نیابت کے ا حکام
( ۱۰۳) حج کے لیے نائب میں چند شرائط کا ہونا معتبر ہے ۔
( ۱) بلوغ۔نابالغ بچے کا کسی دوسرے کیلیے حج الاسلام یا کوئی دوسر ا واجب حج کران کافی نہیں ہے ۔بلکہ بنابر احوط ممیز بچہ (یعنی ا چھے برے ی تمیز رکھنے والا)کا بھی یہی حکم ہے ۔لیکن مستحبی حج میں بعید نہیں کہ ولی کی اجازت سے ممیز بچہ کا نائب بننا صحیح ہو ۔
( ۲) عقل۔دیوانے شخص کو نائب بناناکافی نہیں ہے چاہے دیوانگی مستقل ہو یا کھبی کبھی اسکا دورہ پڑتاہے او وہ دورے کی حالت میں حج کرے البتہ سفیہ کونائب بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
( ۳) ایمان۔آئیمہ کی امامت کے منکر غیر مومن کو نائب بناناکافی نہیں ہے اور اگر وہ ہمارے مذہب کے مطابق حج کرے تب بھی نبابر احوط کافی نہیں ہے ۔
( ۴) فارغ الذمہ۔ یعنی نائب جانتاہوکہ جس سال اس نے نیابت کاحج اناجام دینا ہے س سال اسکے ذمہ کوئی اور واجب حج نہیں ہے ۔یا اس سے غافل نہیں ہے لیکن اگر وجوب کو نہ جانتاہو یااس سے غافل ہو تو ایسے شخص کو نائب بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ یہ شرط اجارہ کے صحیح ہونیکی شرط ہے نہ کہ نائب کا حج صحیح ہونیکی ۔
لہذا اس صورت میں جب کہ نائب پر حج واجب ہو اور وہ کسی کی طرف سے حج کرے تو جس کا حج کرے گا وہ بری الذمہ ہوجائے گا لیکن نائب طے شدہ اجرت کای بجائے معمول کے مطابق اجر ت کا مستحق ہو گا۔
( ۱۰۴) نائب میں عدالت کی بجائے حج انجام دینی کے بارے میں منوب عنہ (جسکی نیابت میں حج کر رہاہے )کا مطمئن ہونا معتبر ہے ناقابل اطمئنان نائب کا حج انجام دینے کے بارے میں خبر کوکافی سمجھنے میں اشکال ہے ۔
( ۱۰۵) منوب عنہ (جس کی طرف سے حج کر رہاہے )کا بری الذمہ ہونے کیلیے نائب کا صحیح طرحسے حج کرنا معتبر ہے لہذ انائب کیلیے ضروی ہے کہ وہ اعمال و حکاو حج کو صحیح طرح سے جانتاہو ہاہے کسی دوسرے شخص کی راہنمائی سے اعمال حج کی ادائیگی کے وقت ہی جان لے جب شک ہو کہ نائب اعمال حج کو صحیح طرح سے بجالا یاہے یا نہیں چاہے یہ شک اس وجہ سے ہو کہ خود نائب کا اعمال حج کو صحیح طرح سے جاننامشکوک ہو توبعید نہیں کہ حج کو صحیح سجھا جائے ۔
( ۱۰۶) ممیز بچے کی نیابت کی جاسکتی ہے جس طرح دیوانہ شخص کی ،بلکہ دیوانہ شخص کو اگر دیوانگی کا دورہ کھبی کھبی پڑتاہو اور لمعلوم ہو کہ ہمشیہ ایام حج میں دیوانگی کا دورہ پڑتاہے تو صحت کی حالت میں نائب بناناواجب ہے ۔اسی طرح اس صورت میں بھی بنانا واجب ہو گا جب صحتمندی کی حالت میں حج اس پر واجب ہو چکا ہو چاہے مرتے وقت دیوانگی کی حالت میں ہو ۔
( ۱۰۷) نائب اور منوب عنہ کا ایک جنس ضوری نہیں ہے ۔لہذا عورت کی طرف سے مرد اور مرد کی طرف سے عورت کا نائب بنناصحیح ہے ۔
