مناسک حج

مناسک حج0%

مناسک حج مؤلف:
زمرہ جات: احکام فقہی اور توضیح المسائل

مناسک حج

مؤلف: آیۃ العظمی سید علی حسینی سیستانی دام ظلہ
زمرہ جات:

مشاہدے: 16644
ڈاؤنلوڈ: 3434

تبصرے:

مناسک حج
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 36 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 16644 / ڈاؤنلوڈ: 3434
سائز سائز سائز
مناسک حج

مناسک حج

مؤلف:
اردو

عمرہ کی اقسام

( ۱۳۵) عمرہ بھی حج کی طرح کبھی واجب ہوتاہے ور کبھی مستحب اور عمرہ یا مفردہ ہو تاہے یا تمتع ۔

( ۱۳۶) حج کی طرح عمرہ بھی ہر صاحب شرائط مستطیع پر واجب ہے اورحج کی طرح واجب فوری ہے لہذا عمرہ کی استطاعت رکھنے والے پر چاہے وہ حج کی استطاعت نہ بھی رکھتاہو عمرہ واجب ہے ۔لیکن طاہر یہ ہی کہ جس کا فریضہ حج تمتع ہو اور اسکی استطاعت نہ رکھتاہو بلکہ عمرہ مفردہ کی استطاعت رکھتاہوتو اس پ رعمرہ مفردہ واجب نہیں ہے لہذا ایسے شخص کے مال سے عمرہ مفردہ کے لیے نائب بنانا جومستطیع ہو گیا ہو او رایام حج سے پہلے مرجائے واجب نہیں ہے ۔اسی طرح حج کے لیے اجیر بننے والے پر حج نیابتی کے اعمال سے فارغ ہونے کے بعد عمرہ مفردہ انجام دیناواجب نہیں ہے اگرچہ عمرہ کی استطاعت رکھتاہو۔لیکن مناسب ہے کہ ان موارد میں احیتاط کو ترک نہ کرے اسی طرح وہ شخص جو حج تمتع کرے تو یقینااس پر عمرہ مفردہ واجب نہیں ہے ۔

( ۱۳۷) سال کے ہر مہینے میں عمرہ مفردہ کرنا مستحب ہے اور دو عمروں کے درمیاں تیس دن کا وقفہ ضروری نہیں ہے ۔لہذ اایک ماہ کے آخر اور دوسرے ماہ کے اول میں عمرہ کرنا جائز ہے ایک مہینے میں دو عمرے کرنا چاہے اپنی طرف سے یاکسی اور کی طرف سے جائز نہیں ہے ۔تاہم دوسرا عمرہ رجعاانجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔اسی طرح اگرایک عمرہ اپنے لیے اوردوسرا عمرہ کسی اور کی طرف سے یا دونوں عمرے دو مختلف افرادکی طرف سے ہوں تو پھر ایک ماہ میں دو عمرے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔عمرہ مفردہ اورعمرہ تمتع کے درمیان تیس د ن فاصلہ ہونے کی شرط میں اشکال ہے ۔وہ شخص جوذوالحجہ میں عمرہ تمتع کرے ار ادہ رکھتاہو کہ اعمال حج کے بعد عمرہ مفردہ انجام دے گا تواسکے احوط یہ ہے کہ عمرہ کو ماہ محرم تک تاخیر کرے ۔اسی طرح وہ شخص جو عمرہ مفردہ شوال میں کرے اور ارداہ رکھتا ہو کہ اس کے بعد عمرہ تمتع نجام دے گا ہوط یہ ہے کہ عمرہ اسی مہینے میں انجام نہ دے ۔ عمرہ مفردہ کو عمرہ تمتع اور حج تمتع کے درمیان طاہر یہ ہے کہ عمرہ تمتع باطل ہوجاتاہے لہذا عمرہ تمتع دوبارہ کرنا ضوروری ہے ۔لیکن اگر حج کے لیے یوم ترویہ ( ۸ ذی الحجہ )تک مکہ میں رہے تو جواس وقت عمرہ مفردہ انجا م دے چکا ہے وہ عمرہ تمتع شمار ہو گا اوراسکے بعد حج تمتع کرے ۔

( ۱۳۸) جس طرح عمرہ مفردہ استطاعت کی وجہ سے واجب ہوجاتاہے اسی طرح نذر، قسم عہ دوغیرہ بھی واجب جاتاہے ۔

( ۱۳۹) ذیل میں چند چیزوں کے علاوہ عمرہ مفردہ اورعمرہ تمتع کے اعمال مشترک ہیں جن کی تفصیل آگے آئیگی۔

۱ ۔عمرہ مفردہ میں طواف النساء واجب ہے جب کہ عمرہ تمتع میں واجب نہیں ہے ۔

۲ ۔عمرہ تمتع صرف حج کے مہینوں میں انجام دیاجاسکتاہے جوشوال ،ذی القعدہ اورذ والحجہ ہیں جب کہ عمرہ مفردہ کو سا ل کے کسی مہینہ میں انجام دیاجاسکتاہے تاہم ماہ رجب میں فضیلت ہے ۔

۳ ۔عمرہ تمتع کے حرام سے باہر آناصرف تقصیر (کچھ بال کٹوانا )پر منحصر ہے جب کہ عمرہ مفردہکے احرام سے تقصیر سے بھی باہر آسکتے ہیں اور حلق (بال منڈوانے )سے بھی تاہم حلق افضل ہے یہ حکم مردوں ے لیے ہے جب کلہ عورتوں کے لیے تقصیر معین ہے چاہے عمرہ تمتع کے احرام باہرآناہو یا عمرہ مفردہ کے احرام سے ۔

۴ ۔ عمرہ تمتع اورحج تمتع ایک ہی سال میں انجام دینا واجب ہے جس کی تُ ئیگی ۔جبکہ عمرہ مفردہ میں یہ واجب نہیں ہے ۔ لہذا جس شخص پر حج افراد وعمرہ مفردہ واجب ہو وہ ایک سال میں حج ارو دوسرے سال میں عمرہ کر سکتاہے ۔

