہیں۔
آج کی تقریر میں حرف اس موضوع پر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دین اللہ‘ فطری دین ہے‘ انشاء اللہ وہ بات پیش کی جائے گی جو ہر ایک شخص آپ میں سے سمجھ جائے گا کہ حقیقت میں فطرت کے مطابق کون سا دین ہو سکتا ہے؟ اور کل انشاء اللہ تعالیٰ تمام ان تقاریر کا نتیجہ اور ماحصل عرض کروں گا۔
میں آپ کو اپنی تقریر کا وہ فقرہ پھر یاد کراتا ہوں کہ پروردگار عالم نے انسان کی فطرت میں کچھ ایسے واضح اور صاف قاعدہ یا اصول پیدا کیے ہیں جن کو پڑھے لکھے لوگ ”بدیہات“ کہتے ہیں۔ یعنی ان چیزوں کو انسانی فطرت میں ڈال دیا گیا ہے۔ پس ان ہی چیزوں کے مطابق مذہب کی بنیاد بھی رکھ دی پس جو مذھب ان کے مطابق ہوگا وہ صحیح اور جس مذھب کی بنیاد ان فطری اصولوں کے خلاف ہوگی وہ غلط ہوگی۔
اب مذھب میں دو چیزیں ہیں ایک وہ جن کو اصول کہتے ہیں‘ دوم وہ جسے فروع کہتے ہیں۔
اگر اصول دین ان قواعد فطریہ کے مطابق ٹھیک ہوگئے تو فروع دین کو پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں کہ وہ کیا ہیں؟
مثلاً جب معلوم ہو جائے کہ محمد الرسول اللہ خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نبی ہیں تو پھر یہ پوچھنے کے متعلق ضرورت نہ رہے گی کہ صبح کی نماز کی دو رکعت کیوں ہیں؟ اس لیے کہ جب اعتقاد کرلیا کہ حضور خدا تعالیٰ کے نیچے رسول ہیں اور دن سے مان لیا کہ آپ برحق نبی ہیں تو پھر جو کچھ وہ کہتے ہیں یا کرتے ہیں وہ سب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
اسی لیے یہ قواعد فطرت اصول دین کے لیے ہیں۔ یہ فروع دین کے لیے۔
نیز یہ بھی یاد رکھنے کی چیز ہے کہ نجات کا دار مدار یعنی بخشے جانے یا انحصار اصول کی صحت پر ہے۔ اگر اصول ہی غلط ہوگئے تو پھر نجات ناممکن اور فروع تو خواہ مخواہ غلط ہی ہوں جائیں گے اور اگر اصول صحیح ہوگئے تو پھر نجات میں کوئی شبہ نہیں اور فروع میں جو غلطی یا سستی یا کوتاہی ہوگی اس کی سزا مل جائے گی اور نجات اپنی جگہ یقینی اور قائم ہے۔
پس اب صرف اس قواعد کو بیان کرنا ہے۔ جو انسان اپنی فطرت میں اپنے لیے لے کر آتا ہے۔
ایک قاعدہ فطری یہ ہے کہ جب تک کسی اشرف‘ اعلی ترین‘ نافع ترشئے کی ایجاد ممکن ہے اس وقت تک اس سے پست‘ اولی چیزکی ایجاد ناممکن ہے۔
پہلی مجلس میں عرض کیا جاچکا ہے کہ دماغ متوجہ ہو اور طبیعت تازہ اور صحیح ہو اور علماء اس قاعدہ کو ملحوظ خاطر رکھیں تو اسی نسبت سے کئی مسائل حل ہوجاتے ہیں اور بہت سی چیزیں بالکل واضح اور صاف ہو جاتی ہیں۔
پروردگار عالم نے تمام عالم کو جو اس نے بتایا ہے تین چیزوں پر منحصر فرمایا ہے۔
۱ ۔ روح بے جسم‘ وہ روح کہ جس کا جسم سے کوئی تعلق نہیں۔
۲ ۔ روح با جسم‘ وہ روح جس کا جسم کے ساتھ تعلق ہو۔
۳ ۔ جسم بے روح‘ وہ اجسام جن کا روح کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو۔
اگر پروردگار عالم اس عالم جیسے دس کروڑ عالم بھی بنادیں تب بھی وہ عالم ان ہی مذکورہ اقسام بالا میں منحصر ہوں گے۔یعنی کوئی شئے یا مجرد ہوگی یا غیر مجرد ہوگی یا بین بین ہوگی۔
جب دلیل اثبات میں ہو کر طے ہوجائے عقلاً اس کی نفی کرنا محال ہوجائے گی۔
یہ سامنے لاؤڈ سپیکر ہے یہ سفید ہے یا نہیں۔ تو جو چیز ثابت ہو جائے وہی ہوگی دوسری نہ ہوگی اور یا دونوں صنعتیں نہ ہوں گی۔ اگر یہ سفید ہے تو پھر سیاہ نہیں ہوسکتی یا برعکس یعنی یہ تو ممکن ہوسکتا ہے کہ ضدین دونوں نہ ہوں مگر دونوں کا بیک وقت موجود ہونا ناممکن ہے ۔ دنوں چیزوں کا سفید ہونا یا سیاہ ہوناایک ہی وقت میں محال ہے۔ نقیضین کا جمع ہونا ممکن نہیں ہے البتہ ان کا اٹھ جانا ممکن ہوسکتا ہے۔ دونوں صورتوں میں سے ایک صحیح ہوگی ایک غلط ہوگی یا دونوں ہی نہ ہوں گی۔
سامنے ستون ہے یا آدمی ہے۔ اب ان دونوں چیزوں میں سے ایک ہوگی دوسری نہ ہوگی یا یہ کہ وہ شئے نہ ستون ہوگی نہ آدمی ہوگی لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ آدمی بھی ہو اور ستون بھی ہو‘ اس لیے کہ دونوں چیزیں آپس میں نقیضین ہیں اور دونوں بیک وقت موجود ہونا ممکن نہیں ہوسکتیں۔
ٹھیک اسی طرح کائنات کی کوئی شئے یا مجرد ہے یا نہیں ہے‘ پس ایک قسم بن گئی مجرد اور دوسری قسم بن گئی غیر مجرد‘ یعنی یہ کہ مجرد نہیں ہے۔ اس نہیں میں آجائے گا یا وہ اور اس کے لوازمات۔
پس یہ حصر عقلی ہے کہ عالم یا مجرد ہے اپنی حقیقت کے اعتبار سے‘ جس کا تعلق کسی جسم یا مادہ سے نہیں اور یا عالم کوئی اور شئے ہے جو مجرد نہیں ہے اور اس کا تعلق جسم سے یا مادہ سے ہوگا۔
اس دوسری صورت کی دوقسمیں ہیں۔ الف۔ وہ روح جس کا تعلق جسم کے ساتھ ہے۔ ب۔ وہ جسم جس کا تعلق روح کے ساتھ نہ ہو۔
پس کل عالم کا انحصار ان تین چیزوں یا قسموں میں پایا جاتا ہے۔
۱ ۔ روح بے جسم
۲ ۔ روح جسم کے ساتھ
۳ ۔ جسم بغیر روح کے
مکرر عرض کرتا ہوں کہ اگر دس کروڑ عالم اور بھی بن جائیں تو ان ۳ اقسام سے باہر نہ ہوں گے۔
حضرات توجہ فرمائیں۔ اگر کچھ دیر ہو جائے تو معاف فرمایا جائے۔ اپنے خیال میں نہایت مفید اور ضرور چیز پیش کرنا چاہتا ہوں۔
الف۔ پس وہ قسم جسے روح بے جسم کیا گیا ہے اسے عقول کہا جاتا ہے۔
عقول کا یہ دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ پھیلتا چلا جارہا ہے۔ اس سے آگے اور بے شمار چیزیں آتی ہیں اور اس کے بے انتہا درجات ہیں۔
ب۔ دوسری قسم جسے روح یا جسم کہا گیا ہے اس میں ملائکہ آتے ہیں۔ انسان داخل ہوتے ہیں۔ حیوان بھی اسی میں داخل ہوتے ہیں اور درختوں میں بھی یہ روح پائی جاتی ہے۔
ج۔ تیسری قسم جسم خالص بے روح ہے۔
ان سب میں افضل کون سی قسم ہے؟
پہلی قسم جو ”روح بے جسم“ یا بے مادہ بتائی گئی ہے اسے مجرد کہا گیا ہے۔ یہ مجرد قسم مادہ یا جسم سے مبرا اور پاک ہے۔
پس مخلوقات کی منزل کی ابتداء روح بے جسم سے ہوتی ہے، پھر جسم با روح، پھر جسمِ بے روح پر جاکر ختم ہوجاتی ہے
حضرات! میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ بنانے والے کے سامنے دو چیزیں ہیں ۔ ایک اشرف یا افضل۔ دوم پست یا ارذل ۔ اشرف کے ہوتے ہوئے پست کو افضل نہ بنایا جائے گا ۔ اشرف اسی وقت تک اشرف ہے جب تک اس کے مقابلہ میں ارذل رکھا جائے گا ۔ اب اگر کوئی اشرف کی موجودگی میں پست کو بنانا چاہے گا اور اس فائدہ کا لحاظ نہ رکھے گا ۔ تو یہ غلط اصول خدا تعالٰی کے لئے نا ممکن ہوگا اس لئے کہ اگر خدا تعالٰی کے نزدیک ایسا ممکن ہوا تو معاذاللہ
یا وہ جاہل ہوگا ۔ جو خدا تعالٰی کے لئے نا ممکن ہے ۔
اور یا وہ لغو فعل کرنے والا ہوگا اور یہ بات بھی خدا تعالٰی کے لئے ناممکن ہوگی ۔
اور یا وہ عاجز آگیا، اس بات سے بھی اس کی ذات پاک اور یہ اس کے لئے ناممکن ۔
تو سب سے اشرف شے افضل بنے گی ۔ روح کے لاکھوں درجے ہیں پس جو افضل تر ہیں یا اعلٰی تر شے ہوگی وہ پہلی روح ہوگی ۔ سب کمالات اس میں ہوں گے اور جو کمالات تمام مخلوق کو ملیں گے وہ اسی سے ملیں گے ۔