( ۱۰۸) صرورہ(جو پہلی مرتبہ حج کر رہاہو)غیر صرورہ اور صرورہ دونوں کی طرف سے نائب بن سکتاہے چاہے نائب یامنوب عنہ مرد ہو یا عورت کہا گیا ہے کہ صرورہ ک ونائب بنا نا مکروہ ہے لیکن یہ کراہت ثابت نہیں ہے بلکہ ایسے شخص کے لیے جو مالی استعاعت کے باوجود خود حج نہ کرستاہو بعید نہیں ہے کہ صرورہ کو نائب بنانااولی اور بہتر ہو ،جیساکہ وہ شخص جس پر حج واجب اور ثابت ہو چکا ہو او مرجائے تو اولی اور بہت یہ ہے کہ صرورہ کو اسکی طرف سے نائب بنایاجائے ۔
( ۱۰۹) منوب عنہ کا مسلامن ہونا شرط ہے لہذا کافر کی طرف سے نیابت صحیح نہیں ہے اگر کافر ہالت استطاعت میں مرجائے اور سکے وارث مسلمان ہوں تو ان پر واجب نہیں ہے کہ اس کی طرفسے حج کرائیں ۔اسی طرح اگر ناصبی ہوتو اسکی نیابت بھی جائز نہیں ہے سوائے اسکے کہ وہ ناصبی ،باپ ہو ،باپ کے علاوہ باقی رشتہ داروں کی جانب سے نائب بنانے میں اشکال ہے ۔لیکن حج انجام دے کر اسکاثواب ان کو ہدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
( ۱۱۰) زندہ شخص کی مستحبی حج میں نیابت کی جاسکتی ہے چاہے اجرت لے کر ہو یا بغیر اجرت کے ۔اسی طرح اگر واجب حج ہو اور خود انجام سینے سے معذور ہو تو جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے نائب بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اسکے علاوہ زندہ شخص کی نیابت جائز نہیں ہے مردہ شخص کی طرف سے ہرحالت میں نیابت جائز ہے چاہے اجرت لے کر ہو یا بغیر اجرت کے چاہے واجب حج ہو یا مستحب ۔
( ۱۱۱) نیابت کے صحیح ہونے میں نیابت کا قصد ضروری ہے یعنی منوب عنہ کو کسی بھی طرح سے مشخص و معین کرے البتہ نام لے کر معین کرن اضروری نہیں ہے تاہم تمام مواطن و موافق میں ایسا کرنا مستحب ہے
( ۱۱۲) جس طرح کسی کا نیابتی حج اجرت لے کر یامفت انجام دینا صحیح ہے اسی طرح جعالہ یا کسی عقد و معاملہ میں شرط کرنے یا کسی اور طرح سے بھی نیابت صحیح ہے ۔
( ۱۱۳) ظاہر ہے کہ نائب کی شخصیت اسی شخص کی طرح ہے جو خود اپناحج کر رہاہو مگر بعض اعمال حج کو بالکلیا مقررہ طریقے سے صیح طور پر انجام نہ دے سکتاہو ۔لہذانائب کا حج بعض موقعوں پر صحیح ہوگا اورمنوب عنہ بری الذمہ ہو گا جبکہ دوسرے موارد میں باطل ہو گا۔ لہذا اگر عرفات میں وقوف اختیاری سے عاجز ہو اور وقوف اضطراری انجام دے تو اسکا حج صحیح ہو گا اور منوب عنہ بری الذمہ ہو جائے گا ۔ لیکن اگر دونوں وقوف سے عاجز ہو تو اسکا حج باطل ہے اور ایسے شخص ک ونائب بنانا جسکے بارے میں پہلے سے معلوم ہو کہ یہ عمل اختیاری انجام نہ دے سکے گاحتیاط کی بنا پر جائز نہیں ہے ۔یہاں تک کہ بلامعاوضہ بھی اگر کسی کی طرف سے حج کرے تو اسکے عمل پر اکتفا کرنامشکل ہے ۔البتہ ایسے شخص کو نائب بنانے میں کوئی حرج نہیں جس کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ محرمات احرام مثلاسائے میں رہنایا کوئی ور ہرام کام میں سے کسی اور کا مرتکب ہو گا چاہے عذر کی وجہ سے یا بغیر کسی عذر کے اسی طرح اس شخص کو بھی نائب بنانے میں کوئی حرج نہیں جس کے نارے میں معلوم ہو کہ ایسے واجبات حج کو چھوڑ دے گا جن کی وجہ سے حج کی صحت پر ضرر نہیں پہنچتا،چاہے انہیں جان بوجھ کر چھوڑاجائے مثلا طواف النساء یا گیاریہوں اور بارہوں شب کو منی میں رہنا۔
