وجوب حج
ہر صاحب شرائط مکلف پر حج واجب ہے جو کہ قرآن و سنت قطعیہ سے ثابت ہے ۔(شرائط کا بیان آگے آئے گا )
حج ارکان دین میں سے ایک رکن ہے اور ا س کا وجوب ضروریات دین میں سے ہے ۔حج کے وجوب کا اقرار کرتے ہوئے اس کا ترک کرنا گناہ کبیرہ ہے جب کہ خود حج کا انکا ر اگرکسی غلطی یا شک شبہ کی وجہ سے نہ ہو تو کفرہے ۔پروردگار عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتاہے :
وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا و من کفر فان اللہ غنی عن العالمین
اور لوگوں پر واجب ہے کہ محض خدا کے لیے خانہ کعبہ کاحج کریں جنہیں وہاں تک پہنچنے کی استطاعت ہو ۔او جس نے استطاعت کے باوجود حج سے انکا ر کیا تو خد اسارے جہاں سے بے نیاز ہے ۔ (آل عمران آیت ۹۷) شیخ کلینی رحمةاللہ علیہ معتبر ذرائع سے حضرت امام جعفر صادق سے روایت کرتے ہیں کہ امام نے فرما یا کہ جو شخص حج الاسلام کیے بغیر مرجائے جب کہ ا س کا حج نہ کرناکسی قطعی ضرورت ،بیماری یا حکومت کی طرف سے رکاوٹ نہ ہو تو وہ یہودی یا نصرانی موت مر ا۔
اس موضوع پر بہت زیادہ روایتیں ہیں جو حج کے وجوب پر دلالت کرتیں ہیں مگر ہم اختصار کے خاطر ان کو پیش نہیں کر تے ۔اور اپنے مقصدکی خاطر مذکورہ بالاآیت اور روایت پر ہی اکتفاکریں گے ۔
شریعت مقدسہ میں ہر مکلف پر حج ایک مرتبہ واجب ہے جسے حج الاسلام کہا جاتاہے ۔بعض اوقات ممکن ہے کہ حج ایک یا زیادہ مرتبہ واجب ہو جائے مثلا کسی کے بدلے حج کرنے یا اجیر وغیرہ بنے کے صورت میں ۔جس کا بیان آگے آئے گا۔
مسئلہ نمبر ۱ ۔جب شرائط ثابت ہونے کی صور ت میں حج واجب ہوجائے ۔توحج واجب فوری ہے ۔لہذا استطاعت کے پہلے سال ہی حج کی ادائیگی واجب ہے چنانچہ اگر مکلف پہلے سال حج نہ کرے تودوسرے سال انجام دے ۔اسی طرح آئندہ سالوں میں عدم ادائیگی کی صورت میں وجوب باقی رہے گا ۔حج کے واجب فروی ہونے کی دو صورتیں ہیں ۔
۱ ۔جیساکہ علماء میں مشہور ہے کہ واجب فروی ہونا شرعی ہے ۔
۲ ۔احتیاط کی بنا پر واجب فوری ہونا عقلی ہے ۔تاکہ واجب میں بلاعذرتاخیر کی وجہ سے عذا ب کا مستحق نہ ہو ۔
ان میں سے پہلی صور ت احوط اور دوسری صور ت اقوی ہے لہذا اگر اطمینان نہ ہونے کے باوجود کہ آئندہ حج انجام دوں گا پھر بھی جلدی نہ کرے تو اگر بعد میں انجام دے بھی دے تو گستاخ قرار پائے گااور عدم ادائیگی کی صورت میں گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو گا ۔
( ۱) جب حج واجب ہو جائے تو اسکے مقدمات ووسائل کو اس طرح تیار کرنا ضروری کہ حج کو وقت پر ادا کیا جاسکے ۔اگر قافلے متعدد ہوں اور اطمینان ہو کہ جس کے ساتھ بھی جاؤں گا حج ادا ہوجائیگاتو مکلف کو اختیار ہے کہ جسکے ساتھ مرضی ہو جائے اگرچہ بہتر یہ ہے کہ جسے کے ساتھ زیادہ اطمینان ہو اسکے ساتھ کے جائے اور ایسے قافلے کے ساتھ تاخیر کرنا جائز نہیں ہے سوائے اسکے کہ اطمینان ہو کہ دوسراقافلہ مل جائے گا جس کے ساتھ جانا اور حج کرنا ممکن ہو گااسی خشکی ،بحری اور ہوائے راستے سے جانے کے بارے میں بھی یہی حکم ہے ۔
( ۳) اگر استطاعت ہونے کے بعد اسی سال حج پر جانا واجب ہوجائے اور کوئی شخص اس اطمینان کے ساتھ کہ تاخیر کے باوجود اسی سال حج کرسکے گا جانے میں تاخیر کرے لیکن اتفاقا کسی تاخیر کے وجہ سے حج نہ کرسکے تو تاخیر کرنے میں معذورشمار ہوگا اور اظہر یہ ہے کہ حج اس کے ذمہ ثابت نہ ہو گا اسی طرح دوسرے ان تمام موارد میں اگر کسی اتفاقکی وجہ سے حج نہ سکے تو معذور سمجھا جائے گا بشرطیکہ اسکی طرف سے کوئی کوتاہی نہ اور کمی ہوئی ہو ۔
شرائط وجو ب حج
۱ ۔بلوغت :
نابالغ پر حج واجب نہیں ہے چاہے وہ قریب بلوغ بھی کیوں نہ ہو لہذااگر بچہ حج کرے تو یہ حج ،حج الاسلام کی کفایت نہ کرے گا اگرچہ اظہر یہ ہے کہ اسکا حج صحیح ہے ۔
( ۴) جب ایک بچہ گھر حج کرنے کے لیے نکلے اور میقات پر احرام باندھے سے پہلے بالغ ہوجائے اور مستطیع بھی ہوجائے جاہے استطاعت اسی جگہ حاصل ہوئی ہو تو بلا اشکال اس کاحج ،حج الاسلام شمار ہوگا اسی طرح اگر احرام باندھے سے پہلے مزدلفہ وقوف سے پہلے بالغ ہو جائے تو اپنے حج کوتما م کرے اور اقوی یہ ہے کہ یہ حج بھی حج الاسلام شما ر ہوگا۔
( ۵) اگر کوئی اپنے آپ کو نابالغ سجھتے ہوئے مستحب حج کرے اور حج کے بعد یا حج کے درمیان پتہ چلے کہ وہ بالغ ہے تو یہ حج ،حج الاسلام شمار ہوگا لہذا اسی کو کافی سمجھے ۔
( ۶) ممیز بچے پر حج کرنا مستحب ہے لیکن بعیدنہیں کہ اسکی حج صحیح ہونے میں اسکے ولی کی اجازت شر طہ ہو جیساکہ فقہاء کے درمیان مشہور ہے ۔
( ۷) بالغ شخص کے حج صحیح ہونے میں والدین کی اجازت مطلقانہیں ہے لیکن اگر اسکے مستحب حج پر جانے سے ماں پاب میں سے کسی ایک کو اذیت ہو مثلاراستے کے وہ جو خطرات اسے پیش آسکتے ہیں ان سے وہ ڈرتے ہوں اوراس بناپر انہیں اذیت ہو تو اس شخص پر حج کے لیے جانا جائز نہیں ہے ۔
