مناسک حج

مناسک حج0%

مناسک حج مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

مناسک حج

مؤلف: آیۃ العظمی سید علی حسینی سیستانی دام ظلہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 16638
ڈاؤنلوڈ: 3434

تبصرے:

مناسک حج
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 36 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 16638 / ڈاؤنلوڈ: 3434
سائز سائز سائز
مناسک حج

مناسک حج

مؤلف:
اردو

حج کی وصیت

جوشخص مرنے کے قریب ہو اسکے ذمہ حج الاسلام ہو تو اگر اسکے پاس ااتنی مقدار میں مال ہو ہو حک ے خراجات کے للیے کافی ہو تو اس پرلازم ہے کہ ایس اانتظام کرے کہ اسے اطمیں ان ہوجائے کہ اسکی مرنے کے بعد اسی جانب سے حج اداکیاجائے گاہاہے گواہوں کے موجودگی میں وصیت کرے ۔لیکن اگر اسکے کے پاس مال موجود نہ ہواور حتمال ہو کہ اسکے مرنے کے بعد کوئی شخص بلا معاوضہ اسکی طرف سے حج کرے تب بھی وصیت کرنا واجب ہے کسی کے ذمہ حج واجب ہو اور وہ مرجائے تو واجب ہے کہ حج کی قضا اسکی اصل ترکہ میں سے کرائی جائے چاہے اسنے وصیت نہ کی ہو اور اسی طرح اگر اسنے وصیت تو کی ہو مگر حجکے خراجات کو ثلث مال (ایک تہائی )س مخصوص نہ کی اہو رتو اس صورت میں بھی حج کے خراجات کو اصل ترکہ سے لیا جائے گا ۔اور اگر حج کی وصیت بھی کی ہو اور اسکے اخرجات کو مال کے ایک تہائی حصے سے لینے کی شرط بھی کی ہوتو اگرتہائی مال حج کے خراجات کیلیے کافی ہو تواواجب ہے کہ حج کو ثلث مال سے کرایا جائے اور باقی وصیتوں پر حج مقدم ہو گا اور ثلثمال حک ے خراجات کے کافی نہ ہو تو کمی کواصل ترکہ سے پوراکیا جائے گا ۔

( ۷۴) اگر کوئی شخص جس پر حج واجب ہو مرجائے ر اسل اکچھ مال کسی اور کے پاس امانت کے طور رکھا ہو تو اکہاگیا ہے کہ امیں شخص کو احتمال ہو کہ اگر ورثا ء کوواپس کردے گاتو ورثا مرحومکی جانب سے حج انجام نہیں دیں گے تو امیں خی لے جائز ہے بلکہ واجب ہے کہ کہ وہ خود یا کسی کو نائب بناکر مرحوم کی جانبسے حج انجام دے اوراگرمال حج کے خرجات سے زیادہ ہو تو اباقی مال ورثاء کو واپس کردے ۔لیکن یہ حکم اشکال سے خالی نہیں ہے ۔

( ۷۵) اگر کوئی شخص جسکے ذمہ حج الاسلام ہو مرجائے اور اس پر خمسواجب ہو ی ازکواة اورترکہ (وہ مال جو مرنے والا چھوڑ کا مرتاہے )کم ہو جس مال پر خمس یا زکواة واجب ہواس مال سے خمس یازکواة نکالاجائے گا اور افگر خمس وزکواة اسکے ذمہ ہوں مگر وہ مال موجود نحہو جس پر خمس و زکواة واجب تھاتو پھر حج مقدم ہوگااور اگر اسکے ذمہ کوئی قرض ہو تو بعید نہیں ہے کہ قرض حج پر مقدم ہوجائے ۔

( ۷۶) اگر کوئی مر جائے اور اسکے ذمہ میں حج الاسلام واجب ہو جب تک حج مرنے والے باقی ہو ۔اسکے ورثاکو ترکہ میں ایسا تصرف جائز نہیں ہو نیت کی قض احج کے منافی ہو ارو اس سے فرق نہیں پڑتاکہ حج خی خراجات ترکہ سے کم ہوں تو زائد رقم کا تصرف کرنے میں کو ئی حرج نہیں ہے چاہے اس تصرف کی وجہ سے زائد مقدار ضائع ہوجائے ۔

( ۷۷) اگر مرنے والے کے ذمہ حج الاسلام ہو اور اس کا ترکہ حج کے خراجات کے لیے کافی نہ ہو تو اگر اسکے ذمہ کوئی قرض یا خمس و زکواة ہو تو واجب ہے کہ اسک اترکہ اسکی ادائیگی پر خرچ کیالیکن اگرکوئی قرضہ وغیرہ نہ ہو تو اسک اترکہ اسکے ورثا کے لے ہوگا اور ورثا پر اواجب نہیں کہ حج کی ادائیگی کے لیے خراجات حج کو اپنے مال سے پوراکرین ۔

( ۷۸) اگر مرنے والے کے ذمہ حج الاسلام وجب ہو تو اسکے مرنے کے بعد اسکا نائب بنانا اس کے وطن سے ضروری نہیں ہے ۔بلکہ میقات حتیکہ مکہ کے قریب ترین میقات سے نائب بنانا بھی کافی ہے اگرچہ حوط یہ ہے ہ اسکے اپنے والن ساے نائب بنانا چاہیے اگر مرنے والی کا ترکہ حج کے اخراجات کے لیے کافی ہو تو کسی بھی میقات سے نائب بنایاجاسکتاہے بلکہ جسمیقات سے اجرت وا چرچہ کم ہو اس میقات سے نائب بنیاجائی ۔اگرچہ حتیاط مستحب یہ ہے کہ کہ اگر مال کافی ہوتو اسکے شہر سے نائب بنایا جائے اس صورت میں زائد اجرت اس کے بالغ ورثاکی رصامندی سے ان کے مال سے دی جائے گی نہ کہ نا بالغ ورثا کے حصہ سے ۔