( ۱۱۴) اگر نائب احرام باندھنے سے پہلے مرجائے تو منوب عنہ بری الذمہ نہی ہو گا ۔لہذا اگر نائب بنانا ضروری ہے تو کسی اور شخص کو نائب بنایا جائے ۔لیکن احرام باندھنے اور حرم میں جانے کے بعد مرا ہو تو حوط یہ ہے کہ منوب عنہ بری الذمہ ہو جائے گا اور اس حکم میں حج الاسلام اور دوسرے حج برابر ہیں لیکن یہ حکم اس وقت ہے جب نائب اجرت لے کر حج پر گیاہواور اگر اجرت کے بغیر حج کر رہاہو تو پھر منوب عنہ کا بری الذمہ ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے ۔
( ۱۱۵) اگر اجیر احرام باندھنے اور حرم میں داخل ہونے کے بعدمرجائے جبکہ میت کو بری الذمہ کرنے کے لیے نائب بنایاہو تو یہ اجیر پوری اجرت کا مستحق ہوگا لیکن اگر اسے اعمال حج انجام دینے کے لیے نائب و اجیر بنایاہو او اجارہ میں ایک سے زیادہ چیزوں کو مدنظر رکھاگیاہو ۔(یعنی دو مقاصد ہوں ایک تو ذمہ سے بری ہو جائے اور دوسر ااعمال انجام پائیں )تو پھ ر جتنے اعمال انجام دیے ہوں انکی نسبت سے اجرت کا مستحق ہو گا ۔(مثلاایک تہائی اعمال انجام دے ہوں تو ایک تہائی اجرت کا مستحق ہو گا)لیکن اگر اجیر نائب (نائب )احرام سے پہلے مر جائے تو اجرت میں سے کچھ نہیں ملے گا۔لابتہ اگر عمل کے مقدمات بھی اجارہ (معاملہ )میں داخل ہوں یعنی اجارہ سے دو چیزیں مقصود ہوں ایک اعمال انجام پانا اور دوسرامقدمات انجام پانا تو اس وقت جتنی مقدار کو انجام دیاہو اتنی اجرت کا مستحق ہو گا ۔
( ۱۱۶) اگر کسی کو شہر سے حج کرنے کے لیے چیر بنایاجائے اور راستہ معین نہ کیا جائے تو اجیرکو ختیار ہے کہ جس راستے سے چاہے جائے اور اگر راستح معین کیا گیاہو تو خلاف ورزی جائز نہیں ہے ۔لیکن اگر اجر خلاف ورزی کرکے اعمل حج انجام دے تو ار راستہ اجارہ میں شرط نہ ہو یہ کہ جارہکا حصہ ہو تو اجیر پوری اجرت کا مستحق ہو گااگر راستہ کو اعمال حجکا جز سمجھ کر اجارہ کیاہو تو اس وقت نائب بنانے والے کو حق حاصل ہو گا اور فسخ کرنے کی صورت میں اجیر ان اعمال کی جنکو انجام دے چکا ہو معمول کے مطابق اجرت لے گا نہ کہ راستہ طے کرنے کی چرت اور اگر معاملہ ختم نہ کرے تو پھر پوری طے شدہ اجرت کا مستحق ہو گا۔لیکن نائب بنانے والے کو اجیر سے طے شدہ راستے سے نہ جانے کی صور ت میں بقایاجات واپس لینے کا حق حاصل ہے ۔
( ۱۱۷) اگر کوئی معین سال میں کسی کا حج خود انجام دینے کے لیے نائب بنے تو اسی سال میں دوسرے شخص کا حج خود انجام دینے کے لیے نائب نہیں بن سکتالیکن اگر دونوں اجاروں کے سال جدا ہوں یاکسی ایک میں یا دونوں میں خود انجام دینے کی شرط نہ ہو تو دنوں اجارے صحیح ہوں گے ۔
