• ابتداء
  • پچھلا
  • 13 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20093 / ڈاؤنلوڈ: 4619
سائز سائز سائز
مجالس حافظ کفایت حسین

مجالس حافظ کفایت حسین

مؤلف:
اردو

مجلس ھشتم :

بتاریخ ۸ محرم الحرام ۱۳۷۵ ھ

بسم الله الرحمٰن الرحیم

( أَ فَغَیْرِ دِیْنِ اللّٰهِ یَبْغُونَ وَ لَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِيْ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ طَوْعًا وَ کَرْهًا وَإِلَیْهِِ یُرْجَعُونَ ) ۔ ( آل عمران : ۸۳ )

حضرات ! جناب حدیث باری تعالٰی عزّاسمہ اپنے کلام بلاغت نظام میں ارشاد فرماتا ہے:

کیا لوگ اللہ کے دین کے سوا اور کسی کی خواہش رکھتے ہیں، حالانکہ اس اللہ کے لئے نام زمینوں اور آسمانوں کے باشندے اپنی گردنیں خم کیے ہوئے ہیں، خوشی سے یا اکراہ جبر سے اور اسی کی طرف بازگشت ہے ۔

حضرات! اب تک آپ کی خدمت میں میں نے جو کچھ عرض کیا ہے اس میں زیادہ تر حصہ اس چیز کے متعلق تھا کہ حکم الٰہی یہ ہے کہ دین اللہ وہ ہی ہے جو فطرت کے مطابق ہو یہی وجہ ہے کہ اسلام کو دین فطرت یا فطری دین کہا جاتا ہے۔

اس آیة ھدایہ میں پروردگار عالم نے اس دین کو دین اللہ فرمایا ہے یعنی اللہ کا دین ۔

آج چونکہ اس مضمون کو ختم کردینا چاہتا ہوں ، کل تک پہلے فقرہ ” یعنی افغیر دین اللہ یبغون “ تک بیان ہوچکا، آج دوسرا فقرہ ” ولہ اسلم من فی السموٰت والارض طوعا وکرھا والیہ یرجعون “کے متعلق عرض کیا جائے گا ۔ جس کا ترجمہ یہ ہے :

کہ اسی کے لئے تمام آسمانوں اور زمینوں کے باشندے اپنے سرجھکائے ہوئے ہیں۔ اپنی خوشی کے ساتھ، خواہ یہ جبر و اکراہ اور اسی کی طرف تمام کی بازگشت ہے ۔

چونکہ صرف کل کی ایک مجلس باقی رہ گئی ہے ۔ اس لئے آپ کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ پروردگار عالم نے انسان کی فطرت میں کچھ بدیہیات ودیعت فرمائی ہیں ۔ اگر ان کو دین کے معاملہ میں استعمال کیا جائے جیسا کہ انہیں دنیا کے بارے میں ہمیشہ استعمال کیا جاتا رہا ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ انسان کو صراط مستقیم نظر نہ آجائے ۔

یہ تفصیل دوسرے مقامات میں ارشاد فرمائی ہے کہ دین الٰہی درحقیقت فطری ہے ۔ انسان کوچاہیے کہ ان کلیات یا اصول کو استعمال کرے جو اس کی فطرت میں ودیعت کی گئی یا رکھی گئی ہیں اور اگر ان کلیات یا قواعد فطری کی تشخیص و تحقحیق میں دھوکا ہو جائے تو وہ لوگ جو فطری حیثیت سے قابل افتداء ہونگے ان کی افتداء دھوکہ سے نکال دے گی۔

عرض کرتا ہوں کے اس دین میں جو اشارہ کیا گیا ہے، کہ کیا سوائے دین اللہ کے کوئی اور دین تلاش کرتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ وہ دین اللہ ہے کیا؟ پھر اس کے بعد اصل مطلب اور نتیجہ تمام تقاریر کا پیش کردونگا (انشاء اللہ)۔

اس آیت کریم سے پہلے جو آیت موجود ہے وہ یہ ہے:( و اذ اخذ الله میثاق النبیین کما اتینکم من کتاب و حکمة ثم جائکم رسول مصدقا لما یعکم ط لتومنن به و لتنفرنه ط قال اء قررتم و اخذت، علی ذلکم اصری ط قالوا اقررنا ط قال فاشهدوا و انا معکم من الشهدین فمن تولی بعد ذلک فاولئک هم الفاسقون )

اس کے بعد وہ آتی جو آپ پر روز سن رہے ہیں آتی ہے کہافغیردین الله یبغون وله اسلم من فی السمٰوت والارض طوعا وکرهأوالیه یرجعون

اس آیة کا ماحصل یہ ہے کہ پروردگار عالم ارشاد فرماتا ہے کہ محبوب وہ وقت یاد فرمائیں جب ہم نے تمام نبیوں سے عھد لیا تھا کہ اے نبیو! جس وقت تم کو کتاب و حکمت عفا ہو چکے گی، پھر دیکھنا کہ اس کے بعد ایک رسول آئے گا جو تم سب کی تصدیق کرنے والا ہو گا۔ تم سب خیال رکھنا کہ تم نے اس پر ایمان لانا ہو گا اور اس کی امداد بھی کرنا ہوگی۔

حضرات! ذرا صلوات پڑھئے اور توجہ کے ساتھ سماعت فرمائیے میں دوبارہ ماحصل کو عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس آیت کو آیت میثاق کہا جاتا ہے۔فرماتے یہ ہیں۔

کہ”تم نے کبھی سب انبیاء سے عہد لیا تھا کہ تم کو کتاب و حکمت دے کر بھیجیں گے۔پھر ایک رسول آئے گا جو تم تمام پیغمبروں کی تصدیق کرنے والا ہو گا اس کی جو سب انبیاء کے پاس ہو گا۔پھر تم سب کا فرض ہوگا کہ اس رسول پر ایمان لانا اور اس کی مدد بھی کرنا“۔

پھر اس جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ ”ربّ تعالیٰ نے ان سب سے مزید اقرار لیا کہ اسے گروہ انبیاء کیا تم نے یہ اقرار کر لیا اور مضبوطی کے ساتھ منظور کر لیا؟“سب نے کہا: ”بے شک ہم اقرار کرتے ہیں کہ اس عہد کو پورا کریں گے “۔

اس پر ارشاد باری ہوا کہ ”تم سب کے سب پکے قول و اقرار پر گواہ رہنا اور میں خود بھی تمہارے ساتھ گواہ رہوں گا۔

اس کلام کو مزید جاری رکھا اور ارشاد فرمایا: ”کہ جماعت انبیاء ذرا دیکھو، اگر اس عہد سے کوئی پھر جائے گا تو وہ فاسق ہو جائے گا۔“

حضرات! اس آیت کے ضمن میں کچھ تفسیر یا تفصیل نہیں عرض کروں گا۔صرف دو باتیں عرض کرنی ہیں۔

کہ پروردگار عالم نے عالم ارواح یا عالم مثال میں تمام پیغمبروں سے یہ عھد لیا بہر حال جو کچھ عہد لیا اس آیت میں درج ہے تفاسیر میں آتا ہے اس عھد میں مفصل طور پر جو کچھ ہے وہ سب کا سب اس عھد میں شامل تھا اور مجملاً اس کا تذکرہ اس قدر کیا کہ ۱ ۔ ایمان لانا۔

۲ ۔ اور رسول آخر الزمان کی نصرت کرنا۔

ان چیزوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے رسول سے مراد جس کے باریمیں یہ عہد لیا گیا‘ وہ ذات با برکات ہے جناب محمد مصطفیٰ صلی علیہ و آلہ وسلم کی۔ کہ جب وہ آجائیں تو تم ایمان بھی لانا اور ان کی نصرت بھی کرنا۔