( ۷۹) اگر مرنے والے کے ذمہ حج الاسلام اور اسک اترکہ حج کے اخراجات کے کے لیے کافی ہو تو حتیاط واجب یہ ہی کہ حج اداکرنے میں جلدی کرنی چاہے اسکے مال سے کسی کو اجرت پر حج کے لیے بھیجنا پڑے ۔اگر پہلے سال میقات سے اجیر نہ ملے تو احتیاط واجب یہ ہی خہ اسکے وطن سے نائب واجیر مقرر کریں او ر اگلے سال تک تاخیر نہکریں چاہے معلوم ہو کہ اگلے سال میقات سے اجیر مل جائے گا۔اور اس صورت میں (جب نائب کو وطنسے مقرر کریں )میقات سے زائدخرچہ نابالغ ورثا کے حصہ سے نہیں لیا جا سکتا۔

( ۸۰) اگر مرنے والے کے ذمہ حج الاسلام اور اسک اترکہ حج کے اخراجات کے لیے کافی ہو اور حج (بدل کے لیے )نائب معمول سے زیادہ قیمت پر ہی ملنا ممکن ہو تو احیتاط واجب یہ ہے کہ زیادہ قیمت دے کرنائب بنایاجائے اورورثا مراث کا حصہ زیادہ کرنے کے لیے آئندہ سال تک تاخیر نہیں کرسکتے لیکن اس صور ت میں معمول سے زیادہ قیمت کو نابالغ ورثاکے حصہ سے نہیں لیا جاسکتا ۔

( ۸۱) اگر مرنے کے بعض ورثا اقرارکریں کہ اس پر حج اسلام واجب تھ ااورباقی ورثااسکا انکا ر کریں تو صرف اقرار کرنے والوں پواجب ہے کہ مال وراثت کی نسبت سے اپنے مال میں سے حج کے لیے خرچہ دیں (مثلااگر اقرار کرنے والوں کے حصے نصف ارث آیا ہو توح کے لیے اخراجات کا نصف خرچہ دیں )لہذا مقدار ہج کے خراجات کے لیے کافی ہو چاہے کسی اور کے ملانے کی وجہ سے پورے ہو رہیں ہوں ی اکسی اور طرحسے حج کے خراجات کے لیے کافی ہو تونائب بنانا واجب ہوگا ورنہ نہیں اور اقرارکرنے والوں پر اپنے حصے سے یا اپنے دوسرے مال سے کمی کو پورا کرناواجب نہیں ہے ۔

( ۸۲) اگر مرنے والے کے ذمہ حج الاسلام ہو اور کوئی بلا معاوضہ اس کی جانب سے حج انجام دے تو کافی ہے اور ورثاء کے لئے مرنے والے کے مال سے نائب بنانا واجب نہیں ہے اسی طرح اگر مرنے والا ایک تہائی مال سے حج کی وصیت کرکے مرے اور کوئی شخص بلا معاوضہ اس کی جانب سے حج کو انجام دیدے تو کافی ہے اور ایک تہائی مال سے نائب بنانا واجب نہیں ہے لیکن حج کے اخراجات کے برابرمال کو ایک تہائی مال میں سے ورثہ نہیں دیا جائے گا بلکہ مرنے والے کی نظر میں جو نیکی کا کام ہو اس میں صرف کیا جائے گا

( ۸۳) اگر مرنے والے کے ذمہ حج الاسلام ہواور اسنے اپنے شہر سے نائب بنانے کی وصیت کی ہو تو اس کے شہر سے نائب بنانا واجب ہے لیکن میقات کی نسبت زائد اخراجات کو ایک تہائی مال سے ادا کیا جائے گا اور اگر حج کی وصیتکرے لیکن جگہ کا معین نہ کرے تو میقات سے نائب بنانا کافی ہے مگر یہ کہ کو ئی ایسی علامت یا قرینہ ہو جس سے ظا ہر ہو کے مرنے والے کا ارادہ اپنے شہر سے نائب بنانے کا تھا مثلا مرنے والا حج کے لئے اتنی مقدار معین کرے جو اس کے شہر کیلئے کافی ہو(تو اس کے ارادے کے مطابق عمل کیا جائے )

( ۸۴) اگر مرنے والا اپنے شہر سے حج کرنے کی وصیت کرے لیکن وصی یا وارث میقات سے نائب بنائیں تو اگر مرنے والے کے مال سے نائب کو خرچہ دیا ہو تو اجارہ باطل ہوگا لیکن اجیر کے حج انجام دینے پر مرنے والا بری الذمہ ہو جائے گا

( ۸۵) اگر مرنے والا کسی دوسرے شہر سے حج کی وصیت کرے مثلا وصیت کرے کہ نجف سے کسی کو نائب بنایا جائے تو ا س وصیت پر عمل کرنا واجب ہے او رمیقات سے زائد اخراجات کوتہائی مال سے لیا جائے گا

( ۸۶) اگر مرنے والا وصیت کرے کہ اس کی جانب سے حج الاسلام انجام دیا جائے او راسکے لئے اجرت معین کرے تو اس پر عمل کرنا واجب ہے لہذا اگر اجرت معمول کے مطابق ہو تو مرنے والے کے اصل مال سے ادا کی جائے گی ، ورنہ معمول سے زائد مقدار کو تہائی مال سے ادا کیا جائے