۵ ۔وہ شخص عمرہ مفردہ میں جو سعی سے پہلے حجامت کرلے تو بغیر اشکال کے اس کا عمل باطل ہوجائیگا اوردوبارہ انجام دینا واجب ہوگایعنی آئندہ ماہ تک مکہ میں رکے اور پھر سے عمرہ کرے ،جب کہ عمرہ تمتع میں اگرسعی سے پہلے جماع کرے تو اسکا ہخمیہ نہیح ی جیساکہ مسئلہ ۲۲۰ میں آئے گا۔

( ۱۴۰) عمرہ مفردہ کے لیے احرام ان ہی میقاتوں سے باندھنا واجب ہے جہاں سے عمرہ تمتع کااحرام باندھا جاتاہے میقات کا بیان آگے آئیگا ۔ لیکن اگر مکلف مکہ میں ہو اورعمرہ مفردہ کا اراداہ کرے تو اس کے لیے جائز ہے کہ حرم سے باہرنزدیک ترین مقام مثلاحدیبیہ جعرانہ تنعیم سے احرام باندھے اس کے لیے میقات جا کر احرام باندھنا واجب نہیں ہے تاہم جس شخص نے اپنا عمرہ مفردہ سعی سے پہلے جماع کی وجہ سے باطل کردیا ہو اسے کسی ایک میقات پر جا کر احرام باندھنا پڑیگا اور احوط یہ ہی کہ حرم سے باہر نزدیک ترین مقام سے حرام باندھناکافی نہیں ہوگا جیساکہ مسئلہ ۲۲۳ میں تفصیلا نہ آئے گا ۔

( ۱۴۱) مکہ میں بلکہ حرم میں بھی بغیر احرام کے داخل ہونا جائز نہیں ہے لہذا اگر کوئی حج کے مہینوں (شوال ذی القعدہ ، ذی الحجہ)کے علاوہ کسی مہینے میں داخل ہو نا چاہے تو اس پر واجب ہے کہ عمرہ مفردہ کا احرام باندھے ۔سوائے ا ن لوگوں کے جو مسلسل کام کے لیے آتے جاتے ہیں ۔مثلالکڑ ہارااورچرواہاوغیرہ ۔اسی طرح وہ لوگ جو عمرہ تمتع اور حج تمتع یا عمرہ مفردہ انجام دے کر مکہ سے باہر جائیں تو ان کے لیے اسی مہینہ میں احرام کے بغیر مکہ میں جانا جائز ہے ۔عمرہ تمتع کے بعد او رحج تمتع سے پہلے مکہ سے باہر آنے والو ں کا حکم مسئلہ ۱۵۳ میں آئے گا ۔

( ۱۴۲) جو شخص حج کے مہینوں ( شوال ،ذالقعدہ ،ذی الحجہ )میں عمرہ مفردہ انجام دے اور یوم ترویہ ( ۸ ذی الحجہ)تک مکہ میں رہے اور حج کا قصد کرے تو اس کا عمرہ، عمرہ تمتع شمار ہو گالہذا وہ حج تمتع کرے اس حکم میں واجب ور مستحب حج کا فرق نہیں ۔

حج کی قسمیں

( ۱۴۳) حج کی تین قسمیں ہیں۔تمتع ،افراد اور قران ۔حج تمتع ان افراد اکا فریضہ ہے جن کے وطن اورمکہ کے درمیان سولہ فرسخ سے زیادہ فاصلہ ہو جب افراد و قران مکہ کے رہنے والوں اورا ن لوگوں کا فریضہ ہے جن کے وطن اور مکہ میں سولہ فرسخ سے کم فاصلہ ہو ۔

( ۱۴۴) جن کا فریضہ حج تمتع ہو انکے لیے حج افراد و قران اوراسی طرح جن کا فریضہ قران و افراد ہو ان کے لیے حج تمتع کافی نہیں ہے لیکن کبھی کھبی حج تمتع والے کا فریضہ تبدیل ہوکر حج افرد ہو جاتاہے جس کا ذکر آگے آئیگا اور یہ حکم حج الاسلام کا ہے جب کہ مستحب حج نذر کردہ او روصیت کردہ وہ حج جن کی قسم معین نہ کی ہوتو دوروالوں اور قریب والوں کو تینوں اقسام حج میں اختیار ہے اگرچہ حج تمتع افضل ہے ۔

( ۱۴۵) دورکارہنے والااگر مکہ میں رہائش اختیار کرلے تو جب وہ تیسرے سال میں داخل ہو گا فریضہ تمتع سے تبدیل ہو کر افراد یا قران ہو جائے گا ۔لیکن تیسرے سال میں دخل ہونے سے پہلے اس پر حج تمتع واجب ہو گا اور اس حکم میں اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہمکہ میں رہائش سے پہلے مستطیع ہوا ہے اور حج اس پر واجب ہوا ہے یا رہائش کے دوران مستطیع ہو اہے اور حج اس پر واجب ہو ہے اسی طرح اس سے بھی فرق نہیں پڑتاکہ مکہ کو وطن قرار دے کر یا قرار نہ دے کر رہائش اختیار کرے اور یہی حکم ان افرا د کیلیے بھی ہے جو مکہ کے اطراف سولہ فرسخ میں رہائش اختیار کریں ۔

( ۱۴۶) اگر کوئی شخص مکہ میں رہائش ا ختیار کرے اور اپن افریضہ تبدیل ہونے سے پہلے حج تمتع کرنے کا اراداہ کرے تو کہا گیاہے ہ اس کے لیے حرم سے باہر قریب ترین مقام سے حرام باندھنا جائز ہے لیکن یہ قول اشکال سے خالی نہیں ہے او را حوط یہ ہے کہ وہ کسی میقات پر جاکر احرا م باندھے ،بلکہ احوط یہ ہی کہ ان شہر والوں کے میقات پر جائے ۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ حکم ہر اس شخص کا ہے جو مکہ میں ہو او ر حج تمتع کا ارادہ کرنا چاہے حج مستحب ہی ہو ۔