میں عرض کرچکاہوں کہ زیادہ تفصیل پیش نہیں کرنا چاہتا ہوں۔ صرف یہ بتانا ہے کہ جو عھد تمام انبیاء سے لیا جاچکا تو اس کے بعد وہ رسول اور کوئی بھی نہ تھا سوائے حضور رسول اللہ کے جو سب نے آخری نمبر آئے‘ تو پھر تمام پچھلوں نے کس طرح اس بعد والے پر ایمان لا کر کس طرح اس کی امداد یا نصرت بھی کی؟

تو اس کی صورت یہ ہوئی کہ جب ایک نبی آیا اور جانے کا وقت آیات و وہ اپنے بعد کے نبی کو اپنی امت کے ذریعہ وصیّت کرتا گیا کہ وہ خاص رسول اگر تمہارے زمانہ میں آگیا تو ہماری طرف سے اس پر ایمان انا اور اس کی نصرت بھی کرنا۔

چونکہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کے بعد کسی اور اولواالعزم نبی نے نہ آنا تھا جسے وہ وصیّت کرتے‘ اس لیے خدا تعالیٰ نے ان کو زندہ رکھا تا کہ کُل کے عھد کی تکمیل ہوجائے اور چونکہ حضور کے زمانہ حیات میں یہ تکمیل عھد نہیں ہواّ اس لیے اس امر کو موخر رکھ دیا کہ کل دنیا کو پتہ لگ جائے کہ کہ اجزاء محمد اس قدر ہیں کہ قیامت تک ان کا ظہور ہوتا رہے گا اور متفق علیہ ہے یہ مسئلہ کہ آخری جزء محمد رسول اللہ کون ہوں گے؟ وہ ہوں گے جن کو مھدی آخر الزمان امام مھدی علیہ السلام کہتے ہیں‘ وہ جب ظاہر ہوں گے تب حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے ان پر ایمان لائیں گے اور ان کی نُصرت فرمائیں گے۔ یہ ایمان اور نُصرت تمام سابقہ انبیاء کی طرف سے بھی ہوگا۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اُترنے کا وقت کب آئے گا؟ جب آخری زمانہ ہوگا۔ جس کے بعد پھر زمانہ ختم ہو کر قیامت آنے کو ہوگی تب پیغمبرآخر الزمان کا آخری جزء ظھور فرمائے گا جو زمانہ نبوی سے لے کر اپنے زمانہ تک تمام اوصیاء کا خاتم اور آخری وصی ہوگا یعنی مھدی آخر الزمان حضرت امام مھدی علیہ السلام پس آیت کریمہ نے کل انبیاء اور ان کی امتوں سے قیامت تک یہ عہد لے لیا کہ کوئی بھی اس عھد ایمان و نصرت سے نہ پھریاور جو ان اوصیاء امت سے اور بالآخر وصی آخر الزمان سے پھر جائے گا وہ ”فاسق“ شمار ہوں گے اور فسق کی سزا ہونی چاہیے اس کے لیے قیامت کا دن بپا کیا جائے گا۔

پس رسول کی تمام چیزوں کو آیت میں بیان کردیا گیا کہ ایمان والو! دین خداوندی یہ ہے کہ جسے دین اللہ فرما دیا۔

اور جب دین اللہ یہ ہے تو پھر اس کے علاوہ کسی اور شئے کی تلاش کیا ضررت ہے؟

پس دین حقیقی حضرت محمد الرسول اللہ اور اس کے اجزاء تا قیامت ہیں ان پر صدق دل سے ایمان لایا جائے اور ان کی نصرت کی جائے اب عرض کرتا ہوں کہ چونکہ دین حقیقی یہی ہے تو اس کے اصول ہیں جن پر حقیقتاً نجات کا دار مدار ہے۔ اگر یہ اصول دین ہیں تو نجات ہے ورنہ کوئی نجات نہیں۔

ابھی آپ حضرت کی طبیعتیں بالکل یکسو نہیں ہیں اس لیے التجا ہے کہ یکسوئی کے ساتھ توجہ فرمائیں کہ ”نتیجہ“ عرض کرنا چاہتا ہوں۔

کہ جو آیت عنوان قرار دی گئی اس سے پہلے دین اور اصول دین کی تفصیل بیان ہوچکی جب دین بیان ہوچکا تو پوچھتا ہے کل عالم کا پروردگار افغیر دین اللہ یبغون؟ کہ کیا لوگ سوائے اس دین کے کسی اور کو ڈھونڈھتے یا اختیار کرتے ہیں؟

یہ دین کیا ہے؟ سنیئے اور توجہ کامل کے سات سنیئے! یہ دین جسے دین الہ قرار دیا گیا ہے‘ خدا تم کے بعد حضرت محمد اور آل محمد پر ایمان لانا اور ان کی نصرت کرنا ہے اور قیامت کا اعتراف کرنا ہے۔

اب جب دین کی توضیح کردی گئی تو فوری طور پر عرض کرناچاہتا ہوں کہ قاعدہ یہ ہے کہ کسی چیز میں اگر کوئی ایسا جزء ہے جس کے بغیر وہ چیز چیز نہیں رہتی تو اس چیز کا نام اس جزء کے نام پر رکھ دیا جاتا ہے۔

جیسے ”گردن“ ایسی شئے ہے کہ اگر یہ نہ رہے تو انسان ہی نہیں رہتا پس ”انسان“ کا نام کلام عرب میں ”گردن“ اور گردن کا نام اسی کلام میں انسان استعمال ہونے لگ گیا۔ آپ میں سے سب یا اکثر قرآن کو جانتے ہیں۔ اس میں آتا ہے ”فک رقبة“ کہ اگر روزہ عمداً ٹوٹ جائے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ ”گردن آزاد کردو“ کیا مطلب ہو ا کہ گردن کو کاٹ دو؟ نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایک غلام کو آزاد کردو۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ”گردن“ کو ”انسان“ کے قائم مقام کس واسطے استعمال کیا؟

اس لیے کہ ”گردن“ وہ جُزء انسان ہے جس کے بغیر انسان انسان نہیں رہتا‘ پس جزء بیان کردہ کل کو مراد لیا۔ یعنی لفظ گردن استعمال کیا اور مراد اس سے انسان کو لیا۔

تو جزو اعظم مجازاً اصل کے لیے مراد لیا جاتا ہے۔ ٹھیک جس طرح انسان کے لیے گردن کا لفظ استعمال کیا گیا کہ یہ جزء اعلیٰ ہے بس اسی طرح ”اھل بیت محمدی“ کے حق میں ارشاد فرمایا: ”نحن دین اللہ“ کہ در حقیت اللہ تعالیٰ کا دین کون اور کیا ہے؟ ”ہم اھل بیت رسول اللہ اللہ تعالیٰ کا دین ہیں۔“

پس حاضرین! اگر جناب محمد مصطفیٰ اور آل محمد مصطفیٰ کو نہ مانا جائے گا تو کیا دین رہے گا؟ ہرگز نہیں۔ آیت قرآن یہی فرما رہی ہے کہ نہیں۔ لہذا جب محمد و آل محمد خود دین بنے تو اُن کے بغیر کوئی اور شئے قابل قبول نہیں یا تلاش کے لائق ہوگی؟ اس لیے فرمایا: افغیر دین اللہ یبغون۔

اب حضور والا! ذرا آگے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ کیوں حضور توجہ کے ساتھ سماعت فرمائے گا!