( ۸۷) اگر مرنے والا کسی ایسے مال معین سے حج کی وصیت کرے جس کے بارے میں وصی کو معلوم ہو کہ اس مال پر خمس او رزکواةواجب ہے تو وصی پر واجب ہے کہ پہلے خمس نکالے اورپھر باقی مال حج پ رخرچ کرے اور اگر باقی مال حج کیاخراجات کیلئے کافی نہ ہو تو ضروری ہے اصل مال سے کمی کو پورا کرے بشرطیکہ وصیت حج الاسلام کی ہو لیکن اگر وصیت تعدّدمطلوب کی بناء پر ہو یعنی وصیت کرنے والے کی نظر میں دو چیزیں ہو ں ایک یہ کہ کوئی کار خیر انجام پائے اور دوسری یہ کہ وہ کار خیر حج ہو تو مرنے والے کی نظر میں جو بھی کار خیر ہو مال اس پر خرچ کیا جائے او راگر وصیت تعدّد مطلوب کی بناء پر نہ ہو تو مال معین سے بچنے والی مقدارورثاء میں تقسیم ہو گی

( ۸۸) اگر مرنے والے کی طرف سے حج کے لیے نائب بنانا واجب ہو جائے چاہے وصیت کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے ،اور وہ شخص (مثلاوصی یا وارث)جس پر نائب بنانا واجب تھا غفلت کرے یامال ضائع ہوجائے تو یہ شخص ضامن ہو گااوراس پر اپنی مال سے نائب بناناواجب ہے ۔

( ۸۹) اگر یہ معلوم ہوجائے ہ میت کے ذمہ حج واجب ہے اور یہ پتہ نہ چلے کہ اس نے انجام دیا تھا یانہیں تو قضاکرانا واجب ہے اور اسکے اخراجات اصل مال سے لیے جائیں گے ۔

( ۹۰) حج کے لیے صرف مرنے والانائب بنانے سے برالذمہ نہیں ہو تالہذااگر پتہ چلے کہ نائب نے حج نہیں کیا تو چاہے کسی عذرکی وجہ سے یا بغیر کسی عذر کے تو دوسرانائب بناناواجب ہے اور اسکے اخرجات اصل مال سے ادا کیے جا

ئیں گے ۔اگر پہلی اجرت مرنے والے کے مال سے دی ہو اور اسکو واپس لینا اگر ممکن ہو تو واپس لیا جائے ۔

( ۹۱) اگر اجیر متعددہوں تو اظہر یہ ہیکہ ایسے شخص کواجیر بنایاجائے کہ جس کانئب بننا مرنے والے کی شان و حیثیت کے منافی نہ ہو چاہے دوسرا کم قیمت پرجانے پر راضی ہو اور نائب ایک تہائی مال سے بنایا جارہاہو اورچاہے ورثا کے حصے میں کمی ہو رہی ہو اور وہ راضی نہ ہوں لیکن یہ حکم اس صورت میں مشکل ہے جب درج بالاطریقے سے اجیر بنانادوسرے مالی واجبات مثلاقرض و زکواة جو مرنے والے کے ذمہ ہوں یاةغیر مالی واجبات جن کی مرنے والینے وصیت کی ہو ،سے متصادم ہو ۔

( ۹۲) نائب مرنے والے کے شہر سے یامیقات سے نائب بنانا واجب ہے اوراس میں وارث کی تقلید یا اجتہاد کو مدنظر رکھاجائے نہ کہ مرنے والے کی لہذااگر مرنے والاے کا اعتقاد یہ ہو کہ اپنے شہر سے حج واجب ہے جبکہ وارثاعتقاد یہ ہو کہ میقات سے بھی نائب بنانا جائز ہے تو وارث پر واجب نہیں ہے کہ وہ مرنے والے کے شہر سے نائب بنائے ۔

( ۹۳) اگر مرنے والے ذمہ حج الاسلام ہو مگر اسکی میراث و ترکہ نہ ہوتو وارث پر نائب بنانا واجب نہیں لیکن مستحب ہے خصوصا مرنے والے کے اقرباکیلیے مستحب ہے کہ وہ مرنے والے کو بری الذمہ کرائیں ۔

( ۹۴) اگر مرنے والا حج کی وصیت کرے اور معلوم ہوکہ یہ حج الاسلام ہے تو اگر ایک تہائی مال سے حج کرانے کی وصیت نہ کی ہو تو پھر حج کے اخراجات کو اصل مال سے لیا جائے گا اور اگر معلوم ہو کہ جس حج کی وصیت کی ہے وہ حج االاسلام نہیں ہے یا حج االاسلام ہونے میں شک ہو تو پھر حج کے اخراجات ایک تہائی ما ل سے لیے جائے گے ۔

( ۹۵) اگر مرنے والا حج کی وصیت کرے اور کسی خا ص شخص کو اسکے لیے معین کرے تو وصیت پر عمل کرنا واجب ہے اور اگر یہ خاص شخص معمول سے زیادہ اجرت طلب کررہاہو اور حج ،حج الاسلام ہو تو پھر معمول سے زیادہ اجرت ترکہ کے ثلث (تہائی)مال سے ادا کی جائے گای اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اگر ولیت تعدد مطلوب کی بنا پر ہو (یعنی ین وصیت سے مرنے والے کی غرض یہ ہو کہ حج انجام پائے اوراسی خاص شخص کے توسط سے انجام پائے یعنی دونوں چیزیں ہوں )یا حج الاسلام کی وصیت کی گئی ہو تو پھر کسی ایسے شخص کو نائب بناناچاہیے جو معمول کے مطابق اجرت لے رہاہو ۔