اور یہ روح وہ حقیقت ہے جس کو ارشاد نبوی میں اس طرح واضح کیا گیا ۔ ” اوّل ما خلق اللہ نوری “ کہ سب سے اوّل جسے خدا تعالٰی نے پیدا فرمایا وہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نور یعنی نور محمدی ہے ۔ پس نور محمدی تمام کائنات سے افضل ثابت ہوا اس قاعدہ فطری کے اعتبار سے جس کا بیان آپ کے سامنے کیا گیا ۔
پس اس مسلمہ کے اعتبار سے پروردگار عالم نے جس شے کو سب سے اشرف بنایا وہ ” روح بے جسم “ ہوگی ۔ پھر درجہ روح با جسم ہوگا پھر جسم بے روح ہوگا ۔
یہ خط ہے جو کمان کی شکل میں ہے درمیان میں سے بڑھتا چلا جائے گا کناروں پر کم ہوتا چلا جائے گا ۔ جہاں جسم یا مادہ بے محض ۔یہ نزولی قوس ہے ۔
یہاں سے دوسری قوس چلی جائے گی ۔
ان تمام چیزوں کے تاثر کے بعد، نشونما پھر ” حس “ پیدا ہوگی۔ پھر ” عقل “ آئے گی ۔ اس سے آگے بڑھ کر ” عصمت “ آئے گی ۔ آگے جاکر وہاں پہنچے گی جہاں سے ابتداء ہوئی تھی ۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے مقام معراج کی حقیقت کہا گیا ہے ۔
اور اسی کی طرف ” قرآن مجید “ میں اشارہ کیا گیا ہے اس آیت میں مکان تاب قوسین او ادنی ۔ دونوں کمانیں اونچی ہوئیں اور وہاں جا ملیں جہاں سے شروع ہوئی تھیں تا آنکہ خدا تعالٰی کی ذات باقی رہ گئی ۔ یہاں کمال عروجی یا طولی ختم ہوگیا جس طرح درخت کمال ارض میں بڑھنا شروع کرتا ہے اور بڑھتے بڑھتے حد کمال تک جا پہنچتا ہے جہاں اس کا کمال طولی ختم ہوجاتا ہے ۔
اسی طرح شب معراج حضور کا کمال انتہاء پر پہنچا اور وہ نور کا ٹکڑا موجود ہے، جو اس دنیا کو سنبھالے یا قائم کئے ہوئے ہے ۔
دوسرا قاعدہ فطری یہ ہے کہ ایک عرض و غایت یا مقدمہ ہوتا ہے اور ایک ذوالمقدمہ یا ذریعہ ہوتا ہے ۔ جسے وضو مقدمہ ہے نماز کا تو ذوالمقدمہ یا نماز افضل ہوتی ہے وضو سے، اسی طرح ذریعہ سے غرض و غایت ہمیشہ افضل ہوتی ہے۔
مثلاً کرسی بیٹھنے کے لئے ہوتی ہے تو کرسی تو بیٹھنے سے افضل نہیں کہہ سکتے بلکہ بیٹھنا افضل ہوگا کرسی سے ۔
مکان بنایا جاتا ہے رہنے کے لئے پس رہنا افضل ہے مکان سے ۔ اگر رہنا نہ ہوتا تو مکان بنانے کی ضرورت ہی نہ تھی ۔
یہ دو چیزیں ایسی ہیں جو فطری چیزیں ہیں ۔ ایسی بد یہی ہیں کہ ان کو کوئی اشکال نہیں ہوسکتا ۔
ایک فطری قاعدہ پہلی مجالس میں عرض کرچکا تھا کہ ترجیح بلا مرجح محال ہے ۔
انسان کے سامنے دو چیزیں ہیں ان میں سے ایک چیز کی اسے ضرورت ہے تو ان میں سے جونسی چیز بہتر ہوگی انسان اسی کو اختیار کرے گا ۔ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ انسان اشرف یا بہتر چیز کو چھوڑے اور کم تر یا بد تر چیز کو قبول کرلے ۔
ان قواعد فطریہ کو سامنے رکھ کر امور دینی میں فطری اصولوں کو اختیار کیجیے ۔
خدا تعالیٰ کلام الٰہی میں ارشاد فرماتا ہے کہ(
افغیر دین الله یبغون وله اسلم من فی السموات والارض طوعا و کرها و الیه یرجعون
)
کہ دین اللہ کے سوا اور کسی کو نہ اختیار کرو ۔ دوسری جگہ فرماتا ہے ۔(
قم وجهک للدین حنیفا فطرة الله التی فطر الناس علیها لا تبدیل لخلق الله ذالک الدین القیّم
)
کہ خدا تعالٰی کے سیدھے دین پر قائم رہو وہ جو اللہ تعالٰی کی فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا فرمایا ہے۔
پس مومنوں کو خدا تعالیٰ واضح طور پر کہتا ہے کہ اس کا دین فطری ہے جس نے اسے بالائے طاق رکھ دیا وہ دیندار نہ رہے گا، وہ بے دین ہو جائیگا۔ جس طرح کسی اچِھی اور بہتر شے کے ہوتے ہوئے بری اور کم تر کو اختیار کرنا فطرت انسانی کے خلاف ہے اسی طرح فطرت کے خلاف کرنا دین اللہ یا اسلام کے خلاف کرنا ہو گا ایک قاعدہ فطری اور ہے جسے آپ توجہ کے ساتھ سماعت فرمائیں۔ ایک چیز نقضِ عرض ہوتی ہے۔ اس کا ارتکاب، ابکال ناجائز ارمحال ہوتا ہے
مثلاً باغ لگایا گیا ہے اس کی حفاظت کے لئے چار دیواری بنائی جاتی ہے تاکہ جانوروں،چوروں وغیرہ سے حفاظت ہو یا اِدھر اُدھر کے گزرنے والے اندر نہ جا سکیں ۔ لیکن اسی چار دیواری میں اپنے خود اندر جانے کے لئے بھی ایک چیز بنائی ہوتی ہے اُسے دروازہ کہتے ہیں ۔ پس اگر دروازہ نہ بنے گا تو وہ غرض فوت ہو جائیگی جس کے لئے باغ بنایا گیا تھا۔
ہم نے خدا تعالیٰ کی ذات تک پہنچنا، تو لازماً ایسے ذریعہ کی ضرورت کی جو وہاں تک پہنچا سکے پس انسانوں میں سے کوئی آدمی ضرور ہونا چاہیے جو خدا تعالیٰ تک ہم کو پہنچا دے۔
لیکن کسی کو اگر یہ ذریعہ مل جائے یا پتہ مل جائے کہ فلاں آدمی وہاں تک پہنچا دے گا اور عقل سلیم اسے تسلیم کرے پھر بھی کوئی آدمی اسے اختیار نہ کرے تو یہ نقضِ عرض ہے اونقضِ عرض خلافِ فطرت ہے۔ لہٰذا ضروری ہوا اور فطرت کے اصول کا تقاضا یہ ہوا کہ نقضِ غرض نہ کیا جائے اور دین اللہ میں قاعدہ فطری یہ ثابت ہوا کہ اس کامل ذریعے کو قبول کیا جائے جو خدا تعالیٰ کی ذات تک پہنچا سکتا ہو۔ ایسا نہ کرنا خلاف فطرت ہوگا اور جو خلاف فطرت کرتا ہے وہ بد فطرت کہلاتا ہے۔
اب چاہتا ہوں کہ ایک ضروری بات عرض کر دوں۔ توجّہ فرما کر سنیئے۔
آپ نے لاوڈ سپیکر لگانا ہے جسے دو آدمی ٹھیک کرنا جانتے ہیں۔ ایک آدمی تو وہ ہے جو درست لاوڈ سپیکر کو تو لگانا جانتا ہے لیکن اگر لاوڈ سپیکر بگر جائے تو پھر اسے سنبھال نہیں سکتا۔اس کے خلاف ایک دوسرا آدمی ہے جو اگر لاوڈ سپیکر بگڑ جائے تو اس کو سنبھال سکتا ہے اور حسب دستور درست کر سکتا ہے تو آپ فرمائیے ان دونوں میں سے کس آدمی کو اپنے جلسے کے لئے آپ بلائینگے یا اس کو بلائیں گے جو بگڑے ہوئے کو سنبھال نہیں سکتا؟ یقیناً آپ اسی کو بلائینگے گے جو بہتر ہو گا اس لئے کہ ترجیح مرجوح باطل اور محال ہے۔
آپ کپڑا خریدنے جاتے ہیں تو ایسا اٹھا لاتے ہیں جس پر نمبر لکھے ہوتے ہیں اور اعلیٰ قسم پسند کر کے لاتے ہیں۔
اسے جانے دیجئے آپ دھلانے میں اس دھوبی سے کپڑے دھلائینگے جو بہتر اور اچھے کپڑے دھونے والا ہو گا۔
الغرض فطرت کہتی ہے کہ جب اچھی چیز مل سکتی ہے تو اس کی موجودگی یا دستیابی کے ہوتے ہوئے بری یا خراب شے کو قبول کرنا بری چیز ہے۔
جب لوگ دنیا کے معاملے میں فطرت کے ان اصولوں کی پابندی کرتے ہیں تو ضروری ہوا کہ دین کے معاملے میں بھی فطرت کے ان اصولوں کی پیروی کریں۔ جب دین کو بہتر درجہ کا سمجھانے والا مل سکتا ہے اس کے مقابلے میں وہ شخص جو کہتا ہو کہ میں تو جانتا ہی نہیں اختیار کرنا فطرت کے خلاف اور دین اسلام جو دین اللہ ہے کے خلاف ہے۔
جس قدر انبیاء کرام تشریف لائے ان ہی فطری اصولوں کے ساتھ تشریف لائے۔
ابھی عرض کیا گیا تھا کہ اجتماع ضدّین یااجتماع نقیضیں باطل اور محال ہے۔
حضرات انبیاء، اور آئمہ دین نے جب انسانوں کی اصلاح فرمائی ان ہی فطری اصولوں کے ذریعے اصلاح فرمائی۔
ایک مثال پیش کرتا ہوں۔سبحان اللہ۔
سیدنا امام جعفر صادق کے پاس ایک عیسائی مناظرہ کرنے پہنچا کہ حضرت عیسیٰ ابن اللہ تھے۔یعنی حضرت عیسیٰ خدا کے بیٹے تھے۔آپ نے مزاج پرسی فرمائی کہا مناظرہ کرنا چاہتا ہوں۔ارشاد فرمایا”مناظرہ کی کیا ضرورت ہے ہم تو حضرت عیسیٰ کو پیغمبر اور واجب الاحترام مانتے ہیں۔صرف ذرا ذرا سا گلہ ہے“