قرآن پاک کے چھٹے پارے میں آیت آتی ہے۔ و من یکفر بالایمان فقد حبط عملہ کہ جو شخص ایمان کے ساتھ کفر کرے گا اس کے تمام اعمال برباد اور ضائع کردیئے جائیں گے۔

مطلب کیا ہے؟ کفر اور ایمان دو حقیقی ہیں۔ جن کا تعلق ہمیشہ الگ الگ شئے سے ہوتا ہے۔ مثلاً ”اللہ کے ساتھ کفر کرنا“ اور حقیقت ہے اور ”اللہ پر ایمان لانا“ اور حقیقت ہے اور ”اللہ“ خود تیسری حقیقت ہے جو ”کفر“ سے متعلق ہوگی یا ”ایمان“ سے متعلق ہوگی۔

پس ایمان کے ساتھ کفر کرنا کیا ہوا؟

مثال عرض کرتا ہوں کہ زید کو اللہ سے محبت ہے اور عمرو کو اللہ کے ساتھ دشمنی ہے۔ چونکہ محبت اور عداوت دو حقیقتیں ہیں ان کا متعلق کوئی تیسرا ہونا چاہیے۔ جیسے اللہ کے ساتھ محبت یا اس کے ساتھ دشمنی تو کبھی عداوت متعلق ہوگی یا کبھی محبت متعلق ہوگی۔ اسی طرح سے تیسری چیز چاہے کوئی ہو اور تعلق کے لیے کوئی چیزیں ہوں۔

پس کیا مطلب ہوا ایمان کے ساتھ کفر کرنے کا یا کفرکے ساتھ ایمان لانے کا؟

ایمان سے مراد صفت نہیں بلکہ کوئی ذات مراد ہے جو اس قدر ایمان رکھتی ہے کہ سراپا‘ مجسمہ ایمان ہی ایمان ہے سر تا پا ایمان ہی ایمان ہے اس کے ساتھ کوئی کفر کرے گا اس کے سب کے سب اعمال ضائع اور برباد ہوجائیں گے۔

تو ”ایمان“ کون ذات ہوئی؟ آیئے یہ سوا ل حضور رسول اللہ سے دریافت کیجئے کہ آپ ایمان سے کون ذات مراد لیتے ہیں؟

پہلوان عرب کا عمرو بن عبدو کے بالمقابل رسالت مآب فرماتے ہیں کوئی ہے جو اس کے مقابلے میں جائے؟

یہ شخص عمرو بن عبدو رسالت مآب اور ان کے دین کا بدترین دشمن تھا غزوہ خندق میں اپنی فوج سے باہر نکلا تو ایک چھلانگ سے پار جا کر حملہ کردوں ایک جگہ مل گئی گھوڑے کو ایڑ لگائی اور دوسری طرف جا پہنچا۔ حضور مع ساتھیوں کے بیٹھے ہوئے تھے اور نیزہ نکال کر خیمہ نبوی پر جا مارا۔

ایمان والو! بیٹھے لوگوں پر حملہ کرنا کیا بزدل پن نہ تھا؟ ضرور تھا۔

لہذا اس پہلوان نے پکارا اگر بیٹھے لوگوں پر حملہ کرنا بزدلی نہ ہوتا اس وقت تم سب کو قتل کردیتا۔ لیکن یہ بزدلی پسند نہیں کرتا جب تک حجت تمام نہ ہوجائے اس وقت تک کسی کو قتل نہ کروں گا۔ لہذا کوئی ہے تم سب سے جو مقابلہ کو آئے؟

مہربان بزرگو! یہ تمام بناوٹی کہانی نہیں بلکہ واقعات ہیں۔ ”روضہ الصفا“ دیکھےئے گا تفصیلی حالات کا پتہ چلے گا۔

گھر میں بیٹھ کر کہنے والے مسلمان خیال فرما دیں جو کہتے ہیں کہ ایک مسلمان لاکھ کے مقابلہ میں آتاتھا۔ لیکن یہاں سب مسلمان بیٹھے ہیں لیکن ایک سامنے نہیں آتا۔

جناب رسالت مآب صلی علیہ و آلہ وسلم کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ نے فرمایا ”من لھذا الکب؟‘ کہ ”اس کتے کے مقابلے کے لیے کون ہے؟“

آپ اندازہ لگایئے کہ قلب محمدی پر کس قدر چوٹ لگی تھی کہ اس قدر سخت الفاظ اس دشمن حملہ آور کافر کے حق میں آپ نے فرمائے؟

قبلہ عالم‘ اسی مقام اور اسی قسم کے موقعہ پر وہ فرمان نبوی میں آتا ہے کانھم علی روئسھم طیر کہ وہ لوگ اس طری بیٹھے ہوئے تھے کہ گویا سر پر پرندے بیٹھے ہیں۔ اس قدر ڈڑ کے مارے یا کسی ذکر میں ڈوبے ہوئے‘ سر جھکائے بیٹھے ہیں۔

یہ محاورہ عرب والے استعمال کرتے ہیں کہکانهعلی رأسه ظیر ۔ یہ ایک جانور ہوتا ہے کہ جب مگرچھ دریا کی مچھلیاں وغیرہ کھا لیتا ہے تو اس کے ادنتوں میں گوشت کے اجزاء باقی رہ جاتے ہیں اور اس کی گندگی اس کے منہ میں کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں جو اس کی بڑی سخت تکلیف پہنچاتے ہیں تو وہ منہ کھول کر دریا کے کنارے پڑ جاتا ہے تو اس ملک میں وہ پرندہ بڑی تیز اور لمبی چونچ کے ساتھ آتا ہے اس کے منہ میں چلا جاتا ہے اور تمام کیڑے ختم کرنا شروع کردیتا ہے جب تمام کیڑے ختم ہو جاتے ہیں تو مگرمچھ اپنا منہ بند کردیتا ہے تو اس پرندہ کی تیز شاخ اس کے تالو پر لگتی ہے تو و بے اختیار منہ کھول دیتا ہے اور وہ پرندہ اس طرح اڑ کر باہر چلا جاتا ہے۔

اسی طرح اونٹوں کے سر پر جانور آکر بیٹھا کرتا ہے اور اس کی چونٹیاں‘ کیڑے جوئیں وغیرہ چننے لگتا ہے‘ وہ آرام محسوس کرتا ہے وہ پرندہ سر پر بیٹھا رہتا ہے۔

تو اس جانور کے نام پر ضرب المثل مشہور ہوگئی کہ وہ اس طرح بیٹھا ہے گویا اس کے سر پر پرندہ بیٹھا ہے۔

الغرض حضور نے فرمایا کہ ”اس کتے کے مقابلے میں کون جائے گا؟ سب سر کو جھکائے بیٹھے ہیں۔ گویا کہ حس و حرکت باقی نہ رہی تھی۔

تب حضور رسالت مآب نے ارشاد فرمایا:

من یبارزہ فیکون ولی و وصی و خلیفتی من بعدی کہ جو اس کے مقابلہ میں جائے گا وہ میرا ولی‘ میرا وصی اور میرے بعد میرا خلیفہ ہوگا۔

سب کے سب سن رہے تھے‘ کسی شخص کی جرءت نہ پڑتی تھی کہ اس کے مقابلہ میں جائے۔ جانا تو درکنار سر کو کوئی نہ اٹھا رہا تھا۔

تاریخ میں اس طرح سے موجو دہے۔

تو اسی وقت امیر المومنین کھڑے ہوگئے‘ عرض کیا ”انا لھذا یا رسو اللہ!“

آپ نے فرمایا: ”علی بیٹھ جا“

آپ بیٹھ گئے۔ توئی نہ کھڑا ہوا۔ پھر فرمایا علی کھڑے ہوگئے آپ نے بٹھا دیا۔ پھر تیسری بار ارشاد فرمایا کوئی نہ کھڑا ہوا۔ امیر المومنین ہی تیسری مرتبہ کھڑے ہوئے۔

فرمایا: ”علی! جاؤ یہ میرا عمامہ ہے‘ سرپر باندھ لو۔ جاؤ۔ آگے آگے نصرت خدا ہے اور پیچِِھے پیچھے میری دعائیں ہیں۔

انسان کا دماغ جب کسی وحشت ناک شئے سے متاثر ہو جاتا ہے تو اس کی سمجھ جواب دے بیٹھتی ہے۔

اصل میں حضور اپنے الفاظ مذکورہ بالا کے ساتھ زندہ رہنے کی پیشن گوئی فرما رہے تھے۔ کہ جو تم میں سے اس دشمن دین کے مقابلہ میں جائے گا۔ میرا خلیفہ ہوگا۔ گویا کہہ رہے تھے کہ وہ خلیفہ ہوگا تو تب ہی نہ کہ زندہ رہو گے۔