( ۹۶) اگر مرنے والاحج کی وصیت کرے اور اسکے لیے مال بھی معین کرے مگر کوئی اس قیمت پرجانے کے لیے راضی نہ ہو تو اگر حج ،حج الاسلام ہو اصل مال سے کمی کو پوراجائے گا۔اور اگر حج ،حج الاسلام کے علاوہ ہو اور وصیت تعددکی مطلوب کی بناپر ہو یعنی وصیت سے میت کی غرض دو چیزیں ہوں ایک یہ کہ کوئی کارخیر انجام پائے اور دوسری یہ کہ کارخیر حج ہو ۔تو اس مال معین کو میت کی نظر میں جو کار خیر تھے اس پر خرچ کیا جائے گا ۔ورنہ وصیت باطل ہے اور یہ مال معین میراث ک حصہ شمار ہو گا ۔

( ۹۷) اگر کوئی اپنا گھر اس شرط پر بیچے خریدار اس قیمت کو اسکے مرنے کے بعد حج پر خرچ کرے تو گھر کی قمیمت میراث کا حصہ شمار ہوگی اور گر حج ،حج الاسلام ہو تو شرط لازم ہوجائے گی اور تو اس واجب ہے کہ گھر کیقیمت کو حج کی اجرت میں صرف کرے لیکن اجرت معمول کے مطابق ہو ورنہ زیادہ مقدار کو ثلث مال سے لیا جائے گا ۔اور اگر حج ،حج الاسلام کے علاوہ ہو تب بھی شرط لازم ہے اورحج کی پوری اجر ت کو ایک تہائے مال سے لیاجائے گا اوراگر ایک تہائے مال حج کے اخراجات کے لیے جافی نہ ہو تو زائد مقدارمیں شرط لازم نہیں ہو گی ۔

( ۹۸) اگر کوئی اپنا گھر کسی کو اس شرط پردے دے کہ وہ اسکے مرنے کے بعد اسکی طرف سے حج کرائے گا تو یہ معاہدہ صحیح اور لازم ہے (یعنی اس پر عمل کرناضروری ہے )اور یہ گھر مالک کی ملکیت سے خارج ہو جائے گا اور اس گھر کو میراث میں شمار نہیں کیا جائے چاہے حج مستحب بھی ہو اور وصیت کا حکم اس گھر پر جاری نہیں ہوگا یہی حکم اس وقت بھی ہے جب کوائی اپناگھر کسی اور کی ملکیت میں اس شرط پر دے کہ وہ اسکے مرنے کے بعدوہ اس کو بیچ کر گھر کی قیمت سے اس کی جانب سے حج کرائے گا یہ صورتیں صحیح اور لازم ہیں چاہے وہ جس چیز کو بیچ کر شرط کیا ہے ۔مستحب عمل ہی ہو اور وارثوں کا گھر پر کوئی حق نہیں ہو گا ۔اگر وہ شخص جس پر شرط کی تھی شرط کی مخالفت کرے تو ورثاء معاملہ ختم کرنے کا حق نہیں رکھتے لیکن مرنے والے کا سر پرست چاہے وہ وصی ہو حاکم شرع معاملہ ختم کر سکتا ہے اور اگر مرنے والے کا سرپرست معاملہ ختم کردے تو مال مرنے والے کی ملکیت میں لوٹ ,آئے گا اور میراث کا حصہ بن جا ئے گا ۔

( ۹۹) اگر وصی (وہ شخص جسکے نام وصیت کی گئی ہو )مرجائے اور پتہ نہ چلے کہ وصی نے مرنے سے پہلے کسی کو نائب مقرر کیاہے یا نہیں تو اصل مال سے نائب بنانا واجب ہے بشرطیکہ حج ،حج الاسلام ہو لیکن اگر حج الاسلام کے علاوہ کوئی اور حج ہو تو پھر ثلث مال سے نائب بنایا جائے گا ۔اوراگر ولی نے حج کی مقدار کے مطابق مال لیا ہو اور وہ مال موجود بھی ہو تو اسکو واپس لیا جائے گا۔ چاہے یہ احتمال ہو کہ وصی نے اپنے مال سے نائب بنا دیاہوگا ۔اور بعد میں ةاپنے مال کے بدلے مرنے والے کے مال سے لیے ہوں گے ۔اور اگر مال موجود نہ ہو تو وصی ضامن نہیں ہو گا اس لیے کہ احتمال ہے کہ بغیر کوتاہی کے مال ضائع ہو گیاہو ۔

( ۱۰۰) اگر وصی سے لاپرواہی کے بغیر مال ضائع ہو جائے تو ہوجائے تو وہ ضامن نہیں ہو گا ۔اور اگرحج ،حج الاسلام ہو تو واجب ہے کہ باقی ترکہ سے نائب بنایا جائے ۔حج الاسلام کے علاوہ حج ہو تو باقی ثلث مال سے نائب بنایا جائے اگرباقی مال ورثا میں تقسیم ہو چکا ہو تو ان کے حصے کی نسبت اجرت کے لیے واپس لیاجائے گا ۔یہی حکم اس صورت میں بھی ہے جب کوئی حج کے لیے نایب بنے اور حج ادا کرنے سے پہلے مر جاے اور اسکا ترکہ نہ ہو اور اگر ہو اس سے واپس لینا ممکن نہ ہو ۔

( ۱۰۱) اگر وصی سے نائب مقرر کرنے سے پہلے مال ضائع ہوجائے اور پتہ نہ چلے کہ ولی سے لاپرواہی ہوئی ہے یانہیں تو وصی سے اس مال کے بدلے مال لینا جائز نہیں ہے ۔