حج تمتع ۔

( ۱۴۷) یہ حج دو عبادتوں حج اور عمرہ سے مل کر بنتاہے ۔کبھی کبھی صرف حج کوحج تمتع کہتے ہیں حج تمتع میں عمرہ تمتع کوپہلے انجام دینا واجب ہے ۔

( ۱۴۸) عمرہ تمتع میں پانچ چیزیں واجب ہیں ۔

۱ ۔کسی ایک میقات سے ا حرام باندھناجس کی تفصیل آگے آئیگی ۔

۲ ۔خانہ کعبہ کے گرد طواف کرنا۔

۳ ۔نماز طواف

۴ ۔صفا مروہ کے درمیان سعی کرنا ۔

۵ ۔تقصیر ۔یعنی سر،داڑھی یا مونچھوں کے کچھ بال کٹوانا۔

جب حاجی تقصیر انجام دیدے تو احرام سے فارغ ہو جاتاہے لہذ ااحرام کی وہ چیزیں جو اس پر حرام ہوئی تھیں وہ اس پر حلال ہوجائیں گی ۔

( ۱۴۹) مکلف پر واجب ہے کہ نویں ذی الحجہ کے نزدیک ہونے پر خود کو اعمال حج کے لیے تیار کرے ۔

واجبات حج تیرہ ہیں جو کہ درج ذیل ہیں ۔

۱ ۔مکہ سے ا حرام باندھنا جس کی تفصیل آگے آئیگی ۔

۲ ۔وقوف عرفت یعنی نویں ذی الحجہ کے دن زوال آفتاب کے بعد غسل اورظہر و عصر کی اکٹھی نماز اداکرنے کے بعد سے لے کر غروب آفتاب تک عرفات کے مقام پر قیام کرنا ۔عرفات مکہ سے چار فرسخ کے فاصلے پر ہے ۔

۳ ۔وقوف مزدلفہ یعنی شب عید قربان کے کچھ حصے سے طلوع آفتاب سے کچھ پہلے تک مزدلفہ (مشعر )میں قیام کرنا ۔مزدلفہ عرفات و مکہ کے درمیان ایک جگہ کا نا م ہے ۔

۴ ۔رمی جمرہ عقبہ (کنکر مارنا )عید قربان کے دن منی کے مقام پر رمی کرنا منی مکہ سے تقریبا ایک فرسخ کے فاصلے پرہے ۔

۵ ۔عید کے دن یاایام تشریق ( ۱۱،۱۲،۱۳ ذی الحجہ) میں منی کے مقام قربانی کرنا ۔

۶ ۔سر منڈوانا یا سر ،داڑھی یا مونچھوں کے کچھ بلا کاٹنا(حلق یا تقصیر)اور اسکے بعد احرام کی وجہ سے حرام ہونے والی چیزیں حلال ہونجائیگی سوائے احیتاط واجب کی بنا پر عورت خوشبو اور شکارکے ۔

۷ ۔مکہ واپس آنے کے بعد خانہ خدا کی زیارت کا طواف کرنا ۔

۸ ۔نماز طواف اد اکرنا۔

۹ ۔صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا۔اس عمل کے بعد خوشبوبھی حلال ہوجائے گی ۔

۱۰ ۔طواف النساء۔

۱۱ ۔نماز طواف النساء۔اس عملکے بعدعورت (بیوی )بھی حلال ہوجائیگی ۔

۱۲ ۔گیارہ اوربارہ کی رات منی میں گزارنا بلکہ بعض صورتوں میں تیرھویں کی شب بھی منی میں گزارناجسکا ذکر آگے آئے گا۔

۱۳ ۔رمی جمرات گیارہ اور بارہ کو دن کے وقت تینوں جمرات(اولی ،وسطی اور عقبہ)کو کنکریاں مارنا بلکہ اظہر یہ ہے کہ جو شخص تیرھویں رات منی میں گزارے تو وہ تیرھویں کے دن بھی رمی کرے ۔

( ۱۵۰) حج تمتع میں ذیل میں درج چیزیں شرط ہیں ۔

۱ ۔ نیت ۔یعنی حج تمتع کو ادا کر نے کی نیت کرے لہذا اگر کسی دوسرے حج کی نیت کرے یا نیت میں تردد کرے تو یہ حج صحیح نہیں ہو گا ۔

۲ ۔عمرہ اور حج دونوں کو حج کے مہینوں (شوال ذی القعدہ ، ذی الحجہ)میں انجام دے لہذااگر عمرہ کاایک حصہ شوال سے پہلے انجام دے تو عمرہ صحیح نہیں ہو گا۔

۳ ۔عمرہ اورحج ایک ہی سال میں ننچم دینا ضروری ہے لہذ ااگر ایک سال عمرہ تنتع اوردوسرے سال حج تمتع انجام دے تو حج تمتع صحیح نہ ہو گا اس سے فرق نہیں پڑتا کہ اگے سال تک مکہ میں قیام کرے یا عمرہ کے بعد وطن واپس لوٹ جائے اور دوبارہ آئے اور اس سی بھی فرق نہیں پڑتا کہ عمرہ کے بعد احرام تقصیر کے بعد کھول دے یاآئندہ سال تک حالت احرام میں باقی رہے ۔

۴ ۔حالت اختیار میں حج اک احرام شہر مکہ سے باندھے اور بہترین مقام مسجدالحرام ہے لیکن اگرکسی وجہ سے مکہ سے حرام نہ باندھ سکے تو جہاں سے ممکن ہو وہاں سے باند ھ لے ۔

۵ ۔ایک شخص کی ةطرف سے عمرہ تمتع اورحج تمتع کے تمام اعمال ایک ہی شخص انجام دے سکتاہے ۔لہذا اگر دوافراد کو اس طرح سے نائب بنایا جائے کہ ایک کو عمرہ تمتع کے لیے اوردوسرے کو حج کے لیے تو یہ صحیح نہیں ہو گا ۔چاہے منوب عنہ زندہ ہویا مردہ اسی طرح اگرایک ہی شخص عمرہ و حج دونوں کرے لیکن عمرہ ایک کی جانب سے اور حج دوسرے کی جاب سے تو یہ بھی صحیح نہیں ہوگا۔