مگر کسی کی سمجھ میں یہ بات نہ آتی تھی۔ امیر المومنین نے فرمایا: میں جاؤں گا یا رسول اللہ! اس کتے کا واسطے آپ کا یہ غلام ”علی“ حاضر ہے۔

جناب رسالت مآب صلی علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ”علی اس کے مقابلے میں جاؤ۔“

علی مقابلہ میں گئے۔ عمرو نے کہا ”علی جانتے ہو کس کے مقابلے میں آرہے ہو؟ عیدو پہلوان کا بیٹا عمرو مقابلے میں ہے۔“

آپ نے جواب دیا ”جانتا ہے تو بٍھی؟ کہ علی کس کا بیٹا ہے؟ سن میں اس کا بیٹا ہوں جس کا نام ابی طالب ہے۔“

اس خیمہ میں ایک شخص نے کہ دیا تھا کہ یا رسول اللہ میں اس عمرو کو جانتا ہوں کہ ایک ہزار آدمی نے اس اکیلے پر حملہ کیا تھا اور یہ تمام کو اکیلا ختم کر گیا تھا اور اس طرح سے کہ یہ شخص اٹھا تھا اندھوں کی طرح ہاتھ مار رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں صرف اونٹ کی ایک ہڈی آگئی تھی۔ اور اس ایک ہڈی کے ساتھ اس نے سب کو بھگا دیا تھا۔

اب حاضرین! بتلایئے یہ نصرت دین تھی یا کیاتھی؟

اول تو کوئی جائے نہیں۔ اگر کوئی جائے تو اس طرح حوصلہ پست کردیا جائے۔

لیکن نصرت دین وہ تھے جن کے آگے آگے بروئے فرمان نبوی ”نصرت خدا آگے آگے جارہی تھی اور نبی کی دعائیں پیچھے پیچِھے جارہی تھیں۔“

بہرحال علی میدان میں مقابلے کونکلے۔ رسول خدا ان کے ساتھ ساتھ باہر نکلے اور فرمایا: ”علی جاؤ حفاظت خدا تمہارے ساتھ ساتھ ہے۔“

اُدھر وہ کافر کفر کا مجسمہ نکلا تھا۔ اِدھر سے علی نکلے۔ رسالت مآب نے مسلمانوں کو فرمایا:

”برز الایمان کلہ، للکفر کلہ“ کہ کل کے کل کفر کے مقابلے میں کل کا کل ایمان نکل آیا ہے۔

اور ”روضہ الصفا“ کی روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”برزالاسلام کلہ‘ للکفر کلہ“ کہ کل کے کل کفر کے مقابلے میں کل کے کلر اسلام نکل آیا ہے۔

تو گویا رسالت مآب کبھی فرما رہے تھے پورے کا پورا ایمان پورے کفر کے مقابل جارہا ہے اور کبھی فرما رہے تھے کہ پورے کا پورا اسلام پورے کفر کے مقابلے میں جارہا ہے۔

اب حضرات! ذہن میں لائے آیت قرآنی فمن یکفر بالایمان فقد حبط علمہ‘ کہ جو بھی ایمان کے ساتھ ساتھ کفر کرے گا۔ بے شک اُس کے تمام اعمال برباد اور اکارت چلے جائیں گے۔

پس ثابت ہوا کہ یہاں ایمان سے مراد کوئی شخصیت ہے۔

چنانچہ غزوہ خندق میں آواز آرہی تھی کہ یہ ہے مجسم ایمان‘ سراپا ایمان جو جارہا ہے اور یہ ہے مجسم اسلام‘ سراپا اسلام جو سراپا کفر کے مقابلے میں جارہا ہے۔

پس یہ ہے وہ ”ایمان“ اگر اس کے ساتھ کوئی ایمان نہ لائے گا تو اس کے سارے اعمال ضائع ہو جائیں گے۔

تو معلوم ہوا کہ ”دین اللہ“ اور ”ایمان“ ایک ہی چیز ہیں۔ ورنہ فرق بتا دیجئے؟ لہذا حضور نے جو فرمایا تھا ”نحن اھل البیت دین اللہ‘ تو ٹھیک ہوا یا نہ؟“

اب آیت یاد فرمایئے افغیر دین اللہ یبغون؟ کہ کیا لوگ سوائے ”دین اللہ کے‘ کسی اور کو تلاش کرتے ہیں؟ معلوم کیا آپ لوگوں نے کہ دین اللہ کون ہیں اور اس سے کیا مراد ہے؟ صلوات پڑھ لیجیئے۔

اب سوال یہ سامنے آتا ہے کہ حب محمد و آل محمد دین اللہ ہیں تو ان کے دین اللہ ہونے سے مراد کیا ہے۔

سو ”محمد دین اللہ“ سے مراد رسول خدا سے محبت ہے اور آل محمد دین اللہ ہے سے مراد آل محمد سے محبت ہے۔

اب ذرا منطقی طریق سے اسے خیال فرمائیے اور پھر قیاس کرتے ہوئے نتیجہ کو نکال لیجئے کہ ”رسول دین ہے“ سے مراد یہ ہے کہ رسول سے محبت دین اللہ ہے اور اسی طرح”آل محمد دین ہے“ سے بھی مراد یہ ہے کہ آل محمد سے محبت دین اللہ ہے۔

چونکہ محبت اہل بیت‘ محبت رسول ہے اور محبت رسول ”دین اللہ‘ ہے تو نتیجہ منطقی یہ نکلا کہ محبت اہل بیت ہی دین خدا ہے۔

اب پھر آپ ارشاد خداوندی کو سامنے رکھیں کہ افغیر دین اللہ یبغون سے مطلب نکلا؟ کہ دین اللہ کے علاوہ لوگ کسی اور کو ڈھونڈھتے ہیں۔ یعنی ”اہل بیت کی محبت کے علاوہ کسی اور کی محبت لوگ ڈھونڈھتے ہیں؟

ایک آیت دوسرے مقام پر آتی ہے اُسے بھی غور فرمائیں( ان الدین عند الله الاسلام فمن یبتع غیر الاسلام دنیا فلن یقبل منه و هو فی الآخرة لمن الخسرین ) جس کا ترجمہ یہ ہے:

کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین کیا ہے؟ فرمایا: اسلام ہے اور جو کوئی اس اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو تلاش کرے گا یا اختیار کرے گا ہرگز وہ قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں مرنے کے بعد ایسے لوگ جو اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو اختیار کریں گے وہ یقیناً نقصان میں رہیں گے۔

اور قرآن کی تفسیر یعنی فرمان رسول سے ابھی آپ کے سامنے بیان ہوا تھا کہ پورا اسلام کیا ہے جو پورے کفر کے مقابے میں نکلا تھا؟ فرمایا تھابرز الاسلام کله‘ لکفر کله اور یہ کلہ مولا علی کے لیے فرمایا تھا۔ پس وہ ”علی“ ہوئے یا نہیں؟

تو دوسری آیت مذکورہ میں ارشاد الہی یہ ہوا کہ بے شک خدا تعالیٰ کے نزدیک دین علی ہیں اورجو کوئی علی کے علاوہ کسی اور کو تلاش کریں گے وہ خدا تعالیٰ کے حضور ہرگز قبول نہ ہوگا اور علی کو چھوڑ کر اور کسی کو قبول کرنے والے آخرت میں یقیناً نقصان اٹھانے والے ہوں گے۔

پس مطلب یہ ہوا کہ اگر ان سے کوئی پھر گیا وہ دین سے پھر گیا۔ بلکہ یہ وہ دین ہیں کہ ان کی ذات خود دین بن گئی۔ چنانچہ خواجہ اجمیری رحمة اللہ علیہ نے اس خوبی اور شان کے ساتھ ابن علی امام حسین کو واضح کیا کہ انہوں نے اتنا دین کا کام کیا کہ وہ مجسم دین بن گئے۔ آپ کا ارشاد یہ ہے جو آج بھی زبان زد خلق ہے۔