( ۸) غیر ممیز بچے یا بچی کے ولی کے لئے مستحب ہے کہ وہ ان کو حج کرائے اس طرح کہ انکو احرام باندھے اس کو تلبیہ کہلوائے اور تلبیہ سکھائے اور اگر وہ بچہ یا بچی سیکھنے کے قابل ہوں (یعنی جو بزی انہیں کہنے کو کہیں کہہ سکیں )اور اگر سیکھانے کے قابل نہ ہوں تو خو د انکی جانب سے تلبیہ کہے اور احرام والے شخض کا جن چیزوں سے بچنا واجب ہے بچے ولی کے لیے جائز ہے کہ اگر وہ فخ کے راستے سے جارہاہو تومقام فخ تک بچے کے سلے ہوئے کپڑے یا جو انکے حکم میں آئے انہیں اتارنے میں تاخیر کرے ،افعال حج میں سے جنہیں یہ بچہ یا بچی انجام دے سکتے ہواسکو انجام دینے کو کہے اور جو انجام نہ دے سکتے ہوں ان کو خود ولی اس کی نیابت میں انجام دے ،اس کو طواف کرے صفا مروہ کے درمیاں سعی کرائے ،عرفات اور مشعر میں وقوف کراے ،اگر بچہ یابچی رمی (کنکرمارنے )کرناے پر قادرہوں تو اسے رمی کرنے کو کہے اور قادر نہ ہوں تو اس کی طرف سے خود رمی کرے نماز طواف پڑھے ،سر مونڈھے اور دیگر اعمال کا بھی حکم یہی ہے ۔
( ۹) غیر ممیز بچے کا ولی بچے کو احرام پہنا سکتاہے چاہے خوداحرام پہنے ہوئے بھی ہو ۔
( ۱۰) احرام یہ ہے کہ ولی ،جس ) غیر ممیز بچے کو حج کرانامستحب ہے وہ شخص جس کے پاس بچے کی دیکھ بھا ل اور سرپرستی کا اختیار ہو چاہے وہ ما ں باپ ہوں یا کو ئی اور جس کی تفصیل "کتاب النکاح "میں موجود ہے ۔
( ۱۱) بچے کے اخراجات اگر وپن میں رہنے سے زیادہ ہوں تو زائد مقدارولی کے ذمے ہوگی لیکن اگر بچے کی حفاظت کی خاطر یا مصلحتاساتھ لے جانا مقصود ہو اور حج کے اخراجات ،سفر کے خرجات کی نسبت زائدہوں تو بچے کے مال سے صرف سفر کے خراجات اداکیے جاسکتے ہیں ،حج کے اکراجات نہیں ۔
( ۱۲) غیر ممیز بچے کی قربانی کا خرچہ ولی کے ذمہ ہے اسی طرح بچے کے شکار کا کفارہ نھی ولی کے ذمہ ہے لیکن وہ کفارات جو موجبات کفارہ کو عمداانجام دینے کی وجہ سے ہوتے ہیں ظاہر یہ ہے کہ بچے کے انجام دینے کی وجہ سے نہیں ہوتے چاہے بچہ ممیز کیوں نہ ہو لہذا ان کفارات کی ادائیگی نہ ولی کے ذمہ ہے اور نہ ہی بچہ کے مال سے نکالنا واجب ہے ۔
۲ ۔عقل :
دیوانے شخص پر حج واجب نہیں ہے لیکن جسے دیوانگی کے دورے پڑتے ہوں اور اسکے ٹھیک ہونے کا زمانہ اتنا ہو کہ حج سے متعلق ابتدائی امور اور افعال حج انجام دے سکتاہو مزید یہ کہ مستطیع بھی ہو تو اس پر حج واجب ہے چاہے باقی اوقات میں دیوانہ رہے اسی طرح دیوانگی ایام حج میں ہوتی ہے تو واجب ہے کہ صحت کی حالت میں نائب مقرر کرے ۔
۳ ۔آزادی :
۴ ۔استطاعت :
اس میں چند چیزیں معتبرہیں ۔
الف)وقت وسیع ہو یعنی مقدس مقامات (مکہ) پر جانے اور واجب اعمال انجام دینے کے لئے وقت کافی ہو لہذا اگر مال یا باقی شرائط ایسے وقت میں حاصل ہوں کہ مکہ جانے اور واجب اعمال بجالانے کے لئے وقت کافی نہ ہو یا وقت تو وسیع لیکن اتنی ز حمتیں ہوں جو عام طور پر برداشت نہیں کی جاتیں تو حج واجب نہیں ہو گا اس صورت میں مال کو اگلے سال تک سنبھالنے کے واجب ہونے سے متعلق حکم مسئلہ ۳۹ میں دیکھیں (ب) جسمانی صحت اور توانائی رکھتا ہولہذا اگر بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے مقامات مقدسہ (مکہ) جانے کی قدرت نہ رکھتا ہو یا سفر کر سکتا ہو مگر وہاں مثلا شدید گرمی کی وجہ اتنی مدت ٹھہر نہ سکتا ہو کہ اعمال حج انجام دے سکے یا وہاں ٹھہرنا اس کے لئے شدید زحمت اور تکلیف کا سبب بنتا ہو تو اس پرخود حج پر جانا واجب نہیں لیکن مسئلہ ۶۳ میں مذکورہ تفصیل کے مطابق نائب بنانا واجب ہو جائے گا
(ج) راستہ خالی ہو یعنی راستہ کھلا اور پر امن ہو لہذا راستے میں کوئی ایسی رکاوٹ یا جان و مال و عزت کا خطرہ نہ ہو جس کی وجہ سے میقات یا دوسرے مقدس مقامات تک پہنچنا ،نا ممکن ہو ورنہ حج واجب نہیں ہو گا یہ جانے کا حکم ہے لیکن واپسی کا مفصل حکم آگے آئے گا واپسی کے خرچے کا تفصیل مسئلہ ( ۲۲) کی طرح احرام باندھنے کے بعد بیماری دشمنی یا کسی اور وجہ سے مکلف کا مقدس مقامات کی زیارت کو نہ جا سکنے سے متعلق مخصوص احکام کا ذکر انشاء اللہ مصدود و محصور کی بحث میں ہو گا
( ۱۳) اگر حج کے لئے دو راستے ہوں دور والا پر امن اور نزدیک والا پر خطر ہو تو اس صورت میں حج ساقط نہیں ہو گا بلکہ پر ا من راستے حج پر جانا واجب ہو گا چاہے وہ راستہ دور والا ہی ہو لیکن اگر دور والے راستے سے جانے کی وجہ سے کئی شہروں سے گزرنا پڑے اور عام تاثر یہ نہ ہو کہ راستہ کھلا اور پر امن ہے تو اس پر حج واجب نہیں ہو گا
( ۱۴) اگر کسی کے پاس اپنے شہر میں مال ہو جو حج پر جانے کی وجہ سے ضائع ہو جاے گا اور اس مال کا ضائع ہونا اس شخص کے لئے بہت زیادہ ضرر، و نقصان کا باعث بنے تو حج پر جانا واجب نہیں ہے
اگر حج کو انجا م دینا حج سے زیادہ اہم واجب یا حج کے مساوی واجب کے چھوٹنے کا سبب بنے (مثلا ڈوبتے ہوئے یا جلتے ہوئے شخص کو بچانا واجب ہے ) توحج کو چھوڑ کر زیادہ اہم واجب کام انجام دے اور اگر حج کی وجہ سے حج کے مساوی واجب کام چھوٹ رہا ہو تو مکلف کو اختیار ہے چاہے حج کرے یا دوسرے واجب کو انجام دے بعینہ یہی حکم ہے کہ جب حج کو انجام دینا ایسے حرام کام کو انجام دینے پر موقوف ہو کہ جس سے بچنا حج سے زیادہ اہم یا حج کے مساوی ہو