عیسائی مناظر نے عرض کیا”وہ کیا؟“
ارشاد فرمایا”عبادت کم کرتے تھے۔“
عیسائی بگڑا اور کہا۔”بالکل غلط۔وہ تو رات دن عبادت کرتے تھے۔“
امام صادق نے فرمایا”جب وہ رات دن عبادت کرتے تھے تو معلوم ہوا کہ کسی کی عبادت کرتے تھے‘ تم خود ہی بتاؤ کس کی عبادت کرتے تھے۔
کہا:”خدا اللہ کی“
ارشاد فرمایا:پس معلوم ہوا کہ وہ معبود نہ تھے بلکہ عبد تھے اور جب عبد ثابت ہو گئے تو خدا نہ رہے اور جب خدا نہ رہے تو مناظرہ ختم ہو گیا۔
تو یہ فطری اصول پیش کیا۔ مناظر فوراً سمجھ گیا۔
امیرالمومنین حضرت علی کی خدمت میں ایک دھریہ منکر خدا حاضر ہوا او رکہا کہ خدا کوئی نہیں۔
آپ نے ارشاد فرمایا”سبحان اللہ!تم کہتے ہو کوئی خدا نہیں اور ہم کہتے ہیں کہ خدا ہے۔
لھذا اسے معبود مان کر کچھ نماز پڑھتے ہیں کچھ روزے رکھتے ہیں بہت کچھ خیرات کرتے ہیں کچھ اور نیک اعمال بجا لاتے ہیں اور تم جو کہتے ہو کہ خدا کوئی نہیں ان اعمال صالحہ میں سے کچھ نہیں کرتے۔اگر تمہارے قول کے مطابق مانا جائے تو ہم تم مرنے کے بعد برابر ہوئے اور اگر ہمارا قول صحیح نکلا تو دنیا میں اگرچہ کچھ تکلیف ضرور اٹھائی لیکن میرے کے بعد ہمیشہ کے مزے میں ہم آئینگے اور تم ہمیشہ کے عذاب اور سب سزا میں مبتلا ہو گے۔
دھریہ یہ سن چکا تھا تو ہوش بگڑ گئے حیران ہو گیا۔بالآخر تسلیم کیا اور مزید دلیل کی وضاحت پوچھی۔
ارشاد فرمایا کہ تم مادہ کو خدا کہتے ہو جو نہ قدیم ہے نہ ازلی ہے۔تو جب مادہ قدیم نہ ہوا تو یقیناً تمہاری مدد نہ کر سکے گا۔
اور ہمارا خدا قدیم ابدی سرمدی ہے لہٰذا وہ ہر وقت اور ہر زمانہ میں خواہ یہ آسمان و زمین اورما فیھا باقی ہے وہ ہمارا مددگار ہوگا۔
اسی طرح ائمہ طاہرین کی محبت سے فیض یافتہ حضرت بہلول دانا تھا۔آپ کو فطرت کے اصولوں سے سمجھانے پر خاص ملکہ حاصل تھا۔
آپکے پاس سے ایک منکر اہل بیت یہ پراپگینڈا کرتا ہوا گزرا تھا کہ امام جعفر صادق کے ماننے والوں کے کس قدر غلط اعتقاد ہیں جو سمجھ میں ہی نہیں اتر سکے کہ وہ کہتے ہیں۔
(ا)خدا تعالیٰ ہے لیکن دیکھا نہیں جاتا۔بھلا یہ کس قدر غلط خیال ہے کہ ایک چیز ہو بھی اور پھر نظر بھی نہ آئے۔؟
(ب)شیطان جہنم میں ڈالا جائے گا حالانکہ شیطان آگ سے پیدا ہوا‘ تو آگ کو آگ میں ڈال دینا بھی کوئی عقیدہ ہوا؟
(ج)وہ کہتے ہیں کہ انسان فعل مختار ہے۔ اس لیے نیکی بدی کے افعال میں وہ جواب دہ ہوگا۔ نیکی کی جزاء پائے گا اور بدی کی سزا پائے گا۔ حالانکہ انسان کو کچھ احتیار حاصل نہیں محض مجبور شئے ہے۔ نہ اپنی مرضی سے آتا ہے نہ اپنی مرضی سے جاتا ہے۔
جناب بہلول نے اس کی تینوں باتیں سننے کے بعد دیوانہ اور مٹی کے ڈیلے لیے اورسیدھے بے دھڑک اس کے سرپر رسید کردیئے‘ سخت چوٹ آئی‘ خون بہا۔لوگوں نے آپ کو پکڑلیا۔ بادشاہ کے دربار میں پکڑ کر پیش کردیئے گئے۔
آپ نے ارشاد فرمایا حرج کیا ہوا جومیں نے چند ڈیلے اس کے مار دیئے؟
اس نے کہا حرج نہیں نہوا‘ میرا سر مارے درد کے پھٹ رہا ہے۔
آپ نے رفمایا کہاں درد ہورہا ہے ذرا دکھاؤ تو سہی۔ اگر ہو رہا ہے؟
کہا بھائی سچ مچ درد ہے اور ہو رہا ہے لیکن درد کوئی ایسی چیز ہے جو دکھائی بھی جاسکتی ہو؟
آپ نے فرمایا تم تو کہتے تھے کہ امام جعفر غلط فرما رہے تھے کہ خدا ہے لیکن دکھائی نہیں دیتا اور اب خود یہی غلطی کر رہے ہو؟
تم کہتے ہو ڈیلے کی چوٹ سے تکلیف ہو رہی ہے۔ حالانکہ تم بھی خاک کے اورڈیلا بھی خاک کا۔ خاک خاک پہ لگی درد کیسے ہوا اور تکلیف کیسے پہنچی۔ کیا تم ہی نہ کہہ رہے تھے کہ شیطان بھی آگ ہے اور جہنم بھی آگ‘ تو آگ کا آگ میں پڑنے سے کوئی تکلیف پیدا نہیں کرسکتا؟ اگر واقعی خاک سے خاک کو تکلیف پہنچ سکتی ہے جیسا کہ تم بتلا رہے ہو تو امام جعفر صادق علیہ السلام کو کیوں نہیں سچا مانتے جنہوں نے فرمایا کہ شیطان کو جہنم کی آگ میں پھینکا جائے گا تا کہ اسے تکلیف ہو اور اس کی شیطنت کی سزا ملے۔
پھر تو دعویٰ کرتے ہو کہ انسان مجبور محض ہے۔ تو میں بے قصور نہیں؟ میں نے جو کچھ کیا ہے بے اختیاری کے عالم میں کیا ہے اس لیے کسی سزا کا حقدار نہیں ہوسکتا۔
آپ کے ان فطری دلائل کو بادشاہ اور تمام لوگوں نے اس منکر سمیت تسلیم کیا اور آپ سے معافی مانگی گئی۔
توجاہلوں کے سامنے علمی دلائل اس قدر کام نہیں آتے جس قدر فطری دلائل مسائل کو ان کے ذہن میں اتار دیتے ہیں۔
اسی طرح ایک مشہور واقع ہے کہ ایک بڑے عالم کے پاس ایک محب اہل بیت حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرا بھائی محبت بہت تنگ کرتا رہتا ہے آپ کوئی ایسی دلیل سمجھا دیجئے جس سے ثابت ہو جائے کہ مولا علی کا مرتبہ اور لوگوں سے کم تھا؟
عالم صاحب نے سوچ کر کہا کہ اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ رسول اللہ نے دوسروں کو تو اپنے پاس سلایا ہوا ہے اورحضرت علی کو اپنے قرب سے دور رکھا۔
تو محبت نے ایک فطری دلیل سے عالم صاحب کو لا جواب کردیا۔ کہا اگر دوسرے رسول اللہ سے اجازت لے کر پاس جا سوئے ہیں تو نقل سے ثابت کردو اور اگر بلا اجازت ہی وہاں جا لیٹے ہو تو بات اور بھی بگڑ گئی اور بجائے درجہ کے کم رتبہ ہونا ثابت ہوچکا۔
عالم صاحب نے کہا التبہ اجازت ثابت تو نہ ہو لیکن وہ حجرہ تو ان کی بیٹی کا تھا اس لیے اجازت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
محب نے جوب دیا کہ کیا دوسروں کی بیٹی کو تو زمین ورثہ میں مل گئی اور اس کے سبب وہ لوگ افضل ثابت ہوتے ہیں تو کیا حضور رسول اللہ کی بیٹی کا ورثہ نہ تھا جو بیوی کے ۱/۴ مقاملہ میں ۱/۲ کی مالک ہوتی ہے پس اس حساب سے تو علی کی فضیلت او رواضخ ہوجاتی ہے۔
عالم صاحب نے حب اس فطری دلیل کا خواب نہ پایا تو یہ کہہ کر اس محب کو اپنے پاس سے نکلوا دیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ تو رافضی ہے میرے دربار سے چلو نکل جاؤ۔
پس معلوم ہوا کہ فطری دلائل ایسے پکے اور محکم ہوتے ہیں کہ وہ بہت جلد فطرت انسانی کے لئے قابل قبول ہوتے ہیں ۔
اسے بھی چھوڑ دیجئے ۔ قرآن میں دیکھ لیجئے ۔ مجھے اس وقت دو حصے یاد آگئے جو پروردگار عالم نے خود قرآن میں بیان کئے ہیں ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نمرود نے جھگڑا کیا ۔ جسے باین الفاظ قرآن پیش کرتا ہے ۔
(
الم تر الی الذی حآجّ ابراهیم فی ربه ان الله الملک اذ قال ابراهیم ربی الذی یحیی ویمیت واذ قال انا اخی و امیت قال ابراهیم فان الله یاٰتی بالشمس من المشرق فأت بها من المغرب فبهت الذی کفر والله لا یهدی القوم الظٰلمین
)
( پ ۳ رکوع ۲ )
کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نمرود کے جھگڑے کو محبوب آپ نے نہیں دیکھا ؟ جو اس نے آپ کے رب کے بارے میں کیا ۔ حالانکہ اسے پروردگار عالم نے بادشاہی عطا فرمائی تھی ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے ۔
اس نے ایک بے گناہ کو مار ڈالا اور کہا ” دیکھو میں بھی مارتا ہوں “ اور پھر ایک واجب القتل کو زندہ چھوڑ دیا ۔ اور کہا ”دیکھو میں بھی زندہ کرتا ہوں ۔“