( ۱۵۱) مکلف کا عمرہ تمتع کے اعمال سے فارغ ہونے کے بعدحج تمتع اداکیے بغیر مکہ سے نکلنابنا براحوط جائز نہیں ہے سوائے اسکے کہ اسے کو ئی کوم ہو چاہے وہ ضروری نہ بھی ہو تاہم اعمال حج کے فوت ہونے کا خوف نہ ہو لہذ ااسے معلوم ہوکہ وہ مکہ واپس آکر حج کیلیے احرام باند ھ سکے گاتو اظہر یہ ہے کہ بغیر احرا م کے مکہ سے نکلنا جائز ہے ورنہ حج کے لیے احرام باندھ کیلیے اپنے کام کے لیے جائے اس صور ت میں ظاہر یہ ہے کہ اس پر مکہ واپس آنا واجب نہیں ہے بلکہ وہ اپنی جگہ سے ہی عرفات جاسکتاہے ۔اگر کوئی عمرہ تمتع انجام تو اسکے لیے حالت اخیتار میں حج تمتع کو چھوڑناجائزنہیں ہے ۔چاہے حج مستحب ہی ہو لیکن اگر حج انجام دینا ممکن نہ ہو تو احوط یہ ہے کہ عمرہ تمتع کو عمرہ مفردہ قراردے کر طواف النساء انجام دے ۔

( ۱۵۲) آظہر یہ ہے کہ حج تمتع کرنے والے کیلیے عمرہ کے اعمال مکمل کرنے سے پہلے مکہ سے باہر جانا جائز ہے جبکہ مکہ واپس آناممکن ہو اگرچہ احوط یہ ہے کہ نہ جائے ۔

( ۱۵۳) عمرہ تمتع کے اعمال سے فارغ ہونے کے بعد مکہ سے باہرکسی دوسری جگہ جاناحرام ہے نہ کہ ان نئے محلوں میں جو اب شہر مکہ کا حصہ شمار ہوتے ہیں ۔اور قدیم محلوں ک حکم رکھتے ہیں لہذا حاجی کاعمرہ تمتع کی اعمال سی فارغ ہونے کے بعد ان نئے محلوں میں کسی کام سے یا بغیر کام کے جاناجائز ہے ۔

( ۱۵۴) جب حاجی عمرہ تمتع کے اعمال سے فارغ ہونے کے بعد بغیر احرام کے مکہ سے باہر جائے تو اسکی دوصورتیں ہیں ۔

( ۱) جس مہینے میں عمرہ کیا تھا اسکے تمام ہونے سے پہلے اگر مکہ واپس آئے تو ضروری ہے کہ احرام کے بغیر مکہ میں داخل ہو اور مکہ سے حج تمتع کا احرام باند ھ کرعرفات جائے ۔

( ۲) جس مہینے میں عمرہ کیاہو اس کے ختم ہونے کے بعدمکہ واپس آئے تو ضروری ہے کہ مکہ واپس آنے کیلیے عمرہ کا احرام باندھے ۔

( ۱۵۵) جس شخص کا فریضہ حج تمتع ہو اگرحجافراد یا قران انجام دے تواس کا فریضہ ساقط نہیں ہوگا اس حکم سے وہ شخص مستثنی ہے جو عمرہ تمتع شروع کرے لیکن پورا کرنے کا وقت باقی نہ رہے ۔اور یہ شخص اپنی نیت کو حج افراد کی طرف پھیر لے اور حج کے بعد عمرہ مفردہ بجالائے وقت تنگ ہونے کے اس حد میں کہ جس کی وجہ سے حج افراد کی طرف عدول جائز ہوتاہے فقہاء کاختلاف ہے اظہر یہ ہے کہ عدول ا س وقتواجب ہو گا جب عرفہ کے دن زوال آفتاب سے پہلے عمرہ کے اعمال کوپورا نہ سکتاہولیکن اگر زوالآفتاب سے پہلے اعمال کو مکمل کرنا ممکن ہو چاہے یو م ترویہ ( ۸ ذی الحجہ )میں یاجاہے اسکے بعد تو اس صورت میں عدول کا جائز ہونااشکال سے خالی نہیں ہے ۔

( ۱۵۶) وہ شخص جسکا فریضہ حج تمتع ہو اروہ عمرہ کا احرام باندھنے سے پہلے جانتاہو کہ وہ عرفاہ کے دن زوال آفتاب تک عمرہ کے اعمال مکمل نہیں کرسکے گا تو اسکاافراد یا قران کی طرف عدول کرناکفایت نہیں کرے گا ۔بلکہ اگر حج اسکے ذمہ قرار پائے تو اس پر واجب ہے کہ وہ آئند ہ سال حج تمتع انجام دے ۔

( ۱۵۷) اگر کوئی وسیع وقت میں حج تمتع کا احرام باندھے لیکن طواف اور سعی میں جان بوجھ کر عرفہ کے دن زوال آفتاب تک تاخیر کرے تواس کاعمرہ باطل ہوجائیگا اور اظہر یہ ہے کہ حج اراد کی طرف عدول کرنا کافی نہیں ہوگا اگرچہ احوط یہ ہے کہ رجا ء حج افراد کے اعمال انجام دے بلکہ طواف نمازطواف سعی اور حلق یا تقصیر کو عمرہ میں بنابر احوط عمومی نیت( یعنی حج افراد ور عمرہ مفردہ دونوں کو شامل کرنے والی )سے انجام دے ۔