( ۱۵) اگر کوئی شخص حج کی وجہ سے کوئی اہم کام چھوٹ جانے یا ایسا حرام کام کہ جس سے بچنا حج سے اہم ہو انجام دے کر حج کرے تو گویا کہ یہ شخص اہم واجب کو چھوڑنے اور حرام کام کو سرانجام دینے سے گنہگار ہو گا مگر ظاہر ہے کہ اس کا حج ،حج الاسلام شمار ہو گا بشرطیکہ باقی تمام شرائط موجود ہوں ۔یہ حکم ان دوشخص میں فرق نہیں رکھتاکہ جس شخص پر حج پہلے سے واجب ہویا جسکی استطاعت کا پہلا سال ہو ۔
( ۱۶) اگر راستے میں کوئی دشمن موجود ہوکہ ہسے ہٹاناپیسے دینے پر موقوف ہو تو اگر پیسے دینے کی وجہ سے زیادہمقصان اٹھانا پڑے تو دشمن کو پیے دینا واجب نہیں ہے اور اس سے حج ساقط ہو جائے گا ۔ورنہ پیسے دینا واجب ہو گا لیکن دشمن کی راضی کرنے اور راستہ کھولنے کے لیے پیسے دینا واجب نہیں ہے ۔
( ۱۷) اگر سفر حج مثلا صرف بحری راستے پ رمنحصر ہوجائے اور عقلاء کے نزدیک اس سفر میں غرق یا مرض لاحق ہونے یا اسی طرح کا کوئی اور مسئلہ یا اسی پریشانی و خوف لاحق ہوناے کا احتمال ہو کہ جسے برداشت کرنا مشکل ہو اور علاج بھی ممکن نہ ہو تو وجوب حج ساقط ہوجائیگا ۔لیکن اگر اسکے باوجود حج کیا جائے تو اظہر یہ ہے کہ حج صحیح ہو گا۔
(د)نفقہ (خرچہ )جسے زادراحلہ بھی کہا جاتاہے رکھتاہو ۔زاد سے مراد ہر وہ چیزجسی کی سفر میں ضرورت ہو مثلا کھانے پینے یا دوسری ضروریات سفر کی چیزیں ،اور راحلہ سے مراد سواری ہے ۔زادراحلہ کے لیے لازم ہے کہ وہ انسان کی حیثیت کے مطابق ہوں ۔یہ ضروری نہیں کہ خود راحلہ رکھتاہو بلکہ کافی کہ اتنی مقدارمیں مال (چاہے نقد رقم ہو یا کسی ور صورت میں )رکھتاہو جس سے زادراحلہ مہیا کرسکے ۔
( ۱۸) سواری کی شرط اس وقت ہے جب اسکی ضرورت ہو لیکن اگر کوئی شخص بغیر زحمت و مشقت پیدل چل سکتاہے اور پیدل چلنا اسکی شان کے خلاف بھی نہ ہو تو پھر سواری کی شرط نہیں ۔
( ۱۹) ضروریات سفر اور سواری کا معیار وہ ہے جو فعلاموجود ہو لہذا کسی پر استطاعت اس جگہ حاصل ہونے میں ہے جہاں انسان مقیم ہے نہ کہ اسکے ابائی شہر میں ،لہذااگر مکلف تجارت یا کسی اور وجہ سے کسی دوسرے شہر جائے اور وہاں ضروریات سفر اور سواری یا اتنی نقدی مہیا ہو کہ حج کر سکے تو واجب ہو جائے گا اگرچہ وہ اپ)نے شہر میں ہو تا تو مستطیع نہ ہو تا۔
( ۲۱) مکلف کی اگر کوئی جائداد ہو جسے صحیح قیمت پر خریدنے والا نہ مل رہا ہو اور حج کرنا اس کو بیچنے پر موقوف ہو تو بیچنا واجب ہے چاہے کم قیمت پر بیچنا پڑے لیکن اگر کم قیمت پر بیچنا زیادہ نقصان کا باعث ہو تو واجب نہیں ہے ۔اگرحج کے اخراجات استطاعت والے سال کی نسبت آئندہ سال زیادہ ہوں مثلااس سال سواری کا کرایہ زیادہ ہو تو حج کو آئندہ سال تک ملتوی کرنا جائز نہیں ہے جیساکہ گزشتہ مسائل میں بیاں ہو چکا ہے کہ حج کو استطاعت کی سال میں ادا کران اواجب ہے ۔
( ۲۲) ہج کے واجب ہونے میں واپسی کا خرچ اسوقت شرط ہے جب حاجی وطن واپس آنے کا ارداہ رکھتاہو ۔لیکن اگر ارادہ نہ ہو اور کسی دوسرے شہر میں رہنے اک ارادہ ہو تو ضروری ہے کہ اس شہرمیں واپسی کا کرچہ رکھتاہو چنانچہ وطن واپسی کا خرج رکھنا ضروری نہیں ہے ۔اسی طرح جس شہر میں جاناچاہتاہے اگر کا خرچ اپنے شہر سے زیادہ ہو تو اس شہر کا خرچ رکھنا ضروری نہیں بلکہ اپنے وطن واپس لوٹنے کا خرچ حجکے واجب ہونے کے لیے کافیہے۔سوائے اسکے کہ (دوسرے )شہر میں رہنے پر مجبور ہو (تو اس دوسرے شہر تک پہنچنے کا خرچ شرط قرار پائے گا)۔
(ہ)رجوع بہ کفایہ ۔
یعنی حج سے واپس آکر اپنے اور اپنے ہل و ایال خرچ کاانتظام اس طرح کر سکتاہو کہ مباداوہ دوسروں کی مددکے محتاج نہ ہوجائیں یا زحمت و مشقت میں نہ پڑ جائیں ۔خلاصہ یہ ہے کہ مکلف کو حج پر جانے کی وجہ سے اپنے یا اپنے اہل وعیال کے فقر وتنگدستی میں مبتلاہونے کا خوف نہ ہو چنانچہ اس شخص پر حج واجب نہیں ہے جو صرف ایام حج میں کماسکتاہواور اگر وہ حج پر چلاجائے تو کسب معاش نہیں کرپائے گاجس کی وجہ سے پورا سال یا بعض ایام میں زندگی کے اخراجاتکو پورانہیں کر سکے گا ۔اسی طرح اس شخص پر بھی حج واجب نہیں ہے جسکے پاس اتنا مال ہو جو حج کی اخراجات کے لیے تو کافی ہو لیکن وہی مال اسکے اور اسکے عیال کے گزارے کا ذریعہ ہو اوروہ اپنی شان ے مطابق کسی اور ذرائعسے مال نہ کم اسکتاہو اس مسئلے سے یہ واضح ہو جاتہے کہ حج کے لیے ضروریات زندگی کی چیزیں بیچنا واجب نہیں ہے ااور نہ ہی جو کیفیت اورکمیت (مقدار)کے لحا ظ سے اسکی حیثیت کے مطابق ہو ں لہذ ااگر رہائشی کھر عمدہ لباس اور گھر کا اثاثہ حیثیت کے مطابق ہوں اور اسی طرح کسب معاش میں کام آنے والے آلات کاریگری یا کتابیں جو اہل علم کے لیے لازمی ہوں تو انکو بیچن اواجب نہیں ہے خلاصہ یہ ہے کہ جو چییں انسان کی زندگی کے لییے ضروری ہوں اور حج کی خاطر ان کے استعمال سے زحمت و مشقت کا سامنا ہو تو ان چیزیوں کی وجہ سے مکلف مستطیع نہیں ہو گا ۔