حضرت ابراھیم علیہ السلام نے جب دیکھا کہ یہ شخص جھگڑے سے باز نہیں آتا اور اسے فطری دلیل سے قائل کرنا چاہیے ۔
آپ نے فرمایا ” میرا رب سورج کو مشرق سے چڑھاتا ہے تو بھی اگر رب یا خدا ہے تو پھر سورج کو مغرب کی طرف سے چڑھا کر دکھا دے “
اب اس دلیل کے سامنے وہ منکر جھگڑالو لاجواب اور بے زبان ہو کر رہ گیا اور بے شک ظالم لوگوں کو خدا تعالٰی کبھی ہدایت نہیں دیتا ۔
پس فطری دلائل وہ ہیں جب جو انسان اپنی پیدائش سے ساتھ لاتا ہے ۔ بلکہ یہ فطرت ایسی محکم اور وسیع ہے کہ حیوان اور جمادات تک اس کے احکام سے خبردار ہیں ۔
نمرود کے مناظرہ یا جھگڑہ کو حضرت ابرہیم کے فطریانہ دلائل نے مبہوت اور پریشان کردیا ۔ اس لئے کہ اس کی فطرت تسلیم کررہی تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام عین فطرت کے مطابق فرمارہے ہیں ۔
ایک چیونٹی بھی ان مسائل سے اس قدر واقف ہے کہ احکام فطرت کے خلاف ذرہ برابر نہیں چلتی ۔ وہ گندم کا دانہ اپنے سوراخ میں لے جاتی تو اس میں سوراخ کردیتی ہے ۔
یہ کس لئے اس لئے کہ اگر اس پر کوئی ایسا زمانہ آپڑے کہ وہ باہر نکلنے سے محروم کردی جائے تو وہ دانہ اسکے لئے غزا بن سکے گا اور سوراخ اس لئے کر دیتی ہے کہ اگر دانہ باقی رہ گیا تو اس کی فطرت اگنا ہے۔ یہ اس میں سوراخ کر دیتی ہے جو فطرتِ ارضی کی رُو سے سوراخ بر جانے کے بعد بیکار ہو جاتا ہے لہٰذا زمین کی فطرت ایسے سوراخ دار دانے کو اگاتی نہیں ہے اور اس طرح وہ دانہ صرف چیونٹی کی غذا کے ہی کام آتا ہے۔
پس زمین اور چیونٹی فطرت کے مندرجہ بالا بیان کردہ اصول سے واقف ہیں کہ سوراخ ہو جانے سے دانہ بے کار ہو جاتا ہے اور غرض پیدائش باطل ہو جاتی ہے۔ اس واسطے نقضِ غرض جب باطل کر دی گئی تو اس کا فائدہ بھی باطل ہو گیا۔
ایک اور عجیب امر یہ ہے کہ دھنیا کے دانہ کی تاثیر یہ ہے کہ اگر اس کے دو ٹکڑے ہو جائیں تو بھی زمین اسے اگا دیتی ہے۔ لیکن حیوان چیونٹی دانہ اور زمین کی فطرت اور اس کے اصول سے اس قدر باخبر واقع ہوئی ہے کہ وہ دھنیے کے دانے کے مزید دو ٹکڑے یعنی ایک دانے کے چار ٹکڑے کر دیتی ہے اور اس طرح سے وہ زمین میں اگنے کے لائق نہیں رہتا اور اس کے خوراک کے کام میں حسبِ ضرورت باقاعدہ آتا ہے۔
پس یہ وہ قواعد فطریہ ہیں کہ انسان تو درکنار جانوروں کی فطرت میں موجود ہیں لہٰذا اگر انسان باوجود انسان ہونے کے فطری قواعد کو چھوڑتا ہوا خلاف فطرت جانے لگے تو وہ انسانیت کے درجے سے اسقدر گر جاتا ہے کہ وہ جانوروں سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔
میرے بزرگو اور بھائیو! ایک بات پر غور کرو،کہ آپ اپنے بچوں کے لئے ٹیوٹر،ماسٹر رکھتے ہو تو کیسا رکھتے ہو؟ بالفرض ماسٹر اچھا نہ پڑھاتا ہو تو پھر اسے نکال دیتے ہو یا نہیں؟ اور اس کے عوض میں وہی لاتے ہو نہ جو قابل ہوتا ہے؟ کیا یہ ٹھیک ہے نہ،یا غلط ہے؟
پس میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب بچوں کے پڑھانے کے لئے تو آپ کی طرف سے اسقدر اہتمام کیا جاتا ہے۔ تو کیا اپنے پڑھانے کے واسطے کوئی اہتمام نہیں؟آپ دین حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے معلّم کی کوئی ضرورت نہیں؟ بے شک ضرورت ہے اور رہے گی۔
وہ معلّم دین کون ہیں؟ وہ وہی ہیں جن کے سامنے کوئی سوال آتا تھا، جس معاملے میں بھی وہ سوال ہوتا تھا، تو اسی وقت وہ حل کر کے رکھ دیتے تھے۔ پھر رسول اللہ کی پیش گوئیاں اور سچی گواہیاں جن کے حق میں موجود ہیں۔ ایسی کہ آفتاب بدل سکتا ہے مگر وہ اپنی جگہ سے بدل نہیں سکتیں۔
حیٰوةُ الحیوان میں ایک واقع لکھا ہے ایک دن ہارون الرشید نے اپنے بیٹوں کو بلایا۔ اس کے دو بیٹے مامون اور امین تھے۔ مامون کنیز لیلی سے اور امین زبیدہ سے تھا۔ شہزادے جب آپہنچے، علماء وقت سے کہا کہ حرف، نحو ، معانی وغیرہ علوم میں ان سے سوالات کئے جائیں۔ آخر امیر المومنین کے بیٹے تھے، جواب دے رہے تھے۔ مگر یہ برابر رو رہا تھا، کہا گیا یہ وقت رونے کا کس طرح ہو سکتا ہے؟ یہ تو خوشی کا موقع ہے خدا نے اس قدر لائق بیٹے آپ کو عطا فرمائے۔
کہا” کیا بتاوں۔ ان بیٹوں کا انجام یاد آرہا ہے، اگرچہ علوم میں لائق ہیں لیکن ان کا انجام بد مجھے رلا رہا ہے۔“
کہا گیا” کیا کسی نجومی سے آپ نے سنا ہے؟ یہ چیز تو خلاف اسلام ہے۔“
بادشاہ ہارون نے کہا، نجومی سے نہیں سنا بلکہ علم خدا میں لوح محفوظ پر لکھا جا چکا ہے کہ یہ دونوں بھائی آپس میں بری طرح سے لڑینگے اور یہ جنگ میرے مرنے کے بعد ہو کر رہے گا۔ سورج اپنی جاء طلوع مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع کر سکتا ہے لیکن یہ بات اپنی جگہ سے بدل نہیں سکتی۔ اس لئے کہ یہ خبر لوح محفوظ سے زبان جبریل پر، اور وہاں سے سینہ انبیاء تک، اور وہاں سے قلوب اولیاء تک پہنچی ہے اور جو کچھ کہ دیا گیا ہے وہ ہو کر رہے گا۔ امام موسیٰ کاظم کی زبان سے یہ بات میں نے سنی ہے کہ ان بیٹوں کا انجام یہ ہو گا۔“
ظالم نے موسیٰ کاظم کو چند دن جیل میں بھی رکھا۔ زہر بھی دیا اور آپ شہید بھی ہو چکے۔ لیکن اعتقاد بادشاہ کا یہی تھا کہ وہی ہو کر رہے گا جو امام کہ گئے ہیں۔
پس معلّم دین وہ امیر ہیں جن کا کہنا فطرت کا کہنا تھا۔ جو ان سے ہٹ گیا وہ فطرت سے پھر گیا۔
سُبحان اللہ! ایک مسئلہ اور سامنے آگیا، بات سے بات نکل آتی ہے چونکہ بعض کے ذہن میں یہ سوال آسکتا ہے اس لئے حل کر دینا چاہتا ہوں۔
ارشاد رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے کلّ مولود یولد علی الفطرہ الاسلام والداہ یھودانہ او ینصّرانہ او یمجسانہ کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے، لیکن بعد میں اس کے ماں باپ اسے یہودی بنا ڈالتے ہیں یا عیسائی کر لیتے ہیں یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔
سوال یہ کیا جاتا ہے کہ فرمان نبوی سے ثابت ہوتا ہے کہ بچہ اصل میں مسلمان پیدا ہوتا ہے تو اس کا کیا مطلب ہے۔ اس کی پیشانی پر تو لکھا ہوتا نہیں کہ یہ مسلمان ہے؟
اس کے جواب کے لئے ذرا تمہید کی ضرورت ہے اور نہایت ہی مختصر عرض کرتا ہوں کہ بعض تعلیم یافتہ حضرات جو کبھی کبھی قرآن پڑھا کرتے ہیں کہا کرتے ہیں کہ کسی نبی نے ایک بات گناہ کی کی اور کہ یہ دیا کہ شیطان نے پھسلا دیا تھا۔
یعنی حضرت موسیٰ کا واقعہ جو قرآن پاک میں مذکور ہے کہ موسیٰ گھر سے باہر نکلے۔ دیکھا کہ دو آدمیوں میں جھگڑا ہو رہا ہے۔ ایک آدمی فرعون کے طرفداروں میں سے تھا اور ایک موسیٰ کی قوم سے تھا۔ آپکی عمر ۳۰ سال کی تھی۔ جوانی کا عالم تھا۔ آپکے طرفدار نے فریاد کی، مدد کو بلایا فوکزہٰ موسیٰ فقضیٰ علیہ۔” آپ نے ایک گھونسا جو قطبیٰ کے رسید کیا، وہیں اس کا کام تمام کر دیا۔“قال ھذا من عمل الشیطان انّہ عدوّ مبین فرمایا” یہ شیطان کے عمل سے تھا بے شک وہ کھلا دشمن ہے۔“