( ۱۰۲) اگرمرنے والا حج الاسلام کے علاوہ کسی حج کیلیے مال معین کی وصیت کرے اور اہتمال ہو کہ یہ مال معین ایک تہائی مال سے زیادہ ہے ۔تو اس مقدار مال کو ورثاء کی اجازتکے بغیر صرف کرنا جائز نہیں ہے ۔

نیابت کے ا حکام

( ۱۰۳) حج کے لیے نائب میں چند شرائط کا ہونا معتبر ہے ۔

( ۱) بلوغ۔نابالغ بچے کا کسی دوسرے کیلیے حج الاسلام یا کوئی دوسر ا واجب حج کران کافی نہیں ہے ۔بلکہ بنابر احوط ممیز بچہ (یعنی ا چھے برے ی تمیز رکھنے والا)کا بھی یہی حکم ہے ۔لیکن مستحبی حج میں بعید نہیں کہ ولی کی اجازت سے ممیز بچہ کا نائب بننا صحیح ہو ۔

( ۲) عقل۔دیوانے شخص کو نائب بناناکافی نہیں ہے چاہے دیوانگی مستقل ہو یا کھبی کبھی اسکا دورہ پڑتاہے او وہ دورے کی حالت میں حج کرے البتہ سفیہ کونائب بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

( ۳) ایمان۔آئیمہ کی امامت کے منکر غیر مومن کو نائب بناناکافی نہیں ہے اور اگر وہ ہمارے مذہب کے مطابق حج کرے تب بھی نبابر احوط کافی نہیں ہے ۔

( ۴) فارغ الذمہ۔ یعنی نائب جانتاہوکہ جس سال اس نے نیابت کاحج اناجام دینا ہے س سال اسکے ذمہ کوئی اور واجب حج نہیں ہے ۔یا اس سے غافل نہیں ہے لیکن اگر وجوب کو نہ جانتاہو یااس سے غافل ہو تو ایسے شخص کو نائب بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ یہ شرط اجارہ کے صحیح ہونیکی شرط ہے نہ کہ نائب کا حج صحیح ہونیکی ۔

لہذا اس صورت میں جب کہ نائب پر حج واجب ہو اور وہ کسی کی طرف سے حج کرے تو جس کا حج کرے گا وہ بری الذمہ ہوجائے گا لیکن نائب طے شدہ اجرت کای بجائے معمول کے مطابق اجر ت کا مستحق ہو گا۔

( ۱۰۴) نائب میں عدالت کی بجائے حج انجام دینی کے بارے میں منوب عنہ (جسکی نیابت میں حج کر رہاہے )کا مطمئن ہونا معتبر ہے ناقابل اطمئنان نائب کا حج انجام دینے کے بارے میں خبر کوکافی سمجھنے میں اشکال ہے ۔

( ۱۰۵) منوب عنہ (جس کی طرف سے حج کر رہاہے )کا بری الذمہ ہونے کیلیے نائب کا صحیح طرحسے حج کرنا معتبر ہے لہذ انائب کیلیے ضروی ہے کہ وہ اعمال و حکاو حج کو صحیح طرح سے جانتاہو ہاہے کسی دوسرے شخص کی راہنمائی سے اعمال حج کی ادائیگی کے وقت ہی جان لے جب شک ہو کہ نائب اعمال حج کو صحیح طرح سے بجالا یاہے یا نہیں چاہے یہ شک اس وجہ سے ہو کہ خود نائب کا اعمال حج کو صحیح طرح سے جاننامشکوک ہو توبعید نہیں کہ حج کو صحیح سجھا جائے ۔

( ۱۰۶) ممیز بچے کی نیابت کی جاسکتی ہے جس طرح دیوانہ شخص کی ،بلکہ دیوانہ شخص کو اگر دیوانگی کا دورہ کھبی کھبی پڑتاہو اور لمعلوم ہو کہ ہمشیہ ایام حج میں دیوانگی کا دورہ پڑتاہے تو صحت کی حالت میں نائب بناناواجب ہے ۔اسی طرح اس صورت میں بھی بنانا واجب ہو گا جب صحتمندی کی حالت میں حج اس پر واجب ہو چکا ہو چاہے مرتے وقت دیوانگی کی حالت میں ہو ۔

( ۱۰۷) نائب اور منوب عنہ کا ایک جنس ضوری نہیں ہے ۔لہذا عورت کی طرف سے مرد اور مرد کی طرف سے عورت کا نائب بنناصحیح ہے ۔

( ۱۰۸) صرورہ(جو پہلی مرتبہ حج کر رہاہو)غیر صرورہ اور صرورہ دونوں کی طرف سے نائب بن سکتاہے چاہے نائب یامنوب عنہ مرد ہو یا عورت کہا گیا ہے کہ صرورہ ک ونائب بنا نا مکروہ ہے لیکن یہ کراہت ثابت نہیں ہے بلکہ ایسے شخص کے لیے جو مالی استعاعت کے باوجود خود حج نہ کرستاہو بعید نہیں ہے کہ صرورہ کو نائب بنانااولی اور بہتر ہو ،جیساکہ وہ شخص جس پر حج واجب اور ثابت ہو چکا ہو او مرجائے تو اولی اور بہت یہ ہے کہ صرورہ کو اسکی طرف سے نائب بنایاجائے ۔