( ۱۱۸) جو شخص کسی معین سال میں کسی کا حج انجام دینے کیلیے اجیر بنے تو جائز نہیں کہ وہ نائب بنانے والے کی رضامندی کے بغیر اس حج کو معین سال سے پہلے یا بعد میں انجام دے ۔چنانچہ اگر تاخیر کردے تو ااگرچہ منوب عنہ (جس کی جانب سے حج کیاہو )بری الذمہ ہو جائے گا لیکن نائب بنانے والے کو معاملہ ختم کرنے کا حق ہو گا ۔یعنی اجارہ ختم کرنے کی صورت میں اجیر کسی اجرت کا حقدار نہیں ہو گا اور یہ اسی صور ت میں ہے کہ جب اجارہ معین شدہ سال میں حج کرنے کا ہو ۔لیکن اگر اجارہ تو حج کرنے کا ہو ار سال محضشرظ ہوتو نائب معمول کے مطابق اجرت کا مستحق ہو گا ۔بلکہ اجارہ ختم نہ کرنے کی صورت میں اجیر طے شدہ اجرت کا مستحق ہوگا۔ اسکے برعکس اگراجارہ معین شدہ سال میں حج کرنے کا ہو اور اجیر اسکی خلاف ورزی کرے تو اس نتیجہ میں بچنے والی رقم کا مطالبہ کرنیکا حق نائب بنانے والے کوحاصل ہے ۔
اسی طرح اگر اجیر حج کومعین سال سے پہلے انجام دے دے اور جس حج کے لیے اجارہ کیاہو وہ حج الاسلام ہو تومنوب عنہ فارغ الذمہ ہوجائے گااگرچہ اجیر نے معینہ سال سے لپہلے انجام دیاہو تو اب چونکہ منوب عنہ تو فارغ الذمہ ہو گیاہے لہذا معین شدہ سال میں ہج انجام دینا ممکن ہی نہیں تو اجرت سے متعلق حکم وہ ہے جو قبل ازیں تاخیرکی صورت میں ہو چکا ہے ۔او راگر ایسانہ ہو یعنی مستحب حج انجا م دینے کے لیے اجیر بنایا گیاہو کہ مثلاآئندہ سال حج اناجم دے اور اجیر اسی سال انجام دیدے تو اگر اجارہ معین شدہ سالمیں حج کرنیکا ہو تو اجیر اجرت کا مستحق نہیں ہوگابلکہ واجب ہے کہ حج معینہ شدہ سال میں انجام دے او اگراجارہ میں سال محض شرط ہو تو بھی یہی حکم ہے بشرطیکہ اجر نے اس شرط کو ختم نہ کیاہواور اگر کر دیاہوتو پھر اجیرطے شدہ قیمت کا مستحق ہوگا۔
( ۱۱۹) اگر اجیر دشمن کے روکنے یا بیامری کی وجہ سے اعمال حج انجامنہ دے سکے تو اسکاحکم خود اپنا حج انجام دینے والے انسان کی طرح ہے جو دشمن یا بیامری کی وجہ سے اپنا حج انجام نہ دے سکے جسکی تفصیل آگے آئے بیان ہو گی ۔لہذا اگر حج کا جارہ اسی سال کے لیے مقید ہو تو اجارہ فسخ ہوجائے گا اور اگراسی سال سے مقید نہ ہو تو حج اس کے ذمہ باقی رہے گا ۔لیکن اگر سال کا یقین شرط کی صورت میں ہو تو امیر بنانے والے کو خیار تخلف (شرط کی خلاف ورزی کی بنا پر ختیار )حاصل ہو جائے گا۔
( ۱۲۰) اگر نائب کوئی یسا کام انجام دے جسکی وجہ سے کفارہ واجب ہوتاہو تو کفارہ اپنے مال سے اداکرے گا۔چاہے پیسے لے کر نائب بنا ہو یا بغیر پیسوں کے ۔
( ۱۲۱) اگر کسی کو حج کے لیے معین اجرت پر نائب بنایا جائے اور اجرت حج کے اخراجات سے کم نکلے تو اجر پ راجرت پوری کرنا واجب نہیں ہے ،اسی طرح حج کے خرجات سے زیادہ نکلے تو واپس لنیے کا حق بھی نہیں رکھتا۔
( ۱۲۲) اگرکسی ک وواجب یا مستحب حج کے لیے نائب بنایا جائے اور نائب اپنے حج کومعشر سے پہلے جماع کے ذریعے اپنے حج کوفاسد کردے تو اس پر واجب ہے کہ حج کو مکمل کرے اوراس حج سے منوب عنہ بری الذمہ ہو جائے گالیکن نائب پر واجب ہوجائے گا کہ آئندہ سال حج کرے اور ایک اونٹ کفارہ بھی دے ۔تاہم ظاہر یہ ہے کہ اجیر اجرت کا مستحق ہو گا جاہے آئندہ سال عذر کی وجہ سے یا بغیر عذر کے حج نہ بھی کرے ۔بلامعاوضہ حج کرنے والے کا بھی یہی حکم ہے ۔فرق صرف یہی ہے کہ مستحق اجرت نہیں ہے ۔