بعض اس آیت کے معنی یہ کرتے ہیں یہ جو دونوں جو لڑ رہے تھے اس کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا کہ یہ لڑنا شیطان کا عمل تھا اور بعض نے یہ معنی کہا کہ آپ نے اپنے فعل کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے یہ الفاظ ارشاد فرمائے ۔
قرآن کے الفاظ ان لڑنے والوں کے لئے یہ بیان ہوئے ہیں کہ ھذا من شیعة وھذا من عدوہ ۔ کہ یہ جو آپ کے شیعوں میں سے بھی گروہ سب سے تھا مارہا جارہا تھا اور دوسرا جو ان کے دشمن کے گروہ سب سے تھا اسے مارہا تھا ۔ تو آپ کو طیش آگیا ۔ آپ نے اس عمل کو شیطان کی طرف منصوب فرمایا ۔
بات بالکل واضح ہے ۔ جہاں تک قرآن پاک نے اسے بیان فرمایا ہے۔
قاعدہ کلیہ ہے لکل وحدةٍ کثرةً ولکل کثرة وجدة، کہ ہر وحدت کے لئے کثرت ہے اور ہر کثرت کے لئے وحدت ہے ۔
اگر کثرت اور وحدت تک نہ جائے گی تو انتظام یکسر خراب ہوجائے گا اور وحدت اگر کثرت کی طرف جائے گی ضعیف ہوجائے گی ۔
یہ بلب آپ کے سامنے روشن ہے وہ جگہ جہاں شعلہ روشن ہے روشنی پھیل رہی ہے اور جوں جوں پھیل رہی ہے کمزور ہوتی جارہی ہے اور جب کثیر شعاعیں کثرت سے وحدت یعنی مرکز کی طرف آئیں گی قوی ہوتی چلی جائیں گی ۔
ہر فرع کے لئے وصل ہے، ہر خبری کے لئے کلی ہے ۔ ہر شاخ کے لئے جڑ ہے ۔ ہر امت کے لئے نبی ہے اور ہر ملک کے لئے بادشاہ ہے ۔ ہر گھر کے لئے بزرگ ہے ۔ پس ہر کثرت کے لئے کسی نہ کسی وحدت کی ضرورت ہے جس پر جاکر وہ کثرت ختم ہوجائے ورنہ ان کا نظام ٹال اور درہم برہم ہوجائے گا ۔
یہ جو عالم میں فساد رونما ہے اس وجہ سے ہے کہ بعض کثرتیں بن تو جاتی ہیں لیکن وہ کسی وحدت پر جا کر مل نہیں سکتیں لہذا فساد بپا ہو جاتا ہے۔
دیکھتے نہیں آپ؟ ضلع کے افراد کو امن میں رکھنے کے واسطے ایک حاکم ہوتا ہے اسی طرح چند حاکموں پر ایک بڑا حاکم ہوتا ہے اسی طرح چند حاکموں پر ایک بڑا حاکم ہوتا ہے جیسے چند ڈی سیوں پر ایک کمشنر ہوتا ہے اورکئی کمشنروں پر گورنر اور کئی گورنروں پر بادشاہ ہوتا ہے۔ پس اس طرح تمام کثرتیں ایک وحدت پر جا پہنچتی ہیں جسے یہ وحدت مل جاتی ہے نظام درست ہو جاتا ہے۔
اسی طرح یہ جو کئی بادشاہ ہوگئے اور کثرت میں ہوگئے ان کو بھی وحدت کی ضرورت ہے تاکہ فساد بپا نہ ہو اور اس وقت تک فساد مٹ ہی نہیں سکتا‘ کل جہاں جو روستم کاشکار ہی رہے گا جب تک ان کی رسائی اس وحدت تک نہ ہو جائے جو کل روئے زمین کو عدل و انصاف‘ امن و سکون سے بھروں گا اور وہ جناب امام زمان مہدی آخر ا لزمان علیہ السلام کا وجود باجود ہے۔
الغرض جب مان لیا کہ بہ کثرت کے لیے ایک وحدت ہوتی ہے تو اب نہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔ تمام دنیا میں اعمال خیر کی بھی کثرت ہے‘ اعمال شر کی بھی کثرت ہے۔ بہت سے اعمال ہیں جن کی انتہاء کسی نہ کسی وحدت پر ہوتی ہے۔ پس اعمال خیر کی بھی ایک جڑ اور اعمال شر کی بھی ایک جڑ یا اصل ہونی ضروری ہے۔
بدی کرنے والے کو آپ علیحدہ رکھیں لیکن بدی کی کوئی جڑ ضرور ہے۔ اسی طرح نیکوں کی بھی ایک جڑہے اور وہ جڑ مخلوق اول ہے جو ہمہ تن خیر ہے اور وہ بہمہ وجوہ خوب ہی خوب ہے۔
اور یہی مطلب ہے اس فرمان نبوی کا کہ آپ نے فرمایا ان ذکر الخیر کنت ادلة و اخرة جب کبھی خیر ‘ نیکی‘ خوبی بھلائی کا ذکر ہوگا اس کی اصل حضور ہوں گے۔
ٹھیک اسی طرح بدی اور شر‘ لڑائی اور فساد فتنے اور جنگ کی بھی اصل ہے اور وہ شیطان ہے۔ پس شر کی جڑ شیطان یعنی ہے۔
یہ ہی وجہ ہوئی کہ جب کسی نبی یا ولی سے ترک اولیٰ ہوا‘ اس نے اسے برا سمجھا اور چونکہ برائی کی اصل شیطان ہے۔ اس واسطے اس نے کہا کہ یہ شیطان کی طرف سے ہوئی۔
دوسرا قصہ قرآن مجید نے جو بیان فرمایا اور اس کی روشنی میں دین فطری کے قواعد کو خوب سمجھا جاسکتا ہے۔ آپ توجہ کے ساتھ سماعت فرمائیں آپ کو سمجھ آجائے گی۔
یہ واقعہ ۱۵ ویں سپارے کے آخری رکوع اور سولھویں پارے کے شروع رکوع میں مذکور ہوا ہے۔
موسیٰ علیہ سے سوال کیا گیا کہ آپ سے بڑھ کر کوئی اور بھی عالم موجود ہوگا آپ نے دل میں خیال فرمایامجِھ سا کوئی عالم موجود نہ ہوگا۔ خدا تعالیٰ نے مجھے وقت کا پیغمبر بنایا ہے۔
اسی وقت حکم الہی آپہنچا کہ آپ اس طرح اپنے ساتھی سمیت چل پڑیں اور جہاں دونوں دریا ملتے ہیں وہاں ہمارا بندہ ملے گا۔ کچھ مدت اس کی محبت میں رہو اور اس کی شاگردی کرو۔
قرآن پاک اس واقعہ کو اس طرح فرماتا ہے و اذ قال موسیٰ لفتہ لا ابرح حتی ابلغ مجمع البحرین او امضی حقباہ کہ اپنے اپنے جوان سے فرمایا جب تک دونوں دریاؤں کے ملنے کی جگہ نہ آئے ہم چلتے رہیں گے۔
حکم تھا کہ آپ ایک مچھلی بھنی ہوئی بھی لے لیجئے۔ آپ کا ساتھی جس مقام پر مچھلی کو کھو دے گا وہاں ہی سے راستہ مل جائے گا۔ وہاں ایک شخص آپ کو ملے گا جس کا مصلی پانی پر بچھا ہوگا پورا تذکرہ قرآن مجید میں موجود ہے۔ دونوں چلے۔ آپ نے ناشتہ مانگا بڑے تھک چکے تھے ساتھی نے افسوس کے ساتھ کہا کہ میں آپ سے بیان کرنا بھول گیا وہ مچھلی کو عجیب طریق سے فلاں جگہ دریا میں گر گئی اور زندہ ہو کر چل پڑی اور راستہ بناتی چلی گئی۔
آپ نے فرمایا: اسی جگہ کی تو تلاش ہمیں تھی واپس پہنچے اور نشانات پر چلنا شروع کیا تا آن کہ وہ بندہ مل گیا۔ جس کے حق میں حکم ہوا تھا کہ عبد من عبادنا اتینہ رحمة من عندنا و علمنہ من لدنا علماہ ط خدا تعالیٰ کے خاص بندوں میں سے ہوتھا جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص علم عطا ہوا تھا اور اس پر خاص رحمت خداوندی ہوچکی تھی۔ آپ نے دیکھا وہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ بعد فراغت نماز آپ نے سلام کیا انہوں نے سوال فرمایا: کس لیے آئے؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ جو علم آپ کو اللہ تعالیٰ نے سکھلایا اس میں سے سیکھنے کے واسطے حاضر ہوا ہوں۔
سبحان اللہ! یہ وحی خدا سے جبریل سے ہیں اور تعلیم کے لیے یہ الفاظ قرآن میں آئے ہیں ان میں بڑی بھاری ہدایت ہے کہ انسان کو بڑے سے بڑے بلند مرتبہ پرپہنچنے کے بعد یہ کبھی خٰال نہ کرنا چاہیے کہ اس سے بڑا اور کوئی نہ ہوگا۔
وہ حضرت خضر تھے۔ انہوں نے فرمایا و کیف تصبر علی مالم تحط بہ خبراہ کہ یا حضرت! موسیٰ! آپ میں صبر کی گنجائش‘ بااستطاعت کیسے ہوگی جو میرے علم کو برداشت کر سکیں گے۔ یہ ڈانٹ کی قسم تھی۔
آپ نے جواب دیا ستجدنی انشاء اللہ صابرا و لااعصی لک امراہ کہ مجھے حکم ایسا ہی ہوا ہے۔ انشاء اللہ صبر کروں گا اور آپ کے حکم سے سر نہ پھیروں گا۔ مجھے بہ حکم خدا ہوچکا۔
حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا فان اتبعتنی فلا تستنی عن شیء آپ اگر میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو پھر کسی بارے میں جو میں کروں آپ یہ نہ پوچھنا کہ یہ کیوں ہو رہی ہے؟
آپ نے وعدہ فرمایا: توچل پڑے سامنے دریا آیا‘ کشتی چل رہی تھی۔ اس میں بیٹھ گئے۔ جب ساحل قریب آیا۔ حضرت خضر نے کشتی میں سوراخ کردیا۔ موسیٰ علیہ اللسام کو اس کی تاب نہ رہی شریعت ظاہری پر مامور تھے۔ فوراً بولے ”کہ آپ نے کیا ظلم کردیا۔ کشتی میں سوراخ کے سبب پانی بھر آیا۔ کیا آپ نے سب کو مارنے کے لیے سامان کردیا؟“