شاہ است حسین‘ شہنشاہ است حسین

دین است حسین‘ دین پناہ است حسین

جان داد و نداد دست درد دست یزید

حقا کہ بناء لا اللہ است‘ حسین

کہ سیدنا امام حسین مجسم دین ہیں اور دین کامل طور پر ان کی پناہ میں ہے اور حق تو یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ محمد الرسول کی بنیاد ہی حسین ہیں اور جب حسین دین ہیں تو ان کے باپ تو بدرجہ اولیٰ دین ہوئے۔

ایک چیز ہوتی ہے جس کو کہتے ہیں علت تامہ کا جزء آخر‘ یا جزء متمم‘ جو کسی علت تامہ کو کامل کردیتا ہے اُسے جزء متمم یعنی ختم کرنے والا جزء کہتے ہیں۔

مثلاً آپ غور فرمائیں۔ ایک گارڈر لوہے کاپڑا ہے جسے یک آدمی نہیں اٹھا سکتا‘ دو بھی نہیں اٹھا سکتے تین بھی نہیں اٹھا سکتے چار بھی نہیں اٹھا سکتے لیکن پانچ آدمی مل کر اٹھائیں تو وہ اٹھ جاتا ہے۔

ایک سے کیوں نہیں اٹھا؟ اسی طرح دو سے یا تین سے یا چار سے کیوں نہیں اٹھا؟ جب تک چار محنت کر رہے تھے نہیں اٹھ رہا تھا۔ پانچواں مل گیا تو اٹھ گیا۔ تو کیا پانچویں نے اٹھایا؟ بلکہ کہا جائے گا کہ جب تک پانچواں نہ تھا سب بے کار تھے جب یہ شریک ہوگیا سب کار آمد بن گئے۔

ایک مشین ہے۔ اس کا آخری پرزہ نہ لگایئے تو مشین موجود ہے لیکن مشین بے کار پڑی ہے جب آخری پرزہ لگ گیا سب پرزے کام کرنے لگ گئے اور جب تک آخری پرزہ نہ تھا سب پرزے بے کار تھے۔

پس ”جزء متمم“ وہ ہے جو نہ لگے سب بے کار رہیں اور جب وہ لگ جائے تو سب کا م کرنے لگ پڑیں۔

بس بتائیے کہ ایک آدمی خدا کو مانتا ہے مگر محمد کو نہیں مانتا تو توحید بے کار ہے یا نہیں؟

یہی سبب ہوا کہ اصول دین میں نبی کا ماننا فرض ٹھہرایا گیا۔ اس لی یکہ وہ بانی شریعت ہیں اور اسی طرح حافظ شریعت کا ماننا بھی اصول دین سے ہے اس لیے کہ جس طرح توحید کا جزء متمم نبی ہیں‘ اسی طرح شریعت نبوی کے جزء متمم حافظ شریعت ہیں۔ پس جو اس جزء متمم کو نہ مانے گا‘ اس کے مانے بغیر کام رسات اور تمام توحید بے کار ہوگی۔

ایک آسان سی بات ہے جو آپ سے کہہ رہا ہوں کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں بڑے فرقے ہو جائیں گے حتی کہ ۷۳ فرقے ہوں گے ان میں سے ایک تو جنت کو جائے گا اور باقی سب جہنم میں جائیں گے۔

میں کہتا ہوں کہ وہ ہم ہیں‘ دوسرا کہتا ہے کہ وہ ہم ہیں پس جس طرح ہم دوسروں کے کہنے کا برا نہیں مانتے کہ وہ خود کو جنتی کہتے ہیں اور ماسوا کو جھنمی‘ تو اس طرح جب ہم یہ کہیں تو دنیا کو برا نہ ماننا چاہیے۔

اس سے پہلے یہ تفصیل آپ سن چکے ہیں کہ نجات کا دار و مدار کس کے اوپر ہے؟ طے ہوا تھا کہ نجات کا دار و مدار اصو کے اوپر ہے۔ پس اگر اصول ٹھیک ہیں تو خواہ مرپیٹ کر ہی سھی‘ آخرکار ضرور بالضرور جنت میں جائے گا کسی گناہ کی وجہ سے ممکن ہے عالم برزخ یعنی قبر میں یا حشر میں یا جھنم میں کچھ دن سزا بھگت لے لیکن بالآخر جنت میں جائے گا۔

یہ سزا بھی اصلاح کے لیے اور پاک کرنے کے لیے بدلتی ہے۔ ذرا ایک دن بخار آجاتا ہے تو خدا یاد آجاتا ہے۔ خدانخواستہ کسی کو اگر درد تولنج ہوجائے تو معلوم نہیں ہوتا کہ زمین میں ہے یا آسمان پر ہے۔ لیکن سرکشی ساری خود پر جاتی ہے۔

پس اصول کا ٹھیک یا صحیح ہونا نہایت ضروری ہے۔ اگر اصول صحیح ہیں تو ضرور آخر کار جنتی ہے۔

اب دین اسلام کے اصول کتنے ہیں؟

دین اسلام میں ۳ اصول ہیں۔ ۱ ۔ توحید‘ ۲ ۔ نبوت یا رسالت‘ ۳ ۔ قیامت۔

یعنی خدا تعالیٰ کو ایک ماننا‘ نبی کی ضرورت کا اقرار کرنا اور قیامت کا ماننا۔ اگر ان پر سہ پر اعتقاد کرلے تو جنتی۔

اب میں پوچھتا ہوں کہ اسلام کا کوئی فرقہ نکال لاؤ جو توحید کا قائل نہ ہو ہر ایک فرقہ کے نزدیک یہ اصول مسلم ہے۔

اسی طرح کوئی فرقہ ایسا نہ ملے گا جو نبوت کا قائل نہہو۔ اس لیے کہ جب علت مان لی گئی تو معلول کا پایا جانا ضروری ہوگیا۔

لیکن اصول تو سارے فرقوں میں پائے جاتے ہیں اس لیے سب کا جنت میں جانا ضروری ہوا۔ مگر اس حدیث کا کیا جائے گا جس کی رو سے صرف ایک تو جنتی فرقہ ثابت ہوتا ہے باقی سب جھنمی ثابت ہوتے ہیں۔

لہذا کہنا پڑے گا کہ کوئی اصول رہ گیا ہے یا کوئی جزء متمم باقی رہ گیا ہے۔ جس طرح نافذ کرنے والا شریعت کا ضروری ے اسی طرح محافظ دین کا ہونا بھی ضروری ہے۔

پس تیسرا اصول ”امامت“ بھی اصول دین میں شامل ہوا۔ اس لیے کہ دوسرے اصول کا جزء متمم یہی ہے۔ جب امامت آگئی پہلے دو اصول رسالت اور توحید بھی کام کرنے لگ گئے۔ حتی کہ اقرار قیامت کا اصول بھی کام کرنے لگ گیا۔

اصل غرض خلقت کیا ہے؟ توجہ فرما کر سماعت فرمائیے۔ بہت سے آدمی آپ میں سے سوچ رہے ہوں گے اس لیے کہ ان کی نظر میں آیت کریمہ و ما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون ہوگی میں کہتا ہوں بالکل ٹھیک ہے۔ لیک عبادت کیا آخری غرض ہے یا اس کے بعد بھی کوئی غرض ہے؟

ظاہر ہے کہ عبادت آخری غرض نہیں ہو سکتی۔ اس لیے کہ عبادت تو تکمیل حکم ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا ”عبادت کرو“ تو کیا اس تعمیل حکم کی بھی کوئی غرض یا مقصد ہے کہ نہیں؟ پس اس کا جو مقصد ہوگا وہی آخری غرض ہوگی۔

مثلاً آپ نے بچے کو حکم دیا ”سکول جاؤ“ تو اصل میں سکول جانے کی بھی کوئی غرض نہیں ہے‘ پس وہ جو آخری غرض ہوگی وہ اصل غرض ہوگی۔

اب سوچیئے عبادت کا فائدہ کیا ہے؟

وہ فائدہ محبت ہے۔ میں بآواز بلند کہتا ہوں کہ اصل غرض و غایت ”عبادت“ کی محبت خدا ہے۔