لیکن اگر مذکورہ چیزیں ضرورت سے اتنی زیادہ ہوں جو حج کے خرچ کے لیے کافی ہو یا اگر کافی نہ بھی ہوں لیکن دوسرامال موجود ہو جس کو ملا کر حج کا خرچ پورا کی اجاسکتاہو تو یہ شخص مستطیع شمار ہو گا اور اس پر حج واجب ہوگا چاہے ضرورت سے زیادہ چیزیوں کو بیچ کر حج کے اخراجات پورے کرناپڑیں ۔بلکہ اگرکوئی بڑا گھر رکھتاہو جسے بیچ کراس سے کم قیمت پر ایساگھر مل سکتاہو جسمیں یہ اور اسکے اہل و عیال بغیر زحمت اور تکلیف کے زندگی گزار سکتے ہوں اور زائد قم حج پر جانے اور آنے اور اہل وعیل کے خرچے کے کافی ہو یا اگر جافی نہ ہو لیکن کچھ مال ملا کرکافی ہو تو بڑے گھر کو بیچ کر حج پرجانا واجب ہو گا۔
( ۲۳) اگر ضرورت کی ایسی چیز جسے بیچ کر حج پرجانا واجب نہ ،کی ضرورت کچھ عرصے بعد ختم ہو جائے تو حج واجب ہوجائیگا۔چاہے اسے بیچ کر جانا پڑے ۔مثلا عورت کے پاس زینت کے لیے زیور ہوں جن کی اسے ضرورت جن کی اسے ضرورت ہو اور بعد میں بڑھاپے یا کسی ور وجح سے ضرورت نہ رہے تو اس ضورت میں حج واجب ہے چاہے اسے زیورات بیچ کرجانا پڑے ۔
( ۲۴) اگر سکی کا ذاتی مکان ہو اور اسے رہنے کے لی ایسی جگہ مل جائے جسمیں بغیر تکلیف کے یا کسی ہرج کے زندگی گزارسکتاہو مثلا وقف والی جگہ ہو جسمیں یہ رہ سکتاہو اوراسکے ہاتھ نکل جان کا خوف نہ ہو تو جب گھر کی قیمت حج کے اخراجات کے لیے کافی ہو یا اگر کافی نہ اور دوسرامال موجود ہو جسے ملا کر اخراجات حج پورے کی یجاسکتے ہوں ،تو حج کر نا واجب ہے چاہے اپنے گھر کو بیچنا پڑے یہی حکم کتب علمی میں ہے اور دوسری ضرورت کی چیزیوں کا۔
( ۲۵) اگر کوئی سفر حج کا پوراخرچہ رکھتاہو یا گھر شادی کی ضرورت یا دوسرے وسائل زندگی کی ضرورت یا کو ئی اور ضرورت ہو تواگر حج پر مال خرچ کرن اتکلیف کا سبب بنے تو حج واجب نہیں گا ،ورنہ واجب ہو گا۔
( ۲۶) اگر انسان کااپنا مال کسی کے ذمہ قرض ہو اور تمام اخراجات حج یا بعض اخراجات حج کے لیے اس مال کی ضرورت تو درج ذیل ضورتوں میں اس پر ہج واجب ہو گا ۔
(الف )قرض کی مدت تمام ہو چکی ہو اور مقروض قرض دینے پر امادہ ہو ۔
(ب)قرض کی مدت پوری ہوچکی ہو اور مقروض رقم دینے میں ٹال مٹول کر رہا ہو یا قرض ادا نہ کر رہا ہو اور اسے ادائیگی پر مجبور کرنا ممکن ہو چاہے حکومتی عدالتوں کی طرف رجوع کرنا پڑے ۔
(ج )مقروض انکار کرارہا ہو ار قرض ثابت کرکے وصول کرنا ممکن ہو ی اثابت کرن اممکن نہ ہو مگر اسکا بدل وصول کرناممکن ہو ۔
(د)مقروض قرض کو قبل از وقت ادکردے ۔لیکن اگریہ ادائیگی مقروض کے اس مفروضے پر موقوف ہو کہ قرض کا جلدی اداکرنا خود مقروض کے مفاد میں ہے ۔جیساکہ اکثر ایس اہوتاہے تو ایسی صورت میں قرض خواہ پر حج واجب نہیں ہوگا ۔
درج ذیل صورتوں میں اگر قرض کی مقدارکو اس سے کمتر قیمت پر فروخت کرنا ممکن ہو اور یہ کم ی قرضدار کے لیے بڑے نقصان کا سسب بھی نہ ہو اوراسکے فروخت سے ہاصل ہونے والی رقم حج کے اخراجات کے لیے کافی ہو جاہے کچھ اور مقدار کو ملانے سے ہی کیوں نہ ہو تو اس پر ہج واجب ہے لیکن اگر یہ صورتیں موجود نہ ہوں تو اس پر حج واجب نہیں ۔
(الف )ایس قرض جس کی مدت پوری ہوئی ہو لیکن مقروض اسک ی اڈائیگی کی استطاعتنمہ رکھتا ہو ۔
(ب)ایس قرض جس کی مدت پوری ہو چکی ہو مگر قرض دار ادانہیں کر رہا اور وصولی کے لیے مجبور بھی نہیں کیا جاسکتایا ایسا کرن اقرض خواہ کے لیے مشقت اور تکلیف کا باعث ہو ۔
(ج )ایس رض جسکی مدت پوری ہو چکی ہو اور مقروض اس قرض کا انکا ر کردے اور اسے پورا وصول کرنا یا اس کا عوض حاصل کرن ابھی ممکن نہ ہو یا قرضخواہ کے لیے مشقتاور تکلیفکا سبب بنے ۔
(د)قرضکی مدت پوری نہ ہو اور اسکی ادائیگی کو مقررہ میعاد تک موخر خرنا مقروض کے فایدے میں ہو اور اسوہ اسے میعاد سے پہلے ادابھی نہ کرسکتاہو۔
( ۲۷) پشیہ ور افراد مثلا لوہار ،معمار،بڑھئی وعیرہ جنکی مدنی آپنے اور اپنے گھر والوں کے خرچے کے لیے کا فی ہو تو ان پر حج واجب ہو جائیگا ۔
( ۲۸) جو شخض وجوہات شرعیہ مثلا خمس اورزکواة وغیرہ پر زندگی بسر کرتاہواور عام طور پر اسکے اخرجاتبغیر مشقت کے پوراہونا یقینی ہوں تو اگراسکو اتینی مقدار میں مال مل جائے جو اسکے حج کے خراجاتاور سفر اوراسکے دوران گھروالوں کے خرچے کے لے کافی ہوتب بعید نہیں کہ اس پر حج واجب ہو جائیگا اور اسی طرح اس شخص پر جس کی پوری زندگی کے ا خراجات کا کفیل و ذمہدارکوئی اورشخص ہو یا اس شخص پ ر،جو اپنے پاس موجود مال سے حچج کرے تو حج سے پہلے اور بعد کی زندگی میں کو ئی فرق پید نہیں ہو تو حج واجب ہو جائیگا ۔