حضرت خضر نے فرمایا: آپ کیا وعدہ بھول گئے میں نے پہلے ہی نہ کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صابر نہ رہ سکیں گے۔
حضرت موسیٰ نے اپنی بھول پر عذر خواہی کرتے فرمایا: آئندہ خیال رکھوں گا۔
آگے چلے ساحل سے اتر کر شہر میں داخل ہوئے۔ حضرت خضر نے ایک لڑکا دیکھا چھری نکالی۔ حملہ کے ساتھ اس کی گردن کاٹ ڈالی اور چل دیئے۔
جناب موسیٰ سے رہا نہ گیا۔ ارشاد فرمایا: کہ آپ بے گناہ ایک جان کو مار دیا؟
حضرت خضر نے فرمایا: آپ نے پھر وعدہ خلافی کی اور وہی بات کی جس سے آپ کو منع کیا گیا تھا؟
جناب موسیٰ علیہ السلام نے اب کے پھر معافی چاہی اور وعدہ کیا کہ اب ایسا نہ ہوگا۔ ورنہ آپ مجھے اپنے ساتھ رہنے نہ دیجئے گا۔
آگے بڑھے۔ گاؤں میں پہنچے۔ بھوکے تھے جس کے دروازے پر پہنچتے۔ صاف جواب ملتا تھا کہ اس گاؤں میں کھانا دینے کا رواج ہی نہیں۔ گاؤں سے باہر نکلنے کو تھے کہ ایک دیوار گرنے والی تھی۔ حضرت خضر نے اپنی پیٹھ دیوار سے لگائی زور لگایا اور اسے سیدھا کردیا۔
جناب موسیٰ علیہ السلام پھر بول اٹھے لو شئت لتخذت علیہ اجراہ کہ آپ چاہتے تو ان سے مزدوری لے لیتے۔
حضرت خضر نے فرمایاهذا فراق بینی و بینک سأنبئک بتأویل ما لم تستطع علیه صبرا
بس اب آپ میں اور مجھ میں جدائی ہوچکی۔ بہرحال جن باتوں پر آپ صابر نہ کرسکے تھے باوجود وعدہ کرنے کے ان کی علتیں آپ کو بتاتا ہوں۔
ارشاد فرمایا پہلا واقعہ کشتی کا پیش آیا تھا۔ اس کی علت یہ تھی کیفکانت لمسکین یعلمون فی البحر فاردت ان اعیبها و کان ورآء هم ملک یأخذ کل سفینة غصا
کہ یہ کشی مسکینوں کا مال تھا۔ کشتی ایسے ساحل کی طرف جاری تھی جس کا مالک ایک ظالم بادشاہ تھا جو صحیح و سالم کشتیوں کو غضب کرلیتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ان بیچارے مسکینوں ککی روزی بند ہو جائے گی اس لیے اسے عیبدار کردیا تاکہ وہ چھوڑ دے اور یہ پھر اس کی مرمت کرلیں۔
رہا لڑکے والا معاملہفکان ابواه مومنین فخصیانا ان یرهقهما طغیانا و کفرا فاردنا ان یبدلهما ربهما خیرامنه زکوٰة و اقرب رحما
۔ اس بچے کی علت قتل یہ تھی کہ وہ نابالغ بچہ ابھی ہاتھ پاؤں نکال رہا تھا اس کی آزادی اور سرکشی بڑھتی جارہی تھی اس ماں باپ دونوں ایماندار آدمی تھے اگر یہی حالت رہتی تو وہ اپنے افعال سے قریب تھا کہ دونو کو کفر کی طرف مائل کردیتا پس ہمارا ارادہ یہ ہوا کہ اسے مار کر اس کے عوض میں اس بچہ سے بہتر اولاد دے دی جائے جو ان کے لیے تزکیہ اور ہمارے قرب کا ذریعہ بن جائے۔
اور دیوار کا قصہ یہ ہے کہمکان لغلمین یتیمین فی المدینة وکان تحته‘ کنز لهما وکان ابوهما صلحا فاراد ربک ان یبلغا اشدهما و یستخرجا کنزهمارحمة من ربک و ما افعلته عن امری ط ذاک تأویل ما لم تستطع علیه صبرا
۔
کہ اس دیوار کے نیچے خزانہ تھا۔ خزانہ والے کے بچے یتیم رہ گئے تھے۔ اگر دیوار خود بخود گر جاتی لوگ ان کا مال لوٹ کر لے جاتے اور وہ ضائع ہو جاتا۔ خدا تعالیٰ نے چاہا کہ یہ دیوار اس وقت تک قائم رہے جب تک بچے بالغ نہ ہو جائیں۔ پس پروردگار عالم نے چاہا کہ وہ جوان ہو کر خود ہی اپنی چیز نکال لیں اور کسی غیر کے ہاتھ میں نہ جاسکے۔
قرآن کریم نے اس واقعہ کو جس فصیح و بلیغ الفاظ اور انداز میں بیان فرمایا ہے وہ بے نظیر اور بے مثال ہے۔ جو لوگ عربی قواعد سے واقف ہیں اس امر کو خوب جانتے ہیں۔
نیز اس واقعہ میں حضرت خضر نے خوبی اور عیب کے تذکرہ میں عیب کو اپنی طرف اور خوبی کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب فرما کر ادب کی اعلیٰ تعلیم فرما دی ہے۔
الف: کشتی میں جو عیب آپ نے کردیا تھا حالانکہ دراصل وہ عیب نہ تھا۔ اسے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہ کیا بلکہ اپنی طرف اس عبارت کے ساتھ کیا فاردت ان اعیبھا کہ میں نے ارادہ کیا کہ اسے عیب دار کردوں۔
ب: دوسرے واقعہ قتل میں دو باتیں تھیں ایک بات تھی قتل کی۔ دوسری بات تھی لڑکے کے بدلے میں بہتر اور نیک اولاد دینے کی۔ تو قرآن نے قتل کی نسبت تو حضرت خضر کی طرف کی اور عطا اور بدلہ دینے کو حضرت عب العزت کی طرف منسوب کردیا۔
ج: تیسرا واقعہ خزانہ کا تھا۔ اس میں چونکہ کوئی عیب ہی نہ تھا خیر ہی خیر تھا۔ اس لیے اس میں اپنے اپنے آپ کو الگ کردیا اور فاراد ربک کہہ کر اس خیر کی نسبت رب تعالیٰ کی طرف کردی کہ اصل خیر وہی ہے اور بری چیزوں کی نسبت اسی لیے شیطان کی طرف ہو جاتی ہے۔
درود شریف پڑھ لیجئے۔ تاکہ مضمون کو آپ کی خدمت میں پیش کردوں۔
میں عرض کرنا چاہتا تھا کہ تمام کثرتیں وحدت کی طرف لوٹتی ہیں۔ یہ کائنات جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں عالم کبیر کہتے ہیں۔ جو کچھ اس میں اس میں موجود ہے اس میں کچھ جامع نسیمہ انسان ہے جسے عالم صغیر بھی کہتے ہیں عالم کبیر میں زیادہ اور تفصیل کے ساتھ ہے۔ وہ سب انسان میں بھی موجود ہے لیکن نمونہ کے طور پر وہاں زیادہ ہے یہاں کم ہے۔
مثلاً وہاں پانی ہے یہاں بھی پانی ہے وہاں ہوا ہے یہاں بھی ہوا ہے۔ اس میں پہاڑ ہیں اس میں ہڈیاں ہیں۔ الغرض جو کچھ اس عالم کبیر میں ہے اس انسان میں بھی موجود ہے اس نے سبحان اللہ بعض نے انسان کو جو بظاہر عالم صغیر ہے در حقیقت عالم کبیر کہا ہے۔
امیر المومنین کا فرمان ہے اتزعم انک جسم صغیر و فبک انطوی عالم اکبر کہ تم اس انسان کو جسم صغیر کہتا ہے حالانکہ تجھ میں بہت بڑا عالم پایا جاتا ہے۔ اس دلیل کا نام دلیل تقابل رکھا گیا ہے۔ وہاں آفتاب اور ستارے ہیں یہاں قوتیں ہیں جو کام کررہی ہیں۔ وہاں ملائکہ ہیں یہاں عقل اسی طرح وہاں شیطان ہے یہاں اس کی جگہ قوت واھمہ ہے‘ جب قوت واھمہ تم میں موجود ہے تو شیطان کا انکار کرنا غلط ہوگیا۔ اس لیے کہ تم پر عالم اکبر موجود ہے۔ پس شیطان بھی عالم میں موجود ہے۔
پھر تمام کے تمام آلات ادراک دیئے گئے ہیں‘ ہر عضو کو الگ الگ ملے ہیں‘ آنکھ دیکھنے کے لیے‘ زبان چھکنے اور بولنے کے لیے‘ کان الگ سننے کا کام کر رہے ہیں۔ آپ آنکھ بند کرکے اس سے سننے کا کام نہیں لے سکتے غرض عقل سے لے کر ”حسّ“ تک تمام آلاتِ ادراک موجود ہیں اور جس قدر آلات ہیں سب کے سب حق نما ہیں۔
سامنے ایک چیز جس رنگ کی ہے دونوں آنکھیں اگر صحیح ہیں اسے ایک ہی بتائیں گے اور جو رنگ ہے اسی کو بتائیں گی یہ نہیں ہوسکتا کہ سیاہ کو سفید بتا دیں یا دو کو ایک دکھا دیں۔
زبان کڑوی شئے کو پٹھانہ کہے گی اگر بیمار نہ ہو۔ حق کو حق بتادے گی۔
پس حق کو حق جاننا ہی اسلام ہے۔ یہ آلات حق نما دے کر بھی تو فطرت اسلام پر پیدا کیا ہے اور جب فطر اسلامیہ پر پیدا کیا گیا ہے تو پھر فطرت سے کس وجہ سے ہٹ جاتا ہے؟ شیطان کے بہکانے سے فطرت کے خلاف کرنے لگتا ہے اور خلاف سمجھنے لگتا ہے۔ شیطان جب پیچھے لگ جاتا ہے بیڑا غرق کردیتا ہے۔
اور پھر کبھی صحبت بد کے سبب فطرت سے انسان ہٹ جاتا ہے۔ کبھی مجلس بد میں شیطان جا پھنستا ہے کلام الہی میں اس کے متعلق فرمایا ہے کہ اس نے قسم کھائی ہے کہ تم انسانوں کا یہ صریح دشمن ہے: فیعزتک لاعوینھم اجمعین جب اسے راندہ درگاہ کیا گیا اس نے خدا تعالیٰ کے سامنے قسم کھائی کہ تیری عزت کی قسم ہے میں ان سب کو راہ حق (جو فطرت کی راہ ہے) سے ہٹا دوں گا۔