( ۱۰۹) منوب عنہ کا مسلامن ہونا شرط ہے لہذا کافر کی طرف سے نیابت صحیح نہیں ہے اگر کافر ہالت استطاعت میں مرجائے اور سکے وارث مسلمان ہوں تو ان پر واجب نہیں ہے کہ اس کی طرفسے حج کرائیں ۔اسی طرح اگر ناصبی ہوتو اسکی نیابت بھی جائز نہیں ہے سوائے اسکے کہ وہ ناصبی ،باپ ہو ،باپ کے علاوہ باقی رشتہ داروں کی جانب سے نائب بنانے میں اشکال ہے ۔لیکن حج انجام دے کر اسکاثواب ان کو ہدیہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

( ۱۱۰) زندہ شخص کی مستحبی حج میں نیابت کی جاسکتی ہے چاہے اجرت لے کر ہو یا بغیر اجرت کے ۔اسی طرح اگر واجب حج ہو اور خود انجام سینے سے معذور ہو تو جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے نائب بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اسکے علاوہ زندہ شخص کی نیابت جائز نہیں ہے مردہ شخص کی طرف سے ہرحالت میں نیابت جائز ہے چاہے اجرت لے کر ہو یا بغیر اجرت کے چاہے واجب حج ہو یا مستحب ۔

( ۱۱۱) نیابت کے صحیح ہونے میں نیابت کا قصد ضروری ہے یعنی منوب عنہ کو کسی بھی طرح سے مشخص و معین کرے البتہ نام لے کر معین کرن اضروری نہیں ہے تاہم تمام مواطن و موافق میں ایسا کرنا مستحب ہے

( ۱۱۲) جس طرح کسی کا نیابتی حج اجرت لے کر یامفت انجام دینا صحیح ہے اسی طرح جعالہ یا کسی عقد و معاملہ میں شرط کرنے یا کسی اور طرح سے بھی نیابت صحیح ہے ۔

( ۱۱۳) ظاہر ہے کہ نائب کی شخصیت اسی شخص کی طرح ہے جو خود اپناحج کر رہاہو مگر بعض اعمال حج کو بالکلیا مقررہ طریقے سے صیح طور پر انجام نہ دے سکتاہو ۔لہذانائب کا حج بعض موقعوں پر صحیح ہوگا اورمنوب عنہ بری الذمہ ہو گا جبکہ دوسرے موارد میں باطل ہو گا۔ لہذا اگر عرفات میں وقوف اختیاری سے عاجز ہو اور وقوف اضطراری انجام دے تو اسکا حج صحیح ہو گا اور منوب عنہ بری الذمہ ہو جائے گا ۔ لیکن اگر دونوں وقوف سے عاجز ہو تو اسکا حج باطل ہے اور ایسے شخص ک ونائب بنانا جسکے بارے میں پہلے سے معلوم ہو کہ یہ عمل اختیاری انجام نہ دے سکے گاحتیاط کی بنا پر جائز نہیں ہے ۔یہاں تک کہ بلامعاوضہ بھی اگر کسی کی طرف سے حج کرے تو اسکے عمل پر اکتفا کرنامشکل ہے ۔البتہ ایسے شخص کو نائب بنانے میں کوئی حرج نہیں جس کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ محرمات احرام مثلاسائے میں رہنایا کوئی ور ہرام کام میں سے کسی اور کا مرتکب ہو گا چاہے عذر کی وجہ سے یا بغیر کسی عذر کے اسی طرح اس شخص کو بھی نائب بنانے میں کوئی حرج نہیں جس کے نارے میں معلوم ہو کہ ایسے واجبات حج کو چھوڑ دے گا جن کی وجہ سے حج کی صحت پر ضرر نہیں پہنچتا،چاہے انہیں جان بوجھ کر چھوڑاجائے مثلا طواف النساء یا گیاریہوں اور بارہوں شب کو منی میں رہنا۔

( ۱۱۴) اگر نائب احرام باندھنے سے پہلے مرجائے تو منوب عنہ بری الذمہ نہی ہو گا ۔لہذا اگر نائب بنانا ضروری ہے تو کسی اور شخص کو نائب بنایا جائے ۔لیکن احرام باندھنے اور حرم میں جانے کے بعد مرا ہو تو حوط یہ ہے کہ منوب عنہ بری الذمہ ہو جائے گا اور اس حکم میں حج الاسلام اور دوسرے حج برابر ہیں لیکن یہ حکم اس وقت ہے جب نائب اجرت لے کر حج پر گیاہواور اگر اجرت کے بغیر حج کر رہاہو تو پھر منوب عنہ کا بری الذمہ ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے ۔

( ۱۱۵) اگر اجیر احرام باندھنے اور حرم میں داخل ہونے کے بعدمرجائے جبکہ میت کو بری الذمہ کرنے کے لیے نائب بنایاہو تو یہ اجیر پوری اجرت کا مستحق ہوگا لیکن اگر اسے اعمال حج انجام دینے کے لیے نائب و اجیر بنایاہو او اجارہ میں ایک سے زیادہ چیزوں کو مدنظر رکھاگیاہو ۔(یعنی دو مقاصد ہوں ایک تو ذمہ سے بری ہو جائے اور دوسر ااعمال انجام پائیں )تو پھ ر جتنے اعمال انجام دیے ہوں انکی نسبت سے اجرت کا مستحق ہو گا ۔(مثلاایک تہائی اعمال انجام دے ہوں تو ایک تہائی اجرت کا مستحق ہو گا)لیکن اگر اجیر نائب (نائب )احرام سے پہلے مر جائے تو اجرت میں سے کچھ نہیں ملے گا۔لابتہ اگر عمل کے مقدمات بھی اجارہ (معاملہ )میں داخل ہوں یعنی اجارہ سے دو چیزیں مقصود ہوں ایک اعمال انجام پانا اور دوسرامقدمات انجام پانا تو اس وقت جتنی مقدار کو انجام دیاہو اتنی اجرت کا مستحق ہو گا ۔