( ۲۹) اگر کوئی شخص اتنی مقدار مال کا مالک بنے جو حج کے اخراجات کے لیے کافی ہو مگر اسکی ملکیت متزلزل ہو تو اگر یہ شخص اتنی قدرت رکھتاہے کہ جس سے مال ملا ہے اسکا حق فسخ ختم کردے چاہے اسمال میں منتقل کرنے والے تصرف کی وجہ سے یا یسے تصرف کی وجسے جو مال میں تبدیلی پید اکردے تو ظاہر ہے کہ یہ استطاعت ثابت ہو جائے گی مثلاہبہ اور بخشش میں جوواپس ہونے کے قابل ہوں تو ایسا ہی حکم ہے ۔لیکن اگر حق فسخ ختم نہ کر سکتاہو تو استطاعت مشروط ہوگی کہ وہ شخصجسسے مال ملا ہے فسخ نہ کرے ۔لہذااگر اعمال حج تمام ہونے سے پہلے یا بعد میں مال دینے والے نے فسخ کردیا توپتح چلے گا کہ شروع سے ہی استطاعت نہیں تھی تو ظاہر یہ ہے کہ اس قسم کلی متزلزل ملکیت کی صورت میں حج کے لیے نکلنا واجب نہیں ہے سوائے اسکے کہ انسان کو اطمیں ان ہو نہ کہ احتمال کہ فسخ نہیں کرے گا ۔
( ۳۰) مستطیع کے لیے یہ واجب نہیں ہے کہ وہ اپنی ہی مال سے حج کرے لہذا اگر مال خرچ کیے بغیر یا دوسرے کے مال سے خواہ غصب شہ ہو حج کرے تو کافی ہے ۔لیکن اگر طواف یا نماز طواف میں ستر پوشی کونے والاکپڑاغصبی ہو تو احوط یہ کہ اس پر اکتفا نہکرے اگر قربانی کی رقم غصبی ہو تو حج نہیں ہو گا۔لیکن اگر قربانی ادھار خریدے اور پھر اسکی رقم غصبی مال سے اداکرے تو اس صورت میں حج صحیح ہوگا۔
( ۳۱) کسب وغیرہ کے ذریعے سے اپنے آپ کو حج کے لیے مستطیع بنانا واجب نہیں ہے لہذا اگر کوئی کسی کو مال ہبہ کرتاہے جو سفر حج کے لیے کافی ہو تو مال کا قبول کرن اواجب نہیں ہے اسی طرح اگر کوئی کسی کو خدمت کے لیے جیر بنانا چاہے اور وہ اس اجرت سے مستطیع ہو جائے تو چاہے خدمت کرنا اسکی شان کے خالف بھی نہ ہو پھر بھی قبول کرن اواجب نہیں ہے لیکن اگر کوئی سفر حج کے لیے اجیر ہو اور اسکی اجرت سے وہ مستطیع ہوجائے تو اس پر حج واجب ہوگا۔
( ۳۲) اگر کوئی نیابتی حج کے لیے جیر بنے اور اجرت کی وجہ سے خود بھی مستطیع ہو جائے تو اگر حج نیابتی کو اسی سال انجام دینے کے شرط ہو تو پہلے حج نیابتی انجام دے اور اگلے سال تک اسکی استطاعت باقی رہے تو اس پر حج واجب ہو گا ورنہ نہیں ۔اگر حج نیابتی اسی سال انجام دینے کی شرط نہ ہو تو پہلے اپنا حج انجام دے ۔سوائے اس صورت کے کہ اطمیں ان ہوکہ آئندہ سال وہ اپنا حج انجام دے سکے گا (تو اپنا ہج پہلے بجالاناواجب ہے )۔
( ۳۳) اگر کوئی شخص اتنی مقدار قرض لے جو حج کے اخراجات کے لیے کافی ہو تو اسپر حج واجب نہیں ہے چاہے بعد میں قرض اداکرنے پر قادر ہو ۔لیکن اگر قرض اد کرنے کی مہلت اتنی زیادہ ہو کہ عقلا اس لمبی مدت کی وجہ سے قرض کو قابل اعتبار نہسمجھتے ہوں تو حج واجب ہو جائے گا۔
( ۳۴) اگرکسی کے پاس اتن امال ہو جو حج کے خراجات کے لیے کافی ہو اور اس مال کے برابر قرض بھی بھی ہو یا قرض اداکرنے پر وہ مال حج کے اخراجات کے لیے کافی نہ رہے تو اظہر یہ ہے کہ اسپر حج واجب نہیں ہے ۔اس سے فرق نہیں پڑتا کہ قرض کا وقت پور ہو چکا ہو یا ابھی مدت پوری نہ ہوئے ہو سوائی اسکے کہ قرض اد کرنیکی مہلت زیادہ ہو مثلا ۵۰ سال کہ عقلااسے قابل اعتبار نہیں سمجھتے ہوں ۔اسی فرق نہیں پڑتا کہ قرض پہلے ہواور مال بعد میں حاصل ہو یا مال پہلے ہو اور قرض بعدمیں حاصل ہو مگر یہ کہ مقروضنہونیمیں اس سے کوہتائی نہ ہوئی ہو ۔
( ۳۵) اگر کسی شخص پ رخمس یا زکواة واجب ہو اوراسکے پاس اتنی مقدار میں مال ہے کہ اگر خمس یا زکواة ادکردے تو حج کے ا خراجات کے لیے کافی نہ رہے تو اس پر خمس یا زکوای اد کرنا واجب ہو گا ۔اور حج واجب نہیں ہو گا۔س ساے فقر نہیں پ)ڑتا کہ خمس وزکواة اسی مال پر واجب ہو یا اس سے پہلے پر واجب تھا اور مال اب ملاہو۔
( ۳۶) اگرکسی پرحج واجب ہو اور اس خمس و زکواة یا اور کوئی واجب حق ہو تو صروری ہے کہ اسے ادا کرے چونکہ سفر حج کی وجہ سے انکی ادائیگی میں تاخیرنہیں کرسکتا۔اگر طواف یا نماز طواف میں ساتر یا قربانی کی قمیت میں پر خمس واجب ہو تو اسک احکم وہی ہے جو غصبی مال کا ہکم ہے جو مسئلہ نمبر ۳۰ میں بیان ہو چکا ہے ۔
( ۳۷) گرکسی کے پاس کوئی مال موجودہو اوراسے معلوم نہ کہ یہ مال حج کے کراجات کے لیے کافی ہے یا نہیں تو احیتاط واجب کی بنا پر تحقیق کرنا واجب ہے ۔
( ۳۸) اگر کسی کے پاس اس کی دسترس سے باہر اتنا مال ہو جو حج کے خراجات کے لیے کافی ہو یا دوسر مال ملاکر جو اسکے پاس موجودہواگر اسمال میں تصرف کرنی یا کسی کو وکیل بناکر بیچنے پر قادر نہہو تو اس پر ہج وجاب نہیں ہے ورنہ واجب ہے ۔
( ۳۹) اگر کوئی سفر حج کا خرچہ رکھتاہو اور حج خی زمانے میں حج پر جانے پر قادر ہو تو اس پر حج واجب ہوجائیگا ۔اگر یہ اس مال میں اتنا تصرف کرے جسکی وجح سی اسکی استطاعت ختم ہو جائے اوریہ کہ اسکا جبران وتدارک بھی نہ کر سکتاہو اور اسکے لیے واضح جو کہ حج کے زمانے من حج پر جانے پر قادر تھ اتو اظہر یہ ہی کہ حج اس کے ذمہ ثابت ہوجائیگا لیکن افر اسکے لیے واضح نہ ہو کہ زمانہ ہج میں حج پر جانے پر قادر تھا تو اظہر یہ ہے کہ حج اسکے ذمہ ثابت نہیں ہوگا ۔
پہلی صورت میں جب مال میں سے اتنا خرچ کردے جسمے وجہ سے استطاعت ختم ہوجائے جیسے مال کو کم قمیمت پر بیچ د ے یا تحفہ کردے تو یہ تصرف صحیح ہو گا لیکن اگر زحمت و مشقت سے بھی حج پر جانے پر قادر نہ ہو تو گنہگار ہو گا۔