اور دوسری جگہ اس کا قول قرآن میں یہ فرمایا گیا و لا ربھم الخ کہ ضرور ان کو حکم خداوندی یعنی حق کے خلاف حکم دوں گا اور فرمایا: فلیغیرن خلق اللہ کہ خلق خدا میں تغیرات پیدا کردے گا۔ فطرت کوبگاڑ کر رکھ دے گا اور جب ان کی فطرت بدل جائے گی پھر وہ شیطان کی اطاعت کرنے لگ جائیں گے ولا تجدن اکثرھم شاکرین اور اے خدا تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائے گا۔
کس قدر جبری مخلوق ہے جو خدا تعالیٰ کے سامنے آزادانہ بول رہا ہے۔
انسان کو اکثر مقامات پر فطرت کی شئے نظر آئے گی۔ جانتا ہوگا کہ یہ بہتر ہے لیکن مانے گا نہیں۔ اسی طرح اس نے اپنے گروہ میں انسان کو شامل کرلیا۔ جنات میں سے جنوں کو تو اس سے بہکایا تھا۔ لیکن انسانوں کو بھی بہکا کر شیطان بنالیا اور شیطین الانس ان ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
پس یزید انسان نما شیطان تھا‘ جس کے کل افعال شیطانی تھے۔ علامہ ابن حجر مکی نے صاف طور پر لکھا ہے کہ بندروں کے ساتھ کھیلتا تھا۔ کتوں کی گردنوں میں زنجیر ڈالے شکار میں مصروف رہتا تھا۔ محرمات ابدی کو حلال جانتا تھا۔
شیطان اس کے ذریعہ چاہتا تھا کہ عالم انسانیت کی فطرت کو بدل کر رکھ دے۔
امام حسین علیہ السلام دیکھ رہے تھے کہ جاہ و ریاست پر قابض ہے شیطان سیرت ساتھیوں نے اسے بادشاہ بنا لیا ہے۔ نانا کی ساری کمائی ضائع ہوجائے گی۔ لہذا حق کو باقی رکھنے کے واسطے آپ سامنے آئے۔ پہلے مقاتلہ نہ کیا اول مرتبہ وعظ و پند سے‘ نرمی اور خلق سے ہدایت فرمائی۔ اس لیے کہ الفتنة اشد من القتل۔ لیکن وہ کسی طرح باز نہ آیا‘ اس نے مخلوق کو مسلمان بن جانے کے بعد خرات راستے پر چلا رکھا تھا۔ آپ نے ضرورت محسوس کی تنہا نہ جاؤں گا۔ بیویوں اور بچوں کو ساتھ لے کر نکلوں گا۔اس لیے کہ بیماری حد سے بڑھ چکی تھی۔ جن بیویوں کو ساتھ لائے تھے انہوں نے کہاں یہ تکالیف دیکھی تھیں۔ بچوں میں سے ۵ ماہ تک کا بچہ تک ساتھ تھا۔ جس نے ۶ ماہ کا ہو کر تیر جفا حلق پر لیا اور جان دے گیا‘ ۵ تا ۱۴ دن کے بچے کو اور اس کی ماں کو غریب آدمی بھی نکلنے نہیں دیتے۔ لیکن یہاں دین اسلام کا معاملہ تھا اور امام حسین علیہ السلام کی نظر میں کس قدر اہم تھا کہ چاہے بچے شہید ہو جائیں سارا کنبہ تباہ و برباد ہو جائے لیکن نانا کا دین کسی طرح بچ جائے۔
اس لیے کہ وہ جو دین کو اسلام کے نام سے رکھتے تھے ان کا سردار یزید شراب خواری میں شب و روز مصروف رہتا تھا اور لوگ تھے کہ آنکھوں پر پٹی باندھے ہوئے تھے‘ جب تمسخر اڑایا جاتا تھا دین اسلام کے ماننے والے بڑے بڑے لوگ سن کر چپ ہو رہتے تھے۔ یزید کو کسری حکومت حاصل تھی‘ دولت اس کے پاس تھی لالچ دے کر سب کو قبضے میں کئے ہوئے تھا کوئی نہ کہہ سکتا کہ غلط کر رہا ہے۔ حتی کہ خلیفہ ثانی کے بیٹے عبد اللہ بن عمر جیسوں نے یزید کی بیعت کرلی ہوئی تھی ہر ایک کا کام حکومت سے مقابلہ پہ آنا نہ ہو سکتا تھا۔ کوئی غرضوں کے لیے چپ تھا کوئی زمین‘ جاگیر کے لیے خوشامد کر رہا تھا لیکن صرف دین اللہ کے واسئے برسر میدان نکنا صرف اللہ والوں کا ہی کام ہوسکتا تھا۔
کائنات ایک طرف تھی۔ جب امام حسین علیہ السلام نکلے۔ اس شان کے سات نکلے کہ آدم علیہ السلام سے لے کر آج تک کوئی اس شان کے ساتھ نہ نکلا تھا۔
اولاد والو! جو حکومتوں کے مقابلہ میں حق کو قائم اور ثابت کرنے کے واسطے گھر سے نکلا کرتے ہیں اور یقین کامل ہے کہ میدان میں جا کر جان دے دیتی ہے کیا وہ بچوں اور بیویوں کو ساتھ ے کر جایا کرتے ہیں۔ لوگ میدان جنگ میں ادھر ادھر کے آدمیوں کو ساتھ لیتے ہیں لیکن آپ بھائیوں کو‘ قریبی عزیزیوں کو ساتھ لے جاتے ہیں‘ عورتوں کو ساتھ لے جاتے ہیں کہ خیموں کو آگ لگ جانے کی فکر سے بے نیاز ہو کر لے جاتے ہیں کہ یہ سب کچھ پاک مقصد کے لیے ہو رہا ہے۔ ۶۴ بیویاں قیدی بناکر دشمن لے جارہا ہے چھوٹی بچیاں ان کے علاوہ ہیں۔ کوفہ کے بازاروں‘ قید خانہ‘ جیل خانہ کی مصیبت برداشت کرتی ہوئی کس استقلال کے ساتھ یہ مقدس بیویاں جارہی ہیں‘ قطعاً کوئی شکایت نہ کی کہ ہم کو تکلیف پہنچ رہی ہے‘ اے بیویو! امت پر کس قدر تمہارا احسان ہے۔ کوچوں بازاروں سے گذریں۔ اونٹوں پر راستہ طے کیا۔ دشمن قافلہ پہنچا۔ دربار یزید میں لے جائی گئیں۔ خیال ہوتا تھا کہ یہ کون قیدی عورتیں جارہی ہیں! فاطمہ زہرا کی بیٹیاں اور قیدی ہو کرڈ دربار آراستہ ہو رہا ہے اور جب ہوچکتا ہے قیدیوں سے کہا جاتا ہے ”چلو“۔ جان نثار غلاموں کی بیویاں آگے ہو جاتی ہیں اور شہزادی زینب کو پیچھے کرلیتی ہیں کہ پہلی نظر ان پر نہ پڑے۔ کہیں عورتوں نے اس شان کی قربانی اور جان نثاری کی نظیر پیش کی؟
عورتوں کی جان نثاری ایک طرف‘ مردوں کا قربان ہونا اس شان کے ساتھ کسی نے دیکھا ہوگا؟ ”علی اکبر“ کا سا جوان‘ فرزند‘ صبح فلک نے اس سا کوئی اور جواں دیکھا ہوگا؟ جو سر سے پاؤں تک تصویر رسول ہو؟
پوچھتا ہوں۔ دوست داران اہل بیت! دوسرے بھی جانتے ہی ہوں گے! کہ عباس سا جمیل اور حسین دنیا میں چشم فلک نے دیکھا تھا؟
حجازمیں شریف ترین قبیلہ بنی ہاشم تھا۔ جو تمام قبائل میں سب سے زیادہ حسین اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ اس قبیلہ میں عباس کا لقب قمر بنی ہاشم تھا۔ اللہ اکبر! کیسی صورتیں کربلا کی خاک میں چھپ گئیں۔
چاہتا ہوں کہ نوجوان! عباس کے متعلق کچھ عرض کروں۔ ۳۲ سال کی عمر تھی آپ کی۔ لکھا ہے کہ فرس متہم ایک گھوڑا ہے جو سوار کے بیٹھنے کے بعد گردن بلند کرتا ہے تو سوار پیچھے چھپ جاتا ہے۔ لیکن عباس جب سوار ہوچکے گھوڑے سے گردن بلند کی تو آپ کی گردن سامنے نظر آرہی تھی اور رکاب پاؤں کا بوسلہ لے رہی تھی۔
آج ۸ ویں رات ہوگئی۔ ان می ہی فرات کے اوپر پہرے بیٹھ گئے تھے اورحکم ہوچکا تھا کہ جانور آئیں‘ پرند آئیں پانی منع نہ کیا جائے لیکن رسول اللہ کی اولاد کا ہاتھ یا منہ پانی تک نہ پہنچنے پائے۔
جناب امیر علیہ السلام نے حضرت عقیل کو بلایا‘ جو عرب کے لوگوں کی نسل سے واقف تھے۔ فرمایا: بھائی اس لیے بلایا ہے کہ خاتون سے عقد کرنا چاہتاہوں جو شریف‘ اور غیرت مند قبیلہ سے ہو‘ تاکہ خدا تعالیٰ اس خاتون کو ایسا لڑکا دے جو میرے ”حسین“ کے لیے کل کام آئے۔ جناب عقیل نے دو دن کے بعد اطلاع دی کہ ام البنین قبیلہ بنی کلاب میں سے ہیں اور تمام صفات ان میں موجود ہیں آپ گھر میں آئیں۔ داخل ہوئیں‘ آداب بجا لائیں۔ حضرت امیر کی چوکھٹ کو بوسہ دیا۔ گھ رمیں جاکر شہزادی کا پیار سے طواف کرنے لگی اور کہنے گی کہ کنیز ہو کر آئی ہوں ان کی خدمت بجا لاؤں گی۔ سیدنا امام حسین علیہ السلام کی وہ خدمت کی کہ جنابہ سیدہ فاطمہ زہرا نے اتنی خدمت نہ کی تھی۔