لاکھوں برس عبادت کرے عبادت فضول اور بے کار‘ جیسے شیطان نے لاکھوں برس عبادت کی۔ خدا کو وہ جانتا تھا کہ ایک ہے مگر خدا نے جب اسے کہا کہ اس آدم کو سجدہ کرو۔ تو کہنے لگا: کیا اس کو سجدہ کروں؟ پس یہ جو کیوں کہ دیا‘ معلوم ہوا کہ محبت نہیں ا س لیے کہ محبت میں چون و چرا کہنا حرام ہے پس جب محبت نہ تھی کہہ دیا گیا نکال دو اس کو۔

نتیجہ یہ نکلا کہ اصل شئے محبت ہوئی‘ سو اس نے کچھ لوگوں کو بھیج کر حکم دے دیا کہ ان سے محبت کرو۔ تو وہ میری محبت ہو جائے گی۔

تو اصل دین محبت ثابت ہوئی اگر محبت صحیح موجود ہے تو اہل دین‘ ورنہ بے دین نیز محبوب کے دوست سے دوستی ہوگی اور محبوب کے دشمن سے دشمنی ہوگی۔

اخلاق جلالی آپ نے پڑھی ہوگی اس میں دین اور محبت کا رشتہ اس طرح سے بیان کیا گیا ہے۔ انک تو جھک۔۔۔ ان الحب دین و ایمان۔۔۔ کہ میرا دین تو دین محبت ہے‘ اس محبت کی اونٹنیاں جس طرف چلتی ہیں اسی طرف میرا دین اور ایمان بھی جاتا ہے اور جب یہی محبت حقیقی میرا دین ہوچکی۔

لہذا دین ہے حقیقی محبت۔ کس کی محبت؟

امام محمد باقر علیہ السلام سے ایک شخص نے دریافت کیا ”یا ابن رسول اللہ ھل الحب من الایمان“ کہ آیا محبت ایمان کا کوئی جزو ہے؟ و ھل ایمان سوی الحب؟ کہ کیا سوائے محبت کے ایمان ہوسکتا ہے؟

ارشاد فرمایا: الایمان ھو الحب و الحب ھو الایمان کہ صحیح محبت عین ایمان ہے اور ایمان ہی عین محبت ہے۔

جب کسی سے محبت ہوگی تو اس کے اقوال بھی محبوب ہوں گے‘ اس کے افعال بھی محبوب ہوں گے۔

پس ایسے محبوب کو ڈھونڈھنا ہوگا کہ اس سے نہ کبھی غلطی ہواور نہ اس کا کوئی قول غلط ہو نہ کوئی فعل غلط ہوا ہو۔ پس ضروری ہوا کہ محبت اس سے کی جائے جو معصوم ہو۔

آپ میری طرفداری نہ بھی کیجیئے توجہ فرمایئے کہ میں علامہ محمد سلیمان حنفی کی کتاب مودت میں یہ حدیث موجود ہے کہ فرمایا:

لو اجتمع الناس علی حب علی لما خلق اللہ ا لنار۔ کہ اگر سب کے سب انسان علی کی محبت پر جمع ہو جاتے تو دوزخ کو پیدا کرنے کی ضرورت ہی نہ رہتی۔

معلوم ہوا کہ جھنم ان کے لیے پیدا ہوئی ہے جن کے دل میں کچھ نہ کچھ دشمنی حضرت علی کی ہے۔

ایک دوسرے موقع پر فرمایا:یا علی حبک حبی‘ بغضک بغضی ۔ کہ علی تیری محبت عین میری محبت ہے اور تجھ سے بغض عین مجھ س بغض ہے۔

آپ دیکھیں کہ محبت رسول عین محبت خدا ہے کہ نہیں؟ پس جب محبت رسول خدا کی محبت ہے تو منطقی نتیجہ نکالیے کہ علی کی محبت رسول کی محبت ہے اور رسول کی محبت خدا تعایٰ کی محبت ہے پس نتیجہ یہ نکلا کہ علی کی محبت خداتعالیٰ کی محبت ہے۔

آپ وہ فقرہ یاد کیجئے کہ دین کی اصل غرض حقیقی محبت ہے۔ تو معلوم ہوا کہ دین اللہ کیاہوا علی کی محبت‘ اب آیت کریمہ پڑھیے کہ پروردگار عالم ارشاد فرماتا ہےافغیردین الله یبغون وله اسلم من فی السمٰوت والارض طوعا وکرهأوالیه یرجعون کہ کیا سوائے دین اللہ یعنی محبت علی کہ کسی اور کی محبت تلاش کرتے ہیں لوگ ؟ حالانکہ آسمان زمین کے باشندے اسی کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہیں۔ خوشی یا قھر سے اور اسی کی طرف سب کی بازگشت ہے۔

تو کیا یہ بات قبول نہ کی جائے گی کہ ان کی محبت حقیقتاً دین اسلام کی محبت اور ان سے ترک محبت یا دشمنی رکھنی خلاف دین اسلام ہے۔

کیا دشمنان رسول دشمنان خدا ہیں یا نہیں؟ اور جو خدا کے دشمن ہیں وہ دین دار ہوسکتے ہیں؟ جب رسول کی دشمنی خدا تعالیٰ کی دشمنی ہے تو ماننا پڑے گی یہ بات کہ رسول نے کہا ہے بغضک بغضی کہ علی تیری دشمنی میری دشمنی ہے اور رسول کے ساتھ دشمنی خدا تعالیٰ کے ساتھ دشمنی ہے اور خدا تعالیٰ سے دشمنی یا برعکس علی کے ساتھ دشمنی دین سے دشمنی ہے اور کم از کم یہ کہ بے دینی تو ضرور ہے۔

ایک بات علی سبیل التنزل یعنی ذرا نیچے اتر کر کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے کئی جگہ فرمایا ہے کم من قریة اھلکنھا کہ کتنے گاؤں کو ہم نے ھلاک کرڈالا۔

گاؤں کو ھلاک کرنے سے کیا فائدہ تھا؟ معلوم ہوا کہ گاؤں والے ھلاک کئے تھے جو حد سے بڑھ چکے تھے۔

مجازات کی بہت سی قسمیں ہیں تو یہاں قریہ کا لفظ استعمال کرکے قریہ والے مراد لیے ہیں تجاوزات کی کوئی ۲۷ قسمیں ہیں۔

کھیر وہ لفظ ”بیعت“ استعمال کرتا ہے اور مراد اھل البیت لی جاتی ہے اسی طرح کبھی قرآن لفظ ”دین“ کہتاہے اور ”اھل البیت“ مراد لی جاتی ہے یعنی وہ خاص لوگ جو سر سے پاؤں تک مجسم دین ہوتے ہیں۔

سبحان اللہ! یہ دین کس کا ہے؟

اللہ کا دین ہے تو کیا رسول کا دین نہیں؟ ہے تو دین رسول دین خدا ہے اور علی کے لیے بھی فرمایا کہ وہ نفس رسول ہیں۔ تو نفس رسول کا دین خود دین رسول نہ ہوگا اور اس طرح وہ دین خدا نہ ہوگا؟ ضرور ہوگا۔

اب آیت پڑھیے( و ما امرو الا لیعبدوا الله مخلصین له الدین حنفاء و یقیموا الصلوٰة ویوتوا الزکوة و ذلک دین القیمة )

ترجمہ: تمام لوگوں کو بس یہی حکم دیا گیا کہ وہ اللہ کی عبادت کریں۔ خلوص کے ساتھ اور نماز پڑھیں اور زکوٰة دیں اور یہی جو حکم دیا گیا ”الدین القیمة“ ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ ”الدین القیمة “ موصوف صفت ہے؟ یا مضاف مضاف الیہ ہے؟