حج افراد۔

جیسا کہ پہلے بیان ہوچکاہے کہ حج تمتع کے دو جز ہیں ایک عمرہ تمتع اور دوسراحج۔ اسک پہلا جز دوسر چز سے ملاہو اہے اورعمرہ ،حج پر مقدم کیا جاتاہے ۔جبکہ حج افراد از خودایک مستقل عمل ہے اور جیساکہ بتایاجاچکا ہے یہ مکہ اور اسکے اطراف سولہ فرسخ میں رہنے والوں کا فریضہ ہے ۔اور مکلف کو اخیتار ہے کہ حج افراد انجام دے یا قران ۔جب مکلف حج افراد کے ساتھ عمرہ مفردہ بھی انجام دے سکتاہو تو مستقص طور پر عمرہ مفردہ بھی واجب ہو جائے گا ۔لہذااگر کوئی حج افرادو عمرہ میں سے کوئی ایک عمل انجام دے سکتاہو تو صرف وہ عمل واجب ہو گا جو خود انجام دے اور اگر ایک وقت میں ایک عمل کو انجام دے سکتا ہو اور دوسرے وقت میں دوسرے عمل کو تو اس پر واجب ہے کہ ان اوقات میں اپنے فریضہ کو انجام دے ۔ اگر ایک ہی وقت میں دونوں کو انجام دینا ممکن ہو تو دونوں کو انجام دینا واجب ہے ۔اس صورت میں فقہاء کے درمیان مشہور ہے کہ حج افراد کو عمرہ مفردہ سے پہلے انجام دے اور یہی احوط ہے ۔

( ۱۵۸) حج فراد اور حج تمتع کے تمام اعمال ذیل میں درج ذیل چند چیزوں کے علاوہ مشترک ہیں ۔

( ۱) حج تمتع میں عمرہ اور حج کو حج کے مہینوں (شوال ،ذی القعدہ اورذی الحج ) میں ایک ہی سال م یں انجام دینا معتبر ہے جیساکہ پہلے بیان ہو چکا ہے جب کہ حج افرد میں واجب نہیں ہے ۔

۲ ۔حج تمتمع میں قربانی واجب ہے جبکہ افرد میں نہیں ہے ۔

۳ ۔ طواف کو سعی اور وقوف عرفات و مشعر سے پہلے انجام نہ دیاجائے سوائے کسی عذ رکے جیساکہ مسئلہ ۴۱۲ میں آئے گا ۔جب کہ افراد میں جائز ہے ۔

۴ ۔حج تمتع کا حرام مکہ سے باندھا جاتاہے ۔جبکہ افراد کا حارامو کسی ایک میقات سے باندھاجاتاہے ۔یہ مسئلہ میقات کی بحث میں آئیگا ۔

۵ ۔عمرہ تمتع کا حج تمتع سے پہلے انجام دینا واجب ہے ۔جبکہ حج افرد میں ایسا نہیں ۔

( ۱۵۹) مستح ب حج کا احرم باندھنے والے کے لیے عمرہ تمتع کی طرف عدول کرنا جائز ہے ۔لہذ اوہ تقصیر کرے اور احرام کھول د یلیلکن اگر سعی کے بعد تلبیہ پڑھ چکا ہو تو پھر عمرہ تمتع کی طر ف عدول نہیں کر سکتا۔

( ۱۶۰) حج افردا کا احرام باندھ کر مکہ میں داخل ہونے والے کے لیے مستحب طواف کرنا جائز ہے لیکن جس مورد میں عمرہ تمتع کی طرف عدول کرناجائز ہو اور یہ عدول کا قصد نہ رکھتا ہو تو حوط اول یہ ہی خہ وہ نماز طواف سے فارغہونے کے بعد دوبارہ تلبیہ کہے ۔ یہ احتیاط واجب طواف میں بھی جاری ہوگی ۔

حج قران۔

( ۱۶۱) حج قران حج افرد کے ساتھ تمام پہلوں میں مشترک ہے ۔

سواء ے سکے کہ حج قران میں احرام باندھتے وقت حاجی کو قربانی ساتھ رکھنا ہوتی ہے اوراسی لیے اس پر قربانی واجب ہے ۔حج قران میں احرام تلبیہ کہنے کے علاوہ اشعار (حیوان پر علامت لگانا )اور تقلید( حیوان کی گردن میں کسی چیز کا لٹکانا) سے بھی منعقد ہو سکتاہے اور جب کوئی حج قران کا احرام باندھ لے ت واسکے لے حج تمتع کی طرف عدول جائز نہیں ہے ۔

مستحب حج

( ۱۳۰) جس شخص کے لیے حج کرنا ممکن ہو اسے چاہے کہ وہ حج کرے چاہے وہ استطاعت نہ بھی رکھتاہو ۔یا حج الاسلام انجام دے چکا ہو۔بلکہ اگر ممکن ہو تو ہر سال حج کرن امستحب ہے ۔

( ۱۳۱) مناسب ہے کہ مکہ سے آتے وقت دوبارہ حج کے لیے انے ی نیت ہو ،بلکہ بعض رویات میں وارد ہے نہ آنے کی نیت کرن اموت کو قریب کرتاہے ۔

( ۱۳۲) مستحب ہے کہ جس میں استطعات نہ ہو اسے حج کریاجائے ۔جس طرح حج کے لیے قرض کرنا مستحب ہے جب ادا کرنے کا اطئمنان ہو اسی طرح حچ میں زیادہ خرچ کرنا بھی مستحب ہے ۔

( ۱۳۳) فقیر کے لیے جائزہے کہ جب اسکو سہم فقراء میں سے زکواة دی جائے تو اسکو مستحب حج پر خرچ کرے ۔

( ۱۳۴) شادی شد ہ عورت کے لیے مستحب حج کی لیے شوہر کی اجازت ضروری ہے ۔طلاق رجعی کی عدت گزارنے والے کے لیے بھی یہی حکم ہے لیکن طلاق نائب والی عورت کے لیے شوہر کی اجازت معتبر نہیں ہے ۔او جس عورت کا شوہر مر گیا ہو اس کے لیے عدہ وفات میں حج کرنا جائز ہے ۔

احرا م کے میقات ۔

اسلامی شریعت مقدسہ نے احرام باندھنے کے لیے چند جگہیں مقر ر کیں ہیں جہاں سی احرام باندھنا واجب ہے اور اسی جگہ کو میقات کہتے ہیں ۔جن کی تعداد نو ہے ۔