( ۴۰) ظاہر یہ ہے خراجات سفر اور سواری کا اس کی اپنی ملکیت میں ہوناشرط نہیں ہے لہذا اگر اسکے پاس ایسامال ہو جسے خرچ کرنے کی اسے اجازت ہو اور یہ نال حج کے اخراجات کے لیے کافی ہو ارو دوسری شرائط بھی موموجود ہوں تو حج واجب ہوجائے کی لیکن ہج پر جانااس وقت واجب ہوگاجب مال کو استعمال کرنے کی اجازت شرعاواپس نہ لے لی جاسکتی ہو یا اطمیں ان ہو کہ جازت واپس نہیں لیگا ۔
( ۴۱) جس طرح حج کے ہونیمیں اخراجات سفر اور جاتے واقتسواری ک اہو انا شرط ہے اسی طرح اعمال حج کے پوار ہونے تک ان کاباقی رہنا بھی شرط ہیں لہذااگر حج پرجانے سے پہلے یا سفر کے دوران مال ضالئع ہو جائے تو حج واجب نہیں ہو گا او مال کے ضائع ہونے سے پتہ چلتاہے کہ یہ شخصشروع سے ہی مستطیع نہیں تھا۔اسی طرح اگر کوئی مجبورا کوئی قرضہ اسکے ذمہ آجائے مثلاغلطی سے کسی کا مال تلف ہوجائے اور یہ اس مال کاضامن ہو ۔چنانچہ اسے یہ مال دینا پڑے تو اسپر حج واجب نہیں ہو گا لیکن اگر جان بوجھ کر کسی کا مال تلف کردے تو حج ساقط نہیں ہو گا بلکہ حج اسکے ذمے باقی رہے گا ۔لہذ اس پر حج واجب ہو گا چاہے اسے زحمتو مشقت ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑے اور اگر اعمال حج انجام کرنی کے بعد یا دوران میں واپسی کا خرچہ تلف ہوجائے تو اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ شخصشروع سے ہی مستطیع نہے تھ ابلکہ اسکا یہ ہج کافی ہو گا اور بعد میں اس پرحج واجب نہیں ہوگا۔
( ۴۲) اگر کسی کے پاس حج کا کرچہ تھا لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ حج کے لیے کافی ہے یا اس سے غافل تھا یا وجوب حج کو نہیں جانتاتھا یا وجوب حج سے غافل تھاپھر مال کے ضائع ہونے اور استطاعت کے ختم ہونے کے بعداسکو پتہ چلا ی ایاد آیا تو اگر اپنے نہ جاننے اور غفلت میں معذور تھا یعنی اسمیں اسکی کوہتائی نہیں تھی تو حج اسکے ذمہ ثابت نہیں ہو گاورنہ طاہر یہ ہے کہ اگر باقی تما مشرائط پائی جاتی تھیں تو اس پر حج ثابت اور واجب ہو جائے گا ۔
( ۴۳) جس طرح اخراجات اور سواری کے موجود ہونے سے استطاعت پید اہو جاتی ہے اسی طرح اگر کوئی اخراجات سفر اور سواری یااسکی قیمت بخشش کرے تو اسسے بھی استطاعت پید ا ہواجائے گی افر اس سے فرق نہیں پڑتا کہ دینے والاایک شخص ہو یا کئی شخص ہوں لہذا اگر کوئی یہ پیشکش کرے کہ وہ حج کے لیے کراجات سفر سواری اور کھر والوں کا خرجہ فراہم کرئا ارواسکے قول پر اطمیں ان ہو تو حج واجب ہوجائے گا ۔اسی طرح اگر کوئی مال دے کتاکہ اسے حج میں خرچ کیا جائے اور وہ مال حج پرآنے ا ور جانے اور گھروالوں کے خرچے کے لیے کافی ہو تو ہج واجب ہو جائے گا ۔جاہی جو مال دیاجارہا ہے اسکا مالک بنا دے یا صرف اسکو استعمال کرنے کی اجازت دے ۔لیکن متزلزل ملکیت (یعنی جو شرعا واپس لی جا سکتی ہو )استعمال کرنے کی اجاز ت کا حکم مسئلہ نمبر ۲۹ اور ۳۰ میں بیان ہو چکا ہے ۔اگر حج کے اخراجات کی ایک مقدار موجود ہو اور باقی مقدار کوئی بخش دے تو حج واجب ہو جائے لیکن اگر صرف جانے کے اخراجات دے اور واپسی کے اخراجات نہ ہوں تو مسئلہ نمبر ۲۲ میں موجود تفصیل کے مطابق حج واجب نہیں ہو گا ۔اسی طرح اگر اہل و عیال کا خرچہ نہ دیاجائے تو اس پر حج واجب نہیں ہو گا سوائے اسکے کہ انکا کرجہ خود رکھتاہو ۔یا حج پرنہ جانے کے باوجو د ان کے اخراجات برداشت نہ کرسکتاہویا بغیر اخرجات کے گھروالوں کو چھوڑنے کی وجہ سے حرج و مشقت میں نہ پڑتاہو اور گھروالوں کا نفقہ اس پر واجب نہ ہو ۔
( ۴۴) اگر مرنے والا کسی دووسرے کے لئے مال کی وصیّت کرے تاکہ وہ اس سے حج انجام دے اور مال اس کے حج اور اہل وعیال کے اخراجات کے لئے کافی ہو تو مسئلہ ۴۳ میں موجود تفصیل کے مطابق وصیت کرنے والے کے مرنے کے بعد حج اس پر واجب ہو جائے گا اسی طرح اگر مال کو حج کے لئے وقف یا نذر کیا جائے یا وصیت کیجائے
او ر واقف کا متولّی یا نذر کرنے والا یاوصی یہ مال کسی کوبخش دے تو اس پر حج واجب ہو جائے گا
( ۴۵) رجوع بہ کفایت جس کے معنی شرط پنجم میں بیان ہوچکے ہیں ، بخشش سے پیدا ہونے والی استطاعت میں شرط نہیں ہے لیکن اگر اس کی آمدنی صرف ایام حج میں ہو اور وہ اس آمدنی سے پورے سال کے اخراجات کو پورا کرتا ہو اوراگر وہ حج کرنے جائے توپورا یا کچھ ایام کے اخراجات کو پورا کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہوتو اس پر حج واجب نہیں ہو گا سوائے اس کے کہ اس کواس وقت کا خرچ بھی دے دیا جائے اگر کسی کے پاس کچھ مال پہلے سے موجود ہو جو حج کے اخراجات کے لئے کافی نہ ہواور باقی مقدار کوئی اسے بخشش دے تو اظہر یہ ہے کہ حج کے واجب ہونے میں رجوع بہ کفایت معتبر ہوگا
( ۴۶) اگرایک شحص کسی کو مال دیدے کہ وہ اس سے حج انجام دے تو اس کو قبول کرنا واجب ہے لیکن اگر مال دینے والا حج کرنے یا نہ کرنے کا اختیار دے یا مال دے او رحج کا ذکر نہ کرے تو ان د ونوں صورتوں میں مال کوقبول کرنا واجب نہیں ہے