آپ کے بطن سے جناب عباس پیدا ہوئے امیر المومنین کو اطلاع دی گئی کہ خداوند نے فرزند دیا ہے۔ کپڑوں میں لپٹا ہوا بچہ ہاتھوں میں لیا‘ شکل دیکھی آنکھوں کے بوسے لیے‘ پیشانی کو چوما۔ کپڑا کھولا۔ بازؤں کو چومنا شروع کردیا اور رونا شروع کردیا۔ ام البنین نے عرض کیا کیا بازؤں میں کوئی عیب دیکھا ہے؟ فرمایا: نہیں بلکہ یہ بازو ایک وقت کاٹے جائیں گے اور یہ میرے حیسن کی خاطر کاٹے جائیں گے۔
عقیل جانتے تھے کہ اس لیے یہ عقد کیا گیا تھا۔ حسنین کو معلوم نہ تھا۔ کتنی محبت ہوگی سیدنا امام حسین علیہ السلام سے ان کو جب رونے لگتے تھے رسول خود گہوارہ میں ڈال کر جھلاتے تھے‘ حضور لوریاں دیتے تھے۔ عباس لیٹے ہوئے تھے حسین پاس ہوتے تو رو پڑتے۔ آپ ہاتھوں پر اٹھا کر لاتے جب کوئی پاس نہ ہوتا تو ادھر ادھر سے بازؤں کو چومتے۔
پرورش جب اس طرح ہوچکی۔ کچھ بڑے ہوئے بات چیت کرنے لگے۔ حتی کہ باتیں سمجھنے کے قابل ہوئے۔ ام البنین نے سمجھانا شروع کیا بیٹا عباس! تم بھی علی کے بیٹے اور حسین بھی علی کے بیٹے‘ مگر کبھی یہ خیال نہ کرکے برابری کا تصور نہ کر بیٹھنا‘ ذرا ماں کا امتیاز سامنے رکھنا۔ ان کی ماں سیدہ زھرا‘ خاتون جنت اور تمہاری ماں حسین کی ماں کی لونڈی‘ کبھی نہ سمجھنا کہ یہ صرف بھائی ہیں بلکہ ہمیشہ اپنے کو ان کا غلام جاننا۔ یہ تھیں و وصیتیں جو ماں نے عباس کو کیں۔
خدا تعالیٰ نے جناب عباس کو ۳ بھائی اور بھی دیئے۔ آخر وقت آپہنچا۔ جب یہ قافلہ مدینہ سے چلا۔ زوجہ مطھرہ ام سلمہ نے حضور سے کہا بیٹا حسین یہی وہ سفر ہیکہ جس کی خبر نانا نے دی تھی۔ آپ نے فرمایا: ہاں یہ وہی سفر ہے۔
جب ام البنین کو معلوم ہوا۔ بڑا بیٹا ۳۲ سال کی عمر میں‘ چھوٹا بیٹا ۲۲ سال کی عمر‘ عرب کی جوانی‘ بنی ہاشم کی اولاد‘ اللہ اکبر کیا جوانی ہوگی۔ بیٹوں کو بلایا اپنی خدمت کے لیے کسی نہ رکھا اور کہا بیٹو! میں نے تم کو اسی دن کے لیے پالا تھا۔ آپ نے آقا حسین کی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھنا۔ قافلہ روانہ ہوا۔ آواز دی بیٹا عباس! ماں کی بات کو یاد رکھنا۔ میری عزت کا خیال رکھنا۔ فاطمہ کی بارگاہ میں شرمندہ نہ ہونے پاؤں۔
حضرت عباس کا ایک بچہ بھی تھا۔ جس کا نام محمد تھا۔ متعدد علماء نے ریاض القدس میں سے حوالہ دے کر لکھا ہے کہ غالباً ۱۵ سال کی عمر تھی۔
روز عاشور آگیا۔ اصحاب قتل ہوچکے عزیزوں میں سے جو تھے مارے گئے۔ عباس کے ۳ بیٹوں میں سے ایک یہ ساتھ تھا۔ بیٹے کو بلایا کہا مولا سے جا کر اجازت لو کہ میدان جنگ می تمہیں جانے دیں۔ چاہتا ہوں کہ اپنی آنکھوں کے سامنے تیرا تماشہ دیکھتا جاؤں۔
حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: بھیا عباس! کیا کر رہے ہو؟
عباس نے عرض کیا: میرے آقا! انہیں قبول کرلو ورنہ میری روح کو شرمندگی ہوگی۔ آخرکار مان گئے۔ جوان بیٹے کی لاش باپ کے سامنے آئی۔ جناب عباس نے چھوٹے بھائی سے کہا کہ تم جاؤ اور قربان ہو جاؤ۔ تینوں بھائی شہید ہوگئے۔ لاشے سامنے آچکے۔ حضرت کو خیال تھاکہ جب پہلے مرجاؤں گا تو ایسا نہ ہو کہ بھائی زندہ رہ جائیں اس لیے سامنے ان کو نثار کیا۔ پھر بیٹے کی لاش پر نظر پڑی ان کی اطاعت اور فرمانبرداری یاد آئی۔ پھر سیدنا امام حسین علیہ السلام سے عرض کیا حضور! مجھے مرنے کی اجازت دیجئے۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: تم تو میرے لشکر کے علمدار ہو۔ تم نہ رہو گے تو لشکر کی عزت کہاں رہے گی۔
آخرکار لشکر سب کا سب ختم کردیا۔ حضرت عباس نے اجازت مانگی۔ سیدنا حسین چپ ہوگئے کہ ادھر خیمہ سے آواز آئی سکینہ کہہ رہیں ہیں۔ العطش‘ العطش۔
حضرت عباس اٹھے۔ کہا سکینہ! مشکیزہ ادھر لاؤ‘ ذرا صبر کرو۔ پانی لینے جارہا ہوں۔ پھر امام سے عرض کیا: آقا! بچے پیاس کے مارے ہلاک ہورہے ہیں۔ اجازت دی جائے کہ پانی لے آؤں۔ آپ نے فرمایا: عباس! تجھے اچھا بہانہ جانے کے لیے مل گیا۔ اچھا جاؤ۔ یہ کہا اور حسین کمر پکڑ کر زمین پر وہیں بیٹھ گئے۔
دشمن کا لشکر فرات کو اطراف سے گھیرے ہوئے تھے۔ جناب عباس نے اول لشکر کو نصیحت کی۔ جب کوئی نہ سمجھا تو گھوڑا بڑھایا۔ اس شان کے ساتھ چلے کہ چند منٹ میں گھاٹ کا گھاٹ خالی ہوگیا۔ عباس نے گھوڑا پانی میں ڈالا۔ ٹھنڈی ہوا آئی۔ ایک مرتبہ چلُّو میں پانی لیا‘ منہ کے قریب لے جاکر پھینک دیا‘ اگر پینا ہوتا تو قبضہ میں پانی موجود تھا۔ لیکن یاد آگیا کہ سیکنہ پیاس کے سبب تڑپ رہی ہے۔ پہلے وہ پیئے گی۔ پھر میں بھی پی لوں گا۔
مشکیزہ خشک تھا۔ تر کرنے میں دیر لگ گئی۔ پانی سے بھری۔ کاندھے پر رکھی اور چلنے لگے۔
ادھر ابن سعد نے آواز دی پانی چلا گیا تو لڑای طول پکڑ جائے گی‘ پیاسے لڑ رہے تھے اگر سیراب ہوگئے تو سب کو ختم کر ڈالیں گے۔
بس کیا تھا۔ لڑائی شروع ہوگئی۔ عباس لڑ رہے تھے۔ خیال مشکیزہ میں بندھا تھا کہ کسی طرح محفوظ پہنچ جائے۔ ایک ظالم نے کمین گاہ سے بامو کا نشانہ باندھ کر ایسی ضرب لگائی کہ بازو کاٹ کر رکھ دیا۔ آپ نے گرنے سے بچایا‘ دوسرے ہاتھ میں پکڑا‘ ظالم نے دوسرے بازو کو بھی کاٹ کر رکھ دیا۔ آپ نے فوراً دانتوں میں مشکیزہ پکڑ لیا پھر یا تھا سینکڑوں خبیثوں نے گھوڑے کو گھیر کیا۔ آپ نے اس کی پیٹھ پر مشکیزہ رکھ کر اپنے آپ کو اوپر گرادیا۔ کہ کسی طرح مشکیزہ پانی سمیت خیمہ تک پہنچ جائے کہ اتنے میں ایک تیر آیا۔ مشک میں سوراخ ہوا‘ پانی سارے کا سارا بہہ نکلا آپ گھوڑے سے گرنے لگے‘ آج تک کبھی بھائی کہہ کر نہ پکارا تھا۔ لیکن آج پکارے بھیّا حسین! عباس دنیا سے رخصت ہو رہا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
امام نے آواز سن لی۔ بیٹھے سے کھڑے ہوگئے سیدھے نہ ہوسکتے تھے۔ کمر کو پکڑا اور فرمایا بھیا عباس! کمر ٹوٹ گئی۔ لیکن تقدیر کے سانے کوئی چارہ نہیں رضینا قسمة الجبار فینا صدائے حال پکارتے ہوئے بھائی کو جالیا۔
جب تمام قافلہ لٹ چکا۔ یزید کو اطلاع ملی۔ تو اس نے حاکم مدینہ کو خط لکھا کہ اعلان کردو کہ حسین کے ساتھی مارے گئے لوگوں نے روتے ہوئے امالبنین کے پاس جاکر یہ خبر پہنچائی۔ آپ نے کہا کہ عباس کا کیا حال ہے؟
اولاد والو! غور کا مقام ہے ذرا شان بلند اس بی بی کی جذبہ کا ملاحظہ ہو کہ قاصد دروازہ پہ پہنچا۔ بیوی ام البنین نے پوچھا: کیا خبر لائے؟ کہا حسین قتل ہوگئے پوچھا: عباس کا کیا ہوا؟ قاصد نے عرض کیا: اپنے تینوں بھائیوں اور بیٹے سمیت مارے گئے۔
بیوی نے فرمایا: درست ہے؟ جواب ملا۔ بالکل درت ہے۔ آپ سجدہ میں جھک گئیں اور عرض کیا:
الہی تیرا شکر ادا کرتی ہوں۔ امید برآئی‘ عزت رہ گئی۔
جنت البقیع میں جاتی تھیں‘ تصور عباس کو یاد کرتے ہوئے کہتی تھیں۔ عباس! بیٹا تیرے بازو کٹ گئے۔ اگر نہ کٹتے تو میرا حسین کبھی نہ مارا جاتا۔ پھر عالم تصور میں انگلی سے قبر کا نشان بنایا اور کہا یہ عباس کی قبر ہے۔ دوسرا نشان بنایا اور کہا یہ دوسرے بیٹے کی قبر ہے۔ حتی کہ چار نشان لگائے۔ پانچواں نشان بنایا اور کہا کہ یہ میرے حسین کی قبر ہے۔ عباس! تجھے نہ روؤں گی۔ تیری ماں تو زندہ ہے۔ لیکن حسین! تجھے روؤں گی اس لیے کہ تیری ماں زندہ موجود نہیں۔
انا للہ و انا الیہ راجعون