ذوالحلفیہ ۔

یہ مدینہ کے نزدیک واقع ہے یہ مدینہ میں رہنے ولوں کے اور ہر اس شخض کے لیے جو مدینہ کے راستے حج کے لیے جانا چاہیں ۔ احوط یہ ہے کہ احرام مسجد شجرہ سے نباندھا جائے کیونکہ مسجد سے باہر باندھا ہو ا احرام کافی نہیں ہے ۔چاہے وہ مسجد کے مقابل ،دائیں ،بائیں کھڑے ہو کرباندھا جائے سوائے اس عورت کے جو حالت حیض میں ہو یا حائضہ کا حک م رکھتی ہو ۔

( ۱۶۲) بلاکسی عذر یا بیماری یا کمزوری کے ذوالحلفیہ (مسجد شجرہ )سے حجفہ تک احرام باندھنے میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے ۔

وادی عقیق ۔

یہ اہل عراق ،نجد اور ہر اس شخض کے لیے جو اس کے راستے حج کے لیے جائے ۔ اسکے تین حصے ہیں ۔

پہلے حصے کو مسلخ دوسرے کو غمرہ ،تیسرے کوذات عرق کہتے ہیں ۔ احوط اولی یہ ہے کہ تقیہ ،بیماری یاکوئی ارو روکاوٹ نہ ہو تو حاجی کو ذات عرق پہنچنے سے پہلے احرام باندھ لینا چاہے ۔

( ۱۶۳) کہا گیا ہے کہ تقیہ کی حالت میں ذات عرق سے پہلے لباس اتارے بغیر چھپ کر احرم باندھنا جائز ہے اور جب ۔ذات عرق پہنچ جائے تو اپنے کپڑے اتارکر احرام باندھ لے اور اس پر کفارہ بھی واجب نہیں ہو مگر یہ قول اشکال سے خالی نہیں ہے ۔

حجفہ ۔

یہ اہل شام ،مصر اور مغرب والوں بلکہ ہر اس شخض کا میقات جو اس راستے سے گزرے حتی کہ بنابر اظہر اس شخص کا بھی جو ذوالحلیفہ سے گزر کر آیاہولیکن کسی وجہ سے یا بغیر کسی وجہ کے احرم نہ باندھ سکا ہو ۔

یلملم ۔

یہ اہل یمن اور ہر شخص کامیقات ہے جو اس راستے سے آئے یلملم ایک پہاڑی کا نام ہے ۔

قرن منازل

یہ طائف اور اس راستے آنی والوں کا میقات ہے گزشتہ چار میقاتوں میں احرام وہاں موجود مسجد سے باندھنا ضروری نہیں ہے بلکہ ہر اسجگہ سے جس پر میقات کا نام صادق آئے احرام باندھا جاسکتاہے ۔ اور اگر اسے یقین نہ ہو سکے تو اس سے پہلے نذر کرکے احرام باندھ سکتاہے کیونکہ یہ حالت اختیاری میں بھی جائز ہے ۔

۶ ۔مذکورہ میقاتوں میں سے کسی ایک کا متوازی ۔

یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو ان راستو ں سے آرہے ہوں جہاں سے مذکورہ بلامواقیت نہ آتے ہو ں ۔چنانچہ اس وقت ان میقاتوں کے متوازی سے احرام باندھا جاسکتاہے ۔متوازی میقات سے وہ جگہ مرادہے کہ اگر انسان قبلہ رخ ہو کر کھڑا ہو تو مذکورہ بالا میقاتوں میں س ے کوئی اسکے سیدھے یا الٹے ہاتھ میں اس طرح پڑے کہ اگر متوازی میقات سے گزر جائے تو مذکورہ میقات اسکی پشت میں آئیگی ۔

متوازی میقات کی پہچان کے لیے عرفا تصدیق کافی ہے ۔عقلی طور تحقیق اور غور فکر ضروی نہیں ہے ۔ اگر حاجی اپں ے راتسے مے ایسی دو جگہوں سے گزرے جن میں سے ہر ایک میقات کے متوازی ہو تو احوط اورلی یہ ہے کہ پہلی جگہ سے احرام باندھے۔

مکہ

جس طرح یہ تمتع میقا ت ہے اسی طرح مکہ اور اطراف مکہ میں رہنے والوں کے لیے یہ افراد و قران کا میقات بھی ہے چاہے ان کا فریضہ اہل مکہ کے فریضے کی طرف منتقل ہو ا ہو یا نہیں لہذاان کے لیے جائز ہے کہ حج افراد و قران کے لیے مکہ سے اہرام باندھنا ضروری نہیں ہے ۔ اگرچہ عورت کے علاوہ فرادکے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ کسی میقات مثلا جعرانہ پر جا کر احرام باندھیں احواط اولی یہ ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں جو مکہ تھا وہاں سے احرام باندھا جائے تاہم اظہر یہ ہے کہ نئے محلوں سے بھی احرام باندھا اجاسکتاہے سوائے ان حصوں کے جو احرام سے باہر ہیں ۔

محل رہائش

یہ ان کا میقات ہے جن کی رہائش گاہ میقات کی نسبت مکہ سے زیدہ قریب ہو انکیلیے اپنے گھرسے احرام باندھنا جائز ہے ۔اور میقات جانا ضروری نہیں ہے ۔

۹ ۔ ادنی حل (مثلاحدیبیہ ،جعرانہ ،اورتنعیم )

یہ عمرہ مفردہ کے لیے میقات ہے ان لوگوں کے لیے جو حج قرن و افراد سے فارغ ہونے کے بعد عمرہ مفردہ کرناچاہتے ہوں ۔ بلکہ ہر اس شخص کے لے جو مکہ میں ہو ار عمرہ مفردہ کرنا چاہتاہو ۔سوائے اس صورت میں جو مسئلہ ۱۴۰ میں گزر چکی ہے ۔

میقات کے احکام

( ۱۶۴) میقات سے پہلے حرام باندھنا جائز نہیں ہے ۔ لہذا حالت احرام میں میقات سے گزر جانا کافی نہیں ہے بلکہ ضروری ہے خود میقات سے احرام باندھ اجائے ،سوائے مندرجہ ذیل صورتوں کے ۔