( ۴۷) بخشش سے پیدا ہونے والی استطاعت میں قرض مانع نہیں ہوتا(یعنی قرض کے باوجود انسان بخشش کی وجہ سے مستطیع ہو سکتا ہے) لیکن اگرحج پر جانے سے قرض وقت پر ادا نہ کیا جا سکتا ہوتو چاہے قرض کی مدت تمام ہوچکی ہو یا ابھی باقی ہو حج پر جانا واجب نہیں ہے
( ۴۸) اگر مال کچھ افراد کو دیا جائے کہ ان میں سے کوئی ایک حج کر لے تو جو پہلے قبول کر لے صرف اس پر حج واجب ہو گا دوسرے افراد پرواجب نہیں ہوگا اور اگر کوئی بھی قبول نہ کرے اگرچہ قدرت رکھتے ہوں تو ظہر یہ ہے کہ حج کسی پر بھی واجب نہیں ہو گا
( ۴۹) جس شخص کو مال دیا جارہا ہے اس پر حج اس صورت میں واجب ہو گا کہ اتنی مقدارمیں مال دیا جائے کہ اس کے مستطیع ہونے کی صورت میں جو حج کا پہلا فریضہ بنتا ہواسے انجام دے سکے ورنہ واجب نہیں ہو گا مثلااگر کسی کا فریضہ حج تمتع ہو اور اسے حج افراد یا قران کے لئے مال دیا جائے یا اسی طرح کی کوئی بھی صور ت ہو تو اس پر قبولکرنا واجب نہیں ہے اسی طرح جوشخص حج اسلام انجام دے چکا ہو اس پر بھی قبول کرناواجب نہیں ہے لیکن اگر کسی کے ذمہ حج اسلام باقی اور وہ تنگدست ہو چکا ہو اور اس کومال دیا جائیتو اگر قبول کیے بغیر حج انجام نہ دے سکتا ہوتو قبول کرنا واجب ہے اسی طرح وہ شخص جس پر نذر وغیرہ کی وجہ سے حج واجب ہو اور مال کو قبول کیے بغیر حج انجام دینے پر قادر نہ ہوتو اس پر بھی قبول کرنا واجب ہے
( ۵۰) اگر کسی کو حج کے لئے مال دیا جائے او روہ مال سفر کے دوران ضائع ہو جائے تو وجوب حج ساقط ہوجائے گا لیکن اگر سفر کو اپنے مال سے جاری رکھنے پر قادر ہو یعنی اس جگہ سے حج کی استطاعت رکھتا ہو تو حج واجب ہو جائے گا اور یہ حج حج الاسلام شمار ہو گا مگر وجوب کے لئے شرط ہے کہ واپسی پر اپنے اوراپنے گھر والوں کے اخراجات کوپورا کرسکے
( ۵۱) اگر ایک شخص دوسرے سے کہے کہ میرے نام پر قرض لے کا اپنا حج انجام دو اور بعد میں قرض کو ادا کر دینا تو دوسرے شخص پر قرض لینا واجب نہیں ہے لیکن اگر پہل اشخص قراض لے کر دے تو پھر اس پر واجب ہو جائے گا ۔
( ۵۲) ظاہر یہ ہے کہ قربانی کی قیمت مال بشخسنے والے کے ذمے ہے لہذا مال بخشنے والا قربانی کے قیت کے علاوہ باقی اخراجات حج دے تو مال لینے والے ر حج واجب ہونے ۴ یں اسکال ہے ساویے اسکے کہ قربانی کو اپنے مال سے خریدنے پر قادرہواورقربانی پر خرچ کرنی سے اسے تکلیف وتنگدستی کا سامنا نہ ہوتو حج واجب ہو جائے ورنہ قبول کرنا واجب نہیں۔ ہے ۔لیکن ظاہر یہ ہی کہ کفارات مال دینے والے لنے والے پر واجب ہیں ۔
( ۵۳) حج بدل(وہ حج جو کسی کے مال دینے کی وجہ سے واجب ہوجائے )حج الاسلام کے لیے کافی ہے لہذابعد میں اگر مستطیع ہوبھی جائے تو دوسری مرتبہ حج واجب نہیں ہوگا ۔
( ۵۴) مال بخشنے والے کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنا مال واپس لے لے چاہے دینے والے نے احرام باندھاہو یا نہ باندھا ہو لیکن اگر احرام باندھنے کے بعد واپس لے تو اظہر یہ ہے کہ اگر مال لینے والے کے لیے تکلیف و تنگدستی کا باعث نہ ہو تو چاہے مستطیع نہ بھی ہو تو حج کو پور کرے اور حج مکمل کرنے کے ور واپسآنے کے تمام کرجات مال بخشنے والے ذمہ ہونگے لیکن اگر مال بخشنے والاراستے میں مال واپس لے تو صرف واپسی کا خرچ مال بخشنے والے کے ذمہ ہوگا۔
( ۵۵) اگر کسی کو زکواة فی سبیل اللہ کے حصہ سے دی جائے ہ وہ اسے حج پر خرچ کرے اور اسمیں مصلحت عامہ بھی ہو اور حوط کی بنا پر ۔حاکم شرع بھی اجازت بھی دے دے تو اس پر حج واجب ہو جائیگا ۔اور اگر سہم سادات سے یا زکواة کے سہم فقراء سے کسی کو مال دیا جائے اور شرط رکھی جائے کہ سے حج پر خرچ کرے گا تو یہ شرط صحیح نہیں ہے اور اس سے استطاعتبذلی حاصل نہیں ہوتی ۔
( ۵۶) اگر کوئی بخشش شدہ ما ل سے حج کرے اور بعد میں پتہ چلے کہ وہ مال تو غصبی تھا تو یہ حج حج اسلام شمار نہیں ہو گی اور مال بخشنے والے سے اپنے مال کا مطالبہ کرے لہذا اگر مال دینے والامال لینے والے سے اپنا مال حاصل کر لیتاہے تو اگر مال لینے والے کو اس مال کے غصبی ہونے کا علم پہلے سے نہ ہو تو وہ بخششے کرنے والے سے مطالبہ کرنے کا حق رکھتاہے بصورت دیگر مطالبے کا حق نہیں رکھتا۔
( ۵۷) اگر کوئی مستطیع نہ ہو مگر پھر بھی مستحب حج اپنے لیے یا کسی اور کے لیے اجرت پر یا بغیر اجرت کے انجام دے تو اسکا یہ حج حج السلام شمار نہ ہو گا لہذا اسکے بعدجب بھی مستطیع ہو حج انجام دیناواجب ہے ۔
( ۵۸) اگرکسی کو یقین ہو کہ میں مستطیع نہیں ہوں اور مستحب کے عنوان سے حج کرے مگر نیت یہ ہو کہ اس وقت جو میری ذمہ داری ہے اسے انجام دے رہا ہوں پھر بعد میں معلوم ہو کہ میں مستطیع تھاتو وہ حج حج الاسلام کے لیے کافی ہے ۔اور دوبارہ حج کرنا واجب نہیں ہے ۔