موصوف صفت ہوا تو معنی ہونگے مضبوط اور مستحکم دین اوراگر مضاف مضاف الیہ ہو تو معنی ہونگے ”قیمہ کا دین“ تو اس صورت میں قیمہ بھی کوئی ہونا چاہیے یا نہیں؟ قیم ہے مذکر اور قیمة ہے مونث‘ تو یہ دین قیمہ کا ہے۔ جیسے ”رسول کا دین“ کو آپ کہیے ”دین الرسول“

اور اگر آپ موصوف صفت استعمال کریں گے تو موصو پر ال موجود ہے اور موصوف پر الف لام ہے تو صفت پر بھی الف لام آئے گا۔ لیکن یہاں صرف ذلک ”دین القیمة “ آیا ہے یعنی الف لام دینپر نہیں صرف قیمة پر ہے۔ پس معلوم ہوا کہ یہ موصوف صفت کی ترکیب نہی ں ہے بلکہ مضاف مضاف الیہ کی ترکیب ہے۔

اور قیم کہتے ہیں حاکم کو اور قیمة کہتے ہیں حاکمہ یعنی سردار عورت کو اور چونکہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حاکم ہیں اس لیے کہ وہ سید الانبیاء ہیں اور سب کے حاکم ہیں تو پھر قیمة سے سردار عورت کون مراد ہوئی؟

وہ ہوئی سیدہ فاطمہ آ کی جگر گوشہ تو کبھی فرمایا: دین اسلام رسول کا دین ہے اور کبھی فرمایا کہ یہ قیمة یعنی جنابہ سیدہ فاطمہ زہرا کا دین ہے۔

پس حقیقی دین اسلام کیا ہوا؟ محبت اہل بیت ہوا۔

حضور کا ارشاد ہوتا ہے یا علی سرک بشری و حبک حبی کہ علی میرا بھید تیرا بھیدا ہے۔ اور میری محبت تیری محبت ہے اور چونکہ میری محبت عین محبت الہی ہے پس تیری محبت عین محبت الہی ہے۔

انہو ں نے اتنا کام کیا دین کا کہ سر سے لے کر پاؤں تک دین ہوگئے۔ اتناصبر کیا کہ سر تا پا صبر ہوگئے۔ پس اگر ن کی محبت نہیں تو دین ہی نہیں۔

ایک شئے اور عرض کرتاہوں اور پھر مضمون کو ختم کرتا ہوں۔

مولوی عبد اللہ صاحب امرتسری کی جوہر المطالب میں ارشاد ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

لو عبد عبد الله یا تام نوح فی قومه و یحج الف حجة علی قدمه و کان صام الدهر و قائم اللیل و قتل مظلوما بین الصفاء و المروة‘ و لم یوال علیا لم یشم رائحة الجنة

کہ اگر کوئی شخص اس قدر خدا تعالیٰ کی بندگی کرے جس قدر حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم میں تبلیغ فرمائی تھی (یعنی ۹-۱/۲ سو سال) اور ایک ہزار حج یا پیادہ کرے اور ہمیشہ صائم الدھر اور قائم اللیل رہا ہو (دن کو روزہ اور رات بھر کھڑے رہ کر بندی کرتا رہا ہو) حتی کہ صفا و مروہ کے مابین مظلوم قتل بھی ہوگیا ہو لیکن حضرت مولا علی سے دوستی نہ رکھتا ہوگا تو وہ بھشت کی خوشبوتک بھی نہ پائے گا۔

پس دین اللہ کا جزء متمم حضرت مولا علی کا وجود باجود اور آپ کی محبت صادقہ ہے۔ اس لیے ان کی ذات کو حقیقت میں دین بنا دیا اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو فرمانا پڑا کہ

علی پورے کا پورا ایمان جارہا ہے اور علی پورے کا پورا اسلام جارہا ہے۔

اور یہی وجہ ہے کہ کربلا میں ابن علی حسین قتل نہیں ہوئے بلکہ دین اللہ قتل ہوا ان کی گردن پر چھری نہیں چلی تھی بلکہ دین الہی کی گردن پر چھری چلی تھی۔ یعنی فرزند رسول جن کے لیے شاہ احمد بن سلطان سید معین الدین احمدی کو فرمانا پڑا تھا

شاہ است حسین‘ شہنشاہ است حسین

دین است حسین‘ دین پناہ است حسین

پس ان کے دشمن کیا دین اسلام کے دشمن نہ ہوں گے؟ان کی محبت اگر دل میں آگئی تو دین کی محبت آگئی اور ان سے اگر بغض ہوگیا تو دین اللہ سے بغض ہوگیا۔ اس لیے کہ وہ مجسم دین ‘ دین پناہ تھے۔

اسی لیے ۱۸ سال کا جوان بچہ‘ ۱۳ سال کا بھتیجہ کے متعلق پسند کیا کہ وہ قربان ہو جائیں لیکن دین کسی طرح سے باقی اور قائم رہ جائے اہل بیت میں سے کسی نے کبھی گلہ کیا نہ شکایت کی۔

جس کے گھر میں آگ لگ جاتی ہے اسے پوچھیے اس پر کیا بنتی ہے۔ گھر کا دھواں دیکھ کر لوگ اکھٹے ہوتے ہیں لیکن جس کا گھر جل رہا ہوتا ہے اسے پتہہوتا ہے اس درد کا۔

تولوگ بھی اسی طرح دین میں داخل ہوگئے تھے لیکن آپ اپنی اہل بیت کو لے کر آگے بڑھے کہ دین کے گھر کو جلانے کے لیے جو دشمن نے آگ جلا رکھی ہے یہ پانی سے نہ بجھے گی بلکہ ان معصوموں سے بجھے گی۔

امام نے احسان یا تمام مسلمانوں پر حسین اگر قربانی نہ دے جاتے تو آج دنیا میں آپ کے نانا کا دین نہ ہوتا بلکہ یزید کا دین ہوتا۔

آج عاشور کا دن ہے خنجر سے عصر کے وقت آپ کا خون بہایا گیا۔ حضور نے پا مردی کے ساتھ مقابلہ کیا او روہ نشان قائم کردیا کہ جس کا ظہور یہ کیا کم ہے کہ ہر سال آپ کے ماننے والے کروڑوں کی تعداد میں یاد کو قائم رکھتے ہیں۔

امام حسین علیہ السلام کی بہنیں‘ کون ان کے رسول کی نواسیاں ایک مرتبہ پہلے بھی جبکہ اسلام کی ابتداء کا وقت تھا اپنی دل کے ساتھ وہ وقت دیکھ چکی تھیں جو دین پر آگیا تھا۔ میدان مباھلہ میں دین اسلام مقابلہ عیسائیوں کے ساتھ ہوچکا تھا۔

زینب دیکھ چکی تھیں کہ ماں نے کس طرح عمل کیا تھا‘ پردہ کا سبق سکھانے والی نے جب دین پر وقت آپہنچا تھا تو چادر اوڑھی تھی اور ابا کے ساتھ دین کو بچایا تھا۔ لہذا آج وہ دین کی ضرورت اور اس پر آئے وقت کو محسوس کر رہی تھیں اور تیار تھیں کہ دین کی خاطر چادر اتر بھی جائے گی تب بی وہ باہر نکل کر دین کو بچا لے گی۔

آج کس کس شہید کا ذکر کروں‘ جسے دیکھ جان الم نظر آتا ہے۔ جس پر نگاہ ڈالو روح غم نظر آتا ہے۔ چشم فلک نے ایسے دین دار کھبی نہ دیکھے ہوں گے۔

امام حسین علیہ السلام کو چھوڑیئے ان کو دیکھو جنہیں ساتھ لے کر آئے تھے وہ اس شان کے مالک تھے کہ ان کی نظیر کسی نے نہ دیکھی ان کی عورتیں ساتھ آئیں‘ ایسی عورتیں جنہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے بچوں کو سنوار کر قربان ہونے کو بھیجا۔

حضرت ہاجرہ نے بھی اپنا فرزند ذبح کرنے کو روانہ کیا تھا لیکن ان کو ابتداء خبر نہ دی گئی تھی کہ بچے کو ذبح کردینے کے لیے جارہا ہوں اور جب خبر ہوگھی تو فریاد کرتے کرتے تیسرے دن وفات پاگئیں۔