۱ ۔ میقات سے پہلے احرام کی نذر کرے ۔ لہذ انذر کی وجہ سے میقات سے پہلے احرام باندھنا صحیح ہو گا ۔اور میقات سے دوبارہ احرام باندھنا یاگزرنا ضروری نہیں ہے ۔ بلکہ ایسے راستے سے مکہ جانا بھی جائز ہے جس میں میقات نہ ائیں اور واجب حج یا مستحب حج یا عمرہ مفردہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا لیکن اگر احرام حج یا عمرہ مفردہ کے لیے ہو تواس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ احرام حج کے مہینوں سے پہلے نہ جیساکہ پہلے بیان ہو چکا ہے ۔

۲ ۔ جب رجب میں عمرہ مفردہ کا قصد کرے اور خوف ہو کہ اگر احرم باندھنے میں تاخیر کرے گ ایا میقات تک پہنچنے کا انتظار کر ے گا تو رجب میں عمرہ اد نہیں کر سکے گا تو اسکے لے میقات سے پہلے احرام باندھنا جائز ہے ۔ار عمرہ ماہ رجب کا ہی شمار ہوگا ۔ چاہے باقی اعمال شعبان میں انجام دے اور اس حکم میں واجب یا مستحب عمرہ میں فرق نہیں ہے ۔

( ۱۶۵) مکلف کو جب میقات پر پہنچنے کا یقین ہوجائے یادلیل موجودہو تو واجب ہے کہ احرام باندھے ۔اگر اس کو میقات پر پہنچنے کا شک ہو تو احرام باندھنا جائز نہیں ہے ۔

( ۱۶۶) اگر کوئی میقات سے پہلے احرام باندھنے کے نذر کرے اورپھر نذر کی مخالفت کرتے ہوئے میقات سے احرام باندھے تو اسک احرام باطل نہیں ہوگا ۔ تاہم اگراس نے جان بوجھ کر مخالفت کی ہو تو نذرتوڑنے کا کفارہ اس پر واجب ہو جائے گا۔

( ۱۶۷) قبل از میقات کی طرح بعد از میقات بھی احرام باندھنا جائز نہیں ہے ۔لہذ اجو شخص حج یا عمرہ کرنا یا مکہ یا حرم میں داخل ہونا چاہے تواس کے لیے اختیاری حالت میں بغیر احرام میقات سے گزرنا جائز نہیں ہے ۔چاہے اگے دوسرامیقات موجودہو ۔ چنانچہ اگر کسی میقات سے گزر جائے تو ممکنہ صورت میں واپس لوٹنا واجب ہے ۔ تاہم اس حکم سے وہ مستثنی ہے جو ذوالحلیفہ سے بلا عذر احرام کے بغیر گزر کر حجفہ پہنچ جائے لہذا اظہر یہ ہے کہ اس شخص کے لیے حجفہ سے حرام باندھنا کافی ہے ۔ لکین گنہگار ہوگا ۔ احوط یہ ہے کہ مکلف متوازی و مقابل میقات سے بھی بغیر احرام کے نہ گزرے اگرچہ بعید نہیں کہ آگے کوئی اور میقات موجود ہو تو متوزی میقات سے بغیر احرام کے گزرنا جائز ہو ۔ ایسا مسافر جس کا حج ،عمرہ ،حرم میں داخل ہونے یامکہ میں داخل ہونے کاارداہ نہ ہو ۔ بلکہ حرم سے باہر ہی کام (پیشہ وارانہ ) ہو ۔ اگر میقات سے گزرنے کے بعد حرم میں داخل ہونے کا ارادہ کرے تو اس کے لیے عمرہ مفردہ کے لیے ادنی حل (حرم سے باہر نزدیک ترین مقام )سے حرام باندھنا جائز ہے ۔

( ۱۶۸) مذکورہ بالا صورت کے علاوہ اگر مکلف جان بوجھ کر میقات سی بغیراہرام کے گھرے تو دو صورتیں بنیں گی ۔

۔میقات تک واپسی کی ممکنہ صورت میں واپس جاکر میقات سے احرام باندھنا واجب ہے چاہے حرم کے اند رسے واپس جایاجائے یاباہرسے لہذا ایس اکرنے سی بغیر اشکال کے عمل صحیح ہوگا۔

۔ میقات تک ممکنہ صورت نہ ہوتو چاہے حرم کے اندر ہو یا باہر اور اندر ہونے کے صورت میں باہر آسکتا ہو یانہیں تو اظہر یہ ہے کہ حج باطل ہے ۔ اور میقات کے علاوہ کسی اورجگہ سے احرام کافی نہیں ہو گا اور مستطیع ہونے کے صورت میں آئندہ سال حج کی ادائیگی واجب ہوگی ۔

۱ ۔اگر میقات واپس جانا ممکن ہو تو واجب ہے کہ میقات واپس جاکر میقات سے ہرام باندھے ۔

۲ ۔حرم میں جاچکا ہو اور میقات تک جاناممکن نہ ہو لیکن حرم سے باہر جانا ممکن ہو تو لازم ہے کہ حرمسے باہر جائے ور وہاں سے احرام باندھے اور اولی یہ ہے کہ حرم سے جتنا دورہونا ممکن ہو اتنا دور جاکر ہرام باندھے ۔

۳ ۔ حرم میں داخل ہو جکا ہو اور حرم سے باہر جانا ممکن نہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ جہاں پر ہو وہاں سے اہرام باندھے چاہے مکہ میں داخل ہو چکا ہو ۔

۴ ۔ حرم سے باہر ہواور میقتات تک واپس ناجا ممکن نہ ہو تو اس صورت میں جتنا ممکن ہو اتنا واپس جائے اور پھر احرام باندھے ۔

مذکورہ چار صورتوں میں اگر مکلف نے بیان شدہ وظائف پر عمل کی اتو اس عمل صحیح ہو گا۔ احرم کو میقات سے پہلے یا بعد میں باندھنے والا شخص خواہ لاعلمی یابھول کی وجہ سے ایسا کرے تارک احرام کا حکم رکھتا ہے ۔