( ۱۱۶) اگر کسی کو شہر سے حج کرنے کے لیے چیر بنایاجائے اور راستہ معین نہ کیا جائے تو اجیرکو ختیار ہے کہ جس راستے سے چاہے جائے اور اگر راستح معین کیا گیاہو تو خلاف ورزی جائز نہیں ہے ۔لیکن اگر اجر خلاف ورزی کرکے اعمل حج انجام دے تو ار راستہ اجارہ میں شرط نہ ہو یہ کہ جارہکا حصہ ہو تو اجیر پوری اجرت کا مستحق ہو گااگر راستہ کو اعمال حجکا جز سمجھ کر اجارہ کیاہو تو اس وقت نائب بنانے والے کو حق حاصل ہو گا اور فسخ کرنے کی صورت میں اجیر ان اعمال کی جنکو انجام دے چکا ہو معمول کے مطابق اجرت لے گا نہ کہ راستہ طے کرنے کی چرت اور اگر معاملہ ختم نہ کرے تو پھر پوری طے شدہ اجرت کا مستحق ہو گا۔لیکن نائب بنانے والے کو اجیر سے طے شدہ راستے سے نہ جانے کی صور ت میں بقایاجات واپس لینے کا حق حاصل ہے ۔

( ۱۱۷) اگر کوئی معین سال میں کسی کا حج خود انجام دینے کے لیے نائب بنے تو اسی سال میں دوسرے شخص کا حج خود انجام دینے کے لیے نائب نہیں بن سکتالیکن اگر دونوں اجاروں کے سال جدا ہوں یاکسی ایک میں یا دونوں میں خود انجام دینے کی شرط نہ ہو تو دنوں اجارے صحیح ہوں گے ۔

( ۱۱۸) جو شخص کسی معین سال میں کسی کا حج انجام دینے کیلیے اجیر بنے تو جائز نہیں کہ وہ نائب بنانے والے کی رضامندی کے بغیر اس حج کو معین سال سے پہلے یا بعد میں انجام دے ۔چنانچہ اگر تاخیر کردے تو ااگرچہ منوب عنہ (جس کی جانب سے حج کیاہو )بری الذمہ ہو جائے گا لیکن نائب بنانے والے کو معاملہ ختم کرنے کا حق ہو گا ۔یعنی اجارہ ختم کرنے کی صورت میں اجیر کسی اجرت کا حقدار نہیں ہو گا اور یہ اسی صور ت میں ہے کہ جب اجارہ معین شدہ سال میں حج کرنے کا ہو ۔لیکن اگر اجارہ تو حج کرنے کا ہو ار سال محضشرظ ہوتو نائب معمول کے مطابق اجرت کا مستحق ہو گا ۔بلکہ اجارہ ختم نہ کرنے کی صورت میں اجیر طے شدہ اجرت کا مستحق ہوگا۔ اسکے برعکس اگراجارہ معین شدہ سال میں حج کرنے کا ہو اور اجیر اسکی خلاف ورزی کرے تو اس نتیجہ میں بچنے والی رقم کا مطالبہ کرنیکا حق نائب بنانے والے کوحاصل ہے ۔

اسی طرح اگر اجیر حج کومعین سال سے پہلے انجام دے دے اور جس حج کے لیے اجارہ کیاہو وہ حج الاسلام ہو تومنوب عنہ فارغ الذمہ ہوجائے گااگرچہ اجیر نے معینہ سال سے لپہلے انجام دیاہو تو اب چونکہ منوب عنہ تو فارغ الذمہ ہو گیاہے لہذا معین شدہ سال میں ہج انجام دینا ممکن ہی نہیں تو اجرت سے متعلق حکم وہ ہے جو قبل ازیں تاخیرکی صورت میں ہو چکا ہے ۔او راگر ایسانہ ہو یعنی مستحب حج انجا م دینے کے لیے اجیر بنایا گیاہو کہ مثلاآئندہ سال حج اناجم دے اور اجیر اسی سال انجام دیدے تو اگر اجارہ معین شدہ سالمیں حج کرنیکا ہو تو اجیر اجرت کا مستحق نہیں ہوگابلکہ واجب ہے کہ حج معینہ شدہ سال میں انجام دے او اگراجارہ میں سال محض شرط ہو تو بھی یہی حکم ہے بشرطیکہ اجر نے اس شرط کو ختم نہ کیاہواور اگر کر دیاہوتو پھر اجیرطے شدہ قیمت کا مستحق ہوگا۔

( ۱۱۹) اگر اجیر دشمن کے روکنے یا بیامری کی وجہ سے اعمال حج انجامنہ دے سکے تو اسکاحکم خود اپنا حج انجام دینے والے انسان کی طرح ہے جو دشمن یا بیامری کی وجہ سے اپنا حج انجام نہ دے سکے جسکی تفصیل آگے آئے بیان ہو گی ۔لہذا اگر حج کا جارہ اسی سال کے لیے مقید ہو تو اجارہ فسخ ہوجائے گا اور اگراسی سال سے مقید نہ ہو تو حج اس کے ذمہ باقی رہے گا ۔لیکن اگر سال کا یقین شرط کی صورت میں ہو تو امیر بنانے والے کو خیار تخلف (شرط کی خلاف ورزی کی بنا پر ختیار )حاصل ہو جائے گا۔

( ۱۲۰) اگر نائب کوئی یسا کام انجام دے جسکی وجہ سے کفارہ واجب ہوتاہو تو کفارہ اپنے مال سے اداکرے گا۔چاہے پیسے لے کر نائب بنا ہو یا بغیر پیسوں کے ۔