( ۱۲۳) طاہر یہ ہی کہ اجیر حج انجام دینے سے پہلے اجرت کا تقاضاکرنیکا حق رکھتاہے چاہے حج سے پہلے اجرت دینے کی شرط واضح نہ بھی کی ہو اس لیے کہ اس شرط پر قرینہ موجودہے اور وہ یہ کہ عام طور پر چرت پہلے دی جاتی ہے کیونکہ اجیرکے لیے اجرت لینے سے پہلے حج پر جانااور عمل بجالانا ممکن نہیں ہوتا۔
( ۱۲۴) اگر کوء ی خود حج کرنے کے لیے نائب بنے تو اسے حق نہیں ہے کہ نائب بنانے والے کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو نائب بنائے لیکن اگراجارہ کے ذریعے عمل اپنے ذمہ لے اور خود انجام دینے کی شرط نہ کرے تو پھر اس کے لیے جائز ہے کہ اس حج کے لیے کسی دوسرے کو نائب بنائے ۔
( ۱۲۵) اگر کسی کو وسیع وقت میں حج تمتع کے لیے نائب بنایاجائے اور اتفاقا وقت تنگ ہوجائے اورنائب حج عمرہ کو حج افراد سے بدل کر حج افراد انجام دے اورنعد میں عمرہ مفردہ انجام دے تو منوب عنہ بری الذمہ ہو جائے گا ۔اور اگر اجارہ عمرہ تمتع او حج تمتع کے اعمال انجا م دینے کا ہو تو نائب اجرتک امستحق نہیں ہو گا لیکن منوب عنہ کوبری الذمہ کرنے کا ہو تومستحق ہو گا۔
( ۱۲۶) مستحبی حجمیں ایک شخص کئی افراد کا نائب بن سکتاہے لیکن واجب حج میں ایک شخص ایک یا دوسے زیادہ کا نائب نہیں بن سکتاسوائے اس صورت کے کہ جب دو یا دو سے زیادہ افراد پر حج مشترک طور پر واجب ہوا ہومثلادو افراد منت مانیں کہ اگرہمار ا کام ہو گیاتو ہم ملکر کسی کو حج پر بھیجیں گے ،اس صورت میں دونوں کے لیے اپنے جانب سے ایک شخص کو حج پربھیجیں گے ،اس صورت میں دونوں کیلیے اپنی جانب سے ایک شخص کو نائب بناکر بھیجناجائز ہے ۔
( ۱۲۷) مستحب حج میں کئی افرا د ایک ہی شخص کی نیابت کرسکتے ہیں چاہے منوب عنہ زندہ ہو یا مردہ اور چاہے نائب اجرت لے کر حج کر رہاہویا بغیر اجرت کے ۔اسی طرح واجب حج میں بھی ایک شخص پر متعدد ہ جواجب ہوں ۔مثلاکسی زندہ یامردہ شخص پر دو حج واجب ہوں اور دونوں نذر سے واجب ہوئے ہوں یا مثلاایک حج الاسلام ہو اور دوسرانذر سے واجب ہواہیتو کئی افرادایک شخص کی نیابت کرنا جایز ہے یعنی ایک کو حج الاسلام کے لیے دوسرے کو دوسرے حج کے لیے بنایاجاسکتاہے ۔اسی طرح ایک شخص کی جانب سے دوافراد ک وایک کو واجب حج کیلیے اوردوسرے کو مستحب حج کے لیے نائب بناناجائز ہے ۔بلکہ بعید نہیں ہے کہ اس احتمال کو بنا پرکہ ایک شخص کاحج جاقص ہو سکتاہے احتیاط کی خاطر ایک شخص کی ایک واجب حج کیلیے دو نائب بنانا جائز ہو۔
( ۱۲۸) طواف فی نفسہ مستحب لہذا طاف میں جائز ہے کہ مرنے والے کی طرف سے نیابت کی جائے اسی طرح اگر زندہ (منوب عنہ )مکہ میں نہ ہو ای مکہ میں ہو لیکن خود طواف نہ کر سکتاہوتو اسکی طرف سے بھی نیابت کرنا جائزہے ۔
( ۱۲۹) نائب نیابتی حج کے اعمال سے فارغ ہونے کے بعد اپنی جانب سے یا کسی اور جانب سے عمرہ مفردہ کر سکتاہے جس طرح کہ اپنی یا کسی اور کی جانب سے طوافکرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