( ۱۷۰) اگر حائضہ مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے میقات سے احرام نہ باندھے اور ہرم میں داخل ہوجاے تو احوط یہ ہے کہ اگر میقات تک واپس نہیں جا سکتی تو حرم سے باہر جائے اوروہاں سے احرام باندھے بلکہ اس صورت میں احوط یہ ہے کہ جتنا ممکن ہو اتنا حرمسے دور جاکر احرام باندھے بشرطیکہ اسکا یہ عمل حج کے چھوٹ جانے کا سبب نہ بنے اور اگر یہ اس کے لیے ممکن نہ ہوتو وہ اسکے لیے دوسروں کے ساتھ برابر ہے اور اسکا حکم وہی ہے جو مسئلہ ۱۶۹ میں بیان ہوچکا ہے ۔

( ۱۷۱) اگر کسی کا عمرہ باطل ہو جائے خواہ اسکی وجہ احرام کا باطل ہونا ہو تو ممکنہ صورت میں اسکی قضا کرنا واجب ہے اور اگر دوبارہ انجام نہ دے خواہ اسکی وجہ تنگی وقت ہو تو اسکا حج باطل ہوجائے گاتو ضروری ہے کہ آئندہ سال دوبارہ حج کرے ۔

( ۱۷۲) فقہاء کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ افر مکلف بھول جائے یا لاعملی کی وجہ سے بغیر احرام کے عمرہ کرے تو اسکا عمرہ صحیح ہے ۔ لیکن یہ قول اشکال سے خالی نہیں ہے اوراس صورت میں احوط یہ ہی کہ اگرممکن ہو تو قبل ازیں مذکورہ شدہ طریقے کے مطابق دوبارہ عمرہ کرے ۔

( ۱۷۳) سابقہ مسئلوں میں بیان ہوچکاہے کہ اگر کسی کا گھر مکہ سے دور ہو اوروہ شخص حج کرنا چاہے تو پہلطے پانچ میقاتوں میں سے کسی ایک سے عمرہ کاا حرام باندھنا واجب ہے ۔لہذا اگر اسکا راستہ میقاتوں سے گزرتاہو تو کوئی اشکال نہیں ہے ۔ لیکن اگر اسکا راستہ کسی میقات سی گزرتاہو تو جیساکہ آجکے زمانے میں بیشتر حجاج جدہ ایرپورٹ پر اترتے ہیں ،ان میں سے بعض ہاجی مدینہ منورہ جانے پر اعمال حج وعمرہ کو ترجیح دیتے ہیں ۔جب کہ معلوم ہے کہ جدہ میقات نہیں ہے ۔ بلکہ متوازی میقات ہونا بھی نہ ثابت ہے اور نہ ہی اطمئنان ہے لہذا اس صورت میں حجاج ذیل تین صورتوں میں سے کسی ایک انتخاب کریں ۔

۱ ۔نذر کا احرام اپنے وطن یا بعض مواقیت کے گزرنے سے پہلے باندھ لیں ۔اس میں کوئی اشکال نہیں ہے جب سورج سائے میں ہونا لازم نہ آتاہو مثلاسفر رات کاہواسی طرح بارش سے بچنا مقصود نہ ہو ۔

۲ ۔ جدہ سے کسی میقات یا متوازی میقات پر جائے یا ایسی جگہ جائے جو میقات کے پیچھے ہو اور وہاں سے نذر کرکے احرم باندھے مثلارابغ جوحجفہ کے پیچھے ہے ۔ اور مشہور شہر ہے جو عام راستے سے جدہ سے ملاہواہے ۔اورحجفہ کی نسبت یہاں تک پہنچناآسان ہے ۔

۳ ۔جدہ میں ہی نذرکرکے احرام باندھ لے بشرطیکہ معلوم ہو خواہ سرسی طور پرہی سہی کہ حرم اور جدہ کے درمیان ایک متقات متوازی حصہ موجود ہو جیسالہ وہ حصہ حجفہ سے متوازی و مقابل ہونا بعید نہیں ہے ۔ البتہ اگر اس بات کا صرف احتمال ہواورعلم نہ ہو تو ایسے شخص کے لیے جدہ نیں نذر کر کے احرام بندھنا جائز نہیں ہے ۔ لیکن اگر حاجی جدہ آئے اورمیقات یا میقات کا حکم رکھنے والی جگہ پر جانے ارادہ رکھتاہو اور بعدمیں نہ جاسکے تو اس صوت میں جدہ سے نذر کر کے احرام باندھنا جائز ہے اوراظہر یہ ہے کہ اس صورت میں حرم میں داخل ہونے سے پہَیحرام کی تجدید کرنالازم نہیں ہے ۔

( ۱۷۴) جیساکہ پہلے بیان کیاجاچکاہے کہ حج تمتع کرنے والے پر واجب ہے کہ حج تمتع کا احرام مکہ سے بدھے لہذا اگرجان بوجھ کر حج تمتع کا احرام کسی اور جگہ سے باندھے توااسکا احرم صحیح نہیں ہوگا۔ چاہے مکہ منیں احرام باندھ کرداخل ہو ۔لہذا اگرممکن ہو تو پھر سے مکہ سے احرام باندھے ورنہ حج باطل ہوگا۔

( ۱۷۵) اگر حج تمتع کرنے والا مکہ سے احرام بھل جائے تو ممکنہ صورت میں مکہ جانا واجب ہے ۔ ورنہ جس جگہ ہو وہیں سے احرام باندھ لے چاہے عرفات میں ہی ہواوراس کا حج صحیح ہو گا ۔ یہی حکم اس شخص کا ہے جسے مسئلہ معلوم نہ ہو ۔

( ۱۷۶) اگرکوئی حج کے احرام کوبھول جائے اوراعمال حج کرنے کے بعد یاد آئے تو اسکا حج صحیح ہوگا اورجو شخص مسئلہ نہ ناتاہواس کابھی یہی حکم ہے ۔