( ۱۲۱) اگر کسی کو حج کے لیے معین اجرت پر نائب بنایا جائے اور اجرت حج کے اخراجات سے کم نکلے تو اجر پ راجرت پوری کرنا واجب نہیں ہے ،اسی طرح حج کے خرجات سے زیادہ نکلے تو واپس لنیے کا حق بھی نہیں رکھتا۔

( ۱۲۲) اگرکسی ک وواجب یا مستحب حج کے لیے نائب بنایا جائے اور نائب اپنے حج کومعشر سے پہلے جماع کے ذریعے اپنے حج کوفاسد کردے تو اس پر واجب ہے کہ حج کو مکمل کرے اوراس حج سے منوب عنہ بری الذمہ ہو جائے گالیکن نائب پر واجب ہوجائے گا کہ آئندہ سال حج کرے اور ایک اونٹ کفارہ بھی دے ۔تاہم ظاہر یہ ہے کہ اجیر اجرت کا مستحق ہو گا جاہے آئندہ سال عذر کی وجہ سے یا بغیر عذر کے حج نہ بھی کرے ۔بلامعاوضہ حج کرنے والے کا بھی یہی حکم ہے ۔فرق صرف یہی ہے کہ مستحق اجرت نہیں ہے ۔

( ۱۲۳) طاہر یہ ہی کہ اجیر حج انجام دینے سے پہلے اجرت کا تقاضاکرنیکا حق رکھتاہے چاہے حج سے پہلے اجرت دینے کی شرط واضح نہ بھی کی ہو اس لیے کہ اس شرط پر قرینہ موجودہے اور وہ یہ کہ عام طور پر چرت پہلے دی جاتی ہے کیونکہ اجیرکے لیے اجرت لینے سے پہلے حج پر جانااور عمل بجالانا ممکن نہیں ہوتا۔

( ۱۲۴) اگر کوء ی خود حج کرنے کے لیے نائب بنے تو اسے حق نہیں ہے کہ نائب بنانے والے کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو نائب بنائے لیکن اگراجارہ کے ذریعے عمل اپنے ذمہ لے اور خود انجام دینے کی شرط نہ کرے تو پھر اس کے لیے جائز ہے کہ اس حج کے لیے کسی دوسرے کو نائب بنائے ۔

( ۱۲۵) اگر کسی کو وسیع وقت میں حج تمتع کے لیے نائب بنایاجائے اور اتفاقا وقت تنگ ہوجائے اورنائب حج عمرہ کو حج افراد سے بدل کر حج افراد انجام دے اورنعد میں عمرہ مفردہ انجام دے تو منوب عنہ بری الذمہ ہو جائے گا ۔اور اگر اجارہ عمرہ تمتع او حج تمتع کے اعمال انجا م دینے کا ہو تو نائب اجرتک امستحق نہیں ہو گا لیکن منوب عنہ کوبری الذمہ کرنے کا ہو تومستحق ہو گا۔

( ۱۲۶) مستحبی حجمیں ایک شخص کئی افراد کا نائب بن سکتاہے لیکن واجب حج میں ایک شخص ایک یا دوسے زیادہ کا نائب نہیں بن سکتاسوائے اس صورت کے کہ جب دو یا دو سے زیادہ افراد پر حج مشترک طور پر واجب ہوا ہومثلادو افراد منت مانیں کہ اگرہمار ا کام ہو گیاتو ہم ملکر کسی کو حج پر بھیجیں گے ،اس صورت میں دونوں کے لیے اپنے جانب سے ایک شخص کو حج پربھیجیں گے ،اس صورت میں دونوں کیلیے اپنی جانب سے ایک شخص کو نائب بناکر بھیجناجائز ہے ۔

( ۱۲۷) مستحب حج میں کئی افرا د ایک ہی شخص کی نیابت کرسکتے ہیں چاہے منوب عنہ زندہ ہو یا مردہ اور چاہے نائب اجرت لے کر حج کر رہاہویا بغیر اجرت کے ۔اسی طرح واجب حج میں بھی ایک شخص پر متعدد ہ جواجب ہوں ۔مثلاکسی زندہ یامردہ شخص پر دو حج واجب ہوں اور دونوں نذر سے واجب ہوئے ہوں یا مثلاایک حج الاسلام ہو اور دوسرانذر سے واجب ہواہیتو کئی افرادایک شخص کی نیابت کرنا جایز ہے یعنی ایک کو حج الاسلام کے لیے دوسرے کو دوسرے حج کے لیے بنایاجاسکتاہے ۔اسی طرح ایک شخص کی جانب سے دوافراد ک وایک کو واجب حج کیلیے اوردوسرے کو مستحب حج کے لیے نائب بناناجائز ہے ۔بلکہ بعید نہیں ہے کہ اس احتمال کو بنا پرکہ ایک شخص کاحج جاقص ہو سکتاہے احتیاط کی خاطر ایک شخص کی ایک واجب حج کیلیے دو نائب بنانا جائز ہو۔

( ۱۲۸) طواف فی نفسہ مستحب لہذا طاف میں جائز ہے کہ مرنے والے کی طرف سے نیابت کی جائے اسی طرح اگر زندہ (منوب عنہ )مکہ میں نہ ہو ای مکہ میں ہو لیکن خود طواف نہ کر سکتاہوتو اسکی طرف سے بھی نیابت کرنا جائزہے ۔

( ۱۲۹) نائب نیابتی حج کے اعمال سے فارغ ہونے کے بعد اپنی جانب سے یا کسی اور جانب سے عمرہ مفردہ کر سکتاہے جس طرح کہ اپنی یا کسی اور کی جانب سے طوافکرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