لیکن میدان کربلا میں امام ان عورتوں کو ساتھ لائے تو یہ کہ کر لائے کہ چلو‘ تمہارے بچوں کو قربان ہونے کے لیے پیش کرنا ہے۔

مادر وھب اور ا س کا شوہر ‘ امیر المومنین کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے تھے۔ نہ معلوم کیا کچھ علوم ان کو بتا دیئے تھے اور کیا کیا راز بتا دیئے تھے۔ اس مومنہ کا شوہر مرچکا تھااوربیٹے کی شادی کرنے کے لیے گئی تھی اور دلہن کو گھر لائی تھی کہ راستہ میں نظر آیا کہ کوئی قافلہ جارہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امیر المومنین سب کچھ بتلا گئے تھے۔ بیٹے سے کہنے لگی ”بیٹا ذرا دیکھو یہ کون سا قافلہ جارہا ہے؟“ بیٹا گھوڑے پر گیا۔ واپس آیا اور عرض کی اماں جان! آقا حسین کا قافلہ جارہا ہے۔

کہنے لگیں اچھا! مولا علی کے فرزند کا قافلہ جارہا ہے۔ بیٹا اب دیر نہ لگاؤ۔ چلو اسی طرح سے ان کے ساتھ ہو جاؤ۔

یہ قافلہ کربلا میں پہنچا۔ عاشورہ کا دن آگیا لڑائی شروع ہوگئی۔ لاشیں آنے لگیں‘ چند ایک مرتبہ خیمہ کا پردہ اٹھتا ہے ایک عورت تیزی کے ساتھ نکلتی ہے اور کہتی ہے۔ وھب! میرا بیٹا وھب کہاں ہے؟

جواب ملتا ہے: ماں حاضر ہوں۔

کہتی ہے کہ کیا حاضر ہے تو؟ کیا اس لیے تجھے ساتھ لائی تھی کہ لاشوں کا تماشہ دیکھتا رہے گا تو؟

اولاد والو! یہ کون کہہ رہا ہے؟

ایک بڈھی ماں ہے جس کا سہارا صرف ایک بیٹا ہے کہتی ہے بیٹا وھب؟ جب تک تیری لاش نہیں آئے گی تجھ سے خوش نہ ہوں گی۔

وھب نے کہا: ماں! اطمینان رکھ۔ ضرور میدان میں جاؤں گا اور شہید ہوں گا۔ کیا یہاں ہی کھڑی رہو گی؟

کہا: یہاں ہی کھڑی رہوں گی‘ جب لاش آئے گی تو زینب کے سامنے جاؤں گی۔

یہ سن کر بیٹے نے کہا چلا ماں۔ ابھی تعمیل حکم کرتا ہوں۔ یہ کہ کر چلا اور خیمہ کی طرف رخ کیا۔

کہا کدھر جا رہا ہے تو؟

بولا: بیوی سے کہ دوں ذرا‘ کہ میدان جنگ میں جا رہا ہوں۔

بولی: نہ جا عورتیں ناقص العقل ہوتی ہیں کہیں روک نہ دے۔

کہا: اطمینان رکھیئے

پردہ جب اٹھایا تو بیوی پردہ کے ساتھ کھڑی تھی۔ بیوی نے خاوند کو دیکھا تو کہا: وھب! ابھی تک زندہ ہے تو؟

اس نے کہا: تجھے میرے مرنے کی خواہش کیوں ہے؟

بولی: ”زینب کی بے قراری دیکھ نہیں سکتی۔

تو حضور والا۔ یہ تھی شان ان لوگوں کی جو حسین کے ساتھ والے تھے۔ پروردگار عالم آپ لوگوں سے راضی ہو اور تم کو کوئی غم نہ دے سوائے غم حسین کے۔

بس اب آج چاہتا ہوں کہ کہ دو یا تین منٹ میں اس شہید کا ذکر کروں جو میدان جنگ میں نہ پاؤں سے جاسکتا تھا اور نہ سوار ہو کر جاسکتا تھا۔ ابھی تک یہ شہید ہونے والا گھٹنوں بھی نہ چلنے پایا تھا‘ جس کے نام حسین کے بے شیر اصغر تھا۔

مولا تو معاف کردے۔ امام مظلوم نے اپنی مظلومی پر آخری مہر لگائی۔ علی اصغر کے گلے کا خون ابھی میدان کربلا میں بہا نہ تھا آپ نے دو تین مرتبہ آواز استغاثہ بلند کی کہ ”ہے کوئی جو اس عالم کس مپرسی میں میری مدد کو آئے؟“

ہر ذرہ میں سے آواز آرہی تھی ”لبیک“، ”لبیک“ صرف فوج یزید کی طرف سے خاموشی تھی۔

امام کی آواز بلند ہوئی ”کوئی ہے جو حرم رسول پر بلا کو دفع کردے“ ”ھل من مغیث یغیث لنا“

ادھر سے خیموں میں بیویوں کی رونے کی آواز سنائی دی۔ معلوم ہوا کہ قیامت برپا ہوگئی ہے۔

امام خیمہ آئے اور فرمایا: ”بہن زینب! ابھی تک تو میں زندہ ہوں‘ تمہاری آواز سن کر دشمن خوش نہیں ہو رہے؟ کیوں یہ آوازیں بلند ہوئی ہیں؟

زینب نے کہا: بھیا! قیامت آگئی آپ کی استغاثہ کی آواز جو سنی تو یہ ننھا اصغر تڑپنے لگا۔ اس قدر تڑپا کہ جھولے میں سے نیچے جا پڑا اور اس کے گرنے پر بیویوں نے بے اختیار اپنی آوازیں بلند کی ہیں۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: بہن! میرے بچے کو میرے پاس لاؤ۔

جنابہ زینب علی اصغر کولائیں۔

اولاد والو! چھ مینہ کا بچہ‘ ماں کے ہاتھوں سے باپ کے ہاتھوں پر آیا۔ اس کی مسکراہٹ نے باپ کی دل کو قوت بڑھا دیا۔

آپ نے کیا دیکھا کہ ننھے ہونٹ خشک ہیں‘ آنکھوں میں گڑھے پڑچکے ہیں۔ آپ نے آنکھوں کو بوسہ دیا۔ پیشانی کو چوما اور فرمایا: بیٹا! مطلب سمجھ گیا۔ آپ نے بہن سے فرمایا: اسے لیے جارہا ہوں۔ پانی مانگوں گا۔

جناب اصغر کی ماں خاموش دیکھ رہی تھیں امام حسین لے کر چلے۔ کہ جنابہ رباب نے راستہ روک لیا اور کہا: میرے والی! میرے وارث! ذرا بچے کو دے دیجئے۔ امام حسین علیہ السلام نے بچہ کو ماں کی گود میں دے دیا۔ ماں بچے کو خیمہ میں لے گئی۔ بیویاں سمجھیں ہوں شاید لے گئی ہے پیار کرے گی۔ مگر بی بی نے علی اصغر کا کرتہ اتارا۔ دوسرا کرتہ بدلا۔ جلدی جلدی سے آنکھوں میں سرمہ ڈالا۔ بالوں میں کنگھی کی اور کہا: بیٹا میری طرف سے اجازت ہے اور امام لے کر چلنے لگے فرمایا: بیٹا علی اصغر! جانتی ہو ں کہ تم جا رہے ہو اور واپس نہ آؤ گے۔ اگر تیر لگ جائے تو رونا مت۔ ورنہ لوگ کہیں گے کہ باپ کا بیٹا رونے لگا ہے۔

چنانچہ میدان میں باپ بیٹا پہنچے دشمن کا تیر آیا۔ حلق میں لگا۔ علی اصغر مسکرائے اور بصدائے حال پکارا بابا جان! ماں کو سلام کہنا او رکہ دینا کہ علی اصغر نہیں رویا اور نہ تڑپا۔ بلکہ خاموش جان مالک کے سپرد کردی۔

انا الله و انا الیه راجعون