( ۵۹) اگر زوجہ مستطیع ہوتوحج کرنے کے لیے شوہر کی اجازت ضروری نہیں اور نہ ہی شوہر کے لیے جائز ہے کہ وہ حج الاسلام کے لیے یا کسی اور واجب کے لیے لیکن اگرحج کا وقت وسیع ہو تو بیوی کو پہلے قافلے سے روک سکتا ہے ۔طالق رجعی والی عورت جب تک عدت میں ہے بیوی کا حکم ہے ۔
( ۶۰) جب عورت مستطیع ہو جائے اور سکی جان کو کطرہ نہ ہو تو محرم کا ساتھ ہونا شرط ہیں ہے اگر جان کا خطرہ ہو تو ضروری ہے کہ کوئی ایسا شخص ساتھ ہو جسکی وجہ سے اسکی جان محفوظ ہو چاہے اس شخص کو اجرت دینا پڑے اور لبتہ اجرت دینے پر قادر ہو ورنہ اس پر حج واجب نہیں ہے ۔
( ۶۱) اگر کوئی شخص نذر کرے مثلا ہرسال عرفہ کے دن کربلامیں حضرت امام حسین کی زیارت کرے گااور بعد میں مستطیع ہوجائے تو اس پر حج واجب ہو جائے گااور نذر ختم ہوجائے گی اور یہی حکم ہر اس نذرک اہے جو حج سے متصادم ہو رہی ہو ۔
( ۶۲) اگر مستطیع شخص خودحج کرنے پر قادر ہو تو اسے خود ہج کرنا ہو گالہذا اگر کوئی دوسرا شخصاجرت پر یا بغیر اجرت کے اسکی طرف سے حج کرے تو کافی نہیں ہے ۔
( ۶۳) اگر کسی پر حج واجب ہو جائے مگر بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے خود انجام دینے پر ادر نہ ہو یا تکلیف کا باعث ہ وار آئندہ بغیر تکلیف کے حج ادا کرنے کی امید بھی نہ ہو تو حج کے لیے کسی کونائب بناناواجب ہے اسی طرح جو شخص ضرورت مند ہو مگر اعمال حک خود انجام دینے پر قادر نہ ہو ی اخود انجام دینا حرج و تکلیف کا سبب ہو تو وہ شخص بھی کسی کو نائب بنائے جسطرح حج کوفورا انجام دینا واجب ہے اسی طرح نائب بنانا بھی واجب فوری ہے ۔
( ۶۴) اگر مستطیع شخص (کسی عذر کی وجہ سے )خود حج انجام دینے پر قادر نہ ہو اور نائب اسکی جانب سے حج کرے اور وہ مستطیع شخص مرجائے جب کہ اس کا عذر باقی ہو تو نائب کا حج کافی ہو گا ۔اگرچہ حج اسکے ذمہ مستقر ہی کیوں نہ ہو ۔لةکن اگر مرنے سے پہلے عذر ختم ہوجائے تو احوط یہ ہے کہ اگر خودحج کرسکتاہے ہو توخودکرے ۔اگر نائب کے احرام باندھنے کے بعد اسک اعذر ختم ہوجائے تو خود اس پر حج کرنا واجب ہے ۔اگرچہ احوط یہ ہے کہ نائب بھی اعمال حج پورے کرے ۔
( ۶۵) اگر کوئی خود حج انجام نہ دے سکتا ہواور نائب بنانے پر بھی قادر نہ ہو تو حج ساقط ہوجائیگا ۔لیکن اگر حج اسکی ذمہ واجب ہو چکا تھا تو اسکے مرنے کے بعد حج کی قضا کرانا واجب ہے ۔ورنہ قضاء واجب نہیں ہے ۔اگر نائب بنایا ممکن تھا لیکن نائب نہ بنائے اور مر جائے تو اسکی طرف سے قضاء کراناواجب ہے ۔
( ۶۶) اگر نائب بنانا واجب ہو اور نائب نہ بنائے لیکن شخص بلامعاوضہ اسکی جانب سے حج انجام دے تو یہ حج کافی نہیں ہو گااور احتیاط کی بناپر نائب بنانا واجب رہے گا ۔
( ۶۷) اگر نائب بنانے کی بابت واضح ہو کہ میقات سے نائب بنانا کافی ہے اوراپنے سہر س ینائب بنایا ضروری نہیں ہے۔
( ۶۸) جس شخص کے ذمہ حج واجب ہو ار وہ حج کے ہرام کے بعد حرم میں مر جائے تویہ حج الاسلام سے کفایت کریگاجاہے اسکاحج تمتع ہو،قران ہ ویاافراداوراگرعمرئہ تمتع کے درمیاں مرجائے تب بھی حج کے لیے کافی ہے اور اسی قضا واجب نہیں ہے اور اگر سے پہلے مرجائے تو قضاکرانا واجب ہے چاہے احرام کے بعد حرم میں داخل ہونے سے پہلے مر ے یا حرج میں داخل ہونے کے بعدبغیر احرام کے اورظاہر یہ کہ حکم حج الاسلام کے لیے مخصوص ہے اور وہ حج جونذر یا افساد (کسی کے حج ے باطل ہونے )کی وجہ سے واجب ہو ئے ہوں ان پر یہ حکم جاری نہیں ہو گابلکہ عمرہ مفردہ میں بھی یہ حکم جاری نہیں ہوتا۔اس بناپر ان میں سے کسی ایک پر بھی کافی ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔اگرکوئی احرام کے بعد مرجائے اور حج اسکے ذمہ گذشتہ سالوں سے واجب نہ تو وہ حرم میں داخل ہونے کے بعد مرجائے تو اسکا حج ،حج الاسلام شمار ہوگا لیکن اگر حرم میں داخل ہونے سے پہلے مرجائے تو ظاہر یہ ہے کہ اسکی طرف سے قضاواجب نہیں ہے ۔
( ۶۹) مستطیع کافر پر حج واجب ہے لیکن جب تک کافرہے اسکا حج صحیح نہیں ہو گااگر استطاعت ختم ہونے کے بعدمسلمان ہو تو حج اس پر واجب نہیں ہے ۔
( ۷۰) مرتد (جو اسلام سے پھر جائے )پر حج واجب ہے لیکن اگر ارتدادکی حالت میں حج کرے تو یہ حج صحیح نہیں ہے لیکن توبہ کرنے کے بعد حج کرے تو صحیح ہے اور اقوی یہ ہی کہ مندرجہ بالاحکم مرتد فطری کے لیے بھی ہے ۔
( ۷۱) اگر کوئی غیر شیعہ مسلمان حج کرے اور بعد میں شعیہ ہوجائے تو دوبارہ حج کرناواجب نہیں ہے لیکن یہ حکم اس صورت میں ہی خہ اپنے مذہب کے مطابق صحیح حج کیا ہو۔اسی طرح اگر اسے نے مذہب شیعہ کے مطابق حج ادا کیا ہو اور قصد قربت حاصل ہوگئی ہو تو حج صحیح ہو گا ۔
( ۷۲) جب کسی پر حج واج ہو اور وہ اسے انجان دینے میں سستی اور تاخیر سے کام لے یہاں تک کہ اس کی استطاعت ختم ہو جائے توجس سے بھی ممکن ہو حج کو اداکناواجب ہے اہے مشقت و زحمت برداشت کرنا پڑے ۔اگر حج سے پہَے مرجاےْ تو اواجب ہے کہ اسکی ترکہ سے ہج کی قضا کریں اور اگر کوئی اسکی مرنے کے بعدبغیر اجرت کے اسی رف سے حج اناجم دے تو بھی صحیح ہوگا ۔